(1)بعض حدیث کے الفاظ کے حافظ، فقیہ (گہری سمجھ رکھنے والے) نہیں ہوتے اور (2)بعض حافظ فقیہ ہوتے ہیں لیکن ان سے سننے والے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں۔
الحدیث :
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًى ، فَقَالَ : " نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا ، ثُمَّ أَدَّاهَا إِلَى مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ : إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ ، وَطَاعَةُ ذَوِي الْأَمْرِ ، وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تَكُونُ مِنْ وَرَائِهِمْ " .
ترجمہ:
محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد (جبیر بن مطعم) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منی میں خیف کے مقام پر کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے گا جو ہماری بات (حدیث) سن کر اسے محفوظ (یاد) کرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بہت سے فقہ (علمِ حدیث) کے محافظ حقیقتاً فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) نہیں ہوتے اور بہت سے فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) تو ہیں لیکن جن کی طرف (یہ فقہ) منتقل کر رہے ہیں وہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں....تین باتوں میں مسلمان کا دل دھوکا نہیں دیتا ایک عمل کا اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہونا، دوسرا حاکم وقت کی پیروی کرنا اور تیسرا مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا چونکہ انکی غیر موجوگی میں انکی دعا موجود لوگوں کے لیے بھی ہوتی ہے۔
اس حدیث کے ان صحابہ سے شواہد ملتے ہیں:
(1) انس بن مالکؓ
[مسند أحمد:13350، سنن ابن ماجه:236 صحيح]
(2) جبير بن مطعمؓ
[مسند احمد:16738+16754, سنن ابن ماجه:231+3056، المستدرك على الصحيحين للحاكم:294+296]
(3) زيد بن ثابتؓ
[سنن ابن ماجه:230، سنن أبي داود:3660، سنن الترمذي:2656]
(4) جابر بن عبد اللہؓ
[تلخيص المتشابه في الرسم:1/ 108، نهاية المراد من كلام خير العباد:176، معجم أصحاب القاضي أبي علي الصدفي: ص67، مجمع الزوائد:589]
[كتاب العلم لأبو طاهر السلفي » الْجُزْءُ الثَّانِي » بَابُ الاحْتِيَاطِ فِي الرِّوَايَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ... ، رقم الحديث: 176]
(5) عبد الله بن مسعودؓ
[مسند الشافعي-سنجر:1806، مسند الحميدي:88، سنن الترمذي:2658، الأربعون لابن المقرئ:5، كتاب العلم لأبو طاهر السلفي » رقم الحديث: 173]
(6) عمير بن قتادةؓ
[المعجم الأوسط-الطبراني:7004][كتاب العلم لأبو طاهر السلفي » رقم الحديث: 194]
(7) عبد الله بن عمرؓ
[شرح مشكل الآثار-الطحاوي:1692، الثاني من فوائد أبي عثمان البحيري:62][المستدرك على الصحيحين للحاكم:296]
[مسند الشاميين للطبراني » مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ ...رقم الحديث: 498]
(8) سعد بن مالکؓ (ابو سعید خدریؓ)
[حديث نضر الله امرأ لابن حكيم المديني:15، الثالث من الفوائد المنتقاة للحربي:50، الخلعيات-رواية السعدي:105، الثامن من الخلعيات:60، الطيوريات:358]
[مسند الشاميين للطبراني » مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ النُّعْمَانِ ... رقم الحديث: 1279]
(9) عبد الله بن عباسؓ
[مسند خليفة بن خياط » عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ... رقم الحديث: 46]
[المحدث الفاصل-ت أبو زيد:8 (ت عجاج:9)]
(10) نعمان بن بشيرؓ
[حديث نضر الله امرأ لابن حكيم المديني:33+43، المعجم الكبير للطبراني:1224]
[المستدرك على الصحيحين للحاكم» رقم الحديث: 297]
(11) ربيعة بن عثمانؓ
[معرفة الصحابة » باب الراء » ربيعة بن عثمان التيمي، رقم الحديث: 412]
(12) معاذ بن جبلؓ
[مجمع الزوائد:585][مسند الشاميين للطبراني » مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ يُونُسَ بْنِ ... » يُونُسُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيّ ...، رقم الحديث: 2178]
(13) عبد الله بن عمروؓ
[مسند الشاميين للطبراني » مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ... » عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، رقم الحديث: 1322]
(14) أَبِي هُرَيْرَةَ - عبد الرحمن بن صخرؓ
[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي » باب الألف » ذكر من اسمه أَحْمَد، رقم الحديث: 1568][المستدرك على الصحيحين للحاكم» رقم الحديث: 296]
(15) أَبِي قِرْصَافَةَ - جَنْدَرَةَ بْنِ خَيْثَمَةَ
[مجمع الزوائد:588]
(16) سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ
[مجمع الزوائد:590]
=======================
مشہور ثقہ محدث علی بن خشرم کا بیان ہے کہ:
”کنا فی مجلس سفیان بن عیینة فقال: یا اصحاب الحدیث تعلموا فقہ الحدیث لا یقہرکم اصحاب الرأی، ما قال ابو حنیفة شیئاً الا ونحن نروی فیہ حدیثا او حدیثین“
ترجمہ:
یعنی ہم سفیان بن عیینہ کی مجلس میں تھے تو انھوں نے کہا اے حدیث سے اشتغال رکھنے والو، حدیث میں تفقہ حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ تم پر اصحاب فقہ غالب ہوجائیں، امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات ایسی نہیں بیان کی ہے کہ ہم اس سے متعلق ایک، دو حدیثیں روایت نہ کرتے ہوں۔
[معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:66]
تشریح:
امام سفیان بن عیینہ نے اپنے اس ارشاد میں حاضرین مجلس کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک یہ کہ وہ الفاظ حدیث کی تحصیل و تصحیح کے ساتھ حدیث کے معنی وفقہ کے حاصل کرنے کی بھی سعی کریں دوسرے امام صاحب کی اصابت رائے اور بصیرت فقہ کی تعریف میں فرمایاکہ ان کی رائے وفقہ حدیث کے مطابق ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کی تائید وتوثیق کسی نہ کسی حدیث سے ہوجاتی ہے۔ اس کمالِ اصابت رائے اور بے نظیر فقہی بصیرت کے باوصف تواضع وبے نفسی اور وسعت نظری وکشادہ ذہنی کا یہ عالم تھا کہ برملا فرماتے تھے۔
