مُکافاتِ عَمَل(recompense of deeds)عمل کا بدلہ۔۔۔ہر عمل کا قدرتی نتیجہ مل کر رہے گا۔۔۔اچائی کا اچھا اور برائی کا برا۔
کیسی جزا (کیسا بدلہ)؟
القرآن:
جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ہے اور جو شخص کوئی بدی لے کر آئے گا، تو اس کو صرف اسی ایک بدی کی سزا دی جائے گی، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام:آیت نمبر 160]
القرآن:
اور جس شخص نے کوئی برائی کی ہوگی، اسے اسی کے برابر بدلہ دیا جائے گا، اور جس نے نیک کام کیا ہوگا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہاں انہیں بےحساب رزق دیا جائے گا۔
[سورۃ نمبر 40 غافر:آیت نمبر 40]
القرآن:
اور کسی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے۔ (8) پھر بھی جو کوئی معاف کردے، اور اصلاح سے کام لے تو اس کا ثواب اللہ نے ذمے لیا ہے۔ یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
[سورۃ نمبر 42 الشورى:آیت نمبر 40]
تفسیر:
(8) یعنی اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی جائے تو مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اتنی ہی تکلیف ظالم کو پہنچا دے جتنی اس نے پہنچائی تھی لیکن آگے اس بات کی بڑی فضیلت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ انسان بدلہ لینے کے بجائے صبر کر کے معاف کردے۔
عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْبِرُّ لا يَبْلَى ، وَالإِثْمُ لا يُنْسَى ، وَالدَّيَّانُ لا يَمُوتُ ، فَكُنْ كَمَا شِئْتَ كَمَا تَدِينُ تُدَانُ " .
ترجمہ:
ترجمہ:
حضرت ابوقلابہؓ سے روایت کرتے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: نیکی بوسیدہ نہیں ہوتی، گناہ بھلایا نہیں جاتا، بدلہ دینے والا(اللہ)نہیں مرتا، لہٰذا جیسے چاہے عمل کر، (کیونکہ) تم جیسا کروگے ویسا بھروگے۔
حدیث ابن عمر:
[جامع الاحادیث-السیوطی:10491، أخرجه ابن عدى (٦/١٥٨، ترجمة ١٦٤٩ محمد بن عبد الملك الأنصارى) ، وقال: ضعيف جدًّا. والديلمى (٢/٣٣، رقم ٢٢٠٣) کنزالعمال:43714]
حديث أبى قلابة المرسل:
[جامع الاحادیث-السیوطی:10492، أخرجه عبد الرزاق فى الجامع عن معمر (١١/١٧٨، رقم ٢٠٢٦٢) ، والبيهقى فى الزهد (٢/٢٧٧، رقم ٧١٠)]
حديث أبى الدرداء الموقوف:
[ أخرجه أحمد فى الزهد (ص ١٤٢) .]
الشواهد
|
خیانت اور دھوکہ
عَنْ أَبِي صِرْمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ
ترجمہ:
حضرت ابوصرمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ تعالیٰ اسے تکلیف دے گا.
[سنن الترمذی - نیکی و صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 1940]
[جامع الاحادیث-السیوطی:22832، مسند أحمد (٣/٤٥٣، رقم ١٥٧٩٣) ، وأبو داود (٣/٣١٥، رقم 3635) ، والترمذى (٤/٣٣٢، رقم 1940) وقال: حسن غريب. وابن ماجه (٢/٧٨٥، رقم 2342) ، والطبرانى (829+830 ٦٧٨١) ، والبيهقى:11386-20445)]
حدیث ابو سعید خدری:
[جامع الاحادیث-السیوطی:17126، الحاکم:2345،والبيهقى:11384]
حديث عمر بن يحيى المازنى عن أبيه المرسل:
[أخرجه مالك (٢/٧٤٥، رقم ١٤٢٩) . وأخرجه أيضًا: الشافعى(١/٢٢٤)]
وضاحت:
یعنی جس نے کسی مسلمان کو مالی و جانی نقصان اور عزت و آبرو میں ناحق تکلیف دی، اللہ تعالیٰ اس پر اسی جیسی تکلیف ڈال دے گا۔ (اس جیسی سزا دینے کا حکم فرمائے گا)، اسی طرح جس نے کسی مسلمان سے ناحق جھگڑا کیا اللہ اس پر مشقت نازل کرے گا۔
أَيْ: أَدْخَلَ عَلَيْهِ مَا يَشُقُّ عَلَيْهِ، قِيلَ: إِنَّ الضَّرَرَ وَالْمَشَقَّةَ مُتَقَارِبَانِ , لَكِنَّ الضَّرَرَ يُسْتَعْمَلُ فِي إِتْلَافِ الْمَالِ، وَالْمَشَقَّةَ فِي إِيصَالِ الْأَذِيَّةِ إِلَى الْبَدَنِ , كَتَكْلِيفِ عَمَلٍ شَاقٍّ.
