Friday 7 October 2016

سیدنا حسینؓ کی سیرت، فضائل ومناقب


عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، فَنَالَتْ مِنِّي، فَقُلْتُ لَهَا: دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ المَغْرِبَ، وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ المَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى العِشَاءَ، ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ، فَسَمِعَ صَوْتِي، فَقَالَ: «مَنْ هَذَا، حُذَيْفَةُ»؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ»؟ قَالَ: «إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ ‌سَيِّدَةُ ‌نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ وَأَنَّ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ سَيِّدَا ‌شَبَابِ ‌أَهْلِ ‌الجَنَّةِ»
ترجمہ:
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو (پھر) آپ نے فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین ؓ اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔
[سنن الترمذي:3781، السنن الكبرى-النسائي:8240، مسند أحمد:23329+23330]






حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے چاہنے والے اللہ کے محبوب:


حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ النَّبَّالُ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَنِي أَبِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ طَرَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَی شَيْئٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي قُلْتُ مَا هَذَا الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ قَالَ فَکَشَفَهُ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَيْنٌ عَلَی وَرِکَيْهِ فَقَالَ هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ۔
[سنن الترمذي:3769 (5/656) أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ، بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ]
ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں کسی کام سے نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، آپ ﷺ اپنے اوپر کچھ لپیٹے ہوئے تھے مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا تھا۔ جب میں کام سے فارغ ہوا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے کھولا تو آپ ﷺ کے کولہے پر حسنؓ اور حسینؓ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

[حديث حسن بطرقه وشاهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سعيد - وهو ابن أبي هند- لم يذكروا له سماعاً من عائشة، ولا من أمِّ سَلَمة، وهو لم يسمع من أبي هريرة وأبي موسى، وعائشة وأمُّ سلمة أقدمُ وفاةً منهما.
وقد جاء مصرحاً بأنه سعيد بن أبي هند عند عبد بن حميد، وكذلك عند الذهبي في "تاريخ الإسلام" 3/11، وقد وهم الحافظ ابن حجر في تعيينه في "أطراف المسند" 9/393 حين سماه سعيد بن أبي سعيد المقبري، والله أعلم.
وهو عند أحمد في "الفضائل" (1357) ، بهذا الإسناد.
وأخرجه عبد بن حميد (1533) عن عبد الرزاق، عن عبد الله بن سعيد، عن أبيه، قال: قالت أمُّ سلمة، فذكر نحوه، فجعله عن أمِّ سلمةَ وحدَها دون شك.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (2815) من طريق الفضل بن موسى، عن عبد الله بن سعيد، عن أبيه، عن عائشة وحدَها.
وأورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 9/187، وقال: رواه أحمد، ورجاله رجال الصحيح.
وأخرجه ابن طهمان في "مشيخته" (3) عن عبَّاد بن إسحاق، وابنُ أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (429) ، والطبرانيُّ في "الكبير" (2821) ، والحاكمُ 4/398، والبيهقيُّ في "الدلائل" 6/468 من طريق موسى بن يعقوب الزَّمْعي، كلاهما عن هاشم بن هاشم بن عتبة، عن عبد الله بن وهب- وهو ابن زَمْعَة الأسدي الزَّمْعي عن أمِّ سَلَمة نحوه. قال الحاكم: صحيحٌ على شرط الشيخين ولم يخرجاه! ووافقه الذهبي! قلنا: موسى بن يعقوب الزَّمْعي- وإن كان ضعيفاً- توبع بعبّاد بن إسحاق.
وأخرجه ابن أبي شيبه 15/97-98، وابنُ أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (428) ، والطبراني في "الكبير" (2820) و23/ (754) من طريق موسى الجهني، عن صالح بن أربد، قال: قالت أمُّ سلمة 0 فذكر نحوه. فال البخاري في "التاريخ الكبير" 4/273: صالح بن أربد النخعي روى عنه موسى الجهني: منقطع.
وأخرجه الطبراني أيضاً (2817) من طريق عمرو بن ثابت، عن الأعمش، عن أبي وائل شقيق بن سلمة، عن أمِّ سلمة نحوه.
وعمرو بن ثابت، وهو النكري، ضعيف، كان يتشيع.
وأخرجه الطبراني أيضاً (2819) و23/ (637) من طريق يحيى الحماني، عن سليمان بن بلال، عن كثير بن زيد، عن المطلب بن عبد الله بن حنطب، عن أم سلمة نحوه. والحماني ضعيف، والمطلب لم يسمع من أحد من الصحابة.
وأخرجه الطبراني أيضاً (2814) من طريق ابن لهيعة، عن أبي الأسود، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، مطولاً.
وأخرجه الدارقطني في "العلل" 5/ورقة 84 من طريق شعبة، عن عمارة بن غزيّة الأنصاري، عن أبيه، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن عائشة، فذكر نحوه.
وأخرجه الدارقطني أيضاً 5/84 من طريق سفيان، عن عمارة الأنصاري، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث، عن عائشة، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نحوه، ولم يقل: عن أبيه. وهو الصحيح فيما قال.
وأخرجه البيهقي في "الدلائل" 6/470 من طريق يحيى بن أيوب، عن عمارة بن غزيّة، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، قال: كان لعائشة ... فذكر نحوه. وقال: هكذا رواه يحيى بن أيوب عن عمارة بن غزيّة مرسلاً، ورواه إبراهيم بن أبي يحيى، عن عمارة، موصولاً، فقال: عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، عن عائشة.
قلنا: ويحيى بن أيوب- وهو المصري- فيه ضعف.
وفي الباب: عن أنس بن مالك، سلف برقم (13539) ، وإسناده ضعيف، وذكرنا هناك بقية أحاديث الباب.]








عشق حسنینؓ، عشق مصطفیؑ ہی ہے!

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي " يَعْنِي حَسَنًا وَحُسَيْنًا۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرات حسنینؓ کے متعلق فرمایا: جو ان دونوں سے محبت کرتا ہے در حقیقت وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان دونوں سے بغض رکھتا ہے درحقیقت وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔ 
[المصنف - عبد الرزاق:6566(6369)، مسند إسحاق بن راهويه:211، مسند أحمد:7876+9673+10872، مسند البزار:9410، السنن الكبرى - النسائي:8112، المعجم الكبير للطبراني:2646+2647، المستدرك على الصحيحين للحاكم:4799، السنن الكبرى - البيهقي:6894]





سیدنا حسینؓ کی نرالی شان:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ العَقَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلَ الْحُسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ المَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ» ۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  حسین بن علی ؓ کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا: بیٹے! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم   ﷺ  نے فرمایا: اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے۔
[سنن الترمذي:3784، الشريعة للآجري:1648، المستدرك على الصحيحين للحاكم:4794، صحيح ابن حبان:6971،الأحاديث المختارة:410 ، كنز العمال:37651، جامع الأحاديث:38841]










عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: «الحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ»۔
ترجمہ:
حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ حسن ؓ سینہ سے سر تک کے حصہ میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین ؓ اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ سے مشابہ تھے۔
[سنن الترمذي:3779، مسند أحمد:774+854، صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع:3311، الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان:6974]




شہادتِ حسین اور نبوی پیشگوئی:
(1)عَنْ عَائِشَةَ أَوْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِإِحْدَاهُمَا: لَقَدْ دَخَلَ عَلَيَّ الْبَيْتَ مَلَكٌ لَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ قَبْلَهَا فَقَالَ لِي: إِنَّ ابْنَكَ هَذَا: حُسَيْنٌ مَقْتُولٌ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ مِنْ تُرْبَةِ الْأَرْضِ الَّتِي يُقْتَلُ بِهَا. قَالَ: فَأَخْرَجَ تُرْبَةً حَمْرَاءَ.
ترجمہ:
ام المومنین حضرت عائشہؓ یا ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی  ‌ﷺ ‌نے ان دونوں میں سے کسی ایک سے فرمایا: میرے پاس گھر میں ایک فرشتہ آیا ہے جو اس سے پہلے میرے پاس نہیں آیا اور مجھ سے کہا: تمہارا بیٹا حسین قتل کیا جائے گا، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمین کی مٹی دکھا سکتا ہوں جس میں اسے قتل کیا جائے گا۔ پھر اس نے سرخ مٹی نکال کر دکھائی۔
[مسند أحمد:26524، الصحيحة:822]

نکات:
(1)حضرت حسینؓ کی فضیلت(شہید کے درجہ پر فائز ہونا)۔
[فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل:1357، مجمع الزوائد:15113]
(2)فتنوں کا بیان:- حضرت حسین کی قتل کی جگہ
[المطالب العالية محققا:18/ 250]
(3)نبی کے نبوت کے سچائی کے دلائل:-معجزات اور پیشگوئیاں۔
[دلائل النبوة - السقار: صفحہ21]
(4)نواسہ مصطفیٰ ﷺ کو یہ امت قتل کرے گی۔
[صحيح ابن حبان:4855]
(5)اللہ کے فیصلون پر راضی رہنا۔
(6)اللہ کے کہنے پر پیغمبر ابراہیم کا اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کرنے کا نمونہ
(7)ہر سال ماتم ونوحہ کے بجائے صبر کرنا سنت ہے۔











(2)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ مَلَكَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ  أَنْ يَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنَ لَهُ، فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَةَ: " امْلِكِي عَلَيْنَا الْبَابَ، لَا يَدْخُلْ عَلَيْنَا أَحَدٌ "، قَالَ: وَجَاءَ الْحُسَيْنُ لِيَدْخُلَ فَمَنَعَتْهُ، فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ يَقْعُدُ عَلَى ظَهَرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَى مَنْكِبِهِ، وَعَلَى عَاتِقِهِ، قَالَ: فَقَالَ الْمَلَكُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتُحِبُّهُ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ: أَمَا إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُهُ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ الْمَكَانَ الَّذِي يُقْتَلُ فِيهِ، فَضَرَبَ بِيَدِهِ فَجَاءَ بِطِينَةٍ حَمْرَاءَ، فَأَخَذَتْهَا أُمُّ سَلَمَةَ فَصَرَّتْهَا فِي خِمَارِهَا قَالَ: قَالَ ثَابِتٌ: " بَلَغَنَا أَنَّهَا كَرْبَلَاءُ "۔
ترجمہ:
حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بارش کے ذمے دار فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی، اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دے دی، نبی ﷺ نے اس موقع پر حضرت ام سلمہؓ سے فرمایا کہ دروازے کا خیال رکھو کہ ہمارے پاس کوئی اندر نہ آنے پائے، تھوڑی دیر میں حضرت حسینؓ آئے اور گھر میں داخل ہونا چاہا، حضرت ام سلمہؓ نے انہیں روکا تو وہ کود کر اندر داخل ہوگئے اور جا کر نبی ﷺ کی پشت پر، مونڈھوں اور کندھوں پر بیٹھنے لگے، اس فرشتے نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس سے محبت ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں! تو فرشتے نے کہا کہ یاد رکھئے! آپ کی امت اسے قتل کر دے گی، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ بھی دکھا سکتا ہوں جہاں یہ شہید ہوں گے، یہ کہہ کر فرشتے نے اپنا ہاتھ مارا تو اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی مٹی آگئی، حضرت ام سلمہؓ نے وہ مٹی لے کر اپنے دوپٹے میں باندھ لی۔
[مسند أحمد:13539+13794، مسند أبي يعلى:3402، صحيح ابن حبان:4855، المعجم الكبير للطبراني:2813، دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني:492 الصحيحة: 822، صحيح الكتب التسعة وزوائده:6667]




(3)عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ، فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ، فَنَادَى عَلِيٌّ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللهِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللهِ، ‌بِشَطِّ ‌الْفُرَاتِ قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ، مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ: " بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ ‌بِشَطِّ ‌الْفُرَاتِ " قَالَ: فَقَالَ: " هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ؟ " قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. فَمَدَّ يَدَهُ، فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَأَعْطَانِيهَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا»۔
ترجمہ:
عبداللہ بن نجی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ علی‌ؓ  کے ساتھ جا رہے تھے،وہ ان کے وضو کا برتن (لوٹا) اٹھایا کرتے تھے۔ جب وہ (نینویٰ) کے قریب پہنچے جبکہ علی‌ؓ  صفین کی طرف جا رہے تھے۔ تو علی‌ؓ نے آواز دی:ابو عبداللہ! رکو، ابو عبداللہ! فرات کے کنارے رکو، میں نے کہا: کیا ہوا؟ علی‌ؓ  نے کہا: ایک دن میں نبی ﷺ کے پاس گیا،آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ کو کسی نے غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھوں آنسو کیوں جاری ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ جبریل ابھی ابھی میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ حسین فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم پسند کرو گے کہ میں اس کی مٹی کی خوشبو سنگھاؤں؟ علی‌ؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے ہاتھ آگے بڑھایا، آپ نے مٹی کی ایک مٹھی مجھے دی، مجھے بھی اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہا اور آنسو نکل آئے۔
[مسند أحمد:648،  الصحيحة:1171]

نکات:
(1)حضرت حسینؓ کی فضیلت(شہید کے درجہ پر قائز ہونا)۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:4818، مشكاة المصابيح:6180]
(2)فتنوں کا بیان:- حضرت حسین کا مقتل
[البداية والنهاية ت التركي:9/ 238، إمتاع الأسماع:12/ 237، المقفى الكبير:3/322]
(3)اپنی بیٹی (حضرت فاطمہؓ) کے بیٹے ابی عبداللہ الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں ان کے بیان کرنے کے بارے میں کیا بیان کیا گیا ہے۔ اور جو نشانیاں اس وقت ظاہر ہوئیں جو آپؓ کے دادا (محمد ﷺ) کی نبوت کی درستی پر دلالت کرتی ہیں۔
[دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 469]




(4)عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ، أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُ حُلْمًا مُنْكَرًا اللَّيْلَةَ، قَالَ: «مَا هُوَ؟» قَالَتْ: إِنَّهُ شَدِيدٌ، قَالَ: «مَا هُوَ؟» قَالَتْ: رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَوُضِعَتْ فِي حِجْرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتِ خَيْرًا، تَلِدُ فَاطِمَةُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غُلَامًا، فَيَكُونُ فِي حِجْرِكِ» فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ فَكَانَ فِي حِجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلْتُ يَوْمًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِي حِجْرِهِ، ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ، فَإِذَا عَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُهْرِيقَانِ مِنَ الدُّمُوعِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا لَكَ؟ قَالَ: «أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ ‌أُمَّتِي ‌سَتَقْتُلُ ‌ابْنِي هَذَا» فَقُلْتُ: هَذَا؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، وَأَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاءَ»۔
ترجمہ:
ام الفضل بنت حارثؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، اللہ کے رسول! میں نے رات ایک عجیب سا خواب دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: وہ بہت شدید ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ گویا گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جو آپ کے جسم اطہر سے کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے خیر دیکھی ہے، ان شاء اللہ فاطمہ بچے کو جنم دیں گی اور وہ تمہاری گود میں ہو گا۔ “ فاطمہؓ نے حسینؓ کو جنم دیا اور وہ میری گود میں تھا جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ (تو انہوں نے ان کو دودھ پلایا، جو قثم بن عباس کا دودھ تھا) ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے حسینؓ کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ پھر میں کسی اور طرف متوجہ ہو گئی، اچانک دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، وہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! میرے والدین آپ پر قربان ہوں! آپ کو کیا ہوا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جبریل ؑ میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے کہا: اس (بچے) کو؟ انہوں نے کہا: ہاں! اور انہوں نے مجھے اس (جگہ) کی سرخ مٹی لا کر دی۔ “
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:4818، دلائل النبوة للبيهقي:6/ 469، الصحيحة:‌‌821]
(مسند أحمد:26878، سنن ابن ماجه:3923، المعجم الكبير للطبراني:2541)




(5)أَخبَرنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، مَوْلَى ثَقِيفٍ، حَدثنا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، حَدثنا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدثنا يَحْيَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ وَهُوَ بِمَالٍ لَهُ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، قَدْ تَوَجَّهَ إِلَى الْعِرَاقِ، فَلَحِقَهُ عَلَى مَسِيرَةِ يَوْمَيْنِ، أَوْ ثَلَاثَةٍ، فَقَالَ: إِلَى أَيْنَ؟ فَقَالَ: هَذِهِ كُتُبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ وَبَيْعَتُهُمْ، فَقَالَ: لَا تَفْعَلْ، فَأَبَى، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَتَى النَّبِيَّ صَلى الله عَلَيه وسَلم فَخَيَّرَهُ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، ‌فَاخْتَارَ ‌الآخِرَةَ، ‌وَلَمْ ‌يُرِدِ ‌الدُّنْيَا، وَإِنَّكَ بَضْعَةٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلى الله عَلَيه وسَلم، كَذَلِكَ يُرِيدُهُ بِكُمْ، فَأَبَى، فَاعْتَنَقَهُ ابْنُ عُمَرَ، وَقَالَ: أَسْتَوْدِعُكَ اللهَ، وَالسَّلَامُ۔
ترجمہ:
ہم سے ثقیف کے مولا محمد بن اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بن محمد بن الصباح نے بیان کیا، ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، ہم سے یحییٰ بن اسماعیل بن سالم نے شعبی کی سند سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا: حضرت ابن عمرؓ کو ان کے مال کے ساتھ خبر ملی کہ حضرت حسین بن علی عراق گئے ہیں، تو وہ دو تین دن کے سفر میں ان کے پیچھے گئے، تو آپ(حضرت ابن عمرؓ) نے کہا: کہاں جارہے ہیں؟ آپ(حضرت حسینؓ) نے کہا: یہ اہل عراق کے خطوط ہیں اور(کس میں) ان کی بیعت ہیں، آپ(حضرت ابن عمرؓ) نے فرمایا: ایسا نہ کریں، لیکن آپ(حضرت حسینؓ) نے انکار کر دیا، حضرت ابن عمرؓ نے ان سے کہا: جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کو دنیا اور آخرت کے درمیان انتخاب کا اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے تو آخرت کی زندگی کا انتخاب کیا اور دنیا کو نہیں چاہا۔ اور آپ نبی اکرم ﷺ کے جگر کا ٹکڑا ہیں، نبی ﷺ بھی آپ سے یہی چیز چاہیں گے(کہ آپ بھی دنیا کی طرف متوجہ نہ ہوں)، لیکن آپؓ نے (واپس آنے سے) انکار کردیا، تو حضرت ابن عمرؓ نے آپ کو گلے سے لگایا اور (روتے ہوئے) کہا: میں آپ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں(اللہ آپ کو قتل ہونے سے سلامت رکھے)۔ والسلام
[صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع:3305، الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان:6968]
(معجم ابن الأعرابي:2409، الشريعة للآجري1668، صحيح موارد الظمآن:1886)




حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْمَنَامِ بِنِصْفِ النَّهَارِ أَشْعَثَ أَغْبَرَ مَعَهُ قَارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ يَلْتَقِطُهُ أَوْ يَتَتَبَّعُ فِيهَا شَيْئًا قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا هَذَا؟ قَالَ: دَمُ الْحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ لَمْ أَزَلْ أَتَتَبَّعُهُ مُنْذُ الْيَوْمَ " قَالَ عَمَّارٌ: " فَحَفِظْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ فَوَجَدْنَاهُ قُتِلَ ذَلِكَ الْيَوْمَ "۔
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نصف النہار کے وقت خواب میں نبی ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا، اس وقت آپ ﷺ کے بال بکھرے ہوئے اور جسم پر گرد و غبار تھا، آپ ﷺ کے پاس ایک بوتل تھی جس میں وہ کچھ تلاش کر رہے تھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ یہ کیا ہے؟ فرمایا: یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، میں صبح سے اس کی تلاش میں لگا ہوا ہوں۔ راوی حدیث عمار کہتے ہیں کہ: ہم نے وہ تاریخ اپنے ذہن میں محفوظ کرلی بعد میں پتہ چلا کہ حضرت امام حسینؓ اسی تاریخ اور اسی دن شہید ہوئے تھے (جس دن حضرت ابن عباسؓ نے خواب دیکھا تھا )
[احمد (2165)،  إسناده قوي على شرط مسلم.
وأخرجه الطبراني (2822) و (12837) ، والحاكم 4/397-398 من طرق عن حماد بن سلمة، بهذا الإسناد. وصححه الحاكم على شرط مسلم ووافقه الذهبي، وسيأتي برقم (2553) .]



اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی ﷺ کو معلوم تھا کہ میرا نواسہ شہید کردیا جائے گا تو اللہ سے دعا کیوں نہیں کی کہ اے اللہ! میرے نواسے کو بچالے، حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بھی بیٹے کی شہادت کی خبر پہلے سے ہی معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں رد نہیں ہونگی پھر ان لوگوں نے نبی سے دعا کرنے کے لئے کیوں نہیں کہا جس کا جواب یہی ہے کہ دین کو بچانے کے لئے صبر و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے اور دین کو پھیلانے کے لئے کرامت کی ضرورت ہوتی ہے اور نانا کے دین کو بچانے کے لئے نواسے نے اپنا گھرانہ قربان کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ آگے چل کر میرے دین کو جھٹلانے کی کوشش کی جائے گی ، قرآن مجید کی بے حرمتی کی جائے گی دین اسلام کے اصول ضابطوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی اس وقت میرے نواسے سے کہا جائے گا کہ تم بھی بیعت کرو اور اگر میرا نواسہ بیعت کرلے گا تو دین اسلام کی شبیہ بگڑ جائے گی پھر آنے والی نسلیں کہیں گی جب نبی کی شریعت کو بدلا جارہا تھا تو خود نبی کے نواسے نے مخالفت نہیں کی،، گویا ظالموں کے لئے وہ سند بن جائے گی اور پھر دین اسلام کی تصویر بگڑتی چلی جائے گی اس لیے نبی نے آنکھوں سے آنسو بہایا لیکن دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھایا اور آج ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ظلم و بر بریت، جاہلیت و دہشتگردی کے خلاف سب سے پہلے اور سب سے بڑی جنگ نانا محمد الرسول اللہ اور نواسہ امام حسین نے لڑی ہے
[مشکوٰۃ/ خصائص کبریٰ/ صواعق محرقہ]



************************



حضرت حسینؓ بن علیؓ
نام ونسب
حسین نام،ابو عبداللہ کنیت "سید شباب اہل الجنہ"اورریحانۃ النبی لقب، علی مرتضیؓ باپ اورسیدہ بتولؓ جگر گوشۂ رسول ماں تھیں اس لحاظ سے آپ کی ذات گرامی قریش کا خلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھی، شجرہ طیبہ یہ ہے،حسینؓ بن علی ؓ بن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف قرشی ہاشمی ومطلبی،ع
دل وجان باوفدایت چہ عجب خوش لقبی

***
پیدائش
ابھی آپ شکم مادر میں تھے کہ حضرت حارثؓ کی صاحبزادی نے خواب دیکھا کہ کسی نے رسول اکرمﷺ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گود میں رکھ دیا ہے،انہوں نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نے ایک ناگوار اور بھیانک خواب دیکھا ہے،فرمایا کیا؟ عرض کیا ناقابل بیان ہے فرمایا بیان کرو آخر کیا ہے؟ آنحضرتﷺ کے اصرار پر انہوں نے خواب بیان کیا ،آپﷺ نے فرمایا یہ تو نہایت مبارک خواب ہے ،فاطمہؓ کے لڑکا پیدا ہوگا اورتم اس کو گود میں لوگی۔
(مستدرک حاکم:۳/۱۷۶)
کچھ دنوں کے بعد اس خواب کی تعبیر ملی اور ریاض نبوی میں وہ خوش رنگ ارغوانی پھول کھلا، جس کی مہک حق وصداقت ،جرأت وبسالت،عزم واستقلال ،ایمان وعمل اورایثار وقربانی کی وادیوں کو ابد الآباد تک بساتی اورجس کی رنگینی عقیق کی سرخی ،شفق کی گلگونی اورلالہ کے داغ کو ہمیشہ شرماتی رہے گی، یعنی شعبان ۴ھ میں علیؓ کاکا شانہ حسینؓ کے تولد سے رشک گلزار بنا، ولادت باسعادت کی خبر سن کر آنحضرتﷺ تشریف لائے اورفرمانے لگے بچے کو دکھاؤ، کیا نام رکھا گیا؟ اورنومولود بچہ کو منگا کر اس کے کانوں میں اذان دی ،اس طرح گویا پہلی مرتبہ خود زبان وحی والہام نے اس بچہ کے کانوں میں توحید الہیٰ کا صور پھونکا درحقیقت اسی صور کا اثر تھا کہ
سرداد،دست نداددردستِ یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
پھر فاطمہ زہراؓ کو عقیقہ کرنے اور بچہ کے بالوں کے ہموزن چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا ،پدر بزرگوار کے حکم کے مطابق فاطمہ زہراؓ نے عقیقہ کیا۔
[مستدرک حاکم:۳/۷۶،فضائل حسینؓ، موطا امام مالک کتاب العقیقہ باب ماجاء فی العقیقہ میں بھی اس کا ذکر ہے]
والدین نے حرب نام رکھا تھا ،لیکن آنحضرتﷺ کو یہ نام پسند نہ آیا، آپ نے بدل کر حسینؓ رکھا۔
(اسد الغابہ:۲/۱۸)


***
عہد نبویﷺ
حضرت حسینؓ کے بچپن کے حالات میں صرف ان کے ساتھ آنحضرتﷺ کے پیار اورمحبت کے واقعات ملتے ہیں،آپ ان کے ساتھ غیر معمولی شفقت فرماتے تھے،تقریباً روزانہ دونوں کو دیکھنے کے لئے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور دونوں کو بلا کر پیار کرتے اورکھلاتے، دونوں بچے آپ سے بیحد مانوس اورشوخ تھے،لیکن آپ نے کبھی کسی شوخی پر تنبیہ نہیں فرمائی؛بلکہ ان کی شوخیاں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے، اس قسم کے تمام حالات حضرت حسنؓ کے تذکرہ میں لکھے جاچکے ہیں، اس لئے یہاں ان کے اعادہ کی حاجت نہیں حضرت حسینؓ کا سن صرف سات برس کا تھا کہ نانا کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔

***
عہد صدیقی
حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں امام حسینؓ کی عمر۷،۸ سال سے زیادہ نہ تھی اس لئے ان کے عہد کا کوئی خاص واقعہ قابل ذکر نہیں ہے،بجز اس کے کہ حضرت ابوبکرؓ،نبیرہ رسول کی حیثیت سے حضرت حسینؓ کو بہت مانتے تھے۔

***
عہد فاروقی
حضرت عمرؓ کے ابتدائی عہدِ خلافت میں بھی بہت صغیر السن تھے، البتہ آخری عہد میں سن شعور کو پہنچ چکے تھے،لیکن اس عہد کی مہمات میں ان کا نام نظر نہیں آتا، حضرت عمرؓ بھی حضرت حسینؓ پر بڑی شفقت فرماتے تھے اورقرابتِ رسول ﷺ کا خاص لحاظ رکھتے تھے ؛چنانچہ جب بدری صحابہؓ کے لڑکوں کا دو دو ہزار وظیفہ مقرر کیا، توحضرت حسینؓ کا محض قرابت رسول کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر کیا۔
(فتوح البلدان بلاذری ذکر عطا عمر بن الخطاب)
آپ کسی چیز میں بھی حضرت حسینؓ کی ذات گرامی کو نظر انداز نہ ہونے دیتے تھے ایک مرتبہ یمن سے بہت سے حلے آئے، حضرت عمرؓ نے تمام صحابہؓ میں تقسیم کئے، آپ قبر اور منبر نبوی کے درمیان تشریف فرما تھے، لوگ ان حلوں کو پہن پہن کر شکریہ کے طور پر آکر سلام کرتے تھے، اسی دوران میں حضرت حسنؓ وحسینؓ حضرت فاطمہؓ کے گھر سے نکلے، آپ کا گھر حجرہ مسجد کے درمیان میں تھا، حضرت عمرؓ کی نظر ان دونوں پر پڑی تو ان کے جسموں پر حلے نظر نہ آئے، یہ دیکھ کر آپ کو تکلیف پہنچی اور لوگوں سے فرمایا مجھے تمہیں حلے پہنا کر کوئی خوشی نہیں ہوئی، انہوں نے پوچھا امیر الومنین یہ کیوں ،فرمایا اس لئے کہ ان دونوں لڑکوں کے جسم ان حلوں سے خالی ہیں اس کے بعد فوراً حاکم یمن کو حکم بھیجا کہ جلد سے جلد دو حلے بھیجو اور حلے منگوا کر دونوں بھائیوں کو پہنانے کے بعد فرمایا، اب مجھے خوشی ہوئی ایک روایت یہ ہے کہ پہلے حلے حضرت حسنؓ وحسینؓ کے لائق نہ تھے۔
[تاریخ دمشق-امام ابن عساکر:۴/۳۲۱،۳۲۳]
حضرت عمرؓ حسینؓ کو اپنے صاحبزادے عبداللہ سے بھی جو عمر اورذاتی فضل وکمال میں ان دونوں سے فائق تھے،زیادہ مانتے تھے، ایک مرتبہ آپ منبر نبویﷺ پر خطبہ دے رہے تھے کہ حسینؓ آئے اور منبر پر چڑھ کر کہا میرے باپ (رسول اللہ ﷺ ) کے منبر سے اترو اوراپنے باپ کے منبر پر جاؤ، حضرت عمرؓ نے اس طفلانہ شوخی پر فرمایا کہ میرے باپ کے تو کوئی منبر ہی نہ تھا اورانہیں اپنے پاس بٹھالیا، خطبہ تمام کرنے کے بعد انہیں اپنے ساتھ گھرلیتے گئے راستہ میں پوچھا کہ یہ تم کو کس نے سکھایا تھا؟ بولے واللہ کسی نے نہیں، پھر فرمایا کبھی کبھی میرے پاس آیا کرو ؛چنانچہ اس ارشاد کے مطابق ایک مرتبہ حسینؓ ان کے پاس گئے اس وقت حضرت عمرؓ معاویہؓ سے تنہائی میں کچھ گفتگو کررہے تھے اورابن عمرؓ دروازہ پر کھڑے تھے،حسینؓ بھی ان ہی کے پاس کھڑےہوگئے اور بغیرملےہوئے ان ہی کے ساتھ واپس چلے گئے، اس کے بعد جب حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے پوچھا تم آئے کیوں نہیں؟ انہوں نے جواب دیا امیر المومنین میں حاضر ہوا تھا،مگر آپ معاویہ سے گفتگو میں مشغول تھے،اس لئے عبداللہ کے ساتھ کھڑا رہا، پھر ان ہی کے ساتھ لوٹ گیا،فرمایا تم کو ان کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی، تم ان سے زیادہ حقدار ہوجو کچھ ہماری عزت ہے وہ خدا کے بعد تم ہی لوگوں کی دی ہوئی ہے۔
[الإصابة في تمييز الصحابة:۳/۱۵]

***
عہد عثمانی
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں پورے جوان ہوچکے تھے؛چنانچہ سب سے اول اسی عہد میں میدان جہاد میں قدم رکھا اور ۳۰ ھ میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے [ابن اثیر:۳/۸۴] پھر جب حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی اورباغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا تو حضرت علیؓ نے دونوں بھائیوں کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں ؛چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھی نہایت بہادری کے ساتھ باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا جب باغی کوٹھے پر چڑھ کر اندر اتر گئے اورحضرت عثمانؓ کو شہید کرڈالا اورحضرت علیؓ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے دونوں بھائیوں سے نہایت سختی کے ساتھ باز پرس کی کہ تمہارے ہوتے ہوئے باغی کس طرح اندر گھس گئے۔

***
جنگ جمل وصفین
جنگ جمل میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تھے ،اختتام جنگ کے بعد کئی میل تک حضرت عائشہ کو پہنچانے کے لئے گئے،جنگ جمل کے بعد صفین کے قیامت خیز واقعہ میں بھی آپ نے بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، لیکن یہاں ان لاطائل تفصیلات کی ضرورت نہیں التوائے جنگ کے بعد معاہدہ نامہ میں بحیثیت شاہد کے حضرت حسینؓ کے بھی دستخط تھے پھر جنگ صفین کے بعد خوارج کی سرکوبی میں بڑے انہماک سے حصہ لیا۔

***
حضرت علیؓ کی شہادت
اس کے بعد ۴۰ھ میں حضرت علیؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا زخم بہت کاری تھا، جب حالت زیادہ نازک ہوئی تو حضرت حسنؓ وحسینؓ کو بلاکر مفید نصیحتیں کیں اورمحمد بن حنفیہ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرکے مرتبہ شہادت پر ممتاز ہوگئے۔

***
عہد معاویہ
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ خلیفہ ہوئے،لیکن جیسا کہ اوپر ان کے حالات میں معلوم ہوچکا ہے، آپ مسلمانوں کی خونریزی سے بچنے کے لئے معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبرداری پر آمادہ ہوگئے اور حسینؓ کو اپنے عزم سے آگاہ کیاحسینؓ نے اس کی بڑی پر زور مخالفت کی جس کی تفصیل اوپر گذرچکی ہے، لیکن حضرت حسنؓ کے عزم راسخ کے سامنے ان کی مخالفت کا میاب نہ ہوسکی اور۴۱ھ میں حضرت حسنؓ امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے،حضرت حسینؓ کو بھی برادر بزرگ کے فیصلہ کے سامنے سرخم کرنا پڑا، گو حضرت حسینؓ امیر معاویہؓ کو حق پر نہیں سمجھتے تھے،تاہم ان کے زمانہ کی لڑائیوں میں برابر شریک ہوتے تھے؛چنانچہ ۴۹ھ میں قسطنطنیہ کی مشہور مہم میں جس کا کماندار سفیان بن عوف تھا، مجاہدانہ شرکت کی تھی، جس کا ذکر امیر معاویہؓ کے حالات میں اوپر گذر چکا ہے۔




***
حضرت حسنؓ کا انتقال
اسی سال یعنی ۴۹ھ میں حضرت حسنؓ کا انتقال ہوگیا اس سلسلہ میں حضرت حسینؓ کو جوجو واقعات پیش آئے ان کا تذکرہ حضرت حسنؓ کے حالات میں گزر چکا ہے اس لئے یہاں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔


***
امیر معاویہ اورحسینؓ
ممکن ہے حضرت امام حسینؓ کا دل امیر معاویہؓ کی جانب سے صاف نہ رہا ہو،یا وہ ان کو اچھا نہ سمجھتے ہوں لیکن دونوں کے ظاہر تعلقات خوشگوار تھے اورامیر معاویہؓ ان کا بڑا لحاظ رکھتے تھے، حضرت حسنؓ نے دستبرداری کے وقت حسینؓ کے لئے جورقم مقرر کرائی تھی وہ امیر معاویہؓ انہیں برابر پہنچاتے رہے ؛بلکہ اس رقم کے علاوہ بھی مسلوک ہوتےرہتے تھے البتہ یزید کے ولی-عہدی کے وقت ناخوشگواری پیدا ہوگئی تھی،لیکن اس میں بھی کوئی بدنما صورت نہیں پیدا ہونے پائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۵۶ھ میں جب امیر معاویہؓ نے اہل مدینہ سے یزید کی بیعت لینی چاہی تو طبری کے بیان کے مطابق سوائے چند لوگوں کے کل اہل مدینہ نے بیعت کرلی بیعت نہ کرنے والوں میں ایک امام حسینؓ بھی تھے، لیکن جب عام بیعت ہوگئی تو امیر معاویہؓ نے ان لوگوں سے کچھ زیادہ اصرار نہیں کیا(طبری:۷۱۹۷) یہ طبری کی روایت ہے ابن اثیر کی روایت کی رُو سے امیر معاویہؓ نے پہلے تمام اکابر مدینہ سے بزور بیعت لی اوران کی بیعت کو عوام کے سامنے سند میں پیش کرکے سب سے بیعت لی اورکسی نے کوئی اختلاف نہیں کیا، سب خاموش رہے،ان خاموش رہنے والوں میں حضرت حسینؓ بھی تھے، اس کی تفصیل امیر معاویہؓ کے حالات پر لکھی جاچکی ہے۔
امیر معاویہؓ نہایت زمانہ شناس اور بڑے عاقبت بین مدبر تھے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا پہلے سے اندازہ کرلیتے تھے چنانچہ اس کا یقین تھا کہ ان کے بعد ابن زبیر ضرور خلافت کا دعویٰ کریں گے اورحسینؓ کو بھی اہل عراق یزید کے مقابلہ میں کھڑا کردیں گے اس لئے موت کے وقت یزید سے دونوں کے بارہ میں وصیت کرتے گئے، حضرت حسینؓ کے متعلق خاص طور سے تاکید کی تھی کہ میرے بعد عراق والے حسین ؓ کو تمہارے مقابلہ لاکر چھوڑیں گے جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہوجائے تو درگذر سے کام لینا کیونکہ وہ قرابت دار، بڑے حقدار اوررسول اللہ ﷺ کے عزیز ہیں۔
[تاریخ طبری:۷/۱۹۰،والفخزی:۱۰۲]

***
یزید کی تخت نشینی:
رجب ۶۰ھ میں امیر معاویہؓ کا انتقال ہوا ان کے بعد یزید جس کی بیعت وہ اپنی زندگی ہی میں لے چکے تھے،ان کا جانشین ہوا، تختِ حکومت پر قدم رکھنے کے بعد یزید کے لئے سب سے اہم معاملہ حضرت حسینؓ اورابن زبیرؓ کی بیعت کا تھا،کیونکہ یزید کی ولیعہدی کی بیعت کے وقت ان دونوں نے اس کو نہ دل سے تسلیم کیا تھا اورنہ زبان سے اقرار کیا تھا اوران کے بیعت نہ کرنے کی صورت میں خود ان کی جانب سے دعویٰ خلافت اورحجاز میں یزید کی مخالفت کا خطرہ تھا،کیونکہ ان کے دعویٰ خلافت سے سارا حجاز یزید کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا اورحسینؓ کی وجہ سے عراق میں بھی شورش بپا ہوجاتی جیسا کہ آیندہ چل کر ابن زبیرؓ کے دعویٰ خلافت کے زمانہ میں ہوا کہ شام کے بعض حصوں کے سوا قریب قریب پورا ملک ابن زبیرؓ کے ساتھ ہوگیا، ان اسباب کی بنا پر اپنی حکومت کی بقا اور تحفظ کے لئے یزید نے ان دونوں سے بیعت لینا ضروری سمجھا گویہ اس کی ناعاقبت اندیشی تھی اگر وہ سمجھداری سے کام لے کر ان بزرگوں کو ساتھ ملا لیتا تو بہت ممکن تھا کہ وہ ناگوار واقعات پیش نہ آتے جنہوں نے نہ صرف یزید کو ساری دنیا میں بد نام ؛بلکہ اموی حکومت کو لوگوں کی نگاہوں میں مطعون کردیا، جس کا اثر اموی حکومت پر بہت برا پڑا۔
(بنی امیہ کے خلاف عباسیوں کی دعوت میں کامیابی کا ایک بڑا سبب حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ بھی تھا)
لیکن یزید نے ان پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تخت حکومت پر قدم رکھتے ہی ولید بن عتبہ حاکم مدینہ کے نام ان دونوں سے بیعت لینے کا تاکیدی حکم بھیجا، ابھی تک مدینہ میں امیر معاویہؓ کی وفات کی خبر نہ پہنچی تھی،ولید کے لئے اس حکم کی تعمیل بہت مشکل تھی، وہ اس کے انجام سے واقف تھا، اس لئے بہت گھبرایا اوراس نے اپنے نائب مروان سے مشورہ کیا،مروان سخت مزاج تھا اس نے کہا دونوں کو اسی وقت بلا کر ان سے بیعت کا مطالبہ کرو اگر مان جائیں تو فبہا اوراگر ذرا بھی لیت و لعل کریں تو سر قلم کردو، ورنہ ان لوگوں کو معاویہ کی موت کی خبر مل گئی تو پھر ان میں سے ہر ایک شخص ایک ایک مقام پر خلافت کا مدعی بن کر کھڑا ہوجائے گا اوراس وقت سخت دشواری پیش آئے گی۔
اس مشورہ کے بعد ولید نے ان دونوں کو بلا بھیجا ،اولاً یہ طلبی ایسے غیر معمولی وقت میں ہوئی تھی جو ولید کے ملنے کا وقت نہ تھا دوسرے امیر معاویہؓ کی علالت کی خبریں مدینہ آچکی تھیں ان قیاسات سے دونوں آدمی سمجھ گئے کہ امیر معاویہؓ کا انتقال ہوگیا ہے اورانہیں بیعت کے لئےبلایا گیا ہے،تاکہ معاویہ کی موت کی خبر پھیلنے سے پہلے ہی مدینہ میں بیعت لے لی جائے، حضرت حسینؓ کو اندازہ تھا کہ انکار بیعت کی صورت میں کس حد تک معاملہ نزاکت اختیار کرسکتا ہے،اس لئے اپنی حفاظت کا سامان کرکے ولید کے پاس پہنچے اورمکان کے باہر آدمیوں کو متعین کردیا تاکہ اگر کوئی ناگوار شکل پیش آئے تو وہ لوگ فورا آپ کی آواز پر پہنچ جائیں ،ولید نے انہیں امیر معاویہؓ کی موت کی خبر سنا کر یزید کی بیعت کے لئے کہا، حضرت حسینؓ نے تعزیت کے بعد یہ عذر کیا کہ میرے جیسا آدمی چھپ کر بیعت نہیں کرسکتا، اورنہ میرے لئے خفیہ بیعت کرنا زیبا ہے جب تم عام بیعت کے لئے لوگوں کو بلاؤ گے تو میں بھی آجاؤں گا اور عام مسلمان جو صورت اختیار کریں گے اس میں مجھے بھی کوئی عذر نہ ہوگا، ولید نرم خو اور صلح پسند آدمی تھا اس لئے رضا مند ہوگیا اورحضرت حسینؓ لوٹ گئے ،مروان جس نے زبردستی بیعت لینے اورانکار کی صورت میں قتل کردینے کی رائے دی تھی ولید کی اس نرمی اورصلح پسندی پر بہت برہم ہوا اورکہا تم نے میرا کہنا نہ مانا، اب تم ان پر قابو نہیں پاسکتے، ولید بولا افسوس تم فاطمہؓ بنت رسولﷺ کے لڑکے حسینؓ کے خون سے میرے ہاتھ آلودہ کرنا چاہتے ہو خدا کی قسم قیامت کے دن حسینؓ کے خون کا جس سے محاسبہ کیا جائے گا، اس کا پلہ خدا کے نزدیک ہلکا ہوگا۔
[ابن اثیر:۴/۱۰واخبارالطوال:۲۴۱،حسینؓ کے ساتھ ابن زبیرؓ کے حالات بھی ہیں،ان کا ذکر ان کے حال میں آئندہ آئے گا]

***
صاحبزادہ علی المرتضیٰ امام محمد بن حنفیہؒ کا مشورہ:
ولید کے پاس سے واپس آنے کے بعد حضرت حسینؓ بڑی کشمکش میں تھے، آپ کو اس مشکل سے مفر کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی ،ایک طرف آپ یزید کی بیعت دل سے سخت ناپسند کرتے تھے، کیونکہ اس کی ولیعہدی کی بیعت خلفائے راشدینؓ کے اسلامی طریقۂ انتخاب کے بالکل خلاف غیر شرعی اور قیصر وکسریٰ کے طرز کی پہلی شخصی ومورثی بادشاہت تھی، دوسری جمہور امت کے خلاف بھی نہیں چاہتے تھے؛ چنانچہ ولید سے فرمادیا تھا کہ جب تمام اہل مدینہ بیعت کرلیں گے تو مجھے بھی کوئی عذر نہ ہوگا، تیسرے اہل عراق خود آپ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے اورآپ کے پاس اس مضمون کے بہت سے خطوط آچکے تھے کہ آپ ظالم حکومت کے مقابلہ میں خلافت قبول کیجئے ان تمام حالات نے آپ کو بڑی کشمکش میں مبتلا کردیا۔
جس دن حضرت حسینؓ ولید سے ملے تھے، اس کے دوسرے دن حضرت عبداللہ بن زبیرؓ مدینہ سے مکہ نکل گئے اوردن بھر ولید اوران کا عملہ ان کی تلاش میں سرگرداں رہا، اس لئے حضرت حسینؓ کا کسی کو خیال نہ آیا، اس کے بعد دوسرے دن ولید نے پھر حضرت حسینؓ کے پاس یاد دہانی کے لئے آدمی بھیجا آپ نے ایک دن کی اور مہلت مانگی، ولید نے اسے بھی منظور کرلیا، اس کے بعد بھی حسینؓ کوئی فیصلہ نہ کرسکے اوراسی کشمکش اورپریشانی میں اپنے اہل وعیال اورعزیز واقربا کو لیکر رات کو نکل کھڑے ہوئے ؛لیکن ابھی تک یہ بھی طے نہیں کیا تھا کہ مدینہ سے نکل کر جائیں تو کدھر جائیں،محمد بن حنفیہ نے مشورہ دیا کہ اس وقت آپ یزید کی بیعت اور کسی مخصوص شہر کے ارادہ سے جہاں تک ہوسکے الگ رہیے اوران لوگوں کو خود اپنی خلافت کی دعوت دیجئے اگر وہ لوگ بیعت کرلیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور اگر کسی دوسرے شخص پر لوگوں کا اجتماع ہوجائے تو اسے آپ کے اوصاف وکمالات اور فضائل میں کمی نہ آئے گی، مجھے خوف ہے کہ اگر آپ اس پر شور زمانہ میں کسی مخصوص شہر اور مخصوص جماعت کے پاس جانے کا قصد کریں گے تو ان میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، ایک فریق آپ کی حمایت کرے گا دوسرا مخالفت، پھر یہ دونوں آپس میں لڑیں گے اورآپ ان کے نیزوں کا پہلا نشانہ بنیں گے، اس طرح اس امت کا معزز ترین اور شریف ترین شخص جس کا ذاتی اورنسبی شرف میں کوئی مقابل نہیں ہے سب سے زیادہ ذلیل اور پست اور اس کا خون سب سے زیادہ ارزاں ہوجائے گا، یہ مشورہ سن کر حضرت حسینؓ نے پوچھا پھر میں کہاں جاؤں، محمد بن حنفیہ نے کہا: مکہ اگر وہاں آپ کو اطمینان حاصل ہوجائے تو کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی، اور اگر وہاں بھی اطمینان حاصل نہ ہو تو کسی اور ریگستان اور پہاڑی علاقہ میں نکل جائیے اور اس وقت تک برابر ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل ہوتے رہیے جب تک ملک کا کوئی فیصلہ ہوجائے اس درمیان میں آپ کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے، جب واقعات سامنے آجاتے ہیں اس وقت آپ کی رائے بہت زیادہ صائب ہوجاتی اور آپ کا طریقہ کار بہت زیادہ صحیح ہوجاتا ہے، حضرت حسینؓ نے محمد بن حنفیہ کا مشورہ پسند کیا اور فرمایا تمہاری نصیحت بہت محبت آمیز ہے تمہاری رائے بھی صائب ہوگی۔
[تاریخ طبری:۷/۲۲۰،۲۲۱،ملحضا]

حضرت علی کے صاحبزادے امام محمد بن الحنفیہؒ کی یزید کے متعلق گواہی:
ابن مطیع اپنے ساتھیوں کے ساتھ امام محمد بن حنفیہ کے پاس آیا اور کہا کہ یزید شرابی، بےنمازی، حکمِ قرآن کا مخالف ہے۔ تو آپ نے یہ کہا کہ:
مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ حَضَرْتُهُ وَأَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا عَلَى الصَّلَاةِ، مُتَحَرِّيًا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ، مُلَازِمًا لِلسُّنَّةِ۔
ترجمہ:
میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا جو تم ذکر کرتے ہو، اور یقینا میں اس کے پاس قیام کرتا، تو میں نے دیکھا اسے ہمیشہ پابند نماز کا، خیر کا متلاشی، فقہ(دینی مسائل) پوچھتا رہتا، اور سنت کی پابندی کرتا۔
[البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:11/ 653 دارالھجر، مختصر تاريخ دمشق(امام)ابن عساکر:28/ 27 دارلافکر]

اس نے کہا: یہ اسکا آپ کیلئے بناوٹ اور دکھلاوا ہوگا۔
[تاريخ الإسلام(امام)الذھبی:5/ 274 تدمیری]

آپ نے فرمایا:
اور وہ کیا ہے جو مجھ سے خوف یا امید رکھے کہ وہ میرے لئے خشوع کرے؟! کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تمہیں شراب پینے کے متعلق جس کا تم تذکرہ کرتے ہو؟ پس اگر وہ تم پر ظاہر کرے تو یقینا تم اس کے شراکت دار ہو، اور اگر وہ تم پر ظاہر نہ کرے تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم شہادت دو جس بات کو تم نہیں جانتے۔ انہوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک حق ہے، چاہے ہم نے اسے نہ دیکھا ہو۔ آپ نے ان سے فرمایا: یقینا انکار کیا اللہ نے اس(علم نہ رکھنے والے) شاہدی دینے والوں سے۔ پس اللہ نے فرمایا: {سوائے ان کے جو حق کی گواہی دیتے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں}۔ [سورۃ الزخرف: 86]۔ میں تمہیں(اپنی طرف سے)کسی چیز کا حکم نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا: شاید آپ اس بات ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اور اس معاملے کو سنبھالے، تو پھر ہم آپ کو اپنے معاملے کی سرپرستی دیتے ہیں۔ آپ نے کہا: نہیں ہے حلال لڑنا اس پر جو تم مجھ سے ارادہ رکھتے ہو۔
[تاريخ الإسلام(امام)الذھبی:5/ 274 تدمیری، البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:11/ 653 دارالھجر، مختصر تاريخ دمشق(امام)ابن عساکر:28/ 27 دارلافکر]
***
حضرت حسینؓ کا سفر مکہ:
اس وقت مدینہ بہت پر آشوب ہو رہا تھا ،اس کے مقابلہ میں اگر کہیں امن تھا تو وہ حرم محترم تھا اور حضرت حسینؓ کے پاس کوفہ سے خط پر خط اورآدمی پر آدمی آرہے تھے کہ آپ کوفہ تشریف لائیے ہم سب جان نثاری کے لئے تیار ہیں،لیکن محمد بن حنفیہ نے کسی دوسرے مقام پر جانے کی مخالفت کی تھی اورمکہ ہی میں قیام کرنے کا مشورہ دیا تھا، اس لئے حضرت حسینؓ نے مدینہ چھوڑ کر مکہ جانے کا قصد کرلیا؛چنانچہ شعبان ۶۰ ھ میں مع اہل وعیال مکہ روانہ ہوگئے،راستہ میں عبداللہ بن مطیع ملے انہوں نے آپ کو مدینہ سے جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا میں آپ پر فدا ہوں کہاں کا قصد ہے فرمایا فی الحال مکہ جاتا ہوں،عبداللہ نے کہا، اس میں مضائقہ نہیں،مگر خدا کے لئے کوفہ کا قصد نہ کیجئے گا، وہ منحوس شہر ہے، وہاں آپ کے والد شہید کئے گئے، آپ کے بھائی بے یار و مدد گار چھوڑے گئے،نیز ے سے زخمی ہوئے جان جاتے جاتے بچی، آپ حر م میں بیٹھ جایے، آپ عرب کے سردار ہیں، حجازی آپ کے مقابلہ میں کسی کو نہ مانیں گے، حرم میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف مائل کیجئے ،میرے چچا اورماموں آپ پرفدا ہوں آپ حرم کو ہرگز ہرگز نہ چھوڑئیے گا اگر نصیب دشمناں آپ پر کوئی آنچ آئی تو ہم سب غلام بناڈالے جائیں گے۔

***
تحقیق حال
مکہ پہنچنے کے بعد حضرت حسینؓ نے شعب ابی طالب (یہ وہی گھاٹی ہے جس میں آغاز اسلام میں قریش نے آنحضرتﷺ اورآپ کے ساتھ آپ کےحامیوں کو تبلیغ اسلام کے جرم میں نظر بند کیا تھا) میں قیام فرمایا، آپ کی آمد کی خبر سن کر لوگ جوق درجوق زیارت کے لئے آنے لگے اورکوفیوں کے بلاوے کے خطوط کا تانتا بندھ گیا ،عمائد کوفہ کے وفود نے آکر عرض کیا کہ آپ جلد سے جلد کوفہ تشریف لے چلئے وہاں کی مسند خلافت آپ کے لئے خالی ہے اورہماری گردنیں آپ کے لئے حاضر ہیں، حضرت حسینؓ نے یہ اشتیاق سن کر فرمایا میں تمہاری محبت اور ہمدردی کا شکر گذار ہوں؛ لیکن فی الحال نہیں جاسکتا، پہلے اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں، یہ وہاں کے حالات کا اندازہ لگا کر مجھے اطلاع دیں گے،اس وقت میں کوفہ کا قصد کرونگا ؛چنانچہ مسلم کو ایک خط دے کر کوفہ روانہ کردیا کہ وہ براہ راست خود حالات کا صحیح اندازہ لگا کر اطلاع دیں اوراگر حالات کا رخ کچھ بدلا ہوا دیکھیں تو لوٹ آئیں ؛چنانچہ مسلم دو آدمیوں کو لیکر کوفہ روانہ ہوگئے ،راستہ میں بڑی دشواریاں پیش آئیں پانی کی قلت کی وجہ سے دونوں آدمی ہلاک ہوگئے، مسلم نے کوفہ کے قریب پہنچ کر حضرت حسینؓ کو خط لکھا کہ میں ان ان دشواریوں کے ساتھ یہاں تک پہنچا ہوں، بہتر ہوتا کہ یہ خدمت کسی دوسرے کے سپرد کردیجاتی، لیکن امام نے جواب میں لکھا کہ یہ تمہاری کمزوری ہے ہمت نہ ہارو، اس لئے مسلم کو چاروناچار کوفہ میں داخل ہونا پڑا، کوفہ والے چشم براہ ہی تھے مسلم کو ہاتھوں ہاتھ لیا اوران کے پہنچتے ہی کوفہ میں یزید کی علانیہ مخالفت شروع ہوگئی۔

***
یزید کو مسلم کے پہنچنے کی اطلاع
مسلم کے کوفہ پہنچنے کے بعد حکومت شام کے جاسوسوں نے پایہ تخت دمشق اطلاع بھیجی کہ حسینؓ کی طرف سے مسلم بیعت لینے کے لئے کوفہ آگئے ہیں،اگر سلطنت کی بقا منظور ہے تو فوراً اس کا تدارک ضروری ہے،اس اطلاع پر دربار دمشق سے عبید اللہ بن زیاد کے نام تاکیدی حکم آیا کہ تم فوراً کوفہ جاکر مسلم کو خارج البلد کردو اوراگر وہ اس میں مزاحمت کریں تو قتل کردو، ابن زیاد کو بصرہ میں یہ فرمان ملا اتفاق سے اسی دن حضرت حسینؓ کا ایک اورقاصد اہل بصرہ کے نام بھی آپ کا خط لیکر آیا تھا، بصرہ والوں کو یزید کے فرمان کا علم ہوچکا تھا اس لئے انہوں نے اس قاصد کو چھپادیا، مگر ابن زیاد کے خسر کو اس کا علم ہوگیا تھا،اس نے ابن زیاد کو خبر کردی،ابن زیاد نے اسی وقت قاصد کو گرفتار کرکے قتل کرادیا اور جامع بصرہ میں تقریر کی کہ "امیر المومنین"نے مجھے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی حکومت بھی مرحمت فرمائی ہے، اس لئے میں وہاں جارہا ہوں، میری عدم موجودگی میں میرا بھائی عثمان میری نیابت کرے گا، تم لوگوں کو اختلاف اورشورش سے بچنا چاہیے یاد رکھو جس کے متعلق مجھے ان میں حصہ لینے کی اطلاع ملے گی:اس کو اور اس کے حامی دونوں کو قتل کرڈالوں گا اور قریب وبعید اورگناہگار وناکردہ گناہ سب کو ایک گھاٹ اتاروں گا،تآنکہ تم لوگ راہ راست پر آجاؤ ،میرا فرض سمجھا نا تھا اسے میں نے پورا کردیا، اب میں بری الذمہ ہوں۔

***
کوفہ میں ابن زیاد کا ورود
اس تہدید آمیز تقریر کے بعد ابن زیاد بصرہ سے کوفہ روانہ ہوگیا، اہل کوفہ حضرت حسینؓ کیلئے چشم براہ تھے اورآپ کے دھوکے میں ہر باہر سے آنے والے کو دیکھ کر مرحبا با بن رسول اللہ کا نعرہ لگاتے تھے، اس لئے ابن زیاد کوفہ میں جن جن راستوں سے گذرا یہی نعرہ سنائی دیا ان کو سن کر جوش غضب سے لبریز ہو گیا اور سیدھا جامع مسجد پہنچا اور لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی کہ "باشند گان کوفہ امیر المومنین نے مجھے تمہارے شہر کا حاکم بناکر بھیجا ہے اور مظلوم کے ساتھ انصاف مطیع ومنقاد کے ساتھ احسان اورنافرمان اورباغی کے ساتھ سختی کا حکم دیا ہے ،میں اس حکم کی پوری پابندی کروں گا، فرما نبرداروں کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آؤں گا؛ لیکن مخالفوں کے لئے سم قاتل ہوں۔

***
کوفہ میں مسلم کا خفیہ سلسلۂ بیعت
اس اعلان سے مسلم گھبراگئے اور رات کو اپنے قیام گاہ سے نکل کراہل بیعت کے ایک چاہنے والے ہانی بن عروہ مذحجی کے یہاں پہنچے، ابن زیاد کے اعلان سے سب خوفزدہ ہورہے تھے، اس لئے ہانی کو پہلے مسلم کے ٹھہرانے میں تذبذب ہوا،لیکن پھر زنانہ مکان کے ایک محفوظ حصہ میں چھپادیا، حضرت حسینؓ کا ایک بڑا حامی شریک بن اعور سلمی جو بصرہ کا ایک مقتدر اور معزز شخص تھا،عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ کوفہ آیا ہوا تھا،اس تعلق سے ہانی نے اسے بھی اپنا مہمان بنایا اورمسلم کے ساتھ ٹھہرایا، اس نے ہانی کو مسلم کی امد اوپر آمادہ کیا اور مسلم کے پاس حضرت حسینؓ کےحامیوں کی خفیہ آمد ورفت شروع ہوگئی اوران کی بیعت کا سلسلہ جاری ہوگیا سوء اتفاق اسی دوران میں شریک بیمار پڑگیا، ابن زیاد کو خبر ہوئی تو وہ عیادت کیلئے آیا اُ س کے آنے کی خبر سن کر شریک نے پہلے سے اس کا قصہ چکانے کا بندوبست کرلیا اورمسلم کو ایک خفیہ مقام پر چھپا کر ہدایت کردی کہ وہ موقع پاتے ہی نکل کر ابن زیاد کا کام تمام کردیں اس کے بعد بصرہ کی مسند خلافت تمہارے لئے خالی ہوجائے گی، اورکوئی مزاحم باقی نہ رہے گا ،ہانی نے اپنے گھر میں یہ صورت ناپسند کی، لیکن شریک نے اس قتل کو مذہبی خدمت بتا کر ہانی کو آمادہ کرلیا، اس کے بعد ہی عبیداللہ بن زیاد عیادت کے لئے آگیا اور دیر تک بیٹھا رہا مگر مسلم نہ نکلے، شریک نے اشارہ بھی کیا، مگر کسی وجہ سے مسلم نے حملہ مناسب نہ سمجھا اورابن زیاد بچ کر نکل گیا، اس کی واپسی کے بعد شریک نے کہا تم نے بڑی بزدلی سے کام لیا، مسلم نے جواب دیا اول ہمارے میز بان ہانی کو یہ صورت حال پسند نہ تھی دوسرے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ "ایمان اچانک حملہ سے روکتا ہے " اور اچانک حملہ مسلمانوں کے شایان شان نہیں، میرے پاؤں پکڑ لیتا تھا، بہرحال مسلم نے اپنی دینداری کی بنا پر ابن زیاد کے قتل کا بہترین موقع کھودیا، لیکن اس کے بعد بھی ان کا سلسلہ بیعت بدستور برابر جاری رہا اور اٹھارہ ہزار اہل کوفہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے حضرت حسینؓ کے زمرۂ عقیدت میں داخل ہوگئے۔

***
ہانی مذحجی کا قتل
ابن زیاد کو مسلم کی تلاش میں عرصہ گذرچکا تھا؛ لیکن ابھی تک اسے ان کا پتہ نہ چلتا تھا، آخر کار اس نے اپنے غلام معقل کو سراغ رسانی پر مامور کیا، اس قسم کی خفیہ تحریکوں کا پتہ چلانے کے لئے بہترین مقام مسجد تھی، کیونکہ مسجد میں ہر قسم کے لوگ آتے تھے اس لئے یہ غلام سیدھا جامع مسجد پہنچا، یہاں دیکھا کہ ایک شخص مسلسل نمازیں پڑھ رہا ہے، معقل نے نمازوں کی کثرت سے قیاس کیا کہ یہ حضرت حسینؓ کے حامیوں میں ہے اوراس کے پاس جاکر کہا کہ میں شامی غلام ہوں، خدا نے میرے دل میں اہل بیت نبویﷺ کی محبت ڈال دی ہے، میرے پاس تین ہزار درہم ہیں،میں نے سنا ہے کہ یہاں حسینؓ کا کوئی داعی آیا ہے، میں یہ حقیر رقم اس کی خدمت میں نذر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ا س کو کسی کار خیر میں صرف کریں یہ سن کر داعی نے سوال کیا، مسجد میں اور مسلمان بھی ہیں، تم نے خاص طور سے مجھ سے یہ سوال کیوں کیا؟ معقل نے جواب دیا، آپ کے بشرہ پرخیر کے آثار نظرآئے، معقل کی اس پر فریب گفتگو سے وہ شخص دام میں آگیا،اس کو معقل کی حمایت ِحسینؓ کا یقین ہوگیا؛چنانچہ اس ملاقات کے دوسرے دن معقل اس داعی کے ہمراہ مسلم کے پاس پہنچا اور تین ہزار درہم پیش کرکے بیعت کی، اورحالات کا پتہ چلانے کیلئے اظہار عقیدت وخدمت کے بہانے ان ہی کےپاس رہنے لگا، رات بھر مسلم کے پاس رہتا اور دن کو ابن زیاد کے پاس جاکر مفصل رپورٹ پہنچاتا، ہانی چونکہ مقتدر آدمی تھے اس لئے پہلے ابن زیاد کے پاس آیا جایا کرتے تھے، لیکن جب سے مسلم کے مشن کے کارکن ہوگئے تھے اس وقت سے بیماری کا بہانہ کرکے آنا جانا ترک کردیا تھا، ایک دن زیاد کے پاس محمد بن اشعث اوراسماء بن خارجہ آئے، ابن زیاد نے ان سے پوچھا ہانی کا کیا حال ہے، انہوں نے کہا بیمار ہیں، ابن زیاد نے کہا کیسے بیمار ہیں کہ دن بھر اپنے دروازہ پر بیٹھے رہتے ہیں، یہ دونوں یہاں سے واپس گئے تو ہانی سے ابن زیاد کا سوئے ظن بیان کیا اور کہا کہ تم ابھی ہمارے ساتھ چلو تاکہ اسی وقت معاملہ صاف ہوجائے ان دونوں کے کہنے سے ہانی ان کے ساتھ ہوگئے، مگر دل میں اطمینان نہ تھا اس لئے قصر امارت کے پاس پہنچ کر ان کو خوف پیدا ہوا انہوں نے کہا کہ مجھے اس شخص سے ڈر معلوم ہوتا ہے، محمد بن اشعث نے اطمینان دلایا کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں تم بالکل بری الذمہ ہو اور ہانی کو اندر لے گئے ،ابن زیاد کو تمام خفیہ حالات کی خبر ہوچکی تھی اس نے ہانی کو دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا۔
أُرِيدُ حِبَاءَه ويرُيدُ قَتلى … عَذِيرَك ‌من ‌خَليِلك ‌من مُرادِ
میں اس کو انعام دینا چاہتا ہوں اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے  قبیلۂ مراد سے اپنے کسی دوست کو معذرت کے لئے لا۔
[الأخبار الطوال-أبو حنيفة الدينوري(م282ھ) : صفحہ237،تاريخ الطبري:5/ 365، الكامل في التاريخ-ابن الأثير:3/ 139، البداية والنهاية-ابن كثير:11/ 484 ت التركي]
ہانی نے یہ شعر سن کر پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ ابن زیاد نے کہا مطلب پوچھتے ہو مسلم کو چھپانا، ان کی بیعت کے لئے لوگوں کو خفیہ جمع کرنا اس سے بڑھ کر سنگین جرم کیا اورہوسکتا ہے، ہانی نے اس الزام سے انکار کیا،ابن زیاد نے اسی وقت معقل کو طلب کیا اور ہانی سے کہا اسے پہچانتے ہو،معقل کو دیکھ کر ہانی کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اب وہ سمجھے کہ یہ شیعیت کے بھیس میں جاسوسی کررہا تھا اس عینی شہادت کے سامنے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی، اس لئے صاف صاف اقرار کرلیا کہ آپ سچ کہتے ہیں،لیکن خدا کی قسم میں نے مسلم کو بلایا نہیں تھا اورکل واقعہ صحیح صحیح بیان کرکے وعدہ کیا کہ ابھی جاکر انہیں اپنے گھر سے نکالے دیتا ہوں اورنکال کر واپس آتا ہوں،لیکن ابن زیاد نے اس کی اجازت نہ دی اورکہا کہ خدا کی قسم تم اس وقت تک یہاں سے واپس نہیں جاسکتے جب تک مسلم یہاں نہ آجائیں ،ہانی نے جواب دیا یہ نہیں ہوسکتا، خدا کی قسم میں اپنے مہمان اورپناہ گزین کو قتل کے لئے کبھی تمہارے حوالہ نہیں کروں گا، یہ جواب سن کر ابن زیاد بیتاب ہوگیا اوراس زور سے ہانی کو بید مارا کہ ان کی ناک پھٹ گئی اور ابرو کی ہڈی ٹوٹ گئی اور انہیں ایک گھر میں ڈلوادیا۔
[اخبار الطوال:۲۴۸،۲۵۱]
ادھر شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل کردیئے گئے،یہ افواہ سن کر ہانی کے قبیلہ والے ہزاروں کی تعداد میں قصر امارت پر ٹوٹ پڑے اور انتقام انتقام کا نعرہ لگانے لگے یہ نازک صورت دیکھ کر ابن زیاد بہت گھبرایا اورقاضی شریح سے کہا آپ ہانی کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر ہانی کے قبیلہ والوں کو اطمینان دلادیجئے کہ وہ قتل نہیں کئے گئے ؛چنانچہ قاضی صاحب ہانی کے معائنہ کے لئے گئے ہانی اپنے قبیلہ والوں کا شور وہنگامہ سن رہے تھے، قاضی کو دیکھ کر کہا یہ آوازیں میرے قبیلہ والوں کی معلوم ہوتی ہیں،ا نہیں آپ صرف اتنا پیام پہنچادیجیے کہ اگر اس وقت ان لوگوں میں سے دس آدمی بھی آجائیں تو میں چھوٹ سکتا ہوں، لیکن قاضی شریح کے ساتھ جاسوس لگاہوا تھا اس لئے وہ یہ پیام نہ پہنچا سکے اوربنی مذحج کوہانی کی زندگی کا یقین دلا کر واپس کردیا۔