امام عبداللہ بن وہب خود دیتے ہیں۔ انہوں نے خود کہاہے کہ: لولامالک واللیث لضللت
اگرمالک اورلیث نہ ہوتے تو میں گمراہ ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے مقام پر اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ احادیث کی کثرت نے مجھے حیرت میں ڈال دیا تھا اور میں پریشان ہوگیا تھا۔ امام مالک نے میری رہنمائی کی کہ فلاں حدیث قابل اخذ ہے اور فلاں قابل ترک ہے۔ یہ معمول-بہا ہے وہ غیر-معمول-بہا ہے۔
لولا ان اللہ انقذ نی بمالک واللیث للضللت، فقیل لہ کیف ذلک؟ قال: اکثرت من الحدیث فحیرنی، فکنت اعرض ذلک علی مالک واللیث، فیقولان لی: خذ ھذا ودع ھذا
[ترتیب المدارک 3/231-236، التمہید لابن عبدالبر باب ذکر عیون من اخبارمالک]
اگرمجھے امام مالک اور امام لیث بن سعد کی جانب سے رہنمائی نہ ملتی تو میں گمراہ ہوجاتا۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ تو فرمایا میں نے حدیث کی خوب تحصیل کی جس کے بعد متضاد حدیثوں کی وجہ سے میں حیرت میں پڑگیا۔ پھر میں ان حدیثوں کو امام مالک اور لیث بن سعد کے سامنے پیش کرتا اور وہ مجھے بتاتے کہ اس پر عمل کیاجائے گا اور یہ حدیث متروک اور ناقابل عمل ہے۔
اور یہی چیز حضرت ابونعیم فضل بن دکین کو بھی پیش آئی کہ وہ احادیث کی روایت تو کرتے تھے لیکن ان میں سے کون سی قابل اخذ وعمل ہے اور کون سی قابل ترک ہے اس سے لاعلم تھے اور اس باب میں ان کی رہنمائی امام ابوزفر بن الھذیل فرماتے تھے۔
قال ابونعیم الملائی الفضل بن دکین کنت امر علی زفر فیقول لی :تعال حتی اغربل لک ماسمعت ،وکنت اعرض علیہ الحدیث فیقول :ھذا ناسخ ،ھذا منسوخ ،ھذایوخذ بہ ،ھذایرفض (تاریخ الاسلام للذہبی 6/178)
محدثین کرام میں حفظ حدیث کا رواج زیادہ رہا ہے اور احادیث سے مسائل کا استنباط واخراج کم رہاہے اس کا اعتراف امام احمد بن حنبل نے بھی کیا ہے چنانچہ ان سے جب مشہور محدث عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ فقییہ بھی تھے تو فرمایا کہ اہل حدیث میں فقاہت بہت کم ہوتی ہے۔
قال محمد بن يزيد المستملي رحمه الله تعالى: "سألت أحمد عن عبدالرزاق كان له فقه؟ فقال: ما أقل الفقه في أصحاب الحديث" ا.هـجاءفي
[طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى رحمه الله تعالى] (2/392 ـ تحقيق: العثيمين)
امام ترمذی رح کسی حدیث کے مطلب کو اس وقت تک بیان نہیں فرماتے جب تک اس پر فقہاء کرام کے سمجھنے سمجھانے اور عملی فیصلہ کی مہر نہیں لگ جاتی، چناچہ ایک مقام پر آپ نے فرمایا : "وكذلك قال الفقهاء وهو أعلم بمعاني الحديث" (جامع ترمذی : ١/١٩٣) یعنی فقہاء کرام نے یہی فرمایا ہے اور وہ حدیث کے معانی کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں.
خطیب بغدادی صاف اورصریح الفاظ میں بغیر کسی لگی لپٹی کے کہتے ہیں کہ کتب حدیث کے جمع کرنے یا اس کی روایت کرنے سے کوئی فقیہہ نہیں بن جاتا بلکہ اس کیلئے احادیث کے معنی ومراد میں غور و فکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ولیعلم ان الاکثار من کتب الحدیث وروایتہ لایصیربھاالرجل فقیھا،انما یتفقہ باستنباط معانیہ وانعام التفکرفیہ۔
[شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اھل الحدیث ص252]
امام ابن جوزی فرماتے ہیں
وكل من يخالط الفقهاء وجهد مع المحدثين، تأذى وساء فهمه
اور جو شخص بھی فقہاء سے نہیں ملا بلکہ صرف محدثین کے ساتھ محنت کرتا رہا، وہ نقصان اٹھائے گا اور اس کا فہم خراب ہوجائے گا۔
[صید الخاطر لابن جوزی]
======================
محدث جليل إمام اعمش رح اپنے وقت کے محدث و فقیہ امام اعظم ابو حنیفہ رح سے کہا تھا : " نَحْنُ الصَّيَادِلَةُ وَأَنْتُمُ الأَطِبَّاءُ " .
ترجمہ:
آپ طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں.
[جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر » بَابُ ذِكْرِ مَنْ ذَمَّ الإِكْثَارَ مِنَ الْحَدِيثِ ...، رقم الحديث: 1195]
[شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اہل الحدیث ص261]
یعنی ہمارا (محدث کا) کام عطار کا ہے، جڑی بوٹی لانا، پتیوں پودوں کو جمع کرنا، اور انھیں مرتبان میں رکھ کر دکان سجانا. ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم یہ بتائیں کہ بکھر میں کونسا جوشاندہ استعمال کیا جاۓ، ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دوائیں اکٹھا کردیں اس کے بعد آپ ڈاکٹر و حکیم (فقہاء) سے نسخہ لائیں، ہم اس نسخہ کے مطابق آپ کو دوا دیں گے یعنی فقیہ جب کوئی مسئلہ بتاۓ گا تو اس مسئلے کے مستدلات آپ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، اجتہاد و گہری و گیرائی ہمارے بس کی بات نہیں، فقہاء و محدثین میں یہ فرق ہے. (ص # ٦)
سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) نے ہدایت فرمائی۔
دور جدید میں ایک چھوٹا سا طبقہ علماء سلف کی علم، دیانت و تحقیقات کو غیر معصوم کہہ کر ان کے اقوال کے خلاف منسوخ / شاذ / مضطرب احادیث پھیلا کر ان کو غلطی پر ہونے کا تاثر دیتے دنیوی تعلیم یافتہ غیر عالم عوام کو گمراہ کرتے انھیں ان ائمہ کی پیروی (تقلید) کرنے کو شرک کہہ کر روکتے ہیں اور اپنی اس شرارت کو معصومانہ تحقیق باور کراتے اپنی راۓ کو قرآن و احادیث پر مبنی ہونے کا دعوا کرتے عوام کو اپنی تقلید کی طرف مائل کرتے ہیں، لیکن جب انھیں ان ائمہ کرام کے دلائل احادیث سے دیے جاتے ہیں تو انھیں بعض غیر معصوم امتی (محدثین) کی راۓ کی تقلید کرتے ان احادیث کا رد / انکار ضعیف کہہ کر کردیتے ہیں، جبکہ اپنے ہی فتاویٰ میں اپنے مخصوص مسائل میں خود ضعیف حدیث کے مقبول ہونے کا اصول بلا دلیل قرآن و حدیث کے بھی لکھتے، مانتے اور منواتے ہیں. جب انھیں الله و رسول کا قرآن و حدیث کافی ہے تو مزید کتابیں و فتاویٰ لکھ کر اپنی راۓ سے اس کے مفہوم میں گڑبڑ کرنے کا کیا مطلب و مقصد ہے؟ جب دونوں حالتوں میں تقلید ہی کرنا ہے تو نبوی صحبت یافتہ لوگوں کے مستند سلسلہ سے تعلیم حاصل کرنے والے مستند علماء و ائمہ کی تقلید (پیروی) کرنا اس چھوٹے جدید غیر مستند طبقہ کی ماننے سے بہتر ہی نہیں بلکہ جدید گمراہی سے بچنے کو ضروری بھی ہے. جب ان میں سے بعض صرف عوام کے سامنے اس بات کو مانتے بھی ہیں کہ وہ ائمہ ہدایت پر تھے تو ان ہدایت یافتہ لوگوں کے راستہ پر چلنے کی قرآنی دعا (سورہ فاتحہ : ٥-٧) ہر نماز کی ہر رکعت میں انھیں ان شرارتوں سے کیوں نہیں باز رکھتی؟ دراصل جسے الله گمراہ کرنا چاہے تو اسے کون ہدایت دے سکتا ہے. [قرآن :
