Wednesday, 3 December 2014

مومنین کے ماموں، کاتب وحی، ہادی ومہدی، حضرت معاویہؓ کی فضائل ومناقب اور سیرت


فضائلِ حضرت معاویہؓ
(1) آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں:
حضرت معاویہؓ کے والد کا نام ابو سفیان تھا اور والدہ کا نام ہند بنت عتبہ تھا. حضرت معاویہؓ بہت خوبصورت اور سفید تھے، کاتبِ وحی(یعنی نبی کے مقرر کردہ پیغامِ الہٰی لکھنے والوں میں) تھے، آپ نے غزوہ حنین اور جنگِ یمامہ میں شرکت کی، صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلام لاۓ لیکن اپنے ایمان لانے کا اعلان فتحِ مکّہ کے موقع پر کیا.
[البداية والنهاية لابن كثير: ج٨/ ص٢٣ ، دار الاحیاء التراث العربی-بیروت]







صحبتِ رسول کا ثبوت کُتبِ احادیث سے:
(1) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ : " أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِرَكْعَةٍ وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ " فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : " دَعْهُ فَإِنَّهُ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
ترجمہ:
کہا ہم سے حسن بن بشیر نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت معاویہؓ  نے عشاء کے بعد وتر کی نماز ایک رکعت (بھی) پڑھی، وہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (غلام  کریب) بھی موجود تھے، جب وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (حضرت امیر معاویہؓ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا) اس پر انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے۔
القرآن:
۔۔۔راضی ہوا اللہ ان سب سے اور وہ سب راضی ہوئے اللہ سے۔۔۔
[سورۃ التوبۃ:100]






صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
(2) آپؓ خَالُ ‌الْمُؤْمِنِينَ (یعنی مؤمنين كے ماموں) ہیں:
امام ابن الخلالؒ(م311ھ)روایت کرتے ہیں کہ
أَنَّ أَبَا طَالِبٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ: أَقُولُ: مُعَاوِيَةُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ وَابْنُ عُمَرَ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مُعَاوِيَةُ أَخُو أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَحِمَهُمَا، وَابْنُ عُمَرَ أَخُو حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَحِمَهُمَا، قُلْتُ: أَقُولُ: مُعَاوِيَةُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ "
ترجمہ:
ابو طالب نے امام احمد(م241ھ) سے پوچھا کہ میں کہتا ہوں: معاویہ اور ابن عمر ماموں ہیں مومنوں کے(یعنی کیا یہ درست ہے)؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، کیونکہ معاویہ رسول الله ﷺ کی بیوی ام حبیبہ کے بھائی ہیں اور حضرت ابن عمر رسول الله ﷺ کی بیوی حضرت حفصہ کے بھائی ہیں۔
[السنة لأبي بكر بن الخلال» حدیث نمبر 657]
القرآن:
ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔۔۔
[سورۃ الاحزاب:6]





صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
خَالُ ‌الْمُؤْمِنِينَ ہونے پر امام احمدؒ کا فتویٰ:
وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْم‍َيْمُونِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: أَلَيْسَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ صِهْرٍ وَنَسَبٍ يَنْقَطِعُ إِلَّا صْهِرِي وَنَسَبِي» ؟ قَالَ: " بَلَى، قُلْتُ: وَهَذِهِ لِمُعَاوِيَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَهُ صِهْرٌ وَنَسَبٌ. قَالَ: وَسَمِعْتُ ابْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: «مَا لَهُمْ وَلِمُعَاوِيَةَ، نَسْأَلُ اللَّهَ الْعَافِيَةَ»
ترجمہ:
عبد الملک بن عبد الحمید المیمونیؒ نے خبردی، انہوں نے کہا: امام احمدؒ بن حنبل نے فرمایا: کیا نبی ﷺ نے نہیں فرمایا کہ: تمام سسرالی اور نسبی(یعنی ددھیالی  وننھیالی) رشتے کٹ جاتے ہیں سوائے میرے سسرالی اور نسبی رشتے کے؟ کہا: بلکل(فرمایا ہے)۔ پوچھا گیا: اور یہ معاویہ کیلئے(بھی) ہے؟ فرمایا: ہاں، وہ بھی سسرالی اور  نسبی ہیں۔ کہا: پھر میں نے سنا (امام)ابن حنبلؒ کو کہتے کہ: جو ان سب کا (رشتہ) ہے اور وہی معاویہ کیلئے ہے، ہم سوال کرتے ہیں اللہ سے عافیت(درستگی وسلامتی غلطی وبرائی سے)۔
[السنة لأبي بكر بن الخلال:654 وإسناده صحيح.]


حضرت عویم بن ساعدہؓ رسول الله ﷺ سے مروی ہے
«إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ بِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ»
ترجمہ:
بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے، ان پر لعنت ہے الله کی اور  فرشتوں کی اور سارے انسانوں کی بھی، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل.
[حاکم:6656، معرفة الصحابة لأبي نعيم:4424، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:47، معجم الشيوخ لابن عساکر:685]
موسوعة التفسير قبل عهد التدوين:ص167، سورۃ الفتح:28، سورۃ الفرقان:54
القرآن:
اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کو نسبی اور سسرالی رشتے عطا کیے، اور تمہارا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔ 
[سورۃ الفرقان:54]
محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ (٣١) اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انھیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو توراۃ میں مذکور ہیں۔ (٣٢) اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں۔ (٣٣) تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے۔
[سورۃ الفتح:28]






صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
(3) آپؓ کاتبِ وحی ہیں
(4) خلافت کی نبوی پیشگوئی یافتہ تھے
(5) دعائے نبوی ﷺ سے ہدایت یافتہ
(6)برائی سے سلامت
(7)بخشے جانے والے ہیں:
امی عائشہؓ سے روایت ہے ۔۔۔ جب نبی کریم ﷺ (اپنی بیوی اور معاویہؓ کی بہن) ام حبیبہؓ کے دن(وہاں) تھے، (تو باہر) دروازہ بجایا گیا ، نبی ﷺ نے فرمایا: اسے دیکھو۔ کہا گیا: معاویہؓ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (اندر آنے کی) اجازت دو اسے۔ وہ اس حال میں داخل ہوئے کہ اپنے کان کو قلم سے پسلا رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ قلم تیرے کان میں کیسا ہے اے معاویہ؟ انہوں نے کہا: اس قلم کو میں نے بنایا ہے اللہ کیلئے اور اس کے رسول کیلئے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
جَزَاكَ اللَّهُ عَنْ نَبِيَّكَ خَيْرًا، وَاللَّهِ مَا اسْتَكْتَبْتُكَ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
ترجمہ:
یعنی بدلہ دے تجھے اللہ تیرے نبی (کی خدمت کرنے) سے بہترین، اللہ کی قسم! نہیں میں نے کاتب بنایا ہے تمہیں بغیر اللہ عزوجل کی وحی(حکم) کے۔
[أنساب الأشراف للبلاذري:328]
اور نہیں میں کرتا چھوٹا یا بڑا کام بغیر اللہ عزوجل کی وحی کے۔ 
[السنة لأبي بكر بن الخلال:710]
تو کیسا حال ہوگا تیرا جب پہنائے گا تجھے اللہ قمیص۔ یعنی خلافت۔
تو اٹھیں ام حبیبہؓ، پھر وہ ان کے ہاتھوں کے درمیاں بیٹھیں ، اور(غلط فہمی سے بچنے اور غور سے دوبارہ سننے کیلئے)پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ! کیا واقعی اللہ میرے بھائی کو قمیص پہنائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں ، لیکن اس میں (امت میں افتراق پیدا کرنے والی) نئی نئی باتیں، اور مصائب ومشکلات، اور فتنے وفسادات بھی ہوں گے۔۔" تو  عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پھر آپ دعا کیجئے ان کیلئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: : اے اللہ! (راستہ)دکھا اسے ہدایت کا، بچا اسے برائی سے، اور بخش اسے آخرت اور اولی(دنیا)میں۔
[المعجم الأوسط للطبراني :1838، تاريخ دمشق لابن عساكر:ج59 ص69 ، البداية والنهاية لابن كثير: 11 /404 ، مجمع الزوائد:15915]

ایک روایت میں "ہدایت" کے بجائے فرمایا:
اللَّهُمَّ وَفقه للتقوى ۔۔۔ 
ترجمہ:
اے اللہ! توفیق دے اسے تقویٰ کی ۔۔۔ 
[الفردوس بمأثور الخطاب(مسند الدیلمي): 2063]

ایک اور روایت میں یہ الفاظ روایت کئے گئے ہیں۔:
اللهم ألهمه التقوى
ترجمہ:
اے اللہ! الہام فرما اسے تقویٰ ۔۔۔ 
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 59 / 70 دار الفكر]





کاتبِ وحی کی قرآنی فضیلت:
(یہ قرآنی نصیحت) اونچے رتبہ والے انتہائی پاکیزہ، لکھنے والے ہاتھوں میں،(جو)معزز نیکوکار ہیں۔
[سورۃ عبس:11-14]




صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
کتابِ وحی کی خصوصی نبوی دعا:
حضرت عرباض بن ساریہ سلمیؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت معاویہؓ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ ! انہیں کتاب(یعنی قرآن لکھنا) اور حساب(صحیح اندازہ لگانا) سکھا دے اور ان کو عذاب سے بچا لے۔

صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
کتابتِ وحی کا مزید ثبوت:
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا : میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے ہیں لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ ﷺ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا:
«اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ» ‌وَكَانَ ‌يَكْتُبُ ‌الْوَحْيَ.
ترجمہ: 
((جاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ)) اور وہ وحی لکھتے تھے۔
[دلائل النبوۃ للبیھقی: ج6/ ص243 ، سندہ حسن]

ابن اسحاق، ابن سعد، ابن حنبل، عمر بن شبہ، خلیفہ ابن خیاط ، طبری، جہشیاری، مسعودی، ابن مسکویہ، یعقوبی وغیرہ نے آپ کے کاتبِ نبی ﷺ ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔
ڈاکٹرمحمد حمیداللہ حیدرآبادی نے ”الوثائق السیاسیہ “میں درج ذیل دستاویزات پر بحیثیت کاتب، حضرت معاویہ کے نام کی تحقیق و تخریج فرمائی ہے:
وثیقہ نمبر ۸۹، ۱۳۱، ۱۶۴، ۱۸۵، ۲۱۵ اور ۲۲۲۔

(حوالوں کے لیے ملاحظہ فرمائیے: البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۰، المصباح المضئی ۸/ب، تاریخ خلیفہ ۱/ ۷۷، تاریخ طبری ۶/ ۱۷۹، الوزراء والکتاب ۱۲ التنبیہ والاشراف ۲۴۶، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۶، ۱۸۷)


صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
خلافت کی نبوی پیشگوئی پر یقینِ معاویہؓ:
اے معاویہ ! اگر تمہیں (مومنین کے) کسی کام کا متولی وحاکم بنایا جائے تو (امورِ حکومت کی انجام دہی میں) اللہ سے ڈرتے رہنا اور عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں برابر خیال کرتا رہا کہ آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے بموجب میں کسی کام (یعنی امارت وحکمرانی) میں مبتلا کیا جاؤں گا ۔ یہاں تک کہ میں مبتلا کیا گیا۔
[مسند احمد:16933، مسند أبي يعلى:7380، دلائل النبوة للبيهقي:6/ 446]
یعنی دورِ فاروقی میں آنحضرت ﷺ کا فرمان ثابت ہوا اور امارت وحکمرانی نصیب ہوئی۔





(3) آپؓ امامِ تدبیر وسیاست تھے:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
مَا رَأَيْتُ رَجُلًا كَانَ أَخْلَقَ لِلْمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ۔
ترجمہ:
میں نے (خلفائے راشدین کے بعد) معاویہ سے زیادہ، حکومت کے لیے مناسب کوئی نہیں دیکھا۔
[جامع معمر بن راشد(عبد الرزاق):20985 بإسناد صحيح، تاريخ الطبري:5/ 337...وسندہ صحیح، السنة لأبي بكر بن الخلال:677، معجم الصحابة للبغوي:2197، معرفة الصحابة لأبي نعيم:2063، تاریخ دمشق لابن عساكر: جلد59 ص175-الناشر: دار الفكر]




حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«أول هذا الأمر نبوة ورحمة، ثم يكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة، ثم يكون إمارة ورحمة، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمر فعليكم بالجهاد، وإن أفضل جهادكم الرباط، وإن أفضل رباطكم عسقلان»
ترجمہ :
"سب سے پہلے نبوت و رحمت ہوگی، پھر خلافت و رحمت ہوگی، پھر بادشاہت ورحمت ہو گی، اور پھر امارت و رحمت ہوگی اور اس کے بعد لوگ اس حکومت کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو گدھے کی طرح کاٹیں گے. اس دور میں تم جہاد کو لازم پکڑنا، اور تمہارا افضل جہاد الرباط (یعنی سرحدوں کی حفاظت) ہے اور افضل رباط عسقلان شہر کا رباط ہے."

[المعجم الكبير الطبراني:11138، مجمع الزوائد: 8964، سلسلة الأحاديث الصحيحة: 3270]

الدر المنثور في التفسير بالمأثور: سورۃ آل عمران:200



صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
آپؓ کیلئے نبی ﷺ نے ہدایت کی تین خوبیوں کی دعا فرمائیں:
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ»۔
ترجمہ:
بیشک نبی ﷺ نے (دعا) فرمائی حضرت معاویہؓ کے لئے: اے الله ! اس کو بنا ہادی(یعنی راہنمائی کرنے والا) اور مہدی (یعنی ہدایت یافتہ) بنا اور  ہدایت دے اس کو۔
[احمد:17895، ترمذي:3842]



ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
ولا ارتياب أن دعاء النبي - صلى الله عليه وسلم - مستجاب ، فمن كان هذا حاله كيف يرتاب في حقه 
ترجمہ :
اس میں کچھ شک نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی دعا یقیناً مستجاب ہوتی ہے تو جس شخص کے حق میں یہ دعائیں ہوتی ہیں اس کے حق میں قبولیت میں کس طرح شبہ کیا جاسکتا ہے؟





صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت
اور
بخشش کی نبوی پیشگوئی:
رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«‌أَوَّلُ ‌جَيْشٍ ‌مِنْ ‌أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا»
ترجمہ:
میری امت میں سے پہلا گروہ جو سمندری جہاد کرے گا انہوں نے (مغفرت و جنت کو) واجب کر لیا ۔
[صحيح البخاري:2924، حاكم:8668]

شارحِ صحیح بخاری، حافظ الحدیث، امامِ جرح وتعدیل ابن حجر عسقلانیؒ (852-773ھ) فرماتے ہیں :
قَدْ أَوْجَبُوا ‌أَيْ ‌فعلوا ‌فعلا وَجَبت لَهُم بِهِ الْجنَّة۔
ترجمہ:
آپ ﷺ کے فرمان کہ انہوں نے واجب کر لیا ، کی مراد یہ ہے کہ انہوں نے وہ کارِ خیر سرانجام دیا ، جس کی بنا پر ان کے لیے جنت واجب ہو گئی ۔
[فتح الباري : ج6 ص103 دار المعرفة - بيروت، ١٣٧٩]

سیدنا انسؓ فرماتے ہیں كه رسول الله ﷺ ایک دن (سیدہ ام حرام ) بنت ِ ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہاں ٹیک لگا کر بیٹھ گئے ، (اسی حالت میں سو گئے) پھر آپ ﷺ (بیدار ہوئے اور) مسکرائے ۔ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کیوں مسکرائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں کچھ لوگ جہاد کے لیے سبز سمندر میں سفر کریں گے۔ وہ تختوں پر براجمان بادشاہوں کی طرح ہوں گے۔
[صحيح البخاري:2877، 2878، صحيح مسلم:1912]

امامِ اندلس علامہ ابن عبدالبرؒ (463-368 ھ) فرماتے ہیں : 
‌وَفِيهِ ‌فَضْلٌ ‌لِمُعَاوِيَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ إِذْ ‌جَعَلَ ‌مَنْ ‌غَزَا تَحْتَ رَايَتِهِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَرُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ وَحْيٌ۔
ترجمہ :
اس حدیث میں سیدنا معاویہؓ کی فضیلت ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے (بوحی الہٰی) ان کی کمان میں جہاد کرنے والوں کو اولین قرار دیا ہے اور انبیائے کرام علیہم السّلام کے خواب وحی ہی ہوتے ہیں۔(دلیلِ قرآن: سورۃ الصافات:102)
[التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد: ج1 ص235 ، الاستذكار:5 /128]


یہ جہاد سیدنا معاویہؓ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا۔
[دیکھئے: صحیح البخاری، کتاب الاستئذان باب من زار قوما فقال عندھم، 6282، 6283]

اس پہلے سمندر جہاد میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ 
[دیکھئے، صحیح البخاری: کتاب الجہاد (باب ۸، حدیث:2799۔2800)]


عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمانتے ہیں کے مائی حضور کے پاس تھا، آپ ص نے ارشاد فرمادیا:

تمھارے ساتھ اہل جنت میں سے ایک شخص نمودار [ظاہر] ہوگا، تو معاویہ نمودار ہوئے، پھر دوسرے روز بھی آپ ص نے اسی طرح ارشاد فرمایا، تو معاویہہی ظاہر ہوئے، پس میں ان کے پاس گیا اور اس کا چھہرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ شخص یہ ہے؟

آپ ص نے ارشاد فرمایا: جی ہاں، اے معاویہ ! تم مجھ سے ہو اور میں تم میں سے ہوں۔

تم جنت کے دروازے میں میرے ساتھ ان دو (انگلیوں) کی طرح داخل ہو گے، اور آپ نے شہادت کی اور دارمیانی انگلی کو حرکت دیتے ہوئے اشارہ فارمایا۔
[تاریخ دمشق: جلد 59: صفحہ 100، طبقہ دارالفکر]






صحبتِ رسول ﷺ کا ثبوت:
(3) آپ بھی فقیہ (یعنی دین کی گہری سمجھ رکھنے والے عالم) تھے:

جلیل القدر تابعی عبداللہ  بن ابی ملیکہ المکیؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا گیا: امير المومنين معاویہؓ نے نہیں بنایا(نفل نماز کو)وتر مگر ایک رکعت کے ساتھ، پھر ابن عباسؓ نے فرمایا : انہوں نے بھی ٹھیک کیا ہے، (کیونکہ) بےشک وہ فقیہ ہیں۔
[الطبقات الكبرى،ابن سَعْد:49، [صحیح البخاري:3764،3765 ، صحیح مسلم:210 (1246)]


حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھی سب سے زیادہ مشابہ نماز رسول اللہ ﷺ(کی نماز)سے اس تمہارے امیر سے یعنی معاویہ۔
[سير أعلام النبلاء(امام)الذَّهَبي:3 /135، سنده صحيح، مسند الشاميين للطبراني:272+273، حلية الأولياء(امام)أبو نعيم:8/275، ، مجمع الزوائد:15920]





(10) آپؓ بھی قرآنی صفاتِ اولیاء {یعنی ذاکرین(سورۃ آل عمران:191) اور مخلصین(سورۃ الاعراف:29)} سے متصف تھے:
حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کا مسجد میں موجود ایک حلقہ کے پاس سے گزر ہوا تو کہا: تم کو کس چیز نے بٹھایا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا: کیا تمہیں اللہ کی قسم صرف اسی بات نے بٹھایا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم صرف اسی لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت معاویہؓ نے کہا: میں نے تم سے قسم کسی بدگمانی کی وجہ سے نہیں لی اور(یہ اس لئے کہ) میرے مقام و مرتبہ والا کوئی بھی آدمی رسول اللہ ﷺ سے مجھ سے کم حدیثوں کو بیان کرنے والا نہیں، اور بیشک ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کرام کے کسی حلقے کی طرف تشریف لے گئے، تو فرمایا: تمہیں کس بات نے بٹھلایا ہوا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہم اللہ کا ذکر کرنے اور اس کی اس بات پر حمد کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور ہم پر اس کے ذریعہ احسان فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اللہ کی قسم! تمہیں اس بات کے علاوہ کسی بات نے نہیں بٹھایا؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کی قسم! ہم صرف اسی لئے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تم سے قسم کسی بدگمانی کی وجہ سے نہیں اٹھوائی بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ اللہ رب العزت تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کر رہا ہے۔
[صحيح مسلم:2701، مسند أحمد:16835]


(11) آپؓ بڑے سخی خلیفہ تھے:
حضرت عبدالله بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نہیں دیکھا میں نے کسی ایک کو بھی لوگوں میں رسول الله ﷺ کے بعد معاویہؓ سے اسود۔
یعنی بڑا سخی یا بردبار۔
[النهاية في غريب الحديث والأثر: ج2 ص418، لسان العرب:3/ 228، مجمع بحار الأنوار:3/ 141]
خصوصا اہلِ مدینہ کیلئے۔
۔۔۔کہا گیا: کیا آپ کے والد بھی نہیں تھے؟ فرمایا :میرے ابو عمر بہتر تھے لیکن معاویہ سخاوت میں ان سے زیادہ تھے۔






شیعہ کتاب میں عقیدتِ معاویہ :

جب سیدنا معاویہؓ کی وفات (جیسی مصیبت) کی خبر سیدنا حسینؓ کو ملی تو انھوں نے قرآنی حکم (سورۃ البقرہ:١٥٦) پر عمل پیرا ہوتے فرمایا: اِناَ للہ وَاِناَّ اِلَیْہِ راَجِعُوْن۔ (یعنی بیشک ہم الله ہی (کی ملکیت) کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے) اور مزید فرمایا: وَرَحِمَ اللہُ مَعاَوِیَہْ۔ (یعنی اور رحم کیا الله نے معاویہ پر)
[مقتل الامام الحسین بین علی  : صفحہ42]




حضرت معاویہؓ پر طعن:
بعض لوگ حضرت معاویہؓ پرطعن کرتے ہیں، حالانکہ صحابہ کرام کو بُرا کہنے والا خود بُرا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے :
’لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِي‘ ۔
ترجمہ:
’’میرے کسی صحابی کو بُرا بھلا نہ کہو۔‘‘
[صحیح مسلم : 2541]

عظیم تابعی، امام حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ حضرت معاویہؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا :
عَلٰی أُولٰئِکَ الَّذِینَ یَلْعَنُونَ، لَعْنَۃُ اللّٰہِ ۔
ترجمہ:
’’ان پر لعنت کرنے والے اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں۔‘‘
[تاریخ دمشق لابن عساکر : 206/59، وسندہٗ صحیحٌ]

ابراہیم بن میسرہ کہتے ہیں :
مَا رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ضَرَبَ إِنْسَانًا قَطُّ، إِلَّا إِنْسَانًا شَتَمَ مُعَاوِیَۃَ، فَإِنَّہٗ ضَرَبَہٗ أَسْوَاطًا ۔
ترجمہ:
’’میں نے امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو کبھی کسی انسان کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا، انہوں نے صرف اس شخص کو کوڑے مارے جس نے سیدنا معاویہؓ کو بُرا بھلا کہا تھا۔‘‘

[تاریخ دمشق لابن عساکر : 211/59، وسندہٗ حسنٌ]







توہینِ صحابہ کی سزا:
سیدنا علی المرتضیٰ ؓ (اور حضرت انسؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
«مَنْ سَبَّ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَاقْتُلُوهُ، وَمَنْ سَبَّ وَاحِدًا مِنْ ‌أَصْحَابِي ‌فَاجْلِدُوهُ»
ترجمہ:
جس شخص نے کسی نبی کو گالی دی وہ قتل کیا جائے اور جو شخص اس نبی کے صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے لگائے جائیں۔
[فوائد تمام:740، المعجم الصغير للطبراني:659، المعجم الأوسط:4602
وَله شَاهد فِي الْجَامِع الْكَبِير انْتهى
[العجالة في الأحاديث المسلسلة: ص65]]

امام مالکؒ کا فتویٰ:
مَنْ ‌سَبَّ أَبَا بَكْرٍ ‌وَعُمَرَ جُلِدَ
ترجمہ:
جو برا بھلا کہے ابوبکر وعمر کو تو اسے کوڑے مارو۔
[ثلاثة مجالس من أمالي أبي سعيد النقاش:12 ، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:7/1327، المحلى بالآثار:12/ 440، المنتقى شرح الموطإ:7/ 206، جامع الأحاديث:22361]


مَا رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ضَرَبَ إِنْسَانًا قَطُّ إِلَّا إِنْسَانًا ‌شَتَمَ ‌مُعَاوِيَةَ، ‌فَإِنَّهُ ‌ضَرَبَهُ أَسْوَاطًا.
ترجمہ:
ایک شخص نے سیدنا معاویہؓ کو بُرا کہا تو عمر بن عبد العزیزؒ نے اسے کوڑے لگوائے تھے۔
[تاریخ دمشق(امام)ابن عساکر: 59 / 211، وسندہ صحیح، دار الفكر]
[البداية والنهاية، ابن كثير: 11/ 451، دار هجر]



کیا یزید کی غلطیاں حضرت معاویہؓ پر ڈالنا عدل ہے؟
القرن:
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور جس کسی پر بڑا بوجھ لدا ہوا ہو، وہ اگر کسی اور کو اس کے اٹھانے کی دعوت دے گا تو اس میں سے کچھ بھی اٹھایا نہیں جائے گا، چاہے وہ (جسے بوجھ اٹھانے کی دعوت دی گئی تھی) کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ (اے پیغمبر) تم انہی لوگوں کو خبردار کرسکتے ہو جو اپنے پروردگار کو دیکھے بغیر اس سے ڈرتے ہوں۔ اور جنہوں نے نماز قائم کی ہو، اور جو شخص پاک ہوتا ہے وہ اپنے ہی فائدے کے لیے پاک ہوتا ہے۔ اور آخرکار سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔[سورۃ فاطر:18]




علماءِ حق اور علماءِ سوء میں فرق کا معیار:

حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ الْعَبَّاسُ بْنُ يُوسُفَ الشِّكْلِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ الْبَزَّارُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي خَلَفُ بْنُ تَمِيمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السُّرِّيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا أَظْهَرَتْ أُمَّتِي الْبِدَعَ وَشُتِمَ أَصْحَابِي فَلْيُظْهِرِ الْعَالِمُ عِلْمَهُ فَإِنَّ كَاتِمَ الْعِلْمِ يَوْمَئِذٍ كَكَاتِمِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
حضرت جابر بن عبداللهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب میری اُمت میں بدعتیں ظاہر ہوجائیں اور میرے صحابہؓ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے ، پس بیشک علم کو چھپانے والا اس دن ایسا ہوگا جیسے چھپانے والا ہو اس چیز کا جو(شریعت) نازل کی الله نے محمد ﷺ پر.
[الشريعة، للآجري :1987
السنة، لابن أبي عاصم (المتوفى: 287هـ)رقم الحديث:994
السنن الواردة، الداني (المتوفى: 444هـ) :287،الرسالة الوافية:1/285
الإبانة الكبرى لابن بطة(المتوفى: 387هـ):49
فيض القدير شرح الجامع الصغير (المتوفى: 1031هـ):751(1/401)
السيوطي في مفتاح الجنة (1/ 66) ،جامع الأحاديث:2335(2/352)
الديلمي:1/206،التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِير:747(2/140)
المدخل،لابن الحاج:1/6

علماءِ حق پر کیوں شانِ معاویہ بیان کرنا لازم ہے؟

حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ الْعَبَّاسُ بْنُ يُوسُفَ الشِّكْلِيُّ ، قال : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَلَّبِ الزُّهْرِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ السَّاحِلِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، وَالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالا : حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا حَدَثَ فِي أُمَّتِي الْبِدَعُ وَشُتِمَ أَصْحَابِي فَلْيُظْهِرِ الْعَالِمُ عِلْمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ " . فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ : فَقُلْتُ لِلْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ : مَا إِظْهَارُ الْعِلْمِ ؟ قَالَ : إِظْهَارُ السُّنَّةِ ، إِظْهَارُ السُّنَّةِ .
[الشريعة للآجري » كِتَابُ فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَؓ » بَابُ عُقُوبَةِ الإِمَامِ وَالأَمِيرِ لأَهْلِ الأَهْوَاءِ ... رقم الحديث:2075]
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب میری اُمت میں بدعتیں پیدا ہوجائیں اور میرے صحابہؓ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے گا اس پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب انسانوں کی ۔ عبداللہ بن حسن ؒ نے فرمایا کہ میں نے ولید بن مسلم سے دریافت کیا کہ حدیث میں اظہار علم سے کیا مراد ہے ، فرمایا:اظہار سنت.
(الاعتصام للشاطبی:١/٨٨)1/104
فيض القدير شرح الجامع الصغير:751(1/401)
ديلمي:1/206، التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ:747(2/140)
جامع الأحاديث:2336،مفتاح الجنة:1/68
والربيع في مسنده (1 / 365)
والديلمي في الفردوس (1 / 321)
قال السيوطي في الدر المنثور (2 / 402)

والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي (2 / 118)
ابن عساكر في «تاريخ دمشق» (54/80 - ط. دار الفكر) (5/ق331) 
عن رسول الله (صلّى الله عليه وآله وسلّم) أنه قال : « إِذَا ظَهَرَتِ الْبِدَعُ فِي أُمَّتِي فَلْيُظْهِرِ الْعَالِمُ عِلْمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُاللَّهِ » الكاج 1 ص 54 باب البدع والرأي والمقاييس. ح 2.
عن رسول الله (صلّى الله عليه وآله وسلّم) : «إذا ظهرت البدع ولعن آخر هذه الأمة أولها ، فمن كان عنده علم فلينشره ، فإن كاتم العلم يومئذ ككاتم ما أنزل الله على محمد » الجامع الصغير : 1 / 115 / 751 ، كنز العمال : 1 / 178 / 903 وكلاهما عن ابن عساكر عن معاذ.




***********************


لفظ "معاویہ" کا معنیٰ:
معاویہ رات کے آخری پہر میں آسمان پر چمکنے والے ستارے کا نام ہے کہ جس کے طلوع ہونے پر کتے بھونکنا شروع کر دیتے ہیں اور کتوں کی عادت ستاروں کو دیکھ کر بھونکنا ہے ۔[لسان العرب جلد 15 صفحہ 108]

حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کے پوتے اور حضرت امام حسنؓ کے بھتیجے کا نام “معاويہ” تھا ۔ 
[طبقات ابن سعد جلد نمبر سوم حصّہ پنجم و ششم صفحہ نمبر 292 مترجم اردو مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی]


















 






















***********************
حضرت معاویہؓ کے لئے نبوی دعائیں:

1 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ " اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ " .
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ ... رقم الحديث: 3806]
ترجمہ :
حضرت عبد الرحمٰن بن ابی عميرة المزني سے روایت ہے، اور وہ تھے نبی ﷺ کے صحابہ میں سے، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک انہوں نے (دعا)  فرمائی حضرت معاویہؓ کے لئے: اے الله ! اس کو ہادی بنا اور مہدی (ہدایت-یافتہ) بنا اور اس سے (دوسروں کو) ہدایت دے۔
[احمد: 17895، ترمذي:3842]

المحدث: الترمذي 
خلاصة حكم المحدث: حسن غريب
المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3842


المحدث: الألباني 
خلاصة حكم المحدث: صحيح
المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3842، المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 6196، المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1969



تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيجامع الترمذي38063842محمد بن عيسى الترمذي256
2اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيمسند أحمد بن حنبل1754617438أحمد بن حنبل241
3اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيمسند الشاميين للطبراني306311سليمان بن أحمد الطبراني360
4اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذابعبد الرحمن بن أبيمسند الشاميين للطبراني326333سليمان بن أحمد الطبراني360
5اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيمسند الشاميين للطبراني327334سليمان بن أحمد الطبراني360
6اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيمسند الشاميين للطبراني21582198سليمان بن أحمد الطبراني360
7اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به وقال يكون معهعبد الرحمن بن أبيمسند الشاميين للطبراني21592199سليمان بن أحمد الطبراني360
8اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيإتحاف المهرة12864---ابن حجر العسقلاني852
9اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيالمعجم الأوسط للطبراني672656سليمان بن أحمد الطبراني360
10اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيمعجم الصحابة لابن قانع9651084ابن قانع البغدادي351
11اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيفوائد ابن أخي ميمي الدقاق445452أبو الحسين البغدادي390
12اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به واهدهعبد الرحمن بن أبيجزء أبي ذر الهروي34---عبد بن أحمد الهروي434
13اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهدي بهعبد الرحمن بن أبيحديث عباس الترقفي44---عباس بن عبد الله الترقفي267
14اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتلخيص المتشابه في الرسم5781 : 405الخطيب البغدادي463
15اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيالسنة لأبي بكر بن الخلال696---أبو بكر الخلال311
16اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيالسنة لأبي بكر بن الخلال698---أبو بكر الخلال311
17اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به ولا تعذبهعبد الرحمن بن أبيالشريعة للآجري1908---الآجري360
18اللهم اهده واجعله هاديا مهدياعبد الرحمن بن أبيالشريعة للآجري1909---الآجري360
19اللهم اجعله هاديا مهتديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيشرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي23172778هبة الله اللالكائي418
20يذكر معاوية فقال اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيالحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة 2491---قوام السنة الأصبهاني535
21اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيطرح التثريب للعراقي421 : 108أبو زرعة العراقي806
22اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيحلية الأولياء لأبي نعيم1300713024أبو نعيم الأصبهاني430
23اللهم اجعله هاديا مهديا اهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيالطبقات الكبرى لابن سعد94007 : 198محمد بن سعد الزهري230
24اللهم اجعله هاديا مهديا واهده وأهد بهعبد الرحمن بن أبيالتاريخ الكبير للبخاري94410743محمد بن إسماعيل البخاري256
25اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم10281129ابن أبي عاصم287
26اللهم اهده واجعله هاديا مهدياعبد الرحمن بن أبيطبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها472475أبو الشيخ الأصبهاني369
27اللهم اهده واجعله هاديا مهدياعبد الرحمن بن أبيأخبار أصبهان لأبي نعيم5591 : 221أبو نعيم الأصبهاني430
28اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيمعرفة الصحابة لأبي نعيم42394651أبو نعيم الأصبهاني430
29اللهم اجعله هاديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ بغداد للخطيب البغدادي1321 : 574الخطيب البغدادي463
30اللهم اجعله هاديا مهدياعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر3925---ابن عساكر الدمشقي571
31اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذابعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر3581435 : 230ابن عساكر الدمشقي571
32اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذابعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6365859 : 79ابن عساكر الدمشقي571
33اللهم علمه العلم واجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6365959 : 80ابن عساكر الدمشقي571
34اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366059 : 80ابن عساكر الدمشقي571
35اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366159 : 80ابن عساكر الدمشقي571
36اللهم اجعله هاديا مهديا اللهم اهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366259 : 81ابن عساكر الدمشقي571
37اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366359 : 81ابن عساكر الدمشقي571
38اللهم اجعله هاديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366459 : 82ابن عساكر الدمشقي571
39اللهم اجعله هاديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366559 : 82ابن عساكر الدمشقي571
40اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366659 : 82ابن عساكر الدمشقي571
41اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366759 : 82ابن عساكر الدمشقي571
42اللهم اجعل معاوية هاديا مهديا واهده واهد على يديهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366859 : 83ابن عساكر الدمشقي571
43اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6366959 : 83ابن عساكر الدمشقي571
44اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6367059 : 83ابن عساكر الدمشقي571
45اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتاريخ دمشق لابن عساكر6367159 : 84ابن عساكر الدمشقي571
46اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيأسد الغابة928---علي بن الأثير630
47اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيسير أعلام النبلاء الذهبي399---الذهبي748
48اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيسير أعلام النبلاء الذهبي400---الذهبي748
49اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذابعبد الرحمن بن أبيسير أعلام النبلاء الذهبي401---الذهبي748
50اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعبد الرحمن بن أبيتهذيب الكمال للمزي1945---يوسف المزي742
51اللهم اجعله هاديا مهديا واهد بهعبد الرحمن بن أبيالسفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة704---ابن أبي خيثمة279






**********************************

2 - (حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سَيْفٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ ، عَنِالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:)" اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ ، وَالْحِسَابَ ، وَقِهِ الْعَذَابَ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ ... رقم الحديث: 16819]
ترجمہ: حضرت عرباض بن سارية رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ کہتے:  ’’اے اللہ! علم سکھا معاویہؓ کو کتاب  کا اور حساب کا اور اس کو عذاب سے بچا۔‘‘








تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةمسند أحمد بن حنبل1681916702أحمد بن حنبل241
2اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةصحيح ابن خزيمة18365008ابن خزيمة311
3اللهم علم معاوية الكتاب والحساب ووقه العذابعرباض بن ساريةصحيح ابن حبان736616 : 191أبو حاتم بن حبان354
4اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةالبحر الزخار بمسند البزار 10-131204202أبو بكر البزار292
5اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةمسند الشاميين للطبراني19902010سليمان بن أحمد الطبراني360
6اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةإتحاف المهرة13141---ابن حجر العسقلاني852
7اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةكشف الأستار25622721نور الدين الهيثمي807
8اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةالمعجم الكبير للطبراني15051628سليمان بن أحمد الطبراني360
9اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةمشيخة أبي الطاهر بن أبي الصقر3331ابن مفلح اللخمي476
10اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذاب وأدخله الجنةعرباض بن ساريةالسابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي12---أبو طاهر السلفي576
11اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةمعجم الشيوخ لتاج الدين السبكي300---السبكي771
12اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةحديث أبي القاسم الكناني11---حمزة بن محمد الكناني357
13اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةثبت عمر بن أحمد بن علي الشماع230---عمر بن أحمد بن علي الشماع936
14اللهم علم معاوية الحساب والكتاب وقه العذابعرباض بن ساريةأمالي ابن بشران751 : 55أبو القاسم بن بشران430
15اللهم اجعله هاديا مهديا وأرضه وارض عنهعرباض بن ساريةأمالي ابن بشران 2720---أبو القاسم بن بشران430
16اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةمجلسان من أمالي أبي محمد الجوهري11---الحسن بن علي الجوهري454
17اللهم علم معاوية الحساب والكتابة وقه العذابعرباض بن ساريةأمالي ابن بشران ( مجالس أخرى )751 : 55عبد الملك بن بشران431
18اللهم علم معاوية الحساب والكتاب وقه العذابعرباض بن ساريةالسنة لأبي بكر بن الخلال695---أبو بكر الخلال311
19اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةجزء البطاقة للكناني11---حمزة بن محمد الكناني357
20اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةالشريعة للآجري1905---الآجري360
21اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةالشريعة للآجري1906---الآجري360
22اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةطرح التثريب للعراقي411 : 107أبو زرعة العراقي806
23هلموا إلى الغداء المبارك فسمعته يقول اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةالمعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان8672 : 201يعقوب بن سفيان277
24اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةمعرفة الصحابة لأبي نعيم19882137أبو نعيم الأصبهاني430
25اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةمعرفة الصحابة لأبي نعيم51055596أبو نعيم الأصبهاني430
26اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر63638---ابن عساكر الدمشقي571
27اللهم علم معاوية الحساب والكتاب وقه العذابعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر6364059 : 75ابن عساكر الدمشقي571
28اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر6364259 : 76ابن عساكر الدمشقي571
29اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر6364459 : 76ابن عساكر الدمشقي571
30اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر6364559 : 76ابن عساكر الدمشقي571
31اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر6364759 : 77ابن عساكر الدمشقي571
32اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذاب وأدخله الجنةعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر6364959 : 77ابن عساكر الدمشقي571
33اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةتاريخ دمشق لابن عساكر6365159 : 77ابن عساكر الدمشقي571
34اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةالتدوين في أخبار قزوين للرافعي1002---عبد الكريم الرافعي623
35اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذابعرباض بن ساريةفضائل الصحابة لأحمد بن حنبل15451748أحمد بن حنبل241


المحدث: ابن حبان المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 7210
خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه

المحدث: الجورقاني المصدر: الأباطيل والمناكير - الصفحة أو الرقم: 1/339
خلاصة حكم المحدث: مشهور

المحدث: الذهبي المصدر: سير أعلام النبلاء - الصفحة أو الرقم: 3/124
خلاصة حكم المحدث: للحديث شاهد قوي

المحدث: الألباني المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 3227 (7/692)
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن في الشواهد (إسناده مرسل صحيح - الراوي: شريح بن عبيد)



ان ہی الفاظ سے حدیث حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ , قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ كَعْبٍ , قَالَ : حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ دَعَا فَقَالَ : " اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ ، وَوَقِّهِ الْعَذَابَ " .




3 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ حَلْبَسٍ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ : لَمَّا عَزَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ ، عَنْ حِمْصَ وَلَّى مُعَاوِيَةَ ، فَقَالَ النَّاسُ : عَزَلَ عُمَيْرًا وَوَلَّى مُعَاوِيَةَ ، فَقَالَ عُمَيْرٌ لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ " 
ترجمہ :
حضرت عمیر (بن سعید) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ معاویہؓ کا تذکرہ خیر (بھلائی) کے سوا مت کرو کیونکہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے (معاویہؓ کے بارے میں یہ) فرماتے : اے الله ! اسے ہدایت دے۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1اللهم اهد بهعمير بن سعدجامع الترمذي38073843محمد بن عيسى الترمذي256
2لا تذكروا معاوية إلا بخير فإني سمعت رسول الله يقول اللهم اهدهعمير بن سعدالتاريخ الكبير للبخاري94510743محمد بن إسماعيل البخاري256
3اللهم اجعل معاوية هاديا مهديا واهده واهد بهعمير بن سعدتاريخ دمشق لابن عساكر6367259 : 84ابن عساكر الدمشقي571
4اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد بهعمير بن سعدتاريخ دمشق لابن عساكر6367359 : 85ابن عساكر الدمشقي571




4 - قَالَ لِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ مُبَارَكٍ الصُّورِيُّ ، قَالَ : نَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي وَحْشِيُّ بْنُ حَرْبِ بْنِ وَحْشِيٍّ ، عَنْأَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : كَانَ مُعَاوِيَةُ رَدِفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : " يَا مُعَاوِيَةُ ، مَا يَلِينِي مِنْكَ " ، قَالَ : بَطْنِي ، قَالَ : " اللَّهُمَّ امْلأْهُ عِلْمًا وَحِلْمًا " .
[التاريخ الكبير للبخاري » باب النون » باب وحشي » وَحْشِيٌّ الْحَبَشِيُّ ... رقم الحديث: 63681]
ترجمہ : حضرت وحشي بن حربؓ اپنے والد سے، وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت معاویہؓ نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے، تو آپ نے فرمایا : اے معاویہ! تمہارے جسم کا کونسا حصہ میرے قریب تر ہے؟ فرمایا : میرا شکم (پیٹ) ، تو آپ نے فرمایا : اے الله! بھردے اسے علم و حلم (برداشت) سے.