یعنی: اس پر کوئی ایسی چیز ڈالو جو اس کے لیے مشکل ہو، یہ کہا گیا ہے کہ ضرر اور مشقت ایک دوسرے کے قریب ہے، لیکن نقصان کو مال کے تلف کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے، اور مشقت کو بدن کو اذیت پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ محنت کرنا۔
[تحفۃ الاحادیث شرح سنن الترمذی: حصہ 5/ص 170]
عفو و درگذر کی حدود»
معاف کرنا اس وقت "مستحب" ہے جب ضرر ونقصان معاف کرنے والے کے ساتھ ہو (شریعت یا دوسرے لوگوں کا نقصان نہ ہو) مثلاً کوئی شخص اس کا مال لے لے یا اسے گالی دے۔
اور جب کسی مجرم کے جرم کا نقصان شریعت یا لوگوں کی ایک جماعت کو پہنچتا ہو تو اگر اس میں بہت کم شبہہ بھی موجود ہو(اور جرم یقینی بھی نہ ہو) تو پھر بادشاہ(حاکم) کیلئے معافی کا معاملہ کرنا چاہئے۔
اللہ کے رسول نے فرمایا:
تم حدود(شرعی سزاؤں)کو دفع کرو جب تک "شبہہ" موجود ہو۔
(بیھقی:15700)
اور جب کوئی شبہہ موجود نہ ہو تو حاکم کو یہ حق نہیں کہ جرم کو معاف کرے( شریعت کی طرف سے مقررہ سزا اس کو دے) اسی وجہ سے اللہ نے فرمایا:
۔۔۔اور تم اوگوں کو اللہ کے معاملہ میں ذرا "ترس" نہ آنا چاہئے، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔
(سورۃ النور:آیت2)
[الذريعة الى مكارم الشريعة: صفحه179، الباب التاسع الحلم والعفو]
بدکار کو اذیت دینے کا حکم»
القرآن:
اور تم میں سے جو دو مرد بدکاری کا ارتکاب کریں، ان کو اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے درگزر کرو۔ بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ النساء:16]
بےقصور کو ایذاء پہنچانا گناہ ہے»
القرآن:
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان کے کسی جرم کے بغیر ایذاء پہنچاتے ہیں، انہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے۔
[سورۃ الأحزاب:58]
ہاتھوں کی کمائی-اعمال کا بدلہ/نتیجہ:
القرآن:
یہ سب کچھ ان اعمال کا بدلہ ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں آگے بھیج رکھے تھے، اور یہ بات طے ہے کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال:آیت نمبر 51]
یہ سب تمہارے ہاتھوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے جو تم نے آگے بھیج رکھا تھا، ورنہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران:آیت نمبر 182]
القرآن:
(اے پیغمبر) یہ لوگ اگر پھر بھی منہ موڑیں تو ہم نے تمہیں ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ہے، تم پر بات پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اور (انسان کا حال یہ ہے کہ) جب ہم انسان کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس پر اترا جاتا ہے، اور اگر خود اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ایسے لوگوں کو کوئی مصیبت پیش آجاتی ہے تو وہی انسان پکا ناشکرا بن جاتا ہے۔
[سورۃ نمبر 42 الشورى:آیت نمبر 48]
القرآن:
اور جو شخص کوئی کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے، پھر اللہ سے معافی مانگ لے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان پائے گا۔ اور جو شخص کوئی گناہ کمائے، تو وہ اس کمائی سے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے، اور اللہ پورا علم بھی رکھتا ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء:آیت نمبر 110+111]
القرآن:
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔
[سورۃ الشورىٰ:آیت نمبر 30]
القرآن:
لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔ (20) تاکہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔
[سورۃ نمبر 30 الروم:آیت نمبر 41]
تفسیر:
(20) آیت کریمہ یہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت چاہے ظاہری اسباب کے ماتحت وجود میں آئی ہوں، اپنے گناہوں پر استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