اسلام کے کامل ضابطہ حیات ہونے کی علمی راہ
حضورﷺ کے صحابہ نے فقہ و اجتہاد کی راہ سے اسلامی تعلیمات کے دریا بہائے اور اجتہاد کے اسی چشمہ صافی سے لاکھوں کو سیراب کیا، ہر پیش آمدہ ضرورت پر ان کے اہل الرائے حضرات نے اپنی رائے پیش کی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنما أقضِی بَیْنَکُمْ بِرَأْیِی فِیْمَا لَمْ یُنْزَلْ عَلَیَّ فِیہِ" (ابوداؤد، حدیث نمبر:۳۱۱۲)
جس امرکے بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوتی ہے تو میں اپنی رائے سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہوں۔
راۓ کے قابل شخص کو خود فیصلہ کرنے کا سلیقہ سکھانا:
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ روزہ کی حالت میں میں خود پر قابو نہ پاسکا، اور اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ سے ایک بڑی غلطی ہوگئی ہے اور اپنا واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: "أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ قُلْتُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفِيمَ"۔ (مسنداحمد: ۱/۵۲۔ حدیث نمبر:۳۷۲)
تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر تم روزہ کی حالت میں پانی سے کلی کرو؟ تو میں نے عرض کیا کہ اس سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بوسہ سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پینے کی تمہید، منہ میں پانی ڈالنے کے عمل پر جماع کی تمہید بوسہ کو قیاس فرمایا۔ (شرح الزقانی علی الموطا: ۲/۲۲۱)
دوسرے کے اجتہاد پر عمل:
کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتھاد سے ایک حکم دیا، صحابہ نے اس پر عمل کیا، لیکن کسی صحابی نے اپنے اجتھاد سے کوئی دوسری رائے دی اور اس میں خیر کا پہلو نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اجتھاد کو چھوڑکر ان کے اجتھاد پر عمل فرماتے تھے، جیساکہ غزوۂ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتھاد سے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا اور اس جگہ پڑاؤ ڈالا، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی مقام پر ٹھہرگئے؛ لیکن حباب بن منذر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور با ادب عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کا قیام یہاں پر بذریعہ وحی ہوا ہے یا بطور اجتھاد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجتھاد سے میں نے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے، یہ سن کر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس جگہ کے بجائے اگر فلاں مقام پر قیام کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، اس لئے کہ اس صورت میں پانی ہمارے قبضے میں رہے گا اور کفارمکہ کو پانی نہ مل سکے گا، ان کی رائے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لقداشرت بالرأی" (سیرت ابن ھشام: ۱/۶۲۰)؛ واقعی تمہاری رائے بہت اچھی ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس جگہ پر پڑاؤ ڈالا جس کے متعلق حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے رائے دی تھی اور اپنی رائے اور اجتھاد سے رجوع فرمالیا (حوالہ سابق) اور اس کی تائید بذریعہ وحی بھی ہوئی، چنانچہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے عرض کیا کہ اے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے رب نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور یہ پیغام بھیجا ہے: "ان الرای ما اشاربہ الحباب بن المنذر" (تفسیر ابن کثیر: ۴/۲۴)؛ حباب بن منذر کی رائے بڑی اچھی رائے ہے۔
حیاتِ نبویؐ میں صحابہؓ کا اجتھاد:
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "[سنن أبي داود » كِتَاب الْأَقْضِيَةِ » بَاب اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ؛ رقم الحديث: 3121]
ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
حیاتِ نبویؐ کے بعد صحابہؓ کا اجتھاد:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوکوئی مسئلہ پیش آتا تواہل الرائے اور اہل الفقہ کومشورہ کے لیئے بلاتے، مہاجرینؓ وانصارؓ میں سے اہلِ علم کوبلاتے، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت زید بن ثابتؓ کوبلاتے،یہی لوگ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں فتوےٰ دیا کرتے تھے،پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے وہ بھی انہی حضرات سے مشورہ لیا کرتے تھے اور فتویٰ کا مدار انہی حضرات پر تھا۔
(کنز العمال:۳/۱۳۴)
اس روایت سے صاف ظاہرہے کہ علماء حدیث سب صحابہ کرام تھے،مگر اہل الرائے اور اہل الفقہ صرف فقہاء صحابہؓ ہی تھے،فقہ حدیث سے جدا کوئی چیز نہ تھی،یہ حدیث کی ہی تفسیر ہوتی تھی،اسے محض رائے سمجھ لینا بہت بڑی غلطی ہے،
فقہ حدیث سے الگ کوئی چیز نہیں فقہ کے خلاف ذہن بنانا خود حدیث سے بدگمان کرنا ہے، لفظ رای یہ فقہی استنباط کا ہی دوسرانام ہے،اجتہاد رائے سے ہی تو ہوتا ہے،حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کو لکھا تھا:
"فَاخْتَرْ أَىَّ الأَمْرَيْنِ شِئْتَ : إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ"۔
(سنن الدارمی،باب الفتیاوما فیہ من الشدۃ،حدیث نمبر:۱۶۹)
ترجمہ ان دوکاموں میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے چاہے تو اپنی رائے سے اجتہاد کرلینا۔
حضرت زید بن ثابت نے اس کے ساتھ دوسرے مجتہدین سے معلوم کرلینے کی بھی تعلیم دی ہے۔
"فَادْعُ أَهْلَ الرَّأْىِ ثُمَّ اجْتَهِدْ وَاخْتَرْ لِنَفْسِكَ وَلاَحَرَجَ"۔
(سنن دارمی:۱/۶۰۔سنن کبری بیہقی:۱۰/۱۱۵)
دوسرے اہل الرائے سے بھی پوچھ لینا پھر اجتہاد کرنا اوراپنا موقف اختیار کرنا اوراس میں کوئی حرج نہیں۔
صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ (مستدرک حاکم:۴/۳۴۰) حضرت عمرؓ (میزان کبریٰ للشعرانی:۱/۴۹) حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ (شرح فقہ اکبر:۷۹)حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابوالدردا، حضرت زید بن ثابت حضرت عبداللہ عباس (سنن دارمی:۱/۵۹۔ مستدرک:۱/۱۲۷۔ سنن بیہقی:۱۰/۱۱۵) اور مغیرہ بن شعبہ(مستدرک حاکم:۳/۴۴۷) سب اہل الرائے تھے۔
سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) نے ہدایت فرمائی۔
"فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ"۔
(سنن نسائی،باب الْحُكْمُ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۵۳۰۲)
ترجمہ: جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ آئے تو کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے؛ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کیا جائے، اگر وہ فیصلہ کتاب و سنت میں نہ ملے تو پھر بزرگوں (اکابر صحابہ کرامؓ) کے فیصلوں کو لیا جائے اور اگر کوئی ایسا معاملہ آجائے جو ان بزرگوں کے فیصلوں میں بھی نہ ملے تو (اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا) اپنی علمی رائے سے اجتہاد کرے۔
چنانچہ ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ (۶۸ھ) قرآن و حدیث کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے فیصلوں سے ہی فتویٰ دیتے تھے (منہاج السنۃ:۳/۲۱۳) اگر وہاں بھی نہ ملتا پھر اجتہاد کرتے (سنن دارمی :۳۴) اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ قرآن پاک کی جامعیت امور کلیہ میں ہیں اور انہی کلیات میں سے ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت لازمی کی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کلیدی احادیث آئندہ رہنمائی کے لیے صحابہ کو پیش کرتی ہیں اور ضرورت آمدہ پر اجتہاد کی راہیں کھولتی ہیں اور یہ ساری شاہراہ قرآن پاک کے چشمہ فیض سے ہی مستفیض اوراسی منبع نور سے مستنیر ہے،حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) فرماتے ہیں:
"انزل اللہ کتابہ وترک فیہ موضعا لسنۃ نبیہ وسن نبیہ السنن وترک فیہ موضعا للرای والقیاس"۔
ترجمہ: اللہ تعالی نے قرآن نازل فرمایا اوراس میں اپنے نبی کی سنت کے لیے جگہ رہنے دی اور حضور نے سنن قائم کیں اوران میں رائے اور اجتہاد کے لیے گنجائش رکھی۔
امام مالکؒ کے ساتھ ساتھ امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) کی رائے بھی سن لیجئے:
"جمیع ما تقول الائمۃ شرح للسنۃ و جمیع السنۃ شرح للقران"۔
(الاتقان للسیوطی، النوع الخامس والستون، فی علوم المستنبطۃ:۴/۲۸)
ترجمہ: ائمہ کرام جو کچھ کہتے ہیں وہ سنت کا بیان ہے اور ساری سنت قرآن پاک کی تشریح ہے۔
جامعیت قرآن کے سلسلے میں یہ ایک سوال کا جواب تھا، اصل موضوع زیر بحث نہ تھا کہ قرآن پاک کے احکامات کچھ اس طرح کے ہیں کہ جب تک قرآن پاک کے ساتھ کوئی اور جزو لازم اور علم کا ماخذآگے نہ لایا جائے ان احکامات پر عمل نہیں ہوسکتا۔
حبرالاُمۃ حضرت عبداللہ بن عمرؓ (۷۴ھ) ابوعبدالرحمن العدوی المدنی
حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن الحنیفہؒ انہیں "حبرھذہ الامۃ" (اس اُمت کے بڑے عالم) کہا کرتے تھے، امام زہریؒ فرماتے ہیں:
"لاتعد لن برای ابن عمر فانہ اقام ستین سنۃ بعد رسول اللہﷺ فلم یخف علیہ شئی من امرہ ولامن امراصحابہ"۔
(تذکرہ:۱/۳۸)
ترجمہ:نہ برابر سمجھ ابن عمر کے ساتھ کسی کو رائے میں؛ اس لیئے کہ وہ حضورﷺ کے وصال کے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہے اس لیئے نہیں مخفی رہا، آپؓ پر حضورﷺ کے امر سے اور نہ ہی آپ کے صحابہ کے امر سے۔
اہل الرائے ہونا کوئی عیب نہیں جوامام زہریؒ عبداللہ بن عمرؓ کی طرف منسوب کررہے ہیں، یہ علم کا وہ درجہ ہے جومجتہد کوہی نصیب ہوتا ہے، آپؓ سے کثیر تعداد احادیث منقول ہیں؛ لیکن علامہ ذہبیؒ نے انہیں الفقیہ کے پراعزاز لقب سے ذکر کیا ہے،
محدثین میں اہلُ الرّائے
ائمہ حدیث میں اہلُ الرائے صرف وہی حضرات ہوئے جومجتہد کے درجہ تک پہنچے تھے، نص صریح نہ ہونے کی صورت میں کسی مسئلہ میں رائے دینا کوئی معمولی کام نہ تھا، ابن قتیبہؒ نے معارف میں اصحاب الرائے کا عنوان قائم کرکے اِن میں سفیان الثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ کو بھی ذکر کیا ہے؛ سواگرکسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اہلُ الرائے میں لکھ دیا تویہ ان کے مجہتدانہ مقام کا ایک علمی اعتراف ہے، محدث ہونے کا انکار نہیں؛ پھرصرف حنفیہ میں ہی اہل الرائے نہیں، حافظ محمد بن الحارث الخشنی نے قضاۃ قرطبہ میں مالکیہ کوبھی اصحاب الرائے میں ذکر کیا ہے، علامہ سلیمان بن عبدالقوی الطوقی الحنبلی نے اصولِ حنابلہ پر مختصر الروضہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اِس میں ہے:
"اعلم ان اصحاب الرای بحسب الاضافۃ ہم کل من تصرف فی الاحکام بالرای فیتناول جمیع علماء الاسلام لان کل واحد من المجتہدین لایستغنی فی اجتہادہ عن نظر ورای ولوبتحقیق المناط وتنقیحہ الذی لانزاع فیہ"۔
ترجمہ: جان لوکہ اصحاب الرائے باعتبار اضافت کے تمام وہ علماء ہیں جو احکام میں فکر کو راہ دیتے ہیں؛ سویہ لفظ تمام علماءِ اسلام کو شامل ہوگا؛ کیونکہ مجتہدین میں سے کوئی بھی اپنے اجتہاد میں نظر و رای سے مستغنی نہیں؛ گو وہ تحقیقِ مناط سے ہو اور اس تنقیح سے ہو جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
تدوین فقہ کے کام کوسرانجام دینے کے باعث حضرت امام نے حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہیں کیا؛ لیکن فقہی مباحث کے ضمن میں بہت سی احادیث آپ نے اپنے تلامذہ کے سامنے روایت کیں، آپ کی جوروایات آپ سے آگے آپ کے تلامذہ میں چلتی رہیں انہیں حصفکیؒنے جمع کیا ہے؛ پھرابوالموید محمدبن محمود الخوارزمی نے تمام مسانید کو سنہ ۶۶۵ھ میں یکجا جمع کیا؛ اِسی مجموعہ کو "مسندِامام اعظمؒ" کہا جاتا ہے، اِس کے لائق اعتماد ہونے کے لیئے موسیٰ بن زکریا الحصفکی کی ثقہ شخصیت کے علاوہ یہ بات بھی لائقِ غور ہے کہ عمدۃ المحدثین ملاعلی قاریؒ جیسے اکابر نے اس مسندِامام کی شرح لکھی ہے، جو"سندالانام" کے نام سے معروف ہے اور علماء میں بے حد مقبول ہے، امام وکیع بن الجراح کی علمی منزلت اور فن حدیث میں مرکزی حیثیت اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم آپ کی مرویات سے بھری پڑی ہیں، علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:
