سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہ کو بیان فرمایا، مشرکین دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:
هَلْ لَکَ اِلٰی صَاحِبِکَ يَزْعُمُ اَسْرٰی بِهِ اللَّيْلَةَ اِلَی بَيْتِ الْمَقْدَس؟
ترجمہ:
’’کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَق.
ترجمہ:
’’اگر آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا: ’’کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غَدْوَةٍ اَوْ رَوْحَة.
ترجمہ:
’’جی ہاں! میں تو آپ ﷺ کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے‘‘۔
[المستدرک علی الصحيحين-للحاكم:4407
پس اس واقعہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ صدیق مشہور ہوگئے۔
" پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندہ کو مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) تک جس کے گرد اگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیاتا کہ ہم اسے اپنی( قدرت) کی نشانیاں دکھائیں ، بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے"
(سورہ بنی اسرائیل:۱)
" اور اے پیغمبر وہ وقت یاد کر و جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ دکھاوا جو ہم نے تم کو دکھلایا اس کو لوگوں کے لئے آزمائش قرار دیا اور اسی طرح وہ درخت جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے (آزمائش کیلئے تھا ) اور ہم ان لوگوں کو ( طرح طرح سے ) ڈالے ہیں لیکن ان کی شرارتوں میں اور زیادتی ہوتی ہے
( بنی اسرائیل :60)
" اور وہ خواب جو ہم نے تمھیں دکھایا اور وہ خبیث درخت جس کا ذکر قرآن میں ہے ان سب کو لوگوں کے لئے فتنہ بنا دیا"
(بنی اسرائیل:60)
" اور وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا ، پھر اور زیادہ قریب ہوا تو دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم، پھر اﷲ نے اپنے بندے (محمد) کی طر ف وحی بھیجی جو کچھ کہ بھیجی، جو کچھ انھوں نے دیکھا اس کو ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا، کیا جو کچھ انھوں نے دیکھا تم اس کے بارے میں ان سے جھگڑتے ہو اور انھوں نے اس کو ایک اور دفعہ بھی دیکھا ہے، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے جب کے اس سدرۃ المنتہیٰ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا، ان کی نگاہ نہ تو بہکی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی ، انھوں نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں"
(سورہ النجم:7 - 18)
(مصباح الدین شکیل سیرت احمد مجتبیٰ)
(الرحیق المختوم - مولانا صفی الرحمن مبارکپوری)
معراج کی تاریخ
(فتح الباری: باب المعراج بحوالہ سیرت احمد مجتبی)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’معراج کی رات جب میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو میں نے ملاحظہ کیا کہ وہ لمبے، کم گوشت اور سیاہ بالوں والے شخص تھے، جیسے کہ شنوء ہ (قبیلہ) کے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملا، وہ میانہ قامت تھے اور سرخ رنگ گویا وہ ابھی حمام سے نکلے ہیں ( یعنی تروتازہ اور خوش رنگ تھے)۔ پھر میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب۔ مجھ سے کہا گیا جس کو چاہو پسند کر لو۔ میں نے دودھ لے لیا اور اسے پی لیا۔ تو اس فرشتے نے کہا، آپ کو فطرت کی راہ دکھائی گئی، یا آپ فطرت کو پہنچ گئے، اگر آپ شراب کو اختیار کرتے تو آپ کی (ساری) امت گمراہ ہو جاتی۔‘‘
[ مسلم، کتاب الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ ﷺ ۔۔ الخ : ۱٦۸ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے خود کو پیغمبروں کی ایک جماعت میں پایا۔ دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، وہ چھریرے بدن کے اور گھنگریالے بالوں والے ایک شخص تھے، جیسے شنوءہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ میں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بھی دیکھا، وہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ ان کے مشابہے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھا، وہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور ان سے سب سے زیادہ مشابہے تمھارے صاحب (یعنی آپ خود) ہیں۔ پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کروائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک کہنے والے نے کہا، اے محمد! یہ مالک ہیں جہنم کے داروغہ! انھیں سلام کیجیے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو انھوں نے مجھے پہلے سلام کردیا۔‘‘
[ مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال : ۱۷۲ ]
سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے معراج کا واقعہ لوگوں سے ذکر کیا۔ جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا اور یوں میں نے اسے دیکھ دیکھ کر قریش کو اس کی نشانیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔‘‘
[ بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب حدیث الإسراء : ۳۸۸٦۔ مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم ۔۔ الخ : ۱۷۰ ]
************************
"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا عُرِجَ بِیْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَھُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ یَخْمُشُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَصُدُوْرَھُمْ فَقُلْتُ مَنْ ھَؤُلَائِ یَا جِبْرِیْلُ قَالَ ھَؤُلَائِ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ وَیَقَعُوْنَ فِیْ أَعْرَاضِھِمْ"۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے معراج ہوئی تو (ملاء اعلیٰ کے اس سفر میں) میرا گذرکچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن سرخ تانبے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور اپنے سینوں کو نوچ نوچ کے زخمی کررہے تھے میں نے جبرئیل سے پوچھا: کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں، جبرئیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے
(یعنی اللہ کے بندوں کی غیبتیں کیا کرتے تھے اوران کی آبروؤں سے کھیلتے تھے)۔
وأخرجه الضياء في "المختارة" (2285) من طريق عبد الله بن أحمد، عن أبيه، بهذا الإسناد.
وأخرجه أبو داود (4878) و (4879) ، وابن أبى الدنيا في "الصمت " (577) ، والطبراني في "الأوسط " (8) ، وفي "الشاميين " (932) ، والبيهقي في "الشعب " (6716) ، وفي "الآداب " (138) ، والبغوي في "التفسير " 4/216، والضياء (2286) من طريق أبي المغيرة عبد القدوس الخولاني، به.
