Monday, 4 May 2015

فرقہ نیچریہ کی حقیقت

سرسیّد احمد خان کے بارے میں اکابرعلماء کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ان کے عقائد ونظریات جمہور اہل سنت والجماعت سے متصادم تھے اور سرسیّد اپنے خودساختہ اعتقادات اور عقل پرستی کے نتیجہ میں بالاخر فرقہ نیچریہ کے بانی بن بیٹھے، جس کی بنیاد اس پر تھی کہ آدمی مذھب کے معاملہ میں اپنی فطرت وطبیعت نیچر کا تابع ہے نہ کہ کسی آسمانی راہ ہدایت کا۔ اور اسی بناء پر ہر اس مسلّمہ عقیدہ کا انکار جو انسانی عقل میں نہ آتا ہو اس فرقہ کا خاصّہ ہے۔ واللہ اعلم
 فرقہ نیچریہ کے عقائد و نظریات اور قرآن و حدیث سے ان کے جوابات
پہلا عقیدہ:      فرشتوں کی کوئی حقیت نہیں۔
جواب:          یہ بات قرآن و احادیث کے خلاف ہے، قرآن میں ایک دو جگہ نہیں سیکروں جگہ پر قرآن میں اس قسم کی آیات موجود ہیں، مثلاً:

(۱)      فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ o  إِلَّا إِبْلِيسَ ۔ 

(الحجر:۳۰۔۳۱)

ترجمہ:   تمام ہی فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا، ابلیسِ لعین کے علاوہ۔

وہ مقامات جہاں ملائکہ کا ذکر ہے
۱۔ سورۂ بقرہ                 ۱۰۔آیات                   ۲۔ سورہ اٰل عمران  ۸۔آیات
۳۔ سورۂ نساء                 ۴۔آیات                             ۴۔ سورہ اعراف             ۵۔آیات
۵۔ سورہ انفال               ۳۔آیات                             ۶۔ سورہ ہود                 ۲۔آیات
۷۔ سورہ یوسف             ۱۔آیت                     ۸۔ سورہ رعد                ۲۔آیات
۹۔ سورہ حجر                  ۴۔آیات                             ۱۰۔ سورہ نحل               ۵۔آیات
۱۱۔ سورہ اسراء               ۴۔آیات                             ۱۲۔ سورہ کہف              ۱۔آیت
۱۳۔ سورہ طہ                 ۱۔آیت                     ۱۴۔ سورہ انبیاء               ۱۔آیت
۱۵۔ سورہ حج                 ۱۔آیت                     ۱۶۔ سورہ مومنون  ۱۔آیت
۱۷۔ سورہ فرقان            ۴۔آیات                             ۱۸۔ سورہ سجدہ               ۱۔آیت
۱۹۔ سورہ احزاب             ۲۔آیات                    ۲۰۔ سورہ سبا                ۱۔آیت
۲۱۔ سورہ فاطر               ۱۔آیت                     ۲۲۔ سورہ صافات  ۱۔آیت
۲۳۔ سورہ ص               ۲۔آیات                    ۲۴۔ سورہ زمر               ۱۔آیت
۲۵۔ سورہ مدثّر              ۱۔آیت                     ۲۶۔ سورہ نبأ                 ۱۔آیت

(۲)     وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً۔

(بقرہ:۳۰)

ترجمہ:   کہا تمہارے رب نے فرشتوں کو مجھے بنانا ہے زمین میں ایک نائب۔

(۳)     وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ ۔

(بقرہ:۳۴)

ترجمہ:   جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدمؑ کو! تو وہ سب سجدہ میں گر پڑے سوائے ابلیس کے۔

اسی طرح احادیث میں متعدد مقامات پر فرشتوں کا ذکر موجود ہے، مثلاً :

(۱)      قال قال رسول اللہ  اذا کان لیلۃ القدر نزل جبریل علیہ السلام فی کبکبۃ من الملائکۃ۔

(مشکوٰۃ:۱/۱۸۳)

(۲)     من قرأ ختم الدخان فی لیلۃ اصبح یستغفر لہ سبعون الف ملک۔

(مشکوٰۃ:۱/۱۸۷)

(۳)     ان اللہ تعالیٰ قرأ طہ و یٰس قبل ان یخلق السمٰوات و الارض بالف عام فلما سمعتِ الملائکۃ القرآن قالت طوبیٰ لامّۃ ینزل ھذا علیھا و طوبیٰ لأجواف تحمل ھذا و طوبیٰ لألسنۃ تتکلم بھٰذا۔

(مشکوٰۃ:۱/۱۸۷)

ترجمہ:   اللہ جل شانہ نے سورہ طہ اور سورۂ یٰسین کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے دوہزار سال پہلے پڑھا اور اس کو جب فرشتوں نے سنا تو کہا: مبارکبادی ہے اس امت کے لئے جس پر یہ کتاب نازل ہوگی اور مبارکبادی ہے ان سینوں کے لئے او اس کو یاد کریں گے اور مباکبادی ہے ان زبانوں کے لئے جو اس کو پڑھیں گے۔

عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لانا یہ ضروریاتِ دین میں سے ہے اور فرشتوں کا انکار بلاشبہ کفر ہے۔

(عقائد اسلام:۵۴۔ شرح عقیدہ سفارینہ:۲۸۲۔۲۸۸۔ شرح اضاءۃ الوجہ:۱۴۱)

دوسرا عقیدہ:   ابلیس کا انکار۔
جواب:          اس کا انکار بھی قرآن و حدیث کا انکار ہے، کیونکہ ایک دو جگہ نہیں، سیکڑوں جگہ پر ابلیس کا ذکر موجود ہے، مثلاً :

۱۔       إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَo 

(بقرہ:۳۴)

ترجمہ:   مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبر کیا، کیونکہ وہ کافر ہے۔

۲۔      الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ۔ 

(بقرہ:۲۷۵)

ترجمہ:   جو لوگ کھاتے ہیں سود وہ قیامت کے دن نہیں اٹھیں گے مگر اس طرح کہ جن کے حواس شیطان کھودیتے ہیں مسّ کرکے۔

۳۔      فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۔ 

(بقرہ:۳۶)

ترجمہ:   پھر پھسلایا ان کو شیطان نے، پھر نکالا ان کو اس جگہ سے جہاں پر وہ دونوں رہتے تھے۔

اسی طرح شیطان کا ذکر احادیث میں بھی بکثرت وارد ہوا ہے، مثلاً:

۱۔       عن ابی ھریرۃؓ قال: یاتی الشیطان احدکم فیقول من خلق کذا من خلق کذا۔

(مشکوٰۃ:۱/۱۸)

ترجمہ:   حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے وہ کہتا ہے کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا، فلاں کو کس نے پیدا کیا۔

۲۔      ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم۔

(بخاری و مسلم)

ترجمہ:   بے شک شیطان انسان کے اندر ایسا چلتا ہے جیسا کہ خون چلتا ہے۔

۳۔      ما من بنی آدم مولود الا لیمسّہ الشیطان حین یولد۔

(بخاری و مسلم)

ترجمہ:   کوئی بھی اولاد آدم پیدا نہیں ہوتا مگر شیطان اس کو ضرور مس کرتا ہے۔

۴۔      عقائد کی کتابوں میں شیطان کا انکار کرنا بھی کفر بتایا گیا ہے۔




تیسرا عقیدہ:    حضرت آدم علیہ السلام نے اس پھل سے نہیں کھایا جس سے ان کو منع کیا گیا تھا۔
جواب:          یہ بات بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے مثلاً قرآن میں آتا ہے:

۱۔       وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ o

(بقرہ:۳۵)

ترجمہ:   اور اس درخت کے پاس مت جاؤ، ورنہ تم دونوں ظالمین میں سے ہوجاؤگے۔

۲۔      عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ o 

(اعراف:۲۰)

ترجمہ:   اس درحت کے پاس جانے سے اس لئے تم کو منع کیا گیا ہے کہیں تم دونوں فرشتے یا وہاں ہمیشہ رہنے والوں میں شمار نہ کئے جاؤ۔

۳۔      أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ o 

(اعراف:۲۲)

ترجمہ:   کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے پاس جانے سے منع نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے تم دونوں کو نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔




چوتھا عقیدہ:    عذابِ قبر نہیں ہے۔
جواب:          یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے، قرآن میں آتا ہے:

۱۔       النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۔

(غافر:۴۶)

ترجمہ:   دوزخ کی آگ جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کئے جاتے ہیں۔

۲۔      وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ o 

(مؤمنون:۱۰۰)

ترجمہ:   اور ان کے پیچھے پردے ہیں قیامت کے دن تک۔

۳۔      فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ ۔ 

(احقاف:۲۰)

ترجمہ:   پس آج شدید عذاب کے ذریعہ بدلا دیا جائے گا۔

علماء فرماتے ہیں عذاب قبر کے ثبوت کے لئے ایک دو نہیں بلکہ سیکروں احادیث ہیں جن کو محدثین متواتر درجہ تک پہنچائے ہوئے ہیں، جس کا انکار کرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً :

۱۔       عن عائشۃؓ ان یہودیۃ دخلت علیھا فذکرت عذاب القبر فقالت لھا اعاذک اللہ من عذاب القبر فسالت عائشۃؓ رسولل اللہ  عن عذاب القبر، فقال نعم عذاب القبر حق قالت عائشۃؓ فما رأیت رسول اللہ  بعد صلی صلاۃ الا تعوذ باللہ من عذاب القبر ۔

(بخاری و مسلم و کذا فی مشکوٰۃ:۳۵)

ترجمہ:   حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور پھر اس نے حضرت عائشہؓ سے کہا: عائشہ! اللہ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے، حضرت عائشہؓ نے نبی کریم  سے عذاب قبر کے بارے پوچھا، رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: ہاں! قبر کا عذاب ہے حق ہے، اس کے بعد پھر آپ کوئی بھی نماز پڑھتے تو اس کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔

۲۔      عن ابی سعید الخدریؓ قال قال رسول اللہ  یسلّط علی الکافر فی قبرہ تسعۃ و تسعون تنینا تنھسہ و تلدغہ حتی تقوم الساعۃ لو ان تنینا منھا نفع بالارض ما انبتت خضراً۔

(دارمی ، ترمذی وغیرہ)

ترجمہ:   حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم  نے ارشاد فرمایا کہ کافر کے اوپر اس کی قبر میں ننانوے اژدہے مسلط کئے جاتے ہیں، اس کو وہ قیامت تک کاٹتے اور ڈستے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک اژدہا بھی زمین پر پھنکار مارے تو پھر زمین سبزہ اگانے سے محروم ہوجائے۔

۳۔      و عن اسمآء بنت ابی بکرؓ قالت قام رسول اللہ  خطیباً فذکر فتنۃ القبر التی یفتن فیھا المرء فلما ذکر ذٰلک ضجّ المسلمون ضجّۃ ۔

