Sunday, 23 October 2016

لفظِ صوفی کی لغوی واصطلاحی تحقیق

صوفی کون اور تصوف کیا ہے؟
اپنے نفس و باطن کا (بری صفات سے) تصفیہ(یعنی تذکیہ واصلاح) کرنے والے مومنوں کو، جو  اچھی صفات وخصوصیات کے حامل ہوں، صوفی کہا جانے لگا۔
حوالہ
جَعْفَر الْخُلْدِيِّ يَقُول سَمِعت الْجُنَيْد وَسُئِلَ عَن التصوف يَقُول: الْعُلُوّ إِلَى كل خلق شرِيف والعدول عَن كل خلق دنيء.
جعفر خلدی کہتے ہیں کہ میں نے سنا جنیدؒ کو کہ پوچھا گیا ان سے تصوف کا تو فرمایا: سارے شریف اخلاق تک بلند ہونا اور سارے ادنیٰ اخلاق سے باز آنا۔

[طبقات الصوفية للسلمي (المتوفى: 412هـ) : ص 328]


 

(1) امام حاکم نیشاپوریؒ (متوفی ۴۰۵ھ) اپنی حدیث کی کتاب (المستدرک) میں فرماتے ہیں:
وَقَدْ حَدَّثَنَا شَيْخُ التصوف فِي عَصْرِهِ أَبُو مُحَمَّدٍ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نُصَيْرٍ الْخُلْدِيُّ، ثنا أَبُو أَحْمَدَ الْجُرَيْرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ التُّسْتَرِيَّ يَقُولُ: " لَمَّا بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي الدُّنْيَا سَبْعَةُ أَصْنَافٍ مِنَ النَّاسِ: الْمُلُوكُ، وَالْمُزَارِعُونَ، وَأَصْحَابُ الْمَوَاشِي، وَالتُّجَّارُ، وَالصُّنَّاعُ، وَالْأُجَرَاءُ، وَالضُّعَفَاءُ، وَالْفُقَرَاءُ لَمْ يَأْمُرْ أَحَدًا مِنْهُمْ أَنْ يَنْتَقِلَ مِمَّا هُوَ فِيهِ، وَلَكِنْ أَمَرَهُمْ بِالْعِلْمِ وَالْيَقِينِ وَالتَّقْوَى وَالتَّوَكُّلِ فِي جَمِيعِ مَا كَانُوا فِيهِ "، قَالَ سَهْلٌ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ: " وَيَنْبَغِي لِلْعَاقِلِ أَنْ يَقُولَ: مَا يَنْبَغِي لِي بَعْدَ عِلْمِي بِأَنِّي عَبْدُكَ أَنْ أَرْجُوَ وأُؤَمِّلَ غَيْرَكَ، وَلَا أَتَوَهُّمْ عَلَيْكَ إِذْ خَلَقْتَنِي وَصَوَّرْتَنِي عَبْدًا لَكَ أَنْ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي أَوْ تُوَلِّي أُمُورِي غَيْرَكَ " قَالَ الْحَاكِمُ: «وَقَدْ وَصَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الطَّائِفَةَ بِمَا خَصَّهُمُ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ مِنْ بَيْنِ الطَّوَائِفِ بِصِفَاتٍ فَمَنْ وُجِدَتْ فِيهِ تِلْكَ الصِّفَاتُ اسْتَحَقَّ بِهَا اسْمَ التصوف»  - سكت عنه الذهبي في التلخيص 
ترجمہ:
"اور ہمیں اپنے زمانے کے شیخِ تصوف ابو محمد جعفر بن محمد بن نصیر خُلدی نے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو احمد جریری سے روایت کی، وہ کہتے ہیں: میں نے سہل بن عبداللہ تستری کو فرماتے سنا:  
"جب اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا تو دنیا میں سات قسم کے لوگ تھے: بادشاہ، کاشتکار، مویشی پالنے والے، تاجر، دستکار، مزدور، اور کمزور و محتاج۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو اپنا پیشہ چھوڑنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ سب کو حکم دیا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اس میں علم، یقین، تقویٰ اور اللہ پر توکل اختیار کریں۔"
سہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "عاقل شخص کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ کہے: میرے علم کے بعد کہ میں تیرا بندہ ہوں، مجھے تیرے سوا کسی سے امید رکھنا یا توقع کرنا زیب نہیں دیتا۔ جب تو نے مجھے پیدا کیا اور اپنا بندہ بنایا، تو یہ گمان کرنا بھی درست نہیں کہ تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دے گا یا میرے معاملات کسی اور کے سپرد کرے گا۔"

[شعب الایمان-للبیھقی:1249] 

حاکم (نیشاپوری) فرماتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ نے اِس گروہ (صوفیاء) کی ان صفات(خوبیوں) کے ساتھ توصیف فرمائی جنہیں اللہ تعالیٰ نے دوسرے گروہوں کے مقابلے میں خاص طور پر انہیں عطا کیا۔ پس جس میں یہ صفات پائی جائیں، وہی ’تصوف‘ کے نام کا مستحق ہے۔"
---

تشریح و توضیح:
۱. حدیث کا مندرجہ:
   - سہل تستریؒ (متوفی ۲۸۳ھ) بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی بعثت کے وقت معاشرے کے سات طبقے تھے۔ اللہ نے کسی کو اس کا پیشہ ترک کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ ہر ایک کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے علم (شریعت کی معرفت)، یقین (اللہ پر پختہ ایمان)، تقویٰ (پرہیزگاری) اور توکل (اللہ پر بھروسہ) کی صفات اپنانے کا حکم دیا۔  
   - یہ بات تصوف کے بنیادی اصول "احکامِ شریعت کے ساتھ مشغولیت اور باطنی صفائی" کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں بیرونی پیشہ یا حیثیت روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔

۲. سہل تستریؒ کا حکیمانہ قول:
   - وہ عقل مند انسان کی صفات بیان کرتے ہیں:  
     - اللہ کے سوا کسی سے امید نہ رکھنا: بندے کا مقام یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے علاوہ کسی سے مکمل انسیت نہ جوڑے۔  
     - اللہ کی تدبیر پر کامل اعتماد: چونکہ اللہ ہی خالق ہے، اس لیے بندے کو یقین ہونا چاہیے کہ وہی اس کی نگہبانی اور مصلحت کا خیال رکھے گا۔  
   - یہ تصوف کے مرکزی نظریہ "فنا فی اللہ" (اللہ کی ذات میں اپنی انا کا فنا ہو جانا) کی عملی تفسیر ہے۔

۳. امام حاکم نیشاپوریؒ (متوفی ۴۰۵ھ) کا فتویٰ:
   - وہ صوفیاء کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں مخصوص روحانی صفات سے نوازا گیا گروہ قرار دیا۔ یہ صفات درج ذیل ہیں:  
     - علم: شریعت و طریقت کی معرفت۔  
     - یقین: ایمان میں پختگی۔  
     - تقویٰ: گناہوں سے اجتناب۔  
     - توکل: اللہ پر مکمل بھروسہ۔  
   - حاکم کے نزدیک یہی صفات "تصوف" کی اصل بنیاد ہیں، نہ کہ ظاہری لباس یا رسمیں۔

۴. حوالہ جات کی اہمیت:
   - الخُلدیؒ (متوفی ۳۴۸ھ): بغداد کے جلیل القدر صوفی شیخ، جنہوں نے جنید بغدادیؒ کے ملفوظات جمع کیے۔  
   - الجریریؒ: مشہور صوفی راوی، سہل تستریؒ کے شاگرد۔  
   - امام ذہبیؒ (متوفی ۷۴۸ھ): انہوں نے "التلخیص" میں اس روایت پر خاموشی اختیار کی، جو بعض محدثین کے نزدیک اس حدیث کے "ضعیف نہ ہونے" کی علامت ہے۔

---

خلاصۂ کلام:
یہ روایت تصوف کے "اصلی مفہوم" کو واضح کرتی ہے:  
۱. ہر پیشہ میں رہتے ہوئے اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا۔  
۲. باطنی صفات (علم، یقین، تقویٰ، توکل) کو ظاہری عبادات سے مقدم رکھنا۔  
۳. اللہ کے سوا کسی سے مطلق توقع نہ رکھنا — تصوف کی بنیاد **توحیدِ عملی** ہے۔  
۴. صوفی وہ ہے جو نبی ﷺ کی بتائی ہوئی ان صفات کا حامل ہو، نہ کہ محض ظاہری رسوم کا پابند۔ 


دل کے اعمال: کی دو اقسام ہیں:

اچھے اخلاق:
(۱)ایمان وتوحید،
(۲)اخلاص،
(۳)توکل،
(۴)خوف
(۵)رضیٰ،
(۶)قناعت،
(۷)حیاء،
(۸) تواضع ،
(۹)خشوع،
(۱۰)تقویٰ،
(۱۱)حلم وبردباری،
(۱۲)صدق وسچائی،
(۱۳)صبر،
(۱۴)شکر،
(۱۵)رحم ونرمی،
(۱۶)احسان،
(۱۷)زھد،
(۱۸)فراسۃ،
(۱۹)سخاوت
(۲۰)خیرخواہی وغیرہ

برے اخلاق:
(۱)الغفلۃ(بےتوجہی وبےدھیانی)،
(۲)الریاء(دکھلاوا)،
(۳)الکبر(فخر وغرور)،
(۴)العجلۃ(بےصبری وجلدبازی)،
(۵)العجز(کمزوری وبےہمتی)،
(۶)الکسل(سستی)،
(۷)الجبن(بزدلی)،
(۸)البخل(کنجوسی)،
(۹)الکفر ونفاق،
(۱۰)الحرص(لالچ)،
(۱۱)سوء الظن(بدگمانی)،
(۱۲)الظلم(کسی کا حق نہ ماننا)،
(۱۳)البخل(کنجوسی)،
(۱۴)تقعر وتکلف،
(۱۵)حسد وغیرہ

القرآن: 

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى
تحقیق وہ کامیاب ہوا جو پاک ہوا۔
[سورۃ الاعلیٰ:14]
وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ۔۔۔۔۔
اور چھوڑدو ظاہری گناہ بھی اور باطنی بھی۔
[سورۃ الانعام:120]

 



قرآن وحدیث میں مؤمنین کو مخاطب کرنے کے لیے کئی الفاظ (باطنی صفات وخصوصیات) استعمال کئے گئے ہیں۔ مثلاً:
(1) ذاکرین (2) صابرین (3) خاشعین (4) صادقین (5) قانتین (6) موقنین (7) مخلصین (8) محسنین (9) خائفین (10) وجلین (11) عابدین (12) متوکلین (13) متقین (14) مقربین (15) ابرار (16) فقراء (17) عباد (18) اولیاء۔
[تفصیلی دلائل نیچے ملاحظہ فرمائیں]





(1) ذاکرین           (ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے)  
حوالہ:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَا : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَ اللَّيْلِ وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّيَا رَكْعَتَيْنِ جَمِيعًا كُتِبَا مِنَ الذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ.
ترجمہ:
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو رات کو بیدار ہو اور اپنی بیوی کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعتیں پڑھیں تو وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں میں لکھے جائیں گے۔
[سنن ابن ماجه:1335، سنن أبي داود:1451]
القرآن:
اور (اے پیغمبر) دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو۔ یقینا نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ ایک ذکر(نصیحت) ہے ان لوگوں کے لیے جو ذاکرین(یعنی نصیحت یاد رکھنے ماننے والے) ہیں۔
[سورۃ ھود:114]
بیشک فرمانبردار مرد ہوں یا فرمانبردار عورتیں، مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے۔
[سورۃ الاحزاب:35 ]



(2) صابرین           (اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمابرداری میں ہر مشکل وکٹھن دور سے گذر کر اس کی رضا وخشنودی حاصل کرنے والے)
حوالہ: 
الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
ترجمہ:
یہ لوگ بڑے صبر کرنے والے ہیں، سچائی کے خوگر ہیں، عبادت گزار ہیں (اللہ کی خوشنودی کے لیے) خرچ کرنے والے ہیں، اور سحری کے اوقات میں استغفار کرتے رہتے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:17]









(3) خاشعین          (عاجزی وانکساری کرنے والے)
حوالہ: 
وَاستَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلوٰةِ ۚ وَإِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلّا عَلَى الخٰشِعينَ {2:45}
ترجمہ:
اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی سے پڑھنے) والے ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:45]

خشوع(ڈرنے-جھکنے)والے کون؟

(1)جن پر نماز بھاری نہیں۔
[دلیلِ قرآن، سورۃ البقرۃ:45]الاسراء:107

(2)جو مساجد آباد کرنے والے ہیں۔
[التوبۃ:18]

(3)جو پیغامِ الٰہی پہنچانے والے ہیں
[الاحزاب:39]

(4)جو ملاتے(جڑواتے) ہیں (رشتہ ناتے) جسے ملانے کا حکم الله نے دیا۔
[الرعد:21]

(5)جنہیں(نافرمان)لوگوں سے ڈرایا جائے تو(ان سے ڈرنے کے بجائے)ان کا ایمان زیادہ ہوجاتا ہے،اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں الله ہی کافی ہے اور عمدہ کام بنانے والا ہے۔
[آل عمران:173]

(6)جو"لڑتے"ہیں ایسے لوگوں سے جو اپنی قسموں(معاہدوں) کو توڑتے، اور رسول(اور اسکی تعلیم) کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کرتے ہیں، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں) پہل کی  
[التوبۃ:13]

(7)جن کے بال کھڑے ہوئے رب کے ڈر سے، پھر نرم ہوتی ہیں ان کی کھالیں، اور(پھر)ان کے دل الله کی یاد کی طرف(رجوع ہوتے ہیں)۔
[الزمر:39(ق:33)]

(8)جلدی کرتے ہیں خیر کے کاموں میں (9)اور پکارتے ہیں الله ہی کو(بخشش وجنت کے)شوق اور(دعا وعمل ضایع ہونے کے)ڈر کے ساتھ
[الانبیاء:90]

(10)جو رسول الله ﷺ(کی تعلیم)کی طرف بھاگتے(بہت کوشش)کرتے ہوئے آتے ہیں۔
[عبس:8+9]
اس سے نصیحت
[الاعلیٰ:10]
عبرت
[النازعات:26]
اور ھدایت
[النازعات:19]
حاصل کرتے ہیں۔

(11)جو الله ورسول کی اطاعت اور پرہیزگاری کرتے
[النور:52]

(12) قیامت(وحساب)کا خطرہ رکھتے ہیں۔
[الانبیاء:29]