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ما يليني منك قال بطني قال ملأها الله علما وحلماوحشي بن حربأمالي ابن بشران 2731---أبو القاسم بن بشران430
2ما يليني منك قال بطني وصدري قال ملأهما الله علما وحلماوحشي بن حربالشريعة للآجري1911---الآجري360
3ما يليني منك قال بطني قال اللهم املأه علما وحلماوحشي بن حربالشريعة للآجري1912---الآجري360
4ما يليني منك قال بطني قال اللهم املأه علما وحلماوحشي بن حربالتاريخ الكبير للبخاري99011962محمد بن إسماعيل البخاري256
5ماذا يليني منك يا معاوية قال بطني قال اللهم املأه حلما وعلماوحشي بن حربتاريخ دمشق لابن عساكر6368159 : 78ابن عساكر الدمشقي571
6ما يليني منك قال بطني قال اللهم املأه علما وحلماوحشي بن حربتاريخ دمشق لابن عساكر68195---ابن عساكر الدمشقي571



عن شداد بن أوس قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) معاوية أحلم أمتي وأجودها۔
ترجمہ:
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاویہ میری امت میں سب سے زیادہ خواب دیکھنے والا اور مہربان ہے۔
[تاریخ ابن عساکر: جلد 59: صفحہ 88]







حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ ، قَالَ : نا مُحَمَّدُ بْنُ قَطَنٍ الرَّمْلِيُّ ، قَالَ : نا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ ، اسْتَوْصِ مُعَاوِيَةَ ، فَإِنَّهُ أَمِينٌ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ ، وَنِعْمَ الأَمِينُ هُوَ " .
ترجمہ :
حضرت عبدالله بن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لاۓ اور کہا کہ حضرت معاویہؓ کے حق میں وصیت فرمائیے، (کیونکہ) یہ الله کی کتاب کے امین ہیں اور وہہ عمدہ امین ہیں۔




حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معاملے میں جس کا آپ ارادہ فرما رہے تھے، اس کا حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ فرمایا، تو دونوں حضرات نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: معاویہ کو بلاکر لاؤ، جب وہ آپ کے پاس آئے، تو آپ  ﷺ نے ارشاد فرمایا: انھیں اپنے معاملہ میں حاضر رکھا کرو، اس لیے کہ یہ قوی(طاقت ور) اور امین(امانت دار) ہیں۔
[مسند البزار:3507 (جلد 8: صفحہ 433)، شرح اعتقاد اصول اہل سنت:2778 (جلد 8: صفحہ 1446)]









امارتِ معاویہؓ کی نبوی ﷺ پیشگوئی :
قَالَ : أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ الأَغَرِّ الْمَكِّيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : كَانَتْ إِدَاوَةٌ يَحْمِلُهَا أَبُو هُرَيْرَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاشْتَكَى أَبُو هُرَيْرَةَ فَحَمَلَهَا مُعَاوِيَةُ ، فَبَيْنَمَا هُوَ يُوَضِّئُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ : " يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ وُلِّيتَ مِنْ أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْئًا فَاتَّقِ اللَّهَ وَاعْدِلْ " . فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّي مُبْتَلًى حَتَّى وُلِّيتُ ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

وعن معاوية قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا معاوية إن وليت أمرا فاتق الله واعدل " . قال : فما زلت أظن أني مبتلى بعمل لقول النبي صلى الله عليه و سلم حتى ابتليت. [مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 846]

ترجمہ:
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ بیمار ہوگئے تو ان کے پیچھے حضرت معاویہؓ نے (ان کی خدمتِ نبوی سنبھالی اور) برتن لیا اور نبی ﷺ کے پیچھے چلے گئے، ابھی وہ نبی ﷺ کو وضو کرا رہے تھے کہ نبی ﷺ نے ایک دو مرتبہ ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا "اے معاویہ ! اگر تمہیں (مومنین کے) کسی کام کا متولی وحاکم بنایا جائے تو (امورِ حکومت کی انجام دہی میں) اللہ سے ڈرتے رہنا اور عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔" حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں برابر خیال کرتا رہا کہ آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے بموجب میں کسی کام (یعنی امارت وسرداری) میں مبتلا کیا جاؤں گا ۔ یہاں تک کہ میں مبتلا کیا گیا (یعنی دورِ فاروقی میں آنحضرت ﷺ کا فرمان ثابت ہوا اور امارت وسرداری نصیب ہوئی)۔"
[مسند احمد:16933، مسند أبي يعلى:7380، دلائل النبوة للبيهقي:6/ 446]

المحدث: الهيثمي المصدر: مجمع الزوائد -الصفحة أو الرقم: 9/358
خلاصة حكم المحدث: مرسل ‏ورجاله رجال الصحيح‏‏

المحدث: الألباني المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 3642
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1إن وليت أمرا فاتق الله واعدلمعاوية بن صخرمسند أحمد بن حنبل1659516486أحمد بن حنبل241
2إن وليت أمرا فاتق الله واعدلمعاوية بن صخرمسند أبي يعلى الموصلي73237380أبو يعلى الموصلي307
3إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخرالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر41894051ابن حجر العسقلاني852
4إن وليت أمرا فاتق الله واعدلمعاوية بن صخرإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة35385683البوصيري840
5إن وليت أمرا فاتق الله واعدلمعاوية بن صخرالمقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء758850الهيثمي807
6إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخرمصنف ابن أبي شيبة3012131234ابن ابي شيبة235
7إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني56465500سليمان بن أحمد الطبراني360
8إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخرالمعجم الكبير للطبراني16240850سليمان بن أحمد الطبراني360
9إن ملكت معاوية فأحسنمعاوية بن صخرجزء لؤلؤ9146لؤلؤ بن أحمد الضرير672
10إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخرالشريعة للآجري1952---الآجري360
11إن وليت شيئا من أمر أمتي فاتق الله واعدلمعاوية بن صخرالشريعة للآجري1953---الآجري360
12إن وليت من أمر المسلمين شيئا فاتق الله واعدلمعاوية بن صخرالشريعة للآجري1954---الآجري360
13إن وليت أمرا فاتق الله واعدلموضع إرسالشرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي23132773هبة الله اللالكائي418
14إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخرالحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة 2489---قوام السنة الأصبهاني535
15إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخردلائل النبوة للبيهقي2773---البيهقي458
16إن وليت أمرا فاتق الله واعدلمعاوية بن صخردلائل النبوة للبيهقي2774---البيهقي458
17إن وليت من أمور المؤمنين شيئا فاتق الله واعدلموضع إرسالالطبقات الكبرى لابن سعد107808 : 486محمد بن سعد الزهري230
18إن ملكت يا معاوية فأحسنمعاوية بن صخرالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم484520ابن أبي عاصم287
19إن وليت أمرا فاتق الله واعدلموضع إرسالتاريخ دمشق لابن عساكر63732---ابن عساكر الدمشقي571
20إن وليت أمرا فاتق الله واعدلعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر6373359 : 108ابن عساكر الدمشقي571
21إن وليت أمرا فاتق الله واعدلموضع إرسالتاريخ دمشق لابن عساكر6373459 : 108ابن عساكر الدمشقي571
22إن وليت أمرا فاتق الله واعدلمعاوية بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر6373559 : 108ابن عساكر الدمشقي571
23إن ملكت فأحسنمعاوية بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر6373859 : 109ابن عساكر الدمشقي571







حَدَّثَنَاهُ حَدَّثَنَاهُ الدُّورِيُّ قَالَ : ثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ الْمُؤَدِّبُ قَالَ : ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ ، ... ومعنى أسود قيل : أسخى وأعطى للمال ، وقيل : أحكم منه .
[السنة لأبي بكر بن الخلال » ذِكْرُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي ... رقم الحديث: 677]
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نہیں دیکھا کسی ایک کو بھی لوگوں میں رسول الله ﷺ کے بعد معاویہؓ سے زیادہ اسود،  اسود ۔۔۔۔ یعنی: زیادہ سخی اور عطا کرنے والا مال کا، یا حکمران.




سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
كنت ألعب مع الصبيان، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتواريت خلف باب، قال : فجائ، فحطأني حطأة، وقال : ’اذهب، وادع لي معاوية‘، قال : فجئت، فقلت : هو يأكل، قال : ثم قال لي : ’اذهب، فادع لي معاوية‘، قال : فجئت، فقلت : هو يأكل، فقال : ”لا أشبع الله بطنه “ .
’’ میں بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ) میرے کندھوں کے درمیان تھپکی لگائی اور فرمایا : جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں معاویہؓ کے پاس آیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے مجھے دوبارہ فرمایا کہ جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں دوبارہ گیا تو وہ ابھی کھانا ہی کھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کے پیٹ کو نہ بھرے۔“ [صحيح مسلم : 325/2، ح : 2604]
یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتی ہے۔ اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام بطور بددعا نہیں تھا، بلکہ بطور مزاح اور بطور تکیہ کلام تھا۔ کلامِ عرب میں ایسی عبارات کا بطور مزاح یا بطورِ تکیہ کلام استعمال ہونا ایک عام بات ہے۔ عربی لغت و ادب کے ادنیٰ طلبہ بھی اس سے واقف ہیں۔
◈ مشہور لغوی، شارحِ مسلم، حافظ یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ (676-631 ھ) فرماتے ہیں :
إن ما وقع من سبه ودعائه ونحوه، ليس بمقصود، بل هو مما جرت به عادة العرب فى وصل كلامها بلا نية، كقوله : ”تربت يمينك“، ”وعقرٰي حلقٰي‘، وفي هٰذا الحديث : ”لا كبرت سنك“، وفي حديث معاوية : ”لا أشبع الله بطنه“، ونحو ذٰلك، لا يقصدون بشيئ من ذٰلك حقيقة الدعاء .
’’ بعض احادیث میں (صحابہ کرام کے لیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بددعا وغیرہ منقول ہے، وہ حقیقت میں بددعا نہیں، بلکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جو عرب لوگ بغیر نیت کے بطور تکیہ کلام بول دیتے ہیں۔ (بعض احادیث میں کسی صحابی کو تعلیم دیتے ہوئے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ تربت يمينك (تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو)، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ ) عقرى حلقي (تو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو)، اس حدیث میں یہ فرمان کہ لا كبرت سنك (تیری عمر زیادہ نہ ہو) اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ لا اشبع الله بطنه (اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے )، یہ ساری باتیں اسی قبیل سے ہیں۔ ایسی باتوں سے اہل عرب بددعا مراد نہیں لیتے۔“ [شرح صحيح مسلم: 152/16]
◈ مشہورلغوی، ابومنصور، محمد بن احمد، ازہری (م : 370 ھ) ایسے کلمات کے بارے میں : مستند لغوی ابوعبید سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وهٰذا علٰي مذهب العرب فى الدعائ على الشيئ من غير إرادة لوقوعه، لا يراد به الوقوع .
’’ ایسی باتیں عربوں کے اس طریقے کے مطابق ہیں، جس میں وہ کسی کے بارے میں بددعا کرتے ہیں لیکن اس کے وقوع کا ارادہ نہیں کرتے، یعنی بددعا کا پورا ہو جانا مراد ہی نہیں ہوتا۔“ [تهذيب اللغة : 145/1]
شارحِ صحیح بخاری، علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م : 449 ھ) اس طرح کی ایک عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هي كلمة لا يراد بها الدعائ، وإنما تستعمل فى المدح، كما قالوا للشاعر، إذا أجاد، : قاتله الله، لقد أجاد .
’’ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔ اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ جب کوئی شاعر عمدہ شعر کہے تو عرب لوگ کہتے ہیں : قاتله الله ”اللہ تعالیٰ اسے مارے“، اس نے عمدہ شعر کہا ہے۔“ [شرح صحيح البخاري : 329/9]
صحیح مسلم کی یہ حدیث اسی معنی و مفہوم کی مؤید ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كانت عند أم سليم يتيمة، وهى أم أنس، فرآي رسول الله صلى الله عليه وسلم اليتيمة، فقال : ’آنت هيه؟ لقد كبرت، لا كبر سنك‘، فرجعت اليتيمة إلٰي أم سليم تبكي، فقالت أم سليم : ما لك يا بنية؟ قالت الجارية : دعا على نبي الله صلى الله عليه وسلم، أن لا يكبر سني، فالآن لا يكبر سني أبدا، أو قالت : قرني، فخرجت أم سليم مستعجلة تلوث خمارها، حتٰي لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم : ’ما لك يا أم سليم؟‘ فقالت : يا نبي الله ! أدعوت علٰي يتيمتي، قال : وما ذاك يا أم سليم ؟ قالت : زعمت أنك دعوت أن لا يكبر سنها، ولا يكبر قرنها، قال فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال : ’يا أم سليم ! أما تعلمين أن شرطي علٰي ربي، أني اشترطت علٰي ربي، فقلت : إنما أنا بشر، أرضٰي كما يرضي البشر، وأغضب كما يغضب البشر، فأيما أحد دعوت عليه، من أمتي، بدعوة ليس لها بأهل، أن يجعلها له طهورا وزكاة، وقربة يقربه بها منه يوم القيامة‘ .
’’ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ان کے ہاں ایک لڑکی، تھی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا : یہ تو ہے ؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے۔ تیری عمر بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر وہ لڑکی روتی ہوئی سیدہ ام سلیم کی طرف دوڑی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا : بیٹی ! تجھے کیا ہوا ؟ اس نے عرض کیا : میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرما دی ہے کہ میری عمر نہ بڑھے۔ اب تو میری عمر کبھی نہیں بڑھے گی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی چادر زمین پر گھسیٹتے ہوئے گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام سلیم ! آپ کو کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! آپ نے اس لڑکی کے لیے بددعا فرمائی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بات کیا ہے ؟ عرض کیا : لڑکی کہتی ہے کہ آپ نے اس کو یہ بددعا دی ہے کہ اس کی عمر نہ بڑھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : ام سلیم ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنے رب سے یہ شرط منظور کرائی ہے اور دُعا کی ہے کہ میں ایک انسان ہوں، انسانوں کی طرح راضی بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ لہٰذا جس کے لیے بھی میں بددعا کر دوں جس کا وہ مستحق نہ ہو، تو اس بددعا کو اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور طہارت بنا دے، نیز اس بددعا کو روزِ قیامت اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔“ [صحيح مسلم : 2603]
اب کوئی بتائے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو کسی ناراضی یا غصہ کی بنا پر یہ الفاظ کہے تھے، جو اس لڑکی اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے لیے پریشانی کا سبب بھی بن گئے ؟ اور کیا ان الفاظ سے اس لڑکی کی کوئی تنقیص ثابت ہوتی ہے ؟ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ یہ الفاظ بطور بددعا نہیں تھے اور ایسے الفاظ یقیناً سننے والے کے لیے بسا اوقات پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر دی کہ اللہ تعالیٰ ایسے الفاظ کو مخاطبیں کے لیے اجر و ثواب اور اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے اسی حدیث کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ : لا اشبع الله بطنه ’’ اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے۔“
یوں یہ الفاظ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے باعث تقرب الٰہی اور باعث منقبت و فضیلت ہیں۔ علمائے اہل سنت و اہل حق کا یہی فہم ہے۔
◈ اسی لیے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
فركب مسلم من الحديث الـأول، وهٰذا الحديث فضيلة لمعاوية .
’’ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو پہلی حدیث کے متصل بعد ذکر کیا ہے۔ یوں اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔“ [البداية والنهاية : 120-119/8]
◈ وکیل صحابہ، شارحِ صحیح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631 ھ) فرماتے ہیں :
وقد فهم مسلم رحمه الله من هٰذا الحديث أن معاوية لم يكن مستحقا للدعائ عليه، فلهٰذا أدخله فى هٰذا الباب، وجعله غيره من مناقب معاوية، لأنه فى الحقيقة يصير دعاء له .
’’ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ فہم لیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بددعا کے مستحق نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا ہے۔ امام مسلم کے علاوہ دیگر اہل علم نے بھی اس حدیث کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں شامل کیا ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ حقیقت میں ان کے لیے دُعا بن گئے تھے۔“ [شرح صحيح مسلم : 156/16]
یہ تو بات تھی ان الفاظ کے بارے میں جو بطور مدح وتکیہ کلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے صادر ہوئے تھے، جبکہ معاملہ اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کرام کے لیے بتقاضائے بشریت حقیقی بددعا کر دی، اللہ تعالیٰ نے اس بددعا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ان کے لیے باعث رحمت بنا دیا، جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے :
اللهم ! إنما أنا بشر، فأيما رجل من المسلمين سببته، أو لعنته، أو جلدته، فاجعلها له زكاة ورحمة
’’ اے اللہ ! میں ایک بشر ہوں، لہٰذا مسلمانوں میں سے جس شخص کو میں برا بھلا کہوں یا اس کے لیے بددعا کروں یا اسے ماروں تو ان چیزوں کو اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت بنا دے۔“ [صحيح مسلم : 89/2601]
❀ ایک روایت (صحيح مسلم : 91/2601) میں یہ الفاظ ہیں :
اللهم ! إنما محمد بشر، يغضب كما يغضب البشر، وإني قد اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه، فأيما مؤمن آذيته، أو سببته، أو جلدته، فاجعلها له كفارة، وقربة، تقربه بها إليك يوم القيامة
’’ اے اللہ ! بلاشبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بشر ہیں، انہیں انسانوں کی طرح غصہ آ جاتا ہے۔ میں نے تجھ سے ایسا وعدہ لیا ہوا ہے، جس کو تو نہیں توڑے گا۔ وہ یہ ہے کہ جس مؤمن کو میں تکلیف دوں یا اسے برا بھلا کہوں یا اسے ماروں، تو ان چیزوں کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دے اور روزِ قیامت دے ان چیزوں کو اس کے لیے اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
دخل علٰي رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان، فكلماه بشيئ، لا أدري ما هو، فأغضباه، فلعنهما، وسبهما، فلما خرجا، قلت : يا رسول الله ! من أصاب من الخير شيئا، ما أصابه هذان، قال : ’وما ذاك؟‘ قالت : قلت : لعنتهما وسببتهما، قال : ’أو ما علمت ما شارطت عليه ربي؟‘، قلت : ’اللهم ! إنما أنا بشر، ف أى المسلمين لعنته، أو سببته، فاجعله له زكاة وأجرا‘ .
’’ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کی میں وہ بات سمجھ نہیں پائی۔ ان کی بات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا۔ آپ نے ان کو برا بھلا کہا اور بددعا دی۔ جب وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اتنی تکلیف بھی کسی کو پہنچی ہو گی جتنی ان کو پہنچی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا مطلب ؟ میں نے عرض کیا : آپ نے انہیں برا بھلا کہا اور بددعا دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ کو وہ شرط معلوم ہے جو میں نے اپنے رب پر رکھی ہے ؟ میں نے اپنے رب سے یہ شرط رکھی ہے کہ اے اللہ ! میں ایک بشر ہوں، لہٰذا جس مسلمان کو میں بددعا دوں یا برا بھلا کہوں، تو اسے اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور اجر کا باعث بنا دے۔“ [صحيح مسلم : 2600]
ثابت ہوا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے میں کسی صحابی کے لیے حقیقی بددعا بھی کر دی تو وہ بھی اس صحابی کے لیے اجر و ثواب اور مغفرت و تقرب الٰہی کا باعث بن گئی۔ چہ جائیکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کی کوئی دلیل بھی نہیں۔
اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاخیر کی بنا پر غصے میں یہ الفاظ کہے تو بھی ہماری ذکر کردہ احادیث کی روشنی میں یہ الفاظ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت اور تقربِ الٰہی کی بین دلیل ہیں۔
اس حدیث کا سیاق بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت پر دلالت کرتا ہے، مسند طیالسی ( 2869، وسندہ صحیح ) میں اسی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم بعث إلٰي معاوية، يكتب له .
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کے لیے وحی کی کتابت کریں۔“
یعنی اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا کاتب وحی ہونا ثابت ہو رہا ہے، جو کہ باجماعِ امت بہت بڑی فضیلت و منقبت اور شرف ہے۔ اسی لیے :
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ (571-499 ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
وأصح ما روي فى فضل معاوية .
’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں مروی سب سے صحیح حدیث یہی ہے۔“ [تاريخ دمشق : 106/59، البداية والنهاية لابن كثير : 131/8]
◈ مشہور اہل حدیث عالم، علامہ، ناصرالدین، البانی رحمہ اللہ (1420-1332 ھ) فرماتے ہیں :
وقد يستغل بعض الفرق هٰذا الحديث، ليتخذوا منه مطعنا فى معاوية رضي الله عنه، وليس فيه ما يساعدهم علٰي ذٰلك، كيف؟ وفيه أنه كان كاتب النبى صلى الله عليه وسلم؟
’’ بعض گمراہ فرقے اس حدیث کو غلط استعمال کرتے ہوئے اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کی تائید کرتی ہو۔ اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کیسے ثابت ہو گی، اس میں تو یہ ذکر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ِ وحی تھے ؟۔“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها : 82]
اتنی تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث کی فضیلت کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت کی دلیل نہ مانے تو اس سے بڑا ظالم اور جاہل کوئی نہیں۔
➋ سیدنا عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا :
اللهم ! علمه الكتاب والحساب، وقه العذاب .
’’ اے اللہ ! انہیں قرآنِ کریم کی تفسیر اور حساب سکھا دے اور ان کو عذاب سے بچا لے۔“ [مسند الإمام أحمد : 127/4، الشريعة للآجري : 1973-1970، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1938) اور امام ابن حبان (7210) نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
اس کا راوی حارث بن زیاد شامی جمہور کے نزدیک ’’ حسن الحدیث“ ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
للحديث شاهد قوي . ’’ اس حدیث کا ایک قوی شاہد بھی موجود ہے۔“ [سير أعلام النبلاء : 124/3]






حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے باہمی تعلقات:
باغی راویوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کو معاذ اللہ ایک دوسرے کا دشمن ثابت کیا جائے۔ کبھی وہ ان کی زبان سے ایک دوسرے پر لعنت کہلواتے ہیں، کبھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہلواتے ہیں اور ان کے اسلام میں شک کرواتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کے اپنے جذبات ہیں جنہیں وہ زبردستی حضرت علی یا معاویہ رضی اللہ عنہما کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی تمام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی سند میں کوئی نہ کوئی جھوٹا راوی جیسے ابو مخنف، ہشام کلبی، سیف بن عمر یا واقدی ضرور موجود ہو گا۔ یہاں ہم چند روایات اور کچھ نکات پیش کر رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کی ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے تھی؟



1۔ حضرت علی کے بھائی عقیل اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان ، حضرت علی کے قریبی ساتھی تھے اور آپ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔ ایک بار عقیل، معاویہ کے پاس بیٹھے تھے تو معاویہ نے جی کھول کر علی کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا: ’’اے ابو یزید(عقیل)! میں علی بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں۔ علی قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں۔علی میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا: ’’امیر المومنین! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی۔‘‘( ابن عساکر۔ 42/416)

2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد جو خط شہروں میں بھیجا، اس میں فرمایا: ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم میں اور اہل شام میں مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اس معاملے میں نہ وہ ہم سے زیادہ تھے اور نہ ہم ان سے۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ( سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58)

3۔ ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’امیر المومنین! آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سے عزت بخشی ہے؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا:’علی! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘ ‘‘( ابن عساکر۔ 42/170)

4۔ خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت معاویہؓ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا: “میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا۔ ” آپ نے فرمایا: “بیان کرو۔” کہنے لگا: “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا۔” آپ نے فرمایا: “کاش! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے۔”( طبری۔ 3/2-357)

جنگِ صفین کے بعد حضرت علیؓ نے فرمایا: “لوگو! آپ لوگ معاویہؓ کی گورنری کو ناپسند مت کریں۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے۔‘‘( ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ 14/38850)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا , فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا , وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا , فَقَالَ : فِيمَا يَقُولُ : " أَيُّهَا النَّاسُ , لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ , وَاللَّهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ ! لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ ! " .

6۔ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان صلح ہو گئی تو علی اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے۔‘‘ پھر معاویہ کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح بتایا تھا۔‘‘
( ابن عساکر۔ 59/139)







متأخرین کیلئے صحیح رویے کی نشاندہی کا ذکر و بیان 
القرآن : وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ
ترجمہ :
اور ان لوگوں کا (بھی اس مال فئے میں حق ہے ) جو ان کے بعد آئے {ف١} جو (ان مذکورین کے حق میں ) دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو بخشدے اور ہمارے ان بھائیوں کو (بھی) جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجئے {ف٢} ․ اے ہمارے رب آپ بڑے شفیق رحیم ہیں ۔ {ف٣}
﴿الحشر:۱۰﴾
تشریح :
(ف١) یعنی ان مہاجرین و انصار کے بعد عالم وجود میں آئے، یا ان کے بعد حلقہ اسلام میں آئے، یا مہاجرین سابقین کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ والظاہر ہو الاول۔
(ف٢) حرص طبعی وجبلی پر ملامت نہیں، البتہ اس کے مقتضائے نا مشروع پر عمل کرنا مذموم ہے ۔
(ف٣) یعنی سابقین کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور کسی مسلمان بھائی کی طرف سے دل میں بیر اور بغض نہیں رکھتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ "آیت سب مسلمانوں کے واسطے ہے جو اگلوں کا حق مانیں اور انہی کے پیچھے چلیں اور ان سے بیر نہ رکھیں ۔" امام مالک نے یہیں سے فرمایا کہ جو شخص صحابہ سے بغض رکھے اور ان کی بدگوئی کرے اس کے لیے مال فئے میں کچھ حصہ نہیں ۔




امام صدر الدین علی بن علی بن محمد بن ابی العز الحنفی اپنی کتاب *" شرح العقيدة الطحاوية "* میں لکھتے ہیں : و أول ملوك المسلمين معاوية رضي الله عنه ، و هو خير ملوك المسلمين ، لكنه إنما صار إماما حقا لما فوض إليه الحسن بن علي رضي الله عنهم الخلافة ، فإن الحسن رضي الله عنه بايعه أهل العراق بعد موت أبيه ، ثم بعد ستة أشهر فوض الأمر إلى معاوية ، فظهر صدق قول النبي ﷺ : إن ابني هذا سيد ، وسيصلح الله به بين فئتين عظيمتين من المسلمين . و القصة معروفة في موضعها . فالخلافة ثبتت لأمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه بعد عثمان رضي الله عنه ، بمبايعة الصحابة ، سوى معاوية مع أهل الشام ، و الحق مع علي رضي الله عنه ، فإن عثمان رضي الله عنه لما قتل كثر الكذب و الافتراء على عثمان وعلى من كان بالمدينة من أكابر الصحابة كعلي و طلحة و الزبير ، و عظمت الشبهة عند من لم يعرف الحال ، وقويت الشهوة في نفوس ذوي الأهواء و الأغراض ، ممن بعدت داره من أهل الشام ، و يحمي الله عثمان ، أن يظن بالأكابر ظنون سوء ، ويبلغه عنهم أخبار ، منها ما هو كذب ، و منها ما هو محرف ، و منها ما لم يعرف وجهه ، و انضم إلى ذلك أهواء أقوام يحبون العلو في الأرض ، و كان في عسكر علي رضي الله عنه من أولئك الطغاة الخوارج ، الذين قتلوا عثمان من لم يعرف بعينه ، و من تنتصر له قبيلته ، ومن لم تقم عليه حجة بما فعله ، و من في قلبه نفاق لم يتمكن من إظهاره كله ، و رأى طلحة و الزبير أنه إن لم ينتصر للشهيد المظلوم ، و يقمع أهل الفساد و العدوان ، و إلا استوجبوا غضب الله و عقابه ، فجرت فتنة الجمل على غير اختيار من علي ، و لا من طلحة و الزبير ، و إنما أثارها المفسدون بغير اختيار السابقين ، ثم جرت فتنة صفين لرأي ، و هو أن أهل الشام لم يعدل عليهم ، أو لا يتمكن من العدل عليهم ، و هم كافون ، حتى يجتمع أمر الأمة ، و أنهم يخافون طغيان من في العسكر ، كما طغوا على الشهيد المظلوم ، و علي رضي الله عنه هو الخليفة الراشد المهدي الذي تجب طاعته ، و يجب أن يكون الناس مجتمعين عليه ، فاعتقد أن الطاعة و الجماعة الواجبتين عليهم تحصل بقتالهم ، بطلب الواجب عليهم ، بما اعتقد أنه يحصل به أداء الواجب ، و لم يعتقد أن التأليف لهم كتأليف المؤلفة قلوبهم على عهد النبي ﷺ و الخليفتين من بعده مما يسوغ ، فحمله ما رآه ، من أن الدين إقامة الحد عليهم و منعهم من الإثارة ، دون تأليفهم ، على القتال ، وقعد عن القتال أكثر الأكابر، لما سمعوه من النصوص في الأمر بالقعود [ في الفتنة ] ، و لما رأوه من الفتنة التي تربو مفسدتها على مصلحتها ، و نقول في الجميع بالحسنى : وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ ۞ ( الحشر: ١٠ ) و الفتن التي كانت في أيامه قد صان الله عنها أيدينا ، فنسأل الله أن يصون عنها ألسنتنا ، بمنه و كرمه .

مسلمانوں کے پہلے بادشاہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ہیں اور وہ مسلمانوں کے تمام بادشاہوں سے بہتر تھے لیکن بعد ازاں وہ بھی خلیفہ برحق تھے جب حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے انہیں خلافت تفویض کر دی تھی ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ کی عراقیوں نے بیعت کی لیکن چھ ماہ بعد انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو تفویض کر دی اس واقعہ سے نبی کریم ﷺ کی تصدیق ہوگئی کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے عنقریب الله تعالی اسکی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروا دے گا یہ واقعہ مشہور ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے لیے خلافت کا استحقاق ہوا صحابہ کرام رضی الله عنہم نے ان کے ہاتھ پر بیعت فرمائی البتہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور اہل شام نے بیعت نہ کی جب کہ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ برحق تھے ۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اور دیگر صحابہ حضرت علی المرتضی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر رضی الله عنہم جو کہ مدینہ شریف میں سکونت پزیر تھے ان کے خلاف جھوٹے افسانے تراشے گئے اور کو لوگ صحیح صورت حال سے واقف نہ تھے وہ شبہات میں مبتلا ہوگئے خود غرض خواہشات کے غلام من مانیاں کر رہے تھے خاص طور وہ لوگ جو شام سے دور رہتے تھے ۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ تو ہمیشہ نہایت محتاط رہے انہوں نے کبھی اپنے اکابر کے خلاف لب کشائی نہ فرمائی البتہ ان کے خلاف جھوٹی بے سروپا باتیں بنا کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دراصل اس گروپ میں وہ لوگ تھے جو اقتدار کے بھوکے تھے نیز حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے گروپ میں ٹیڑھے ذہن والے خارجی بھی تھے جہنوں نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کو شہید کیا تھا کچھ ایسے افراد بھی تھے جو گھناؤنی سازشوں میں مصروف تھے لیکن ہوشیار اتنے تھے کہ وہ گرفت سے محفوظ تھے اور ایسے افراد بھی تھے جن کے دلوں میں نفاق تھا لیکن اظہار سے خائف تھے ۔ ان حالات میں حضرت طلحہ ، حضرت زبیر رضی الله عنہما نے محسوس کیا کہ اگر مظلوم شہید عثمان کا بدلہ نہ لیا گیا اور فسادیوں کے قلع قمع کا کوئی منصوبہ نہ بنایا گیا تو الله تعالی کے غیظ و غضب سے بچاؤ نہیں ہو سکے گا ۔ چنانچہ جنگ جمل اسی کشمکش کا نتیجہ تھی اس میں حضرت علی المرتضی حضرت طلحہ ، اور حضرت زبیر رضی الله عنہم بے اختیار نظر آتے ہیں وہ غیر شعوری طور پر نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح دیگر سابقین و اولین صحابہ کرام بھی اس فتنہ سے اگرچہ محفوظ نہ رہ سکے تاہم یہ سب کچھ فسادیوں کی ریشہ دوانی کا نتیجہ تھا ۔ جنگ جمل کے بعد جنگ صفین بھی ایک عظیم شاخسانہ تھا اس خیال نے اس فتنہ کو جنم دیا کہ شامیوں کے ساتھ عدل و انصاف والا معاملہ نہیں ہو رہا ہے جب کہ ان کی عسکری اور مجتمع تھی البتہ وہ خائف ضرور تھے کہ کہیں فوجی بغاوت نہ ہو جائے جس طرح حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ مظلومانہ شہید ہوئے اسی طرح ان کے بعد آنے والے صاحب اقتدار ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنتے چلے جائیں ۔ دوسری طرف حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ برحق خلیفہ تھے وہ سمجھتے تھے کہ ان کی اطاعت ضروری ہے نیز آ. کے خلاف بغاوت کو فرد ہونا چاہیے اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہونا چاہیے جب وہ انتشار ختم نہ کر سکے تو انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ لڑائی کا اعلان فرمایا جو ان کی اطاعت سے سرتابی کر رہے تھے اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر رہے تھے اب حالات کا رخ دیکھ کر وہ تالیف قلبی کی حکمت کے پیش نظر ایسے لوگوں سے کچھ مروت و ہمدردی کے قائل نہ تھے جس طرح عہد نبوی اور آپ کے بعد آنے والے خلفاء کے عہد خلافت میں تالیف قلبی کا رجحان غالب رہا اور مسلمانوں کی اجتماعیت کے خلاف بپا ہونے والی شورشوں کو نرمی کے ساتھ فرد کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ نے حالات کا گہرے غور و فکر کے ساتھ جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ کہ بغاوت کرنے والوں سے ہرگز نرمی کا برتاؤ نہ کیا جائے ان سے لڑائی کی جائے ان پر اسلامی حدود کا نفاذ کیا جائے ۔ لیکن فتنہ کے اس دور میں اکثر صحابہ کرام رضی الله عنہم الگ تھلگ رہے اس لیے کہ ان کے سامنے ایسے نصوص جن کا تقاضا تھا کہ فتنوں کے دور میں گھروں میں بیٹھنا ہی بہتر ہے اس سے کہ ان میں شریک ہوا جائے ۔ اور مصلحت بھی اسی کی متقاضی تھی کہ مفسدہ سے بچا جائے لیکن ہم تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں اچھا خیال رکھتے ہیں کہ الله تعالی کا فرمان ہے : اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے دعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں معاف فرما اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو بےحد شفقت کرنے والا بہت مہربان ہے ۔ اور جب الله تعالی نے ان فتنوں سے ہمارے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ہے تو ہم الله تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے احسان و کرم سے ہماری زبانوں کو بھی محفوظ فرمائے ۔ ( آمین )

حوالہ درج ذیل ہے :
١_( شرح العقيدة الطحاوية ، لامام صدر الدين علي بن علي بن محمد بن أبي العز الحنفي ، تحت " خلافة علي رضي الله عنه ، ص 479 تا 480 مطبوعة دار ابن رجب ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠٢ء )

۲_( شرح العقيدة لطحاوية ، لامام صدر الدين علي بن علي بن محمد بن أبي العز الحنفي ، تحت " خلافة علي رضي الله عنه ، جلد 2 ص 722 تا 725 ، مطبوعة مؤسسة الرسالة)



حضرت امیر معاویہؓ


نام ونسب

معاویہؓ نام، ابو عبدالرحمن کنیت ،والد کا نام ابو سفیان تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، معاویہ بن صخر ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی قرشی اموی، ماں کا نام ہندہ تھا،نانہالی شجرہ یہ ہے ،ہندہ بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشیہ  امویہ، اس طرح معاویہؓ کا شجرہ پانچویں پشت پر آنحضرت سے مل جاتا ہے۔


خاندانی حالات اور اسلام

ان کا خاندان بنو امیہ زمانۂ جاہلیت سے قریش میں معزز ممتاز چلا آتا تھا، ان کے والد ابوسفیان قریش کے قومی نظام میں عقاب یعنی علمبرداری کے عہدہ پر ممتاز تھے،ابو سفیان آغاز بعثت سے فتح مکہ تک اسلام کے سخت دشمن رہے اورآنحضرت  اورمسلمانوں کی ایذار رسانی اوراسلام کی بیخ کنی میں کوئی امکانی کوشش باقی نہیں رکھی،اس زمانہ میں اسلام کے خلاف جس قدر تحریکیں ہوئیں، ان سب میں علانیہ یادر پردہ ان کا ہاتھ ضرور ہوتا تھا،فتح مکہ کے دن ابو سفیان اورمعاویہ دونوں مشرف باسلام ہوئے،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہؓ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں دولتِ اسلام سے بہرور ہوچکے تھے، لیکن باپ کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن یہ روایت مسلمہ روایت کے بالکل خلاف ہے اوراس کی تائید میں اور کوئی شہادت نہیں ملتی اسی لئے ناقابل اعتبار ہے تاہم اس قدر یقینی ہے کہ ابو سفیان کی اسلام سے دشمنی کے باوجود معاویہؓ کو مسلمانوں سے کوئی خاص عناد نہ تھا؛چنانچہ ان کے اسلام لانے سے پہلے بدر اوراحد وغیرہ بڑے بڑے معرکے ہوئے مگر ان میں سے کسی میں مشرکین کے ساتھ معاویہ کی شرکت کا پتہ نہیں چلتا۔



غزوات

ان کے مشرف باسلام ہونے کی خوشی میں آنحضرت نے انہیں مبارکباد دی ،قبول اسلام کے بعد معاویہؓ حنین اورطائف کے غزوات میں شریک ہوئے ،حنین کے مال غنیمت میں سے آنحضرت نے ان کو سو اونٹ اور ۴۰ اوقیہ سونا یا چاندی مرحمت فرمایا تھا
(ابن سعد ،جزو۷،ق۲،صفحہ۱۲۸، وتہذیب الاسماء نووی ،جلد۱،صفحہ:۱۰۲) اسی زمانہ میں معاویہؓ کے خاندانی وقار کے لحاظ سے ان کو کتابت وحی کا جلیل القدر منصب ملا۔

(حوالۂ مذکور)




فتوحات شام

امیر معاویہؓ بالکل آخر میں اسلام لائے تھے،اس لئے آنحضرت کی زندگی میں ان کو کوئی نمایاں کارنامہ دکھانےکا موقع نہ مل سکا،اس  کا آغازحضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت سے ہوتا ہے شام کی فوج کشی میں امیر معاویہؓ کے بھائی یزید ایک دستہ کے افسر تھے ارون کی فتح کے سلسلہ میں جب حضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار فوج نے عمروبن العاصؓ کو اس کے ساحلی علاقہ پر مامور کیا اوران کے مقابلہ کے لئے رومیوں کا انبوہ کثیر جمع ہوا اورقسطنطنیہ سے امدادی فوجیں آئیں، تو عمرو بن العاصؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ سے مزید امداد طلب کی اس وقت انہوں نے یزید بن ابی سفیان کو روانہ کیا اس امدادی دستہ کے مقدمۃ الجیش کی کمان معاویہؓ کے ہاتھ میں تھی، اس مہم میں انہوں نے کارہائے نمایاں دکھائے، (فتوح البلدان بلاذری:۱۳۳) اس کے بعد اس سلسلہ کی تمام لڑائیوں میں برابر شریک ہوتے رہے؛چنانچہ مرج صفر کے معرکہ میں جب عمرو بن العاص کے بھتیجے خالد شہید ہوئے تو ان کی تلوار معاویہؓ کے قبضہ میں آئی۔

(فتوح البلدان بلاذری:۱۲۶)

دمشق کی تسخیر کے بعد جب یزید صیدا،عرقہ، جبیل اوربیروت وغیرہ کے ساحلی علاقہ کی طرف بڑھےتوحضرت معاویہؓ اس پیش قدمی میں مقدمۃ الجیش کی رہبری کررہے تھے اورعرقہ تما متران ہی کی کوششوں سے فتح ہوا، اس کے بعد جب حضرت عمرؓ کے آخر عہدِ خلافت میں رومیوں نے شام کے بعض مقامات واپس لے لئے تو معاویہؓ نے ان کو زیر کرکے دوبارہ زیر نگین کیا۔

(ایضا:۱۳۳)

مذکورۂ بالا مقامات کی تسخیر کے بعد یزید نے باقی ماندہ علاقہ پر امیر معاویہؓ کو متعین کردیا، انہوں نے نہایت آسانی کے ساتھ تمام قلعے تسخیر کئے اورزیادہ کشت وخون کی نوبت نہیں آنے پائی کہیں خفیف سی جھڑپ ہوجاتی تھی، قیسا ریہ کی مہم حضرت عمرؓ نے خاص ان کے سپرد کی تھی، انہوں نے اس  کو بھی نہایت کامیابی کے ساتھ سرکیا، جب یہ قیساریہ پہنچے تو رومی کماندار" اینی" سامنے آیا، دونوں میں سخت معرکہ ہوا، امیر معاویہؓ نے اسے پسپا کردیا اور رومی شکست کھا کر شہر میں داخل ہوگئے،معاویہؓ نے قیسا ریہ کا محاصرہ کرلیا، رومی برابر نکل کے مقابلہ کرتے تھے،مگر ہر مرتبہ شکست کھا کر شہر میں لوٹ جاتے تھے،ایک دن آخری جنگ کے لئے بڑے جوش وخروش سے نکلے اور ایک خونریز جنگ کے بعد بہت فاش شکست کھائی اس معرکہ میں اسی ہزار رومی کام آئے اورمیدان امیر معاویہؓ کے ہاتھ رہا۔
غرض معاویہؓ قریب قریب تمام معرکہ آرائیوں میں بہت ممتاز حیثیت سے  شریک رہے ،مگر ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔
۱۸ھ میں جب امیر معاویہؓ کے بھائی یزید کا انتقال ہوگیا، تو حضرت عمرؓ ان کی ناوقت وفات سے سخت متاثر ہوئے اوران کی جگہ معاویہؓ کو دمشق کا عامل بنایا اورایک ہزار ماہانہ تنخواہ مقرر کی(استیعاب:۱/۲۶۱) حضرت عمرؓ معاویہؓ کے اوصاف کی وجہ سے ان کی بڑی قدر فرماتے تھے اوران کے تدبیر وسیاست اورعلوئے حوصلہ کی وجہ سے ان کو کسرائے عرب کے لقب سے یاد کرتے تھے (تاریخ الخلفا سیوطی:۱۹۴) امیر معاویہؓ ۴ سال تک فاروقی عہد میں دمشق کے حکمران رہے۔




