Monday 5 September 2016

سورة التکاثر کی فضیلت ہزار آیات کے برابر

Prophetic Motivation:
عمل مختصر، ثواب زیادہ:

رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالإِسْنَادِ السَّابِقِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَمَنْ قَرَأَ سُورَةَ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ، لَمْ يُحَاسِبْهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالنَّعِيمِ الَّذِي أَنْعَمَ عَلَيْهِ فِي دَارِ الدُّنْيَا ، وَأُعْطِيَ مِنَ الأَجْرِ كَأَنَّمَا قَرَأَ أَلْفَ آيَةٍ " .
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو پڑھے سُورَةَ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ، نہیں حساب لے گا اس کا الله عزوجل ان نعمتوں کا جو انعام کیں اس پر دنیوی زندگی میں، اور عطا کرے گا اسے اجر جیسا کہ اس نے پڑھی ہوں ایک ہزار آیات.
[تفسير السمرقندي: 3/ 614، تفسير الثعلبي:3611، التفسير الوسيط للواحدي:1429، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:479 (1/ 134)، ذخيرة الحفاظ:5312، تفسير الزمخشري:4/ 793، تفسير البيضاوي:5/ 335، البستان في إعراب مشكلات القرآن:5/ 47، فتوح الغيب في الكشف:16/ 563، تفسير الحداد:16 / 548، تفسير أبي السعود:9 /196، الموسوعة الحديثية:163(3/ 50)]



تشریح:

یعنی اس سورۃ کا پڑھنے والا بالآخر نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا ہوجائے گا، جس کی وجہ سے حساب نہیں لیا جائے گا۔
حوالہ
إذ كل يسأل عن شكره
[تفسير البيضاوي:5/ 335، فتوح الغيب في الكشف:16/ 564، دليل الفالحين:4/ 429






أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَغْدَادِيُّ ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَلانِسِيُّ بِمِصْرَ ، ثنا دَاوُدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، ثنا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْعُقْبَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَلا يَسْتَطِيعُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ أَلْفَ آيَةٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ ؟ " , قَالُوا : وَمَنْ يَسْتَطِيعُ ذَلِكَ ؟ قَالَ : " أَمَا يَسْتَطِيعُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ " . رُوَاةُ هَذَا الْحَدِيثِ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ وَعُقْبَةُ هَذَا غَيْرُ مَشْهُورٍ ..
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کیا نہیں استطاعت رکھتا تم میں سے کوئی ایک کہ پڑھے ہزار آیات ہر دن میں؟ ان (صحابہ) نے کہا : کون استطاعت رکھتا ہے اس کی ؟ فرمایا : کیا نہیں استطاعت رکھتا تم میں سے کوئی ایک کہ وہ پڑھے الھاکم التکاثر.






خلاصة حكم المحدث : رجال إسناده ثقات إلا أن عقبة بن محمد لا أعرفه
[الترغيب والترهيب الصفحة أو الرقم: 2/321]

الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ألا يستطيع أحدكم أن يقرأ ألف آية في كل يوم قالوا ومن يستطيع ذلك قال أما يستطيع أحدكم أن يقرأ ألهاكم التكاثرعبد الله بن عمرالمستدرك على الصحيحين20141 : 566الحاكم النيسابوري405
2ألا يستطيع أحدكم أن يقرأ ألف آية في كل يوم الحديث في فضل ألهاكم التكاثرعبد الله بن عمرإتحاف المهرة10511---ابن حجر العسقلاني852
3من قرأ في ليلة ألف آية لقي الله وهو يضحك قالوا سبحان الله ومن يقدر على ألف آية فقال رسول الله بسم الله الرحمن الرحيم ألهاكم التكاثرأنس بن مالكحديث أبي نصر اليونارتي2---أبو نصر اليونارتي527
4ألا يستطيع أحدكم أن يقرأ ألف آية في كل يوم قالوا ومن يستطيع أن يقرأ ألف آية قال ما يستطيع أحدكم أن يقرأ ألهاكم التكاثرعبد الله بن عمرشعب الإيمان للبيهقي23002518البيهقي458
5ومن قرأ سورة ألهاكم التكاثر لم يحاسبه الله بالنعيم الذي أنعم عليه في دار الدنيا وأعطي من الأجر كأنما قرأ ألف آيةأبي بن كعبالوسيط في تفسير القرآن المجيد11804 : 548الواحدي468
6ألا يستطيع أحدكم أن يقرأ ألف آية في كل يوم قالوا يا رسول الله ومن يستطيع أن يقرأ ألف آية قال أما يستطيع أحدكم أن يقرأ ألهاكم التكاثرعبد الله بن عمرحديث صفة النبي خيثمة الأطرابلسي7---ضياء الدين المقدسي643



فکر وعمل کی اصلاح» غفلت اور دنیاوی لالچ کا علاج:
مختصر تفسیر:
القرآن:
ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر (دنیا کا عیش) حاصل کرنے کی ہوس نے تمہیں غلفت میں ڈال رکھا ہے۔ (1) یہاں تک کہ تم قبرستانوں میں پہنچ جاتے ہو۔ ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ تمہیں عنقریب سب پتہ چل جائے گا۔ پھر (سن لو کہ) ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ تمہیں عنقریب سب پتہ چل جائے گا۔ ہرگز نہیں ! اگر تم یقینی علم کے ساتھ یہ بات جانتے ہوتے (تو ایسا نہ کرتے) یقین جانو تم دوزخ کو ضرور دیکھو گے۔ (2) پھر یقین جانو کہ تم اسے بالکل یقین کے ساتھ دیکھ لو گے۔ پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا (کہ ان کا کیا حق ادا کیا) (3)
[سورۃ نمبر 102 التكاثر، آیت نمبر 1-8]

تفسیر:

امام بیضاویؒ، امام طیبیؒ اور امام ابوسعودؒ نے فرمایا:
الآية ‌مخصوصة ‌بالكفار۔
ترجمہ:
(آخری) آیت کفار کے لیے مخصوص ہے۔
[تفسير البيضاوي:5/ 335، فتوح الغيب في الكشف:16/ 564، تفسير أبي السعود:9/ 196، دليل الفالحين:4/ 429]


(1) یعنی دنیا سمیٹنے کی دھن میں لگ کر تم آخرت کو بھولے ہوئے ہو۔

(2) جو لوگ جنت میں جائیں گے، انہیں بھی دوزخ دکھائی جائے گی، تاکہ انہیں جنت کی صحیح قدر معلوم ہو۔ [دیکھئے سورة مریم : 17]

(3) یعنی دنیا میں جو نعمتیں میسر تھیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کیا ؟ اور اس کی کس طرح فرماں برداری کی۔





اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ
ترجمہ:
میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ترجمہ:
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے 

(سورة التکاثر ۔ سورۃ نمبر ١٠٢ ۔ تعداد آیات ٨)
أَلْهَىٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ 0 حَتَّىٰ زُرْتُمُ ٱلْمَقَابِرَ 0 كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ 0 ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ 0 كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ ٱلْيَقِينِ 0 لَتَرَوُنَّ ٱلْجَحِيمَ 0 ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ ٱلْيَقِينِ 0 ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ ٱلنَّعِيمِ
لفظی ترتیب سے ترجمہ:
تم کو کردیا کثرت کے مقابلہ نے غافل۔ یہاں تک کہ تم نے قبرستانوں کی زیارت کرلی۔ ہر گز نہیں تم عنقریب جان لوگے۔ پھر ہرگز نہیں تم عنقریب جان لوگے۔ ہرگز نہیں اگر تم علم الیقین کے طور پر جان لیتے۔ تم ضرور ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔ پھر یہ ضروری بات ہے کہ تم اسے عین الیقین کے طریقہ پر دیکھ لو گے۔ پھر اس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور ضرور سوال کیا جائے گا۔

تفسیری ترجمہ (جلالین):
مال و اولاد اور افراد رجال کی کثرت پر فخر مباہات نے تم کو اللہ کی طاعت سے غافل کردیا یہاں تک کہ تم لب گور پہنچ گئے بائیں طور کہ تم مر گئے اور قبروں میں تم دفن کر دیئے گئے یا کثرت ثابت کرنے کے لئے مردوں کو بھی تم نے شمار کرلیا، ہرگز نہیں، یہ حرف ردع ہے عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا، پھر ہرگز نہیں تم کو اپنے تفاخر کا انجام بدنزع کے وقت پھر قبر میں عنقریب معلوم ہوجائے گا، یہ امر واقعہ ہے اگر تم تفاخر کے انجام کو علم یقینی کے طور پر جان لیتے تو تم اس میں مشغول نہ ہوتے، تو تم بے شک جہنم کو دیکھ کر رہو گے یہ قسم محذوف کا جواب ہے (تلرون) سے لام (جو کہ یاء ہے) اور عین کلمہ (جو کہ ہمزہ ہے) حذف کردیا گیا اور ہمزہ کی حرکت راء کو دے دی گئی اور پھر تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے (عین) لترون کا مصدر (بغیر لفظہ) ہے اس لئے کہ رای اور عاین ایک ہی معنی میں ہے۔(عین رویۃ کے منی میں ہے) پھر اس کو دیکھنے کے دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا وہ نعمتیں کہ جن سے تم دنیا میں لذت اندوز ہوتے ہو جو کہ صحت، فارغ البالی، امن اور ماکولات و مشروبات وغیرہ ہیں،(لتسئلن) سے نون رفع (تین) نونوں کے مسلسل آنے کی وجہ سے حذف کر دا گیا اور ضمیر جمع کا وائو التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔




تفسیر بالماثُور یعنی وہ تفسیر جو روایات یعنی نسلاً بعد نسل پہنچائی-نقل کی گئی۔

الدر المنثور-امام السیوطیؒ (م911ھ)

تفصیلی تفسیر:
١۔ ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ سورۃ الہکم التکاثر مکہ میں نازل ہوئی۔ 

٢۔ الحاکم والبیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی یہ طاقت رکھتا ہے وہ روزانہ ہزار آیتیں پڑھے ۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کس کی طاقت ہے کہ وہ ہزار آیتیں پڑھے پھر آپ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی سورۃ الہکم التکاثر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔

٣۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن ابی ہلال رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب رضی اللہ علیہم نے الہکم التکاثر کو المغیرہ کا نام دیتے تھے ۔ 

اصل مال وہی ہے جو صدقہ کرکے آخرت کیلئے بھیج دیا گیا:
٤۔ الطیالسی وسعید بن منصور واحمد وعبد بن حمید والترمذی ولنسائی وابن جریر وابن المنذر والطبرانی والحاکم وابن مردویہ نے عبداللہ بن الشخیر (رض) سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور آپ الہکم التکاثر پڑھ رہے تھے اور ایک روایت میں الفاظ ہیں کہ آپ پر سورۃ الہکم التکاثر نازل ہوئی اور آپ فرما رہے تھے ۔ آدم کا بیٹا کہتا ہے میرا مال میرا ! اور تیرے لیے تیرا مال صرف وہی جو تو نے کھایا اور فنا کردیا یا پیغام اور بوسعیدہ کردیا۔ یا صدقہ کیا اور اسے باقی رکھا ۔ 

٥۔ الطبرانی نے مطرف رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ وہ اپنے الد سے روایت کرتے ہیں کہ جب الہکم التکاثر نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم کا بیٹاکہتا ہے میرا مال میرا مال۔ اور تیرے لیے تیرا مال صورف وہی ہے جو تو نے کھالیا اور فناکردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے باقی رکھا یا کسی کو دے دیا اور آگے بھیج دیا۔ 

٦۔ عبد بن حمید ومسلم وابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال بےشک اس کے مال صرف تین قسم کا ہے جو اس نے کھایا فنا کردیا۔ یا پہن کر بوسیدہ کردیایا صدقہ کر کے باقی رکھا اور جو اس کے علاوہ ہے وہ خود جانے والا ہے اور اس کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے ۔ 

٧۔ عبد بن حمید ومسلم وابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدم کا بیٹا کہتا ہے میرا مال ، میرا مال اور نہیں ہے اس کے لیے اس کے مال میں سے مگر جو اس نے کھایا اور فناکر دیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کر کے باقی رکھا اور جو اس کے علاوہ ہے وہ خود جانے والا ہے اور اس کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والاہے ۔ 

٨۔ الحکیم الترمذی فی نوادر الاصول والبیہقی فی شعب الایمان وضعفہ نے جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم پر سورۃ الہکم التکاثر پڑھنے وال اہوں۔ جو شخص رودیا وہ یقینی طور پر جنت میں داخل ہوگیا آپ نے اس کو پڑھا ۔ ہم میں سے بعض روئے اور بعض نہ روئے ان لوگوں نے کہا جو نہیں روئے یا رسول اللہ ہم نے کوشش کی کہ ہم روئیں مگر ہم اس پر قادر نہ ہوئے۔ آپ نے فرمایا میں اس کو دوسری مرتبہ تم پر پڑھوں گا ۔ جو شخص رودیا اس کے لیے جنت ہے جو شخص رونے پر قادر نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ رونے کی صورت بنائے ۔ 

٩۔ عبد بن حمید نے عبداللہ بن الشخیر (رض) سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ نماز میں آیت الہکم التکاثر پڑھ رہے تھے یہاں تک کہ اس کو ختم فرمایا۔ 

دنیا کی محبت سے توبہ کرنا:
١٠۔ البخاری وابن جریر نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کیا کہ ہم اس کو قرآن میں سے جانتے تھے کہ اگر ابن آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ نہیں بھرے گا مگر مٹی سے ۔ پھر جس نے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا یہاتک کہ یہ سورۃ الہکم التکاثر اس کے آخر تک نازل ہوئی ۔ 

١١۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ رحمہ اللہ سے آیت الہکم التکاثر یہود کے بارے میں نازل ہوئی ۔ 

١٣۔ الترمذی وخیش بن اصرم فی الاستقامہ وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کیا کہ الہکم التکاثر قبر کے عذاب کے بارے میں نازل ہویء ۔ 

١٤۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت الہکم التکاثر حتی زرتم المقابر پڑھی پھر فرمایا میں قبروں کو زیارت کے سوا کچھ خیال نہیں کرتا اور زیارت کرنے والے کے لیے اپنے گھر کی طرف لوٹنے سے کوئی چارہ نہیں ۔ 

١٥۔ ابن المنذر نے ابن عباس (رض) سے آیت الہکم التکاثر کے بارے یں روایت کیا کہ مال اور اولاد میں کثرت کی ہوس نے تم کو ہلاک کردیا ۔ 

١٦۔ الحاکم وصححہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مجھے تم پر فقر کا کوئی خوف نہیں ہے لیکن میں تم پر کثرت کی ہوس کا خوف کرتا ہوں مجھے تم پر خطا کا خوف نہیں لیکن میں تم پر جان بوجھ کر کرنے کا خوف کرتا ہوں۔ 

١٧۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے نزید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت الہکم التکاثر پڑھی اور فرمایا کثر کی ہوس نے تم کو اطاعت سے غافل کردیا آیت الہکم التکاثر حتی زرتم المقابر یعنی حتی کہ تم کو موت نے آلیا آیت کلا سوف تعلمون یعنی اگر تم اپنی قبروں میں داخل ہوئے تو تم جلد جان لوگے آیت ثم کلا سوف تعلمون یعنی اگر تم اپنی قبروں سے نکلے محشر کی طرف آیت کلا لو تعلمون علم الیقین یعنی اگر تم اپنے اعمال پر کھڑے ہوئے اپنے رب کے سامنے آیت لترون الجحیم تم دیکھ کر رہو گے دوزخ کو ۔ اور پل صراط کو جہنم کے درمیان بھی رکھا جائے گا تو مسلمان نجات پائے گا۔ اور وہ مسلمان ہے جس کو خراش لگی اور جو کٹ گیا وہ جہنم کی آگ میں ہوگا آیت ثم لتسئلن یومئذن عن النعیم۔ پھر اس دن تم سے ساری نعمتوں مثلاً پیٹوں کے بھرنے ، ٹھنڈے مشروبات سایہ دار رہائشیں اور معتدل تخلیق اور نیند کی لزت وغیرہ کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔

١٨۔ ابن مردویہ نے عیاض بن غنم (رض) سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ آیت الہکم التکاثر حتی زرتم المقابر کلا سوف تعلیمون پڑھتے ہوئے سنا یعنی تمہیں حرص نے غافل کردیا یہاں تک کہ قبریں جا جا کر دیکھنے لگے ہرگز ایسا نہیں آئندہ تم جان لوگے یعنی جب تم قبر میں داخل ہوگے آیت ثم کلا سوف تعلمون پھر ایسا نہیں چاہیے آئندہ تم جان لو گے ۔ یعنی تم یقینی طور پر اپنی قبروں سے نکلوں گے ۔ آیت کلا لو تعلمون علم الیقین ۔ ہرگز ایسا نہیں کاش تم یقینی طور پر جانتے یعنی تمہارے رب کی طرف تمہارے اٹھائے جان کے دن یقینی طور پر جانتے آیت لترون الجحیم ۔ البتہ تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے یعنی تم کو آخرت کے بارے حق الیقین ہوجاتا آنکھوں سے دیکھنے کی طرح آیت ثم لترونہا عین الیقین پھر تم دوزخ کو یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے ۔ یعنی قیامت کے دن ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم پھر اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا یعنی تمہارے رب کے سامنے مثلاً ٹھنڈے مشروبات، سایہ دار رہائشیں اور پیٹوں کو بھرنے اور معتدل تخلیق اور نیند کی لذتیں یہاں تک کہ تم میں سے کسی کا کسی عورت سے منگنی کرنا اس کے باوجود کہ اسے نکاح کا پیغام کسی اور نے دیا ہو پھر غیر نے اس عورت سے شادی کرلی اور اسے روک دیا۔


١٩۔ ابن جریر نے ضحاک رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ آیت کلا سوف تعلمون سے کفار مراد ہیں آیت ثم کلا سوف تعلمون سے ایمان والے مراد ہیں اور اسی طرح وہ اس کو پڑھا کرتے تھے ۔ ۔ 



٢٠۔ فریابی وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ رحمہ سے آیت لو تعلمون علم الیقین کے بارے میں روایت کیا کہ ہم یہ بیان کرتے تھے کہ بےشک علم الیقین موت ہے اور فرمایا آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں ضرو پوچھا جائے گا۔ یعنی بےشک اللہ تعالیٰ ہر صاحب نعمت سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھے گا جو اس کو عطا فرمائیں ۔



جسمانی اعضاء وجوارح کی سلامتی نعمت ہے 

٢٢۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم میں النعیم سے مراد ہے بدنوں اور کانوں اور آنکھوں کا صحیح اور تندرست ہونا اللہ تعالیٰ بندوں سے سوال کریں گے ان کے استعال کرنے بارے میں ار وہ اس بارے میں ان سے زیادہ جانتے ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلا ۔ (السراء آیت ٣٦) بےشک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ 



٢٣۔ فریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم ۔ سے مراد ہے کہ دنیا کی لذت میں سے ہر چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 



٢٤۔ عبداللہ بن احمد فی زوائد الزہد وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن مسعود (رض) سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے امن اور صحب ۔



٢٥۔ ہناد وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود (رض) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ نعمت سے مراد ہے امن اور صحت کہ ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 


٢٦۔ بیہقی نے شعب الایمان میں علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کیا کہ آیت ثم لتسئلت یومئذ عن النعیم میں نعمت سے مراد ہے عافیت (یعنی سکھ سلاتمی ہے)۔

٢٧۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا مثلاً گیہوں کی روٹی کھانا اور میٹھا اور ٹھنڈا پانی پینا اور اس گھر کے بارے میں جس میں رہتا تھا یہی نعمتیں ہیں ۔ جن کے بارے میں اس دن اس سے پوچھا جائے گا۔ ۔

٢٨۔ ابن مردویہ نے ابو درداء (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم ۔ کے بارے میں فرمایا میری امت کے کچھ لوگ خالص گھی اور شہد جمع رکھتے ہیں پھر اس کو کھاتے ہیں ۔ 

٢٩۔ عبد بن حمید نے حمران بن ابان رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ وہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو تین سے اوپر جو بھی عطا فرمائے گا تو ان کے بارے میں قیامت کے دن اس سے سوال کرے گا ۔ روٹی کی اتنی مقدار کے بارے میں کہ جس سے وہ اپنی پیٹھ سیدھا رکھ سکے ۔ اور وہ چھت جس کے نیچے وہ سر چھپاتا ہے اور وہ کپڑا جس سے وہ اپنی شرمگاہ کو لوگوں سے چھپاتا ہے۔ 

ٹھنڈا پانی بھی نعمت ہے 
٣٠۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو صحابہ (رض) نے پوچھا یارسول اللہ! ہم کونسی نعمتوں میں ہیں کہ ہم جو کی روٹی سے بھی اپنا پیٹ نہیں بھرتے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی طرح وحی فرمائی کہ ان کو کہہ دیجیے کیا تم جوتے نہیں پہنتے ہو اور تم ٹھنڈا پانی نہیں پیتے ہو اور یہ بھی نعمت میں سے ہیں۔ 

٣١۔ ابن ابی شیبہ وہناد واحمد وابن جریر وابن مردویہ وبیہقی نے شعب الایمان میں محمود بن لبید رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ جب سورۃ الہکم التکاثر نازل ہوئی تو آپ نے ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم تک پڑھی ۔ تو صحابہ (رض) ن یعرض کیا یارسول اللہ! کونسی نعمتوں کے بارے میں ہم سے سوال ہوا گا۔ بےشک وہ نعمتیں پانی اور کھجور ہیں اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں اور دشمن سامنے حاضر ہے ۔ پھر کونسی نعمت سے ہم سے سوال ہوگا۔ فرمایا لیکن یہ نعمتیں عنقریب ملنے والی ہیں ۔ 

٣٢۔ عبد بن حمید والترمذی وابن مردویہ نے ابوہریرہرہ رضٰ اللہ عنہ سے روایت کیا جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نزل ہوئی تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! کونسی نعمت کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا وہ دو سیاہ چیزیں ہیں کھجور اور پانی اور دشمن سامنے حاضر ہے اور ہماری تلواریں ہماری گردنوں ر ہیں فرمایا بےشک وہ عنقریب ہوں گے یعنی عنقریب تم کو ملیں گی۔ 

٣٣۔ احمد والترمذی وحسنہ وابن ماجہ وابن المنذر وابن مردویہ نے زبیر بن عوام (رض) سے روایت کیا کہ یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی ۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ! کونسی نعمت ہے جس کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا اور بےشک یہ دو دنوں سیاہ چیزیں یعنی کھجور اور پانی ہے ؟ آپ نے فرمایا بےشک وہ عنقریب تم کو ملیں گی۔ 

٣٤۔ الطبرانی وابن مردویہ وابو نعیم نے الحلیہ میں ابن الزبیر (رض) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو زبیر بن عوام (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ! کونسی نعمت کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا اور بےشک یہ دو سیاہ چیزیں یعنی کھجور اور پانی ہے آپ نے فرمایا بےشک وہ عنقریب تم کو ملیں گی۔ 

٣٥۔ عبد بن حمید نے صفوان بن سلیم رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ جب آیت الہکم التکاثر نازل ہوئی اس کے آخر ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم تک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) نے عرض کیا کونسی نعمت سے ہم سے سوال ہوگا؟ بےشک ہمارے پاس دو سیاہ چیزیں یعنی کھجور اور پانی ہے اور ہماری تلواریں ہماری گردنوں پر ہیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےشک وہ عنقریب تم کو ملیں گی ۔ 

٣٦۔ ابو یعلی نے حسن رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ! کونسی نعمت کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا اور ہماری تلواریں ہماری گردنوں پر ہیں ۔ پھر آگے مذکورہ بالا حدیث کو ذکر کیا ۔ 

٣٧۔ احمد فی زوائد الزہد وعبد بن حمید والترمذی وابن جریر وابن حبان وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے پہلے قیامت کے دن جن نعمتوں کے بارے میں بندے سے پوچھا جائے 

دو نعمتوں کی ناقدری
٣٨۔ ہناد وعبد بن حمید والبخاری وابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ ان دونوں میں بہت لوگ غلطی اور خسارے میں رہ جاتے ہیں اور وہ ہیں صحت اور فراغت ۔ 
٣٩۔ ابن جریر نے ثابت بن انی (رض) سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ نعمتیں جن کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا وہ یہ ہیں گوشت سمیت ہڈی جو اس کو قوت دیتی ہے اور وہپانی جو اسے سیراب کرتا ہے اور وہ کپڑا جو اس کی شرم گاہ کو ڈھانپتا ہے ۔ 

٤٠۔ احمد والنسائی وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ وبیہقی نے شعب الایمان میں جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر اور عمر (رض) تشریف لائے ۔ ہم نے ان کو پکی کھجوریں کھلائیں۔ اور ہم نے ان کو پانی کے ساتھ سیراب کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ اس نعمت میں سے ہے جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ 

٤١۔ عبد بن حمید وابن مردویہ والبیہقی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا کہ میرے باپ کے ذمہ ایک یہودی کی کچھ کھجوریں بطور رقرض واجب الادا تھیں میرے والد احد کے دن شہید کردئیے گئے اور دو باغ ترکہ میں چھوڑ گئے ۔ اور یہودی کی کھجوریں دونوں باغوں کی کھجوروں کو محیط تھی ں۔ یعنی دوباغوں کی کھجوریں اس کے قرضے میں پوری نہ ہوتیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی سے فرمایا کیا تیرے لیے ممکن ہے کہ تو اس سال کچھ کھجوریں لے لے اور کچھ آئندہ سال تک موخر کردے؟ یہودی نے انکار کردیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کھجوروں کو توڑنے کا وقت آجائے تو مجھ کو بلالینا چنانچہ میں نے آپ کو اطلاع دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابو بکر اور عمر (رض) کے ہمراہ تشریف لے آئے تو ہم نے کھجوروں کو توڑن اشروع کیا ۔ اور کھجوروں کے درخت کے نیچے یہودی کو وزن کر کے دینے لگے ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت کی دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس کا سارا حق باغوں میں سے چھوٹے باغ سے ہی پورا کردیا ۔ پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کے پاس کھجوریں اور پانی لے آیا توانہوں نے ان میں سے کھایا اور پانی بھی پیا پھر آپ نے فرمایا یہ ہے ان نعمتوں میں سے جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ 

٤٢۔ مسلم وابو داوٗد والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن جریر وابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن باہر تشریف لائے تو اچانک ابوبکر اور عمر (رض) بھی موجود تھے آپ نے اس وقت کس چیز نے تم کو اپنے گھروں سے نکالا عرض کیا یارسول اللہ بھوک نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے بھی اس بھوک نے نکالا جس نے تم کو نکالا سو کھڑے ہوجائے اور اس کھجور کے خوشے میں سے کھایا اور پانی پیا ۔ جب وہ شکم سیر ہوگئے ۔ اور پانی سے بھی سیراب ہوگئے تو اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر اور عمر (رض) سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میری جان ہے تم ضرور اس نعمت کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیے جاؤگے ۔ 

٤٣۔ البزار وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ انہوں نے عمر بن خطاب (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت باہر نکلے تو ابو بکر (رض) کو مسجد میں بیٹھے ہوئے پایا آپ نے پوچھا کس بات نے آپ کو اس وقت گھر سے نکالا تو انہوں نے کہا مجھے اس چیز نے نکالا ہے جس چیز نے آپ کو نکالا ہے یا رسول اللہ! پھر عمر (رض) آگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے ابن خطاب ! اس وقت تجھے کس چیز نے نکالا تو انہوں نے کہا اس چیز نے مجھے نکالا ہے جس چیز نے تم دونوں کو نکالا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارے پاس اتنی طاقت ہے کہ تم دونوں اس درخت تک چل سکو تو تم وہاں کھانے اور پینے کو پاؤگے ۔ دونوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہاں اتنی طاقت ہے ۔ پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم مالک بن التیہمان ابو الہیثم الانصاری (رض) کے گھر آگئے ۔ 

٤٤۔ ابن حبان وابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ ابوبکر (رض) گرمی کی دوپہر میں مسجد کی طرف نکلے عمر (رض) نے سنا تو وہ بھی نکل پڑے اور ابوبکر (رض) نے پوچھا کسی چیز نے اس وقت آپ کو گھر سے نکالا انہوں نے کہا میں اپنے اندر بھوک کی تلخی کو پا رہا ہوں ۔ اسی نے مجھے گھر سے نکالا ہے ۔ عمر (رض) نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھ کو نہیں نکالا مگر بھوک نے وہ اسی حال میں تھے کہ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ۔ اور اور پوچھا اس وقت تم دونوں کو کس چیز نے گھروں سے نکالا ۔ دونوں عرض کیا اللہ کی قسم ہم کو کسی چیز نے باہر نہیں نکالا مگر بھوک کی اس تلخی نے جو ہم اپنے پیٹوں میں پا رہے ہیں یہ سن کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اس کے علاوہ کسی اور چیز نے نہیں نکالا پس وہ کھڑے ہوئے اور ابو ایوب انصاری (رض) کے گھر کی طرف چل دئیے جب اس کے گھر پہنچے اس کی بیوی نے کہا خوش آمدید اے اللہ کے نبی اور آپ کے ساتھ آنے والوں کو ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ابو ایوب (رض) کہاں ہیں ؟ اس کی بیوی نے کہا اے اللہ کے نبی وہ تھوڑی دیر میں آپ کے پاس آجائیں گے ابو ایوب (رض) حاضر خدمت ہوئے اور کھجور کا ایک خوشہ توڑا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تو نے ہمارے لیے اسے کاٹنے کا ارادہ کیا کیا تو نے پھل چن نہیں لیا۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ آپ اس کی خشک وتر اور پکی کھجوریں تناول فرمائیں پھر انہوں نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اس کا اڈھا بھونا اور آدھا پکا لیا۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھا تو آپ نے کچھ گوشت اٹھا کر روٹی پر رکھا اور فرمایا اے ابو ایوب (رض) یہ فاطمہ (رض) کو پہنچا دو کیونکہ اس نے اس طرح کا گوشت کوئی دن سے نہیں پایا۔ ابو ایوب (رض) وہ لے کر فاطمہ (رض) کو دینے چلے گئے ۔ جب ان حضرات نے کھالیا اور شکم سیر ہوگئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روٹی اور گوشت اور کچی اور پکی کھجوریں اور ساتھ ہی آپ کی آنکھیں بہہ پڑیں اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ثم لتسئلن یومئذ یہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ تو آپ کے ساتھیوں پر یہ بات بھاری گذری تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ جب تم ان نعتوں کو پہنچو اور تم اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھاؤ تو کہو بسم اللہ جب تم پیٹ بھرلو تو یوں کہو ۔ الحمدللہ الذی ہو اشبعنا وانعم علینا وافضل فان ہذا کفافا لہا۔ سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارا بیٹ بھردیا اور ہم پر یہ انعام فرمایا اور ہم کو یہ فضیلت عطا فرمائی تو یہ دعا اس کے لیے کافی ہوجائے گی یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا ہوجائے گا۔