"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔
(کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)
ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔
حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔
(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)
وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں، علم حدیث اور علم فقہ کے علاوہ آپ کی کلام پر بھی گہری نظر تھی، عراق کے کوفی اور بصری اعتقادی فتنوں نے حضرت امام کواس طرف بھی متوجہ کردیا تھا، آپ نے محدثین کے مسلک پررہتے ہوئے ان الحادی تحریکات کا خوب مقابلہ کیا، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
"علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔
(بغدادی:۱۳/۱۶۱)
علامہ ابنِ خلدونؒ لکھتے ہیں:
"والامام أبوحنيفة إنماقلت روايته لماشدد في شروط الرواية والتحمل"۔
(مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون:۱/۴۴۵،شاملہ، موقعِ یعسوب)
ترجمہ:اور امام ابوحنیفہؒ کی روایت قلیل اس لیئے ہیں کہ آپ نے روایت اور تحملِ روایت کی شرطوں میں سختی کی ہے۔
بایں ہمہ آپ کثیرالروایۃ تھے، وکیع نے آپ سے کثیراحادیث سنی ہیں۔
محدثین کا آپ کے متعلق اس قسم کی آراء کا اظہار کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ آپ رواۃ حدیث کے فہم ودرایت پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے، حضرت سفیان الثوریؒ کے علمی مرتبہ اور شانِ علم حدیث سے کون واقف نہیں، اتنے بڑے محدث کے بارے میں آپ سے رائے لی گئی کہ ان سے حدیث لی جائے یا نہیں؟ امام بیہقیؒ لکھتے ہیں:
"عبد الحميد قال: سمعت أباسعد الصاغاني يقول: جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال: ما ترى في الأخذ عن الثوري؟ فقال: اكتب عنه ماخلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي، وحديث جابر الجعفي"۔
(کتاب القرأۃ للبیہقی:۱۳۴)
ترجمہ: عبدالحمید الحمانی کہتے ہیں میں نے ابوسعدصاغانی کوکہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص امام ابوحنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا سفیان ثوری سے روایت لینے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان سے حدیث لے لو؛ ماسوائے ان حدیثوں کے جنھیں وہ ابواسحاق عن الحارث کی سند سے روایت کریں یاجنھیں وہ جابر جعفی سے نقل کریں۔
غور کیجئے جب حضرت امام سفیان ثوری جیسے محدث کے بارے میں بھی آپ سے رائے لی جارہی ہےتو آپ کا اپنا مقام حدیث میں کیا ہوگا؟ اجتہاد واستنباط یاتطبیق وترجیح میں تومجتہدین آپ سے اختلاف کرسکتے ہیں؛ لیکن کسی مقام پریہ کہہ دینا کہ یہ حدیث حضرت امام کونہ پہنچی ہوگی ہرگز درست نہیں؛ اس دور میں یہ بعض الظن اثم کے قبیل میں سے ہے، محدث جلیل ملاعلی قاری احیاء العلوم کی ایک عبارت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فالظن بأبي حنيفة أن هذه الأحاديث لم تبلغه ولوبلغته لقال بها قلت هذا من بعض الظن فإن حسن الظن بأبي حنيفة أنه أحاط بالأحاديث الشريفة من الصحيحة والضعيفة، لكنه مارجح الحديث الدال على الحرمة أوحمله على الكراهة جمعا بين الأحاديث وعملا بالرواية والدراية"۔
(سندالانام:۵۲)
الحافظ اور الحجۃ کے درجے کے محدثین توبہت ہوئے؛ لیکن بہت کم ہوئے جن کا علم تمام احادیث کومحیط مانا گیا ہو، حضرت امام ان کبارِ محدثین میں سے ہیں، جن کاعلم تمام احادیثِ صحیحہ اور ضعیفہ کومحیط مانا گیا،
مشہور ثقہ محدث علی بن خشرم کا بیان ہے کہ: ”کنا فی مجلس سفیان بن عیینة فقال: یا اصحاب الحدیث تعلموا فقہ الحدیث لا یقہرکم اصحاب الرأی، ما قال ابو حنیفة شیئاً الا ونحن نروی فیہ حدیثا او حدیثین“ (معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:۶۶)
یعنی ہم سفیان بن عیینہ کی مجلس میں تھے تو انھوں نے کہا اے حدیث سے اشتغال رکھنے والو، حدیث میں تفقہ حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ تم پر اصحاب الراۓ غالب ہوجائیں، امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات ایسی نہیں بیان کی ہے کہ ہم اس سے متعلق ایک، دو حدیثیں روایت نہ کرتے ہوں۔
(تشریح: امام سفیان بن عیینہ نے اپنے اس ارشاد میں حاضرین مجلس کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک یہ کہ وہ الفاظ حدیث کی تحصیل و تصحیح کے ساتھ حدیث کے معنی وفقہ کے حاصل کرنے کی بھی سعی کریں دوسرے امام صاحب کی اصابت رائے اور بصیرت فقہ کی تعریف میں فرمایاکہ ان کی رائے وفقہ حدیث کے مطابق ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کی تائید وتوثیق کسی نہ کسی حدیث سے ہوجاتی ہے۔ اس کمالِ اصابت رائے اور بے نظیر فقہی بصیرت کے باوصف تواضع وبے نفسی اور وسعت نظری وکشادہ ذہنی کا یہ عالم تھا کہ برملا فرماتے تھے۔)
امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) فرماتے ہیں کہ ہم خدائے قدوس کی تکذیب نہیں کرتے، ہم نے امام ابوحنیفہؒ سے بہتر رائے اور بات کسی سے نہیں دیکھی (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴۹) آپ بھی حضرت امام کے قول پر فتویٰ دیتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:
"کان یحییٰ القطان یفتی بقول ابی حنیفہ ایضا"۔
(تذکرہ:۱/۲۸۲)
یہ اِس درجہ کے امام تھے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں: "ما رأیت بعینی مثل یحییٰ بن سعید القطان"۔
(تذکرہ:۱/۲۷۵)
میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ بن سعید کی مثال کسی کو نہ دیکھا۔
اِس درجے کے عظیم القدر محدث کا فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی پیروی کرنا اور اُن کے قول پر فتوےٰ دینا اس با ت کا پتہ دیتا ہے کہ حضرت امامؒ حدیث وفقہ میں کتنا اونچا مقام رکھتے تھے، عبداللہ بن داؤدؒ کہتے ہیں:
"جب کوئی آثار یاحدیث کا قصد کرے تو (اس کے لیئے) سفیانؒ ہیں اور جب آثار یاحدیث کی باریکیوں کومعلوم کرنا چاہے توامام ابوحنیفہؒ ہیں"۔
(سیرالاحناف:۲۹)
سو ید بن نصرؒ جو کہ امام ترمذیؒ اورامام نسائیؒ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارکؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:
"لاتقولو ارای ابو حنیفۃ ولکن قولوا تفسیر الحدیث"۔
(کتاب المناقب للموفق:۲/۵۱)
ترجمہ:یہ نہ کہا کرو ابو حنیفہ کی رائے بلکہ کہو یہ حدیث کی شرح اور تفسیر ہے۔
شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله كا فتوى
‘‘ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإما بهوى ، فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما’’ (مجموع الفتاوي لابن تيمية 304/20، 305)؛
اورجس نے بهی امام أبي حنيفة یا ان کے علاوه دیگر أئمة ُالمسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے ہیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط. ( .وجهوٹ .) .بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش وہوی سے بات کی ، اور امام أبي حنيفة تو نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف ہونے کے اور مُخالف قیاس ہونے کے عمل کرتے ہیں الخ. (مجموع الفتاوي لابن تيمية 304/20، 305)؛
حافظ ابن القیم رحمہ الله اپنی کتاب {إعلام الموقعين }فرماتے هیں: کہ وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعـون علـى أن مذهـب أبـي حنيفـة أن ضعيـف الحديـث عنـده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبـه كمـا قـدّم حديـث القهقهـة مـع ضعفه على القياس والرأي ، وقـدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقيـاس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد" امام أبي حنيفة رحمه الله کے اصحاب کا اس بات پراجماع هے کہ امام أبي حنيفة رحمه الله کا مذهب یہ هے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بهی رائے و قیاس سےأولى وبہتر ( ومقدم ) هے ، اور اسی اصول پر امام أبي حنيفة رحمه الله کے مذهب کی بنیاد واساس رکهی گئ ، جیسا قهقهـة والی حدیث کو باوجود ضعیف هونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس و رائے پر مقدم کیا ، اور سفر میں نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث کو باوجود ضعیف هونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، پس حديث ضعيف وآثارُ الصحابة کو رائے وقیاس پرمقدم کرنا یہ الإمام أبي حنيفة رحمه الله اور الإمام أحمد رحمه الله کا قول ( وعمل وفیصلہ ) هے ۰ { إعلام الموقعين عن رب العالمين 1/77 }
=======================
اہلحدیث یا اہل الرائے
آپ مجھے صرف ایک حدیث ایسی لکھوائیں جس کو اللہ یا رسولﷺ نے صحیح فرمایا ہو اور ایک حدیث ایسی جس کو اللہ یا رسولﷺ نے ضعیف یا من گھڑت فرمایا ہو۔ قیامت تک ایک حدیث بھی نہیں لاسکتے جس کو اللہ یا رسولﷺ نے صحیح یا ضعیف کہا ہو۔ میں پوچھتا ہوں کہ پھر تم کسی حدیث کو صحیح، کسی کو حسن، کسی کو ضعیف، کسی کو من گھڑت کس دلیل سے کہتے ہو؟ یقیناً اپنی رائے یا کسی امتی اہل الراۓ محدث کی رائے سے احادیث کو صحیح و ضعیف وغیرہ کہتے ہو۔ تو پھر جناب اہل الرائے ہوئے یا کسی اہل الرائے کے مقلد ہوئے، اہل حدیث تو نہ ہوئے ؟؟؟
اصول تفسیر و اصول حدیث محض اجتہادی ہیں، جسے حدیث کے علماء نے خود تسلیم کیا ہے:
خطیب بغدادی اصولِ حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ڍ
"وجب الاجتہاد فی علم اصولہا" (الکفایہ فی علوم الروایہ:۳) ؛
جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع کی ہربات میں اجتہاد سے کام لیا گیا ہے، فقہاء حدیث نے اپنے اپنے تفقہ کی روشنی میں اس کے اصول طے کئے ہیں؛
وقال العلامة بدر الدين بن بهادر في النكت على مقدمة ابن الصلاح (3\341-342) : "فلا شك أن في الجرح والتعديل ضربين من الاجتهاد ؛ وأئمة النقل يختلفون في الأكثر فبعضهم يوثق الرجل إلى الغاية وبعضهم يوهنه إلى الغاية وهما إمامان إليهما المرجع في هذا الشأن".
علم جرح وتعدیل میں ناقدین رجال کے احکام ظنی اور اجتہادی ہیں اوریہ ان کے روات کے حالات،روایات کا استقراء اوتتبع پرمبنی ہے۔یہ بات حافظ ذہبی نے بھی کہی ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
قال الحافظ الذهبي في الموقظة : "هذا الدين مؤيد محفوظ من الله تعالى، لم يجتمع علماؤه على ضلالة، لاعمدا ولاخطأ، فلايجتمع اثنان على توثيق ضعيف، ولا على تضعيف ثقة، وإنما يقع اختلافهم في مراتب القوة أو مراتب الضعف؛والحاكم منهم يتكلم بحسب اجتهاده وقوة معارفه، فإن قدر خطؤه في نقده، فله أجر واحد" .
یہی بات حافظ ذہبی نے دوسرے مقام پر بھی دوہرایاہے چنانچہ وہ ذکر من یعتمدقولہ فی الجرح والتعدیل میں کہتے ہیں۔
"فمن أئمة الجرح والتعديل بعد من قدمنا يحيى بن معين؛ وقد سأله عن الرجال عباس الدوري وعثمان الدرامي وأبوحاتم وطائفة؛ وأجاب كل واحد منهم بحسب اجتهادات الفقهاء المجتهدين، وصارت لهم في المسألة أقوال". ۔
حافظ ذہبی نے یہ بات میزان الاعتدال میں بھی دوہرائی ہے چنانچہ وہ میزان الاعتدال میں ہشام بن عمار السلمی الدمشقی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
ومازال العلماء الاقران یتکلم بعضھم فی بعض بحسب اجتہادھم وکل احد یوخذ منہ قولہ ویترک الارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔(میزان الاعتدال 3/256)
اس امر کا اعتراف حافظ الدنیا حافظ ابن حجر کو بھی ہے کہ ناقدین رجال اورجرح وتعدیل کے ائمہ کے اقوال بعینہ اسی طرح اجتہادی ہیں جس طرح کے فقہاء کے اقوال اجتہادی اور استنباطی ہوتے ہیں۔
وقال الحافظ ابن حجر في لسان الميزان (1\3) : "أقام الله طائفة كثيرة من هذه الأمة للذب عن سنة نبيه صلى الله عليه وسلم فتكلموا في الرواة على قصد النصيحة؛ ولم يعد ذلك من الغيبة المذمومة بل كان ذلك واجبا عليهم وجوب كفاية ثم ألف الحفاظ في أسماء المجروحين كتبا كثيرة كل منهم على مبلغ علمه ومقدار ما وصل اليه اجتهاده" .