القرآن:
اور تم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہ چھوڑ دو۔ (53) یہ یقینی بات ہے کہ جو لوگ گناہ کماتے ہیں، انہیں ان تمام جرائم کی جلد ہی سزا ملے گی جن کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام:آیت نمبر 120]
تفسیر:
(53) ظاہری گناہوں میں وہ گناہ بھی داخل ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرے، مثلاً جھوٹ، غیبت، دھوکا، رشوت، شراب نوشی، زنا وغیرہ، اور باطنی گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے مثلاً حسد، ریا کاری، تکبر، بغض، دوسروں کی بد خواہی وغیرہ، پہلی قسم کے گناہوں کا بیان فقہ کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت فقہاء سے حاصل کی جاتی ہے اور دوسری قسم کے گناہوں کا بیان تصوف اور احسان کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے مشائخ سے رجوع کیا جاتا ہے، تصوف کی اصل حقیقت یہی ہے کہ باطن کے ان گناہوں سے بچنے کے لئے کسی رہنما سے رجوع کیا جائے افسوس ہے کہ تصوف کی اس حقیقت کو بھلا کر بہت سے لوگوں نے بدعات و خرافات کا نام تصوف رکھ لیا ہے۔ اس حقیقت کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اپنی بہت سی کتابوں میں خوب واضح فرمایا ہے، آسان طریقے سے اس کو سمجھنے کے لئے ملاحظہ فرمائیں حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب ؒ کی کتاب“ دل کی دنیا ”۔
القرآن:
اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ایک دوسرے پر مسلط کردیتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام:آیت نمبر 129]
تفسیر:
یعنی جس طرح ان کافروں پر ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شیاطین کو مسلط کردیا گیا جو انہیں بہکاتے رہے، اسی طرح ہم ظالموں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر دوسرے ظالموں کو مسلط کردیتے ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب کسی ملک کے لوگ بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر ظالم حکمران مسلط کردئے جاتے ہیں، اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی ظالم کے ظلم میں اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اسی ظالم کو مدد کرنے والے پر مسلط کردیتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)۔
القرآن:
یہ (ایمان لانے کے لیے) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تمہارا پروردگار خود آئے، یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں ؟ (حالانکہ) جس دن تمہارے پروردگار کی کوئی نشانی آگئی، اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لیے کار آمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو، یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو۔ (84) (لہذا ان لوگوں سے) کہہ دو کہ : اچھا، انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام:آیت نمبر 158]
تفسیر:
(84) یعنی اس سے مراد قیامت کی آخری نشانی ہے، جس کے بعد ایمان قبول نہیں ہوگا، کیونکہ معتبر ایمان وہی ہے جو دلائل کی بنیاد پر ایمان بالغیب ہو، کسی چیز کو آنکھوں سے مشاہدہ کر کے ایمان لانے سے امتحان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لیے یہ دنیا پیدا کی گئی ہے۔
القرآن:
کہہ دو کہ : کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور پروردگار تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے ؟ اور جو کوئی شخص کوئی کمائی کرتا ہے، اس کا نفع نقصان کسی اور پر نہیں، خود اسی پر پڑتا ہے۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (85) پھر تمہارے پروردگار ہی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ ساری باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام:آیت نمبر 164]
تفسیر:
(85) کفار کبھی مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب کو اپنا لو، اگر کوئی عذاب ہوا تو تمہارے حصے کا عذاب بھی ہم اپنے سر لے لیں گے، جیسا کہ سورة عنکبوت (12:29) میں قرآن کریم نے ان کی یہ بات ذکر فرمائی ہے۔ یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ اور اس میں یہ عظیم سبق ہے کہ ہر شخص کو اپنے انجام کی خود فکر کرنی چاہیے، کوئی دوسرا شخص اسے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ یہی مضمون سورة بنی اسرائیل (15:17) سورة فاطر (18:35) سورة زمر (7:39) اور سورة نجم) (38:53) میں بھی آیا ہے۔ اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ سورة نجم میں آئے گی۔
القرآن:
رہے وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کمائی ہیں تو (ان کی) برائی کا بدلہ اسی جیسا برا ہوگا (15) اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، اللہ (کے عذاب) سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ ایسا لگے گا جیسے ان کے چہروں پر اندھیری رات کی تہیں چڑھادی گئی ہیں۔ وہ دوزخ کے باسی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
[سورۃ نمبر 10 يونس:آیت نمبر 27]
تفسیر:
(15) یعنی نیکیوں پر تو ثواب کئی گنا دیا جائے گا جس میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی وہ نعمت بھی داخل ہے جس کا ابھی ذکر ہوا، لیکن برائی کی سزا اسی برائی کے برابر ملے گی، اس سے زیادہ نہیں۔اور
لَيسَ بِأَمانِيِّكُم وَلا
أَمانِىِّ أَهلِ الكِتٰبِ ۗ مَن يَعمَل سوءًا يُجزَ بِهِ وَلا يَجِد لَهُ مِن
دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرًا {4:123}
|
(نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔
جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی (طرح) کا بدلا دیا جائے گا اور وہ اللہ کے سوا نہ
کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مددگار۔
|
Not by your vain
desires nor by the vain desires of the people of the Book; whosoever worketh
an evil, shall be requited therewith, and he will not find beside Allah a
patron nor a helper.
|
القرآن:
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو (125) اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة:آیت نمبر 195]
تفسیر:
(125) اشارہ یہ ہے کہ اگر تم نے جہاد میں خرچ کرنے سے بخل سے کام لیا اور اس کی وجہ سے جہاد کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے تو یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مرادف ہوگا، کیونکہ اس کے نتیجے میں دشمن مضبوط ہو کر تمہاری ہلاکت کا سبب بنے گا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ يَزِيدَ بْنِ بَيَانٍ ، وَأَبُو الرِّجَالِ الْأَنْصَارِيُّ آخَرُ .
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نوجوان کسی عمر رسیدہ کی عزت کرتا ہے اسکی (زیادہ) عمر کی وجہ سے، تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے بھی ایسا شخص مقرر کردیتے ہیں جو اس (نوجوان) کی عمر (کے آخر) میں اسکی عزت کرتا ہے۔
[جامع الاحادیث-السیوطی:19809، شعب الایمان:10993، المعجم الاوسط للطبرانی:5903، الترغیب والترهيب-الأصبهاني:198]
القرآن:
۔۔۔۔۔یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
[سورۃ الحدید:10 ، تفسير القرطبي:17 /241]
القرآن:
پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو اللہ مفسدوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔
[سورۃ آل عمران:63، روح البيان-إسماعيل حقي:2 /45]
الشواهد
|
حضرت ابن عمر سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" بَرُّوا آباءَكُمْ تَبَرُّكُمْ أَبْنَاؤُكُمْ ، وَعِفُّوا تَعِفُّ نِسَاؤُكُمْ " .
ترجمہ:
تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمھاری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی، تم خود پاکدامن رہو تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی۔
[جامع الاحادیث-السیوطی:10358، المعجم الاوسط للطبرانی:1002]
[أخرجه الطبرانى فى الأوسط (١/٢٩٩، رقم ١٠٠٢) قال الهيثمى (٨/١٣٨) : رجاله رجال الصحيح غير شيخ الطبرانى أحمد غير منسوب، والظاهر أنه من المكثرين من شيوخه فلذلك لم ينسبه. قال المناوى (٣/٢٠٠) : قال المنذرى: إسناده حسن. وبالغ ابن الجوزى فجعله موضوعًا.]
حضرت جابر سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بروا آباءكم تبركم أبناؤكم وعفوا عن النساء تعف نساؤكم ومن تُنُصِّلَ إليه فلم يقبل فلن يرد علىَّ الحوضَ۔
ترجمہ:
اپنے باپ(داداؤں) کے ساتھ حسن سلوک کرو، تمہاری اولاد تم پر مہربان ہو گی۔ اور (بدنگاہی-بدسلوکی سے دوسروں کی) عورتوں کو معاف کر دو، تمہاری عورتیں پاک دامن ہوں گی۔ اور جو اس سے انکار کرے اور اسے قبول نہ کرے، وہ میرے حوض کی طرف نہیں لوٹ سکے گا۔
[جامع الاحادیث-السیوطی:10359، حاکم:7259]
[أخرجه الحاكم (٤/١٧١، رقم 7259) ، والخطيب (٦/٣١٠) . وأخرجه أيضًا: ابن عدى (٥/٢٠٧، رقم ١٣٦٠) ، والديلمى (٢/١٠، رقم ٢٠٨٨) .]
الشواهد
|
اپنے ارادہ کے نیک ہونے پر قسمیں کھانے والے جھوٹے لوگ
القرآن:
پھر اس وقت ان کا کیا حال بنتا ہے جب خود اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے ؟ اس وقت یہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مقصد(ارادہ) بھلائی کرنے اور ملاپ کرادینے کے سوا کچھ نہ تھا۔
[سورۃ نمبر 4 النساء:آیت نمبر 62]
تفسیر:
یعنی جب ان کا یہ معاملہ تمام لوگوں پر کھل جاتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کے فیصلے کے بجائے یا اس کے خلاف کسی اور کو اپنا فیصل بنا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں ملامت یا کسی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ جھوٹی تاویل کرتے ہیں کہ ہم اس شخص کے پاس عدالتی فیصلہ کرانے نہیں گئے تھے ؛ بلکہ مصالحت کا کوئی راستہ نکالنا چاہتے تھے جس سے جھگڑے کے بجائے میل ملاپ کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔
کس پر رحم نہ کیا جائے؟
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَدَبِ » باب رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ ... رقم الحديث: 5581(6013)]
[حديث جرير: أخرجه أحمد (4/366، رقم 19282) ، والبخارى (5/2239، رقم 5667) ، ومسلم (4/1809، رقم 2319) ، والطبرانى (2/333، رقم 2388) . وأخرجه أيضًا: الترمذى (4/323، رقم 1922) وقال: حسن صحيح.
حديث أبى هريرة: أخرجه أحمد (2/228، رقم 7121) ، والبخارى (5/2235، رقم 5651) ، ومسلم (4/1808 رقم 2318) ، وأبو داود (4/355، رقم 5218) ، وابن حبان (15/431، رقم 6975) . قال الترمذى عقب حديث جرير: وفى الباب عن أبى هريرة.
حديث ابن عمر: أخرجه الطبرانى (12/403، رقم 13488) قال الهيثمى (8/187) : فيه عطية وقد وثق على ضعفه وبقية رجال البزار رجال الصحيح].
[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَدَبِ » باب رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ ... رقم الحديث: 5581(6013)]
ترجمہ:
حضرت جریر بن عبد اللہ سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان مروی ہے کہ جو رحم نہیں کرتا ، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔[حديث جرير: أخرجه أحمد (4/366، رقم 19282) ، والبخارى (5/2239، رقم 5667) ، ومسلم (4/1809، رقم 2319) ، والطبرانى (2/333، رقم 2388) . وأخرجه أيضًا: الترمذى (4/323، رقم 1922) وقال: حسن صحيح.
حديث أبى هريرة: أخرجه أحمد (2/228، رقم 7121) ، والبخارى (5/2235، رقم 5651) ، ومسلم (4/1808 رقم 2318) ، وأبو داود (4/355، رقم 5218) ، وابن حبان (15/431، رقم 6975) . قال الترمذى عقب حديث جرير: وفى الباب عن أبى هريرة.
حديث ابن عمر: أخرجه الطبرانى (12/403، رقم 13488) قال الهيثمى (8/187) : فيه عطية وقد وثق على ضعفه وبقية رجال البزار رجال الصحيح].
حضرت جریر بن عبد اللہ سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان مروی ہے کہ:
من لا يرحم لا يرحم ومن لا يغفر لا يغفر له۔
ترجمہ:
جو رحم نہیں کرتا ، اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو نہیں بخشتا اسے نہیں بخشا جاتا۔
[مسند أحمد (4/365، رقم 19264) قال الهيثمى (10/193) : رجاله رجال الصحيح. والطبرانى (2/351، رقم 2475) .]
حضرت جریر بن عبد اللہ سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان مروی ہے کہ
من لا يرحم لا يرحم ومن لا يغفر لا يغفر له ومن لا يتب لا يتوب الله عليه۔
[أخرجه الطبرانى (2/351، رقم 2476)]۔
ترجمہ:
جو رحم نہیں کرتا ، اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو نہیں بخشتا اسے نہیں بخشا جاتا اور جو توبہ(گناہوں سے نیکی کی طرف لوٹا)نہیں کرتا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرتا۔[أخرجه الطبرانى (2/351، رقم 2476)]۔
حضرت جریر بن عبد اللہ سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان مروی ہے کہ
من لا يرحم من فى الأرض لا يرحمه من فى السماء
أخرجه الطبرانى (2/355، رقم 2497) قال الهيثمى (8/187) : رجاله رجال الصحيح.]
ترجمہ:
جو زمین والوں پر رحم نہیں کرتا، آسمان والا اس پر رحم نہیں کرتا۔أخرجه الطبرانى (2/355، رقم 2497) قال الهيثمى (8/187) : رجاله رجال الصحيح.]
پریشانیوں کا اصل سبب» نیک اعمال میں کمی کوتاہی»
حضرت حکم سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إذا قَصَّرَ العبدُ فى العملِ ابتلاه اللهُ بالْهَمِّ
ترجمہ:
انسان جب عمل میں کوتاہی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔
[کتاب الزھد-امام احمد: ص10، دیلمی:1140، جامع الاحادیث-السیوطی:2505، کنزالعمال:6788]
القرآن:
۔۔۔جو بھی برا عمل کرے گا اس کی سزا پائے گا۔۔۔
[سورۃ النساء:123،تفسیر الدر المنثور:2/702]
غموں کا اصل سبب» مصیبت گناہوں کا کفارہ ہے»
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا كَثُرَتْ ذُنُوبُ الْعَبْدِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَا يُكَفِّرُهَا مِنَ الْعَمَلِ، ابْتَلَاهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْحُزْنِ لِيُكَفِّرَهَا عَنْهُ
ترجمہ:
بندے کے جب گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور ان کے کفارہ کیلئے کوئی عمل بھی نہیں ہوتا تو اللہ عزوجل اسے غم میں مبتلا کردیتے ہیں تاکہ اس کا کفارہ بن جاتی ہے۔
[مسند احمد:25236، مسند البزار:255، کنزالعمال:6787]
القرآن:
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے۔۔۔
[سورۃ الشورى:30»تفسیر ابن کثیر:7/208]
﴿شواھد»سورۃ آل عمران:153، طٰہٰ:40، الانبیاء:87+88﴾(الروم:41)
نوٹ:
جو مصیبت فرمانبردار پر آتی ہے وہ درجات کی بلندی کا سبب ہوتی ہے۔
﴿قرآنی حوالہ»سورۃ البقرہ:155-156﴾
No comments:
Post a Comment