٤٥۔ احمد وابن جریر وابن عدی والبغوی فی معجمہ وابن مندہ فی المعرفہ وابن عساکر وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابو عسیب رحمہ اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات کو نکلے میرے پاس سے گذرے اور مجھ کو بلایامیں آپ کی طرف گیا پھر آپ ابوبکر (رض) کے پاس سے گذرے ان کو بلایا تو وہ بھی آپ کی طرف باہر نکلے پھر عمر (رض) کے پاس سے گذرے ان کو بلایا تو وہ بھی باہر آگئے پھر آپ چل پڑے یہاں تک کہ آپ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوگئے ۔ باغ والے سے فرمایا ہم کو کھلاؤ جو کھجور کا ایک خوشہ لے آیا اور آپ کے سامنے رکھ دیا ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے کھایا ۔ پھر آپ نے ٹھنڈا پانی منگوایا اور اس کو پیا۔ اور فرمایا ان نعمتوں کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا عمر (رض) نے اس خوشے کو زمین پر دے مارا یہاں تک کہ کھجوریں بکھرگئیں پھر کہا یارسول اللہ! ہم اس کے بارے میں قیامت کے دن ہم سے پوچھ اجائے گا؟ فرمایا ہاں سوائے تین چیزوں کے روٹی کا وہ ٹکڑا جو آدمی کی بھوک کو روک دے ۔ یا وہ پکڑا جو اس کی شرم گاہ کو چھپادے یا وہ گھر جس میں گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے رہتا ہے

٦۔ ابن مردویہ نے ابو سعید (رض) سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چھوٹی نہر پر تھے ؟ آپ کے پاس کھجوریں اور ٹھنڈا پانی لایا گیا۔ آپ نے کھجوروں میں سے کھایا اور پانی میں سے پیا ۔ پھر فرمایا یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ 

٤٧۔ ابو یعلی وابن مردویہ نے ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلا ایک آدمی کی طرف جس کو واقفی کہا جاتا تھا ۔ اور ہمارے ساتھ عمر (رض) بھی تھے ۔ ایک آدمی کے پاس گئے جو کو واقفی کہا جاتا تھا اس نے بکری ذبح کی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دودھ والی سے بچنا یعنی دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا۔ سو ہم نے ثرید اور گوشت کھایا اور پانی پیا۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تم سے پوچھا نہ جائے گا۔ 

٤٨۔ ابن مردویہ نے ابن عمرر ضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے وقت میں نکلے کہ جس میں آپ نہ نکلا کرتے تھے ۔ پھر ابوبکر (رض) نکلے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا اے ابوبکر! کسی چیز نے تجھ کو نکالا عرض کیا مجھ کو بھوک نے نکالا۔ آپ نے فرمایا مجھ کو بھی اسی چیز نے نکالا جس نے تجھ کو نکالا ۔ پھر عمر (رض) نکلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا اے عمر! تجھے کس چیز نے نکالا؟ عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے بھوک نے نکالا۔ پھر آپ کے صحابہ (رض) میں سے کچھ لوگ اور آگئے ۔ آپ نے فرمایا ہمارے ساتھ ابو الہیثم (رض) کے گھر کی طرف چلو وہاں پہنچے تو اس کی بیوی نے ان سے کہا : وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ پس تم باغ کی طرف چلو چنانچہ اس نے اس نکے لیے باغ کا دروازہ کھولایہ حضرات باغ میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے ۔ اتنے میں ابوالہیثم آگئے ۔ ان کی بویوی نے ان سے کہا کیا تم جانتے ہو تیرے پاس کون آئے ہیں ۔ اس نے کہا نہیں بیوی نے ان سے کہا تیرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی ہیں۔ پس وہ اندر حاضر ہوئے اپنے مشکیزہ کو ایک درخت کے ساتھ لٹکایا پھر چوٹی سے ٹوکری اٹھائی اور آپ کے لیے کھجوروں کا ایک خوشہ لے آئے اور ان کے لیے تر کھجوریں چنیں اور ان کے سامنے آکر انڈیل دیں۔ سب نے یہ کھجوریں کھائیں پھر ان کے لیے ٹھنڈا پانی لائے انہوں نے اس میں سے پیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا یہ چیزیں ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔
بھوک وپیاس کے ستائے تین دوست
٤٩۔ البیہقی نے الدلائل میں ابو الیہثم بن التیہان (رض) سے روایت کیا کہ ابوبکر صدیق (رض) باہر نکلے اچانک عمر (رض) مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کے پاس جا کر ان کو سلام کیا۔ عمر (رض) نے سلام کا جواب دیا ابو بکر (رض) نے ان سے پوچھا اس وقت آپ کو کونسی چیز نے باہر نکالا ۔ عمر (رض) نے ان سے کہا آپ کو اس وقت کس چیز نے نکالا ۔ ابو بکر (رض) نے کہا میں نے آپ سے سوال کیا اس سے پہلے کہ آپ مجھ سے سوال کریں عمر (رض) نے کہا مجھے بھوک نے باہر نکالا اور ابو بکر (رض) نے کہا مجھے بھی اس چیز نے نکالا ہے جس نے آپ کو نکالا ہے یہ حضرات ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے آپ نے ان دونوں کی طرف ارادہ کیا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس ٹھہرے اور ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کو جواب دیا پھر پوچھا اس وقت تم دونوں کو کس چیز نے نکالا ہر ایک کے ان میں سے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا ۔ ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ دوسرا ہی آپ کو باہر آنے کے متعلق بتائے ۔ ابو بکر (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ وہ مجھ پہلے باہر آئے ہیں اور میں اس کے بعد نکلا ہوں ۔ آپ اس سے پوچھیے کہ اس وقت کس چیز نے اس کو نکالا ہے تو میں نے ان سے پوچھا بلکہ تجھے اس وقت کونسی چیز باہر نکال لائی ہے تو انہوں نے جواب دیا بلکہ تم بتاؤ اس وقت تمہارے نکلنے کا سبب کیا ہے میں نے تمہارے سوال سے پہلے تم سے پوچھ لیا ہے پھر انہوں نے کہا مجھے تو بھوک باہر نکال لائی ہے تو میں نے انہیں بتیا کہ مجھے بھی اسی نے نکالا ہے جس کے تم کو نکالا ہے ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا مجھے بھی اس چیز نے نکالا ہے جس نے تم دونوں کو نکالا ہے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی جانتا ہے ہم کس کے مہمان ہوں گے دونوں نے عرض کیا ہاں ابو ہیثم بن التیہا ن کے اس کے کھجوروں سے لدے ہوئے درخت ہیں اور بھیڑ کے بچے بھی ہیں ۔ اگر ہم اس کے پاس گئے تو ہم اس کے پاس اچھی اور وافر کھجوریں پائیں گے چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے ساتھ باغ میں تشریف ائے اور ان کو سلام فرمایا تو ام الہیثم (رض) نے آپ کے سلام کو سن لیا۔ اور عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ اور اس نے بالوں کا اون کا بنا ہوا ایک ٹاٹ بچھا یا ۔ یہ حضرات اس پر بیٹھ گئے ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ابوالہیثم کہاں ہے ؟ اس نے کہا وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے ۔ اور ابوالہیثم اپنے کاندھے پر مشکیزہ رکھے ہوئے آگئے ۔ جب اس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھجوروں کے درمیان دیکھاتو مشکیزہ ایک تنے کے ساتھ رکھ دیا۔ اور آپ کے سامنے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جب انہوں نے اپنے مہمانوں کو دیکھا تو مدی کو پہچان لیا پھر ام الہیثم نے کہا کیا تو نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو کچھ کھلایاہے؟ اس نے کہا ابھی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہیں۔ پھر پوچھا تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے کہا میرے پاس جو کے دانے ہیں اس نے کہا ان کو پیس لے اور گوندھ کر روٹی پکالے ۔ کیونکہ یہ خمیر کو نہیں جانتے یعنی پسند نہیں کرتے۔ راوی نے کہا اس نے چھری اٹھائی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پھیرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا دودھ والی بکری کے ذبح کرنے سے اجتناب کرنا اس نے عرض کیا یارسول اللہ! بےشک میں بکرے کے بچہ کا ارادہ رکھتا ہوں۔ پھر انہوں نے ذبح کیا زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ وہ کھانا تیار کر کے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے کھایا اور شکم سیر ہوگئے ۔ ان کے لیے ان جیسے کھانے کے عوض کوئی ضمانت نہیں تھی ۔ ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یمن سے کچھ قیدی لائے گئے ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ (رض) آپ کے پاس حاضر ہوئیں او اپنے کام کی کثرت اور ہاتھوں کے زخمی ہونے کی شکایت کی آپ سے ایک خادم کا سوال کیا۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ میں تو ابوالہیثم (رض) کو دوں گا کیونکہ میں نے اس کی حالت اور مشقت دیکھی ہے جس سے وہ اور ان کی بیوی اس دن دوچار ہوئے تھے جس دن ہم ان کے مہمان بنے چنانچہ آپ نے ابوالہیثم کو بلایا اور خادم اس کے حوالے کردیا اور فرمایا یہ غلام لے لو تمہارے باغ کے کام میں یہ تمہارا مددگار ہوگا اور اسے خیر اور نیکی کی نصیحت فرماتے رہے ۔ چنانچہ وہ ابوالہیثم کے پاس ٹھہرا جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر آپ نے اسے فرمایا میں اور میری بیوی تو اپنے باغ میں مستقل لگے ہوئے ہیں تو چلا جا تو وہ چلا گیا ۔ اللہ کے سوا تیرا کوئی مالک نہیں ہے (یعنی آزاد کردیا) پس وہ غلام شام کی طرف نکل گیا اور وہیں رہنے لگا۔ 

بے تکلف دوستوں کے ساتھ بےتکلفانہ معاملہ 
٥٠۔ طبرانی نے ابن مسعودر ضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ابو بکر (رض) باہر نکلے اور ان کا سبب فقط بھوک تھا اور عمر (رض) باہر نکلے اور ان کے نکلنے کا سبب بھی صرف بھوک تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کی طرف باہر تشریف لائے ۔ اور ان دونوں حضرات نے ان کو بتایا کہ ان کو نہیں نکالا مگر بھوک نے ۔ آپ نے فرمایا میرے ساتھ چلو انصار میں سے ایک آدمی کے گھر کی طرف ان کو ابو الہیث بن التیمان کہا جاتا ہے جب آپ وہاں پہنچے تو وہ گھر پر نہیں تھے ۔ پانی لینے گئے ہوئے تھے ۔ اس کی بیوی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا ۔ اور ان کے لیے کوئی بچھونا بچھا دیا۔ تو یہ حضرات اس پر بیٹھ گئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا ابو الہیثم کہاں گئے ہیں؟ اس نے کہا ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں تھوڑی دیر گذری تھی کہ وہ مشکیزہ لے کر آئے جس میں پانی تھا۔ اس کو لٹکا دیا اور ان حضرات کے لیے ایک بکری ذبح کرنے اکا ارادہ کیا ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اتنا اچھا نہ سمجھا چنانچہ اس نے بھیڑ کا بچہ ذبح کردیا پھر گئے اور کھجور کے خوشے لے آئے۔ ان حضرات نے اس میں سے گوشت اور خشک اور تر کھجوریں کھائیں۔ اور پانی پیا ان میں سے کسی ایک نے عرض کیا ابوبکر (رض) نے یا عمر (رض) نے کیا یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن پر کوئی چیز قبیح نہیں ہوگی ۔ جو بھی اسے دنیا میں پہنچتی ہے اور بےشک یہ کافر پر ثقیل اور قبیح ہوگی۔ 

٥١۔ ابن مردویہ نے کلبی رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیہم کی تفسیر کی بارے میں پوچھا گیا انہوں نے فرمایا یہ کفار کے لیے ہے آیت واذہبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا (الاحقاف آیت ٢٠) تم اپنا حصہ پاک چیزوں میں سے اپنی دنیا کی زندگی میں لے چکے ۔ یہ شق یہ بھی کفارکے لیے ہے ۔ راوی نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر (رض) سب گھر سے نکلے اور وہ کہہ رہے تھے مجھ کو تو بھوک نے نکالا ہے ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کو لے کر انصار کے ایک آدمی طرف گئے ۔ جس کو ابوالہیثم کہا جاتا تھا ۔ آپ نے اسے اپنے گھر پر نہ پایا اس کی بیوی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا اور ایک بچھونا جس پر یہ حضرات بیٹھ گئے ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ابوالہیثم (رض) کہاں گئے ہیں۔ بیوی نے کہا وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں ۔ تھوڑی دیر میں وہ پانی کا مشکیزہ لے کر آگئے اور اس کو لٹکا دیا اور مہمانوں کے لیے بکری کا بچہ ذبح کیا پھر گئے اور کھجوروں کے گچھے لے کر آئے ۔ پس ان حضرات نے گوشت سے اور خشک وتر کھجوریں کھائیں اور پانی میں سے پیا۔ پھر حضرات ابوبکر وعمر (رض) میں سے کسی ایک نے کہا کیا یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےشک کفار سے پوچھا جائے گا اور مومن کے لیے کوئی چیز بھی قبیح نہیں ہوگی۔ جو اس کو دنیا میں پہنچی اور کافر کے لیے قبیح اور اس پر بوجھ ہوگی۔ پوچھا گیا تجھے یہ کس نے حدیث بتائی ہے اس نے جواب دیا کہ یہ حدیث حضرت شعبی نے حضرت حارث کے واسطہ سے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی۔ 

٥٢۔ احمد نے الزہد میں عامر رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر اور عمر (رض) نے گوشت ، روٹی ، جو ، پکی کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا۔ پھر فرمایا اور تمہارے رب کی قسم یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ 

٥٣۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ نہ نے عرض کیا یارسول اللہ! کونسی نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں اور ساری زمین ہمارے لیے جنگ کا میدان ہے ۔ ہم میں سے ہر کوئی اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے پاس صبح کا کھانا نہیں ہوتا اور اس حال میں شام کرتا ہے کہ اس کے پاس شام کا کھانا نہیں ہوتا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے بعد قوم ہوگی۔ تم ان سے بہتر ہو ان کے پاس صبح کے وقت بھی کھانے کے بڑے بڑے پیالے ہوں گے اور شام کے وقت بھی وہ صبح بھی محلوں میں کریں گے اور شام کے وقت بھی محلوں میں واپس لوٹیں گے ۔ اور اپنے گھروں میں روپوش ہوجائیں گے جیسا کہ کعبہ کو چھپایا جاتا ہے اور ان میں موٹاپا عام ہوگا۔ 

٥٤۔ ابن مردویہ نے انس بن مالک (رض) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم نازل ہوئی تو ایک محتاج آدمی کھڑا ہوا اس نے کہا یارسول اللہ! مجھ پر نعمت میں سے کوئی چیز ہے ؟ فرمایا ہاں سایہ یعنی مکان اور جوتا اور ٹھنڈا پانی ۔ 

٥٥۔ خطیب (رح) وابن عساکر نے ابن عباس (رض) سے آیت ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم کے بارے میں روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چمڑا ٹھنڈا پانی اور روٹی کے ٹکڑے ان نعمتوں میں سے ہیں ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اخصاف سے مراد ہے جوتوں کا چمڑا ۔ 

٥٦۔ البزار نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کچھ لباس سے زائد ہے اور دیوار کا سایہ اور روٹی ان سب کے بارے میں بندے سے حساب لیا جائے گا قیامت کے دن اور ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 