***
اہل کوفہ کی غداری
مسلم بن عقیل نے ہانی کے قتل کی افواہ سنی تو اپنے اٹھارہ ہزار آدمیوں کے ساتھ قصرامارۃ پر حملہ کرکے ابن زیاد کو گھیرلیا، اس وقت ابن زیاد کے پاس صرف پچاس آدمی تھے ۳۰ پولیس کے آدمی اور ۲۰ عمائد کوفہ،ان کے علاوہ مدافعت کی کوئی قوت نہ تھی، اس لئے اس نے محل کا پھاٹک بند کرالیا اور لوگوں سے کہا کہ تم لوگ نکل کر اپنے اپنے قبیلہ والوں کو تہدید وتخویف طمع اورلالچ کے ذریعہ سے جس طرح بھی ہوسکے مسلم کے ساتھ سے علیحدہ کردو اور عمائد کوفہ کو حکم دیا کہ قصر کی چھت پرچڑھ کر یہ اعلان کریں کہ اس وقت جو شخص امیر کی اطاعت کریگا اس کو انعام واکرام دیا جائےگا جو بغاوت کرے گا اس کو نہایت سنگین سزا دیجائے گی ،عمائد کوفہ کے اس اعلان پر مسلم کے بہت سے ساتھی منتشر ہوگئے ،شہر کے لوگ آتے تھے اوراپنے اعزہ واقربا کو لیجاتے تھے، اس طرح چھنٹتے چھنٹتے مسلم کے ساتھ کل ۳۰ آدمی رہ گئے جب انہوں نے کوفی حامیان حسینؓ کی یہ غداری دیکھی تو کندہ کے محلہ کی طرف چلے گئے اوریہاں باقی ماندہ تیسوں آدمیوں نے بھی ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑدیا اورمسلم تن تنہا رہ گئے، اس کسم پرسی کی حالت میں کوفہ کی گلیوں کی خاک چھانتے اور ٹھوکریں کھاتے ہوئے ،طوعہ نامی ایک عورت کے دروازے پر پہنچے،اس عورت کا لڑکا بلال شورش پسندوں کے ساتھ نکل گیا تھا وہ اس وقت اس کی واپسی کا انتظار کررہی تھی۔
مسلم نے اس کے دروازہ پر پہنچ کر پانی مانگا،اس نے پانی پلایا پانی پلانے کے بعد کہا اب جاؤ اپنا راستہ لو؛ لیکن مسلم جاتے تو اب کہا جاتے ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہ گئی تھی، اس لئے وہ سن کر خاموش ہوگئے، عورت نے پھر دو تین مرتبہ کہا تیسری مرتبہ مسلم نے جواب دیا کہ میں اس شہر میں پردیسی ہوں،میرا گھر اورمیرے اقربا یہاں نہیں، ایسی حالت میں تم میرے ساتھ کچھ سلوک کرسکتی ہو؟ عورت نے پوچھا کس قسم کا؟ مسلم نے کہا میں مسلم بن عقیل ہوں،کوفہ والوں نے میرے ساتھ غداری کی ہے، بوڑھی عورت خدا ترس تھی، مسلم کی داستانِ مصیبت سن کر انہیں اپنے مکان میں چھپایا اور ان کی خبر گیری کرتی رہی ،اس کے بعد جب اس کا لڑکا واپس آیا اوراس نے ماں کو مکان کے ایک خاص حصہ میں زیادہ آتے جاتے دیکھا تو سبب پوچھا بوڑھی ماں نے پہلے چھپایا ؛لیکن جب بیٹے نے زیادہ اصرار کیا تو راز داری کا وعدہ لیکر بتادیا۔

***
مسلم کی گرفتاری
جب سے مسلم ہانی کے گھر سے نکلے تھے، اسی وقت سے ابن زیاد ان کی تلاش میں مصروف تھا؛ لیکن پتہ نہ چلتا تھا اس لئے اس نے ایک دن اہل شہر کو مسجد میں جمع کرکے اعلان کیا کہ جاہل اورکمینہ مسلم بن عقیل نے جو فتنہ بپا کیا ہے اس کو تم لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اس لئے جس شخص کے گھر سے وہ برآمد ہوں گے وہ ماخوذ ہوگا اورجو انہیں گرفتار کرکے لائے گا اسے انعام دیا جائے گا، اس اعلان کے بعد حسین بن تمیم کو کوفہ میں عام تلاشی کا حکم دیا، جس عورت کے گھر میں روپوش تھے اس کے لڑکے کو علم ہوچکا تھا ابن زیاد کے اعلان سے وہ گھبرا گیا، اوردوسرے دن صبح کو اس نے عبدالرحمن بن محمد سے تذکرہ کیا کہ مسلم ہمارے گھر میں روپوش ہیں ،عبدالرحمن نے قصرامارۃ میں جاکر اپنے باپ کو اطلاع دی، اس نے ابن زیاد سے کہدیا اس طرح مسلم کا پتہ چل گیا،ابن زیاد نے اُسی وقت ستر آدمیوں کا ایک دستہ مسلم کی گرفتاری کے لئے بھیج دیا، دستہ کی آمد کا شور سن کر مسلم سمجھ گئے؛ لیکن مطلق خوفزدہ نہ ہوئے اورتن تنہا پورے دستہ کا نہایت شجاعت وبہادری کے ساتھ مقابلہ کرکے انہیں گھر سے باہر کردیا یہ لوگ پھر ریلا کرکے اندر گھسے ،مسلم نے پھر نکال باہر کیا، کہ اتنے میں بکر بن حمران نے مسلم کے چہرہ پر ایسا وار کیا کہ اوپر کا ہونٹ کٹ گیا اورسامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے ؛لیکن اس حالت میں بھی مسلم نے اس شخص کو نہایت سخت زخمی کردیا اس کے زخمی ہوتے ہی باقی ۶۹ آدمی چھت پر چڑھ گئے اور اوپر سے مسلم کے اوپر آگ اور پتھر برسانے لگے ،مسلم نے یہ بزدلی دیکھی تو گلی میں نکل آئے اور بڑا پرزور مقابلہ کیا، شامی دستہ کے امیر محمد بن اشعث نے کہا کہ تنہا کب تک مقابلہ کروگے جان دینے سے کیا فائدہ میں تمیں امان دیتا ہوں ،سپر ڈال دو اوراپنے کو بیکار ہلاک نہ کرو، مسلم نے اس کے جواب میں نہایت بہادرانہ رجز پڑھا، لیکن محمد بن اشعث نے یقین دلایا کہ تمہارے ساتھ کوئی فریب نہ کیا جائے گا، مقابلہ سے باز آجاؤ،مسلم زخموں سے چور ہوچکے تھے،مزید مقابلہ کی طاقت باقی نہ تھی، اس لئے مکان کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے،محمد بن اشعث نے پھر امان کی تجدید کی،لیکن عمرو ابن عبید اللہ سلمی نے اسے تسلیم نہ کیا اورمسلم کی سواری کے لئے اونٹ تک مہیا نہ کیا؛چنانچہ اس خستہ حالت میں ان کو خچر پر سوار کرکے تلوار چھین لی گئی،تلوار چھننے سے مسلم کو اپنی زندگی سے مایوسی ہوگئی، اوربادیدہ پرنم کہا یہ پہلا دھوکا ہے، محمد بن اشعث نے پھر اطمینان دلایا،لیکن مسلم بہت مایوس تھے،بولے اب امان کہاں اس کی طرف آس ہی آس ہے،عمرو ابن عبید اللہ نے اشکباری پر طعنہ دیا کہ خلافت کے مدعی کو مصائب سے گھبراکر رونانہ چاہیے ،مسلم نے کہا میں اپنے لئے نہیں روتا ہوں ؛بلکہ اپنے گھر والوں کے لئے روتا ہوں جو تمہارے یہاں آرہے ہیں حسینؓ کے لئے روتا ہوں ،آل حسینؓ کے لئے روتا ہوں، پھر محمد بن اشعث سے کہا میرا بچانا تمہارے بس سے باہر ہے،البتہ اگر تم سے ہوسکے تو میرے بعد اتنا کام کرنا کہ حسینؓ کو میری حالت کی خبر کرکے یہ پیام بھجوادینا کہ وہ اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیں اور کوفہ والوں پر ہرگز ہرگز اعتماد نہ کریں، محمد بن اشعث نے کہا خدا کی قسم جس طرح بھی ہوسکے گا یہ پیام ضرور پہنچاؤں گا ، محمد بن اشعث نے یہ وعدہ پورا بھی کیا جس کا ذکر آئندہ آئے گا۔
مسلم کو امان دینے کے بعد محمد بن اشعث انہیں قصرامارت میں لایا،اورابن زیاد سے کہا کہ میں مسلم کو امان دے چکا ہوں،لیکن ابن زیاد نے اسے تسلیم نہیں کیا اورکہا تم کو امان دینےکا اختیارنہ تھا ،میں نے تم کو صرف گرفتار کرنے کے لئے بھیجا تھا، اس کی ڈانٹ سُن کر محمد بن اشعث خاموش ہوگئے،مسلم بن عمرو باہلی نے جواب دیا دیکھتے ہو کتنا ٹھنڈا پانی ہے لیکن ا س میں سے تم کو ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا، تم کو اس کے عوض آتش دوزخ کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، اس کے اس کہنے پر مسلم نے پوچھا تم کون ہو؟ ابن عمرونے جواب دیا میں وہ ہوں جس نے حق کو اس وقت پہچاناجب تم نے اسے کوچھوڑا اورامت مسلمہ اورامام وقت کا خیر خواہ رہا جب تم نے ان کے ساتھ گھاٹ کی اوراس کا مطیع و منقاد رہا، جب تم نے سرکشی کی میں مسلم بن عمرو ہوں مسلم بن عقیل نے یہ جواب سن کر کہا تیری ماں تجھے روئے تو بھی کس قدر سنگ دل،قسی القلب، ظالم اور درشت خو ہے، ہاہلہ کے بچے تو مجھ سے زیادہ کھولتے ہوئے پانی اوردائمی دوزخ کا مستحق ہے۔

***
ابن زیاد سے گفتگو
مسلم بن عمرو اورمسلم بن عقیل کی اس تلخ گفتگو کے بعد ایک نرم دل نے پانی کا پیالہ لیا، مگر زخموں کی کثرت سے مسلم کا ہر موئے بدن خوننابہ فشاں ہورہا تھا، اس لئے جیسے ہی گلاس منہ سے لگاتے تھے، خون سے بھرجاتا اورمسلم اسے ہٹا لیتے،تیسری مرتبہ گلاس لبوں سے لگا یاتو دو دانت جو مقابلہ میں اکھڑ گئے تھے اور خفیف سے اٹکے ہوئے تھے،گلاس کی ٹھیس لگتے ہی اس میں رہ گئے، مسلم نے گلاس لبوں سے ہٹا لیا اورکہا خدا کا شکر ہے،پانی پینا قسمت میں ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی غرض اسی طرح تشنہ لب ابن زیاد کے سامنے پیش کئے گئے ،مسلم نے قاعدہ کے مطابق ابن زیاد کو سلام نہیں کیا، نگران نے ٹوکا امیر کو سلام نہیں کرتے؟ کہا اگر وہ قتل کرنا چاہتے ہیں تو سلام نہیں کروں گا اوراگر قتل کا ارادہ نہیں ہے تو بہت سے سلام لیں گے، ابن زیاد بولا، اپنی عمر کی قسم ضرور قتل کروں گا، مسلم نے کہا واقعی، ابن زیاد نے جواب دیا، ہاں واقعی، مسلم نے کہا اگر قتل ہی کرنا ہے تو پھر اپنے کسی قبیلہ والے سے کچھ وصیت کرنے کی مہلت دو ،ابن زیاد نے یہ درخواست قبول کرلی،اس وقت مسلم کے قریبی اعزہ میں عمر بن سعد پاس تھا، مسلم نے اس سے کہا میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں عمر بن سعد نے سننے سے انکار کیا، اس کے انکار پر ابن زیاد نے غیرت دلائی کہ اپنے ابن عم کو مایوس نہ کرنا چاہیے، (یہ طبری کی روایت ہے،دنیوری کا بیان ہے کہ عمر بن سعد نے یہ تمام وصیتیں نہایت خوشی سے سنیں اوران کے پورا کرنے کا پختہ وعدہ کیا۔) اس کے غیر ت دلانے پر عمر بن سعد مسلم کے پاس گیا، انہوں نے وصیت کی کہ میں نے کوفہ میں سات سو درہم قرض لئے تھے، میرے بعد انہیں ادا کرنا، اورمیری لاش لے کر دفن کردینا، حسینؓ آرہے ہوں گے ان کے پاس آدمی بھیج کر راستہ سے واپس کردینا ابن سعد نے ابن زیاد سے ان وصیتوں کے بارہ میں پوچھا اس نے کہا جو وصیت مال کے متعلق ہے اس کے بارہ میں تم کو پورا اختیار ہے جیسا چاہو کرو، حسینؓ کے بارہ میں میرا طرز عمل یہ ہے کہ اگر وہ یہاں نہ آئیں گے تو میں خواہ مخواہ ان کا تعاقب نہ کراؤں گااور اگر آگئے تو چھوڑ بھی نہیں سکتا، البتہ لاش کے بارہ میں تمہاری سفارش نہیں سنی جاسکتی جس نے ہماری اتنی مخالفت کی ہو اس کی لاش ہر گز اس طرز عمل کی مستحق نہیں ہے اورایک روایت یہ ہے کہ لاش کے متعلق بھی اس نے کہا کہ قتل کرنے کے بعد ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے۔
(طبری:۷/۲۶۵،۲۶۶)

***
مسلم اورابن زیاد
اس وصیت کے بعد مسلم دوباہ پھر ابن زیاد کے سامنے لائے گئے اوران دونوں میں یہ مکالمہ ہوا:
ابن زیاد:لوگ آپس میں متحد و متفق تھے،تم ان میں تفرقہ اوراختلاف ڈلوانے اورآپس میں لڑانے کے لئے آئے؟
مسلم:یہ خلاف واقعہ ہے ،میں ہرگز اس مقصد کے لئے نہیں آیا؛بلکہ کوفہ والوں کا خیال تھا کہ تمہارے باپ نے ان کے بزرگوں اورنیک لوگوں کو قتل کیا، ان کا خون بہایا اور اسلامی خلافت کو چھوڑ کر قیصر وکسریٰ کا ساطرز عمل اختیار کیا، اس لئے ہم یہاں قیام عدل اورکتاب اللہ کے احکام کی دعوت دینے کے لئے آئے۔
ابن زیاد: یہ چوٹیں سن کر غضبناک ہوگیا تھا بولا فاسق تیرے منہ پر یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا کیا تو جب مدینہ میں بادہ نوشی کرتا تھا، اس وقت ہم یہاں عدل وکتاب اللہ پر عمل کی دعوت نہیں دیتے تھے؟
مسلم: میں شراب پیتا تھا؟ خدا کی قسم وہ خوب جانتا ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے اور بغیر علم کے اتہام لگاتا ہے جیسا تو نے بیان کیا میں ویسا نہیں ہوں مجھ سے زیادہ شراب نوشی کا وہ مستحق ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہیں جو خدا کی حرام کی ہوئی جانوں کولیتا ہے اوربغیر قصاص کے لوگوں کو قتل کرتا ہے،حرام خون بہاتا ہے محض ذاتی عداوت ،غصہ اورسوئے ظن پر لوگوں کی جان لیتا ہے اورپھر ان ستم آرائیوں پر اس طرح لہو ولعب میں مشغول ہے گویا اس نے کچھ کیا ہی نہیں۔
ابن زیاد: فاسق تیرے نفس نے تجھے ایسی چیز کی تمنا دلائی جس کا خدانے تجھے اہل نہ سمجھا ،اسی لئے تیری آروزو پوری نہ ہونے دی۔
مسلم:پھر اس کا کون اہل تھا؟
ابن زیاد: امیر المومنین یزید!
مسلم: ہر حال میں خدا کا شکر ہے ،وہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو فیصلہ چاہے کردے ۔
ابن زیاد:معلوم ہوتا ہے تم خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہو؟
مسلم:خیال ہی نہیں ؛بلکہ اس کا یقین ہے۔
ابن زیاد :اگر میں تم کو اس بری طرح قتل نہ کروں کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہ ملے تو خدا مجھے قتل کرے۔
مسلم:بیشک اسلام میں تم کو ایسی نئی مثالوں کے قائم کرنے اورنئی بدعات کے جاری کرنے کا حق ہے جو اس میں نہیں ہیں تم کوخدا کی قسم !تم برے طریقہ سے قتل کرنا، برے طریقہ سے مثل کرنا، اورخبث سیرت کسی ایک برائی کو بھی نہ چھوڑو ان برائیوں کا تم سے زیادہ کوئی مستحق نہیں ہے۔
یہ دندان شکن جواب سن کر ابن زیاد بالکل بے قابو ہوگیا اور مسلمؓ، حسینؓ، علیؓ اورعقیلؓ پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی، گالیاں برسانے کے بعد مسلمؓ کو پانی پلوا کر جلادوں کو حکم دیا کہ انہیں محل کی بالائی منزل پر لے جاکر قتل کردو اور قتل کرنے کے بعد ان کا دھڑ نیچے پھینک دو ،مسلم نے اس قتل بے گناہی کے خلاف پھر ایک بار احتجاج کیا؛ لیکن کون سننے والا تھا،آخر میں ابن زیاد نے یہ خدمت اس شخص کے سپرد کی جس کو مسلم نے زخمی کیا تھا تاکہ وہ انتقامی جذبہ کے ساتھ انہیں قتل کرے؛چنانچہ یہ شخص مسلم کو مقتل کی طرف لے چلا، اس وقت مسلمؓ کی زبان پر تکبیر ،استغفار اورملائکہ اوررُسل پردرود سلام جاری تھا اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدایا میرے اوران لوگوں کے درمیان تو ہی فیصلہ کر جنہوں نے ہم کو دھوکا دیا جھٹلایا اورذلیل کیا ،جلاد نے مقامِ قتل پر لیجا کر گردن ماردی اورسرکے ساتھ دھڑ بھی نیچے پھینک دیا، اس درد ناک طریقہ پر حضرت حسینؓ کا ایک نہایت قوی بازو ٹوٹ گیا۔
[تاریخ طبری:۷/۲۶۵،۲۶۷]

***
اس کے دوسرے دن پھر ابن عباسؓ آئے اورکہا "ابن عم میرا دل نہیں مانتا، صبر کی صورت بنانا چاہتا ہوں،مگر حقیقۃ ًصبر نہیں کرسکتا، مجھے اس راستہ میں تمہاری ہلاکت کاخوف ہے، عراقیوں کی قوم فریبی ہے ،تم ہر گز ان کے قریب نہ جاؤ، مکہ ہی میں رہو، تم اہل حجاز کے سردار ہو، اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ وہ واقعی تمہیں بلانا چاہتے ہیں تو ان کو لکھو کہ پہلے وہ اپنے دشمنوں کو نکال دیں،پھر تم جاؤ،لیکن اگر نہیں رکتے اوریہاں سے جانے ہی پر اصرار ہے تو یمن چلے جاؤ، وہ ایک وسیع ملک ہے وہاں قلعے اورگھاٹیاں ہیں تمہارے باپ کے حامی ہیں اور بالکل الگ تھلگ مقام ہے، تم اسی گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر لوگوں کو دعوتی خطوط لکھو اورہر طرف اپنے دعاۃ بھیجو، مجھ کو امید ہے کہ اس طرح امن و عافیت کے ساتھ تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا ،یہ سن کر حضرت حسینؓ نے فرمایا مجھ کو یقین ہے کہ آپ میرے شفیق ناصح ہیں ،لیکن اب تو میں ارادہ کرچکا ہوں، حضرت ابن عباسؓ جب بالکل مایوس ہوچکے تو فرمایا، اچھا اگر جاتے ہی ہو تو عورتوں اوربچوں کو ساتھ نہ لے جاؤ، مجھ کو خطرہ ہے کہ تم بھی عثمانؓ کی طرح اپنے بچوں اور عورتوں کے سامنے نہ قتل کردیئے جاؤ اور وہ غریب دیکھتے رہ جائیں، لیکن کار کنانِ قضا وقدر کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس لیے ابن عباسؓ کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اورحضرت حسینؓ کسی بات پر رضامندنہ ہوئے، (طبری:۷/۲۷۲،۲۷۵) پھر ابوبکر بن حارث نے آکر عرض کیا کہ آپ کے والد ماجد صاحب اقتدار تھے ان کی طرف مسلمانوں کا عام رجحان تھا ان کے احکام پر سرجھکاتے تھے،شام کے علاوہ تمام ممالک اسلامیہ ان کے ساتھ تھے، اس اثر واقتدار کے باوجود جب وہ معاویہ کے مقابلہ میں نکلے تو دنیا کی طمع میں لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا،تنہا ساتھ ہی چھوڑنے پر اکتفا نہیں کیا ؛بلکہ ان کے سخت مخالف ہوگئے اورخدا کی مرضی پوری ہوکر رہی ان کے بعد عراقیوں نے آپ کے بھائی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی آپ کی نگاہ کے سامنے ہے، ان تجربات کے بعد بھی آپ اپنے والد کے دشمنوں کے پاس اس امید پر جاتے ہیں کہ وہ آپ کا ساتھ دیں گے، شامی آپ سے زیادہ مستعد اورمضبوط ہیں،لوگوں کے دلوں میں ان کا رعب ہے، یاد رکھئے کہ آپ کے پہنچتے ہی شامی کوفیوں کو طمع دلا کر توڑلیں گے اوریہ سگِ دنیا فوراً ان سے مل جائیں گے اورجن لوگوں کو آپ کی محبت کا دعویٰ ہے اور جنہوں نے مدد کا وعدہ کیا ہے وہی لوگ آپ کو چھوڑ کر آپ کے دشمن بن جائیں گے،ابوبکر حارث کا یہ پرزور استدلال بھی حضرت حسینؓ کے عزم راسخ کو بدل نہ سکا ،آپ نے جواب دیا خدا کی مرضی پوری ہوکر رہے گی
[مسعودی:۳/۴۵۷،برحاشیہ نفع الطیب]
اس کے بعد حضرت ابن عمرؓ اوردوسرے خاص خاص ہوا خواہوں نے روکنا چاہا، لیکن قضائے الہی نہیں ٹل سکتی تھی۔

***
مکہ سے کاروان اہل بیت کی روانگی
غرض ترویہ کے دن ذی الحجہ(۶۰ ھ)کو کاروان اہل بیت مکہ سے روانہ ہوا، عمرو بن سعید بن عاص اموی حاکم مکہ کے سواروں نے روکنے کی کوشش کی؛ لیکن حضرت حسینؓ زبردستی آگے بڑھتے چلے گئے اور تنعیم پہنچ کر مزید اونٹ کرایہ پر لئے اور بڑھتے ہوئے صفاح پہنچے، یہاں فرزدق شاعر ملا، آپ نے اس سے عراق کے حالات پوچھے،اس نے کہا آپ نے ایک باخبر شخص سے حال پوچھا، لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں،لیکن تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں، قضائے الہی آسمان سے اترتی ہے خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے آپ نے سنکر فرمایا تم نے سچ کہا :
لِلَّهِ الْأَمْرُ ‌يَفْعَلُ ‌مَا ‌يَشَاءُ وَكُلَّ يَوْمٍ رَبُّنَا فِي شَأْنٍ 
اگر اللہ کا حکم ہمارے موافق ہو تو اس کی نعمتوں پر اس کے شکر گزار ہوں گے ،شکر گزاری میں وہی مدد گار ہے اوراگر اللہ کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوا تو بھی ہماری نیت حق اور تقویٰ ہے، فرزدق سے گفتگو کے بعد قافلہ آگے بڑھا۔
[البداية والنهاية-ابن كثير:11/ 540 ت التركي، الكامل في التاريخ-ابن الأثير:3/ 140، تاريخ الطبري:5/ 386 أنساب الأشراف للبلاذري:3/ 164-165]
راستہ میں عبداللہ بن جعفر کا خط ملا کہ میں خدا کا واسطہ دلاتا ہوں، میرا خط ملتے ہی فوراً لوٹ آئیے، مجھے ڈر ہے کہ جہاں آپ جارہے ہیں وہاں آپ کی ہلاکت اورآپ کے اہلبیت کی بربادی ہے،اگر خدانخواستہ آپ ہلاک ہوگئے تو دنیا تاریک ہوجائے گی، آپ ہدایت یابوں کا علم اورمومنوں کا آسرا ہیں، آپ سفر میں جلدی نہ کیجئے، خط کے بعد ہی میں بھی پہنچتا ہوں، اس خط کے بعد عبداللہ نے عمرو بن سعید حاکم مکہ سے کہا کہ وہ اپنی جانب سے بھی ایک خط لکھ کر حسینؓ کو واپس بلالے، عمرو بن سعید نے کہا تم مضمون لکھ دو میں اس پر مہر لگادوں گا؛چنانچہ عبداللہ نے عمرو کی جانب سے حسب ذیل خط لکھا:
"میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو اس راستہ سے پھیردے ،جدھر تم جارہے ہو میں نے سنا ہے کہ تم عراق جاتے ہو، میں تم کو خدا کا واسطہ دلاتا ہوں کہ افتراق اورانشقاق سے باز آؤ،اس میں تمہاری ہلاکت ہے میں تمہارے پاس عبداللہ بن جعفر اوراپنے بھائی کو بھیجتا ہوں، تم ان کے ساتھ لوٹ آؤ میں تم کو امان دیتا ہوں اورتمہارے ساتھ صلہ رحمی اوربھلائی سے پیش آؤں گاتمہاری مدد کروں گا تم میرے جوار میں نہایت اطمینان اورراحت کے ساتھ رہو گے اس تحریر پر خدا وکیل اورشاہد ہے"۔
عمرونے اس تحریر پر اپنی مہر کردی اورعبداللہ بن جعفر اوریحییٰ بن عمرو دونوں اس کو لے کر حضرت حسینؓ کے پاس گئے، حضرت حسینؓ نے اسے پڑھا، اورپڑھ کر فرمایا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے، اس میں آپ نے مجھے ایک حکم دیا ہے میں اس حکم کو پورا کروں گا ،خواہ اس کا نتیجہ میرے موافق نکلے یا مخالف ،عبداللہ اوریحییٰ نے پوچھا کیا خواب تھا، فرمایا میں نے اسے نہ کسی سے بیان کیا ہے اورنہ مرتے دم تک بیان کروں گا ،اس گفتگو کے بعد عمرو بن سعید کے خط کا جواب لکھا کہ جو شخص اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہے ،عمل صالح کرتا ہے اوراپنے اسلام کا معترف ہے،وہ خدا اور اس کے رسول سے اختلاف کیونکر کر سکتا ہے،تم نے مجھے امان ،بھلائی اورصلہ رحمی کی دعوت دی ہے، پس بہترین امان اللہ تعالی کی امان ہے، جو شخص دنیا میں خدا سے نہیں ڈرتا ،خداقیامت کے دن اس کو امان نہیں دیگا، اس لئے میں دنیا میں خدا کا خوف چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن اس کی امان کا مستحق رہو ں،اگر خط سے تمہاری نیت واقعی میرے ساتھ صلہ رحمی اورنیکی کی ہے تو خدا تم کو دنیا اورآخرت دونوں میں جزائے خیر دے، والسلام
[تاریخ طبری:۷/۲۶۹،۲۸۱]

***
ابن زیاد کے انتظامات
ادھر کاروان اہل بیت منزلیں طے کررہا تھا دوسری طرف اموی حکام ان کے مقابلہ کے لئے اپنے انتظامات کررہے تھے؛چنانچہ آپ کی آمد کی خبر سن کر ابن زیاد نے قادسیہ سے لیکر خفان،قطقطانہ اورجبل لعلع تک سواریوں کا تانتا باندھ دیا تھا کہ اہل بیت کے قافلہ کی نقل وحرکت کی خبریں دم بدم ملتی رہیں اوراہل کوفہ اورحضرت حسینؓ میں خط و کتابت اورنامہ وپیام کا سلسلہ قائم نہ رہ سکے، حضرت حسینؓ نے مقام حاجز میں پہنچ کر قیس بن مسہر صیدادی کو اپنی آمد کا اطلاعی خط دیکر کوفہ روانہ کیا ؛لیکن اموی حکام نے پہلے سے راستوں کی ناکہ بندی کرلی تھی، اس لئے قیس قادسیہ میں گرفتار کرلئے گئے اورابن زیاد کے پاس کوفہ بھجوادیئے گئے ،ابن زیاد نے انہیں یہ گستاخانہ حکم دیا کہ قصر کی چھت پر چڑھ کر کذاب ابن کذاب حسینؓ بن علیؓ کو گالیاں دو،قیس اس حکم پر قصر کے اوپر چڑھ گئے، لیکن ایک فدائی حسینؓ کی زبان اس کی دشنام سے کس طرح آلودہ ہوسکتی تھی؛چنانچہ اس موقع پر بھی انہوں نے وہی فرض ادا کیا جس کے لئے وہ بھیجے گئے تھے،یعنی حضرت حسینؓ کی آمد کی ان الفاظ میں اطلاع دی کہ "لوگو میں حسینؓ فاطمہ بنت رسول اللہ کے لخت جگر اوربہترین مخلوق کا ہر کارہ ہوں وہ حاجز تک پہنچ چکے ہیں،ان کی مدد تمہارا فرض ہے، یہ کہہ کر ابن زیاد اوراس کے باپ پر لعنت بھیجی اورحضرت علیؓ کے لئے استغفار کیا،ابن زیاد نے اس عدول حکمی اوراس اہانت پر حکم دیا کہ اس کو بلند مقام سے نیچے گراکر مارڈالا جائے، اس حکم کی اسی وقت تعمیل ہوئی اورمسلم کے بعد حضرت حسینؓ کا دوسرا فدائی ان کی راہ میں نثار ہوگیا۔
[ابن اثیر:۴/۳۴]

***
حسین اورعبداللہ بن مطیع
حسینؓ کی ملاقات عبداللہ بن مطیع سے ہوئی،جو عراق سے لوٹ رہے تھے ،عبداللہ بن مطیع نے پوچھا فدیت بابی وامی یا ابی رسول اللہ آپ خدا اوراپنے جدامجد کے حرم کے باہر کیوں نکلے، فرمایا کوفہ والوں نے بلایا ہے، کہ معالم حق زندہ کیا جائے اوربدعتوں کو مٹایا جائے،عبداللہ نے عرض کیا آپ کو خدا کا واسطہ دلاتا ہوں، آپ ہرگز کوفہ کا قصد نہ کیجئے اورآپ وہاں یقیناً شہید کردیئے جائیں گے،فرمایا جو کچھ خدانے لکھ دیا ہے اس سے زیادہ اورکیا ہوسکتا ہے ۔
[اخبار الطوال:۲۵۸،۲۵۹]

***
ایک جانباز کا ایثار
عبداللہ بن مطیع سے ملاقات کے بعد حضرت حسینؓ نے مقام زرو ومیں منزل کے قریب ہی ایک خیمہ نظر آیا، پوچھا کس کا خیمہ ہے،معلوم ہوا زہیر بن قین کا، وہ حج سے فارغ ہوکر کوفہ جارہے ہیں ،حضرت حسینؓ نے ان کو بلابھیجا، مگر انہوں نے ملنے سے انکار کیا، ان کے انکار پر ان کی بیوی نے کہا، سبحان اللہ ابن رسول اللہ بلاتے ہیں اورتم نہیں جاتے، بیوی کے اس کہنے پر وہ چلے گئے اورحضرت حسینؓ سے ملاقات کی،آپ سے ملتے ہی دفعۃ خیالات بدل گئے ،اسی وقت اپنا خیمہ اکھڑوا کے حضرت حسینؓ کے خیمہ کے قریب نصب کرایااور بیوی کو طلاق دے کر کہا تم اپنے بھائی کے ساتھ گھر لوٹ جاؤ، میں نے جان دینے کی ٹھان لی ہے اوراپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ تم میں سے جو لوگ شہادت کے طلبگار ہوں وہ میرے ساتھ چلیں اورجو لوگ نہ چاہتے ہوں وہ آگے بڑھ جائیں ؛لیکن اس صدائے حق کا کسی نے جواب نہ دیا اور سبھوں نے کوفہ کا راستہ لیا اورزہیر حضرت حسینؓ کے ساتھ زرود سے آگے بڑھے۔
[اخبار الطوال:۲۵۹]

***
مسلم کے قتل کی خبر ملنا
ابھی تک حضرت حسین ؓ مسلم بن عقیل کے قتل سے بالکل بےخبر تھے مقام ثعلبیہ میں ایک اسدی سے جو کوفہ سے آرہا تھا مسلم اورہانی کے قتل کا حال معلوم ہوا ،یہ وحشتناک خبر سن کر آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، اس اطلاع کے بعد ہوا خواہوں نے ایک مرتبہ پھر سمجھایا اورقسمیں دلا دلا کر اصرار کیا کہ آپ یہیں سے لوٹ چلئے کوفہ میں آپ کا کوئی حامی و مددگار نہیں ہے، یہ سب آپ کے دشمن ہوجائیں گے ؛لیکن مسلم کے بھائی بضد ہوئے کہ خدا کی قسم جب تک ہم اپنے بھائی کا بدلہ نہ لیں گے یا قتل نہ ہوجائیں گے اس وقت تک نہیں لوٹ سکتے،حضرت حسینؓ نے فرمایا جب یہ لوگ نہ ہوں گے تو پھر ہماری زندگی کس کام کی غرض یہاں سے بھی قافلہ آگے بڑھا۔

***
عبداللہ بن بقطر کے قتل کی خبر
حضرت حسینؓ جن جن چشموں سے گزرتے تھے لوگ جوق درجوق ساتھ ہوتے جاتے تھے رزبار پہنچ کر عبداللہ بن بقطر کے قتل کی خبر ملی، عبداللہ کو آپ نے راستہ سے مسلم کے پاس خط دیکر بھیجا تھا،لیکن راستہ ہی میں حصین ابن نمیر کے سواروں نے ان کو گرفتار کرکے ابن زیاد کے پاس بھیجوادیا،اس نے قیس بن مسہر کی طرح انہیں بھی حضرت حسینؓ پر لعنت بھیجنے کا حکم دیا؛ لیکن اس فدائی نے بھی وہی نمونہ پیش کیا جو اس کے پیشر وپیش کرچکے تھے ،انہوں نے کہا لوگو! فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے لڑکے حسینؓ آرہے ہیں تم لوگ ابن مرجانہ (ابن زیاد) کے مقابلہ میں ان کی مدد کرو، ابن زیاد نے انہیں بھی قصر امارت کی بلندی سے گروادیا جسم کی ساری ہڈیاں چور چور ہوگئیں اوراس درد ناک طریقہ سے حسینؓ کے ایک اور فدائی کا خاتمہ ہوگیا۔
[ابن اثیر:۴/۳۶]
یاد ہوگا کہ مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث اورعمر بن سعد سے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے بعد حضرت حسینؓ کو اہل کوفہ کی بیوفائی کی اطلاع دیکر انہیں یہاں آنے سے روک دیں ان دونوں نے یہ وصیت پوری کی اورحضرت حسینؓ کے پاس آدمی بھیجے لیکن عبداللہ بن بقطر کے قتل کی خبر ملنے کے بعد ان دونوں کے قاصد پہنچے جب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
[طبری:۷/۲۹۴]