(بخاری و کذا فی مشکوٰۃ:۲۶)

ترجمہ:   حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور قبر کے عذاب کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جائے گا، چنانچہ اس بات کو سن کر مسلمان رونے اور چلانے لگے۔

عذابِ قبر کا عقیدہ صحابہؓ، تابعینؒ، اسلافؒ اور ائمہ اربعہؒ سب کا متفق علیہ ہے، اسی وجہ سے اس کے منکر کو کافر کہا گیا ہے۔

(شرح فقہ اکبر:۱۲۱،۱۲۲)





پانچواں عقیدہ: جنت اور جہنم کا انکار کرتے ہیں۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۱۱۰۔ تفسیر القرآن:۱/۳۹)

جواب:          جنت اور جہنم کا تذکرہ قرآن و احادیث میں بکثرت موجود ہے، جیسے قرآن میں ہے:

۱۔       وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ o 

(زمر:۷۳)

ترجمہ:   ان کے لئے دروازے جنت کے کھول دئے جائیں گے، فرشتے خازن کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو خوش رہو جنت میں داخل ہو ہمیشہ کے لئے۔

۲۔      ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ o 

(ق:۳۴)

ترجمہ:   داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ یہ دن ہمیشہ رہنے کا ہے۔

۳۔      وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ۔ 

(ھود:۱۰۸)

ترجمہ:   جو لوگ نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے، ہمیشہ اس میں رہیں گے، بقدر اس زمانہ کے جس قدر زمین و آسمان قائم رہے تھے۔

۴۔      وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا۔ 

(زمر:۷۱)

ترجمہ:   جہنمی لوگ جہنم کی طرف گروہ در گروہ پہنچیں گے۔

۵۔      لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ ۔ 

(اعراف:۴۱)

ترجمہ:   ان کے لئے دوزح کا بچھونا ہوگا۔

۶۔      إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ o

(زخرف:۷۴)

ترجمہ:   بے شک مجرمین عذاب جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

اسی طرح احادیث میں بھی کثرت سے جنت و جہنم کا ذکر موجود ہے، مثلاً :

۱۔       اول من یقرع باب الجنۃ انا۔

(مسلم:۱/۱۱۲)

ترجمہ:   رسول اللہ  فرماتے ہیں: سب سے پہلے جنت کے دروازے کو جو کھٹکھٹائے گا وہ میں ہوں گا۔

۲۔      اٰتی باب الجنۃ یوم القیامۃ فاستفتح فیقول الخازن من انت فاقول محمد فیقول بک امرتُ ان لا افتح لاحد قبلک۔

(مسلم:۱/۱۸۲)

ترجمہ:   میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤںگا، خازنِ جنت پوچھے گا: تم کون ہو؟ میں کہوں گا محمد()! پھر وہ کہے گا آپ ہی کے لئے مجھ سے کہا گیا کہ آپ سے پہلے کسی اور کے لئے جنت کے دروازےکو میں نہ کھولوں۔

عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے۔

ان الجنۃ و النار مختلفتان۔

(شرح عقائد نسفی:۱۰۱)

ترجمہ:   جنت اور جہنم پیدا ہوچکے ہیں اور یہ ہمیشہ رہیں گے، اس پر کبھی فناء نہیں آئے گی، اسی پر پوری امت کا اجماع ہے۔

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں:

و کذالک نکفّر من انکر الجنۃ والنار نفسھما و محلھما۔

(نسیم الریاض:۴/۵۵۵)

ترجمہ:   اسی طرح ہم اس کو بھی کافر کہیں گے جو جنت اور جہنم کا سرے سے انکار کرے یا ان کے مقامات کا انکار کرے۔




چھٹواں عقیدہ:  جسموں کے ساتھ حشر نہیں ہوگا۔
جواب:     یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث اور اجماع امت کے خلاف ہے، قرآن میں متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے سے قیامت تک جسموں کے ساتھ لوگوں کا حشر ہوگا، مثلاً :

۱۔       وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ o

(یٰسین:۵۱)

ترجمہ:   صور پھونکا جائے گا اس وقت سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چلیں گے۔

۲۔      قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ o قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ o 

(یٰسین:۷۸،۷۹)

ترجمہ:   کہا کون بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرےگا؟ کہدیجئے کہ جس نے پہلے مرتبہ زندہ کردکھایا وہی دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ مخلوق کو خوب جاننے والا ہے۔

اسی طرح ایک دو نہیں سیکڑوں احادیث سے میدانِ حشر میں لوگوں کا جمع ہونا معلوم ہوتا ہے، مثلاً :

۱۔       یُحشرُ الناسُ فی صعید واحد یوم القیامۃ۔

(مشکوٰۃ:۴۸۷)

ترجمہ:   قیامت کے دن ایک میدان میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے۔

۲۔      یُحشرُ الناسُ یوم القیامۃ علی ارض بیضاء عفراء کقرصۃ النقی لیس فیھا علم لاحد۔

(مشکوٰۃ:۴۸۲)

ترجمہ:   لوگ قیامت کے دن ایک سفید میدان میں جمع کئے جائیں گے جو مثل چپاتی کے ہموار اور صاف ہوگا، اس میں کوئی نشانی نہیں ہوگی۔

۳۔      عن عائشۃؓ قالت سئلتُ رسول اللہ  عن قولہ یوم تبدّل الارض غیر الارض و السمٰوات فاین یکون الناسُ یومئذ قال علی الصراط۔

(مسلم و کذا فی مشکوٰۃ:۴۸۲)

ترجمہ:   حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ  سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ جس دن زمین و آسمان بدلے جائیں گے، لوگ اس دن کہیں ہوں گے؟ تو آپنے ارشاد فرمایا: پل صراط پر۔

عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا یہ روز روشن کی طرح واضح ہے، اس میں پوری امت کا اتفاق ہے اور کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔

(عقائد الاسلام:۱/۸۳)

اور ایسے لوگوں کو دائرۂ اسلام سے خارج کہا ہے، نیز ہر زمانہ کے علماء حق نے ایسے لوگوں کی تکفیر کی ہے۔

(عقائد الاسلام:۲/۹۲)





ساتواں عقیدہ:  حوروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
جواب:    یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے، قرآن میں بہت سے مقامات پر حوروں کا تذکرہ ہے:

۱۔       حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ o

(الرحمن:۷۲)

۲۔      فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ o 

(الرحمن:۵۶)

ترجمہ:   ان محلات میں نیچی نگاہ والیا (حوریں) ہوں گی کہ ان جنتیوں سے پہلے ان کو نہ کسی آدمی نے ہاتھ لگایا ہوگا اور نہ کسی جن نے۔

۳۔      إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً o فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا o عُرُبًا أَتْرَابًا o  

(واقعہ:۳۵،۳۶،۳۷)

ترجمہ:   ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے، ہم ان کو کنواریاں بنادیں گے، دلکش ہیں اور اہل جنت کی ہم عمر ہیں۔

احادیث میں بھی بڑی کثرت سے حوروں کا ذکر موجود ہے، مثلاً :

۱۔       ان العبد اذا قام فی الصلوٰۃ فتحت لہ الجنان و کشفت الحجب بینہ و بین ربہ و استقبل الحورَ ما لم یتمخط او یتنخم ۔

(طبرانی، البدور السافرۃ:۲۰۵۸)

ترجمہ:   جب مسلمان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے لئے جنت کو کھول دیا جاتا ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان سے پردے ہٹادئے جاتے ہیں اور حور اس کی طرف اپنا رخ کرلیتی ہے جب تک وہ تھوک اور ناک نہ سونگھے۔

۲۔      ان الحور العین لاکثر عدداً منکن تدعون لازواجھن اللھم اعنہ علی دینک و اقبل قلبہ علی طاعتک و بلغہ الینا بقربک یا ارحم الراحمین۔

(ترغیب و ترھیب:۴/۵۳۵۔ صفۃالجنۃ لابن کثیر:۱۱۱۔ البدور السافرۃ:۲۰۵۴)

ترجمہ:   رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: حور عین کی تعداد تم سے بہت زیادہ ہے، وہ اپنے خاوندوں کے لئے دعائیں کرتی ہیں، اے اللہ میرے خاوند کی دین کے بارے میں مدد فرما اور اس کے دل کو اپنی اطاعت کی طرف متوجہ فرما اور یا ارحم الراحمین اپنے قرب خاص کے ساتھ اس کو ہم تک پہنچادے۔

۳۔      من کظم غیظا وھو یقدر علی ان ینفذہ دعاہ اللہ تعالیٰ علیٰ رؤوس الخلائق یوم القیامۃ حتّٰی یخبرہ فی ای الحور شاء۔

(مسند احمد:۳/۴۴۰۔ ابوداؤد:۴۷۷۷۔ ترمذی:۲۰۲۲۔ ابن ماجہ:۴۱۸۶)

ترجمہ:   رسول اللہ  نے فرمایا: جس شخص نے غصہ کو پی لیا حالانکہ وہ اس کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ اس شخص کو قیامت کے دن تمام مخلوقات کے سامنے بلائیں گے یہاں تک کہ اس کو اختیار دیں گے کہ جس حور کو تیرا دل چاہے چن لے۔




آٹھواں عقیدہ: تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔
جواب:    تقدیر کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام حوادثات اور واقعات کے وقوع سے پہلے ہی ہر بات کا علم اللہ جل شانہ کو ہے جو اللہ نے لوح محفوظ میں لکھوادیا ہے، تقدیر کا مسئلہ بھی قرآن پاک کی سیکڑوں آیات اور ذخیرۂ احادیث سے ثابت ہے۔مثلاً :

۱۔       لَوْ يَشَاءُ اللہ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا۔

(رعد:۳۱)

ترجمہ:   اگر اللہ چاہتے تو سب کو ہدایت دے دیتے۔

۲۔      يُضِلُّ اللہ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۔

(مدثر:۳۱)

ترجمہ:   جس کو چاہے گمراہ کرے اور جس کو چاہے اللہ ہدایت دے۔

۳۔      وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللہ رَبُّ الْعَالَمِينَ o

(تکویر:۲۹)

ترجمہ:   تمہاری مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہے جو تمام عالموں کا رب ہے۔

احادیث میں بھی بہت کثرت سے عقیدۂ تقدیر کو بیان کیا گیا ہے، مثلاً :

۱۔       عن عبد اللہ بن عمروؓ قال قال رسول اللہ  کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السمٰوات و الارض بخمسین الف سنۃ قال و کان عرشہ علی الماء۔

(رواہ مسلم و کذا مشکوٰۃ:۱۹)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم  نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال قبل مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا اور فرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔

۲۔      عن ابن عمرؓ قال قال رسول اللہ  کل شیء بقدر حتی العجز و الکیس ۔

(رواہ مسلم و کذا مشکوٰۃ:۱۹)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ عمرؓسے روایت ہے کہ نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: ہر چیز تقدیر سے ہوتی ہے، یہاں تک کہ دانائی اور نادانی بھی۔

۳۔      و عن سھل بن سعدؓ قال قال رسول اللہ  ان العبد لیعمل عمل اھل النار و انہ من اھل الجنۃ و یعمل عمل اھل الجنۃ و انہ من اھل النار و انما الاعمال بالخواتیم۔

(بخاری و مسلم و کذا مشکوٰۃ:۲۰)

ترجمہ:   حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے رسول اللہ  نے فرمایا کہ بندہ جہنم کے لئے کام کرتا رہتا ہے، لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور جنتیوں کے لئے کام کرتا رہتا ہے لیکن وہ دوزخی ہوتا ہے، نجات کا دار و مدار تو خاتمہ کے عمل پر ہوتا ہے۔





نواں عقیدہ:    معجزات کا انکار کرتے ہیں۔

جواب:          معجزہ کی تعریف:   و قد حدّ جمھور الاصولیین المعجزۃ بانھا امر خارق للعادۃ مقرون بالتحدّی مع عدم المعارضۃ من المرسل الیھم و المراد بالتحدّی ھو الدعوی للرسالۃ۔

(یواقیت مبحث:۱/۱۵۷)

ترجمہ:   جمہور اصولیوں نے معجزہ کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ تحدی کے ساتھ یعنی دعوائے رسالت کے ساتھ رسول سے امر خارقِ عادت ظاہر ہو اور اس کا کوئی معارضہ نہ کرسکے۔

انبیاء کرام علیہم السلام کو معجزات اللہ کی طرف سے دئے جاتے ہیں تاکہ ان کی رسالت و نبوت کے لئے دلیل بن جائیں، قرآن میں کئی مقامات میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے، مثلاً :

۱۔       فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ۔ 

(قصص:۳۲)

ترجمہ:   اے موسیٰ! یہ عصا اور ید بیضاء دو معجزے تمہاری نبوت کی روشن دلیلیں ہیں جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم کو عطا کی گئی ہیں۔

۲۔      ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللہ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ o

(غافر:۲۲)

ترجمہ:   رسول لوگوں کے پاس اپنی نبوت کی کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر پھر ان لوگوں نے نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سخت پکڑ کی اور بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔

۳۔      وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ۔

(بنی اسرائیل:۱۰۱)

ترجمہ:   ہم نے حضرت موسیٰؑ کو نو معجزات عطا کئے ہیں۔

۴۔      قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ۔

(طہ:۴۷)

ترجمہ:   ہم تمہارے پاس آئے ہیں تمہارے رب کی طرف سے معجزہ لے کر۔

اسی طرح احادیث میں بھی کثرت سے انبیاء علیہم السلام کے معجزات کو بیان کیا گیا ہے، مثلاً :

۱۔       عن جابرؓ قال عطش الناس یوم الحدیبیۃ و رسول اللہ  بین یدیہ رکوۃ فتوضأ منھا ثم اقبل الناس نحوہ قالوا لیس عندنا ماء نتوضأ بہ و نشرب الا ما فی رکوتک فوضع النبی  یدیہ فی الرکوۃ فجعل الماء یفور من بین اصابعہ کامثال العیون قال فشربنا و توضأنا قیل لجابرؓ کم کنتم قال لو کنّا مأۃ الف لکفانا کنّا خمس عشرۃ مأۃ۔

(بخاری و مسلم و کذا فی مشکوٰۃ:۵۳۲)

ترجمہ:   حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مقام حدیبیہ میں لوگوں کو سخت پیاس کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت رسول اللہ  کے پاس ایک لوٹا تھا، جس سے آپ نے وضو فرمایا تھا، لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ ہمارے لشکر میں پینے اور وضو کرنے کے لئے بالکل پانی نہیں ہے، بس وہی تھوڑا سا پانی ہے جو آپ کے لوٹے میں بچ گیا ہے، آپ نے اپنا دستِ مبارک اس لوٹے میں ڈالا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی ابلنے لگا، جیسے چشمے جاری ہوگئے ہوں، حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم سب لوگوں نے خوب پانی پیا اور وضو کیا، حضرت جابرؓ سے پوچھا گیا کہ اس موقع پر آپ لوگ کتنے تھے؟ تو انہوں نے کہا اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی کافی ہوجاتا، ویسے اس وقت ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔

۲۔      و عن البراء بن عازبؓ قال کنا مع رسول اللہ  اربع عشرۃ مأۃ یوم الحدیبیۃ و الحدیبیۃ بئر فنزحناھا فلم نترک فیھا قطرۃ فبلع النبی  فأتاھا فجلس علی شفیرھا ثم دعا باناء من ماء فتوضأ ثم مضمض و دعا ثم صبّہ فیھا ثم قال دعوھا ساعۃ فارووا انفسھم و رکابھم حتی ارتحلوا۔

(بخاری و کذا فی مشکوٰۃ:۵۳۲)

ترجمہ:   حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ کے ساتھ ہم چودہ سو افراد تھے، حدیبیہ میں ایک کنواں تھا جس کا پانی ہم سب نے نکال لیا اور اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہیں رہا، جب آپ کو یہ معلوم ہوا تو آپ کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ گئے، پھر آپ نے وضو کے پانی کا برتن منگواکر وضو کیا اور وضو کے بعد منہ میں پانی لیا اور دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے وہ پانی کنویں میں ڈال دیا وار ارشاد فرمایا: کچھ دیر کنویں کو چھوڑدو اور پھر اس کے بعد تمام لشکر والے خود بھی اور ان کے مویشی بھی خوب سیراب ہوگئے اور جب تک وہاں سے کوچ نہیں کیا اسی کنویں سے پانی لیتے رہے۔

۳۔      عن علی بن ابی طالبؓ قال کنت مع النبی  بمکۃ فخرجنا فی بعض نواحیھا فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول السلام علیک یا رسول اللہ! ()

(ترمذی،دارمی، اتحاف شرح احیاء:۱/۲۰۳۔۲۱۲۔ لائل النبوۃ مکمل ۲جلدیں)

ترجمہ:   حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم  کے ساتھ مکہ میں تھا، جب ہم مکہ کے نواح میں ایک طرف گئے تو جو بھی پہاڑ یعنی پتھر اور درخت سامنے آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ()!

علماء کرام فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے معجزات قرآن و احادیثِ متواترہ سے ثابت ہیں، اس لئے ان کا انکار آدمی کو کفر سے ملادیتا ہے۔




دسواں عقیدہ:  اجماعِ امت کا انکار کرنا۔
جواب:          اجماع کہتے ہیں کہ رسول اللہ  کے بعد کسی بھی زمانہ میں فقہاء مجتہدین کسی حکم شرعی پر متفق ہوجائیں۔
اس پر عمل کرنا ایسا ہی ضروری ہوتا ہے جیسے کہ قرآن و حدیث پر، اجماع امت کا ثبوت بھی قرآن و احادیث سے ملتا ہے، قرآن میں آتا ہے۔

۱۔       وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۔

(اٰل عمران:۱۰۳)

ترجمہ:   اور اللہ کی رسی کو تم سب مل کر مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔

۲۔      يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَo 

(توبہ:۱۱۹)

ترجمہ:   اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔

۳۔      وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا o 

(النساء:۱۱۵)

ترجمہ:   اور جو شخص رسول اللہ  کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر ظاہر ہوچکا ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے گا تو ہم اس کو جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دیں گے، پھر اس کو جہنم میں داخل کردیں گے اور وہ سب سے بُری جگہ ہے۔

اجماع امت پر اتنی کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں، جو متواترہ کہلاتی ہیں۔
حدیثِ متواتر:  اس حدیث کو کہتے ہیں کہ اتنی کثرت سے ہر زمانہ میں لوگ اس کو نقل کرتے ہوئے آئے ہوں کہ ان سب کا جھوٹ پر یا غلطی پر متفق ہونا محال سمجھا جائے۔

(التوضیح و التلویح:۲/۳۱۲۔ تسہیل الاصول:۱۴)

۱۔       ان اللہ لا یجمع امتی او قال امۃ محمد () علی ضلالۃ و ید اللہ علی الجماعۃ و من شذ شذ الی النار۔

(ترمذی، ابواب الفتن، باب لزوم الجماعۃ:۲/۴۹۔ مستدرک حاکم:۱۱۵۔ ابن ماجہ:۲۸۳۔ ابوداؤد:۲/۵۸۴)

ترجمہ:   نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر متفق نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو الگ راستہ اختیار کرے گا جہنم کی طرف جائے گا۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران مجمع عام میں یہ روایت سنائی:

۲۔      لن یزال امر ھذہ الامۃ مستقیماً حتی تقوم الساعۃ۔

(بخاری،کتاب العلم:۱/۱۶۔ مسلم، کتاب الامارۃ:۱۴۳)

ترجمہ:   اس امت کی حالت قیامت تک سیدھی اور درست رہے گی۔

۳۔      ان امتی لا تجمع علی ضلالۃ فاذا رأیتم اختلافا فعلیکم بالسواد الاعظم۔

(ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب السواد الاعظم:۲۸۳)

ترجمہ:   نبی کریم  کا ارشاد ہے کہ میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی، پس جب تم اختلاف کو دیکھو تو سواد اعظم کو لازم پکڑو۔

اجماعِ امت کن کا حجت ہوگا؟
اس میں کئی اقوال ہیں۔
۱۔       امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اجماع تو اہل مدینہ کا معتبر ہے۔

(التقریر شرح التحریر:۳/۱۰۰)

۲۔      بعض کے نزدیک صرف صحابہ کرامؓ کا اجماع معتبر ہوگا۔

(تسہیل الوصول:۱۷۰)

۳۔      سب سے زیادہ متعدل قول یہ ہے کہ اجماع کسی بھی زمانہ کے فقہاء مجتہدین کا کسی حکم شرعی پر متفق ہوجانا کافی ہے، پھر اس اجماع سے خلاف اہل بدعت فاسق اور عوام الناس کی مخالفت کا اعتبار نہیں ہوگا، یہی تیسرا قول جمہور علماء کے نزدیک پسندیدہ ہے۔

(التقریر شرح التحریر:۳/۱۰۰)





گیارہویں عقیدہ:   قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔
جواب:          نسخ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی حکم کو ختم کرنا، یعنی ایک حکم کی جگہ پر دوسرا حکم لانا اور پھر یہ نسخ مفسرین کے نزدیک تین قسم کی ہوتی ہے۔
۱۔       الفاظ منسوخ کردئے جاتے ہیں، حکم باقی رہتا ہے، جیسے کہ آیتِ رجم کا حکم کہ اس کے الفاظ تو منسوخ کردئے گئے مگر حکم آج بھی موجود ہے۔
۲۔      الفاظ موجود ہوتے ہیں مگر حکم منسوخ کردیا جاتا ہے، جیسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کرنا۔ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۔