وأخرجه أبو داود (4878) ، والبيهقي في "الشعب " (6716) ، وفي "الآداب " (138) من طريق بقية، عن صفوان، به. وأشار أبو داود بإثر الحديث (4878) إلى أن يحيى بن عثمان حدثه بهذا الحديث عن بقية مرسلاَ ليس فيه أنس.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
[مسند احمد:3316 (سنن الترمذی:2053، سنن ابن ماجہ:3478)]
[الراوي : عبدالله بن عباس المحدث : أحمد شاكر المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 5/109 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح - المحدث : الألباني المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 3332 خلاصة حكم المحدث : حسن]
[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الشَّعَرِ » بَابُ مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ التَّعَوُّذِ ... رقم الحديث: 1709
موطأ مالك برواية أبي مصعب الزهري » كتاب الجامع » باب ما يؤمر به من التعوذ ... رقم الحديث: 1099]
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : فُرِضَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ ، ثُمَّ نُقِصَتْ حَتَّى جُعِلَتْ خَمْسًا ، ثُمَّ نُودِيَ : " يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَإِنَّ لَكَ بِهَذِهِ الْخَمْسِ خَمْسِينَ " . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , وَأَبِي ذَرٍّ , وَأَبِي قَتَادَةَ , وَمَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ . قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ أَنَسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب كَمْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ ... رقم الحديث: 213]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب معراج میں نبی ﷺ پر پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں ، کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں اور پھر نداء لگائی گئی کہ اے محمد ﷺ ! ہمارے یہاں بات بدلتی نہیں ، آپ کا ان پانچ پر پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔
تخريج الحديث
وأخرجه بأطول مما هنا ضمن حديث المعراج الطويل الذي رواه أبو ذر الغفاري: البخاري (349) و (3342) ، ومسلم (163) ، والنسائي في "الكبرى" (314) ، وأبو عوانة 1/133-135، وابن حبان (7406) ، والآجري في "الشريعة" ص481-482، وابن منده في "الإيمان" (714) ، والبغوي (3754) من طرق عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن أنس بن مالك.
وسيأتي من هذا الطريق في مسند أبي بن كعب 5/143-144.
وسلف ضمن الحديث المطول برقم (12505) من طريق ثابت عن أنس.
لَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ وَأَنَّهَا قِيعَانٌ وَأَنَّ غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔
زادالطبرانی ولاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
(ترمذی، كِتَاب الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ وَالتَّحْمِيدِ ،حدیث نمبر:3462 ، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زیارت کی آپ نے فرمایا: اے محمد! آپ میری طرف سے اپنی امت کوسلام کہنا اور ان کواطلاع فرمانا کہ جنت کی زمین بہت پاکیزہ ہے عمدہ پانی والی ہے اور ہموار میدان ہے اور اس کی شجرکاری (سُبْحَانَ اللَّهِ) اور (وَالْحَمْدُ لِلَّهِ) اور (وَلَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَر) کہنا ہے۔
تخريج الحديث
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا: الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ۔
(سنن ابن ماجہ، كِتَاب الْأَحْكَامِ،بَاب الْقَرْضِ،حدیث نمبر:۲۴۲۲، شاملہ،موقع الإسلام)
(تذکرۃ القرطبی:۲/۴۵۹۔ ابن ماجہ، بیہقی، المتجرالرابح۔ اتحاف السادۃ:۵/۵۰۱)
اللہ کےلئے خرچ کرنے والوں کا اجر:
إِنَّ المُصَّدِّقينَ وَالمُصَّدِّقٰتِ وَأَقرَضُوا اللَّهَ قَرضًا حَسَنًا يُضٰعَفُ لَهُم وَلَهُم أَجرٌ كَريمٌ {57:18} |
تحقیق جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد اور عورتیں اور قرض دیتے ہیں اللہ کو اچھی طرح اُنکو ملتا ہے دونا اور اُنکو ثواب ہے عزت کا [۳۰] |
Surely those men who give Sadaqah (alms) and those women who give Sadaqah and have advanced a good loan to Allah, for them it will be multiplied, and for them there is a noble reward. |
یعنی جو اللہ کے راستہ میں خالص نیّت سے اس کی خوشنودی کی خاطر خرچ کریں اور غیراللہ سے کسی بدلہ یا شکریہ کے طلبگار نہ ہوں گویا وہ اللہ کو قرض دیتے ہیں۔ سو اطمینان رکھیں کہ ان کا دیا ہوا ضائع نہ ہوگا۔ بلکہ کئ گنا کرکے لوٹا یا جائے گا۔ |
حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ كُوفِيٌّ , حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَمُرُّ بِالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الْقَوْمُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الرَّهْطُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَلَيْسَ مَعَهُمْ أَحَدٌ حَتَّى مَرَّ بِسَوَادٍ عَظِيمٍ ، فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا ؟ قِيلَ : مُوسَى وَقَوْمُهُ ، وَلَكَنِ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَانْظُرْ ، قَالَ : فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ مِنْ ذَا الْجَانِبِ وَمِنْ ذَا الْجَانِبِ ، فَقِيلَ : هَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَسِوَى هَؤُلَاءِ مِنْ أُمَّتِكَ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَدَخَلَ ، وَلَمْ يَسْأَلُوهُ وَلَمْ يُفَسِّرْ لَهُمْ ، فَقَالُوا : نَحْنُ هُمْ ، وَقَالَ قَائِلُونَ : هُمْ أَبْنَاؤُنَا الَّذِينَ وُلِدُوا عَلَى الْفِطْرَةِ وَالْإِسْلَامِ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ : أَنَا مِنْهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ : أَنَا مِنْهُمْ ؟ فَقَالَ : سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وفي الباب عن ابْنِ مَسْعُودٍ ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ .
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2383]
بَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللؤلؤ الْمُجَوَّفِ فَقُلْتُ مَاهَذَا؟ قَالَ: الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ۔
(صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۸۹۔ترمذی:۳۳۶۰)
(بخاری، كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ،بَاب ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَجَدُّ أَبِي نُوحٍ وَيُقَالُ جَدُّ نُوحٍ،حدیث نمبر:۳۰۹۴، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: میں جنت میں چل رہا تھا کہ اچانک ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کنارے خولدار موتی کے قبے تھے میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (حضرت جبریل نے) فرمایا: یہ وہ کوثر (نہر) ہے، جو آپ کو آپ کے پروردگار نے عطاء فرمائی ہے۔
أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا
فِيهَاجَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَاتُرَابُهَا الْمِسْكُ۔
(بخاری، كِتَاب أَحَادِيثِ
الْأَنْبِيَاءِ،بَاب ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَجَدُّ أَبِي نُوحٍ
وَيُقَالُ جَدُّ نُوحٍ،حدیث نمبر:۳۰۹۴، شاملہ، موقع الإسلام)
لَمَّا رُفِعْتُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى
فِى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ نَبْقُهَا مِثْلُ قِلاَلِ هَجَرَ وَوَرَقُهَا مِثْلُ
آذَانِ الْفِيَلَةِ يَخْرُجُ مِنْ سَاقِهَا نَهْرَانِ ظَاهِرَانِ وَنَهْرَانِ
بَاطِنَانِ قُلْتُ يَاجِبْرِيلُ مَاهَذَا قَالَ أَمَّاالْبَاطِنَانِ فَفِى
الْجَنَّةِ وَأَمَّاالظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ۔
(دارِقطنی، الطهارة،حدیث نمبر:۳۶، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف
المصرية)
ترجمہ:جب مجھے (معراج کی شب) ساتویں
آسمان میں سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا تواس کے بیرہجرکے مٹکوں کی طرح (بڑے
اور موٹے) تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے، اس کے تنہ سے دوظاہری
نہریں نکلتی ہیں اور دوباطنی، میں نے پوچھا اے جبریل یہ (باطنی اور ظاہری نہریں)
کیا ہیں؟ فرمایا: باطنی توجنت میں ہیں اور ظاہری (نہریں دنیا میں) دریائے نیل اور
دریائے فرات ہیں۔
جنت کے دروازہ کی ایک عبارت
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي على بَابِ
الجَنَّةِ مَكْتُوبٌ: الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالقَرْضُ
بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، فَقُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَابَالُ القَرْضِ أَکْثَرُ مِنَ
الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لاِنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالمُسْتَقْرِضُ
لاَيَسْتَقْرِضُ إِلاَّمِنْ حَاجَةٍ۔
(تذکرۃ القرطبی:۲/۴۵۹۔ ابن ماجہ:2431 ، بیہقی:، المتجرالرابح۔ اتحاف السادۃ:۵/۵۰۱)
ترجمہ:جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے جنت کے دروازہ
پریہ لکھا ہوا دیکھا صدقہ کا ثواب دس گنا ہے اور قرض کا اٹھارہ گنا میں نے جبرئیل
سے پوچھا: قرض میں ایسی کونسی بات ہے کہ وہ ثواب کے اعتبار سے صدقہ کرنے سے بڑھا
ہوا ہے؟ فرمایا کیونکہ مانگنے والا مانگتا ہے جب کہ اس کے پاس کچھ موجود ہوتا ہے،
جب کہ قرض خواہ، قرضہ نہیں مانگتا مگر ضرورت کے وقت۔
ولقد رأيت جبينها كالهلال في طول البدر منها
ألف وثلاثون ذراعا في رأسها مائة ضفيرة مابين الضفيرة والضفيرة سبعون ألف ذؤابة
والذؤابة أضوأ من البدر مكلل بالدر وصفوف الجواهر على جبينها سطران مكتوبان بالدر
الجوهر في السطر الأول: بسم الله الرحمن الرحيم وفي السطر الثاني: من أراد مثلي
فليعمل بطاعة ربي فقال لي جبريل يامحمد: هذه وأمثالها لأمتك فأبشر يامحمد وبشر
أمتك وأمرهم بالاجتهاد۔
ترجمہ:میں نے اس کی پیشانی کوچودھویں کے
طویل چاند کی طرح دیکھا ہے جس کی لمبائی ایک ہزار تیس ہاتھ کے برابر تھی، اس کے
سرمیں سومینڈھیاں تھیں، ہرمینڈھی سے دوسری تک سترہزار چوٹیاں تھیں اور ہرچوٹی
چودہویں کے چاند سے زیادہ روشن تھی، موتی کا تاج سجا تھا اور جواہر کی لڑیاں اس
پیشانی پرپڑتی تھیں، جوہر کے ساتھ دوسطریں لکھی تھیں، پہلی سطر میںبِسْمِ اللَّهِ
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھی تھی اور دوسری میں یہ لکھا تھا کہ
جوشخص میرے جیسی حور کا طلب گار ہے اس کوچاہئے کہ وہ میرے پروردگار کی اطاعت کرے
پھرحضرت جبریل نے مجھ سے کہا: اے محمد! یہ اور اس طرح کی (حوریں) آپ کی امت کے لیے
ہیں، آپ بھی خوش ہوں اور اپنی امت کوبھی اس کی خوشخبری سنادیں اور ان کونیک اعمال
میں محنت اور کوشش کا حکم دیدیں۔
[التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة، للقرطبی: 986، التوضيح
لشرح الجامع الصحيح، لابن الملقن:19/141، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، للعينى:14/95]
لماأسري بی دخلت الجنة موضعا يسمى البيدخ
عليه خيام اللؤلؤ، والزبرجد الأخضر، والياقوت الأحمر، فقلن: السلام عليك يارسول
الله، قلت: ياجبريل ماهذا النداء؟ قال: هؤلاء المقصورات في الخيام يستأذنون ربهن
في السلام عليك، فأذن لهن فطفقن يقلن: نحن الراضيات فلانسخط أبدا، نحن الخالدات
فلانظعن أبدا، وقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم الآية حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي
الْخِيَامِ۔
(البعث والنشور:۳۷۶۔ درمنثور:۶/۱۶۱)
ترجمہ:جب مجھے معراج کرائی گئی تومیں
جنت میں ایک جگہ پرداخل ہوا جس کا نام (نہر بیدخ) تھا اس پر لؤلؤ، زبرجد، اخضر اور
یاقوت، احمر کے خیمے نصب تھے ان (میں رہنے والی حوروں) نے کہا: السلام علیکم
یارسول اللہ (اے اللہ کے رسول! آپ پرسلام ہو) میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کن کی
آواز تھی؟ انہوں نے فرمایا: یہ وہ حوریں ہیں جوخیموں میں رکی ہوئی ہیں انہوں نے
اپنے رب تعالیٰ سے آپ کوسلام کہنے کی اجازت طلب کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو (اس
کی) اجازت عطاء فرمائی ہے؛ پھروہ حوریں جلدی سے بول پڑیں: ہم راضی رہنے والی ہیں
(اپنے خاوندوں پر) کبھی ناراض نہ ہونگی، ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی (جنت سے)
نکالی نہ جائیں گے؛ پھر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي
الْخِيَامِ (الرحمن:۷۲) حوریں ہیں خیموں میں رکی
رہنے والیاں۔
لَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي
فَقَالَ يَامُحَمَّدُ أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ
الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ وَأَنَّهَا قِيعَانٌ وَأَنَّ
غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ
وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔
زادالطبرانی ولاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
(ترمذی، كِتَاب الدَّعَوَاتِ عَنْ
رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ
التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ وَالتَّحْمِيدِ ،حدیث نمبر:۳۳۸۴، شاملہ، موقع الإسلام)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " انْتَهَيْتُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَنَظَرْتُ ، فَإِذَا أَنَا فَوْقِي بِرَعْدٍ وَصَوَاعِقَ ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُيُوتِ ، فِيهَا الْحَيَّاتُ ، تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ ، فَقُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا ، فَلَمَّا نَزَلْتُ وَانْتَهَيْتُ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا ، فَإِذَا أَنَا بِرَهْجٍ وَدُخَانٍ وَأَصْوَاتٍ ، فَقُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ : الشَّيَاطِينُ يَحْرِفُونَ عَلَى أَعْيُنِ بَنِي آدَمَ أَنْ لَا يَتَفَكَّرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَلَوْلَا ذَلِكَ لَرَأَتْ الْعَجَائِبَ " .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں ۔ پھر جب میں آسمان دنیا پر واپس آیا تو میری نگاہیں نیچے پڑ گئیں وہاں چیخ و پکار، دھواں اور آوازیں سنائی دیں میں نے پوچھا جبرائیل یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ شیاطین ہیں جو بنی آدم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں تاکہ وہ آسمان اور زمین کی شہنشاہی میں غور فکر نہ کرسکیں اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کو بڑے عجائبات نظر آتے۔
|
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ ، قُلْتُ : مَا هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ خُطَبَاءُ أُمَّتِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ، كَانُوا يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ، أَفَلَا يَعْقِلُونَ ؟ " .
|
[صحيح البخاري:5226، صحيح مسلم:2394، صحيح ابن حبان:6886]
روحوں کا ٹھکانہ
(مسلم، باب بیان ارواح الشھداء فی الجنۃ، حدیث نمبر:۳۵۰۰۔ وترائی اھل الجنۃ اھل الغرف، حدیث نمبر:۳۶۹۶)
(مسلم
شریف از حضرت انسؓ)
شب برات اور معراج كا روزہ ركھنا
شبِ قدر افضل ہے یا شب ِمعراج؟
معراجِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غم کا مداویٰ و مرتبے کی بلندی
دلائل نبوت
رسالت محمدی برحق ہے، اس پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، جس کو باری تعالیٰ نے بہت ہی عظیم الشان طریقے پر ذکر فرمایا ہے، وَمَا یَنطق عن الہویٰ انْ ہُوَ الاَّ وحی یوحیٰ اور دوسری جگہ ارشاد ہے ما آتاکم الرّسولُ فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقو اللّٰہ ، چنانچہ سیرت کے بہت سے واقعات سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی دلیلیں بھی ہیں، اور آپ کے معجزات میں سے بھی ہیں، جیسے معجزہ شق القمر، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا وغیرہ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی معراج یعنی رات کے چند لمحات کے اندر ساتوں آسمان کا سفر کرکے سدرة المنتہیٰ کے پاس تشریف لیجانا، باری تعالیٰ سے ہم کلام ہونا، بار بار کی تخفیف کے بعد امت کیلئے پانچ وقت کی نماز کا تحفہ لے کر چند لمحات میں بیت ام ہانی کے اندر واپس تشریف لانا، ارشاد باری ہے، سُبْحٰنَ الذیْ أَسْریٰ بعَبْدہ لَیْلاً مّنَ المسْجد الحرام الی المسجد الأقصیٰ o الذی بارکنا حولہ لِنریہ من آیاتنا انّہ ہُو السمیع البصیر (سورہ بنی اسرائیل، آیت:۱-۲) ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے ایک قلیل حصہ میں مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، (جس سے اصل مقصود یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کرائیں اور وہاں کی) خاص خاص نشانیاں آپ کو دکھلائیں (جن کاکچھ ذکر سورة النجم میں فرمایا ہے کہ آپ سدرة المنتہیٰ تک تشریف لے گئے اور وہاں جنت و جہنم اور دیگر عجائباتِ قدرت کا مشاہدہ فرمایا) تحقیق کہ اصل سننے والا اور اصل دیکھنے والا حق تعالیٰ ہے۔ (وہی جس کو چاہتا ہے اپنی قدرت کے نشانات دکھلاتا ہے اور پھر وہ بندہ اللہ کی تبصیر سے دیکھتا ہے اور اللہ کے اسماع سے سنتا ہے۔