***
پہلی تقریر
حضرت حسینؓ کو جب مسلسل یہ دل شکن خبریں ملیں تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے تقریر کی کہ مسلم بن عقیل ،ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن بقطر کے قتل کی درد ناک خبریں موصول ہوچکی ہیں ،ہمارے شیعوں نے ہمارا ساتھ چھوڑدیا ہے ،اس لئے تم میں سے جو شخص لوٹنا چاہے وہ خوشی سے لوٹ سکتا ہے، ہماری جانب سے اس پر کوئی الزام نہیں ،یہ تقریر سن کر عوام کا ہجوم چھٹنے لگا اورصرف جان نثار باقی رہ گئے جو مکہ سے ساتھ آئے تھے۔
[طبری:۷/۲۹۵]
زبالہ سے بڑھ کر بطن عقبہ میں قافلہ اترا یہاں ایک شخص ملا، اس نے نہایت لجاجت کے ساتھ کہا کہ میں آپ کو خدا کا واسطہ دلاتا ہوں آپ لوٹ جائیے خدا کی قسم آپ نیزوں کی انی اور تلواروں کی دھار کے مقابلہ میں جارہے ہیں،جن لوگوں نے آپ کو بلایا ہے اگر انہوں نے آپ کے لئے راستہ صاف کردیا ہوتا اوران کے جنگ میں کام آنے کی توقع ہوتی تو یقیناً آپ جاسکتے تھے،لیکن موجودہ حالات میں کسی طرح جانا مناسب نہیں، فرمایا جو تم کہتے ہو میں بھی جانتا ہوں،لیکن خدا کے حکم کے خلاف نہیں کیا جاسکتا۔
[طبری:۷/۲۹۵]

***
محرم ۶۱ھ کے خونی سال کا آغاز
بطن عقبہ کے بعد قافلہ شراف میں اترا یہاں سواریوں کو پانی وغیرہ پلاکر ذی حشمہ کی طرف مڑکر پہاڑ کے دامن میں خیمہ زن ہوا، اب محرم ۶۰ ھ کا خون آشام سال شروع ہوچکا تھا،ذی حشمہ میں حربن یزید تمیمی جو حکومت شام کی جانب سے حضرت حسینؓ اوران کے ساتھیوں کو گھیر کر کوفہ لانے کے لئے بھیجا گیا تھا ،ایک ہزار سواروں کے ساتھ پہنچا اورحضرت حسینؓ کے قافلہ کے سامنے قیام کیا، ظہر کے وقت حضرت حسینؓ نے اذان کا حکم دیا اور اقامت کے وقت نکل کر حر کے دستہ کے سامنے حمد وثنا کے بعد حسب ذیل تقریر کی،
لوگو! میں خدا اور تم لوگوں سے عذر خواہ ہوں، میں تمہارے پاس خود سے نہیں آیا، ؛بلکہ میرے پاس اس مضمون کے تمہارے خطوط اورتمہارے قاصد آئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں آپ آئیے شاید خدا آپ کے ذریعہ ہمیں سیدھے راستہ پر لگادے، اب میں آگیا ہوں، اگر تم لوگ عہد ومیثاق کرکے مجھے پورا اطمینان دلادو تو میں تمہارے شہر چلوں اوراگر ایسا نہیں کرتے اورہمارا آنا تمہیں ناگوار ہے تو میں جہاں سے آیا ہوں وہیں لوٹ جاؤں ۔
یہ تقریر سن کر سب خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ نے اقامت کا حکم دیا اور حر سے پوچھا میرے ساتھ نماز پڑھو گے یا علیحدہ؟ حر نے کہا نہیں آپ کے ساتھ ہی پڑھوں گا حر کی یہ اقتداء فی الصلوٰۃ ان کے لئے پہلی فال نیک تھی؛چنانچہ اس نے امام کے پیچھے نماز پڑھی، نماز کے بعد حضرت حسینؓ اپنے خیمہ میں چلے آئے اورحر اپنے فرودگاہ پر لوٹ گیا۔
اس کے بعد عصر کے وقت حضرت حسینؓ نے قافلہ کو کوچ کا حکم دیا اور کوچ سے پہلے نماز باجماعت ادا کی ،نماز کے بعد حسب ذیل تقریر کی:
لوگو! اگر تم لوگ خدا سے ڈرواورحقدار کا حق پہچانو،تو یہ خدا کی رضا مندی کا موجب ہوگا، ہم اہل بیت خلافت کے ان عہدیداروں کے مقابلہ میں جنہیں اس کا کوئی استحقاق نہیں اور جو تم پر ظلم و زیادتی کے ساتھ حکومت کرتے ہیں خلافت کے حقیقی مستحق ہیں، اگر اب تم کو ہماراآنا ناگوار ہے اور تم ہمارا حق نہیں پہچانتے اور تمہاری رائے اس سے مختلف تھی جو تمہارے خطوط اور تمہارے قاصدوں سے معلوم ہوئی تھی تو میں لوٹ جاؤں۔
(طبری:۷/۲۹۷،۲۹۸)

***
حضرت حسینؓ اورحر میں تند گفتگو
اس تقریر پر حر نے پوچھا، قاصد اورخطوط کیسے؟حر کے اس استعجاب پر حضرت حسینؓ نے کوفیوں کے خطوط سے بھرے ہوئے دو تھیلے منگا کر ان کے سامنے انڈلوادیئے،ان خطوط کو دیکھ کر حر نے کہا، ہم لوگوں کا اس جماعت سے کوئی تعلق نہیں جنہوں نے یہ خطوط لکھے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ آپ سے جس جگہ ملاقات ہوجائے اس جگہ سے آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں اورآپ کو ساتھ لیجا کر ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچادیں، حضرت حسینؓ نے فرمایا تمہاری موت اس سے زیادہ قریب ہے یہ کہہ کر کاروان اہل بیت کو لوٹانا چاہا؛ لیکن حر نے مزاحمت کی ،حضرت حسینؓ نے فرمایا تیری ماں تجھ کو روئے تو کیا چاہتا ہے، حر نے کہا آپ کے علاوہ اگر کوئی دوسرا عرب یہ کلمہ زبان سے نکالتا تو میں بھی برابر کا جواب دے لیتا؛ لیکن خدا کی قسم میں آپ کی ماں کا نام عزت ہی کے ساتھ لوں گا، امام نے فرمایا،آخر چاہتے کیا ہو؟ حر نے کہا صرف اس قدر کہ آپ میرے ساتھ ابن زیاد کے پاس چلے چلیے،فرمایا میں تمہارا کہنا نہیں مان سکتا، حر نے کہا تو پھر میں آپ کو چھوڑ بھی نہیں سکتا، اس رد وقدح میں دونوں میں تلخ وتند گفتگو ہوگئی،حر نے کہا مجھے آپ سے لڑنے کا حکم نہیں ہے،صرف یہ حکم ملا ہے کہ آپ جہاں ملیں آپ کو لیجا کر کوفہ پہنچادوں، اس لئے مناسب یہ ہے کہ ایسا راستہ اختیار کیجئے جو نہ کوفہ پہنچائے اور نہ مدینہ واپس کرے، اس درمیان میں میں ابن زیاد کو لکھتا ہوں اورآپ یزید کو لکھئے، شاید خدا عافیت کی کوئی صورت پیدا کردے اورمیں آپ کے معاملہ میں آزمائش سے بچ جاؤں، حر کے اس مشورہ پر حضرت حسینؓ عذیب اورقادسیہ کے بائیں جانب ہٹ کے چلنے لگے، حر بھی ساتھ ساتھ چلا۔
(ابن اثیر:۴/۴۰)

***
خطبہ
آگے بڑھ کر مقام بیضہ میں آپ نے پھر ایک پر جوش خطبہ دیا کہ :
لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے،جس نے ظالم محرمات الہی کو حلال کرنے والے ،خدا کے عہد توڑنے والے، سنت رسول ﷺ کے مخالف اورخدا کے بندوں پر گناہ اورزیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اوراس کو قولاً اورعملاً غیرت نہ آئی تو خدا کو حق ہے کہ اس کو اس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کرے، لوگو!خبردار ہوجاؤ! ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے ،ملک میں فساد پھیلایا ہے، حدود الہی کو بیکار کردیا ہے اورحلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے، اس لئے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے میرے پاس تمہارے خطوط آئے ،تمہارے قاصد آئے کہ تم نے بیعت کرلی ہے اور تم مجھے بے یار ومددگار نہ چھوڑو گے پس اگر تم اپنی بیعت پوری کروگے تو راہ راست کو پہنچو گے، میں علیؓ اور فاطمہؓ بنت رسول اللہ ﷺ کا بیٹا ہوں، میری جان تمہاری جانوں کے برابر اورمیرے اہل تمہارے اہل کے برابر ہیں، میری ذات تم لوگوں کے لئے نمونہ ہے اور اگر تم ایسا نہ کروگے اور اپنا عہد توڑ کر میری بیعت کا حلقہ اپنی گردن سے نکال ڈالو گے تو یہ بھی تمہاری ذات سے بعید اورتعجب انگیز فعل نہ ہوگا، تم اس سے پہلے میرے باپ،میرے بھائی میرے ابن عم مسلم کے ساتھ ایسا ہی کر چکے ہو،وہ فریب خوردہ ہے جو تمہارے فریب میں آگیا ،تم نے اپنے فعل سے اپنا حصہ ضائع کردیا، جو شخص عہد شکنی کرتاہے وہ گویا اپنی ذات سے عہد توڑتا ہے،عنقریب خدا مجھ کو تمہاری امداد سے بے نیاز کردے گا، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
(ابن اثیر:۴/۴۰،۴۱)
یہ تقریر سن کر حر نے کہا کہ میں آپ کو خدا کو یاد دلاتا ہوں اورشہادت دیتا ہوں کہ اگر آپ نے جنگ کی تو قتل کردیئے جائیں گے حضرت حسینؓ نے فرمایا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو کیا تمہاری شقاوت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ تم مجھے قتل کردو گے میں نہیں سمجھتا تمہارے اس کہنے پر تم کو اس کے سوا اورکیا جواب دوں جو اوسی کے چچازاد بھائی نے اوسی کو اس وقت دیا تھا،جب اوسی نے انہیں قتل ہونے سے ڈرا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دینے سے روکا تھا کہ تم رسول اللہ کی امداد کے لئے نکلو گے تو قتل کردیئے جاؤ گے اس پر انہوں نے یہ جواب دیا۔
سامضی وما بالموت عار علی الفتی اذا مانوی خیر ارجاھد مسلما
میں عنقریب روانہ ہوتا ہوں اور موت جوانمرد کے لئے عار نہیں ہے جب کہ اس کی نیت نیک ہو اورمسلمان کی طرح جہاد کرے۔
حر نے یہ جواب سنا تو الگ ہٹ کے چلنے لگا۔

***
قیس بن مسہر کا قتل
عذیب الہجانات پہنچ کر حضرت حسینؓ کے چار انصار ملے،جو طرماح بن عدی کی رہنمائی میں کوفہ کی خبریں لئے ہوئے آرہے تھے حر نے کہا یہ لوگ کوفہ کے باشندے ہیں اس لئے انہیں روک لوں گا یا لوٹادوں گا ،حضرت حسینؓ نے فرمایا یہ میرے انصار ہیں اوران لوگوں کے برابر ہیں جو میرے ساتھ آئے ہیں،اس لئے اپنی ذات کی طرح ان کی حفاظت بھی کروں گا اوراگر تم اپنے عہد و پیمان پر قائم نہ رہے تو جنگ کروں گا، یہ عزم سن کر حر رک گیا اور حضرت حسینؓ نے کوفیوں سے پوچھا کہ اہل کوفہ کا کیا حال ہے؟ مجمع بن عدی نے کہا، اشراف کوفہ کو بڑی بڑی رشوتیں دی گئی ہیں، ان کی ہتھیلیاں روپیوں سے بھردی گئی ہیں ،اس لئے وہ سب آپ کے خلاف متحد اور مشتعل ہو رہے ہیں، البتہ عوام کے دل آپ کی طرف مائل ہیں،لیکن کل ان کی تلواریں بھی آپ کے خلاف کھیچی ہوں گی ،یہ حال سن کر آپ نے قاصد قیس بن مسہر کا حال پوچھا، معلوم ہوا قتل کردیئے گئے، قیس کے قتل کی خبر سن کر آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے اورآپ کے رخسار مبارک پر آنسوؤں کی لڑیاں بہنے لگیں اورزبان پر یہ آیت جاری ہوگئی:
فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
(الاحزاب:۲۳)
مسلمانوں میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اپنی منت پوری کی (یعنی شہید ہوئے) اوربعض ان میں سے ایسے ہیں جو شہادت کے منتظر ہیں اورانہوں نے کوئی ردوبدل نہ کیا۔
پھر قیس کیلئے دعا فرمائی کہ خدا یا ہم کو اوران لوگوں کو جنت عطا فرما اوراپنے رحمت کے مستقر میں ہمارے اوران کیلئے اپنے لئے اپنے ذخیرہ ثواب کا بہترین حصہ جمع فرما۔
(ابن اثیر:۴/۴۱)

***
طرماح بن عدی کا اپنے وطن چلنے کی دعوت دینا
حضرت حسینؓ کا یہ تاثر دیکھ کر طرماح بن عدی نے کہا، آپ کے ساتھ کوئی بڑی جماعت بھی نہیں ہے، اتنے آدمیوں کے لئے تو یہی لوگ کافی ہیں جو آپ کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں (حر کا دستہ) میں نے کوفہ سے روانگی کے وقت وہاں انسانوں کا اتنا بڑا ہجوم دیکھا کہ اس سے پہلے ایک میدان میں کبھی نہ دیکھا تھا اوریہ انبوہ عظیم آپ کے مقابلہ میں بھیجنے کےلئے جمع کیا گیا تھا، اس لئے میں آپ کو خدا کا واسطہ دلاتا ہوں کہ اگر آپ کے امکان میں ہو تو اب آپ ایک بالشت بھی آگے نہ بڑھیے اگر آپ ایسے مقام پر جانا چاہتے ہیں، جہاں کے لوگ اس وقت تک آپ کی حفاظت کریں،جب تک آپ کی کوئی صحیح رائے قائم نہ ہوجائے اورجو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں اس کے متعلق کوئی آخری فیصلہ نہ کرلیں تو ہمارے ساتھ چل کر ہمارے پہاڑ کے دامن میں قیام کیجئے،خدا کی قسم یہ پہاڑ ایسا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہم نے سلاطین غسان وحمیر، نعمان بن منذر اورتمام ابیض واحمر کو روکا ہے خدا کی قسم جو ہمارے یہاں آیا کبھی ذلیل نہیں ہوا، چلئے میں آپ کو ساتھ لے چل کر وہاں ٹھہراتا ہوں، وہاں سے آپ باجہ وسلمی قبائل طے کو بلا بھیجئے وہ دس دن کے اندر اندر پیادوں اورسواروں کا ہجوم کردیں گے، پھر جب تک آپ کا دل چاہے قیام کیجئے، اگر وہاں کوئی ہنگامی حادثہ پیش آیا تو بیس ہزار طائی آپ کی مدد کریں گے جو آپ کے سامنے اپنی تلواروں کے جو ہر دکھائیں گے اور کوئی شخص آپ کے قریب نہ پہنچنے پائے گا حضرت حسینؓ نے ان کی دعوت کے جواب میں ان کا شکریہ ادا کیا کہ خداتم کو اورتمہاری قوم کو جزائے خیر دے ہم میں اور ان لوگوں میں عہد ہوچکا ہے،اس عہد کی روسے اب ہم نہیں لوٹ سکتے ہم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارے اوران کے معاملات کیا صورت اختیار کریں گے، یہ جواب سن کر طرماح دوبارہ امداد کے لئے آنے کا وعدہ کرکے بال بچوں سے ملنے کے لئے گھر چلے گئے اورحسب وعدہ واپس بھی ہوئے مگر حضرت حسینؓ کی شہادت اس قدر جلد ہوگئی کہ طرماں کو آتے ہوئے راستہ میں اس کی خبر ملی۔
(ابن اثیر:۴/۴۱،۴۲)

***
قصر بنی مقاتل کی منزل اورخواب
عذیب الہجانات سے بڑھ کر قصر بنی مقاتل میں قافلہ اترا یہاں ایک خیمہ نصب تھا،حضرت حسینؓ نے پوچھا کس کا خیمہ ہے، معلوم ہوا عبید اللہ ابن حرجعفی ! فرمایا، انہیں بلا لاؤ، انہوں نے انا للہ وانا لیہ راجعون پڑھ کر جواب دیا، میں صرف اسی لئے کوفہ سے چلا آیا تھا کہ اپنی موجودگی میں وہاں حسینؓ کا آنا پسند نہ کرتا تھا، اس لئے اب میں ان کا سامنا کرنا نہیں چاہتا، آدمی نے آکر حضرت حسینؓ کو یہ جواب سنادیا اسے سن کر حضرت حسینؓ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اوراپنی مدد کے لئے کہا، لیکن عبید اللہ نے آپ کو بھی وہی جواب دیا جو پہلے آدمی کو دے چکے تھے، حضرت حسینؓ نے فرمایا اگر تم میری مدد نہیں کرتے تو کم از کم خدا کا خوف کرکے مجھے سے لڑنے والے زمرہ میں تو شامل نہ ہو، عبید اللہ نے کہا انشاءاللہ ایسا نہ ہوگا، اس کے بعد حضرت حسینؓ اپنی فرودگاہ پر لوٹ آئے، تھوڑی رات گئے ٓنکھ لگ گئی تھی کہ پھر آپ انا اللہ وانا الیہ راجعون اورالحمد اللہ رب العالمین پڑہتے ہوئے بیدار ہوگئے ،آپ کے صاحبزادہ زین العابدین نے پوچھا، ابا آپ نے الحمد اللہ وانا اللہ کیوں پڑھا؟ فرمایا میری آنکھ لگ گئی تھی کہ میں نے خواب میں ایک سوار دیکھا وہ کہہ رہا تھا کہ قوم جارہی ہے اور موت اس کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ خواب ہماری موت کی خبر ہے ،شیر دل صاحبزادے نے جواب دیا، ابا خدا آپ کو برے وقت سے بچائے کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا خدا میری جانب سے تم کو اس کی جزائے خیر دے اس خواب کی صبح کو یہاں سے کوچ کا حکم دیا۔

***
حرم کے نام ابن زیاد کا فرمان
قصر بنی مقاتل سے چل کر قافلہ نینوا میں اترا ،حر ساتھ ساتھ تھا، یہاں اس کو ابن زیاد کا فرمان ملا کہ میرے خط کے دیکھتے ہی حسینؓ کو گھیر کر ایسے چٹیل میدان میں لاکر اتاروجہاں کوئی قلعہ اورپانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو، حر نے یہ فرمان حضرت حسینؓ کو سنادیا اورانہیں اسی قسم کے میدان کی طرف لیجانا چاہا ،حسینی لشکر والوں نے کہا ہم کو چھوڑدو، ہم اپنی مرضی سے نینویٰ ،غاضر یہ یا شقیقہ میں خیمہ زن ہوں گے، حر نے کہا ہم ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ ہمارے ساتھ جاسوس لگا ہوا ہے ،اس پر زہیر بن قین نے کہا، یا ابن رسول اللہ آئندہ جو وقت آئے گا وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگا، ابھی لڑنا آسان ہے اس دستہ کے بعد جو فوجیں آئیں گی ان کا مقابلہ ہم نہ کرسکیں گے؛ لیکن خیر خواہ امت نے جواب دیا میں اپنی طرف سے لڑائی کی ابتدا نہ کروں گا، زہیر نے کہا اچھا کم از کم اتنا کیجئے کہ سامنے والے قریہ میں منزل کیجئے وہاں فرات کا ساحل ہے ،گاؤں بھی مضبوط و مستحکم ہے اگر یہ لوگ وہاں جانے سے مزاحم ہوں گے تو ہم ان کا مقابلہ کرلیں گے ؛کیوں کہ ان سے لڑنا بعد کے آنے والوں کے مقابلہ میں آسان ہے، حضرت حسینؓ نے گاؤں کا نام پوچھا؟ معلوم ہوا"عق" فرمایا، خدایا میں تجھ سے اورعقر(ذبح کرنا) سے پناہ مانگتا ہوں غرض پنجشنبہ ۲ محرم ۶۱ھ کو نینویٰ کے میدان کرب وبلا میں قافلہ خیمہ زن ہوا۔
(ابن اثیر:۲/۴۳،۴۴)

***
عمربن سعد کے سامنے رے کے حکومت کا پیش کیا جانا
ادھر اہلبیت نبویﷺ کا غریب الوطن قافلہ نینویٰ کے میدان میں پڑا تھا، دوسری طرف کوفہ میں ان چند نفوس کے لئے بڑی زبردست تیاریاں ہورہی تھیں، اسی زمانہ میں دیلمیوں نے دستبی پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تھا، اس لئے عمر بن سعد رے کا حاکم بناکر دیالمہ کی سرکوبی پر مامور کیا گیا تھا اور وہ فوجیں لیکر حرام اعین تک پہنچ گیا تھا کہ اسی دوران حضرت حسینؓ کے مقابلہ کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت پیش آئی جو ان کا مقابلہ کرسکے،ابن زیاد نے اس کام کے لئے ابن سعد کو بلا بھیجا اورکہا حسینؓ کا مقابلہ سب سے مقدم ہے، پہلے ان سے نپٹ لو پھر عہدہ پر واپس جانا، عمربن سعد نے کہا خدا امیر پر رحم کرے مجھ کو اس خدمت سے معاف رکھا جائے، ابن زیاد نے کہا اگر تم کو اس سے عذر ہے تو رے کی حکومت نہ ملے گی،اس دھمکی پر ابن سعد نے اس مئلہ پر غور کرنے کی مہلت مانگی ،ابن زیاد نے مہلت دی اورابن سعد نے اپنے ہواخواہوں سے اس بارہ میں مشورہ لینا شروع کیا،ظاہر ہے کہ حسینؓ کے خون کا بار اٹھانے کی تائید کون کرسکتا تھا؛چنانچہ سب نے اس کی مخالفت کی ان کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے آکر کہا،ماموں! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ حسینؓ کے مقابلہ میں جاکر خدا کا گناہ اپنے سر نہ لیجئے، اورقطع رحم نہ کیجئے، (عمر کے والد حضرت سعد بن وقاص آنحضرتﷺ کے رشتہ کے ماموں تھے اس لحاظ سے عمر حضرت حسینؓ کا عزیز تھا) خدا کی قسم اگر آپ کی دنیا آپ کا مال آپ کی حکومت سب ہاتھوں سے نکل جائے تو وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ خدا سے ملئے اورآپ کے ہاتھ حسینؓ کے خون بے گناہی سے آلودہ ہوں، ابن سعد نے کہا انشاء اللہ تمہارے مشورہ پر عمل کروں گا۔
عمار بن عبداللہ بن یسار اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتےہیں کہ ابن سعد کو حسینؓ کے مقابلہ کے لئے جانے کا حکم ملنے کے بعد میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا کہ امیر نے مجھے حسینؓ کے مقابلہ میں جانے کا حکم دیا تھا، مگر میں نے انکار کردیا، عبداللہ نے کہا خدا تم کو نیک ہدایت دے، تم کبھی بھی ایسا نہ کرنا اورہرگز نہ جانا، یہ کہہ کر عبداللہ چلے آئے، اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ابن سعد جانے کی تیاریاں کررہا ہے تو یہ دوبارہ گئے مگر اس مرتبہ ابن سعد نے ان کو دیکھ کر منہ پھیر لیا ،عبداللہ اس کا عندیہ سمجھ کر واپس چلے آئے، اس فیصلہ کے بعد ابن سعد ابن زیاد کے پاس گیا اورکہا کہ آپ نے یہ خدمت میرے سپرد کی ہے ،اورحکومت کا فرمان بھی لکھ چکے ہیں، اس لئے اس کا انتظام بھی کردیجئے اورحسینؓ کے مقابلہ میں میرے ساتھ کوفہ کے فلاں فلاں اشراف کو بھیجئے، ابن زیاد نے کہا تم کو مجھے اشراف کوفہ کے نام بتانے کی ضرورت نہیں میں اپنے ارادہ میں تمہارے احکام کا پابند نہیں ہوسکتا کہ تمہاری رائے سے فوج کا انتخاب کروں اگر تم کو جانا ہے تو میری فوج کے ساتھ جاؤ ورنہ حکومت کا فرمان واپس کردو، جب ابن سعد نے دیکھا کہ ابن زیاد اس کا یہ کہنا بھی نہیں مانتا تو چار وناچار اسی فوج کے ساتھ جانے پر آمادہ ہوگیا۔
(طبری:۷/۳۰۸،۳۰۹)






***
عمر بن سعد کی آمد
غرض تیسری محرم۶۱ھ کو چار ہزار فوج کے ساتھ ابن سعد نینوا پہنچا اورعزرہ بن قیس احمسی کو حضرت حسینؓ کے پاس ان کے آنے کا سبب پوچھنے کیلئے بھیجنا چاہا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ اورکیا چاہتے ہیں،لیکن عزرہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے حضرت حسینؓ کو بلانے کے خطوط لکھے تھے اس لئے اب اس کو یہ پوچھنے کے لئے جاتے ہوئے غیرت معلوم ہوئی اس لئے انکار کردیا، اس کے انکار پر دوسرے لوگوں کے سامنے یہ خدمت پیش کی گئی،لیکن مشکل یہ تھی کہ جس کا نام لیا جاتا تھا وہ حضرت حسینؓ کے بلانے والوں میں نکلتا تھا،اس لئے کوئی آمادہ نہ ہوتا تھا، آخر میں ایک جری شخص کثیر بن عبداللہ شعبی نے کھڑے ہوکر کہا کہ میں جاؤں گا اگر ان کے ساتھ کچھ اورمقصد ہو تو وہ بھی پورا کرنے کو تیار ہوں،ابن سعد نے کہا میں اورکچھ نہیں چاہتا،ان سے جاکر صرف اتنا پوچھو کہ وہ کس لئے آئے ہیں؟ چنانچہ کثیر یہ پیام لیکر گیا،ابو ثمامہ صائدی نے حضرت حسینؓ کو اطلاع دی کہ ابو عبداللہ آپ کے پاس روئے زمین کا شریر ترین اورخونریز ترین شخص آرہا ہے، پھر کثیر بن عبداللہ سے کہا کہ تلوار علیحدہ رکھ کر حسینؓ سےملاقات کرو، کثیر نے جواب دیا: خدا کی قسم یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا ،میں قاصد ہوں ،پیام لایا ہوں، اگر تم سننا چاہو تو پیام پہنچادوں گا،ورنہ واپس چلاجاؤں گا،ابوثمامہ نے کہا اچھا اگر تلوار نہیں رکھتے تو میں تمہاری تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھے رہوں گا، تم حسینؓ کے ساتھ گفتگو کرلینا، کثیر نے کہا یہ بھی نہیں ہوسکتا تم قبضہ بھی نہیں چھوسکتے، ابو ثمامہ نے کہا اچھا تم مجھے پیام بتادو میں جاکر حسینؓ کو پہنچادوں گا، کثیر اس پر بھی آمادہ نہ ہوا اوربلا پیام پہنچائے ہوئےلوٹ گیا اس کی واپسی کے بعد ابن سعد نے قرہ بن سعد حنظلی کو بھیجا یہ سنجیدہ اورسلجھے ہوئے آدمی تھے، انہوں نے جاکر سلام کے بعد ابن سعد کا پیام پہنچایا، حضرت حسینؓ نے جواب دیا کہ تمہارے شہر والوں نےمجھے خطوط لکھ کر بلایا ہے، اب اگر تم لوگ میر آنا ناپسند کرتے ہو تو میں لوٹ جاؤں، قرہ نے جاکر ابن سعد کو یہ جواب سنادیا، جواب سن کر اس نے اطمینان کی سانس لی اورکہا امید ہے کہ اب خدا مجھ کو حسینؓ کے ساتھ جنگ کرنے سے بچالے گااوراپنا سوال اورحسینؓ کا جواب لکھ کر بھیج دیا، لیکن کاتب ازل اس کا نامہ اعمال سیاہ کرچکا تھا، اس لئے ابن سعد کی اس مصالحانہ تحریر کے بعد بھی اس نے صلح و مسالمت کی روش اختیار نہ کی اورابن سعد کو جواب لکھا کہ تمہارا خط ملا، تم نے جو کچھ لکھا میں سمجھا تم حسینؓ اوران کے کل ساتھیوں سے یزید کی بیعت لے لو جب وہ بیعت کرلیں گے اس وقت پھر دیکھا جائے گا، ابن سعد کو یہ تحریر ملی تو بولا، معلوم ہوتا ہے ابن زیاد دامن عافیت نہیں چاہتا۔

***
پانی کی بندش
اس کے بعد ہی دوسرا حکم پہنچا کہ حسینؓ اوران کے ساتھیوں پر پانی بند کردو، جس طرح تقی زکی اورمظلوم امیر المومنین عثمانؓ کے ساتھ کیا گیا تھا اوران سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کرو،بیعت کے بعد پھر میں ان کے بارہ میں غور کروں گا، اس حکم پر ابن سعد نے پانسو سواروں کا ایک دستہ فرات پر پانی روکنے کے لئے متعین کردیا، اس دستہ نے ساتویں محرم سے پانی روک دیا، عبداللہ ابن ابی حصین شامی نے امام حسینؓ سے مخاطب ہوکر کہا حسینؓ پانی دیکھتے ہو کیسا آسمان کے جگر جیسا جھلک رہا ہے؛ لیکں خدا کی قسم تم کو ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا، تم اسی طرح پیاسے مروگے ،آپ نے فرمایا خدایا، اس کو پیاسا مار اوراس کی کبھی مغفرت نہ فرما (ایضا:۳۱۲) جب حسینی لشکر پر پیاس کا غلبہ ہوا تو حضرت حسینؓ نے اپنے سوتیلے بھائی عباسؓ بن علیؓ کو ۳۰ سوار اور ۲۰ پیدل کے ساتھ پانی لینے کو بھیجا، یہ چشمے پر پہنچے تو عمروبن حجاج مزاحم ہوا، لیکن عباسؓ نے مقابلہ کرکے ہٹادیا اورپیادوں نے ریلا کرکے مشکیں بھرلیں اور عباسؓ نے انہیں کھڑے کھڑے لشکر میں بھیجوادیا۔

***
حضرت حسینؓ اورعمر بن سعد
اس کے بعد حضرت حسینؓ نے ابن سعد کے پاس کہلا بھیجا کہ میں رات کو کسی وقت اپنے اورتمہارے لشکر کے درمیان تم سے ملنا چاہتا ہوں، آپ کی اس خواہش پر ابن سعد بیس آدمیوں کو لیکر موجودہ مقام پر ملنے کیلئے آیا حضرت حسینؓ کے ساتھ بھی بیس آدمی آئے تھے،لیکن آپ نے انہیں علیحدہ کردیا، آپ کی تقلید میں ابن سعد نے بھی اپنے آدمی ہٹادیئے اور دونوں میں رات کی تنہائی میں بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی یہ گفتگو کیا تھی اس کا صحیح علم کسی کو نہیں ،لوگوں نے مختلف قیاسات لگائے ہیں بعض راویوں کا بیان ہے کہ حضرت حسینؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی اپنی فوجیں یہیں چھوڑ کر یزید کے پاس چلے چلیں ابن سعد نے کہا میرا گھر گرادیا جائے گا فرمایا میں بنوادوں گا،ابن سعد نے کہا میری جائداد ضبط کرلی جائے گی،فرمایا میں اس سے بہتر جائداددونگا، لیکن ابن سعد کسی قیمت پر ساتھ جانے کے لئے آمادہ نہ ہوا، دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے جہاں سے آیا ہوں واپس جانے دو،یا یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے دو، پھر اس کے بعد وہ خود کوئی فیصلہ کریگا، یا کسی سرحدی مقام پر بھیج دو۔
(طبری:۳۱۲،۳۱۴)
پہلی روایت تو خیر قابل قیاس ہے،اس لئے صحیح سمجھی جاسکتی ہے، لیکن دوسری روایت راویۃ اور درایۃ دونوں حیثیتوں سے کمزور ہے اورناقابل اعتبار ہے،اس کی روایتی حیثیت یہ ہے کہ اس روایت کا ایک راوی مجالد بن سعید محدثین کے نزدیک پایۂ اعتبار سے ساقط ہے، حافظہ ذہبی اورابن حجر دونوں نے اس پر جرح کی ہے (میزان الاعتدال:۳/۸،تہذیب التہذیب:۱/۳۹) اس کے علاوہ عقبہ بن سمعان کا بیان ہے کہ میں مدینہ سے مکہ اورمکہ سے عراق تک برابر حضرت حسینؓ کے ساتھ رہا اورشہادت تک ان سے جدانہ رہا، مگر آپ نے مدینہ میں مکہ میں راستہ میں عراق میں لشکر گاہ میں غرض شہادت تک کہیں بھی کسی گفتگو میں کوئی ایسا خیال ظاہر نہیں فرمایا، جس سے ظاہر ہوتا کہ آپ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے یا کسی سرحدی مقام پر نکل جانے کے لئے آمادہ تھے ،آپ نے ہمیشہ یہی فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو، خدا کی زمین بہت وسیع ہے کہیں چلا جاؤنگا جب تک لوگ کوئی فیصلہ نہ کرلیں۔
درایتی حیثیت یہ ہے کہ ابن زیاد کا تو یہی حکم تھا کہ اگر حسینؓ بیعت کرلیں تو ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے اورابن سعد بھی دل سے یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح جنگ کی نوبت نہ آنے پائے ؛چنانچہ اس نے اسے ٹالنے کی پوری کوشش کی تھی اورابن زیاد کو لکھا تھا کہ حسینؓ واپس جانے پر آمادہ ہیں،لیکن ابن زیاد نے جواب دیا تھا کہ اب وہ بغیر بیعت کے واپس نہیں جاسکتے بیعت کے بعد پھر دیکھا جائے گا یہ جواب سن کر ابن سعد نے کہا تھا یہ امن و عافیت نہیں چاہتا، اس لئے حضرت حسینؓ کے بیعت پر آمادہ ہوجانے کے بعد ابن سعد کا اس کو نامنظور کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