(بقرہ:۱۸۰)

۳۔      الفاظ اور حکم دونوں منسوخ کردئے جاتے ہیں جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ سورۂ احزاب، سورۂ بقرہ کے برابر تھی، مگر آج اس کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوگیا۔
اس کی اہمیت کے پیش نظر یہ ناسخ منسوخ کا حکم بھی مفسرین کے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، وہ علم جو مفسرین کے لئے ضروری ہیں اس میں ناسخ منسوخ کے علم کو بھی حاصل کیا جاتا ہے۔
قرآن کے نسخ کے بارے میں امت کا اتفاق رہا ہے اور متقدمین میں سے چند معتزلہ کے سوا کسی نے بھی انکار نہیں کیا، ان پر مفسرین نے بہت شدت سے رد کیا ہے۔

(تفسیر ابن کثیر، ابن جریر، در منثور، تفسیر کبیر۔ آخر الذکر میں سب ہی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے)

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

معرفۃ ھذا الباب اکیدۃ و فائدتہ عظیمۃ لا تستغنی عن معرفتہ العلماء ولا ینکرہ الا الجھلۃ الاغبیاء۔

(تفسیر قرطبی)

ترجمہ:   باب نسخ کی معرفت بہت ضروری ہے اور فائدہ اس کا بہت زیادہ ہے، اس کی معرفت جاننے سے علماء مستغنی نہیں ہوسکتے اور جاہلوں اور بیوقوفوں کے سواء اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

و انکر ابو مسلم الاصفھانی وقوعہ فقال انہ و ان جاز عقلاً لکنہ لم یقع۔

(روح المعانی:۱/۳۵۲)

ترجمہ:   نسخ کا صرف ابومسلم اصفہانی نے انکار کیا، وہ یہ کہتے ہیں نسخ احکامِ الٰہیہ میں ممکن تو ہے مگر کہیں واقع نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ امت کے متقدمین و متاخرین علماء میں سے کسی نے بھی نسخ کا مطلقاً انکار نہیں کیا، ہاں! منسوخ آیات کے اندر اختلاف ہے کہ وہ کتنی ہیں مگر مطلقاً وقوع کا انکار ممکن نہیں ہے۔

(معارف القرآن:۱/۲۸۶)

یہ بات واضح رہے کہ یہ نسخ قرآن میں اس لئے نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے علم نہیں تھا کہ بعد میں علم ہونے پر پہلے والے حکم کو منسوخ کردیا گیا بلکہ اس کا یہاں پر حکم دینے والے کو پہلے سے اللہ کے علم تھا کہ حالات پر کہیں گے اور پھر دوسرا حکم دینا ہوگا تو ابتداءًا ایک حکم دیا گیا، پھر حالات کی وجہ سے دوسرا حکم دیا گیا، جیسے کہ ماہر حکیم، ڈاکٹر یہ جانتے ہوئے کہ موجودہ حالات میں مریض کو ایک دوا دینا ہے اور وہ اس کو جانتا بھی ہے کہ چند دنوں کے بعد مریض کی کیفیت بدلے گی تو دوسری دوا دینا ہوگا، پہلے وہ ایک دوا دیتا ہے اور پھر چند دونوں کے بعد دوسری دوا تجویز کرتا ہے۔
ماہر حکیم یا ڈاکٹر یہ بھی کرسکتا تھا کہ پہلے ہی دن میں تمام دوا لکھ کر دے دے کہ دو دن یہ دوا ،پھر یہ دوا استعمال کرنی ہے، مگر اس میں مریض کی طبیعت پر بوجھ اور اس میں خطرہ بھی ہے کہ غلط استعمال کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوجائے گی۔

(معارف القرآن:۱/۲۸۳)





بارہویں عقیدہ: حیوانات کی تصویر جائز ہے۔
جواب:          علماء اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر تصویر جو روح والی ہو خواہ انسان کی ہو یا حیوانات کی حرام ہے، احادیث میں بڑی کثرت سے اس کا ثبوت ملتا ہے، مثلاً مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے:

۱۔       جاء رجل الی ابن عباسؓ فقال انی اصوّر ھذہ الصورۃ فافتنی فیھا فقال لہ اذن منی ثم اعادھا فدنا منہ فوضع یدہ علی رأسہ فقال أنبئک مما سمعتُ رسول اللہ  یقول کل مصوّر فی النار یجعل لہ بکل صورۃ نفسا فیعذبہ فی جھنم و قال ان کنت لا بدّ فاعلا فاصنع الشجر و ما لا روح فیہ۔

(مسلم، و راجع مشکوٰۃ:۳۸۵)

ترجمہ:   ایک شخص حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں، مجھے آپ اس کے بارے میں فتویٰ دیں، تو ابن عباسؓ نے فرمایا کہ میرے قریب آجاؤ اور پھر دوبارہ اور قریب آنے کے لئے فرمایا یہاں تک کہ وہ اتنا قریب ہوگیا کہ ابن عباسؓ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ میں تمہیں وہ بات بتلاتا ہوں جو میں نے رسول اللہ  سے سنی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا اور اس نے جتنی تصویریں بنائی ہر ایک کے مقابلہ میں ایک شخص مجسم بنایا جائے گا، جو اس کو جہنم میں عذاب دے گا اور فرمایا کہ تمہارا اس کے سوا گذارہ ہی نہیں تو درختوں کی اور ایسی چیزوں کی تصویر بنالیا کرو جس میں روح نہیں۔

۲۔      عن قتادۃ قال کنتُ عند ابن عباسؓ ...... حتی سُئلَ فقال سمعتُ محمداً یقول من صوّر صورۃً فی الدنیا کلف یوم القیامۃ ان ینفخ فیھا الروح و لیس بنافخ۔

(بخاری مع فتح الباری:۱۰/۳۲۳)

ترجمہ:   حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں نے نبی کریم  سے سنا ہے کہ جو شخص دنیا میں کوئی تصویر (جاندار کی) بنائے گا تو قیامت میں اس کو حکم دیا جائے گا کہ اس میں روح ڈالے اور ہرگز اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔

۳۔      عن عبد اللہ بن عمرؓ ان رسول اللہ  قال ان الذین یصنعون ھذہ الصور یعذّبون یوم القیامۃ یقال لھم احیوا ما خلقتم۔

(بخاری مع فتح الباری:۱۰/۳۱۶)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ جو تصاویر بناتے ہیں قیامت کے دن ان کو عذاب دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جو صورت تم نے پیدا کی ہے اس میں روح بھی ڈالو۔

جمہورِ امت کا اجماع ہے  اور ائمۂ اربعہ سب کا ہی یہ فتویٰ ہے کہ جاندار کی تصویر بنانا جائز نہیں ہے۔

(عمدۃ القاری:۲۲/۷۰۔ فتح الباری:۱۰/۳۱۵)

شارحِ مسلم حضرت علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قال اصحابنا وغیرھم من العلماء تصویر صورۃ الحیوان حرام شدید التحریم وھو من الکبائر لانہ متوعدّ بھذا الوعید الشدید المذکور فی الاحادیث و سواء صنعہ بما یصتھن او بغیرہ فصنعتہ حرام بکل حال لان فیہ مضاھاۃ لخلق اللہ تعالیٰ ....الخ۔

(نووی شرح مسلم:۲/۱۹۹۔ تصویر کی مکمل وضاحت کے لئے مفتی محمد شفیع صاحبؒ کا رسالہ ’’تصویر کے شرعی احکام‘‘ مفید رہے گا)

ہمارے حضرات اور دوسرے علماء نے فرمایا کہ جاندار کی تصویر بنانا سخت حرام ہے اور وہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اس لئے کہ اس پر ایسی وعید شدید وارد ہوئی ہے جو سب احادیث میں مذکور ہے، اور اس میں برابر ہے کہ ایسی تصویر بنائے جو عادتاً ذلیل اور پامال کی جاتی ہو یا اور کسی چیز کی بنانا ہو حرام ہے، اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کی نقل اتارنا ہے۔





تیرھواں عقیدہ:         یہ کہ اکثر احادیث صحیح نہیں ہیں۔
جواب:          یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے، مثلاً قرآن میں ہے:

۱۔       وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔

(حشر:۷)

ترجمہ:   اور رسول تمہیں جو کچھ بھی دیں اس کو تم لے لو اور جس سے چیز سے روک دیں اس سے رُک جاؤ۔

۲۔      وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللہ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۔

(احزاب:۳۶)

ترجمہ:   اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کے لئے گنجائش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کو کرنے کا حکم دے تو ان کے لئے اس کام (کو کرنے یا نہ کرنے) میں کوئی اختیار رہے۔

۳۔      هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ o 

(جمعہ:۲)

ترجمہ:   وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں ایک رسول() انہی میں سے بھیجا کہ وہ ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کی تربیت کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے، اگرچہ اس سے پہلے وہ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔

علماء مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت بالا میں حکمت سے مراد رسول اللہ  کی احادیث مبارکہ ہیں اور یہ بات تو واضح ہے کہ قرآن مجید کی بہت سے آیات سمجھ میں ہی نہیں آسکتیں جب تک کہ آپ کی احادیثِ مبارکہ کا سہارا نہ لیا جائے، مثلاً :

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۔

(بقرہ:۴۳)

ترجمہ:   نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نمازیں کب پڑھیں، کتنی، کس وقت پڑھیں؟ نماز میں کیا پڑھیں(الدر المنثور)، اور کس طرح پڑھیں؟ رکوع، سجدہ، قعدہ، قیام وغیرہ میں ترتیب کیا ہے؟ کس کو کس کے بعد اور کس سے پہلے کریں؟ نماز پڑھنے کے لئے اور بھی بہت سی باتیں جاننا ہوں گی، مگر ان سب باتوں سے قرآن بظاہر خالی ہے، جبکہ احادیث میں یہ سب باتیں موجود ہیں، اور قرآن کا خود ہی دعویٰ ہے کہ قرآن کے علاوہ اور بھی آپ پر وحی نازل کی جاتی رہی ہے، (اسی کا نام تو احادیث ہے) اس بات پر قرآن مجید میں بہت سی آیات موجود ہیں۔

مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللہ ۔

(حشر:۵)

ترجمہ:   تم نے کھجور کا جو درخت کاٹا یا اس کو اپنے جڑ پر کھڑا رہنے دیا یہ اللہ کے حکم سے تھا۔