عہد عثمانی

۲۳ھ میں جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا اور حضرت عثمانؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو انہوں نے امیر معاویہؓ کی تجربہ کاری کی وجہ سے انہیں پورے شام کا والی بنادیا، شام کی ولایت کے زمانہ میں انہوں نے رومیوں کے مقابلہ میں بڑی زبردست فتوحات حاصل کیں، گو حضرت عمرؓ  کے عہد میں قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کے تختے الٹ چکے تھے تاہم اس وقت تک کوئی بحری حملہ نہ ہوا تھا، اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے امیر معاویہؓ نے بحری حملوں کا آغاز کیا اوربحری قوت کو اتنی ترقی دی کہ اسلامی بحری بیڑا اس عہد کے بہترین بیڑوں میں شمار ہوتا تھا۔




طرابلس الشام کی فتح

حضرت عثمانؓ نے ان کو شام کی انتظامی حکمرانی کے ساتھ جنگی اختیارات بھی دیدیئے تھے،اس سے فتوحات اسلامی کو بہت فائدہ پہنچا، سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ کے عہد میں بعض سواحل پر قابض ہوگئے تھے ان کی ریشہ دوانیوں کے سد باب کے لیے معاویہؓ نے سفیان بن مجیب ازدی کو طرابلس الشام کی فتح پر مامور کیا ،انہوں نے اس سے چند میل کی مسافت پر پہلے ایک قلعہ تعمیر کیا اوراس کا نام حصن سفیان رکھا اوراس کو فوجی مرکز بناکر رومیوں کے تمام بحری اوربری ناکے بند کرکے طرابلس الشام کا محاصرہ کرلیا رومی قلعہ بند ہوگئے اورخفیہ طورپر شہنشاہ روم کو خط لکھا کہ ہماری امداد کے لئے فوجیں بھیجی جائیں تاکہ ہم مسلمانوں کا مقابلہ کرسکیں اوراگر فوجیں نہیں آسکتیں تو کم از کم کچھ کشتیاں ہی بھجوادی جائیں کہ اس حصار سے ہم کو نجات ملے،سفیان دن کو رومی قلعہ کی نگرانی کرتے تھے اوررات کو اپنی فوج لے کر اپنے قلعہ میں چلے آتے تھے اس لئے رومی ایک شب کو موقع پاکر نکل گئے صبح کو مسلمان قلعہ کے پاس پہنچے تو اس کو بالکل خالی پایا اور بلا مزاحمت قبضہ کرلیا اس قلعہ کے قبضہ میں آجانے سے آئے دن کی بغاوتوں کا خطرہ جاتا رہا۔

(فتوح البلدان بلاذری:۱۳۳)





عموریہ پر فوج کشی

شام کی سرحد پر عموریہ ایک پرانا شہر تھا جہاں رومیوں کے قلعے تھے اس لئے ان کی تاخت سے شام کو محفوظ رکھنے کے لئے عموریہ کا لینا ضروری تھا؛چنانچہ ۲۵ھ میں امیر معاویہؓ اس کی طرف بڑھے راستہ میں انطاکیہ سے لیکر طرطوس تک کے تمام قلعے خالی ملے امیر معاویہؓ نے ان سب میں شام جزیرہ اورقنسر ین سے آدمی لاکر بسائے اوران کو آباد کرکے لوٹ آئے اس کے ایک یا دو سال بعد یزید بن حر عبسی کو مامور کیا انہوں نے رومیوں کے بہت سے قلعے مسمار کردیئے مگر عموریہ فتح نہ ہوا اور اس پر فوج کشی کا سلسلہ برابر جاری رہا۔

(فتوح البلدان:۱۹۲ وابن ایثر:۳/۶۶ مطبوعہ یورپ)




شمشاط کی فتح

امیر معاویہؓ کے ان کارناموں کے صلہ میں حضرت عثمانؓ نے جزیرہ بھی ان ہی کے ماتحت کردیا جزیرہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوچکا تھا؛ لیکن اس کے بعض سرحدی مقامات ہنوز رومیوں کے قبضہ میں تھے ان میں ایک مقام شمشاط بھی تھا، حضرت عثمانؓ نے ان کو شمشاط کی طرف بڑھنے کا حکم دیا انہوں نے یہ خدمت جنیب بن مسلمہ فہری اورصفوان بن معطل کے سپرد کی ان دونون نے نہایت آسانی کے ساتھ شمشاط پر قبضہ کرلیا اورصفوان آخر عمر تک یہاں کے حاکم رہے اوریہیں وفات بھی پائی،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ خود بھی اسی مہم میں شریک تھے۔

(فتوح البلدان بلاذری:۱۳۳)




ملطیہ کی فتح

ملطیہ بھی ایک سرحدی مقام اوردونوں حکومتوں کے درمیان حد فاصل تھا اس لئے بحر روم میں تاخت کے لئے اس حدِّ فاصل کا توڑنا بھی ضروری تھا ایک مرتبہ جنیب ابن سلمہ فہری اس کو فتح کرچکے تھےمگر رومیوں نے پھر اس پر قبضہ کرلیا تھا امیر معاویہؓ نے دوبارہ جنیب کو اس کی تسخیر پر مامور کیا انہوں نے اس کو فتح کرکے یہاں مسلمان آباد کئے اورآئندہ جب امیر معاویہ ارض روم میں پیش قدمی کے ارادہ سے نکلے تو یہاں شام اورجزیرہ کے باشندوں کی چھاؤنی قائم کی مگر بعد میں یہ مقام اس حالت پر قائم نہ رہ سکا




قبرس کی فتح

بحرابیض متوسط میں ساحل شام سے تھوڑی مسافت پر قبرس (سائپرس) ہے یہ جزیرہ اپنی سر سبزی ،شادابی اورمصنوعات کے لحاظ سے اپنے قرب وجوار میں بہت مشہور تھا،خصوصا ًروئی کی بڑی پیداوار ہوتی تھی اس لئے عہد فاروقی سے اس پر امیر معاویہؓ کی نظر تھی اوراس پر حملہ کے لئے انہوں نے حضرت عمرؓ سے بحری جنگ کے لئے اجازت بھی مانگی تھی، لیکن حضرت عمرؓ مسلمانوں کو بحری خطرات میں ڈالنا پسند نہ کرتے تھے؛چنانچہ عمروبن العاصؓ سے بحری سفر کے حالات پوچھ بھیجے انہوں نے تمام خطرات سے آگاہ کردیا، اس لئے امیر معاویہؓ کو اجازت نہ ملی؛ لیکن ان کا دل برابر بحری حملہ کرنے کے لئے بیتاب رہا ؛چنانچہ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہونے کے بعد ان سے بھی اجازت طلب کی پہلے انہوں نے بھی اجازت نہ دی مگر امیر معاویہ کا اصرار برابر قائم رہا اورانہوں نے بحری جنگ کی آسانیاں حضرت عثمانؓ کے ذہن نشین کرکے انہیں خطرات کی جانب سے اطمینان دلادیا اس وقت انہوں نے اس شرط پر اجازت دیدی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لیجائیں اور کسی مسلمان کو اس کی شرکت پر مجبور نہ کریں جو شخص بطیب خاطر شریک ہونا چاہے صرف اس کو لیا جائے کسی پر شرکت کے لئے جبر نہ کیا جائے۔

(یہ آخیر شرط طبری:۲۸۲۴ میں ہے)

امیر معاویہؓ نے یہ تمام شرطیں منظور کرلیں اور۲۸ھ میں نہایت اہتمام کے ساتھ پہلی مرتبہ اسلامی بیڑا بحر روم میں اترا اورامیر معاویہؓ عبداللہ بن ابی سرح کو ساتھ لیکر قبرس پہنچے قبرس والے نہایت نرم خو تھے، جنگ وجدال سے گھبراتے تھے اس لئے بغیر مقابلہ کے ساتھ ہزار دینار سالانہ پر شرائط ذیل کے ساتھ صلح کرلی:
(۱)ہزار دینار سالانہ خراج مسلمانوں کو دیں گے اور اسی قدر رومیوں کو
دیاکریں گے مسلمانوں کو اس میں کوئی اعتراض نہ ہوگا (۲)اگر قبرس پر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو مسلمان مدافعت کے ذمہ دار نہ ہونگے۔ (۳)اگر مسلمان رومیوں پر حملہ کرنا چاہیں تو قبرس والے ان کو اپنے جزیرہ کے اندر سے گذرنے دیں گے۔
لیکن اس صلح کے چار برس بعد ۳۲ھ میں جزیرہ والوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی جہازوں سے رومیوں کی مدد کی، اس لئے ۳۳ ھ میں پھر امیر معاویہ پانسو جہازوں کے عظیم الشان بیڑے کے ساتھ بحری حملہ کرکے قبرس کو فتح کرلیا مگر روایات اسلامی کو قائم رکھتے ہوئے اہل قبرس کی وعدہ شکنی کا کوئی انتقام نہیں لیا اورصلح کے سابق نرم شرائط قائم رکھے؛ لیکن چونکہ اہل قبرس ایک مرتبہ غداری کرکے اپنا اعتبار کھوچکے تھے اس لئے اس مرتبہ امیر معاویہؓ نے قبرس میں ۱۲ ہزار مسلمانوں کی ایک آبادی قائم کردی، بعلبک کے بہت سے باشندے بھی نقل مکانی کرکے چلے آئے ان مسلمانوں نے یہاں مساجد تعمیر کیں اورایک شہر بسایا۔

(فتوح البلدان بلاذری:۱۶۰)




افریقہ کی جنگ

افریقہ یعنی تونس،الجزائر اورمراکش قیصر کے زیر حکومت تھے،حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں یہاں بکثرت فتوحات ہوئی تھیں اور قیصر کے بہت سے مقبوضات اس کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے، اس لئے وہ جوش انتقام سے لبریز ہورہا تھا؛چنانچہ اس نے مسلمانوں سے انتقام اورملک کو واپس لینے کے لئےبڑی زبردست تیاریاں کیں اورابن اثیر کے بیان کے مطابق قیصر نے اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کے مقابلہ کے لئےاتنا اہتمام نہ کیا تھا ،جنگی جہازوں کی تعداد چھ ۶۰۰ سو تھی
(ابن اثیر:۳/۹۱) امیر معاویہؓ اورعبداللہ بن سعد بن ابی سرح فاتح افریقیہ مدافعت کے لئے بڑھےجب دونوں بیڑے بالمقابل آئے تو اتفاق سے اسلامی بیڑے کے خلاف ہوا کے نہایت تیرز و تند طوفان چلنے لگے اس لئے طرفین نے ایک شب کے لئے صلح کرلی اور دونوں اپنے اپنے مذہب کے مطابق رات بھر عبادت ودعا میں مصروف رہے،صبح ہوتے ہوتے رومی ہمہ تن تیار تھے اور دونوں بیڑے آپس میں مل چکے تھے اس لئے رومیوں نے فوراً حملہ کردیا مسلمانوں نے بھی برابر کا جواب دیا،سطح سمندر پر تلواریں چلنے لگیں اوراس قدر گھمسان کی جنگ ہوئی کہ سمندر کا پانی خون کی کثرت سے سرخ ہوگیا، رزمگاہ سے لیکر ساحل تک خون کی موجیں اچھلتی تھیں،آدمی کٹ کٹ کر سمندر میں گرتے تھے اورپانی اُنہیں اُچھال کر اوپر پھینکتا تھا،یہ ہولناک منظر بڑی دیر تک قائم رہا،طرفین نہایت ہی پامردی کے ساتھ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے،لیکن آخری میں مسلمانوں کے عزم وثبات اورجان سپاری نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑدیئے اورقسطنطین نے جہاز کا لنگر اٹھادیا۔

(طبری:۲۸۸۷)

۳۲ھ میں امیر معاویہؓ بحر روم کو عبور کرتے ہوئے تنگنائے قسطنطیہ تک پہنچ گئے اور ۳۳ھ میں ملطیہ کے قریب حصن المراۃ پر حملہ کیا غرض امیر معاویہؓ اپنے زمانہ امارت بھر رومیوں کا نہایت کامیاب مقابلہ کرتے رہے تا آنکہ حضرت مانؓ کے خلاف شورش شروع ہوئی اوردور فتن کا آغاز ہوگیا۔




دورفتن کا آغاز

حضرت عثمانؓ اوراکابرؓ نے اپنی تمام کوششیں اس فتنہ کو فرو کرنے میں صرف کردیں، لیکن منافقوں اورخلافت اسلامیہ کے دشمنوں کی وجہ سے یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور معاملات اورزیادہ پیچیدہ ہوتے گئے اس وقت امیر معاویہؓ شام میں تھے،حضرت عثمانؓ نے ان کو بلا بھیجا ،یہ آئے لیکن اس وقت شروفتن کے شعلے قابو سے باہر ہوچکے تھے اس لئے لوٹ گئے اورحضرت عثمانؓ کی شہادت تک برابر شام ہی میں رہے اس واقعہ کے بعد جنگ جمل ہوئی مگر امیر معاویہؓ نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا ۔



حضرت علیؓ کی خلافت

حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے، اس وقت امیر معاویہؓ بدستور شام میں تھے ،جناب امیر نے خلیفہ ہوتے ہی ایک سرے سے تمام عثمانی عاملوں کو معزول کردیا اس سلسلہ میں معاویہؓ بھی شام سے معزول ہوگئے اوران کی جگہ سہل بن حنیف کا تقررہوا، لیکن وہ آسانی سے شام کی حکومت چھوڑنے والے نہ تھے، اس لئے شام کی سرحد تبوک پر ان کے سواروں نے سہل بن حنیف کو روک کر واپس کردیا، اس وقت حضرت علیؓ کو ان کی مخالفت کا علم ہوا۔
حضرت مغیرہ شعبہ نے جو اپنی تدبیر وسیاست کی وجہ سے مغیرۃ الرائے کہلاتے تھے حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کو مشورہ دیا کہ اگر آپ اپنی خلافت کو استوار کرنا چاہتے ہیں تو معاویہؓ کو ابھی معزول نہ کیجئے اور ان کو ان کے عہدہ پر قائم رکھئے اورطلحہؓ اورزبیر کو کوفہ اوربصرہ کا ولی بنائیے پورا تسلط ہوجانے کے بعد جو مناسب سمجھئے گا اس پر عمل کیجئے گا آپ نے جواب دیا کہ طلحہؓ وزبیرؓ کے بارہ میں تو غور کروں گا، لیکن معاویہؓ جب تک اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں گے،اس وقت تک ان کو نہ کہیں کے حاکم بناؤں گا اورنہ اس سے کسی قسم کی مددلوں گا،اس جواب سے مایوس ہوکر اورشکستہ خاطر ہوکر مغیرہ امیر معاویہؓ سے مل گئے۔





امیر معاویہ کے ادعائے خلافت کے اسباب

گو امیر معاویہؓ حضرت علیؓ کو اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے لیکن وہ نہایت مدبر اورہوشمند تھے اوراپنے اورحضرت علیؓ کے رتبہ کا فرق پورے طور پر سمجھتے اس لئے ان کے مقابلہ میں وہ اپنی خلافت کا تصور بھی دل میں نہ لاسکتے تھے،لیکن اس کے ساتھ ان کی حکومت پسندی اپنی معزولی بھی گوارا نہیں کرسکتے تھی،اگر حضرت علیؓ انہیں بدستور ان کے عہدہ پر قائم رہنے دیتے تو غالباً کوئی ناگوار صورت پیش نہ آتی مگر معاویہؓ کی معزولی نے اُن کو جناب امیر کا مخالف بنادیا، جہاں تک واقعات سے اندازہ ہوتا ہےاس وقت تک امیر معاویہؓ کے دل میں خلافت کے دعویٰ کا کوئی خیال نہ پیدا ہوا تھا؛بلکہ وہ حضرت علیؓ کی مخالفت سے صرف اپنے عہدہ کی بحالی چاہتے تھے،لیکن حضرت علیؓ اس کے لئے بالکل آمادہ نہ تھے،امیر معاویہ کی خوش قسمتی سے حضرت عثمانؓ کے قاتل یا کم از کم وہ لوگ جن پر حضرت عثمانؓ کے شہید کرنے کا قوی شبہ تھا ،حضرت علیؓ کی لاعلمی میں کیونکہ اس وقت کوئی قاتل معین نہ تھا آپ کے ساتھ ہوگئے۔
اس وقت بحیثیت خلیفہ کے قاتلین عثمانؓ کا پتہ چلانا اوران سے قصاص لینا حضرت علیؓ کا فرض تھا؛ لیکن مسند خلافت پر قدم رکھتے ہی آپ ایسے جھگڑوں میں مبتلا ہوگئے کہ قاتلین کا پتہ چلانا کیا معنی نظام خلافت کا سنبھالنا مشکل تھا اورقاتلوں کی تلاش کے لئے سکون واطمینان کی ضرورت تھی لیکن عوام اس مجبوری کو نہیں سمجھ سکتے تھے اوروہ صرف حضرت عثمانؓ کے خون کا قصاص چاہتے تھے اس لئے امیر معاویہؓ کو ان کے خلاف پروپیگنڈے کا پورا موقع مل گیا۔
خلیفہ مظلوم کے بیدردی کے ساتھ شہید کئے جانے اور قاتلین کے کھلے بندوں پھرنے کا واقعہ ایسا تھا کہ حضرت علیؓ کے مخالفین کیا بہت سے غیر جانبدار مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا ہوگئے تھے؛چنانچہ مصر کے ایک مقام خر بنا میں ایک جماعت حضرت علیؓ کے خلاف ہوگئی اورجب قیس بن سعد نے ان سے حضرت علیؓ کی بیعت لینے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے تاثر کی وجہ سے بیعت نہیں کی اوراس کے قصاص کا مطالبہ کیا۔
اس کے علاوہ امیر معاویہؓ کو کچھ لوگ ایسے مل گئے جنہوں نے ان کو حضرت علیؓ کے خلاف ابھارنا شروع کیا کہ تم کو علیؓ کے خلاف اٹھنا چاہیے کیوں کہ جو قوت تم کو حاصل ہے وہ علیؓ کو نصیب نہیں تمہارے ساتھ ایسی فرمانبردار جماعت ہے کہ جب آپ خاموش ہوتے ہیں تو وہ بھی کچھ نہیں بولتی اورجب تم کچھ کہنا چاہتے ہو تو وہ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتی ہے اور جو حکم دیتے ہو اس کو بے چوں وچراں مان لیتی ہے اور علیؓ کے ساتھ جو گروہ ہے وہ اس کے برعکس ہے اس لئے تمہاری تھوڑی جماعت بھی ان کی بڑی جماعت پر بھاری ہے۔
غرض ان مواقع اوران تائیدوں نے امیر معاویہؓ کو حضرت علیؓ کا پورا مخالف بنادیا، لیکن حضرت علیؓ جیسے شخص کا مقابلہ ان کے لئے آسان نہ تھا وہ اس کی دشواریوں کو پوری طرح سمجھتے تھے، اس کے لئے دہاۃِ عرب کو ساتھ ملانے کی ضرورت تھی اس وقت عرب میں معاویہؓ کے علاوہ مغیرہ بن شعبہ اور عمرو بن العاصؓ صاحب تدبیر وسیاست مانے جاتے تھے ،مغیرہ بن شعبہ پہلے ہی مل چکے تھے،عمروبن العاص باقی تھے یہ اس وقت فلسطین میں تھے، امیر معاویہؓ نے انہیں بلا کر اپنی مشکلات بیان کیں کہ محمد بن حنفیہ قید خانہ توڑکر نکل گئے ہیں،قیصر روم الگ حملہ پر آمادہ ہے اورسب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ علیؓ نے بیعت کا مطالبہ کیا ہے اورانکار کی صورت میں جنگ پر آمادہ ہیں، انہوں نے مشورہ دیا کہ محمد بن حنفیہ کا تعاقب کراؤ، اگر مل جائیں تو فبہا ورنہ کوئی حرج نہیں ،قیصر روم کے قیدی چھوڑ کر اس سے مصالحت کرلو، علیؓ کا معاملہ البتہ بہت اہم ہے،مسلمان کبھی تم کو ان کے برابر نہیں سمجھ سکتے، معاویہؓ نے کہا وہ عثمانؓ کے قتل میں معاون تھے، امت اسلامیہ میں پھوٹ ڈال کر فتنہ پیدا کیا، عمروبن العاصؓ نے کہا ؛لیکن تمہیں سبقت اسلام اورقرابت نبوی کا شرف حاصل نہیں ہے اور میں خواہ مخواہ تمہاری کامیابی کے لئے کیوں مدد کروں، معاویہؓ نے کہا مصر تو کسی طرح عراق سے کم نہیں، عمروبن العاصؓ نے کہا لیکن مصر کا مطالبہ اس وقت ہے جب تم علیؓ کو مغلوب کرچکو گے اور تمام دنیائے اسلام تمہارے زیر نگیں ہوگی، امیر معاویہؓ کو ان کی خدمات کی بڑی ضرورت تھی اس لئے اس گفتگو کے دوسرے دن مصر دینے کا تحریری وعدہ کرکے عمرو بن العاصؓ کو ملا لیا ۔

(یعقوبی :۲/۲۱۷)






حضرت علیؓ کے خلاف دعوت

عمرو بن العاصؓ کے مل جانے سے معاویہؓ کا بازو بہت قوی ہوگیا، انہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ پہلے عمائد شام کو یہ یقین دلاکر کہ عثمانؓ کے قتل میں علیؓ کا ہاتھ ہے، ان کو مخالفت پر آمادہ کرو اور سب سے پہلے شرجیل بن سمط کندی کو جو شام کے سب بڑے بااثر آدمی ہیں، اپنا ہم خیال بناؤ؛چنانچہ امیر معاویہؓ نے اس مشورہ کے مطابق عمائد شام کے دلوں میں یہ بات بٹھادی کہ عثمانؓ کے خون بے گناہی میں علیؓ کا ہاتھ بھی شامل تھا اورشرجیل بن سمط کندی نے شام کا دورہ کرکے لوگوں کو حضرت علیؓ کے خلاف ابھارنا شروع کردیا۔

(اخبار الطوال :۱۶۸،۱۶۹)

ادھر خود امیر معاویہؓ نے حضرت عثمانؓ کے خون آلود پیراہن اورآپ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ کی کٹی ہوئی انگلیوں کی نمائش کرکے سارے شام میں آگ لگادی ،لوگ آتے تھے اوریہ المناک منظر دیکھ کر زار زار روتے تھے ،شامیوں نے قسم کھالی کہ جب تک وہ قاتلین عثمانؓ کو قتل نہ کرلیں گے،اس وقت تک نہ بستر پر لیٹیں گے اورنہ بیویوں کو چھوئیں گے۔

(طبری:۷/۳۴۵۷)




مصالحت کیلئے صحابہ کی کوشش

محتاط صحابہؓ اس خانہ جنگی کی تیاریاں دیکھ دیکھ کر کف افسوس ملتے تھے،مشہور صحابی حضرت ابودرداؓ، اورحضرت ابو امامہؓ باہلی سے مسلمانوں کی یہ بدبختی نہ دیکھی گئی؛چنانچہ دونوں بزرگوں نے امیر معاویہؓ کے پاس جاکر ان سے کہا کہ علیؓ تم سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں، پھر تم کیوں ان سے لڑتے ہو، انہوں نے جواب دیا عثمانؓ کے قصاص کے لئے، ان لوگوں نے کہا کیا ان کو علیؓ نے قتل کیا ہے،کہا اگر قتل نہیں کیا ہے تو قاتلین کو پنادہ دی ہے اگر وہ ان کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں، یہ مطالبہ سن کر دونوں بزرگ حضرت علیؓ کے پاس گئے اوران سے صورت حال بیان کی ،امیر معاویہؓ کا یہ مطالبہ سن کر حضرت علیؓ کی فوج سے بیس ہزار آدمی نکل آئے اور نعرہ لگایا کہ ہم سب عثمانؓ کے قاتل ہیں ،حضرت ابودرداءؓ اورحضرت ابوامامہؓ نے یہ رنگ دیکھا تو مایوس ہوکر ساحلی علاقہ کی طرف نکل گئے اورپھر کسی قسم کی کوشش نہیں کی۔

اخبار الطوال:۱۸۱، ہم نے مختصر جستہ جستہ واقعات نقل کئے ہیں،کیونکہ ان واقعات کی تطویل اورتسلسل بیان سے کوئی فائدہ نہیں
[اخبار الطوال(امام)الدینوری(282ھ) » جلد1 صفحہ170 ط دار احیاءالکتب العربی-قاہرہ]

[البداية والنهاية(امام)ابن كثير(774ھ) »
(7/288 احیاء التراث)
(7/259 الفکر)
(10/504 الھجر)]





حضرت ابومسلم خولانیؓ حضرت امیر معاویہؓ کے پاس گئے اور فرمایا :آپ حضرت علیؓ سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علیؓ جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا: نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علیؓ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمانؓ کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علیؓ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا۔
[انساب الاشراف (امام)البلاذری(279ھ) » 2/277دارالفکر-بیروت

الاخبار الطوال (امام)الدینوري(282ھ)» 1/162

الصفات(امام)ابن حبان(354ھ) » 2/284

تاریخ دمشق(امام)ابن عساکر(571ھ) » 59/ 132 دارالفکر

تاریخ الاسلام(امام)الذھبي(748ھ)»
(3/540تدمیری)(3/162التوفیقیہ)

سیر اعلام النبلاء:2/523دارالحدیث-قاہرہ

البدایة.والنهاية(امام)ابن كثير »
(8/138 دار احياء التراث)
(8/129 دار الفكر)
(11/425 دار الهجر)[انساب الاشراف (امام)البلاذری(279ھ) » 2/277دارالفکر-بیروت

الاخبار الطوال (امام)الدینوري(282ھ)» 1/162

الصفات(امام)ابن حبان(354ھ) » 2/284

تاریخ دمشق(امام)ابن عساکر(571ھ) » 59/ 132 دارالفکر

تاریخ الاسلام(امام)الذھبي(748ھ)»
(3/540تدمیری)(3/162التوفیقیہ)

سیر اعلام النبلاء:2/523دارالحدیث-قاہرہ

البدایة.والنهاية(امام)ابن كثير »
(8/138 دار احياء التراث)
(8/129 دار الفكر)
(11/425 دار الهجر)]



جنگ صفین

 اس سلسلہ میں امیر معاویہؓ اورحضرت علیؓ کے درمیان خط وکتابت بھی ہوئی مگر کوئی مفید نتیجہ نہ نکلا، اور طرفین کی فوجیں میدان جنگ میں آگئیں اس خون ریز جنگ کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔
لیلۃ الہریر کی قیامت خیز صبح کو جس میں ہزاروں بچے یتیم اورہزاروں ہی عورتیں بیوہ ہوگئیں امیر معاویہؓ اورعلی مرتضیٰ اپنی پوری قوت کےساتھ میدان میں نکلے اوردونوں قوتیں اس شدت کے ساتھ ٹکرائیں کہ صفین کا میدان کشتوں کی کثرت سے بھر گیا ،لاشوں پر لاشیں گرتی تھیں،ہاتھ پاؤں اورسرکٹ کٹ کر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح اڑتے تھے خون تھا کہ امنڈ امنڈ کے برستا تھا اورمسلمانوں کی ۳۵ سالہ قوت اس طرح آپس میں ٹکراکر پاش پاش ہورہی تھی۔
اس خون ریز اورہولناک معرکہ کے بعد جنگ دوسرے دن کے لئے ملتوی ہوگئی اورطرفین نے اپنے اپنے مقتولین دفنائے، اس جنگ میں شامی فوج کا پلہ اتنا کمزور ہوگیا کہ آئندہ میدان میں اس کے ٹھہرنے کی کوئی امید باقی نہ تھی رومی علیحدہ امیر معاویہؓ پر حملہ کرنے پر آمادہ تھے، اس لئے انہوں نے عمروبن العاصؓ سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا میں نے اس دن کے لئے پہلے ہی سے ایک تدبیر سوچ رکھی تھی جو کسی طرح پٹ نہیں پڑسکتی ہے، وہ یہ کہ لوگ میدان جنگ میں قرآن کے حکم بنانے کا اعلان کریں، اس تدبیر سے عراقیوں میں اس کے ردوقبول دونوں حالتوں میں تفرقہ پڑجائے گا؛چنانچہ دوسرے دن جب شامی فوج میدان میں آئی تو اس شان سے کہ دمشق کا مصحف اعظم پانچ نیزوں پر آگے آگے تھا اوراس کے پیچھے سینکڑوں قرآن نیزوں پر آویزاں تھے اورشامی ہم قرآن کو حکم بناتے ہیں، کے نعرے لگا رہے تھے،عمروبن العاصؓ کی یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی،اس سے عراقیوں میں پھوٹ پڑگئی، انہوں نے کہا ہم کو قرآن کا فیصلہ ماننا چاہیے ،حضرت علیؓ اوربعض دوسرے عابقت اندیش لوگ لاکھ سمجھاتے رہے کہ یہ سب فریب ہے، لیکن عراقیوں نے ایک نہ سنی اور برابر یہ اصرار کرتے تھے کہ ہم کو قرآن کا فیصلہ ماننا چاہیے ،طبری کی ایک روایت کے مطابق تو ان کا اصرار اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے حضرت علیؓ کو دھمکی دی کہ اگر قرآن کا فیصلہ مسترد کیا گیا تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو عثمان کا ہوچکا ہے۔




تحکیم

غرض عراقیوں کی ضد اور نا سمجھی پر حضرت علیؓ کو چار وناچار یہ فریب آمیز فیصلہ ماننا پڑا اور طرفین نے بڑی رووقدح کے بعد عمرو بن العاصؓ اورابو موسیٰ اشعری کو اپنا حکم بنایا کہ یہ دونوں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی رو سے جو فیصلہ کردیں وہ فیصلہ فریقین کے لئے واجب التسلیم ہوگا؛چنانچہ دونوں نے صلاح و مشورہ کے بعد امیر معاویہؓ اورحضرت علیؓ دونوں کے معزول کرنے کا فیصلہ کیا اورمجمع عام میں اس کو سنادیا۔
پہلے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کھڑے ہوکر کہا کہ"برادران اسلام! ہم دونوں بڑے غور وفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امت محمدی کے اتحاد اوراس کی اصلاح کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ علیؓ اور معاویہؓ دونوں کو معزول کرکے عامہ مسلمین کو از سر نو خلیفہ کے انتخاب کا اختیار دیا جائے، اس لئے میں دونوں کو معزول کرکے آپ لوگوں کو اختیار دیتا ہوں کہ از سر نو جسے چاہیں اپنا خلیفہ منتخب کریں ۔
ان کے بعد عمرو بن العاصؓ کھڑے ہوئے اوران الفاظ میں اپنا فیصلہ سنایا کہ صاحبو آپ لوگوں نے ابو موسیٰ ؓ کا فیصلہ سن لیا ہے، انہوں نے علیؓ اورمعاویہؓ دونوں کو معزول کیا میں بھی علیؓ کو معزول کرتا ہوں، لیکن معاویہؓ کو برقرار رکھتا ہوں کیونکہ وہ عثمانؓ کے ولی اور ان کے خون کے حقدار ہیں،اس لئے وہ ان  کی نیابت کے زیادہ مستحق ہیں۔
اس فیصلہ سےمجمع میں سناٹا چھاگیا،شریح بن ہانی نے عمرو بن العاصؓ پر مارنے کے لئے کوڑا اٹھایااورقریب تھا کہ ایک مرتبہ پھر تلواریں میان سے نکل آئے اوردومۃ الجندل کا میدان صفین کا نمونہ بن جائے مگر ابوموسیٰ مکہ روانہ ہوگئے اور لوگوں نے معاملہ رفع دفع کردیا۔

(اخبار الطوال:۲۱،تا ۲۱۴)





خارجیوں کا ظہور

ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ ایسا تھا جس کو حضرت علیؓ کسی طرح قبول نہ کرسکتے تھے اس لئے آپ نے پھر معاویہؓ سے مقابلہ کی تیاریاں شروع کردیں؛ لیکن اسی درمیان میں اس سے بھی بڑا خارجیوں کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا، یہ لوگ کہتے تھے کہ مذہبی معاملات میں کسی انسان کو حکم بنانا کفر ہے، اس لئے معاویہؓ اورعلیؓ دونوں نعوذ باللہ کافر ہیں اورجو لوگ اس عقید ے کے منکر ہوں وہ بھی کافر ہیں،رفتہ رفتہ اس جماعت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا اوراس کی قوت اتنی بڑھی کہ حضرت علیؓ کے حدود حکومت میں لوٹ مار شروع کردی،اس لئے حضرت علیؓ فی الحال معاویہؓ کے مقابلہ کا خیال ترک کرکے ان کی سرکوبی کے لئے نہروان کی طرف بڑھے اوراس سلسلہ میں ان میں اورخارجیوں میں بڑے بڑے معرکہ ہوئے لیکن  اس عنوان کا تعلق اس سے  نہیں ہے اس لئے ان کا حال قلم اندا ز کیا جاتا ہے ۔



نہروان سے حضرت علیؓ کی واپسی

خوارج کا فتنہ فروکرنے کے بعد جب حضرت علیؓ نہروان سے واپس ہوئے پھر فوج کو امیر معاویہؓ سے مقابلہ کیلئے تیاری کا حکم  دیا ان لوگوں نے عذر کیا کہ امیر المومنین ہمارے ترکش خالی ہوگئے، تلواریں گٹھلی ہوگئیں اورنیزوں کی انیاں ٹوٹ گئیں اور بہت سے لوگ واپس جاچکے اس لئے ہم کو وطن پہنچ کر از سر نو تیاری کا موقع دیا جائے تاکہ ہم پھر سے اپنی قوت مجتمع کرکے دشمن کے مقابلہ کے لائق ہوسکیں، اس عذر پر حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر مقام نخیلہ میں قیام کیا یہاں پہنچنے کے بعد مقابلہ کی تیاریوں کے بجائے آپ کے ساتھی آہستہ آہستہ فوج سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کا راستہ لینے لگے اورآپ کے ساتھ صرف مخصوص جماعت باقی رہ گئی، اس لئے آپ نے فی الحال معاویہؓ سے مقابلہ کے خیال کو ترک کردیا۔

(ابن اثیر:۶/۲۹۲،۲۹۳)




حضرت علیؓ کی ایک سیاسی فروگذاشت

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مصری بالکل غیر جانبدار ہوگئے تھے اور امیر معاویہؓ اورحضرت علیؓ کسی کی اطاعت قبول نہ کی تھی ؛چنانچہ جنگ صفین میں انہوں نے کسی کا ساتھ نہیں دیا تھا،جنگ صفین کے بعد حضرت قیس ابن سعد انصاری نے جو یہاں کے حاکم اورحضرت علیؓ کے ہواخواہ تھے نہایت ہوشیاری اورخوبصورتی کے ساتھ اہل مصر سے حضرت علیؓ کی بیعت لے لی تھی صرف خو نبا کے باشندوں نے جو حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے بہت متاثر تھے بیعت نہ کی تھی حضرت قیسؓ نے مصلحتِ وقت کے خیال سے ان پر جبر نہیں کیا ؛بلکہ کہلادیا کہ تم کو انکار ہے تو ہم مجبور بھی نہیں کرتے اس نرمی و ملاطفت کا یہ نتیجہ ہوا کہ خرنبا والوں نے خراج دینے میں کوئی تامل نہیں کیا۔
قیس حضرت علیؓ کے مقابلہ میں امیر معاویہؓ کے قدیم مخالف تھے ؛چنانچہ جنگ صفین کے قبل جب انہوں نے مدبرین کو ملانا چاہا تو قیس کو بھی خط لکھا تھا کہ اگر قاتلین عثمانؓ کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ آجاؤ تو عراق کی حکومت تمہارے لئے مخصوص کردی جائے گی اورحجاز کی حکومت پر تمہیں اختیار ہوگا اپنے جس عزیر کو چاہو مقرر کرنا، اس کے علاوہ تمہارے اور جو مطالبات ہوں گے وہ بھی پورے کئے جائیں گے اگرتمہیں یہ باتیں منظور ہوں تو جواب دو، قیس بہت عاقبت اندیش آدمی تھے اس لئے صاف جواب دینے کے بجائے گول جواب دیا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے اس لئے ابھی جواب نہیں دے سکتا، امیر معاویہؓ کو یہ خط ملا تو وہ ان کی نیت سمجھ گئے ؛چنانچہ دوبارہ خط لکھا کہ تم اس گول جواب سے مجھے دھوکا دینا چاہتے ہو، میرے جیسا شخص تمہارے فریب میں نہیں آسکتا قیس کو یہ تحریر ملی تو بہت برہم ہوئے اور کھل کر اپنے دلی جذبات لکھ بھیجے کہ تمہاری عقل پر مجھ کو حیر ت ہے کہ تم مجھ کو ایک حق گو حق پرست مستحق خلافت اورآنحضرتکے رشتہ دار کا ساتھ چھوڑ کر ایک کاذب ،گمراہ، گمراہ زادہ کی حمایت کی دعوت دیتے ہو۔
اس تحریر کے بعد جب امیر معاویہؓ کو ان سے بالکل مایوسی ہوگئی تو انہوں نے قیس کو زک دینے کے لئے اپنے حامیوں سے کہنا شروع کیا کہ قیس کو برانہ کہو وہ ہمارے ہمدرد ہیں اور ہمارے پاس برابر ان کے خطوط آتے رہتے ہیں دیکھو ہمارے ہم خیال خر بنا والوں کے ساتھ ان کا کیسا بہتر سلوک ہے ان کے روزینے اور عطیے برابر جاری ہیں، اس غلط شہرت دینے کے ساتھ ہی قیس کی جانب سے ایک فرضی خط بھی جس میں حضرت عثمانؓ کے قصاص پر پسندیدگی کا اظہار پڑھ کر سنادیا، محمد بن ابی بکر اورمحمد بن جعفر کے کانوں میں اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے حضرت علیؓ کو اس کے اطلاع دی حضرت علیؓ کےجاسوسوں نے بھی تصدیق کردی ،اتفاق سے اسی درمیان میں حضرت علیؓ کے پاس قیس کا ایک خط آیا کہ نو بنا والے بیعت نہیں کرتے مگر میں ان پر تلوار اٹھانا مصلحت نہیں سمجھتا ،حضرت علیؓ کے طرفداروں کو قیس کی جانب سے جو شبہ تھا، وہ اس خط سے اور قوی ہوگیا ؛چنانچہ محمد بن جعفر نے حضرت علیؓ سے کہا کہ آپ فورا باغیوں (اہل خربنا) کی سرکوبی کا فرمان جاری کیجئے ان کی توجہ دلانے پر آپ نے اسی وقت قیس کے نام حکم جاری کردیا قیس نے پھر لکھا کہ آپ ایسے لوگوں کو چھیڑنے کا کیوں حکم دیتے ہیں جو کسی طرف عملی حصہ نہیں لے رہے ہیں اگر آپ کی طرف سے ذرا بھی سختی ہوئی تو یہ سب برگشتہ ہوجائیں گے، میرا مشورہ قبول کیجئے اوران کو سردست ان کی حالت پر چھوڑدیجئے، لیکن حضرت علیؓ نے ان کا مشورہ ناقابل قبول سمجھا، اورمحمد بن جعفر کے اصرار سے محمد بن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرکے بھیج دیا۔

(دیکھو ابن اثیر :۳/۲۲۱،حالات ولایت قیس بن سعد)





مصر میں حضرت علیؓ کی مخالفت

گویہ حکم قیس کی مرضی کے بالکل خلاف تھا اوراس سے ان کی بڑی سبکی ہوئی تھی تاہم وہ حضرت علیؓ کے سچے خیر خواہ تھے اس لئے بے چوں و چراں مصر محمد بن ابی بکر کے حوالہ کردیا اور تمام نشیب و فراز سمجھا کر اپنی پالیسی واضح کردی،لیکن وہ کمسن اورناتجربہ کار تھے جوانی کا جوش تھا،آتے ہی خر بنا والوں پر فوج کشی کردی، یہ لوگ بڑے شجاع اوربہادر تھے اس لئے ابن ابی بکر کو فاش شکست ہوئی اس سخت گیر پالیسی سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پہلے صرف ایک قریہ کے لوگ حضرت علیؓ کے مخالف تھے،محمد بن ابی بکر نے اپنے طرز عمل سے اوروں کو بھی مخالف بناکر امیر معاویہؓ کو فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیا۔
چنانچہ معاویہؓ بن خدیج کندی نے جو حضرت عثمانؓ کی شہادت سے متاثر تھے مصر میں آپ کے قصاص کی دعوت شروع کردی، اس طرح مصر کی فضا مسموم ہوگئی، (طبری:۳۳۹۲) حضرت علیؓ کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے اشترنخعی کو لکھا کہ تم مصر جاکر اس کا انتظام سنبھالو یہ حکم ملتے ہی اشتر روانہ ہوگئے مگر کہا جاتا ہے کہ امیر معاویہؓ کے اشارے سے راستہ ہی میں ان کا کام تمام کردیا گیا۔