تبلیغ و دعوت اور رنج و غم کے لمحات
نبوت ملنے کے بعد حکم ہوا ”یا أیہا الرسول بلغ ما أنزل الیکَ من ربکَ وان لم تفْعَل فما بلغت رسالتہ“ (المائدہ)
ترجمہ: اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ وہ (پیغام لوگوں تک) پہنچادیجئے جو آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے نازل کیاگیا، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو (گویا کہ) آپ نے اپنے رب کا پیغام لوگوں تک نہیں پہنچایا۔
چنانچہ بعثت کے بعد تین سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ طریقہ پر دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے، اور لوگ آہستہ آہستہ اسلام میں داخل ہوتے رہے، تین سال کے بعد یہ حکم نازل ہوا فَاصْدَعْ بمَا تُوٴمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشرکین (سورہ الحجر)
ترجمہ: جس بات کا آپ کو حکم دیاگیا ہے، اس کا صاف صاف اعلان کردیجئے، اور مشرکین کی پروانہ کیجئے۔
چنانچہ کوہ صفا پر چڑھ کر آپ نے احکام الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا، اور اعلانیہ دعوت کا کام شروع کردیا، اِدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا کام شروع کیا، اور اُدھر مکہ کے قریش و مشرکین کی ریشہ دوانیوں، منصوبہ بندیوں اور ایذاء رسانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا مسجد حرام اور خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کے لئے جاتے تو طرح طرح کی کلفتوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکتا، کبھی آوازیں کستا، اور تمسخر و مذاق اڑاتا، اسی طرح راستے میں کبھی آپ کے سرپر اوپر سے کوڑا کرکٹ ڈال دیا جاتا، کبھی اوجھڑی پھینک دی جاتی، اور آپ کیلئے تبلیغ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتیں۔ یہ سارے حالات ذہنی کلفت و اذیت کا سبب بھی تھے، اور جسمانی مشقت و پریشانی کا باعث بھی۔ وہ بھی کس مپرسی افلاس اور کم مائیگی کے عالم میں، لیکن پھر بھی آپ کی تسلی اور دل کی مضبوطی و اطمینان کیلئے دوسہارے موجود تھے، اول یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھ سال کی عمر کے وقت آپ کے دادا عبدالمطلب کا انتقال ہوا، آخری وقت میں انھوں نے آپ کے چچا ابوطالب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور پرورش کیلئے وصیت کی، پھر باپ سے بڑھ کر انھوں نے شفقت و ہمدردی اور تربیت کاحق ادا کیا اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا جو غار حرا سے واپسی اور نبوت ملنے کے بعد سب سے پہلے آپ پر ایمان لائیں، اور زندگی بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے سہارا اور قلبی راحت و سکون کا سبب بنی رہیں کہ ساری اذیتوں اور پرخاش ماحول کے بعد جب گھر تشریف لاتے تو آپ کے دل کو قرار اور چین و سکون نصیب ہوجاتا۔
لیکن مرتبے کی بلندی مصائب و ابتلاء سے گھری ہوئی رہتی ہے، چنانچہ ۱۰/ نبوی عام الحزن والملال کے نام مشہور ہوا، کہ چند دن کے اندر دو دو سہارے آپ کی زندگی سے ختم ہوگئے۔ شعب ابی طالب سے نکلنے کے چند ہی روز بعد ماہ رمضان یا شوال ۱۰ نبوی میں ابوطالب کا انتقال ہوا، پھر تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا۔
سفر طائف سلسلہٴ مشقت کی ایک کڑی
ابوطالب کے بعد آپ کا کوئی حامی و مددگار نہ رہا اور حضرت خدیجہ کے رخصت ہوجانے سے کوئی تسلی دینے والا غمگسار نہ رہا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کی چیرہ دستیوں سے مجبور ہوکر اخیر شوال ۱۰ نبوی میں دعوت کے لئے طائف کا قصد فرمایا کہ شاید یہ لوگ اللہ کی ہدایت کو قبول کریں، اور اس کے دین کے حامی و مددگار ہوں، زید بن حارثہ کو ہمراہ لے کر طائف تشریف لے گئے۔ (سیرت مصطفی، جلد:۱، ص: ۲۷۴)
پھر طائف میں کیا کچھ ہوا اور وہاں کے شریر بچوں نے آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور کس طرح زدوکوب کے ساتھ آپ کو خون میں لت پت کیا اس کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کافی ہے۔
”حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک بار عرض کیا یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اُحد سے بھی زیادہ سخت دن گذرا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری قوم سے جو تکلیفیں پہنچیں سو پہنچیں، لیکن سب سے زیادہ سخت دن وہ گذرا کہ جس دن میں نے اپنے آپ کو عبدیالیل کے بیٹے پر پیش کیا، اس نے میری بات کو قبول نہیں کیا، میں وہاں سے غمگین ورنجیدہ واپس ہوا۔“ (ملخص از ترجمہ فتح الباری، ج:۶، ص: ۲۲۵)
کفار مکہ کی ستم ظریفی
اور یہ تو سفر کی مختصر سی مدت تھی اگرچہ کلفت و مشقت اور رنج و غم کے اعتبار سے پوری زندگی کے اوقات میں سب سے دشوار معلوم ہوئی، اس کے علاوہ مکہ معظمہ کے قیام میں بھی کیا کم مصائب اور اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا، دونوں میں فرق کیلئے بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مرحلہ سانپ کے کاٹنے کی طرح ہے کہ جس سے اچانک انسان جاں بحق ہوجاتا ہے، اور دوسرابچھو کے ڈنک مارنے کی طرح ہے جس کا زہر لہریں مارتا رہتا ہے ۔ چنانچہ ابن ہشام اپنے ماخذ سیرت میں رقمطراز ہیں:
قال ابن اسحاق : ومرّ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ فیما بلغنی ۔ بالولید بن المغیرة وأمیة بن خلف، وبأبی جہل ابن ہشام فہمزوہ واستہزووا بہ فغاظہ ذلک فأنزل اللّٰہ تعالیٰ علیہ فی ذلک من أمرہم ”ولقد اسْتہزیَ برسل من قبلکَ فحاق بالذین سخروا منہم ما کانوا بہ یستہزوٴن“ (سیرة ابن ہشام، ج:۱، ص: ۳۹۵)
ابن اسحاق نے فرمایا : جہاں تک مجھے خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ولید بن المغیرہ، امیہ بن خلف اور ابوجہل ابن ہشام پر ہوا، تو ان لوگوں نے آپ پر طعن و تشنیع کیا، اور آپ کا مذاق اڑایا، تو اس کی وجہ سے آپ غصہ ہوئے، جس کی بناء پر قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ”ولقد استہزی الخ“ تحقیق کہ آپ سے پہلے رسولوں کا مذاق اڑایاگیا سو جن لوگوں نے استہزا کیا تھا ان پر وہ عذاب نازل ہوگیا جس کا وہ استہزاء کیا کرتے تھے۔
قال ابن اسحق فأقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أمر اللّٰہ صابرًا محتسبًا موٴدیاً الی قومہ النصیحة علی ما یلقی عنہم من التکذیب والأذیٰ (والاستہزاء) (سیرة ابن ہشام، ج:۱، ص: ۴۰۸)
ابن اسحاق نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم پر قائم رہے، صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید کرتے ہوئے اور اپنی قوم تک نصیحت کی باتیں پہنچاتے ہوئے باوجودیکہ ان کی جانب سے آپ کی شانِ اقدس میں تکذیب و مذاق بازی اور ایذاء رسانی کا سلسلہ جاری تھا۔
اور اسی پر بس نہیں بلکہ فَترتِ وحی کے موقع پر بھی طرح طرح سے کفار مکہ نے آپ کو تمسخر و استہزا کا نشانہ بنایا۔
زخم خوردہ نبی کی تسلی
اسی طرح جب مسلسل مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے گئے، مشقت و کلفت کی انتہا ہوگئی، تو ارحم الراحمین نے طرح طرح سے مختلف آیتوں کے نزول اور واقعات کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے صبر و تسلی کا سامان مہیا فرمایا، اور قوت و پختگی اور عزم و حوصلہ کے ذریعہ آپ کی مدد فرمائی حتی کہ دوسورتوں یعنی ”والضحیٰ اور ألم نشرح“ کا نزول ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ کے رخِ انور کی قسم کھاکر ارشاد فرمایا: ”مَا وَدّعک ربک و ما قلیٰ“ یعنی آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں اور نہ ہی آپ سے ناراض ہوا، ارشاد ہوا:
ألم نشرح لک صدرک ووضعنا عنک وزرک الذی أنقض ظہرک ورفعنا لک ذکرک (سورة الانشراح)
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (علم وحلم) سے کشادہ نہیں کردیا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے آپ کا وہ بوجھ اتاردیا جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا۔ (یعنی اکثر جگہ شریعت میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک مقرون کیاگیا) کذا فی الدر المنثور، معارف القرآن، ج:۸
اسلامی فلاسفر اور ادیب مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں: ”ہندوستان کے چھوٹے چھوٹے قریوں اور موضعوں، عرب کے ریگستان اور چٹیل میدان اور افریقہ کے صحرا و بیابان سے لے کر لندن اور پیرس اور برلن کے تمدن زاروں تک، ہر روز اور ہر روز میں بھی پانچ پانچ بار کس کے نام کی پکار اللہ کے نام کے ساتھ ساتھ بلند رہتی ہے؟ اپنی ذاتی عقیدت مندی کو الگ رکھئے محض واقعات پر نظر رکھ کر فرمائیے کہ یہ مرتبہ یہ اکرام دنیا کی تاریخِ معلوم سے لیکر آج تک کسی ہادی کسی رہبر کسی مخلوق کو حاصل ہوا ہے؟ جس بے کس اور بے بس سے عین اس وقت جبکہ اسے زور اور قوت والے سردارانِ قریش اپنے خیال میں کچل کر رکھ چکے تھے، اور اس کا نام و نشان تک مٹاچکے تھے، یہ وعدہ ہوا تھا، ”ورفعنا لک ذکرک“ ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کررکھا ہے، اگر آوازہ اس کا بلند نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا؟ (ذکر رسول، ص: ۶۳)
خورشید مبین کی تابانی (معراج رسول)
ابتلا و آزمائش بہت زبردست تھی، صبر آزما مراحل اورمصائب کے پہاڑ تھے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کی تلقین کی گئی۔
فاصْبِر کَمَا صَبَر أُوْلُوا العزمِ منَ الرسُلِ وَلاَ تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ (سورہ الاحقاف، آیت:۳۵)
تو آپ صبر کیجئے جیسا اور ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیاتھا اور ان لوگوں کیلئے (انتقام الٰہی کی) جلدی نہ کیجئے۔
باری تعالیٰ نے آپ کی صبر و تسلی کے لئے فرمایا: ”ووضعنا عنکَ وزرک الذی أنقض ظہرک ورفعنا لک ذکرک“ ترجمہ: ہم نے آپ پر سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر توڑ رکھی تھی، اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا۔ (سورہ الانشراح، آیت:۴)
حزن و ملال کا ہجوم، مصائب و آلام کی یلغار ہی کیا کم تھی کہ مزید برآں اعزاء و اقرباء اور اہل خاندان کی مخالفت کفار و مشرکین اہل مکہ کا دعوت کی راہ میں حائل ہونا وغیرہ جو حوصلہ شکنی کے لئے کافی تھے۔ حتی کہ آپ کی پریشان حالی پر باری تعالیٰ نے آپ کو مخاطب فرمایا: فلعلک باخعٌ نفسک علی آثارہم ان لم یوٴمنوا بہذا الحدیث أسفًا (سورہ الکہف، آیت:۶) ترجمہ: شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون پر ایمان نہ لائے تو غم سے اپنی جان دے دیں گے۔