***
ابن زیاد کا تہدیدی فرمان
ابن سعد گو دنیاوی جاہ وحشم کی طمع میں حضرت حسینؓ سے لڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا پھر بھی متعدد وجوہ سے اس کا دل اب تک برابر ملامت کررہا تھا، حضرت حسینؓ کی ذات گرامی وہ تھی کہ قرابت نبویﷺ کی وجہ سے غیر متعلق اوربیگانہ اشخاص بھی مشکل سے آپ کے ساتھ کسی بد سلوکی کی جرأت کرسکتے تھے اور ابن سعد تو آپ کا عزیز بھی تھا اس لئے نینوٰی آنے کے بعد بھی وہ برابر جنگ ٹالتا رہا کہ شاید اس طرح اس گناہ عظیم سے بچنے کی کوئی صورت نکل آئے، ابن زیاد نے اس ڈھیل کو محسوس کیا تو آخر میں نہایت سخت فرمان بھیجا کہ میں نے تم کو اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ تم ڈھیل دیتے رہو، دن بڑھاتے چلے جاؤ اورحسینؓ کے سفارشی بن کر ان کی بقا اور ان کی سلامتی کی تمنا کرو، تم حسینؓ اوران کے ساتھیوں سے میرا حکم ماننے کے لئے کہو اگر مان جائیں تو سب کو ہمارے پاس بھیج دو، ورنہ فوراً حملہ کردو، کہ دو سرکش اورجھگڑنے والے ہیں اوراگر یہ کام تم سے نہ ہوسکے تو فوج ذی الجوشن کے حوالہ کرکے تم الگ ہوجاؤ، ہم نے جو حکم دیا ہے اسے وہ پورا کریں گے۔
(طبری:۷/۳۱۶)
ابن زیاد نے یہ فرمان شمر ذی الجوشن اور عبداللہ بن ابی المحل کے ذریعہ سے ابن سعد کے پاس بھجوایا تھا،عبداللہ کی پھوپھی ام نبین حضرت علیؓ کو بیاہی تھیں، اور عباس، عبداللہ ،جعفر اورعثمان ان ہی کے بطن سے تھے ،اس لئے عبداللہ نے اسے اپنے غلام کرمان کے ہاتھ عباس وغیرہ کے پاس بھجوادیا،غلام نے انہیں لیجا کر دیا کہ تمہارے ماموں نے یہ امان نامہ دیا ہے اس پر غیور باحمیت بھانجوں نے جواب دیا کہ ماموں سے جاکر سلام کہنا اور کہنا امان نامہ پہنچا، لیکن ہمیں امان کی ضرورت نہیں،خدا کی امان ابن سمیہ (ابن زیاد) کی امان سے بہتر ہے۔
(طبری:۷/۳۱۶)

***
سعد کا آخری فیصلہ
شمر نے ابن زیاد کا یہ فرمان لاکر ابن سعد کو دیا تو وہ پڑھ کر بہت برہم ہوا اورکہا تمہارا برا ہو اورجو چیز تم میرے پاس لائے ہو، خدا اس کا برا کرے خدا کی قسم معلوم ہوتا ہے کہ میں نے ابن زیاد کو جو کچھ لکھا تھا اس کے قبول کرنے سے تم ہی نے اس کو روک کر ہمارا کام بگاڑا ہے ،ہم کو امید تھی کہ صلح کی کوئی صورت نکل آئے گی ،حسینؓ کے پہلو میں ایک خوددار دل ہے اس لئے وہ کبھی اس کے سامنے نہ جھکیں گے،شمر ابن سعد کی یہ باتیں سن کر بولا، بتاؤ اب تم کیا کرتے ہو؟ امیر کے حکم کی تعمیل کرکے ان کے دشمنوں کو قتل کرو گے یا نہیں؟اگر قتل نہیں کرتے تو فوج میرے حوالہ کردو، ابن سعد کے ضمیر اورنفس میں اب بھی کشمکش جاری تھی ؛لیکن رے کی حکومت نہیں چھوڑی جاتی تھی اس لئے نفس وضمیر کی کشمکش میں بالآخر نفس غالب آگیا اور وہ اس بار عظیم کو اٹھانے کے لئے آمادہ ہوگیا اور شمر سے کہا کہ میں خود اس کام کو کروں گا تم پیدل کی نگرانی کرو(ابن اثیر:۴/۴۷) ۹ محرم ۶۱ ھ کو جنگ کی تیاریاں شروع کردیں آغاز جنگ سے پہلے شمر نے حسینی فوج کے پاس جاکر ایک مرتبہ پھر عباسؓ کے بھائیوں کو سمجھایا کہ بنی اخت میں تم کو امان دیتا ہوں ؛لیکن اس مرتبہ غیرت مند نوجوانوں نے پہلے سےبھی زیادہ سخت جواب دیا کہ تجھ پر اور تیری امان پر خدا کی لعنت ہو اگر تو ہمارا ماموں ہوتا تو ہم کو امان دیتا اورابن رسول اللہ ﷺ کو نہ دیتا۔
(ابن اثیر:۴/۴۷)

***
ایک شب کی اجازت
اسی تاریخ کو عصر کے وقت ابن سعد کچھ لوگوں کو ساتھ لئے ہوئے حضرت حسین ؓ کی فرودگاہ پر آپ سے ملنے آیا، آپ نے ملاقات کے لئے نکلنے کا عزم کیا؛ لیکن عباسؓ نے روکا کہ آپ تکلیف نہ کیجئے میں جاتا ہوں، حضرت حسینؓ نے فرمایا، اچھا تم ہی جاؤ مگر یہ پوچھ لینا کہ یہ لوگ کیوں آئے ہیں؛چنانچہ عباسؓ جاکر ان سے ملے اورآنے کا مقصد پوچھا، فوجیوں نے جواب دیا کہ امیر فلاں فلاں مقصد سے آئے ہیں غالباً اس سے آغاز جنگ کی طرف اشارہ تھا؛کیونکہ عباسؓ نے انہیں جواب دیا کہ ‘‘ اچھا ابھی جلدی نہ کرو، میں امام کو تمہارے آنے کا مقصد بتادوں؛چنانچہ انہوں نے حضرت حسینؓ کو اس کی خبر کی آپ نے فرمایا، اچھا آج رات بھر کی اورمہلت لے لو تاکہ اس آخری رات کو اچھی طرح نمازیں پڑھ لیں، دعائیں مانگ لیں اورتوبہ واستغفار کرلیں، خدا خوب جانتا ہے کہ مجھ کو نماز، اس کی کتاب کی تلاوت اوردعا اور استغفار سے کتنادلی تعلق ہے،عباسؓ نے جاکر ابن سعد کے دستہ سے کہا کہ آج تم لوگ لوٹ جاؤ، رات کو ہم اس معاملہ پر غور کریں گے اورجو کچھ فیصلہ ہوگا صبح جواب دیں گے، ابن سعد نے شمر سے پوچھا تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا آپ امیر ہیں آپ جانیں شمر کے بعد پھر اور لوگوں سے رائے لی سب نے مہلت دینے کی رائے دی اورابن سعد اس دن لوٹ گیا ان لوگوں کی واپسی کے بعد امام نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے حسب ذیل خطبہ دیا:

***
خطبہ
میں خدا کا بہترین ثنا خواں ہوں اور مصیبت اورراحت ہر حال میں اس کا شکر گزار ہوں ،خدا یا میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے ہم لوگوں کو نبوت سے سرفراز کیا اورہمیں گوش شنوا،دیدہ بینا اوردل آشنا دیا، ہم کو قرآن سکھایا اوردین میں فہم عطا کی اب ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما، اما بعد مجھے کسی کے ساتھی اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اورکسی کے اہل اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکو کار اورصلہ رحمی کرنے والا کوئی دوسرا گھرانا نہیں معلوم ہوتا ،خدا تم لوگوں کو ہماری جانب سے جزائے خیر دے میں ان دشمنوں کی وجہ سے آج کا دن کل ہی کا دن سمجھ رہا ہوں اس لئے میں تم لوگوں کو بخوشی واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں، میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہوگی،رات ہوچکی ہے،ایک ایک اونٹ لے لو اورایک ایک آدمی میرے ایک ایک اہل بیت کا ہاتھ پکڑ کے ساتھ لیلے خدا تم سب کو جزائے خیردے تم لوگ اپنے اپنے شہروں اوردیہاتوں میں چلے جاؤ یہاں تک کہ خدایہ مصیبت آسان کردے، یہ اس لے کہہ رہاہوں کہ لوگ مجھ ہی کو ڈھونڈھیں گے میرے بعد کسی کی تلاش نہ ہوگی۔

***
جانثاروں کی تقریریں
اس تقریر پر تمام اعزہ نے یک زبان ہوکر جواب دیا کیا ہم صرف اس لئے چلے جائیں کہ آپ کےبعد زندہ رہیں؟ خداہم کو یہ دن نہ دکھائے،اس جواب پر حضرت حسینؓ نے بنو عقیل سے فرمایا کہ مسلم کا قتل تمہارے لئے بہت ہوچکا ہے اس لئے تم کو اجازت دیتا ہوں کہ تم لوگ لوٹ جاؤ ؛لیکن باحمیت بھائیوں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟کیا یہ کہیں گے کہ اپنے سردار،اپنے آقا اورابن عم کو چھوڑآئے ان کے لئے ایک تیر بھی نہ چلایا،ایک نیزہ بھی نہ مارا ،تلوار کا ایک دھار بھی نہ کیا اور معلوم نہیں ان کا کیا حشر ہو؟ خدا کی قسم ہم ہرگز ایسا نہیں کرسکتے ،ہم لوگ جان مال اوراہل وعیال سب آپ کے اوپر سے فدا کردیں گے،آپ کے ساتھ لڑیں گے ،جو انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا بھی ہوگا،آپ کےبعد جینا بے کار ہے۔
بنو عقیل کے بعد مسلم بن عوسجہ اسدی نے اٹھ کر کہا کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں اورخدا کے سامنے آپ کے اداکے حق کا عذر نہ کریں؟ خدا کی قسم میں اس وقت تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا جب تک دشمنون کے سینوں میں نیزہ نہ توڑلوں اورتلوار نہ چلالوں، خدا کی قسم اگر میرے پاس اسلحہ بھی نہ ہوتا تو دشمنوں سے پتھر مار مارکر لڑتا اورآپ کے اوپر سے فدا ہوجاتا ۔
(یہ خطبہ اورجوابات ابن اثیر:۴/۴۸،۴۹ سے ماخوذ ہیں)
مسلم بن عوسجہ کے بعد سعد بن عبداللہ حنفی نے اٹھ کر تقریر کی کہ خدا کی قسم ہم اس وقت تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے،جب تک خدا کو یہ معلوم نہ ہوجائے کہ ہم نے رسول اللہ کے بعد بھی آپ کا فرمان ملحوظ رکھا، اگر مجھ کو یہ بھی یقین ہوتا کہ میں ستر مرتبہ قتل کیا جاؤں گا اور ہر مرتبہ زندہ کرکے آگ میں جلا کر میری خاک اڑادی جائے گی تو بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑتا تاآنکہ اپنے کو موت کے حوالہ کردیتا نہ کہ ایسی صورت میں جبکہ معلوم ہے کہ مرنا ایک ہی مرتبہ ہے اوراس موت میں ابدی عزت ہے۔
سعد بن عبداللہ حنفی کے بعد زہیر بن قین اٹھ کر بولے، خدا کی قسم مجھے تمنا ہے کہ میں قتل ہوتا، پھر زندہ ہوتا، پھر قتل کیا جاتا، اسی طرح ہزار مرتبہ زندہ ہو ہوکر قتل کیا جاتا اور خدا اس قتل سے آپ کی ذات اورآپ کے اہل بیت کے نوجوانوں کو بچالیتا غرض اس طریقہ سے ہرجان نثار نے اپنی اپنی عقیدت اورجانثاری کا اظہار کیا۔
(طبری:۷/۲۲۲،۲۲۳)

***
شب عاشورہ
جمعرات کا دن گزرنے کے بعد عاشورہ کی وہ تاریک رات نمودار ہوئی جس کی صبح کو میدان کربلا میں قیامت بپا ہونے والی تھی درمیان میں صرف ایک ہی رات رہ گئی تھی جس میں حضرت حسینؓ کو حجلۂ عبادت میں جمالِ حقیقت کے ساتھ راز ونیاز کرنا تھی اوراس کی راہ میں جان دینے کے لئے تیاریاں بھی کرنی تھی؛چنانچہ آپ نے منتشر خیموں کو ایک جگہ ترتیب سے نصب کرایا، ان کی پشت پر خندق کھدوا کر آگ جلوادی کہ دشمن عقب سے حملہ آور نہ ہوسکیں اورہتھیاروں کی صفائی کرائی جس وقت آپ کی تلوار صاف کی جارہی تھی، اس وقت آپ نے چند عبرتناک اشعار پڑھے آپ کی جان نثار بہن حضرت زینبؓ کو ان انتظامات سے ہونے والے واقعات کا کچھ اندازہ ہوگیا تھا، اوروہ حضرت حسینؓ کے پاس بدحواس دوڑتی ہوئی آئیں اور چیخ چیخ کر رونے لگیں کہ کاش آج موت میری زندگی کا خاتمہ کردیتی ہائے میری ماں فاطمہؓ میرے باپ علیؓ اورمیرے بھائی حسنؓ میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا، بھیا ان گزرے ہوؤں کے جانشین اورہم لوگوں کے محافظ اورہمارا سہارا تم ہی ہو،بہن کو اس طرح مضطرو بے قرار دیکھ کر فرمایا زینب علم ووقار کو شیطان کے حوالہ نہ کرو؛ لیکن یہ وقت وقار وسکینہ کا نہ تھا، زینب بولیں بھائی! میں آپ پر سے قربان،آپ کے بدلہ میں اپنی جان دینا چاہتی ہوں، بہن کی یہ دلدوز اورمحبت بھری باتیں سن کر بھائی کا دل بھی بھر آیا اورآپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے فرمایا زینب ذرا چین سے رہنے دو، یہ جواب سن کر زینبؓ نے منہ لپیٹ لیا اورڈاڑھیں مار کر رونے لگیں کہ آپ کا اپنے کو مجھ سے الگ الگ رکھنا میرے دل کے ٹکڑے اڑائے دیتا ہے، یہ کہا اورچیخ مار کر بیہوش ہوگئیں ،حضرت حسینؓ نے منہ پر پانی کے چھینٹے دیئے جب ہوش آیا تو صبر کی تلقین کی کہ زینبؓ خدا سے ڈرو اورخدا سے تسکین حاصل کرو،ایک نہ ایک دن سارے روئے زمین کے باشندے مرجائیں گے آسمان والوں میں بھی کوئی باقی نہ رہے گا آسمان وزمین کی تمام چیزیں فانی ہیں صرف ایک خدا کی ذات باقی رہے گی،میری ماں میرے باپ اورمیرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے اورہر مسلمان کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات نمونہ ہے تم اسی نمونہ سے صبر و تسلی حاصل کرو، میں تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں کہ اگر میں مرجاؤں تو اسوۂ رسول کے خلاف نہ کرنا، میری موت پر گریبان نہ پھاڑنا، منہ نہ نوچنا، اوربین نہ کرنا، بہن کو صبر وشکر اورضبط وتحمل کی تلقین کرکے خیمہ سے باہر تشریف لائے اورحفاظت کے ضروری انتظامات کرکے صبح صادق تک سب لوگ نماز ،دعا استغفار اورتضرع وزاری میں مصروف رہے۔
(ابن اثیر:۴/۵)

***
قیامت صغریٰ
شب عاشورہ ختم ہونے کے بعد صبح قیامت نمودار ہوئی جس میں تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ دلدوز واقعہ پیش آنے والا تھا اور باختلافِ روایت جمعہ یا سنیچر کے دن بعد نماز فجر حسینی فوج لڑنے کے لئے تیار ہوگئی،یہ کوئی لشکر جرار نہ تھا؛بلکہ بہتر (۷۲)جان نثاروں کی ایک مختصر جماعت تھی، جس کی ترتیب یہ تھی کہ میمنہ پر زہبیر بن قین تھے اورمیسرہ پر حبیب ابن مظہر ،عباسؓ علمدار کے ہاتھوں میں حسینی علم تھا، ادھر یہ مٹھی بھر جان نثار تھے،دوسری طرف چار ہزار شامی تھے، حضرت حسینؓ جب میدان جنگ میں جانے کے لئے رہوار پر سوار ہوئے تو قرآن سامنے رکھا اوردونوں ہاتھ اٹھا کر بارگاہِ ایزدی میں یہ دعا کی:

***
بارگاہ ایزدی میں دعا
خدایا تو ہر مصیبت میں میرا بھروسہ اورہر تکلیف میں میرا ا ٓسرا ہے،مجھ پر جو وقت آئے ان میں توہی میرا پشت وپناہ تھا بہت سے غم واندوہ ایسے ہیں جن میں دل کمزور پڑجاتا ہے، کامیابی کی تدبیریں کم ہوجاتی ہیں اور رہائی کی صورتیں گھٹ جاتی ہیں،دوست اس میں ساتھ چھوڑدیتے ہیں اور دشمن شماتت کرتے ہیں؛ لیکن میں نے اس قسم کے تمام نازک اوقات میں سب کو چھوڑ کر تیری طرف رجوع کیا تجھی سے اس کی شکایت کی تو نے ان مصائب کے بادل چھانٹ دئے اور ان کے مقابلہ میں میرا سہارا بنا توہی ہر نعمت کا ولی، ہر بھلائی کا مالک اورہر آرزو اورخواہش کامنتہی ہے۔
آپ دعا سے فارغ ہوئے کہ شمر نے اس آگ کے شعلوں کو دیکھ کر جو خیموں کی پشت پر اس کی حفاظت کے لئے جلائی گئی تھی بآواز بلند کہا،حسینؓ قیامت سے پہلے دنیا ہی میں آگ مل گئی،آپ نے جواب دیا تو اس میں جلنے کا زیادہ مستحق ہے، مسلم ابن عو سجہ نے عرض کیا یا ابن رسول اللہ شمر زد میں ہے،ارشاد ہو تو تیر چلا کر اس کا خاتمہ کردوں فرمایا نہیں، میں اپنی جانب سے ابتدا کرنا نہیں چاہتا اورشامی فوج کے قریب جاکر بطورا تمام حجت کے فرمایا:

***
اتمام حجت
لوگو جلدی نہ کرو، پہلے میرا کہنا سن لو اورمجھ پر سمجھا نے کا جو حق ہے اسے پورا کرلینے دواورمیرے آنے کا عذر بھی سن لو پھر اس کے بعد تمہیں اختیار ہے اگر میرا عذر قبول کرلو گے میرا کہنا سچ مانوں گے اورانصاف سے کام لوگے تو خوش قسمت ہوگے اور تمہارے لئے میری مخالفت کی کوئی سبیل باقی نہ رہے گی اوراگر تم نے میرا عذر قبول نہ کیا اور انصاف سے کام نہ لیا تو:
فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ
(یونس:۷۱)
پس تم اورتمہارے شریک سب مل کر اپنی ایک بات ٹھہرالو تاکہ تمہاری وہ بات تم میں سے کسی کے اوپر مخفی نہ رہے،تم میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرڈالو اورمجھے مہلت نہ دو،
إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ
(الاعراف:۱۹۶)
میرا والی اللہ ہے،جس نے کتاب نازل کی اوروہی صالحین کا ولی ہوتا ہے۔
آپ کی بہنوں اورصاحبزادیوں نے یہ تقریر سنی تو خیمہ امامت میں ماتم بپا ہوگیا، ان کے رونے کی آوازیں سن کر آپ نے عباسؓ اورعلی کو بھیجا کہ جاکر انہیں خاموش کردو، میری عمر کی قسم ابھی ان کو بہت رونا ہے، بہنوں اورلڑکیوں کو خاموش کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر آخری اتمامِ حجت کے لئے کوفیوں کے سامنے تقریر فرمائی کہ:
لوگو!میرے نسب پر غور کرو میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر اپنے کو ملامت کرو،خیال کرو کہ میرا قتل اور میری آبروریزی تمہارے لئے زیبا ہے ؟کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا لڑکا اوراس کے وصی،ابن عم، خدا پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اس کے رسول اوراس کی کتاب کی تصدیق کرنے والے کا ،فرزند نہیں ہوں؟ کیا سید الشہدا حمزہ میرے باپ کے اورجعفر طیار ذوالجناحین میرے چچا نہ تھے؟ کیا تم کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اورمیرے بھائی کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ دونوں جو انان جنت کے سردار ہوں گے، اگر میں سچ کہتا ہوں اوریقیناً سچ کہتا ہوں ؛کیونکہ جب سے مجھے معلوم ہوا کہ جھوٹے پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اس وقت سے میں عمداً جھوٹ نہیں بولا اوراگر مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو تم میں اس کے جاننے والے موجود ہیں، ان سے اس کی تصدیق کرلو، جابر بن عبداللہ انصاری،ابو سعید خدری،سہل بن احمد ساعدی،زید بن ارقم،انس بن مالکؓ ابھی زندہ ہیں ان سے پوچھو یہ تمہیں بتائیں گے کہ انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا ہے، مجھے بتاؤ کیا اس فرمان میں میری خون ریزی کیلئے کوئی روک نہیں۔
اس تقریر کے دوران میں شمرذی الجوشن نے حضرت حسینؓ کے ایمان پر چوٹ کی ،حبیب ابن مظاہر نے اس کا دندان شکن جواب دیکر کہا کہ امام جو کچھ فرماتے ہیں اس کو تونہیں سمجھ سکتا ؛کیونکہ خدانے تیرے قلب پر مہر لگادی ہے، ذی الجوشن کے اعتراض اورحبیب کے جواب کے بعد جناب امام نے پھر تقریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
خیراگر تم کو اس میں کچھ شک ہے تو اسے جانے دو لیکن کیا اس میں بھی کچھ شبہ ہے کہ میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں، خدا کی قسم آج مشرق سے لیکر مغرب تک روئے زمین پر تم میں اور کسی غیر قوم میں بھی میرے سوا کسی نبیﷺ کا نواسہ موجود نہیں ہے، میں خاص تمہارے نبی کی لڑکی کا بیٹا ہوں، مجھے بتاؤ تم لوگ میرے خون کے کیوں خواستگار ہو، کیا میں نے کسی کو قتل کیا ہے؟ کسی کا مال ضائع کیا ہے؟ کسی کو زخمی کیا ہے، ان نصائح اورسوالات کو سن کر سب خاموش رہے،کسی نے کوئی جواب نہ دیا، اس کے بعد آپ نے نام لے لےکر سوالات شروع کئے، اے شیث بن ربعی! ،اے حجار بن اجبر، اے قیس بن اشعث، اے یزید بن حارث کیا تم نے مجھ کو نہیں لکھا تھا، پھل پک چکے ہیں ،کھجوریں سرسبز ہیں، دریا جوش میں ہیں فوجیں تیار ہیں، تم فوراً آؤ، ان لوگوں نے جواب دیا! ہم نے نہیں لکھا تھا، فرمایا سبحان اللہ ،خدا کی قسم تم نےلکھا تھا، لوگو! اگر تم کو میرا آنا ناگوار ہے تو مجھے چھوڑ دو تاکہ میں کسی پر امن خطہ کی طرف چلاجاؤں ،اس پر قیس بن اشعث بولا، تم اپنے بنی عم کا کہنا کیوں نہیں مان لیتے، ان کی رائے تمہارے مخالف نہ ہوگی اور ان کی جانب سے کوئی ناپسندیدہ سلوک نہ ہوگا ،حضرت حسینؓ نے فرمایا، کیوں نہیں ،آخر تم بھی تو اپنے بھائی کے بھائی ہو، تم کیا چاہتے ہو کہ بنو ہاشم مسلم بن عقیل کے خون کے علاوہ تم سے اوردوسرے خون کے بدلہ کا بھی مطالبہ کریں، خدا کی قسم میں ذلیل کی طرح اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دوں گا اور غلام کی طرح اس کا اقرار نہیں کروں گا، (طبری :۷/۳۲۹،۳۳۰)اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ
(الدخان:۲۰)
اور میں اپنے اورتمہارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھ کو سنگسار کرو
إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ
(غافر:۲۷)
میں اپنے اورتمہارے رب سے ہر مغرور و متکبر سے جو قیامت پر ایمان نہیں رکھتا پناہ مانگتا ہوں۔

***
زہیر بن قیس کی تقریر
اس تقریر کے بعد آپ سواری بٹھا کر اتر پڑے اورشامی آپ کی طرف بڑھے ان کا ہجوم دیکھ کر زہیر بن قین نے شامیوں کے سامنے بڑی پرجوش تقریر کی:
اے اہل کوفہ خدا کے عذاب سے ڈرو ،ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو نصیحت کرے،ابھی تک ہم بھائی بھائی ہیں ایک مذہب اورایک ملت کے ماننے والے ہیں جب تک ہمارے درمیان تلوار نہ اٹھ جائے اس وقت تک ہم کو تمہیں نصیحت کرنے کا حق ہے ،جب آپس میں تلواریں اُٹھ جائیں گی تو ہمارا تمہارا رشتہ ٹوٹ جائے گا اورہماری تمہاری جماعت الگ الگ ہوجائے گی، خدا نے ہم کو اورتم کو نبی ﷺ کی ذریت کے بارہ میں آزمائش میں مبتلا کیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں میں تم کو ان کی امداد اورعبید اللہ بن زیاد کا ساتھ چھوڑ نے کی دعوت دیتا ہوں ،اس لئے کہ تم کو ان سے سوائے برائی کے کچھ حاصل نہ ہوگا وہ تمہاری آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں گے،تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے،تمہارا مثلہ کریں گے تم کو کھجور کی شاخوں پر لٹکائیں گے،حجر بن عدی اورہانی بن عروہ وغیرہ کی طرح تمہارے ممتاز لوگوں کو بھی قتل کریں گے۔
زہیر بن قین کی یہ تقریر سن کر کوفیوں نے انہیں گالیاں دیں اورابن زیاد کی تعریف کرکے بولے، خدا کی قسم ہم حسینؓ اوران کے ساتھیوں کو قتل یا انہیں گرفتار کرکے امیر ابن زیاد کے پاس پہنچائے بغیر نہیں ٹل سکتے،زہیر بن قین نے پھر انہیں سمجھایا کہ خدا کے بندو! فاطمہؓ کا فرزند ابن سمیہ کے مقابلہ میں امداد واعانت کا زیادہ مستحق ہے، اگر تم ان کی امداد نہیں کرتے تو خدا را انہیں قتل تو نہ کرو، ان کا معاملہ ان کے اوران کے ابن عم یزیدپر چھوڑدو، وہ حسینؓ کو قتل نہ کرنے کی صورت میں تم سے زیادہ رضا مند ہوگا، اس پر شمر ذی الجوشن نے زہیر بن قین کو ایک تیر مارا اورکہا خاموش رہو، خدا تمہارا منہ بندکرے اپنی بک بک سے پریشان کرڈالا،اس پر زہیر نے کہا،ابن بوال تجھ سے کون خطاب کرتا ہے تو تو جانور ہے ،خدا کی قسم میرا خیال ہے کہ تو کتاب اللہ کی ان دو آیتوں کو بھی نہیں جانتا "وابشر بالخزی یوم القیامۃ والعذاب العلیم"شمر بولا خدا تجھ کو اورتیرے ساتھی کو ایک ساتھ قتل کرے، زہیر نے جواب دیا موت سے ڈراتا ہے،خدا کی قسم حسینؓ کے ساتھ جان دینا مجھ کو تیرے ساتھ دائمی زندگی سے زیادہ عزیز ہے، پھر بآواز بلند کوفیوں سے خطاب کیا کہ لوگو تم اس سنگ دل ظالم کے فریب میں نہ آؤ خدا کی قسم جو لوگ محمدﷺ کی اولاد اوران کے اہل بیت کا خون بہائیں گے وہ قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔

***
حرکا حضرت حسینؓ سے ملنا
کوفیوں کی آنکھوں پر پردے پڑچکے تھے اور دلوں پر مہر لگ چکی تھی، اس لئے حضرت حسینؓ اورآپ کے ساتھیوں کی ساری افہام و تفہیم رائےگاں گئی،کسی پر کوئی اثر نہ ہوا اورامام نے زہیر بن قین کو واپس بلالیا، ان کی واپسی کے بعد کوئی وقت منتظر باقی نہ رہااور عمر بن سعد حضرت حسینؓ کی طرف بڑھا اس کی پیش قدمی کے ساتھ ہی اس گروہ اشقیا میں سے دفعۃ ایک پرستار حق نکل آیا، یہ حُر تھے عین اس وقت جب طبل جنگ پر جوب پڑنے والی تھی حر کی آنکھوں کے سامنے تاریکی کا پردہ ہٹ گیا اورحق کا جلوہ نظر آنے لگا ؛چنانچہ کوفی فوج کا ساتھ چھوڑ کر حضرت حسینؓ کی فوج میں چلے آئے اور عرض کیا،میری جانب سے جو کچھ گستاخیاں اوربے عنوانیاں ہوچکیں وہ ہوچکیں اب اپنی جان غمگساری کے لئے پیش کرتا ہوں، امید ہے ابھی درتوبہ باز ہوگا ،حضرت حسینؓ نے فرمایا تمہاری توبہ قبول ہوگی ،تمہیں بشارت ہوکہ تم دنیا اورآخرت دونوں میں"حُر"آزاد ہو۔

***
حر کی تقریر
حسینی فوج میں شامل ہونے کے بعد حُر نے کوفیوں سے کہا ،لوگو حسینؓ نے جو تین صورتیں تمہارے سامنے پیش کی ہیں ان میں کوئی صورت کیوں نہیں منظور کرلیتے،تاکہ خدا تم کو ان کے ساتھ لڑنے سے بچالے،ابن سعد بولا میں دل سے یہ چاہتا ہوں ،لیکن افسوس اس کی کوئی سبیل نہیں نکلتی ،حُر نے پھر کہا اے اہل کوفہ پہلے تم نے حسینؓ کو بلایا جب وہ آگئے تو تم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اوریہ خیال کرتے رہے کہ ان کی حمایت میں لڑو گے پھر اُن کے مخالف ہوگئے اوراب ان کے قتل کے درپے ہو، انہیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے اورخدا کی وسیع زمین میں کسی طرف ان کو جانے نہیں دیتے کہ وہ اوران کے اہل بیت کسی پر امن مقام پر چلے جائیں اس وقت ان کی حالت بالکل قیدی کی ہورہی ہے کہ وہ اپنی ذات کو نہ کوئی فائدہ پہنچاسکتا ہے اورنہ نقصان سے بچا سکتا ہے، تم نے اُن پر فرات کا پانی بند کردیا،جس پانی کو یہودی،نصرانی ،مجوسی سب پیتے ہیں اوردیہات کے سور اورکتے تک اس میں لوٹتے ہیں، اس کے لئے حسینؓ اوران کے اہل وعیال تشنہ لب تڑپتے ہیں تم نے محمد ﷺ کے بعد ان کی اولاد کا کیا خوب لحاظ کیا؟اگر تم توبہ کرکے اپنی روش نہیں چھوڑگے تو خدا تمہیں قیامت کے دن پیاسا تڑپائے گا۔

***
جنگ کا آغاز
حر کی اس تقریر پر ابن سعد علم لے کر بڑھا اورپہلا تیر چلا کر اعلان جنگ کردیا اوردونوں طرف سے آدمی نکل نکل کے داد شجاعت دینے لگے، شامیوں کی فوج سے یسار اور سالم دو شخص نکلے ادھرے سے تنہا عبداللہ بن عمیر ان کے جواب میں آئے اور ایک ہی وار میں یسار کو ڈھیر کردیا پاس ہی سالم تھا اُس نے جھپٹ کر عبداللہ پر وار کیا، عبداللہ نے ہاتھوں پر روکا انگلیاں اڑگئیں ،لیکن انہی کٹی انگلیوں سے سالم کو مار گرایا،عبداللہ کی بیوی بھی ساتھ تھیں، انہوں نے شوہر کو لڑتے دیکھا تو خود بھی ہاتھ میں خیمہ کی ایک چوب لے کر یہ کہتے ہوئی آگے بڑھیں کہ میرے ماں باپ تم پر سے فدا ہوں، آل محمد ﷺ کی طرف سے لڑتے رہو، عبداللہ نے انہیں عورتوں کے خیمہ میں لوٹانا چاہا، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ میں تمہارا ساتھ نہ چھوڑوں گی،تمہارے ساتھ جان دوں گی، حضرت حسین ان کی ضد دیکھ کر آواز دی،کہ خدا تم کو اہل بیت کی جانب سے جزائے خیر دے تم لوٹ جاؤ، عورتوں پر جہاد فرض نہیں ہے،آپ کے ارشاد پر وہ لوٹ گئیں۔
اس کے بعد عمروبن حجاج شامی لشکر کے میمنہ کو لے کر حضرت حسینؓ کی طرف بڑھا جب آپ کے قریب پہنچا تو فدائیان حسینؓ پاؤں ٹیک کر سینہ سپر ہوگئے اورنیزوں کے وار سے شامی سواروں کے گھوڑوں کے منہ پھیر دیئے،پھر شامی جماعت سے ابن جوزہ نامی ایک شخص نکل کر بآواز بلند پکارا،حسینؓ ہیں؟ کسی نے اس کا جواب نہ دیا ،دوسری مرتبہ پھر اس نے بھی سوال کیا تیسری مرتبہ سوال کرنے پر لوگوں نے کہااس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ اس نے کہا حسینؓ تم کو دوزخ کی بشارت ہو، حضرت حسینؓ نے جواب میں فرمایا، تو جھوٹا ہے میں دوزخ میں نہیں ؛بلکہ رب رحیم شفیع اورمطاع کے حضور میں جاؤں گا، تیرا نام کیا ہے جواب دیا ابن حوزہ فرمایا خدایا اس کو آگ میں داخل کر اتفاق سے اسی دوران میں ابن حوزہ کا گھوڑا بدک کر ایک نہر میں پھاند پڑا اورابن جوزہ کا پاؤں رکاب میں اٹک گیا اسی حالت میں پھر دوسری مرتبہ بدک کر بھاگا اورابن حوزہ پیٹھ سے لٹک گیاگھوڑا سرپٹ بھاگا اورابن حوزہ پتھروں کی رگڑ سے چور چور ہوکر مرگیا، اس کے بعد شامی فوج سے یزید بن معقل نکلا اورحسینی لشکر سے بریربن حضیر ان کے مقابل ہوئے زبانی مباحثہ کے بعد دونوں نے تلواریں نکال لیں، یزید بن معقل نے بریر پر وار کیا بریر نے وار خالی کردیا اورجواب میں ایسی کاری تلوار ماری کہ یزید کی خود کاٹی ہوئی دماغ تک پہنچ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہوگیا یزید کو تڑپتا دیکھ کر شامی فوج کے ایک سپاہی رضی بن منقد نے بریر پر حملہ کیا دونوں میں کشتی ہونے لگی بریر اس کو چت کر کے سینہ پر بیٹھ گئے،رضی کو چت دیکھ کر کعب بن جابرازوی شامی نے بریر پر نیزہ سے حملہ کیا،نیزہ ان کی پیٹھ میں پیوست ہوگیا بریر زخمی ہوکر رضی کے سینہ سے اتر پڑے، ان کے اترتے ہی کعب نے تلوار سے زخمی کرکے گرادیا، اسی طرح رضی کی جان بچ گئی بریر کے بعد عُمر بن قرظہ انصاری بڑھے اورحضرت حسینؓ کے سامنے داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے،عمروبن قرظہ کا بھائی ابن سعد کے ساتھ تھا، عمروکہ خاک وخون میں غلطاں دیکھ کر پکارا،کذاب ابن کذاب حسینؓ تو نے میرے بھائی کو گمراہ کیا اور دھوکہ دیکر قتل کرادیا آپ نے جواب دیا خدانے تیرے بھائی کو نہیں ؛بلکہ تجھ کو گمراہ کیا، تیرے بھائی کو اس نے ہدایت دی یہ جواب سن کر وہ بولا اگر میں تم کو قتل نہ کروں تو خدا مجھے قتل کرے،یہ کہتے ہی حضرت حسینؓ کی طرف چھپٹا،مگر نافع بن ہلال مراوی نے ایسا نیزہ مارا کہ وہ چاروں شانے چت گرا، مگر اس کے ساتھیوں نے بڑھ کر بچالیاان کے بعد حر بن یزید نکلے اورحضرت حسینؓ کے سامنے بڑی شجاعت وبہادری سے لڑے ،یزید بن سفیان ان کے مقابلہ کو آیا،حر نے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا، حر کے بعد نافع بن ہلال بڑھے شامیوں میں مزاحم بن حریث ان کے مقابل آیا، نافع نے اسے بھی اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچادیا۔