عُلَماء کون؟
۔۔۔بس خشوع(ڈر)رکھتے ہیں(سب سے زیادہ)الله(ہی)کا اس کے بندوں میں عُلَماء ہی۔۔۔
[سورۃ فاطر:28]
یعنی علم (نافع) وہ ہے جو اللہ کا ڈر پیدا کرے۔
(4) صادقین          (سچ بولنے والے)
حوالہ: 
قالَ اللَّهُ هٰذا يَومُ يَنفَعُ الصّٰدِقينَ صِدقُهُم ۚ لَهُم جَنّٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {5:119}
ترجمہ:
اللہ کہے گا کہ : یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا۔ ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہے اور یہ اس سے خوش ہیں۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔
[سورۃ المائدۃ:119]
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكونوا مَعَ الصّٰدِقينَ {9:119}
ترجمہ:
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔
[سورۃ التوبۃ:119]






(5) قانتین             (اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والے)
حوالہ: 
حٰفِظوا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَالصَّلوٰةِ الوُسطىٰ وَقوموا لِلَّهِ قٰنِتينَ {2:238}
ترجمہ:
تمام نمازوں کا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا، اور اللہ کے سامنے باادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔
[سورۃ البقرۃ:238]۔

الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
ترجمہ:
یہ لوگ بڑے صبر کرنے والے ہیں، سچائی کے خوگر ہیں، عبادت گزار ہیں (اللہ کی خوشنودی کے لیے) خرچ کرنے والے ہیں، اور سحری کے اوقات میں استغفار کرتے رہتے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:17]




(6) موقنین            (اللہ تعالیٰ پر یقین وبھروسہ کرنے والے)
حوالہ: 
قالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما بَينَهُما ۖ إِن كُنتُم موقِنينَ {26:24}
ترجمہ:
موسیٰ نے کہا : وہ سارے آسمانوں اور زمین کا، اور ان ساری چیزوں کا پروردگار ہے جو ان کے درمیان پائی جاتی ہیں، اگر تم کو واقعی یقین کرنے والے ہو۔
[سورۃ الشوریٰ:26]

رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما بَينَهُما ۖ إِن كُنتُم موقِنينَ {44:7}
ترجمہ:
جو سارے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان ہر چیز کا رب ہے، اگر تم واقعی یقین کرنے والے ہو۔
[سورۃ الدخان:7]



(7) مخلصین         (خالص اللہ ہی کی عبادت کرنے والے)
حوالہ: 
إِلّا عِبادَكَ مِنهُمُ المُخلَصينَ
{15:40}{37:40}{37:74}{37:128}{37:160}{37:169}{38:83}
ترجمہ:
سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں ان میں سے تو نے اپنے لیے مخلص برگزیدہ بنا لیا ہو۔ (ان پر شیطان کا زور نہیں چلتا)
[سورۃ الحجر:40، سورۃ الصافات:40، 74، 128، 160، 169، سورۃ ص:83]



(8) محسنین         (خوب اچھی طرح عبادت کرنے والے)
حوالہ: 
فَـٔاتىٰهُمُ اللَّهُ ثَوابَ الدُّنيا وَحُسنَ ثَوابِ الءاخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُحسِنينَ {3:148}
ترجمہ:
پھر دیا اللہ نے ان کو ثواب دنیا کا اور خوب ثواب آخرت کا اور اللہ محبت رکھتا ہے نیک کام کرنے والوں سے.

فَأَثٰبَهُمُ اللَّهُ بِما قالوا جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها ۚ وَذٰلِكَ جَزاءُ المُحسِنينَ {5:85}
ترجمہ:
پھر انکو بدلے میں دیے اللہ نے اس کہنے پر ایسے باغ کہ جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں رہا کریں ان میں ہی اور یہ ہے بدلا نیکی کرنے والوں کا

لَيسَ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُناحٌ فيما طَعِموا إِذا مَا اتَّقَوا وَءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَءامَنوا ثُمَّ اتَّقَوا وَأَحسَنوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُحسِنينَ {5:93}
ترجمہ:
جو لوگ ایمان لائے اور کام نیک کئے ان پر گناہ نہیں اس میں جو کچھ پہلے کھا چکے جب کہ آئندہ کو ڈر گئے اور ایمان لائے اور عمل نیک کئے پھر ڈرتے رہے اور یقین کیا پھر ڈرتے رہے اور نیکی کی اور اللہ دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو.

وَلا تُفسِدوا فِى الأَرضِ بَعدَ إِصلٰحِها وَادعوهُ خَوفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحمَتَ اللَّهِ قَريبٌ مِنَ المُحسِنينَ {7:56}
ترجمہ:
اور مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اس کو ڈر اور توقع سے، بیشک اللہ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے۔

وَاصبِر فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُحسِنينَ {11:115}
ترجمہ:
اور صبر کر البتہ اللہ ضائع نہیں کرتا ثواب نیکی کرنے والوں کا.

وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ ءاتَينٰهُ حُكمًا وَعِلمًا ۚ وَكَذٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ {12:22} {28:14}
ترجمہ:
اور جب پہنچ گیا اپنی قوت کو دیا ہم نے اسکو حکم اور علم، اور ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ہم نیکی والوں کو.

لَن يَنالَ اللَّهَ لُحومُها وَلا دِماؤُها وَلٰكِن يَنالُهُ التَّقوىٰ مِنكُم ۚ كَذٰلِكَ سَخَّرَها لَكُم لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم ۗ وَبَشِّرِ المُحسِنينَ {22:37}
ترجمہ:
اللہ کو نہیں پہنچتا اُن کا گوشت اور نہ اُن کا لہو لیکن اُسکو پہنچتا ہے تمہارے دل کا ادب، اسی طرح اُنکو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی پڑھو اس بات پر کہ تم کو راہ سجھائی اور بشارت سنا دے نیکی والوں کو.



(9) خائفین           (اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب سے ڈرنے والے)
حوالہ: 
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں سوائے خائفین(خوف رکھنے والوں) کے۔  ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔
[سورۃ البقرۃ:114]

عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَمَنْ قَرَأَ سُورَةَ الزُّمَرِ لَمْ يَقْطَعِ اللَّهُ رَجَاهُ ، وَأَعْطَاهُ ثَوَابَ الْخَائِفِينَ الَّذِينَ خَافُوا اللَّهَ ، عَزَّ وَجَلَّ " .
ترجمہ:
حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں : اور جو شخص پڑھے سورة الزمر ہرگز نہ توڑے گا الله امید اس کی ، اور عطا کرے گا اسے ثواب خائفین کا جو خوف رکھتے ہیں الله عزوجل کا.
[الوسيط في تفسير القرآن المجيد » تفسير سورة الزمر ... رقم الحديث: 793]



(10) وجلین            (اللہ تعالیٰ کے ڈر خوف سے کپکپا جانے والے)
حوالہ: 
مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔
[سورۃ الانفال:2]



(11) عابدین           (اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے)
القرآن :
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ : اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلا عبادت کرنے والا میں ہوتا۔
[سورۃ نمبر 43 الزخرف ، آیت نمبر 81]
بیشک اس (قرآن) میں عبادت گزار لوگوں کے لیے کافی پیغام ہے۔
[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 106]
اور ان سب کو ہم نے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 73]




(12) متوکلین          (اللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ کرنے والے)
القرآن :
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے (ان سے) کہو کہ : ”ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ تم اللہ کو چھوڑ کر جن (بتوں) کو پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس کے پہنچائے ہوئے نقصان کو دور کرسکتے ہیں ؟ یا اگر اللہ مجھ پر مہربانی فرمانا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟“ کہو کہ ”میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“
[سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 38]
اور آخر ہم کیوں اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں، جبکہ اس نے ہمیں ان راستوں کی ہدایت دے دی ہے جن پر ہمیں چلنا ہے؟ اور تم نے ہمیں جو تکلیفیں پہنچائی ہیں، ان پر ہم یقینا صبر کریں گے، اور جن لوگوں کو بھروسہ رکھنا ہو، انہیں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 14 ابراهيم ، آیت نمبر 12]



(13) متقین             (گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کرنے والے)
حوالہ:
القرآن:
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے۔ جو بےدیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة ، آیت نمبر 2 - ]


(14) مقربین/مقربون           (اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے کہ جن کوقریب کیا گیا ہو)
القرآن :
اور جو سبقت لے جانے والے ہیں، وہ تو ہیں ہی سبقت لے جانے والے۔ وہی ہیں جو اللہ کے خاص مقرب بندے ہیں۔
[سورۃ نمبر 56 الواقعة ، آیت نمبر 10]
اس سے مراد انبیاء کرام اور وہ اعلی درجے کے پاکباز حضرات ہیں جنہوں نے تقوی کا سب سے اونچا مقام پایا ہوگا۔
القرآن:
پھر اگر وہ (مرنے والا) اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہو۔ تو (اس کے لیے) آرام ہی آرام ہے، خوشبو ہی خوشبو ہے، اور نعمتوں سے بھرا باغ ہے۔
[سورۃ نمبر 56 الواقعة ، آیت نمبر 88]


(15) ابرار              (اللہ تعالیٰ کے نیک بندے)
القرآن:
یقین رکھو کہ نیک لوگ یقینا بڑی نعمتوں میں ہوں گے۔
[سورۃ نمبر 82 الإنفطار ، آیت نمبر 13]
[سورۃ نمبر 83 المطففين ، آیت نمبر 22]
القرآن:
خبردار ! نیک لوگوں کا اعمال نامہ عِلّیّین میں ہے۔
[ سورۃ نمبر 83 المطففين ، آیت نمبر 18]
علیین کے لفظی معنی بالا خانوں کے ہیں۔ یہ اس جگہ کا نام ہے جہاں مومنوں کی روحیں مرنے کے بعد بھیجی جاتی ہیں اور وہیں پر ان کا اعمال نامہ بھی رہتا ہے۔
القرآن:
بیشک نیک لوگ ایسے جام سے مشروبات پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی۔
[سورۃ نمبر 76 الانسان ، آیت نمبر 5]


(16) فقراء             (اللہ تعالیٰ ہی کے بھکاری بندے)

القرآن :
(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لیے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن(حیاء دار) ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے، تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 273]
الحدیث:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: اشْتَكَى فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ عَلَيْهِمْ أَغْنِيَاءَهُمْ، فَقَالَ: «يَا ‌مَعْشَرَ ‌الْفُقَرَاءِ أَلَا أُبَشِّرُكُمْ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ، خَمْسِمِائَةِ عَامٍ» ، ثُمَّ تَلَا مُوسَى هَذِهِ الْآيَةَ: {وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ} [الحج: 47]
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالداروں کو ان پر فضیلت دی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فقراء کی جماعت! کیا میں تم کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں کہ غریب مومن، مالدار مومن سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، (پانچ سو سال پہلے) پھر موسیٰ بن عبیدہ نے یہ آیت تلاوت کی:  اور بیشک ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار سال کے برابر ہے جسے تم شمار کرتے ہو۔ [سورۃ الحج: ١٤٧]
[سنن ابن ماجه:4124، صحيح الجامع الصغير:7976]
[صحيح كنوز السنة النبوية: ص29]



(17) عباد               (اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنے والے)
حوالہ:
یقین رکھو کہ جو میرے بندے ہیں، ان پر (اے ابلیس!) تیرا کوئی زور نہیں چلے گا، سوائے ان گمراہ لوگوں کے جو تیرے پیچھے چلیں گے۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 42]
میرے جو بندے ایمان لائے ہیں، ان سے کہہ دو کہ وہ نماز قائم کریں، اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے پوشیدہ طور پر بھی اور علانیہ بھی (نیکی کے کاموں میں) خرچ کریں (اور یہ کام) اس دن کے آنے سے پہلے پہلے (کرلیں) جس میں نہ کوئی خریدو فروخت ہوگی، نہ کوئی دوستی آئے گی۔
[سورۃ نمبر 14 ابراهيم ، آیت نمبر 31]
یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو متقی ہو۔
[سورۃ نمبر 19 مريم ، آیت نمبر 63]
میرے بندوں میں سے ایک جماعت یہ دعا کرتی تھی کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں، پس ہمیں بخش دیجیے، اور ہم پر رحم فرمایے، اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون ، آیت نمبر 109]
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو (1)زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں (2)اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔ (3)اور جو راتیں اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں، اور (کبھی) قیام میں۔ (4)اور جو یہ کہتے ہیں کہ : ہمارے پروردگار ! جہنم کے عذاب کو ہم سے دور رکھیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عذاب وہ تباہی ہے جو چمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یقینا وہ کسی کا مستقر اور قیام گاہ بننے کے لیے بدترین جگہ ہے۔ (5)اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، بلکہ ان کا طریقہ اس (افراط وتفریط) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے۔ (6)اور جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے، (7)اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے، (8)اسے ناحق قتل نہیں کرتے، (9)اور نہ وہ زنا کرتے ہیں، (10)اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
[سورۃ نمبر 25 الفرقان،  آیت نمبر 63 - 68]

القرآن:
یہ مشروبات ایک ایسے چشمے کے ہوں گے جو اللہ کے (نیک) بندوں کے پینے کے لیے مخصوص ہے، وہ اسے (جہاں چاہیں گے) آسانی سے بہا کرلے جائیں گے۔ 
[سورۃ نمبر 76 الانسان ، آیت نمبر 6]
تفسیر:
اللہ تعالیٰ جنتیوں کو یہ اختیار عطا فرمائیں گے کہ وہ اس چشمے کو جہاں چاہیں لے جاسکیں گے، جس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اسی نہر کی شاخیں آسانی سے جہاں چاہیں نکال لیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جس جگہ چاہیں زمین سے وہ چشمہ جاری کردیں۔


(18) اولیاء             (اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے)

حوالہ:
اللہ پاک نے فرمایا:
یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ جو ایمان لاتے اور(نافرمانی سے)پرہیز کرتے ہیں۔
[سورۃ یونس:62، 63]
اللہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
قرآن والے، الله والے اور اس کے خاص(بندے)ہیں۔
[ابن ماجہ:215]
جنہیں جب بھی دیکھو الله کا ذکر(باتیں)کرتے رہتے ہیں۔
[کتاب الأولیاء(امام)ابن ابی الدنیا: حدیث#15]

خبردار! اولیاء الله(وہ)نمازی ہوتے ہیں۔ جو5نمازیں قائم کرتا ہو جو اس پر فرض کی گئی ہیں، اور رمضان کے روزے رکھتا ہو، اور اپنے روزے پر ثواب کی امید رکھتا ہو، اور وہ یوں سمجھتا ہو کہ اس پر یہ حق ہے، اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اس پر ثواب کی امید رکھتا ہو، اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو جن سے الله نے منع کیا ہے۔۔۔
[حاکم:7666،طبرانی:101، بیھقی:6723]
۔۔۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو محض الله کی رضا کیلئے آپس میں محبت کرتے ہوں گے حالانکہ ان کا آپس میں کوئی رشتہ نہ ہوگا اور نہ ہی آپس میں مالی لین دین ہوگا، الله کی قسم ان کے چہروں سے نور چمک رہا ہوگا اور وہ نور(کے منبروں)پر ہوں گے، جب لوگ خوفزدہ اور غمزدہ ہوں گے انہیں کوئی خوف اور غم نہ ہوگا۔
[ابوداؤد:3527]

