Monday, 5 December 2016

میلاد النبی ﷺ کے متعلق عرب وعجم کے جمہور علماء کا موقف

مِیلاد کے معنیٰ:
(‌ميلاد) الرجل اسم الوقت الذي ولد فيه. (والمولد) الموضع الذي ولد فيه۔
ترجمہ:
(پیدائش) کسی آدمی کے اس وقت کا نام ہے جس میں وہ پیدا ہوا۔ (اور مولد) وہ جگہ جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔
[مختار الصحاح-امام الرازي اللغوي(م666ھ): صفحہ 345]

میلاد النبی ﷺ کیا ہے؟
میلاد النبی ﷺ یعنی پیغمبر کی پیدائش کے وقت(حالات) کا تذکرہ۔
حوالہ
قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ:‏‏‏‏ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْبَرُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلَادِ، ‏‏‏‏‏‏وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلًا
ترجمہ:
قیس بن مخرمہ ؓ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل (1) کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں (2)، رسول اللہ ﷺ ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے، میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔
[سنن الترمذی - مناقب کا بیان - نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں - حدیث نمبر 3619]
نوٹ:
(1)یعنی جس سال ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے آیا تھا۔
(2)کیا ہی مہذب انداز ہے کہ بےادبی کا لفظ بھی استعمال نہ ہو اور مدعا بھی بیان ہوجائے۔
(3)نبی اکرم ﷺ کی ولادت بار بار یا ہر سال نہیں ہوا کرتی تھی کہ یہ کہا جاۓ کہ میلاد کا موسم آیا ہے۔




میلاد کو ماننے اور منانے میں فرق:


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا شان کی (۱)عظمت کرنا، آپ ﷺ کی (۲)اطاعت یعنی حکموں کو ماننا، اور آپ ﷺ کی (۳)اتباع یعنی نقش قدم کی پیروی کرنا، اور آپ ﷺسے (۴)محبت کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم و ضروری ہے۔ محبت ہی کا تقاضہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، حیات طیبہ اور سیرت پاک کا ذکر کیا جائے اور آپ کے اخلاق و شمائل، عادات و اطوار کا بیان مستند کتابوں سے پڑ ھاجائے یا سنا جائے۔ یہ محبت کا تقاضہ بھی ہے اور محبت میں اضافہ کا سبب بھی اور اجرو ثواب کا ذریعہ بھی ہے۔

لیکن میلاد مروجہ میں (۱) ولادت کے مقصد وپیغام کے بجاۓ صرف ولادت کے ذکر ہی کو ضروری(کافی) سمجھتے ہیں، اور (۲)بے سند روایات اور قصے بیان کرتے ہیں، (۳)حاضرین مجلس کے لئے کھڑے ہوکر ولادت کے بیان کو سننا ضروری سمجھتے ہیں، اور (۴)اس کے لئے دن تاریخ کا تعین کرکے اسی خاص تاریخ اور دن ہی ضروری سمجھا جاتا ہے اور (۵)اسی کو سال بھر کے لئے کافی سمجھ لیا جاتا ہے، (۶)عورتوں کا بن سنور کر محفلوں میں شریک ہونا، (۷)محفل میلاد میں شریک ہونے کو فرائض و واجبات سے زیادہ اہم اور باعث برکت سمجھنا، یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی خرابیوں کی بنا پر یہ بدعت ہے۔ جس کا ثبوت صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ سے نہیں ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں اس کا آغاز ابو سعید نظر الدین(لقب: مظفر الدین کوکبوری) نامی بادشاہ نے کیا تھا لیکن ہر دور میں علماء نے لوگوں کو اس بدعت سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔

مندرجہ ذیل تفصیلی دلائل وحوالہ جات سے یہ خلاصہ واضح کیا جارہا ہے۔

میلاد النبی ﷺ پر خوشیاں منانا کیسا ہے؟ اور اس پر اعتراض کرنے والے کیوں اعتراض کرتے ہیں؟


محافلِ میلاد میں منکرات کا ارتکاب، تفہیم المسائل

پروفیسر مفتی منیب الرحمن (مرکزی رویت ہلال کمیٹی، پاکستان کے سابقہ چیئرمین)
سوال:
میلاد شریف کے جلسوں میں دف کا اہتمام کیا جانا اور جشنِ میلاد شریف کے جلسوں میں تالیاں بجانا، ڈھول اور رقص پر اصرار کیا جانا، شریعتِ مطہرہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے، کیا کہیں کوئی جواز کی صورت ہے یادودھ وشہد میں نجاست وپلیدی ڈالنا اور حلال کو حرام کرنا ہے؟ دَف والی حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اس حدیث کی روشنی میں مباح سمجھا جائے یا حدیث کو منسوخ سمجھا جائے یا پھر خصوصیت پر محمول کیا جائے؟ بعض حضرات صوفیہ کے سازوں کے ساتھ قوالی سننے کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ (تنظیمات اہل السنت والجماعت، سرگودھا)

جواب:

میلاد النبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے جلسوں اور جلوس کا محرمات، مکروہات سے پاک ہونا ہی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا ثبوت ہے کہ آپ کی بعثتِ مبارکہ کا مقصد ظلمت وجہالت کو دور کرنا اور احکامِ الٰہی کا پابند بنانا ہے، لوگوں کی رذیل صفات کو حسنِ اخلاق میں بدل دینا ہے۔ رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن کا اکرام انہی شرعی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے جو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مجالس میں نظر آتے ہیں اس سے ہٹ کر کسی غیر شرعی امر(کام) کا ارتکاب دعویٔ عشق و محبت رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ میلاد النبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے جلوس نہ ضروریاتِ دین سے ہیں، اور نہ ہی ضروریاتِ مسلک اہل السنت والجماعت سے، البتہ یہ برصغیر میں شعائرِ اہل سنت سے ہیں، یہ اگر محرمات ، بدعات اور منکرات سے پاک ہوں تو زیادہ سے زیادہ استحباب واستحسان کے درجے میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
«‌لَا ‌يُؤْمِنُ ‌أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا ‌جِئْتُ ‌بِهِ»
ترجمہ:
تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائے۔
[السنة لابن أبي عاصم:15، الأربعون للنسوي:8، الأربعون للنسوي:279، شرح السنة للبغوي:104، الحجة في بيان المحجة-إسماعيل الأصبهاني:103، معجم السفر-أبو طاهر السلفي:1265]

حدیث کا واضح مفہوم یہی ہے کہ کامل ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان کا ہر قول و فعل ، معاملات ومعمولات اور خواہشات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہونی چاہئیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دینی امور(باتوں) کو قرآن وسنت میں بیان کردہ حقائق کی روشنی میں طے کرنے کے بجائے اپنی وضع کردہ عقیدتوں اور خواہشات کی نذر کردیتے ہیں اور عقیدے وعقیدت کا تعین ایک ایسا طبقہ کرتا ہے جو دینی فہم سے عاری و نابلد ہے ۔ محافلِ میلاد کے نام پر مقدس محافل کی آڑ میں بڑے بڑے کاروبار کیے جارہے ہیں، بعض مقامات پر نعت خوانوں اور شعلہ بیان مقررین (جن کی اکثریت موضوع روایات کا سہارا لیتی ہے) کی ایجنٹوں کے ذریعے لاکھوں میں بکنگ ہورہی ہے، کسی زمانے میں شہر بھر میں سیاسی لیڈروں کی بڑی بڑی قد آور تصاویر لگائی جاتی تھیں، اب واعظین اور نعت خواں حضرات کی تصاویر صرف بازاروں اور چوراہوں تک محدود نہیں، بلکہ مساجد کے صدر دروازوں پر بھی آویزاں نظر آتی ہیں۔ انگلینڈ سے فون آیا کہ اب پیر صاحبان کی تصاویر مساجد کے اندر آویزاں کی جارہی ہیں۔ ہمیں حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک باریش پیر کو جبے قبے کے ساتھ غیر محرم جوان عورتوں کے ساتھ بلاحجاب رقص کرتے ہوئے دکھایا، وہ ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے نظر آتے ہیں، کبھی وہ انھیں بوسہ دیتی ہیں، یہ حرام ہے۔ جب ابتذال(یعنی فضول خرچی،بے قدری) اس حد تک پہنچ جائے تو علمائے کرام کو تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر شدت کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ کفار بیت ﷲ شریف کے پاس تالیاں بجاتے اور اسے عبادت شمار کرتے تھے، قرآن مجید میں اسے کفر قرار دیا گیا ہے، ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اور بیت ﷲ کے پاس ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ یہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے، سواب عذاب کو چکھو کہ کیونکہ تم کفر کرتے تھے۔
[سورۃ الانفال:۳۵]

علامہ ابوعبدﷲ محمد بن احمد قرطبیؒ(م671ھ) لکھتے ہیں :
وَعَلَى التَّفْسِيرَيْنِ فَفِيهِ رَدٌّ عَلَى الْجُهَّالِ مِنَ ‌الصُّوفِيَّةِ الَّذِينَ يَرْقُصُونَ وَيُصَفِّقُونَ (وَيُصْعَقُونَ). وَذَلِكَ كُلُّهُ مُنْكَرٌ يَتَنَزَّهُ عَنْ مِثْلِهِ الْعُقَلَاءُ، وَيَتَشَبَّهُ فَاعِلُهُ بِالْمُشْرِكِينَ فِيمَا كَانُوا يَفْعَلُونَهُ عِنْدَ الْبَيْتِ
[تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن: 7/ 400]
ترجمہ:
قرآن مجید نے سیٹیاں بجانے اور تالیاں پٹینے کی جو مذمت کی ہے اس میں ان جاہل صوفیاء کا رد ہے، جو رقص کرتے ہیں ، تالیاں پیٹتے اور بے ہوش ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں (جسے وَجد نہیں بلکہ تواجُد سے تعبیر کیا گیا ہے)
[الجامع لاحکام القرآن ، جزء ۷، ص:۳۵۹، بیروت]

شریعت مطہرہ میں تالیاں بجانے کو مکروہ عمل فرمایا ہے۔
علامہ ابن عابدین(م1252ھ) شامیؒ لکھتے ہیں :
(قَوْلُهُ وَكُرِهَ كُلُّ لَهْوٍ) أَيْ كُلُّ لَعِبٍ وَعَبَثٍ فَالثَّلَاثَةُ بِمَعْنًى وَاحِدٍ كَمَا فِي ‌شَرْحِ ‌التَّأْوِيلَاتِ وَالْإِطْلَاقُ شَامِلٌ لِنَفْسِ الْفِعْلِ، وَاسْتِمَاعُهُ كَالرَّقْصِ وَالسُّخْرِيَةِ وَالتَّصْفِيقِ وَضَرْبِ الْأَوْتَارِ مِنْ الطُّنْبُورِ وَالْبَرْبَطِ وَالرَّبَابِ وَالْقَانُونِ وَالْمِزْمَارِ وَالصَّنْجِ وَالْبُوقِ، فَإِنَّهَا كُلَّهَا مَكْرُوهَةٌ لِأَنَّهَا زِيُّ الْكُفَّارِ
[حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي: 6 / 395]
ترجمہ:
’’(ہر بیہودہ کھیل مکروہ ہے) یعنی ہر لہو ولعب اور عبث (بے مقصد کام) تینوں (یعنی لہو، لعب او رعبث) کے معنیٰ ایک ہیں جیسا کہ ’’شرح التاویلات‘‘ میں ہے ۔ لہو کو مطلق (یعنی کسی قید کے بغیر) ذکر کرنا نفسِ فعل اور اس کی توجہ سے سماعت کو شامل ہے، جیسے رقص کرنا، مذاق کرنا اور تالیاں بجانا، ڈھول بجانا، ستار بجانا، سارنگی بجانا، چنگ بجانا، قانون (ایک تار والا باجا) بجانا، مزامیر کا استعمال ، جھانجھ (مجیرا) بجانا اور بگل بجانا، یہ سب مکروہ ہیں کیونکہ یہ عاداتِ کفار ہیں۔
[ردالمختار علی الدرالمختار، جلد:۹، ص:۴۸۱]

گانے کی دھن پر بنائی گئی موسیقی اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ نعت پڑھنا، پڑھوانا اور سننا سب ناجائز ہے۔
علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ الباری(م1014ھ) لکھتے ہیں:
’’جس نے دَف اور ڈانڈیا کے ساتھ قرآن کی تلاوت کی (وہ توہینِ قرآن کی وجہ سے) کفر کا مرتکب ہوا، میں (ملا علی قاری) کہتا ہوں :
اسی حکم کے قریب دَف اور ڈانڈیا کے ساتھ ﷲ تعالیٰ کا ذکر یا نعت مصطفی صلی ﷲ علیہ وسلم پڑھنا بھی ہے۔

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ مکمل ضابطہ اور دستور ہے ، احادیثِ مبارکہ میں صرف چند مواقع ایسے ملتے ہیں، جہاں دَف بجائی جارہی تھی، آپ ﷺ نے ان مواقع پر کسی خاص سبب سے اعراض نہ کیا۔ لیکن آج "تسکینِ نفس" کی تکمیل کے لیے ہر شخص اسے "سنت" سے ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے، جبکہ حدیث پاک میں ہے:
‌بَعَثَنِي لِأَمْحَقَ الْمَعَازِفَ ‌وَالْمَزَامِيرَ
ترجمہ:
مجھے آلاتِ موسیقی کو توڑنے والا بنا کر بھیجا گیا۔
[ذم الملاهي لابن أبي الدنيا:69، الدر المنثور في التفسير بالمأثور:3 /178-سورۃ المائدۃ:آیت90]
کے کلمات بھی آئے ہیں۔ 
حضرت بریدہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ایک معرکہ سے واپس لوٹے تو ایک سیاہ رنگ کی بچی آکر کہنے لگی: ’’یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم! میں نے نذر مانی تھی کہ ﷲ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت لوٹادے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور اشعار گاؤں گی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو نے نذر مانی تھی تو، تو پھر دَف بجالے ورنہ نہیں۔ وہ لڑکی دَف بجانے لگی، اس اثناء میں حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ تشریف لائے ، وہ دف بجاتی رہی، پھر حضرت علیؓ تشریف لائے، وہ دف بجاتی رہی ، پھر حضرت عثمانؓ تشریف لائے، وہ تب بھی دف بجاتی رہی۔ پھر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف کو اپنے سرین کے نیچے چھپا کر اس پر بیٹھ گئی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اے عمرؓ! تم سے شیطان ڈرتا ہے، میں بیٹھا تھا یہ دف بجاتی رہی، پھر ابوبکر (رضی ﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی ، پھر علی (رضی ﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی ،پھر عثمان (رضی ﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی اور پھر اے عمر (رضی ﷲ عنہ)! جب تم آئے تو اس نے دف رکھ دی۔
[سنن ترمذی:3690]

(بریلوی) امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں:
’’دف کہ بے جلاجل یعنی بغیر جھانجھ (اسے جھانجر بھی کہتے ہیں) کا ہو اور تال سم کی رعایت سے نہ بجایا جائے اور بجانے والے نہ مرد ہوں نہ ذی عزت عورتیں، بلکہ کنیزیں یا ایسی کم حیثیت عورتیں اور وہ غیر محل فتنہ میں بجائی تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب ومندوب ہے:
ترجمہ: ’’حدیث میں مَشْرُوط (یعنی جس کے ساتھ کوئی شرط ہو، محدود، مقید) دف کے بجانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی تمام قیود کو فتاویٰ شامی وغیرہ میں ذکر کردیا گیا اور ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تشریح کردی ہے‘‘۔ اس کے سوا ور باجوں سے احتراز کیا جائے ، وﷲ تعالیٰ اعلم۔
[فتاویٰ رضویہ، جلد:۲۱]

دَف اور ڈھولک میں فرق ہے، دف ایک طرف سے کھلا ہوتا ہے، جبکہ ڈھولک دونوں طرف سے بند ہوتا ہے لہٰذا دَف سے ڈھولک کا جواز ثابت نہیں کیا جاسکتا اور امام احمد رضا قادری نے دف کے ساتھ بھی جھانجھر نہ ہونے کی شرط لگائی ہے ، جبکہ بعض لوگ جھانجھر والے دف کے ساتھ نوخیز قریب البلوغ یا بالغہ لڑکیوں سے ٹی وی پر گروپ کی شکل میں نعت پڑھواتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے۔ بعض لوگ ہجرت کے موقع پر قبیلہ بنو نجار کی بچیوں کے ان استقبالیہ اشعار سے استدلال کرتے ہیں:
‌طَلَعَ ‌الْبَدْرُ ‌عَلَيْنَا * مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعْ وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا * مَا دَعَا لِلَّهِ دَاعْ۔
ترجمہ:
ہم پر چودہویں کا چاند ثنیات الوداع کی طرف سے طلوع ہوا ۔۔۔۔۔ ہم پہ شکر واجب ہے کہ بلانے والے نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا۔
[السيرة الحلبية = إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون: 2 / 257 الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت]

یہ(حق پر جھوٹ کا لباس چڑھانا) کَلِمَۃُ الْحَقّ أرِیْدُ بِھَا الْبَاطِلْ‘‘ (یعنی حق کی بات کے سہارے ناحق کا ارادہ وچاہت کرنے) کے قبیل سے ہے۔
اوّلاً تو یہ کہ یہ ابتدائے اسلام کا دور تھا، یہ بچیاں عہدِ اسلام کی تربیت یافتہ نہیں تھیں، بلکہ اس عہد کے قبائلی رواج کے مطابق انھوں نے ایسا کیا، اور وہ بھی ایک دائرے میں تھا، جبکہ مزامیر کو توڑنے کی روایات بعد کی ہیں(یعنی اب آخری حکم توڑنے پر عمل کیا جائے گا)۔ بعد ازاں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم جنگی فتوحات سے واپس تشریف لائے، کئی خوشی کے مواقع آئے، لیکن آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس شِعار(یعنی نشان، پہچان،رسم،عادت) کو رائج نہیں کیا اور نہ ہی اس کی ترغیب دی۔ مغنیات(یعنی گانے والیوں) سے کام لینا مشرکین مکہ کا شِعار(یعنی پہچان،رسم،عادت،نشان) تھا۔
[مطبوعہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘۲۵؍دستمبر۲۰۱۵]





جشن میلاد النبی ﷺ کے عنوان پر خُرافات(یعنی بےفائدہ، بےمقصد خرابیاں،برائیاں):
بریلوی اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب سے پوچھا گیا کہ میلاد شریف میں جھاڑ (یعنی پنج شاخہ مشعل) فانوس‘ فروش وغیرہ سے زیب و زینت اسراف ہے یا نہیں؟
آپ نے جواباً فرمایا کہ:
علماء فرماتے ہیں یعنی اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں۔
[ملخصا‘ تفسیر کشاف‘ سورۃ الفرقان تحت الایۃ 67 جلد سوم ص 293]

تماشے کا میلاد کرنا اور فوٹو وغیرہ کھنچوانا یہ سب گناہ و ناجائز ہیں۔ جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اسے امام نہ بنایا جائے۔
[فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 216‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی]
http://tahaffuz.com/418/#.WERC3LJ961t
 داڑھی منڈا میلاد خواں سے مجلس مبارک پڑھوانا حرام ہے.
[دیکھیے کتاب، تعلیماتِ اعلٰی حضرت: ص38، فتاویٰ رضویہ: جلد دہم]

لڑکوں کی نعت خوانی کی ممانعت:
امرد (یعنی بےریش لڑکا) اپنی خوبصورتی یا خوش آوازی سے، محل اندیشہ و فتنہ ہو، خوش الحانی میں اسے بازو(یعنی ساتھی وممدگار) بنانے سے ممانعت کی جائے گی،منقول ہے کہ عورت کے ساتھ دو شیطان ہوتے ہیں اور امرد کے ساتھ ستر شیطان، خوبصورت مرد کا حکم(بھی)مثل عورت کے ہے۔
[تعلیماتِ اعلٰی حضرت:ص112، ملفوظات:ص237]






عید میلاد النبی ﷺ صرف اور صرف جشن نہیں ہے، کہ اسکا عبادت کیساتھ کوئی تعلق "نہ" ہو، بلکہ جو لوگ جشن مناتے ہیں وہ اسے ایک "دینی" تہوار کے طور پر قربِ الہی حاصل کرنے کیلئے مناتے ہیں۔

اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

اول:
جو لوگ عید میلاد مناتے ہیں، یا ان محفلوں میں شرکت کرتے ہیں، یہ سب لوگ اسے نبی ﷺ سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں، اور اللہ و اسکے رسول سے محبت عظیم ترین عبادات میں سے ہے، یہی ایمان کا مضبوط ترین کڑا ہے، چنانچہ جو کوئی بھی کام اس محبت کی وجہ سے کیا جائے گا تو یقیناً وہ عبادت کے طور پر کیا جا رہا ہے۔
اس بنا پر ہم کہتے ہیں  کہ : رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام آپ کیساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے تھے، سب سے زیادہ آپکی تعظیم  کرتے تھے، صحابہ کرام کو اپنے بعد آنے والے لوگوں سے زیادہ نبوی حقوق کا علم تھا؛ چنانچہ جو کام صحابہ کرام کے ہاں دین میں شامل نہیں تھا، وہ انکے بعد بھی دین میں شامل نہیں ہوسکتا۔