***
عام جنگ
ابھی تک لڑائی کا انداز یہ تھا کہ ایک ایک شخص ایک ایک کے مقابل میں نکلتا تھا ،مگر شامی لشکر سے جو نکلا وہ بچ کر نہ گیا اس لئے عمرو بن حجاج پکارا لوگو! جن لوگوں سے تم لڑرہے ہو یہ سب اپنی جان پر کھیلے ہوئے ہیں اس لئے آیندہ کوئی شخص تنہا ان کے مقابلہ میں نہ جائے،ان کی تعداد تو اتنی کم ہے کہ اگر تم لوگ ان کو صرف پتھروں سے مارو تو بھی ان کا کام تمام ہوجائے گا کوفہ والو طاعت اورجماعت کی پوری پابندی کرو، اس شخص (حسینؓ) کے قتل میں کسی شک وشبہ اور تذبذب کی راہ نہ دو جو دین سے بھاگا ہے اورجس نے امام کی مخالفت کی ہے ،عمربن سعد کو بھی عمرو بن حجاج کی یہ رائے پسند آئی؛چنانچہ اس نے فرداً فردا ًمبارزت سے روک دیا اورعام جنگ کا آغاز ہوگیا، عمر بن حجاج میمنہ کو لے کر حضرت حسینؓ پر حملہ آور ہوا تھوڑی دیر تک آپس میں کشمکش جاری رہی، اس معرکہ میں مشہور جان نثار مسلم بن عوسجہ اسدی شہید ہوئے،غبار چھٹا تو لاشہ نظر پڑا، حضرت حسینؓ قریب تشریف لے گئے کچھ کچھ جان باقی تھی فرمایا، مسلم تم پر خدا رحم کرے فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا حضرت حسینؓ کے بعد حبیب مطہر نے آکر جنت کی بشارت دی اور کہا اگر مجھ کو یہ یقین نہ ہوتا کہ میں عنقریب تمہارے پاس پہنچوں گا، تو تم سے وصیت کرنے کی درخواست کرتا اور اسے پوری کرتا، مسلم میں بقدر رمق جان باقی تھی، حضرت حسینؓ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ صرف ان کے بارہ میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کے لئے جان دے دینا یہ وصیت کرکے محبوب آقا کے سامنے جان دیدی کہ
(ابن اثیر:۴/۵۸)
بچہ ناز رفتہ باشد زجہان نیاز مندے کہ بوقت جان سپردن بسرش رسید باشی
مسلم کی موت پر شامی فوج میں بڑی خوشی ہوئی۔

***
دوسرا حملہ
اس کے بعد دوسرے ریلے میں شمر شامی میسرہ کولے کر حسینی میسرہ پر حملہ آور ہوا اس حملہ کے بعد شامی چاروں طرف سے حسینی فوج پر ٹوٹ پڑے،بڑا زبردست مقابلہ ہوا، حسینی فوج کے بہادر عبداللہ الکلبی کئی آدمیوں کو قتل کرکے خود شہید ہوئے،اس معرکہ میں حسینی فوج میں ۳۲ آدمی تھے،لیکن اس پامردی سے لڑے کہ جدھر رخ کرتے تھے ،شامیوں کی صفیں الٹ دیتے تھے اوران کی سواریوں کی صفیں درہم برہم ہوجاتی تھیں، شامی سوار دستہ کے کماندار غررہ بن قیس نے اپنے سواروں کی یہ بے تر تیبی دیکھی تو ابن سعد کے پاس کہلا بھیجا کہ مٹھی بھر آدمیوں نے ہمارے دستہ کا یہ حال کردیا ہے اس لئے فوراً کچھ پیدل اورکچھ تیر انداز بھیجو،ابن سعد نے اس کی درخواست پر پانچسو سواروں کا دستہ بھیج دیا، اس دستہ نے جاتے ہی حسینی لشکر پر تیروں کی بارش شروع کردی اور تھوڑی دیر میں ان کے تمام گھوڑے زخمی ہوکر بے کار ہوگئے پھر بھی ان کے استقلال میں کمی نہ آئی سب سوار گھوڑوں سے اتر پڑے اوردوپہر تک اس بہادری اوربے جگری سے لڑتے رہے کہ شامیوں کے دانت کھٹے کردیئے۔

***
اہل بیت کے خیموں کا جلایا جانا
شامی جنگ کو جلد ختم کردینے کے لئے آگے بڑھنا چاہتے تھے،لیکن حضرت حسینؓ نے اپنے خیموں کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی تھی کہ شامی ایک ہی رخ سے حملہ کرسکتے تھے،اس لئے عمربن سعد نے حکم دیا کہ خیمے اکھاڑدیئے جائیں تاکہ ہر طرف سے حسینی فوج پر حملہ کیا جاسکے؛چنانچہ شامی خیمے اکھاڑنے کے لئے آگے بڑھے،لیکن اس میں بھی یہ دشواری آگئی کہ جب وہ حسینی خیموں میں گھسنے کا قصد کرتے تھے تو آڑ میں پڑجاتے تھے،اس لئے حسینی سپاہی انہیں مارلیتے تھے ابن سعد نے اس صورت میں بھی ناکامی دیکھی تو خیموں میں آگ لگوادی، حضرت حسینؓ نے دیکھا تو فرمایا یہ بھی اچھا ہوا میدان صاف ہوجائے گا تو یہ لوگ پشت سے حملہ آور نہ ہوسکیں گے، حضرت حسینؓ کا یہ خیال بالکل صحیح نکلا، خیموں کے جل جانے سے پشت سے حملہ کا خطرہ جاتا رہا، شمر اہلبیت کے خیمہ میں نیزہ مار کر بولا کہ اس کو معہ آدمیوں کے جلادوں گا عورتوں نے سنا تو چلاتی ہوئی خیموں سے باہر نکل آئیں، حضرت حسینؓ نے دیکھا تو شمر کو ڈانٹا کہ تو میرے اہل بیت کو آگ میں جلانا چاہتا ہے، خدا تجھ کو آتش دوزخ میں جلائے کچھ اس ڈانٹ کے اثر اورکچھ لوگوں کے غیرت دلانے سے شمر لوٹ گیا، اس کے جاتےہی زہیر بن قین نے کوفیوں کو اہل بیت کے خیموں سے ہٹادیا۔
(طبری:۷/۳۴۷،۳۵۰)

***
جانبازوں کی شہادت
پچھلے معرکوں میں شمعِ امامت کے بہت سے پروانے فدا ہوچکے تھے اب امامؓ کے ساتھ صِرف چند جاں نثار باقی رہ گئے تھے،ان کے مقابلہ میں کوفیوں کا ٹڈی دل تھا اس لئے ان کے قتل ہونے سے ان میں کوئی کمی نظر نہ آتی تھی، لیکن حسینی فوج میں سے ایک آدمی بھی شہید ہوجاتا تھا تو اس میں نمایاں کمی محسوس ہوتی تھی، یہ صورت حال دیکھ کر عمروبن عبداللہ صاعدی نے امام سے عرض کیا کہ میری جان آپ پر فدا ہو،اب شامی بہت قریب ہوتے جاتے ہیں اورکوئی دم میں پہنچنا چاہتے ہیں، اس لئے چاہتا ہوں کے پہلے میں جان دے لوں اس کے بعد پھر آپ کو کوئی گزند پہنچے ابھی میں نے نماز نہیں پڑھی ہے، نماز پڑھ کر خدا سے ملنا چاہتا ہوں ان کی اس درخواست پر حضرت حسینؓ نے فرمایا، ان لوگوں سے کہو کہ تھوڑی دیرکے لئے جنگ ملتوی کردیں تاکہ ہم لوگ ظہر کی نماز ادا کرلیں، آپ کی زبان سے یہ فرمائش سن کر حصین بن نمیر شامی بولا، تمہاری نماز قبول نہ ہوگی؟حبیب بن مظہر نے جواب دیا گدھے! آل رسول کی نماز قبول نہ ہوگی اور تیری قبول ہوگی؟ یہ جواب سن کر حصین کو طیش آگیا اورحبیب پر حملہ کردیا، حبیب نے اس کے گھوڑے کے منہ پر ایسا ہاتھ مارا کہ وہ دونوں پاؤں اٹھا کر کھڑا ہوگیا اورحصین اس کی پیٹھ سے نیچے آگیا؛ لیکن اس کے ساتھیوں نے بڑھ کر بچالیا اس کے بعد حبیب اور کوفیوں میں مقابلہ ہونے لگا کچھ دیر تک حبیب نہایت کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے؛ لیکن تن تنہا کب تک انبوہ کثیر کے مقابل میں ٹھہرسکتے بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے، ان کی شہادت سے حضرت حسینؓ کا ایک اور بازو ٹوٹ گیا اورآپ بہت شکستہ خاطر ہوئے مگر کلمۂ صبر کے علاوہ زبان مبارک سے کچھ نہ نکلا، حر نے آقا کو غمگین دیکھا تو رجز پڑہتے ہوئے بڑھے اور مشہور جان نثار زہیر بن قین کے ساتھ مل کر بڑی بہادری اورشجاعت سے لڑے؛لیکن یہ بھی کب تک لڑتے، آخر میں کوفی پیادوں نے ہر طرف سے حر پر ہجوم کردیا اور یہ پروانہ بھی شمع امامت پر سے فدا ہوگیا۔
(طبری:۷/۳۴۷،۳۵۰)

***
جان نثاروں کی آخری جماعت کی فدا کاری
اب ظہر کا وقت آخر ہورہا تھا، لیکن کوفی نماز پڑہنے کے لئے بھی دم نہ لیتے تھے، اس لئے امام نے صلوۃ خوف پڑھی، اورنماز کے بعد پھر پورے زور کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی اوراس گھمسان کا رن پڑا کہ کربلا کی زمین تھرا گئی کوفیوں کا ہجوم بڑھتے بڑھتے حضرت حسینؓ کے پاس پہنچ گیا تیروں کی بارش پر ٹڈی دل کا گمان ہوتا تھا، مشہور جان باز حنفی امام کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور جتنے تیر آئے سب مردانہ وار اپنے سینہ پر روکے ؛لیکن ایک انسان کب تک مسلسل تیر بازی کا ہدف بن سکتا تھا، بالآخر یہ بھی امام کی راہ میں سینہ چھلنی کرکے فدا ہوگئے،ان کے بعد زہیر بن قین کی باری آئی، یہ بھی داد شجاعت دیتے ہوئے اپنے پیشترؤں سے جاملے، ان کے بعد نافع بن ہلال بجلی جنہوں نے ۱۲ کوفیوں کو قتل کیا تھا گرفتار کرکے شہید کئے گئے اب حسینی لشکر کا بڑا حصہ آقائے نامدار پر سے فدا ہوچکا تھا، صرف چند جان نثار باقی رہ گئے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ شامی فوجوں کے مقابلہ میں زیادہ دیر تک ٹھہرنے کی طاقت باقی نہیں ہے، تو یہ طے کرلیا کہ قبل اس کے کہ امام ہمام پر کوئی نازک وقت آئے سب کے سب آپ پر سے فدا ہوجائیں ؛چنانچہ تمام فدائی اہل بیت ایک ایک کرکے پروانہ وار بڑھنے لگے، اس جماعت میں سب سے اول عبداللہ اورعبدالرحمن بڑھے، ان کے بعد دونوجوان سیف بن حارث اورمالک بن عبدنکلے اس وقت دونوں کی آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں جاری تھیں، امام نے پوچھا تم روتے کیوں ہو؟ عرض کیا اپنی جان کے لئے نہیں روتے، رونا اس پر ہے کہ آپ کو چاروں طرف سے اعداء کے نرغے میں محصور دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے امام نے کہا خدا تم دونوں کو متقیوں جیسی جزا دے ان دونوں کے بعد حنظلہ بن شامی نکلے اور کوفیوں کو سمجھایا کہ وہ حسینؓ کے خون بے گناہی کا وبال اپنے سر نہ لیں؛ لیکن اب اس قسم کی افہام و تفہیم کا وقت ختم ہوچکا تھا، حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ اب انہیں سمجھانا بے کار ہے، آپ کے اس ارشاد پر حنظلہ آپ اورآپ کے اہل بیت پر صلوٰۃ وسلام بھیج کر رخصت ہوئے اورلڑتے لڑتے شہید ہوگئے ان کے بعد سیف اورمالک دونوں نوجوانوں نے جانیں فدا کیں، ان کے بعد عابس بن ابی شبیب اورشوذب بڑھے،شوذب شہید ہوئے،لیکن عابس بہت مشہور بہادر تھے، ان کے مقابلہ میں کسی شامی کو آنے کی ہمت نہ پڑتی تھی، اس لئے ہر طرف سے ان پر سنگباری شروع کردی، عابس نے ان کی یہ بزدلی دیکھی تو اپنی زرہ اور خود اتار کر پھینک دی اورحملہ کر کے بے محابہ دشمن کی صفوں میں گھستے ہوئے چلے گئے اورانہیں درہم برہم کردیا لیکن تن تنہا ایک انبوہ کا مقابلہ آسان نہ تھا اس لئے شامیوں نے انہیں بھی گھیر کر شہید کردیا اسی طریقہ سے عمروبن خالد، جبار بن حارث،سعد، مجمع بن عبید اللہ سب جان نثار ایک ایک کرکے فدا ہوگئے اورتنہا سوید بن ابی المطالح باقی رہ گئے۔
(ابن اثیر:۴/۶۱،۶۲)

***
علی اکبرکی شہادت
جب سارے فدایانِ اہل بیت ایک ایک کرکے جامِ شہادت پی چکے اور نونہالان اہل بیت کے علاوہ اور کوئی جان نثار باقی نہ رہا تو اہل بیت کرام کی باری آئی اور سب سے اول ریاضِ امامت کے گل تر خاندانِ نبویﷺ کے تابندہ اختر علی اکبرؓ میدان میں آئے اور تلوار چمکاتے اوریہ رجز
انا علی بن حسین بن علی ورب البیت ولی بالبنی
میں حسینؓ ابن علیؓ کا بیٹا علی ہوں خانہ کعبہ کے رب کی قسم ہم نبی کے قرب کے زیادہ حقدار ہیں
تاللہ لا یحکم فینا ابن الدعی
خداکی قسم نامعلوم باپ کا بیٹا ہم پر حکومت نہیں کرسکے گا۔
پڑہتے ہوئے بڑھے، آپ رجز پڑھ پڑھ کر حملہ کرتے تھے اوربجلی کی طرح کوند کر نکل جاتے تھے، مرہ بن منقذ تمیمی آپ کی یہ برق رفتاری دیکھ کر بولا، اگر علی اکبرؓ میری طرف سے گذریں تو حسینؓ کو بے لڑکے کا بنادوں، علی اکبرؓ ابھی کم سن تھے، جنگ وجدال کا تجربہ نہ تھا مرہ کا طنز سن کر سیدھے اس کی طرف بڑھے مرہ ایک جہاندیدہ اورآزمودہ کار تھا جیسے ہی علی اکبرؓ اس کے پاس پہنچے ،اس نے تاک کر ایسا نیزہ مارا کہ جسم اطہر میں پیوست ہوگیا،نیزہ لگتے ہی شامی ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اوراس گلبدن کے جسم کو جس نے پھولوں کی سیج پر پرورش پائی تھی ٹکڑے اڑادئے، ان کی جان نثار پھوپھی جنہوں نے بڑے نازوں سے ان کو پالا تھا،خیمہ کے روزن سے یہ قیامت خیز نظارہ دیکھ رہی تھیں، چہیتے بھتیجے کو خاک وخون میں تڑپتا دیکھ کر بے تاب ہوگئیں یا رائے ضبط باقی نہ رہا اوریا ابن خاہ کہتی ہوئی خیمہ سے باہر نکل آئیں اور بھتیجے کی لاش کے ٹکڑوں پر گرپڑیں، ستم رسیدہ بھائی حسینؓ نے دکھیاری بہن کا ہاتھ پکڑ کر خیمہ کے اندر کیا کہ ابھی وہ زندہ تھے اور مخدرات عصمت مآب پر غیر محرموں کی نظر پڑنے کا وقت نہیں آیا تھا بہن کو خیمے میں پہنچانے کے بعد علی اکبر کی لاش اوراپنے قلب وجگر کے ٹکڑوں کو بھائیوں کی مدد سے اٹھواکر لائے اورخیمہ کے سامنے لٹادیا۔
(ابن اثٰر:۴/۳۵۷)
یہ بھی عجیب بے کسی کا عالم تھا، تمام اعزہ واقربا شہید ہوچکے ہیں،ایک طرف جانثاروں کی تڑپتی ہوئی لاشیں ہیں دوسری طرف جوان مرگ بیٹے علی اکبرؓ کا پاش پاش بدن ہے تیسری طرف زینب خستہ حال پر غش طاری ہے،اس بے کسی کے عالم میں کبھی علی اکبرؓ کی لاش کو دیکھتے ہیں اور کبھی آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں کہ آج تیرے ایک وفادار بندہ نے تیری راہ میں سب سے بڑی نذر پیش کر کے سنت ابراہیمی پوری کی ہے، تو اسے قبول فرما لیکن اس وقت بھی زبان پر صبر وشکر کے علاوہ حرف شکایت نہیں آتا کہ
من ازیں درد گرانما یہ چہ لذت یابم کہ بہ اندازۂ آن صبروثباتم دادند

***
خاندان بنی ہاشم کے دوسرے نو نہالوں کی شہادت
حضرت علی اکبرؓ کی شہادت کے بعد مسلم بن عقیل کے صاحبزادے عبداللہ میدان میں آئے، ان کے نکلتے ہیں عمرو بن صبیح صیدادی نے تاک کر ایسا تیر مارا کہ یہ تیر تیر قضا بن گیا، ان کے بعد جعفر طیار کے پوتے عدی نکلے انہوں نے بھی عمروابن تہشل کے ہاتھوں جام شہادت پیا، پھر عقیلؓ کے صاحبزادے عبدالرحمن میدان میں آئے، ان کو عبداللہ بن عروہ نے تیر کا نشانہ بنایا، بھائی کو نیم بسمل دیکھ کر محمد بن عقیل بے تحاشا نکل پڑے لیکن لقیط بن ناشر نے ایک ہی تیر میں ان کا بھی کام تمام کردیا، ان کے بعد حضرت حسنؓ کے صاحبزادے قاسم میدان میں آئے یہ بھی عمروبن سعد بن مقبل کے ہاتھوں شہید ہوئے، قاسم کے بعد ان کے دوسرے بھائی ابوبکرؓ عبداللہ بن عقبہ کے ہاتھوں شہید ہوئے ،امام کے سوتیلے بھائی حضرت عباسؓ نے جب دیکھا کہ جو نکلتا ہے وہ سید ھا حوض کوثر پہنچتا ہےاور عنقریب برادر بزرگ تن تنھہا ہونے والے ہیں تو بھائیوں سے کہا کہ آقا کے سامنے سینہ سپردہوجاؤ اوران پر اپنی جانیں فدا کردو، اس آواز پر تینوں بھائی عبداللہ، ،جعفرؓ، اورعثمانؓ حضرت حسینؓ کے سامنے دیوار آہن بن کر جم گئے اور تیروں کی بارش کو اپنے سینوں پر روکنے لگے اورزخموں سے خون کا فوارہ چھوٹنے لگا تھا، لیکن ان کی جبین شجاعت پر شکن تک نہ آتی تھی، آخر میں ہانی بن ثوب نے عبداللہ اورجعفر کو شہید کرکے اس دیوار آہن کو بھی توڑدیا اور تیسرے بھائی عثمان کو یزید اصبحی نے تیر کا نشانہ بنایا تینوں بھائیوں کے بعد اب صرف تنہا عباسؓ باقی رہ گئے تھے، یہ بڑھ کر حضرت حسینؓ کے سامنے آگئے اورچاروں طرف سے آپ کو بچانے لگے اوراسی ناموس اکبر کی حفاظت میں جان دی (اخبار الطوال:۲۶۸)عباسؓ کے بعد اہل بیت میں خود امام ہمام اور عابد بیمار کے علاوہ کوئی باقی نہ رہ گیا

***
فاعتبر وایا اولی الابصار
اللہ اللہ یہ بھی نیرنگی دہر اورانقلاب زمانہ کا کیسا عجیب اورکیسا عبرتناک منظر ہے کہ جس کے نانا کے گھر کی پاسبانی ملائکہ کرتے تھے،آج اس کا نواسہ بے برگ ونوا بے یار و مددگار کربلا کے دشت غربت میں کھڑا ہے اور روئے زمین پر خدا کے علاوہ اس کا کوئی حامی و مددگار نہیں، غزوہ بدر میں جس کے نانا کی حفاظت کے لئے آسمان سے فرشتے اترے تھے، آج اس کے نواسہ کو ایک انسان بھی محافظ نہیں ملتا ایک وہ وقت تھا کہ رسول اللہ ﷺ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے،دشمنان اسلام کی ساری قوتیں پاش پاش ہوچکی تھیں، رحمتِ عالمﷺ کے دامنِ عفو وکرم کے علاوہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہ گئی تھی، اسلام اورمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان جنہوں آنحضرتﷺ اورمسلمانوں کے ساتھ بعض وعداوت اوردشمنی اورکینہ توزی کا کوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھا تھا، بے بس ولاچار دربارِ رسالت میں حاضر کئے گئے تھے،ایک طرف ان کے جرائم کی طویل فہرست تھی،دوسری طرف رحمۃ للعالمین کی شانِ رحمت وکرم ،تاریخ کو معلوم ہے کہ سرکار رسالتﷺ سے اس سنگین اوراشتہاری مجرم کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا، قتل کی دفعہ عائد نہیں کی گئی، جلاوطنی کی سزا تجویز نہیں ہوئی، قید خانہ کی چار دیواری میں بند نہیں کیا گیا؛ بلکہ"من دخل دارابی سفیان فھو امن"جو شخص ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اس کا جان و مال محفوظ ہے، کے اعلان کرم سے نہ صرف تنہا ابو سفیان کی جان بخشی فرمائی گئی ؛بلکہ ان کے گھر کو جس میں بارہا مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوچکی تھیں، آنحضرتﷺ کے قتل کے مشورے ہوچکے تھے "دارالامن بناکر وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین" کی عملی تفسیر فرمائی گئی، ایک طرف یہ رحمت، یہ عفو وکرم اوریہ درگذر تھا،دوسری طرف ٹھیک باون برس کے بعد زمانہ کا رخ بدلتا ہے اورایک دوسرا منظر پیش کرتا ہے، ایک طرف ان ہی ابوسفیان کے پوتے (عبید اللہ بن زیاد) کی طاغوتی طاقتیں ہیں، اوردوسری طرف رحمۃ للعالمینﷺ کی ستم رسیدہ اولاد ہے، نبوت کا ساراکنبہ ابو سفیان کی ذریات کے ہاتھوں تہِ تیغ ہوچکا ہے کر بلا کا میدان اہل بیت کے خون سے لالہ زار بنا ہوا ہے،جگر گوشۂ رسول کی آنکھوں کے سامنے گھر بھر کی لاشیں تڑپ رہی ہیں، اعزہ کے قتل پر آنکھیں کون بار ہیں، بھائیوں کی شہادت پر سینہ وقف ماتم ہے، جواں مرگ لڑکوں اوربھتیجوں کی موت پر دل فگار ہے ؛لیکن اس حالت میں بھی وحوش وطیور تک کے لئے امان ہے، لیکن جگر گوشۂ رسولﷺ کے لئے امان نہیں اورآج وہی تلواریں جو فتح مکہ میں مفتوحانہ ٹوٹ چکی تھیں، وشت کربلا میں نوجوانانِ اہل بیت کا خون پی کر بھی سیر نہیں ہوئیں اور حسینؓ کے خون کی پیاس میں زبانیں چاٹتی ہیں،لیکن پیکر صبر و قرار حسین اس حالت میں بھی راضی برضا ہیں اوراس بے بسی میں بھی جادہ مستقیم سے پاؤں نہیں ڈگمگاتے ،سنا ہوگا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے شروع شروع میں اسلام کی دعوت شروع کی تو کفارِ مکہ آپ کے چچا ابو طالب کے پاس ،جو آپ کے کفیل تھے، آئے اورکہا تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے ہمارے آبا واجداد کو گمراہ کہتا ہے ہم کو احمق ٹھہراتا ہےاس لئے یا تم بیچ سے ہٹ جاؤ یا تم بھی میدان میں آؤ کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہوجائے، اس پر ابو طالب نے آنحضرتﷺ کو سمجھایا کہ جان عم میرے اوپر اتنا بار نہ ڈال کہ میں اٹھا نہ سکوں، آنحضرتﷺ کے ظاہری پشت و پناہ جو کچھ تھے، ابو طالب تھے،آنحضرتﷺ نے ان کے پائے ثبات میں لغزش دیکھی تو آبدیدہ ہوکر فرمایا، خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں آفتاب اوردوسرے ہاتھ میں ماہتاب لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آٓؤں گایا خدا اس کام کو پورا کریگا یا میں خود اس پر سے نثار ہوجاؤں گا۔
(ابن ہشام:۱/۱۳۹)
اس جواب کے بعد آنحضرتﷺ پھر بدستور دعوتِ اسلام میں مصروف ہوگئے اور قریش نے اس کے جواب میں آپ کو سخت سے سخت اذیتیں پہنچانا شروع کیں، لیکن اس راہ کے کانٹے آپ کے لئے پھول تھے، اس لئے یہ تکلیفیں بھی آپ کو دعوتِ اسلام سے نہ روک سکیں قریش نے اپنی محدود نظر کے مطابق قیاس کیا تھا کہ محمدﷺ کو نام ونمود اور جاہ وحشم کی خواہش ہے؛چنانچہ ان کا ایک نمائندہ عتبہ بن ربیعہ ان کی طرف سے آنحضرتﷺ کے پاس آیا اورکہا محمد کیا چاہتے ہو، کیا مکہ کی ریاست ؟ کیا کسی بڑے گھرانے میں شادی؟ کیا دولت کا ذخیرہ؟ ہم یہ سب کچھ تمہارے لئے مہیا کرسکتے ہیں اوراس پر بھی راضی ہیں کہ مکہ تمہارے زیر فرمان ہو جائے ؛لیکن تم ان باتوں سے باز آجاؤ، لیکن ان سب ترغیبات کے جواب میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ
(فصلت:۹)
اے محمد ان لوگوں سے کہدو کہ تم لوگ خدا کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کی اوراس کا مقابل ٹھہراتے ہو، یہ خدا سارے جہاں کا پروردگار ہے۔
آج باون برس کے بعد حضرت حسینؓ پھر اسی اسوۂ نبویﷺ کو زندہ کرتے ہیں اور امت مسلمہ کو حق وصداقت ،عزم ، استقلال اورایثار وقربانی کا سبق دیتے ہیں اور نا انصاف حدود اللہ اورسنتِ رسول اللہ کو پامال کرنے والی، خلق خدا کو اپنی ظالمانہ حکومت کا نشانہ بنانے والی اورمحرمات الہی کو رسوا کرنے والی حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور ببانگ دہل اعلان فرماتے ہیں کہ لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم محرماتِ الہی کو حلال کرنے والے خدا کے عہد کو توڑنے والے سنتِ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنے والے ،خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً وعملاً اس کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کرے ،آگاہ ہوجاؤ ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کی ہے اوررحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے،ملک میں فساد پھیلایا ہے، حدود اللہ کو بے کار کردیا ہے،مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں،خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کردیا ہے اورحلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے، اس لئے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے۔
(ابن اثیر:۴/۴۰)
آج بھی حق وصداقت کی اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ حسینؓ تم اپنے بنی عم (یزید) کی اطاعت قبول کرلو، جو کچھ تم چاہتے ہو، اس کو وہ پورا کریں گے اوران کی جانب سے تمہارے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہ ہوگا، لیکن حضرت حسینؓ جواب دیتے ہیں کہ خد ا کی قسم میں ذلیل آدمی کی طرح ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر غلام کی طرح اقرار نہ کروں گا، یہ جواب دے کر یہ آیت تلاوت فرماتے ہیں:
وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ
(الدخان:۲۰)
میں نے اپنے اور تمہارے رب سے پناہ مانگی ہے کہ تم مجھے سنگسار کرو
إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ
(غافر:۲۷)
میں اپنے اور تمہارے رب سے ہر مغرور متکبر سے جو یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا پناہ مانگتا ہوں۔
کہ آنحضرتﷺ کے ارشاد "ترکت فیکم الثقلین کتاب اللہ واھل بیتی"کا یہی مقصد تھا۔ 

***
آفتاب امامت کی شہادت
اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ تمام نوجوانان اہل بیت شہید ہوچکے ہیں اور اب اس خانوادہ نبوت میں سوائے عابد بیمار اورامام خستہ تن کے کوئی باقی نہیں ہے،لیکن سنگدل شامی اس نوبت کے بعد بھی امام ہمام کو چھوڑنے والے نہ تھے؛چنانچہ بالآخر وہ قیامت خیز ساعت بھی آگئی کہ فلکِ امامت کا آفتاب میدان جنگ کے افق پر طلوع ہوا، یعنی حضرت حسینؓ شامی فوج کی طرف بڑھے، ابن زیاد کے حکم کے مطابق ساتویں محرم سے حسینی لشکر پر پانی بند کردیا گیا تھا، جب تک عباس علمدار زندہ تھے جان پر کھیل کر پانی لے آتے تھے لیکن ان کے بعد ساقی کوثر ﷺ کے نواسہ کو کوئی پانی دینے والا بھی باقی نہ تھا اہل بیت کے خیموں میں جو پانی تھا وہ ختم ہوچکا تھا اورامام کے لب خشک تھے حلق سوکھ رہی تھی،اعزہ کے قتل سے دل نگار ہو رہا تھا، جی چھوٹ چکا تھا، اس لئے کوفیوں کے لئے آپ کا کام تمام کردینا آسان تھا، لیکن وہ لاکھ سنگدل اور جفا پیشہ سہی،پھر بھی مسلمان تھے ،اس لئے جگر گوشۂ رسول کے خون کا بار عظیم اپنے سر نہ لینا چاہتے تھے ہمت کرکے بڑہتے تھے لیکن جرأت نہ پڑتی تھی ،ضمیر ملامت کرتا تھا اورپلٹ جاتے تھے،(مستدرک حاکم فضائل حسینؓ) حضرت حسینؓ کی پیاس لمحہ بہ لمحہ زیادہ بڑہتی جاتی تھی،آخر میں آپ نے رہوار کو فرات کی طرف موڑا کہ ذرا حلق نم کرکے کانٹے دور کریں؛ لیکن کوفیوں نے نہ جانے دیا، یہ وہی تشنہ لب ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ چند آدمیوں کے ساتھ کہیں تشریف لئے جا رہے تھے کہ حسنینؓ کے رونے کی آواز کانوں میں آئی،جلدی سے گھر گئے اورپوچھا میرے بیٹے کیوں رورہے ہیں، فاطمہؓ نے کہا پیاسے ہیں،اتفاق سے اس وقت پانی نہ تھا لوگوں سے پوچھا لیکن کسی کے پاس نہ نکلا تو آپ نے یکے باد دیگرے دونوں کو اپنی زبان مبارک چسا کر ان کی تشنگی فرو کی۔
یہ اسی رحمت عالمﷺ کا تشنہ لب نواسہ ہے کہ جب مکہ میں خشک سالی ہوتی تھی،فصیلیں تباہ ہونے لگتی تھیں،سبزہ سوکھ جاتا تھا اورخلق اللہ بھوکوں مرنے لگتی تھی،تو رسول اللہ ﷺ کے اوراسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان آتے تھے اور کہتے تھے محمد ﷺ تم صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو، تمہاری قوم خشک سالی سے ہلاک ہوئی جارہی ہے خدا سے پانی کی دعا کرو،آنحضرتﷺ اپنے اس سب سے بڑے دشمن کی،درخواست پر پانی کے لئے دعا فرماتے تھے،دفعتاً ابر اٹھتا تھا اورسات دن تک مسلسل اس شدت کی بارش ہوتی تھی کہ جل تھل ہوجاتا تھا۔
(بخاری،جلد۱،ابواب الاستقا:۱۳۶)
ٹھیک باون برس کے بعد اسی رحمۃ عالمﷺ اوردوست ودشمن کے سیراب کرنے والے کا نواسہ ایک قطرہ پانی کے لئے ترستا ہے اورانہیں ابوسفیان کی ذریات کے حکم سے پانی کی ایک بوند اس کی خشک حلق تک نہیں پہنچنے پاتی ہے، آہ! اناا عطینک الکوثر نواسہ اوریوں تشنہ کام ہے۔ع
تفوبرتواے چرخ گرواں تفو
آخر جب پیاس کی شدت ناقابل برداشت ہوگئی تو پھر ایک مرتبہ نرغہ اعداء سے فرات کی طرف بڑھے اور ساحل تک پہنچ گئے ،پانی لے کر پینا چاہتے تھے کہ حصین بن نمیر نے ایسا تیرا مارا کہ دہنِ مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا، آپ نے چلو میں پانی لے کر آسمان کی طرف اچھالا کہ اے بے نیاز یہ لالہ گوں منظر تو بھی دیکھ لے کہ
بحرمِ عشقِ توام میکشند غوغا ئیست تونیز برسرم آکر خوش تماشا ئیست
چلو سے خون کی نذر پیش کرکے فرمایا کہ خدایا جو کچھ تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جارہا ہے اس کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں کہ مباداع
خونِ من زیزی وگویند سزا وار نبود
جس قدر امام نڈھال ہوتے جاتے تھے،شامیوں کی جسارت زیادہ بڑہتی جاتی تھی ؛چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ امام میں تاب مقادمت باقی نہیں ہے اوراہل بیت کے خیموں کی طرف بڑھے اور حضرت حسینؓ کو ادھر جانے سے روک دیا آپ نے فرمایا کہ تمہارا کوئی دین وایمان ہے؟ تمہارے دلوں سے قیامت کا خوف بالکل ہی جاتا رہا؟ ان سرکشوں اورجاہلوں کو میرے اہل بیت کی طرف جانے سے روکو، لیکن امام مظلوم کی فریاد کوئی نہ سنتا تھا؛بلکہ آپ کی فریاد پر ان کی شقادت اوربڑھتی جاتی تھی اور شمر لوگوں کو برابر ابھار رہا تھا، اس کے ابھارنے پر یہ شوریدہ بخت ہر طرف سے ٹوٹنے لگے ، لیکن شمشیر حسینی ان بادلوں کو ہوا کی طرح اڑادیتی تھی مگر ایک خستہ دل خستہ جگر اور زخموں سے چور ہستی میں سکت ہی کیا باقی تھی، یہ بھی حسینؓ ہی کا دل تھا کہ اب تک دشمنوں کے بے پناہ ریلے کو روکے ہوئے تھے، لیکن تابکے، بالآخر وہ وقت آگیا کہ ماہ خلافت کو شامیوں نے نرغہ کے تاریک بادلوں میں گھیر لیا، امام کو محصور دیکھ کر اہل بیت کے خیمہ سے ایک بچہ دوڑتا ہوا نکل آیا اور بحر بن کعب سے جو حضرت حسینؓ کی طرف بڑھ رہا تھا ، معصومانہ انداز سے کہا، خبیث عورت کے بچے میرے چچا کو قتل کرےگا، ہاشمی بچہ کی اس ڈانٹ پر اس بزدل نے بچہ پر تلوار کا وار کیا بچہ نے ہاتھ پر روکا، نازک نازک ہاتھ دیوہیکل کا وار کس طرح روکتے، ہاتھ جھول گیا، حضرت حسینؓ نے بچہ کو نیم بسمل دیکھ کر سینہ سے چمٹا لیا اور کہا بیٹا صبر کرو، عنقریب خدا تم کو تمہارے اجداد سے ملادیگا، رسول اللہ ﷺ ،علیؓ، حمزہؓ، جعفرؓ اور حسنؓ کے پاس پہنچ جاؤ گے (ابن اثیر:۴/۶۶) بچہ کو تسلی دے کر ابن اسداللہ الغالبؓ پھر حملہ آور ہوئے اور جدھر رخ کردیا دشمنوں کی صفیں درہم برہم کردیں۔
(طبری:۷/۴۶۴)