صُوفیاء کے لفظِ صُوف(اُون)کی اصل:

وَقَال بعَضُهُم: نِسْبةٌ إلى لِبْسِ الصوّف، وهذا صحَيحٌ من حَيْثُ اللَّغَة
ترجمہ:
اور ان میں سے بعض نے کہا: اُون (کا لباس) پہننے کی طرف نسبت میں (صوفی کہا جانے لگا)، اور یہ زبان کے لحاظ سے صحیح ہے۔
[الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي (م748ھ) : صفحہ40]

(1)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«كَانَ عَلَى مُوسَى يَوْمَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ ‌كِسَاءُ ‌صُوفٍ، وَجُبَّةُ صُوفٍ، وَكُمَّةُ صُوفٍ، وَسَرَاوِيلُ صُوفٍ، وَكَانَتْ نَعْلَاهُ مِنْ جِلْدِ حِمَارٍ مَيِّتٍ»۔
ترجمہ:
جس دن موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے رب نے گفتگو کی اس دن موسیٰ (علیہ السلام) کے بدن پر پرانی چادر، اونی جبہ، اونی ٹوپی، اور اونی سراویل (پائجامہ) تھا اور ان کے جوتے مرے ہوئے گدھے کے چمڑے کے تھے۔
[سنن الترمذي:1734]
[جزء ابن عرفة:39، مسند البزار:2031، مسندأبو يعلى:4983، الشريعة الآجرى:688، المستدرک الحاكم:76]

(2) امام حاکم نیشاپوریؒ (متوفی ۴۰۵ھ) اپنی حدیث کی کتاب (المستدرک) میں فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أَنْبَأَ بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «§يَوْمَ كَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى كَانَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ، وَسَرَاوِيلُ صُوفٍ، وَكُمَّةُ صُوفٍ، وَكِسَاءُ صُوفٍ، وَنَعْلَانِ مِنْ جَلْدِ حِمَارٍ غَيْرِ ذَكِيٍّ» . " قَدِ اتَّفَقَا جَمِيعًا عَلَى الِاحْتِجَاجِ بِحَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ، وَحُمَيْدٌ هَذَا لَيْسَ بِابْنِ قَيْسٍ الْأَعْرَجِ، قَالَ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِيخِ: حُمَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَعْرَجُ الْكُوفِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ النَّجْرَانِيُّ مُحْتَجٌّ بِهِ، وَاحْتَجَّ مُسْلِمٌ وَحْدَهُ بِخَلَفِ بْنِ خَلِيفَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ كَبِيرٌ فِي التصوف وَالتَّكَلُّمِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَلَهُ شَاهِدٌ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ " - حميد هذا ليس بابن قيس
ترجمہ:
"ہمیں فقیہ ابو بکر بن اسحاق نے حدیث بیان کی، انہوں نے بشر بن موسیٰ سے روایت کی، انہوں نے سعید بن منصور سے، انہوں نے خلف بن خلیفہ سے، انہوں نے حمید اعرج سے، انہوں نے عبداللہ بن حارث سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: 
"جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰٰ علیہ السلام سے کلام کیا، اس وقت آپ پر صوف کا جبہ، صوف کی شلوار، صوف کی ٹوپی، صوف کی چادر، اور غیر ذکی (بغیر شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا ہوا) گدھے کی کھال کے بنے ہوئے دو جوتے تھے۔"
(حاکم نیشاپوری فرماتے ہیں): "دونوں امام (بخاری و مسلم) سعید بن منصور کی روایت پر احتجاج (بطور سند) متفق ہیں۔ یہ حمید، ابن قیس اعرج نہیں ہیں۔ امام بخاری نے تاریخ میں کہا: ’حمید بن علی اعرج کوفی منکر الحدیث (ضعیف راوی) ہے‘، جبکہ عبداللہ بن حارث نجرانی قابلِ احتجاج ہیں۔ امام مسلم نے صرف خلف بن خلیفہ سے احتجاج کیا ہے۔ یہ حدیث تصوف اور الہام کے موضوع میں اہم ہے، لیکن دونوں اماموں (بخاری و مسلم) نے اسے اپنی صحیح میں درج نہیں کیا۔ اس کی تائید میں اسماعیل بن عیاش کی روایت شاہد (سند) کے طور پر موجود ہے۔"
[المستدرک للحاکم» حدیث نمبر 76]

---
تشریح و توضیح:
*۱. حدیث کا مفہوم:*
   - نبی ﷺ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے **سادگی اور زہد** کی کیفیت بیان فرماتے ہیں جب اللہ سے ہم کلام ہوئے۔ آپ کا پورا لباس *اون (صوف)* کا تھا، حتیٰ کہ جوتے بھی *غیر ذکی گدھے کی کھال* کے بنے ہوئے تھے (یعنی انتہائی معمولی اور ناقابلِ اعتنا مواد)۔ 
   - یہ تفصیل *صوفیاء کی سادگی* کی علامت بن گئی، جس سے "تصوف" کی اصطلاح کی اصل (صوف = اون) کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔

*۲. *سند کا تجزیہ* (امام حاکم کے حوالے سے):
   - *ضعف کے اسباب*: 
     - *حمید اعرج کوفی*: امام بخاری کے نزدیک "منکر الحدیث" (ناپائیدار راوی)۔ 
     - *خلف بن خلیفہ*: صرف امام مسلم نے ان سے روایت لی، دیگر محدثین نے ضعف بتایا۔ 
   - *قوت کے پہلو*: 
     - *عبداللہ بن حارث نجرانی*: قابلِ احتجاج راوی۔ 
     - *شواہد*: اسماعیل بن عیاش کی متابعت سے حدیث کو تقویت ملتی ہے۔ 
   - *امام بخاری و مسلم کا موقف*: سند کے ضعف کی وجہ سے صحیحین میں شامل نہیں کیا۔ 

*۳. تصوف میں اس حدیث کی اہمیت:*
   - *زہد کی علامت*: موسیٰ علیہ السلام کا اون کا لباس **دنیاوی تکبر سے بیزاری* اور *اخلاص* کی علامت ہے۔ 
   - *صوفی لباس کی اصل*: صوفیاء اسی روایت کو *سادہ اونی لباس* (خرقہ) اختیار کرنے کی دلیل بناتے ہیں۔ 
   - *توکل کی اعلیٰ مثال*: غیر ذکی جانور کی کھال کے جوتے پہننا *ظاہری پاکیزگی سے بالاتر ہو کر اللہ پر بھروسے* کی عکاسی کرتا ہے۔ 

*۴. امام حاکم کا استدلال*:
   - وہ تسلیم کرتے ہیں کہ سند کمزور ہے، لیکن *"موضوع کی اہمیت"* (تصوف و الہام) اور "شواہد" کی وجہ سے اسے "المستدرک" میں شامل کیا۔ 
   - ان کا مؤقف ہے کہ یہ حدیث *"روحانی معارف"* کے باب میں قابلِ توجہ ہے، چاہے فقہی احکام کے لیے اسے پیش نہ کیا جائے۔ 

---

علمی نکات:

- *"غير ذكي" کی تشریح*: غیر شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا گیا جانور، جس کا چمڑا نجس سمجھا جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا ایسے جوتے پہننا *دنیاوی اعتبارات سے بے نیازی* کو ظاہر کرتا ہے۔ 


- *سند میں اختلاف*: امام ذہبی "التلخیص" میں حمید اعرج کو "ضعیف" اور خلف بن خلیفہ کو "صدیق" لیکن "مخلط" (اختلاطِ حافظہ کا شکار) قرار دیتے ہیں۔ 


- *تصوف کی اصل*: حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: *"تصوف لباسِ صوف نہیں، بلکہ اخلاقِ عالیہ ہے"*—یہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے کہ لباس مقصود نہیں، بلکہ *باطنی کیفیت* (زہد و توکل) اصل ہے۔ 

*خلاصہ*: یہ روایت اگرچہ سنداً کمزور ہے، لیکن تصوف کے بنیادی تصور "زہد و توکل" کی عکاسی کرتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا لباس صوفیاء کے لیے "عملی نمونہ" ہے، جس کا مقصد ظاہری نمود سے اجتناب اور باطنی طہارت پر توجہ دینا ہے۔


تشریح:
تکلف سے پاک سادگی اور تواضع:
لعدم وجدانه مَا هُوَ أرفع أَو لقصد التَّوَاضُع وَترك التنعم أَو أَنه إتفاقي۔
ترجمہ:
"یا تو بہتر لباس نہ ملنے کی وجہ سے، یا تواضع اور دنیوی آسائش ترک کرن کے قصد سے، یا پھر یہ محض اتفاقی امر تھا (بغیر کسی قصد کے)۔"
[التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي:2/ 204]

تکلف سے پاک سادگی اور تواضع:
قال ابن العربي: إنما جعل ثيابه كلها صوفا لأنه كان بمحل لم يتيسر له فيه سواه فأخذ باليسر وترك التكليف والعسر وكان من الاتفاق الحسن أن آتاه الله تلك الفضيلة وهو على تلك اللبسة التي لم يتكلفها۔ وقال الزين العراقي: يحتمل كونه مقصودا للتواضع وترك التنعم أو لعدم وجود ما هو أرفع ويحتمل أنه اتفاقي لا عن قصد بل كان يلبس كل ما يجد كما كان نبينا يفعل۔
ترجمہ:

"ابن عربیؒ فرماتے ہیں: انہوں نے صوف کا لباس اس لیے پہنا کہ وہ ایسی جگہ تھے جہاں اس کے سوا کچھ میسر نہ تھا۔ انہوں نے آسانی کو اختیار کیا اور تکلف/مشقت سے گریز کیا۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک حسین اتفاق تھا کہ اس فضیلت (کلامِ الٰہی) کو انہیں اسی لباس میں عطا کیا گیا جو انہوں نے بغیر تکلف کے پہنا ہوا تھا۔

زین عراقیؒ فرماتے ہیں: ممکن ہے یہ تواضع اور تنعم ترک کرنے کے قصد سے ہو، یا بہتر لباس نہ ملنے کی وجہ سے، یا پھر محض اتفاقاً بغیر قصد کے، جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ جو کچھ میسر آتا پہن لیتے تھے۔"

[فيض القدير-المناوي:6203 (4/583)]

صوفی(اُونی) لباس کی تاریخی و عملی بنیاد:
بأنّهُ الغالِب عَلَى مَنْ طلبَ خُشَونَةَ العَيْشِ والتَّقَلُّلِ مِنَ الدُّنْيا. والتَّقَشفِ فيها. من تركَ الناعمَ من الثيابِ، ويَقنَعُ بالخَشِن منها. ولبس الصوفِ والقطنِ غالبٌ في هذه الحالةِ. والصوفُ أغلبُ لعمومِ وجودهِ، وخشونتُه أكثر من خشونةِ القطنِ.
ترجمہ:

اس لیے کہ جو شخص زندگی میں سختی، دنیا کی کمی اور درویشی اختیار کرتا ہے، وہ نرم لباس چھوڑ کر خشن لباس پر اکتفا کرتا ہے۔ ایسی حالت میں عام طور پر صوف (اون) اور کپاس کا لباس پہنا جاتا ہے۔ صوف اس لیے غالب ہے کہ وہ ہر جگہ دستیاب ہے اور کپاس کے مقابلے میں زیادہ کھردرا ہوتا ہے۔"

[الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي (م748ھ) : صفحہ40]
توضیح:
کمال الدین الادفویؒ (متوفی 748ھ) صوفی لباس کی تاریخی و عملی بنیاد بیان کرتے ہیں:  
1. خشن لباس کی حکمت:  
   - دنیا سے بے رغبتی (الزہد) اور تقلّل من الدنیا (دنیا کو کم تر سمجھنا) کا اظہار۔  
2. صوف کو ترجیح کیوں؟
   - دستیابی: ہر علاقے میں آسانی سے میسر۔  
   - کھردرا پن: کپاس کے مقابلے میں زیادہ سخت، جو "ریاضت نفس" کے لیے موزوں۔  
3. تصوف کا فلسفہ:  
   - یہ لباس "ظاہری علامت" ہی نہیں بلکہ "باطنی کیفیت" (سادگی و بے نیازی) کی ترجمانی کرتا ہے۔  

کلیدی نکات کا خلاصہ:
1. وجوہاتِ لباسِ صوف:
اتفاقی ضرورت، تواضع کا قصد، یا بہتر لباس کی عدم دستیابی۔
2. شرعی حیثیت:
یہ لباس "ذریعہ" ہے، "مقصد" نہیں۔ اصل کامیابی تقویٰ و توکل ہے۔
3. صوفیاء کا اصول:
لباس کی نوعیت سے زیادہ "نیت اور باطن کی صفائی" اہم ہے۔ |  
4. تاریخی تناظر:
صوف کی عام دستیابی اور کھردرے پن نے اسے زاہدین کی علامت بنا دیا۔




(3)حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور حسن بصریؒ سے رسول الله ﷺ کے متعلق فرماتے ہیں:
كان يركَبُ الحمارَ ، ويخصِفُ النعلَ ، ويرفَعُ القميصَ ، و يلبَسُ الصوفَ ، ويقولُ : من رغِبَ عن سنَّتِي فليسَ منِّي.
ترجمہ:
گدھے پر سواری کرتے، جوتا گانٹھ لیتے، قمیص کو پیوند لگاتے، اُون کا لباس پہنتے اور فرماتے: جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ میرا(امتی)نہیں۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:2130، صحيح الجامع الصغير:4946]
مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848 ترمذی:1017 ابن ماجہ:4178]
اورارشاد فرماتے: اگر مجھے ایک دست گوشت کی طرف دعوت دی جائے تو اُسے بھی قبول کر لوں گا۔ اور اگر بکری کا ایک پایہ ہدیہ کیا جائے تو وہ بھی قبول کر لوں گا۔
[صحيح البخاري:2568، السنن الكبرى للنسائي:6574، شرح السنة للبغوي:3674]
بکریاں باندھتے، اور مہمانوں کیلئے مراعات لاتے۔
[حاکم:204 بیھقی:4188]
اور زمیں پر کھاتے اور فرماتے: میں تو بس ایک بندہ ہوں کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:995 الزهد لهناد بن السري:2/411]

حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ رسول ﷲ ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’رسول ﷲ ﷺ بھی انسانوں میں ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں خود جوں تلاش کر لیتے ( کہ کسی کے کپڑوں سے نہ آگئی ہو ) بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے، اپنا کپڑا سِی لیتے، اپنا کام خود کرتے، اپنا جوتا گانٹھ لیتے اور وہ تمام کام سر انجام دیتے جو مرد اپنے گھروں میں انجام دیتے ہیں او رگھر  والوں کی خدمت کرتے، جب مؤذن کی آواز سنتے تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
[صحيح ابن حبان:5675+5677]
مسند أبي داود الطيالسي:1480، مسند إسحاق بن راهويه:1550، مسند أحمد:26048، الزهد لأحمد بن حنبل:8، مسند البزار:326، الزهد لهناد بن السري:2/408،  صحيح الأدب المفرد: ص203-204، صحيح صحيح البخاري+5363+6039، أخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني:121-123، المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة:18/185]


عن خالد بن حدير الأسلمي، " أنه دخل على أبي الدرداء وتحته فراش من جلد أو صوف، وعليه ‌كساء ‌صوف وسبتية صوف وهو وجع وقد عرق۔
فقال: لو شئت كسيت فراشك بورق وكساء مرعزي مما يبعث به أمير المؤمنين۔
قال: «إن لنا دارا، وإنا لنظعن إليها ولها نعمل»
ترجمہ:
خالد بن حضیر الاسلمی کی روایت میں ہے کہ وہ حضرت ابو الدرداءؓ کے پاس داخل ہوئے اور ان کے نیچے چمڑے یا اُون کا گدا تھا اور اس کے پاس اُونی لباس اور اُونی کا سبت تھا اور انہیں پسینہ آ رہا تھا۔ کہا: اگر آپ چاہو تو اپنے بستر کو کاغذ اور ایک آرام دہ کپڑے سے ڈھانپ لو، جسے امیر المومنین بھیجے گا۔
آپؓ نے فرمایا: ہمارے پاس ایک (آخرت کا) گھر(جنت) ہے، ہم اس میں جائیں گے اور اس کے لیے کام کریں گے۔
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة:1/ 222]

سلفِ صالحین ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے ان میں سے مختلف الفاظ وقتا فوقتا استعمال کیا کرتے تھے؛ تاہم دو الفاظ (فقراء، عباد) نے زیادہ قبولیت پائی، دونوں کی ایک ایک مثال درجِ ذیل ہے:
(۱)ایک موقع پر حضرت حسن بصریؒ نے ارشاد فرمایا:

"يَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ إنَّكُمْ ‌تُكْرَمُونَ ‌بِاَللَّهِ وَتُعْرَفُونَ بِاَللَّهِ تَعَالَى فَانْظُرُوا كَيْفَ تَكُونُونَ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى إذَا خَلَوْتُمْ بِهِ"۔

ترجمہ:

اے فقراء کی جماعت! بے شک تم اللہ کو پہچانتے ہو اور اللہ کی تعظیم کرتے ہو؛ پس! دیکھو کہ جب تم خلوت میں ہو تو اللہ کے ساتھ کیسے ہو۔

[الرسالۃ القشیریۃ:۱/۱۲۳، شاملہ، موقع الإسلام،المؤلف: أبوسعيد محمد بن محمد الخادمي،المتوفى ۱۱۵۶ھ]


حضرت جنید بغدادیؒ نے بھی یہ فرمایا۔
[بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية: ج3  ص33]



(۲)علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت عمر بن الخطابؓ میں صفحہ نمبر:۲۱۶/ پر لکھا ہے:

"قَالَتِ الشِّفَاءُ ابْنَةُ عَبْدِ اللَّهِ. وَرَأَتْ ‌فِتْيَانًا ‌يَقْصِدُونَ فِي الْمَشْي وَيَتَكَلَّمُونَ رُوَيْدًا فَقَالَتْ: مَا هؤلاء؟ فَقَالُوا: نُسَّاكٌ (یعنی عباد)"۔

ترجمہ:

شفاءؓ (بنت عبداللہ) نے چند نوجوانوں کو دیکھا کہ ان کی رفتار اور گفتار میں آہستگی پائی جارہی تھی، دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں، بتایا گیا کہ یہ عباد ہیں۔

[جامع الأحاديث-السيوطي:30558، الطبقات الكبرى - ط الخانجي:3/ 270]

[دراسة نقدية في المرويات الواردة في شخصية عمر بن الخطاب وسياسته الإداريةؓ:۱/۳۵۸،المؤلف: عبد السلام بن محسن آل عيسى، شاملہ،موقع مكتبة المدينة الرقمية،الناشر: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية]

فقراء اُن لوگوں کو کہتے ہیں جن میں فقر ہو اور عباد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو زیادہ عبادت گزار ہوں؛ چونکہ یہ دونوں لفظ اپنے موصوف کی صفت کی طرف اشارہ کرتے تھے؛ لہٰذا سلفِ صالحین اپنی باطنی صفات ومقامات پر نام پکارے جانے میں ریاکاری سے ڈرتے تھے، طبیعت کا انشراح اور ادب کا تقاضا یہی تھا کہ عادات ظاہرہ پر نام پکارا جائے، ظاہراً ان حضرات میں قدر مشترک صوف کا لباس تھا جسے یہ سنت سمجھ کر پہنتے تھے دو احادیث درجِ ذیل ہیں:
(۱)شیخ ابوزرعہ طاہر بن محمد بن طاہر نے اپنے مشائخ کی اسناد کے حوالے سے حضرت انس بن مالکؓ کی حدیث بیان کی ہے:

"كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس الصوف، ويركب الحمار"۔

ترجمہ:

نبی اکرم  اون کا لباس پہنتے اور گدھے کی سواری کرتے تھے۔

[الزهد للمعافى بن عمران الموصلي:91 (۱/۹۷) شاملہ، موقع جامع الحديث]


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1يركب الحمار ويلبس الصوف ويعتقل الشاة ويأتي مراعاة الضيفعبد الله بن قيسالمستدرك على الصحيحين1901 : 61الحاكم النيسابوري405
2يركب الحمار ويلبس الصوف ويعتقل الشاة ويأتي مراعاة الضيفعبد الله بن قيسالمستدرك على الصحيحين1911 : 61الحاكم النيسابوري405
3يركب الحمار ويلبس الصوف ويعتقل الشاة ويأتي مراعاة الضيفعبد الله بن قيسالسنن الكبرى للبيهقي38542 : 420البيهقي458
4يركب الحمار ويلبس الصوف ويجيب دعوة المملوك رأيته يوم خيبر على حمار خطامه من ليفأنس بن مالكمسند أبي داود الطيالسي22482262أبو داود الطياليسي204
5يلبس الصوف ويعتقل العنزعبد الله بن قيسالبحر الزخار بمسند البزار27083128أبو بكر البزار292
6يركب الحمار ويلبس الصوف ويعقل الشاة ويأتي مدعاة الضيفلم يذكر المصنف اسمهإتحاف المهرة11767---ابن حجر العسقلاني852
7يلبس الصوف ويعتقل العنزعبد الله بن قيسكشف الأستار23222462نور الدين الهيثمي807
8يلبس الصوف ويركب الحمار ويجلس على الأرض وثيابه عليها ويجيب دعوة المملوك ويعتقل العنز فيحلبها لو دعيت إلى كراع لأجبتأنس بن مالكحديث ابن مخلد عن شيوخه201 : 219ابن مخلد البزاز419
9يركب الحمار ويلبس الصوف ويجيب دعوة المملوك ولقد رأيته يوم خيبر على حمار خطامه ليفأنس بن مالكموضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب16632 : 459الخطيب البغدادي463
10يركب الحمار ويلبس الصوف ويعتقل الشاة ويأتي مراعاة الضيفعبد الله بن قيسشعب الإيمان للبيهقي56736153البيهقي458
11يركب الحمار ويلبس الصوف ويجيب دعوة المملوك رأيته يوم خبير على حمار خطامه من ليفأنس بن مالكشرح السنة29993097الحسين بن مسعود البغوي516
12يلبس الصوف يخصف النعل يرقع القميص يركب الحمار من رغب عن سنتي فليس منيخالد بن زيدأخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني3111 : 106أبو الشيخ الأصبهاني369
13يلبس الصوف ويركب الحمار ويعتقل الشاة ويأتي مدعاة الضعيفعبد الله بن قيسأخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني3121 : 106أبو الشيخ الأصبهاني369
14يجيب دعوة المملوك ويركب الحمار ويلبس الصوف ويعود المريضأنس بن مالكأخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني7061 : 201أبو الشيخ الأصبهاني369
15يلبس الصوف وينام على الأرض ويأكل من الأرض ويركب الحمار ويردف خلفه ويعقل العنز فيحتلبها ويجيب دعوة العبدأنس بن مالكحلية الأولياء لأبي نعيم64866492أبو نعيم الأصبهاني430
16يركب الحمار ويلبس الصوف ويعتقل الشاء ويأتي مراعاة الضيفعبد الله بن قيسدلائل النبوة للبيهقي304---البيهقي458
17يركب الحمار ويلبس الصوف ويجيب دعوة المملوك رأيته يوم خيبر على حمار خطامه من ليفأنس بن مالكدلائل النبوة للبيهقي305---البيهقي458
18يلبس الصوف ويركب الحمار ويعتقل الشاة ويأتي مدعاة الضعيفعبد الله بن قيسالأنوار في شمائل النبي المختار798---الحسين بن مسعود البغوي516
19يلبس الصوف ويعتقل العنز ويأكل على الأرض إنما أنا عبد أجلس كما يجلس العبدأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر22654 : 74ابن عساكر الدمشقي571
20يلبس الصوف ويركب الحمار ويجلس على الأرض وثيابه عليأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر22664 : 75ابن عساكر الدمشقي571
21يلبس الصوف ويركب الحمار ويأتي مدعاة الضعيفعبد الله بن قيستاريخ دمشق لابن عساكر22734 : 76ابن عساكر الدمشقي571
22يلبس الصوف يخصف النعل يركب الحمار من رغب عن سنتي فليس منيخالد بن زيدتاريخ دمشق لابن عساكر22754 : 77ابن عساكر الدمشقي571
23يلبس الصوف ويركب الحمار ويجلس على الأرض وينام علىأنس بن مالكالزهد للمعافى بن عمران الموصلي9191المعافى بن عمران185
24يجيب دعوة العبد ويركب الحمار ويلبس الصوفأنس بن مالكصفوة التصوف160---أبو زرعة طاهر بن محمد المقدسي566
25كان يلبس الصوفأنس بن مالكالطبقات الكبرى لابن سعد12991 : 222محمد بن سعد الزهري230


كان يركَبُ الحمارَ ، ويخصِفُ النعلَ ، ويرفَعُ القميصَ ، و يلبَسُ الصوفَ ، ويقولُ : من رغِبَ عن سنَّتِي فليسَ منِّي

الراوي: أبو أيوب الأنصاري و الحسن البصري المحدث: الألباني المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 4946
خلاصة حكم المحدث: حسن
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: ابن كثير المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/47
خلاصة حكم المحدث: غريب من هذا الوجه وإسناده جيد

المحدث: الهيثمي المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/23
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: الألباني المصدر: السلسلة الصحيحةالصفحة أو الرقم: 5/159
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين

المحدث: الوادعي المصدر: الصحيح المسند -الصفحة أو الرقم: 824
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه




امام سری سقطی ؒ (م251/253ھ) نے فرمایا:
التصوُّفُ اسمٌ لثلاثة معانٍ؛ أحدها‌، أنَّ ‌الصوفيَّ [هو] الَّذي لا يطفئُ نورُ معرفته نورَ ورعه، ولا يتكلَّم فِي علمٍ باطنٍ ينقضُه عليه ظاهرُ الكتاب، ولا تحملُه الكراماتُ على هتك أستار المحرَّمات۔
ترجمہ:
تصوف ایک ایسا نام ہے جس کے تین معنیٰ ہیں، بےشک صوفی وہ ہے (۱)جس کے علم کی روشنی اس کی تقویٰ کی روشنی کو بجھا نہ دے، (۲)جو کسی ایسے باطنی علم کی بات نہ کرے جو کتاب کے ظاہر سے متصادم ہو، (۳)اور جس کی کرامتیں نہیں اٹھاتی(اکساتی) ہیں حرام کردہ باتوں کے پردوں کی بے احترامی پر۔
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان-سبط ابن الجوزي (م654ھ) : ج15 / ص318]
[الرسالة القشيرية(م465ھ) : 1 /45]

تشریح:

- علم و تقویٰ کا توازن: صوفی کا علم اسے متکبر نہ بنائے بلکہ تقویٰ بڑھائے۔  

- شریعت کی پابندی: باطنی تأویلات قرآن کے ظاہری احکام کے خلاف نہ ہوں۔  

- کرامات کا امتحان: خلافِ عادت کرامات دیکھ کر حرام کاموں میں مبتلا نہ ہو

۔   


حضرت بندار بن حسن (م353ھ) نے فرمایا:
‌إِن ‌الصُّوفِي من اخْتَارَهُ الله لنَفسِهِ فصافاه وَعَن نَفسه براه وَلم يردهُ إِلَى تعْمل وتكلف بِدَعْوَى وصوفي على زنة عوفي أَي عافاه الله وكوفي أَي كافأه الله وجوزي أَي جازاه الله فَفعل الله تَعَالَى ظَاهر على اسْمه۔
ترجمہ:
صوفی وہ ہے جسے اللہ اپنے لیے چنتا ہے اور اسے صاف کرتا ہے، اور وہ اپنے نفس کو نیک کرتا ہے، اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ وہ کام کرے اور اسے دعویٰ سونپا جائے۔ اور صوفی (لفظ) عوفی کے وزن پر جس کا مطلب ہے کہ اللہ اس پر عافیت دی، اور کوفی (کے وزن پر ہے) جس کا مطلب ہے اللہ اس کو کافی ہوا، اور جوزی (کے وزن پر ہے) جس کا مطلب ہے اللہ نے اس کو انعام دیا، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا فعل ظاہر ہے اس کے نام سے۔
[طبقات الصوفية للسلمي(م412ھ): صفحہ350]
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة:10/ 384]

تشریح:

- اللہ کی چناؤ: صوفی کی شناخت divine selection سے ہوتی ہے۔ 

- ریا کاری کی نفی: نام و نمود سے مکمل اجتناب۔ 

- اشتقاق: لفظ "صوفی" میں اللہ کی عطا (عافیت، جزا) پوشیدہ ہے۔  

 


ابو القاسم المقری(م378ھ) کہتے ہیں:
أوائل بركة الدخول في ‌التصوف، تصديق الصادقين في الإخبار عن أنفسهم، ومشايخهم بنعم الله عليهم، وإظهار كراماته عليهم۔
ترجمہ:

 "تصوف میں داخلے کی پہلی برکت یہ ہے کہ "سچے صوفیاء" اور ان کے "مشائخ" پر اللہ کی نعمتوں اور ان پر ظاہر ہونے والی "کرامات" کی تصدیق کی جائے۔"  

[الفتوة لأبي عبد الرحمن السلمي(م412ھ): صفحہ55]
تشریح:
- تصدیق کا اصول: صادقین کی روحانی تجربات کو سچا ماننا۔  
- کرامات کا اعتراف: اولیاء اللہ پر ظاہر ہونے والی فوق الفطری نشانیوں کو تسلیم کرنا۔ 




 

امام غزالیؒ (م505ھ) نے فرمایا:
‌أنَّ ‌الصوفي هو من اتصف بما يلي: الصلاح، الفقر، لبس زي الصوفية، ألا يكون مشتغلًا بحرفة، أن يكون مخالطة للصوفية بطريق المساكنة والخلطة (في الخانقاه
ترجمہ:
"صوفی وہ ہے جو ان صفات کا حامل ہو: صلاحیت، فقر، صوفیانہ لباس پہننا، کسب معاش سے بے نیاز ہونا، اور خانقاہ میں صوفیاء کے ساتھ رہائش و اختلاط رکھنا۔" ۔
[الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي(م748ھ): صفحہ 48]
(إحياء علوم الدِّين-الغزالي:2/153)


تشریح:

- ظاہری علامات: صوفیانہ لباس (مثلاً اونی کپڑے) اور خانقاہی نظام۔  

- فقر کی شرط: دنیاوی مشاغل سے کنارہ کشی۔  

- اجتماعیت: روحانی تربیت کے لیے جماعتی زندگی



۔   


«لا تتكلم قبل الفكر ولا تتعجب بشيء من حالاتك، فان الواهب غير متناهي القوة وعليك بتلاوة القرآن مع وجد وطرب، وفكر لطيف ما كثر الدعاء في أمر الآخرة، واقطع الخواطر الرديّة فان الخاطر الردي إذا قطعته أولا نجوت منه، واجمع هذه الخصال في نفسك - أعانك الله عليها - واعلم ‌أن ‌الصّوفي هو الذي تجتمع فيه هذه الكلمات الشريفة والتصوّف عبارة عن هذه»
ترجمہ:

"سوچ سمجھ کر (غور وفکر کے بعد) بولا کرو، اور اپنے حالات میں سے کسی چیز پر تعجب (یا شکوہ) نہ کرو۔ کیونکہ دینے والا (اللہ) بے انتہا طاقت والا ہے۔ اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت وجد اور سرور (دلی جذبہ اور لذت) کے ساتھ کرو، اور نرم (لطیف) فکر کے ساتھ آخرت کے معاملے میں کثرت سے دعا کیا کرو۔ اور برے خیالات (وساوس) کو کاٹ دو (دور کرو)، کیونکہ اگر برا خیال پہلی ہی بار کاٹ دو گے تو اس سے نجات پا جاؤ گے۔ اور ان تمام صفات کو اپنے اندر جمع کر لو - اللہ تمہیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ اور جان لو کہ صوفی وہی ہے جس میں یہ پاکیزہ باتیں جمع ہو جائیں، اور تصوّف درحقیقت انہی (خصائل) کا نام ہے۔"

 [مجمع الآداب  في معجم الألقاب-ابن الفوطي (م723ھ) : ج2 / ص 504]

---

تشریح:

1.  لا تتكلم قبل الفكر (سوچ سمجھ کر بولا کرو):*
    *   تشریح: ہر بات سوچ سمجھ کر، غور و فکر اور تدبر کے بعد کہنی چاہیے۔ بے سوچے سمجھے بولنے سے غلط فہمیاں، نقصان یا پشیمانی ہو سکتی ہے۔
    *   حوالہ: اس کی تائید قرآن و حدیث میں ملتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: "وَقُل لِّعِبَادِی یَقُولُوا۟ ٱلَّتِی هِیَ أَحْسَنُۚ إِنَّ ٱلشَّیْطَـٰنَ یَنزَغُ بَیْنَهُمْ" (سورۃ بنی اسرائیل: 53) ترجمہ: "اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ وہی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔" احادیث میں بھی خاموشی اور سوچ سمجھ کر بولنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

2.  ولا تتعجب بشيء من حالاتك (اور اپنے حالات میں سے کسی چیز پر تعجب نہ کرو):
    *   تشریح: زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات (نعمت، آزمائش، مشکل، آسانی) پر حیرت، شکوہ یا بے صبری نہیں کرنی چاہیے۔
    *   حوالہ: اس کا بنیادی حوالہ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرت، حکمت اور مشیت پر کامل ایمان اور توکل ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: "وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا۟ شَیْـًۭٔا وَهُوَ خَیْرٌۭ لَّكُمْۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا۟ شَیْـًۭٔا وَهُوَ شَرٌّۭ لَّكُمْۗ وَٱللَّهُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ" (سورۃ البقرہ: 216) ترجمہ: "ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو حالانکہ وہی تمہارے لیے بہتر ہو، اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"

3.  فان الواهب غير متناهي القوة (کیونکہ دینے والا (اللہ) بے انتہا طاقت والا ہے):
    *   تشریح: پچھلی بات کی دلیل یہ ہے کہ جو ہر چیز عطا کرنے والا ہے (الوہاب)، اس کی قدرت لا محدود اور بے انتہا ہے۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، جو چاہے دے سکتا ہے، جو چاہے چھین سکتا ہے۔ اس کی حکمت پر ایمان رکھو۔
    *   حوالہ: یہ اللہ تعالیٰ کی صفت "الوہاب" (بہت زیادہ عطا کرنے والا) اور "القدیر" (ہر چیز پر قادر) پر مبنی ہے۔

4.  وعليك بتلاوة القرآن مع وجد وطرب (اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت وجد اور سرور کے ساتھ کرو):
    *   تشریح: قرآن کی تلاوت صرف الفاظ ادا کرنے کا نام نہیں، بلکہ اسے دل کی گہرائیوں سے سمجھتے ہوئے، اس کے معانی پر غور کرتے ہوئے، اس کی آیات سے متاثر ہوتے ہوئے (وجد) اور اس کی تلاوت سے قلبی لذت و انبساط (طرب) حاصل کرتے ہوئے پڑھنا چاہیے۔
    *   حوالہ: قرآن میں خود تدبر کی ترغیب دی گئی ہے: "أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ..." (النساء: 82، محمد: 24)۔ نبی کریم ﷺ کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر، غور سے پڑھتے تھے۔ صوفیاء کی تعلیمات میں قرآن کو دل کی کیفیت (حال) کے ساتھ پڑھنے پر زور دیا جاتا ہے۔

5.  وفكر لطيف ما كثر الدعاء في أمر الآخرة (اور نرم (لطیف) فکر کے ساتھ آخرت کے معاملے میں کثرت سے دعا کیا کرو):*
    *   تشریح: آخرت (موت کے بعد کی زندگی، جنت، دوزخ، حساب کتاب) کے بارے میں گہری، باریک بینی سے سوچو (فکر لطیف - جس میں خشیت اور محبت ہو) اور اس سلسلے میں بکثرت دعائیں مانگو۔ دنیا کی فکر کے مقابلے میں آخرت کی فکر کو ترجیح دو۔
    *   حوالہ: قرآن و حدیث میں آخرت کی یاد اور اس کی تیاری پر بہت زور دیا گیا ہے۔ "وَٱبْتَغِ فِیمَآ ءَاتَىٰكَ ٱللَّهُ ٱلدَّارَ ٱلْـَٔاخِرَةَ..." (القصص: 77)۔ نبی کریم ﷺ بھی آخرت کے لیے بہت دعا فرماتے تھے۔

6.  واقطع الخواطر الرديّة (اور برے خیالات (وساوس) کو کاٹ دو (دور کرو)):
    *   تشریح: دل میں آنے والے برے خیالات، شیطانی وساوس، منفی تصورات کو فوراً رد کر دو، ان پر عمل نہ کرو، ان پر غور نہ کرو۔ انہیں شروع میں ہی ختم کر دو۔
    *   حوالہ: یہ شیطان کے وسوسوں سے بچنے کی تعلیم ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَإِمَّا یَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّیْطَـٰنِ نَزْغٌۭ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ سَمِیعٌ عَلِیمٌ" (الاعراف: 200، فصلت: 36)۔ احادیث میں بھی برے خیال آنے پر "أعوذ بالله من الشيطان الرجيم" پڑھنے کی ہدایت ہے۔ صوفیاء نفس اور شیطان کے خیالات (خواطر) پر قابو پانے کو تربیت نفس کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔

7.  فان الخاطر الردي إذا قطعته أولا نجوت منه (کیونکہ اگر برا خیال پہلی ہی بار کاٹ دو گے تو اس سے نجات پا جاؤ گے):
    *   تشریح: برے خیال کو اگر ابتداء میں ہی (پہلی بار جب دل میں آئے) رد کر دیا جائے، تو وہ مضبوط نہیں ہوتا اور اس سے آسانی سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ اگر اسے پکڑ لیا جائے یا اس پر غور کیا جائے تو وہ پختہ ہو جاتا ہے اور پھر چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔
    *   حوالہ: یہ نفسیات اور روحانی تربیت کا ایک اصول ہے جس کی تائید احادیث (وسوسے پر استعاذہ پڑھنے کا حکم) اور صوفیائے کرام کے تجربات سے ہوتی ہے۔

8.  واجمع هذه الخصال في نفسك... (اور ان تمام صفات کو اپنے اندر جمع کر لو...):
    *   تشریح: مذکورہ بالا تمام اچھی صفات (سوچ سمجھ کر بولنا، حالات پر تعجب نہ کرنا، قرآن کو وجد و طرب سے پڑھنا، آخرت کے لیے لطیف فکر اور کثرتِ دعا، برے خیالات کو فوراً کاٹ دینا) ایک ساتھ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ یہی کمال ہے۔
    *   حوالہ: یہ جامعیت ایمان اور احسان کے درجے کو پانے کی علامت ہے۔ قرآن میں مومنوں کی صفات کا مجموعہ بیان ہوا ہے (جیسے سورہ المؤمنون: 1-11، سورہ الفرقان: 63-77)۔

9.  واعلم ‌أن ‌الصّوفي هو الذي تجتمع فيه هذه الكلمات الشريفة والتصوّف عبارة عن هذه (اور جان لو کہ صوفی وہی ہے جس میں یہ پاکیزہ باتیں جمع ہو جائیں، اور تصوّف درحقیقت انہی (خصائل) کا نام ہے):*
    *   تشریح: حقیقی صوفی (جو اپنے آپ کو اللہ کے قریب کرنے والا سالک ہو) وہی ہے جس کے اندر مذکورہ تمام عمدہ اور پاکیزہ صفات اور اعمال جمع ہو جائیں۔ حقیقی تصوف کا مطلب یہی اعلیٰ اخلاق، باطنی پاکیزگی، اللہ سے تعلق، قرآن و سنت پر عمل اور نفس کی تربیت ہے نہ کہ محض ظاہری رسوم و رواج۔
    *   حوالہ: یہ صوفیائے کرام کی تصوف کی تعریف کے مطابق ہے۔ مثلاً امام جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "التصوف استعمال كل خلق سني، وترك كل خلق دني" (تصوف ہر اچھے اخلاق کو اختیار کرنا اور ہر برے اخلاق کو ترک کرنا ہے)۔ یا "التصوف أن تكون مع الله بلا علاقة" (تصوف یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ (اس طرح منسلک) ہو کہ کوئی تعلق (اس کے سوا) باقی نہ رہے - یعنی ہر چیز میں اللہ کو دیکھنا)۔ مذکورہ عبارت میں تصوف کی تعریف انہی عملی اور باطنی خصائل کے مجموعے کے طور پر کی گئی ہے۔

خلاصہ: یہ عبارت ایک سالکِ راہِ حق کے لیے جامع ہدایات پر مشتمل ہے جس میں ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں کی اصلاح پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ حقیقی روحانی ترقی (تصوف) محض ظاہری رسوم نہیں بلکہ سوچ، گفتار، عمل، تلاوت، دعا اور خیالات کی درستگی اور اللہ کی قدرت و رحمت پر کامل یقین و توکل کا نام ہے۔ ایک سچا صوفی وہی ہے جو ان تمام خوبیوں کو اپنے اندر جمع کر لے۔[مجمع ال




 

جرح والتعدیل کے امام ذہبیؒ (م784ھ) لکھتے ہیں:
فإنما التصوف والتأله والسلوك والسير والمحبة ما جاء عن أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - من الرضا عن الله، ولزوم تقوى الله، والجهاد في سبيل الله، والتأدب بآداب الشريعة من التلاوة بترتيل وتدبر، والقيام بخشية وخشوع، وصوم وقت، وإفطار وقت، وبذل المعروف، وكثرة الإيثار، وتعليم العوام، والتواضع للمؤمنين، والتعزز على الكافرين، ومع هذا فالله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم.
والعالم إذا عري من التصوف والتأله، فهو فارغ، كما ‌أن ‌الصوفي إذا عري من علم السنة، زل عن سواء السبيل.
ترجمہ:
"بے شک تصوف، خدا کی طرف رجوع (تأله)، (روحانی) سلوک، (معنوی) سیر اور محبت (کا حقیقی مفہوم) وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے منقول ہے، یعنی: اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا، اللہ کا تقویٰ لازم پکڑنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، اور شریعت کے آداب کی پابندی کرنا؛ جیسے ٹھہر ٹھہر کر غور وفکر کے ساتھ تلاوت کرنا، خوفِ خدا اور عاجزی (خشوع) کے ساتھ (نماز میں) قیام کرنا، وقت آنے پر روزہ رکھنا اور وقت آنے پر (ہی) افطار کرنا، نیکی کرنا، بہت زیادہ ایثار (دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا)، عام لوگوں کو (دین) سکھانا، مومنوں کے ساتھ عاجزی (تواضع) کرنا، اور کافروں پر اپنی شان و عظمت قائم رکھنا۔ اور ان سب کے باوجود اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
اور عالم (شریعت کا علم رکھنے والا) جب تصوف اور خدا کی طرف رجوع (تأله) سے خالی ہو، تو وہ (حقیقت میں) خالی (بے روح) ہے، اسی طرح جب صوفی سنت (شریعت) کے علم سے خالی ہو، تو وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہو جاتا ہے۔"
[سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: 15/ 409]

---

تشریح باحوالہ:

اس عبارت میں تصوف اور روحانیت کی حقیقی تعریف پیش کی گئی ہے اور اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عملی نمونے سے جوڑا گیا ہے، ساتھ ہی علم اور عمل، شریعت اور طریقت کے درمیان ضروری توازن کی نشاندہی کی گئی ہے۔

1.  *التصوف والتأله والسلوك والسير والمحبة (تصوف، خدا کی طرف رجوع، سلوک، سیر اور محبت):*
    *   *تشریح:* یہ سب اصطلاحات روحانی ترقی، اللہ کی قربت، باطنی پاکیزگی اور محبتِ الٰہی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتی ہیں۔
    *   *نکتہ:* عبارت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان اصطلاحات کا حقیقی اور معتبر مفہوم صرف وہی ہے جو صحابہ کرام کی زندگیوں میں عملی طور پر موجود تھا، نہ کہ بعد میں ایجاد شدہ نظریات یا رسوم۔

2.  *ما جاء عن أصحاب محمد (وہی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے منقول ہے):*
    *   *تشریح:* حقیقی روحانیت کا معیار اور سرچشمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اور تعلیمات ہیں۔
    *   *حوالہ:* صحابہ کرام کو قرآن میں "رضی اللہ عنہم" کہا گیا ہے (مثلاً التوبہ: 100) اور انہیں نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے بہتر امت قرار دیا گیا ہے۔ ان کی پیروی ایمان کا تقاضا ہے۔

3.  *صفاتِ صحابہ (وہ اعلیٰ صفات جو صحابہ میں تھیں):* عبارت میں صحابہ کی جن صفات کو *حقیقی تصوف* قرار دیا گیا ہے، ان کی تفصیل اور حوالہ جات:
    *   *الرضا عن الله (اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا):*
        *   *تشریح:* ہر حال میں اللہ کی تقدیر پر راضی اور مطمئن رہنا۔ یہ اعلیٰ درجے کی روحانی کیفیت ہے۔
        *   *حوالہ:* قرآن: "وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ" (البقرہ: 216)، "رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ" (البینہ: 8)۔ نبی کریم ﷺ نے بھی رضا باللہ کی ترغیب دی۔
    *   *لزوم تقوى الله (اللہ کا تقویٰ لازم پکڑنا):*
        *   *تشریح:* ہر لمحہ اللہ کی نافرمانی سے بچنا، اس کے احکام پر چلنا۔ یہ ایمان کی بنیاد ہے۔
        *   *حوالہ:* قرآن: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ" (آل عمران: 102)۔
    *   *الجهاد في سبيل الله (اللہ کی راہ میں جہاد کرنا):*
        *   *تشریح:* اپنی جان، مال اور زبان سے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش کرنا۔
        *   *حوالہ:* قرآن: "وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ" (الحج: 78)۔ صحابہ کرام کی ساری زندگی جہاد کی عملی تصویر تھی۔
    *   *التأدب بآداب الشريعة (شریعت کے آداب کی پابندی کرنا):* یہاں چند اہم آداب کی مثالیں دی گئی ہیں:
        *   *التلاوة بترتيل وتدبر (ٹھہر ٹھہر کر غور وفکر کے ساتھ تلاوت کرنا):*
            *   *حوالہ:* قرآن: "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا" (المزمل: 4)، "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ" (النساء: 82)۔
        *   *القيام بخشية وخشوع (خوفِ خدا اور عاجزی کے ساتھ قیام کرنا (نماز)):*
            *   *حوالہ:* قرآن: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ" (المؤمنون: 1-2)۔
        *   *صوم وقت، وإفطار وقت (وقت آنے پر روزہ رکھنا اور وقت آنے پر افطار کرنا):*
            *   *تشریح:* سنت کے مطابق رمضان کے روزے رکھنا اور وقت پر ہی افطار کرنا۔ نفلی روزے بھی اوقات کی پابندی کے ساتھ۔
            *   *حوالہ:* قرآن: "فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ" (البقرہ: 185)، احادیث میں وقت پر افطار کی تاکید۔
    *   *بذل المعروف (نیکی کرنا):*
        *   *تشریح:* ہر قسم کی بھلائی، خدمت، احسان اور معروف کام کرنا۔
        *   *حوالہ:* قرآن: "وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ" (المائدہ: 2)، نبی کریم ﷺ کا ارشاد: "من سن في الإسلام سنة حسنة..." (مسلم)۔
    *   *كثرة الإيثار (بہت زیادہ ایثار):*
        *   *تشریح:* دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا، قربانی دینا۔
        *   *حوالہ:* قرآن انصار کی صفت بیان کرتا ہے: "وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ" (الحشر: 9)۔
    *   *تعليم العوام (عام لوگوں کو (دین) سکھانا):*
        *   *تشریح:* دین کی صحیح تعلیم کو پھیلانا، علم کی روشنی عام کرنا۔
        *   *حوالہ:* قرآن: "وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ" (آل عمران: 104)، نبی کریم ﷺ کا فرمان: "بلغوا عني ولو آية" (بخاری)۔
    *   *التواضع للمؤمنين (مومنوں کے ساتھ عاجزی (تواضع) کرنا):*
        *   *تشریح:* دوسرے مومنوں کے ساتھ انکساری، فروتنی اور نرمی کا برتاؤ کرنا۔
        *   *حوالہ:* قرآن: "وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ" (الحجر: 88)، نبی کریم ﷺ انتہائی متواضع تھے۔

    *   *التعزز على الكافرين (کافروں پر اپنی شان و عظمت قائم رکھنا):*
        *   *تشریح:* کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کا عالی شان، باوقار اور غیرت مند ہونا، ان کے آگے ذلیل نہ ہونا۔
        *   *حوالہ:* قرآن: "وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ" (آل عمران: 139)، "وَأَعِزَّهُ عَلَى الْكَافِرِينَ" (التوبہ: 33، الصف: 9)۔

4.  *ومع هذا فالله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم (اور ان سب کے باوجود اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے):*
    *   *تشریح:* یہ سب اعمال کرنے کے باوجود، حقیقی ہدایت صرف اللہ کے فضل اور توفیق سے ملتی ہے۔ انسان کو اپنی کوشش کرنی چاہیے لیکن کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
    *   *حوالہ:* قرآن: "إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ" (القصص: 56)، "اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ" (الفاتحہ: 6)۔

5.  *العالم إذا عري من التصوف والتأله، فهو فارغ (عالم جب تصوف اور خدا کی طرف رجوع سے خالی ہو، تو وہ خالی (بے روح) ہے):*
    *   *تشریح:* اگر کسی عالم (فقیہ، مفتی، مفسر) میں خشیتِ الٰہی، زہد، تقویٰ، اللہ کی محبت اور باطنی پاکیزگی (یعنی تصوف کی حقیقی روح) نہ ہو، تو اس کا علم بے روح، بے اثر اور محض ظاہری ہوگا۔ اس میں عملی تاثیر اور لوگوں کے دلوں کو موثر کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی۔
    *   *حوالہ:* یہ امام ذہبی رحمہ اللہ جیسے علماء کا بنیادی نقطہ ہے جنہوں نے علماء کو ظاہری علم کے ساتھ ساتھ باطنی تزکیے کی ضرورت پر زور دیا۔ قرآن میں علم کے ساتھ خشیت کو جوڑا گیا: "إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ" (فاطر: 28)۔

6.  *كما أن الصوفي إذا عري من علم السنة، زل عن سواء السبيل (جس طرح صوفی جب سنت (شریعت) کے علم سے خالی ہو، تو وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہو جاتا ہے):*
    *   *تشریح:* اسی طرح، اگر کوئی صوفی یا زاہد شریعت کے علم (قرآن، سنت، فقہ) سے ناواقف ہو، اسے صحیح اور غلط کی تمیز نہ ہو، تو وہ اپنی جذباتی کیفیتوں، وسوسوں یا بدعات میں پڑ کر گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی روحانیت بے بنیاد اور خطرناک ہوتی ہے۔
    *   *حوالہ:* تمام صوفیائے حق کا اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت کی پابندی روحانیت کی بنیاد ہے۔ امام جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "مذھبنا هذا مُقَیَّدٌ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ" (ہمارا یہ مذہب کتاب و سنت سے جکڑا ہوا/مقید ہے)۔ مشہور قول ہے: "الطریقة محجوبة بالشریعة" (طریقت شریعت کے پردے میں چھپی ہے/اس کی پابند ہے)۔ شریعت سے انحراف کرنے والے صوفیاء کی مذمت احادیث میں بھی ملتی ہے۔

*خلاصہ و اہم نکتہ:*
یہ عبارت تصوف اور روحانیت کے بارے میں ایک انتہائی اہم اور صحیح تعریف اور تنبیہ پیش کرتی ہے:

1.  *حقیقی تصوف کیا ہے؟* وہی اعلیٰ اخلاق، عبادات کی کیفیت (خشوع وخشیت)، تقویٰ، جہاد، ایثار، تعلیم و تربیت اور شریعت کی مکمل پابندی جس کا عملی نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیاں ہیں۔ یہ محض رسوم، خرافات یا علیحدہ نظریات نہیں۔
2.  *شریعت و طریقت کا توازن:* روحانیت (تصوف، تأله) اور علمِ شریعت (علم السنہ) ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
    *   *علم بغیر روحانیت:* بے روح، بے اثر اور خشک علم۔
    *   *روحانیت بغیر علمِ شریعت:* گمراہی، بدعت اور نفسانی خواہشات کی پیروی۔
3.  *ہدایت اللہ کے ہاتھ میں:* تمام کوششوں کے باوجود حتمی ہدایت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر منحصر ہے۔

اس عبارت کا مصنف واضح کرتا ہے کہ صحیح اسلامی روحانیت وہی ہے جو کتاب و سنت کی روشنی میں، صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، علم اور عمل، ظاہر اور باطن کے درمیان مکمل توازن قائم رکھتی ہے۔

 



(۲)حضرت علی ہجویریؒ نے"کشف المحجوب"میں ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:

"علیکم بلبس الصوف تجدون حلاوۃ  فی قلوبکم"۔

ترجمہ:

تم اون کا لباس پہنو! ایمان کی حلاوت اپنے دلوں میں پاؤ گے۔

چونکہ صوف کا لباس اُونی کپڑا پہننا انبیاء علیہم السلام کی عادت اور اولیاء واصفیاء کا شعار تھا؛ لہٰذا انہیں ظاہری لباس کی طرف منسوب کردیا گیا؛ پس!صوفی ایک مجمل اور عام نام ہوا جوان کے تمام علوم، اعمال، اخلاق اور تمام شریف اور قابل ستائش احوال کی خبردیتا ہے، حضرت ابونصر سراج طوسیؒ لکھتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاص اصحاب کاقرآن مجید میں تذکرہ کیا توانہیں ان کے ظاہری لباس کی طرف منسوب کیا"إِذْقَالَ الْحَوَارِيُّونَ"(المائدۃ:۱۱۲)"ترجمہ:جب حواریوں نے کہا"یہ لوگ سفید لباس پہنا کرتے تھے؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی طرف منسوب کردیا اور جن علوم واحوال سے یہ موسوم تھے ان میں سے کسی نوع کی طرف منسوب نہیں کیا، میرے نزدیک صوفیہ کا بھی یہی معاملہ ہے"۔                            

(کتاب اللمع فی التصوف:۵۵)

مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صوفی کا لفظ صوف سے مشتق ہے یہی قول اقویٰ ہے، شیخ ابوبکر ابراہیم بخاریؒ الکلابازی الحنفي (المتوفى: 380هـ) نے اپنی کتاب"التعارف المذہب التصوف"میں لغوی تحقیق کے حوالے سے اس بات کوثابت کیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(۱)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ"صفا"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ صوفی کا مقصود صفائی باطن کا حاصل کرنا ہے؛ اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صفاوی"ہونا چاہیے تھا۔
(۲)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ "صف"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ قیامت کے دن اگلی صفوں میں ہوں گے؛ اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صفی"ہونا چاہیے تھا۔
(۳)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ"صفہ"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ اصحاب صفہ کی یادگار ہیں اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صُفِی"ہونا چاہیے تھا۔
(۴)بعض حضرات کہتے ہیں کہ"صوفی"کا لفظ"صُوف"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ صوف کا لباس پہنتے تھے؛ اگرایسا ہے تو یہ لفظ"صوفی"ہی ہونا چاہیے تھا معلوم ہوا کہ صوفی کا لفظ مشق"صوف"سے ہے مقصود اس کا"صفا"ہے نسبت اسے اصحاب"صُفہ"سے ہے اور قیامت کے دن اس کا مقام"صف"اوّل ہوگا۔
صوفی کے لفظ کی نسبت صوف (پشمینہ، یعنی وہ اُونی کپڑا جومویشیوں کے بالوں سے تیار کیا جاتا ہے) سے ہونے میں کئی حکمتیں بھی ہیں:
(۱)اونی کپڑا نرم ہوتا ہے پس! صوفی وہ شخص ہے جودل کونرم بنانے کے لیے محنت کررہا ہو۔
(۲)اونی کپڑا سفید ہوتا ہے پس! صوفی وہ شخص ہے جواپے دل کوصوف کی طرح سفید کرنے کے لیے محنت کررہا ہو۔
(۳)اونی کپڑا کسی رنگ کوجلدی قبول نہیں کرتا پس! صوفی وہ شخص ہے جو"صبغۃ اللہ"اللہ کے رنگ میں ایسا رنگا جاچکا ہو کہ اب ماسوا کا رنگ اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔
صوفی کے عنوان سے متعلقہ چند مشہور سوالات کے جوابات قلمبند کیئے جاتے ہیں:
سوال نمبر:۱۔ صوفی کا لفظ جن الفاظ سے ماخوذ ہے کیا ان کا ذکر قرآن وحدیث میں کہیں ملتا ہے؟۔
جواب: جی ہاں! صوفی کا لفظ جن الفاظ سے ماخوذ ہے ان کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے، تفصیل درجِ ذیل ہے:
(۱)ایک قول کے مطابق صوفی کا لفظ صف سے ماخوذ ہے تو قرآن پاک میں ہے:

"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ"۔    

(الصف:۴)

ترجمہ:

بیشک اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوپسند فرماتا ہے جواللہ کے راستہ میں صفیں باندھ کر جہاد کرتے ہیں؛ یوں لگتا ہے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

(۲)دوسرے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صفا سے ماخوذ ہے تو حدیث پاک میں ہے:

عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ , قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَغَيِّرَ اللَّوْنِ ، فَقَالَ : ذَهَبَ صَفْوُ الدُّنْيَا وَبَقِيَ الْكَدَرُ فَالْمَوْتُ الْيَوْمَ تُحْفَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ .

(الرسالۃ القشیریۃ:۱/۱۲۶(2/440) ، شاملہ، موقع الوراق، المؤلف: أبوسعيد محمد بن محمد الخادمي،المتوفى ۱۱۵۶ھ)

ترجمہ:

حضرت ابوجحیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ہم پر نکلے آپ کا رنگ متغیر تھا آپ نے فرمایا کہ دنیا کی صفائی چلی گئی اور میل کچیل رہ گئی پس آج تو موت ہر مسلمان کے لیے تحفہ ہے۔


یہ حدیث حضرت عبد الله بن مسعودؓ سے بھی مروی ہے:
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ " ذَهَبَ صَفْوُ الدُّنْيَا وَبَقِيَ كَدَرُهَا ، فَالْمَوْتُ الْيَوْمَ تُحْفَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ " .
[مصنف ابن أبي شيبة - كِتَابُ الزُّهْدِ - كَلَامُ ابْنِ مَسْعُودٍ - رقم الحديث:34516
مسند الحارث - كِتَابُ الزُّهْدِ - بَابٌ فِي صَفْوِ الدُّنْيَا - رقم الحديث:1091
المعجم الكبير للطبراني - رقم الحديث:8774+8775
الإبانة الكبرى لابن بطة - رقم الحديث:22+23
ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2384، مجمع الزوائد:18210، إتحاف الخيرة المهرة:7300، المطالب العالية:3188
حلية الأولياء لأبي نعيم » عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ... » الْقُنُوتُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ رقم الحديث: 406]

الراوي: وهب بن عبدالله السوائي أبو جحيفة المحدث: الهيثمي المصدر: مجمع الزوائد -الصفحة أو الرقم: 10/312
خلاصة حكم المحدث: [روي] بإسنادين وأحدهما جيد‏‏

الراوي: [يزيد بن أبي زياد] المحدث: البوصيري المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 7/447
خلاصة حكم المحدث: موقوف وفي سنده يزيد بن أبي زياد وله شاهد







(۳)تیسرے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صفہ سے ماخوذ ہے تو حدیث پاک میں ہے:

"عن ابن عباس قال وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على أصحاب الصفة فرأى فقرهم وجهدهم وطيب قلوبهم فقال أبشروا ياأصحاب الصفة فمن بقي من أمتي على النعت الذي أنتم عليه راضيا بمافيه فإنه من رفقائي"۔           

(کشف المحجوب)

ترجمہ:

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم  اصحاب صفہ پر تشریف لائے، آپ نے ان کے فقر اور مشقت کومحسوس کیا توفرمایا: خوش ہوجاؤ اہلِ صفہ، پس! جوشخص میری امت سے تمہاری روش پر رہنا پسند کریگا وہ بہشت میں میرا ساتھی ہوگا۔


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أبشروا يا أصحاب الصفة فمن بقي من أمتي على النعت الذي أنتم عليه اليوم راضيا بما فيه فإنه من رفقائي يوم القيامةعبد الله بن عباستاريخ بغداد للخطيب البغدادي450515 : 367الخطيب البغدادي463
2أبشروا يا أصحاب الصفة فمن بقي من أمتي على النعت الذي أنتم عليه راضيا بما فيه فإنه من رفقائيعبد الله بن عباسالتدوين في أخبار قزوين للرافعي112---عبد الكريم الرافعي623






(۴)چوتھے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صوف سے ماخوذ ہے توحدیث پاک میں ہے:

"كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس الصوف، ويركب الحمار"۔

(الزهد للمعافى بن عمران الموصلي:۱/۹۷، شاملہ، موقع جامع الحديث)

ترجمہ:

نبی اکرم  صوف کا لباس پہنتے اور گدھے کی سواری کرتے تھے۔



سوال نمبر:۲۔ لفظ صوفی کی کوئی اہمیت ہوتی توقرآن وحدیث میں من وعن موجود ہوتا؟۔
جواب: کسی لفظ کا من وعن قرآن وحدیث میں موجود نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ لفظ غیراہم یاغیراسلامی ہے، مثال کے طور پر متکلمین کا لفظ قرآن وحدیث میں من وعن کہیں موجود نہیں توکیا علم کلام غیراسلامی ہوگیا، اس کے بغیر تواسلامی عقائد بھی ثابت نہیں کیئے جاسکتے؛ اسی طرح نحو کا لفظ قرآن وحدیث میں موجود نہیں توکیا علم النحو فضول اور غیراہم ہے، اس کے بغیر توقرآن وحدیث کوسمجھنا بھی ممکن نہیں۔
سوال نمبر:۳۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں توکسی کوصوفی نہیں کہا جاتا تھا؟۔
جواب: رسول اللہ  کی صحبت میں رہنے کی ایک خاص عظمت اور خصوصیت تھی، جسے یہ نعمت نصیب ہوگئی اس پرکوئی اور نام چسپاں کرنا گستاخی تھی، صحابہ کرامؓ تونسبت اور صحبت کی وجہ سے زاہدوں، عابدوں، متوکلوں، صابروں، اطاعت گزاروں اور فقراء کے پیشواء ہیں تمام احوال میں سے بہترین اور بزرگ تیرن حال ان کونصیب تھا، اب انہیں کسی اور فضیلت کی وجہ سے فضیلت دینا ناروا ہے، حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم  نے فرمایا:

"خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ"۔

(مسند البزار كاملا،حدیث نمبر:۴۵۰۸، صفحہ نمبر:۲/۱۴۹، شاملہ،القسم:کتب المتون)

ترجمہ:

بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھران لوگوں کا زمانہ جواُن کے بعد آئیں گے؛ اسی طرح پھران لوگوں کا جوان کے بعد آئیں گے۔



تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء أقوام تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح البخاري24712652محمد بن إسماعيل البخاري256
2خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح البخاري34013651محمد بن إسماعيل البخاري256
3خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء من بعدهم قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودصحيح البخاري59766429محمد بن إسماعيل البخاري256
4قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح البخاري61946658محمد بن إسماعيل البخاري256
5خير أمتي القرن الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح مسلم46052534مسلم بن الحجاج261
6قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم يمينه وتبدر يمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح مسلم46062535مسلم بن الحجاج261
7خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يتخلف من بعدهم خلف تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح مسلم46072536مسلم بن الحجاج261
8خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يأتي قوم من بعد ذلك تسبق أيمانهم شهاداتهم أو شهاداتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودجامع الترمذي38233859محمد بن عيسى الترمذي256
9قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودسنن ابن ماجه23552362ابن ماجة القزويني275
10خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يأتي بعد ذلك قوم تسبق شهاداتهم أيمانهم وأيمانهم شهاداتهمعبد الله بن مسعودمسند أحمد بن حنبل34633583أحمد بن حنبل241
11خير الناس أقراني الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف بعدهم خلف تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودمسند أحمد بن حنبل38333953أحمد بن حنبل241
12خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودمسند أحمد بن حنبل39894119أحمد بن حنبل241
13خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف قوم تسبق شهاداتهم أيمانهم وأيمانهم شهاداتهمعبد الله بن مسعودمسند أحمد بن حنبل40314162أحمد بن حنبل241
14خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودمسند أحمد بن حنبل40734205أحمد بن حنبل241
15قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح ابن حبان44204328أبو حاتم بن حبان354
16خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء أقوام تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح ابن حبان73787222أبو حاتم بن حبان354
17خير أمتي القرن الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح ابن حبان737916 : 206أبو حاتم بن حبان354
18خير أمتي القرن الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودصحيح ابن حبان73837227أبو حاتم بن حبان354
19خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودصحيح ابن حبان73847228أبو حاتم بن حبان354
20أي الناس خير قال قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم يمينه وتبدر يمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للنسائي58195 : 442النسائي303
21خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف بعدهم خلف تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للنسائي58205988النسائي303
22خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذي يلونهم يخلف قوم تسبق شهاداتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للنسائي58215988النسائي303
23خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للنسائي58225988النسائي303
24خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يأتي قوم تسبق أيمانهم شهادتهم وشهادتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للنسائي58235988النسائي303
25خير أمتي القرن الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء أقوام تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للنسائي1125811750النسائي303
26أي الناس خير قال قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للبيهقي1832910 : 43البيهقي458
27خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق أيمانهم شهادتهم وشهادتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للبيهقي1876110 : 121البيهقي458
28خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف بعدهم خلف يسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للبيهقي1897010 : 158البيهقي458
29خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالمدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي2244البيهقي458
30خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق أيمانهم شهادتهم ويشهدون قبل أن يستشهدواعبد الله بن مسعودمسند أبي داود الطيالسي294297أبو داود الطياليسي204
31خير الأمة القرن الذي يلوني ثم الذين يلونهم يأتي قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه تسبق شهادتهعبد الله بن مسعودمسند ابن أبي شيبة214212ابن ابي شيبة235
32خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالبحر الزخار بمسند البزار15981777أبو بكر البزار292
33خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالبحر الزخار بمسند البزار16021782أبو بكر البزار292
34خير أمتي القرن الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودمسند أبي يعلى الموصلي50395103أبو يعلى الموصلي307
35قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم يمينه ويبدر يمينه شهادتهعبد الله بن مسعودمسند أبي يعلى الموصلي50795140أبو يعلى الموصلي307
36خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف قرن يسبق أيمانهم شهادتهم وشهادتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودالمسند للشاشي727789الهيثم بن كليب الشاشي335
37خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم يسبق أيمانهم شهادتهم وشهادتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودالمسند للشاشي728790الهيثم بن كليب الشاشي335
38خيركم قرني ثم الذين يلونهم يخلف قوم تسبق شهاداتهم أيمانهم وأيمانهم شهاداتهمعبد الله بن مسعودالمسند للشاشي729791الهيثم بن كليب الشاشي335
39خير هذه الأمة قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم يسبق أيمانهم شهاداتهم وشهاداتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودالمسند للشاشي730792الهيثم بن كليب الشاشي335
40خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالمسند للشاشي731793الهيثم بن كليب الشاشي335
41خير الناس قرني ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودإتحاف المهرة12291---ابن حجر العسقلاني852
42خير أمتي القرن الذين يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودمصنف ابن أبي شيبة3172732941ابن ابي شيبة235
43قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالمعجم الأوسط للطبراني26642591سليمان بن أحمد الطبراني360
44خير الناس قرني ثم الثاني ثم الثالث ثم يجيء قوم لا خير فيهمعبد الله بن مسعودالمعجم الأوسط للطبراني34453336سليمان بن أحمد الطبراني360
45خير الناس قرني ثم الثاني ثم الثالث ثم يجيء قوم لا خير فيهمعبد الله بن مسعودالمعجم الكبير للطبراني991910058سليمان بن أحمد الطبراني360
46خير هذه الأمة قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم يسبق أيمانهم شهاداتهم وشهاداتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودالمعجم الكبير للطبراني1018710337سليمان بن أحمد الطبراني360
47قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم يسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالمعجم الكبير للطبراني1018810338سليمان بن أحمد الطبراني360
48خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودمعجم ابن الأعرابي138134ابن الأعرابي340
49خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجئ أقوام تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودمعجم ابن الأعرابي879883ابن الأعرابي340
50خير أمتي القرن الذي يلوني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجئ قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودمعجم ابن الأعرابي20552094ابن الأعرابي340
51خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودمعجم ابن الأعرابي20782116ابن الأعرابي340
52خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالعمدة من الفوائد والآثار الصحاح في مشيخة شهدة77شهدة بنت أحمد بن الفرج الدينوري574
53خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالحادي عشر من معجم الشيخة مريم6---ابن حجر العسقلاني852
54خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودمعجم الشيوخ الكبير للذهبي658---شمس الدين الذهبي748
55خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم يأتي قوم يسبق إيمانهم شهادتهم وشهادتهم إيمانهمعبد الله بن مسعودحديث أبي بكر الأزدي34---عبد الله بن حيان الأزدي الموصلي330
56خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودفوائد أبي علي الصواف46---أبو علي الصواف510
57خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودسداسيات الرازي3---محمد بن أحمد بن إبراهيم الرازي330
58خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالسابع من معجم شيوخ الدمياطي3---عبد المؤمن بن خلف الدمياطي705
59خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودمعرفة علوم الحديث للحاكم691 : 41الحاكم النيسابوري405
60خير الناس قرنيعبد الله بن مسعودمعرفة علوم الحديث للحاكم701 : 42الحاكم النيسابوري405
61خير الناس قرنيعبد الله بن مسعودالجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب11431130الخطيب البغدادي463
62خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تسبق أيمانهم شهادتهم ويشهدون قبل أن يستشهدواعبد الله بن مسعودالكفاية في علم الرواية للخطيب4797الخطيب البغدادي463
63خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالسنة لابن أبي عاصم12501469ابن أبي عاصم287
64خير الناس قرني ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالسنة لابن أبي عاصم12511470ابن أبي عاصم287
65أي الناس خير قال قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالشريعة للآجري1164---الآجري360
66خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالشريعة للآجري1165---الآجري360
67خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودتبيين كذب المفتري فيما نسب إلى الأشعري136137ابن عساكر الدمشقي571
68خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف قوم يسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودشرح معاني الآثار للطحاوي40304044الطحاوي321
69قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم يسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودشرح معاني الآثار للطحاوي40334047الطحاوي321
70خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يخلف قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودمشكل الآثار للطحاوي20622462الطحاوي321
71خير أمتي القرن الذي أنا فيه ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودتثبيت الإمامة وترتيب الخلافة لأبي نعيم1---أبو نعيم الأصبهاني430
72قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالتمهيد لابن عبد البر288417 : 300ابن عبد البر القرطبي463
73خير القرون قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثلاث أو أربع ثم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودأحكام القرآن للجصاص240240الجصاص الحنفي370
74خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودحلية الأولياء لأبي نعيم15981600أبو نعيم الأصبهاني430
75خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء أقوام تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودحلية الأولياء لأبي نعيم1006910080أبو نعيم الأصبهاني430
76خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم يسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالأنوار في شمائل النبي المختار1254---الحسين بن مسعود البغوي516
77خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودأخبار أصبهان لأبي نعيم11371 : 392أبو نعيم الأصبهاني430
78أي الناس أفضل قال قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودمعرفة الصحابة لأبي نعيم3134أبو نعيم الأصبهاني430
79خير الناس قرنيعبد الله بن مسعودالاستيعاب في معرفة الأصحاب لابن عبد البر101 : 124ابن عبد البر القرطبي463
80خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالاستيعاب في معرفة الأصحاب لابن عبد البر111 : 124ابن عبد البر القرطبي463
81خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ينشأ أقوام تسبق أيمانهم شهادتهم وشهادتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودتاريخ بغداد للخطيب البغدادي400313 : 509الخطيب البغدادي463
82خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودتاريخ دمشق لابن عساكر52541---ابن عساكر الدمشقي571
83خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يأتي بعد ذلك قوم تسبق شهادتهم أيمانهم وأيمانهم شهادتهمعبد الله بن مسعودتاريخ دمشق لابن عساكر5254249 : 52ابن عساكر الدمشقي571
84خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق أيمانهم شهادتهم وشهادتهم أيمانهمعبد الله بن مسعودتاريخ دمشق لابن عساكر7162465 : 407ابن عساكر الدمشقي571
85خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالتدوين في أخبار قزوين للرافعي77---عبد الكريم الرافعي623
86خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم يجيء قوم يسبق إيمانهم شهادتهم ويشهدون قبل أن يستشهدواعبد الله بن مسعودالتدوين في أخبار قزوين للرافعي1388---عبد الكريم الرافعي623
87قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تبدر شهادة أحدهم بيمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالسفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة2050---ابن أبي خيثمة279
88خير الناس قرني ثم الذين يلونهمعبد الله بن مسعودالسفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة2051---ابن أبي خيثمة279
89قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادتهعبد الله بن مسعودالسفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة2059---ابن أبي خيثمة279



پس ساری دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں مل کربھی صحبت رسول  کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں، امام شافعیؒ سے پوچھا گیا کہ سیدنا امیرمعاویہؓ افضل ہیں یاحضرت عمربن عبدالعزیزؒ؟ توامام شافعیؒ نے جواب دیا کہ سیدنا امیرمعاویہؓ جب نبی علیہ السلام کی معیت میں جہاد پر نکلے توان کے گھوڑے کی ناک میں جومٹی گئی وہ مٹی بھی عمربن عبدالعزیزؒ سے افضل ہے اس لیے علماء کرام نے لکھا ہے کہ ساری دنیا کے اتقیاء، اصفیاء اور اولیاء مل کر بھی کسی ادنی صحابیؓ کے درجے کونہیں پہنچ سکتے۔
پس جن لوگوں نے رسول اللہؐ کی صحبت پائی وہ خوش نصیب حضرات صحابی کہلائے؛ جنھوں نے صحابہؓ کی صحبت پائی وہ تابعین کہلائے اور جنھوں نے تابعین کیص حبت پائی وہ تبع تابعین کہلائے یہ تینوں نسبتیں مندرجہ بالا فرمان نبوی  کی بنا پر خیرکی غمازی کرتی تھیں؛ لہٰذا ہرشخص اس نسبت کے ساتھ پکارا جانا اپنی سعادت سمجھتا تھا؛ پس! صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت کے مشائخ صوفیا کے نام سے مشہور ہوئے حضرت امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق مطابق یہ لفظ دوسری صدی ہجری سے پہلے زبان زدعام تھا۔
سوال نمبر:۴۔ صوفی کا لفظ سب سے پہلے کب استعمال ہوا؟ سنا ہے کہ یہ اہلِ بغداد کی ایجاد ہے؟۔
جواب:حضرت ابونصر سراج طوسیؒ نے تاریخ مکہ کے حوالے سے محمد بن اسحاق بن یسارؒ اور دیگرلوگوں کی روایت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ:"اسلام سے پہلے ایک بار مکہ خالی ہوگیا تھا یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کرنے والا کوئی نہ تھا دوردراز سے ایک صوفی آتا اور بیت اللہ کا طواف کرکے واپس چلا جاتا"۔
تاریخ کے اس حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ نام اہلِ عرب کواسلام سے پہلے بھی معلوم تھا صاحب فضیلت اور صالح لوگ اسی نام سے موصوف ہوتے تھے، واللہ اعلم۔
حضرت حسن بصریؒ جنھوں نے اٹھارہ بدری صحابہؓ کی صحبت کا شرف حاصل کیا اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے باطنی فیض پایا، ان کے وقت میں صوفی کا مستعمل ہونا تویقینی امر ہے، حضرت ابونصر سراج طوسیؒ فرماتے ہیں:

"لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ نام بغدادیوں نے گھڑلیا ہے غلط ہے؛ چونکہ یہ نام توحسن بصریؒ کے عہد میں بھی مستعمل تھا، حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ میں نے طواف کے دوران ایک صوفی کودیکھا اور اسے کچھ دیا، اس نے نہیں لیا اور کہنے لگا، میرے پاس چار دانق پڑے ہیں اور کافی ہیں"۔

(کتاب اللمع فی التصوف:۶۵)

معلوم ہوا کہ صوفی کا لفظ تابعین کے دور میں احیاناً استعمال ہوتا تھا، تبع تابعین کے دور میں نسبتاً زیادہ استعمال ہونے لگا اور ان کے بعد دوسری صدی ہجری سے پہلے زبان زد عام ہوگیا، امام سفیان ثوریؒ اپنے وقت کے ایک شیخ کوابوہاشم صوفی کہا کرتے تھے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے ایک شیخ ابوحمزہ بغدادیؒ کوصوفی کہتے تھے۔
صوفی کون ہوتا ہے؟
حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد عبدالواحد بن زیدؒ سے پوچھا گیا صوفیاء کون ہوتے ہیں؟ فرمایا جواپنی عقلوں کے ذریعہ اپنے ارادوں پر قائم ہوتے ہیں اور اپنے دلوں سے اس پر ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے شر سے بچنے کی خاطر اپنے آقا کومضبوط پکڑے رہتے ہیں۔
حضرت ذوالنون مصریؒ سے پوچھا گیا تو فرمایا: "صوفی وہ ہے جسے جستجو تھکانہ سکے اور محرومیت کی وجہ سے بے چین نہ ہو"۔
حضرت ابومحمدرویمؒ سے پوچھا گیا توفرمایا:"جس کا کردار اس کی گفتار کے موافق ہو"۔
کسی عارف نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے یوں فرمایا کہ صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وگناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہو اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی یاد اس کے دل ودماغ پر چھائی رہے وہ ہمیشہ آخرت کے معاملہ میں متفکر رہتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے حاضر ناظر اور اس کے قریب ترین ہونے کے استحضار نے اُس کو مخلوق سے دور کردیا ہو اور اس کی نگاہ میں سونا اور مٹی برابر ہو۔
حضرت شبلی ؒ نے فرمایا:"صوفی وہ ہے جومخلوق سے کٹے اور اللہ سے جڑے"۔
خلاصہ کلام
پس صوفی وہ ہوتا ہے جس کوجانوروں کی آواز، ہرایک سوزوساز، چڑیوں کی چہک، پھولوں کی مہک، سبزے کی لہک، جواہرات کی دمک، سورج کی چمک، سماء وسمک، درختوں کے رنگ، شیشہ وسنگ، پتھر کی سختی، خوشحالی وبدبختی، زمین کی نرمی، آتش کی گرمی، دریا کی روانی، کواکب آسمانی، پہاڑوں کے ابھار، جنگلوں وبیابانوں کی سبزہ زاریاں، خزاں وبہار، غرض یہ کہ دنیا کی ہروہ چیز جس پر وہ نظرڈالے ایک ہی نادیدہ ہستی یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائے اس میں اس کو اللہ تعالیٰ نظر آئے، یعنی اس کی قدرت وکرشمات کہ جس کے ذریعہ سے وہ اللہ کی ذات کوپالے۔

(تصوف وسلوک:۱۵ تا ۲۲، حضرت مولانا پیرذوالفقار احمد صاحب نقشبندی مدظلہ،ناشر:فریدبک ڈپو، نیودہلی)


تصوف: معانی، مقاصد، ضرورت، فضائل و مسائل (تفصیلی تجزیہ باحوالہ)

**تعارف:**  
تصوف اسلام کا باطنی اور روحانی پہلو ہے جو دل کی صفائی، اللہ سے محبت اور شریعت پر عمل کے ذریعے کمالِ ایمان کی راہ دکھاتا ہے۔ یہ محض رسمیات نہیں بلکہ "احسان" (اللہ کو ایسے عبادت کرنا گویا تم اسے دیکھ رہے ہو) کا عملی اظہار ہے۔

---

### **1. تصوف کے معانی و مفہوم**
- **لغوی معنی:**  
  "صوف" (اون) سے مشتق، کیونکہ ابتدائی صوفیاء سادہ اونی لباس پہنتے تھے، جس سے زہد و قناعت کی علامت ہے۔

- **اصطلاحی تعریفیں:**  
  - **امام جنید بغدادی:** "التصوف استعمال کل خلق سني وترك كل خلق دني" (ہر اچھے اخلاق کو اپنانا اور ہر برے اخلاق کو ترک کرنا)۔  
  - **امام قشیری:** "التصوف صدق التوجه إلی الله تعالى" (اللہ کی طرف مکمل توجہ کی سچائی)۔  
  - **شیخ ابو الحسن الشاذلی:** "التصوف تدريب النفس علی العبودية، وردها لأحكام الربوبية" (نفس کو بندگی کی تربیت دینا اور اسے ربوبیت کے احکام کی طرف لوٹانا)۔  
  - **خلاصہ:** شریعت کی پابندی، اخلاق کی درستگی، دل کی تطہیر اور اللہ سے محبت کا نام۔

---

### **2. تصوف کے مقاصد**
1. **تزکیۂ نفس:**  
   نفس کو برائیوں سے پاک کرنا۔  
   **حوالہ:** القرآن: "قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا" (الشمس: ۹-۱۰)۔  
2. **اللہ سے قربت:**  
   عبادت و ذکر کے ذریعے روحانی قرب حاصل کرنا۔  
   **حوالہ:** حدیث قدسی: "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا" (بخاری)۔  
3. **اخلاقِ حسنہ کی تکمیل:**  
   صبر، شکر، توکل وغیرہ جیسے اوصاف پیدا کرنا۔  
   **حوالہ:** الرسول ﷺ: "إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق" (مسند أحمد)۔  
4. **دنیا سے بے رغبتی (زہد):**  
   مال و منصب کی محبت کو دل سے نکالنا۔  
   **حوالہ:** القرآن: "لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ" (الحدید: ۲۳)۔  

---

### **3. ضرورت و اہمیت**
- **قلب کی زندگی:**  
  ایمان کی حلاوت دل کی صفائی پر منحصر ہے۔  
  **حوالہ:** القرآن: "أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" (الرعد: ۲۸)۔  
- **ریا کاری سے بچاؤ:**  
  تصوف ظاہری عبادت کو باطنی خلوص سے جوڑتا ہے۔  
  **حوالہ:** حدیث: "إنما الأعمال بالنيات" (بخاری)۔  
- **معاشرتی اصلاح:**  
  ایثار، تواضع اور خدمتِ خلق کے ذریعے معاشرے میں پاکیزگی پھیلانا۔  
  **حوالہ:** حدیث: "لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه" (بخاری)۔  

---

### **4. فضائل و برکات**
1. **دل کی روشنی:**  
   ذکر و فکر سے دل منور ہوتا ہے۔  
   **حوالہ:** حدیث: "مثل الذي يذكر ربه والذي لا يذكره، مثل الحي والميت" (بخاری)۔  
2. **معرفتِ الٰہی:**  
   اللہ کی صفات اور افعال کا گہرا ادراک۔  
   **حوالہ:** القرآن: "وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ * وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ" (الذاریات: ۲۰-۲۱)۔  
3. **آخرت میں نجات:**  
   قلبِ سلیم والوں کے لیے خاص امان۔  
   **حوالہ:** القرآن: "يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ * إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ" (الشعراء: ۸۸-۸۹)۔  

---

### **5. اہم مسائل و تنبیہات**
1. **شریعت سے انحراف:**  
   - **مسئلہ:** کچھ صوفیاء بدعات (جیسے مزاروں پر غیر شرعی رسومات) میں مبتلا ہو گئے۔  
   - **حل:** امام ابن تیمیہ کا قول: "مَنْ تَصَوَّفَ وَلَمْ يَتَفَقَّهْ فَقَدْ تَزَنْدَقَ" (جو صوفی ہو اور فقیہ نہ ہو، وہ زندیق ہے)۔  
2. **وحدت الوجود کا غلط عقیدہ:**  
   - **مسئلہ:** "حلول" یا "اتحاد" کا نظریہ (اللہ کا مخلوق میں حلول کرنا)۔  
   - **حل:** القرآن: "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ" (الشوریٰ: ۱۱)۔  
3. **جھوٹے شیوخ:**  
   - **مسئلہ:** کرامات کے دعوے داروں نے عوام کو گمراہ کیا۔  
   - **حل:** حدیث: "مَنْ تَكَلَّفَ مَا لَا يَعْلَمُ قَلَبَ اللهُ عِلْمَهُ جَهْلًا" (طبرانی)۔  
4. **ترکِ سنت:**  
   - **مسئلہ:** بعض صوفیاء نے نماز، روزہ چھوڑ کر "مجذوبی" کو ترجیح دی۔  
   - **حل:** القرآن: "وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ" (لقمان: ۱۷)۔  

---

6. حقیقی تصوف کی شرائط (علمائے حق کے مطابق)
1. کتاب و سنت کی پابندی:
   امام مالک: "مَن تَصَوَّفَ وَلَمْ يَتَفَقَّهْ فَقَدْ تَزَنْدَقَ"۔  
2. **علماء کی نگرانی:**  
   بغیر علم کے ریاضت خطرناک ہے۔  
3. اخلاص لله:**  
   ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے۔  
4. اخلاقی تطہیر:
   کینہ، تکبر، حرص سے پاکیزگی۔  

---

7. تصوف کے مشہور سلاسل (مع شرعی حیثیت)
| سلسلہ       | بانی          | خصوصیت                  | شرعی حیثیت               |
|-------------|---------------|--------------------------|--------------------------|
| قادریہ      | شیخ عبدالقادر جیلانی | زہد و علم               | معتبر (کتاب و سنت پر مبنی) |
| چشتیہ       | خواجہ معین الدین چشتی | محبت و خدمتِ خلق        | معتبر                   |
| نقشبندیہ   | شیخ بہاءالدین نقشبند | خاموش ذکر               | معتبر                   |
| سہروردیہ   | شیخ شہاب الدین سہروردی | آدابِ شریعت کی تاکید    | معتبر                   |

> تنبیہ: ہر سلسلہ کا معیار شریعت کی پابندی ہے، نہ کہ شخصی رسومات۔

---

8. جدید دور میں تصوف کی ضرورت:
- مادہ پرستی کا علاج: روحانیت انسان کو پریشانیوں سے نجات دیتی ہے۔  
- نفسانی امراض کا تریاق: حسد، بغض، تکبر سے حفاظت۔  
- معاشرتی امن: ایثار، درگزر اور محبت کا فروغ۔  

---

خلاصہ و نتیجہ:
حقیقی تصوف شریعتِ مطہرہ کا لازمی جز ہے، جس کا مقصد "إحسان" (عبادت میں خلوص و کیفیت) حاصل کرنا ہے۔ یہ جائز ہے بشرطیکہ:  
1. کتاب و سنت کی مکمل پابندی ہو۔  
2. بدعات اور شرکیہ امور سے پاک ہو۔  
3. کسی ولی کی غیر مشروط اطاعت نہ ہو۔  

حوالہ جات کی کتب:
- قرآن کریم  
- صحاح ستہ (بخاری، مسلم، وغیرہ)  
- "احیاء علوم الدین" (امام غزالی)  
- "الرسالۃ القشیریۃ" (امام قشیری)  
- "فتح الربانی" (شیخ عبدالقادر جیلانی)  

> اللہ تعالیٰ ہمیں ظاہر و باطن کی درستگی اور صحیح روحانیت کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

No comments:

Post a Comment