اسی اصول اور قاعدہ کو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے مسجد میں ذکرِ الہی کیلئے جمع ہو کر کنکریوں پر تسبیح شمار کرنے والے  حضرات کے خلاف دلیل بنایا، اور کہا:
"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم ملتِ محمد ﷺ سے زیادہ ہدایت والی ملت پر ہو!؟ یا کوئی گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟!
لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ابو عبد الرحمن [عبد اللہ بن مسعودؓ کی کنیت] ہم تو نیکی ہی کرنا چاہتے تھے!؟
آپ نے کہا: "کتنے لوگ ہیں جو نیکی کرنا چاہتے ہیں ، لیکن نیکی کر نہیں پاتے!!"
[سنن الدارمی: (حدیث#210)]

دوم:
ہر سال کسی موسم میں جشن منانا اسے تہوار کے درجے تک پہنچا دیتا ہے، اور یہ  تہوار دینی شعائر ہوتے ہیں، اسی لئے اہل کتاب اپنے تہواروں کو مقدس سمجھتے ہیں، اور ان دنوں میں مخصوص تقریبات  بھی کرتے ہیں۔

شیخ ناصر العقل حفظہ اللہ کہتے ہیں: 
"تہوار بھی شریعت کا حصہ ہیں، جس طرح قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ ہیں، اور تہواروں کو  صرف عادات نہیں کہا جا سکتا، بلکہ تہواروں کے بارے میں کفار کیساتھ مشابہت اور انکی تقلید زیادہ خطرناک معاملہ ہے، اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ تہواروں سے ہٹ کر خود ساختہ تہوار منانا ، "حکم بغیر ما انزل اللہ "کے زمرے میں شامل ہے، بغیر علم کے  اللہ کی طرف کسی  بات کی نسبت کرنے ، اس پر بہتان باندھنے، اور دینِ الہی میں بدعت شامل کرنے کے مترادف ہے" انتہی
[مقدمہ اقتضاء الصراط المستقیم (ص58)]

سوم:

ابو داود: (1134) میں انسؓ سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو [اہل مدینہ] دو دنوں میں تفریح ومیلہ کیا کرتے تھے، تو آپ ﷺ نے پوچھا: یہ دو دن کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا: "ہم دورِ جاہلیت سے ان دنوں میں کھیلتے آرہے ہیں" تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں سے اچھے دن بدلے میں دیے ہیں: عید الاضحی، اور عید الفطر۔
اسے البانی نے "صحیح سنن ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔

چنانچہ اگر کسی تہوار کو جشن منانا عادات میں شامل ہوتا، اور عبادت کیساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا ، اور نہ ہی اس میں کفار سے مشابہت  کی گنجائش ہوتی تو رسول اللہ ﷺ انہیں کھیل کود میں لگا رہنے دیتے، کیونکہ کھیل کود، اور ہنسی مذاق  میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔

اس لئے اگر نبی ﷺ نے انہیں کسی تہوار کے دن میں  کھیل کود سے  منع فرمایا، حالانکہ اس میں کسی قسم کی عبادت بھی نہیں تھی؛ تو جو شخص کوئی عمل عبادت اور قرب الہی کیلئے ، یا دلی میلان کیساتھ ، یا  اس عمل پر ثواب ملنے کا دعوی کرے؛ اسے تو بالاولی منع ہونا چاہیے،  اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
جس شخص نے ہمارے [دینی] معاملے میں  ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں ہے، تو وہ مردود ہے۔
[بخاری:2697، مسلم:1718]


امام جلال الدین سیوطی(م٩١١ھ) فرماتے ہیں:

ليس فيه نص

ترجمہ:

اس(میلاد کے جائز ہونے) میں کوئی نص (یعنی قرآن وسنت میں کوئی واضح حکم) نہیں۔

 

۲: علامہ عبدالرحمن مغربی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں کہ:

أن عمل المولد بدعة لم يقل به ولم يفعله رسول الله والخلفاء والأئمه

ترجمہ:

تحقیقی بات یہ ہے کہ میلاد منانا بدعت ہے آنحضرت ،خلفاء راشدین اورنہ ہی ائمہ مجتہدین نے خود اس کو کیا اور نہ ہی اس کو منانے کا حکم دیا۔

[الحاوي للفتاوي:1/ 229]


۳: علامہ احمد بن محمد مالکی مصری لکھتے ہیں کہ:

قد أتفق العلماء والمذاهب الأربعه بذم هذا العمل.

ترجمہ:

تحقیق مذاہب اربعہ کے علماء کا اس عمل میلاد کی مذمت پراتفاق ہے۔

 


اس کے علاوہ علماء وسلف صالحین نے اس مسئلہ پر کتابیں لکھیں جن میںجشن میلادمنانے کی تردید کی گئی ہے۔

مثلاً

۱: امام ابوالحسن علی بن مفضل المقدسی المالکی نے اپنی کتاب’’کتاب الجامع المسائل‘‘میں

۲: امام احمد بن محمد المالکی نے اپنی کتاب ’’القول المعتمد فی عمل المولد‘‘ میں

۳: امام ابن الحاج الامیر المالکی نے اپنی کتاب’’ المُدْخَل‘‘ میں

۴: امام عبدالرحمن المغربی نے اپنے فتاویٰ میں

۵: امام حسن بن علی نے اپنی کتاب ’’طریق السنۃ‘‘ میں

۶: علامہ ابن تیمیہ حنبلی نے اپنے فتاوی میں

۷: امام ربانی مجدد الف ثانی نے مکتوبات حصہ پنجم میں

۸: امام نصیر الدین شافعی نے اپنی کتاب ’’رشاد الاخیار‘‘ میں

۹: امام ابواسحاق شاطبی نے اپنی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں


اور دیگر ائمہ نے اپنے اپنے زمانہ میں مروجہ محفل میلاد کی پرزورتردید کی ہے.




تاریخِ ولادتِ پیغمبر ﷺ میں اختلاف کیوں؟
اول:
سیرت نگار اور مؤرخین کا تاریخ، دن، اور ماہِ ولادت کی تعیین  کے بارے میں اختلاف ہے، یہ ایک ایسا امر ہے جس کا معقول سبب بھی ہے، وہ یہ کہ  کسی کو اس مبارک نومولود  کی آئندہ  شان کے بارے میں علم نہیں تھا، چنانچہ انہیں عام بچوں کی طرح سمجھا گیا، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت کے بارے میں تحدید نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر محمد طیب نجار رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ جس وقت آپکی پیدائش ہوئی تو کسی کو بھی آپکی  عظمت شان کے بارے میں توقع نہ تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی   ابتدائی زندگی پر اتنی توجہ نہیں دی گئی، تاہم جس وقت اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو آپ کی ولادت سے چالیس سال بعد دعوت دینے کا حکم  دیا تو لوگ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے متعلقہ یادوں کو واپس  لانے لگے، اور آپکی زندگی کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں پوچھنے لگے، اس کیلئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کا بیان کافی معاون ثابت ہوا، اسی طرح آپ کی زندگی سے منسلک صحابہ کرام اور دیگر افراد نے بھی آپکی زندگی سے متعلقہ واقعات بیان کیے ۔
اس وقت سے مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی سے متعلقہ کوئی بات بھی سنتے تو اسے محفوظ کر لیتے تا کہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کو  سیرت النبی سے آگاہ کریں"۔
[القول المبين في سيرة سيد المرسلين: ص 78]

دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت سے متعلقہ متفقہ باتوں  میں سال کیساتھ  دن کی تعیین  بھی شامل ہے ۔

1- سال کے بارے میں یہ رائے متفقہ ہے کہ یہ عام الفیل کا سال تھا، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش مکہ مکرمہ میں  عام الفیل کے سال ہوئی"
[زاد المعاد في هدي خير العباد: 1 / 76 ]

محمد بن یوسف صالحی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"ابن اسحاق رحمہ اللہ کے مطابق ولادت کا سال عام الفیل ہے"

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"جمہور کے ہاں یہی مشہور ہے"

ابراہیم بن منذر حزامی  رحمہ اللہ جو کہ امام بخاریؒ کے استاد ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ :
"اس کے بارے میں کسی بھی اہل علم  کو شک و شبہ نہیں ہے"

جبکہ خلیفہ بن خیاط، ابن جزار، ابن دحیہ، ابن جوزی، اور ابن قیم  نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ  اس بارے میں اجماع ہے۔
[سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد : 1 / 334 ، 335]

ڈاکٹر اکرم ضیاء عمری حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"حق بات یہ ہے کہ اس موقف سے متصادم  تمام روایات ضعیف ہیں، جن کا لب لباب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت عام الفیل سے دس سال بعد ہوئی، یا 23 سال بعد ہوئی یا 40 سال بعد ہوئی، علمائے کرام کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی، انکے اس موقف کی تائید جدید تحقیقات نے بھی کی ہے  جو مسلم اور مستشرق محققین کی جانب سے کی گئی ہیں، انہوں نے عام الفیل کو 570ء یا 571ء  کے موافق پایا ہے"
[السيرة النبوية الصحيحة-أكرم العمري(1942ع-1963ع) : جلد 1 / صفحہ  97]


2- جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کا دن  سوموار کو بنتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسی دن پیدا ہوئے، اسی دن رسالت سے نوازا گیا، اور اسی دن آپ نے وفات پائی، چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: (اس دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا-یا مجھ پر وحی نازل ہوئی-) [صحیح مسلم : 1162]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اس شخص نے بعید از قرائن بات کی ،بلکہ غلط کہا  ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت جمعہ کے دن 17 ربیع الاول کہتا ہے"

جمعہ کے دن کے قول کو حافظ ابن دحیہ  نے کسی شیعہ عالم کی  کتاب: " إعلام الروى بأعلام الهدى " سے نقل کیا ہے، اس کے بعد انہوں  نے اسکو ضعیف بھی کہا ہے، اور ایسے قول کی تردید کرنی بھی چاہیے کیونکہ یہ نص سے متصادم ہے۔
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

سوم:

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش سے متعلق اختلافی امور میں  مہینے اور اس مہینے میں دن کی تعیین ہے، اس بارے میں ہمیں بہت سے اقوال ملے ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو ربیع الاول کو آپکی پیدائش ہوئی، یہ قول ابن عبد البر نے "الاستیعاب" میں نقل کیا ہے، اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبد الرحمن مدنی سے بھی روایت کیا ہے"
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

2. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش ہوئی۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش ہوئی ، یہ قول حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے، اور مالک، عقیل، یونس بن یزید وغیرہ نے زہری  کے واسطے سے محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کیا ہے، نیز ابن عبد البر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مؤرخین اسی کو صحیح قرار دیتے ہیں، جبکہ حافظ محمد بن موسی خوارزمی نے اسی کو یقینی طور پر صحیح کہا ہے، حافظ ابو خطاب ابن دحیہ نے اسے اپنی کتاب " التنوير في مولد البشیر النذير " میں اسے راجح قرار دیا ہے"
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

3. یہ بھی کہا گیا ہے کہ دس ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسے ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور ابن عساکر نے ابو جعفر باقر سے بھی روایت کیا ہے، نیز مجالد  نے شعبی سے یہی موقف بیان  کیا ہے"
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

4. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی، اسی موقف کی صراحت ابن اسحاق نے کی ہے، اور ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف" میں عفان سے انہوں نے سعید بن میناء سے انہوں نے جابر اور ابن عباس دونوں سے روایت کیا ہے، اور دونوں کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عام الفیل بروز سوموار 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، سوموار کے دن ہی آپ مبعوث ہوئے، اور اسی دن آپکو معراج کروائی گئی، اور اسی دن آپ نے ہجرت کی، اور اسی دن آپ فوت ہوئے، جمہور اہل علم کے ہاں یہی مشہور ہے" واللہ اعلم
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی پیدائش رمضان  میں ہوئی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ صفر میں اور اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی اس بارے میں موجود ہیں۔

ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کے حوالے سے مضبوط ترین اقوال آٹھ  ربیع الاول سے لیکر 12 ربیع الاول کے درمیان ہیں، اور کچھ مسلم محقق  ماہرین فلکیات، اور ریاضی دان افراد نے  یہ ثابت کیا ہے کہ سوموار کا دن ربیع الاول کی نو تاریخ کو بنتا ہے، چنانچہ یہ ایک نیا قول ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہے مضبوط ترین قول، اور یہ شمسی اعتبار سے  20 اپریل 571ء  کا  دن  ہے، اسی کو معاصر سیرت نگاروں  نے راجح قرار دیا ہے، ان میں محمد الخضری، اور صفی الرحمن مبارکپوری بھی شامل ہیں۔

ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ(م581ھ) کہتے ہیں:
"ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش شمسی  اعتبار سے  20 اپریل بنتی ہے"
[الروض الأُنُف: جلد 1 / صفحہ 282]

پروفیسر محمد خضری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" مرحوم محمود پاشا- جو کہ مصری ماہر فلکیات ہیں ، آپ فلکیات، جغرافیہ، حساب میں بہت ماہر تھے، انہوں نے کافی کتب اور تحقیقات شائع کی ہیں، 1885ء میں فوت ہوئے- انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش صبح سویریے 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571ء کو ہوئی، جو کہ حادثہ فیل کا پہلا سال تھا، آپ کی ولادت شعب بنی ہاشم ، میں ابو طالب کے گھر ہوئی"
[نور اليقين في سيرة سيد المرسلين : صفحہ 9، الرحيق المختوم : صفحہ 41]

چہارم:

جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات  کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات سوموار کو ہوئی، اور ابن قتیبہ سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات بدھ کے دن ہوئی تو یہ درست نہیں ہے، یہ ہو سکتا ہے  کہ انکی مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی تدفین ہو، تو یہ درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تدفین بدھ کے دن ہوئی۔

جبکہ وفات کے سال کے متعلق بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ سن گیارہ ہجری  میں ہوئی۔

اور ماہِ وفات کے بارے میں  بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات ربیع الاول میں ہوئی

جبکہ اس مہینے کے دن کے متعلق علمائے کرام میں اختلاف ہے کہ :

1- تو جمہور علمائے کرام 12 ربیع الاول کے قائل ہیں

2- خوازمی کہتے ہیں کہ آپکی وفات ربیع الاول کی ابتدا میں ہوئی تھی

3- ابن کلبی ، اور ابو احنف کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاول کو ہوئی ، اسی کی جانب سہیلی کا میلان ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔

جبکہ مشہور وہی ہے جس کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات 12 ربیع الاول  سن گیارہ ہجری کو  ہوئی تھی۔

دیکھیں:
[الروض الأنف-امام السهيلي(م581ھ) : جلد 4 / صفحہ 439 ، 440 ، السيرة النبوية-امام ابن كثير(م774ھ): جلد4صفحہ  / 509 ،  فتح الباری-امام ابن حجر(م852ھ): جلد8 / صفحہ 130]

واللہ اعلم.



مِیلاد سنت کے مطابق ادا کریں:
حضرت ابو قتادہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
میں اسی دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا.
[صحیح مسلم:1162، ابوداؤد:2426، احمد:22550، صحیح ابن خزیمۃ:2117، ابی عوانۃ:2926، بیھقی:8434]

حضرت ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«تُعْرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنين والخميس، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَملي وأنا صائم»

ترجمہ:

 ”سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں“۔

[صحيح مسلم:2565 ، صحيح الترمذي:747، صحيح أبي داود:2436]

نوٹ:
(1) معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش کا اس دن ہونا ، اس دن روزہ رکھنے کے بہت سے اسباب میں سے ایک ہے ۔
(2) نبی ﷺ نے میلاد کا وقت سالانہ نہیں بلکہ ہر ہفتہ پیر کے دن مقرر فرمایا۔
(3) کھانے پینے جیسی نفسانی خواہشات کے بجاۓ  روزہ جیسی "مخفی" عبادت سے الله کا شکر کیا۔
(4) یہ روزہ سال میں ایک بار نہیں تھا، بلکہ ہر پیر کو رکھنے کی عادت تھی، ورنہ آپ کے ساتھی اس کے بارے میں نہ پوچھتے، لہذا یہ معمول سارا سال ہی حسب طاقت جاری رہنا چاہئے ، کسی ہفتے یا مہینے کو خاص نہ کرے۔
تاہم سال کے کسی دن  کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے جشن کے لیے ، یا روزے کے لیے خاص کرنا بدعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مخالفت ہے ؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے دن روزہ رکھا ہے ، سال میں جشن ولادت کا دن جس طرح ہفتے کے دیگر ایام کو بن سکتا ہے اسی طرح سوموار کو بھی آ سکتا ہے۔
اور
جو میلاد کو اس صحیح نبوی طریقہ سے نہیں کرتا تو وہ سنت پر نہیں.
تو
جو عیسائیوں کی طرح دین وشریعت کی پابندیوں کو نظر انداز کرتے کرسٹمس کی میلاد مناتے ہیں، ان کے طریقہ کو اختیار کرنا جائز نہیں. کیونکہ
الله نے کفر (یعنی اعلانیہ انکار) کرنے والوں کے جیسا ہوجانے سے منع فرمایا.
[سورۃ آل عمران:156]
جبکہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․
[سنن ابو داوٴد:4031]
اور رسول ﷺ نے بھی اہل کتاب کی مخالفت کرنے کا حکم فرمایا
[صحیح بخاری:3462]

اور آخر زمانہ میں ایسا ہونے کی پیشگوئی بھی دی
[بخاری:3456+7320]


جبکہ جو لوگ سال میں دو سے زیادہ عید جس روایت سے ثابت ہونا سمجھتے ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں ان (نحر یعنی قربانی) کے ایام میں کھانے پینے اور (بیوی سے) ملنے کا جائز ہونا یعنی روزہ رکھنے کے ناجائز ہونے کی تعلیم دینا مقصود ہے۔ ورنہ ولادت کے دن کو عید منانے کے سبب امت کیلئے (پیر کو) روزہ رکھنا بھی حرام وناجائز ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے، کیا نبی ﷺ یا کسی صحابی نے میلاد النبی کو عید کا دن کہا؟

تو خلاصہ یہ ہوا کہ عید میلاد النبی ﷺ منانا اللہ تعالی نے مشروع نہیں کیا اور نہ ہی نبی ﷺ نے مشروع قرار دیا ہے لہذا مسلمانوں کے لیے بھی اللہ تعالی اور نبی ﷺم کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے عید میلاد النبی ﷺ منانا جائز نہیں ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے ، آمین یا رب العالمین ۔




میلاد یا ذکرِ ولادت کرنے کی شرطیں اور آداب:
(1) صحیح احادیث و روایات کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے متعلق باتوں کا ذکر ہو تاکہ عقائد ونظریات درست رہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
آخری زمانہ میں دجل وفریب دینے والے جھوٹے ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی "احادیث" لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ ہی تمہارے باپ دادا نے سنا ہوگا.
لہذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں گمراہ نہ کریں اور فتنہ میں نہ ڈالیں.
[صحیح مسلم: حدیث#7]


اور یہ بھی فرمایا:
مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسے عیسائی(حضرت)عیسیٰ بن مریم کو بڑھاتے ہیں٬ میں تو بس اس کا بندہ ہوں، لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔
[صحیح بخاری:کتاب الأنبیاء: حدیث#3445]

اس نبوی پیشنگوئی کی سچائی دیکھیے کہ آج بعض لوگوں نے یہ چھاپنا بھی شروع کردیا ہے کہ:
خدا کہتے ہیں جسکو، مصطفیٰ معلوم ہوتا ہے
جسے کہتے ہیں بندہ، خود خدا معلوم ہوتا ہے۔
[دیوانِ محمدی/انوارِ فریدیہ: صفحہ#69 فارسی]
احمد احد میں کوئی فرق نہیں اے محمد!
عشاق یار رکھتے ہیں ایمان نئے نئے۔
[دیوانِ محمدی/انوارِ فریدیہ: صفحہ#104 فارسی]
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا،
پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغاباز نہیں۔
[دیوانِ محمدی/انوارِ فریدیہ: صفحہ#105 فارسی]

استغفر الله

فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ:
کسی سے تمہارا محبت کرنا تمہیں اندھا اور بہرا بنادیتا ہے۔
[ابوداؤد:5130، احمد:21694]
قرآنی شاہدی:
اور بعض لوگ وہ ہیں جو بناتے ہیں اللہ کے برابر اوروں کو٬ انکی محبت ایسی رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ کی، اور ایمان والوں کو ہے سب سے شدید محبت اللہ کی۔۔۔
[سورة البقرة:165]
یعنی
ان کی ویسی تعظیم کرتے(کھڑے ہوتے،سجدہ کرتے) ہیں جیسی الله کی اور ان کے سامنے بھی ویسی عاجزی کرتے(گڑگڑاتے)ہیں۔
[تفسیر(امام)نسفی:1/148]
وہ ان پر بھی بھروسہ کرتے، اور اپنے سارے کاموں میں(حصولِ نفع اور پناہ کی خاطر) اس کی طرف(امید ولالچ رکھتےغائبانہ التجا کرتے پکارتے)سہارا لیتے ہیں۔
[تفسیر(امام)ابنِ کثیر:1/476]





🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
بریلوی اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ ہے،کہ:
(2) داڑھی منڈا میلاد خواں سے مجلس مبارک پڑھوانا حرام ہے.
[دیکھیے کتاب، تعلیماتِ اعلٰی حضرت: ص38، فتاویٰ رضویہ: جلد دہم]

لڑکوں کی نعت خوانی کی ممانعت:
امرد (یعنی بےریش لڑکا) اپنی خوبصورتی یا خوش آوازی سے، محل اندیشہ و فتنہ ہو، خوش الحانی میں اسے بازو(یعنی ساتھی وممدگار) بنانے سے ممانعت کی جائے گی،منقول ہے کہ عورت کے ساتھ دو شیطان ہوتے ہیں اور امرد کے ساتھ ستر شیطان، خوبصورت مرد کا حکم(بھی)مثل عورت کے ہے۔
[تعلیماتِ اعلٰی حضرت:ص112، ملفوظات:ص237]

کیونکہ

القرآن:
۔۔۔ الله تو بس پرہیزگاروں ہی سے(اعمال)قبول کرتا ہے۔
[سورۃ المائدۃ:27]
تو
نعت خواں عورت کا اپنے چہرہ و آواز کا پردہ نہ کرنے اور مرد کا داڑھی مونڈھنے جیسی اعلانیہ نافرمانی کی عادت کے ساتھ مجلسِ میلاد میں نعت کہنا درست نہیں۔

اعلانیہ نافرمانی کے عادی لوگوں کا صدقہ بھی قبول نہیں۔
القرآن:
کہدیجیے، کہ تم اپنا مال چاہے خوشی خوشی چندے میں دو ، یا بد دلی سے، وہ تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔(کیونکہ) تم ایسے لوگ ہو جو مسلسل نافرمانی کرتے رہے ہو۔
[سورۃ التوبۃ:53]
جد بن قیس جس کا ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے، اسی کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ اس نے جنگ میں جانے سے تو مذکورہ بالا بےہودہ عذر پیش کیا تھا۔ لیکن یہ کہا تھا کہ اس کے بدلے میں اپنا مال چندے میں دوں گا۔[تفسیر ابن جریر، ج :10 ص :152]۔ اس کے جواب میں یہ آیت منافقین کے چندے کے ناقابل قبول ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔

محبت رسول اللہؐ کی علامات




🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

(3) ایسے وقت میں(میلاد/ذکرِ ولادت)بیان کریں جو فرض یا واجب نماز کا وقت نہ ہو تاکہ فرض، غیرضروری نہ بنیں۔
دلیلِ قرآن:
۔۔۔بیشک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں۔
[سورۃ النساء:103]
آج کل نماز روزہ کوئی ادا نہ کرے تو اکثر لوگ ملامت نہیں کریں گے کیونکہ اس سے انہیں کوئی غرض وفائدہ نہیں بلکہ ان کے کام آپ سے لینے کا موقع گذرجاتا ہے ، لیکن نافرمان پیٹ اور نافرمان نظر کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے"ایسی"دعوتیں، اجتماعی رسمیں جن حلال وحرام کی تمیز نہیں رہتی اور عورت کے بےپردہ چہرہ اور آواز کا موقع ملے،وہ بھی الله اور اس کے رسول کے نام کو استعمال کرکے،ایسی مجالس اور دعوتیں جن کا(1)نہ پہلے(نبی اور صحابہ کے دور میں)وجود تھا،اور(2)نہ ہی اس کا حکم دیا گیا۔۔۔تو اب اس غیرضروری(بلکہ غیرشرعی بات) کو ضروری بنانا اور ضروری(حکموں)کو غیرضروری بنانا،یہ دین کو بدلنا،بگاڑنا ہے،مخلوق کے دین کو خالق کا دین کہنا اور منوانا ہے، جو نبی کے بھیجے جانے کے مقصد، تعلیم اور اسے پھیلانے کی کوششوں میں برداشت کی گئی تکالیف کو ضایع کرنا اور مخالفت کرنا نہیں و اور کیا ہے؟؟؟
نبی ﷺ نے دین میں نئی باتیں نکالنے والے بدعتیوں کی یہ نشانیاں پیشگوئی فرمائیں،کہ:
(1)...وہ لوگوں سے تو کہتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے اور (2) وہ کام کرتے ہیں جن کا انہیں حکم نہیں ملا تھا...
[مسلم:50،احمد:4379]
قرآن:
جنکی(1)برباد ہوگئی کوشش دنیا کی زندگی میں اور(2)وہ یہ سمجھے ہوۓ ہیں کہ اچھے کام کررہے ہیں.
[الکھف:104]


نبی ﷺ نے فرمایا:
جس نے ہمارے (یعنی نبی اور صحابہ کے) دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس (یعنی سنت ِنبوی اور جماعتِ صحابہ کے طریقہ) میں نہیں تو وہ(نئی بات) "مردود" ہے.(یعنی مقبول نہیں).
[صحیح بخاری: حدیث#2697]
کیونکہ
آپ ﷺ نے فرمایا:
نہیں چھوڑی میں نے کوئی(نیکی کی)چیز(بات/عمل/طریقہ)جو قریب کردے تمہیں جنت کے مگر وہ کرچکا میں بیان تمہیں اور نہیں چھوڑی میں نے کوئی(بری)چیز(بات/عمل/طریقہ)جو قریب کرے تمہیں جھنم کے مگر وہ بھی کرچکا میں بیان تمہیں.
[سنن الکبریٰ(امام)بیھقی:7/75 کتاب الوصایا ،حدیث#12447]
لہذا،
جو نیا طریقہ نکالتا ہے وہ اس حرکت سے گویا کہ یہ سمجھتا اور سمجھاتا ہے کہ یہ بات نبی نے ہم تک نہیں پہنچائی، یا نبی کو معلوم نہ تھی۔(معاذ الله)


نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
بدترین بات(دین میں)نئی نکالی گئی ںاتیں ہیں
اور
(دین میں نکالی گئی)ہر نئی بات "بدعت" ہے
اور
تمام بدعت گمراہیاں ہیں
[مسلم:867]
اور تمام گمراہیاں جھنم میں(لے جانے والی)ہے.
[نسائی:1578]


الله نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
...آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے...
[سورۃ المائدة:3]
لہذا، اس دورِ نبوی کے دن کے بعد دین میں ثواب کی نیت سے اب کوئی نئی بات(طریقہ)نکالنے کا حق کسی کو نہیں۔




🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
(4) ایسی کیفیات(طور طریقوں اور حالتوں)کے ساتھ میلاد(ذکرِ ولادت)کریں جو صحابہ کرام اور قرونِ ثلاثہ(پہلے کی تین صدیوں)کے طریقے کے خلاف نہ ہوں، اور ایسے آداب کے ساتھ ذکر نہ کریں کہ جو آداب صحابہ کرام کی سیرت و طریقے کے مخالف ہوں، اپنی طرف سے کمی یا اضافہ نہ کریں۔
لہٰذا ثواب کی نیت سے گلیاں سجانا، بالآخر کچرے یا نالے میں جمع ہونے والی جھنڈیاں لگانا، بیجز بنوانا پہننا، بھنگڑے ڈالنا، ناچنا، حرام حلال کی پروا کیے بغیر دعوت کا اہتمام، بےپردگی، دکھلاوا، فضول خرچ وہ بھی چوری کرکے چراگاں کرنا وغیرہ۔ کیا یہ نبوی تعلیم اور بھیجے جانے کا مقصد تھا؟؟؟ کل کس منہ سے نبی کے پاس حاضر ہونے کی امید رکھتے ہیں؟؟؟
نبی ﷺ نے فرمایا:
سب سے بہترین لوگ میرے زمانہ کے(یعنی نبی اور ان کے ساتھ چلنے والے صحابہ کا زمانہ)٬پھر وہ(لوگ)جو ان کے قریب ہوں(یعنی صحابہ کے پیچھے چلنے والے تابعین)، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں(یعنی تابعین کے پیچھے چلنے والے تبع تابعین بہترین لوگ ہے)،ان کے بعد وہ لوگ ہوں گے کہ(1)وہ گواہی دیں گے حالانکہ انہیں گواہی دینے کے لئے نہیں کہا جائے گا اور(2) وہ امانت میں خیانت کریں گے اور(3)نذر مانیں گے، لیکن اسے پورا نہیں کریں گے اور(4)ان میں موٹاپا ظاہر(عام)ہوگا۔
[بخاری:2652، مسلم:2533]
اور
نبی ﷺ نے فرمایا:
میرے بعد(غیرحاضری میں)لوگوں میں"اختلاف"ہوجاۓ گا تو تم لازم پکڑنا میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو...اور(دین میں)نئی باتوں سے بچو کیونکہ(دین میں)ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے.
[ابو داؤد:4607، ترمذی:2676، ابن ماجہ:42]
اور
نبی ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے جو بھی "فتنہ" کا دور پاۓ تو وہ(اپنی یا بعد والوں کے بجاۓ)پہلے گذرے ہوۓ(نیک)لوگوں کے طریقے پر چلے کیونکہ(ابتداء سے)تم فطرت(اسلام)پر ہو.
[دارمی:219]
یعنی انہوں نے جو مانا،کہا،کیا وہی کرو اور جو انہوں نے نہیں مانا،نہیں کہا،نہیں کیا اسے مت کرو۔کیونکہ وہ اصل السلام پر تھے، ان کے بعد نیکی اور نیکوکاروں کا غلبہ نہ رہے گا، برائی اور فتنہ(یعنی حق چھپانے اور جھوٹ ملانے کے سبب حلال اور حرام، صحیح وغلط میں فرق وتمیز نہ رہنے کی آزمائش اور فساد)پھیل جاۓ گا۔

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
(5) اور ایسے اعتقاد وعقیدے کے ساتھ(میلاد/ذکرِ ولادت)بیان کریں جس میں شرک وبدعت کا شبھہ نہ ہو.
جیسے:
یہ شرکیہ عقیدہ نہ ہو کہ نبی ﷺ یہاں پر حاضر وموجود ہیں لہذا کھڑا ہونا اور انہیں(غائبانہ)پکارنا صحیح نہیں۔ اور یہ بدعتی نظریہ بھی نہ ہو کہ نبی ﷺ کا ذکر جو ہم کر رہے ہیں وہ ثواب ہے اور جو ایسا نہیں کرتے وہ "گناہ" کر رہے ہیں۔ لہٰذا شریک نہ ہونے والے کو طعن وتشنیع کرنا،گمراہ کہنا اور کفر کے فتوے لگانا گناہ وحرام ہے۔
کیونکہ ایسی باتیں نبی ﷺ نے نہیں سکھلائیں، بلکہ اس کے خلاف یہ باتیں تعلیم دیں جو ہر عام اور معمولی سمجھ رکھنے والے مومن کیلئے بھی کافی اور واضح ہے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
میں نہیں جانتا کہ کتنا(عرصہ) میں تم میں رہوں گا
لہذا
پیچھے چلنا(یعنی کہا ماننا،ساتھ دینا)میرے بعد(غیرحاضری میں)ابوبکر اور عمر کے.
[ترمذی:3799، ابن ماجہ:97]


(2)اور ایک بار یہ فرمایا،کہ:
(اے عائشہ!)تم مت رو، اگر دجال میری زندگی(یعنی حاضری)میں نکلا تو اس کے لئے میں تمہاری طرف سے کافی ہوں اور اگر مجھے موت نے آلیا اور اگر دجال میرے بعد نکلا، پس(یہ یاد رکھنا) تمہارا رب عزوجل کانا نہیں ہے۔
[احمد:27568، 24467، طبراني:406، ابن حبان:6822]
اور اگر وہ میرے بعد(میر غیرحاضری میں)نکلا تو الله میرا خلیفہ(نائب)ہے پر مسلمان پر۔
[طیالسی:1738،حمیدی:369،احمد:27568]


3) اور یوں بھی فرمایا،کہ:
جو میری قبر کے پاس درود پڑھےتو میں اسے خود سنتا ہوں
اور
جو دور سے درود پڑھے تو وہ(فرشتوں کےذریعہ)پہنچایا جاتا ہے.
[فتح الباری شرح البخاری:6/352]
معلوم ہوا کہ آپ ہر وقت یا ہر جگہ موجود نہیں۔

نہیں ہے کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر ، سواۓ الله کے

حدیث : مجھے حد سے نہ بڑھاو جیسے ...





🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
(6)نبی  کیلئے کھڑا ہونا، خود نبی  کو ناپسند تھا۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کے لئے رسول الله ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا،لیکن وہ اس کے باوجود آپ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسے ناپسند کرتے تھے۔
[ترمذی:1446]

نبی ﷺ کیلئے تعظیماََ کھڑا ہونا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنَّ رَجُلًا , سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ  ، يَقُولُ :  خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُومُوا نَسْتَغِيثُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْمُنَافِقِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يُقَامُ لِي ، إِنَّمَا يُقَامُ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى "  .

ترجمہ:
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے لئے مت کھڑے ہوجایا کرو، صرف اللہ ہی کیلئے کھڑے ہوا کرو۔



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ  ، قَالَ : " لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا  حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ  .
[جامع الترمذي » كِتَاب الْأَدَبِ » بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ قِيَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ ... رقم الحديث: 2697(2754)]
ترجمہ:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کے لئے رسول الله ﷺسے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود وہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ اسے برا مانتے تھے.

[جامع الترمذي : ابواب الاستيذان و الأدب، باب ما جاء فی كراهية قيام، حديث : -2558]
جامع الترمذي: كتاب الدعوات - باب قول النبي ﷺ -: قوموا إلى سيدكم
أحمد:12345+13623
الأدب المفرد للبخاري:946،
البغوي - شرح السنة:3329، مصابيح السنة :3639 ،
الأحاديث المختارة:1958+1960+1961
المصنف ابن أبي شيبة:25583، 
مسند أبي يعلى الموصلي:3784، 
صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب:32، 
فتح الباري 53/11، 
روضة المحدثين:2473





مروجہ محفل میلاد مفسرین، محدثین، فقہاء اور علمائے امت کی نظر میں
جب سے یہ محفل میلاد شروع ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک علماء کی دو رائے رہی ہیں، بعض صرف جواز کے قائل تھے اور بعض بدعت کہتے تھے، بعد میں اس میں اضافے ہوتے رہے، ان اضافوں کی وجہ سے حکم بھی بدلتا رہا، یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ میں ہر طبقہ کے علماء نے اس محفل میلاد کی تردید کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) امام ابو اسحاق شاطبیؒ (المتوفى:790هـ) نے بدعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
كَالذِّكْرِ بِهَيْئَةِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى صَوْتٍ وَاحِدٍ، وَاتِّخَاذُ يَوْمِ وِلَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدًا۔
ترجمہ:
جیسے کہ ہم آواز ہوکر اجتماعی طور پر ذکر کرنا اور آپ ﷺ کے یوم پیدائش کو عید کے طور پر منانا۔
[الاعْتِصَام للشاطبي:1/51، الناشر: دار ابن الجوزي للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية]







(۲) علامہ تاج الدین فاکہانیؒ (المتوفى: 734هـ) کا مسلک اور ان کا قول معروف ہے کہ:

ولا جائز أن يكون مباحا، لأن الابتداع في الدين ليس مباحا بإجماع المسلمين.
ترجمہ:
ممکن نہیں ہے کہ عمل میلاد درست اور مباح ہو، اس لئے کہ دین میں کسی نئی بات کا اضافہ بالاجماع مباح نہیں ہے۔
[المورد فى عمل المولد: ص10، الناشر: دار العاصمة - الرياض]
(بحوالہ كتاب: رسائل فى حكم الاحتفال بالمولد النبوي).




(۳) ابن امیر الحاجؒ مالکی (المتوفى: 737هـ) فرماتے ہیں:
وَمِنْ جُمْلَةِ مَا أَحْدَثُوهُ مِنْ الْبِدَعِ مَعَ اعْتِقَادِهِمْ أَنَّ ذَلِكَ مِنْ أَكْبَرِ الْعِبَادَاتِ وَإِظْهَارِ الشَّعَائِرِ مَا يَفْعَلُونَهُ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنْ مَوْلِدٍ وَقَدْ احْتَوَى عَلَى بِدَعٍ وَمُحَرَّمَاتٍ جُمْلَةٍ.
ترجمہ:
اور من جملہ من گھڑت بدعات کے ایک بدعت جس کو وہ بہت بڑی عبادت اور شعائر اسلام کا اظہار تصور کرتے ہیں وہ ہے جو ربیع الاول کے مہینہ میں میلاد کے سلسلہ میں کیا کرتے ہیں اور میلاد مختلف بدعات اور حرام چیزوں کو شامل ہے۔

[المدخل-ابن الحاج: جلد2 صفحہ2، فَصْلٌ فِي مَوْلِدِ النَّبِيّ والبدع المحدثة فِيهِ ، الناشر: دار التراث]



وَبَعْضُهُمْ يَتَوَرَّعُ عَنْ هَذَا وَيَعْمَلُ الْمَوْلِدَ بِقِرَاءَةِ الْبُخَارِيِّ وَغَيْرِهِ عِوَضًا عَنْ ذَلِكَ، وَهَذَا وَإِنْ كَانَتْ قِرَاءَةُ الْحَدِيثِ فِي نَفْسِهَا مِنْ أَكْبَرِ الْقُرَبِ وَالْعِبَادَاتِ وَفِيهَا الْبَرَكَةُ الْعَظِيمَةُ وَالْخَيْرُ الْكَثِيرُ لَكِنْ إذَا فَعَلَ ذَلِكَ بِشَرْطِهِ اللَّائِقِ بِهِ عَلَى الْوَجْهِ الشَّرْعِيِّ كَمَا يَنْبَغِي لَا بِنِيَّةِ الْمَوْلِدِ. أَلَا تَرَى أَنَّ الصَّلَاةَ مِنْ أَعْظَمِ الْقُرَبِ إلَى اللَّهِ تَعَالَى وَمَعَ ذَلِكَ فَلَوْ فَعَلَهَا إنْسَانٌ فِي غَيْرِ الْوَقْتِ الْمُشْرَعِ لَهَا لَكَانَ مَذْمُومًا مُخَالِفًا فَإِذَا كَانَتْ الصَّلَاةُ بِهَذِهِ الْمَثَابَةِ فَمَا بَالَك بِغَيْرِهَا 
ترجمہ:
کچھ لوگ احتیاط کا پہلو اپناتے ہوئے جشن میلاد میں گانے بجانے کی بجائے صحیح بخاری پڑھتے ہیں ، یہ عمل بذاتہ خود ایک عظیم عمل اور عبادت ہے، بلکہ خیر و برکت کا موجب بھی ہے، لیکن اس کیلئے شرط وہی ہے کہ اسے بھی اسی انداز سے سر انجام دیا جائے جیسے کہ اسے کرنے کا شرعی طور پر طریقہ بتلایا گیا ہے، جشن میلاد کی نیت سے نہ کیا جائے، اس کی مثال آپ یوں سمجھیں کہ نماز قرب الہی کے حصول کا عظیم ترین ذریعہ ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص نماز کے وقت سے پہلے ہی یا نماز کا وقت ہی نہ ہو تو ایسے وقت میں نماز ادا کرنا قابل مذمت اور شریعت سے متصادم ہوگا، اگر نماز کا یہ معاملہ ہے تو اس کے علاوہ دیگر امور کا کیا حال ہوگا؟!
[المدخل-ابن الحاج : 2 / 25]



تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عید میلاد النبیﷺ کا رواج قرونِ ثلٰثہ میں نہیں تھا، سب سے پہلے اس کا رواج مظفر الدین بادشاہ نے کیا، یہ ساتویں صدی ہجری کا ایک بدعتی بادشاہ تھا۔
[القول المعتمد في عمل المولد: احمد بن محمد مصري]


امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ:
فَوَجَدَ مَلِكَهَا الْمُعَظَّمَ مُظَفَّرَ الدِّينِ بْنَ زَيْنِ الدِّينِ يَعْتَنِي بِالْمَوْلِدِ النَّبَوِيِّ، فَعَمِلَ لَهُ كِتَابَ " التَّنْوِيرِ فِي مَوْلِدِ السِّرَاجِ الْمُنِيرِ " وقرأه عليه بنفسه، فأجازه بألف دينار۔
ترجمہ:
تو اس(عمرو بن دحیہ) نے اس(اربل) کے نامور بادشاہ مظفرالدین ابن زین الدین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کا خیال رکھتے ہوئے پایا تو اس نے اس کیلئے کتاب "التنویر فی میلاد السراج المنیر" بنوائی اور اسے خود پڑھ کر سنایا۔ تو اس نے اسے ایک ہزار دینار کا انعام دیا۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 169]






اور اس کا عمر بن وحیہ نے خوب ساتھ دیا تھا۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 144]


عمر بن وحیہ کے بارے میں علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ:

یہ جھوٹا آدمی تھا، لوگوں نے اس کی روایت پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی بہت زیادہ تذلیل کی تھی۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 145]