٥٧۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں حسن (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں بندے سے حساب نہیں لیا جائے گا۔ لکڑی کی جھونپڑی کا سایہ کہ جس کے ذریعہ وہ سایہ حاصل کرتا ہے اور روٹی کا ٹکڑا جس کے ذریعہ وہ اپنی پیٹھ کو باندھتا ہے اور وہ کپڑا جس کے ذریعہ وہ اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہے ۔ 

٥٨۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں سلمان (رض) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ تورات میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم ایک روٹی کا ٹکڑا تجھ کو کافی ہے اور کپڑے کا ایک ٹکڑا تجھ کو ڈھانپ سکتا ہے اور ایک گھر تجھ کو پناہ دے سکتا ہے ۔ 

٥٩۔ احمد نے الزہد میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی سے فقراء المہاجرین میں سے کسی نے سوال کیا؟ اس نے کہا کیا تیری بیوی ہے جس کے پاس تو پناہ لیتا ہے اور وہ تیرے پاس پناہ لیتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں پھر پوچھا کیا تیرا گھر ہے کہ جس میں تو رہتا ہے اس نے کہا ہاں۔ فرمایا پھر تو فقراء المہاجرین میں سے نہیں ہے ۔ 

٦٠۔ احمد نے زہد میں حضرت عثمان بن عفان (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھر کی چھت، روٹی کے ٹکڑے اور ایسا کپڑا کے جو اس کی شرم گاہ ڈھانپ سکتا ہو۔ اور پانی کے سوا ہر چیز اور جو بھی اس سے زائد ہے ان میں ابن آدم (یعنی انسان) کا کوئی حق نہیں۔

٦١۔ احمد وابن ماجہ والحکیم والترمذی فی نوادر الاصول وابن مردویہ نے معاذ بن عبداللہ الجہنی سے روایت کیا اور وہ اپنے والد اور اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے ۔ اور آپ رپ غسل کا اثر تھا ۔ اور آپ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے ۔ ہم نے گمان کیا کہ آپ اپنی اہلیہ کے پاس اترے اور ٹھہرے ہیں۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم آپ کو خوش باش دیکھتے تہیں۔ فرمایا ہاں اور ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ پھر آپ سے غنا کا ذکر فرمایا اور فرمایا دولت اور غنا کا کوئی ہرج نہیں اس شخص کے لیے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو ۔ اور ڈرنے والے کے لیے صحت غنا سے بہتر اور افضل ہے ۔ اور طیب نفس یعنی دن کی خوشی بھی نعمت ہے ۔ 

٦٢۔ عبد بن حمید نے عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب (رض) ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جو جذامی اندھابہرہ اور گونگا تھا۔ تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کیا تو اس پر اللہ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت دیکھ رہے ہو؟ ساتھیوں نے کہا نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کیوں نہیں کیا تم اس کو نہیں دیکھ رہے کہ وہ پیشاب کرتا ہے نہ تو پیشاب اس کے اختیار کے بغیر خود بخود نکلنا شروع ہوجاتا ہے اور نہ ہی پیشاب کے وقت اسے کوئی زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے بلکہ وہ بڑی اصانی اور سہولت کے ساتھ خارج ہوتا ہے ۔ پس یہی اللہ کی نعمت ہے ۔ 

٦٣۔ عبد بن حمید نے حسن رحمہ اللہ سے روایت کیا اے اللہ کی نعمت سے غافل ہونے والے تو لذت سے کھاتا ہے اور آسانی سے نکال دیتا ہے تحقیق اس گاؤں کے سرداروں میں سے ایک سردار تھا اس نے اپنے غلاموں میں سے ایک غلام کو دیکھا کہ وہ باغ میں آتا ہے تو غمزدہ ہوجاتا ہے پھر وہ کھڑے کھڑے اونٹ کی طرح بلبلانے لگتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اے کاش مجھ سے تیری طرح نہیں پیا جائے گا۔ یہاں تک کہ پیاس اس کی گردن کو کاٹ دے گی۔ اور جب وہ پئے گا تو اس کے پینے میں اس کے لیے کئی موتیں ہیں۔ اے نعمت سے غافل رہنے والے ! تو لذت سے کھاتا ہے اور آسانی سے نکال دیتا ہے ۔ 

٦٤۔ ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود (رض) سے وایت کیا کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین رجسٹروں (یعنی اعمال ناموں) کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ اک رجسٹر میں نیکیاں ہوں گے ۔ اور دوسرے میں نعمتیں ہوں گی۔ اور تیسرے رجسٹر میں برائیں ہوں گی۔ پس نعمتوں کے رجسٹرکے مقابل نیکیوں کے رجسٹر کو رکھا جائے گا جس کے نتیجہ میں نعمتیں ، نیکیوں کو ختم کردیں گی اور برائیاں باقی رہ جائیں گی تو ان کی مشیت اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اگر وہ چاہے تو عذاب دے اور اگر وہ چاہے تو بخش دے ۔ 

٦٥۔ ابن ابی شیبہ نے بکیر بن عتیق رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ میں نے سعید بن جبیر کو شہد کا شربت پلایا ایک پیالے میں انہوں نے اس کو پی لیا پھر فرمایا اللہ کی قسم میں ضرور اس کے بارے میں پوچھا جاؤں گا۔ میں نے ان سے کہا تو فرمایا میں نے اس کو پیا ہے اور میں نے اس سے لذت حاصل کی ہے ۔









تفسیر امام ابن کثیرؒ(م774ھ)

مال و دولت اور اعمال :
ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے پا لینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کردیا تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آ گئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کرلی اور مرتے دم تک غفلت برتی (ابن ابی حاتم) حسن بصری فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں ہم لو کان لابن ادم واد من ذھب یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کرسونا ہو اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے یہاں تک کہ الھا کم التکاثر نازل ہوئی مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن شخیر (رض) فرماتے ہیں میں جناب رسول اللہ صلی اللہ کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال صر فوہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا صحیح مسلم شریف میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا بخاری کی حدیث میں ہے میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے گھر والے مال اور اعمال اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے مسند احمد کی حدیث میں ہے ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ حضرت صحاک نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے؟ اس نے کہا میرا فرمایا تیرا تو اس وقت ہوگا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کرے حضرت احنف نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا
انت للمال اذا امسکتہ فاذا انفقتہ فالمال لک
یعنی جب تک تو مال کو لیے بیٹھا ہے تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کردے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہو جائیگا ابن بریدہ فرماتے ہیں بنو حارثہ اور بنو حارث انصار کے قبیلے والے اپنے میں سے ایسوں کو پیش کرتے تھے جب زندوں کے ساتھ یہ فخر و مباہات کر چکے تو کہنے لگے آؤ قبرستان میں چلیں وہاں جا کر اپنے اپنے مردوں کی قبروں کی طرف اشارے کر کے کہنے لگے بتاؤ اس جیسا بھی تم میں کوئی گذرا ہے وہ انہیں اپنے مردوں کے ساتھ الزام دینے لگے اس پر یہ دونوں ابتدائی آیتیں اتریں کہ تم فخرو مباہات کرتے ہوئے قبرستان میں پہنچ گئے اور اپنے اپنے مردوں پر بھی فخر و غرور کرنے لگے چاہے تھا کہ یہاں آ کر عبرت حاصل کرتے اپنا مرنا اور سڑنا گلنا یاد کرتے ۔ حضرت قتادہ رحملہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی زیادتی اور اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک ایک ہو کر قبروں میں پہنچ گئے مطلب یہ ہے کہ بہتات کی چاہت نے غفلت میں ہی رکھا یہاں تک کہ مر گئے اور قبروں میں دفن ہوگئے صحیح حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اعرابی کی بیمار پرسی کو گئے اور حسب عادت فرمایا کوئی ڈر خوف نہیں انشاء اللہ گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہوگی تو اس نے کہا آپ اسے خوب پاکا بتلا رہے ہیں یہ تو وہ بخار ہے جو بوڑھے بڑوں پر جوش مارتا ہے اور قبر تک پہنچا کر رہتا ہے آپ نے فرمایا اچھا پھر یوں ہی سہی اس حدیث میں بھی لفظ تزیرہ القبور ہے اور یہاں قرآن میں بھی زرتم المقابر ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مر کر قبر میں دفن ہونا ہی ہے ترمذی میں ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب تک یہ آیت نہ اتری ہم عذاب قر کے بارے میں شک میں ہی ررہے یہ حدیث غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس آیت کی تلاوت کی پھر کچھ دیر سوچ کر فرمانے لگے میمون! قبروں کا دیکھنا تو صرف بطور زیارت ہے اور ہر زیارت کرنے والا اپنی جگہ لوٹ جاتا ہے یعنی خواہ جنت کی طر فخواہ دوزخ کی طرف ایک اعرابی نے بھی ایک شخص کی زبانی ان دونوں آیتوں کی تلاوت سن کر یہی فرمایا تھا کہ اصل مقام اور ہی ہے پھر اللہ تعالیٰ دھمکاتے ہوئے دو دو مرتبہ فرماتا ہے کہ حقیقت حال کا علم تمہیں ابھی ہو جائیگا یہ مطلب یھ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے مراد کفار ہیں دوبارہ مومن مراد ہیں پھر فرماتا ہے کہ اگر تم علم یقینی کے ساتھ اسے معلوم کرلیتے یعنی اگر ایسا ہوتا تو تم غفلت میں نہ پڑتے اور مرتے دم تک اپنی آخری منزل آخرت سے غافل نہ رہتے پھر جس چیز سے پہلے دھمکایا تھا اسی کا بیان کر رہا ہے کہ تم جہنم کو انہی ان آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس کی ایک ہی جنبش کے ساتھ اور تو اور انبیاء علیہم السلام بھی ہیبت و خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے اس کی عظمت اور دہشت ہر دل پر چھائی ہوئی ہوگی جیسے کہ بہت سی احادیث میں بہ تفصیل مروی ہے پھر فرمایا کہ اس دن تم سے نعمتوں کی بازپرس ہوگی صحت امن رزق وغیرہ تمام نعمتوں کی نسبت سوال ہوگا کہ ان کا شکر کہاں تک ادا کیا ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ ٹھیک دوپہر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر سے چلے دیکھا تو حضرت ابو بکر (رض) بھی مسجد میں آ رہے ہیں پوچھا کہ اس وقت کیسے نکلے ہو کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز نے آپ کو نکالا ہے اسی نے مجھے بھی نکالا ہے اتنے میں حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی آ گئے ان سے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی سوال کیا اور آپ نے بھی یہی جواب دیا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں بزرگوں سے باتیں کرنی شروع کیں پھر فرمایا کہ اگر ہمت ہو تو اس باغ تک چلے چلو کھانا پینا مل ہی جائیگا اور سائے دار جگہ بھی ہم نے کہا بہت اچھا پس آپ ہمیں لے کر ابو الہیشم انصاری (رض) کے باغ کے دروازہ پر آئے آپ نے سلام کیا اور اجازت چاہی ام ہیثم انصاریہ دروازے کے پیچھے ہی کھڑی تھیں سن رہی تھیں لیکن اونچی آواز سے جواب نہیں دیا اور اس لالچ سے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور زیادہ سلامی کی دعا کرئیں اور کئی کئی مرتبہ آپ کا سلام سنیں جب تین مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلام کر چکے اور کوئی جواب نہ ملا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس چلے دئیے اب تو حضرت ابو الہیشم کی بیوی صاحبہ دوڑیں اور کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کی آواز سن رہی تھی لیکن میرا ارادہ تھا کہ اللہ کرے آپ کئی کئی مرتبہ سلام کریں اس لیے میں نے اپنی آواز آپ کو نہ سنائی آپ آئیے تشریف للے چلئے آپ نے ان کے اس فعل کو اچھی نظروں سے دیکھا پھر پوچھا کہ خود ابو الہیشم کہاں ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ بھی یہیں قریب ہی پانی لینے گئے ہیں آپ تشریف لائیے انشاء اللہ آتے ہی ہوں گے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باغ میں رونق افروز ہوئے اتنے میں ہی حضرت ابو الہیشم بھی آ گئے بیحد خوش ہوئے آنکھوں ٹھنڈک اور دل سکون نصیب ہوا اور جلدی جلدی ایک کھجور کے درخت پر چڑھ گئے اور اچھے اچھے خوشے اتار اتار کر دینے لگے یہاں تک کہ خود آپ نے روک دیا صحابی نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گدلی اور تر اور بالکل پکی اور جس طرح کی چاہیں تناول فرمائیں جب کھجوریں کھا چکے تو میٹھا پانی لائے جسے پیا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے ابن جریر کی اسی حدیث میں ہے کہ ابو بکر عمر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور پوچھا کہ یہاں کیسے بیٹھے ہو؟ دونوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھوک کے مارے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بھی اسی وجہ سے اس وقت نکلا ہوں اب آپ انہیں لے کر چلے اور ایک انصری کے گھر آئے ان کی بیوی صاحبہ مل گئیں پوچھا کہ تمہارے میاں کہاں گئے ہیں ؟ کہاں گھر کے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں اتنے میں تو وہ مشک اٹھائے ہوئے آہی گئے خوش ہوگئے اور کہنے لگے مجھ جیسا خوش قسمت آج کوئی بھی نہیں جس کے گھر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ہیں مشک تو لٹکا دی اور خود جا کر کھجوروں کے تازہ تازہ خوشے لے آئے آپ نے فرمایا چن کر الگ کر کے لاتے تو جواب دیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے چاہا کہ آپ اپنی طبیعت کے مطابق اپنی پسند سے چن لیں اور نوش فرمائیں پھر چھری ہاتھ میں اٹھائی کہ کوئی جانور ذبح کر کے گوشت پکائیں تو آپ نے فرمایا دیکھو ودھ دینے والے جانور ذبح نہ کرنا چنانچہ اس نے ذبیحہ کیا آپ نے وہیں کھانا کیا پھر فرمانے لگے دیکھو بھوکے گھر سے نکلے اور پیٹ بھرے جا رہے ہیں یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد غلام حضرت ابو عسیب کا بیان ہے کہ رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے آواز دی میں نکلا پھر حضور ابو بکر کو بلایا پھر حضرت عمر کو بلایا پھر کسی انصاری کے باغ میں گئے اور اس سے فرمایا لاؤ بھائی کھانے کو دو وہ انگور کے خوشے اٹھا لائے اور آپ کے سامنے رکھ دئیے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھائے پھر فرمایا ٹھنڈا پانی پلواؤ وہ لائے آپ نے پیا پھر فرمانے لگے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی حضرت عمر نے وہ خوشہ اٹھا کر زمین پر دے مارا اور کہنے لگے اس کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں پرسش ہوگی۔ آپ نے فرمایا ہاں صرف تین چیزوں کو تو پرسش نہیں ۔ پردہ پوشی کے لائق کپڑا بھوک روکنے کے قابل ٹکڑا اور سردی گرمی میں سرچھپانے کے لیے مکان (مسند احمد) کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھ کر سنائی تو صحابہ کہنے لگے ہم سے کس نعمت پر سوال ہوگا ؟ کھجوریں کھا رہے ہیں اور پانی پی رہے ہیں تلواریں گردنوں میں لٹک رہی ہیں اور دشمن سر پر کھڑا ہے آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں عنقریب نعمتیں آ جائیں گی حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھو متقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی اللہ کی نعمت ہے (مسند احمد) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی شریف میں ہے نعمتوں کے سوال میں قیامت والے دن سب سے پہلے یہ کہا جائیگا کہ ہم نے تجھے صحت نہیں دی تھی اور ٹھنڈے پانی سے تجھے آسودہ نہیں کیا کرتے تھے؟ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ اس آیت ثم لتسئلن الخ کو سنا کر صحابہ کہنے لگے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تو جو کی روٹی اور وہ بھی آدھا پیٹ کھا رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ کیا تم پیر بچانے کے لیے جوتیاں نہیں پہنتے اور کیا تم ٹھنڈے پانی نہیں پیتے؟ یہی قابل پرسش نعمتیں ہیں اور روایت میں ہے کہ امن اور صحت کے بارے میں سوال ہوگا پیٹ بھر کھانے ٹھنڈے پانی سائے دار گھروں میٹھی نیند کے بارے میں بھی سوال ہو گا۔ شہد پینے لذتیں حاصل کرنے صبح و شام کے کھانے، گھی شہد اور میدے کی روٹی وغیرہ غرض ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہوگا حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت کانوں اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں بھی سوال ہوگا کہ ان طاقتوں سے کیا کیا کام کیے جیسے قرآن کریم میں ہے ان اسلمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا ہر شخص سے اس کے کان اس کی آنکھ اور اس کے دل کے بارے میں بھی پوچھ ہوگی لوگ بہت ہی غفلت برت رہے ہیں صحت اور فراغت یعنی نہ تو ان کا پورا شکر ادا کرتے ہیں اور ان کی عظمت کو جانتے ہیں نہ انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق صرف کرتے ہیں بزار میں ہے تہ بند کے سوا سائے دار دیواروں کے سوا اور روٹی کے ٹکڑے کے سوال ہر چیز کا قیامت کے دن حساب دینا پڑے گا مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم میں نے تجھے گھوڑوں پر اور اونٹوں پر سوار کرایا عورتیں تیرے نکاح میں دیں تجھے مہلت دی کہ تو ہنسی خوشی آرام و راحت سے زندگی گزارے اب بتا کہ اس کا شکریہ کہاں ہے؟ اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ تکاثر کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمدللہ۔
[تفسیر ابن کثیر]