مصر پر امیر معاویہ کا قبضہ

اشتر کی موت کے بعد امیر معاویہؓ نے مسلمہ بن مخلد انصاری اورمعاویہ ابن خدیج کندی سے مصر کی فوج کشی کے متعلق خط وکتابت کی انہوں نے امداد کے لئے پوری آمادگی ظاہر کی اورلکھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو فوراً آو ہم سب تمہارے منتظر ہیں انشاء اللہ تم کو ضرور کامیابی ہوگی اس جواب کے بعد امیر معاویہؓ نے اپنے مشیروں کے مشورہ سے عمرو بن العاصؓ کو ۶ ہزار فوج دے کر مصر روانہ کردیا، یہاں عثمانی گروہ پہلے سے موجود تھا، اس نے مصر کے باہر اس فوج کا استقبال کیا عمرو بن العاصؓ حملہ کرنے سے قبل محمد بن ابی بکر کو لکھا کہ مصر والے تمہارا ساتھ چھوڑ چکے ہیں تم میرے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکے، اس لئے میں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ میرے مقابلہ سے باز آجاؤ مصر خالی کردو، میں خواہ مخواۃ تمہارے خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرنا چاہتا، محمد بن ابی بکر نے یہ خط حضرت علیؓ کے پاس بھیج دیا وہاں سے مقابلہ کا حکم آیا۔
چنانچہ محمد بن ابی بکر مقابلہ کے لئے بڑھے مصر کے مشہور بہادر کنانہ بن بشیر مقدمۃ الجیش کی کمان کررہے تھے انہوں نے عمرو بن العاص کا نہایت پر زور مقابلہ کیا جدھر رخ کردیتے تھے میدان صاف ہوجاتا تھا، عمروبن العاص نے یہ رنگ دیکھا، تو معاویہؓ بن خدیج سکونی کو اشارہ کیا انہوں نے کنانہ کو گھیر لیا اورشامیوں نے ہر طرف سے ٹوٹ کر قتل کردیا، ان کے گرتے ہی مصریوں کے پاؤں اکھڑ گئے محمد بن ابی بکر شکست کے آثار دیکھ کر روپوش ہوچکے تھے، معاویہ بن خدیج نے ان کو ڈھونڈ نکالا اور نہایت بیدردی سے قتل کردیئے گئے ان کے قتل کے بعد مصر پر معاویہؓ کا قبضہ ہوگیا۔

(طبری،جلد۶ واقعات ۳۸ھ ملخضاً)





حضرت علیؓ کے مقبوضات پرپیش قدمیاں

۳۸ ھ میں مصر پر قبضہ ہوا ۳۹ ھ میں امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے دوسرے مقبوضہ مقامات کی طرف پیش قدمی شروع کردی ان میں سے بعض مقامات پر کامیابی ہوئی اوربعض میں ناکامی ،طبری اورابن اثیر نے ان کے تفصیلی حالات لکھے ہیں ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
سب سے اول امیر معاویہؓ کے عامل نعمان بن بشیر نے ایک شخص کو دوہزار کی جمعیت کے ساتھ عین التمر روانہ کیا، مالک بن کعب حضرت علیؓ کی جانب سے یہاں کے حاکم تھے، انہوں نے نعمان کو شکست دی، اس کے بعد سفیان بن عوف ۶ ہزار کی جمعیت کے ساتھ بڑھے اورانبار ومدائن پر حملہ کرنے کے لئےہیت پر تاخت کرتے ہوئے انبار پہنچےاور یہاں کے حفاظتی دستہ کے افسر اشرس بن حسان کو قتل کرکے کل مال و متاع لوٹ لیا، حضرت علیؓ کو خبر ہوئی تو آپ خود نکلے اورسعید بن قیس کو حملہ آوروں کے تعاقب میں روانہ کیا،مگر شامی نکل چکے تھے پھر عبداللہ بن مسعدہ فزاری تیماء کے اہل بادیہ،حجاز اورمدینہ کے باشندوں سے صدقہ وصول کرنے کے لئے بڑھے ،حضرت علیؓ کی طرف سے مسیب بن نجسہ ان کے مقابلہ کو بڑھے۔
تیمار میں دونوں کا مقابلہ ہوا، عبداللہ بن مسعدہ زخمی ہوکر قلعہ بند ہوگئے مسیب نے ان کو گھیر کر قلعہ میں آگ لگادی، لیکن پھر ان کے امان طلب کرنے کے بعد بجھوادی اورشامی لوٹ گئے۔
اس کے بعدضحاک بن قیس تین ہزارفوج کے ساتھ قوصہ کے نشیبی علاقہ میں حضرت علیؓ کے باجگذار وہقانیوں پر تاخت کرتے ہوئے ثعلبہ پہنچے اور یہاں کے حفاظتی دستہ کو لوٹ کر قطقطانہ کارخ کیا اورعمرو بن عمیس سے جو فوجی سواروں کے ساتھ حج کےلیے جارہے تھے،مزاحم ہوئے اوران کا سامان لوٹ کر روکدیا حضرت علیؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حجر بن عدی کو مقابلہ کے لئے بھیجا تدمر میں ان دونوں کا مقابلہ ہوا اورشامی لوٹ گئے ۔
پھر۳۹ھ میں امیر معاویہؓ نے یزید بن سنجرہ رہادی کو مکہ میں اپنی بیعت لینے اوروہاں سے علوی عمال کو نکالنے کیلئے امیر الحج بنا کر بھیجا اس وقت قثم بن عباس یہاں کے عامل تھے، ان کو خبر ہوئی تو اہلِ مکہ کو یزید کے مقابلہ کے لئے ابھارا لیکن شیبہ بن عثمان کے سوا کوئی آمادہ نہ ہوا، اس لیے قثم نے حضرت علیؓ کو اس کی اطلاع دی اورخود مکہ چھوڑ کر کسی گھاٹی میں چلے جانے کا قصد کیا لیکن حضرت ابو سعید خدریؓ نے روک دیا، اسی درمیان میں ریا ن بن ضمرہ امدادی فوج لے کر پہنچ گئے،مگر شامیوں نے اعلان کردیا کہ ہم حرم کے امن وامان میں خلل انداز ہونا نہیں چاہتے، ہم یہاں صرف اسی شخص کے مقابلہ میں تلوار اٹھائیں گے جو ہم سے کسی قسم کا تعرض کرے گا، اورحضرت ابوسعید خدریؓ سے درخواست کی کہ ہم حرم میں تفریق ناپسند کرتے ہیں اس لئے آپ کسی ایسے شخص کو امیر الحج مقرر کردیجئے جس پر طرفین متفق ہوں ان کی درخواست پر ابو سعیدؓ نے قثم کو ہٹادیا اورشیبہ بن عثمان نے امارتِ حج کے فرائض انجام دیئے، شامی فوج حج کرکے لوٹ گئی اس کے لوٹنے کے بعد دارالخلافہ سے دوسری عراقی فوج مکہ پہنچ گئی، اس نے شامیوں کا تعاقب کیا اوروادی القریٰ کے آگے چند شامیوں کو پکڑ لیا لیکن کچھ عراقی امیر معاویہ کے یہاں محصور تھے اس لئے طرفین نے قیدیوں کا تبادلہ کرلیا۔
اسی سنہ میں امیر معاویہؓ نے عبدالرحمن بن قباث بن اثیم کو جزیرہ روانہ کیا یہاں کے حاکم شبیب بن عامر نے فوراً نصیبین سے کمیل بن زیاد کو اطلاع دی، یہ ۶۰۰ سوار لے کر مقابلہ کو نکلااور عبدالرحمن کو فاش شکست دی،ا سی درمیان میں شبیب خود بھی پہنچ گئے، مگر شامی واپس جاچکے تھے،شبیب نے بعلبک تک ان کا تعاقب کیا امیر معاویہ نے دوبارہ حبیب بن مسلمہ فہری کو ان کے مقابلہ کے لئے بھیجا مگر حبیب کے آتے آتے شبیب واپس ہوچکے تھے۔
اسی سنہ میں زبیر بن مکحول امیر شام کی جانب سے صدقات وصول کرنے کے لئے آئے،حضرت علیؓ نے کلب اوربکر بن وائل سے صدقہ وصول کرنے کے لئے جعفر بن عبداللہ کو بھیجا تھا ،سماوہ میں دونوں کا مقابلہ ہوا، اس معرکہ میں جعفر مارے گئے۔
دومۃ  الجندل کے باشندے اب تک غیر جانب دار تھے،اس لئے امیر معاویہؓ نے مسلم بن عقبہ مری کو ان سے بیعت لینے کے لئے بھیجا، حضرت علیؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے اپنی بیعت کے لئے مالک بن کعب ہمدانی کو روانہ کیا، انہوں نے آتے ہی مسلم پر حملہ کردیا اورایک سال مسلسل مقابلہ کرکے ان کو شکست دی، شکست دینے کے بعد دومۃ الجندل والوں سے بیعت لینی چاہی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ جب تک کسی ایک امام پر اتفاق نہ ہوجائے گا، اس وقت تک ہم کسی کی بیعت نہ کریں گے، ان کے اس جواب پر مالک نے زیادہ اصرار نہ کیا اورلوٹ گئے۔
ابھی تک حجاز مقدس جس کی حکومت سے خلافت کا فیصلہ ہوتا تھا،جناب امیرؓ کے قبضہ میں تھا، ۴۰ھ میں امیر معاویہؓ نے مشہور جفاکار بسر بن ابی ارطاۃ کو حجازیوں سے اپنی بیعت لینے پر مامور کیا، حضرت ابو ایوب ؓ انصاری حضرت علیؓ کی جانب سے مدینہ کے حاکم تھے ، انہوں نے شامیوں کا رخ مدینہ کی طرف دیکھا تو حرم نبوی کی حرمت کے خیال سے مدینہ چھوڑ کر کوفہ چلے گئے، مدینہ پہنچنے کے بعد بسر نے منبر پر چڑھ کر اعلان کیا کہ ہمارے شیخ عثمان کہاں ہیں؟ خدا کی قسم اگر میں معاویہؓ سے عہد نہ کرچکا ہوتا، تو مدینہ میں ایک جوان بھی زندہ نہ چھوڑتا، جب تک تم لوگ جابر بن عبداللہ کو میرے حوالہ نہ کردوگے، اس وقت تک تم پر امن وامان کے دروازے بندرہیں گے، جابر بن عبداللہ نے یہ اعلان سنا تو چھپ کرام سلمہؓ  کے پاس پہنچے اورعرض کیا کہ اگر امیر معاویہ کی بیعت کرتا ہوں تو گمراہی کی بیعت ہے اور اگر نہیں کرتاتو جان جاتی ہے، حضرت ام سلمہؓ نے بیعت کرلینے کا مشورہ دیا اوران کے مشورہ پر انہوں نے بیعت کرلی، بسر نے اہل مدینہ کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے بعض گھروں کو ڈھادیا، یہاں سے فارغ ہونے کے بعد مکہ پہنچا، یہاں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اس کے ظلم وجور سے بہت گھبرائے؛ لیکن اس نے اطمینان  دلادیا کہ میں کسی صحابی کو قتل نہ کروں گے۔
مکہ کے معاملات درست کرنے کے بعد یہاں سے یمن کی طرف بڑھا، یہاں کے عامل عبید اللہ بن عباسؓ کو خبر ہوئی تو وہ عبداللہ بن عبدالمدان کو اپنا قائم مقام بنا کر کوفہ چلے گئے،بسر نے یمن پہنچ کر پہلے عبداللہ کا کام تمام کیا، پھر تمام شیعیان علیؓ کے قتل عام کا حکم دیا، عبیداللہ بن عباس کے دو صغیر السن بچے بھی یمن میں تھے ؛لیکن بسر کے ظلم وجور سے یہ معصوم بھی زندہ نہ بچے،یمن میں سکہ بٹھانے کے بعد یہ ستم شعار سنگدل شام لوٹ گیا، حضرت علیؓ کو اس کی ستم آرائیوں کی اطلاع  ملی تو آپ نے جاریہ بن قدامہ اوروہب بن مسعود کو اس کے مقابلہ کے لئے بھیجا، اس وقت بُسر نجران میں تھا اس لئے یہ دونوں سیدھے نجران آئے بسر نکل کے بھاگا اور جاریہ اور وہب نے انتقام میں  بہت  سے  عثمانیوں کو قتل کراکے ان کے گھروں میں آگ لگوادی اور بُسر کا تعاقب  کرتے ہوئے مکہ پہنچے اور یہاں کے باشندوں سے حضرت علیؓ کی بیعت لے کر پھر مدینہ جاکر بیعت لی۔

(یہ تمام واقعات طبری اور ابن اثیر۳۸ھ تا ۴۰ھ سے ماخوذ ہیں)

اس مسلسل خانہ جنگی سے گھبرا کر حضرت علیؓ اورامیر معاویہؓ نے ۴۰ ھ میں صلح کرلی، اس صلح کی رو سے شام کا علاقہ امیر معاویہؓ کو ملا، اورعراق حضرت علیؓ کے حصہ میں رہا، اوریہ شرط قرار پائی کہ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے علاقہ میں دست اندازی نہ کرے گا۔

(ابن اثیر:۳/۳۲۴)





قاتلانہ حملہ

ان پیہم خانہ جنگیوں اور کشت وخون سے مسلمانوں کی ایک جماعت کو خیال پیدا ہوا کہ امت اسلامیہ کی خونریزی اوراس کے افتراق وپرا گندگی کی ساری ذمہ داری معاویہؓ،عمرو بن العاص اورعلی کے سر ہے، اس لئے اگران تینوں کا قصہ پاک کردیا جائے تو مسلمانوں کو اس مصیبت عظمیٰ سے نجات مل جائے گی؛چنانچہ برک بن عبداللہ، ابن ملجم اورعمرو بن بکر نے علی الترتیب تینوں اشخاص کے قتل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک ہی شب میں اپنے اپنے شکار پر خفیہ حملہ آور ہوئے،ابن ملجم نے حضرت علی کو شہید کردیا،عمر بن العاص پر حملہ آور ہوا، اس دن ان کے بجائے دوسرا شخص نماز پڑھانے کے لئے نکلا تھا ان کے دھوکے میں وہ مارا گیا اورعمرو بن العاص بچ گئے، برک بن عبداللہ نے امیر معاویہ پر حملہ کیا اور وہ زخمی ہوئے حاجب ودربان ساتھ تھے، قاتل فوراً گرفتار کرکےاسی وقت قتل کردیا گیااور امیر معاویہؓ علاج سے شفایاب ہوگئے، اسی دن سے انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے ،مسجد میں مقصورہ بنوایا(وہ چھوٹا ساقبہ نما حجرہ جس میں نماز کے وقت خلفاء بیٹھا کرتے تھے، اس کی ابتدا امیر معاویہؓ نے کی ان کے بعد دوسرے خلفا نے بھی حفاظت کے خیال سے اس کو قائم رکھا) اوررات کی حفاظت کے لئے ایک دستہ مقرر کیا۔




حضرت حسن کی دست برداری

حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسنؓ خلیفہ ہوئے،آپ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اورجس طرح آپ معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے اس کے تفصیلی حالات اوپر گذرچکے ہیں۔
اس صلح کے بعد امیر معاویہؓ سارے عالم اسلامی کے مسلمہ خلیفہ ہوگئے،لیکن ابھی ان کے دوسرے حریف خارجی جا بجا شورش برپا کئے ہوئے تھے، اس لئے امیر معاویہؓ نے امام حسنؓ سے مصالحت کے بعد ان کی طرف توجہ کی اورعرصہ تک ان کا قلع قمع کرتے رہے،ان لڑائیوں کی تفصیل لاحاصل ہے، اس لئے انہیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت سے حضرت حسنؓ کی دستبرداری تک پیہم خانہ جنگیوں کی وجہ سے نظام خلافت درہم برہم ہوگیا تھا، ملک کے مختلف حصوں میں جا بجا شورشیں برپا ہورہی تھیں، اس لئے امیر معاویہؓ نے خارجیوں کی سرکوبی کے ساتھ امن وامان کے قیام کی طرف توجہ کی، اس سلسلہ میں سرحدی علاقوں میں بہت سی فتوحات بھی ہوئیں۔








ہراۃ وغیرہ کی بغاوت

۴۱ھ میں بلخ،ہراۃ، بوشنج اورباذغیس میں بغاوت رونما ہوئی، مشرقی ممالک کے والی عبداللہ بن عامر نےان بغاوتوں کے تدارک کے لئے قیس بن ہثیم کو خراسان کی ولایت پر مامور کیا؛چنانچہ یہ خراسان سے بلخ پہنچے اوریہاں کے باشندوں سے اطاعت قبول کراکے بلخ کے مشہور آتش کدہ نوبہار کو مسمار کردیا، ان کے بعد عبداللہ بن حازم نے ہراۃ، بوشیخ اورباذ غیس والوں کو مطیع بنایا۔




کابل کی بغاوت

کابل اوراس کا ملحقہ علاقہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں فتح ہوچکا تھا ۴۳ھ میں یہاں کے باشندوں نے بغاوت برپا کی، عبداللہ بن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ کو سجستان کا حاکم بنا کر بغاوت کے فرو کرنے پر مامور کیا؛چنانچہ یہ سجستان سے چل کر باغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے کابل پہنچے اورکابل کا محاصرہ کرکے آتش بازی کے ذریعہ شہر پناہ کی دیواریں شق کردیں، عباد بن حصین رات بھر شگاف کی نگرانی کرتے رہے کہ دشمن اس کو پر نہ کردیں ،صبح کو شہر والوں نے میدان میں نکل کر مقابلہ کیا، مگر شکست کھائی اور مسلمان شہر میں داخل ہوگئے ،یہ ابن اثیر کا بیان ہے یعقوبی کے بیان کے مطابق خود شہر پناہ کے دربان نے رشوت لے کر دروازہ کھول دیا تھا۔

(ابن اثیر،صفحہ۳۶۶،یعقوبی،جلد۲،صفحہ۳۵۸)





زران اورغزنہ کی فتوحات

کابل کی بغاوت فرو کرنے کے بعد مسلمانوں نے بست کو فتح کیا پھر زران کی طرف بڑھے یہاں کے باشندوں نے ان کا رخ دیکھ کر پہلے سے شہر خالی کردیا تھا، اس لئے یہاں جنگ کی نوبت نہیں آئی اورزران سےملخارستان کی طرف بڑھے یہاں کے باشندوں نے بھی سپر ڈال دی،زران کے بعد رخج کا رخ کیا اوریہاں کے باشندوں کو ایک سخت معرکہ کے بعد فاش شکست دے کر پھر غزنہ کی طرف چلے غزنویوں نے پورا مقابلہ کیا، مگر ناکام رہے، اورسجستان سے لے کر غزنہ تک پورا علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہوگیا۔

(ابن اثیر:۳/۳۶۶)





غور کی بغاوت

۴۷ھ میں غور میں غور کے باشندوں نے مرتد ہوکر بغاوت برپا کردی، اس بغاوت کو حکم بن عمرو غفاری نے فرو کرکے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا۔

(ایضا:۳۸۰)




کوہستانی خراسان کی فتوحات

۵۳ھ  میں عبید اللہ بن زیاد خراسان کا والی بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر کل ۲۵ سال کی تھی ؛لیکن اس نو عمری کے باوجود خراسان کے دشوار گزار کوہستانی علاقہ کو اونٹ کے ذریعہ عبور کرکے رامنی،نسف اوربیکند پر اسلامی پرچم لہرایا، اس جنگ میں  ترکوں کی ملکہ ساتھ تھی،اس کی ایک جوتی چھوٹ گئی تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ لگی، اس کی قیمت کا اندازہ دولاکھ درہم تھا۔

(ایضا:۴۱۴۰،وطبری:۱۶۹،بلاذری کا بیان اس سے مختلف ہے)





ترکستان کی فتوحات

عبید اللہ کے بعد سعید بن عثمان کا تقرر ہوا، یہ مع فوج کے جیحوں کو عبور کرکے قبق خاتون کی طرف بڑھے، اس کو ایک مرتبہ مسلمانوں کے مقابلہ کا تجربہ ہوچکا تھا،اس لئے اس مرتبہ صلح کرلی، لیکن ترک ،سفد کش اورنسف کے باشندے ایک لاکھ بیس ہزار کی تعداد میں مقابلہ کے لئے نکلے،بخاریٰ میں دونوں کا مقابلہ ہوا، اس وقت قبق خاتون کو صلح کرلینے پر ندامت ہوئی اوراس نے معاہدہ توڑ دیا مگر ایک ترکی غلام ان لوگوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنی جماعت لے کر چلا گیا اس کے چلے جانے سے باقی لوگوں میں بد دلی اورکمزوری پیدا ہوگئی، قبق خاتون نے ان ہی لوگوں کے بل پر صلح توڑی تھی، اس لئے ان کی پراگندگی کے بعد پھر صلح کرلی اور سعید بخاریٰ میں داخل ہوگئے،بخارا کے بعد سعید سمر قند کے طر ف بڑھے اس پیش قدمی میں قبق خاتون نے مسلمانوں کی امداد کی،سمر قند پہنچ کر سعید نے باب سمر قندر پر فوجیں ٹھہرائیں اورقسم کھائی کہ جب تک اس کو فسخ نہ کرلیں گے اس وقت تک یہاں سے نہ ٹلیں گے تیسرے دن اہل سمر قند کا مقابلہ کرتے رہے تیر اندازی کا مقابلہ تھا، تیسرے دن اس شدت سے جنگ ہوئی کہ سعید بن عثمان اور مہلب بن ابی صفرہ کی ایک آنکھ تیر کے صدمہ سے ضائع ہوگئی سمر قند والے بھی بہت زخمی ہوئے،لیکن شہر سے باہر نہ نکلے، اسی درمیان میں ایک شخص نے آکر اس محل کا راستہ بتادیا، جس میں شہزادے اورعمائد شہر قیام پذیر تھے،مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کرلیا، جب اہلِ شہر کو یقین ہوگیا کہ شہر مسلمانوں کے قبضہ سے نہیں بچ سکتا اوراس صورت میں زیادہ کشت و خون ہوگا، تو انہوں نے ان شرائط پر صلح کرلی کہ اہل سمر قند سات لاکھ درہم سالانہ خراج دیں گے اورنقضِ عہد کے خطرہ کے انسدادکے لئے مسلمان ،عمائد سمر قند کے چند لڑکے بطور ضمانت لیں گے اورایک مرتبہ سمر قند کے ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے دروازہ سے نکل جائیں گے اس صلح کے بعد ترمذ کی طرف بڑھے ؛لیکن یہاں کے باشندوں نے بلا مقابلہ صلح کرلی۔

(بلاذری:۴۱۷،طبری کا بیان اس سے مختلف ہے)





سندھ کی فتوحات

حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ کے زمانہ میں سندھ پر حملہ ہوچکا ۴۴ ھ میں مہلب بن ابی صفرہ ملتان اورکابل کے درمیان بند اوراہواز کی طرف بڑھے، اور دشمنوں سے مقابلہ کیا،پھر قیضان (کوکن) کا رخ کیا، یہاں کہ شہسواروں سے مقابلہ ہوا، ان سب کو مسلمانوں نے قتل کردیا، اس کے بعد عبد اللہ بن عامر نے عبداللہ بن سوار عبدی کو یہاں کے اسلامی مقبوضات اورہندوستان کی سرحد کا حاکم مقرر کیا، انہوں نے قیقان پر حملہ کرکے مالِ غنیمت حاصل کیا، ان میں مشہور قیقانی گھوڑے بھی تھے،عبداللہ سوار یہ تحائف لے کر امیر معاویہؓ کے پاس گئے اورکچھ دن قیام کرکے پھر قیقان آئے،لیکن ترکوں نے ان کو شہید کردیا، ان کے بعد سنان بن سلمبذلی ان کی جگہ مقرر ہوئے انہوں نے مکران فتح کیا اور قیام کر کے یہاں نظام حکومت قائم کیا ان کے بعد راشد بن عمر وازدی حاکم ہوئے، انہوں نے مکران ہوتے ہوئے قیقان پر حملہ کیا اور فتح یاب ہونے کے بعد مید پر حملہ آور ہوئے،اس حملہ میں یہ کام آگئے ان کے قتل ہونے کے بعد سنان بن سلمہ ان کے قائم مقام ہوئے ، یہ یہاں دو سال تک مقیم رہے، سنان کے بعد عباد بن زیاد سجستان کے راستہ سے ہندوستان کی سرحد کی طرف بڑھے اورسنارود سے رود کے کنارہ کنارہ ہند مند ہوتے ہوئے کش پہنچے، اورپھر رود کو پارکر کے قندھار پر حملہ کیا قندھاریوں نے مقابلہ کیا اور بہت سے مسلمانوں کی قربانی کے بعد قندھار فتح ہوگیا، قندھار کی فتح کے بعد زیاد نے منذر بن جارود کو سرحد کا حاکم مقرر کیا، انہوں نے بوقان اورقیقان پر حملہ کرکے سارے علاقہ میں فوجیں پھیلادیں ،قصدار کو سنان فتح کرچکے تھے،لیکن اہل قصدار باغی ہوگئے تھے اس لئے منذر نے دوبارہ اس کو فتح کیا ان کے بعد حری بن حری باہلی حاکم ہوئے انہوں نے بڑی بڑی معرکہ آرائیوں کے بعد بہت سی آبادیاں تسخیر کیں اور سندھ کے بڑے علاقہ پر اسلامی پھر یرا لہرا گیا۔

(بلاذری:۴۳۹،۴۴۰)





رومیوں سے معرکہ آرائیاں

امیر معاویہؓ کے عہد میں مغربی قوموں سے نبرد آزمائیاں ہوئیں اور شہنشاہِ روم کے بہت سے ایشیائی اوریورپی مقبوضات پر اسلامی علم نصب ہوا، امیر معاویہؓ کی مستقل خلافت کے بعد سب سے پہلے ۴۲ھ میں رومیوں سے  مقابلہ ہوا رومیوں نے فاش شکست کھائی اور ان کے بطریقوں کی بڑی تعداد کام آئی۔

(ابن اثیر:۳/۳۵۲)






بحری لڑائیاں

پھر ۴۴ ھ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے صاحبزادے عبدالرحمن نے رومیوں سے متعدد کامیاب معرکہ آرائیاں کیں اور بسر بن ابی ارطاط بحر روم میں اسلامی بیڑے دوڑاتا رہا، پھر ۴۹ ھ میں مالک بن ہبیرہ رومیوں سے نبرد آزما ہوئے، اورفضالہ بن عبید نے خرہ فتح کرکے بہت سا مالِ غنیمت حاصل کیا، پھر یزید بن شجرہ رہادی نے بحری تاخت کی ۴۸ ھ میں عقبہ بن عامر مصری فوج کے ساتھ بحری مہموں میں مشغول رہے ،لیکن ان مہموں کی حیثیت فاتحانہ نہ تھی؛بلکہ زیادہ تر رومیوں کو دھمکانا اورآئندہ مستقل حملوں کے لئے مناسب مواقع کی تلاش اوراپنی مدافعت مقصود تھی۔





قسطنطنیہ پر حملہ

امیر معاویہؓ اوررومیوں کی لڑائی میں قسطنطنیہ پر حملہ تاریخی اہمیت رکھتا تھااس زمانہ میں قسطنطنیہ کل مشرقی یورپ کا مرکز تھا، اس پر ضرب پڑنے سے پورے مشرقی یورپ پر اثر پڑتا تھا،امیر معاویہؓ کو بحری بیڑوں کا بڑا شوق تھا، ان کے اسی شوق کی بدولت ان کے عہد میں بحر روم اسلامی بیڑوں کا جو لانگاہ بن گیا تھا، امیر معاویہؓ یہ چاہتے تھے کہ بحرِ روم کے تمام جزائر پر قبضہ کرکے بحر روم کے اس حصہ کو جوانا طولیہ ،شام اور مصر سے گھرا ہوا ہے بلکل محفوظ کردیں، تاکہ افریقہ اورایشیا کے وہ مقبوضات جو بحر روم کے ساحلی علاقہ پر ہیں رومیوں کے حملوں سے محفوظ ہوجائیں۔
اس سلسلہ میں انہوں نے ۴۹ ھ میں بڑے سازوسامان کے ساتھ ایک لشکر جرار سفیان بن عوف
(طبری کے بیان کے مطابق یزید بن معاویہ اس فوج کا امیر تھا:۷/۸۶) کی ماتحتی میں قسطنطنیہ روانہ کیا اس میں حضرت ابو ایوب ؓانصاری عبداللہ بن عمرؓ اورعبداللہ بن عباسؓ جیسے اکابر صحابہ شامل تھےتاکہ آنحضرت کی اس بشارت کے مطابق کہ کیا اچھی وہ فوج ہوگی اورکیا اچھا وہ امیر ہوگا جو ہر قل کے شہر پر حملہ آور ہوگا ،قسطنطنیہ کے حملہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرسکیں، غرض یہ بیڑا بحر روم کی موجوں سے کھیلتا ہوا باسفور س میں داخل ہوا، قسطنطنیہ رومیوں کا بڑا اہم  مرکز تھا، اس لئے ان لوگوں نےپوری مدافعت کی اورمسلمانوں سے بڑی زبردست جنگ ہوئی ،عبدالعزیز بن زرارہ کلبی کا جوشِ شہادت اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ رجز پڑہتے جاتے تھے اور شہادت کی تمنا میں آگے بڑہتے جاتے تھے؛ لیکن ناکام رہتے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ سعادتِ عظمیٰ رہی جاتی ہے تو بے دھڑک اپنے قریب کی رومی صف میں گھستے چلے گئے اور رومیوں نے نیزوں سے چھید کر شہید کردیا (ابن اثیر :۳/۱۸۲) حضرت ابو ایوب انصاری نے بھی اسی مہم میں وفات پائی، وفات سے پہلے یزید نے پوچھا کہ کوئی وصیت ہو تو ارشاد ہو اس کی تعمیل کی جائے ،فرمایا دشمن کی سرزمین سے جہاں تک لے جاسکو لیجا کر دفن کرنا؛چنانچہ وصیت پر عمل کیا گیا، اورمیزبانِ رسول  کی لاش رات کو مشعل کی روشنی میں قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے لے جاکر دفن کی گئی (استیعاب:۲/۶۳۸) صبح کو رومیوں نے پوچھا تم لوگ رات کو کیا کر رہے تھے؟ مسلمانوں نے جواب دیا کہ اپنے نبی کے ایک بڑے ساتھی کو دفن کررہے تھے؛ لیکن یہ یادرکھو کہ اگر تم نے قبر کھودی تو عرب میں کبھی ناقوس نہ بچ سکے گا، (اسد الغابہ:۵/۱۴۳،۱۴۴) قسطنطنیہ میں آج تک آپ کا مزار مبارک زیارت گاہ خلائق ہے،"ترجمان حقیقت" نے اسی تاریخی حقیقت کو ان اشعار میں بیان کیا ہے۔
تربتِ ایوُّب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلمان ملتِ اسلام کا دم ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کے کشت و خون کا حاصل ہے یہ
امیر معاویہؓ کے زمانہ میں کوئی سال رومیوں کے ساتھ نبرد آزمائی سے خالی نہیں گیا ،ہر موسم گرما میں جب موسم اعتدال پر ہوتا تھا مسلمان کبھی ایشیا اورکبھی یورپ میں ان سے مقابلہ کرتے تھے، ان کے عہد میں بحر روم کے متعدد جزیرے اسلام کے زیر نگین ہوئے۔




روڈس کی فتح

اس سلسلہ میں سب سے اول ۵۳ ھ میں جنادہ بن ابی امیہ نے روڈس پر حملہ کیا، روڈس بحر روم میں انا طولیہ کے قریب جنوب مغرب میں نہایت سر سبز وشادات جزیرہ ہے،زیتون ،انگور اورہر قسم کے پھل یہاں بکثرت ہوتے تھے، جنادہ بن ابی امیہ نے ۵۳ ھ میں اس کو فتح کیا اورامیر معاویہؓ نے یہاں بہت سے مسلمان آباد کئے۔

(بلاذری:۲۴۴ ومعجم البلدان ذکر ارواڈ)

ارواڈ کی فتح
پھر ۵۴ھ میں ایک دوسرے جزیرہ ارواڈ کو جو قسطنطنیہ کے قریب سے فتح کیا امیر معاویہؓ نے یہاں بھی مسلمانوں کی نوآبادی قائم کی ،ارواڈ کی فتح میں جنادہ کے ساتھ مجاہد کی کوششیں بھی شریک تھیں، اسی زمانہ میں صقلیہ پر بھی حملہ ہوا،لیکن فتح نہ ہوسکا اور عباسیوں نے یہاں علم نصب کیا۔

(بلاذری :۲۴۴ ومعجم البلدان ذکر ارواڑ)






یزید کی ولی عہدی

مغیرہ بن شعبہ، امیر معاویہؓ کے بڑے ہمدرد ہوا خواہ تھے انہوں نے ان کے سامنے یزید کی ولیعہدی کی تجویز پیش کی، امیر معاویہؓ نے اس قیصری اورکسروی بدعت کو بہت پسند کیا ، لیکن اس  کوعملی جامہ پہنانے میں چند درچند مذہبی اور پولیٹکل دقتیں حائل تھیں، اسلام کا نظام شوریٰ پر ہے، خلفاء اکابر مہاجرین وانصار کے مشورہ سے منتخب ہوتے تھے ،اس لئے مسلمان موروثی بادشاہت سے بالکل نا آشنا تھے، گو اس زمانہ میں اکابر صحابہ کی بڑی جماعت اٹھ چکی تھی، تاہم بعض جانشینانِ بساطِ نبوت موجود تھے، اس لئے قطع نظر توارث کی بدعت کے صلاحیت اوراہلیت کے اعتبار سے بھی ان صحابہ کے ہوتے ہوئے خلافت کے لئے یزید کا نام  کسی طرح نہیں لیا جاسکتا تھا اورگو عہد رسالت کے بُعد اور نظام خلافت کی برہمی کی وجہ سے مسلمانوں کا مذہبی جذبہ کسی حد تک سرد پڑچکا تھا تاہم ابھی خلافتِ راشدہ کے نظام کو دیکھنے والے موجود تھے اور عجمی شاہ پرستی ان میں پیدا نہ ہوئی تھی اور اتنے کھلے ہوئے خطا و ثواب میں حق و باطل کی تمیز باقی تھی کہ یزید کا نام خلافت کے لئے پیش کیا جاتا اور مسلمان اس کو آسانی سے قبول کرلیتے ،اس لئے امیر معاویہؓ کو پہلے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں تامل ہوا؛ لیکن پھر کچھ یزید کی محبت اورکچھ اپنے نزدیک مسلمانوں کو خانہ جنگی سے بچانے اوران کی مرکزیت کو مستحکم کرنے کے خیال سے تمام پہلوؤں اوردشواریوں کو نظر انداز کرکے یزید کی ولیعہدی کا فیصلہ کرلیا، اس وقت مذہبی اور پولٹیکل حیثیت سے مسلمانوں کے تین مرکز تھے، جن کی رضا مندی پر انتخاب خلیفہ کا دار ومدار تھا، مذہبی حیثیت سے حجاز اور پولٹیکل حیثیت سے کوفہ اور بصرہ ،امیر معاویہؓ نے ولیعہدی کے فیصلہ کے بعد ان تینوں مقاموں میں یزید کی ولیعہدی کی بیعت کی ذمہ داری علی الترتیب مروان بن حکم ،مغیرہ بن شعبہ اورزیاد بن ابی سفیان کے سپرد کی،مغیرہ اورزیاد نے حسن تدبیر سے کوفہ اوربصرہ کو درست کرلیا اور یہاں کے عمائد کے وفود نے امیر معاویہؓ کے پاس جاکر یزید کی ولیعہدی تسلیم کرلی، قلب اسلام حجاز تھا،اگرچہ اس وقت یہاں بھی عہد رسالت کی بہار ختم اورمذہبی روح مضمحل ہوچکی تھی، اکابر صحابہ اٹھ چکے تھے جو باقیات الصالحات رہ گئے تھے وہ بھی گمنام گوشوں میں پڑے تھے؛ لیکن ان بزرگوں کی اولادیں جنہیں خود بھی شرفِ صحبت حاصل تھا موجود تھے اوران میں حق گوئی اور صداقت کا جو ہر پورے طور پر موجود تھا، ان میں عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت حسینؓ اور عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نمایاں شخصیت رکھتے تھے،خصوصا ًاول الذکر تینوں بزرگ  اپنے اسلاف کرام کا نمونہ تھے،اس لئے جب مروان نے ان کے سامنے یزید کی ولیعہدی کا مسئلہ پیش کیا اور کہا کہ امیر المومنین معاویہؓ چاہتے تھے کہ ابو بکرؓ و عمرؓ کی طرح اپنے لڑکے یزید کو خلافت کے لئے نامزد کرجائیں،تو عبدالرحمنؓ نے بر ملا ٹوکا کہ یہ ابو بکرؓ و عمرؓ کی سنت نہیں ؛بلکہ کسریٰ وقیصر کی سنت ہے،ان دونوں میں سے کسی نے بھی اپنے لڑکے کو ولیعہد نہیں بنایا ؛بلکہ اپنے خاندان تک کو اس سے دور رکھا (تاریخ الخلفاء سیوطی:۱۹۵) ان کے بعداور تینوں بزرگوں نے بھی اس سے اختلاف کیا ،مروان نے یہ رنگ دیکھا تو امیر معاویہؓ کو اس کی اطلاع دی؛چنانچہ یہ خود آئے اورمکہ مدینہ والوں سے بیعت کا مطالبہ کیا اس بارہ میں کہ معاویہؓ نے بیعت کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا تھا مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں،طبری کی روایت ہے کہ ان کے آنے کے بعد ابن عمرؓ،ابن زبیرؓ، ابن عباسؓ، ابن ابی بکرؓ، اورحسینؓ کے علاوہ سبھوں نے بیعت کرلی، بیعت عام کے بعد پھر انہوں نے فرداً فرداً سب سے نہایت نرم دلی  وملاطفت کے ساتھ کہا کہ تم پانچوں کے سوا سب نے بیعت کرلی ہے اور تمہاری قیادت میں یہ چھوٹی جماعت مخالفت کررہی ہے ان کے اس اعتراض پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ اگر عامہ مسلمین بیعت کرلیں گے تو ہمیں بھی کوئی عذر  نہ ہوگا، اس جواب پر امیر معاویہؓ نے پھر ان لوگوں سے کوئی اصرار نہیں کیا، البتہ عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے سخت گفتگو ہوگئی۔

(طبری:۷۱۷۷)

ابن اثیر کا بیان ہے کہ جب امیر معاویہؓ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا تو انہوں نے امیر معاویہؓ سے گفتگو کرنے کے لئے ابن زبیر کو اپنا نمائندہ بنایا، معاویہؓ نے ان سے کہا کہ میرا جو طرز عمل تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جس قدر تمہارے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں اور تمہاری جتنی باتیں برداشت کرتا ہوں وہ سب تم کو معلوم ہیں، یزید تمہارا بھائی اور ابن عم  ہے میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ اس کو صرف خلیفہ کا لقب دے دو، باقی عمال کا عزل ونصب ،خراج کی تحصیل وصول اوراس کا صرف تم لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور وہ اس میں مطلق مزاحمت نہ کرے گا، اس پر ابن زبیر نے کہا کہ آنحضرت  سے لے کر عمرؓ تک جو جو طریقے انتخاب خلیفہ کے تھے ان میں جو بھی آپ اختیار کریں اس کے قبول کرنے کے لئے ہم تیار ہیں،باقی ان کے علاوہ اورکوئی جدید طریقہ نہیں قبول کرسکتے، امیر معاویہؓ نے یہ جواب سنا تو ان سب کو دھمکاکر بیعت لے لی اوران کو عام مسلمانوں کے سامنے لاکر کہا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے سربر آوردہ اشخاص ہیں ،انہوں نے بیعت کرلی ہے ،اس لئے اب تم لوگوں کو بھی توقف نہ کرنا چاہیے امیر معاویہؓ کے اس کہنے پر یہ لوگ خاموش رہے،اس لئے عوام نے بھی بیعت کرلی (ابن اثیر ،جلد۳،صفحہ۴۲۳،اس موقع پر ہم نے ابن زبیرؓ اور معاویہؓ کی گفتگو کا خلاصہ لکھا ہے انشا اللہ تعالی تفصیلی گفتگو ابن زبیرؓ کے حالات میں لکھی جائے گی، ابن اثیر نے یہ واقعہ ۵۶ھ میں لکھا ہے،جو صحیح نہیں،اس لئے کہ مغیرہ بن شعبہ کا انتقال بالاتفاق۵۰ھ میں ہوچکا تھا ) غرض کسی نہ کسی طرح ۵۶ھ میں امیر معاویہؓ نے یزید کی بیعت لے کر نظامِ خلافت کا خاتمہ کردیا۔






امیر کی آخری تقریر

۵۹ھ میں امیر معاویہؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئے،عرصہ سے ان کے قویٰ مضمحل ہوچکے تھے، طاقتِ جسمانی جواب دے چکی تھی، اس لئے مرض الموت سے پہلے وہ اکثر موت کے منتظر رہا کرتے تھے ؛چنانچہ بیماری سے کچھ دنوں پہلے انہوں نے حسب ذیل تقریر کی تھی:
لوگو میں اس کھیتی کی طرح ہوں جو کٹنے کے لئے تیار ہو، میں نے تم لوگوں پر اتنی طویل مدت تک حکومت کی کہ میں بھی اس سے تھک گیا اورغالباً تم بھی تھک گئے ہوگے ،اب مجھے تم سے جدا ہونے کی تمنا ہے، اورغالبا ًتم کو بھی یہی آرزو ہوگی میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہ ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیشتر وں سے بہتر نہیں ہوں ،کہا جاتا ہے کہ جو شخص خدا سے ملنے کی تمنا کرتا ہے، خدا بھی اس سے ملنے کا متمنی رہتا ہے اس لئے خدایا! اب مجھ کو تجھ سے ملنے کی آرزو ہے، تو بھی آغوش پھیلادے، اورملاقات میں برکت عطا فرما، اس تقریر کے چند ہی دنوں کے بعد بیمار پڑے۔

(ابن اثیر:۴/۲)

اس وقت عمر کی اٹہتر منزلیں طے کرچکے تھے،وقت آخر ہوچکا تھااس لئےعلاج و معالجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، روز بروز حالت گرتی گئی،اسی حالت میں ایک دن حمام کیا ،جسم زار پر نظر پڑی، تو بے اختیار آنسو نکل آئے اور یہ شعر زبان پر جاری ہوگیا۔

ای اللیالیٰ سرعت فی نفقبتی                                                             اخذن بعضی وترکن بعضی

لیکن اس وقت بھی حاکمانہ تیور نہ بدلے، اور آن بان  میں فرق نہ آنے دیا؛چنانچہ جب مرض زیادہ بڑھا اورلوگوں میں اس کا چرچا ہونے لگا تو ایک دن تیل اور سرمہ وغیرہ لگا کر سنبھل کے بیٹھے اور لوگوں کوطلب کیا، سب حاضر ہوئے اور کھڑے کھڑے مل کر واپس گئے لوگ اس آن بان میں دیکھ کر کہنے لگے کہ معاویہ تو بالکل صحیح و تندرست ہیں۔