عید اور میلاد میں فرق:
عيد اس تِہْوار كا نام ہے جس ميں بار بار اجتماع عادتاً ہو، يا تو وہ سال بعد آئے يا پھر ايک ماہ بعد يا ايک ہفتہ بعد۔
[المنجد:ص593، قاموس الوحید:ص1139، فیروز اللغات:ص908]
یعنی
(1) وہ تِہْوار جو عيد الفطر اور يوم الجمعہ كى طرح بار بار آئے۔
(2) اس دن اجتماع ہو اور لوگ جمع ہوں۔
(3) اس روز جو عبادات اور عادات جيسے اعمال كيے جاتے ہيں۔
جبکہ
(1)میلاد کو بطورِ تِہْوار(جشن)نبی ﷺ اور صحابہ نے ہر سال نہیں منایا.
(2)اجتماع کا نہ کوئی وقت مقرر ہے نہ کوئی جگہ
(3)نہ کوئی اجتماعی عمل ہے نہ کوئی عبادت۔


عيد
العادۃ کسی فعل یا انفعال کو "بار بار کرنا" حتی کہ وہ طبعی فعل کی طرح سہولت سے انجام پاسکے۔ اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ عادۃ طبیعتِ ثانیہ کا نام ہے۔
العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے۔
اصطلاحِ شریعت میں یہ لفظ فطرہ کے دن اور قربانی کے دن پر بولا جاتا ہے۔ چونکہ شرعی طور پر یہ دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ.»
ترجمہ:
یوم عرفہ(یعنی نویں ذی الحجہ)، یوم النحر(یعنی دسویں ذی الحجہ) اور ایامِ تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ) ہم اہلِ اسلام کی عید ہے، اور یہ (1)کھانے اور (2)پینے کے دن ہیں۔
[سنن ابو داؤد:2419، سنن الترمذی:773، سنن النسائی:3007، صحيح ابن خزيمة:2100، صحيح ابن حبان:3603]

«أَلَا ، لَا تَصُومُوا هَذِهِ الْأَيَّامَ فَإِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ، وَذِكْرِ اللهِ»
ترجمہ:
خبردار!ان دنوں میں روزہ مت رکھو، کیونکہ یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)ذکر اللہ کے۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3573، شرح معاني الآثار:4100]
ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر۔اللہ اکبر کہیں۔
[تفسیر ابن کثیر:1 /417 سورۃ البقرۃ:203]

تیسری روایت میں ہے کہ بھیجا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایامِ تشریق میں، کہ وہ اعلان کریں (لوگوں میں):
فَإِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَبِعَالٍ»
ترجمہ:
(اے لوگو!) یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)میل جول کے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:15265، (شرح معاني الآثار:4111) (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:3376)]
يَعْنِي النِّكَاحَ
[مسند إسحاق بن راهويه:2419]
وملاعبةُ الرجلِ أهلَه
ترجمہ:
اور کھیلنے کیلئے مرد کا اپنے گھروالی سے۔
[غريب الحديث للقاسم بن سلام:58]

اس لئے ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو اس پر عید کا لفظ بولا جانے لگا ہے۔
چناچہ آیت کریمہ:۔
أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكُونُ لَنا عِيداً
ترجمہ:
ہم پر آسمان سے خوان (نعمت) نازل فرما۔ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے۔
[سورۃ المائدة:114]
میں عید سے شادمانی کا دن ہی مراد ہے۔ اور العید اصل میں (خوشی یا غم کی) اس حالت کو کہتے ہیں جو بار بار انسان پر لوٹ کر آئے اور العائدۃ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو۔

[المفردات في غريب القرآن - امام الراغب الأصفهانيؒ(م502ھ) : صفحہ593، الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت]

اس لیے کہ عید منانا سب لوگوں کی شرست اور طبیعت میں شامل ہے اور ان کے احساسات سے مرتبط ہوتی ہے، لہٰذا سب لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے لیے کوئي نہ کوئي تِہْوار ہونا چاہیے جس میں وہ سب جمع ہو کر اپنی خوشی وفرحت اور سرور کا اظہار کریں۔

لوگوں کی بنائی عیدیں غیراسلامی(بدعت) ہیں:
حضرت طاؤسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوا ‌شَهْرًا ‌عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا يَوْمًا عِيدًا۔
’’تم (اپنی طرف سے) کسی مہینے کو عید نہ بناؤ، اور نہ کسی دن کو عید بناؤ‘‘.
[مصنف عبد الرزاق:8100 (7853) ، لطائف المعارف لابن رجب: ص118]

کفار امتوں کی عیدیں اور تِہْوار اس کے دنیاوی معاملات کے اعتبار سے منائي جاتی ہیں مثلا: سال نو کا تہوار یا پھر زراعت کا موسم شروع ہونے کا تہوار اور بیساکھی کا تہوار یا موسم بہار کا تہوار ، یا کسی ملک کے قومی دن کا تہوار یا پھر کسی حکمران کا مسند اقدار پر براجمان ہونے کے دن کا تہوار اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے تہوار منائے جاتے ہيں ۔

اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے کچھ دینی تہوار بھی ہوتے ہیں، مثلا: یھود  کے خاص دینی تہوار یا عیسائيوں کے تہواروں میں جمعرات کا تہوار شامل ہے، جس کے بارہ میں ان کا خیال ہے کہ جمعرات کے دن عیسی علیہ السلام پر مائدہ یعنی آسمان سے دسترخوان نازل کیا گیا تھا اور سال کے شروع میں کرسمس کا تہوار ، اسی طرح شکر کا تہوار ، عطاء کا تہوار ، بلکہ اب تو عیسائي سب یورپی اور امریکی اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک جن میں نصرانی نفوذ پایا جاتا ہے ان تہواروں کو مناتے ہیں اگرچہ بعض ممالک میں اصلا نصرانیت تو نہيں لیکن اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش قسم کے کچھ مسلمان بھی کم علمی یا پھر نفاق کی بنا پر ان تہواروں میں شامل ہوتے ہیں ۔

اسی طرح مجوسیوں کے بھی کچھ خاص تہوار اور عیدیں ہیں مثلا: مھرجان اور نیروز وغیرہ کا تہوار مجوسیوں کا ہے  ۔

اور اسی طرح فرقہ باطنیہ کے بھی کچھ تہوار ہیں، مثلا: عید الغدیر کا تہوار جس کے بارہ میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضي اللہ تعالی عنہ اور ان کے بعد بارہ اماموں سے خلافت پر بیعت کی تھی۔


مسلمانوں کی عید میں دوسروں سے امتیاز:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مسلمانوں کی ان دو عیدوں پر دلالت کرتا ہے اور مسلمانوں کی ان دو عیدوں کے علاوہ کوئي اور عید ہی نہیں :

حضرت عائشہ ؓ نے بتلایا کہ حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں یہ شیطانی باجے؟ اور یہ عید(الفطر) کا دن تھا۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا: اے ابوبکر!
إِنَّ ‌لِكُلِّ ‌قَوْمٍ ‌عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا۔
ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
[صحيح البخاري:952، صحيح مسلم:892، (سنن ابن ماجه:1898)]

لھذا مسلمانوں کے لیے جائز اورحلال نہيں کہ وہ کفار اور مشرکوں سے ان کے تہواروں اورعیدوں میں مشابہت کریں نہ تو کھانے اورنہ ہی لباس میں اورنہ ہی آگ جلاکر اورعبادت کرکے ان کی مشابہت کرنا بھی جائز نہيں ، اور اسی طرح ان کے تہواروں اورعیدوں میں بچوں کو کھیل کود کرنے بھی نہيں دینا چاہیے ، اورنہ ہی زيب وزينت کا اظہار کیا جائے اوراسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو کفار کے تہواروں اور عیدوں میں شریک ہونے کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے  ۔

ہر کفریہ اور بدعت والی عید اورتہوار حرام ہے مثلا سال نو کا تہوار منانا ، انقلاب کا تہوار ، عید الشجرۃ ، عیدالجلاء ، سالگرہ منانا ، ماں کا تہوار ، مزدوروں کا تہوار ، نیل کا تہوار ، اساتذہ کا تہوار ، اورعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب بدعات اورحرام ہیں ۔

مسلمانوں کی صرف اور صرف دو عیدیں اور تہوار ہيں ، عید الفطر اور عیدالاضحی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے۔

حضرت انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ نبویہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے اورخوشی وراحت حاصل کرتے تھے ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ
یقینا اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے میں اچھے دن دیے ہیں عید الاضحی اور عیدالفطر۔
[سنن ابوداود: حدیث نمبر 1134]۔

یہ دونوں عیدیں اللہ تعالی کے شِعار(یعنی نشان، پہچان،رسم،عادت) اورعلامتوں میں سے جن کا احیاء کرنا اوران کے مقاصد کا ادراک اوران کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے ۔






بدعت ِعید میلاد کا اول موجد کون؟

عید میلاد کا جشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبوی ﷺ اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف' میلاد النبیؐ' کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے 'میلاد' بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ''یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیاء کرام ؑ کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔''
نیز لکھتے ہیں کہ ''فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں.سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔''
(البدایۃ والنھایۃ : ۱۱؍۲۵۵ تا ۲۷۱)
بدعت ِعید میلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں :
1۔ مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ''أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام'' میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ
''‌إن ‌أول ‌من ‌أحدثها ‌بالقاهرة: ‌الخلفاء الفاطميون، وأولهم المعز لدين الله، توجه من المغرب إلى مصر في شوال سنة (361) إحدى وستين وثلاثمائة هجرية ...''
[فتاوى الشبكة الإسلامية:8762 (8/803)]
''سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعز لدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلاد النبیؐ، میلادِ علیؓ، میلادِ فاطمہؓ، میلادِ حسنؓ، میلادِ حسینؓ، اور حاکم وقت کا میلاد.. یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔''

2۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں :
''کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی ا ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ الحاضر''
[المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰]
''فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبیؐ، میلادِ علیؓ، میلاد فاطمۃ الزہراؓ، میلادِ حسنؓ، میلاد حسینؓ اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔''

3۔ علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
'' فاطمی حکمران ۱۲؍ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔''
[دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳؍ ص۴۹۸ تا ۴۹۹]

بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الابداع في مضار الابتداع (ص۱۲۶) از شیخ علی محفوظ، البدعۃ ضوابطھا وأثرھا السیئۃ في الأمۃ (ص ۱۶تا۲۱) از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر، القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴ تا ۷۲) از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴ از سیدعلی فکری ... وغیرہ







بدعت ِمیلاد ؛ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک:
عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علیؓ، میلادِ حسنؓ و حسینؓ وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبیؐ پر زور دیا۔ چنانچہ الشیخ الامام شہاب الدین ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ (599-665ھ) کے بقول :
''وَكَانَ ‌أول ‌من ‌فعل ذَلِك يالموصل الشَّيْخ عمر بن مُحَمَّد الملا أحد الصَّالِحين الْمَشْهُورين وَبِه اقْتدى فِي ذَلِك صَاحب ‌أربل وَغَيره''
[الباعث على إنكار البدع والحوادث: ص۲۱ (ص24-الناشر: دار الهدى - القاهرة)]
''(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی 'اربل' کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔''
اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ 586 ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بے دین، عیاش اور ظالم و سرکش ثابت ہوا جیسا کہ
یاقوت حمویؒ(م626ھ) لکھتے ہیں کہ :
''یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلا وجہ لوگوں کے اَموال ہتھیالیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتا اور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ؎
كساعية للخير من كسب فرجها                       لك الويل! لا تزني ولا تتصدّقي
''یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔ نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔''
[معجم البلدان: ج۱ / ص۱۳۸ الناشر: دار صادر، بيروت]

اسی 'صاحب ِاربل' ہی کے بارے میں امام سیوطیؒ (م911ھ) رقم طراز ہیں کہ
''وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ فِعْلَ ذَلِكَ صَاحِبُ ‌إِرْبِلَ الْمَلِكُ ‌الْمُظَفَّرُ ‌أَبُو ‌سَعِيدٍ كُوكْبُرِي''
[الحاوي للفتاوي: ص222 ج1 ، الناشر: دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان]
''سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید ِمیلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔''

شاہِ اربل بدعت ِمیلاد کا انعقاد کس جوش و خروش اور اہتمام و انصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:
''محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہاء، صوفیاء، وعظاء، قرأء اور شعراء حضرات اربل آنا شروع ہوجاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان 'مہمانوں' کے لئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کے لئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلاتِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کرکے سیرو تفریح کے لئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص و سرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کے لئے نکل جاتا، پھر بو قت ِدوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عید ِمیلاد تک شاہِ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸؍ربیع الاول اور ایک سال ۱۲؍ ربیع الاول کو عید میلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی ) آنحضرتؐ کے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عید میلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔''
[وفیات الاعیان-امام ابن خلکان(م681ھ) : ص۱۱۷ ؍ج۴]

سبط ابن جوزیؒ (م654ھ) کا بیان ہے کہ:
''اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دسترخوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلاد میں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت ِفاخرہ سے نوازتا، ان کے لئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیاء کے لئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذاتِ خود شریک ہوکر رقص کرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔''
[مرآۃ الزمان: ج22 ص324 الناشر: دار الرسالة العالمية، دمشق - سوريا]


Milad un Nabi Kyun NAHI Manaana Chahiye (Bralwi Ulama ki Zubaani)


Ulama e Bralwiya ko Baar Baar Yeh baat Kahi Jaati hai ke Milad ke Manaane aur Uske Juloos se Islaam ki Ibtedaayi 500 Sadi (500 years) Khaali rahi hai.
Lekin Ba-jaaye Samajhne ke, Yeh Hazraat Ulta Ulama e Ahle sunnat wal Jamaat ko Bhala Bura Kehte hai.
Par jo baat Ulama e Ahle Sunnat ne Kahi hai, wahi Bralwi Ulama ne bhi Kahi hai.
Pas, Ab Baat Hamaari hai, Zubaan Unki hai.
Bralwi Hazraat ke Hakeem ul Ummat, Mufti Ahmed Yaar Khan Naeemi Farmaate hai ke
“ Imam Sakhaawi Rh. ne Farmaaya ke Milad Shareef Teeno Zamaano me Kisi ne NA kiya, Baad me Ijaad huwa.”
(Jaal al Haq : Safa 236)
Scan Page :

Bralwi Maulwi Faiz Ahmed Owaisi Likhte hai ke
‘Waqai Salaf-o-Saleheen ne yeh Amal Nahi kiya.’
(Gausul Ibaad : Safa 50)
Scan Page :

Ek aur Maqaam par Kehte hai ke
‘Chunke Salaf-o-Saleheen ke Zamaane me is Tareeq ka Dastoor Nahi tha.’ (Gausul Ibaad : Safa 51)
Scan Page :

Bralwi Allama Ghulam Rasool Saeedi Farmaate hai ke ‘Mehfil e Milaad ki Haiyyat e Ijtemaayi Har Chand ke BIDDAT hai.’
(Sharah Muslim : Jild 3 : Safa 185)
Scan Page :
Aage Farmaate hai ke
“Khulaasa Yeh hai ke Eid e Milaad Bid’at (Naya Kaam) hai, Lekin Ach-chaiyyo Buraiyyo par Mushtamil hai.”
(Sharah Muslim : Jild 7 : Safa 1026)
Scan Page :
Bralwi Shaykh ul Islaam, Tahir ul Qadri ki Gawaahi :
Sarkaar e Do-Aalaam SAW Apne Khaliq Haqeeqi se Jaa-mile, Toh Sahaba Kiraam Rdh. par gum wa Aalam ka Ek Kohe giraa toot gaya.
Isliye Jab Inki zindagi me 12 Rabbi-ul-awwam ka din aata, Toh Wisaal ke Sadme tale Wilaadat ki Khushi dab jaati aur
Judai ka gham az-sarino taza hojaata.
Aaqa e do Jahaa SAW ki Zindagi ki Yadoon ke Jalwe me 12 Rabbi ul Awwaal ka din Aata toh Khushi wa Gum ki Kaifiyate mil Jaati aur Sahaba Kiraam Rdh. Wisaal e Mehboob SAW ko Yaad Karke Sadma Zadah dilo ke saat Khushi ka Izhaar na karsakte the.
(Milad un Nabi SAW : Safa 454)
Scan Page :
In Tamaam Bralwi Ulama ke Irshaadaat se Maloom huwa ke Sahaba Kiraam Rdh. Salaf-o-Saleheen aur Teeno Zamaano me Milad un Nabi MANAANE ka Riwaaj Nahi tha.
Mazeed Ghulam Rasool Saeedi ne Milad un Nabi ke Juloos ke Halaat yu Bayaan Karte hai ke
“Baaz Shehro me Eid e Milad un Nabi ke Juloos ke Taqdees ko Bilkul Pa’amaal kar diya gaya hai, Juloos Tang Raasto se Guzarta hai aur Makaano ki Khirdkiyo or Balconiyo se Naw-jawaan Lardkiya Aurtein Sharka Juloos par Phal waghairah Phaikti hai (Shayad Sawaab ki Niyyaat se, Al Eyaazubillaah)
Aubaash Nau-jawaan Fahesh Harkatein karte hai.
Juloos me Mukhtalif Gaadiyo par Filmi gaano ki Recording hoti hai aur Naujawaan Lardke Filmi Gaano ki Dhuno par Naach-te hai aur Namaaz ke Auqaat (Waqt) me Juloos Chalta rehta hai, Masaajid ke Aage se Guzarta hai aur Namaaz ka koi Ahtemaam nahi kiya jaata.
Is Qism ke Juloos MILAD UN NABI KE TAQDEES PAR BAD-NUMA DHAAG hai, Unki Agar Islaah na ho sake, TOH UNKO FAURAN BAND KARDENA CHAHIYE.
Kyunke Ek Amr Mustahsin ke naam par In Moharmaat ke Irtekaab ki Shariyat me Koi Asal nahi hai.
(Sharah Muslim : Jild 3 : Safa 170)
Scan Page :
Ek aur Maulwi Sahaab, Abdul Ghafoor Sharqipuri Farmaate hai ke “Agar Mustahab Farz ke liye Rukaawat bane, Toh Mustahab ka Chor-na Zaroori hai.”
(Namaazi ke paas Ba-Awaaz Zikr karna Jayez hai ya Nahi : Safa 176)
Scan Page :
Aakheer me Ahmed Yaar Khan Naeemi Sahaab yu Likhte hai ke
“ Is aayaat se Chand Masaail Maloom hote hai, Ek Yeh ke Agar Ghair Zaroori Ibaadat Fasaad Zariya ban-jaaye, Jo Hum se Mit na Sake, Toh Isko Chor-diya Jaaye.”
(Tafseer e Nurul Irfan, Haashiya : Safa 224)
Scan Page :

Khulaasa e Kalaam :
Hamaari Sanjeeda Bralwi Hazraat se Guzaarish hai ke wo Bralwi Allama, Ghulam Rasool Saeedi Sahaab ki Ibaarat pe Ghaur kare.
Kya Aaya wo Tamaam Baatein Jo Saeedi Sahaab ne Zikr ki hai, Aaj kal ke Juloos me nahi horahi hai ?
Kya waqai Namaz ke Auqaat me Juloos ko Rok-kar Namaz Aada ki-jaati hai ?
Kya Waqai 12 Rabbi-ul-awwal ke din Masjido me Musalliyo ki Ta’adaad me Bhaari Izaafa hota hai ?
Kya Milad ke Julooso me Nau-jawaan Be-huda Harkatein Nahi Karte hai ?
Har Aankhe Rakhne waala Shaks Dekh raha hai ke Aaj Milad ke Julooso ke naam par kya kya Horaha hai ?
Pas, Hamaari yahi Guzaarish hai ke
Milad ke Naam par Croro ke paise Kharch-karne,
Namaze Chor-na aur Isme
Nau-jawaano ka Be-huda Kaam karna,
Naach-na Gaana,
Logo ko Takleef dena,
Raat Raat bhar aur Isi Tarah ROAD par speaker ka Full sound ke saat Chaalu rehna,
Motor cycle ke Silencer ki awaaz Badaakar Taiz chalaana aur
Ghair Muslimo ko Dekh-kar Naare Lagaana, Isse Kaunsa Deeni Fariza aada horaha hai, Isse Kaise Sach-cha Aashiq e Rasool hona Saabit horaha hai ?
Hum Kisi par Tanz nahi maar rahe hai, Balke Aaj ke Milad ke Naam Juloos ko Dekh-kar Har Saaheb e Basirat Shaks (Jisko ALLAH Tala ne Dil ki Aankhe di ho, Jo Waqai me Huzur SAW ka Sach-cha Ummati ho, Jisne Milaad ke Juloos me hone hone Badi Badi Ghalatiyo ko Mehsoos kiya hai, wo) yahi Kahege ke
‘AAJ ke Be-hayaai ke DAUR me Milad ke Naam par Juloos nikaalna aur Isko Manaane ki Koi Gunjaa-ish nahi hai.’
Wallahu’alam.








Hum Eid-E-Milad un Nabi Kyun Nahi Manate [ Part-1 ]



Assalamu Alaykum Doston Aaj-kal EK Bidat Jo Aam Hai Eid-E-Milad Ke Naam Se Uska Tahqeeqi Tankeedi jayza Liya Gaya Hai.