میدان کر بلا میں قیامت بپا تھی، ہر طرف تلواروں کی چمک سے بجلی تڑپ رہی تھی، کہ دفعتاً مالک بن شبر کندی نے دوشِ نبویﷺ کے شہ سوار پر ایسا وار کیا کہ تلوار کلاہ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسۂ سر تک پہنچ گئی، خون کا فوراہ پھوٹ نکلا اورسارا بدن خون کے چھینٹوں سے لالۂ احمر ہوگیا، پیراہن مبارک کی رنگینی پکار اٹھی۔
حُلہّہا سوختہ انداہل بہشت ازغیرت تاشہیدانِ توگلگوں کفنے ساختہ اند
لیکن اس وقت بھی امام ہمام کے صبر وسکون میں فرق نہ آیا دوسری ٹوپی منگا کر زخمی فرق مبارک پر رکھی اوراس پر سے عمامہ باندھا اور شیر خوار بچہ کو بلاکر گود میں لیا کہ اس کے بعد پدری شفقت کا سایہ سر سے اٹھنے والا تھا، کسی سنگدل نے ایسا تیرمارا کہ بچہ گود میں تڑپ کر رہ گیا۔
(اخبار الطوال،صفحہ۲۶۹،یہ اخبار الطوال کا بیان ہے کہ میدان کربلا میں ایک بچہ پیدا ہوا تھا اذان کے لئے امام کے پاس لایا گیا، کسی نے امام پر تیر چلایا،اتفاق سے وہ آپ کے بجائے بچہ کے حلق میں آکر لگا اوراس معصوم نے دنیا میں آکھ کھولتے ہی بند کرلی۔)
جان نثار بہن یہ قیامت خیز منظر دیکھ کر خیمہ سے نکل آئیں اور چلاتی ہوئی دوڑیں کہ کاش آسمان زمین پر ٹوٹ پڑتا ،ابن سعد حضرت حسینؓ کے پاس کھڑا تھا اس سے کہنے لگیں ،عمر!کیا قیامت ہے، ابوعبداللہ قتل کئے جارہے ہیں اور تم دیکھ رہے ہو، گو ابن سعد کی آنکھوں میں جاہ وحشمت کی طمع نے پردے ڈال دیئے تھے پھر بھی عزیز تھا،خون میں محبت تھی زینبؓ کی فریاد سن کر بے اختیار رودیا اوراتنا رویا کہ رخسار اورڈاڑھی پر آنسوؤں کی لڑی دان ہوگئی اور فرطِ خجالت سے زینبؓ کی طرف سے منہ پھیرلیا۔
امام ہمام لڑتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے،آج تم لوگ میرے قتل کے لئے جمع ہوئے ہو،خدا کی قسم میرے بعد کسی ایسے شخص کو قتل نہ کرو گے جس کا قتل میرے قتل سے زیادہ خدا کی ناراضی کا موجب ہوگا، خدا تم کو ذلیل کرکے مجھے قتل کردیا تو خدا تم پر سخت عذاب نازل فرمائے گا اور تم میں باہم خون ریزی کرائے گا اور جب تک تم پر دونا عذاب نہ کریگا، اس وقت تک راضی نہ ہوگا ۔
حضرت حسینؓ کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہوتی جاتی تھی ،زخموں سے سارا بدن چور ہوچکا تھا؛ لیکن کسی کو شہید کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی اور سب اس جبل معصیت کو ایک دوسرے پر ٹال رہے تھے،شمر یہ تذبذب دیکھ کر پکارا، تمہارا برا ہو، تمہاری مائیں لڑکوں کو روئیں، دیکھتے کیا ہو؟ بڑھ کر حسینؓ کو قتل کردو، اس للکار پر شامی چاروں طرف سے امام ہمام پر ٹوٹ پڑے ایک شخص نے تیر مارا، تیر گردن میں آکر بیٹھ گیا، امام نے اس کو ہاتھوں سے نکال کے الگ کیا ابھی آپ نے تیر نکالا ہی تھا کہ زرعہ بن شریک تمیمی نے ہاتھ پر تلوار ماری،پھر گردن پر وار کیا ان پیہم زخموں نے امام کو بالکل نڈھال کردیا، اعضا جواب دے گئے اورکھڑے ہونے کی طاقت باقی نہ رہی، آپ اٹھتے تھے اورسکت نہ پاکر گرپڑتے تھے عین اسی حالت میں سنان بن انس نے کھینچ کر ایسا کاری نیزہ مارا کہ فلکِ امامت زمین بوس ہوگیا، سنگدل اورشقی ازلی خولی بن یزید سر کاٹنے کے لئے بڑھا، لیکن ہاتھ کانپ گئے،تھراکے پیچھے ہٹ گیا اور سنان بن انس نے اس سرکو جو بوسہ گاہِ سرورکائناتﷺ تھا جسم اطہر سے جدا کرلیا۔ اور ۱۰ محرم الحرام ۶۱ھ مطابق ۶۸۱ء میں خانوادۂ نبوی کا آفتاب ہدایت ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا اس شقادت اور سنگدلی پر زمین کانپ اٹھی، عرش الہی تھراگیا، ہوا خاموش ہوگئی،پانی کی روانی رک گئی،آسمان خون رویا،زمین سے خون کے چشمے پھوٹے ،شجر وحجر سے نالۂ وشیون کی صدائیں بلند ہوئیں ،جن وانس نے سینہ کوبی کی،ملائکہ آسمانی میں صف ماتم بچھی کہ آج ریاضِ نبویﷺ کا گل سرسبد مرجھا گیا،علیؓ کا چمن اجڑ گیا اورفاطمہؓ کا گھر بے چراغ ہوگیا۔
چوں خون زحلق تشنہ اوبرزمین رسید جوش از زمین بہ ذرہ در وعرش بریں رسید
تحل بلند اوچوخساں برزمین زوند طوفان بآسمان زغبار زمین رسید
باوآن غبارچوں بمزارِنبیﷺ رساند گرواز مدینہ برفلک،ہفتمین رسید
کرواین خیال وہم غلط کار کان غبار تادامنِ جلال جہان آفرین رسید
ہست ازملال گرچہ بری ذاتِ ذوالجلال
اوردرولست وہیچ ولے نیست بے ملال

***
ستم بالائے ستم
امام ہمام کو شہید کرنے کے بعد بھی سنگدل اور خونی شامیوں کا جذبہ غبار فرو نہ ہوا اور شہادت کے بعد وحشی شامیوں نے اس جسدِ اطہر کو جسے رسول ﷺ نے اپنے جسدِ مبارک کا ٹکڑا فرمایا تھا، گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا، اس بہیمانہ شقاوت کے بعد لٹیرے پردہ نشینانِ عفاف کے خیموں کی طرف بڑھے اوراہل بیت کا کل سامان لوٹ لیا، ابھی خانوادۂ نبوی ﷺ میں ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ (عابد بیمار) باقی تھا جس وقت شمر ان کے خیمے کی طرف آیا، اس وقت زین العابدینؓ بیمار تھے، سپاہی بولے اس کو کیوں چھوڑتے ہو؟ ایک شخص حمید بن مسلم کے دل میں خدا نے رحم ڈال دیا اس نے کہا سبحان اللہ ابھی وہ کمسن ہیں کمسنوں کو بھی قتل کرو گے (یہ صحیح نہیں کہ زین العابدینؓ کمسن بچہ تھے،بروایت صحیح اس وقت ان کی عمر ۲۳ یا ۲۴ سال تھی؛ لیکن اس وقت بیمار تھے، اس لئے جنگ میں شریک نہ ہوئے تھے، ابن سعد:۶/۱۶۴) ابھی یہ سپاہیوں کو سمجھا رہا تھا کہ عمر بن سعد آگیا ،اس نے کہا خبردار کوئی شخص خیموں میں نہ جائے اورنہ اس بیمار کو ہاتھ لگائے،جس نے جو کچھ لوٹا ہو، سب واپس کردے،عمر بن سعد کے اس کہنے پر سپاہیوں نے ہاتھ روک لیا، حضرت عابدؓ پر اس برتاؤ کا بڑا اثر ہوا، آپ نے اس کا شکریہ ادا کیا؛ لیکن لوٹا ہوا مال کسی نے واپس نہ کیا۔
(ابن اثیر:۴/۶۹،۷۰)

***
اہل بیت کا سفر کوفہ
حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد شامی بقیۃ السیف اہل بیت کو کربلا سے کوفہ لے چلے، اس وقت تک شہداء کی لاشیں اسی طرح بے گوروکفن پڑی ہوئی تھیں، اہل بیت کا یہ ستم رسیدہ اور لٹا ہوا قافلہ اسی راستہ سے گزرا، بے گوروکفن لاشوں پر عورتوں کی نظر پڑی تو قافلہ میں ماتم بپا ہوگیا، حضرت حسینؓ کی بہن اورصاحبزادیوں نے سرپیٹ لئے زینب رورو کر کہتی تھیں کہ
اے محمد گرقیامت سربروں آری نرخاک
سربروں آروقیامت درمیان خلق بین
اے دادا جان محمدﷺ جس پر ملائکہ آسمانی درود وسلام بھیجتے ہیں، آئیے دیکھئے حسینؓ کا لاشہ چٹیل میدان میں اعضا بریدہ، خاک وخون میں آلودہ پڑا ہے، آپ کی لڑکیاں قید ہیں آپ کی ذریت مقتول بھی ہوئی ہے،ہوا ان پر خاک اڑارہی ہے، یہ دلدوز بین سن کر دوست و دشمن سب رودیئے۔
اسی طریقہ سے یہ قافلہ کوفہ لے جاکر ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا، اس وقت زینب ننگے پاؤں، نہایت خراب لباس اورخستہ حالت میں تھیں، لونڈیاں ساتھ تھیں، ابن زیاد نے اس زبوں حالت میں دیکھ کر پوچھا یہ کون ہیں؟ زینبؓ نے کوئی جواب نہ دیا، اس کے مکرر سہ کرر سوال پر ایک لونڈی نے کہا کہ زینب بنت فاطمہؓ ہیں، یہ سن کر اس سنگدل نے کہا خدا کا شکر ہے جس نے تم کو رسوا کیا، تمہیں قتل کیا اور تمہاری جدتوں کو جھٹلایا، زینبؓ نے جواب دیا، تیرا خیال غلط ہے، خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہم کو محمد ﷺ سے نوازا اورہم کو پاک کیا ہم نہیں ؛بلکہ فاسق (ابن زیاد) رسوا ہوتے ہیں اور جھٹلائے جاتے ہیں، ابن زیاد بولا تم نے دیکھا خدا نے تمہارے اہل بیت کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ زینب نے جواب دیا ، ان کی قسمت میں شہادت مقدر ہوچکی تھی، اس لئے وہ مقتل میں آئے اور عنقریب وہ اور تم خدا کے روبرو جمع ہوگے، اس وقت وہ اس کے سامنے اس کا انصاف طلب کریں گے، یہ دندان شکن جوابات سن کر ابن زیاد غصہ سے بے تاب ہوکر بولا، خدا نے تمہارے اہل بیت کے سرکش اور نافرمان آدمی سے میرا غصہ ٹھنڈا کردیا، شہید بھائی پر یہ چوٹ سن کر زینبؓ ضبط نہ کرسکیں اوررو کر کہنے لگیں، میری عمر کی قسم تم نے ہمارے ادھیڑوں کو قتل کیا ،ہمارے گھر والوں کو نکالا،ہماری شاخوں کو کاٹا، اورہماری جڑ کو اکھاڑا، اگر اسی سے تمہاری تسکین ہوتی تو ہوگئی، ابن زیاد زینبؓ کے یہ بیباکانہ جوابات سن کر بولا، یہ جرأت اوریہ شجاعت! میری عمر عمر کی قسم تمہارے باپ بھی شجاع تھے،زینبؓ بولیں، عورتوں کو شجاعت سے کیا تعلق۔
اس کے بعد زین العابدینؓ پر اس کی نظر پڑی، پوچھا، تمہارا نام کیا ہے جواب دیا علی بن حسینؓ،نام سن کر کہنے لگا، کیا خدا نے علی بن حسینؓ کو قتل نہیں کیا؟ زین العابدینؓ خاموش رہے،ابن زیاد نے کہا بولتے کیوں نہیں؟ فرمایا میرے دوسرے بھائی کا نام بھی علی تھا، وہ قتل ہوئے، ابن زیاد نے کہا ان کو خدانے قتل نہیں کیا، زین العابدینؓ پھر چپ ہوگئے ابن زیاد نے پھر پوچھا چپ کیوں ہو؟ انہوں نے جواب میں یہ آیت تلاوت کی:
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا
(الزمر:۴۲)
اللہ ہی نفسوں کو موت دیتا ہے جب ان کی موت کا وقت آتا ہے۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ
(آل عمران:۱۴۵)
کسی نفس میں یہ مجال نہیں کہ بغیر اذن خداوندی کے مرجائے۔
ان کا جواب سن کر کہا تم بھی ان ہی میں ہو اور ان کے بلوغ کی تصدیق کراکے قتل کا حکم دیا، یہ حکم سن کر زین العابدینؓ نے کہا ان عورتوں کو کس کے سپرد کروگے، جان نثار پھوپھی زینبؓ یہ سفاکانہ حکم سن کر تڑپ گئیں اور ابن زیاد سے کہا ابھی تک تم ہمارے خون سے سیر نہیں ہوئے ،کیا ہمارا کوئی بھی آسرا باقی نہ رکھو گے، یہ کہہ کر زینب العابدین سے چمٹ گئیں اور ابن زیاد سے مصر ہوئیں کہ تم کو خدا کی قسم اگر ان کو قتل کرنا چاہتے ہو تو ان کے ساتھ مجھ کو بھی قتل کردو، لیکن زین العابدینؓ پر مطلق کوئی ہراس طاری نہ ہوا، انہوں نے نہایت سکون اور اطمینان سے کہا، اگر تم مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہو تو عزیز داری کا پاس کرکے اتنا کرو کہ کسی متقی آدمی کو ان عورتوں کے ساتھ کردو، جو ان کو اچھی طرح پہنچادے، زین العابدینؓ کی یہ درخواست سن کر ابن زیاد ان کا منہ تکنے لگا اور اس شقی کے دل میں بھی رحم آگیا حکم دیا کہ اس لڑکے کو عورتوں کے ساتھ رہنے کے لئے چھوڑدو۔

***
سفر شام
ابن زیاد نے اہل بیت کے حالات اور شہداء کے سروں کا معائنہ کرنے کے بعد انہیں شام روانہ کردیااور خدا خدا کرکے اہل بیت کرام کی در بدری کی مصیبت ختم ہوئی، اہل بیت کے ساتھ جو کچھ اہانت آمیز برتاؤ ہوا وہ ابن زیاد کی ذاتی خباثتِ نفس کا نتیجہ تھا، یزید کا دامن ایک حد تک اس سے بری ہے، اس میں شک نہیں کہ شہادت کا واقعہ ہائلہ اور اس کے بعد اہل بیت کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں وہ یزید ہی کی عہد میں ہوئیں اوراس نے اس کا شرعی قصاص بھی نہیں لیا، اس حیثیت سے یقیناً وہ مجرم اور بہت بڑا مجرم ہے، لیکن درحقیقت ان واقعات کو اس کے حکم سے کوئی تعلق نہیں یہ سب واقعات بغیر اس کے حکم کے اوراس کی لاعلمی میں ہوئے، اس لئے ان کی ذمہ داری زیادہ تر ابن زیادہ کے سر ہے، یزید کو تاعمر اس کا قلق رہا ،جیسا کہ آیندہ واقعات سے معلوم ہوگا ۔

***
حضرت حسین کی خبر شہادت پر یزید کا تاثر
چنانچہ سب سے اول جب زحر بن قیس نے یزید کے دربار میں حضرت حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر پہنچائی اور غایت خیر خواہی میں اس کو پوری تفصیل سے مزے لے کر بیان کرنے لگا تو یزید انہیں سن کر آبدیدہ ہوگیا اوربولا اگر تم لوگ حسینؓ کو قتل نہ کرتے تو میں تم سے زیادہ خوش ہوتا، ابن سمیہ (ابن زیاد) پر خدا کی لعنت ہو اگر میں ہوتا تو خدا کی قسم حسینؓ کو معاف کر دیتا، خدا حسینؓ پر اپنی رحمت نازل کرے،زحر نے انعام واکرام کی طمع میں بڑی لفاظی اورحاشیہ آرائی کے ساتھ شہادت کا واقعہ بیان کیا تھا،لیکن یزید نے اسے کچھ بھی نہ دیا۔
(طبری:۷/۳۷۵)
علامہ ابو حنیفہ احمد بن داؤد دینوری جن کو اہل بیت نبویﷺ کے ساتھ خاص عقیدت ہے اوپر کا واقعہ اپنی تاریخ اخبار الطوال میں اس طرح لکھتے ہیں کہ:
جب یزید نے حسینؓ کی شہادت کے واقعات سنے تو آبدیدہ ہوگیا اور کہا تم لوگوں کا برا ہو اگر تم لوگ حسینؓ کو چھوڑدیتے تو میں زیادہ خوش ہوتا، ابن مرجانہ پر خدا کی لعنت ہو،خدا کی قسم!اگر میں حسینؓ کے پاس موجود ہوتا،تو ان کو معاف کردیتا، خدا ابو عبداللہ پر رحمت نازل فرمائے۔
(اخبار الطوال:۲۷۲)

***
شاتمین اہلبیت کو تنبیہ
جب محضر بن ثعلبہ اہل بیت کا ستم رسیدہ قافلہ لے کر یزید کے پھاٹک پر پہنچا تو چلایا کہ محضر بن ثعلبہ :امیر المومنین کی خدمت میں لئیموں اورفاجروں کا سر لایا ہے، یزید نے یہ صدا سن کر کہا کہ ام محضر نے جو بچہ جنا ہے وہ سب سے زیادہ شریر اور لیئم ہے اس کے بعد جب حضرت حسینؓ اوردوسرے مقتولوں کے سر اس کے سامنے پیش کئے گئے تو اس نے حضرت حسینؓ کے سر پر ایک نگاہ ڈالی اورایک شعر پڑھ کر کہا، خدا کی قسم ! حسینؓ اگر میں تمہارے ساتھ ہوتا تو تم کو قتل نہ کرتا، اس کے بعد یحییٰ ابن حکم نے ایک قطعہ پڑھا، جس میں ابن سمیہ کی تعریف اوراہل بیت پر کچھ طعن تھا،یزید نے سن کر اس کے سینے پر ہاتھ مارا اورڈانٹ کر خاموش کیا۔
(طبری:۷/۳۷۶)
شہداء کے سروں کے ملاحظہ کے بعد اہل بیت کے قافلہ کو طلب کیا اورامرائے شام کے روبرو زین العابدین سے کہا علی! تمہارے باپ نے میرے ساتھ قطع رحم کیا، میرے حق سے غفلت کی اورحکومت میں جھگڑا کیا یہ اسی کا نتیجہ ہے جسے تم دیکھ رہے ہو،زین العابدین نے اس پر یہ آیت تلاوت کی:
"مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا"
(الحدید:۲۲)
جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اورخود تم پر نازل ہوتی ہیں وہ سب ہم نے ان کے پیدا کرنے سے پہلے کتاب میں لکھ رکھی ہیں۔
یہ جواب سن کر یزید نے اپنے لڑکے خالد سے کہا کہ تم اس کا جواب دو لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا تو یزید نے خود بتایا کہ کہو:
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ
(الشوری:۳۰)
تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اوربہت سی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے۔

***
اہلبیت نبویﷺ کا معائنہ
اس سوال وجواب کے بعد عورتوں اور بچوں کو بلاکر اپنے سامنے بٹھایا اس وقت یہ سب نہایت ابتر حالت میں تھے، یزید نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہا، خدا ابن مرجانہ کا برا کرے اگر اس کے اور تمہارے درمیان قرابت ہوتی تو تمہارے ساتھ یہ سلوک نہ کرتا اور نہ اس طرح سے تم کو بھیجتا، فاطمہ بنت علیؓ کا بیان ہے کہ جب ہم لوگ یزید کے سامنے پیش کئے گئے تو تو ہماری حالت دیکھ کر اس پر رقت طاری ہوگئی اور ہمارے لئے کوئی حکم دیا اور بڑی نرمی اور ملاطفت کا برتاؤ کیا۔
(ابن اثیر:۴/۷۳)
علامہ ابن اثیر اسی مجلس کا واقعہ لکھتے ہیں کہ:

***
اہلبیت کے فضائل کا اعتراف
یزید نے امام حسینؓ کے سر سے مخاطب ہوکر کہا کہ حسینؓ اگر میں تمہارے ساتھ ہوتا تو کبھی تم کو قتل نہ کرتا،پھر حاضر ین سے مخاطب ہوا کہ تم لوگ جانتے ہو ان کا یہ انجام کیوں ہوا؟ اس لئے ہوا کہ یہ کہتے تھے کہ ان کے باپ علیؓ میرے باپ سے ان کی ماں فاطمہؓ میری ماں سے ان کے دادا رسول اللہ ﷺ میرے دادا سے بہتر تھے، یہ ہے کہ ان کے باپ اور میرے باپ نے خدا سے محاکمہ چاہا اورلوگوں کو معلوم ہے کہ خدانے کس کے حق میں فیصلہ دیا ان کا یہ کہنا کہ ان کی ماں میری ماں سے بہتر تھیں تو میری عمر کی قسم مجھے اعتراف ہے کہ ان کی ماں میری ماں سے بہتر تھیں اوران کا یہ کہنا کہ ان کے نانارسول اللہ ﷺ میرے دادا سے بہتر تھے، تو میں اپنی عمر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی وہ مسلمان جو خدا اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہم میں سے کسی کو رسول اللہ ﷺ کا مثل نہیں ٹھہراسکتا مگر افسوس انہوں نے قل اللھم مالک الملک کا خدائی فرمان نہیں پڑھا تھا۔

***
یزید کے گھر میں حسینؓ کا ماتم
اہل بیت سے گفتگو کے بعد ان سب کو خاص حرا سرا میں ٹھہرانے کا حکم دیا، یزید خود حضرت حسینؓ کا رشتہ دار تھا، اس کی عورتیں بھی عزیز تھیں، اس لئے ستم رسیدہ قافلہ کے زنانخانے میں داخل ہوتے ہی یزید کے گھر میں کہرام مچ گیا، اور ساری عورتوں نے نوحہ کیا تین دن تک کامل یزید کے گھر میں ماتم بپا رہا، اس دوران میں یزید برابر زین العابدین کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بلاکر کھلاتا تھا۔
(طبری:۷/۳۷۸)

***
نقصان مالی کی تلافی
یاد ہوگا کہ حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد شامی وحشیوں نے اہل بیت نبوی کا کل سازو سامان لوٹ لیا تھااور ابن سعد کے حکم کے باوجود کسی نے واپس نہ کیا تھا،یزیدنے اس کی پوری تلافی کی اور تمام عورتوں سے پوچھ پوچھ کر جن جن کا جس قدر مال و متاع گیا تھا ،اس کا دونا مال دلوایا، سکینہ بنتِ حسینؓ اس کے اس تلافی مافات سے بہت متاثر ہوئیں؛چنانچہ وہ کہتی تھیں کہ میں نے منکرین خدا میں یزید سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔

***
اگر میری اولاد بھی کام آجاتی
چند دن قیام کرنے کے بعد جب اہل بیت کو کسی قدر سکون ہوا تو یزید نے انہیں عزت واحترام کے ساتھ مدینہ بھجوانا چاہا اور سب کو بلاکر زین العابدینؓ سے کہا ابن مرجانہ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں ہوتا تو حسینؓ جو کچھ کہتے میں مان لیتا اوران کی جان بچانے کی پوری کوشش کرتا خواہ اس میں میری اولاد ہی کیوں نہ کام آجاتی ،لیکن اب قضائے الہی پوری ہوچکی، بہرحال جب بھی تم کو کسی قسم کی ضرورت پیش آئے تو فوراً مجھے لکھنا۔
(ایضا:۳۷۹)

***
شام سے اہلبیت کی مدینہ روانگی
ان سب سے مل کر نعمان بن بشیر کو حکم دیا کہ اہل بیت کی ضروریات کا کل سامان مہیا کیا جائے اورچند دیانتدار اورنیک شامیوں کے ساتھ انہیں رخصت کیا جائے اورحفاظت کے لئے مدینہ تک سواروں کا دستہ ساتھ جائے، اس حکم پر جملہ ضروری سامان مہیا کیا گیا اوریزید نے انہیں رخصت کیا جو لوگ حفاظت کے لئے ساتھ کئے گئے تھے، انہوں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیئے،ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہوتے تھے،جہاں قافلہ منزل کرتا تھا، یہ لوگ پردہ کے خیال سے الگ ہٹ جاتے تھے،اسی حفاظت و مدارات کے ساتھ قافلہ کو مدینہ پہنچایا، مخدرات اہل بیت کے شریف اور منت پذیر دل ان محافظوں کے شریفانہ سلوک سے بہت متاثر ہوئے؛ چنانچہ فاطمہؓ اورزینبؓ نے اپنے کنگن اور بازو بند اتار کر شکرانہ کے طور پر بھیجے اورزبانی کہلایا کہ اس وقت ہم معذور ہیں،اسی قدر معاوضہ دے سکتے ہیں؛ لیکن نعمان بن بشیر نے اس کو واپس کردیا اورکہا اگرہم نے دنیاوی منفعت کے لئے یہ خدمت کی ہوتی تو یہ چیزیں معاوضہ ہوسکتی تھیں،لیکن خدا کی قسم ہم نے جو کچھ کیا وہ خالصۃ للہ اور رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے خیال سے کیا ہے۔
(ابن اثیر:۴/۷۶)

***
بعض غیر مستند روایات پر تنقید
اوپر کے واقعات سے اہل بیت نبویﷺ کے ساتھ یزید کے برتاؤ کا پورے طور پر اندازہ ہوجاتا ہے اوران بے سروپا انسانوں کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے، جن سے مخدرات عصمت مآب کی سخت توہین ہوتی ہے، البتہ دو ایک واقعات ضرور اس قسم کے ملتے ہیں،جو نازیبا کہے جاسکتے ہیں اوریقیناً قابل ملامت ہیں؛ لیکن ان واقعات کی صحت ہی محلِ نظر ہے،بہرحالت وہ واقعات ہم اس موقع پر بجنسہ نقل کرتے ہیں:
ایک واقعہ یہ ہے کہ فاطمہ بنت علیؓ نوخیز اور خوبصورت تھیں، جب خاندان نبویﷺ کی مستورات یزید کے سامنے پیش کی گئیں تو فاطمہؓ کو دیکھ کر ایک شامی وحشی نے کہا، امیر المومنین یہ لڑکی مجھے دیدیجئے اس کی فرمایش پر فاطمہؓ ڈر گئیں اوراپنی بڑی بہن کا کپڑا پکڑلیا، زینبؓ ان سے عمر میں بڑی تھیں، وہ جانتی تھیں کہ یزید شرعا ًفاطمہؓ کو کسی کے حوالہ نہیں کرسکتا، اس لئے انہوں نے اس شامی کو ڈانٹا تو جھوٹ بکتا ہے، اگر تو مر بھی جائے تو یہ لڑکی نہ تجھ کو مل سکتی ہے اور نہ یزید کو چونکہ زینبؓ نے جواب میں یزید کو بھی شامل کرلیا تھا، اس لئے یزید نے کہا تم جھوٹ کہتی ہو، اگر میں چاہوں تو اس لڑکی کو لے سکتا ہوں، زینبؓ نے پھر کہا جب تک تم ہمارا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار نہ کرلو، اس وقت تک تمہارے لئے ہر گز یہ جائز نہیں (یعنی مال غنیمت کے طورپر مسلمان عورت پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا) اس پر یزید اورزیادہ برہم ہوگیا اورکہا یہ خطاب مجھ سے ہے میں دین سے نکلوں یا تمہارے باپ اور بھائی دین سے نکلے تھے،زینبؓ نے کہا،خدا کے دین، میرے باپ کے دین، میرے نانا کے دین سے تم کو، تمہارے باپ کو اورتمہارے دادا کو ہدایت ملی، یزید نے کہا دشمن خدا تو جھوٹ کہتی ہے،زینبؓ نے جواب دیا تو تو جابرا میرہے، اس لئے ظلم سے برا کہتا ہے اوراپنی بادشاہت کے زعم میں استبداد کرتا ہے، اس جواب پریزید شرما کر خاموش ہوگیا ،شامی نے پھر کہا امیر المومنین! یہ لڑکی مجھے عنایت ہو، شامی کے دوبارہ کہنے پر یزید نے اس کو ڈانٹا کہ خدا تجھ کو موت دے اورکبھی تجھے بیوی بھی نصیب نہ ہو۔
(گویہ طبری کی روایت ہے لیکن اس کا روای حارث بن کعب شیعہ ہے اس لئے ظاہر ہے کہ یزید کی مخالفت میں اس روایت کا کیا پایہ ہوگا اس کی تدلیس کا اندازہ اس طرح بھی ہوتا ہے کہ یہی واقعہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بھی لکھا ہے مگر اس میں یزید کی اس تلخ گفتگو کا کوئی ذکر نہیں؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ جب اہل بیت کا قافلہ یزید کے پاس پہنچا تو جو شامی وہاں تھے وہ یزید کے پاس فتح کی مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے، ان میں سے ایک سرخ رنگ کے آدمی نے اہل بیت کی ایک لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا امیر المومنین! یہ لڑکی مجھے دے دیجئے، زینبؓ بولیں، خدا کی قسم یہ لڑکی نہ تجھ کو مل سکتی ہے اورنہ خود یزید کو، جب تک وہ اللہ کے دین سے نہ نکل جائے، شامی نے دوبارہ پھر سوال کیا مگر یزید نے روک دیا۔
اس روایت میں یزید کی سخت کلامی کا مطلق تذکرہ نہیں اور اس واقعہ میں جو بد نمائی تھی وہ بھی بالکل نہیں پائی جاتی، درایۃ ًبھی یہ روایت خلاف قیاس ہے؛ کیونکہ جس لڑکی کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس کا نام فاطمہ بنت علیؓ بتایا ہے اوراس کے لئے جاریہ کا استعمال کیا گیا ہے یعنی وہ اس وقت بہت کم سن لڑکی تھی، حالانکہ اس وقت فاطمہ بنت علیؓ کی عمر ۲۴،۲۵ سال سے کم نہ رہی ہوگی، کیونکہ حضرت علیؓ ۴۰ھ میں شہید ہوئے اور ۶۱ھ کا یہ واقعہ ہے اس لئے اگر حضرت علیؓ کی وفات کے وقت فاطمہؓ کی عمر دو تین سال بھی مانی جائے،تب بھی ۶۱ھ میں ۲۴ سال کی ہوگی اورجاریہ سے گزر کر وہ پوری بال بچوں والی عورت ہوں گی،کیونکہ جاریہ کمسن اورنوخیزہ لڑکی کو کہتے ہیں اس لحاظ سے سرے سے اس واقعہ کی صحت ہی مشتبہ ہوجاتی ہے۔
دوسرا مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب یزید کے سامنے حضرت حسینؓ کا سر لایا گیا تو اس نے چھڑی سے دندانِ مبارک کو ٹہونکا دیا، مگر یہ واقعہ سراسر جھوٹ ہے یہ واقعہ ابن زیاد کا ہے جس کو غلط فہم راویوں نے یزید کی طرف منسوب کردیا۔
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بالکل جھوٹ ہے، کیونکہ جن صحابہ سے یہ واقعہ مروی ہے وہ شام میں موجود ہی نہ تھے۔
ان دو واقعوں کے علاوہ اورکوئی قابل ذکر واقعہ کسی مستند تاریخ میں مذکور نہیں ہے باقی عام طورپر جو پردروافسانے شہادت ناموں میں ملتے ہیں وہ محض مجالسِ عزا کی گرمی کے لئے گھڑ لئے گئے ہیں کہ ع:بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستان کے لئے،ورنہ تاریخی حیثیت سے ان کی کوئی حقیقت نہیں ؛البتہ حضرت علیؓ اورحضرت حسینؓ پر چوٹ اور طعن وطنز کی بہت سی مثالیں ہیں، لیکن یہ تمام باتیں یزید کے ساتھ مخصوص نہیں ؛بلکہ امیر معاویہؓ اورعمر بن عبدالعزیزؓ کے سوا شروع سے آخر تک قریب قریب تمام اموی فرما نروا اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور یہ ان کی خاندانی چشمک کا نتیجہ تھا۔