یزید کو وصیت

جب حالت زیادہ نازک ہوئی تو یزید کو بلا کر کہا کہ (اس وصیت کے متعلق مؤرخین کے بیان میں اختلاف ہے  بعض لکھتے ہیں کہ معاویہؓ نے یزید کو خود بلاکر وصیت کی تھی اوربعضوں کے نزدیک یزید اس وقت موجود نہ تھا، اس لئے اپنے ندیم خاص ضحاک بن قیس فہری کو لکھوا کردی تھی کہ وہ ان کے بعد یزید کے حوالے کردے)جان پدر میں نے تمہاری راہ کے تمام کانٹے ہٹا کر تمہارے لئے راستہ صاف کردیا ہے اور دشمنوں کو زیر کرکے سارے عرب کی گردنیں جھکادی ہیں اور تمہارے لئے اتنا مال جمع کردیا ہے کہ اس سے پہلے کسی نےجمع نہ کیا ہوگا، اب میں تم کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ اہل حجاز کا ہمیشہ خیال رکھنا کہ وہ تمہاری اصل وبنیاد ہیں، اس لئے جو حجازی تمہارے پاس آئے اس سے حسنِ سلوک سےپیش آنا اوراس کی پوری عزت کرنا اوراحسان کرنا اور جو نہ آئے اس کی خبر گیری کرتے رہنا، عراق والوں کی ہر خواہش پوری کرنا، حتیٰ کہ اگروہ روزانہ عاملوں کی تبدیلی کا مطالبہ کریں تو بھی پورا کرنا، کیونکہ عاملوں کا تبادلہ تلوار کے بے نیام ہونے سے زیادہ بہتر ہے، شامیوں کو اپنا مشیر کار بنانا اور ان کا خیال ہر حال میں مدِّ نظر رکھنا اور جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے مقابلہ میں کھڑا ہو تو ان سے مدد لینا، لیکن کامیابی کے بعد ان کو فوراً واپس بلالینا، کیونکہ اگر یہ لوگ وہاں زیادہ مقیم رہیں گے، تو ان کے اخلاق بدل جائیں گے، سب سے اہم معاملہ خلافت کا ہے ،اس میں حسینؓ بن علیؓ عبداللہ بن عمرؓ، عبدالرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن زبیرؓ کے علاوہ اورکوئی تمہارا حریف نہیں ہے، لیکن عبداللہ بن عمرؓ سے کوئی خطرہ نہیں انہیں زہد وعبادت کے علاوہ اور کسی چیز سے واسطہ نہیں ہے اس لیے عام مسلمین کی بیعت کے بعد ان کو بھی کوئی عذر نہ ہوگا، عبدالرحمن بن ابی بکر میں کوئی ذاتی ہمت اورحوصلہ نہیں جو ان کے ساتھی کریں اس کے وہ بھی پیرو ہوجائیں گے، البتہ حسینؓ کی جانب سے خطرہ ہے، ان کو عراق والے تمہارے مقابلہ میں لاکر چھوڑیں گے، اس لئے جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہوجائے تو درگزر سے کام لینا؛ کیونکہ وہ قرابت دار اور رسول اللہ  کے عزیر ہیں،البتہ جو شخص لومڑی کی طرح کا داؤ دے کر شیر کی طرح حملہ آور ہوگا وہ عبداللہ بن زبیرؓ ہے، اس لئے اگر وہ صلح کریں تو صلح کرلینا، ورنہ موقع اور قابو پانے کے بعد ان کو ہرگز نہ چھوڑنا، اوران کے ٹکڑے کرڈالنا۔

(یہ وصیت طبری اور الفخری کے بیان کا خلاصہ ہے، دیکھو طبری:۷/۱۹۶،۱۹۷ والفخری:۱۰۲)





اپنے متعلق وصیتیں

اس وصیت کے بعد اہل خاندان کو وصیت کی کہ خدا کا خوف کرتے رہنا، کیونکہ خدا خوف کرنے والوں کو مصائب سے بچاتا ہے جو خدا سے نہیں ڈرتا اس کا کوئی مدد گار نہیں، پھر اپنا آدھا مال بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا۔
(طبری:۷/۲۰۲) اورتجہیز وتکفین کے متعلق ہدایت کی کہ مجھ کو رسول اللہ  نے ایک کرتہ مرحمت فرمایا تھا، وہ اسی دن کے لئے محفوظ رکھا ہے اورآپ کے ناخون اورموئے مبارک شیشہ میں محفوظ ہیں، مجھے اس کرتے میں کفنانا اورموئے مبارک کو آنکھوں اورمنہ کے اندر رکھ دینا، شاید خدا اسی کے طفیل میں اوراسی کی برکت سے میری مغفرت فرمادے۔

(استیعاب:۱/۳۶۲)





وفات

ان وصیتوں کے بعد رب کے اس مدبر اعظم نے رجب ۶۰ھ میں جان جان آفرین کے سپرد کی، وفات کے بعد ضحاک بن قیس ہاتھوں میں کفن لئے ہوئے باہر آئے اورلوگوں کو ان الفاظ میں ان کی وفات کی خبردی، لوگو! معاویہؓ عرب کی لکڑی اوراس کی دھار تھے،خدانے ان کے ذریعہ سے فتنہ فروکیا،شہروں کو فتح کرایا اورلوگوں پر انہیں حکمران بنایا، آج وہ اس دنیا سے اٹھ گئے ،یہ دیکھو ان کا کفن ہے اسی میں ہم انہیں لپیٹ کر قبر میں دفن کریں گے، اوران کا فیصلہ ان کے اعمال پر چھوڑ دینگے جو شخص جنازہ میں شرکت کرنا چاہتا ہے وہ آئے (طبریؓ۷/۲۰۲) اس اعلان کے بعد تجہیز وتکفین عمل میں آئی ،ضحاک نے نماز جنازہ پڑھائی اورمعاویہؓ دمشق کی زمین میں سپرد خاک کئے گئے،مدت حکومت ۱۹ سال تین مہینہ۔




حلیہ

حلیہ یہ تھا قد بلند وبالا،رنگ گورا سفید، داڑھی میں مہندی کا خضاب کرتے تھے




ازواج واولاد

، امیر معاویہؓ کے متعدد بیویاں تھیں ،میسوں بنت بحدل ان کے بطن سے یزید اورایک بچی امۃ رب المشارق تھی، دوسری بیوی فاختہ بنت قرظہ تھیں، جن کے بطن سے عبدالرحمن اور عبداللہ تھے،معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن ان کی زندگی میں مرچکے تھے ،عبداللہ نہایت بیوقوف اوربزدل آدمی تھا اس لئے وہ نمایاں طور پر کہیں نظر نہیں آتا،ان کےعلاوہ نائلہ اورکتوہ تھیں لیکن نائلہ کو طلاق دے دی تھی۔




کارنامہائے زندگی

امیر معاویہؓ کو جوچیز دوسرے اموی خلفاء سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی بے نظیر تدبیر وسیاست اورقوتِ نظم تھی ،امیر معاویہؓ اموی سلسلہ کے سب سے پہلے بادشاہ تھے اوران ہی کے ہاتھوں بنو امیہ کی بنیاد پڑی تھی، اس لئے عام اصول کے اعتبار سے ان کا دور حکومت بالکل ابتدائی سادہ اور غیر مکمل ہونا چاہیے تھا، لیکن اس آغاز کے باوجود وہ ترقی یافتہ حکومت کا ایک مکمل اورجامع نمونہ تھا، ان کے بعد کے آنے والے خلفاء کا دور بعض انفرادی اوصاف وخصوصیات میں تو ان کے دور سے ممتاز ہے ؛لیکن مجموعی حیثیت سے ان سے کوئی نہ بڑھ سکا، امیر معاویہؓ تاریخ اسلام کے سب سے پہلے شخصی فرما نروا تھے، اس لئے ان کے عہد میں خلافت راشدہ کا طریق جہا نبانی تلاش کرنا بے سود ہے، اس لئے ہم کو آئندہ سطور میں صرف "من حیث اول ملوک الاسلام" ان کے دور حکومت پر نظر ڈالنی ہے کہ ایک دنیاوی بادشاہ کی حیثیت سے ان کا دور کیسا تھا؟ ان کی مطلق العنانی محدود تھی یا غیر محدود ،ان کا نظام حکومت مکمل تھا یا ناقص؟ ان کا عہد دور فتن تھا یا دور امن وسکون؟ ان کے زمانہ میں اسلام کو تقویت پہنچی یا ضعف؟ ان کے عہد میں رعایا تباہ حال رہی یا مرفہ الحال؟ غرض ان کی "بادشاہت" کی کمزوری اورحکومت پسندی کے پہلو کو نظر انداز کرنے کے بعد ایک دنیاوی حکمران کی حیثیت سے ان کے عہد کی کامیابی اورناکامیابی پر تبصرہ مقصود ہے اورآئندہ سطور میں اسی حیثیت سے ان کے عہد حکومت پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔




امیر معاویہ کے مشیر کار

امیر معاویہؓ گو شخصیت پسند فرما نروا تھے تاہم ان میں ایسی خود سری اورخو درائی نہ تھی جو ان کو اس عہد کے ارباب فکر وتدبر کے صلاح ومشورے سے روکتی وہ اس راز سے خوب واقف تھے کہ اتنے بڑے ملک کا نظام تنہا ایک شخص کی رائے سے قائم نہیں رہ سکتا گو کوئی باقاعدہ مجلس شوریٰ نہ تھی، تاہم اس عہد کے بہترین دماغ اور مشاہیر مدبرین عمرو بن العاصؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، اورزیاد بن ابی سفیانؓ وغیرہ ان کے خاص مشیر کار تھے اورکوئی اہم معاملہ ان لوگوں کے مشورہ کے بغیر انجام نہ پاتا تھا جس کے بعض واقعات اوپر گذرچکے ہیں۔




ملک کی تقسیم اور صوبے

ان کے زمانہ میں دولت اسلامیہ مختلف صوبوں میں تقسیم تھی،جن پر علیحدہ علیحدہ گورنر ہوتے تھے اور بعض بڑے بڑے صوبہ مثلاً خراسان اورافریقہ متعدد چھوٹے صوبوں پر تقسیم تھے،خراسان کے ماتحت کچھ حصہ ترکستان کا اورکابل اور سندھ تک کا علاقہ تھا، اسی طرح افریقہ میں تو نس مراکش اور الجزائر وغیرہ سب داخل تھے، ان پر ایک گور نر جنرل ہوتا تھا جواپنی جانب سے ان ملکوں کے مختلف حصوں پر علیحدہ علیحدہ گورنر مقرر کرتا تھا۔





انتخاب میں اوصاف کا لحاظ

ایک منتظم اورعدل پرورسلطنت کے لئے سب سے زیادہ اہم مسئلہ حکام اورعہدہ داروں کا انتخاب ہے ،امیر معاویہؓ کے عہد میں تمام ذمہ دار عہدے ان ہی لوگوں کے سپرد کئے جاتے تھے جو پورے طور پر اس کے اہل ہوتے تھے ،زیاد گور نر جنرل عراق خاص اصول کے ماتحت حکام کا انتخاب کرتا تھا۔
محافظ سرحد، افسر پولیس ،قاضی اورصائف کے عہدوں کے لئے معمر اورتجربہ کار اشخاص منتخب ہوتے تھے، پولیس کے لئے چست ،چالاک اوررعب داب کے اشخاص منتخب ہوتے تھے،صاحب الحرس (محافظ دستہ کا افسر) کے لئے پاک باز اورپختہ کار آدمی چنے جاتے تھے اوراس عہدہ کا بھی لحاظ کیا جاتا تھا کہ اس کا دامن عوام کی طعنہ زنی اور عیب چینی سے پاک ہو، کاتب کا عہدہ نہایت مہتم بالشان ہے، اس کی ادنیٰ لغزش قلم اورتسامح سے نظام حکومت میں خلل پڑجاتا ہے، اس لئے اس کے انتخاب میں خاص طور پر احتیاط کی جاتی تھی اوراس کے لئے وہی شخص منتخب ہوتا تھا جس کی نگاہ دور بین اور دقیقہ رس ہو اسی کے ساتھ عملی حیثیت سے اپنے کام میں چست اور مستعد ہو،جو روز کاکام روز پورا کرلے،اس میں کسی قسم کی خامی نہ ہو، جو کام کرے وہ نہایت مضبوط ٹھوس اورمستحکم ہو، ان اوصاف کے ساتھ وہ حکومت کا خیر اندیش بھی ہو، حاجب کا عہد خلفائے راشدینؓ کے عہد میں نہ تھا، سب سے پہلے امیر معاویہ نے اس کو قائم کیا چونکہ اس کو ہر وقت حکمران کی پیشی میں رہنا پڑتا تھا، اس لئے وہی شخص حاجب بنایا جاتا تھا، جو حجابت سے پہلے سلاطین کی دوسری خدمات انجام دے چکا ہو، اوراس کے ساتھ ذہین اورفہیم بھی ہو، کیونکہ اس کو ہر وقت حکمران کے چشم و ابرو کے اشارہ پر کام کرنا پڑتا ہے۔




حکام کی نگرانی اوراُن سے کامل واقفیت

حکام کے انتخاب میں احتیاط کے ساتھ اتنا ہی اہم مرحلہ ان کے افعال واعمال کی نگرانی اوران کے طرز حکومت سے خبر داری ہے زیاد کا یہ قول تھا کہ والی کو اپنے پورے عملہ سے خود عملہ والوں سے زیادہ خبردار رہنا چاہئے، اوراس اصول پر وہ پورے طور سے عمل پیرا تھا وہ تمام عاملوں پر گہری نظر رکھتا تھا، ایک مرتبہ ایک شخص نے امتحاناً پوچھا کہ آپ مجھ کو جانتے ہیں، اس نے کہا کہ تنہا تم کوہی نہیں ؛بلکہ تمہاری سات پشت کو جانتا ہوں اور جو لباس تم پہنتے ہو اسے بھی بتاسکتا ہوں، اگر تم میں سے کوئی شخص کسی سے چادر مستعار لے کر پہنے تو پہچان کر بتادوں گا۔(یہ تمام تفصیلات یعقوبی:۲/۲۷۹،۲۸۰ سے ماخوذ ہیں)عمال کے محاسبہ کا ذکر آگے آئے گا۔




صیغۂ فوج

ملک کی حفاظت اورقیام امن کے لئے فوجی قوت سب سے اہم چیز ہے، فوج کا نظام حضرت عمرؓ ہی کے زمانہ میں نہایت مکمل ہوچکا تھا پھر حضرت عثمانؓ نے اس کو اورزیادہ ترقی دی، جب امیر معاویہؓ کا زمانہ آیا تو اس میں بہت کم ترمیم کی ضرورت تھی،تاہم جس حد تک ترقی کی گنجائش تھی، امیر معاویہؓ نے اس کو ترقی دے کر کمال تک پہنچادیا؛چنانچہ انہوں نے اپنے عہد حکومت میں تمام اہم مرکزوں پر فوجی قلعے اورچھاؤنیاں قائم کیں۔





قلعوں کی تعمیر

اس سلسلہ میں سب سے پہلے اپنے مستقر شام میں متعدد قلعہ بنوائے اوربعض ویران قلعے آباد کئے، ساحل شام پر رومیوں کا ایک قلعہ جبلہ تھا، یہ شام کی فتح کے زمانہ میں اجڑ گیا تھا، امیر معاویہؓ نے اس کو دوبارہ آباد کرایا اورانطر طوس ،مرقیہ اور بلنیارس کے قلعے بنواکر آباد کئے، روڈس کی فتح کے زمانہ میں یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا، یہ قلعہ ساتھ برس تک روڈس کا فوجی مرکز رہا، پھر یزید کے زمانہ میں اجڑا (فتوح البلدان:۲۴۵) مدینہ میں خاص اہل مدینہ کے لئے ایک قلعہ بنوایا تھا، جس کا نام قصر خل تھا۔

(فتوح البلدان:۱۶۰)

ان قلعوں کے علاوہ امیر معاویہؓ نے فوجی ضرورت کے لئے مستقل شہر آباد کرکے یہاں بڑی بڑی چھاؤنیاں قائم کیں ؛چنانچہ مرعش اورقیروان اسی ضرورت کے لئے بسائے گئے تھے، ان کے حالات شہروں کی آبادی کے ذکر میں آئیں گے ۔





بحری قوت

امیر معاویہؓ کے عہد میں جس فوجی شعبہ میں نمایاں ترقی ہوئی وہ بحری محکمہ ہے جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں بری فتوحات کی وسعت کے باوجود کوئی بحری حملہ نہ ہوا تھا اور امیر معاویہؓ کے اصرار پر بھی آپ نے مسلمانوں کی حفاظت جان کے خیال سے انہیں سمندر میں اترنے  نہ دیا تھا،لیکن امیر معاویہؓ پر سمندروں سے کھیلنے کا شوق اتنا غالب تھا کہ حضرت عثمان سے باصرار اجازت لے لی اورچند دن کے اندر بحری فوج کو اتنی ترقی دی کہ اسلامی بیڑے کو اس عہد کے مشہور رومی بیڑوں سے بڑھا دیا اور ۲۳ ھ میں پانسو جنگی جہازوں کے ساتھ قبرس پر حملہ کیا جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔





جہاز سازی

 امیر معاویہؓ جیسا عظیم الشان بیڑا رکھنا چاہتے تھے اس کے لئے جہاز سازی کے کارخانوں کی سخت ضرورت تھی؛چنانچہ انہوں نے اپنے عہد میں اس کے متعدد کارخانے قائم کئے ،ان میں پہلا کارخانہ ۵۴ ھ میں مصر میں قائم ہوا تھا، (حسن المحاضرہ سیوطی :۲/۱۹۹) بلاذری کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ نے اس قسم کے کارخانے تمام ساحلی مقامات پر قائم کئے تھے ؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ پہلے جہاز سازی کا کارخانہ صرف مصر میں تھا، لیکن امیر معاویہؓ کے حکم سے کاریگر اوربڑھئی جمع کئے گئے اوران کو انہوں نے تمام ساحلی مقامات پر بسایا، اردن میں عکا میں بھی کارخانہ قائم تھا۔

(فتوح البلدان :۱۲۴)






امیر البحر

حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں عموماً بری بحری سپہ سالار ایک ہی ہوا کرتے تھے ؛لیکن امیر معاویہؓ نے بحری قوت کو جس قدر ترقی دی تھی اس کے لئے مستقل امیر البحر کی ضرورت تھی،اس لئے انہوں نے بری اور بحری فوج دونوں کی سپہ سالاری کے لیے الگ الگ اشخاص مقرر کئے، طبری کے بیان کے مطابق عبداللہ بن قیس حارثی کو انہوں نے امیر البحر مقرر کیا تھا، انہوں نے کم و بیش پچاس بحری معرکہ آرائیاں کیں جن میں ایک مسلمان بھی ضائع نہیں ہوا۔

(طبری)

دوسرے امیر البحر جنادہ بن ابی امیہ تھے، جن کو امیر معاویہؓ نے عثمانی عہد میں بحری لڑائیوں پر مامور کیا تھا یہ اس زمانہ سے لیکر یزید کے عہد تک برابر بحری حملوں میں مصروف رہے (اسد الغابہ:۲،تذکرہ جنادہ ابن ابی امیہ) امیر معاویہؓ کے عہد میں جس قدر بحری لڑائیاں ہوئیں اس کی نظر ان کے بعد عرصہ تک نہیں ملتی کوئی سال بحری حملوں سے خالی نہ جاتا تھا ؛بلکہ بیک وقت مختلف مقامات پر مختلف حملے ہوتے تھے اوپر کی فتوحات کے سلسلہ میں ان کی تفصیلات گذرچکی ہیں۔





پولیس کا محکمہ

جنگی قوت عموماً بیرونی حملہ آوروں کی مدافعت اوردوسرے ملکوں پر حملہ کیلئے ہوتی ہے،لیکن اندرون ملک کا امن وامان پولیس پر موقوف ہے اور امیر معاویہؓ کے زمانہ میں پولیس میں بڑی وسعت ہوئی، صرف ایک شہر کوفہ میں ۴ ہزار پولیس متعین تھی اور پانسو پولیس مسجد میں پہرا دیتی تھی، اس وسعت کا یہ نتیجہ تھا کہ اگر کسی کی کوئی چیز راستہ میں گرجاتی تو راہ رو اٹھانے کی ہمت نہ کرتا تھا تاآنکہ اس کا مالک خود آکر نہ اٹھائے، راتوں کو عورتیں تنہا اپنے گھروں میں مکان کے کواڑ کھول کر بے خوف و خطر سوتی تھیں، زیاد کہتا تھا کہ اگر کوفہ اورخراسان کے درمیان رسی کا کوئی ٹکڑا بھی ضائع ہوجائے تو مجھ کو معلوم ہوجائے گا کہ کس نے لیا، ایک مرتبہ اس نے ایک گھر سے گھنٹا بجنے کی آواز آتی سنی پوچھا تو معلوم ہوا کہ گھر والے پہرہ دے رہے ہیں، بولا اس کی ضرورت نہیں اگر مال ضائع ہو تو میں اس کا ضامن ہوں اس سلسلہ میں اس نے بعض ایسے قوانین بھی بنائے تھے جو بظاہر بہت سخت معلوم ہوتے ہیں مثلآً عشاء کے بعد گھر سے نکلنے کی سزا قتل تھی، لیکن عراق جیسے فتنہ پسند ملک میں اس سختی کے بغیر امن وامان ممکن نہ تھا۔

(طبری:۷/۷۷تا۷۹)





مشتبہ لوگوں کی نگرانی

مشتبہ چال چلن والوں کی نگرانی اس عہد کی جدت سمجھی جاتی ہے؛لیکن بعض بعض مقامات پر جہاں شورہ پشتوں کے سر وفساد کا خطرہ تھا، امیر معاویہؓ کے عہد میں یہ طریقہ رائج ہوچکا تھا ؛چنانچہ انہوں نے ابو درداؓ کو دمشق کے بد معاشوں کے نام قلمبند کرنے کا حکم دیا تھا(ادب المفرد باب الظن) زیاد نے جعد بن قیس تمیمی کو بد معاشوں کی نگرانی پر مقرر کیا تھا جو گھوم پھر کر ان کو نگاہ میں رکھتے تھے۔

(طبری:۷/۷۸)





ذرائع خبر رسانی

برید یعنی سرکاری ڈاک کا انتظام ایک منظم حکومت کے لئے ناگزیر شے ہے ،امیر معاویہؓ کے زمانہ تک اسلامی حکومت میں یہ طریقہ رائج نہ تھا، سب سے پہلے ان ہی نے اس کو جاری کیا، اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ گھوڑ دوڑ کے تیز رفتار گھوڑے تھوڑی تھوڑی مسافت پر رہتے تھے خبررساں خبر لیکر ان پر سوار ہوتا اورنہایت تیزی کے ساتھ جاتا تھا اورجب یہ گھوڑا تھک جاتا تھا تو آگے کی چوکی پر جہاں تیز رفتار گھوڑے ہر وقت تیار رہتے تھے تازہ دم گھوڑے سے تبادلہ کرکے آگے بڑھتا تھا، اسی طریقہ سے بڑھتا ہوا اور گھوڑے بدلتا ہوا منزل مقصود پر پہنچ جاتا تھا، اس طریقہ سے ایک مقام کی خبردوسرے مقام پر نہایت جلد پہنچ جاتی تھی۔

(الفخری:۹۷)





دیوان خاتم

فرا مین سلطانی اورحکومت کے احکام کی نقل ایک ضروری چیز ہے امیر معاویہؓ کے زمانہ تک اسلامی حکومت میں اس کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا، اسی لئے کبھی کبھی لوگ اس میں رد وبدل کردیا کرتے تھے،ایک مرتبہ امیر معاویہؓ نے ایک شخص کو ایک لاکھ کی رقم دلائی اورزیاد کے نام دہانید کا فرمان لکھد یا، اس شخص نے فرمان پڑھ کر دو لاکھ بنادیئے اورزیاد سے اسی قدر وصول کرلیا، جب زیاد نے امیر معاویہؓ کے سامنے حساب کے کاغذات پیش کئے، تو معلوم ہوا کہ وہ شخص ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ لے گیا، اسی دن سے امیر نے دیوان خاتم قائم کیا، اس میں یہ ہوتا تھا کہ جب پیش گاہ سلطانی سے کوئی فرمان صادر ہوتا تھا  تو وہ پہلے دفتر میں آتا تھا اور یہاں کا محرر اس کی نقل اپنے رجسٹر پر چڑھا کر اصل فرمان کو ملفوف کرکے اس پر موم سے مہر کردیتا تھا اس طرح اس میں تحریف کا امکان باقی نہیں رہتا تھا (الفخری:۹۷) یہ طریقہ محض شامی فرامین تک محدود نہ تھا ؛بلکہ بعض بڑے بڑے عمال بھی اس پرعامل تھے؛چنانچہ زیاد نے باقاعدہ دفاتر قائم کئے تھے جن میں احکام وخطوط کی نقلیں رکھی جاتی تھیں۔

(تاریخ یعقوبی:۲/۲۷۹)




رفاع عام کے کام

امیر معاویہؓ نے اپنے عہد حکومت میں اس قسم کے بہت سے رفاع عام کے کام کئے جن سے حکومت کے ساتھ عام رعایا کو بھی فائدہ پہنچا تھا۔

نہریں

ایشائی ملک زیاد تر زرعی ہیں؛بلکہ اس زمانہ میں جب صنعت وحرفت نے ترقی نہ کی تھی قریب قریب ہر ملک کی ثروت اورفارغ البالی کا مدار زیادہ تر زراعت پر تھا، اس لئے امیر معاویہؓ نے اپنے عہد میں زراعت کی ترقی اورپیداوار کے اضافہ اور زمین کی سیرابی کے لئے ملک کی طول و عرض میں جا بجا نہروں کا جال بچھا دیا جس سے لاکھوں ایکڑ زمین سیراب اورکروڑوں انسانوں کی پرورش ہوتی تھی، ان نہروں کی وجہ سے پیدا وار میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا اورقحط سالی کا خطرہ جاتا رہا، خلاصۃ الوفا میں ہے کہ مدینہ شریف اوراس کے گرد بکثرت نہریں تھیں اور امیر معاویہؓ کو اس باب میں خاص اہتمام تھا،انہوں نے جو نہریں جاری کیں ان میں نہر کظامہ، نہر ازراق اورنہر شہداء وغیرہ کے نام خلاصۃ الوفا میں ملتے ہیں۔

(وفا الوفا:۱۱۷،وخلاصۃ الوفاء:۱۳۶،۱۳۷)

حضرت معقلؓ نے حضرت عمرؓ کے حکم سے بصرہ میں ایک نہر کھدوائی تھی جو نہر معقل کے نام سے مشہور تھی،زیاد نے امیر معاویہؓ کے عہد حکومت میں دوبارہ اس کو کھدواکر صاف کرایا اورافتتاح کے بعد ایک آدمی کو ایک ہزار درہم دے کر کہا کہ دجلہ کے کنارے کنارے چکر لگا کر لوگوں سے پوچھو کہ یہ کس کی نہر ہے؟ جو شخص زیاد کی نہر بتائے اس کو یہ رقم دیدو اس نے گھوم پھر کر پوچھا، مگر ہر شخص کی زبان پر معقل کا نام تھا۔

(فتوح البلدان:۳۶۶)

عبید اللہ بن زیاد گورنر عراق مقرر ہوا تو اس نے بخارا کے پہاڑ کاٹ کر ایک نہر نکالی (طبری:۷/۱۶۹) ان ہی کے عہد حکومت میں حکم بن عمر ونے  ایک نہر جاری کی مگر اس کا افتتاح نہ ہوسکا، نہر کے علاوہ پہاڑ کی گھاٹیوں کے گرد بند بند ھواکرتالاب بنوائے جن میں پانی جمع ہوتا تھا (وفاء:۲/۳۲۱) ان نہروں سے پیداوار اس کے قرب وجوار کی نہروں کے ذریعہ سے ڈیڑھ لاکھ دسق خرما اورایک لاکھ دسق گیہوں پیدا ہوتا تھا۔

شہروں کی آبادی

امیر معاویہؓ نے اپنے عہد میں مستقل شہر آباد کرائے اوربعض پرانے اجڑے شہر بسائے ،مرغش شام کا قدیم اجڑا ہوا شہر تھاامیر معاویہؓ نے اس کو دوبارہ تعمیر کرا کے بسایا۔

(فتوح البلدان:۱۹۶)

ان کے عہد میں جو سب سے بڑا شہر آباد ہوا، جو اپنی مختلف خصوصیات کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے، وہ قیروان ہے،امیر معاویہؓ کے زمانہ میں عقبہ بن نافع فہری نے افریقہ کے بڑے بڑے شہر فتح کئے اور ہزاروں بربری اسلام لائے؛ لیکن یہ سخت فتنہ پرست اوربغاوت پسند تھے، جب تک ان کے سر پر فوجی قوت مسلط رہتی اس وقت تک مطیع و منقاد رہتے اور جیسے ہی ہٹتی مرتد ہوکر باغی ہوجاتے تھے، اس لئے عقبہ نے یہاں ایک شہر آباد کرکے مسلمانوں کے بسانے کا قصد کیا،تاکہ روز روز کی بغاوت کا خطرہ جاتارہے؛چنانچہ انہوں نے ساحل سے ہٹ کر اس کے لئے ایک جنگل منتخب کیا تاکہ رومیوں کے بحری حملوں سے محفوظ رہے یہ جنگل نہایت گھنا اور درندوں اور مسموم کیڑوں کا مسکن تھا، عقبہ نے اسے کٹو اکر بسایا، وسط شہر میں دارالامارۃ بنوایا، اورچاروں طرف مسلمانوں کے محلے آباد کیا ایک جامع مسجد تعمیر کی رفتہ رفتہ اس شہر نے اتنی ترقی کی کہ شمالی افریقہ کا مرکز بن گیا۔

(معجم البلدان ذکر "قیروان")

جب کسی قوم کا اخترا قبال ترقی پذیر ہوتا ہے تو اس کے متعلق عجیب وغریب محیر العقول داستانیں زبان زدخاص وعام ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کے عہد اقبال کے اس محیر العقول داستانیں زبان زدخاص وعام ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کے عہد اقبال کے اس قبیل کے سینکڑوں واقعات نے بھی تاریخی شہرت حاصل کرلی ہے،ان میں قیروان کی تاسیس کے سلسلہ کا ایک واقعہ بھی لائق ذکر ہے، جس وقت عقبہ نے اسے بسانے کا ارادہ کیا اس وقت یہاں کا جنگل اتناگھنا اور ہیبتناک تھا کہ بڑے بڑے خونخوار درندے اژدہے اس میں بھرے ہوئے تھے اوران کے نکالنے کی کوئی صورت نہ تھی لیکن جو قوم ترقی پذیر ہوتی ہے اس کا سکہ انسان سے لے کر حیوان تک پر یکساں چلتا ہے،یہی قصہ اس جنگل کے مکینوں کے ساتھ پیش آیا، عقبہ بن عامر نے جنگل کے پاس آواز لگائی کہ ہم لوگ محمد رسول اللہ  کے ساتھی اوران کی امت ہیں اور تمہیں حکم دیتے ہیں کہ کل تک تم سب جنگل خالی کردو ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے،اس الٹی میٹم پر جتنے درندے اژدھے اوردوسرے خوفناک جانور تھے وہ سب اپنے اپنے بچوں کو لے کر قطار درقطار نکلنے لگے اورجنگل بالکل خالی کردیا،گویہ واقعہ افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ،لیکن اس سے اس وقت مسلمانوں کے اوج اقبال کا ضرور پتہ چلتا ہے۔


نوآبادیاں

ان مستقل شہروں کے علاوہ بہت سی نو آبادیاں قائم ہوئیں ۴۳ میں انطاکیہ میں فارس، بعلبک،حمص اورمصر کے باشندوں کی ایک نو آبادی بسائی، (فتوح البلدان:۲۴۴) ۵۲ھ میں روڈس میں بہت سے مسلمان آباد کئے گئے ۵۴ھ میں ارواڈ میں مسلمان بسے (فتوح البلدان بلاذری:۲۶۴) خصوصاً ان مقامات پر جہاں کسی دوسری حکومت کی سرحد ملتی تھی مسلمانوں کی نو آبادیاں قائم کی گئیں، اس کی وجہ سے مخالف کے حملہ کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوگیا۔


شیر خوار بچوں کے وظائف

حضرت عمرؓ نے دس دس درہم مجاہدین کے بچوں کا وظیفہ مقرر کیا تھا اوراس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں، امیر معاویہؓ نے اپنے زمانہ میں اس کو قائم رکھا؛ لیکن اتنی ترمیم کردی کہ دودھ چھوڑنے کے بعد یہ وظیفہ جاری ہوتا تھا.


موذی جانوروں کا قتل

تہذیب یافتہ سلطنتوں میں رعایا کے آرام و آسائش کے لئےموذی جانوروں کا قتل بھی رائج ہے اوربعض حالتوں میں اس پر انعامات دیئے جاتے ہیں، امیر معاویہؓ کے زمانہ میں نصیبین میں بچھوں کی اتنی کثرت تھی کہ وہاں کے لوگ ان سے پریشان ہوگئے تھے،وہاں کے عامل نے امیر معاویہؓ کے پاس اس کی شکایت لکھی انہوں نے لکھا کہ شہر کے باشندوں پر بچھوؤں کی ایک تعداد مقرر کردیجائے کہ وہ ہر رات کو اس تعداد میں بچھو پکڑ کر لایا کریں؛چنانچہ یہ حکم جاری ہوا، اورلوگ مقررہ تعداد میں بچھو پکڑ کے لاتے تھے اور وہ مارڈالے جاتے تھے اس طرح بچھوؤں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگئی۔

(معجم البلدان،ذکر نصیبین)



غیر مسلموں کا تقرر

غالباً تمام مذاہب عالم میں یہ امتیاز صرف اسلام کو غیر مسلم کے حقوق میں کوئی فرق روانہیں رکھا ہے اوراس کا عملی ثبوت عہد فاروقی تھا تاہم چونکہ اس زمانہ میں غیر مسلم اقوام نئی نئی مفتوح ہوئی تھیں، اس وقت تک انہوں نے اپنے معتمد علیہ ہونے کا کوئی عملی ثبوت بھی نہیں دیا تھا، اس لئے حقوق میں مساوات کے باوجود حکومت کے عہدوں میں انہیں بار نہ مل سکا، اس کے بعد جس قدر زمانہ گذرتا گیا اورغیر مسلموں کا اعتماد بڑھتا گیا، اسی قدر ان کو حکومت میں قربت حاصل ہوتی گئی، امیر معاویہؓ کے عہد میں ان کے قیام دمشق کی وجہ سے جب خصوصیت سے دونوں میں زیادہ روابط بڑھے تو امیر معاویہؓ نے ان کو حکومت کے ذمہ دار عہدوں اورجلیل القدر مناصب پر ممتا زکیا ؛چنانچہ ابن آثال عیسائی کو جواِن کا طبیب تھا حمص کا کلکٹر مقرر کیا(معجم البلدان،ذکر نصبین) اور سرجون اورمنصور رومی کو مالیات کے ذمہ دار عہدوں پر ممتاز کیا۔
غیر مسلموں کے جذبات کا احترام
شام میں یہودیوں اور عیسائیوں کی بڑی آبادی تھی اور امیر معاویہؓ کو یہاں جو اقتدار حاصل تھا باوجود  انہوں نے کبھی ان کے مذہبی مراسم وغیرہ میں دست اندازی نہیں کی، حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یوحنا کے گرجے کے پاس مسجد تعمیر ہوئی تھی، امیر معاویہؓ نے اپنے زمانہ میں اس گرجے کو بھی مسجد میں شامل کرنا چاہا، لیکن عیسائی رضامند نہ ہوئے، اس لئے انہوں نے ارادہ ترک کردیا۔

(بلاذری:۳۳۱)




ذمیوں کے مال کی حفاظت

خلفاء ذمیوں کے حقوق اوران کی جان ومال کی بہت حفاظت کرتے تھے، امیر معاویہؓ کے عہد میں ان کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا جاتا تھا کہ سرکاری ضرورتوں کے  لئے بھی ان کے کسی پردست اندازی نہ  کیجاتی تھی، امیر معاویہؓ نے ایک مرتبہ حضرت عقبہ بن عامرؓ صحابی کو مصر کا گورنر مقرر کیا، وہ مصر کے ایک گاؤں میں اپنی سکونت کے لئے مکان بنوانا چاہتے تھے، امیر معاویہؓ نے انہیں اس ضرورت کے لئے ایک ہزار جریب زمین عنایت کی،انہوں نے ایک غیر آباد پرتی زمین جو کسی کے قبضہ میں نہ تھی، انتخاب کی اس پر ان کے نوکرنے کہا کہ کوئی عمدہ قطعہ پسند کیجئے انہوں نے جواب دیا یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ معاہدہ میں جو شرطیں ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ذمیوں کی زمین ان کے قبضہ سے نہیں نکالی جائےگی۔

(مقریزی :۱/۲۰۸)



رعایا کی دادرسی

ایک عادل فرمانروا کے لئے رعایا کی شکایات سننا اوراس کی داد رسی ضروری ہے، امیر معاویہؓ کو اس میں اتنا اہتمام تھا کہ وہ روزانہ مسجد میں بیٹھ کر عام رعایا کو بلا استثناء آزادی سے اپنی شکایات پیش کرنے کا موقع دیتے تھے۔
علامہ مسعودی لکھتے ہین کہ امیر معاویہؓ مسجد میں کرسی رکھواکر بیٹھتے تھے اور بلا استثناء ضعیف ،کمزور،دیہاتی بچے اور لاوارث سب پیش کئے جاتے تھے اوران میں ہر شخص ان کے سامنے اپنی اپنی شکایتیں پیش کرتا تھا، امیر معاویہؓ اسی وقت ان کے تدارک کا حکم دیتے تھے،مظلوموں کی فریاد رسی کے بعد پھر ایوان حکومت میں آتے اورتخت پر بیٹھتے اس وقت امراء اوراشراف درجہ بدرجہ باریاب ہوتے ،معمولی مزاج پرسی کے بعد جب یہ لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے تو امیروں سے فرماتے کہ تم لوگ اشراف اس لئے کہلاتے ہو کہ تم کو اپنے سے کم درجہ کے لوگوں پر شرف بخشا گیا ہے، اس لئے تم کو چاہیے کہ جو شخص میرے پاس نہیں پہنچ سکتا، اس کی ضروریات مجھ سے بیان کرو، اس کے بعد اشراف لوگوں کی ضروریات پیش کرتے اورامیران سب کے پورا کرنے کا حکم دیتے۔

(مروج الذہب مسعودی:۲/۴۲۳،مطبوعہ مصر)

یہی حال ان کے عمال کا تھا زیاد گورنر جنرل عراق کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے اس کو کثرت کار اورذمہ داری کے بار کی وجہ سے عوام سے ملنے جلنے اوران کی شکایات سننے کا براہ راست کم موقع ملتا تھا، اس کی تلافی کے لئے اس نے اپنے حاشیہ نشینوں کو حکم دیا تھا کہ ہر شخص نہ مجھ تک پہنچ سکتا ہے اوراگرکوئی شخص پہنچ بھی جائے تو گفتگو کا موقع نہیں پاسکتا، اس لئے تم لوگ عوام کے حالات میرے گوش گذار کرتے رہو۔

(یعقوبی:۲/۲۷۹)


مذہبی خدمات

گوامیر معاویہؓ کا عہد خلفائے راشدینؓ کے مذہبی عہد کے مقابلہ میں دنیاوی بادشاہت کا دور تھا،تاہم ان کا زمانہ مذہبی خدمات سے خالی نہیں اور وہ اپنی حکومت کے استحکام اوربقا کی کوششوں کے ساتھ ہی مذہب کی ترقی اور اوامرو نواہی کے قیام و تبلیغ میں بھی برابر کوشاں رہتے تھے ۔

اشاعت اسلام

ان کے زمانہ میں اسلام کی بڑی اشاعت ہوئی افریقہ کی فتوحات میں بے شمار بربری اسلام لائےمگر بار بار مرتد ہوکر باغی ہوجاتے تھے۔
امیر معاویہؓ نے ارتداد اوربغاوت کو روکنے کے لئے قیرد ان آباد کیا جس کا تذکرہ اوپر گذرچکا ہے، بربریوں کے علاوہ رومیوں کی معتدبہ تعداد بھی اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئی۔

حرم کی خدمت

شیخین کے زمانہ میں خانہ کعبہ پر معمولی کپڑے کا غلاف چڑھتا تھا، حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ میں پہلی مرتبہ اس پر بیش قیمت غلاف چڑھایا اورامیر معاویہؓ نے اس کو دیبا سے آراستہ کیا اوراس کی خدمت کے لئے غلام مقرر کئے۔

مساجد کی تعمیر

          ان کے عہد میں بکثرت نئی مسجدیں تعمیر ہوئی اورپرانی مسجدوں کی مرمت ہوئی،زیاد بصرہ کا والی ہوا تو اس نے یہاں کی مسجد کو نہایت وسعت دی اوراس کو اینٹ اورچونے سے بنوایا اورساکھو کی چھت دی،(فتوح البلدان:۳۵۵) قبرس فتح ہوا تو یہاں مسلمانوں کی نوآبادی کے ساتھ بہت سی مساجد بھی تعمیر ہوئیں (ایضا:۱۶۰) عبدالرحمن بن سمرہ نے کابلی معماروں سے بصرہ میں اپنے لئے کابلی طرز کی ایک مسجد بنوائی (فتوح البلدان:۴۰۴) مصر کی مسجدوں میں مینار نہ تھے مسلمہ بن مخلد نے ۵۳ھ میں یہاں کی تمام مساجد میں مینار بنوائے۔

(اصابہ تذکرہ مسلمہ بن مخلد)


اقامت دین

اوامر ونواہی کی تبلیغ اوراقامت دین ایک مسلم حکمران کا سب سے مقدم مذہبی فرض ہے، امیر معاویہؓ نے اپنے زمانے میں اس فرض کو ادا کرنے کی بھی کوشش کی۔