Milaad Ka Baani Or Milad Kab Se Shuru Hua:



Ye Bid’at 604 Hijri Mosal Ke Sheher Me Hai Muzaffar Uddin Kokri Bal 630 Hijri Ke Hukum Se Ijad Hui Jo Ek Masroof Aur Deen Se Be Parwah Badshah Tha
( Dekhiye Ibn-E-Khalkaan Wagerah ) 









Hafiz Ibne Hajr Askalaani Shafa’ii Rehmatullah Alayh, Naqal Karte Hain: 



Wo Aaimma E Deen Aur Salaf Ki Shaan Me Bahot Hi Gustakhi Kiya Karta Tha ,Gandi Zabaan Ka Malik Tha_Bada Ahmaq (Bevkoof) Mutkabbir ( Ghamandi ) Tha Deen Ke Kamo Me Bada Be Parwah Aur Sust Tha.



[Lisaan Al Meezaan—Jild—06—Pg—85]


Scan








Allama Ibn Najaar Rahmatullah Alay Ne Farmaya:

Allama Ibn Najaar Ramatullah Alay Farmate Hain Ke Me Ne Logon Ko Is Ke Jhoot Aur Zuaf Par Muttafiq Paya_( Lisan Al Meezaan—Jild—06—Pg—84 ) Ba Hawala Rahe Sunnat 
Scan 








Meelad Par Sabse Pehle Kitab Kisne Likhi:



Jis Dunya Parast Maulvi Ne Is Jashn Ke Dil Dadad Badshah Ke Liye Meelad Ke Jawaz Par Mawaad Ikhatta Kiya Tha Is Ka Naam Umar Bin Dahya Abu Al Khattab (633 Hijri ) Tha Jisko Is Kitab Ke Sile Me Sahab Arbal Aur Masroof Badshah Ne Ek Hazaar Pond Inaam Diya Tha [Dekhiye: Daul Al Islam]









Umar Ibn Dahya Abul Khattab Ke Mutallik Hafiz Ibn E Kaseer Likhte Hain:

Ye Jhoota Shaqs Tha Logon Ne Is Ki Riwayat Par Aitbaar Karna Chhod Diya Tha Aur Iski Bohot Tazleel Ki Thi

[Dekhiye: Al Bidaya Wan Nihaya ] 









Milad Ki Asal Barelvi Alimo Ke Zabani.



Maulvi Abdus Sami Rampuri Sahab Likhte Hain



Lekin Ye Samani Farhat WaSuroor Karna Or Isko Bhi Makhsoos Shaher Rabi Ul Awwal Ke Sath Aur Is Me Khas Wahi Baharvi’n Din Milad Shareef Ka Mu’een Karna Baad Me Hua Yaani CHahhti ( 6 ) Sadi Ke Aakhir Me Aur Awwal Ye Rabi Ul Awwal Me Karna Takhsees Aur Ta’ayyun Ke Saath Shaher-E-Mosool Hua









Scan









Aage Phir Likhte Hain 



Aur badshahon Me Awwal Badshah Abu Saeed Muzaffar Ne Molood Shareef Takhsees Wa Ta’ayyun Ke Sath Rabi Ul Awwal Me Kiya Garz Ke Is Badshah Ne Shaikh Umar Mazkoor Ki Pervi Is Fa’aal Me Ki Har Saal Rabi Ul Awwal Me Teen Lakh ( 300000 ) Asharfi Lagakar Badi Mahfil Kiya Karta Tha.



Scan




Mazeed Aage Likhte Hain 

Jis Waqt Mulk Abu Saeed Muzaffar Ne Mahfil-E-Molood Ka Samaa’n Kiya Aur Muftiyaan Deen Ne Is Masle Ka 604 Hijri Me Ailan Kiya.




Scan




Rabi Ul Awwal Ka Naam Eid-E-Miladunnabi Kisne Allort Kiya 

Barelviyat Ke Paaye Ke Aalim Likhte Hain

Ulama-E-Ikram Masha’ikh Azzam Ka EK Ijlas Bulaya Gaya Jisme Hazrat Peer Sayyed Jamaat Ali Shah Muhaddis Ali Puri ,Hazrat maulana Asgar Ali Rohi ,Maulana Muhammed Bakhsh Muslim B.A Ke Alawah Kai’n Sarkardah Shakhsiyaat Ne Shirkat Ki Is Ijlas Ka Agenda Ye Tha Ke Rabi Ul Awwal Shareef Ko Bara Wafaat Kehne Ki Bajaye Eid-e-MIladunnabi ﷺ Kaha Jaye.

Scan 

Aage Likhte Hain

Govermant Ke Gizd Or Sarkari Kagzaat Me Barah Wafaat Ki Awaami Galti Ko Eid-E-Miladunnabi ﷺ Se Tabdeel Karwaya _Is Din Aam Ta’ateel Manzoor Karwai.




Scan 

Mazeed Aage Likhte Hain 

Mahnama Zia-E-Haram Eid-E-Miladunnab ﷺ Number Mah (Maheena ) November, December 1989 Lahore –Page—293 / 294 Par Hai Ke Anjuman Mu’een Al Islam Ne Jis Waqt Qayaam 1930 Me Amal Me Aaya Tha Sarkaar Englishiya Se Darkhwast Ke Calandro Or Dairyon Me Barah Wafaat Ka Jo Lafz Likha Jata Hai WO Galat Hai_Iske Bajaye Eid-e-Miladunnabi ﷺ Ka Lafz Hona Chahiye_Chunanche Govermant Ne Anjuman Ki Is Tajveez Ko Mazoor Kar Liya_Phir Is Waqt Se Is Ta’ateel Ko Bhi Ta’ateel Eid-E-Miladunnabi ﷺ Likha Jaane Laga__

Scan

Dekhiye Is Bid’at Ko Khud Ulama E Barelviya Bayaan Kar rahe Hain Chhati (6 ) Hijri Me Hui Jiska Aqeedah Imam Hajr Askalani Ra. Ne Bayaan Kiya Or Phir Barelvi Ulama Ki Tasnifaat Se Pata CHata Hai Ki Ye Kaam kab Ijad Hua Hai…Yahan Bhi Dekha Jaaye Ke Barelvi Hazraat Govermant Englishiya Se Apna Moqqaf Sabit Karte Hain Jis Kaam Ki Ijzat Angrezi Hukumat Se Li Gayi Ho Kya Wo Sahahaba Taabi’een Tabe Tabi’een Me Se Kisi Ka Amal Sakta Hai Lihaza Ye Bid’at Hai .




Aqeedah Salaf Salheen 

Imam jalaluddin Suyuti Rehima Ullah Milad Ki Jhande Wali Riwayt Ke Muta’allik Farmate Hain




Mene Apni Is Kitab Me Is Se Zyadah Munkir Riwayat Koi Bhi Bayaan Nahi Ki 
[Khasais Al Kubra Jild—1—Page—83 ]

Scan


Allama Ibn Ameer Al Haaj Rahima Ullah Farmate Hain 

“Agar Milad Tamaam Mafasid Se Mahfooz Bhi Ho Tab Bhi Wo Sirf Niyat ( AqdiMajlis Milad ) Ki Wajah Se Bid’at Hogi Aur Deen Ke Ander Jadeed Amr Ka Izafa Hoga Jo Salaf Salheen Ke Amal Me Na Tha Halanke Aslaaf Ke Naqshe Kadam Par Chalna Or Unki Pervi Karna Hi Behtar Hai ”
[ Al Mudkhal—Jild—02—Page—02 ]


Mazeed Aage Likhte Hain 

“ Logon’n Ki In Bid’ato’n Or Nau Ijad Bato’n Me Se Jinko Badi Ibadat Samajhte Hain Or Jin Ke Karne Ko Sha’aar-E-Islamia Ka Izhar Kehte Hain , EK Majlis Milad Bhi Hai Jisko WO mah Rabi Ul Awwal Me Karte Hain Or Waqya Ye Hai Ke Bohot Si Bid’aat Or Mahermaat Par Mushtamil Hai ….Aakhir Me Farmate hain…..Or Is Majlis Milad Par Mafasid Us Surat Me Murattab Hote Hain Jabke Sama’a Ho So Agar Majlis Milad sama’a Se Bhi Paak Ho Or Sirf Be Niyat Molood Khana tayyar kar Liya Ho Or Bhaiyyon Or Doston Ko Is Liye Bulaya jaye Or Tamaam Mazkoor Bala Mafasid Se Mahfooz Ho Ho Tab Bhi Wo Sirf ( Aqdi Majlis Milad ) Ki Wajah Se Bid’at Hai Or Deen Ke Andar Ek Jadeed Izafa Karna Hai ,Jo Salaf Saalheen Ke Amal Me Na Tha Halanke Aslaaf Ke Naqshe Kadam Par Chalna Aur Unki Pervi Karna Hi Zyadah Behtar Hai__
[ Al Mudkhal—Jild—02—Page—10 ]

Scan


Hazrat Is’haaq Shatbi Rahima Ullah Bid’at Ke Hawale Se Farmate Hain.

“ Jese Ke Hum Awaaz Hokar Ijtemayi Taur Par Zikr Karna Aur Aap ﷺ Ke Pedha’ish Ko Eid Ke Taur Par Manana ”__
[ Al Aitisaam—Jild—01—Pg—53 ]

Scan



Hazrat Mujaddid Al FIsani Rahima Ullah Farmate Hain.

“ Aapko Pehle Likha Ja Chuka Tha Tha Ke Sama’a Ke Mana Hone Ka Mubalga Molood Ke Mana Hone Ko Bhi SHamil Hai Jo Natiya Qaseedon Or Ger Natiya Sha’aron Ke Padhne Se Murad Hai ”__
[ Matubat-E-Imam-E-Rabbani—Page—386 ]

Scan




Jub Aslaaf Ka Aqeedah Hi Ye Kaam Bid’at Hai To Barelvi Ulama Ko Sochna Chahiye Ke Sirf Ulama E Deoband Ke Bugz Me Ye Saari Khurafaat Karne Me Tumhari Konsi Bhalai Hai…….Allah Ta’ala Hum Sab Ko Amal Ki Taufeeq Ata Farmaye…..Ameen


Minjanib…Shoaib Ikram Hayati


























Hum Eid-E-Miladunnabi Kyun Nahi Manate [ Part-2 ]


Post-16-12-2015 By Shoaib Ikram Hayati


Assalamu Alaykum Doston Eid-E-Milad Ke Naam Par Khurafat Machane Walon Ke Liye Lamha E Fiqria


Or Maulvi Ahmed Raza Khan Ke Fatawajaat Ki ROshni Me Eid-E-Miladunnabi Ki Haqeeqat Aapki Kidmat Me Hazir Hai.


Yun To Ahmed Raza Khan Ne Kai Jagah Wiladat Par Ikhtelaaf Bayan Kiya Hai Magar Apne Qaul Par Amal Karne Ki Hukum Bhi Kiya Hai Wiladat Or Wisal Par Maulvi Ahmed Raza Khan Ki tahqeeq Mulaheza Ho.


Maulvi Ahmed Raza Khan Barelvi Likhte Hain.


“ Agarche Aksar Muhaddiseen Wa Morrikheen Ka Nazarya Ye Hai Ke Wiladat Ba Sa’adat 8 Tarikh Ko Hui ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan


Or Ijma Nakal Karte Hui Likhte Hain.


“ Ahle Zebaat Ka Is Par Ijma Hai ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan




Or Aage Likhte Hain.


“ Ibn Hazam Wa Humaidi Ka Yahi Mukhtar Hai Or Ibn Abbas Rdh.Jubair Bin Mu’attam Rdh. Se Bhi Marvi Hai ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan


Or Apna Aqeedah Bayan Karte Hui Fatawa Dete Hain.


“ Mai Kehta Hun Ke Humne Hisab Lagaya To Huzoor Akram ﷺ Ki Wiladat Aqdas Wale Saal Muhrram Ka Garah Wastia ( Agaaz ) Jume Raat Ke Rauz Paya To Isi Tarah Mahe Wiladat Kareema Ka Garah Wastia Baroz Itwar Or Garah Hilalia Baroz Peer Hua TO Is Tarhan Peer Ke Rauz Ma Wiladat Mubarka Ki 8 tarikh Banti Hai ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan


Yahi Qaul Ko Maulvi Ahmed Raza Khan ne Apni Kitab Nutkul Hilal Me Bhi Nakal Kiya Hai_[ Nutkul Hilal—Page—412 ]


Scan 


Maulvi Ahmed Raza Khan Se Sawali Jawabi mamua Me Sawal Hua Hua Ke Aqa ﷺ Ki Wiladat Or Wisal Kab Kab Hua To Ahmed Raza Khan Barelvi Ne 8 Tarikh Ka Jawab Diya Or 12 Rabi Ul Awaal Wisaal Ka Jawab Diya _[ Nutkul Hilal—Page—3/4 ]


Scan


Or Phir Apne Wisaal Ko Lekar Fatawa Me Bayaan Karte Hain.


“ Qaul Mash’hoor Motamad Jamhoor Dawaz Duham Rabi Ul Awwal , Ibn Sa’aad Ne Tabkate Me Batareeq Umar Bin Ali Murtaza Rdh. Anhuma Ameerul Momineen Maula Ali Karam Allahu Ta’ala Wajha Al Kareem Se Riwayat Ki Hai__Yaani Huzoor Aqdas ﷺ Ki Wafaat Shareef Rauz Do ( 2 ) Shamba Baharvin ( 12 ) Tareekh Rabi Ul Awwal SHareef Ko Hui ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]


Or Aage Allama Zurqani Ka Hawala Naqal Karte Hui Likha Hai.


“ Imam Ibn Is’haaq Or Jamhoor Ke Nazdeen Rasool Ullah ﷺ Ka Wisal Aqdas Mah Rabi Ul Awwal Ki Barah (12 ) Tareekh Ko Hua ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]


Scan


Or Aage Is Par Bayaan Karte Hain.


“ Jamhoor Ka Qaul Ye Hai Ke Rasool Ullah ﷺ Ne Barah ( 12 ) Rabi Ul Awwal Ko Wisal Farmaya ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]


Scan


Mazeed Aage Tareekh-E-Khamees Ka Hawala Dete Hui Likha.


“ Nabi Aqdas ﷺ Ka Wisal Mubarak Barah ( 12 ) Rabi Ul Awwal Shareef Ko 11 Hijri Baroz Peer Dopher Ke Waqt Hua Jis Waqt Aap Madeena Mnawwarah Me Dakhil Huai Thai ”_[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]


Scan


Aur Inke Ek Bade Aalim-E-Deen Allama Noor Bakhsh Tawakkali Farmate Hain.


“ Jamhoor Ke Nazdeek Rabi Ul Awwal Ki Baharvin ( 12 ) Tareekh Thi ”__[ Seerat-E-Rasool-E-Arbi—Page—173 ]


Scan


Firqa Barelvia Ke Liye Lamha Fiqria.


Ahmed Raza Khan Ne Apne Wisal Se Pehle Wasiyat Kari Jo Yun Ki Hai 


“ Hattal Imkan Itteba Shariat Na Chhoro Aur Mera Deen Wa Mazhab Jo Meri Kutub Se Zahir Hai Us Par Mazbooti Se Qayam Rehna Har Farz Se Ahem Farz Hai ”__[ Wasaya Shareef—Page—10 ]


Scan 


Or Naeem Uddin Moradabadi Ne Apne Aala Hazrat Ke Deen Par Qayam Rehte Hui Yun Likha


“ Rahi Ye Baat Ke Jo Aala Hazrat Ka Hum Aqeedah Nahi Usko Hum Kafir jante Hain Ye Durust ”__[As Sawarimul Hindiyya—Page—138 ]


Scan 


Or Kuchh Yuhin In Alfazon Ko Nizamuddin Multani Ne Bhi Nakal Karte Hui Likha.


“ Rahi Ye Baat Ke Jo Aala Hazrat Ka Hum Aqeedah Nahi Usko Hum Kafir jante Hain Ye Durust ”__[ Anwaar-E-Shariat—Jild—01—Page—140 ]


Scan


Ab Barelvi Maulviyon Or Awaam Ko Maulvi Ahmed Raza Khan Ko Manne Ka Dawa Chhor Dena Chahiye Ya Apna Iman Sabit Karen Kyunki Baqaul Naeemuddin Moradabadi Or Nizamuddin Multani Ke Ye Log Kafir Ja Bane Hain…








Allah Ta’ala Hum Sabko Deen-E-Haqqa Par Chalne Ki Taufeeq Ata Farmaye,Ameen 




































*********************
اول:

سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم ﷺ كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:

چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم ﷺ كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے.

اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے.

اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے.

اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.

اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے.

ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 ).

ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم ﷺ سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم ﷺكى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى ﷺ مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى.

شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا.

اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے.

اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى

ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 ).

دوم:

سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ:

جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم ﷺ يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "

اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا.

اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم ﷺ نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم ﷺ نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہؓكہا كرتے تھے:

" ہر وہ عبادت جو رسول كريم ﷺ كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "

يعنى: جو رسول كريم ﷺ كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "

پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں:

وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.

اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا.

رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے.

اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے.

پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں:

" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى

ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 ).

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.

عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:

پہلى مثال:

علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.

دوسرى مثال:

كتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.

تيسرى مثال:

اصول فقہ كى تدوين.

چوتھى مثال:

جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى.

ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 ).

اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى.

ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 ).

اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ:

ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے.

اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" شرعى عرف ميں بدعت مذموم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 ).

اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى

اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا.

لہذا جب نبى كريم ﷺاور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے.

شيخ الاسلام ابن تيميہؒ كہتے ہيں:

" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم ﷺ كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا.

اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے.

بلكہ كمال محبت اور نبى كريم ﷺ كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو.

كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى

ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 ).

اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم ﷺ كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم ﷺ كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے.

ہم یہ پوچھتے ہیں کہ نبی ﷺ سے محبت کا مطلب کیا ہے؟ تو ہر عقلمند شخص کا جواب یہی ہوگا کہ:  نبی ﷺ کی اتباع کی جائے، اور آپ ﷺ کے طریقے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ اگر  یہ لوگ نبی ﷺ کے طریقہ کار پر چلتے اور آپکی اتباع کرتے ، تو یہ بھی اسی طرح عمل کرتے جیسے نبی ﷺ کے ساتھ محبت کرنے والے اور آپکی اتباع کرنے والے صحابہ کرام نے کیا، اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سلف کی اتباع کرنے میں ہی خیر ہے، اور برے لوگوں کی اتباع کرنے  کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

قاضی عیاضؒ  نبی ﷺ سے محبت کی علامت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: 
"یہ بات ذہن نشین کرلو کہ: جو شخص جس سے محبت کرتا ہے، اسی کو ترجیح دیتا ہے، اور اسی کے نقش قدم پر چلتا ہے، اگر ایسے نہ کرے تو وہ اپنی  محبت میں  سچا  نہیں ہے، بلکہ صرف زبانی جمع خرچ ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے سچی محبت کرنے والے شخص پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں سب سے پہلے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ، آپکی سنتوں پر عمل، آپ کی باتوں اور آپکے افعال  پر عمل، آپکے احکامات، اور ممنوعات کی پاسداری، آپ کی جانب سے ملنے والے آداب پر تنگی ترشی، آسانی فراوانی، سستی چستی ہر حالت میں  کار بند رہنا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کےاس  فرمان میں ہے:
{قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ} 
ترجمہ:
کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کریگا" [سورۃ آل عمران : 31]
اسیطرح شریعتِ محمدی کو ترجیح دینا،اسے  نفسانی خواہشات پر  مقدم کرنا، اور  آپکی  چاہت  کے مطابق عمل کرنا آپ سے محبت کی دلیل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ} 
ترجمہ:
جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم ہیں یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں۔ اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے۔ اس کی کوئی حاجت اپنے دلوں میں نہیں پاتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنی جگہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔[سورۃ الحشر : 9]

اور رضائے الہی کی خاطر  لوگوں کی ناراضگی مول لینا آپ سے سچی محبت کی علامت ہے ۔۔۔، چنانچہ  جو شخص ان صفات سے متصف ہو وہی اللہ ، اور اس کے رسول سے کامل محبت کرتا ہے، اور جو  کچھ امور میں مخالفت کرے تو اسکی محبت ناقص ہے،  اگرچہ وہ محبت کے دائرے میں ہے۔
" الشفا بتعريف حقوق المصطفى " ( 2 / 24 ، 25 )

ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں.



سوم:

اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں.