ظاہر ہے جو حبیب و محبوب ہو، آخری رسول ہو، ع ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کا مصداق ہو، تاریکیوں میں چراغ روشن کرنے کا عزم رکھتا ہو، دشوار گذار مراحل، اور خاردار وادیوں کو پار کرتا ہو، حوصلہ شکن حالات کا پامردی سے مقابلہ کرتا ہو، تو اس کو تمغہ بھی اتنا ہی بڑا ملنا چاہئے، اور اس کے بلندیٴ مرتبہ پر دلیل بھی اتنی بڑی قائم ہونی چاہئے کہ جس کے اوپر اور دلیل نہ ہو، اور جس سے زیادہ عظیم الشان کوئی واقعہ اس کرئہ ارض پر نہ پیش آیا ہو اور نہ آسکتا ہو، اور وہ اسراء و معراج کا عظیم الشان واقعہ ،۔ اسراء اور معراج کے بارے میں بہت سے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔
(۱) اختلاف اقوال کی روشنی میں اس واقعہ کی تاریخ کا تعین
(۲) یہ واقعہ روحانی ہے یا جسمانی، (یا منامی)
(۳) مکہ معظمہ سے بیت المقدس کا سفر اور امامت انبیاء
(۴) ثمّ دنی فتدلّٰی کی واقعاتی توضیح
(۵) مولیٰ سے ہمکلامی، اور حاصل ہونے والے تحفہ کی تفصیل
(۶) جنت اور جہنم کی سیر اور چند مشاہدات
لیکن یہ سب کچھ اس عظیم الشان واقعاتی تجزئیے سے تعلق رکھنے و الے موضوعات ہیں، لہٰذا، اس کو دوسرے موقع کیلئے محفوظ رکھتے ہوئے، اس سے ماخوذ چند عجائب سفر اور لطائف و معارف کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، تاہم قرآن پاک کے اجمال اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے، کہ جبرئیل امین علیہ السلام براق کے ساتھ تشریف لائے، اور سرورکائنات جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المومنین حضرت ام ہانی کے مکان سے مسجد حرام، پھر وہاں سے مسجد اقصیٰ، اور انبیاء کی امامت کرنے کے بعد آسمان کی سیر کراتے ہوئے اور انبیاء سابقین سے ملاقات کراتے ہوئے ساتوں آسمان کے اوپر لے گئے، پھر وہ مقام آیا کہ جس کے آگے بڑھنے سے جبرئیل امین کے قدم عاجز و قاصر رہے، جیساکہ شیخ سعدی کے اس شعر سے ظاہر ہے۔
اگر یک سرِ موئے برتر برم فروغِ تجلی بسوزد پرم
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثم دنی فتدلّی فکان قاب قوسین أو أدنی o فأوحیٰ الی عبدہ ما أوحیٰ ما کذب الفوٴادُ ما رأی، أفتمارونہ علی ما یریٰ، ولقد رأٰہ نزلةً أخریٰ عند سدرة المنتہیٰ عندہا جنة الماویٰ اذ یغشی السدرة ما یغشیٰ، مازاغ البصر ومَا طغیٰ، لقد رأیٰ من آیات ربہ الکبریٰ (سورة النجم)
ترجمہ: پھر وہ فرشتہ (آپ کے) نزدیک آیا، (سو قرب کی وجہ سے) دونوں کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا، بلکہ اور بھی کم پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی، جو کچھ نازل فرمانا تھی۔ (جس کی تعیین بالتخصیص معلوم نہیں) قلب نے دیکھی دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی، تو کیا ان سے دیکھی ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو، انھوں نے (پیغمبر نے) اس فرشتہ کو اور دفعہ بھی (صورت اصلیہ میں) دیکھا ہے، سدرة المنتہیٰ کے پاس جنت الماویٰ ہے، جب اس سے سدرة المنتہیٰ کو لپٹ رہی تھی جو چیزیں لپٹ رہی تھیں، نگاہ تو نہ ہٹی (بلکہ ان چیزوں کو خوب دیکھا) اور نہ (ان کی طرف دیکھنے کو) بڑھی (یعنی قبل اِذن نہیں دیکھا) پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے بڑے عجائبات دیکھے۔ (معارف القرآن، ج:۸، ص: ۱۹۲)
پھر آپ کو رب ذوالجلال سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا، پچاس نمازوں کی فرضیت کا تحفہ عطا کیاگیا، جو تخفیف کے بعد پانچ وقت کی صورت میں باقی رہا، اجر و ثواب میں پچاس وقت کی کیفیت کے ساتھ۔
اسی طرح آپ نے اقلام تقدیر کے چلنے کی آوازوں کو سنا، بعد ازاں جنت و جہنم کا مشاہدہ فرمایا، پھر جبرئیل امین علیہ السلام کی معیت میں مسجد اقصیٰ میں نزول فرمایا، اور وہاں سے مسجد حرام واپس ہوکر بیت ام ہانی میں تشریف لائے۔
یہ تھی ایک طائرانہ نظر معراج رسول کے مبارک سفر پر جس میں آپ کے رنج و غم کا مداویٰ بھی تھا اور ذکر کی بلندی بھی، شخصیت کی جلوئہ آفرینی بھی، اور ختم نبوت کی دلیل بھی، سارے جہانوں کی سرداری بھی، آپ کی امت اور آپ کے پیغام کے خلود وبقاء کی علامت بھی، نیز ساتھ ہی بے مثال واقعات کے معجزہ نمائی بھی جو سارے فلسفہ و علوم اور اسباب و علل کی دسترس سے باہر ہو سچ ہے:
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اب ان خصائص و امتیازات، اور فوائد و ثمرات کو شعور و وجدان کی کیفیت کے ساتھ اخذ کرنے اور گہرائی و گیرائی سے آشنا ہونے کیلئے، ان اسرار و حکم حقائق و معارف اور دروس و عبر کا قلب و ذہن میں پیوست ہونا اور نظر میں آنا ضروری ہے، جو اس بلندی و رفعت کے دلچسپ سفر میں مضمر ہے۔
سفر معراج کے اسرار و حکم
واقعہٴ معراج محض ایک مشاہداتی سفر اور قطع مسافت کی پرکیف و عجیب داستان نہیں ہے، سورئہ اسراء اور سورہ نجم اوراس سلسلے میں مروی صحیح ومشہور احادیث سے بہت سے اسرار و حکم اور لطائف و معارف سامنے آتے ہیں۔
(۱) خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں قبلوں کے نبی اور مشرق و مغرب دونوں سمتوں کے امام ہیں۔
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیش رو تمام انبیاء کرام کے وارث اور بعد میں آنے والی پوری نسل انسانی کے رہبر و رہنما ہیں۔
(۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام، دعوت کی عمومیت و آفاقیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کی ابدیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی ہمہ گیری و صلاحیت کی دلیل و علامت ہے۔
(۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا صحیح تعارف اور صحیح نشاندہی ہے۔
(۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اصل مقام و حیثیتِ عرفی کا تعین ہے۔