تفسیر امام قرطبیؒ (م671ھ)

 أَلْهَىٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ 0 حَتَّىٰ زُرْتُمُ ٱلْمَقَابِرَ 0
ترجمہ:
غافل رکھا تمہیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے ۔

اس میں پانچ مسائل ہیں :

لغوی تشریح اور شان نزول :
مسئلہ نمبر ١ : الھکم التکاثر ۔ تمہیں غافل کردیا ۔ فالھیتھا عن ذی تمائم مغیل میں نے اسے مکمل سال کے بچے جو دودھ پیتا تھا سے غافل کردیا ۔ آیت کا معنی یہ ہے مال اور تعداد کی کثرت پر فخر و مباہات نے تمہیں اللہ کی طاعت سے غافل کردیا ہے ، یہاں تک کہ تم مر گئے اور قبروں میں دفن کردیئے گئے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ؛ الھکم کا معنی ہے تمہیں بھلا دیا ۔ التکاثر یعنی اموال اور اولاد کی کثرت پر فخر کرنا ۔ یہ حضرت ابن عباس اور حضرت حسن بصری کا قول ہے ۔ قتادہ نے کہا : قبائل پر فخر کرنا ، ضحاک نے کہا ؛ معاش اور تجارت پر فخر نے تمہیں غافل کردیا ۔ یہ جملہ کہا جاتا ہے ؛ لھیت عن کذا ، الھی لھیا ولھیانا ۔ جب تو اسے بھول جائے ، اسے ترک کدے اور اس سے اعراض کرے ۔ الھاہ اسے غافل کردے ۔ لھاہ بہ تلھیۃ اسے مشغول کردیا ۔ تکاثر کا معنی کثرت میں مقابلہ کرنا ۔ مقاتل ، قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا ؛ یہ یہودیوں کے حق میں بات نازل ہوئی ، ۔ جب انہوں نے کہا ؛ ہم بنی فلاں سے زیادہ ہیں ۔ بنی فلاں ، بنی فلاں سے زیادہ نہیں انہیں اس چیز نے غافل کردیا یہاں تک کہ وہ گمراہی میں مرگئے ۔ ابن زید نے کہا : یہ انصار کے ایک خاندان کے بارے میں نازل ہوئی ۔ حضرت ابن ع باس ، مقاتل اور کلبی نے کہا : یہ قریش کے دو قبیلوں کے بارے میں نازلہوئی جو بنو عبد مناف اور بنو سہم تھے ۔ انہوں نے دور اسلام میں سرداروں اور اشراف کے اعتبار سے باہم گنتی کی اور فخر و مباہات کیا ۔ ہر ایک خاندان نے کہا : ہم سے ایک زیادہ سردار رکھتا ہے ، غلبہ رکھتا ہے ، تعداد زیادہ رکھتا ہے اور پناہ دینے والا زیادہ رکھتا ہے تو بنو عبد مناف ، بنو سہم پر غالب آگئے پھر انہوں نے مردوں کا شمار کیا تو بنو سہم ان پر غالب رہے ۔ تو یہ آیات نازل ہوئیں کہ تم نے زندوں کے ساتھ باہم کثرت کا مقابلہ کیا تو تم راضی نہ ہوئے یہاں تک کہ تم مردوں کے ساتھ فخر کرنے تک جا پہنچے ۔ 

سعید نے قتادہ سے یہ روایت نقل کی ہے وہ کہا کرتے تھے : ہم بنی فلاں سے زیادہ ہیں ، ہم بنی فلاں سے زیادہ تعداد والے ہیں ۔ اس میں سے ہر روز کوئی نہ کوئی کم ہوتا رہا اللہ کی قسم ! وہ اسی طرح رہے ، یہاں تک کہ وہ سارے کے سارے اہل قبور میں سے ہوگئے ۔ عمرو بن دینار سے مروی ہے : انہوں نے قسم اٹھائی کہ یہ تاجروں کے بارے میں نازل ہوئی ۔ شیبان نے قتادہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ۔

میں کہتا ہوں : جو اقوال ذکر کیے گئے ہیں آیت انہیں اور غیر کو بھی عام ہے ۔ صحیح مسلم میں مطرف سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ الھکم التکاثر پڑھ رہے تھے فرمایا انسان کہتا ہے مالی مالی وھل لک یا ابن آدم من مالک الا ما اکلت فافنیت او لبست فابلیت او تصدقت فامضیت وما سوی ذلک فذاھب و تارکہ للناس ۔ میرا مال ، میرا مال اے انسان ! تیرا مال نہیں مگر جو تو نے کھالیا تو نے اسے فنا کردیا یا پہن لیا تو نے اسے بوسیدہ کرنا یا صدقہ کردیا تو آگے بھیج دیا اس کے سوا سب جانے والے ہے اور اسے لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے ۔

بخاری نے ابن شہاب سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت انس بن مالک نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : لو ان لابن آدم وادیا من ذھب لاحب ان یکون لہ وادیان ولن یملا فاہ الا التراب و یتوب اللہ علی من تاب ۔ اگر انسان کی سونے کی ایک وادی ہو تو وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دو وادیاں ہوں مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا منہ نہیں بھر سکتی اللہ تعالی جس پر چاہتا ہے نظر رحمت فرماتا ہے ۔
ثابت نے انس سے انہوں نے حضرت ابی سے یہ قول نقل کیا ہے : ہم اسے قرآن کا حصہ خیال کرتے ہیں یہاں تک کہ الھکم التکاثر سورت نازل ہوئی ۔ ابن عربی نے کہا : یہ صحیح اور عمدہ نص ہے اہل تفسیر سے غائب رہی وہ خود بھی جاہل رہے اور دروسروں کو بھی جہالت میں رکھا اللہ تعالی کے لیے حمد ہے جس نے اس کی معرفت نصیب فرمائی ۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا : نبی کریم نے یہ سورت پڑھی فرمایا : تکاثر اموال کا مطلب ہے ناحق اسے جمع کرنا ، اس کے حق کو روک لینا اور برتنوں میں اسے باند کر رکھنا ۔

زیارت مقابر کا معنی و مفہوم :
مسئلہ نمبر 2: حتی زرتم المقابر ۔ یہاں تک کہ تمہیں موت آ پہنچی تو تم قبروں میں زائر کی طرح ہوگئے تم ان سے لوٹو گے جس طرح زائر اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے وہ گھر جنت ہو یا جہنم ہو ، جو آدمی فوت ہوجاتا ہے اس کے لیے یہ جملہ بولتے ہیں : قد زار قبرہ ۔

ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے تعداد کی کثرت پر باہم فخر نے تمہیں غافل کردیا یہاں تک کہ تم نے مردوں کو شمار کیا ۔ جس طرح پہلے گزر چکا ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ وعید ہے یعنی تم دنیا کے مفاخر میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت کرنے لگے تو اللہ کا عذاب تم پر نازل ہوگا وہ تم ضرور دیکھو گے ۔

مقابر کی لغوی تشریح :
مسئلہ نمبر 3: مقابر ، مقبرہ اور مقبرہ کی جمع ہے جس کا معنی قبریں ہیں ۔ شاعر نے کہا :
اری اھل القصور اذا امیتوا ۔ ۔ ۔ بنوا فوق المقابر بالصخور
ابوا الا مباھاۃ و فخرا ۔ ۔ ۔ علی الفقراء حتی فی القبور
میں محلات والوں کو دیکھتا ہوں جب وہ مرتے ہیں تو وہ قبروں پر بڑے بڑے پتھر لگاتے ہیں ۔ انہوں نے یہ عمل فقرا پر فخر و مباہات کے لیے کیا یہاں قبروں میں بھی یہی طرز عمل اپنایا ۔
ایک شاعر نے کہا :
لکل اناس مقبر بفنائھم ۔ ۔ ۔ فھم ینقصون والقبور تزید
تمام انسانوں کے لیے ان کے اپنے اپنے میدانوں میں قبرستان ہیں لوگ کم ہورہے ہیں اور قبریں زیادہ ہورہی ہیں ۔

ابو سعید مقبری کے لیے دونوں طرح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مقبری اور مقبری ، وہ قبرستان میں رہا کرتے تھے ۔ قبرت المیت اقبرہ ، اقبرہ قبرا ، یعنی میں نے اسے دفن کیا ۔ اقبرتہ یعنی میں نے اسے دفن کرنے کا حکم دیا ۔ اس بارے میں گفتگو سورہ عبس میں گزر چکی ہے ۔

زیارت قبور کی شرعی حیثیت اور اس کے فوائد :
مسئلہ نمبر 4: قرآن حکیم میں مقابر ذکر صرف اس سورت میں ہوا ہے قبروں کی زیارت سخت دل والے کے لیے زبردست دوا ہے کیونکہ یہ عمل موت اور آخرت کی یاد دلا تا ہے یہ چیز انسان کی امیدیں کم رکھنے ، دنیا میں زہد اختیار کرنے اور اس میں رغبت کی کمی پر بر انگیختہ کرتا ہے ۔ نبی کریم کا فرمان ہے : کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروا القبور فانھا تذھد فی الدنیا وتذکر الاخرۃ۔ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا اب قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ چیز دنیا میں زہد پیدا کرتی ہے اور موت کی یاد دلاتی ہے ؛ اسے حضرت ابن مسعود نے روایت کیا ابن ماجہ نے اسے نفقل کیا ہے ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث ہے : یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے ۔ ترمذی میں حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اس میں حضرت ابوہریرہ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں میں لعنت کی ہے ، کہا : اس باب میں حضرت ابن عباس اور حضرت حسان بن ثابت سے روایت مروی ہے ۔ ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ عورتوں پر لعنت والا حکم اس سے قبل کا ہے جس میں رسول اللہ نے قبروں کی زیارت کی رخصت دی ۔ جب حضور نے رخت دی تو اس رخصت میں مرد اور عورتیں شامل ہوگئیں ۔ بعض علماء نے کہا : عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت اس لیے مکرو ہے کیونکہ وہ کم صبر والی اور زیادہ جزع فزع کرنے والی ہوتی ہیں ۔

عورتوں کے لیے زیارت قبور کا حکم :
میں کہتا ہوں : مردوں کے لیے قبروں پر جانا جائز ہے ، یہ متفق علیہ حکم ہے ۔ عورتوں کے بارے میں مختلف فیہ ہے ۔ جہاں تک نوجوان بچیوں کا تعلق ہے ان کے لیے باہر نکلنا حرام ہے جہاں تک گھروں میں بیٹھ رہنے والی عورتوں یعنی جن کی عمر ڈھل چکی ہو ان کے لیے مباح اور جائز سب کے لیے ہے یہ اس وقت ہوگا جب وہ مردوں سے الگ ہوکر نکلیں اس میں انشاء اللہ کوئی اختلاف نہیں اس تاویل کی بنا پر رسول اللہ کا ارشاد دورو القبور عام ہوگا جہاں تک ایسی جگہ یا وقت کا تعلق ہے جس جگہ مردوں اور عورتوں کے جمع ہونے سے فتنہ کا خوف ہو تو پھر حلال اور جائز نہیں ۔ اس اثنا میں کہ ایک آدمی نکلتا ہے اس کا مقصود عبرت ہوتا ہے تو اس کی نظر کسی عورت پر جا پڑتی ہے تو وہ فتنہ میں جا پڑتا ہے اور اس کے برعکس بھی صورتحال ہوسکتی ہے کہ مرد اور عورت میں سے ایک گناہگار ہوگا ماجور نہیں ہوگا ۔

دل کے علاج کا نسخہ اور زیارت قبول کے وقت کیا نیت اور ارادہ ہو تو یہ عمل نفع بخش بنتا ہے :