اب ہم رسول اللہ ﷺ کی تاریخ پیدائش پر غور و فکر کرتے ہیں، کیا اس بارے میں کوئی ثبوت ہے؟ پھر اس  کے بعد ہم دوسری جانب نبی ﷺ کی وفات کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا آپکی وفات کا دن ثابت ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب باشعور اور منصف شخص یہی دے گا کہ: آپ ﷺ کی تاریخ ولادت ثابت نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر آپ ﷺ کی وفات کا دن ثابت ہے۔
اور جب ہم کتب سیرتِ نبویہ  میں غور کریں تو ہمیں  سیرت نگار آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش  درج ذیل مختلف  اقوال  بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں:

1- بروز سوموار، 2 ربیع الاول

2- آٹھ ربیع الاول

3- 10 ربیع الاول

4- 12 ربیع الاول

5- جبکہ زبیر بن بکار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپکی پیدائش رمضان  المبارک میں ہوئی۔

  اگر آپ ﷺ کی پیدائش کے دن  پر کوئی حکم مرتب ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ضرور پوچھتے،  یا کم از کم آپ ﷺ خود ہی انہیں بتلا دیتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں  ہوا۔

جبکہ آپ ﷺ کی وفات کے بارے میں دیکھیں تو  سب اس بات پر متفق ہیں کہ 11 سن ہجری  کی ابتدا میں  12 ربیع الاول کو آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔

اب ذرا غور کریں کہ بدعتی لوگ کس دن جشن مناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ  یہ لوگ آپ ﷺ کی وفات کے دن جشن مناتے ہیں، آپکی پیدائش کے دن نہیں! خاندانِ عبیدی - جنہوں نے اپنا نسب نامہ تبدیل کر کے اپنے آپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہوئے"فاطمی" کہلوایا-  جو کہ فرقہِ باطنیہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے  اس بدعت  کا آغاز کیا ، اور بدعتی لوگوں نے بھی بڑی آسانی سے اسے قبول کر لیا، حالانکہ عبیدی لوگ زندیق ، ملحد تھے، ان کا مقصد نبی ﷺ کی وفات کے دن جشن منانا تھا، اور اس کیلئے انہوں نے عید میلاد کا ڈھونگ رچایا، اور اسی لیے تقریبات منعقد کیں،  دراصل ان لوگوں کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پر خوشی مناناتھا، جسے انہوں نے سادہ مسلمانوں کو چکما دے  کر پور اکیا کہ جو بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرےگا  وہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محب ہو گا!، چنانچہ اس انداز سے وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب ہوگئے، اور ساتھ میں انہیں یہ بھی کامیابی ملی کہ "محبت" کا معنی ہی تبدیل کر کے رکھ دیں، اور "نبی سے محبت" کو صرف  عید میلاد پر مخصوص قصیدے پڑھنے، کھانے کی سبیلیں لگانے، مٹھائیوں کی تقسیم، ناچ گانے کی محفلوں کا انعقاد، مرد و زن کا مخلوط ماحول، آلات موسیقی، بے پردگی، اور بے ہودگی میں محصور کر  دیں، مزید برآں بدعتی وسیلے ، اور ان مجالس میں کہے جانے والے شرکیہ کلمات  وغیرہ کا رواج  اس کے علاوہ  ہیں۔

واللہ اعلم .







 

 

جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منع آخر کیوں؟

 


لفظی اعتبار سے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید؛ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔ [المنجد: ۶۹۰، معجم الوسیط:۶۳۵] ”عید“ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔[قاموس الفقہ:۴/۴۱۹]

ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح تاریخ:

تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛ البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں ۲/ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دی گئی۔

یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:

یومِ ولادت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے :

اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں: (۱)عید الفطر اور (۲) عید الاضحی۔یہ ارشاد اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔[ابوداود: ۱۳۳۴، نسائی: ۱۵۵۷] اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ابتداء:

فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں:

یہ مروجہ مجلسِ میلاد قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے،نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتہدین؛امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سے ،نہ محدثین ؛امام بخاری،امام مسلم،امام ابو داود،امام ترمذی،امام نسائی اور امام ا بن ماجہ وغیرہ سے اورنہ اولیاءِ کاملین؛ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور شیخ عارف شہاب الدین سہروردی وغیرہ سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں موجود ہے۔

اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ ۷۳۷ھ میں اس کی تصنیف سے فراغت حاصل ہوئی،پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔

[فتاوی محمودیہ جدید:۳/۲۱۴-۲۱۳بتغیر]

بریلوی عالم کا اعتراف:

بریلوی حضرات کے ایک عالم قاضی فضل احمد صاحب لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ خیر و برکت و نعمت ۶۰۴ھ سے جاری ہے“۔

[مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً]

عیدِ میلاد کا حکم:

اس سے بعض لوگ اس غلط بات کی طرف چلے جاتے ہیں، گویا کہ ہم ذکر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخر عالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔[البراہین القاطعةعلی ظلام انوار الساطعة:۱۴] لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔

[فتاویٰ محمودیہ:۳/۱۸۱جدید محقق]

بالفاظِ دیگر میلاد ِ مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔

{عزیز الفتاویٰ:۱۲۲،زکریا بکڈپو ، دیوبند]

یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہٴ کرام  اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔

 ارشادِ ربّانی ہے:﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔[سورة المائدة:۳] آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔

نیز ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔

[بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۶۷۱۸]

ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

[ابو داود: ۴۶۰۷، ترمذی: ۲۶۷۸، ابن ماجہ:۴۲]

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔

[جواہر الفقہ:۴/۹۱،امداد المفتیین:۱۶۳]

محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟

[الفضائل والاحکام :۱۱۱،امداد الفتاویٰ:۱/۱۸۷]

اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔

[امداد الفتاویٰ:۵/۲۴۹ ، و نظام الفتاویٰ ، حصہ دوم : ۱/۱۶۵، اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس ، دیوبند]

غرض یہ کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔

[جامع الفتاویٰ:۲/۵۵۲ ، ربانی بک ڈپو ، دہلی ، فتاوی عثمانی:۱/۱۱۹، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند]

المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔

[عزیزالفتاویٰ:۱۴۲ بتغیر]

اہل ِ حدیث ‘ علماء کا موقف:

جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب فرماتے ہیں:

ہےئت ِمروجہ کے ساتھ مجلس ِ میلاد کا انعقاد ازروئے کتاب و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی  سے،نہ کسی تابعی  سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔

[فتاویٰ ستاریہ:۱/۶۴]

جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں:

ہم مجلسِ میلاد کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کر تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔

[فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۱۱۹]

مفتیِ اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ:

شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن بازفرماتے ہیں:

مسلمانو کے لیے ۱۲/ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہٴ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔

[مقالات وفتاویٰ:۴۰۶ اردو]

اللّٰہم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

$ $ $



******************


جشن میلاد اور کرسمس ڈے فرق کیا ہے ؟؟؟
عیسائی قومیں ہر سال 25دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چناں چہ ابتدا میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن وتقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیرزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:

”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“

اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“

انہوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Chirstmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“

مقالہ نگار آگے رقم طراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“

اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“
(انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، 642۔اے ج 5، مطبوعہ1950ء مقالہ “کرسمس“)









ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخیں

رسالت مآب، سید البشر رحمة للّعالمین ﷺ کی ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخ کے تعین میں اختلاف ہے، اس سلسلے میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔ دن مہینہ اور تاریخ ۔ دن اور مہینہ میں سب موٴرخین کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ (پیر ) اور مہینہ ربیع الاول کا ہے، بعض مرجوح اقوال ربیع الاول کے علاوہ کے بھی ہیں، لیکن جمہور کے مقابلے میں قابل التفا ت نہیں؛ البتہ تاریخ میں اختلاف ایک معر کة الآرا موضوع ہے؛ معتبرقول کیاہے؟ اس کو جاننے کے لیے ائمہ کی تاریخی شہادتوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت تھی، جس کومعتبرعلماء، محققین نے کرکے بتادیاہے ۔ولادت باسعادت

ولادت باسعادت کے بارے میں بعض مرجوح اقوال ہیں، جنہیں الامام الحافظ الموٴرخ ابو الفداء اسماعیل بن کثیر نے تاریخ کی مشہور کتاب ”البدایة والنھایة“ میں ذکر کیا ہے۔چناں چہ پہلی روایت وہ ہے جسے ابن عبدالبر نے زبیر بن بکاء سے نقل کیا ہے، اس کو حافظ صاحب صریح طور پر مرجوح لکھتے ہیں۔

اَ نہ وُلد فی رمضان، نقلہ ابن عبدالبر عن الزبیر بن بکار، ھوقول غریب جداً․

آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان میں پیدا ہوئے، اس کو ابن عبد البر نے زبیر بن بکار سے نقل کیا ہے، یہ بہت غریب قول ہے۔

اسی طرح زبیر بن بکار ایک اور روایت نقل کرتے ہیں، جس میں مکان ولادت کی بھی تعیین ہے۔

قال الزبیر بن بکار․․․․․․:وُلِد بمکة بالدار المعروفة بمحمد بن یوسف․․․․․․․لاثنتی عشرة خلت من شھر رمضان․

زبیر بن بکار کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم مکہ میں دارالمعروفہ میں رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔

مذکورہ روایت میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔اسی طرح ایک روایت ہے جس میں دن کاذکر ہے۔

ورواہ الحافظ ابن عساکر من طریق محمد بن عثمان․․․ولد یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من شھر رمضان․

حافظ ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے روایت ذکر کی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پیر کے دن رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔

ایک دوسری روایت کو ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے ببان کیا ہے ،اس میں رمضان کی بارہ تاریخ کو ظاہر کیا گیا ہے۔

واَبعد بل اَخطا من قال: ولد یوم الجمعة لسبع عشرة خلت من ربیع الاول․(البدایة والنھایة، 33/3، ط: دار ابن کثیر)

جس نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے روز اورسترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔اس نے غلط بات کہی ہے۔

مذکور ہ اقوال مرجوح ہیں ، اب جو اقوال راجح ہیں ان کو ذکر کیا جاتا ہے، اس میں مختلف اقوال ہیں۔


پہلا قول : دو تاریخ 

بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوئی، حافظ ابن عبد البر  نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور الاستیعاب فی معرفة الاصحاب میں اس کو ذکر کیا ہے۔ چناں چہ حافظ اسماعیل بن کثیر نے البدایہ والنھایة میں اس کو ذکر کیا ہے۔

فقیل: للیلتین خلتا منہ․ قالہ ابن عبد البر فی الاستیعاب ورواہ الواقدی عن ابی معشر نجیح بن عبدالرحمن المدنی․

ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی۔ اس کو حافظ ابن عبدالبرنے استیعاب میں ذکر کیا ہے اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی سے اس کو روایت کیا ہے ۔
دوسرا قول : آٹھ ربیع الاول

آپ صلی الله علیہ وسلم آٹھ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے، چناں چہ علامہ حافظ ابن کثیر  نے ” البدایہ والنھایہ “ میں اس قول کے متعلق روایت نقل کی ہے:

و قیل : لثمان خلون منہ حکاہ الحمیدی عن ابن حزم۔ ورواہ مالک، وعقیل، و یونس بن یزید، وغیرھم ․․․․․، ونقل ابن عبد البر عن اَ صحاب التاریخ اَنھم صححوہ․ (البدایہ والنھایہ ،33/3 )

․ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت آٹھ ربیع الاول کو ہوئی، اسی کو حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے اور امام مالک، عقیل اور یونس بن یزید نے بھی اسی کو روایت کیا ہے۔ اور ابن عبدا لبر نے اصحاب تاریخ سے نقل کیا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔

اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو شیخ الحدیث حضرت مولانا ادریس کاندھلوی صاحب ترجیح دیتے ہیں۔ چناں چہ انہوں اپنی عظیم تصنیف میں تحریر فرمایا ہے۔

” سر ور دو عالم، سید ولد آدم، محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم و شرف و کرم واقعہ فیل کے پچاس یا پچپن روز کے بعد بتاریخ 8 ربیع الاول یوم دو شنبہ مطابق ماہ اپریل 570 عیسوی مکہ مکرمہ میں صبح صادق کے وقت ابو طالب کے مکان میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور موٴرخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، عبدالله بن عباس اور جبیر بن مطعم  سے بھی یہی منقول ہے اور اسی قول کو علامہ قطب الدین قسطلانی نے اختیار کیا ہے۔ “ (سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم، 65/1 ،ادریس کاندھلوی )

اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو مولوی احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اختیار کیا ہے اور دوسرے اقوال کو مرجوح قرار دیا ہے اور فتاوی رضویہ صفحہ نمبر 412اور جلد نمبر 26 میں اس کو ذکر کیا ہے۔

یہاں پر ایک بات افسوس سے لکھنی پڑرہی ہے کہ جو حضرات مولوی احمد رضا خان صاحب کے مسلک کے ہیں وہ کھینچ تان کر ولادت 12 ربیع الاول کو ثابت کرتے ہیں اور اپنے امام کا قول ذکر ہی نہیں کرتے، گویا کہ ان کے یہاں یہ قول مردود ہے۔

تیسرا قول : نو ربیع الاول

بعض علماء نے نو ربیع الاول کے قول کو اختیار فرمایا، چناں چہ خلافت اسلامیہ کے آخری شیخ الاسلام کے نائب، عالم اسلام کے عظیم محقق، امام، محمد زاہد بن الحسن الکوثری  المتوفی 1371 ہجری نے نو ربیع الاول والے قول کو اختیار فرمایا ہے اور اپنے ایک مقالے” المولد الشریف النبوی“ جو مقالات کو ثری کے مجموعہ میں شامل ہے، میں تحریر فرماتے ہیں․

ولادتہ علیہ الاسلام عند انقضاء ثمانیة اَیام من الشھر․ فیکون ھذا ھو الراجح روایة بل المتعین درایة، لاَن الیوم التاسع عند انقضاء تلک الایام الثمانیة․ مقالات الکوثری، ۴۰۶ ، دار الشہبی للنشر․

․․ترجمہ :۔ آپ علیہ السلام کی ولادت ربیع الاول کے آٹھ دن گزرنے کے بعد ہوئی ․․․․یہی روایت راجح ہے بلکہد رایةً بھی یہی متعین ہے۔

نو ربیع الاول کا قول مصرکے مشہور ریاضی دان محمود پاشا الفلکی کا اختیار کردہ ہے، اسی کو علامہ زاہد الکوثری نے اختیار کیا ہے، چناں چہ آگے ذکر فرماتے ہیں۔

ھو الذی تعین لمولدہ صلی الله علیہوسلم بعد اِجراء تحقیق ریاضی لا یتخلف بمعرفة الریاضی المشہور العلامة محمود باشا الفلکی المصری رحمہ الله فی رسالة لہ باللغة الغربیة فی تقو یم العرب قبل الاسلام․ (مقالات الکوثری ․ 406)

اسی طرح نو ربیع الاول کے قول کو مشہورسیرت نگار علامہ شبلی نعمانی  اختیار فرماتے ہیں ، چناں چہ اپنی گرانقدر سیرت کی کتاب سیرة النبی صلی الله علیہ وسلم میں رقمطراز ہیں۔

”تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہےئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت 9ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 20اِپریل 571 ھ میں ہوئی تھی “
چوتھا قول 

ایک روایت دس ربیع الاول کی بھی ہے، دس ربیع الاول کی روایت کو ابن دحیہ اپنی کتاب میں نقل فرماتے ہیں اور اس کو علامہ ابن عساکر روایت کرتے ہیں جس کو علامہ ابن کثیر  نے البدایہ والنھایہ میں اور موٴرخ عزالدین ابی الحسن الشیبانی المعروف بابن اثیر المتوفی 630ھ نے تاریخ کی مشہور کتاب الکامل فی التاریخ میں ذکر کیا ہے یہ دونوں حضرات تحریر فرماتے ہیں۔

وقیل: لعشر خلون منہ۔ نقلہ ابن دحیہ فی کتابہ۔ ورواہ ابن عساکر۔ البدایہ والنھایہ،33/3 ط: دار ابن کثیر الکامل فی التاریخ299/2دارالمعر فة بیروت۔

ترجمہ:۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسی قول کو ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔
پانچواں قول : بارہ ربیع الاول

بارہ تاریخ کے قول کو علامہ ابن اسحاق  نے اختیار کیا ہے اور اس کو امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی مَصَنف میں روایت کیا ہے، اسی قول کو علامہ ابن کثیر  البدایة والنھایة میں ذکر کرتے ہیں چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

”اور کہاجاتا ہے کہ بارہ تاریخ۔ اسی پر ابن اسحاق کا قو ل ہے اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں حضرت جابر و ابن عباس سے روایت ذکر کی ہے ،وہ دونوں فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔“

اسی طرح اس روایت کو علامہ ابن ہشام  نقل فرماتے ہیں :قال ابن اسحاق: ولد رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین، لاثنتین عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول، عام الفیل․(السیرة النبویة لابن ہشام 158/1 ملتزم الطبع والنشر )

اسی روایت کو ابن اسحاق کے طریق سے علامہ ابن اثیر  نقل فرماتے ہیں۔ متاخرین علماء میں سے صرف مفتی اعظم پاکستان مولانا شفیع صاحب  اس قول کو اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

” مشہور قول بارہویں تاریخ کا ہے، یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا ہے اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے ۔“

یہاں پانچوں اقوال کو ذکر کر دیا گیا ہے، ان میں راجح قول نویں تاریخ کا ہے، متعدد وجوہات کی وجہ سے ، پہلے قول کو کم استعمال کیا گیا ہے اور متاخرین نے بھی اس کو ذکر نہیں کیا، بارہ تاریخ کی ایک ہی روایت ہے جسے سب نے ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ مشہور ہو گیا، جب کہ ان کے مقابلے میں نو تاریخ کے قول کو اکثر نے اختیار کیا ہے، نو تاریخ کے قول کو آٹھ اور دس تاریخ کے اقوال سے قریب ہونے کی وجہ سے تقویت ملتی ہے، لہٰذا نو تاریخ کا قول قوی ثابت ہوا، نو تاریخ کے قول کے بارے میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت الله دہلوی  فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔

” حضور سرور عالم صلی الله علہ وسلم کی تاریخ ولادت میں پہلے سے موّرخین و اہل سیر کا اختلاف ہے، دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تو متفق علیہ ہے، مگر تاریخ کی تعین میں متعدد اقوال ہیں۔ کسی نے دوسری ، کسی نے تیسری، کسی نے آٹھویں ، کسی نے نویں، کسی نے بارہویں تاریخ بتائی ہے۔ از روئے حساب جو جانچا گیا تو 9تاریخ والا قول زیادہ قوی ثابت ہوا۔“(کفایت المفتی،147/1 ، دار الاشاعت )
تاریخ وصال پر ملال

تاریخ ولادت باسعادت کی طرح تاریخ وصال میں بھی اختلاف ہے، دن اور مہینہ تو سب کے یہاں متفق علیہ ہے کہ پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں وصال ہوا، لیکن بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں مہینہ کا اختلاف ظاہر کیا گیا ہے،لیکن یہ روایات شاذ ہیں، البتہ جن روایات میں تاریخ کا اختلاف ہے وہ بڑی معرکة الآراہیں، تاریخ کی روشنی میں ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے، تعین تاریخ میں چار اقوال ہیں۔
پہلا قول : یکم ربیع الاول

اس قول کی روایت کو یعقوب بن سفیان نقل کرتے ہیں اور علامہ ابن کثیر  نے البدایة والنھایہ میں بھی اس کو ذکر کیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

وقال یعقوب بن سفیان…توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاِثنین للیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 359/5 ط : دار ابن کثیر)

ترجمہ:۔ بعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یکم ربیع الاول پیر کے روز وفات پائی۔

آگے جا کر علامہ ابن کثیر  یکم ربیع الاول کا ایک اور قول نقل کرتے ہیں لیکن وہ ابو نعیم الفضل بن دکین کا اختیار کردہ ہے، چناں چہ ابن کثیر  تحریر فرماتے ہیں۔

وقال ابو نعیم الفضل بن دکین: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین مستھل ربیع الاول․(ایضاً)

ترجمہ :۔ ابو نعیم فضل بن دکین فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز یکم ربیع الاول کوو فات پائی۔
دوسرا قول : دو ربیع الاول

بعض روایات میں آ تا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوا ، اس روایت کو علامہ و اقدی کے حوالے سے ابن کثیر  نے کچھ یوں ذکر کیا ہے۔

وقال الوا قدی․․․․․․․․:توفی یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․(البدایہ والنھایہ ، 359/5)

ترجمہ :۔ واقدی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز دو ربیع الاول کو وفات پائی۔

اسی طرح اس قول کی ایک روایت امام المحد ثین ابی بکر احمد بن الحسین بن علی بیہقی سے منقول ہے، جسے البدایہ والنھایہ میں اس طرح سے ذکر کیا گیا۔

وقال البیہقی․․․․․․․:کانت وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین للیلتین خلتا من شھر ربیع الاول․

ترجمہ:۔ بیہقی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات پیر کے روز دو ربیع الاول کو واقع ہوئی۔

اسی قول کو سعد بن ابراہیم الزھری ابن عساکر اور واقدی سے نقل کرتے ہیں۔

توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ، 360/5)

ترجمہ:۔ دو ربیع الاول کو آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا۔
تیسرا قول : دس ربیع الاول 

اس قول کی روایت کو یوسف بن عمر عبدالله بن عباس  سے نقل کرتے ہیں۔ وروی یوسف بن عمر․․․․․مات یوم الاثنین لعشر خلون من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 360/5)

ترجمہ :۔ یوسف بن عمر سے روایت ہے کہ پیر روز دس ربیع الاول کو آپ کا وصال ہوا۔

اس قول کے متعلق یہی روایت ملی ہے۔
چوتھا قول : بارہ ربیع الاول

اکثرعلماء اسی قول کو نقل کرتے ہیں، چناں چہ اس قول کی ایک روایت علامہ و اقدی حضرت ابن عباس  اور حضرت عائشہ  سے نقل فرماتے ہیں