حافظ سخاوی کہتے ہیں کہ جرح وتعدیل کے ائمہ کے اختلافی کلام میں اسی طرح اجتہادی ہیں جس طرح کے فقہاء کرام کے مختلف اقوال کسی ایک مسئلہ میں اجتہادی ہوتے ہیں۔اسی طرح کسی ایک مسئلہ میں ایک فقیہہ کا مختلف قول اجتہادی ہوتاہے اسی طرح ایک راوی پرایک ناقد حدیث کے مختلف احکام بھی اجتہادی ہوتے ہیں۔ جیساکہ ابن معین سے ایک ہی راوی کے سلسلہ میں مختلف احکام منقول ہیں۔
وقالالسخاوي في فتح المغيث (3\352) : "وولاة الجرح والتعديل بعد من ذكرنا ،يحيى بن معين، وقد سأله عن الرجال غير واحد من الحفاظ ,ومن ثم اختلفت آراؤه وعباراته في بعض الرجال كما اختلف اجتهاد الفقهاء وصارت لهم الأقوال والوجوه فاجتهدوا في المسائل كما اجتهد ابنمعين في الرجال" .
سلفی علماء میں سے اس امر کا اعتراف شیخ جمال الدین قاسمی نے بھی کیاہے کہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کامعاملہ ہو یاپھر بات راوی پر کلام کی ہو ۔یہ اجتہادی امر ہے اورقائل کی اپنے معلومات،دائرہ اطلاع،فکر ونظر کی گہرائی وگیرائی کے اعتبار سے ہے۔
"ومعرفة الرجال علم واسع ثم قد يكون المصيب من يعتقد ضعفه لاطلاعه على سبب جارح , وقد يكون الصواب مع الآخر لمعرفته أن ذلك السبب غير جارح : إما لأن جنسه غير جارح , أو لأنه كان له فيه عذر يمنع الجرح -وهذا باب واسع- , وللعلماء بالرجال وأحوالهم في ذلك من الإجماع والاختلاف مثل ما لغيرهم من سائر أهل العلم في علومهم" . في قواعد التحديث (ص\377)
=================================
حقیقت اجماع
حقیقت اجماع
اجماع اصل میں محض رائے ہے؛ جیسا کہ قیاس رائے ہے؛ البتہ اجماع و قیاس کے درمیان فرق یہ ہے کہ قیاس کے تحت جو رائے ہوتی ہے وہ انفرادی یا زیادہ سے زیادہ چند افراد کی ہوتی ہے اور "اجماع" ایک زمانے کے تمام مجتہدین کی متفقہ رائے کا نام ہے اسی اجتماعیت کی وجہ سے اس کو قیاس پر فوقیت حاصل ہے۔ [المدخل:۱۹۳۔ اصول الفقہ عبیداللہ الاسعدی:۲۱۲]
بدعتی اور فاسق مجتہد کا اجماع
اجماع میں تقویٰ اور تدین بھی ضروری ہے؛ کیونکہ ایسے شخص کی رائے اجماع میں قابلِ اعتبار نہ ہوگی جودین کا پابند نہ ہو یا دین کی قطعی اور اصولی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہو اور فسق وفجور اور بدعت میں مبتلا ہو؛ کیونکہ ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں لائق مذمت ہے، امام مالکؒ، امام اوزاعیؒ، محمد بن حسنؒ وغیرہ ایسے شخص کو اہل ہویٰ وضلال کہتے ہیں اور اس کے اجماع کو معتبر نہیں مانتے۔
[الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۱/۲۳۷۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۳]
البتہ علامہ صیرفی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ایسے شخص کا اجماع بھی معتبر ہے؛ یہی قول امام غزالیؒ، علامہ آمدیؒ اوردیگر اصولی حضرات کا ہے؛ کیونکہ فاسق اور اہل بدعت بھی ارباب حل وعقد میں سے ہوتے ہیں اور لفظ "امت" کے مصداق میں شامل ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ تقویٰ وتدین جب ہوگا تولوگوں کو اس کی رائے پر اعتماد ہوگا، جب تقویٰ کی شرط صرف رائے پر اعتماد کی خاطر ہے توظاہر ہے کہ تقویٰ اگرنہ بھی ہوتب بھی استنباط کی صلاحیت وصحت پر فی نفسہ کوئی اثر مرتب نہ ہوگا۔
[ارشاد الفحول:۱۳۱۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ البحرالمحیط:۴/۴۶۷۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۳۲۶]
اجماع میں اکثریت واقلیت کی بحث
اجماع میں اکثریت واقلیت کی بحث
اجماع کے انعقاد کے لیے پوری امت کے مجتہدین کا متفق الرائے ہونا ضروری ہے، محض اکثریت کی رائے کواجماع کے لیے جمہور کافی نہیں سمجھتے؛ لیکن ابوبکررازیؒ، ابوالحسن خیاطؒ معتزلی اور ابنِ جریر طبریؒ کا خیال ہے کہ محض ایک دو آدمی مخالفت کریں تواجماع کے انعقاد پر اس سے کوئی اثرمرتب نہیں ہوگا، بعض حضرات کی رائے ہے کہ موافقین کے مقابلہ میں اگرچہ مخالفین کی تعداد کم ہو ؛لیکن حدتواتر تک پہنچی ہوئی ہو تواجماع منعقد نہیں ہوگا؛ اگرتواتر تک نہیں پہنچی ہو تواجماع منعقد ہوجائے گا۔
[فواع الرحموت:۲/۳۲۲۔ المستصفی الغزالی:۱/۱۷۴]
اقلیت واکثریت کی اس بحث میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مخالفت اگراخلاص واجتہاد کی بناء پر ہوتو وہ اجماع کے انعقاد وعدمِ انعقاد میں ملحوظ ہوگی؛ ورنہ اگراخلاص واجتہاد کے بجائے حب جاہ یاکوئی دوسرا جذبہ مخالفت کے پیچھے کارفرما ہوتو ایسی مخالفت کا بالکل اعتبار نہ ہوگا؛ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اوّل کے انتخاب کے موقعہ پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے مخالفت کی تھی؛ لیکن وہ معتبر نہیں مانی گئی اورحضرت ابوبکرصدیقؓ کی خلافت بالاجماع منعقد ہوئی۔
[اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۱۔ فقہی خدمات وتقاضے:۱۸۵]
اجماع کے اعتبار کے لیے کیا مجتہدین کی موت ضروری ہے
اجماع کے اعتبار کے لیے کیا مجتہدین کی موت ضروری ہے
چونکہ زندگی میں انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اجماع کے بعد کسی مجتہد کی رائے میں تبدیلی ہوجائے، جس کی وجہ سے اتفاق باقی نہ رہ سکے، اس لیے اصولی حضرات نے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا اس احتمال سے کہ کسی مجتہد کی رائے بدل سکتی ہے، اجماع غیرمعتبر ہوگا؟ اس سلسلہ میں اصولی حضرات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