نکاح شغار کا انسداد

زمانہ جاہلیت میں ایک قسم کا نکاح رائج تھا جسے "شغار" کہتے تھے، اس کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح کسی دوسرے کے ساتھ اس شرط پر کردیتا تھا کہ وہ اس کے بدلہ میں اپنی لڑکی یا بہن اس کی زوجیت میں دیدے اوریہ تبادلہ مہر ہوتا تھا وہ اس صورت میں عورت کو مہر نہ ملتا تھا اوراس کی حق تلفی ہوتی تھی، اس لئے آنحضرتنے اس کی ممانعت فرمادی تھی، امیر معاویہؓ کے زمانہ میں عباس بن عبداللہ اورعبدالرحمن بن حکم نے  اسی طریقہ پر اپنی لڑکیوں کی شادی ایک دوسرے کے ساتھ کردی ،امیر معاویہؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے مروان کو لکھا کہ یہ نکاح شغار ہے، آنحضرت نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اس لئے دونوں میں تفریق کرادو۔

(ابوداؤد کتاب النکاح باب فی الشغار)


انسداد مفاسد

عورتوں کی مصنوعی آرائش اورغیر معتدل زیب و زینت ان کی بد اخلاقی کا پہلا زینہ ہے،یہودی عورتوں کی بداخلاقی کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان میں جن عورتوں کے بال گرجاتے تھے وہ مصنوعی لگالیتی تھیں، آنحضرت نے ان مصنوعی بالوں کی ممانعت فرمادی تھی، امیر معاویہؓ کے زمانہ میں عربی عورتوں نے بھی یہ طرز آرائش اختیار کرلیا تھا، امیر حج کو آئے تو اس کی ممانعت پر خطبہ دیا، اور منبر پر چڑھ کر مصنوعی بالوں کا گچھا ہاتھ میں لیکر کہا، اے اہل مدینہ تمہارے علماء کہاں ہیں، میں نے رسول اللہ  سے سنا ہے کہ بنی اسرائیل اس وقت برباد ہوئے جب ان کی عورتوں نے اس کو اختیار کیا۔

(بخاری کتاب بدء الخلق وکتاب الادب)

کبھی کبھی مجامع عام میں آنحضرت کے مسنون اعمال کا اعلان کرتے کبھی خود عبادات کا مسنون طریقہ عملا ًکرکے دکھاتے،کبھی اعمال کے متعلق آنحضرت کا فرمان لوگوں کو سناتے۔


فرائض اورسنن میں تفریق

آنحضرت  عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے، امیر معاویہؓ حج کو گئے تو اس خیال سے کہ لوگ اس روزہ کو فرض نہ سمجھ لیں، منبر پر چڑھ کر اعلان کیا،"اے اہل مدینہ" تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے آنحضرت سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ یہ عاشورہ کا دن ہے،خدا نے اس دن کا روزہ تمہارے اوپر فرض نہیں کیا ہے، میں روزہ رکھتا ہوں تم لوگوں میں سے جس کا دل چاہے روزہ رکھے اور جس کا دل چاہے افطار کرے۔

(بخاری کتاب الصیام باب صوم عاشورہ)


مسنون طریقوں کی تعلیم

ایک مرتبہ لوگوں کے سامنے مسنون طریقہ سے وضو کیا اورمسح راس کے لئے چلو میں پانی لے کر داہنے ہاتھ سے سر پر ڈالا،پانی کے قطرے ٹپکنے لگے پھر شروع سر سے لیکر آخرسرتک ہاتھ پھیر اورپھر واپس لائے۔

(ابو داؤد،کتاب الطہارت)



غیر مسنون اعمال کی ممانعت

ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ کے ایک مجمع سے کہا کہ آپ لوگوں کو غالباً اس کا علم ہوگا کہ آنحضرت نے فلاں فلاں چیزوں سے منع فرمایا ہے اور چیتے کی کھال کے فرش کی بھی ممانعت فرمائی ہے، سب نے کہا ہاں، پھر کہا آپ لوگ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ آپ نے حج اور عمرہ کے قران سے منع فرمایا ہے لوگوں نے کہا، اس کی ممانعت تو نہیں ہے،کہا نہیں قران بھی مذکورہ بالا چیزوں کی طرح ممنوع ہے غالباً آپ لوگ بھول گئے۔

( کتاب المناسک، باب فی الاقران)


خطبہ میں تعلیم وارشاد

کبھی کبھی خطبہ میں تعلیم وارشاد کا فرض انجام دیتے تھے، ایک مرتبہ جمعہ کے دن منبر پر مسلمانوں سے خطاب کیا کہ لوگو!میری باتوں کو کان دھر کے سنو، اس لئے کہ مجھے سے زیادہ دین و دنیا کا واقف کار پھر تم کو نہ ملے گا، نمازوں میں اپنے چہروں اورصفوں کو سیدھا رکھا کرو، ورنہ خدا تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا، جو تم کو سخت عذاب دے گا، صدقہ کیا کرو کم مائگی کا عذر نہ کیا کرو، کیونکہ کم مایہ آدمی کا صدقہ دولت مند کے صدقہ سے زیادہ افضل ہے، عفیفہ اورپاک دامن عورتوں پر تہمت نہ لگایا کرو اگر تم میں سے کوئی شخص حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کی بھی عورت پر تہمت لگائے گا تو قیامت میں اس کا مواخذہ کیا جائے گا۔

(البدایہ والنہایہ ابن کثیر:۸/۱۳۴)


امیر معاویہ کی فرد جرم کی تاریخی حیثیت

امیر معاویہؓ کی سیرت میں ان کے کار ناموں کی تفصیل کے بعد سب سے اہم اورضروری ان غلط روایات اوربے بنیاد الزاموں کی تنقید و تردید ہے  جن کی شہرت عام نے بہت سے تعلیم یافتہ مگر کوتاہ نظر اشخاص کو بھی امیر معاویہؓ کی جانب سے غلط فہمیوں میں مبتلا کردیا ہے،یہ واقعات تاریخی حیثیت سے یا بالکل بے حقیقت ہیں یا نہایت کمزور ہیں،لیکن ان کی شہرتِ عام نے انہیں تاریخی حقائق سے بھی زیادہ مشہور کردیا ہے اوراس کی تاریکی میں امیر کے روشن خدوخال بالکل چھپ گئے ہیں۔
ان واقعات کی شہرت کے دو اسباب ہیں،پہلا سبب بنی امیہ اوربنی ہاشم کی قدیم چشمک  اور خلافت کے بارہ میں اہل بیت اورغیر اہل بیت کا سوال ہے، بعض ناعاقبت اندیش اوربدخواہِ خلافت مفسدوں نے شیخین ہی کے عہد میں اس قسم کے اختلافی سوالات پیدا کردیئے تھے ،لیکن ان دونوں بزرگوں کی خلافت اجماعی اورخالص شرعی تھی ،نظام خلافت حق وصداقت کی بنیادوں پر قائم تھا، خود یہ بزرگوار اسوۂ نبوی کا مجسم پیکر تھے، اس سے بھی بڑھ کر حق و باطل میں امتیاز کرنے والی جماعتِ صحابہ موجود تھی، اس لئے یہ شرانگیز سوالات ابھر نہ سکے اور دماغوں ہی کے اندر دب دب کر رہ گئے، اس کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں (باوجود یکہ وہ بھی خلیفۂ راشد تھے لیکن چونکہ امتداد زمانہ سے نظام خلافت میں پہلی استواری قائم نہ رہ گئی تھی) فتنہ پر ست فرقہ کی شر انگیزیاں اثر کر گئیں اور حضرت عثمانؓ کو طرح طرح کے الزمات  کا نشانہ بننا پڑا اوراس کے جو مذموم نتائج نکلے وہ سب کو معلوم ہیں، ایسی حالت میں امیر معاویہؓ کو جن کی حکومت نہ خلافتِ راشدہ کے صراطِ مستقیم سے ہٹی ہوئی تھی اوروہ بعض غلطیوں کی وجہ سے بد نام  ہورہے تھے مورد الزام بنادینا کیا مشکل تھا۔
دوسرا سبب ان کی بعض لغزشیں ہیں، مثلا ً جناب امیر ؑ کے مقابلہ میں ان کا صف آرا ہونا، اور اس میں کامیابی کے لئے ہر طرح کے جائز و ناجائز وسائل استعمال کرنا، حضرت حسنؓ سے لڑنا، اسلامی خلافت کو موروثی حکومت میں بدل دینا وغیرہ ،ان میں سے ہر ایک واقعہ ان کی ایسی کھلی غلطی ہے جسے کوئی حق پسند مستحسن نہیں  قرار دے سکتا، خصوصا ًیزید کی ولیعہدی سے اسلامی خلافت کی روح ختم اوراسلام میں موروثی بادشاہت کی رسم قائم ہوگئی، ان واقعات نے عوام کو چھوڑ کر حق پسند خواص کو بھی امیر معاویہ سے بد ظن کردیا، اس لئے امیر معاویہؓ کے مخالفین کو ان کے خلاف پروپگنڈے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ان واقعات کو جنہیں سنجیدہ طبقہ بھی ناپسند کرتا تھا، آڑ بنا کر امیر معاویہؓ کو طرح طرح کے الزامات کا نشانہ بنادیا اورچونکہ عوام پہلے سے ان سے بد ظن تھے، اس لئے امیر کے مخالفوں نے جس رنگ میں ان کی تصویر پیش کی اورجو جو برائیاں ان کی طرف منسوب کیں لوگوں نے نہایت آسانی کے ساتھ اس کو قبول کرلیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ ؓ کے بعد گو نصف صدی سے زیادہ بنی امیہ کی حکومت قائم رہی، لیکن ان کے خلاف جو نفرت انگیز جذبات پیدا ہورہے تھے،وہ برابر دماغوں میں پرورش پاتے رہے، اوران کی مخالفت کا جو نقش جم گیا تھا وہ کسی طرح نہ مٹ سکا، ان ہی واقعات کے نتائج میں بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی، یہ سب بنی امیہ کے نہایت سخت دشمن تھے، اس لئے بنی امیہ کی مخالفت میں جو صدا امیر معاویہؓ کے عہد میں اٹھی تھی، وہ بنی عباس کے پورے دورِ حکومت تک برابر گونجتی رہی؛بلکہ اس کا غلغلہ اورزیادہ بلند ہوگیا اوربنی عباس کی حکومت وہ تھی جس کا سکہ مشرق سے مغرب تک روان تھا اس لئے امیر معاویہؓ کے مثالب ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئے۔
اسی زمانہ میں تاریخ نویسی کا آغاز ہوا، اس لئے ایسی بہت سی غلط روایتیں جو عرصہ سے زبانوں پر چڑھی چلی آرہی تھیں، تاریخوں میں داخل ہوگئیں؛ کیونکہ ایسے ابتدائی دور میں جبکہ تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا روایات کی اتنی تحقیق وتنقید جس سے افسانہ وحقائق میں پورا پورا امتیاز ہوسکے مشکل تھی، گو بہت سی بے سروپا روایتیں جن کا لغو ہونا بالکل عیاں تھاتنقید سے مسترد ہوگئیں، پھر بھی بہت سے غلط واقعات تاریخ کا جزو بن گئے،حتیٰ کہ مورخ ابن جریر اپنی محدثانہ تنقید کے باوجود اپنی کتاب کو غلط روایات سے محفوظ نہ رکھ سکا اورآغاز تاریخ اسلام میں  واقعات پولیٹیکل مقاصد کے لئے تراشے گئے تھے، اس میں داخل ہوگئے، تاہم زمانہ ما بعد میں جب تنقید کا معیار بلند ہوا تو بڑی حد تک اس قسم کی روایتیں ناقابل اعتبار قرار پائیں؛چنانچہ ابن خلدون میں اس قسم کے افسانے نہیں ملتے۔
غرض بعض ان غلط واقعات نے جن کا عوام کی زبانوں کے سوا تاریخ میں سرے سے کوئی وجود نہیں اور حددرجہ ضعیف اورکمزور روایتوں نے مل کر امیر معاویہؓ کی تصویر بہت بھیانک کردی، اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ان غلط افسانوں اورکمزور تاریخی روایات کا پردہ ہٹا کر امیر معاویہؓ کی اصلی تصویر پیش کردی جائے تاکہ ان کی زندگی کے قابل اعتراض پہلو کے ساتھ روشن پہلو بھی نظر آجائیں اور ان کی طرف سے عام طور پر جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ دور ہوجائیں۔
لیکن ان واقعات کی تردید کا منشا امیر معاویہؓ کے بے جا حمایت یا ان کا اور حضرت علیؓ کا موازنہ نہیں ہے، ابن عم رسول  خلیفۂ راشد علی مرتضیؓ، اورامیر شام کا مقابلہ ہی کیا؛بلکہ اس کا مقصد صرف امیر معاویہؓ کی جانب تصحیح خیال اوران غلط واقعات کی پردہ دری ہے،جن کی شہرت عام نے بہت سے مسلمانوں کو ایک صحابی رسول سے بد ظن کر رکھا ہے۔
امیر معاویہؓ پر عموماً حسب ذیل الزمات لگائے جاتے ہیں، یا کم از کم عوام الناس کی زبانوں پر ہیں (۱)حضرت حسنؓ کے زہر دلوانے میں امیر معاویہؓ کا ہاتھ تھا (۲)بنی ہاشم اوراہل بیت نبویﷺ  کے ساتھ امیر معاویہؓ کا طرز عمل ناپسندیدہ تھا (۳)جناب امیر پر سب وشتم کرتے تھے (۴) صحابہ کو قتل کیا اور ان کی توہین کی (۵) ان کا طرز حکومت نہایت جابرانہ تھا (۶)انہوں نے بیت المال کو ذاتی خزانہ بنالیا تھا اور اس کو اپنے اغراض میں اڑاتے تھا (۷) حکومت کے تمام شعبوں میں بنی امیہ کو بھردیا تھا (۸)بہت سی بدعتیں جو خلفائے راشدین کے عہد میں نہ تھیں، معاویہؓ نے جاری کیں۔





پہلا الزام

حضرت حسنؓ کی زہر خورانی-
مذکورہ بالا الزاموں میں حضرت حسنؓ کو زہر دلوانے کا الزام جس درجہ سنگین اورنفرت انگیز ہے، اسی قدر کمزور اورناقابل اعتبار بھی ہےاس الزام کی لغویت اس قدر عیاں ہے کہ اس کے باوجود اس کی شہرت پر حیرت ہوتی ہے،آیندہ سطور میں اس کی روایتی اوردرایتی دونوں حیثیتوں سے بحث کی جاتی ہے۔
اس کی روایتی حیثیت یہ ہے کہ اتنا بڑا اہم واقعہ جس پر مؤرخین کی نظر سب سے پہلے پڑنی چاہیے تھی بعض قدیم مورخوں نے سرے سے لکھا ہی نہیں اورجن مورخوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے تو محض روایت کی حیثیت سے ورنہ وہ اس روایت کو خود لائق اعتماد نہیں سمجھتے ،حتیٰ کہ تفضیلئے مؤرخین بھی اس کو ناقابل اعتبار شمار کرتے ہیں، درایتی حیثیت سے صورت واقعہ میں اتنا تضاد اوراشخاص کے ناموں میں اتنا شدید اختلاف ہے کہ یہ اختلاف ہی اس کی تردید کے لئےکافی ہے، اب علی الترتیب حدیث طبقات،رجال اور تاریخ سے اس کی حقیقت ملاحظہ ہو۔
حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ مشہور محدث حاکم نیشا پوری کی مستدرک میں ملتا ہے ان کی روایت یہ ہے:

عن أم بكر بنت المسور قالت : كان الحسن بن علي سم مرارا كل ذلك يفلت حتى كانت المرة الأخيرة التي مات فيها ، فإنه كان يختلف كبده

(المستدرک،باب فضائل الحسن بن علی،حدیث نمبر:۴۷۸۷)

ام بکر بنت مسور روایت کرتی ہیں: حسن بن علی کو کئی مرتبہ زہر دیا گیا؛ لیکن ہر مرتبہ بچ گئے اورآخری مرتبہ جب زہر دیا گیا جس میں ان کا انتقال ہوا تو ان کے جگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر گر تے تھے۔

اس روایت میں زہر دینے کا واقعہ ہے،لیکن امیر معاویہ ؓ  کا نام تو دور کی بات کسی زہر دینے والے کا نام تک نہیں ہے،حافظ ذہبی کی تلخیص مستدرک میں بھی جو مستدرک کے ذیل میں ہے، بعینہ یہی روایت ہے،یہ حدیث کی شہادت ہے۔
اس کے بعد طبقاتِ صحابہ پر نظر ڈالئے تو سلسلۂ طبقات کی مستند ترین کتاب استیعاب میں یہ روایت ملتی ہے:

قال قتادة وأبو بكر بن حفص سم الحسن بن علي سمته امرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي.وقالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها...واللہ اعلم

(الاستیعاب،باب بن ابی طالب الھاشمی:۱/۱۱۵)

قتادہ اورابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ حسن  علی کو زہر دیا گیا ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے زہر دیا تھا اور ایک چھوٹا گروہ کہتا ہے کہ جعدہ نے معاویہ کے اشارہ سے زہر دیا تھا، واللہ اعلم۔

علامہ ابن عبدالبر نے مذکورہ بالا دور روایتیں لکھی ہیں،لیکن دوسری روایت جس مشتبہ طورپر لکھی ہے، اس کا ضعف خود عبارت سے ظاہر ہے کہ کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں:
علامہ ابن اثیر اسد الغابہ میں لکھتے ہیں:

وكان سبب موته أن زوجته جعدة بنت الأشعث بن قيس السم، فكانت توضع تحته طست، وترفع أخرى نحو أربعين يوماً، فمات منه

(اسد الغابۃ،باب الحسن بن علی:۱/۲۶۱)

اوران کی (حسنؓ) موت کا سبب یہ تھا کہ ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس نے ان کو زہر پلادیا تھا اورچالیس دن تک ان کے نیچے برابر ایک طشت رکھا جاتا تھا اور دوسرا اٹھایا جاتا تھا، اسی میں وہ انتقال کرگئے۔

اس روایت میں بھی جعدہ ہی کا نام ہے اور امیر معاویہؓ کا کہیں ذکر نہیں ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی اصابہ میں حضرت حسنؓ کے سنین وفات کے اختلاف بتانے کے بعد لکھتے ہیں:

ويقال: إنه مات مسموماً.قال ابن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا ابن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال: لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مراراً فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله: من سقاك؟ فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى.

(الاصابۃ،باب الحاء بعد ھا لاسین:۱/۲۲۵)

اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے (حسن) زہر سے انتقال کیا، ابن سعد کی روایت ہے کہ مجھ کو اسمعیل نے خبردی کہ عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی حسنؓ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد حسینؓ ان کے پاس آئے اورپوچھا کس نےپلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا۔  رحمہ اللہ تعالی

اس روایت  سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابن حجر نفس زہرہی سے موت ہونے میں مشتبہ ہیں؛چنانچہ زہر کی روایت"یقال" کرکے لکھتے ہیں، جو ضعفِ روایت کی علامت ہے دوسری اہم روایت ابن سعد کی ہے جو طبقاتِ صحابہ کے سب سے قدیم مولف ہیں اورجن کی کتاب طبقات  ابن سعد طبقات کی قدیم ترین اور مستند ترین کتاب ہے اور بعد کی تمام کتابیں اسی سے ماخوذ ہیں مگر اس میں بھی کسی زہر دینے والے کا نام نہیں۔
علامہ ابن حجر نے اصابہ کے علاوہ رجال کی مشہور کتاب تہذیب التہذیب میں بھی اس واقعہ کے متعلق دوروایتیں نقل کی ہیں ان میں سے ایک روایت ابن سعد کی روایت خفیف لفظی تغیر کے ساتھ ہے،مگر صورت واقعہ بعینہ وہی ہے  جو اوپر لکھی گئی ہے،دوسری روایت اسد الغابہ کی ہے جو اوپر گزرچکی ہے۔
طبقات اوررجال کے بعد تاریخ میں آئیے ،تاریخ میں یہ واقعہ مشتبہ سے مشتبہ تر ہوجاتا ہے،کیونکہ تفصیلئے مورخین بھی جنہیں امیر معاویہؓ کے مظالم ومثالب اوراہل بیت کی مظلومیت دکھانے میں خاص لطف آتا ہے ، امیر معاویہؓ کے ساتھ زہر خورانی کی نسبت کو صحیح نہیں سمجھتے،حتیٰ کہ بعضوں نے سرے سے زہر خورانی کا واقعہ ہی نہیں لکھا ہے؛چنانچہ سب سے قدیم تفضیلی مؤرخ علامہ احمد بن ابی داؤد دینوری المتوفی ۲۸۱ ھ جو اپنی قدامت کی وجہ سے مستند مؤرخ مانے جاتے ہیں، اپنی کتاب اخبار الطوال میں سرے سے اس واقعہ ہی کا تذکرہ نہیں کرتے اورحضرت حسنؓ کی وفات کے حالات اس طرح لکھتے ہیں:

ثم إن الحسن رضي الله عنه اشتكى بالمدينة، فثقل، وكان أخوه محمد بن الحنفية في ضيعة له، فأرسل إليه، فوافى، فدخل عليه، فجلس عن يساره، والحسين عن يمينه، ففتح الحسن عينه، فرأهما، فقال للحسين: يا أخي، أوصيك بمحمد أخيك خيرا، فإنه جلده ما بين العينين) ثم قال: (يا محمد، وأنا أوصيك بالحسين، كانفه ووازره).ثم قال (ادفنوني مع جدي صلى الله عليك وسلم، فإن منعتم فالبقيع) ثم توفي، فمنع مروان أن يدفن مع النبي صلى الله عليه وسلم، فدفن في البقيع

(الاخبار الطوال،باب  الاخبار الطوال:۱/۲۲۱،شاملۃ۳۸)

پھر حسنؓ مدینہ میں بیمار پڑے اورحالت خراب ہوگئی تو ان کے بھائی محمد بن حنفیہ کو جو اس وقت اپنی زمینداری پر تھے بلایا گیا وہ حسنؓ کی وفات کے پہلےپہنچ گئے اورحسنؓ کے پاس آکر ان کے بائیں جانب بیٹھے ،حسینؓ داہنے جانب تھے، حسنؓ نے آنکھ کھولی اوران دونوں کو دیکھ کر حسینؓ سے کہا برادر عزیز میں تم کو تمہارے بھائی محمد سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ دونوں آنکھوں کے درمیانی چمڑہ کی طرح عزیز ہیں، پھر محمد بن حنفیہ سے کہا کہ محمد میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ تم حسین کے گرد جمع ہوکر ان کی مدد کرنا، پھر کہا کہ مجھ کو میرے نانا  کے ساتھ دفن کرنا اوراگر تم کو روکا جائے تو بقیع میں دفن کردینا؛چنانچہ آپ کی وفات کے بعد مروان نے نبی اکرم  کے ساتھ دفن کرنے سے روکا تو وہ بقیع میں دفن کئے گئے۔

اس واقعہ میں شروع سے آخر تک کہیں سرے سے زہر خورانی کا تذکرہ نہیں ہے،ان کے بعد دوسرے مستند اورتفضیلئے مورخ علامہ ابن واضح کاتب عباسی المعروف  یعقوبی جو تیسری صدی کے نہایت ممتاز مورخ ہیں اپنی مشہور کتاب تاریخ میں حضرت حسنؓ کی وفات کا یہ واقعہ لکھتے ہیں:

وتوفي الحسن بن علي في شهر ربيع الأول سنة تسع وأربعون، ولما حضرته الوفاة قال لأخيه الحسين: يا أخي إن هذه آخر ثلاث مرار سقيت فيها السم، ولم أسقه مثل مرتي هذه، وأنا ميت من يومي، فإذا أنا مت فادفني مع رسول الله، فما أحد أولى بقربه مني، إلا أن تمنع من ذلك فلا تسفك فيه محجمة دم

(یعقوبی،باب وفاۃ الحسن بن علی:۱/۱۹۸)

اورحسن ؓ بن علیؓ نے ربیع الاول ۴۹ھ میں وفات پائی جب وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے بھائی حسین سے کہا برادر عزیز یہ تیسری مرتبہ کا آخری مرتبہ ہے جس میں مجھے زہر پلایا گیا لیکن اس مرتبہ کے جیسا کبھی نہ تھا ، میں آج ہی مرجاؤں گا، جب میں مرجاؤں تو مجھ کو رسول اللہ کے ساتھ دفن کرنا، کہ میری قرابت قریبہ کی وجہ سے میرے مقابلہ میں کوئی اس کا مستحق نہیں ہے البتہ اگر تم روکے جاؤ تو ایک پچھنے کے برابر بھی خونریزی نہ کرنا۔

اس میں بھی کسی زہر دینے والے کا نام  نہیں۔
یعقوبی کے بعد تیسرے مستند ترین تفضیلئے مورخ علامہ مسعودی ،المتوفی ۳۴ھ جو اپنے وسعت علم اورجامعیت کے لحاظ سے مورٔخین میں ممتاز پایہ رکھتے ہیں،اپنی مشہور معروف کتاب مروج الذہب میں تحریر کرتے ہیں:
عليِّ بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي اللّه عنهم، قال: دخل الحسين عَلَى عمي الحسن بن علي لما سقي السم، فقام لحاجة الإنسان ثم رَجَع، فقال: لقد سقيت السم على مرار فما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي فرأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين: يا أخي، مَنْ سَقَاك. قال: وما تريد بذلك. فإن كان الذي أظنه فاللهّ حسيبه وإن كان غيره فما أحِبُّ أن يؤخذ بي بريء، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثاً حتى توفي، رضي اللّه عنه.ذكر الذي سمّه وذكر أن امرأته جَعْدة بنت الأشعث بن قيس الكندي سقته السم، وقد كان معاوية دسَّ إليها                                                                                           (مروج الذھب،باب ذکر الذی سمہ:۱/۳۴۶)

علی بن حسینؓ بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) بیان کرتے ہیں کہ حسینؓ میرے چچا حسنؓ بن علی کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسنؓ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا،لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا، حسینؓ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا؟ حسنؓ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے،اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ  سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے، اس کے بعد حسنؓ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کرگئے، اورذکر کیا جاتا ہے کہ ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس نے معاویہ ؓ کے اشارہ سے زہر پلایا تھا۔

اس روایت کے دو حصے ہیں، اصل حصہ میں کسی زہر دینے والے کا نام نہیں دوسرے ٹکڑے میں جو محض روایتی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے،جیسا کہ اس کا طرز تحریر شاہد ہے ،اس میں امیر معاویہؓ کا نام ہے، لیکن اس روایتی ٹکڑے کی جو حیثیت ہے وہ "ذکر" کے لفظ سے ظاہر ہے"ذکر" عربی زبان میں اسی واقعہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو نہایت کمزور ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا شہادتیں ان تفضیلئے مورخین کی ہیں جنہیں اہل سنت بھی عام واقعات میں مستند سمجھتے ہیں،اب ان خالص سنی مورخین کی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جنہیں شیعہ بھی مستند مانتے ہیں، اس سلسلہ میں سب سے اول محدث  ابن جریر طبری کا نام سامنے آتا ہے،لیکن یہ واقعہ مجھے طبری میں باوجود تلاش کرنے کے کہیں نہیں ملا طبری کے بعد ابن اثیر کا نمبر ہے وہ لکھتے ہیں:

(ابن اثیر:۳/۳۲۳،طبع یورپ)

فی ھذہ السنۃ توفی الحسن ابن علی سمتہ زوجتہ جعدۃ بنت الاشعث بن قیس الکندی

اوراسی سنہ ۴۹ حسنؓ بن علیؓ نے وفات پائی ان کو ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے زہر دیا تھا

ابن اثیر کے بعد ابو الفداء کا بیان ہے:

(ابو الفداء :۱/۱۸۳)

وتوفی الحسن من سم سقتہ زوحبتہ جعد ۃ بنت الاشعث قیل فعلت ذالک بامرومعاویۃ وقیل با مریزید

اورحسن نے زہر سے وفات پائی جسے ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث نے پلایا تھا اورکہا گیا ہے کہ اس نے یہ فعل معاویہ کے حکم سے کیا تھا اور کہا گیا ہے کہ یزید کے حکم سے کیا تھا۔

اس بیان سے ظاہر ہے کہ ابو الفداء بھی امیر معاویہؓ کی جانب زہر خورانی کی نسبت صحیح نہیں سمجھتا ،اس لئے پہلے اس نے اپنی رائے لکھی، اس کے بعد دوسری روایت محض روایتی حیثیت سے "قیل" کے ساتھ نقل کی ہے جو ضعف روایت کی دلیل ہے۔
سب سے آخر میں ابن خلدون کی رائے پیش کی جاتی ہے گو زمانہ کے لحاظ سے اس کا شمار متاخرین میں ہے،لیکن صحت روایت ،اصابت رائے اور تنقید کے اعتبار سے سب میں ممتاز ہے، خصوصاً مشتبہ اورمختلف فیہ واقعات میں اس کی رائے فیصلہ کا حکم رکھتی ہے کیونکہ یہ اس قسم کے واقعات کی تنقید بھی کرتا ہے اور دنیا میں فلسفۂ تاریخ کا امام ہے اورپہلا شخص ہے جس نے دنیا کو فلسفہ تاریخ سے آشنا کیا؛چنانچہ حضرت حسنؓ کی دست برداری کے سلسلہ میں لکھتا ہے:

ثم ارتحل الحسن في أهل بيته وحشمهم إلى المدينة وخرج أهل الكوفة لوداعه باكين فلم يزل مقيما بالمدينة إلى أن هلك سنة تسع وأربعين وقال أبو الفرج الاصبهاني سنة احدى وخمسين وعلى فراشه بالمدينة وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك

(ابن خلدون:۲/۱۸۷)

حسنؓ خلافت سے دستبرداری کے بعد اپنے اہلبیت اوران کے خدام کو لیکر مدینے چلے گئے اورکوفہ والے روتے ہوئے ان کورخصت کرنے کیلئے نکلے، اس وقت سے وفات تک وہ برابر مدینہ میں مقیم رہے ۴۹ ھ میں انہوں نے وفات پائی اور ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ ۵۱ھ میں اپنے بستر پر مدینہ میں وفات پائی اوریہ روایت کہ معاویہؓ نے ان کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہؓ کی ذات سے اس  کاکوئی تعلق نہیں۔

ان تمام مستند تاریخی شہادتوں کے بعد آخری میں یہ بحث تاریخ اسلام کے مشہور مجدد علامہ ابن تیمیہ حرانی کے فیصلہ پر ختم کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں:
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہؓ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اورمعتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابل وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اوریہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اس لئے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے، ہم نے اپنے زمانہ میں ایسی مثال دیکھی ہے کہ ایک شخص کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زہر سے مرا اورترکوں وغیرہ نے اسے زہر دیا لیکن اس واقعہ میں لوگوں کا بیان اس درجہ مختلف ہے کہ اس بادشاہ کی جائے وفات اورقلعہ کی تعیین میں بھی اختلاف ہے جس میں وہ مرا اوراس بارہ میں ہر شخص کا بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے ایک شخص کہتا ہے کہ فلاں نے زہردیا دوسرا کہتا ہے کہ اس نے نہیں ؛بلکہ دوسرے شخص نے زہردیا، کیونکہ یہ اس طرح پیش آیا یہ واقعہ حال کا اور تمہارے زمانہ کا ہے اوراس کے بیان کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اس بادشاہ کے قلعہ میں موجود تھے، حضرت حسنؓ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کو زہر دیا گیا اوریہ ایسی موت ہے جس کا آسانی سے پتہ چل سکتا ہے کیونکہ  مسموم کی موت چھپی نہیں رہتی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی نے زہر دیا اوریہ مسلم ہے کہ ان کی وفات مدینہ میں ہوئی اورمعاویہ شام میں تھے، اس لئے زیادہ سے زیادہ کوئی بد گمان یہ گمان کرسکتا ہے کہ معاویہ نے اس کے پاس زہر بھیج کر اس کو کھلانے کا حکم دیا، دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حسنؓ بکثرت طلاقیں دیتے تھے اورکبھی ایک عورت کے پاس نہیں رہتے تھے اس لئے ان کی بیوی نے فطرت نسوانی کے تحت عداوت میں انہیں زہر دیدیا، تیسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس عورت کا باپ اشعث بن قیس درپردہ حضرت علیؓ اورحسنؓ کا مخالف تھا اس لئے اپنی لڑکی کے ذریعہ سے زہر دلادیا اب اگر یہ کہا جائے کہ اشعث کو امیر معاویہ نے حکم دیا تھا تو یہ محض بد گمانی ہوگی،جو مذہباً ممنوع ہے  کہ نبی  نے فرمایا ہے کہ ظن اکذب الحدیث ہے اور باتفاق مسلمین شرعا اورقانونا بھی ظن پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا اس لئے مدحاً اور ذماً اس پر کوئی حکم مترتب نہیں ہوتا اور تیسرا سبب صریحا باطل ہے؛کیونکہ باختلاف روایت اشعث ابن قیس ۴۰ یا ۴۱ میں مرا اسی لئے حسنؓ اورمعاویہؓ کی صلح کے سلسلہ میں کہیں اس کا نام نہیں آیا ہے اوریہ صلح عام الجماعت ۴۱ میں ہوئی ہے، اگر اس وقت زندہ ہوتا تو اس کا نام کسی نہ کسی طرح اس سلسلہ میں ضرور آتا اس لئے وہ اپنی موت کے دس سال بعد کس طرح اپنی لڑکی سے زہر دلاسکتا تھا واللہ اعلم لحقیقۃ الحال

(منہاج السنۃ:۲/۲۲۵)

ان شہادتوں کے بعد اس واقعہ پر مزید ردوقدح کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی ،اس کے متعلق تمام تاریخی شواہد کی اصل عبارتیں مع ترجمہ ناظرین کے سامنے پیش کردی گئیں وہ انہیں دیکھ کر خود حق و باطل  کا فیصلہ کرسکتے ہیں، لیکن اس بحث کے ختم کرنے سے پہلے ایک ضروری  پہلو کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے یہ مسلم ہے کہ حضرت حسنؓ نہایت صلح جو اورصلح پسند تھے، جنگ وجدل سے انہیں طبعی نفرت تھی اوراسی سے بچنے کے لئے وہ خلافت  جیسے رفیع اعزاز سے دست بردار ہوگئے تھے آپ کی دست برداری کے بعد خانوادۂ نبوت کے جس شخص میں کسی حد تک خلافت کی خواہش  تھی تو وہ حضرت حسینؓ کی ذات گرامی تھی؛چنانچہ آپ نے حضرت حسنؓ اور امیر معاویہؓ  کی مصالحت اورحضرت حسنؓ کی دست برداری کے وقت آپ کی مخالفت بھی  کی تھی لیکن حضرت حسنؓ نے انہیں ڈانٹ کر خاموش کردیا تھا، اس لئے اگر امیر معاویہؓ آئندہ خطرہ سے بچنے کے لئے زہر دلواتے بھی تو حسینؓ کو جن کی طرف سے ان کو دعویٰ خلافت کا خطرہ تھا،جیسا کہ انہوں نے اپنے وصیت نامہ میں یزید کو آگاہ کیا تھا،یا حسنؓ کو جوان کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے غرض عقلی اور نقلی دونوں حیثیتوں سے یہ روایت ناقابل اعتبار ؛بلکہ بالکل ہی بے حقیقت ہے۔


عدم فضیلت کے شبہ کا ازالہ:




دوسرا الزام

(۲)دوسرا الزام بنو ہاشم کے ساتھ عموماً اوراہل بیت نبوی کے ساتھ خصوصاً بد سلوکی کا لگایا جاتا ہے۔
لیکن یہ الزام بھی صریح افترا اوربہتان ہے،ممکن ہے خاندانی عصبیت کی وجہ سے امیر معاویہؓ بنو ہاشم کو اچھا نہ سمجھتے ہوں، لیکن ان کے ظاہری اعزاز واحترام میں انہوں نے کبھی کوئی فرق نہیں آنے دیا، خصوصا حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد وہ بنو ہاشم سے جس حسن سلوک اورتحمل سے پیش آتے تھے وہ نہ صرف قابل ستائش ؛بلکہ حد درجہ حیرت انگیزہے، یہ ممکن ہے کہ ان کا یہ طرز عمل پولیٹکل اغراض کی بنا پر ہو، لیکن اس سے کوئی واقف کار حق پرست انکار نہیں کرسکتا کہ امیر معاویہؓ کا طرز عمل بنو ہاشم اوراہل بیت نبوی کے ساتھ حددرجہ شریفانہ اور متحملانہ تھا۔
اب واقعات سے اس کی مثالیں ملاحظہ ہوں،جب حسنؓ خلافت سے دستبردار ہوتے ہیں تو شرائط صلح میں ایک اہم دفعہ یہ ہوتی ہے کہ تمام بنی ہاشم کو وظائف دیئے جائیں گے اوران وظائف میں انہی بنی امیہ کے افراد پر ترجیح حاصل ہوگی۔

(اخبار الطوال:۲۳۱)

اپنی وفات کے وقت انہوں نے حضرت حسینؓ کے بارہ میں جو وصیت کی تھی وہ خاص طور پر قابل لحاظ ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ عراق والے حسینؓ کو تمہارے مقابلہ میں لاکر چھوڑیں گے، لیکن جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اورتم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگذر سے کام لینا، کیونکہ قرابت دار ہیں،ان کا بڑاحق ہے اور وہ رسول اللہ کے عزیز ہیں۔

(طبری:۷/۱۹۷،والفزی:۱۰۳)

بنو ہاشم کو ان کی ضرورت کے اوقات میں بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے اوراس احسان کے باوجود ان کی درشت کلامی بھی برداشت کرتے تھے ،ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے براوراکبر حضرت عقیل کو ۴۰ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوئی، یہ حضرت علیؓ کے پاس گئے، یہاں کیا تھا آپ نے اپنے وظیفہ کی بر آورتک انتظار کرنے کو کہا لیکن اولاً وظیفہ کی رقم ان کے مطالبہ کے مقابلہ میں بہت قلیل تھی، پھر اس کے لئے وقت درکار تھا، اس لئے عقیل معاویہ کے پاس پہنچے،امیر معاویہؓ نے ان سے پوچھا تم نے علی کو کیسا پایا، جواب دیا رسول اللہ  کے صحیح صحابی ہیں، بس صرف اس قدر کمی ہے کہ آنحضرت ان میں نہیں ہیں اور تم اورتمہارے حواری ابو سفیان اور اس کے حواریوں کی طرح ہو،امیر معاویہؓ نے اپنے باپ پر یہ طعن سننے کے بعد بھی انہیں پچاس ہزار درہم دیئے، خصوصا ًحضرت امام حسنؓ اورامام حسینؓ کے ساتھ اس رقم کے علاوہ جوان کو شرائط صلح کے مطابق دیتے تھے، برابر مسلوک ہوتے رہتے تھے اور ایک مشت کئی کئی لاکھ دیتے تھے،ابن کثیر نے ان دونوں بھائیوں کے ساتھ امیر معاویہؓ کی فیاضی کے بہت سے واقعات نقل کئے ہیں،
(تفصیل کے لئے دیکھو البدایہ والنہایہ :۵/۱۳۷) حضرت علیؓ کے بھتیجے عبداللہ بن جعفر کو کئی لاکھ سالانہ دیتے تھے، اس کے علاوہ جب کوئی ضرورت بیان کرتے تھے تو اس کو پوری کرتے تھے۔
بنو ہاشم کے مرد تو مرد عورتیں تک امیر معاویہؓ کو سخت الفاظ کہتی تھیں،امیر نہایت تحمل سے ان کو سنتے تھے اوران کی فرمائشیں پوری کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت علیؓ کی چچیری بہن ارویٰ ان کے پاس آئیں معاویہ نے نہایت خندہ پیشانی سے استقبال کیا اورکہا خالہ مرحبا، مزاج گرامی کیسا ہے، انہوں نے جواب دیا اچھی ہوں اوراہل بیت کے فضائل اور معاویہ کی مذمت پر ایک پرجوش تقریر کی عمرو بن العاصؓ بیٹھے تھے، ان سے نہ سنا گیا ،بول اٹھے کہ گمراہ بوڑھی تیری عقل جاتی رہی ہے، زبان بند کر، ارویٰ نے اس کے جواب میں عمرو بن العاصؓ کی بری طرح خبر لی، اوران کی ماں اوران کے نسب کے متعلق نہایت فحش باتیں سنا کر بولیں کہ تیری یہ مجال کہ میرے سامنے منہ کھولے،امیر معاویہؓ نے درمیان میں پڑ کر دونوں کو خاموش کردیا، کہ اب ان گزری ہوئی باتوں کو جانے دیجئے اوراپنی ضرورت بیان کیجئے ارویٰ نے کہا مجھ کو ۶ ہزار دینار کی ضرورت ہے ۲۰ ہزار مفلس بن حارث  کے واسطے نہر خریدنے کے لئے اور دوہزار ان کے ناداروں کی شادی میں صرف کرنے کے لئے اور ۲ ہزار وقت بے وقت کی ضرورتوں کے لئے، امیر معاویہؓ نے اسی وقت چھ ہزار کی رقم ان کے حوالہ کی اوریہ اس کو لے کر واپس گئیں۔

(ابو انصار:۱/۱۸۸)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو ہاشمی خاندان کے بڑے صاحب کمال اورصاحب دماغ بزرگ تھے،بنی امیہ کے ساتھ تعصب رکھتے تھے،اوران کی یہ روش شروع سے آخر تک برابر قائم رہی اورجب بنی امیہ اوربنی ہاشم کے مقابلہ کا سوال ہوا تو حضرت عبداللہ کی عصبیت ظاہر ہوتی رہی؛چنانچہ جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی حمایت میں میدان جنگ میں آئے اور بصریوں کی ایک جماعت اپنے ساتھ لائے پھر ثالثی  میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کو عمرو بن العاصؓ کی چال سے بچنے کی ہدایت  کی اورجناب امیرؓ کی زندگی میں ان کی جانب سے بصرہ کے والی رہے، غرض جناب امیر اور معاویہؓ کے اختلاف کے زمانہ میں عبداللہ بن عباسؓ کی حیثیت نہ صرف جناب امیرؓ کے معمولی حامی کی تھی؛بلکہ وہ امیر معاویہؓ کے سخت مخالف تھے،لیکن ان مخالفتوں کے باوجود حضرت حسنؓ کی دست برداری سے کچھ قبل جب انہوں نے امیر معاویہؓ کے پاس اپنی جان اوراپنے اندوختہ کی امان کے بارہ میں خط لکھا تو امیر معاویہؓ نے اسے بخوشی منظور کرلیا اوران سے کوئی تعرض نہیں کیا(طبری:۷/۲) ایک مرتبہ ان کو دس لاکھ درہم دئے۔

(البدایہ وانہایہ:۸/۱۳۸)

مشہور شیعی مؤرخ طباطبا المعروف بابن طقطقی لکھتے ہیں کہ اشراف قریش میں عبداللہ بن عباسؓ ،عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن جعفر طیارؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبدالرحمن ؓبن ابی بکر، آبان بن عثمانؓ اورآل ابی طالب کے افراد معاویہ کے پاس دمشق آیا کرتے تھے،یہ ان سب کی بزرگ داشت اوراعلی پیمانہ پر ان کی مہمان نوازی کرتے تھے، ان کی تمام ضروریات پوری کرتے تھے، اس کے بدلہ میں یہ لوگ ہمیشہ ان سے سختی کے ساتھ گفتگو کرتے اورچیں بچیں رہتے؛ لیکن امیر معاویہ ان گفتگوؤں کو کبھی مذاق میں اڑادیتے اورکبھی ٹال جاتے اوراس کے جواب میں پیش قیمت تحائف اوربڑی بڑی رقمیں دیتے۔

(الفخری:۹۴)

ان صریح شہادتوں کے بعد امیر معاویہؓ پر اہل بیت اوربنو ہاشم کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کا الزام لگانا کس قدر زیادتی ہے۔



تیسرا الزام

(۳)تیسرا الزام حضرت علیؓ پرسب وشتم کا ہے،لیکن یہ الزام تنہا امیر معاویہؓ پر عائد نہیں ہوتا، حضرت علیؓ اپنی تحریروں  اور تقریروں میں سخت سے سخت الفاظ اُن کے لئے استعمال کرتے تھے، آج بھی آپ کے خطبات اس کے شاہد عادل ہیں، حضرت علیؓ تو خیران سے بلند و برتر تھے،ان کے منہ پر یہ باتیں زیب بھی دیتی تھیں، لیکن وہ حامیانِ علیؓ بھی جو معاویہ کی خاک کے برابر بھی نہ تھے، کوئی بدکلامی امیر کی شان میں اٹھانہ رکھتے تھے اورحقیقت یہ ہے کہ وہ مقابل کے حریفوں میں ایک کی بد گوئی کا الزام دوسرے پر رکھنا فطرت انسانی سے جہل کا ثبوت ہے،یہ تقاضائے  فطرت ہے کہ جب دو آدمیوں کا اختلاف دشمنی کی حد تک پہنچ جاتا ہے،تو دونوں اخلاقی حدود کو توڑ کر، ادنی ادنی باتوں پر اتر آتے ہیں اس لئے امیر معاویہؓ یا حضرت علیؓ پر ایک دوسرے کے سب وشتم کا الزام رکھنا فطرت انسانی پر الزام ہے،غالباً ناظرین کو یہ معلوم کرکے حیرت ہوگی کہ امیر معاویہ حضرت علیؓ کے مقابلہ میں جنگ آزما ہونے کے بعد بھی ان کے تمام فضائل کے معترف تھے اورانہوں نے بارہا اوربرملا ان کا اعتراف کیا،جنگ صفین کی تیاریوں کے وقت جب ابو مسلم خولانی ان کو سمجھانے کے لئے گئے اور کہا معاویہ میں نے سنا ہے کہ تم علی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو، تم کو سبقت اسلام کا شرف حاصل نہیں ہے،پھر کس برتے پر اٹھو گے تو انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ مجھے اس کا دعویٰ نہیں ہے کہ میں فضل میں ان کے مثل ہوں، میں تو صرف قاتلین عثمانؓ کو مانگتا ہوں، اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے انہوں نے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہیں ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیش رو سے بہتر نہیں ہوں۔

(ابن الاثیر:۴/۲،مطبوعہ یورپ)

وہ نہ صرف حضرت علیؓ ؛بلکہ خاندانی بنی ہاشم کے شرف و فضیلت کے معترف تھے،ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کہ بنی امیہ اشرف ہیں یا بنی ہاشم، انہوں نے زمانہ جاہلیت کی پوری تاریخ دہرا کر دونوں کی فضیلت کا اعتراف کیا اورآخر میں کہا کہ نبی  کی بعثت کے بعد بنی ہاشم کی فضیلت کو کون پہنچ سکتا ہے۔

(البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)





چوتھا الزام

(۴)چوتھا اہم الزام یہ ہے کہ انہوں نے بعض اکابر صحابہ کو قتل کیا اوربہتوں کی توہین  وتذلیل کی۔
لیکن یہ الزام بھی اپنے مفہوم کی صحت کے لحاظ سے لایعنی ہے،اکابر صحابہ کی بڑی جماعت ان دونوں کے اختلاف کے پہلے ہی واصل بحق ہوچکی تھی،اکابر صحابہ میں اس وقت جو بزرگ باقی رہ گئے تھے ان میں سے بہتر ے آنحضرت کے اس فرمان کے خوف سے کہ اگر دو مسلمان لڑیں، تو دونوں جہنمی ہیں، خانہ نشین ہوگئے تھے اورحضرت علیؓ اورمعاویہؓ کسی کے ساتھ شریک نہ ہوئے۔
چنانچہ عشرہ مبشرہ میں حضرت سعدبن ابی وقاصؓ شروع سے آخرتک جس قدر خانہ جنگیاں ہوئیں، کسی میں بھی شریک نہ ہوئے، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی،لیکن جب حضرت علیؓ جنگ جمل کے لئے روانہ ہوئے اور لوگوں نے ان کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو ان کے لڑکے عمرو بن سعد نے ان سے کہا کہ آپ کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جنگل میں اونٹ چرائیں اورلوگ بادشاہت اورحکومت کے لئے اپنی اپنی قسمت آزمائیں، حضرت سعدؓ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مار کر فرمایا ،خاموش !میں نے رسول اللہ  سے سنا ہے کہ خدا خاموش اور پرہیز گار بندہ کو محبوب رکھتا ہے (الریاض المنفرہ فی مناقب العشرہ:۲۰۰) پھر جنگ  صفین میں امیر معاویہؓ نے ان کو ملاناچاہا، لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

(اسد الغابہ:۲/۳۹۲)

حضرت طلحہؓ اورزبیرؓ دونوں عشرہ مبشرہ میں تھے اورجنگِ جمل کے ہیروتھے،لیکن آغاز جنگ کے بعد میدان سے نکل آئے اوربد بختوں نے ان کی واپسی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شہید کردیا۔

(مستدرک حاکم:۳،مناقب طلحہؓ وزبیرؓ)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو اپنے فضل وکمال اورزہد وورع کے لحاظ سے اپنے عہد میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے، جنگ جمل وصفین کسی میں بھی شریک نہ ہوئے ؛لیکن چونکہ حضرت علیؓ کو حق پر سمجھتے تھے،اس لئے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی، مگر آپ سے یہ شرط کرلی تھی کہ وہ جنگ میں ساتھ نہ دیں گے اورجناب امیر نے انہیں اس کی اجازت بھی دے دی تھی۔

(مستدرک حاکم:۳/۵۵۸)

حضرت اسامہ بن زیدؓ جن کو آنحضرت کے ساتھ قرب واختصاص کی وجہ سے رکن اہل بیت ہونے کی حیثیت حاصل تھی،جنگ صفین سے بالکل کنارہ کش رہے اورحضرت علیؓ کے پاس کہلا بھیجا کہ اگر آپ شیر کی ڈاڑھ میں گھستے تو بھی میں آپ کے ساتھ گھس جاتا لیکن اس معاملہ میں حصہ لینا پسند نہیں کرتا۔

(بخاری:۲/۱۰۵۳)

حضرت احنف بن قیسؓ جب حضرت علیؓ کی امداد کے لئے آرہے تھے تو اتفاق سے حضرت ابوبکرہؓ سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے ان کو روکا اورکہا کہ رسول اللہ  نے فرمایا ہے کہ دو مسلمان آپس میں لڑیں تو دونوں جہنمی ہیں۔

(بخاری کتاب الایمان،باب العاصی من امر اجاہلیہ)

حضرت عمران بن حسینؓ جن کا شمار فضلا اورفقہائے صحابہ میں تھا خانہ جنگی میں حصہ لینا پسند نہ کرتے تھے۔

(ابن اثیرر:۳/۱۹۷ واستیعاب:۲/۴۶۸)

جب جنگ صفین کے لئے حضرت علیؓ نے تیاریاں شروع کیں اورمنبر پر چڑھ کر لوگوں کو شرکتِ جنگ پر آمادہ کرنا شروع کیا تو بہت سے لوگ آمادہ ہوگئے لیکن عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھیوں اورسو قاریوں نے کہا، امیر المومنین ہم کو آپ کے فضائل کا اعتراف ہے،لیکن اس قتال میں ہمیں شک ہے (یعنی اس جنگ میں شرکت جائز ہے یا ناجائز ،اس لئے ہمیں اس میں شریک کرنے کے بجائے حفاظت کے لئے سرحدوں کا والی بنادیجئے۔
اس جواب پر آپ نے پھر کوئی اصرار نہیں کیا اور ان کی مرضی کے مطابق قزائن ورئے وغیرہ کی سرحدوں پر مامور کردیا۔

(اخبار الطوال:۱۷۵)

بعض صحابہ ایسے بھی تھے جو شریک تو ہوگئے تھے،مگر چونکہ دل سے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنا برا سمجھتے تھے، اس لئے آخر تک مذبذب رہے اور اسی تذبذب کی وجہ سے وہ شرکت کے باوجود میدان جنگ میں ناکام رہے؛چنانچہ حضرت سہیلؓ بن حنیف جنگِ صفین میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے،لیکن لوگ ان پر جنگ سے پہلو تہی کا الزام لگاتے تھے ؛چنانچہ جب یہ صفین سے لوٹے اورلوگ ان سے حالات پوچھنے آئے تو انہوں نے اپنی صفائی پیش کی اورکہا کہ ہم نے جب کبھی کسی مہم کے لئے کندھے پر تلوار رکھی توخدانے آسان کردی، لیکن یہ جنگ ایسی ہے کہ جب ہم مشک کا ایک منہ بند کرتے  ہیں تو دوسرا کھل جاتا ہے۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ حدیبیہ)

ان واقعات کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ محتاط صحابہ کی بڑی جماعت ان خانہ جنگیوں میں شریک ہی نہ تھی، تاہم اس سے انکار نہیں کہ بہت سے صحابہ شریک بھی تھے؛لیکن یہ شرکت کسی ایک فریق کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، سوال صرف کثرت وقلت کا تھا اورجب دونوں طرف صحابہ تھے تو تنہا ایک فریق پر قتل صحابہ کا الزام رکھنا کس طرح صحیح ہے اور پھر جب دو حریف میدان میں آتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کےخون کے پیاسے ہوتے ہیں، اس لئے اس وقت رتبہ کا سوال نہیں رہ جاتا، کہ فلاں آدمی کو مارنا چاہیے کہ وہ عامی ہے اورفلاں کو نہ مارنا چاہیے کہ وہ صحابی ہے، جنگ میں یہ تمام فرق و امتیازات اٹھ جاتے ہیں۔

اس الزام کا دوسرا ٹکڑا بھی کہ امیر معاویہؓ نے صحابہ کے ساتھ ناروا سلوک کیا، صحیح نہیں، مطلقاً صحابہ کا تو سوال الگ ہے، خود ان صحابہ کے ساتھ جو حضرت علیؓ کے ساتھ تھے امیر معاویہؓ کا کوئی نازیبا سلوک نہیں بتا یا جاسکتا ہے، خود بنو ہاشم جو تمام تر حضرت علیؓ کے ساتھ تھے، اوربہت سے اکابر قریش جو کم از کم امیر معاویہؓ کے مخالف تھے ان کے ساتھ امیر معاویہؓ کے حسن سلوک کے واقعات اوپر گزر چکے ہیں کہ وہ ان کی تلخ سے تلخ باتیں سنتے تھے اور پی جاتے تھے ؛بلکہ اس کے جواب میں انہیں ہدایا و تحائف دیتے تھے اوران کی امداد کرتے تھے صحابہ کی جو جماعت صفین میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھی ان میں زیادہ تر انصاری تھے اس لئے فطرت کا تقاضا یہ تھا کہ امیر معاویہؓ اپنے زمانہ حکومت میں انصار سے اس کا بدلہ لیتے یا کم از کم ان کے ساتھ جو برائی کرسکتے تھے ، لیکن ایک مثال بھی انصار کے ساتھ بد سلوکی نہیں ملتی ؛بلکہ اس کے برعکس وہ ان کی سختیاں برادشت کرتے تھے اورمسلوک ہوتے تھے۔
ایک مرتبہ انہوں نے ایک انصار کے پاس پانسو دینار بھیجے، ان بزرگ نے اس کو کم سمجھا اوراپنے لڑکے کو قسم دلا کر کہا کہ اس کو لیجا کر معاویہ کے منہ پر کھینچ کے مارو اور واپس کردو؛چنانچہ یہ تھیلی لے کر امیر معاویہؓ کے پاس آئے اورکہا امیر المومنین میرے والد بڑے تند مزاج ہیں، انہوں نے قسم کھا کر مجھے ایسا حکم دیا ہے اب میں اس حکم کی کس طرح مخالفت کروں؟ امیر معاویہؓ نے اپنے چہرہ پر ہاتھ رکھ کرکے کہا کہ بیٹے اپنے باپ کا حکم پورا کرو، لیکن اپنے چچا کے ساتھ نرمی کرنا، یعنی زور سے کھینچ نہ مارنا، لڑکا یہ حلم دیکھ کر شرماگیا، اورتھیلی وہیں پھینک دی اس کے بعد امیر معاویہؓ نے رقم دونی کرکے پھر دوبارہ ان انصاری بزرگ کے پاس بھیجوائی یزید کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو وہ بھر اہوا آیا اورکہا کہ آپ کا حلم اب اتنا بڑھتا جاتا ہے کہ کمزوری اوربزدلی بنجانے کا خوف ہے،انہوں نے جواب دیا کہ صاحبزادے حلم کی وجہ سے کبھی ندامت اورذلت نہیں اٹھا نی پڑتی ،تم اپنے طرز پر ہو، لیکن مجھے میرے رائے پر چھوڑ دو (الفخری:۱۹۶۷) علامہ ابن طقطقی لکھتے ہیں کہ معاویہؓ پر حلم غالب تھا اوراسی کی وجہ سے ان مہاجر وانصار کے لڑکوں کی گردنیں جو اپنے کو معاویہ سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھتے تھے، ان کے سامنے جھک گئی تھیں۔

(ایضا:۹۶،۹۷)

ایک مرتبہ امیر معاویہؓ مدینہ گئے ،حضرت ابو قتادہؓ سے ملاقات ہوئی،امیر نے ان سےپوچھا کہ تمام اہل مدینہ مجھ سے ملے،مگر انصار نہیں ملے،انہوں نے جواب دیا، سواری نہ تھی معاویہؓ نے پوچھا کیوں؟ سواریاں کیا ہوئیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ بدر کے دن تمہاری اورتمہارے باپ کی تلاش میں فنا ہوگئیں ،پھر کہا رسول اللہ  نے ہم لوگوں سے فرمایا تھا کہ تم لوگ ہمارے بعد ترجیح دیکھو گے ،معاویہؓ نے پوچھا، پھر ایسی حالت میں تمہیں کسی چیز کا حکم دیا تھا، بولے فرمایا تھا، صبر کرنا، معاویہؓ نے کہا اچھا صبر کرو۔
اکثر صحابہ ان کو ان کی لغزشوں پر ٹوکتے تھے اور سرزنش کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی ان کو کوئی سخت جواب نہیں دیا؛بلکہ ہمیشہ اپنی کمزوری دور کرنے کی کوشش کی ایک مرتبہ حضرت مقدامؓ بن معدیکر ب،عمروبن اسود اوربنی اسد کا ایک آدمی تینوں ان کے پاس وفد کی صورت میں آئے، مقدام نے کہا معاویہ میں چند  باتیں کہنا چاہتا ہوں، اگر سچ ہوں تو ماننا اورجھوٹ ہوں تو رد کردینا، انہوں نے کہا فرمائیے مقدامؓ نے کہا میں تم سے خدا کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں کہ کیا آنحضرت نے حریر پہننے سے منع نہیں کیا؟ کہا ہاں پوچھا میں تم کو قسم دلا کر پوچھتا ہوں تم نے آنحضرتسے سونے کے استعمال کی ممانعت نہیں سنی؟ کہا ہاں پوچھا میں تمہیں قسم دیکر پوچھتا ہوں کہ آنحضرت نے درندوں کی کھال پہننے اور اس کے بچھانے سے منع  نہیں فرمایا؟ کہا ہاں؟ مقدامؓ نے کہا،معاویہ خدا کی قسم میں یہ تمام چیزیں تمہارے گھر میں دیکھتا ہوں اس پر امیر معاویہؓ نے کہا مقدام مجھ کو یقین ہے کہ میری تمہارے سامنے پیش نہ چلے گی اوران کو ان کے دونوں ہمراہیوں سے زیادہ صلہ دیا۔
ایک مرتبہ حضرت ابو مریمؓ ازوی نے کہا رسول اللہ  نے فرمایا کہ خدا جس شخص کو مسلمانوں کا والی بنائے اگر وہ ان کی حاجتوں سے آنکھ بند کرکے پردہ میں بیٹھ جائے تو خدا بھی قیامت کے دن  اس کی حاجتوں کے سامنے پردہ ڈال دیگا، امیر معاویہؓ پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ لوگوں کی حاجت برآری کے لئے ایک مستقل آدمی مقرر کردیا۔
غرض اس قسم کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے صحابہ کے مقابلہ میں امیر معاویہؓ کے ضبط وتحمل کا پورا ثبوت ملتا ہے،صحابہ کے مقابلہ میں امیر معاویہؓ کا تحمل تاریخی مسلمات میں ہے جس سے کوئی تاریخ دان انکار کرہی نہیں سکتا، تمام مورخین اس پر متفق ہیں کہ امیر معاویہؓ حددرجہ حلیم و برد بار تھے، ان تاریخی حقائق کے بعد امیر معاویہؓ پر صحابہ کے ساتھ ناروا سلوک کا الزام لگانا کہاں تک صحیح ہے،بہت ممکن ہے بعض مثالیں اس قسم کی بھی مل جائیں، لیکن ایک دو مثالوں سے عام حکم نہیں لگ سکتا اوراگر صرف ایک دو مثالوں سے حکم لگایا جاسکتا ہے تو پھر ان واقعات کے متعلق کیا فتویٰ دیا جائے گا:
حضرت ابو موسیٰ اشعری جو اپنے مرتبہ کے لحاظ سے صحابہ کی صف میں ممتاز شخصیت رکھتے تھے، جنگ جمل کے زمانہ میں آنحضرت کا یہ فرمان سناتے پھرتے تھے کہ لوگو! فتنہ کے زمانہ میں سونے والا کھڑے ہونے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہے، جب حضرت حسنؓ اہل کوفہ کو حضرت علیؓ کی امداد واعانت پر آمادہ کرنے کے لئے آئے اور ابو موسیٰؓ کو منبر پر یہ وعظ کہتے سنا تو ان کو مسجد سے  نکال دیا،اسی طرح حضرت طلحہؓ اورزبیرؓ کے ساتھ جنہیں عشرہ مبشرہ ہونے کا فخر حاصل تھا جناب امیر کا طرز عمل پسندیدہ نہ تھا۔





پانچواں الزام

پانچواں الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ امیر معاویہؓ کا طرز حکومت نہایت جابرانہ تھا، لیکن عمومی حیثیت سے یہ الزام بھی صحیح نہیں،اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے کسی قدر تفصیل کی ضرورت ہے،امیر معاویہؓ کے زمانہ میں انقلاب پسندوں پر جوان کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے،بیشک سختیاں ہوئیں، لیکن امن پسند رعایا کے ساتھ ان کا طرز حکومت نہایت مشفقانہ تھا؛بلکہ حکومت کے ہوا خواہوں پر ہمیشہ ان کا اکرام برستا تھا امیر معاویہؓ بڑے مدبر اورعاقبت اندیش فرماں روا تھےاس لئے وہ کسی جماعت پر بلاوجہ ناروا ظلم کرہی نہیں سکتے تھے، رعایا پر نرمی اورسختی کے بارہ میں ان کا یہ اصول تھا:

وقال سعيد بن العاص: سمعت معاوية يوماً يقول: لا أضع سيفي حيث يكفيني سوطي، ولا أضع سوطي حيث يكفيني لساني، ولو أن بيني وبين الناس شعرة ما انقطعت. قيل: وكيف، يا أمير المؤمنين؟ قال: كانوا إذا مدوها خليتها، وإذا خلوها مددتها. وكان إذا بلغه عن رجل ما يكره قطع لسانه بالإعطاء

(تاریخ الیعقوبی،باب وفاۃ الحسن بن علی:۱/۲۰۴)

سعید بن العاص بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہؓ کہتے تھے کہ جہاں میرا کوڑا کام دیتا ہے وہاں تلوار کام میں نہیں لاتا اورجہاں زبان کام دیتی ہے وہاں کوڑا کام میں نہیں لاتااگر میرے اورلوگوں کے درمیان بال برابر بھی رشتہ قائم ہوتو میں اس کو نہ توڑوں،  لوگوں نے پوچھا امیر المومنین یہ کس طرح؟ جواب دیا :جب وہ لوگ اس کو کھینچیں تو میں ڈھیل دیدوں اورجب وہ ڈھیل دیں تو میں کھینچ لوں اورجب کسی آدمی کی کوئی ناگوار بات معلوم ہوتی تھی تو انعام واکرام کے  ذریعے سے اس کی زبان بند کردیتے تھے۔

یہ صرف الفاظ ہی نہیں ہیں ؛بلکہ تاریخ اس کی صداقت پر لفظ بہ لفظ شاہد ہے کہ وہ حد درجہ حلیم المزاج تھےاورجب تک پانی سر سے اونچا نہ ہوجاتا تھا اس وقت تک وہ ضبط وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے علامہ ابن طقطقی لکھتے ہیں کہ امیر معاویہ حلم کے موقع پر حلم سے اورسختی کے موقع پر سختی سے کام لیتے تھے، لیکن حلم کا پہلو غالب تھا، ایسی حالت میں امیر پر ظلم و ستم کا الزام لگانا کس حد تک صحیح ہے تاریخ سے ایک مثال بھی ان کے حلم کے خلاف نہیں پیش کی جاسکتی تھی۔
اس الزام کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امیر معاویہؓ کی ذات نہیں ؛بلکہ ان کے عمال اورحکام جابر تھے، تو کلمہ کی صورت میں یہ بھی صحیح نہیں ،یہ الزام بھی پولٹیکل اختلافات نے تراشا ہے ورنہ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے عام دنیاوی فرمانرواؤں کی طرح ان کے عمال بھی کچھ فطرتاً سخت گیر اور جو رپسند تھے اورکچھ نرم دل اور متحمل مزاج تھے، سخت گیر عمال کی سختیاں ان کی طبعی سرشت کا نتیجہ تھیں،ان سے امیر کے طرز جہا نبانی کو کوئی تعلق نہیں،لیکن ان کی سختیاں بھی ان ہی لوگوں تک محدود تھیں، جو بنی امیہ کی حکومت مٹانا چاہتے تھے ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بعض بعض عمال کی سختیاں ناجائز حدود تک پہنچ جاتی تھیں،لیکن ایک دنیاوی حکومت کے لئے یہ کوئی بڑا الزام نہیں ہے، امیر معاویہؓ کے تمام عمال پر فرداً فردا ًبحث بہت طویل ہوجائے گی، اس لئے اس موقع پر مثالاً محض چند مشہور عمال کے طرز حکومت کے حالات پیش کئے جاتے ہیں، اس سے کچھ نہ کچھ ان کے عمال کے طرز حکومت کا اندازہ ہوجائے گا ،امیر کے عاملوں میں مغیرہ بن شعبہ، زیاد بن ابی سفیان ،عمرو بن العاص اوربسر بن ابی ارطاۃ زیادہ پولٹیکل تھے، اس لئے یہی لوگ مورد طعن بھی ہیں ۔
مغیرہ بن شعبہ کا حال یہ ہے کہ وہ پہلے حضرت علیؓ کے طرفدار تھے،مگر آپ نے ان کے خیر خواہانہ اورمفید مشوروں کو مسترد کردیا، اس لئے وہ امیر معاویہؓ کے ساتھ ہوگئے اوراسی لئے وہ بدنام ہیں ورنہ ان کے مظالم کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی مغیرہؓ حتی الامکان امیر معاویہؓ کے مخالفوں کے ساتھ بھی سختی نہ کرتے تھے اورسختی کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لیتے تھے،خارجی جناب امیر کی طرح امیر معاویہؓ کے بھی دشمن تھے جب انہوں نے امیر کے حدود سلطنت میں سر اٹھایا تو مغیرہ نے جارحانہ کاروائی سے پہلے حسب ذیل تقریر کی:

"لوگو! میں ہمیشہ تمہاری عافیت مد نظر رکھتا ہوں اورمصیبتوں کو تم سے روکتا ہوں مجھ کو خطرہ ہے کہ اس طرز عمل سے احمق بدآ موزنہ ہوجائیں ہاں اچھے اورحلیم اشخاص سے مجھے یہ امید نہیں ہے ،خدا کی قسم! مجھ کو خطرہ ہے کہ میں جاہل احمقوں کے ساتھ سنجیدہ بھلے اور ناکردہ گناہ آدمیوں کے مواخذہ پر مجبورنہ ہوجاؤں، اس لئے تم لوگ اس عام مصیبت کے آنے سے پہلے اپنے احمق لوگوں کو روکو"

مغیرہ سے زیادہ جفا کار اور ستم شعار زیادہ کو سمجھا جاتا ہے اس کی جفاکاری اس حد تک کہ انقلاب پسندوں کے ساتھ اس کاظلم اعتدال سے زیادہ بڑھ جاتا تھا، ورنہ عام رعایا کے ساتھ اس کا طرز عمل بھی مشفقانہ تھا، اس کا اندازہ اس تقریر سے کیا جاسکتا ہے جو اس نے بصرہ کی گورنری کے تقرر کے وقت کی تھی:
علامہ دنیوری لکھتے ہیں کہ جب زیاد بصرہ پہنچا تو جامع مسجد میں حمد وثنأ کے بعد حسب ذیل تقریر کی:

"میرے اورقوم کے درمیان کینہ تھا لیکن آج میں نے اس کو اپنے پاؤں کے نیچے دبادیا، میں کسی سے محض عداوت کی بنا پر مواخذہ نہ کروں گا اورنہ کسی کی پردہ پوشی کروں گا تاآنکہ وہ خود میرے سامنے بے نقاب ہوجائے، بے نقاب ہونے کے بعد بھی میں  اس کو نظر انداز کروں گا، تم میں سے جو محسن ہو اس کو اپنے احسان میں زیادتی کرنی چاہیے اورجو برا ہو اس کو اپنی برائیاں دور کرنی چاہیے ،خدا تم لوگوں پر رحم کرے تم لوگ اپنی اطاعت اورفرمانبرداری سے میری مدد کرو۔

(اخبار  الطوال:۲۳۳)

لیکن زیاد کی جفاکاری کا الزام امیر معاویہؓ کے سر منڈھنا صحیح نہیں ہے، اس نے جو زیادتیاں کیں وہ اس کی جبلی درشتی طبع کا نتیجہ تھیں؛چنانچہ جب وہ حضرت علیؓ کا طرفدار تھا اس وقت علی الاعلان امیر معاویہؓ کو نہایت سخت وسست کہتا تھا، جنگ صفین کے زمانہ میں یہ حضرت علیؓ کی جانب سے فارس کا حاکم تھا، امیر معاویہؓ نے اس  کواپنے ساتھ ملانے کے لئے ڈرایا دھمکایا، اس کے جواب میں اس نے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی کہ لوگو! نفاق کا سرچشمہ اورجگر خوار کا بچہ مجھ کو دھمکاتا ہے،میرے اوراس کے درمیان میں رسول اللہ  کے ابن عم اوران کے نوے ہزار ہتھیار بند شیعہ ہیں اگر اس نے کوئی بدارادہ کیا تو تلوار اس کا فیصلہ کرے گی (اخبار الطوال) تاہم امیر معاویہؓ کو چونکہ اس کی درشت خونی کا علم تھا اس لئے انہوں نے اس کی اصلاح اور تلافی کی یہ صورت اختیار کی کہ زیاد کو خاص طور سے یہ ہدایت کی تھی کہ تمام لوگوں کے ساتھ ایک ہی قسم کی سیاست نہ برتنا چاہیے، نہ نرمی کرنا چاہیے کہ لوگ سرکش ہوجائیں اورنہ اتنی سختی کہ ان کی جان پر بن جائے، اس لئے تم سختی کے لئے رہو اورمجھے نرمی اورلطف وکرم کے لئے چھوڑ دو تاکہ خوفزدہ لوگوں کے لئے امید کا ایک دروازہ کھلا رہے۔
اسی طرح عمرو بن العاصؓ کی پولیٹیکل چالوں سے قطع نظر کرکے ان کو جفا کار کی صورت میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے اوراس کی ایک مثال بھی نہیں پیش کی جاسکتی۔
تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بسر بن ابی ارطاۃ وغیرہ بعض عمال یقیناً جفا کار تھے جنہوں نے بے شبہ مظالم کئے، لیکن ان بعض مثالوں سے علی الاطلاق سب پر یکساں حکم لگادینا صحیح نہیں ہے؛بلکہ عام حکمرانوں کی طرح امیر کے عمال بھی کچھ عدل پرور اور نرم خو تھے اورکچھ سنگ دل اور جفا پیشہ،اگر ایک طرف بسر بن ابی ارطاۃ اورزیاد تھے تو دوسری طرف ان کے بالمقابل عبداللہ بن عامر بھی تھے جو اپنی طبعی نرمی کی وجہ سے شورش پسندوں پر بھی سختی نہ کرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بغاوت پسند ان کے قابو میں نہ آتے تھے اورملک میں بدامنی پھیلاتے تھے ،علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ:

"۴۱ھ میں عبداللہ بن عامر والی بصرہ معزول کردیئے گئے کیونکہ وہ نہایت حلیم الطبع کریم النفس اورنرم خو تھے اور مفسد اوراحمقوں پر بھی سختی نہ کرتے تھے اس لئے بصرہ کی فضا خراب ہوگئی تھی،انہوں نے زیاد سے اس کی شکایت کی،زیاد نے تلوار بے نیام کرنے کا حکم دیا، عبداللہ نے جواب دیا کہ میں اپنا نفس خراب کرکے ان کی اصلاح کرنا پسند نہیں کرتا۔"

اتنی مثالیں غالباً امیر معاویہؓ کی "جابرانہ حکومت" کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہوں گی لیکن ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوتی؛بلکہ امیر معاویہؓ کے ظلم و ستم اورعدل وانصاف کا صحیح فیصلہ کرنے کے لئے اس کی تحقیق ضروری ہے کہ ظالم عاملوں کے ساتھ امیر معاویہؓ کا طرزِ عمل کیا تھا، اوروہ ظالمانہ واقعات پیش آنے پر کیا صورت اختیار کرتے تھے اگر وہ مظالم کا تدارک کرتے تھے، تو پھر وہ ظالم حکمرانوں کی صف میں نہیں شمار کئے جاسکتے، یہ تسلیم ہے کہ امیر معاویہؓ کے زمانہ میں مظالم بھی ہوئے؛ لیکن انہوں نے ان کی پوری داد رسی کی۔
عبداللہ بن عمرو بن غیلان ان کی جانب سے بصرہ کا والی تھا، ایک مرتبہ یہ تقریر کررہا تھا، دوران تقریر میں ایک ضبی نے اس پر ایک کنکری کھینچ کر ماری ،عبداللہ نے اس کا ہاتھ کٹوادیا، اس واقعہ کے بعد جب عبداللہ امیر معاویہؓ کے پاس گیا، تو بنو ضبہ بھی شکایت لے کر پہنچے کہ عبداللہ نے ہمارے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ ڈالا ہے، امیر نے ان سے کہا اس کا قصاص تو نہیں لیا جاسکتا، البتہ میں ہاتھ کی دیت ادا کرتا ہوں؛چنانچہ ہاتھ کی دیت دی اورعبداللہ کو بصرہ سے معزول کردیا۔(ابن اثیر :۳/۴۱۶)
امیر معاویہؓ کے عمال ظلم کر بھی نہیں سکتے تھے، کیونکہ معاویہؓ کو اس کے تدارک میں بڑا اہتمام تھا؛چنانچہ وہ روزانہ مظالم کی تحقیقات اورمظلوموں کی داد رسی کے لئے خانہ خدا میں بیٹھتے تھے اور بلا امتیاز ہر کس وناکس اپنی اپنی شکایتیں پیش کرتا تھا، امیر انہیں سن کر ان کا تدارک کرتے تھے،علامہ مسعودی امیر معاویہؓ کے شبانہ یوم کے معمولات کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

ثم يخرج فيقول: يا غلام أخرج الكرسي، فيخرج إلى المسجد فيوضع فيسند ظهره إلى المقصورة ويجلس على الكرسي، ويقوم الأحْرَاسُ فيتقدم إليه الضعيف والأعرابي والصبي والمرأة ومن لا أحد له، فيقول: ظلمت، فيقول: أعِزُّوهُ، ويقول: عدي علي، فيقول: أبعثوا معه، ويقول: صنع بي، فيقول : انظروا في أمره، حتى إذا لم يبقى أحد دخل فجلس على السرير، ثم يقول: ائذنوا للناس على قدر منازلهم، ولا يشغلني أحد عن رد السلام، فيقال: كيف أصبح أمير المؤمنين أطال الله بقاءه؟ فيقول: بنعمة من اللهّ، فإذا استووا جلوساً قال: يا هؤلاء، إنما سميتم أشرافاً لأنكم شرفتم من دونكم بهذا المجلس، ارفعوا إلينا حوائج مَنْ لا يصل إلينا

(مروج الذھب،باب من اخلاق معاویۃ وعاداتہ:۱/۳۶۱)

پھر(معاویہ گھر سے) نکلتے اورغلام کو کرسی نکالنے کا حکم دیتے ؛چنانچہ مسجد میں کرسی نکالی جاتی اور معاویہ مقصورہ کی ٹیک لگا کر کرسی پر بیٹھ جاتے اور ان کے سامنے مقدمات وحادثات پیش ہوتے ،اس میں کمزور وناتواں دیہاتی، بچے ،عورتیں ،لاوارث سب پیش کئے جاتے،ان میں سے کوئی کہتا مجھ پر ظلم کیا گیا (معاویہ) حکم دیتے اس کو عزت دو (یعنی تدارک کرو) کوئی کہتا میرے اوپر زیادتی کی گئی (معاویہ) کہتے اس کے ساتھ کسی کو تحقیقات کیلئے بھیجو کوئی کہتا میرے ساتھ بدسلوک کی گئی (معاویہ حکم دیتے اس کے معاملہ کی تحقیقات کرو جب کوئی داد خواہ باقی نہ رہتا تو مجلس میں آکر تخت پر بیٹھتے اورحکم دیتے کہ لوگوں (اشراف) کو علی قدر مراتب آنے کی اجازت دو، پھر ان سے خطاب کرتے کہ تم لوگ اس لئے اشراف کہلاتے ہو کہ اس دربار میں اپنے سے کم رتبہ والوں پر تم کو شرف عطا کیا گیا ہے اس لئے جو لوگ ہمارے پاس تک نہیں پہنچ سکتے ان کی ضروریات ہم سے بیان کرو۔

داد رسی اورانسداد مظالم میں جس فرما نروا کا یہ اہتمام ہو، اس کے متعلق ظلم و ستم کا الزام لگانا کہاں کا انصاف اورکہاں کی صداقت ہے۔





متفرق اعتراضات

امیر معاویہؓ کے ظلم و ستم اور عدل وانصاف کے اندازہ کرنے میں ایک فاش غلطی یہ  کی جاتی ہے کہ ان کے دور کا خلفائے راشدینؓ کے عدل پر ور عہد سے موازنہ کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر معاویہؓ سے پہلے خلافتِ راشدہ کا دور تھا اوراس وقت مسلمانوں کے سامنے اس کے علاوہ اورکسی دنیاوی اسلامی حکومت کا نمونہ موجود نہ تھا اس لئے امیر معاویہؓ کے زمانہ میں بھی جب ان کی نظر اٹھتی تھی تو خلافت راشدہ ہی کی طرف اٹھتی تھی؛حالانکہ دونوں کا موازنہ صحیح نہیں ہے حضرت علیؓ پر خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوچکا تھا اور امیر معاویہؓ کے زمانہ سے دنیاوی حکومت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا، اس لئے "اموی حکومت" کو "خلافتِ راشدہ" کے معیار پر جانچنا شدید غلطی ہے اگر امیر معاویہ کے دور کو محض ایک دنیاوی حکومت کے لحاظ سے جانچا جائے تو ان پر سے بہت سے اعتراضات خود بخود اٹھ جاتے ہیں۔
دوسرا غلط مبحث یہ کیا جاتا ہے کہ بنو امیہ کے پورے دور کی برائیاں امیر معاویہؓ کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں، یا کم از کم انہیں اس کا بانی مبانی سمجھا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ بھی قرین انصاف نہیں ہے، امیر معاویہؓ کے بعد مروان وغیرہ یقیناً ظالم فرمانروا تھے،لیکن اس کا بانی امیر معاویہؓ کو قرار دینا کہاں تک صحیح ہے کیا دولت امویہ کی تاسیس کے جر م میں تمام اموی فرما نرواؤں کے مظالم بھی امیر معاویہؓ کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے؟
باقی یہ تینوں اعتراضات کہ امیر معاویہؓ نے قومی بیت المال کو ذاتی خزانہ بنالیا اوراس کو ذاتی اغراض میں صرف کرتے تھے،یا حکومت کے تمام شعبوں میں بنی امیہ کو بھردیا تھا اوربہت سی بدعتیں جاری کیں جس معنی اور مفہوم میں کئے جاتے ہیں وہ قطعا ًغلط ہیں اور جس معنی میں صحیح ہیں وہ ایک دنیاوی حکمران کے لئے قابل اعتراض نہیں رہ جاتے اگر معترضین کا مقصد یہ ہے کہ امیر نے بیت المال کا روپیہ عیش وتنعم اورلہو لعب کے مشاغل میں اڑایا اوردوسرے قومی مفاد کو بالکل نظر انداز کردیا تو قطعاً غلط ہے امیر کا بڑے سے بڑا مخالف بھی اس قسم کا الزام ان پر نہیں رکھ سکتا، یہ البتہ صحیح ہے کہ انہوں نے خلفائے راشدین کی طرح فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرکے بیت المال کو خالص اسلامی مفاد کے لئے مخصوص نہیں کردیا؛بلکہ قومی اوراسلامی مفاد کے ساتھ ساتھ اپنے آرام و آسایش اوراپنی حکومت کے استوار کرنے میں بھی صرف کیا اوریہ ایک دنیاوی حکمران کے لئے قابل اعتراض نہیں اس سے کوئی تاریخ دان انکار نہیں کرسکتا کہ بیت المال سے انہوں نے بڑے بڑے قومی کام کئے ،فوجیں تیار کیں ،جنگی بیڑے بنوائے ،فتوحات میں صرف کیا، قلعے تعمیر کرائے، پولیس کو ترقی دی، خبر رسانی کا محکمہ قائم کیا، دفاتر بنوائے ،نہریں کھدوائیں، اسلامی نو آبادیاں قائم کیں ،شہر بسائے ،شرفا اورصحابہؓ کے وظائف مقررکئے،غربا پر تقسیم کیا،عدالتوں  پر صرف کیا، ان کے علاوہ اوربہت سے قومی اوراسلامی مفاد میں لگایا جن کی سندیں اوپر گزرچکی ہیں ان وسیع ملکی اور قومی اخراجات کے ساتھ اگر انہوں نے کچھ روپیہ اپنے ذاتی اغراض ومقاصد میں صرف کردیاتو ایک دنیاوی حکمران کی حیثیت سے وہ کس حد تک قابلِ الزام ہیں ،یہ واضح رہے کہ ذاتی اغراض سے مقصد عیش و تنعم نہیں ہے ؛بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے روپیہ صرف کرتے تھے اس کو خواہ ملکی مفاد سمجھا جائے ،خواہ ذاتی غرض میں شمار کیا جائے۔
اس سلسلہ میں یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ امیر بیت المال سے بڑے بڑے صحابہ کو وظائف وعطایادیتے تھے اور وہ اسے قبول کرتے تھے،اگر وہ لوگ اسے صرف بیچا سمجھتے تو کیوں قبول کرتے اوپر مختلف سرخیوں کے ماتحت گزرچکا ہے کہ حضرت زید بن ثابت انصاریؓ،حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عائشہؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن جعفر طیارؓ ،عبداللہ بن عمرؓ اورعقیل  ابی طالب وغیرہ میں سے کچھ لوگ مستقل وظائف اورکچھ غیر مستقل عطایا پاتے تھے اورقبول کرتے تھےاگر یہ بزرگ اس مصرف کو ناجائز سمجھتے تو کیوں قبول فرماتے وہ صحابہ جو امیر معاویہؓ پر نکتہ چینی کرتے تھے وہ بھی ان کے قومی اورملکی خدمات اوران کے برمحل مصارف کے مقابلہ میں خاموش ہوجاتے تھے ،حضرت مسورؓ بن مخزمہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ جب ان سے ملا اورسلام کیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا، مسور تم ائمہ پر جو طعن کرتےتھے،اب کیوں نہیں کرتے، میں نے کہا اب تذکرے کو جانے دو اورجس ضرورت سے میں آیا ہوں اسے پوری کرو ،معاویہ نے کہا خدا کی قسم میں تمہارے دل کی بات کہلا کر چھوڑوں گا ان کے اس اصرار پر ان کی جو برائیاں تھیں سب میں نے واشگاف بیان کردیں اس پر معاویہ نے کہا مجھے گناہوں سے برأت کا دعویٰ نہیں ہے،لیکن مسور تم بتاؤ کیا تمہارے گناہ ایسے نہیں ہیں کہ اگر تمہیں خدا معاف نہ کرے تو تم ہلاک ہوجاؤ، میں نے کہا ہاں، معاویہ نے کہا :پھر تم کیوں مغفرت خدا وندی کے مجھ سے زیادہ مستحق ہو! پھر خدا کی قسم ایسی حالت میں جبکہ اصلاح بین الناس ،اقامت حدود،جہاد فی سبیل اللہ اور بڑے بڑے بے شمار امورکا بار میرے کندھوں پر ہے جو تمہارے اوپر نہیں ہے اورمیں خدا کے دین پر ہوں، خدا بھلائیوں کو قبول کرتا ہے اوربرائیوں سے درگذر،سن کر میں سونچ میں پڑگیا اورمجھ کو معلوم ہوگیا کہ معاویہ نے مجھ سے مناظرہ کیا اس کے بعد مسور جب معاویہؓ کا تذکرہ کرتے تھے تو ان کے لئے دعائے خیر کرتے تھے۔