ورواہ الوقدی عن ابن عباس وعائشہ رضی الله عنہا اثنتی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ،361/5)

ترجمہ :۔ واقدی بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس  اور حضرت عائشہ  سے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوا۔ ایک اور روایت کو علامہ واقدی  محمد بن سعد کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں ،جسے البدایہ والنھایہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

بارہ تاریخ کے قول کو محمد بن اسحاق  نے بھی اختیار فرمایا ہے، چناں چہ ان کے قول کو ابن کثیر  کچھ اس طرح سے ذکر فرماتے ہیں۔

وقال محمد بن اسحاق: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم لأثنتی عشر لیلة خلت من شھر ربیع الاول․ (البدایة والنھایة، 359/5)

ترجمہ :۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاول کو وفات پائی۔

اسی طرح اسی قول کو حافظ ابن اثیر  اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ کچھ اس طرح سے ” الکامل فی التاریخ میں رقم طراز ہیں۔

وکان موتہ فی یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (الکامل فی التاریخ ، 299/2،دار المعر فة بیروت)

اسی طرح بارہ تاریخ کے قول کو متاخرین علماء بھی اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ مشہورسیرت نگار شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی ،، سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم میں فرماتے ہیں

”یہ جاں گداز اور روح فرسا واقعہ جس نے دنیا کو نبوت ورسالت کے فیوض و برکات اور وحی ربانی کے انو ار و تجلیات سے محروم کر دیا، بروز دو شنبہ دو پہر کے وقت 12، ربیع الاول کو پیش آیا“

بارہ تاریخ کے قول پر علامہ ابو القاسم السھیلی  کو اعتراض ہوتا ہے کہ از روئے حساب اگر دیکھا جائے تو بارہ تاریخ پیر کے دن نہیں پڑتی، چناں چہ اسی بات کو البدایہ والنھایة میں اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے ۔

قال ابو القاسم السھیلی فی ”الروض“ ما مضمونہ: لا یتصور وقوع وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول من سنة احدی عشر، وذلک لانہ علیہ الصلاة والسلام وقف فی حجّة الوداع سنة عشر یوم الجمعة، فکان اول ذی الحجة یوم الخمیس، فعلی تقدیر ان تحسب الشھور تامة او ناقصة او بعضھاتامة وبعضھا ناقصة، لا یتصور ان یکون یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول ․(البدایة والنھایہ، 361/5)

لیکن اس اشکال کو علامہ ابن کثیر  نے اختلاف مطالع کی وجہ سے رد کر دیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

ان یکون اھل مکة راوا ھلال ذی الحجة لیلة الخمیس، واما اھل المدینة فلم یروہ الا لیلة الجمعة، ویوید ھذا قول عائشة وغیرھا، خرج رسول الله صلی الله علیہ وسلم لخمس بقین من ذی القعدة․ یعنی من المدینة․ الی حجة الوداع و یتعین بما ذکرناہ انہ خرج یوم السبت، ولیس کما زعم ابن حزم انہ خرج یوم الخمیس، لانہ قد بقی اکثر من خمس بلاشک، ولا جائز ان یکون خرج یوم الجمعة؛ لان انساً قال: صلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم الظہر بالمدینة اربعاً، والعصر بذی الحلیفة رکعتین، فتعین انہ خرج یوم السبت لخمس بقین، فعلی ھذا انما رای اھل المدینة ھلال ذی الحجة لیلة الجمعة، واذا کان اول ذی الحجة عند اھل المدینة الجمعة، وحسبت الشھور بعدہ کو امل، یکون اول ربیع الاول یوم الخمیس، فیکون ثانی عشرة یوم الاثنین․(البدایہ والنھایہ، 361/5)

لہٰذا معلوم ہوا کہ بارہ تاریخ وفات کی متعین ہے، اس تاریخ کی روایات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور ان کو روایت کرنے والے کبار علماء ہیں، اسی وجہ سے اسی کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ( والله اعلم )



جشنِ عید میلاد النبی ﷺ منع آخر کیوں؟


لفظی اعتبارسے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید؛ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔ (المنجد: ۶۹۰، معجم الوسیط:۶۳۵) ”عید“ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔(قاموس الفقہ:۴/۴۱۹)
ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح تاریخ
تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں ۲/ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دی گئی۔
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
یومِ ولادت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمةللعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے :
اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں: (۱)عید الفطر اور (۲) عید الاضحی۔یہ ارشاد اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔(ابوداود: ۱۳۳۴، نسائی: ۱۵۵۷) اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ابتداء
فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں:
یہ مروجہ مجلسِ میلاد قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے،نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتہدین؛امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سے ،نہ محدثین ؛امام بخاری،امام مسلم،امام ابو داود،امام ترمذی،امام نسائی اور امام ا بن ماجہ وغیرہ سے اورنہ اولیاءِ کاملین؛ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور شیخ عارف شہاب الدین سہروردی وغیرہ سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں موجود ہے۔
اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ ۷۳۷ھ میں اس کی تصنیف سے فراغت حاصل ہوئی،پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔(فتاوی محمودیہ جدید:۳/۲۱۴-۲۱۳بتغیر)
بریلوی عالم کا اعتراف
بریلوی حضرات کے ایک عالم قاضی فضل احمد صاحب لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ خیر و برکت و نعمت ۶۰۴ھ سے جاری ہے“۔(مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً)
عیدِ میلاد کا حکم
اس سے بعض لوگ اس غلط بات کی طرف چلے جاتے ہیں، گویا کہ ہم ذکر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخرعالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔(البراہین القاطعةعلی ظلام انوار الساطعة:۱۴)لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔(فتاویٰ محمودیہ:۳/۱۸۱جدید محقق)بالفاظِ دگرمیلاد ِ مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔(عزیز الفتاویٰ:۱۲۲،زکریا بکڈپو ، دیوبند)
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہٴ کرام  اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔
 ارشادِ ربّانی ہے:﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔(سورة المائدة:۳)آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔
نیز ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔(بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۶۷۱۸)
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابو داود: ۴۶۰۷، ترمذی: ۲۶۷۸، ابن ماجہ:۴۲)
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔(جواہر الفقہ:۴/۹۱،امداد المفتیین:۱۶۳)
محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟(الفضائل والاحکام :۱۱۱،امداد الفتاویٰ:۱/۱۸۷)
اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔(امداد الفتاویٰ:۵/۲۴۹ ، و نظام الفتاویٰ ، حصہ دوم : ۱/۱۶۵، اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس ، دیوبند)
غرض یہ کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔(جامع الفتاویٰ:۲/۵۵۲ ، ربانی بک ڈپو ، دہلی ، فتاوی عثمانی:۱/۱۱۹، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔(عزیزالفتاویٰ:۱۴۲ بتغیر)
’ اہل ِ حدیث ‘ علماء کا موقف
جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب فرماتے ہیں:
ہےئت ِمروجہ کے ساتھ مجلس ِ میلاد کا انعقاد ازروئے کتاب و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی سے،نہ کسی تابعی  سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔(فتاویٰ ستاریہ:۱/۶۴)
جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں:
ہم مجلسِ میلاد کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کر تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔(فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۱۱۹)
مفتیِ اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ
شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن بازفرماتے ہیں:
مسلمانو کے لیے ۱۲/ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہٴ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔(مقالات وفتاویٰ:۴۰۶اردو)
اللّٰہم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ
$ $ $





ولادتِ مبارکہ ۹یا ۱۲ – تاریخی و شرعی حیثیت



پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ موسمِ بہار، واقعہٴ عام الفیل کے ۵۵ روز بعد آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے مطابق ۲۲/اپریل ۵۷۱ء مطابق یکم جیٹھ ۲۲۸ بکرمی یا ۹/یا ۱۲/ربیع الاوّل کو دوشنبے کے دن، صبح صادق کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے عرب کے مشہور ترین اور مقدس ترین شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔
          تاریخِ ولادت باسعادت میں موٴرخین نے بہت کچھ اختلافات کیے ہیں، مثلاً ابوالفداء نے ۱۰/ربیع الاوّل لکھی ہے، بعض نے ۸/ربیع الاوّل، طبری اور ابن خلدون نے ۱۲/ربیع الاوّل لکھی ہے اور مشہور یہی روایت ہے؛ مگر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ولادتِ شریفہ دوشنبے کے دن ہوئی اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ کے دن ۹/ربیع الاوّل کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا؛ اس لیے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ۹/ربیع الاول ہی میں ولادت مبارکہ ہوئی؛ چنانچہ فلکیات کے مشہور مصری عالم اور محقق محمود پاشا کی تحقیق بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ شریفہ دوشنبہ کے دن، ۹/ربیع الاوّل کو واقعہٴ فیل کے پہلے سال ہوئی، اسی طرح ”تاریخ دول العرب والاسلام“ میں محمد طلعت عربی نے ۹/تاریخ ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔ (رحمة للعالمین: قاضی سلیمان منصورپوری، نبیِ رحمت: مولانا علی میاں ندوی)
          تاریخِ ولادت باسعادت میں ایک طرف تو یہ اختلافات ہیں، پھر یہ کہ راجح اور اصح ۹/ربیع الاوّل ہے اور دوسری طرف تاریخِ وفات کو ملاحظہ فرمایے؛ چنانچہ ”رحمة للعالمین“ میں قاضی سلیمان منصور پوری نے لکھا ہے کہ ۱۲/ربیع الاوّل ۱۲ھء یوم دو شنبہ، بوقتِ چاشت جسمِ اطہر سے روحِ انور نے پرواز کیا، امام اسیر ابن اسحاق اور جمہور کا قول بھی یہی ہے، ابن سعد، عمر بن علی ابن ابی طالب اور وہ اپنے باپ حضرت علی سے نقل کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲/ربیع الاوّل کو انتقال کیا (اصح السیر)۔
          اس اختلاف کے تناظر میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ۹/ربیع الاوّل کو ہوئی ہے اور وصال ۱۲/ربیع الاوّل ۱۱ھ بروز دو شنبے کو ہوا (لہٰذا جو لوگ اس بات پر مُصِر ہیں کہ نہیں ولادت شریفہ تو ۱۲/ ہی میں ہوئی، ۸ یا ۹/میں نہ ہوئی اور سانحہٴ ارتحال ایک یا دو ربیع الاوّل میں پیش آیا ہے نہ کہ ۱۲/ میں؛ اس لیے اگر ہم ۱۲/ ربیع الاوّل میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، جلسے جلوس کا اہتمام کرتے ہیں، مسجدوں، مزاروں، مکانوں، دوکانوں اور سڑکوں کو سجاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں) تو کیا غلط کرتے ہیں؟
          یہ ان کی تاریخ سے ناواقفیت کی کھلی دلیل ہے اور حقائق سے چشم پوشی کا بیّن ثبوت ہے؛ کیوں کہ جب یہ بات واضح طور پر معلوم ہوچکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا ۹/ربیع الاوّل کو ہونا زیادہ راجح اور زیادہ صحیح ہے اور وصال کا ۱۲/ربیع الاوّل میں ہونا اصح اور راجح ہے تو ۱۲/ربیع الاوّل میں یوم وفات ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب تو کیا جاسکتا ہے؛اس لیے کہ ایصالِ ثواب کے لیے کسی دن اور کسی وقت کو متعین کرنا بے اصل اور بے بنیاد ہے؛ مگر اس دن میں خوشیاں منانا، محفلیں آراستہ کرنا، بزم میلاد کرنا، جلسے جلوس کا اہتمام کرنا چہ معنی دارد؟
          جن موٴرخوں نے ۱۲/ربیع الاوّل کو یوم ولادت لکھا ہے، اگر ان کی بات تسلیم کربھی لی جائے، پھر بھی ۱۲/ربیع الاوّل میں خوشیاں نہیں منائی جاسکتیں، محفلیں منعقد نہیں کی جاسکتیں؛ اس کو خوشی کا دن نہیں شمار کیا جاسکتا؛ کیوں کہ اکثر محققین؛ بلکہ جمہور کی رائے بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی بارہ ربیع الاوّل ۱۱ ھ میں ہوئی اور یہی رائے زیادہ صحیح بھی ہے، جیساکہ ماقبل میں گزر چکا۔
          جب بارہ ربیع الاوّل ولادت، وصال دونوں کا سنگم ہے، بارہ ربیع الاوّل میں اسبابِ خوشی اور اسبابِ غم دونوں پائے جاتے ہیں، تو پھر یہ کہاں کی عقلمندی اور دانشمندی ہے کہ بارہ ربیع الاوّل میں صرف اسبابِ خوشی کو ذہن میں رکھ کر اور بارہ ربیع الاوّل کو صرف یوم ولادت مان کر جو کہ قطعی نہیں ہے، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کی جائے، جلوس نکالے جائیں اور وہ جلوس بھی ایسے جن میں ہزاروں طرح کے خرافات وبدعات پائی جاتی ہوں، جن میں سڑکوں کو جام کرکے راہ چلتے لوگوں کو پریشانی میں ڈالنا، امن وسکون کے ماحول کو غارت وبرباد کرنا اور اس کو پُرخطر ومخدوش بنانا، فضا کو مسموم کرنا وغیرہ وغیرہ ہوتا ہو۔
          اسی پر بس نہیں ؛ بلکہ ان جلوس میں تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اوباش اور لاخیرے قسم کے نوجوان لڑکے ہڑبونگ مچاتے رہتے ہیں، سڑک پر اُتر اُتر کرناچتے رہتے ہیں، ڈھول اور تاشے بجاتے رہتے ہیں، نماز کا وقت ہوجاتا ہے، مسجدوں میں نمازیں ہوتی ہیں؛ مگر یہ نام نہاد عاشقان رسول شور وغل میں نمازوں کو برباد کرتے ہیں؛ بلکہ نمازیوں کو پریشان کرکے ان کی نمازوں کو بھی خراب کرتے ہیں، مسجدوں کی بے حرمتی کرنے تک سے باز نہیں آتے؛ جبکہ ایذائے مسلم حرام، مسجدوں کی بے حرمتی حرام ہے۔
          یہ تو جلوس کے ہنگامے اور شور شرابے کی بات ہے، عرسوں میں مردوزن کے اختلاط کی وجہ سے بدکاریوں، برائیوں، تباہ کاریوں کا رونما ہونا، قبروں کی بے حرمتی کرنا، مزاروں پر چادر اور پھول چڑھانا، صاحب قبر کو داتا سمجھنا اور اس سے حاجت روائی کرنا، اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا، اس طرح کے دیگر اعمالِ شرکیہ اور خرافات وبدعات کا ہونا جو ہر عرس کے موقع پر اور ہر جگہ کے عرس میں دیکھنے کو ملتے ہیں یہ سب جلوس کے ہنگامے کے ما سوا ہے۔
          علاوہ ازیں اگر بارہ ربیع الاوّل کو جشن میلاد النبی منعقد کیے جانے کا سبب جلوس وغیرہ نکالے جانے کی وجہ اور بنیاد صرف یہ ہو کہ آفتاب رسالت اسی روز کی صبح کو طلوع ہوا تھا، تو یہ وجہ اور یہ سبب تو خود آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا، نبی کے زمانے میں بھی بارہ ربیع الاوّل آتا تھا؛ مگر آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاوّل کی آمد پر کبھی بھی عید میلاد النبی منعقد نہیں کی، نہ کبھی جلسے جلوس نکلوانے کا اہتمام فرمایا، کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ اس عید سے ناواقف تھے؟
          نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد صحابہٴ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت اس روئے زمین پر موجود تھی، جن میں خلفائے اربعہ: حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی تھے، جنھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلافت سے بھی نوازا تھا، اگر وہ چاہتے تو عالمی پیمانے پر نہیں تو کم از کم ملکی پیمانے پر تو ضرور عید میلاد النبی منعقد کرواتے، اگر کوئی اس عید سے سرموبھی انحراف کرتا تو اس کے ساتھ قتال کرتے، جیساکہ حضرت ابوبکر صدیق نے مانعینِ زکوٰة سے قتال فرمایا۔ خلفائے اربعہ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کرئہ ارضی پر ہزاروں صحابہ موجود تھے؛ مگر کسی صحابی نے بارہ ربیع الاوّل میں عید میلاد النبی کی مجلسیں منعقد نہ کیں، کیا نعوذ باللہ صحابہ کا فہم یہاں تک نہیں پہنچا تھا؟ کیا صحابہ سے زیادہ آج کے نام نہاد عاشقانِ رسول دین کو سمجھتے ہیں؟ کیا صحابہ سے بھی زیادہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ہوگئے؟ اسی طرح تابعینِ عظام کے دور میں بھی بارہ ربیع الاوّل کی آمد کی مناسبت سے عید میلاد النبی کے نام سے محفلیں نہیں سجائی جاتی تھیں؛ نہ ہی جلوس نکالے جاتے تھے اور نہ ہی تبع تابعین کے عہد میں عیدمیلاد النبی کا کہیں ثبوت ملتا ہے۔
          جب بارہ ربیع الاوّل کی یہ رسمیں عید میلاد النبی، جلوس، عرس، قبروں پر چادر چڑھانا، چراغاں روشن کرنا وغیرہ وغیرہ خیرالقرون: عہد نبوی، عہد صحابہ، عہد تابعین میں نہیں پائی جاتی تھیں باوجودے کہ خیرالقرون میں ان رسموں کا باعث موجود تھا، معلوم ہوا کہ بعد میں لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کی خاطر ان چیزوں کو دین میں داخل کرلیا ہے، شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ اس لیے یہ رسمیں از روئے شرع بدعت قرار پائیں گی، صورةً بھی اور حقیقتاً بھی۔
          اخیر میں قارئین کے مزید اضافے کے لیے بدعت کی پہچان، سنت وبدعات کے درمیان فرق، کونسی چیز صورةً وحقیقتاً بدعت ہے اور کونسی صرف صورةً، بارہ ربیع الاوّل میں عیدمیلاد النبی مذہبی خوشی ہے یا دنیوی؟ وغیرہ کے سلسلے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے خطبات میں جو بیان فرمایا ہے مختصراً یہاں پر نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ حضرت قدس سرہ بدعت کی پہچان کراتے ہوئے فرماتے ہیں: ”بدعت کی ایک پہچان بتلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو بات قرآن وحدیث، اجماع و قیاس چاروں میں سے کسی ایک سے ثابت نہ ہو اور اس کو دین سمجھ کر کیا جائے تو وہ بدعت ہے۔“
          خیرالقرون کے بعد ایجاد کی جانے والی چیزوں میں کونسی بدعت ہے اور کونسی سنت ؟ ان کو حضرت تھانوی ان الفاظ میں بیان فرمارہے ہیں:
          ”جتنی چیزیں خیرالقرون کے بعد وجود میں آئیں، ان میں سے کونسی بدعت ہے اور کونسی مندوب، مستحب اور شریعت سے ثابت ہے، کون سا طریقہ مقبول اور کونسا مردود؟ فلاں مروجہ طریقہ بدعت ہے یا نہیں؟ اس کو جاننے کے لیے یہ سمجھ لیجیے کہ خیرالقرون کے بعد جو چیزیں ایجاد کی گئیں ان کی دو قسمیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ ان کا سبب اور داعی بھی جدید ہے اور وہ کسی مامور بہ کی موقوف علیہ ہو کہ اس کے بغیر اس شرعی حکم پر عمل نہیں ہوسکتا، جیسے دینی کتابوں کی تصنیف، خانقاہوں اور مدرسوں کی تعمیر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان میں سے یعنی اس انداز کی کوئی چیز نہیں تھی اور ان کا سبب اور داعی بھی جدید ہے، نیز یہ چیزیں ایسی ہیں کہ شرعی حکم ان پر موقوف ہے اور دین کی حفاظت بھی ان پر موقوف ہے؛ یہ اعمال گو صورةً بدعت ہیں؛ مگر حقیقتاً بدعت نہیں؛ بلکہ اس قاعدہ ”مقدمة الواجب واجب“ سے واجب ہے۔
          دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جن کا سبب قدیم ہے، یعنی خیرالقرون میں وہ سب موجود تھا مثلاً مروجہ میلاد کی مجلسیں، تیجہ، دسواں، چہلم وغیرہ بدعات کہ ان کا سبب قدیم ہے، مثلاً مجلس میلاد منعقد کرنے کا سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ پر خوشی ہے اور یہ سبب حضور اکرم کے زمانے میں بھی موجود تھا؛ لیکن حضور نے یا صحابہ نے مجلسیں منعقد نہیں کیں، اگر اس کا سبب اس وقت نہ ہوتا تو البتہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ان کا منشاء موجود نہ تھا؛ لیکن جب اس کا باعث اور اس کی بنیاد موجود تھی، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میلاد کی مجلس منعقد کی، نہ صحابہ نے، ایسی شے کا حکم یہ ہے کہ وہ صورةً بھی بدعت ہے اور معنیً بھی۔“
          اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خیرالقرون کے بعد ایجاد کی جانے والی وہ چیزیں جن کا سبب جدید ہو یعنی خیرالقرون میں اس کی ضرورت کے دواعی اور اسباب نہیں پائے گئے؛ مگر کوئی مامور بہ اور شرعی حکم اس پر موقوف ہو اس طور پر کہ اس کے بغیر اس شرعی حکم پر عمل کیا جانا ممکن نہ ہو تو ایسی چیزیں صورةً تو بدعت ہیں جس کو بدعت حسنہ سے بھی تعبیر کیا جاتاہے؛ مگر معنیً اور حقیقتاً بدعت نہیں ہیں، یعنی اس کو بدعت سیئہ نہیں کہا جائے گا؛ البتہ بعد میں ایجاد کی جانے والی وہ چیزیں جن کے دواعی واسباب خیرالقرون میں پائے جاتے تھے؛ مگر پھر بھی وہ چیزیں خیرالقرون میں وجود میں نہیں آئیں اور خیرالقرون کے بعد ان چیزوں کو دین سمجھ کر کیا جارہا ہے تو ایسی چیزیں صورةً اور معنی ً وحقیقتاً دونوں طرح بدعت کہی جائیں گی۔
          حضرت تھانوی ان دونوں قسموں کے درمیان عجیب وغریب فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”پہلی قسم کی تجویز کرنے والے خواص یعنی علماء ہوتے ہیں اور اس میں عوام تصرف نہیں کرتے اور دوسری قسم کی تجویز کرنے والے عوام ہوتے ہیں اور وہی ہمیشہ اس میں تصرف کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ میلاد شریف کی مجلس کو ایک بادشاہ نے ایجاد کیا ہے اس کا شمار بھی عوام ہی میں سے ہے اور عوام ہی اب تک اس میں تصرف کررہے ہیں۔“
          اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر نبی علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں عیدمیلاد النبی کا انعقاد کیا جانا دراصل ایک بادشاہ کا ایجاد کردہ ہے شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ شرع میں اس کی کوئی اصل اور بنیاد ہے۔ شرعاً اس کی اصل اور بنیاد کیوں کر ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ میں صرف دو عیدوں کی اصل ملتی ہے؛ ایک عید الفطر، دوسری عید الاضحی، چنانچہ آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایحا: ”قَدْ أَبْدَلَکُمُ اللّٰہُ بِہَا خَیْرًا مِنْہَا یَوْمَ الأَضْحٰی وَیَوْمَ الْفِطْرِ․․․․ رواہ ابوداوٴد“ ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بدلے میں تمھیں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں، عیدقرباں کا اور عید فطر کا (ابوداؤد) اب اگر شریعت اسلامیہ میں کسی تیسری عید کا اضافہ کرکے اس کو بھی منایاجائے اور اس کو دین وشریعت ہی کی عید سمجھی جائے اور اس تیسری عید کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ بھی عید الفطر اور عید الاضحی کی طرح ایک عید ہے، جس کو بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اچھا خاصا معارضہ ہوجائے گا اور شریعت محمدیہ میں تبدیلی کرنا لازم آئے گا، جس کے ناجائز ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟
          بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر عید میلاد النبی کے غیرشرعی ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ شرعاً عید ہوتی تو مذہبی عید ہوتی اور مدہبی خوشی ہوتی نہ کہ دنیوی، اور مذہبی عید کے ثبوت کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، جیساکہ عید الفطر، اور عید الاضحی کے لیے اور اس طرح کی کوئی وحی ہے نہیں، جس سے بارہ ربیع الاوّل کی عید میلاد النبی ثابت ہو، اگر اس طرح کی کوئی وحی ہوتی جس سے اس عید مُحْدَث کا ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے خود صاحبِ وحی آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار ربیع الاوّل کے موقع پر جشن میلاد منعقد کرتے، پھر صحابہ بھی مناتے، ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین؛ آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر مناتی، جس طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کو خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منایا، صحابہ نے اور تابعین، تبع تابعین نے منایا اور آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر منارہی ہے اور قیامت تک منائے گی، انشاء اللہ۔
          رہی یہ بات کہ عید میلاد النبی مذہبی خوشی اور مذہبی عید ہے نہ کہ دنیوی، تو وہ کیسے؟ اس کو حضرت حکیم الامت نے اس طرح سمجھایا ہے:
          ”یہ تو سب کو معلوم ہے کہ دنیا کا اطلاق اس خطہٴ ززین پر یا زیادہ سے زیادہ چند فرسخ اوپر ہَوَا پر ہوتا ہے، پس اگر کوئی دنیوی خوشی ہوگی تو اس کا اثراس خطہٴ زمین تک محدود رہے گا، اس کے آگے نہ بڑھے گا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن نہ صرف زمین کی موجودات؛ بلکہ ملائکہ، عرش، کرسی اور باشندگانِ عالم بالا سب کے سب مسرور وشادمان تھے․․․․․ اور وجہ اس کی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور؛ چوں کہ تمام عالم کے بقا کا سبب تھا؛ اس لیے تمام عالم میں یہ خوشی ہوتی اور جب اس کا اثر دنیا سے آگے بڑھ گیا تو اس خوشی کو دنیوی خوشی نہیں کہہ سکتے؛ بلکہ یہ مذہبی خوشی ہوگی۔“
          اللہ تعالیٰ پوری امتِ مسلمہ کو اس طرح کے شرک وبدعات سے محفوظ رکھے اور صحیح بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔
***