(۶) آپ کی نبوت کی محدود، مقامی اور عارضی نوعیت اور ابدی و عالمگیری حیثیت کے درمیان خطّ فاصل ہے۔
(۷) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و سیادت کا قومی اور سیاسی قیادت پر غلبہ و تفوق اور بالاتری کا ثبوت اور امتیازی حیثیت ہے۔
(۸) ایسا معجزہ اور کرامت ہے جو آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوا۔
(۹) عبادت اور تقرب و بندگی کے ذریعہ کو بطور تحفہ آسمان کے اوپر مہمان بناکر عطا کرنا جو رفعِ ذکر کی وقوعی اور خارجی تفسیر ہے۔
(۱۰) نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر جو فضیلت ہے، ان میں دو باتیں خاص طور پر فضیلت کا باعث ہیں: دنیا میں معراج اور آخرت میں شفاعت۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں دولتیں تواضع کی بدولت حاصل ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے ساتھ تواضع کی، تو دولت معراج کی پائی، اور مخلوق کے ساتھ تواضع کی تو دولت شفاعت کی پائی، حق تعالیٰ کے سوال پر شب معراج میں آپ نے فرمایا کہ تمام القاب میں سب سے زیادہ پسندیدہ لقب میرے لئے عبد کا ہے، تیرا بندہ ہونا، یعنی عبدیت کی اساسی صفت جو باری تعالیٰ کو انسانیت کی جانب سے سب سے زیادہ مطلوب اور محبوب ہے۔
(۱۱) رات کی خلوت و تنہائی میں بلانا، مزید تقرب اور اختصاصِ خاص کی دلیل ہے۔
(۱۲) مسجد اقصیٰ کے معاملات کا سارے عالم اسلام سے گہرے ربط و تعلق کا ثبوت، نیز یہ کہ فلسطین، کا دفاع اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت ساری دنیا کے مسلمانوں پر حسب استطاعت واجب ہے، اوراس سے غفلت ایسی کوتاہی ہے جس پر موٴاخذہ بھی ہوسکتا ہے۔
(۱۳) امت مسلمہ کے مرتبے کی بلندی اور عظمت شان اور دنیا کی خواہشات و رغبات سے اس امت کے مستوی اور معیار کی رفعت ہے۔
(۱۴) اس میں اشارہ ہے کہ فضاء کا خلائی سفر اور کرئہ ارضی کے مقناطیسی دائرے سے نکل کر اوپر دوسرے دائرے میں داخل ہونا ممکن ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے خلا باز مسافر ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آسمان سے کرئہ ارضی کی طرف صحیح سالم لوٹ کر آنا ممکن ہے۔
(۱۵) معراج میں نماز کی فرضیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے حضور سارے مومنین کی روحوں اور دلوں کو پہنچنا چاہئے، تاکہ خواہشات کی سطح سے بلندی نصیب ہو۔
سفر معراج دعوت و تبلیغ کی ایک کڑی
یہ تھے سفر معراج کے اندر پوشیدہ بلند و بالا مقاصد اور لطائف ومعارف، دروس و عبر، جو آپ کے اوپر پے بہ پے نازل ہونے والے رنج و غم کا مداویٰ ثابت ہوئے، جس کے ذریعہ آپ کے اوپر سے حزن و ملال کے بادل چھٹ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے لمحات میں ولسَوف یعطیک ربُّک فترضیٰ کا منظر دیکھا، اور خوشی و مسرت کا سانس لیا، اور فرحت و انبساط کے حالات کی طرف عود کر آئے، اور نہ صرف غم و اندوہ کافور ہوئے بلکہ دعوت و تبلیغ کی راہیں ہموار ہوتی گئیں، بلکہ رغبت و لگن اور مولیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ قدم بڑھتے رہے، آپ کے عزم و حوصلہ اور پختگی و ثبات قدمی کو مہمیز کرنے والی قوت ملی، کیونکہ اس سفر مبارک میں آپ کے مرتبے کی بلندی بھی تھی۔
سچ ہے جب کفار و مشرکین نے آپ کے نرینہ اولاد کے زندہ نہ رہنے کی وجہ سے آپ کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا، اور آپ کو منقطع النسل اور قلیل الخیر ہونے کا طعنہ دیا، تو آپ کے قلب اطہر پر سورة الکوثر نازل کرکے ان دشمنان رسول کا دندان شکن جواب دیاگیا، اور ان کے باطل نظریات پر کاری ضرب لگائی گئی: انا أعطینٰک الکوثر، فصَلّ لربک وانحر، انَّ شَانئک ہُوالأبتر․ اس میں مفسرین کے اقوال کے مطابق کوثر، حوض کوثر کے ساتھ خیر کثیر کے معنی کو بھی شامل ہے، اور آپ کے دشمنوں کے منقطع النسل ہونے کا اعلان ہے، جیسا کہ ”ہو الابتر“ سے ظاہر ہے، اور کسی بھی تحریک اور مشن کو لے کر چلنے والے کے لئے راستہ سے موانع و عوائق کا دور ہوجانا اس کے قلب و ذہن کا غم و اندوہ اور افکار پریشاں سے خالی ہوجانا اور مرتبے کی بلندی کے ذریعے عزم کا پختہ ہونا، حوصلے کا بلند ہونا، فلاح و کامیابی کا پیش خیمہ اور حیرت انگیز پیش قدمی کا ضامن ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی عظمت و رفعت کا کرشمہ تھا کہ ایسے ماحول میں جبکہ اہل مکہ بلکہ تمام اہل عرب نہ صرف یہ کہ ضلالت و شقاوت میں ڈوبے ہوئے تھے، بلکہ اسی کے دلدادہ تھے، اور وہی ان کی طبیعت بن گئی تھی، اور جہالت و بہیمیت کی حدود کو پار کرنے میں ایک فرد دوسرے سے پیچھے رہنا گوارہ نہیں کرتا تھا، اور اس کیلئے دنیا کا سارا خسارہ اور آخرت کی محرومی قبول کرلینا سستا سودا سمجھتا تھا۔
آپ نے تنہا دعوتِ عظمیٰ اور رسالت خداوندی کی تمام تر ذمہ داری تیئس (۲۳) سال کی قلیل مدت میں ایسے حیرت انگیز طریقہ پر پوری کی کہ شہنشاہ عالم بونا بارٹ اس کے اعتراف پر مجبور ہوگیا، کہ صدیوں میں پایہٴ تکمیل کو نہ پہنچنے والا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئس (۲۳) سال کی قلیل مدت میں اس طرح مکمل کردکھایا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔
یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست
کتب خانہٴ چند ملت بشست
$ $ $
______________________________
ء
Amazing insight you have on this, it's nice to find a website that details so much information about different artists. 房屋二胎
ReplyDelete