مسئلہ نمبر 5: علماء نے کہا : جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اور ظلم و قہر کی زنجیروں سے آزاد ہوکر اپنے رب کی طاعت کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ لذات کو ختم کرنے والی ، جماعتوں ں کو جدا کرنے والی ، بیٹوں اور بیٹیوں کو یتیم کرنے والی کا ذکر کثرت سے کرے جو لوگ موت و حیات کی کشمکش میں ہیں ان کی ملاقات پر مواظبت اختیار کرے اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت میں ہمیشگی اختیار کرے ۔ یہ تین امور ہیں جس آدمی کا دل سخت ہو ، گناہ اس کی اپنی گرفت میں لے چکا ہو تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف اس سے مدد لے اور شیطان اور اس کے دوستوں کے فتنوں کے خلاف ان سے مدد لے اگر موت کا ذکر کثرت سے کرنے سے اس نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کے دل کی سختی چھٹ گئی تو یہی اس کا مقصود ہے اگر اس پر دل کا میل بڑھ گیا اور گناہ کے اسباب مستحکم ہوگئے تو موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کے پاس جانا اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کرنا ان گناہوں کو دور کرنے میں وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک پہلی صورت نہ پہنچ پائی تھی ۔ کیونکہ کوت کا ذکر دل کے لیے ایک خبر ہے جس کی طرف اس کا ٹھکانہ ہے اور یہ اسے خبردار کرنے کے قائم مقام ہے ۔ جو آدمی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اس کے پاس جانا اور مسلمانوں میں سے جو کوئی مرچکا ہے اس کی قبر کی زیارت کرنا یہ آنکھوں سے مشاہدہ ہے اس وجہ سے دوسری صورت پہلی سے زیادہ موثر ہے رسول اللہ کا ارشاد ہے : لیس الخبر کالمعاینۃ خبر آنکھوں دیکھی چیز جیسی نہیں ہوتی ۔ اسے حضرت ابن عباس نے روایت کیا ہے ۔ جو لوگ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اس کا علاج بعض اوقات ایک لمحے میں نہیں ہوپاتا ، جہاں تک زیارت قبول کا تعلق ہے تو اس کا وجود یعنی اثر بہت تیز ہوتا ہے اور ان سے نفع حاصل کرنا زیادہ مناسب اور موزوں ہوتا ہے ۔ جو آدمی قبروں کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے اس کے لیے مناسب یہ ہے وہ اس کے آداب اپنائے ، آتے وقت اس کا دل حاضر ہو اس کے پیش نظر صرف قبر کی زیارت نہ ہو کیونکہ یہ تو صرف اس کی ایسی حالت ہے جس میں حیوان بھی اس کے ساتھ شریک ہیں ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہ یں ، بلکہ اس کے پیش نظر اللہ تعالی کی رضا اور اپنے فاسد دل کی اصلاح ہونی چاہیے ۔ یا میت کو نفع پہنچانے کا ارادہ ہونا چاہیے جو زیارت کرنے والا اس کے پاس قرآن پڑھے گا ، دعا کرے گا ، قبروں کے اوپر چلنے اور ان پر بیٹھنے سے اجتناب کرے جب قبرستان میں داخل ہو تو وہ انہیں سلام کرے جب وہ اپنے میت کی قبر تک پہنچے جسے وہ پہچانتا ہے تو اسے بھی سلام کرے اور اس کے چہرے کی جانب سے آئے کیونکہ وہ اس کی زیارت میں اس طرح ہے جس طرح وہ زندہ حالت میں اس سے مخاطب تھا اگر زندہ حالت میں اس سے خطاب کرتا تو آداب یہی ہوتے کہ اس کے چہرے کے بالمقابل ہوتا یہاں بھی اسی ہے پھر جو مٹی کے نیچے جا چکا ہے اپنے گھر والوں اور احباب سے الگ ہوچکا ہے اس سے عبرت حاصل کرنے کے بعد کہ اس میت نے چھوٹے بڑے لشکروں کی قیادت کی ہوگی ، ساتھیوں اور قبائل سے مقابلہ کیا ہوگا اموال اور ذخائر کو جمع کیا ہوگا تو اسے موت ایسے وقت میں آپہنچی کہ اسے گمان تک نہ تھا ایسی ہولناکی میں موت آئی جس کا اسے کوئی انتظار نہ تھا تو زیارت کرنے والے کو اس بھائی کی حالت میں غور کرنا چاہیے جو گزر چکا ہے اور ان ساتھیوں میں شامل ہوچکا ہے جنہوں نے امیدوں کو پایا اور اموال کو جمع کیا کہ ان کی آرزوئیں کیسے ختم ہوگئیں ، ان کے اموال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا ، مٹی نے ان کے چہروں کے محاسن کو مٹا دیا اور قبروں میں ان کے اجزا بکھر گئے ، ان کے بعد ان کی بیویاں بیوہ ہوگئیِ ان کی اولادیں یتیم ہوگئیں ، دوسروں نے ان کے عمدہ اموال کو تقسیم کرلیا تاکہ اسے ان کا مقاصد میں گھومنا پھرنا ، حصول مطالب میں ان کا حرص ، اسباب کے حصول میں ان کا دھوکہ اور جوانی اور صحت کی طرف ان کا میلان سب کو یاد کرسکے اور یہ بھی جان سکے کہ اس کا لہو و لعب کی طرف میلان ان کے میلان اور غفلت کی طرح ہے جس کے سامنے خوفناک موت اور تیز ہلاکت ہے یقینا وہ اس طرف جارہا ہے جس طرف وہ گئے تھے اسے اپنے دل میں اس آدمی کے ذکر کو یا د کرنا چاہیے جو اپنی اغراض میں متردد تھا کہ اس کے پاؤں کیسے ٹوٹ گئے ، وہ اپنے دوستوں کو دیکھ کر لذت حاصل کرتا تھا جبکہ اب اس کی آنکھیں بہہ چکی ہیں ، وہ اپنی قوت گویائی کی بلاغت سے حملہ کیا کرتا تھا جبکہ کیڑے اس کی زبان کو کھا گئے ہیں ، وہ لوگوں کی موت پر ہنسا کرتا تھا جب کہ مٹی نے اس کے دانتوں کو بوسیدہ کردیا ہے ، وہ یقین کرلے کہ اس کا حال اس کے حال جیسا ہوگا اور اس کا انجام اس کے انجام جیسا ہوگا ۔ اس یاد اور عبرت کی وجہ سے اس سے تمام دنیوی غیرتیں زائل ہوجائیں گی اور اور وہ اخروی اعمال پر متوجہ ہوگا ۔ وہ دنیا میں زہد اختیار کرے گا اپنے رب کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوگا اس کا دل نرم ہوجائے گا اور اعضاء میں خشوع واقع ہوجائے گا ۔



كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ 0 ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ 0
ترجمہ:
ہاں ہاں تم جلد جان لوگے پھر ہاں ہاں تمہیں (اپنی کوششوں کا انجام) جلد معلوم ہوجائے گا ۔

فراء نے کہا : کلا سے مراد یہ ہے معاملہ اس طرح نہیں جس باہم فخر اور کثرت پر تم ہو تم عنقریب اس کا انجام جان لوگے ۔

یہاں وعید پر وعید ہے ؛ یہ مجاہد کا قول ہے ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں کلام میں جو تکرار ہے وہ تاکید اور تغلیظ کے طریقہ پر ہو ؛ یہ فراء کا قول ہے ۔ حضرت ابن عباس نے کہا : قبر میں جو تم پر عذاب آئے گا اس کو تم جان لو گے پھر آخرت میں تم پر جو عذاب آئے گا اس کو تم جان لو گے ۔ پہلی کلام قبر کے عذاب کے بارے میں ہے اور دوسری کلام آخرت کے بارے میں ہے ۔ تو یہ تکرار دو حالتوں کے بارے میں ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون ۔ یہ آنکھ سے دیکھنے کے بارے میں ہے کہ جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے وہ حق ہے ، ثم کلا سوف تعلمون ۔ یہ دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت ہوگا کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا وہ سچ ہے ۔ زر بن حبیش نے حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ ہم عذاب قبر میں شک کرتے تھے یہاں تک کہ یہ سورت نازل ہوئی ۔ تو اللہ تعالی کے فرمان : کلا سوف تعلمون ، سے مراد ہے تم قبروں میں دیکھ لو گے ، ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون ، سے مراد ہے جب موت تم پر واقع ہوگی اور فرشتے تمہاری روحیں نکالنے کے لیے تمہارے پاس آئیں گے ۔ 

ثم کلا سوف تعلمون ۔ جب تم قبروں میں داخل ہوگے اور تمہارے پاس منکر و نکیر آئیں گے ، سوال کی ہولناکی تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گی اور جو اب تم سے ختم ہوجائے گا ۔


میں کہتا ہوں : یہ سورت عذاب قبر کے بارے میں قول کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے ہم نے اپنی کتاب التذکرہ میں ذکر کیا ہے کہ اس پر ایمان واجب ہے اس کی تصدیق لازم ہے جیسے نبی صادق و امین نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی قبر میں مکلف بندے کی طرف زندگی لوٹا کر زندہ کردیتا ہے ، عقل کی جس صفت پر اس نے زندگی بسر کی تھی اتنا عقل اسے عطا فرماتا ہے تاکہ جو اس سے سوال کیا جارہا ہے اسکی اسے سمجھ ہو ، اس کا وہ جواب دے سکے ، اس کے رب کی جانب سے جو اسے چیز مل رہی ہے اس کا ادراک کرسکے اور قبر میں اس کے لیے جو کرامت اور ذلت مقدر کی گئی ہے اس کو جان سکے ؛ یہ اہل سنت کا مذہب ہے جس پر اہل اسلام کی جماعت قائم ہے ہم نے التذکرہ میں اس پر مفصل بحث کی ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون یہ دوبارہ اٹھانے کا وقت ہوگا کہ تم جان لو گے کہ جو تمہیں کہا جاتا تھا کہ تم کو اٹھایا جائے گا ۔ ثم کلا سوف تعلمون یہ قیامت میں ہوگا کہ تم جان لو گے کہ تمہیں جو کچھ کہا جاتا تھا کہ تمہیں عذاب دیا جائے گا ۔ یہ سورت قیامت کے احوال یعنی دوبارہ اٹھانا ، میدان محشر میں جمع کرنا ، سوال کرنا ، پیشی ہونا وغیرہ دوسرے اموال اور نزاع سب کو شامل ہے ، جس طرح ہم نے کتاب التذکرہ میں مردوں کے احوال اور آخرت کے امور پر گفتگو کی ہے ۔ ضحاک نے کہا : کلا سوف تعلمون کا مصداق کفار ہیں ثم کلا سوف تعلمون کا مصداق مومن ہیں ، اس طرح وہ اسے پڑھا کرتے تھے پہلی آیت تاء کے ساتھ اور دوسری آیت یاء کے ساتھ ۔


كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ ٱلْيَقِينِ
ترجمہ:
ہاں ہاں اگر تم (اس انجام کو) یقینی طور سے جانتے (تو ایسا ہرگز نہ کرتے)

کلا کے لفظ کو مکرر ذکر کیا یہ زجر اور تنبیہ ہے کیونکہ ہر ایک کے بعد ایک اور چیز کا ذکر کیا گویا فرمایا : تم ایسا نہ کرو بیشک تم شرمندہ ہوگے ، تم ایسا نہ کرو بیشک تم عقاب کے مستحق ہوگے ۔ علم کی یقین کی طرف جو نسبت ہے وہ اس طرح ہے جس طرح فرمایا : ان ھذا لھو حق الیقین ۔ (الواقعہ) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہاں یقین کا معنی موت ہے ؛ یہ قتادہ کا قول ہے ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ ؛ اس سے مراد دوبارہ اٹھانا ہے کیونکہ جب وہ متحقق ہوجائے گا تو شک زائل ہوجائے گا ۔ یعنی اگر دوبارہ اٹھائے جانے کو جان لیتے ۔ لو کا جواب محذوف ہے یعنی اگر تم ااج بعث کو جان لیتے جسے تم اس وقت جانو گے جب صور پھونکا جائے گا اور تمہارے جثوں سے لحدیں شق ہوجائیں گی تو تمہارا حشر کیا ہوگا ؟ تو یہ چیز دنیا میں کثرت پر فخر کرنے سے تمہیں غافل کردے گی ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے صحائف اڑیں گے تو تم یقینی طور پر جان لوگے کہ کون شقی ہے اور کون سعید ہے ؟


ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ ان تینوں مواقع پر کلا ، الا کے معنی میں ہے ، یہ ابن ابی حاتم کا قول ہے ۔ فراء نے کہا : یہ حقا کے معنی میں ہے ۔ اس بارے میں گفتگو مفصل گزر چکی ہے ۔


لَتَرَوُنَّ ٱلْجَحِيمَ
ترجمہ:
تم دیکھ کر رہو گے دوزخ کو پھر آخرت میں تم دوزخ کو یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے ۔


یہ ایک اور وعید ہے ۔ یہ کلام اس بنا پر ہے کہ قسم محذوف ہے یعنی تم آخرت میں ضرور دیکھو گے ۔ یہ خطاب ان کفار کو ہے جن کیلیے جہنم لازم ہوچکی ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حکم عام ہے جس طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : وان منکم الا واردھا ۔ (مریم) یہ کفار کے لیے گھر ہے اور مومن کے لیے گزرگاہ ہے ۔ صحیح میں ہے : ان میں سے پہلا بجلی کی سی تیزی سے پھر ہوا کی سی تیزی سے پھر پرندے کی سی تیزی سے گزرے گا ۔ سورہ مریم میں یہ بحث گزر چکی ہے ۔ کسائی اور ابن عامر نے اسے لترون پڑھا ہے یہ اریتہ الشی سے مشتق ہے یعنی تمہیں اس کی طرف اٹھایا جائے گا اور تمہیں وہ دکھائی جائے گی تاء کے فتحہ کے ساتھ یہ عام قراء کی قرات ہے ۔ یعنی تم دور ہونے کے باوجود اپنی آنکھوں سے جہنم کو دیکھو گے پھر تم اپنی آنکھ سے مشاہدہ کرو گے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کی خبر ہے یعنی یہ دائمی اور متصل روایت ہے اس بنا پر خطاب کفار کے لیے ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لو تعلمون علم الیقین ۔ کا معنی ہے تم دنیا میں آج اس امر کو علم یقین سے جان لیتے جو آگے ہونے والا ہے جس کی تمہارے سامنے صفت بیان کی گئی ہے کہ تم ضرور اپنے دل کی آنکھوں سے اسے دیکھو گے ، کیونکہ علم یقین تجھے جہنم کو تیرے دل کی آنکھوں سے دکھائے گا وہ یہ ہے تیرے لیے قیامت کے مراحل اور اس کی قطع مسافت تیرے لیے عیاں ہوگی ۔ پھر معاینہ کے وقت سر کی آنکھوں سے دیکھے گا تو تو اسے یقینا دیکھ لے گا وہ تیری آنکھ سے غائب نہیں ہوگی پھر سوال اور پیشی کے وقت تم سے نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔


ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ ٱلنَّعِيمِ
ترجمہ:
پھر ضرور پوچھا جائے گا تم سے اس دن جملہ نعمتوں کے بارے میں ۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ایک دن یا ایک رات باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر موجود ہیں ، پوچھا : تمہیں اس وقت کس چیز نے گھروں سے نکالا ؟ دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! بھوک نے ۔ فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ مجھے بھی اس چیز نے گھر سے نکالا ہے جس نے تمہیں نکالا ہے دونوں اٹھو ، دونوں آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے رسول اللہ ایک انصاری کے گھر آئے تو وہ گھر پر نہیں تھا جب اس کی بیوی نے رسول اللہ کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا ۔ رسول اللہ نے اس سے پوچھا : فلاں کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا : وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہوا ہے ، اسی اثنا میں وہ انصاری بھی پہنچ جاتا ہے اس نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں صحابہ کو دیکھا پھر گویا ہوا : الحمدللہ آج مجھ سے بڑھ کر کوئی عزت والے مہمانوں والا نہیں ۔ وہ گیا تو کھجور کا ایک خوشہ ان کے پاس لے آیا ۔ عرض کی : اسے کھاؤ اور چھری لی رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : دودھ دینے والے جانور کو ذبح نہ کرنا ۔ اس انصاری نے جانور ذبح کیا تو انہوں نے اس بکری اور اس خوشے سے کھانا کھایا اور پانی پیا ۔ جب یہ حضرات خوب سیر ہوگئے تو رسول اللہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ْ تم سے اس دن کی نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا ، تمہیں تمہارے گھروں سے بھوک نے نکالا پھر تم نہ لوٹے یہاں تک کہ تمہیں اس نعمت نے آلیا ۔ 
اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے اس میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں : ھذا والذی نفسی بیدہ من النعیم الذی تسالون عنہ یوم القیامۃ ظل بارد و رطب طیب وماء بارد ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے روز تم سے پوچھا جائے گا ۔ ٹھنڈا سایہ ، عمدہ تر کھجوریں اور ٹھنڈا پانی اور اس انصاری کی کنیت ذکر کی اور کہا : ابو ہیثم بن تیہان اور اس واقعہ کا ذکر کیا ۔
میں کہتا ہوں : اس انصاری کا نام مالک بن تیہان تھا اس کی کنیت ابو ہیثم تھی اس واقعہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن رواحہ اشعار کہتے ہیں اور ابو ہیثم بن تیہان کی مدح کرتے ہیں :
فلم ار کالاسلام عزا لامۃ۔ ۔ ۔ ولا مثل اضیاف الا راشی معشرا
میں نے کسی قوم کے لیے اسلام جیسی کوئی عزت نہیں دیکھی اور نہ میں نے اراشی کے مہمانوں جیسی کوئی جماعت دیکھی ہے ۔
نبی و صدیق و فاروق امۃ۔ ۔ ۔ و خیر بنی حواء فرعا و عنصرا
نبی ، صدیق اور امت کا فاروق ، بنی حواء میں سے عنصر کے اعتبار سے سب سے بہتر ۔
فوافوا لمیقات و قدر قضیۃ۔ ۔ ۔ و کان قضاء اللہ قدرا مقدرا
انہوں نے وعدہ و پیمان کا حق ادا کیا ۔ اللہ کا فیصلہ ہوکر رہنے والا ہے ۔
الی رجل نجد یباری بجودہ ۔ ۔ ۔ شموس الضحی جودا و مجدا و مفخرا
نجد کے ایک معزز آدمی کی طرف جو اپنی سخاوت ، بزرگی اور فخر میں چاشت کے سورجوں کا مقابلہ کرتا ہے ۔
و فارس خلق اللہ فی کل غارۃ ۔ ۔ ۔ اذا لبس القوم الحدید المسمرا
یہ غزوہ میں اللہ کی مخلوق کا شاہسوار ہے جب قوم گندمگوں نیزے زیب تن کرلیں ۔
ففدی و حیا ثم ادنی قراھم ۔ ۔ ۔ فلم یقرھم الا سمینا متمرا
اس نے جانور ذبح کیا اسے تیار کیا پھر ضیافت ان کی خدمت میں پیش کی اس نے ان کی خدمت میں کھانا پیش نہیں کیا مگر موٹے موٹے ٹکڑے ۔
ابو نعیم نے ابو عسیب سے جو رسول اللہ کے غلام تھے سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ رات کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے میں آپ کی طرف نکلا پھر آپ حضرت ابوبکر کے ہاں تشریف لے گئے انہیں بلایا تو وہ بھی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے ، پھر آپ حضرت عمر کے ہاں تشریف لے گئے انہیں بلایا وہ بھی آپ کی خدمت میں آگئے آپ چلے یہاں تک کہ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے آپ نے باغ کے مالک سے فرمایا : ہمیں بسر (کھجور) کھلاؤ ، وہ ایک خوشہ لے آیا اور اسے رکھ دیا سب نے کھایا پھر آپ نے پانی طلب کیا اور اسے پیا ۔ پھر فرمایا : تم سے قیامت کے روز اس بارے میں پوچھا جائے گا ، کہا حضرت عمر نے وہ خوشہ لیا اسے زمین پر مارا یہاں تک کہ وہ بسر کھجوریں رسول اللہ کے سامنے بکھر گئیں عرض کی : یا رسول اللہ ہم سے قیامت کے روز اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ؟ فرمایا : ہاں مگر تین ، وہ ٹکڑا جس کے ساتھ وہ اپنی بھوک مٹاتا ہے یا کپڑا جس کے ساتھ اپنی شرمگاہ ڈھانپتا ہے یا ایسی بل (گھر) جس میں وہ سردی اور گرمی میں پناہ لیتا ہے ۔
وہ نعمت جس کے بارے میں سوال ہوگا علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے اس کے بارے میں دس قول ہیں :
١۔ امن و صحت : یہ حضرت ابن مسعود کا قول ہے ۔ ٢ ۔ صحت و فراغت : یہ سعید بن جبیر کا قول ہے ۔ بخاری میں رسول اللہ سے مروی ہے : نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس الصحۃ والفراغ ۔ دو ایسی نعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں صحت اور فراغت ۔ ٣۔ قوت سماعت اور قوت بصارت کے حواس کے ساتھ ادراک ۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے ۔ قرآن کریم میں ہے : ان السمع والبصر والفواء کل اولئک کان عنہ مسولا ۔ (اسرائ) کان ، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔
صحیح میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید سے مروی ہے دونوں نے روایت کیا ہے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے روز ایک بندے کو لایا جائے گا تو اسے کہا جائے گا : کیا میں نے تجھے کان ، آنکھ ، مال اور اولاد نہیں دی تھی ؟ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے ۔ اس بارے میں کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
٤ ۔ کھانے اور پینے والی چیزیں جن سے لذت حاصل کی جاتی ہے ۔ یہ حضرت جابر بن عبداللہ بن کا قول ہے اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے ۔
٥ ۔ اس سے مراد دوبہر اور شام کا کھانا ہے ۔ یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے ۔
٦ ۔ یہ محکول شامی کا قول ہے ، اس سے مراد پیٹ بھر کر کھانا ، ٹھنڈا پانی ، گھروں کے سائے ، اچھا اخلاق اور نیند کی لذت ہے ۔ زید بن اسلم نے اپنے باپ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : اس سے مراد پیٹ بھر کر کھانا ہے ۔ ماوردی نے کہا : یہ سوال کافر اور مومن کو عام ہے مگر مومن کا سوال یہ بشارت ہے کہ اس کے لیے دنیا اور آخرت کی نعمتیں جمع کردی گئی ہیں اور کافر سے سوال سے اس امر کے ساتھ جھنجھوڑنا ہے کہ اس نے دنیا کی نعمتوں کے مقابل کفر اور معصیت کو اپنایا ۔ ایک قوم کا خیال ہے ؛ یہ سوال ہر نعمت کے بارے میں ہوگا اور کفار کے حق میں ہوگا ۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر نے عرض کیا : یا رسول اللہ بتایئے وہ کھانا جو میں نے آپ کے ساتھ ابو ہیثم بن تیہان کے گھر میں کھایا تھا جو کی روٹی ، گوشت ، آدھ کچی کھجور اور میٹھے پانی پر مشتمل تھا کیا اس بارے میں آپ ہمارے متعلق خوف کھاتے ہیں کہ یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق ہم سے باز پرس ہوگی ؟ تو رسول اللہ نے ارشاد فمرایا : یہ کفار کے لیے ہے ، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی ھل نجزی الا الکفور ۔ (سبا) یہ قشیری ابو نصر نے ذکر کیا ہے دونوں روایات میں تطبیق یوں ہے کہ ہر کسی سے سوال کیا جائے گا تاہم کفار سے سوال انہیں شرمندہ کرنا ہے کیونکہ اس نے شکر کو ترک کیا اور مومن سے سوال اسے عزت بخشنا ہے کیونکہ وہ شکر بجا لایا تھا یہ ہر نعمت کے بارے میں ہے ۔
میں کہتا ہوں : یہ بہت اچھا قول ہے کیونکہ لفظ عام ہے ؛ فریابی نے یہ ذکر کیا ، ورقاء ، ابن ابی نجیح سے وہ مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں یہ قول نقل کرتے ہیں یعنی ہر وہ چیز جو لذت دنیا سے تعلق رکھتی ہو ۔ ابو احوص ، عبداللہ سے وہ نبی کریم سے روایت نقل کرتے ہیں : اللہ تعالی قیامت کے روز بندے پر اپنی نعمتوں کو شمار کرے گا یہاں تک کہ اس پر یہ بھی شمار کرے گا تو نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ میں تیرا فلاں عورت سے نکاح کردوں اللہ تعالی اس عورت کا نام ذکر کرے گا تو میں نے تیری اس سے شاد ی کردی ۔
ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم سے کس نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ہمیں تو پانی اور کھجور میسر ہے ، دشمن سامنے حاضر ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ؟ فرمایا : ایسا ضرور ہوگا ۔ حضرت ابو ہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ان اول ما یسأل عنہ یوم القیامۃ انہ یقال لہ الم نصخ لک جسمک و نرویک من الماء البارد ۔ قیامت کے روز سب سے پہلے انسان سے جس چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ یہ ہوگا : کیا ہم نے تیرے جسم کو صحت مند نہیں رکھا تھا اور تجھے ٹھنڈا پانی نہیں پلایا تھا ۔
حضرت ابن عمر کی حدیث ، کہا : میں نے رسول اللہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو بلائے گا اسے اپنے سامنے کھڑا کرے گا اس سے اس جاہ و حشمت کے بارے میں سوال کرے گا جس طرح اس سے اس کے مال کے بارے میں سوال کرے گا ۔ جاہ و حشمت یقینا دنیاوی نعمتوں سے ایک ہے ۔
امام مالک نے کہا : اس نعمت سے مراد بدن کی صحت اور عمدہ طبیعت ہے ۔ یہ ساتواں قول ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ امن و عافیت کے ساتھ نیند ہے ۔ سفیان بن عیینہ نے کہا : جو چیز بھوک مٹائے اور ستر عورت کا اہتمام کرے جبکہ وہ کھانا ایسا ہو جو حلق سے مشکل سے اترے اور لباس کھردرا ہو قیامت کے روز اس کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی بلکہ اس سے ایسی چیزوں کے بارے میں باز پرس ہوگی جو لذت کا باعث ہوں ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو جنت میں سکونت عطا کی اور فرمایا : تیرے لیے یہاں یہ انعام ہے کہ تجھے نہ بھوک لگے اور نہ ہی تو بے پردہ ہوگا تو اس میں پیاسا نہ ہوگا اور نہ تجھے گرمی لگے گی ۔ (طہ) یہ چار چیزیں ہیں ۔ ١۔ جس کے ساتھ بھوک مٹائی جاتی ہے ۔ ٢ ۔ جس کے ساتھ پیاس ختم کی جاتی ہے ۔ ٣۔ جس کی مدد سے گرمی سے بچا جاتا ہے اور جس کے ساتھ پردہ کیا جاتا ہے ۔ یہ حضرت آدم کے لیے مطلق تھیں ان کے بارے میں حضرت آدم کے لیے کوئی حساب و کتاب نہ تھا کیونکہ اس کے بغیر آپ کے لیے کوئی چارہ کار نہیں تھا ۔
میں کہتا ہوں : اس کی مثل قشیری ابو نصر نے ذکر کیا انہوں نے کہا : بندے سے ایسے لباس کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی جس کے ساتھ وہ اپنی شرمگاہ چھپاتا ہے ، ایسا کھانا جس کے ساتھ وہ اپنی کمر سیدھی کرتا ہے ، ایسا مکان جو اسے سردی اور گرمی سے بچاتا ہے ۔
میں کہتا ہوں : یہ قول رسول اللہ کے ایک ارشاد سے ماخوذ ہے ، لیس لابن آدم حق فی سوی ھذہ الخصال بیت یسکنہ و ثوبہ یواری عورتہ و جلف اخبز والمائ۔ ابن آدم کا ان چیزوں کے علاوہ میں کوئی حق نہیں ایسا گھر جس میں وہ رہتا ہے ، ایسا کپڑا جو اس کی شرمگاہ کو ڈھانپتا ہے ، خشک روٹی کا ٹکڑا اور پانی ، اسے ترمذی نے نقل کیا ہے ۔ نضر بن شمیل نے کہا : خشک روٹی کا ٹکڑا جس کے ساتھ سالن نہ ہو ۔ محمد بن کعب نے کہا : نعیم سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت محمد کی صورت میں ہم پر انعام فرمایا ہے ۔ قرآن حکیم میں ہے ۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم ۔ (آل عمران) تحقیق اللہ تعالی نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان میں انہیں میں سے رسول بھیجا ۔
حضرت حسن بصری اور مفصل نے کہا : اس سے مراد ہے شرعی احکام میں نرمی اور قرآن حکیم کو آسان بنا دینا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : وما جعل علیکم فی الدین من حرج ۔ (الحج) اور نہیں روا رکھی اس نے تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ولقد یسرنا القرآن لذکر فھل من مد کر ۔ (القمر) اور بیشک ہم نے آسان کردیا ہے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ۔

میں کہتا ہوں : یہ سب نعمتیں ہیں بندے سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا کیا اس نے شکر کیا یا ناشکری کی ، پہلے اقوال ظاہر و باہر ہیں ۔ اللہ تعالی بہتر جانتا ہے ۔
[تفسیر قرطبی]