مختصر واقعہ آیت کا یہ ہے کہ جب غزوہ خیبر میں یہود اپنے قلعہ میں خود بندہوگئے، آپ نے صحابہؓ کو حکمدیا کہ ان کے باغات اجاڑدیں تاکہ یہ قلعہ سے باہر نکل آئیں اور کچھ درختوں کو چھوڑدیا جائے تاکہ فتح ہونے کے بعد مسلمانوں کے کام آئیں، اس پر یہود نے مشہور کردیا کہ مسلمان تو فساد کرتے ہیں، تو یہود کی باتوں کا جواب آیت بالا میں دیا گیا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا یہ سب اللہ کے حکم سے ہوا، مگر وہ حکم قرآن میں موجود نہیں ہے، وہ تو آپ کو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا تھا، اسی کا نام تو حدیث ہے، اس کو مفسرین کی اصطلاح میں وحی غیر متلو کہتے ہیں۔
اسی وجہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

لو لا السنۃ ما فھم احد منّا القرآن ۔

(میزان شعرانی:۳۵)

ترجمہ:   اگر حدیث نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی شخص قرآن کو سمجھ نہیں سکے گا۔

رسول اکرم  کی احادیث بھی اس سلسلہ میں سیکڑوں وارد ہوئی ہیں، مثلاً :

۱۔       عن المقدام بن معدیکربؓ قال قال رسول اللہ  الا انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ و انّ ما حرم رسول اللہ  کما حرم اللہ۔

(ابوداؤد، دارمی، ابن ماجہ و کذی مشکوٰۃ:۲۹)

ترجمہ:   حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: سن لو! مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور قرآن کے ساتھ اس کے مثل بھی، سن رکھو! قریب ہے کہ کوئی پیٹ بھرا تکیہ لگایا ہوا آدمی یہ کہے گا کہ لوگو! تمہیں یہ قرآن کافی ہے، پس جو چیز بھی اس میں حلال ہے اسی کو حلال سمجھو، حالانکہ اللہ کے رسول  کی حرام بتلائی ہوئی چیزیں بھی ویسی ہی حرام ہیں جیسی کہ اللہ تعالیٰ کی حرام بتائی ہوئی چیز۔

۲۔      و عن انس بن مالکؓ مرسلا قال رسول اللہ  ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنتُ رسولہ۔ (مؤطا امام مالک و کذا مشکوٰۃ:۳۱)

ترجمہ:   امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مرسلاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جاتا ہوں، جب تک ان دونوں کا دامن مضبوطی سے تھامے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے: (۱)کتاب اللہ۔ (۲)سنت رسول ۔




چودھواں عقیدہ:        جنّ کا انکار کرنا۔
جواب:          جنّ کی تعریف:    وہ ایک ایسی مخلوق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آگ کے شعلوں سے پیدا فرمایا ہے اور وہ ایسی قوت رکھتے ہیں کہ حسب منشاء ہر صورت میں متشکل ہوسکتے ہیں، جنات کے تذکرے سے قرآن و حدیث بھری ہوئی ہیں، ان کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔




جنّات کا تذکرہ قرآن کریم میں بیک نظر
۱۔ سورۂ انعام:               ۴۔آیات                             ۲۔ اعراف:                 ۲۔آیات
۳۔ ہود:                     ۱۔آیت                     ۴۔ اسراء:                   ۱۔آیت
۵۔ کہف:                   ۱۔آیت                     ۶۔ نمل:                    ۲۔آیات
۷۔ سجدہ:                   ۱۔آیت                     ۸۔ سبا:                      ۳۔آیات
۹۔ صافات:                 ۱۔آیت                     ۱۰۔ فصلت:                ۲۔آیات
۱۱۔ ذاریات:                ۲۔آیات                    ۱۲۔ رحمن:                  ۵۔آیات
۱۳۔ جنّ:                   ۶۔آیات                    ۱۴۔ ناس:                   ۶۔ آیات
۱۵۔ شوریٰ:                 ۱۔آیت                     ۱۶۔ زخرف:                ۳۔آیات
۱۷۔ محمد:                    ۳۔آیات                             ۱۸۔نجم:                    ۲۔آیات
۱۹۔ تحریم:                  ۱۔آیت                     ۲۰۔ طارق:                 ۱۔آیت
۲۱۔ معارج:                ۱۔آیت                     ۲۲۔ فجر:                    ۱۔آیت
۲۳۔ قدر:                   ۱۔آیت۔
چند آیات قرآن مع ترجمہ:

۱۔       وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۔

 (سبا:۱۲)

ترجمہ:   جنات کام کرتے تھے ان کے سامنے اللہ کے حکم سے۔

۲۔      وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا ۔

 (احقاف:۲۹)

ترجمہ:   جب ہم نے متوجہ کردیا آپ کی طرف جنات کو تو وہ قرآن سننے لگے، جب وہ وہاں پہنچے تو کہنے لگے کہ سب خاموش ہوجاؤ۔

۳۔      قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا o 

(جن:۱)

ترجمہ:   کہہ دیجئے! میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے جب کلام پاک کو سنا تو وہ کہنے لگی کہ بے شک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔

اور احادیث نبوی میں بھی بکثرت جنات و شیاطین کا ذکر ملتا ہے، مثلاً :

سئل رسول اللہ  عن الکھاّن فقال لیسوا بشیء فقالوا یا رسول اللہ ! انھم یحدثوننا احیانا بشیء فیکون حقا، قال تلک الکلمۃ من الحق یخطفطا الجنی فیقرّھا فی اذن ولیہ فیخلطون فیہ اکثر من مأۃ کذبۃ ثم ان اللہ تعالیٰ حجب الشیاطین بھذا النجوۃ التی یقذفون بھا فاتقعطت الکھانۃ الیوم کلا کھانۃ۔

(بخاری:۸۷۵)

ترجمہ:   رسول اللہ  سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ان لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! وہ لوگ بعض وقت ایسی باتیں کرتے ہیں جو سچی ہوتی ہیں، آپ نے فرمایا: جنات کوئی بات فرشتوں سے سن کر کاہنوں کے کانوں ڈال دیتے ہیں اور وہ اپنی طرف سے بھی ایسی باتیں اس میں خلط ملط کردیتے ہیں جو بالکل جھوٹی ہوتی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں چرانے کا..... ........... لوٹنے والے ستاروں سے کردیا ہے۔

جنات کا انکار صرف اس لئے کرنا کہ ہم کو نظر نہیں آتے درست نہیں، بے شمار چیزیں ہیں جو انسان کو نظر نہیں آتیں مگر وہ ان کو مانتا اور تسلیم کرتا ہے، مثلاً روح، انسان کی عقل اور فرشتے وغیرہ وغیرہ، اسی وجہ سے علماء عقائد فرماتے ہیں کہ جنات اور شیاطین کے وجود کا انکار کرنا قرآن و حدیث کا انکار ہے، اس لئے یہ کفر ہے۔

(عقائد اسلام:۲/۶۲)





پندرھواں عقیدہ:        موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار۔
جواب:          یہ انکار بھی قرآن و حدیث کا انکار ہونے کی وجہ سے کفر کو مستلزم ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے لئے معجزات کا ثبوت قرآنی آیات اور اخبات متواترہ سے ثابت ہیں، یہ معجزات دراصل انبیاء علیہم السلام کی تائید اور تصدیق کے لئے دئے گئے ہیں تاکہ یہ معجزات ان کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل بن جائیں، بہر حال موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے، مثلاً :

۱۔       وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۔

(بنی اسرائیل:۱۰۱)

ترجمہ:   اور ہم نے موسی علیہ السلام کو نو(۹) نشانیاں دیں۔

۲۔      وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۔

(بقرہ:۶۰)

ترجمہ:   جب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو ، پھر نکلنے لگے اس میں سے بارہ چشمے۔

۳۔      وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى o

(طٰہٰ:۲۲)

ترجمہ:   (اے موسیٰؑ!) آپ اپنے ہاتھ کو بغل کے ساتھ ملائی، پھر یہ نکلے گا چمکتا ہوا، یہ میری نشانی ہوگی۔

۴۔      قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۔

(طٰہٰ:۴۷)

ترجمہ:   ہم آئے ہیں آپ کے پاس اپنے رب کی طرف سے معجزات لے کر۔

معجزات کے ثبوت کے بارے میں حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معجزات یہ انبیاء کی صداقت کی نشانیاں ہیں، اس کی مثال اس طرح ہے کہ جب سلاطین عالم کسی کو اپنے تقرب کے لئے منتخب کرتے ہیں تو ان کی عزت و کرامت کے لئے وہ نشانات عطا کرتے ہیں جو دوسروں کے حوصلہ تمنا سے خارج ہوتے ہیں، اسی طرح اللہ جل شانہ جب کسی کو منصبِ نبوت سے سرفراز فرماتے ہیں تو ان کو بھی خاص نشانات عطا فرماتے ہیں، جس سے وہ تمام عالم میں ممتاز ہوجاتے ہیں۔



سولہواں عقیدہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوچکا، وہ آسمان پر زندہ نہیں ہیں۔
جواب:   یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث کی نصوص کے خلاف ہے، مثلاً :

۱۔       وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللہ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا o بَلْ رَفَعَهُ اللہ إِلَيْهِ وَكَانَ اللہ عَزِيزًا حَكِيمًاo  

(النساء:۱۵۷،۱۵۸)

ترجمہ:   (ہم نے یہودیوں پر لعنت کی) ان کے اس قول کی وجہ سے کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ بن مریم کو قتل کیا ہے، حالانکہ نہ انہوں نے انہیں قتل کیا ہے اور نہ سولی پر لٹکایا، لیکن ان کو شبہ میں ڈالا گیا اور جو معاملہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ خود شک میں ہیں، ان کو اس کا کچھ علم نہیں، لیکن انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰؑ کو یقیناً قتل نہیں کیا،بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

روح المعانی میں ہے: وھو حی فی السماء۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں، اسی بات پر تمام مفسرین متفق ہیں۔

۲۔      وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًاo 

(النساء:۱۵۹)

ترجمہ:   اور کوئی اہل کتاب نہیں مگر وہ ضرور ایمان لائیں گے عیسیٰؑ پر (قیامت کے قریب) عیسیٰؑ کی موت سے پہلے قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔

یہ آیت نزولِ عیسیٰ علیہ السلام پر بھی دلالت کرتی ہے۔

۳۔      وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ o 

(زخرف:۶۱)

ترجمہ:   بیشک عیسیٰؑ یہ قیامت کی نشانیوں سے ہیں، قیامت میں شک نہ کریں اور اتباع میری کرو یہی صراطِ مستقیم ہے۔

اور بے شمار احادیث سے جن کو بھی احادیث متواترہ کہا جاتا ہے، یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر تشریف فرما ہیں، قیامت کے قریب اتریں گے، نیز صحابہؓ اور بعد میں بھی اس مسئلہ میں کسی کا بھی اختلاف نہیں تھا۔