میلا دالنبی ﷺ اور موسیقی
عید میلاد النبی یا جشن میلا دالنبی کے نام سے منعقد ہو نے والے پرو گراموں میں لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے ساز،باجے اور موسیقی کے ناپاک اور شیطانی عمل کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے ،فحش گانوں کے لہجہ اور انداز میں نعت خوانی کے ساتھ قوالی وغیرہ کے عنوان سے موسیقی کے آلات بھی استعمال ہو ناشروع ہو گئے ہیں، ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آقا ئے نام دار، حضور صلی الله علیہ وسلم تو گانا اور موسیقی سے سختی کے ساتھ منع فرمائیں اور خود نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نام پر منعقد ہو نے والی مجلسوں میں موسیقی کو جگہ دے کر آپ کے حکم کی کھلی مخالفت کی جائے ،بلکہ موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا جائے۔( نعوذ بالله تعالیٰ )

الله تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَ ہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾ ( لقمان:6)
” بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کے راستے سے گمراہ کریں اور اس کا مذاق بنائیں ، ایسے لوگوں کیلیے ذلت کا عذاب ہے۔“

اس آیت میں ” لہوالحدیث “ (کھیل کی باتوں ) سے مراد گانے بجانے کے آلات ہیں ، کئی صحابہ کرام  ، تابعین عظام اور مفسرین کرام سے اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔

اور حضرت عائشہ  سے مروی ہے: ” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:ان الله عز وجل حرم القینة وبیعھا وثمنھا وتعلیمھا والاستماع الیھا، ثم قرأ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾․

” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے گانے والی ( عورت اور آلات ) کو حرام کیا ہے ، اس کے بیچنے کو بھی اور اس کی قیمت کو بھی اور اسے گانا سکھانے کو بھی اور اس کا گانا سننے کو بھی ۔ پھر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ․“

پہلے زمانے میں گانا صرف انسان کی زبان سے ہو تا تھا اور آج گانے کو مختلف چیزوں ( مثلا کیسٹ ،سی ڈی ،موبائل وغیرہ تمام الیکٹرونک آلات ) میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے، جن چیزوں میں گانا ریکارڈ کر لیا جائے ، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں اور ان کی خریدوفروخت اور ان سے گانا سننا گناہ ہے ۔

اور حضرت عبدالله بن مسعود  سورہ لقمان کی مذکورہ آیت کے بارے میں فرماتے ہیں ” ہو والله،الغناء “ ( مستدرک حاکم :رقم الحدیث3542 )

” قسم الله کی وہ ( یعنی لہو الحدیث ) گانا ہے ۔“

اور حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد اور حضرت عکرمہ وغیرہ سے بھی مذکورہ آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔

احادیث مبارکہ:
حضرت عبدالرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمروالمعازف․ “( بخاری : رقم الحدیث 5590)

”یقینا میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا ، ریشم اور شراب اور آلات موسیقی کو ( خوش نما تعبیروں سے ، جیسے آرٹ کلچر ، ثقافت وغیرہ ) حلال کر لیں گے۔“

جو لوگ نعوذ بالله موسیقی کو روح کی غذا قرار دے رہے ہیں اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے نام پر اس کو کار خیر سمجھ کر اختیا ر کر ر ہے ہیں وہ بھی اس حدیث کی مذکورہ وعید میں داخل ہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا!

” یمسخ قوم من امتی فی آخر الزمان قردة وخنازیر، قیل یا رسول الله ویشھد ون ان لا الہ الا الله وانک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ویصومون؟ قال نعم، قیل: فما بالھم یا رسول الله،؟ قال یتخذ ون المعازف والقینات والدفوف ویشربون الاشربة، فباتوا علی شربھم ولھوھم، فاصبحوا قد مسخوا قردة وخنازیر․ “ ( حلیة الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی،رقم الحدیث 8)

”آخری زمانے میں میری امت کے کچھ لوگوں کو بندراور خنزیر کی شکل سے مسخ کردیا جائے گا ، کہا گیا کہ اے الله کے رسول ! وہ لوگ الله کی توحید اور آپ کے رسول ہو نے کی گواہی دیں گے اور روزے رکھیں گے ؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ جی ہا ں ۔ عرض کیاگیاکہ الله کے رسول ! ان کے کیا اعمال ہو ں گے ؟

رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گانے بجانے کے آلات اختیار کریں گے اور گانے والی ( عورتیں اور چیزیں ) رکھیں گے اور ڈھول اور دف رکھیں گے اور شرابیں پییں گے تو وہ شراب پی کر اور لہو ولعب کی حالت میں رات گزاریں گے ، پھر اس حال میں صبح کریں گے کہ ان کو بندر اور خنزیر کی شکلوں میں مسخ کردیا گیا ہو گا۔“

موسیقی کو جائز ،بلکہ ثواب سمجھنے والے نادان سوچ لیں کہ وہ کہیں الله کی پکڑ میں نہ آجائیں اور بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ نہ کردیے جائیں ۔

اس حدیث سے تمام آلات موسیقی کا حرام ہونا ظاہر ہو ا ۔

حضرت جابر  کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
” نھیت عن صوتین احمقین فاجرین، صوت عند نغمة لھو ولعب ومزامیر الشیطان، وصوت عند مصیبة لطم وجوہ وشق جیوب․“ ( مستدرک حاکم : رقم الحدیث 6825)

میں نے دو احمق اور فاجر ( گناہ والی ) آوازوں سے منع کیا ہے ، ایک نغمہ کے وقت لہوو لعب کی اور شیطانی بانسریوں سے اور مصیبت کے وقت کی آوازسے اپنے چہرے کو پیٹنے سے اور اپنے کپڑے پھاڑ نے سے۔

حضرت نافع کی روایت میں ہے !

” ان ابن عمر سمع صوت زمارة راع، فوضع اصبعیہ فی اذنیہ، وعدل راحلتہ عن الطریق، وہو یقول یانافع اتسمع؟ فاقول نعم، فیمضی حتیٰ قلت: لافوضع یدیہ واعاد راحلتہ الی الطریق، وقال رأیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم، وسمع صوت زمارة راع فصنع مثل ہذا․“ ( مسند احمد : رقم الحدیث 4535)

”حضرت ابن عمر  نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھ لیا اور اپنی سواری کو راستے سے ہٹالیا ( آواز سے دور ہونے کی غرض سے راستے سے ہٹ کر چلتے رہے ) اور یہ کہتے رہے کہ اے نافع کیا آپ کو آواز آرہی ہے ؟ میں نے کہا کہ جی ہا ں ، آپ نے یہ عمل برابر جاری رکھا ، یہاں تک کہ میں نے کہا کہ اب آواز نہیں آرہی تو آپ نے اپنے ہاتھ ہٹائے اور اپنی سواری کو راستے پر واپس لے آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سننے کے وقت اسی طرح کر تے ہو ئے دیکھا تھا ۔“

غور فرمائیے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اورآپ کی اتباع میں صحابہ کرام  تو ایک بانسری کی آواز آنے پر بھی کان بند فرمالیا کرتے تھے ۔اور آج آپ کے نام لیوا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے میلاد کے نام پر ہی کتنے موسیقی کے آلات استعمال کر تے ہیں ؟!

حضرت عبدالله بن عمر و بن عاص  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا !

”ان ربی حرم علي الخمر والمیسر والکوبة والقنین․ والکوبة الطبل “ ( السنن الکبریٰ للبیھقی : رقم الحدیث 20994)

”بے شک میرے رب نے میرے اوپر شراب کو اور جوئے کو اور کوبہ کو حرام کیا ہے اور کو بہ سے مراد طبلہ ہے ۔“

حضرت عائشہ  کے بارے میں یہ واقعہ مروی ہے!

”اذ دخل علیہا بجاریة وعلیہا جلاجل یصوتن فقالت لا تد خلنھا علي الا ان تقطعواجلاجلھا وقالت سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم:یقول لا تدخل الملائکة بیتا فیہ جرس․“ (سنن ابی داوٴد: رقم الحدیث 4231)

” حضرت عائشہ  کے پاس ایک بچی لا ئی گئی ، جس نے آواز والے گھنگھرو پہنے ہو ئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اسے میرے پاس نہ لاوٴ ، جب تک کہ اس کے گھنگھرونہ کا ٹ دو ۔اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے ،جس میں گھنٹی ہو ۔“

حضرت ابن عباس  فرماتے ہیں کہ!

” الدف حرام والمعازف حرام، والکوبة حرام، والمزمار حرام “․ ( السنن الکبری للبیھقی: رقم الحدیث 21000)

” دَف حرام ہے اور گانے بجانے کے آلات ( موسیقی ) حرام ہیں اور طبلہ حرام ہے اور بانسری حرام ہے۔“

حضرت عائشہ  کے بارے میں ایک تقریب کے حوالے سے یہ قصہ مذکور ہے کہ !

” فمرت عائشة فی البیت، فرأتہ یتغنی، ویحرک رأسہ طربا، وکان ذاشعر کثیر، فقالت: اُف، شیطان اخرجوہ، اخرجوہ“
( الادب المفرد للبخاری : رقم الحدیث 1247)

”پس حضرت عائشہ  اس گھر میں سے گزریں تو ا س آدمی کو دیکھا کہ وہ گانا گا رہا ہے اور اپنے سر کو مستی کے ساتھ حرکت دے رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے بال تھے، تو سیدہ عائشہ  نے فرمایا کہ! اُ ف یہ شیطان ہے، اسے باہر نکالو ، باہر نکالو۔“

آج بھی قوال اور گوئیے بڑے بڑے بال رکھتے ہیں ،ڈاڑھیاں منڈاتے ہیں ،نشہ کے عادی ہو تے ہیں اور دوران قوالی اپنے سر مستی سے ہلاتے ہیں ،جو کہ سیدہ عائشہ  کے فرمان کے مطابق شیطان ہیں ۔

حضرت شریح فرماتے ہیں کہ ” ان الملائکة لاید خلون بیتاً فیہ دف “ ( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26993)

” فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے جس میں دف ہو۔“

ٍ حضرت ابراہیم نجعی فرماتے ہیں کہ
” کان اصحاب عبدالله یستقبلون الجواری فی الازفة، معھن الدفوف، فیشقونھا․“( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26995)

”حضرت عبدالله بن مسعود  کے شاگرد وں کو ( آتے جاتے ہوئے) راستوں میں ( چھوٹی ) بچیوں کا سامنا ہو تا تھا ، جن کے ساتھ دفیں (طبلے وڈھولکیاں ) ہوا کرتی تھیں ، تو وہ ان کو پھاڑ دیا کرتے تھے۔“ ( تلک عشرة کاملة)

فائدہ :”معازف “عربی زبان میں گانے بجانے کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ، جس میں ڈھول ، بانسری وغیرہ سب داخل ہے ۔اور” دف“اسے کہا جاتاہے کہ جس کے صرف ایک طرف بجانے کی جگہ ہو تی ہے ۔اور ڈھول اسے کہا جاتا ہے جو دونوں طرف سے بجا یا جاتا ہے ۔اور ”کوبہ“ طبلے کو کہتے ہیں۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ مندرجہ بالا احادیث میں واضح طور پر گانے بجانے کے آلات کا ذکر ہے، جس سے واضح ہو تا ہے کہ اگر خالی گانے بجانے کے آلات کو بھی استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ گانے والے کسی انسان کی آواز شامل نہ ہو تب بھی یہ ناجائز وحرام ہے ۔نیز گانے بجانے کے ناجائز ہونے پر ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہ  ، امام شافعی  ، امام مالک  ، امام احمد بن حنبل ) کا اجماع ہے ۔

دف سے متعلق ایک اشکال اور اس کا حل 
بعض روایات میں نکاح کے موقع پر دف کے ذریعے سے اعلان کی اجازت ملتی ہے ۔تو بعض لوگو ں کو اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے، مگر یاد رہے کہ…

اول  تو گانے بجانے کے آلات کے ناجائز اور ڈھول اور دَف کے گانے بجانے کے آلات میں داخل ہو نے اور خود دَ ف کے ناجائز ہو نے پر احادیث وروایات موجود ہیں، جو ہم نے نقل کر دی ہیں۔ اور پھر جائز وناجائز میں تعارض ہو نے کی صورت میں ناجائز کو ترجیح حاصل ہو اکر تی ہے ۔

دوسرے   دَ ف کے جائز ہو نے کے سلسلہ میں بعض روایات ضعیف بھی ہیں ۔

اور آخری درجے میں اگر دف کا جائز ہونا بھی تسلیم کر لیا جائے تو وہ بھی کئی شرائط کے ساتھ مقید تھا ۔

مثلاً : ایک شرط یہ تھی کہ کہ دف سادی ہو ، اس کے ساتھ گھنگھرو اور گانے بجانے کا کوئی دوسرا آلہ استعمال نہ ہو ( جیساکہ پہلے زمانے میں سادہ دفیں ہو اکر تی تھیں اور آج کل معاملہ اس کے برعکس ہے ۔)

اور دوسری شرط یہ تھی کہ دف بجانے کا انداز سادہ ہو، یعنی اس میں کوئی خاص طرز اور دھن نہ لگائی جا ئے، ( جیساکہ مشاق لوگ خاص طرز اور دھن کے ساتھ بجاتے ہیں ) ،بلکہ بغیر کسی طرزاور لَے کے اس کو چند مرتبہ بجالیا جائے ، جس کو پیٹنا اور مارنا کہا جاتا ہے ۔

اور تیسری یہ کہ اس کا نکاح وغیرہ کے موقع پر جائز ہو نا بھی خواتین کے ساتھ مخصوص تھا اور اس سے مقصود بھی ( نکاح وغیرہ کا ) اعلان تھا ، نہ کہ بذات خود اس کی آواز کا سننا، سنانا یا لطف انداز ہو نا ۔ اور آج کل پہلے زمانے کے مقابلے میں اعلان وشہرت کے دوسرے بے شمار جائز ذرائع موجود ہیں ۔ اس لیے اس دف کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔

اور جب اس سے مقصود اعلان تھا تو یہ بھی ضروری تھا کہ جتنی مقدار سے اعلان ہو جائے ، اس پر اکتفا کیا جائے ، نہ یہ کہ نکاح وغیرہ کے اعلان وعنوان سے گھنٹو ں تک دف اور ڈھول بجایا جائے ۔

اور چوتھی شرط یہ تھی کہ اس کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر (حمدونعت وغیرہ ) شامل نہ ہو ۔

اور ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ یہ کسی ناجائز چیز کا ذریعہ نہ نبے ۔

اور آج کل چوں کہ گانے بجانے کا استعمال اور جہالت عام ہے، مذکورہ بالا شرائط کی رعایت بھی عام طور پر نہیں ہے ، اس لیے موجودہ حالا ت میں محققین نے اس کو مطلقاً ممنوع قرار دے دیا ہے ، چوں کہ جب کسی مباح وجائز، بلکہ مستحب عمل میں بھی مفاسد پیدا ہو جائیں ، تو وہ عمل جائز ومستحب سے نکل کر، ناجائز کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ( امدادالفتاویٰ: 279/2۔ اسلام اور موسیقی :215)

بہر حال موسیقی اور گانے بجانے کے آلات کا استعال ویسے ہی گناہ ہے اور میلا النبی کے نام سے ذکر ونعت کے وقت اس طرح کے آلات کو استعمال کر نا اور بھی سنگین گناہ ہے ۔



میلاد بشر کا ہوتا ہے نور کا نہیں، خزائن العرفان فی تفسیر القرآن یہ تفسیر ہے مولوی نعیم الدین مرادا آبادی ص4۔۔۔۔حاشیہ نمبر 13 قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میلاد منانا بریلوی عقیدے کے ہی خلاف ہے۔

مولوی عبد الحیکم شرف قادری بریلوی لکھتے ہیں النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولد آدم ۔۔۔۔اس میں الثر موضوع اور جھوٹی روایات ہیں یہ ایک جعلی کتاب ہے جو علامہ ابن حجر مکی کی طرف منسوب کردی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ماہنامہ البر لاھور مارچ 2012)







No comments:

Post a Comment