تفسیر حقانی ¦ یہ سورۃ جمہور کے نزدیک مکہ میں نازل ہوئی۔ ابن عباس (رض) بھی یہی فرماتے ہیں۔ مگر بعض کہتے ہیں مدینہ میں نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم ایک روز ہزار آیتیں پڑھ سکتے ہو لوگوں نے عرض کیا کہ بھلا ہر روز کون پڑھ سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تم الہاکم التکاثر نہیں پڑھ سکتے۔ روایت کیا اس کو حاکم نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں ۔
      ربط اس سورۃ کا القارعہ سے یہ ہے کہ اس سورۃ میں انسان کو حوادث ہولناک سے خبر دے کر متنبہ کیا تھا کہ ہوشیار خبردار تجھ پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے۔ اس کے لیے تیاری کر اور ادھر ادھر کے فضول جھگڑے جو کچھ بھی کارآمد نہیں چھوڑ دے۔ مگر برخلاف اس کے انسان ایسی فضول باتوں میں غرق ہے کہ جو اس کو کچھ بھی مفید نہیں وہ کیا؟ کثرت مال و اولاد کی حرص اور اسی پر فریفتہ ہو کر تدابیر ضرور یہ سے غافل ہوجانا۔ اس لیے اس سورۃ میں اس بات کی برائی بیان فرمائی جاتی ہے کہ او انسان تجھے اس تکاثر نے اصلی کام سے غافل کردیا اور ایسا غافل کہ کبھی بھی اصلی کام کی فرصت نہیں دی۔ موت تک اسی فضول دھندے پر پڑا رہا اور دراصل یہی اس کا سبب نزول ہے۔ مگر قتادہ وہ مقاتل کہتے ہیں کہ اس کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ مدینہ میں یہود تفاخر کیا کرتے تھے کہ ہم فلاں فلاں قوم سے مال و قبائل میں زیادہ ہیں یہاں تک کہ عمر بھر اسی تفاخر میں رہے اور جو کچھ کرنا تھا وہ نہ کیا۔ اس لیے ان کا حال قابل افسوس بیان کرکے مسلمانوں کو متنبہ کیا جاتا ہے۔ اس تقدیر پر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور کبھی کہتے ہیں اس کا سبب نزول یہ ہے کہ قریش کہ دو قبیلے تھے ایک نبی عبد مناف دوسری بنی سہم۔ دونوں قبیلوں کے لوگ کسی مجلس میں اپنے اپنے مفاخر ذکر کرنے لگے ایک نے کہا ہمارا قبیلہ مالدار ہے اور آدمی بھی اس میں زیادہ ہیں ‘ سرداری اسی کا حق ہے۔ دوسروں نے کہا ہم زیادہ ہیں ہمارے لوگ زیادہ ہیں اس لیے بیشتر جنگ میں مارے گئے۔ اسی پر بات بڑھ گئی تو یہ ٹھری کہ چلو قبریں گن ڈالیں چنانچہ قبرستان میں گئے اور قبریں گنیں اس بیہودہ اور فضول تفاخر کی برائی میں جو انسان کو دار آخرت کے اسباب پیدا کرنے سے روکتا ہے یہ سورۃ نازل فرمائی۔ الہاکم التکاثر۔ حتی زرتم المقابر کہ تم کو تفاخر مال و قبائل نے غافل کردیا یہاں تک کہ قبریں جھانکیں۔ یعنی مرنے کو تیار بیٹھے ہو اس وقت تک بھی تو تم کو اس تفاخر نے اصلی کام سے غافل اور بےخبر کر رکھا ہے۔ پھر یہ نہیں سوچتے کہ دار آخرت کی تدبیر کا کون سا وقت آوے گا۔ تفاخر اور تکاثر ایک معنی میں ہیں اور حرص کرنا بھی اس کے معنی ہیں۔ اس موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے پُر درد اور پُر اثر الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ مسلم و ترمذی وغیرہ نے عبداللہ بن شخیر (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آپ اس کو پڑھ کر فرما رہے تھے کہ ابن آدم کہتا ہے میرا مال میرا مال اور تیرا تو وہی مال ہے جو تو نے کھالیا یا پہن لیا یا دے دیا خیرات کرکے۔
      اقسام سعادت : واضح ہو کہ انسان کی دو سعادت ہیں ایک سعادت دنیا اور اس کی تین قسم ہیں اول خاص اس کے جسم کی بناوٹ کے متعلق حسن و جمال ‘ دوسری جسم کے آرام و آسائش کے متعلق وہ کیا؟ تندرستی اور مال و اسباب و مکان کی فراہمی اور ان میں کامیابی ‘ تیسری اپنے بعد اپنے ذکر خیر کے بقاء کے اسباب بہم پہنچنا اور زندگی میں عزت اور آپس کے لوگوں میں سر بلندی حاصل کرنے کے اسباب مہیا ہونا وہ کیا؟ اولاد اور اقارب اور قوم کی سر بلندی یا عمارت وغیرہ ہا یادگار کا چھوڑ جانا۔ تمام دنیا کی خوبیاں جن پر انسان فریفتہ ہے انہیں میں منحصر ہیں۔ اس سعادت کو نعمتِ الٰہی سمجھا جاتا ہے اور بقدر ضرورت اس کے حاصل کرنے کی کوشش بھی بری بات نہیں مگر اس میں غرق ہوجانا اور آتش حرص کا ہر وقت شعلہ زن رہنا اور پھر آسائشِ تن سے زائد بیکار باتوں میں ہمہ تن مستغرق ہوجانا اور سعادتِ اُخرویہ سے بالکل غافل رہنا محض حماقت ہے۔ ہزاروں شخص ایسے ہیں کہ بقدر ضرورت یہ سب سامان ان کو میسر ہیں مگر حرص اور باطل تمنائوں نے بےچین کر رکھا ہے۔ جمع کرتا ہے نہ کھاتا ہے نہ کھلاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کسی وقت کام آئے گا حالانکہ موت کے پاس پہنچ گیا پھر بھی اس سے تمتع حاصل نہیں کیا۔ اب جانے وہ ضرورت کا وقت کب آئے گا اسی طرح اولاد کی تربیت اور ان کی بھلائی میں کوشش کرنا بھی ایک عمدہ بات ہے مگر اس طرح غرق ہوجانا کہ اپنا آرام کھو دینا اور عقبیٰ کے کاموں سے محروم رہنا رات دن انہیں کے دھندے میں پڑا رہنا یہ عبث فعل ہے حالانکہ وہ اولاد مرنے کے بعد کیا زندگی میں بھی اپنے مشاغل میں ایسی محو ہوجاتی ہے کہ اس بوڑھے کو کوئی بھی نہیں پوچھتا۔ دوسری سعادتِ اُخرویہ ہے وہ مرنے کے بعدملک جاودانی میں کامیابی۔ پس جو اس چند روز سعادت میں ایسا محو ہو کہ اس سعادت جاودانی سے بالکل غافل ہوجاوے اور موت کے وقت تک اس میں غرق رہے وہ سخت ہی بدنصیب ہے اس بدنصیبی کا ذکر اسی آیت میں اور آئندہ آیات میں کرتا ہے۔ فرماتا ہے کلا سوف تعلمون ثم کلا سوف تعلمون کہ نہیں نہیں ابھی معلوم ہوجاوے گا کہ یہ تکاثر و تفاخر مرنے کے بعد کیا کام آتا ہے؟ یعنی کچھ بھی کام نہ آوے گا۔ دست افسوس ملے گا کہ ہائے رے کس فضولی میں عمر گرا نمایہ برباد کی۔ جن چیزوں کی کثرت چاہتا اور اس پر فخر کرتا تھا اولاد و مال وہ تو وہیں رہ گیا میرے کچھ بھی کام نہیں آیا۔ اب تو یہاں موت بھی نہیں۔ ہائے اس بےانتہا زندگانی کا کوئی توشہ ساتھ نہیں لایا۔ حکایت کسی شہر میں کوئی بزرگِ با خدا دنیا سے علیحدہ ایک گوشہ میں یادِ الٰہی میں مصروف تھا اور اس کا دوست قدیم ایک تاجر تھا جو رات دن حصول مال و زر میں غرق رہتا اور بڑے بڑے مکان بنائے تھے اور ہر قسم کے سامان عیش و نشاط اس کو حاصل تھے۔ ایک بار اس مالدار تاجر نے اس باخدا کو ملامت کرنی شروع کی اور کہا تو بڑا نادان ہے دیکھ میں نے اس عرصہ میں یہ کچھ پیدا کیا تو نے کیا کیا؟ اس باخدا نے جواب دیا کہ اے نادان تو نے اس چند روزہ زیست کے لیے یہ کچھ کیا وہاں ہمیشہ رہنا ہے وہاں کے لیے کیا کیا؟ کیا یہ چیزیں تیرے سا تھ چلیں گی؟ اور اگر نہ چلیں تو بتلا تم کو ان کے چھوٹ جانے پر کیا حسرت ہوگی۔ اب بتا تو نادان ہے یا میں؟ وہ تاجر زار راز رونے لگا ۔ بعض لوگ اس کے بعد یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے آخرت کا حال معلوم ہے اس لیے حق سبحانہ فرماتا ہے کلا ہرگز نہیں خاک بھی معلوم نہیں لو تعلمون علم الیقین اگر تم کو یقینا وہاں کا حال معلوم ہوجاوے تو یہ تفاخر و تکاثر چھوڑ کر اصلی کام میں مصروف ہوجائو۔ گویا تمہارا علم آخرت کے بارہ میں علم یقینی نہیں۔ حکایت کوئی بادشاہ کسی فقیر با خدا معتقد تھا ان سے ایک بار کوئی دوا مقوی باہ بھی طلب کی جس سے بےحد قوت بادشاہ کو معلوم ہوئی مگر دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ فقیر صاحب ضرور در پردہ کوئی عورت رکھتے ہوں گے اپنی لونڈی بنا سنوار کر بھیجی فقیر نے التفات بھی نہ کیا جس سے اور بھی تعجب معلوم ہوا۔ اگلے روز بادشاہ کا خیال معلوم کرکے فقیر نے کہا ایک راز کی بات ہے آپ کو مطلع کرتا ہوں وہ یہ کہ سات ہفتہ کے اندر اندر آپ مر جائیں گے یہ سنتے ہی بادشاہ کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ کس لیے کہ فقیر کی بات کو یقینی جانتا تھا گھر آکر تمام امور عیش و عشرت کے ترک کردیے اور رات دن رونے اور توبہ کرنے اور دعاء و عبادت میں مصروف ہوگیا۔ ایک ایک گھڑی کو غنیمت جانتا تھا تمام شہوانی خیالات اور باطل تمنائیں کا فور ہوگئیں۔ گھڑیاں گنا کرتا تھا۔ اس ہفت روز شغل میں اس کی روح پر نورانیت بھی پیدا ہوگئی اور کشود کار بھی ہوا۔ ساتویں دن موت کے انتظار میں تھا اور عزیز و اقارب فرزند و زن کو رخصت کر چکا تھا جب وہ دن بھی بخیر گزر گیا اگلے روز فقیر کے پاس آیا اور پوچھا کہ موت تو نہیں آئی۔ شاہ صاحب نے فرمایا دنیا کے سات ہی روز ہیں اب تک گزرے نہیں مگر یہ فرمائیے کہ اس عرصہ میں اس دوا کا کیا اثر تھا اور ارباب عیش و نشاط سے کیسی گزرتی تھی۔ عرض کیا کچھ بھی خبر نہ تھی۔ بادشاہ فقیر کی رمز کو سمجھ گیا اور راہ راست پر آگیا۔ حقیقت میں علم الیقین اس جہاں کا ہوجاوے … تو نیک پُر اشتیاق میں۔ اور بد پر خوف میں یہ زندگانی وبال ہوجاوے۔ یہ اہل اللہ بالخصوص انبیاء علیہم السلام واولیائِ کرام کا ہی حصہ ہے اور اسی لیے ان کے افعال اور عامہ خلائق کے افعال میں جو دنیا پر فریفتہ ہیں اور ہمیشہ جینے کی امیدیں دل میں رکھتے ہیں بڑا فرق ہے۔
      فائدہ : کلا سوف تعلمون کو دو بار لانے میں کیا حکمت ہے؟ بعض علماء فرماتے ہیں تاکید کے لیے۔ جیسا کہ کوئی ناصح کہتا ہے تو سمجھا ‘ تو سمجھا۔ بعض فرماتے ہیں کہ اول بار اہل شر کے لیے اور بار دوم اہل خیر کے لیے پس اول و عید اور دوم وعد ہے یہ ضحاک کا قول ہے۔
      اب اس قدر فرمانا عاقل کے لیے کافی تھا کہ اگر تم کو یقین ہوجاوے تو اصلی کام کرے لگو اور اس حرص و فکر کو چھوڑ دو مگر مخاطبین کے دلوں پر تو اس حرص و فخر اور غفلت کے بےشمار پردے پڑے ہوئے تھے اس لیے اب ان کو صاف صاف بتلایا جاتا ہے فقال لترون الجحیم کہ ضرور ضرور تم دوزخ کو دیکھو گے۔ عام قراء الترون کو بفتح تاء پڑھتے ہیں فراء کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک بھی ہے کیونکہ یہ تہدید ہے تو عام محاورۂ عرب کے موافق اس کے الفاظ بھی ہونے چاہییں۔ بعض بضم تاء بھی پڑھتے ہیں۔ اور جحیم دوزخ کو کہتے ہیں پھر یہ دیکھنا عام ہے۔ ایماندار تو یوں ہی دور سے دیکھ کر دل میں ڈریں گے اور نعمائِ الٰہی اور نجات کا شکریہ کریں گے اور کفار و گناہگار اس کا عذاب دیکھیں گے جو ان کے کرتوت کی سزا ہے۔ اور تکاثر کا مآل کار ہے۔ اور ایک آیت میں بھی یہی مضمون ہے وان منکم الا واردھا پھر دوبارہ اس بات کی تاکید کے لیے اس کلام کو اعادہ کرتا ہے فقال تم لترونھا عین الیقین کہ ضرور تم اس دوزخ کو بالیقین معائنہ کرو گے۔ اس میں داخل کیے جاؤ گے اس کا مزہ چکھو گے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اول جملہ میں مرنے کے بعد عالم برزخ میں عذاب دیکھنے کا ذکر ہے اور دوسرے میں حشر کے روز دیکھنے کا ذکر ہے یا یہ کہ اول بار کا دیکھنا کنارے کھڑے ہوکر بار دوم کا دیکھنا دوزخ میں جاکر بعض مفسرین ان آیات کے یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ اگر تم کو علم یقین ہوجاوے تو تم دل کی آنکھ سے اب دنیا میں دوزخ کو دیکھ لو اور یقینا دیکھ لو کوئی شبہ باقی نہ رہے مگر تم کو اس کا علم یقین نہیں۔
      فائدہ : علم کے تیس مرتبے ہیں اول علم الیقین کہ جیسا کسی نے دریا کو آنکھ سے دیکھ لیا دوسرا عین الیقین کہ اس کے کنارہ پر پہنچ کر پانی چلو میں لے لیا ہو۔ تیسرا حق الیقین کہ دریا میں گھس کر غوطہ لگا لیا ہو۔
      پھر فرماتا ہے کہ آج جن نعمتوں پر بھولے ہوئے ہو اور ان کے ازدیاد کی حرص میں لگے ہوئے آخرت سے غافل اور مالک کے ناشکر بنے ہوئے ہو قیامت کے روز ان سے سوال ہوگا فقال ثم لتسئلن یومئذن عن النعیم کہ اس روز دنیا کی نعمتوں سے سوال ہوگا تم سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں ہماری نعمتوں کا تم نے شکریہ ادا کیا اور جس لیے تم کو دی گئی تھیں ان کو حاصل کرکے وہ کام بھی کیا یا نہیں؟ یعنی عبادت۔
      خدا کی بےشمار نعمتیں ہیں جو حدود شمار سے باہر ہیں کما قال وان تعدد انعمۃ اللہ لا تحصوھا نغماء ظاہریہ و باطنیہ۔ تندرستی جسم کے اعضاء کی خوبی رزق و روزی گرمی میں ٹھنڈا پانی یا سایہ وغیرہ وغیرہ جن سے کوئی فرد بشر بھی خالی نہیں۔ اس لیے علیٰ اختلاف النعماء مفسرین نے متعدد اقوال میں نعیم کی تفسیر کی ہے۔ کوئی کہتا ہے عافیت کوئی کہتا ہے تندرستی اور اولاد مال کوئی کہتا ہے ٹھنڈا پانی اور خنک سایہ کسی نے کہا حس و ادراک کسی نے کہا پیٹ بھر کر کھانا اور آام سے سونا اور پھر بدستور بول و برا از خارج ہوجانا۔ وغیر ذلک یہ سب قول ٹھیک ہیں۔
      مسلم وغیرہ اہل سنن نے روایت کی ہے کہ ایک بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لائے تو باہر ابوبکر و عمر کو بھی پایا آپ نے پوچھا اس وقت تم کے لیے گھر سے نکلے ہو کہا بہو کے نکلے ہیں آپ نے فرمایا میں بھی اس لیے نکلا تب سب ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے جس کے ہاں کھانا تیار نہ تھا اس نے او اس کی بیوی نے دیکھ کر کہا مبارک مہمان اور ہماری زہے عزت تب سب کو ٹھنڈی چھاؤں میں بٹھایا اور ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے پکایا اور سامنیلایا اور چھہ پارے بھی لایا سب نے شکم سیر ہوکر کھایا اور ٹھنڈا پانی پیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر و عمر کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا بخدا آج اس کی نعمت سے بھی تم سے پوچھا جائے گا قیامت کے دن۔
      فائدہ : کوئی مفلس شخص افلاس سے تنگ آکر خدا تعالیٰ کا شاکی ہوا اور کو سفر گیا وہاں اس کو اس قدر مال و زر حاصل ہوا کہ تین خچر لاد کر لایا رستہ میں پانی نہ ملا اور گرمی سے ہلاک کی نوبت پہنچی تب ایک شخص نمودار ہوا جس کے پاس سرد پانی تھا اس نے سوال کیا اس نے کہا ایک خچر مال کا دے تو دیتا ہوں آخر کار دینا ہی پڑا ورنہ موت سامنے دکہتی تھی پانی پی کر بھوک لگی اور سخت بیتابی ہوئی ہلاکت کی نوبت آگئی تب ایک شخص ملا جس کے پاس روٹی تھی اس سے سوال کیا اس نے کہا اگر ان دونوں خچروں میں سے ایک دے تو دیتا ہوں ورنہ تو مرجائے گا دونوں یہیں رہ جائیں گے ایک خچر دے کر روٹی لی اور پیٹ بھر کر کھایا تھوڑی دیر کے بعد پیٹ میں پاخانہ اور پیشاب بند ہوجانے سے اس شدت کا درد ہوا کہ ہلاکت کی نوبت آگئی ایک شخص حکیم نمودار ہوا جس نے کہا یہ خچر مجھے دے تو ابھی آرام ہوتا ہے آخر جان عزیز تھی وہ بھی دے دیا درد سے نجات ملی۔ تب ہاتف غیب نے کہا روٹی اور ٹھنڈا پانی اور درد سے سلامتی اس قدر مال کو آج لی ہے اس سے پہلے تجھے خدا ہمیشہ مفت دیتا رہا اس پر بھی تو اس کا شاکی ہوا یہ کیا انصاف ہے؟ وہ شخص رویا اور تائب ہوا۔ اس کی نعمتوں کا شکریہ ہر حال میں واجب ہے۔ ولہ الحمد والمنتہ علی کل حال۔

    


1 comment: