قرآن وحدیث میں مؤمنین کو مخاطب کرنے کے لیے کئی الفاظ (باطنی صفات وخصوصیات) استعمال کئے گئے ہیں۔ مثلاً:
(1) ذاکرین (2) صابرین (3) خاشعین (4) صادقین (5) قانتین (6) موقنین (7) مخلصین (8) محسنین (9) خائفین (10) وجلین (11) عابدین (12) متوکلین (13) متقین (14) مقربین (15) ابرار (16) فقراء (17) عباد (18) اولیاء۔
[تفصیلی دلائل نیچے ملاحظہ فرمائیں]
امام حاکمؒ نے فرمایا: "رسول اللہ ﷺ نے اس گروہ کو اسی کے ساتھ بیان کیا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان صفات(خصوصیات) والے گروہوں میں سے مخصوص کیا ہے۔ لہٰذا جس میں یہ صفات پائی جائیں وہ اس نام تصوف کا مستحق ہے۔
حوالہ
قال الحاكم: «وقد وصف رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الطائفة بما خصهم الله تعالى به من بين الطوائف بصفات فمن وجدت فيه تلك الصفات استحق بها اسم التصوف»
(1) ذاکرین (ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے)
حوالہ:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَا : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَ اللَّيْلِ وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّيَا رَكْعَتَيْنِ جَمِيعًا كُتِبَا مِنَ الذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ " .
ترجمہ:
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو رات کو بیدار ہو اور اپنی بیوی کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعتیں پڑھیں تو وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں میں لکھے جائیں گے۔
[سنن ابن ماجه:1335، سنن أبي داود:1451]
القرآن:
اور (اے پیغمبر) دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو۔ یقینا نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ ایک ذکر(نصیحت) ہے ان لوگوں کے لیے جو ذاکرین(یعنی نصیحت یاد رکھنے ماننے والے) ہیں۔
[سورۃ ھود:114]
بیشک فرمانبردار مرد ہوں یا فرمانبردار عورتیں، مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے۔
[سورۃ الاحزاب:35 ]
(2) صابرین (اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمابرداری میں ہر مشکل وکٹھن دور سے گذر کر اس کی رضا وخشنودی حاصل کرنے والے)
حوالہ:
الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ
وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
ترجمہ:
یہ لوگ بڑے صبر کرنے والے ہیں، سچائی کے خوگر ہیں، عبادت گزار ہیں (اللہ کی خوشنودی کے لیے) خرچ کرنے والے ہیں، اور سحری کے اوقات میں استغفار کرتے رہتے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:17]
(3) خاشعین (عاجزی وانکساری کرنے والے)
حوالہ:
وَاستَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلوٰةِ ۚ وَإِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلّا عَلَى الخٰشِعينَ {2:45}
ترجمہ:
اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی سے پڑھنے) والے ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:45]
(4) صادقین (سچ بولنے والے)
حوالہ:
قالَ اللَّهُ هٰذا يَومُ يَنفَعُ الصّٰدِقينَ
صِدقُهُم ۚ لَهُم جَنّٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ
رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {5:119}
ترجمہ:
اللہ کہے گا کہ : یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا۔ ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہے اور یہ اس سے خوش ہیں۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔
[سورۃ المائدۃ:119]
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكونوا مَعَ الصّٰدِقينَ {9:119}
ترجمہ:
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔
[سورۃ التوبۃ:119]
(5) قانتین (اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والے)
حوالہ:
حٰفِظوا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَالصَّلوٰةِ الوُسطىٰ وَقوموا لِلَّهِ قٰنِتينَ {2:238}
ترجمہ:
تمام نمازوں کا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا، اور اللہ کے سامنے باادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔
[سورۃ البقرۃ:238]۔
الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ
وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
ترجمہ:
یہ لوگ بڑے صبر کرنے والے ہیں، سچائی کے خوگر ہیں، عبادت گزار ہیں (اللہ کی خوشنودی کے لیے) خرچ کرنے والے ہیں، اور سحری کے اوقات میں استغفار کرتے رہتے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:17]
(6) موقنین (اللہ تعالیٰ پر یقین وبھروسہ کرنے والے)
حوالہ:
قالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما بَينَهُما ۖ إِن كُنتُم موقِنينَ {26:24}
ترجمہ:
موسیٰ نے کہا : وہ سارے آسمانوں اور زمین کا، اور ان ساری چیزوں کا پروردگار ہے جو ان کے درمیان پائی جاتی ہیں، اگر تم کو واقعی یقین کرنے والے ہو۔
[سورۃ الشوریٰ:26]
رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما بَينَهُما ۖ إِن كُنتُم موقِنينَ {44:7}
ترجمہ:
جو سارے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان ہر چیز کا رب ہے، اگر تم واقعی یقین کرنے والے ہو۔
[سورۃ الدخان:7]
(7) مخلصین (خالص اللہ ہی کی عبادت کرنے والے)
حوالہ:
إِلّا عِبادَكَ مِنهُمُ المُخلَصينَ
{15:40}{37:40}{37:74}{37:128}{37:160}{37:169}{38:83}
ترجمہ:
سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں ان میں سے تو نے اپنے لیے مخلص برگزیدہ بنا لیا ہو۔ (ان پر شیطان کا زور نہیں چلتا)
[سورۃ الحجر:40، سورۃ الصافات:40، 74، 128، 160، 169، سورۃ ص:83]
(8) محسنین (خوب اچھی طرح عبادت کرنے والے)
حوالہ:
فَـٔاتىٰهُمُ اللَّهُ ثَوابَ الدُّنيا وَحُسنَ ثَوابِ الءاخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ
يُحِبُّ المُحسِنينَ {3:148}
ترجمہ:
پھر دیا اللہ نے ان کو ثواب دنیا کا اور خوب ثواب آخرت کا اور اللہ محبت رکھتا ہے
نیک کام کرنے والوں سے.
فَأَثٰبَهُمُ اللَّهُ بِما قالوا جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ
فيها ۚ وَذٰلِكَ جَزاءُ المُحسِنينَ {5:85}
ترجمہ:
پھر انکو بدلے میں دیے اللہ نے اس کہنے پر ایسے باغ کہ جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں
رہا کریں ان میں ہی اور یہ ہے بدلا نیکی کرنے والوں کا
لَيسَ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُناحٌ فيما طَعِموا إِذا مَا
اتَّقَوا وَءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَءامَنوا ثُمَّ
اتَّقَوا وَأَحسَنوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُحسِنينَ {5:93}
ترجمہ:
جو لوگ ایمان لائے اور کام نیک کئے ان پر گناہ نہیں اس میں جو کچھ پہلے کھا چکے جب
کہ آئندہ کو ڈر گئے اور ایمان لائے اور عمل نیک کئے پھر ڈرتے رہے اور یقین کیا پھر
ڈرتے رہے اور نیکی کی اور اللہ دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو.
وَلا تُفسِدوا فِى الأَرضِ بَعدَ إِصلٰحِها وَادعوهُ خَوفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ
رَحمَتَ اللَّهِ قَريبٌ مِنَ المُحسِنينَ {7:56}
ترجمہ:
اور مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اس کو ڈر اور توقع سے، بیشک اللہ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے۔
وَاصبِر فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُحسِنينَ {11:115}
ترجمہ:
اور صبر کر البتہ اللہ ضائع نہیں کرتا ثواب نیکی کرنے والوں کا.
وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ ءاتَينٰهُ حُكمًا وَعِلمًا ۚ وَكَذٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ {12:22} {28:14}
ترجمہ:
اور جب پہنچ گیا اپنی قوت کو دیا ہم نے اسکو حکم اور علم، اور ایسا ہی بدلہ
دیتے ہیں ہم نیکی والوں کو.
لَن يَنالَ اللَّهَ لُحومُها وَلا دِماؤُها وَلٰكِن يَنالُهُ التَّقوىٰ مِنكُم ۚ
كَذٰلِكَ سَخَّرَها لَكُم لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم ۗ وَبَشِّرِ
المُحسِنينَ {22:37}
ترجمہ:
اللہ کو نہیں پہنچتا اُن کا گوشت اور نہ اُن کا لہو لیکن اُسکو پہنچتا ہے تمہارے دل
کا ادب، اسی طرح اُنکو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی پڑھو اس بات پر
کہ تم کو راہ سجھائی اور بشارت سنا دے نیکی والوں کو.
(9) خائفین (اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب سے ڈرنے والے)
حوالہ:
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں سوائے خائفین(خوف رکھنے والوں) کے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔
[سورۃ البقرۃ:114]
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَمَنْ قَرَأَ سُورَةَ الزُّمَرِ لَمْ يَقْطَعِ اللَّهُ رَجَاهُ ، وَأَعْطَاهُ ثَوَابَ الْخَائِفِينَ الَّذِينَ خَافُوا اللَّهَ ، عَزَّ وَجَلَّ " .
ترجمہ:
حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں : اور جو شخص پڑھے سورة الزمر ہرگز نہ توڑے گا الله امید اس کی ، اور عطا کرے گا اسے ثواب خائفین کا جو خوف رکھتے ہیں الله عزوجل کا.
[الوسيط في تفسير القرآن المجيد » تفسير سورة الزمر ... رقم الحديث: 793]
(10) وجلین (اللہ تعالیٰ کے ڈر خوف سے کپکپا جانے والے)
حوالہ:
مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔
[سورۃ الانفال:2]
(11) عابدین (اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے)
القرآن :
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ : اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلا عبادت کرنے والا میں ہوتا۔
[سورۃ نمبر 43 الزخرف ، آیت نمبر 81]
بیشک اس (قرآن) میں عبادت گزار لوگوں کے لیے کافی پیغام ہے۔
[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 106]
اور ان سب کو ہم نے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 73]
(12) متوکلین (اللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ کرنے والے)
القرآن :
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے (ان سے) کہو کہ : ”ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ تم اللہ کو چھوڑ کر جن (بتوں) کو پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کیا یہ اس کے پہنچائے ہوئے نقصان کو دور کرسکتے ہیں ؟ یا اگر اللہ مجھ پر مہربانی فرمانا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟“ کہو کہ ”میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“
[سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 38]
اور آخر ہم کیوں اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں، جبکہ اس نے ہمیں ان راستوں کی ہدایت دے دی ہے جن پر ہمیں چلنا ہے؟ اور تم نے ہمیں جو تکلیفیں پہنچائی ہیں، ان پر ہم یقینا صبر کریں گے، اور جن لوگوں کو بھروسہ رکھنا ہو، انہیں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 14 ابراهيم ، آیت نمبر 12]
(13) متقین (گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کرنے والے)
حوالہ:
القرآن:
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے۔ جو بےدیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة ، آیت نمبر 2 - ]
(14) مقربین/مقربون (اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے کہ جن کوقریب کیا گیا ہو)
القرآن :
اور جو سبقت لے جانے والے ہیں، وہ تو ہیں ہی سبقت لے جانے والے۔ وہی ہیں جو اللہ کے خاص مقرب بندے ہیں۔
[سورۃ نمبر 56 الواقعة ، آیت نمبر 10]
اس سے مراد انبیاء کرام اور وہ اعلی درجے کے پاکباز حضرات ہیں جنہوں نے تقوی کا سب سے اونچا مقام پایا ہوگا۔
القرآن:
پھر اگر وہ (مرنے والا) اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہو۔ تو (اس کے لیے) آرام ہی آرام ہے، خوشبو ہی خوشبو ہے، اور نعمتوں سے بھرا باغ ہے۔
[سورۃ نمبر 56 الواقعة ، آیت نمبر 88]
(15) ابرار (اللہ تعالیٰ کے نیک بندے)
القرآن:
یقین رکھو کہ نیک لوگ یقینا بڑی نعمتوں میں ہوں گے۔
[سورۃ نمبر 82 الإنفطار ، آیت نمبر 13]
[سورۃ نمبر 83 المطففين ، آیت نمبر 22]
القرآن:
خبردار ! نیک لوگوں کا اعمال نامہ عِلّیّین میں ہے۔
[ سورۃ نمبر 83 المطففين ، آیت نمبر 18]
علیین کے لفظی معنی بالا خانوں کے ہیں۔ یہ اس جگہ کا نام ہے جہاں مومنوں کی روحیں مرنے کے بعد بھیجی جاتی ہیں اور وہیں پر ان کا اعمال نامہ بھی رہتا ہے۔
القرآن:
بیشک نیک لوگ ایسے جام سے مشروبات پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی۔
[سورۃ نمبر 76 الانسان ، آیت نمبر 5]
(16) فقراء (اللہ تعالیٰ ہی کے بھکاری بندے)
القرآن :
(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لیے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن(حیاء دار) ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے، تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 273]
الحدیث:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: اشْتَكَى فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ عَلَيْهِمْ أَغْنِيَاءَهُمْ، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ أَلَا أُبَشِّرُكُمْ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ، خَمْسِمِائَةِ عَامٍ» ، ثُمَّ تَلَا مُوسَى هَذِهِ الْآيَةَ: {وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ} [الحج: 47]
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالداروں کو ان پر فضیلت دی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فقراء کی جماعت! کیا میں تم کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں کہ غریب مومن، مالدار مومن سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، (پانچ سو سال پہلے) پھر موسیٰ بن عبیدہ نے یہ آیت تلاوت کی: اور بیشک ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار سال کے برابر ہے جسے تم شمار کرتے ہو۔ [سورۃ الحج: ١٤٧]
[سنن ابن ماجه:4124، صحيح الجامع الصغير:7976]
[صحيح كنوز السنة النبوية: ص29]
(17) عباد (اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنے والے)
حوالہ:
یقین رکھو کہ جو میرے بندے ہیں، ان پر (اے ابلیس!) تیرا کوئی زور نہیں چلے گا، سوائے ان گمراہ لوگوں کے جو تیرے پیچھے چلیں گے۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 42]
میرے جو بندے ایمان لائے ہیں، ان سے کہہ دو کہ وہ نماز قائم کریں، اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے پوشیدہ طور پر بھی اور علانیہ بھی (نیکی کے کاموں میں) خرچ کریں (اور یہ کام) اس دن کے آنے سے پہلے پہلے (کرلیں) جس میں نہ کوئی خریدو فروخت ہوگی، نہ کوئی دوستی آئے گی۔
[سورۃ نمبر 14 ابراهيم ، آیت نمبر 31]
یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو متقی ہو۔
[سورۃ نمبر 19 مريم ، آیت نمبر 63]
میرے بندوں میں سے ایک جماعت یہ دعا کرتی تھی کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں، پس ہمیں بخش دیجیے، اور ہم پر رحم فرمایے، اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون ، آیت نمبر 109]
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو (1)زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں (2)اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔ (3)اور جو راتیں اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں، اور (کبھی) قیام میں۔ (4)اور جو یہ کہتے ہیں کہ : ہمارے پروردگار ! جہنم کے عذاب کو ہم سے دور رکھیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عذاب وہ تباہی ہے جو چمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یقینا وہ کسی کا مستقر اور قیام گاہ بننے کے لیے بدترین جگہ ہے۔ (5)اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، بلکہ ان کا طریقہ اس (افراط وتفریط) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے۔ (6)اور جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے، (7)اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے، (8)اسے ناحق قتل نہیں کرتے، (9)اور نہ وہ زنا کرتے ہیں، (10)اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
[سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 63 - 68]
القرآن:
یہ مشروبات ایک ایسے چشمے کے ہوں گے جو اللہ کے (نیک) بندوں کے پینے کے لیے مخصوص ہے، وہ اسے (جہاں چاہیں گے) آسانی سے بہا کرلے جائیں گے۔
[سورۃ نمبر 76 الانسان ، آیت نمبر 6]
تفسیر:
اللہ تعالیٰ جنتیوں کو یہ اختیار عطا فرمائیں گے کہ وہ اس چشمے کو جہاں چاہیں لے جاسکیں گے، جس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اسی نہر کی شاخیں آسانی سے جہاں چاہیں نکال لیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جس جگہ چاہیں زمین سے وہ چشمہ جاری کردیں۔
(18) اولیاء (اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے)
حوالہ:
اللہ پاک نے فرمایا:
یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ جو ایمان لاتے اور(نافرمانی سے)پرہیز کرتے ہیں۔
[سورۃ یونس:62، 63]
اللہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
قرآن والے، الله والے اور اس کے خاص(بندے)ہیں۔
[ابن ماجہ:215]
جنہیں جب بھی دیکھو الله کا ذکر(باتیں)کرتے رہتے ہیں۔
[کتاب الأولیاء(امام)ابن ابی الدنیا: حدیث#15]
خبردار! اولیاء الله(وہ)نمازی ہوتے ہیں۔ جو5نمازیں قائم کرتا ہو جو اس پر فرض کی گئی ہیں، اور رمضان کے روزے رکھتا ہو، اور اپنے روزے پر ثواب کی امید رکھتا ہو، اور وہ یوں سمجھتا ہو کہ اس پر یہ حق ہے، اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اس پر ثواب کی امید رکھتا ہو، اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو جن سے الله نے منع کیا ہے۔۔۔
[حاکم:7666،طبرانی:101، بیھقی:6723]
۔۔۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو محض الله کی رضا کیلئے آپس میں محبت کرتے ہوں گے حالانکہ ان کا آپس میں کوئی رشتہ نہ ہوگا اور نہ ہی آپس میں مالی لین دین ہوگا، الله کی قسم ان کے چہروں سے نور چمک رہا ہوگا اور وہ نور(کے منبروں)پر ہوں گے، جب لوگ خوفزدہ اور غمزدہ ہوں گے انہیں کوئی خوف اور غم نہ ہوگا۔
[ابوداؤد:3527]
اپنے نفس و باطن کا تصفیہ والے مومنوں کو، جو ان اچھی صفات وخصوصیات کے حامل ہوں، صوفی کہا جانے لگا۔
حوالہ
وَقَال بعَضُهُم: نِسْبةٌ إلى لِبْسِ الصوّف، وهذا صحَيحٌ من حَيْثُ اللَّغَة
ترجمہ:
اور ان میں سے بعض نے کہا: اُون (کا لباس) پہننے کی طرف نسبت میں (صوفی کہا جانے لگا)، اور یہ زبان کے لحاظ سے صحیح ہے۔
[الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي (م748ھ) : صفحہ40]
صُوفیاء کے لفظِ صُوف(اُون)کی اصل:
(1)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(1)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«كَانَ عَلَى مُوسَى يَوْمَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ كِسَاءُ صُوفٍ، وَجُبَّةُ صُوفٍ، وَكُمَّةُ صُوفٍ، وَسَرَاوِيلُ صُوفٍ، وَكَانَتْ نَعْلَاهُ مِنْ جِلْدِ حِمَارٍ مَيِّتٍ»۔
(2)حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور حسن بصریؒ سے رسول الله ﷺ کے متعلق فرماتے ہیں:
كان يركَبُ الحمارَ ، ويخصِفُ النعلَ ، ويرفَعُ القميصَ ، و يلبَسُ الصوفَ ، ويقولُ : من رغِبَ عن سنَّتِي فليسَ منِّي.
ترجمہ:
گدھے پر سواری کرتے، جوتا گانٹھ لیتے، قمیص کو پیوند لگاتے، اُون کا لباس پہنتے اور فرماتے: جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ میرا(امتی)نہیں۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:2130، صحيح الجامع الصغير:4946]
مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848 ترمذی:1017 ابن ماجہ:4178]
ترجمہ:
جس دن موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے رب نے گفتگو کی اس دن موسیٰ (علیہ السلام) کے بدن پر پرانی چادر، اونی جبہ، اونی ٹوپی، اور اونی سراویل (پائجامہ) تھا اور ان کے جوتے مرے ہوئے گدھے کے چمڑے کے تھے۔
[سنن الترمذي:1734]
[وابن عرفة في جزئه (39)، والبزار (2031)، وأبو يعلى (4983)، والآجرى (688) والحاكم (1/ 28) و (2/ 379)]
قَالَ الْحَاكِمُ: وَهَذَا حَدِيثٌ كَبِيرٌ فِي التَّصَوُّفِ۔
ترجمہ:
امام حاکم نے کہا: یہ تصوف پر ایک عظیم حدیث ہے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية:76]
تشریح:
لعدم وجدانه مَا هُوَ أرفع أَو لقصد التَّوَاضُع وَترك التنعم أَو أَنه إتفاقي۔
ترجمہ:
اس لیے کہ اس نے اسے برتر نہیں پایا، یا اس لیے کہ اس نے عاجزی کا ارادہ کیا اور نفس کے لطف اندوز ہونے کو نظرانداز کیا، یا اس لیے کہ یہ ایک اتفاق ہے۔
[التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي:2/ 204]
قال ابن العربي: إنما جعل ثيابه كلها صوفا لأنه كان بمحل لم يتيسر له فيه سواه فأخذ باليسر وترك التكليف والعسر وكان من الاتفاق الحسن أن آتاه الله تلك الفضيلة وهو على تلك اللبسة التي لم يتكلفها۔ وقال الزين العراقي: يحتمل كونه مقصودا للتواضع وترك التنعم أو لعدم وجود ما هو أرفع ويحتمل أنه اتفاقي لا عن قصد بل كان يلبس كل ما يجد كما كان نبينا يفعل۔
ترجمہ:
ابن العربی کہتے ہیں: اس نے اپنے تمام کپڑوں کو اون بنایا، کیونکہ وہ ایسی جگہ پر تھا جہاں اسے کچھ نہیں ملتا تھا، اس لیے اس نے آسانی اختیار کی اور ذمہ داری اور مشقت کو چھوڑ دیا۔ امام الزین العراقی نے کہا: ممکن ہے کہ اس کا مقصد عاجزی اور لذت کو ترک کرنا ہو یا کسی اعلیٰ چیز کی عدم موجودگی کے لیے ہو۔
[فيض القدير-المناوي:6203 (4/583)]
بأنّهُ الغالِب عَلَى مَنْ طلبَ خُشَونَةَ العَيْشِ والتَّقَلُّلِ مِنَ الدُّنْيا. والتَّقَشفِ فيها. من تركَ الناعمَ من الثيابِ، ويَقنَعُ بالخَشِن منها. ولبس الصوفِ والقطنِ غالبٌ في هذه الحالةِ. والصوفُ أغلبُ لعمومِ وجودهِ، وخشونتُه أكثر من خشونةِ القطنِ.
ترجمہ:
کہ یہ ان لوگوں پر غالب ہے جو تنگ زندگی اور دنیا سے کم تر چاہتے ہیں۔ اور اس میں کفایت شعاری. جس نے عمدہ لباس کو ترک کیا اور موٹے لباس سے مطمئن ہو گیا۔ اور اس معاملے میں اون اور سوتی پہننا غالب ہے۔ اون اس کے وجود میں سب سے زیادہ عام ہے، اور اس کی کھردری روئی کی کھردری سے زیادہ ہے۔
[الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي (م748ھ) : صفحہ40]
كان يركَبُ الحمارَ ، ويخصِفُ النعلَ ، ويرفَعُ القميصَ ، و يلبَسُ الصوفَ ، ويقولُ : من رغِبَ عن سنَّتِي فليسَ منِّي.
ترجمہ:
گدھے پر سواری کرتے، جوتا گانٹھ لیتے، قمیص کو پیوند لگاتے، اُون کا لباس پہنتے اور فرماتے: جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ میرا(امتی)نہیں۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:2130، صحيح الجامع الصغير:4946]
مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848 ترمذی:1017 ابن ماجہ:4178]
اورارشاد فرماتے: اگر مجھے ایک دست گوشت کی طرف دعوت دی جائے تو اُسے بھی قبول کر لوں گا۔ اور اگر بکری کا ایک پایہ ہدیہ کیا جائے تو وہ بھی قبول کر لوں گا۔
[صحيح البخاري:2568، السنن الكبرى للنسائي:6574، شرح السنة للبغوي:3674]
بکریاں باندھتے، اور مہمانوں کیلئے مراعات لاتے۔
[حاکم:204 بیھقی:4188]
اور زمیں پر کھاتے اور فرماتے: میں تو بس ایک بندہ ہوں کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:995 الزهد لهناد بن السري:2/411]
[حاکم:204 بیھقی:4188]
اور زمیں پر کھاتے اور فرماتے: میں تو بس ایک بندہ ہوں کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:995 الزهد لهناد بن السري:2/411]
حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ رسول ﷲ ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’رسول ﷲ ﷺ بھی انسانوں میں ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں خود جوں تلاش کر لیتے ( کہ کسی کے کپڑوں سے نہ آگئی ہو ) بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے، اپنا کپڑا سِی لیتے، اپنا کام خود کرتے، اپنا جوتا گانٹھ لیتے اور وہ تمام کام سر انجام دیتے جو مرد اپنے گھروں میں انجام دیتے ہیں او رگھر والوں کی خدمت کرتے، جب مؤذن کی آواز سنتے تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
[صحيح ابن حبان:5675+5677]
مسند أبي داود الطيالسي:1480، مسند إسحاق بن راهويه:1550، مسند أحمد:26048، الزهد لأحمد بن حنبل:8، مسند البزار:326، الزهد لهناد بن السري:2/408، صحيح الأدب المفرد: ص203-204، صحيح صحيح البخاري+5363+6039، أخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني:121-123، المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة:18/185]
عن خالد بن حدير الأسلمي، " أنه دخل على أبي الدرداء وتحته فراش من جلد أو صوف، وعليه كساء صوف وسبتية صوف وهو وجع وقد عرق۔
فقال: لو شئت كسيت فراشك بورق وكساء مرعزي مما يبعث به أمير المؤمنين۔
قال: «إن لنا دارا، وإنا لنظعن إليها ولها نعمل»
ترجمہ:
خالد بن حضیر الاسلمی کی روایت میں ہے کہ وہ حضرت ابو الدرداءؓ کے پاس داخل ہوئے اور ان کے نیچے چمڑے یا اون کا گدا تھا اور اس کے پاس اونی لباس اور اونی کا سبت تھا اور انہیں پسینہ آ رہا تھا۔ کہا: اگر آپ چاہو تو اپنے بستر کو کاغذ اور ایک آرام دہ کپڑے سے ڈھانپ لو، جسے امیر المومنین بھیجے گا۔
آپؓ نے فرمایا: ہمارے پاس ایک (آخرت کا) گھر(جنت) ہے، ہم اس میں جائیں گے اور اس کے لیے کام کریں گے۔
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة:1/ 222]
سلفِ صالحین ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے ان میں سے مختلف الفاظ وقتا فوقتا استعمال کیا کرتے تھے؛ تاہم دو الفاظ (فقراء، عباد) نے زیادہ قبولیت پائی، دونوں کی ایک ایک مثال درجِ ذیل ہے:
(۱)ایک موقع پر حضرت حسن بصریؒ نے ارشاد فرمایا:
"يَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ إنَّكُمْ تُكْرَمُونَ بِاَللَّهِ وَتُعْرَفُونَ بِاَللَّهِ تَعَالَى فَانْظُرُوا كَيْفَ تَكُونُونَ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى إذَا خَلَوْتُمْ بِهِ"۔
ترجمہ:
اے فقراء کی جماعت! بے شک تم اللہ کو پہچانتے ہو اور اللہ کی تعظیم کرتے ہو؛ پس! دیکھو کہ جب تم خلوت میں ہو تو اللہ کے ساتھ کیسے ہو۔
[الرسالۃ القشیریۃ:۱/۱۲۳، شاملہ، موقع الإسلام،المؤلف: أبوسعيد محمد بن محمد الخادمي،المتوفى ۱۱۵۶ھ]
حضرت جنید بغدادیؒ نے بھی یہ فرمایا۔
[بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية: ج3 ص33]
(۲)علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت عمر بن الخطابؓ میں صفحہ نمبر:۲۱۶/ پر لکھا ہے:
"قَالَتِ الشِّفَاءُ ابْنَةُ عَبْدِ اللَّهِ. وَرَأَتْ فِتْيَانًا يَقْصِدُونَ فِي الْمَشْي وَيَتَكَلَّمُونَ رُوَيْدًا فَقَالَتْ: مَا هؤلاء؟ فَقَالُوا: نُسَّاكٌ (یعنی عباد)"۔
ترجمہ:
شفاءؓ (بنت عبداللہ) نے چند نوجوانوں کو دیکھا کہ ان کی رفتار اور گفتار میں آہستگی پائی جارہی تھی، دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں، بتایا گیا کہ یہ عباد ہیں۔
[جامع الأحاديث-السيوطي:30558، الطبقات الكبرى - ط الخانجي:3/ 270]
[دراسة نقدية في المرويات الواردة في شخصية عمر بن الخطاب وسياسته الإداريةؓ:۱/۳۵۸،المؤلف: عبد السلام بن محسن آل عيسى، شاملہ،موقع مكتبة المدينة الرقمية،الناشر: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية]
فقراء اُن لوگوں کو کہتے ہیں جن میں فقر ہو اور عباد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو زیادہ عبادت گزار ہوں؛ چونکہ یہ دونوں لفظ اپنے موصوف کی صفت کی طرف اشارہ کرتے تھے؛ لہٰذا سلفِ صالحین اپنی باطنی صفات ومقامات پر نام پکارے جانے میں ریاکاری سے ڈرتے تھے، طبیعت کا انشراح اور ادب کا تقاضا یہی تھا کہ عادات ظاہرہ پر نام پکارا جائے، ظاہراً ان حضرات میں قدر مشترک صوف کا لباس تھا جسے یہ سنت سمجھ کر پہنتے تھے دو احادیث درجِ ذیل ہیں:
(۱)شیخ ابوزرعہ طاہر بن محمد بن طاہر نے اپنے مشائخ کی اسناد کے حوالے سے حضرت انس بن مالکؓ کی حدیث بیان کی ہے:
"كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس الصوف، ويركب الحمار"۔
ترجمہ:
نبی اکرمﷺ اون کا لباس پہنتے اور گدھے کی سواری کرتے تھے۔
[الزهد للمعافى بن عمران الموصلي:91 (۱/۹۷) شاملہ، موقع جامع الحديث]
تخريج الحديث
|
كان يركَبُ الحمارَ ، ويخصِفُ النعلَ ، ويرفَعُ القميصَ ، و يلبَسُ الصوفَ ، ويقولُ : من رغِبَ عن سنَّتِي فليسَ منِّي
الراوي: أبو أيوب الأنصاري و الحسن البصري المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 4946
خلاصة حكم المحدث: حسن
خلاصة حكم المحدث: حسن
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/47
خلاصة حكم المحدث: غريب من هذا الوجه وإسناده جيد
خلاصة حكم المحدث: غريب من هذا الوجه وإسناده جيد
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة- الصفحة أو الرقم: 5/159
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين
المحدث: الوادعي - المصدر: الصحيح المسند -الصفحة أو الرقم: 824
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه
امام سری ؒ (م251/253ھ) نے فرمایا:
التصوُّفُ اسمٌ لثلاثة معانٍ؛ أحدها، أنَّ الصوفيَّ [هو] الَّذي لا يطفئُ نورُ معرفته نورَ ورعه، ولا يتكلَّم فِي علمٍ باطنٍ ينقضُه عليه ظاهرُ الكتاب، ولا تحملُه الكراماتُ على هتك أستار المحرَّمات۔
ترجمہ:
تصوف ایک ایسا نام ہے جس کے تین معنیٰ ہیں، بےشک صوفی وہ ہے (۱)جس کے علم کی روشنی اس کی تقویٰ کی روشنی کو بجھا نہ دے، (۲)جو کسی ایسے باطنی علم کی بات نہ کرے جو کتاب کے ظاہر سے متصادم ہو، (۳)اور جس کی کرامتیں نہیں اٹھاتی(اکساتی) ہیں حرام کردہ باتوں کے پردوں کی بے احترامی پر۔
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان-سبط ابن الجوزي (م654ھ) : ج15 / ص318]
[الرسالة القشيرية(م465ھ) : 1 /45]
حضرت بندار بن حسن (م353ھ) نے فرمایا:
إِن الصُّوفِي من اخْتَارَهُ الله لنَفسِهِ فصافاه وَعَن نَفسه براه وَلم يردهُ إِلَى تعْمل وتكلف بِدَعْوَى وصوفي على زنة عوفي أَي عافاه الله وكوفي أَي كافأه الله وجوزي أَي جازاه الله فَفعل الله تَعَالَى ظَاهر على اسْمه۔
ترجمہ:
صوفی وہ ہے جسے اللہ اپنے لیے چنتا ہے اور اسے صاف کرتا ہے، اور وہ اپنے نفس کو نیک کرتا ہے، اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ وہ کام کرے اور اسے دعویٰ سونپا جائے۔ اور صوفی (لفظ) عوفی کے وزن پر جس کا مطلب ہے کہ اللہ اس پر عافیت دی، اور کوفی (کے وزن پر ہے) جس کا مطلب ہے اللہ اس کو کافی ہوا، اور جوزی (کے وزن پر ہے) جس کا مطلب ہے اللہ نے اس کو انعام دیا، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا فعل ظاہر ہے اس کے نام سے۔
[طبقات الصوفية للسلمي(م412ھ): صفحہ350]
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة:10/ 384]
ابو القاسم المقری(م378ھ) کہتے ہیں:
أوائل بركة الدخول في التصوف، تصديق الصادقين في الإخبار عن أنفسهم، ومشايخهم بنعم الله عليهم، وإظهار كراماته عليهم۔
ترجمہ:
[الفتوة لأبي عبد الرحمن السلمي(م412ھ): صفحہ55]
امام غزالیؒ (م505ھ) نے فرمایا:
أنَّ الصوفي هو من اتصف بما يلي: الصلاح، الفقر، لبس زي الصوفية، ألا يكون مشتغلًا بحرفة، أن يكون مخالطة للصوفية بطريق المساكنة والخلطة (في الخانقاه)۔
ترجمہ:
ایک صوفی وہ ہے جس کی خصوصیات درج ذیل ہیں: اصلاح، فقر، اُون کا لباس پہننا، کسی فن وحرفت میں مشغول نہ ہونا، اور گھل ملنا صوفیاء کے ساتھ میل جول اور اختلاط کے طریقہ سے(خانقاہ میں)۔
[الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي(م748ھ): صفحہ 48]
(إحياء علوم الدِّين-الغزالي:2/153)
«لا تتكلم قبل الفكر ولا تتعجب بشيء من حالاتك، فان الواهب غير متناهي القوة وعليك بتلاوة القرآن مع وجد وطرب، وفكر لطيف ما كثر الدعاء في أمر الآخرة، واقطع الخواطر الرديّة فان الخاطر الردي إذا قطعته أولا نجوت منه، واجمع هذه الخصال في نفسك - أعانك الله عليها - واعلم أن الصّوفي هو الذي تجتمع فيه هذه الكلمات الشريفة والتصوّف عبارة عن هذه»
ترجمہ:
سوچنے سے پہلے نہ بولو اور اپنی کسی بھی حالت سے حیران نہ ہو، کیونکہ عطا کرنے والا بے پناہ طاقت والا ہے، اور تمہیں قرآن کی تلاوت خوشی خوشی اور نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے، اور بہت باریکی سے سوچو کہ آخرت کے بارے میں کتنی دعائیں کیں۔ بےکار خیالات کو کاٹ دو، کیونکہ اگر تم ان کو پہلے کاٹ دو گے تو تم اس سے بچ جاؤ گے۔ اور یہ صفات اپنے اندر جمع کرو - اللہ تمہاری مدد کرے - اور جان لو کہ صوفی وہ ہے جس میں یہ شریفانہ باتیں جمع ہوں اور تصوف اسی سے عبارت ہے۔
[مجمع الآداب في معجم الألقاب-ابن الفوطي (م723ھ) : ج2 / ص 504]
جرح والتعدیل کے امام ذہبیؒ (م784ھ) لکھتے ہیں:
فإنما التصوف والتأله والسلوك والسير والمحبة ما جاء عن أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - من الرضا عن الله، ولزوم تقوى الله، والجهاد في سبيل الله، والتأدب بآداب الشريعة من التلاوة بترتيل وتدبر، والقيام بخشية وخشوع، وصوم وقت، وإفطار وقت، وبذل المعروف، وكثرة الإيثار، وتعليم العوام، والتواضع للمؤمنين، والتعزز على الكافرين، ومع هذا فالله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم.
والعالم إذا عري من التصوف والتأله، فهو فارغ، كما أن الصوفي إذا عري من علم السنة، زل عن سواء السبيل.
ترجمہ:
تصوف تو بس پکار وعبادت، سلوک(عمل)، چلنا پھرنا اور وہ محبت ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے ملتی ہیں - اللہ کی رضا میں، اللہ سے ڈرنے کے لزوم، اللہ کی راہ میں جہاد، اور آداب کے ساتھ۔ شریعت کی تعلیمات جیسے: ٹھہر ٹھہر کر غور وفکر سے تلاوت کرنا، خوف و ادب کے ساتھ کھڑا ہونا، روزے کا وقت، افطاری کے وقت، اور بقدر استطاعت نیکی خرچ کرنا، ایثار وقربانی کی کثرت کرنا، عام لوگوں کی تعلیم دینا، مومنین کیلئے تواضع، اور کافروں پر غلبہ، اور اس (تصوف) کے ساتھ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
اور اگر عالم سے تصوف اور معرفت چھن جائے تو وہ فارغ(خالی) ہے، جس طرح صوفی سے علم سنت چھن جائے تو وہ راہِ راست سے ہٹ گیا۔
[سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: 15/ 409]
(۲)حضرت علی ہجویریؒ نے"کشف المحجوب"میں ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
"علیکم بلبس الصوف تجدون حلاوۃ فی قلوبکم"۔
ترجمہ:
تم اون کا لباس پہنو! ایمان کی حلاوت اپنے دلوں میں پاؤ گے۔
چونکہ صوف کا لباس اُونی کپڑا پہننا انبیاء علیہم السلام کی عادت اور اولیاء واصفیاء کا شعار تھا؛ لہٰذا انہیں ظاہری لباس کی طرف منسوب کردیا گیا؛ پس!صوفی ایک مجمل اور عام نام ہوا جوان کے تمام علوم، اعمال، اخلاق اور تمام شریف اور قابل ستائش احوال کی خبردیتا ہے، حضرت ابونصر سراج طوسیؒ لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاص اصحاب کاقرآن مجید میں تذکرہ کیا توانہیں ان کے ظاہری لباس کی طرف منسوب کیا"إِذْقَالَ الْحَوَارِيُّونَ"(المائدۃ:۱۱۲)"ترجمہ:جب حواریوں نے کہا"یہ لوگ سفید لباس پہنا کرتے تھے؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی طرف منسوب کردیا اور جن علوم واحوال سے یہ موسوم تھے ان میں سے کسی نوع کی طرف منسوب نہیں کیا، میرے نزدیک صوفیہ کا بھی یہی معاملہ ہے"۔
(کتاب اللمع فی التصوف:۵۵)
مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صوفی کا لفظ صوف سے مشتق ہے یہی قول اقویٰ ہے، شیخ ابوبکر ابراہیم بخاریؒ الکلابازی الحنفي (المتوفى: 380هـ) نے اپنی کتاب"التعارف المذہب التصوف"میں لغوی تحقیق کے حوالے سے اس بات کوثابت کیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(۱)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ"صفا"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ صوفی کا مقصود صفائی باطن کا حاصل کرنا ہے؛ اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صفاوی"ہونا چاہیے تھا۔
(۲)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ "صف"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ قیامت کے دن اگلی صفوں میں ہوں گے؛ اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صفی"ہونا چاہیے تھا۔
(۳)بعض حضرات کہتے ہیں کہ صوفی کا لفظ"صفہ"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ اصحاب صفہ کی یادگار ہیں اگرایسا ہوتا تویہ لفظ"صُفِی"ہونا چاہیے تھا۔
(۴)بعض حضرات کہتے ہیں کہ"صوفی"کا لفظ"صُوف"سے بنا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ صوف کا لباس پہنتے تھے؛ اگرایسا ہے تو یہ لفظ"صوفی"ہی ہونا چاہیے تھا معلوم ہوا کہ صوفی کا لفظ مشق"صوف"سے ہے مقصود اس کا"صفا"ہے نسبت اسے اصحاب"صُفہ"سے ہے اور قیامت کے دن اس کا مقام"صف"اوّل ہوگا۔
صوفی کے لفظ کی نسبت صوف (پشمینہ، یعنی وہ اُونی کپڑا جومویشیوں کے بالوں سے تیار کیا جاتا ہے) سے ہونے میں کئی حکمتیں بھی ہیں:
(۱)اونی کپڑا نرم ہوتا ہے پس! صوفی وہ شخص ہے جودل کونرم بنانے کے لیے محنت کررہا ہو۔
(۲)اونی کپڑا سفید ہوتا ہے پس! صوفی وہ شخص ہے جواپے دل کوصوف کی طرح سفید کرنے کے لیے محنت کررہا ہو۔
(۳)اونی کپڑا کسی رنگ کوجلدی قبول نہیں کرتا پس! صوفی وہ شخص ہے جو"صبغۃ اللہ"اللہ کے رنگ میں ایسا رنگا جاچکا ہو کہ اب ماسوا کا رنگ اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔
صوفی کے عنوان سے متعلقہ چند مشہور سوالات کے جوابات قلمبند کیئے جاتے ہیں:
سوال نمبر:۱۔ صوفی کا لفظ جن الفاظ سے ماخوذ ہے کیا ان کا ذکر قرآن وحدیث میں کہیں ملتا ہے؟۔
جواب: جی ہاں! صوفی کا لفظ جن الفاظ سے ماخوذ ہے ان کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے، تفصیل درجِ ذیل ہے:
(۱)ایک قول کے مطابق صوفی کا لفظ صف سے ماخوذ ہے تو قرآن پاک میں ہے:
"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ"۔
(الصف:۴)
ترجمہ:
بیشک اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوپسند فرماتا ہے جواللہ کے راستہ میں صفیں باندھ کر جہاد کرتے ہیں؛ یوں لگتا ہے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
(۲)دوسرے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صفا سے ماخوذ ہے تو حدیث پاک میں ہے:
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ , قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَغَيِّرَ اللَّوْنِ ، فَقَالَ : ذَهَبَ صَفْوُ الدُّنْيَا وَبَقِيَ الْكَدَرُ فَالْمَوْتُ الْيَوْمَ تُحْفَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ .
(الرسالۃ القشیریۃ:۱/۱۲۶(2/440) ، شاملہ، موقع الوراق، المؤلف: أبوسعيد محمد بن محمد الخادمي،المتوفى ۱۱۵۶ھ)
ترجمہ:
حضرت ابوجحیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ہم پر نکلے آپ کا رنگ متغیر تھا آپ نے فرمایا کہ دنیا کی صفائی چلی گئی اور میل کچیل رہ گئی پس آج تو موت ہر مسلمان کے لیے تحفہ ہے۔
یہ حدیث حضرت عبد الله بن مسعودؓ سے بھی مروی ہے:
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : " ذَهَبَ صَفْوُ الدُّنْيَا وَبَقِيَ كَدَرُهَا ، فَالْمَوْتُ الْيَوْمَ تُحْفَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ " .
[مصنف ابن أبي شيبة - كِتَابُ الزُّهْدِ - كَلَامُ ابْنِ مَسْعُودٍ - رقم الحديث:34516
مسند الحارث - كِتَابُ الزُّهْدِ - بَابٌ فِي صَفْوِ الدُّنْيَا - رقم الحديث:1091
المعجم الكبير للطبراني - رقم الحديث:8774+8775
الإبانة الكبرى لابن بطة - رقم الحديث:22+23
ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2384، مجمع الزوائد:18210، إتحاف الخيرة المهرة:7300، المطالب العالية:3188
حلية الأولياء لأبي نعيم » عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ... » الْقُنُوتُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ رقم الحديث: 406]
الراوي: وهب بن عبدالله السوائي أبو جحيفة المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد -الصفحة أو الرقم: 10/312
خلاصة حكم المحدث: [روي] بإسنادين وأحدهما جيد
خلاصة حكم المحدث: [روي] بإسنادين وأحدهما جيد
الراوي: [يزيد بن أبي زياد] المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 7/447
خلاصة حكم المحدث: موقوف وفي سنده يزيد بن أبي زياد وله شاهد
خلاصة حكم المحدث: موقوف وفي سنده يزيد بن أبي زياد وله شاهد
(۳)تیسرے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صفہ سے ماخوذ ہے تو حدیث پاک میں ہے:
"عن ابن عباس قال وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على أصحاب الصفة فرأى فقرهم وجهدهم وطيب قلوبهم فقال أبشروا ياأصحاب الصفة فمن بقي من أمتي على النعت الذي أنتم عليه راضيا بمافيه فإنه من رفقائي"۔
(کشف المحجوب)
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ اصحاب صفہ پر تشریف لائے، آپ نے ان کے فقر اور مشقت کومحسوس کیا توفرمایا: خوش ہوجاؤ اہلِ صفہ، پس! جوشخص میری امت سے تمہاری روش پر رہنا پسند کریگا وہ بہشت میں میرا ساتھی ہوگا۔
تخريج الحديث
|
(۴)چوتھے قول کے مطابق صوفی کا لفظ صوف سے ماخوذ ہے توحدیث پاک میں ہے:
"كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس الصوف، ويركب الحمار"۔
(الزهد للمعافى بن عمران الموصلي:۱/۹۷، شاملہ، موقع جامع الحديث)
ترجمہ:
نبی اکرمﷺ صوف کا لباس پہنتے اور گدھے کی سواری کرتے تھے۔
سوال نمبر:۲۔ لفظ صوفی کی کوئی اہمیت ہوتی توقرآن وحدیث میں من وعن موجود ہوتا؟۔
جواب: کسی لفظ کا من وعن قرآن وحدیث میں موجود نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ لفظ غیراہم یاغیراسلامی ہے، مثال کے طور پر متکلمین کا لفظ قرآن وحدیث میں من وعن کہیں موجود نہیں توکیا علم کلام غیراسلامی ہوگیا، اس کے بغیر تواسلامی عقائد بھی ثابت نہیں کیئے جاسکتے؛ اسی طرح نحو کا لفظ قرآن وحدیث میں موجود نہیں توکیا علم النحو فضول اور غیراہم ہے، اس کے بغیر توقرآن وحدیث کوسمجھنا بھی ممکن نہیں۔
سوال نمبر:۳۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں توکسی کوصوفی نہیں کہا جاتا تھا؟۔
جواب: رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہنے کی ایک خاص عظمت اور خصوصیت تھی، جسے یہ نعمت نصیب ہوگئی اس پرکوئی اور نام چسپاں کرنا گستاخی تھی، صحابہ کرامؓ تونسبت اور صحبت کی وجہ سے زاہدوں، عابدوں، متوکلوں، صابروں، اطاعت گزاروں اور فقراء کے پیشواء ہیں تمام احوال میں سے بہترین اور بزرگ تیرن حال ان کونصیب تھا، اب انہیں کسی اور فضیلت کی وجہ سے فضیلت دینا ناروا ہے، حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
"خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ"۔
(مسند البزار كاملا،حدیث نمبر:۴۵۰۸، صفحہ نمبر:۲/۱۴۹، شاملہ،القسم:کتب المتون)
ترجمہ:
بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھران لوگوں کا زمانہ جواُن کے بعد آئیں گے؛ اسی طرح پھران لوگوں کا جوان کے بعد آئیں گے۔
تخريج الحديث
پس ساری دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں مل کربھی صحبت رسولﷺ کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں، امام شافعیؒ سے پوچھا گیا کہ سیدنا امیرمعاویہؓ افضل ہیں یاحضرت عمربن عبدالعزیزؒ؟ توامام شافعیؒ نے جواب دیا کہ سیدنا امیرمعاویہؓ جب نبی علیہ السلام کی معیت میں جہاد پر نکلے توان کے گھوڑے کی ناک میں جومٹی گئی وہ مٹی بھی عمربن عبدالعزیزؒ سے افضل ہے اس لیے علماء کرام نے لکھا ہے کہ ساری دنیا کے اتقیاء، اصفیاء اور اولیاء مل کر بھی کسی ادنی صحابیؓ کے درجے کونہیں پہنچ سکتے۔
پس جن لوگوں نے رسول اللہؐ کی صحبت پائی وہ خوش نصیب حضرات صحابی کہلائے؛ جنھوں نے صحابہؓ کی صحبت پائی وہ تابعین کہلائے اور جنھوں نے تابعین کیص حبت پائی وہ تبع تابعین کہلائے یہ تینوں نسبتیں مندرجہ بالا فرمان نبویﷺ کی بنا پر خیرکی غمازی کرتی تھیں؛ لہٰذا ہرشخص اس نسبت کے ساتھ پکارا جانا اپنی سعادت سمجھتا تھا؛ پس! صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت کے مشائخ صوفیا کے نام سے مشہور ہوئے حضرت امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق مطابق یہ لفظ دوسری صدی ہجری سے پہلے زبان زدعام تھا۔
سوال نمبر:۴۔ صوفی کا لفظ سب سے پہلے کب استعمال ہوا؟ سنا ہے کہ یہ اہلِ بغداد کی ایجاد ہے؟۔
جواب:حضرت ابونصر سراج طوسیؒ نے تاریخ مکہ کے حوالے سے محمد بن اسحاق بن یسارؒ اور دیگرلوگوں کی روایت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ:"اسلام سے پہلے ایک بار مکہ خالی ہوگیا تھا یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کرنے والا کوئی نہ تھا دوردراز سے ایک صوفی آتا اور بیت اللہ کا طواف کرکے واپس چلا جاتا"۔
تاریخ کے اس حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ نام اہلِ عرب کواسلام سے پہلے بھی معلوم تھا صاحب فضیلت اور صالح لوگ اسی نام سے موصوف ہوتے تھے، واللہ اعلم۔
حضرت حسن بصریؒ جنھوں نے اٹھارہ بدری صحابہؓ کی صحبت کا شرف حاصل کیا اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے باطنی فیض پایا، ان کے وقت میں صوفی کا مستعمل ہونا تویقینی امر ہے، حضرت ابونصر سراج طوسیؒ فرماتے ہیں:
"لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ نام بغدادیوں نے گھڑلیا ہے غلط ہے؛ چونکہ یہ نام توحسن بصریؒ کے عہد میں بھی مستعمل تھا، حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ میں نے طواف کے دوران ایک صوفی کودیکھا اور اسے کچھ دیا، اس نے نہیں لیا اور کہنے لگا، میرے پاس چار دانق پڑے ہیں اور کافی ہیں"۔
(کتاب اللمع فی التصوف:۶۵)
معلوم ہوا کہ صوفی کا لفظ تابعین کے دور میں احیاناً استعمال ہوتا تھا، تبع تابعین کے دور میں نسبتاً زیادہ استعمال ہونے لگا اور ان کے بعد دوسری صدی ہجری سے پہلے زبان زد عام ہوگیا، امام سفیان ثوریؒ اپنے وقت کے ایک شیخ کوابوہاشم صوفی کہا کرتے تھے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے ایک شیخ ابوحمزہ بغدادیؒ کوصوفی کہتے تھے۔
صوفی کون ہوتا ہے؟
حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد عبدالواحد بن زیدؒ سے پوچھا گیا صوفیاء کون ہوتے ہیں؟ فرمایا جواپنی عقلوں کے ذریعہ اپنے ارادوں پر قائم ہوتے ہیں اور اپنے دلوں سے اس پر ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے شر سے بچنے کی خاطر اپنے آقا کومضبوط پکڑے رہتے ہیں۔
حضرت ذوالنون مصریؒ سے پوچھا گیا تو فرمایا: "صوفی وہ ہے جسے جستجو تھکانہ سکے اور محرومیت کی وجہ سے بے چین نہ ہو"۔
حضرت ابومحمدرویمؒ سے پوچھا گیا توفرمایا:"جس کا کردار اس کی گفتار کے موافق ہو"۔
کسی عارف نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے یوں فرمایا کہ صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وگناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہو اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی یاد اس کے دل ودماغ پر چھائی رہے وہ ہمیشہ آخرت کے معاملہ میں متفکر رہتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے حاضر ناظر اور اس کے قریب ترین ہونے کے استحضار نے اُس کو مخلوق سے دور کردیا ہو اور اس کی نگاہ میں سونا اور مٹی برابر ہو۔
حضرت شبلی ؒ نے فرمایا:"صوفی وہ ہے جومخلوق سے کٹے اور اللہ سے جڑے"۔
خلاصہ کلام
پس صوفی وہ ہوتا ہے جس کوجانوروں کی آواز، ہرایک سوزوساز، چڑیوں کی چہک، پھولوں کی مہک، سبزے کی لہک، جواہرات کی دمک، سورج کی چمک، سماء وسمک، درختوں کے رنگ، شیشہ وسنگ، پتھر کی سختی، خوشحالی وبدبختی، زمین کی نرمی، آتش کی گرمی، دریا کی روانی، کواکب آسمانی، پہاڑوں کے ابھار، جنگلوں وبیابانوں کی سبزہ زاریاں، خزاں وبہار، غرض یہ کہ دنیا کی ہروہ چیز جس پر وہ نظرڈالے ایک ہی نادیدہ ہستی یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائے اس میں اس کو اللہ تعالیٰ نظر آئے، یعنی اس کی قدرت وکرشمات کہ جس کے ذریعہ سے وہ اللہ کی ذات کوپالے۔
No comments:
Post a Comment