۱۔       عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللہ  ینزل اخی عیسی بن مریم من السمآء۔

(کنز العمال: ۷/۲۶۷)

ترجمہ:   حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ  نے فرمایا: میرے بھائی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔

۲۔      عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ  کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم من السماء و امامکم منکم ۔

(بخاری:۴۹۰۔ مسلم:۱/۸۷۔ مشکوٰۃ:۴۸۰)

۳۔      عن عبد اللہ بن عمرؓ قال قال رسول اللہ  ینزل عیسی بن مریم الا الارض فیتزوج و یولد و یمکث خمسا و اربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا و عیسی بن مریم قبر واحد بین ابی و عمر۔

(کتاب الوفاء لابن الجوزیؒ و کذا فی مشکوٰۃ:۴۸۰)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: کہ عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریمؑ کے بیٹے زمین پر اتریں گے، نکاح کریں اور ان کی اولاد بھی ہوگی، ۴۵/سال رہیں گے، پھر انتقال ہوگا اور میری قبر میں میرے ساتھ دفن کئے جائیں گے، پھر میں اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ایک ہی قبر سے اٹھیں گے جبکہ ابوبکرؓ اور عمرؓ ہمارے درمیان میں ہوں گے۔

شیخ عبد الوہاب الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

فقد ثبت نزول عیسی علیہ السلام بالکتاب و السنۃ و زعمت النصاریٰ ان ناسوتہ صلب ولاھوتہ رفع و الحق انہ رفع بجسدہٖ الی السماء و الایمان بذالک واجب۔  قال تعالیٰ : بل رفعہ اللہ الیہ ۔

(یواقیت:۲/۱۴۷)

ترجمہ:   حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ  سے ثابت ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ان کو سولی دیدی گئ ہے اور لاہوت کو اٹھالیا گیا ہے، مگر حق یہ ہے کہ ان کو جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھالیا گیا ہے، اس پر ہی ایمان لانا واجب ہے، اللہ کے اس قول کی وجہ سے: بل رفعہ اللہ الیہ ۔ یعنی اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا ہے۔






سترہواں عقیدہ:         شق القمر کا انکار کرنا۔
جواب:          دراصل شق القمر کا واقعہ جو قرآن کی آیت اقتربت الساعۃ و انشق القمر۔ اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ  منیٰ میں تشریف فرما تھے، مشرکینِ مکہ نے آپ سے نبوت کی نشانی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ ظاہر کیا کہ چاند کے دوٹکڑے کردئے اور جب لوگوں نے اچھی طرح دیکھ لیا تو پھر دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے۔
اس واقعہ کا دوسرے اطراف سے آنے والے لوگو نے بھی اعتراف کیا، علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک شق القمر کی روایات متواتر ہیں، اس کا انکار کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، مثلاً :

۱۔       انشق القمر علی عھد رسول اللہ  شقتین حتی نظروا الیہ فقال رسول اللہ اشھدوا۔

(بخاری ومسلم)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  کے زمانہ میں چاند شق ہوا اور اس کے دو ٹکڑے ہوگئے، جس کو سب نے صاف طور پر دیکھا، آپ نے لوگوں سے فرمایا: دیکھو اور شہادت دو۔

۲۔      عن انس بن مالکؓ ان اھل مکۃ سألوا رسول اللہ  ان یریھم آیۃ فاراھم القمر شقتین حتی رأو حراء بینھما۔

(بخاری و مسلم و کذا مشکوٰۃ:۵۲۴)

ترجمہ:   حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہ  سے سوال کیا کہ اپنی نبوت کے لئے کوئی نشانی دکھلائیں، تو اللہ تعالیٰ چاند کے دوٹکڑے کرکے دکھلادیا یہاں تک کہ انہوں نے حراء پہاڑ کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔

۳۔      انشق القمر بمکۃ حتی صار فرقتین فقال کفار قریش اھل مکۃ ھذا سحر، سحرکم بہ ابن ابی کبشۃ انظروا السفار فان کانوا رأوا ما رأیتم فقد صدق و ان کانوا لم یرو مثل ما رأیتم فھو سحر سحرکم بہ فمثل السفار قال و قدموا من کلّ جھۃٍ فقالوا رأینا۔

(ابوداؤد الطیالسی)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ مکہ معظمہ کے قیام کے زمانہ میں چاند شق ہوکر دو ٹکڑے ہوگیا، کفار قریش کہنے لگے کہ یہ جادو ہے، ابن ابی کبشہ(یعنی رسول) نے تم پر جادو کردیا ہے اس لئے تم انتظار کرو باہر سے آنے والے مسافروں کا، اگر انہوں نے بھی یہ دو ٹکڑے چاند کے دیکھے ہیں تو انہوں نے سچ کہا ہے اور اگر باہر والوں نے ایسا نہیں دیکھا تو پھر بیشک جادو ہگا، پھر باہر سے آنے والے مسافروں سے تحقیق کی جو اطراف سے آئے تھے، ان سب نے ہی اعتراف کیا کہ ہم نے بھی یہ دو ٹکڑے دیکھے ہیں۔

عقائد الاسلام میں لکھا ہوا ہے: شق القمر معجزہ پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے اور اس میں تاویل کرنا گمراہی اور اندیشۂ کفر ہے، کیونکہ یہ معجزہ نصوصِ صریحہ سے ثابت ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

(عقائد الاسلام:۲/۷۲)





اٹھارہواں عقیدہ:       شقِ صدر کا انکار کرنا۔
جواب:          محقق علماء کرام کے نزدیک صدق صدر کا واقعہ رسول اللہ  کے ساتھ چار مرتبہ پیش آیا:
(۱)      بچپن میں جبکہ عمرِ مبارک چار سال تھی۔
(۲)     دس سال کی عمرِ مبارک میں ہوا۔
(۳)     چالیس سال کی عمر میں نبوت ملنے سے قبل ہوا۔
(۴)     معراج پر تشریف لے جانے سے پہلے۔
شق صدر کی صورت یہ ہوتی کہ جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام آتے اور آپ کا سینۂ مبارک شق کرکے دل نکالتے اور پھر اس کو زمزم سے دھوکر دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ کر ویسے ہی کردیتے تھے، یہ چاروں مرتبہ ہی کا شق صدر روایاتِ صحیحہ اور احادیثِ معتبرہ سے ثابت ہے، بلکہ معراج کے وقت کا شق صدر کا واقعہ تو احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے اور اس شق صدر کے علماء نے بڑے اسرار اور حکمتیں لکھی ہیں(جس کا یہاں موقع نہیں) (سیرۃ المصطفیٰؐ:۱/۷۴) اور یہ کہنا کہ یہ مشکل و محال ہے اس لئے ہم تسلیم نہیں کرتے، یہ بات غلط ہے جیسے کہ علامہ قسطلانی اور علامہ زرقانی رحمہما اللہ فرماتے ہیں:

ثم ان جمیع ما ورد من شق الصدر استخراج القلب و غیر ذالک من الامور الخارقۃ للعادۃ مما یجب التسلیم لہ دون التعرّض لصرفہ عن حقیقتہ اسلامیّۃ ۔

(مواھب و شرح مواھب)

ترجمہ:   جو کچھ بھی مردی ہے شق صدر اور قلب مبارک کا نکالنا اور اس قسم کے خلافِ عادت خبر کا تسلیم کرنا واجب اور لازم ہے جس طرح منقول ہے۔

اس کو اسی حقیقت پر محمول کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز بھی محال نہیں ہے، اسی طرح علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

القدرۃ فلا یستحیل شیئاً من ذالک ھٰکذا قالہ القرطبی فی المفھم و الطیّبی والتّوربشتیّ و الحافظ فی الفتح و السیوطی و غیرہ و یؤید الحدیث الصحیح انھم کانوا یرون اثر المخیط فی صدرہ قال السیوطی و ما وقع من بعض جھلۃالعصر من انکار ذالک و حملہ علی الامر المعنوی فھو جھل صریح و خطاء قبیح نشأ من خذلان اللہ تعالیٰ و عکوفھم علی العلوم الفلسفیۃ و بعدھم عن دقائق السنۃ عافانا اللہ من ذنب۔

(زرقانی شرح مواھب:۶/۲۴)

ترجمہ:   امام قرطبی، طیبی، تورپشتی، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ علماء و محققین فرماتے ہیں کہ شق صدر والی بات اپنی جگہ حقیقت پر محمول ہے اور حدیثِ صحیح سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے، وہ یہ کہ حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سلائی کا نشان رسول اللہ  کے سینۂ مبارک پر اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے، علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ بعض ہمارے زمانہ کے جہلاء شق صدر کا انکار کرتے ہیں اور اس کو امر معنوی قرار دیتے ہیں یہ صریح جہالت اور سخت غلطی پر ہیں، جو اللہ جل شانہ کی عدم توفیق اور علومِ فلسفیہ میں مشغولیت اور علومِ سنت سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ (آمین ثم آمین)




انّیسواں عقیدہ: معراج کا انکار کرنا۔
جواب:    معراج کا مطلب یہ ہے کہ ایک رات رسول اللہ  کو زمین سے آسمان تک اور وہاں جنت و جہنم کی سیر کروائی گئی، مشہور واقعہ ہے اور اس میں آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، علماء کے نزدیک مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو اسراءکہتے ہیں اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک کے سفر کو معراج کہتے ہیں، کبھی پوری ہی واقعہ کو معراج کا واقعہ کہدیتے ہیں۔
قرآن و احادیث سے یہ واقعہ ثابت ہے، اس لئے اس کا انکار کرنا ایک مسلمان کے لئے ممکن نہیں ہے، جیسے قرآن مجید میں آتا ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ o

(بنی اسرائیل:۱)

ترجمہ:   پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے(محمد کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کی سیر کروائی جس کے اوپر برکت ہے، تاکہ ہم انہیں اپنی نشانہ دکھائیں، بیشک وہی ذات سننے والی دیکھنے والی ہے۔

احادیثِ مبارکہ بھی اس واقعہ کے بارے میں بہت کثرت سے وارد ہوئی ہیں، مثلاً :

۱۔       عن ابن عباسؓ ھی رؤیا عین اریھا رسول اللہ  لیلۃ اسری بہ۔

(بخاری:۲/۶۸۶)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ معراج میں جو واقعات رسول اللہ  نے دیکھے وہ سب اسی آنکھ سے دیکھے ہیں۔

۲۔      عن ابی بکرؓ من روایۃ شداد بن اوسؓ انہ قال للنبی  لیلۃ اسری بہ طلبتک یا رسول اللہ البارحۃ فی مکانک فلم اجدک فاجابہ ان جبریل حملہ الی المسجد الاقصیٰ۔