(البدایہ والنہایہ:۸/۱۱۹)

حکومت کے شعبوں میں بنی امیہ کے بھر نے کا سوال بھی مغالطہ ہے،یہ واقعہ الزام کی صورت میں اسی وقت قابلِ تسلیم ہوسکتا تھا، جب اس سے دوسروں کے حقوق کی پامالی ہوئی ہوتی یا مفاد ملکی کو کوئی صدمہ پہنچا ہوتا اوریہ دونوں باتیں نہ تھیں،امیر کا مخالف بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ان کے زمانہ میں حکومت کے محکموں میں شروع سے آخر تک تمام بنی امیہ ہی بھرے ہوئے تھے اورکسی دوسرے کو مطلق گھسنے نہیں دیا جاتا تھا،واقعہ کا جہاں تک تعلق ہے، بنی امیہ کے ساتھ دوسرے خاندانوں کے افراد بھی عہدوں پر ممتاز تھے یہ البتہ ایک حد تک صحیح ہے کہ جنگی امور  میں زیادہ تر بنی امیہ دخیل تھے لیکن یہ خود ان کی ذاتی صلاحیت کا نتیجہ تھا ،بنی امیہ میدان رزم کے مرد تھے،حضرت عثمانؓ اور امیر معاویہؓ کے دور کی فتوحات اس کی شاہد ہیں، بحر روم میں سب سے پہلے امویوں ہی نے بیڑے دوڑائے، افریقہ کو امویوں ہی نے فتح کیا، یورپ کا دروازہ امویوں ہی نے کھٹکھٹایا،اموی اس لئے نہیں بھرے  گئے تھے کہ امیر معاویہ کے ہم خاندان تھے؛بلکہ اس لئے بھرے گئے تھے کہ وہ تلوار کے دھنی اورمیدان جنگ کے مرد تھے، یہی وجہ ہے کہ تنہا بنی امیہ کے دور میں جس قدر فتوحات ہوئیں اس کی نظیر مابعد کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی،ایسی حالت میں ان کے حکومت میں بھرنے کا سوال کس قدر ہلکا ہوجاتا ہے۔
رہ گیا بد عات کی ترویج کا سوال تو ایک دنیاوی حکمران کے لئے بھی چنداں قابل اعتراض نہیں، بشیر طیکہ ان بدعات سے کسی اسلامی اصول کی پامالی نہ ہوئی ہواورمذہب میں کسی مذموم رسم کی بنیاد نہ پڑی ہو، امیر کی بدعات میں اسلامی خلافت کو شخص وموروثی حکومت بنادینے کی بدعت تو بے شک نہایت مذموم بدعت تھی،جس نے اسلامی خلافت کی روح مردہ کردی اوراس سے بہت مذموم نتائج پیدا ہوئے؛ لیکن اس کے علاوہ اورکوئی بدعت ایسی نہیں نظر آتی جس سے کسی اصول کو صدمہ پہنچا ہو، حکومت کے سلسلہ میں انہوں نے جو نئی چیزیں رائج کیں ان سے بہت سے فوائد حاصل ہوئے یہ بار بار لکھا جاچکا ہے کہ امیر معاویہ خلیفہ راشد نہ تھے ؛بلکہ حضرت علیؓ پر اس مقدس دور کا خاتمہ ہوچکا تھا اورامیر معاویہؓ  کے عہد سے ایک نئے دور حکمرانی کا آغاز ہوا تھا، اس لئے اس میں خلفائے راشدینؓ کا محتاط طرز حکومت ڈھونڈھنا کہ کسی فعل میں عہد نبوی کے طور وطریق سے سر مو تجاوز نہ ہونے پائے، خود اپنی غلطی ہے،امیر معاویہؓ تو امیر معاویہؓ ہیں، خود حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جو خلیفہ راشد تھے بہت سی نئی باتیں رائج ہوگئیں تھیں، اوریہ عہد رسالت کے بعد کا لازمی نتیجہ تھا،  جس سے کوئی خلیفہ یا بادشاہ بچ نہیں سکتا تھا، اس لئے امیر معاویہؓ کی بد عات میں ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ ان سے کسی اسلامی اصول کی پامالی تو نہیں ہوئی اگر نہیں ہوئی تو وہ قابل اعتراض نہیں قرار دیئے جاسکتے۔
درحقیقت امیر معاویہؓ کی بعض کمزوریوں اورخلافت اسلامیہ میں وراثت کی بدعت کو چھوڑ کر ان کا دور حکومت ہر حیثیت سے کامیاب تھا، ابن کثیر نے ان کے دور حکومت  کی خوبیوں پر یہ جامع تبصرہ کیا ہے ان کے زمانہ میں دشمنوں کے مقابلہ میں جہاد کا سلسلہ قائم اوردین سر بلند تھا،زمین کے ہر حصہ سے ان کے پاس مال غنیمت آتا تھا ،مسلمان ان کی حکومت میں عدل وانصاف اورعفو ودرگذر کے سایہ میں امن وراحت کی زندگی بسر کرتےتھے،
(البدایہ والنہایہ:۸/۱۱۹) البتہ ایک صحابی رسول کی حیثیت سے وہ بعض کمزوریوں سے اپنا دامن نہ بچاسکے۔




فضل وکمال اور دوسروں سے استفادہ

امیر معاویہؓ فتح مکہ کے زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے اس لئے ان کو ایک سال سے زیادہ ذات نبوی  سے خوشہ چینی کا موقعہ نہ ملا؛ لیکن آنحضرت کی ان دعاؤں:

اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ


خدایا معاویہ کو کتاب اللہ اورحساب کا علم عطا فرما اور عذاب سے بچا۔


اور

اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ


خدایا معاویہ کو ہادی اورمہدی بنا اوران کے ذریعہ سے ہدایت دے۔

کا اثر ہونا ضروری تھا اس لئے گو انہیں آنحضرت کی خدمت میں زیادہ رہنے کا موقع نہیں ملا، لیکن انہوں نے اپنے ذوق، شوق اورتلاش وجستجو سے دینی علوم میں پوری دستگاہ بہم پہنچالی تھی، ان کو اپنے مخالفین سے بھی علمی استفادہ میں عار نہ ہوتا تھا اورجب اس قسم کے مسائل پیش آتے تھے جن کے متعلق انہیں علم نہ ہوتا تھا تو حضرت علیؓ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔
ایک دفعہ ایک شخص نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستر پایا اور اشتعال میں آکر ان میں سے ایک کو قتل کردیا، امیر معاویہؓ اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرسکے اورابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ حضر ت علیؓ سے دریافت کرکے مجھے اطلاع دو،ابو موسی نے حضرت علی سے پوچھا،حضرت علی نے واقعہ سن کر استعجاباً فرمایا، اس قسم کے واقعات میرے یہاں نہیں ہوتے میں تم کو قسم دلاتا ہوں کہ اصل واقعہ بیان کرکے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کرو، ابو موسیٰ نے کہا معاویہ نے آپ سے پوچھا ہے فرمایا اگر قاتل چار گواہ نہ لاسکے تو اس قتل کا ذمہ دار ہوگا۔

(مؤطا امام مالک  القضاء فیمن وجدمع امراتہ ر جلا)






تفقہ

کبھی کبھی واقف کار بزرگوں سے آنحضرت کے  اقوال سنانے کی فرمائش کرتے تھے، ایک مرتبہ مغیرہ بن شعبہ کو لکھ بھیجا  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو تم نے سنا ہو اس سے مجھے بھی بہرہ اندوز کرو ،انہوں نے جواب میں لکھا کہ آنحضرت نے فضول گوئی،مال کے اتلاف اورسوال کی کثرت سے منع فرمایا ہے۔
غرض! اس طرح سے پوچھ پوچھ کر انہوں نے اپنا دامن علم اتنا وسیع کرلیا کہ وہ صحابہ جو اپنے فضل وکمال کے لحاظ سے حبرالامۃ کہلاتے تھے، ان کو فقہا میں شمار کرتے تھے ابن ابی ملیکہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے ابن عباسؓ سے پوچھا کہ امیر المومنین معاویہ کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے،انہوں نے وتر ایک رکعت پڑھی جواب دیا بالکل  صحیح کیا وہ فقیہ ہیں۔

(بخاری کتاب المناقب باب مناقب معاویہ)

اسی تفقہ کی بنا پر وہ صحابہ کی اس جماعت کے جو آنحضرت کے بعد صاحب علم وافتا تھی ایک ممبر تھے،البتہ ان کے فتاوی کی تعداد دوچار سے زیادہ نہیں ہے۔

(اعلام الموقعین:۱/۳)







حدیث

احادیث نبوی کا کافی ذخیرہ ان کے سینہ میں محفوظ تھا؛چنانچہ حدیث کی کتابوں میں ان کی ۱۶۳ روایتیں ملتی ہیں، جن میں سے ۴ متفق علیہ ہیں،یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہیں، ان کے علاوہ ۴ میں بخاری اور ۵ میں امام مسلم منفرد ہیں،صحابہ میں ان سے ابن عباس، ابودرداؓ ،جریربن عبداللہؓ، نعمان بن بشیرؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، ابو سعید خدریؓ، سائب بن یزیدؓ، ابو امامہ  سہل اور تابعین میں ابن مسیب اورحمید بن عبدالرحمن وغیرہ نے روایتیں کی ہیں۔

(تہذیب الاسماء نووی:۱۳۳)






مذہبی مسائل

کبھی کبھی مذہبی مسائل میں اکابر صحابہ سے اوران سے اختلاف رائے بھی ہوجاتا تھا اوران کی رائے صائب نکلتی تھی، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں امیر معاویہؓ شام کے والی تھے،یہاں کے مسلمانوں میں کچھ رومیوں کے اثر اورکچھ مال ودولت کی فراوانی سے ظاہر ی شان وشکوہ اورطمطراق پیدا ہوگیا تھا ،حضرت ابوذر غفاریؓ بھی یہیں رہتے تھے،یہ بڑے فقیر منش اور متوکل سادہ مزاج بزرگ تھے اوراپنی طرح سب میں عہد نبوت کی سادگی دیکھنا چاہتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کے لئے زائد ضرورت مال جمع کرنا حرام ہے اوراس عقیدے میں اس قدر متشدد تھے کہ انہوں نے سرمایہ داری کے خلاف وعظ کہنا شروع کردیا اورجو مسلمان روپیہ جمع کرتے تھے ان کو اس آیت کا مورد ٹھہراتے تھے:

(ابن سعد ترجمہ ابن ذر)

والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولاینفقو نھا فی سبیل اللہ فبشر ھم بعدذاب الیم

جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اوراس کو خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتے اس کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنادو۔

اس آیت سے پہلے یہود ونصاریٰ کا ذکر ہے ،امیر معاویہؓ کہتے تھے کہ اس آیۃ کا تعلق بھی ان ہی لوگوں سے ہے اورحضرت ابوذرؓ اس کو مسلمان اورغیر مسلمان دونوں سے متعلق کرتے تھے،دوسرا اختلاف یہ تھا کہ حضرت ابوذرؓ خدا کی راہ میں نہ دینے سے یہ مراد لیتے تھے کہ کل مال خدا کی راہ میں نہیں دیتے  اور امیر معاویہ صرف زکوٰۃ میں محدود کرتے تھے، اس مختلف فیہ مسئلہ میں گو ترک دنیا کے اصول سے حضرت ابو ذرؓ کا خیال کتنا ہی بلند کیوں نہ ہولیکن واقعہ کے لحاظ سے امیر کی رائے صحیح ہے۔

کتابت

دینی علوم کے علاوہ امیر معاویہؓ عرب کے مروجہ علوم میں بھی ممتاز درجہ رکھتے تھے ؛چنانچہ کتابت میں جس سے عرب تقریباً ناآشنا تھے،معاویہؓ کو پوری مہارت تھی اوراسی وصف کی بنا پر آنحضرت نے ان کو اپنا خاص کاتب مقرر فرمایا تھا۔

خطابت

 شاعری کے بعد عربوں میں خطابت ،آتش بیانی اورزبان آوری کا درجہ تھا، گو امیر معاویہؓ نے اعلیٰ درجہ کے خطیب کی حیثیت سے کوئی شہرت نہیں حاصل کی تاہم ان کی تقریر بلاغت ادا اورزوربیان کا بہت عمدہ نمونہ ہوتی تھی،علامہ ابن طقطقی لکھتے ہیں کہ: کان حکیما نصیحا بلیغاً ،معاویہ حکیم اورفصیح و بلیغ تھے (الفخری:۹۵) وہ اپنی تقریر سے بڑے بڑے مجمعوں کو مسحور کرلیتے تھے، جناب امیر کے مقابلہ میں ان کی جو حیثیت تھی وہ ظاہر ہے لیکن شامیوں کی تسخیر میں ان کی پولٹیکل تدبیروں کے علاوہ ان کی طلاقت لسانی کو بھی بڑا دخل تھا ،تاریخوں میں بکثرت ان کی تقریروں کے نمونے موجود ہیں، جاحظ نے کتاب البیان والتبیین میں جو فصیح و بلیغ تقریروں کا ایک بے مثل مجموعہ ہے اورجس میں تقریروں کے بہتر سے بہتر نمونے موجود ہیں، امیر معاویہؓ کی بھی ایک تقریر نمونۃ نقل کی ہے یہ تقریر اپنے اسلوب بیان اورلفظی ومعنوی بلاغت کے لحاظ سے بڑےبڑے مشہور خطیبوں کے خطبوں کے پہلو میں رکھی جاسکتی ہے لیکن طوالت کی وجہ سے اس موقع پر اس کے نقل کرنے کی گنجائش نہیں۔

(کتاب البیان والتبیین جاحظ۔جلد نمبر۱۔۱۷۲،۱۷۳)



شاعری

شاعری عربوں کا خاص فن ہے، معاویہ کو شعر وشاعری کانہایت اچھا مذاق تھا،وہ شعر کو تہذیب اخلاق کا بہترین ذریعہ سمجھتے تھے ؛چنانچہ کہتے تھےکہ مرد پر اپنی اولاد کی تادیب فرض ہے اور ادب کا بلند ترین مرتبہ شعر ہے، اس لئے تم لوگ شعر کو اپنا سب سے بڑا مطمع نظر بناؤ اورا س کی عادت  ڈالو میں لیلۃ الہر پر میں سخت مصیبت کی وجہ سے بھاگنے کوتھا لیکن اس رات کو صرف عمرو بن الاطنابہ کے اشعار نے مجھے ثابت قدم رکھا۔

(کتاب العمدہ ابن رشیق:۱۰)




تدبیر وسیاست

بعض لوگوں کی طرف سے حضرت امیر معاویہ کے حق میں "امیر معاویہؓ کی فہرست کمال میں سب سے زیادہ نمایاں  تدبیر وسیاست ہے یہ استعداد ان میں فطری تھی لیکن علمی اور فنی حیثیت سے انہوں نے اس استعداد کو اورچمکایا تھا؛چنانچہ وہ روزانہ ایام عرب ،اخبار عرب، اخبار عجم اور سلاطین کے حالات ،ان کے طریق جہانبانی اوردوسری اقوام کے سلاطین ،ان کی لڑائیوں،ان کی سیاسی چالوں اوررعایا کے ساتھ ان کی پالیسی اوردوسری گذشتہ قوموں کے حالات عروج وزوال سنتے تھے۔

(مروج الذہب:۲/۴۲۵)

تاریخ کی ابتدائی داغ بیل ان ہی کے زمانہ میں پڑی اس وقت تک تاریخ کی تدوین کی طرف کسی خلیفہ نے توجہ نہیں کی تھی،سب سے پہلے امیر معاویہؓ کو اس کا خیال ہوا؛چنانچہ انہوں نے اس عہد کے ایک بڑے اور باخبر عالم عبید بن شربہ سے تاریخ قدیم کی داستانیں ،سلاطین عجم کے حالات انسان کی بولی پھوٹنے کی تاریخ اوراس کے مختلف ملکوں اورمقامات پر پھیلنے کے واقعات سن کر ان کو قلمبند کرنے کا حکم دیا۔

(فہرست ابن ندیم ،صفحہ۱۲۲،طبع مصر)

ان رسمی علوم کے علاوہ امیر معاویہؓ کے صحیفہ کمال کا سب سے روشن باب ان کی فطری سیاست اوردانشوری ہے،تمام مورخین انہیں اپنے زمانہ کا سب سے بڑا مدبر سیاست دان اوربیدار مغز فرما روا مانتے تھے،علامہ فخری لکھتے ہیں کہ معاویہ دنیا کے سمجھنے والے فہیم ،علیم اورقوی بادشاہ تھے، سیاست اورتدبر میں ممتاز درجہ رکھتے تھے (الفخری:۹۵) ان کے عہد میں تمام بڑے بڑے اکابران کی سیاست ودانائی کے معترف تھے،حضرت عمرؓ جو خود سیاست اورتدبر میں یگانہ تھے،معاویہ کو "کسرائے عرب" کہتے تھے (طبری:۷/۱۹۷،الفخری:۱۰۳)سعید مقبری راوی ہیں کہ عمرؓ کہا کرتے تھے کہ تم لوگ معاویہ کے ہوتے ہوئے کسریٰ اور قیصر اوران کے تدبر کا تذکرہ کرتے ہو (اسد الغابہ:۳/۲۲۳) حضرت عمرؓ جیسے شخص کو یہ اپنی زبان آوری اور تدبیروں سے چپ کرادیتے تھے،حضرت عمرؓ نے جب شام کا سفر کیا تو امیر معاویہؓ بڑے خدم وحشم کے ساتھ ان کے استقبال کو نکلے، اس شان وشکوہ پر حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا کہ تم صبح و شام خدم وحشم کے ساتھ نکلتے ہو، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم چین سے اپنے گھر میں بیٹھے رہتے ہو اورتمہارے دروازہ پر حاجتمندوں کا ہجوم رہتا ہے، امیر معاویہؓ نے برجستہ کہا امیر المومنین !یہاں ہمارے دشمن ہم سے قریب رہتے ہیں اوران کے جاسوس لگے رہتے ہیں، اس لئے چاہتا ہوں کہ وہ لوگ اسلام کو باعزت دیکھیں، یہ عذر سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا ! تمہارا بیان عقلمند آدمی کا فریب ہے، معاویہ نے کہا پھر جیسا فرمائیے ویسا کیا جائے، حضرت عمرؓ نے زچ ہوکر جواب دیا معاویہ جب میں تم سے بحث کرتا ہوں یا تم پر نکتہ چینی کرتا ہوں تو تم مجھے ایسا لاجواب کردیتے ہو کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کو اس بات کا حکم دوں یا منع کروں۔

(طبری:۷/۲۰۷)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  کے بعد کسی کو امیر معاویہ سے بڑا سردار نہ پایا کسی نے پوچھا اور ابوبکرؓ ،عمرؓ،عثمانؓ علیؓ، جواب دیا ! خدا کی قسم یہ لوگ امیر معاویہ سے بہتر تھے؛ لیکن امیر معاویہ میں سرداری ان سے زیادہ تھی (استیعاب:۱/۲۶۲) امیر معاویہؓ کے مخالف ان کے اس وصف کے معترف تھے،حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو امیر معاویہؓ کے شدید مخالفتوں میں تھے وہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی کو امیر معاویہؓ سے زیادہ حکومت کے لئے موزوں نہیں پایا۔

(طبری:۷/۲۱۵)

ذاتی فضیلت اوراستحقاق خلافت میں امیر معاویہ اورحضرت علیؓ کا کوئی مقابلہ نہ تھا، ان کو آپ کے مقابلہ میں صرف پولٹیکل تدبیروں سے کامیابی حاصل ہوئی ان کے فہم وتدبر کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جب پہلی مرتبہ ان کا مدینہ جانا ہوا تو وہ تعزیت کے طور پر ان کے گھر گئے، انہیں دیکھ کر حضرت عثمانؓ کی صاحبزادی اپنے پدر بزرگوار کو یاد کرکے رونے لگیں،معاویہؓ کے ساتھ بہت سے عماید قریش بھی تھے جن کو اس واقعہ سے بد گمانی ہوئی، اس لئے امیر معاویہؓ نے ان لوگوں کو واپس کردیا اور عائشہ سے کہا بیٹی ان لوگوں نے میری اطاعت قبول کرلی ہے؛ لیکن ابھی تک ان کے دلوں میں کینہ ہے اورہم نے بھی ان کی اطاعت کی وجہ سے حلم اوردرگذر سے کام لیا ہے؛ لیکن ہمارے دل میں بھی ان کے خلاف غم وغصہ موجود ہے، اس لئے یہ سودا برابر کا ہے اوران کی حامی جماعت بھی موجود ہے اب اگر ہم ان کی اطاعت کے معاوضہ میں ان کے حقوق نہ ادا کریں اوران سے بد عہدی کریں گے تو وہ بھی ہم سے بد عہدی کریں گے اوردونوں میں مقابلہ ہوجائے گا جس کا انجام معلوم نہیں کیا ہو(البدایہ والنہایہ،۸/۱۳۲) اس سے ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
غرض سیاست وتدبیر، حکومت و فرما نروائی ،جہانبانی وکشور کشائی کے اوصاف جلیلہ میں ان کا کوئی معاصر ،ان کا حریف نہ تھا، تم ان کی پوری تاریخ پر نظر ڈال جاؤ اس کی لفظ بہ لفظ تصدیق ہوگی۔عدم فضیلت" کا ایک شبہ پیش کیا جاتا ہے جو محص ایک قول ہے ، نہ وہ قول نبوی ہے نہ کسی صحابی کا فرمان ہے اور نہ


اخلاق وعادات

امیر معاویہؓ کو مہاجرین اولین کے زمرہ میں ہونے کا شرف حاصل نہ تھا ؛بلکہ وہ فتح کے بعد اسلام لانے والوں میں تھے ،اس لئے قبول اسلام کے بعد ان کو فیضان نبوی سے مستفید ہونے کا زیادہ موقعہ نہ ملا، یہی وجہ ہے کہ مہاجرین اولین کی طرح وہ اخلاق نبوی کا مکمل نمونہ نہ بن سکے تاہم وہ صحابی رسول  تھے اورایسے صحابی تھے جن کے لئے زبان رسالت نے یہ دعا فرمائی تھی کہ: خدایا معاویہ کو ہادی اور مہدی بنا اور ان کے ذریعے سے ہدایت کر،اس دعائے مستجاب کے اثر سے ان کا دامن اخلاقی فضائل سے خالی نہ تھا۔


قیامت کا خوف

امیر معاویہؓ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا میں پڑکر آخرت کے مواخذ ہ کو بالکل فراموش کردیا تھا، لیکن یہ خیال حقیقت واقعہ سے بہت دور ہے، امیر معاویہؓ قیامت کے مواخذہ کا تذکرہ سن کر لرزہ براندام ہوجاتے تھے اورروتے روتے ان کی حالت غیر ہوجاتی تھی۔
ایک مرتبہ شفیا اصبحی مدینہ آئے، دیکھا کہ ایک شخص کے گرد بھیڑ لگی ہوئی ہے،پوچھا کون ہیں، لوگوں نے کہا ابو ہریرہؓ، یہ سن کر شفیا اصبحی ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے، اس وقت ابو ہریرہؓ لوگوں سے حدیث بیان کررہے تھے،جب حدیث سنا چکے اور مجمع چھٹ گیا تو شفیا نے ان سے کہا رسول اللہ  کی کوئی حدیث سنائیے جس کو آپ نے ان سے سنا ہو سمجھا ہو، جانا ہو، ابو ہریرہؓ نے کہا ایسی ہی حدیث سناؤں گا،یہ کہا اور چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے ،تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو کہا میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا جو آپ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اوراس وقت میرے اورآپکے سوا کوئی تیسرا شخص نہ تھااتنا کہہ کر زور سے چلائے اورپھر بیہوش ہوگئے، افاقہ ہوا تو منہ پر ہاتھ پھیرکر کہا،میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو رسول اللہ  نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اور وہاں میرے اورآپ کے سوا کوئی شخص نہ تھا یہ کہا اور پھر چیخ مار کر غش کھا کر منہ کے بل گرپڑے،شفیا اصبحی نے تھام لیا اور دیر تک سنبھالے رہے،ہوش آیا تو کہا رسول اللہ  نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب خدا بند ہ کے فیصلہ کے لئے  اترے گا تو سب سے پہلے تین آدمی طلب کئے جائیں گے عالم قرآن ،راہ خدا میں شہید ہونے والا اور دولتمند ، پھر خدا عالم سے پوچھے گا کیا میں نے تجھ کو قرآن کی تعلیم نہیں دی، وہ کہے گا ہاں، خدا فرمائے گا تونے اس پر عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں رات دن اُ س کی تلاوت کرتا تھا ،خدا فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو اس لئے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھ کو قاری کا خطاب دیں؛چنانچہ خطاب دیاگیا، پھردولت مند سےپوچھے گا ،کیا میں نے تجھ کو صاحب مقدرت کرکے لوگوں کی احتیاج سے بے نیاز نہیں کردیا! وہ کہے گا ہاں خدایا،فرمائے گا تونے کیا کیا، وہ کہے گا میں صلہ رحمی کرتا تھا،صدقہ دیتا تھا، خدافرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے ؛بلکہ اس سے  تیرا مقصد یہ تھا کہ تو فیاض اورسخی کہلائے اورکہلایا ،پھر وہ جسے راہ خدا میں جان دینے کا دعویٰ تھا پیش ہوگا ،اس سے سوال ہوگا تو کیوں مار ڈالا گیا،وہ کہے گا تونے اپنی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا تھا میں تیری راہ میں لڑ ااور مارا گیا، خدا فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے تو چاہتا تھا کہ دنیا میں جری اوربہادر کہلائے تویہ کہا جاچکا ،یہ حدیث بیان کرکے رسول اللہ  نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا، ابو ہریرہؓ پہلے ان ہی تینوں سے جہنم کی آگ بھڑ کائی جائے گی، امیر معاویہؓ نے یہ حدیث سنی تو کہا جب ان لوگوں کے ساتھ ایسا کیا گیا تو اورلوگوں کا کیا  حال ہوگا، یہ کہہ کر ایسا زار وقطار روئے کہ معلوم ہوتا  تھا کر مرجائیں گے جب  ذراسنبھلے تو منہ پر ہاتھ پھیرکر فرمایا خدا اوراس کے رسول نے سچ  فرمایا ہےکہ۔

مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ، أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

(ھود:۱۵)

جو شخص دنیا اوراس کے سازوسامان کو چاہتا ہے ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دیدیتے ہیں اوراس میں اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا؛ لیکن آخرت میں ان کا حصہ آگ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا اورانہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ برباد ہوجاتا ہے اورجو کام کئے تھے وہ بے کار جاتےہیں۔




دنیاوی ابتلاء پر تاسف

اس میں شبہ نہیں کہ قیام ملوکیت کے سلسلہ میں امیر معاویہؓ کو دنیاوی ابتلاءو آزمائشوں میں مبتلا ہونا پڑا اوربحیثیت صحابی رسول کے اس سے اپنا دامن نہ بچا سکے؛ لیکن اپنی لغزشوں کا انہیں ہمیشہ احساس رہا اور آخر وقت میں وہ اس پر نادم وتاسف رہا کرتے تھے ؛چنانچہ مرض الموت میں  کہتے تھے کاش میں ذی طوی (نام مقام) میں قریش کا  معمولی آدمی ہوتا اوران معاملات میں نہ پڑا ہوتا۔
ایک روایت میں ہے کہ عالم نزع میں اپنا چہرہ زمین پر رگڑتے تھے اور رو رو کر کہتے تھے کہ خدایا تونے اپنی کتاب میں کہا ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ

(نساء:۴۸)

یعنی اللہ اس کی مغفرت نہیں کرتا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے اوراس کے ماسوا جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔

اس لئے بارا لہا مجھ کو ان لوگوں میں شامل فرما جن کی مغفرت تونے اپنی مشیت پر رکھی ہے۔

(البدایۃ والنہایہ:۸/۱۴۲)

بحیثیت شخصی فرما نروا کے انہیں ہمیشہ دنیاوی وجاہت اورظاہری شان وشوکت سے واسطہ رہا،لیکن جب ظاہری طمطراق پر ان کی نظر پڑتی تھی تو حسرت وافسوس کے کلمات ان کی زبان پر جاری ہوجاتے تھے عبداللہ بن سعدہ بن حکمہ فرازی بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہ شام کے کسی علاقہ سے اپنے علاقہ میں جارہے تھے راستہ میں ایک مقام پر منزل ہوئی سر راہ ایک بلند اور کھلی چھت پر فرش بچھا یا گیا میں بھی امیر کے ساتھ اس پر بیٹھ گیا اتنے میں اونٹ کی قطاریں گھوڑے اور لونڈی غلام کے غول گذرنے لگے انہیں دیکھ کر امیر نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ابن مسعدہ خدا ابوبکرؓ پر رحم کرے نہ انہوں نے دنیا کو چا ہا نہ دنیا نے انہیں چاہا، عمرؓ کو دنیا نے چاہا لیکن انہوں نے اس کو نہیں چاہا، عثمانؓ کو کچھ دنیا میں مبتلا ہونا پڑا اورہم لوگ تو بالکل اسی میں آلودہ ہوگئے ،یہ کہہ کر وہ نادم ہوئے پھر کہا خدا کی قسم یہ حکومت بھی خدا ہی نے ہم کو دی ہے۔

(طبری:۷/۲۱۲)





قبول حق

امیر معاویہؓ کی حکومت کو شخصی حکومت اورانہیں مستبد فرما نروا مانا جاتا ہے؛ لیکن اس کے باوجود انہوں نے سچی بات کے قبول کرنے میں کبھی عار نہ کیا، ایک مرتبہ ان سے حضرت ابو مریمؓ ازدی نے کہا رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ خدا جس شخص کو مسلمانوں کا والی بنائے اگر وہ ان کی حاجتوں سے آنکھ بند کرکے پردہ میں بیٹھ جائے تو قیامت کے دن خدا بھی اس کی حاجتوں کے سامنے پردہ ڈال دے گا، امیر پر اس کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے عام لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مستقل آدمی مقرر کردیا۔

(ابوداؤد کتاب الخراج والامارہ)

حضرت مقدام  معدیکر ب کے بعض ممنوعات پر ٹوکنے اوراس کے صلہ میں ان کو امیر معاویہؓ کے انعام دینے کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے۔
ضبط و تحمل
امیر معاویہؓ کو جس قدر دنیاوی جاہ و جلال اورقوت واقتدار حاصل تھا، اس سے ہر تاریخ دان واقف ہے؛ لیکن اس دنیاوی وجاہت کے باوجود وہ حددرجہ متحمل مزاج تھے، وہ مورخین بھی جو ان کے مخالف ہیں ان کے اس وصف کے معترف ہیں ؛چنانچہ علامہ ابن طقطقی لکھتے ہیں کہ معاویہ حلم کے موقعہ پر حلم سے اورسختی کے موقع پر سختی سے کام لیتے تھے؛ لیکن حلم کا پہلو غالب تھا (الفخری:۹۵) جو لوگ ان کے ساتھ رہ چکے تھے وہ اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ میں معاویہ کی صحبت میں رہا، ان سے زیادہ کسی کو حلیم نہیں پایا، (تاریخ الخلفاء،سیوطی:۱۹۴) وہ تلخ سے تلخ اورناگوار سے ناگوار باتیں شربت کی طرح پی جاتے تھے ؛چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ غصہ پی جانے سے زیادہ میرے لئے کوئی شئے لذیذ نہیں (طبری:۷/۲۱۳) ان کے حلم اورعفو پر جب کوئی شخص ٹوکتا تو جواب دیتے تھے کہ مجھے شرم معلوم ہوتی ہے کہ کسی کا گناہ میرے عفو سے اور کسی کی جہالت میرے حلم سے بڑھ جائے یا میں  کسی کے عیب کی پردہ پوشی نہ کروں۔
اور وہ عملاً اس پر کار بند تھے،عبدالملک بن عمیر روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے امیر معاویہؓ سے بڑی بد کلامی کی، کسی نے متعجب ہوکر پوچھا آپ اس حد تک انگیز کرلیتے ہیں جواب دیا کہ میں اس وقت تک لوگوں کی زبانون کے درمیان حائل نہیں ہوتا، جب تک وہ میری حکومت میں حائل نہ ہوں، ایک مرتبہ ایک شخص نے کہا معاویہ ہمارے ساتھ سیدھے رہو ورنہ تم کو درست کردیں گے، امیر نے پوچھا کس چیز سے اس نے کہا لکڑی سے جو ابد یا اس وقت سیدھے  ہوجائیں گے۔

(تاریخ الخلفاء :۱۹۴)

اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے بڑی بد کلامی کی، کسی نے کہا آپ اس کو سزا کیوں نہیں دیتے، جواب دیا مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ میرے حلم کا دامن میری رعایا کے گناہ کے مقابلہ میں تنگ ہوجائے، (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)ایک شخص ابو جہم نے ایک مرتبہ امیر معاویہؓ سے درشت گفتگو کی امیر معاویہؓ  نے سن کر سرجھکا لیا پھر سر اٹھا کر کہا ابو جہم حاکم وقت سے بچا کرو، وہ بچوں کی طرح بگڑ جاتا ہے اور شیر کی طرح پکڑتا ہے اوراس کے تھوڑے غصہ کی لپیٹ میں بہت سے لوگ آجاتے ہیں، اس نصیحت کے بعد ابو جہم کو انعام دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان کی مدح میں رطب اللسان ہوگئے (ایضا:۱۶) انہوں نے اپنے خاندان والوں کو نصیحت کی تھی کہ قریش کے ساتھ ہمیشہ حلم کے ساتھ پیش آیا کرو میرا حال یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص مجھ کو برا بھلا کہتا تھا تو میں حلم سے اس کا جواب دیتا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ میرا دوست بن جاتا تھا اورہر وقت میری امدادوحمایت کے لئے تیار رہتا تھا، حلم سے کسی شریف کی شرافت میں فرق نہیں ؛بلکہ اس کی عزت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، انسان اس وقت تک صائب الرائے نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جہالت پر اس کا حلم اوراس کی خواہشات پر ضبط نفس غالب نہ آجائے۔

(البدایہ والنہایہ:۸/۱۶)

چنانچہ قریش خصوصا ًبنی ہاشم اورآل ابی طالب کے افراد ان کو سخت سے سخت باتیں کہتے تھے؛ لیکن امیر معاویہؓ کبھی مذاق میں ٹال جاتے اورکبھی سنی ان سنی بنادیتے اوران کی اس سخت کلامی پر بھی ان کو مہمان بناتے ،خاطر مدارات کرتے اورانعام واکرام دیتے۔

(الفخری:۹۵)






فیاضی

 ہی کسی تابعی کا بلکہ یہ بعد کے ایک عالم کا اپنا خیال ہے. فیاضی اورزر پاشی امیر معاویہ کا نہایت نمایاں وصف تھا علامہ الفخری لکھتے ہیں کہ معاویہ فیاضی اورزر پاش تھے (ایضا) ان کا ابرکرم بلا امتیاز موافق ومخالف سب پر یکساں برستا تھا،عبداللہ بن عباسؓ،عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن جعفر طیارؓ، اورآل ابی طالب کے دوسرے افراد ان کے شدید مخالفوں میں تھے،لیکن ان کی مخالفت اوران کی بدکلامیوں کے باوجود امیر ان کے ساتھ مسلوک ہوتے تھے (ایضا) عقیل بن ابی طالب ان کے پاس چالیس ہزار کی ضرورت لے کر آتے ہیں اور بھرے مجمع میں ان کو اوران کے باپ سفیان کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن امیر معاویہ اس کے باوجود ان کی حاجت پوری کرتے ہیں (اسد الغابہ تذکرہ عقیل ابن ابی طالب) اسی طریقہ سے حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ اورعبداللہ  عمر سے بھی مسلوک ہوتے رہتے تھے اوران کو ایک لاکھ کی ایک مشت دیدیتے تھے،اشراف روزانہ اہل حاجت کی ضروریات پیش کرتے، امیران کی اولاد کے وظائف مقرر کرتے اوران کے اہل و عیال کی خبر گیری کا حکم دیتے ( البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۷)کبار صحابہ کے وظائف مقرر کرتے تھے؛چنانچہ حضرت زید بن ثابت انصاری وظیفہ قبول کرتے تھے۔

(استیعاب:۱/۲۶۳)

صحابہ کی اولاد تک کے ساتھ وہ فیاضانہ سلوک کرتے تھے،حضرت ابو ہریرہؓ کا انتقال ہوا تو امیر نے ترکہ کے علاوہ ان کے ورثہ کو دس ہزار نقد دینے کا حکم دیا۔

(مستدرک حاکم:۳/۵۰۸)

یہ چند واقعات نمونہ از خروارے ہیں ورنہ اس قسم کی مثالوں سے تاریخ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں، اس کا یہ نتیجہ تھا کہ ان کے مخالف کو بھی امیر کے اس وصف کے اعتراف کے سواچارہ نہ تھا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے تھے کہ جو لوگ معاویہؓ کے پاس جاتے ہیں وہ ایک وسیع وادی کے کنارے پر اترتے ہیں۔

(طبری:۷/۲۱۵)

وہ قول یہ ہے کہ 






امہات المومنین کی خدمت

لا يصح عن النبي في فضل معاوية بن أبي سفيان شئتمام گذشتہ خلفاء امہات المومنین کی خدمت اپنے لئے باعث سعادت وافتخار سمجھتے تھے، امیر معاویہؓ بھی اس سعادت سے محروم نہ تھے اوررتبہ کے لحاظ سے خصوصیت کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی بڑی خدمت کرتے تھے ان کی خدمت میں ایک ایک مشت ایک ایک لاکھ کی نذر پیش کرتے تھے (مستدرک حاکم:۳/) اس کے علاوہ وقتا، فوقتا دس دس پانچ پانچ ہزار کی رقمیں بھیجا کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے منکدر بن عبداللہ کو دس ہزار کی رقم دینی چاہی، لیکن اس وقت اتفاق سے ہاتھ میں روپیہ نہ تھا، اسی دن شام کو امیر معاویہ کی بھیجی ہوئی رقم آگئی حضرت عائشہ نے منکدر کو بلواکر اس میں سے دس ہزار کی رقم دیدی۔

(طبقات ابن سعد تذکرہ منکدر بن عبداللہ)

یعنی فضیلت معاویہ میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے کوئی صحیح چیز منقول نہیں.


اٰثار نبوی سے برکت اندوزی

امیر کے پاس آثار نبوی میں ایک کرتہ ناخن اورموئے مبارک تھے،زندگی بھر برکت کے لئے اس کو حرز جان بنائے رہے مرتے وقت وصیت کرتے گئے کہ مجھ کو رسول اللہ    نے کرتہ مرحمت فرمایا تھا وہ اسی دن کے لئے محفوظ رکھا ہے اورناخن اور موئے مبارک شیشہ میں محفوظ ہیں اس کرتہ میں مجھے کفنانا اور ناخن اور موئے مبارک آنکھوں اور منہ کے اندر بھر دینا شاید خدا اس کی برکت سے مغفرت فرمائے۔

(استیعاب :۱/۲۶۲)

حضرت زہیرؓ بن کعب کو نعتیہ قصیدہ کے صلہ میں آنحضرت نے جورداء مبارک مرحمت فرمائی تھی، امیر معاویہؓ نے اس کو پیش قرار رقم دیکر ان سے خرید لیا تھا،یہی چادر بعد میں تمام خلفاء کے پاس منتقل ہوتی رہی جس کو وہ عیدین میں اوڑھ کر نکلتے تھے۔

(اصابہ تذکرہ زہیرؓ بن کعب)





مساوات

امیر کو جاہ پسند کہا جاتا ہے اورایک حد تک یہ صحیح بھی ہے؛ لیکن اس کے باوجود وہ معمولی آداب مجلس میں بھی اپنے اور عام مسلمان کے درمیان کوئی فرق و امتیاز روا نہ رکھتے تھے، ابو مجلز راوی ہیں کہ ایک مرتبہ معاویہ نکلے، عبداللہ بن عامر اور عبداللہ بن زبیرؓ بیٹھے ہوئے تھے، معاویہ کو دیکھ کر ابن عامرؓ کھڑے ہوگئے اورابن زبیرؓ بیٹھے رہے،معاویہؓ نے ابن عامرؓ کے قیام پر کہا رسول اللہ  نے فرمایا ہے کہ جوشخص اس سے خوش ہوتا ہے کہ خدا کے بندے اس کی تعظیم میں کھڑے ہوجائیں تو اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

(ادب المفرد باب قیام الرجل للرجل تعظیما)




امیر کے اخلاقی اصول

امیر معاویہؓ کے اخلاقی اصولوں سے ان کے عام اخلاق وعادات پر کافی روشنی پرتی ہے، اس لئے آخر میں اخلاق کے بارہ میں ان کے کچھ زریں خیالات پیش کئے جاتے ہیں ،فرماتے تھے کہ میں اپنے نفس کو اس سے بلند دیکھنا چاہتا ہوں میرا گناہ میرے عفو سے میرا جہل میرے حلم سے زیادہ ہو، یا کسی کا عیب اپنے پر دہ میں نہ چھپاؤں یا میری برائی میری بھلائی سے زیادہ ہو، شریف کے لئے زینت پاکدامنی ہے کہتے تھے کہ خدانے بندہ کو جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سب سے افضل عقل و حلم ہے، اس کی وجہ سے جب آدمی کو کوئی یاد کرتا ہے تو وہ بھی اس کو یاد کرتا ہے اورجب کوئی اس کو دیتا ہے تو وہ اس کا شکر ادا کرتا ہے اورجب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو صبر سے کام لیتا ہے،اورجب غصہ آتا ہے تو پی جاتا ہے اورجب قابو پاتا ہے تو درگذر سے کام لیتا ہے اورجب کوئی برائی سر زد ہوتی ہے تو اس کی معافی چاہتا ہے اورجب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔

(طبری سیرت معاویہ)

















(جاری)

2 comments:

  1. بہت اچھا کام کیا ہے۔۔۔ جزاک اللہ خیرا۔۔۔ اللہ اسے آپ کی نجات کا باعث بناے آمین

    ReplyDelete