[الاحکام آمدی:۱/۳۶۶۔ اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۷]
امام اعظم ابوحنیفہؒ، اشاعرہ، معتزلہ اور اکثرشوافع کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کرنے والے مجتہدین کی وفات اجماع کے اعتبار کے لیے ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ جس لمحہ میں اتفاق وجود میں آتا ہے، اس لمحہ میں اجماع منعقد ہوجاتا ہے، اتفاق ہوجانے کے بعد مسئلہ نزاع سے خارج ہوجاتا ہے اور سب کے لیے لازم ہوجاتا ہے؛ اس لیے بعد میں رائے کی تبدیلی کا کوئی اثر اجماع کے انعقاد پر نہیں پڑےگا؛ یہاں تک کہ اجماع کے متصلاً بعد اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت ورحمت سے مجتہد بن جائے تواس کی بھی رائے کا اجماع کے لیے اعتبار نہیں ہوگا اور یہی موقف صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ جن نصوص سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے ان میں اطلاق ہے، مجتہدین کی وفات کی قید نہیں ہے، اس لیے ملامحب اللہ بہاریؒ نے بجا لکھا ہے: "الانقراض لامدخل لہ فی الاصابۃ ضرورۃ"۔ ترجمہ:وفات کا اجماع کی حجت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ کی عبارت اس موقع پر کافی وضاحت سے روشنی ڈالتی ہے، فرماتے ہیں: "الحجۃ فی اتفاقھم لافی موتھم وقد حصل قبل الموت"۔ ترجمہ:اجماع تو ان کے اتفاق سے حجت بن جاتا ہے، موت سے اس کا کیا سروکار ہے۔
[نفائس الاصول فی شرح المحصول:۶/۲۷۸۶۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۲]
اجماع کی بنیاد
اجماع کی بنیاد
اجماع کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کسی نہ کسی اصل شرعی پر ہو؛ کیونکہ اجماع اور قیاس خود کوئی مستقل دلیل نہیں ہیں، اجماع کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اصل کتاب وسنت یاپھرقیاس میں موجود ہو ،اجماع کی اصل کی ضرورت اس لیے ہے کہ اہل اجماع بنفسِ نفیس احکام کو بیان نہیں کرسکتے؛ کیونکہ انشاء شریعت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کو حاصل ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جن مسائل پر صحابہ کرامؓ نے اجماع کیا ہے ان سب میں وہ کسی نہ کسی اصل پر بحث کرتے ہو ئےانہی پر اپنی آراء کی بنیاد رکھتے اور اس طرح اجماع کا انعقاد ہوجاتاہے، میراث جدہ کے بارے میں صحابہ کرامؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی خبر پر اعتماد کیا اور جمع بین المحارم کی حرمت کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت پر اعتماد کیا، اسی طرح حقیقی بھائیوں کی عدم موجودگی میں علاتی بھائیوں کا وراثت میں اعتبار کیا گیا ،اس مسئلہ میں صحابہ کرامؓ نے حضورﷺ کی اس تعبیر پر اعتماد کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے: "وَدخولھم فِی عموم الاخوۃ"۔ اور جمہور علماءکرام کا کتاب وسنت کو اجماع کی اصل قرار دینے پر اتفاق ہے، جیسا کہ سطورِ بالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے، ان میں اجماع کی اساس سنت ہے۔
[اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۵۔ البحرالمحیط:۴/۴۵۰۔ الکوکب المنیر:۲/۲۲۸]
اجماع کی بنیاد قیاس پر
فقہاء کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ قیاس واجتہاد بھی اجماع کی اصل بن سکتے ہیں یانہیں؟ اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں ؛لیکن دلیل کے اعتبار سے وزنی وہ بات معلوم ہوتی ہے جوعلامہ آمدیؒ نے بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد وقیاس کو بھی اجماع کی اصل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی کئی مثالیں صحابہ کرامؓ کی زندگی سے ملتی ہیں، مثلاً صحابہ کرامؓ کا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پر اتفاق کرنا یہ محض اجتہاد اور رائے کی وجہ سےتھا؛ حتی کہ بعض صحابہ کرام نے یہ الفاظ تک کہے: "رضیہ رسول اللہ لدیننا افلا نرضاہ لدنیانا"۔ ترجمہ:اور بعض صحابہ کرامؓ نے یہ جملہ کہا "ان تولوھا ابابکر تجدوہ قویا فی امراللہ ضعیفاً فی بدنہ"۔
[الاحکام آمدی:۱/۲۸۰]
اسی طرح مانعینِ زکاۃ سے قتال کرنے پر ان حضرات کا اجماع ہوا وہ بھی قیاس ورائے کی بناء پر تھا، خنزیر کی چربی کی حرمت پر اجماع اس کے گوشت پر قیاس کے ذریعہ کیا گیا تھا، حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شراب پینے والے کی حد اسی (۸۰) کوڑے بالاجماع مقرر کی گئی یہ بھی اجتہاد کی روشنی میں تھا؛ چنانچہ حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ اس پر حدقذف جاری کرنی چاہیے؛ کیونکہ شرب خمر کے بعد عام طور پر تہمت زنی کی باتیں سرزد ہوتی ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ اس پر حد جاری کرنی چاہیے اور اقلِ حد اسی کوڑے ہیں، ان کے علاوہ جنایت کا تاوان قریبی رشتہ داروں کا نفقہ اور ائمہ وقضاۃ کی عدالت کے متعلق جواجماع دورِ صحابہ کرامؓ میں کیا گیا یہ سب بطریق اجتہاد وقیاس تھا؛ لہٰذا اجتہاد اور قیاس کو بنیاد بناکر جو اجماع کیا جاتا ہے وہ بھی شرعاً قابلِ حجت ہے اور اس کی اتباع ضروری ہے۔
[الاحکام آمدی:۱/۲۸۰۔ اصول الفقہ اسعدی:۱۶۶۔ نفائس الاصول:۶/۲۸۷۴۔ حیات ابن تیمیہؒ:۶۸۵]
جزاک اللہ احسن الجزا
ReplyDelete