(شفاء للقاضی عیاض:۱/۱۵۳)

ترجمہ:   حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں نے آپ کو کل رات (معراج کی رات) آپ کے مکان میں تلاش کیا، آپ کو وہاں نہیں پایا، آپ نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل علیہ السلام مسجد اقصیٰ کی طرف اٹھا لے گئے تھے۔

بقولِ شاعر         ؎

مکاں و لا مکاں سے اس کی منزل اور آگے ہے               

نہ ہو حیراں ابھی معراج انساں دیکھنے والے

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ معراج کے منکرین کے بارے میں شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:

فی کتاب الخلاصۃ من انکر المعراج ینظر ان انکر الاسراء من مکۃ الی بیت المقدس فھو کافر ولو انکر المعراج من بیت المقدس لا یکفر و ذلاک لان الاسراء من الحرم الی الحرم ثابت بالاٰیۃ وھی قطعیۃُ الدلالۃ و المعراج من بیت المقدس الی السماء ثبت بالسنۃ وھی ظنیۃ الروایۃ و الدرایۃ۔

(شرح فقہ اکبر:۱۳۵)

ترجمہ:   کتابِ خلاصہ میں ہے کہ جس نے معراج کا انکار کیا تھا دیکھا جائے گا اگر مکہ سے بیت المقدس تک کے اسراء کا انکار کیا تو کافر ہوجائے گا اور اگر بیت المقدس سے آگے کا انکار کیا تو کافر نہیں ہوگا، کیونکہ مکہ سے بیت المقد تک کا اسراء یہ تو آیتِ قرآنیہ سے ثابت ہےجو قطعی الدلالۃ ہے اور معراج بیت المقدس سے آسمان تک یہ سنت سے ثابت ہے جو ظنی الدلالۃ ہے۔

اسی طرح عقائد الاسلام میں لکھا ہوا ہے کہ معراج کے معجزہ پر ایمان لانا فرض ہے، اس کا انکار کفر ہے، اس میں تاویل کرنا گمراہی ہے۔

(عقائد الاسلام:۲/۷۲)

نوٹ:  معراج کے بارے میں پوری تحقیق ’’کتاب ضوء السراج فی تحقیق المعراج‘‘ مصنف مولانا محمد سرفراز خان صفدر شیخ الحدیث گجرانوالہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔



بیسواں عقیدہ:  حضرت مہدیؒ کا انکار کرنا۔
جواب:          جبکہ حضرت مہدیؒ کی آمد قرب قیامت ہوگی، یہ بات اہل سنت والجماعت کے نزدیک احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، مثلاً :

۱۔       عن ام سلمۃ رضی اللہ عنھا قالت سمعتُ رسول اللہ  یقول المھدی من عندنی من اولاد فاطمۃ۔

(ابوداؤد:۲/۲۴۰۔ ابن ماجہ و کذا فی مشکوٰۃ:۴۷۰)

ترجمہ:   حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ  کو انہوں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مہدی میرے خاندان سے ہوں گے یعنی اولادِ فاطمہؓ سے۔

۲۔      و عن علیؓ  قال قال رسول اللہ  سیخرج من صلبہ رجل یسمّٰی باسم نبیکم یشبہہ فی الخلق ولا یشبہہ فی الخلق یملا الارض عدلاً ۔

(ابوداؤد:۲/۲۴۰۔ و کذا فی مشکوٰۃ:۴۷۱)

ترجمہ:   حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: میرے بیٹے حسن کی نسب سے ایک شخص نکلے گا اس کا نام تمہارے نبی کے نام کی طرح ہوگا، اخلاق میں بھی نبیکے اخلاق سے مشابہ ہوگا وار وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دےگا۔

۳۔      عن عبد اللہ بن مسعودؓ یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطئ اسمہ اسمی و اسم ابیہ اسم ابی ھذا حدیث حسن صحیح۔ ()

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا میرے خاندان میں سے ایک شخص عرب کا بادشاہ ہوگا، اس کان نام میرے نام کے اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام کے مطابق ہوگا۔

حضرت مہدیؒ کے انکار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انکار کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے اور حضرت مہدیؒ کی آمد پر اجماع امت بھی ہے۔

(مزید وضاحت کے لئے دیکھئے: شرح عقیدہ سفارینیہ:۲/۶۷۔ اسی طرح ابن حجر مکیؒ کی کتاب مہدی منتظر کی علامت۔)




اکیسواں عقیدہ: کہ انسان بھی نبی کے برابر ہوسکتا ہے اور محنت سے یہ مرتبہ حاصل کرسکتا ہے۔
جواب:   یہ عقیدہ رکھنا بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے کیونکہ امت محمدیہ (صلوٰۃ اللہ علیہ صاحبہا) کا اتفاق ہے کہ نبوت ایک وہبی منصب ہے، جس کو اللہ چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے، اس میں کسی کی ریاضت اور محنت کا دخل نہیں ہے، اللہ جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے۔

۱۔       رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ (15) يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ ۔

(غافر:۱۵۔۱۶)

ترجمہ:   اللہ خوب جانتا ہے کہ کہاں رکھے اپنی پیغمبری کو) وہ بلند مرتبوں ولالا اور عرش کا ملک ہے، ڈالتا ہے روح اپنے حکم سے جس پر چاہتا ہے، اپنے بندوں میں سے تاکہ وہ ڈرائے ملاقات کے دن (قیامت)سے۔

۲۔      يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِo 

(نحل:۲)

ترجمہ:   اُتارتا ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں سے کہ ڈراؤ اس بات سے کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے مجھ ہی سے ڈرو۔

۳۔      مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللہ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ o

  (بقرہ:۱۰۵)

ترجمہ:   نہیں چاہتے کافر اہل کتاب اور مشرکین کہ نازل کی جائے تم پر کوئی بھلائی تمہارے رب کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ خاص کرلیتا ہے اپنی رحمت کے لئے جس کو چاہتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح نوع انسانی کی انسانیت اور نوع ملائکہ کی ملکیت اکتسابی نہیں کہ مجاہدات و ریاضت سے مل جائے، تو اسی طرح انبیاء ومرسلین کی نبوت و رسالت بھی مکتسب نہیں ہے۔

(معارف القدوس)

اسی بات پر تمام امت کا اتفاق و اجماع ہے۔
اور یہ بات کہنا کہ کسی بھی نبی نے (معاذ اللہ) توحید کی تعلیم مکمل نہیں کی اور سب انبیاء علیہم السلام کی تعلیم ناقص رہی، یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کے خلاف ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والا بالاتفاق کافر ہے۔



بائیسواں عقیدہ:    میت کو ایصال ثواب نہیں پہنچتا۔
جواب:    یہ بات بھی اہل سنت و الجماعت کے خلاف ہے، قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان اپنی نیکی کا ثواب مرنے والے کو بخش سکتا ہے، اس پر اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے، جیسے متعدد روایات میں آتا ہے کہ ایک صحابیؓ نے رسول اللہ  کے مشورہ سے اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے کنواں کھودوایا تھا۔

(مشکوٰۃ)

اسی طرح رسول اللہ  نے ایک عورت کو ان کے والد کی طرف سے حج کرنے کی اجازت دی ہے۔

(مشکوٰۃ)

قرآن مجید میں آتا ہے:

۱۔       وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا o

(بنی اسرائیل:۲۴)

ترجمہ:   اور کہئے میرے تب! تو میرے ماں باپ پر اسی طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میرے پرورش کی تھی۔

۲۔      الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا ۔

(غافر:۷)

ترجمہ:   جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو ان کے ارد گرد ہیں تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اپنے رب کی اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مؤمنوں کے لئے استغفار کرتے ہیں۔

اس سلسلہ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں:

فھذہ الاٰثار و ما قبلھا و ما فی السنۃ ایضاً من نحوھا عن کثرۃ قد ترکناہ الحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وھو ان من جعل شیئاً من الصالحات نفعہ اللہ بہ مبلغ التواتر و ذا ما فی کتاب اللہ تعالیٰ من الامر بالدعاء للوالدین فی قولہ تعالیٰ : وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا o و من الاخبار باستغفار الملائکۃ للمؤمنین یسبحون بحمدربھم و یؤمنون بہ و یستغفرون للذی اٰمنوا .......... الاٰیۃ قطعی فی حصول الانفتفاع بعمل الغیر۔

(فتح القدیر شرح ہدایۃ: ۲/۳۰۹)

ترجمہ:   غرض یہ احادیث اور جو اس سے پہلے مذکور ہوچکیں نیز اسی قسم کی اور روایات جو سنت میں اور بہت سے حضرات سے مروی ہیں جن کو ہم نے طوالت کے خوف سے چھوڑدیا ہے ان سب کا قدر مشترک یہ نکلتا ہے کہ ایصال ثواب سے اللہ تعالیٰ میت کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اسی طرح کتاب اللہ میں جو والدین کے حق میں دعاء کا حکم وارد ہوا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا o میرے رب تو میرے ماں باپ پر اسی طرح رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی‘‘ اور اسی طرح قرآن میں جو یہ بتلایا گیا ہے کہ فرشتے مؤمنین کے لئے مغفرت کی دعاء کرتے ہیں، ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ و الملائکۃ یسبحون بحمد ربھم۔ فرشتے اپنے پروردگار کی حمد کرتے ہیں اور اس پر یقین کرتے ہیں اور دعائے مغفرت کرتے ہیں ایمان والوں کے لئے، یہ سب اس بات پر قطعی ثبوت پیش کرتی ہیں کہ دوسرے کے عمل سے فائدہ ہوتا ہے۔


فرقہ نیچریہ کاتفصیلی تعارف

فرقہ نیچریہ کا پس منظر

ہندوستان کی اسلامی حکومت کے ختم ہوجانے اور انگریزی حکومت کے آنے کے بعد سب سے پہلے جو گمراہ فرقہ پیدا ہوا وہ یہی فرقہ نیچریہ تھا۔

(عقائد الاسلام:۱/۱۷۹)

سر سید ابتداء میں غیر مقلد تھے اور پھر مجتہد ہوگئے اور جب اپنے پیشے کے ساتھ انگلستان گئے تو پھر ملحد ہوگئے اور پھر کھل کر انہوں نے اپنے فرقہ نیچریہ کی اشاعت کا کام شروع کردیا۔

(امداد الفتاویٰ:۶/۱۶۷)

اس فرقہ کو انگریز نے صرف اس لئے بنوایا کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار ہو اور پھر ہم کو یکسوئی سے حکومت کرنے کا موقع ملے، اس کام کے لئے انگریز نے سر سید کو خوب استعمال کیا، یہ بات ایک مدبر انگریز نے لکھی ہے:

’’ہندوستان میں ہماری حکومت کے ہر شخص کو خواہ وہ خارجی تعلقات سے واسطہ رکھتا ہو یا عدالتی یا حربی نظم و ضبط سے، یہ اصول ہمیشہ مدر نطر رکھنا کہ اس سے تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘‘۔

اس کام کے لئے سب سے پہلے انگریزوں نے سرسید کو استعمال کیا جو بات انگریز مدبر نے کہی تقریباً وہی بات سرسید نے بھی لکھی ہے:
’’یہ ہنگامہ فساد جو پیش آیا صرف ہندوستانیوں کی ناشکری کا وبال تھا، تم نے بھی خدا کا شکریہ ادا نہیں کیا اور ہمیشہ ناشکری کرتے رہہے، اس لئے خدا نے اس ناشکری کا وبال تم ہندوستانیوں پر ڈالا اور چند روز سرکاری خدمت مدار انگلش کی عمل داری کو معطل کرکے پچھلی عملداریوں کا نمونہ دکھلایا۔‘‘

(سرکشی ضلع بجنور: ۴۷)

سر سید پہلے وہ آدمی تھے جنہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دیا اور اس کو فوجی بغاوت کا نام دیا، (سرکشی ضلع بجنور: ۸۳) جب کہ مسلمانوں کے نزدیک وہ جنگِ آزادی تھی۔
ایک اور جگہ پر خود سر سید احمد خان نے لکھا ہے کہ ضلع بجنور کے مسلم نوابوں اور ہندو، ویشیوں میں سے کوئی بھی اس لائق نہیں جو حکومت کرسکے اور رعایا عدل و امن کی فضاء میں سانس لے سکے۔

(سرکشی ضلع بجنور: ۷۵)

اسی وجہ سے سرسید کو حکومت کی طرف سے القابات بھی بار بار دئے گئے، ملکہ وکٹوریہ نے ان کو ’’سی، ایس،آئی‘‘ کا خطاب دیا، غالباً اسی موقع پر اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا    ؎

فضلِ خدا سے عزت پائی آج ہوئے ہم سی ایس آئی           

شیخ نہ سمجھے لفظ انگریزی بولے ہوئے ہیں ہم عیسائی

پھر انگریز حکومت کو خوش کرنے کے لئے ہی سرسید نے انگریزی کی عملداری میں جس جرأت اور دلیری سے اسلامی تعلیمات کو بدلا وہ ایک مسلمان سے ممکن نہیں۔

(انگریز کے باغی مسلمان:۴۰۸)

نیز سرسید کی رائے یہ تھی کہ مسلمان انگریزی معاشرت اور انگریزی کلچر اختیار کریں، تاکہ انگریز کی نظر میں عزت حاصل کرسکیں، اس کے لئے انہوں نے علی گڑھ کالج وغیرہ بھی کھولے، نیز ان لوگوں نے عقل کو دار و مدار بنایا، جو بات عقل میں نہ آئی اس کا انکار کر بیٹھے۔



یہ فرقہ وجود میں کب آیا؟

یہ فرقہ ۱۸۵۵ء کے لگ بھگ وجود میں آیا، ان کے ماننے والوں کو نو رَتَن کہا جاتا تھا اور ایک جماعت نے سر سید کے عقائد قبول کرلئے، ان میں نامور لوگ یہ تھے:
۱۔نواب محسن الملک۔ ۲۔ڈپٹی نذی احمد خان دہلوی۔ ۳۔شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ دہلوی۔ ۴۔الطاف حسین حالی۔ ۵۔مولوی مشتاق حسین۔ ۶۔نواب انتصار جنگ۔ ۷۔مولوی چراغ علی خان۔ ۸۔مہدی علی خان۔ ۹۔نواب اعظم ماہر جنگ۔ ۱۰شبلی نعمانی اعظم گڑھی وغیرہ۔



بانی فرقہ نیچریہ سر سیّد احمد خان کے مختصر حالات

ولادت:        ۱۷/اکٹوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔
ملازمت:        ان کے والد کا انتقال کم عمری میں ہی ہوگیا تھا، اس لئے ان کو شروع ہی میں ملازمت کرنی پڑی، ابتداء میں وہ حکومت کے مستقل ملازم رہے۔
اس بعد وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہوگئے اور ان کو پھر عدالت میں سر رشتہ دار بنادیا گیا، ان کی مسلسل ترقی ہوتی رہی، جنگ آزادی کے وقت وہ بجنور میں بحثیت سب جج تھے، اس کے بعد ترقی پاکر وہ صدر الصدور، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہوئے، اس کے بعد بجنور سے مراد آباد میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
انہوں نے یہیں پر رہ کر ہی اسبابِ بغاوت ہند اور دوسری بعض کتابیں لکھیں۔
تعلیمی کوشش:  مئی ۱۸۶۲ء میں سر سید کا تبادلہ غازی پور کردیا گیا تو وہاں پر انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی، جس کا مقصد یہ تھا کہ سائنسی علوم انگریزی سے اردو زبان میں تراجم کرکے شائع کئے جائیں اور یہاں پر بھی ایک اسکول کھولا۔
اس کے بعد جب ۱۸۶۴ء میں سرسید کا تبادلہ علی گڑھ میں ہوا تو انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی کا دفتر غازی پور سے علی گڑھ منتقل کردیا، وہاں سے ایک رسالہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے جاری کیا، جو سرسید کی وفات تک شائع ہوتا رہا۔
سر سید کے عقائد
شروع میں سر سید غیر مقلد تھے اور پھر انہوں نے اجتہاد شروع کردیا اور پھر انگلستان ۱۸۶۹ء میں اپنے بیٹوں کے ساتھ گئے اور پھر وہاں سے الحاد کا راستہ کھلا اور اپنے عقائد کی خوب اشاعت کی۔
تصانیف:    کئی کتابیں لکھیں، ان میں سے:۱۔آئینِ اکبری۔ ۲۔تاریخ فیروز شاہی تصحیح و تحشیہ کرکے چھپوائی۔ ۳۔آثار الصنادید۔ ۴۔تہذیب الاخلاق(رسالہ)۔ ۵۔اسبابِ بغاوتِ ہند۔
وفات:    ۲۷/مارچ ۱۸۹۸ء میں علی گڑھ میں انتقال ہوا اور وہاں کالج کے قریب دفن کئے گئے۔




                                                                                          فرقہ نیچریہ کے عقائد و نظریات

۱۔       ملائکہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۳۱۔ تفسیر القرآن:۱/۴۶)

۲۔      شیطان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۳۱)

۳۔      حضرت آدم علیہ السلام نے شجرۂ ممنوعہ نہیں کھایا تھا۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۳۱)

۴۔      قبر میں عذاب نہیں ہوتا۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۶۵)

۵۔      جنت اور جہنم کا انکار کرتے ہیں۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۱۱۰۔ تفسیر القرآن:۱/۳۹)

۶۔      جسموں کے ساتھ حشر نہیں ہوگا۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۱۱۰۔ تفسیر القرآن:۱/۳۹)

۷۔      حوروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۱۱۰۔ تفسیر القرآن:۱/۳۹)

۸۔      تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۹)

۹۔       معجزات کا انکار کرتے ہیں۔

(تہذیب الاخلاق:۳/۳۱)

۱۰۔     آسمان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

(نور الآفاق:۲/۵۲)

۱۱۔      اجماع حجت نہیں ہے۔

(نور الآفاق:۲/۵۲)

۱۲۔     قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔

(نور الآفاق:۴/۱۶)

۱۳۔     حیوانات کی تصویر حلال ہے۔

(نور الآفاق:۱۴/۱۱۵)

۱۴۔     اکثر احادیث صحیح نہیں ہیں۔

(نور الآفاق:۱۴/۱۸۷۔ تفسیر القرآن:۱/۴۶)

۱۵۔     جنّ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

(نور الآفاق:۱۴/۷۔ تفسیر القرآن:۱/۱۰۰)

۱۶۔     حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار۔

(نور الآفاق:۵/۵۴۔ تفسیر القرآن:۱۲/۴۲)

۱۷۔     حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے۔

(نور الآفاق:۲۲/۶)

۱۸۔     حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد تھے۔

(نور الآفاق:۱/۳)

۱۹۔      شق القمر کا انکار کرنا۔

(نور الآفاق:۹/۱)

۲۰۔     نبی کریم  کے شق صدر کا انکار، اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں۔

(ضمیمہ نور الآفاق:۱/۱۔ تفسیر القرآن:۶/۷۵)

۲۱۔     معراج کا انکار کرنا۔

(ضمیمہ نور الآفاق)

۲۲۔     امام مہدی کا انکار کرنا کہ وہ قیامت کے قریب نہیں آئیں گے۔

(نور الآفاق:۳/۹۶)

۲۳۔     انسان نبی کے برابر ہوسکتا ہے۔

(نور الآفاق:۳/۵۷)

۲۴۔     کسی بھی نبی نے توحید کی تعلیم مکمل نہیں کی، سب کی (معاذ اللہ) ناقص رہی۔

(نور الآفاق:۳/۶۳)

۲۵۔     ایصالِ ثواب نہیں ہوتا۔

(نور الآفاق:مطبوعہ جمادی الاولیٰ۔رمضان ۹۶ھ)


سرسید احمد خان لکھتے ہیں:
اب تو گویا بالا اتفاق تمام مسلمان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے اور علوم جدیدہ کے سیکھنے سے مسلمان اپنے عقائد مذہبی میں سست ہوجاتے ہیں بلکہ ان کو لغو سمجھنے لگتے ہیں اور لامذہب ہوجاتے ہیں اور اسی سبب سے مسلمان اپنے لڑکوں کو انگریزی پڑھانا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں پر کیا موقف ہے‘ انگریز بھی ایسا ہی خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب جو حال میں انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی نسبت لکھی ہے یہ فقرہ مندرج فرمایا ہے ’’کوئی نوجوان‘ خواہ ہندو خواہ مسلمان‘ ایسا نہیں ہے جو ہمارے انگریزی مدرسوں میں تعلیم پائے اور اپنے بزرگوں کے مذہب سے بداعتقاد ہونا نہ سیکھے۔ ایشیا کے شاداب اور تروتازہ مذہب جب مغربی (یعنی انگریزی) علوم کی سچائی کے قریب آتے ہیں‘ جو مثل برف کے ہے تو سوکھ کر لکڑی ہوجاتے ہیں۔ آمنا و صدقنا‘ یہ قول ڈاکٹر ہنٹر صاحب کا بالکل سچ اور بتمامہ‘ سچ ہے‘‘
(جریدہ ۳۴’۲۰۰۶ء جلد ششم مضمون روایت اور جدیدیت کی کشمکش مضمون نگار سید خالد جامی … عمر حمید ہاشمی صIII  (تین) بحوالہ تہذیب الاخلاق (۲) ص ۱۹۲)




No comments:

Post a Comment