***
واقعہ شہادت پر ایک نظر
درحقیقت حضرت حسینؓ کا واقعہ شہادت بھی منجملہ ان واقعات کے ہے جس میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں نے بڑی افراط و تفریط سے کام لیا ہے، بعض اسے اتنا گھٹاتے ہیں کہ خام بدہن حضرت حسینؓ کو حکومت کا باغی قرار دے کر آپ کے قتل کو جائز ٹھہراتے ہیں اوربعض اتنا بڑھاتے ہیں کہ اس کا اندرونی سلسلہ تکمیل نبوت سے ملادیتے ہیں، خود اہلسنت کے اکابر علما نے اس میں بڑی بڑی نکتہ آفرینیاں کی ہیں ؛چنانچہ بعضوں نے واقعہ شہادت اور تکمیل نبوت میں اس طرح ایک مخفی رشتہ قائم کیا ہے کہ خدائے تعالی نے تمام انبیاء کے انفرادی فضائل ذات پاک محمدیﷺ میں جمع کردیئے تھے اورآپ کی ذات گرامی حسن یوسف،دم عیسیٰ ید بیضاداری کی حامل اورآنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری کی مصداق تھی خدا کی راہ میں شہادت بھی ایک بہت بڑی فضیلت ہے، جس سے اس نے اپنے بہت سے محبوب انبیاء کو نوازا ؛لیکن چونکہ ذات محمدی ان سب سے اعلی وارفع تھی اور امت کے ہاتھوں شہادت آپ کے مرتبہ نبوت سے فرو تر تھی اس لئے اس منصب کی تکمیل کے لئے آپ کے نواسہ کو جو گویا آپ کے جسد اطہر کا ایک ٹکڑا تھے ،انتخاب فرمایا،اس طرح سے آپ کی جامعیت کبریٰ میں جو خفیف سا نقص باقی رہ گیا تھا اس کی تکمیل ہوگئی۔
خو ش اعتقادی کا اقتضا یہ ہے کہ ان بزرگوں کے خیالات کو عقیدت کے دل سے قبول کرلیا جائے،لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس قسم کی خیالات کی حیثیت شاعرانہ نکتہ آفرینی اورخوش خیالی سے زیادہ نہیں ہے،کیونکہ نبوت کی تکمیل کیلئے کسی بیرونی جزو کی ضرورت نہیں ،نبوت خود ایسا جامع اور کامل وصف ہے جو اپنی تکمیل کیلئے کسی بیرونی سہارے کا محتاج نہیں،ہزاروں انبیاء ورسل دنیا میں آئے؛ لیکن کیا ان میں سے سب خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے اورجن کو یہ منصب نہیں ملا ان کی نبوت ناقص رہ گئی؟ غالبا ًاسے کوئی صاحب مذہب بھی تسلیم نہ کرے، پھر ذات پاک محمدیﷺ تو خود قصر نبوت کی آخری تکمیل اینٹ تھی جس کے بعد کسی کمال کی حاجت نہیں اور سورہ فتح اور سورۂ مائدہ نے اس تکمیل پر تصدیقی مہر کردی تھی اور اگر بالفرض تکمیل نبوت کے لئے کسی درجہ پر شہادت کی ضرورت تسلیم بھی کرلی جائے (اگرچہ اس کی مذہبی سند نہیں ہے) تو غزوہ احد میں سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی شہادت پر اس کی تکمیل ہوچکی تھی اور چچا کی شہادت کے بعد نواسہ کی شہادت کا انتظار باقی نہ رہ گیا تھا، پھر یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ شہادت گو مرتبہ نبوت سے فرو تر ہے ،لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں تکمیل فرض نبوت کے خاطر کیا کیا مصائب نہیں برداشت کئے ہر طرح کی سختیاں سہیں، دشمنوں کی گستاخیاں برداشت کیں گلوئے مبارک میں پھندا ڈالا گیا، راستہ میں کانٹے بچھائے گئے،پشت مبارک پر نجاستوں کے انبار لادے گئے، سنگباری سے جسم مبارک سے خون کے فوارے چھوٹے،دندان مبارک شہید کیا گیا، گھر سے بے گھر ہوئے ،جان تک لینے کی تیاریاں کی گئیں کیا میزان آزمائش میں شہادت کے مقابلہ میں یہ قربانیاں ہلکی رہیں گی۔
ہرگز نہیں ایک مرتبہ جان دے دینا تو پھر بھی آسان ہے لیکن مسلسل مشق ستم بنا رہنا اس سے بہت دشوار ہے، اس کے علاوہ اگر مذہبی حیثیت سے اس قسم کی خیال آرائیوں پر غور کیا جائے تو ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی اس کی تائید میں کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی تو نہیں مل سکتی اوربغیر حدیث کی شہادت کے اسے کسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا، مذہب اسلام میں بہت سی گمراہیاں اسی منصب نبوت کے ساتھ افراط و تفریط کرنے سے ہوئی ہیں، اس لئے اس قسم کے تخیلات سے محض شاعرانہ نکتہ کی حیثیت سے لطف لیا جاسکتا ہے،لیکن اسے اعتقاد نہیں بنایا جاسکتا۔
لیکن اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس شہادت کی حیثیت کیا تھی؟ کیا حضرت حسینؓ محض حصول خلافت کے لئے کوفہ گئے مگر اس میں ناکام رہے اور قتل کردیئے گئے یا اس کے اندر کوئی اور راز مضمر تھا، اگر پہلی صورت مان لی جائے تو پھر حسینؓ کی شہادت اور عام حوصلہ مندوں کی قسمت آزمائی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اس کے جواب کے لئے یزید کی ولیعہدی سے لیکر واقعہ شہادت تک کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے کہ یزید کی ولیعہدی کی مذہبی حیثیت کیا تھی اور کن حالات میں مسلمانوں نے اسے ولیعہد تسلیم کیا تھا؟ اوراس کے ہمعصروں میں اس منصب کے لئے اس سے زیادہ اہل اشخاص موجود تھے یا نہیں؟ اورخلافت کے بعد اس کا طرز حکومت کیسا تھا؟
امیر معاویہؓ نے جس طرح یزید کو ولیعہد بنایا تھا اس کی تفصیل اوپر ان کے حالات میں گذر چکی ہے، گو اس بارہ میں روایات مختلف ہیں تاہم اتنا قدر مشترک ہے کہ مدینہ کے ارباب رائے صحابہؓ نے خوشی سے امیر کی یہ بدعت نہیں تسلیم کی اور عبداللہ بن زبیرؓ، عبدالرحمن بن ابی بکر، حسینؓ اوردوسرے نوجوانون نے علی الامکان اس کی مخالفت کی تھی، ابن زبیرؓ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم خلافت کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ اورخلفائے راشدینؓ کے طریقہ کے علاوہ اورکوئی نیا طریقہ نہیں قبول کرسکتے، عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے اس سے بھی زیادہ تلخ لیکن صحیح جواب دیا، مروان نے جب مدینہ میں یزید کی ولیعہدی کا مسئلہ پیش کیا تو کہا امیر المومنین معاویہ چاہتے ہیں کہ ابو بکرؓ وعمرؓ کی سنت کے مطابق اپنے لڑکے یزید کو خلیفہ بنا جائیں، عبدالرحمن نے جواب دیا یہ ابوبکر و عمرؓ کی سنت نہیں ہے؛بلکہ کسریٰ وقیصر کی ہے ،ابو بکرؓ و عمرؓ نے اپنی اولاد کو اپنا جانشین نہیں کیا ؛بلکہ اپنے خاندان میں سے بھی کسی کو نہیں بنایا، لیکن چونکہ عہد نبوت کے بُعد کی وجہ سے بڑی حد تک حریت و آزادی کا خاتمہ ہوچکا تھا، اس لئے کچھ لوگوں نے امیر معاویہ کے دبدبۂ وشکوہ سے مرعوب ہوکر کچھ لوگوں نے مال وزر کے مطع میں اوربعضوں نے محض اختلاف امت کے خطرہ سے بچنے کے لئے یزید کو ولیعہد مان لیا، جو لوگ مخالفت تھے انہوں نے بھی جان کے خوف سے خاموشی اختیار کرلی، بہرحال کسی نے خو شدلی کے ساتھ یزید کو ولیعہد نہیں تسلیم کیا، ابن زبیرؓ،حسینؓ، عبدالرحمنؓ، گو خاموش ہوگئے تھے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی ولیعہدی تسلیم نہیں کی تھی، امیر معاویہ نے ان سے یہاں تک کہا کہ تم لوگ یزید کو محض خلیفہ کا نام دیدو، باقی عمال کا عزل ونصب، خراج کی تحصیل وصول اوراس کا مصرف سب تمہارے ہاتھوں میں رہے گا، لیکن اس قیمت پر بھی انہوں نے آمادگی ظاہر نہ کی، ان کے انکار پر امیر معاویہ بھی مصلحت وقت کے خیال سے خاموش ہوگئے ۔
یہ یزید کی ولیعہد کی صورت تھی اس کے علاوہ اگر اس حیثت سے دیکھا جائے کہ اس وقت یزید سے بہترا شخاص اس منصب کے لئےموجود تھے تو یزید کی ولیعہدی اورزیادہ قابل اعتراض ہوجاتی ہے کیونکہ مذکورہ با لاتینوں بزرگوں میں سے ہر ایک یزید کے مقابلہ میں زیادہ اہل تھا ،اکابر صحابہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اوربعض دوسرے بزرگ موجود تھے، جن کے ہوتے ہوئے یزید کا نام کسی طرح نہیں لیا جاسکتا تھا،لیکن امیر معاویہؓ نے ان تمام شخصیتوں سے قطع نظر کرکے یزید کو ولیعہد بنادیا، اس کے بعد جب یزید خلیفہ ہوا تو بھی اس نے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت نہیں کیا ،بجائے اس کے کہ وہ ان بزرگوں کے مشورہ سے نظام حکومت چلاتا یا کم از کم امیر معاویہ کی طرح نرم پالیسی رکھتا، اس نے تخت خلافت پر قدم رکھتے ہی استبدادشروع کردیا اورعمائد مکہ سے بیعت لینے کے احکام جاری کئے ،ایسی صورت میں حضرت حسینؓ یا اس نامنصفانہ حکم کو مان لیتے اور یزید کی غیر شرعی بیعت کو قبول کرکے تاریخ اسلام میں ظلم نا انصافی کے سامنے سپر ڈالنے کی مثال قائم کرتے یا اس کے خلاف آواز بلند کرکے استبداد کے خلاف عملی جہاد کا سبق دیتے ،ان دونوں صورتوں میں آپ نے دوسری صورت اختیار کی اوراس حکومت کے خلاف اٹھ کر غیر شرعی طریق پر قائم ہوئی تھی اورجس نے بہت سی اسلامی روایات کو پامال کررکھا تھا،مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے حریت وآزادی کا سبق دیدیا جس کا ثبوت خود حضرت حسینؓ اور آپ کے دعاۃ کی تقریروں سے ملتا ہے؛چنانچہ مسلم بن عقیل پر جب ابن زیاد نے یہ فرد جرم قائم کیا کہ لوگ متحد الخیال تھے ایک زبان تھے تم انہیں پراگندہ کرنے ان میں پھوت ڈلوانے اوران کو آپس میں لڑانے کے لئے آئے، تو مسلم نے اس کا یہ جواب دیا:
كلا لست أتيت ولكن أهل المصر زعموا أن أباك قتل خيارهم وسفك دماءهم وعمل فيهم أعمال كسرى وقيصر فأتيناهم لنأمر بالعدل وندعو إلى حكم الكتاب
(تاریخ الطبری،باب ذکر الخبر عن مراسلۃ الکوفیین:۳/۲۹۱،شاملۃ۳۸)
ہرگز نہیں میں خود سے نہیں آیا ؛بلکہ شہر (کوفہ)والوں کا خیال تھا کہ تمہارے باپ نے ان کے بھلے آدمیوں کو قتل کیا،ان کا خون بہایا اوران میں کسریٰ وقیصر کا ساطرز عمل اختیار کیا اس لئے ہم ان کے پاس آئے تاکہ ہم لوگوں کو انصاف کا حکم اورکتاب اللہ کے حکم کی دعوت دیں۔
قال أبو مخنف عن عقبة بن أبي العيزار إن الحسين خطب أصحابه وأصحاب الحر بالبيضة فحمد الله وأثنى عليه ثم قال أيها الناس إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرم الله ناكثا لعهد الله مخالفا لسنة رسول الله يعمل في عباد الله بالإثم والعدوان فلم يغير عليه بفعل ولا قول كان حقا على الله أن يدخله مدخله ألا وإن هؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان وتركوا طاعة الرحمن وأظهروا الفساد وعطلوا الحدود واستأثروا بالفيء وأحلوا حرام الله وحرموا حلاله وأنا أحق من غير قد أتتني كتبكم وقدمت علي رسلكم ببيعتكم أنكم لا تسلموني ولا تخذلوني فإن تممتم على بيعتكم تصيبوا رشدكم فأنا الحسين بن علي وابن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم نفسي مع أنفسكم وأهلي مع أهليكم فلكم في أسوة وإن لم تفعلوا ونقضتم عهدكم وخلعتم بيعتي من أعناقكم فلعمري ما هي لكم بنكر لقد فعلتموها بأبي وأخي وابن عمي مسلم والمغرور من اغتر بكم فحظكم أخطأتم ونصيبكم ضيعتم ومن نكث فإنما ينكث على نفسه وسيغني الله عنكم والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته ۔
(تاریخ الطبری،باب ذکر الخبر عماکان فیھا من:۳/۳۰۶،شاملۃ:۳۸)
ابو مخنف عقبہ بن ابی العیزار سے روایت کرتے ہیں کہ مقام بیضہ میں حسینؓ نے اپنے اور حر کے ساتھیوں کے سامنے خطبہ دیا اور حمد و ثنا کے بعد کہا کہ لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ایسے بادشاہ کو دیکھا جو ظالم ہے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرتا ہے خدا کے عہد کو توڑتا ہے سنت رسول کی مخالفت کرتا ہے خدا کے بندوں میں گناہ اورزیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے اور دیکھنے والے کو اس پر عملا یا قولا غیرت نہ آئی تو خدا کو یہ حق ہے کہ اس بادشاہ کی جگہ اس دیکھنے والے کو دوزخ میں داخل کردے میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ ان لوگوں (بنی امیہ) نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی ہے اوررحمن کی اطاعت چھوڑدی ہے، خدا کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلا رکھا ہے حدود اللہ کو بیکار کردیا ہے ،مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں،خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اوراس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے اس لئے مجھے ان باتوں پر غیرت آنے کا زیادہ حق ہے، میرے پاس بلاوے کے تمہارے خطوط آئے ،بیعت کا پیام لے کر تمہارے قاصد آئے،انہوں نے کہا کہ تم مجھے دشمنوں کے حوالہ نہ کرو گے اوربے یارومددگار نہ چھوڑوگے پس اگر تم اپنی بیعت کے حقوق پورے کرو گے تو ہدایت پاؤ گے میں حسینؓ علی ؓ ابن ابی طالب اور فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کا بیٹا ہوں میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اورمیرے اہلبیت تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں تمہارے لئے میری ذات نمونہ ہے اب اگر تم اپنے فرائض پورے نہ کروگے اوراپنا عہد وپیمان توڑ کر اپنی گردنوں سے میری بیعت کا حلقہ اتاروگے تو خدا کی قسم تم سے یہ بھی بعید نہیں، تم میرے باپ بھائی اور میرے ابن عم مسلم کے ساتھ ایسا کرچکے ہو،وہ فریب خوردہ ہے،جو تمہارے فریب میں آگیا تم نے نقص عہد کرکے اپنا حصہ ضائع کردیا جو شخص عہد توڑ تا ہے اس کا وبال اسی پر ہوتا ہے اورعنقریب خدا مجھ کو تمہاری امداد سے بے نیاز کردیگا ،والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ۔
اس تقریر سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ یزید کے مقابلہ میں حضرت حسینؓ کا آنا محض حصول خلافت کے لئے نہ تھا؛بلکہ اس کا مقصد اسلامی خلافت کا احیا تھا، یعنی موروثی حکومت کے اثر سے اس کے نظام میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کو دور کرکے پھر خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی جائے اس کا ثبوت اس طرح بھی ملتا ہے کہ حضرت حسینؓ نے خود اس کی خواہش نہیں کی ؛بلکہ جب اہل عراق نے پیہم خطوط سے آپ کو اس کا یقین دلادیا کہ ان کے لئے یزید کی حکومت ناقابل برداشت ہے،اس وقت آپ نے کوفہ کا قصد فرمایا، اسی لئے آپ کے تشریف لانے کے بعد جب عراقیوں نے دھوکا دیدیا تو آپ واپس جانے پر آمادہ ہوگئے اور فرمایا کہ تم نے اپنی شکایات کی بنا پر مجھے بلایا تھا، اب جب کہ تم اسے پسند نہیں کرتے تو مجھے بھی اس کی خواہش نہیں ہے میں جہاں سے آیا ہوں واپس چلا جاؤں گا۔
درحقیقت حضرت امام حسین ؓ کے دعویٰ خلافت اور شہادت کے بارہ میں افراط و تفریط سے پاک صحیح مسلک یہ ہے کہ نہ آپ شیعی عقیدہ کے مطابق خلیفہ برحق تھے اور نہ خوارج کے عقیدہ کے مطابق نعوذ باللہ باغی جس کا قتل روا ہو ؛بلکہ آپ کوفیوں کی دعوت پر ایک نیک مقصد تجدید خلافت کے لئے اٹھے تھے اوراس کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔

***
فضل وکمال
آنحضرتﷺ کی زندگی میں حسینؓ کمسن بچہ تھے اس لئےبراہ راست ذاتِ نبوی ﷺ سے استفادہ کا موقع نہ ملا،لیکن حضرت علیؓ جیسے مجمع البحرین علم و عمل باپ کی تعلیم و تربیت نے اس کی پوری تلافی کردی، تمام اربابِ سیر آپ کے کمالات علمی کے معترف ہیں ،علامہ ابن عبدالبر،امام نوی،علامہ ابن اثیر تمام بڑے بڑے ارباب سیر اس پر متفق ہیں کہ حسینؓ بڑے فاضل تھے (دیکھو استیعاب ابن عبدالبر،تہذیب الاسماء نووی اوراسد الغابہ وغیرہ تراجم حسینؓ) لیکن افسوس اس اجمالی سند کے علاوہ واقعات کی صورت میں ان کمالات کو کسی سیرت نگارنے قلمبند نہیں کیا۔

***
احادیث نبویﷺ
حضرت حسینؓ خانوادہ نبویﷺ کے رکن رکین تھے، اس لئے آپ کو احادیث کا بہت بڑا حافظ ہونا چاہیے تھا، لیکن صغر سنی کے باعث آپ کو اس کے مواقع کم ملے اورجو ملے بھی اس میں ابھی آپ کا فہم و حافظہ اس لائق نہ تھا کہ سمجھ کر محفوظ رکھ سکتے ،اس لئے براہِ راست آنحضرتﷺ سے سنی ہوئی مرویات کی تعداد کل آٹھ ہے (تہذیب الکمال:۸۳) جو آپ کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے کم نہیں کہی جاسکتی البتہ بالواسطہ روایات کی تعداد کافی ہے،آنحضرتﷺ کے علاوہ جن بزرگوں سے آپ نے حدیثیں روایت کی ہیں،ان کے نام حسب ذیل ہیں: حضرت علیؓ، حضرت فاطمہ زہراؓ، ہند ابی ہالہ، عمر بن الخطابؓ وغیرہ جن رواۃ نے آپ سے روایتیں کی ہیں ان کے نام یہ ہیں ،آپ کے برادر بزرگ حضرت حسنؓ ،صاحبزادہ علی اورزید، صاحبزادی سکینہ، فاطمہ ،پوتے ابو جعفر الباقر، عام رواۃ میں شعبی ،عکرمہ ،کرز التمیمی سنان بن ابی سنان دولی، عبداللہ بن عمرو بن عثمان، فرزدق شاعر وغیرہ
(تہذیب التہذیب :۴/۳۴۵)

***
فقہ وفتاویٰ
قضا وافتا میں حضرت علیؓ کا پایہ تمام صحابہؓ میں بڑا تھا، اس موروثی دولت میں حضرت حسینؓ کو بھی وافر حصہ ملا تھا؛چنانچہ ان کے معاصر ان سے استفتا کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ ابن زبیرؓ کو جو عمر میں ان سے بڑے اورخود بھی صاحب کمال بزرگ تھے،قیدی کی رہائی کے بارہ میں استفتا کی ضرورت ہوئی، تو انہوں نے حضرت حسینؓ کی طرف رجوع کیا اوران سے پوچھا، ابو عبداللہ قیدی کی رہائی کے بارہ میں تمہارا کیا خیال ہے اس کی رہائی کا فرض کسی پر عائدہ ہوتا ہے، فرمایا ان لوگوں پر جن کی حمایت میں وہ لڑا ہو۔
اس طرح ایک مرتبہ ان کو شیر خوار بچہ کے وظیفہ کے بارہ میں استفسار کی ضرورت ہوئی تو اس میں بھی انہوں نے حضرت حسینؓ کی طرف رجوع کیا آپ نے بتایا کہ پیدائش کے بعد ہی جب سے بچہ آواز دیتا ہے وظیفہ واجب ہوجاتا ہے۔
اسی طریقہ سے کھڑے ہوکر پانی پینے کے بارہ میں پوچھا،آپ نے اس سوال پر اسی وقت اونٹنی کا دودھ دہا کر کھڑے کھڑے پیا، آپ کھڑے ہوکر کھانے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے تھے ؛چنانچہ بھنا ہوا بکری کا گوشت لے لیتے تھے اورکھاتے کھلاتے چلے جاتے تھے۔
(یہ تینوں واقعات استیعاب سے ماخوذ ہیں :۱/۱۴۸)
آپ کے تفقہ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ فقیہ اعظم حضرت امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام باقر کے شاگرد تھے اورحدیث و فقہ میں ان سے بہت کچھ استفادہ کیا تھا اور دینی علوم میں امام باقر کو سلسلہ بہ سلسلہ اپنے اسلاف کرام سے بڑا فیض پہنچا تھا۔

***
خطابت
ان مذہبی کمالات کے علاوہ اس عہد کے عرب کے مروجہ علوم میں بھی پوری دستگاہ رکھتے تھے،خطابت اس زمانہ کا بڑا کمال تھا، آپ کے والد بزرگوار حضرت علیؓ اپنے عہد کے سب سے بڑے خطیب تھے، نہج البلاغہ کے خطبات آپ کے کمال خطابت کے شاہد ہیں،حضرت حسینؓ کو بھی اس موروثی کمال سے وافر حصہ ملا تھا اوران کا شمار اس عہد کے ممتاز خطیبوں میں تھا، واقعہ شہادت کے سلسلہ میں آپ کے بہت سے خطبات گزرچکے ہیں ان سے آپ کی خطابت کا پورا اندازہ ہوگیا ہوگا۔
شاعری
ادب اور تذکرہ و تراجم کی کتابوں میں آپ کی جانب بہت سے حکیمانہ اشعار منسوب ہیں؛ لیکن ان کی صحت مشکوک ہے۔

***
کلمات طیبات
آپ کے کلماتِ طیبات اورحکیمانہ مقولے اخلاق وحکمت کا سبق ہیں فرماتے تھے ،سچائی عزت ہے، جھوٹ عجز ہے، رازداری امانت ہے،حق جوار قرابت ہے اور دوستی ہے، عمل تجربہ ہے، حسن خلق عبادت ہے،خاموشی زینت ہے،بخل فقر ہے ،سخاوت دولتمندی ہے،نرمی عقلمندی ہے،ایک مرتبہ آپ نے حسن بصریؒ سے چند اخلاقی باتیں کیں وہ آپ کو پہچانتے تھے، اس لئے یہ باتیں سن کر متعجب ہوئے،آپ جب چلے گئے تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون تھے لوگوں نے کہا حسینؓ بن علیؓ،یہ سن کر حسن بصریؒ نے کہا تم نے میری مشکل حل کردی،یعنی اب کوئی تعجب کی بات نہیں۔
(یعقوبی:۲/۲۹۲)

***
فضائل اخلاق
آپ کی ذات گرامی فضائل اخلاق کا مجموعہ تھی ارباب سیر لکھتے ہیں کہ کان الحسین رضی اللہ عنہ کثیر الصلوٰۃ والصوم والحج والصدقہ وافعال الخیر جمیعا یعنی حضرت حسینؓ بڑے نمازی،بڑےروزہ دار، بہت حج کرنے والے ،بڑے صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کو کثرت سے کرنے والے تھے۔
(استیعاب واسدالغابہ،تذکرہ حسین)

***
عبادت
فضائل اخلاق میں راس الاخلاق عبادت الہی ہے، حضرت حسینؓ کو تمام عبادات خصوصاً نماز سے بڑا ذوق تھا، اس کی تعلیم بچپن میں خود صاحبِ شریعت علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے حاصل کی تھی، اس تعلیم کا اثر یہ تھا کہ آپ بکثرت نمازیں پڑہتے تھے،کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کو بیویوں سے بھی ملنے کا کم موقع ملتا تھا ،ایک مرتبہ کسی نے امام زین العابدین سے کہا تمہارے باپ کی اولاد کس قدر کم ہے آپ نے فرمایا اس پر تعجب کیوں ہے، وہ رات وہ دن میں ایک ایک ہزار نمازیں پڑہتے تھے، عورتوں سے ملنے کا انہیں موقعہ کہاں ملتا تھا، (استیعاب واسد الغابہ،تذکرہ حسینؓ) یہ روایت مبالغہ آمیز ہے،اس سے زندگی کی دوسری ضروریات کے ساتھ ایک ایک ہزار رکعتیں روزانہ پڑہنا ناممکن ہے،غالباً راوی سے سہو ہوگیا ہے؛ لیکن اس سے ان کی کثرتِ عبادات کا ضرور پتہ ملتا ہے ۔
روزہ بھی کثرت کے ساتھ رکھتے تھے،تمام ارباب سیر آپ کی کثرت صیام پر متفق ہیں حج بھی بکثرت کرتے تھے اوراکثر پا پیادہ حج گئے،زہیر بن بکار مصعب سے روایت کرتے ہیں کہ حسینؓ نے پچیس حج پا پیادہ کئے۔
(یعقوبی:۲/۱۹۲،۱۹۳)

***
صدقات وخیرات
مالی اعتبار سے آپ کو خدانے جیسی فارغ البالی عطا فرمائی تھی اسی فیاضی سے آپ اس کی راہ میں خرچ کرتے تھے، ابن عسا کر لکھتے ہیں کہ حسینؓ خدا کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے (تہذیب الاسماء نوی:۲/۱۶۳) کوئی سائل کبھی آپ کے دروازہ سے ناکام نہ واپس ہوتا تھا ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ کی گلیوں میں پھرتا پھراتا ہوا در دولت پر پہنچا، اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے،سائل کی صدا سن کر جلدی جلدی نماز ختم کرکے باہر نکلے، سائل پر فقر و فاقہ کے آثار نظر آئے، اسی وقت قنبر خادم کو آواز دی،قنبر حاضر ہوا، آپ نے پوچھا ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے،قنبر نے جواب دیا،ا ٓپ نے دوسو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لئے دیئے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں کئے گئے ہیں، فرمایا اس کو لے آؤ، اہل بیت سے زیادہ ایک مستحق آگیا ہے؛چنانچہ اسی وقت دو سو کی تھیلی منگا کر سائل کے حوالہ کردی اور معذرت کی کہ اس وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے، اس لئے اس سے زیادہ خدمت نہیں کرسکتے، (ایضا:۳۲۳) حضرت علیؓ کے دور خلافت میں جب آپ کے پاس بصرہ سے آپ کا ذاتی مال آتا تھا تو آپ اسی مجلس میں اس کو تقسیم کردیتے تھے۔
(ابن عساکر :۴/۳۱۲)
صدقات وخیرات کے علاوہ بھی آپ بڑے فیاض اورسیر چشم تھے،شعراء کو بڑی بڑی رقمیں دے ڈالتے تھے،حضرت حسنؓ بھی فیاض تھے،لیکن آپ کی فیاضی بر محل اورمستحق اشخاص کے لئے ہوتی تھی، اس لئے ان کو حضرت حسینؓ کی بے محل فیاضیاں پسند نہ آتیں تھیں؛چنانچہ ایک مرتبہ ان کو اس غلط بخشی پر ٹوکا، حضرت حسینؓ نے جواب دیا کہ بہترین مال وہی ہے جس کے ذریعہ سے آبرو بچائی جائے۔
(ایضا:۳۲۲)

***
انکسار وتواضع
لیکن اس وقار وسکینہ کے باوجود تمکنت وخود پسندی مطلق نہ تھی اورآپ حد درجہ خاکسار اور متواضع تھے، ادنی ادنی اشخاص سے بے تکلف ملتے تھے، ایک مرتبہ کسی طرف جارہے تھے،راستہ میں کچھ فقراء کھانا کھارہے تھے، حضرت حسینؓ کو دیکھ کر انہیں بھی مدعو کیا ان کی درخواست پر آپ فوراً سواری سے اتر پڑے اورکھانے میں شرکت کرکے فرمایا کہ تکبر کرنے والوں کو خدا دوست نہیں رکھتا اور فقراء سے فرمایا کہ میں نے تمہاری دعوت قبول کی ہے اس لئے تم بھی میری دعوت قبول کرو اوران کو گھر لے جاکر کھانا کھلایا، ایثار وحق پرستی آپ کی کتابِ فضائل اخلاق کا نہایت جلی عنوان ہے اس کی مثال کے لئے تنہا واقعہ شہادت کافی ہے کہ حق کی راہ میں سار اکنبہ تہِ تیغ کرادیا لیکن ظالم حکومت کے مقابلہ میں سپر نہ ڈالی ۔

***
استقلال ورائے
حضرت حسنؓ سراپا حلم تھے،آپ کے مزاج میں مطلق گرمی نہ تھی بنو ہاشم اوربنو امیہ میں بہت قدیم رقابت تھی، لیکن حسنؓ نے اس رقابت کو بھی دل سے فراموش کردیا تھا، اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بنی امیہ کے مقابلہ میں خلافت سے دست بردار ہوگئے ،اس باب میں حضرت حسینؓ کا حال حضرت حسنؓ سے بالکل مختلف تھا، بنی امیہ کے مقابلہ میں آپ کسی دست برداری اورمصالحت کو پسند نہیں فرماتے تھے، جس پر آپ کی تقریریں شاہد ہیں اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ جب امام حسنؓ نے خلافت سے دستبرداری کا ارادہ ظاہر کیا تو حضرت حسینؓ نے نہایت سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کی،لیکن امام حسنؓ نے ان کی مخالفت کے باوجود اپنا ارادہ نہ بدلا اورخلافت سے دست بردار ہوکر دنیا کو بتلادیا کہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے مقابلہ میں حکومت سلطنت کی بھی کوئی قیمت نہیں،لیکن حضرت حسینؓ کی یہ کیفیت بھی حق پرستی ہی کا نتیجہ تھی، اس لئے دونوں بزرگوں کے اوصاف، اخلاق کے دو مختلف مظاہر تھے ۔

***
ذاتی حالات ، ذریعہ معاش
حضرت حسینؓ مالی حیثیت سے ہمیشہ فارغ البال رہے اور بہت عیش وآرام کے ساتھ زندگی بسر کی، حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں ۵ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا، جو حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک برابر ملتا رہا، اس کے بعد حضرت حسنؓ نے خلافت سے دستبرداری کے وقت امیر معاویہؓ سے ان کے لئے دو لاکھ سالانہ مقرر کرا دیئے تھے،غرض اس حیثیت سے آپ کی زندگی مطمئن تھی۔

***
حلیہ
حضرت امام حسنؓ وحسینؓ دونوں بھائی شکل وصورت میں آنحضرتﷺ کے مشابہ تھے۔
(اس کا ذکر حدیث کی متعدد کتابوں میں ہے)

***
ازواج واولاد
آپ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں آپ کی ازواج میں لیلیٰ، حباب، حرار، اورغزالہ تھیں، ان سے متعدد اولادیں ہوئیں، جن میں علی اکبر، عبداللہ اور ایک چھوٹے صاحبزادے واقعہ کربلا میں شہید ہوئے ، امام زین العابدین باقی تھے، انہیں سے نسل چلی ،صاحبزادیوں میں سکینہ، فاطمہ اور زینب تھیں۔
بعض پچھلی کتابوں میں حضرت امام حسینؓ کی ازواج میں ایک کا نام یزد گرد شاہ ایران کی لڑکی شہر بانوں کا بھی ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت امام زین العابدینؓ ان ہی کے بطن سے تھے، لیکن کسی قدیم ماخذ میں اس کا ذکر نہیں ہے، اس لئے قابل اعتماد نہیں اور ایرانیوں نے سیاسی مقصد کے لئے گھڑی ہے۔




گھرانہ حسین کا

No comments:

Post a Comment