(1)معراج کی رات کا واقعہ حق اور متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے۔
(2)شبِ معراج افضل ہے نبی اکرم ﷺ کے حق میں، اور شبِ قدر افضل ہے امت کے حق میں۔
(3) شبِ معراج ہر سال نہیں کروائی جاتی، نبی کی زندگی میں بھی جسمانی معراج صرف ایک بار ہوئی ہے۔
(4) یہ رات شبِ قدر کی طرح عبادت کی رات "صحیح" ثابت نہیں۔
(5) معراج کس رات یا تاریخ یا مہینہ یا سال میں ہوئی، اس میں اتفاق نہیں بلکہ بہت اختلاف ہے۔
(6)معراج کی رات آسمانوں کی سیر جسمانی ہوئی تھی، کیونکہ روحانی یا نیند کے خواب کو ماننا مشکل نہیں ورنہ اس کا کفار انکار نہ کرتے اور یہ معجزہ نہ ہوتا۔
اللہ پاک کا قرآن مجید میں ارشاد ہے:
پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔
[سورۃ الاسراء/نبی اسرائیل:1]
اس سے معراج کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیلؑ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور رات کے وقت انہیں ایک جانور پر سوار کیا جس کا نام براق تھا، وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آپ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے گیا، یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا، جسے اسراء کہا جاتا ہے، پھر وہاں سے حضرت جبرئیلؑ آپ ﷺ کو ساتوں آسمانوں پر لے گئے، ہر آسمان پر آپ کی ملاقات پچھلے پیغمبروں میں کسی پیغمبر سے ہوئی، اس کے بعد جنت کے ایک درخت سدرۃ المنتہیٰ(بیری کے درخت کے اختتام) پر تشریف لے گئے، اور آپ کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلامی کا شرف عطا ہوا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائیں، پھر رات ہی رات میں آپ ﷺ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، اس آیت میں اس سفر کے صرف پہلے حصے(اسراء) کا بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ آنے والے تذکرے سے اسی کا تعلق زیادہ تھا، البتہ سفر کے دوسرے حصے (معراج) کا تذکرہ [سورة نجم: 13 تا 18] میں آیا ہے، صحیح روایات کے مطابق یہ معجزانہ سفر بیداری کی حالت میں پیش آیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی ایک عظیم نشانی آپ کو دکھائی گئی تھی، یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ واقعہ بیداری کے بجائے خواب میں دکھایا گیا ؛ کیونکہ یہ بات صحیح احادیث کے تو خلاف ہے ہی قرآن کریم کا اسلوب واضح طور پر یہ بتارہا ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے، اگر یہ صرف ایک خواب کا واقعہ ہوتا تو یہ کوئی غیر معولی بات نہیں تھی، انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا رہتا ہے، پھر اسے اپنی ایک نشانی قرار دینے کے کوئی معنی نہیں تھے۔
اور جو منظر ہم نے آپ کو دکھایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کیلیے ہی ہم نے بنایا ہے۔[سورۃ الإسراء:60]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ : اس سے وہ منظر مراد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں نے معراج کی رات دیکھا تھا، اور اس آیت میں مذکور "ملعون درخت" سے مراد تُھوہر کا درخت ہے۔
[بخاری:2888]۔
القرآن:
اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے۔(١) اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔(٢) (پیغمبر کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔(۳) سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا۔
[سورۃ النجم:13-18]
تشریح:
(١) یہ حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا دوسرا واقعہ ہے جو معراج کے سفر میں پیش آیا، اس موقع پر بھی آنحضرت ﷺ نے انہیں ان کی اصلی صورت میں دیکھا، سدرۃ المنتہیٰ عالم بالا میں ایک بیر کا بہت بڑا درخت ہے اور اسی کے پاس جنت واقع ہے جسے جنت المأویٰ اس لئے کہا گیا ہے کہ مأویٰ کے معنیٰ ہیں ٹھکانا اور وہ مومنوں کا ٹھکانا ہے۔
(٢) یہ آیت بھی ایک عربی محاورے کے مطابق ہے جس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ اس کے صحیح تأ ثر کے ساتھ بہت مشکل ہے، مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں اس بیر کے درخت پر چھائی ہوئی تھیں وہ بیان سے باہر ہیں، احادیث میں حضور نبی کریم ﷺ نے اس واقعہ کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لاتعداد فرشتے سونے کے پروانے کی شکل میں اس درخت پر آنحضرت ﷺ کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے تھے۔
(۳) یعنی نہ تو نگاہ نے دیکھنے میں کوئی دھوکا کھایا، اور نہ وہ اس حد سے آگے بڑھی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر فرمادی تھی کہ اس سے آگے نہ دیکھے۔
رب کی نشایاں:
رَأَى مَلَائِكَةَ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَأَى إِخْوَانَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّى وَصَلَ إِلَى مَوْلَاهُ الْكَرِيمِ فَأَكْرَمَهُ بِأَعْظَمِ الْكَرَامَاتِ ، وَفَرَضَ عَلَيْهِ وَعَلَى أُمَّتِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ وَذَلِكَ بِمَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ ، ثُمَّ أَصْبَحَ بِمَكَّةَ سَرَّ اللَّهُ الْكَرِيمُ بِهِ أَعْيُنَ الْمُؤْمِنِينَ وَأَسْخَنَ بِهِ أَعْيُنَ الْكَافِرِينَ وَجَمِيعَ الْمُلْحِدِينَ۔
وَقَدْ بَيَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أُسْرِيَ بِهِ وَكَيْفَ رَكِبَ الْبُرَاقَ وَكَيْفَ عُرِجَ بِهِ۔ وَنَحْنُ نَذْكُرُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
ترجمہ:
اس(پیغمبر) نے اپنے غالب اور عظیم رب کے فرشتوں کو دیکھا۔
اور اس نے اپنے بھائیوں انبیاء کو دیکھا یہاں تک کہ وہ اپنے کریم مولا کے پاس پہنچا۔
پس اس کو سب سے بڑے اعزاز سے نوازا۔
اور اس پر اور ان کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔
اور یہ مکہ سے ایک رات میں ہوا۔
پھر مکہ میں اللہ کے فضل سے مومنین کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔
اور کافروں اور تمام ملحدین کی آنکھیں گرم ہوئیں۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ اپنے سفر پر کیسے گئے، کس طرح براق پر سوار ہوئے اور کیسے چڑھے۔ اور ہم اس کا (تفصیلی) ذکر کریں گے، انشاء اللہ۔
[الشريعة للآجري:3/1526]
عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: «لَقَدْ {رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى} قَالَ: رَأَى رَفْرَفًا أَخْضَرَ سَدَّ أُفُقَ السَّمَاءِ.»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اللہ پاک کے ارشاد: یقینا انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا کے متعلق فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے رفرف(ایک سبز رنگ کا بچھونا) دیکھا تھا جو آسمان کے کناروں کو گھیرے ہوئے تھا۔
[صحيح البخاري:3233+4858]
رَأَى جِبْرِيلَ فِي صُورَتِهِ لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ
(اور فرشتوں کے سردار)جبرائیلؑ کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا، اس کے چھ سو پر ہیں۔
[صحيح مسلم:174]
لَمْ يَرَهُ فِي صُورَتِهِ إِلَّا مَرَّتَيْنِ: مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَمَرَّةً بِأَجْيَادَ، لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ۔
وہ اپنی اصلی شکل میں نہیں دیکھا گیا سوائے دو بار، ایک بار سدرۃ المنتہیٰ میں اور ایک بار مقامِ اجیاد میں، اس کے چھ سو پَر(بازو) ہیں، جو اُفق (یعنی آسمان کے کناروں) کو گھیرے ہوئے تھے۔
[أخبار مكة - الفاكهي:2306]
قَدْ سَدَّ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ، وَالْمَغْرِبِ ۔
جو مشرق اور مغرب کے درمیان کو گھیرے ہوئے تھے۔
[المعجم الكبير للطبراني:9054]
يَنْتَثِرُ مِنْهَا تَهَاوِيلُ الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ۔
جس میں نیلم اور یاقوت کی موتی بکھرے ہوئے تھے۔
[التوحيد لابن خزيمة:2/503]
اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبوت کے دلائل عیاں ہوتے ہیں۔
’’معراج‘‘عروج سے مشتق ہے جس کے معنیٰ چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں، اسی لئے سیڑھی کو بھی معراج کہتے ہیں، رسول اکرم ﷺ نے چونکہ اس شب میں ملاء اعلیٰ کی منازلِ طے فرماتے ہوئے ساتوں آسمان، سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے بھی بلند ہوکر آیات اللہ (اللہ کی نشانیوں) کا مشاہدہ فرمایا اور ان واقعات کے ذکر میں آپ ﷺ نے ’’عُرِجَ بِیْ‘‘ یا ’’عَرَجَ بِنَا‘‘ کس جملہ استعمال فرمایا جس کے ہیں معنیٰ ہے ’’مجھے چڑھایا گیا‘‘ یا ’’ہم چڑھائے گئے‘‘ اس لئے اس واقعہ کو معراج سے تعبیر فرمایا۔
[قصص القرآن-مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیُوہاروی: حصہ4، ص461، لاہور، المیزان ناشران وتاجران،2011ء]
(1)شبِ معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟
حضرت ابوذر غفاری ؓ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چڑھے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انہوں نے پوچھا: کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا: ہاں، میرے ساتھ محمد ( ﷺ ) ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا: جی ہاں! پھر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا: آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ آدم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ انسؓ نے کہا کہ ابوذرؓ نے ذکر کیا کہ آپ ﷺ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم (علیہم السلام) کو موجود پایا۔ اور ابوذر ؓ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو چھٹے آسمان پر۔ انسؓ نے بیان کیا کہ جب جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے ساتھ ادریس (علیہ السلام) پر گزرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس (علیہ السلام) ہیں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ پھر میں عیسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا، انہوں نے کہا: آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ پھر میں ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچا۔ انہوں نے فرمایا: آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری ؓ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پھر جبرائیل (علیہ السلام) مجھے لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا: جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر ؓ سے نقل کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے فرمایا: آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کردیا، پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کردیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کرسکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا: مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ(بیری کے درخت) تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔
[صحيح البخاری - نماز کا بیان - حدیث نمبر 349]
میرے گھر کی چھت کھول دی گئی
اس حدیث میں واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان کی طرف گھر کی چھت سے لے جایا گیا گھر کے دروازے کی جانب سے نہیں۔
شیخ شقیری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر جانے اور واپس آنے تک کا سفر اتنی جلدی ہوا تھا کہ آپ کا بستر بھی ٹھنڈا نہیں ہو پایا تھا، یہ بات پایۂِ ثبوت تک نہیں پہنچتی، بلکہ یہ لوگوں کا اپنا گھڑا ہوا جھوٹ ہے" انتہی
[السنن والمبتدعات:143]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے دروازے کی کنڈی بھی نہیں تھی، کیونکہ عام طور پر گھروں کے دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، جیسے کہ عبد الرحمن بن زید اللہ تعالی کے فرمان:
( وَلا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ )سے لیکر ( أَوْ صَدِيقِكُمْ ) تک [تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ۔۔۔۔ یا دوستوں کے گھر سے] یہ حکم ابتداء میں تھا جب گھروں کے دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، بلکہ صرف کپڑا لٹکا دیا جاتا تھا"
[تفسیر طبری:19/ 221]
(2)مختلف بیان کرنے والوں سے متفقہ بات جسمانی معراج ہونا۔
حضرت انس بن مالکؓ حضرت مالک بن صعصعہؓ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ان سے اس رات (جس میں آپ ﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا) کے بارے میں بیان کیا کہ: ’’میں حطیم میں تھا دوسری روایت میں ہے کہ حجر میں تھا کہ اچانک میرے پاس ایک آنے والا آیا، اور (لمبائی میں) چیرا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے سُنا کہ آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ یہاں سے یہاں تک چیرا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے جارود جو میرے پہلو میں تھا اس سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس نے کہا کہ گلے کے پاس سے لے کر ناف تک۔ پھر میرے دل کو نکالا، اس کے بعد سونے کا ایک طشت ایمان سے بھر لائے اور میرے دل کو اس سے دھویا گیا، پھر بھر دیا، اس کے بعد واپس اپنی جگہ پر لوٹادیا، پھر ایک چوپایہ لایا گیا، جو سفید گدھے سے اونچا اور خچر سے تھوڑا چھوٹا تھا۔ جارود نے اس (حضرت انسؓ) سے کہا کہ وہ بُراق ہے۔ پھر جارود نے کہا: اے اباحمزہ ! (یہ حضرت انس ؓکی کنیت ہے) حضرت انس ؓنے کہا: ہاں! وہ بُراق ایک ایک قدم کو اتنی دور دور رکھتا تھا جتنی دور اس کی نگاہ پہنچے۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام مجھے لے کر آسمان دنیا کی طرف پہنچے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوانا چاہا تو کہاگیا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا! ساتھ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیا ہے؟ کہا: ہاں !تو کہا گیا خوش آمدید! بہترین آنے والا۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں میں نے حضرت آدم ؑکو دیکھا۔ جبرئیلؑ نے کہا: یہ تیرا باپ آدم ؑ ہے ان کو سلام کیجئے! پس میں نے اس پر سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا اور مرحبا کہا،اورفرمایا: آپ میرے بہت ہی پیارے بیٹے اور نیک نبی ہیں۔ پھر مجھے دوسرے آسمان پر چڑھایا۔ پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھ: ساتھ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیا ہے؟ کہا: ہاں ! تو کہا گیا: خوش آمدید! بہترین آنے والا۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں میرے دو خالہ زاد بھائی حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحیٰؑ تھے۔ جبریل ؑ نے کہا کہ یہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحیٰؑ ہیں، ان دونوں کو سلام کیجئے! میں نے سلام کیا، دونوں نے جواب دیا۔ دونوں نے کہا: مرحبا! نیک بھائی اور نیک نبی۔ پھر مجھے تیسرے آسمان پر چڑھایا۔ پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا: ساتھ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیا ہے؟ کہا: ہاں ! تو کہا گیا خوش آمدید! بہترین آنے والا۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت یوسف ؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یہ یوسفؑ ہے، ان کو سلام کیجئے! میں نے اس پر سلام کیا، اس نے جواب دیا، کہا: مرحبا! نیک بھائی اور نیک نبی۔ پھر مجھے چوتھے آسمان پر چڑھایا۔ پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا: کون ہے؟کہا:جبرئیل، پوچھا: ساتھ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیا ہے؟ کہا: ہاں! تو کہا گیا: خوش آمدید! بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت ادریسؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یہ ادریسؑ ہے ان کو سلام کیجئے! میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا، کہا: مرحبا! نیک بھائی اور نیک نبی۔ پھر مجھے پانچویں آسمان پر چڑھایا۔ پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا: ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمدﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیا ہے؟کہا: ہاں! تو کہا گیا: خوش آمدید! بہترین آنے والا۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت ھارونؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا یہ ھارونؑ ہے ان کو سلام کیجئے! میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا، کہا: مرحبا! نیک بھائی اور نیک نبی۔ پھر مجھے چھٹے آسمان پر چڑھایا۔ پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا: ساتھ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہ ے؟ کہا: ہاں! تو کہا گیا خوش آمدید! بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت موسیٰؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یہ موسیٰؑ ہے ان کو سلام کیجئے! میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا۔ کہا: مرحبا! نیک بھائی اور نیک نبی۔ پھر جب میں اس سے گذرا تو وہ رونے لگا۔ اس سے کہا گیا کہ کس چیز نے آپ کو رُلایا؟ فرمایا کہ ایک اللہ کا بندہ جو میرے بعد مبعوث ہوئے، میرے امتیوں سے زیادہ اپنے امتیوں کو جنت میں داخل کرے گا۔ پھر مجھے ساتویں آسمان پر چڑھایا۔ پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا: کون ہے؟ کہا: جبرئیل، پوچھا: ساتھ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیا ہے؟ کہا: ہاں! تو کہا گیا خوش آمدید! بہترین آنے والا آیا ہے۔ پھر جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت ابراہیمؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یہ تیرا باپ ابراہیمؑ ہے ان کو سلام کیجئے! میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا، کہا: مرحبا! نیک بھائی اور نیک نبی۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک اُٹھالے گئے، جس کے پھل ھجر کے مٹکوں جیسے اور جس کے پتےّ ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے۔ (جبرئیلؑ) نے کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ اور وہاں پر چار نہریں تھیں، دو ظاہری اور دو باطنی۔ میں نے کہا: اے جبرئیل! یہ کیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ جو دو باطن نہریں ہیں یہ جنّت میں ہیں۔ اور یہ جو دوظاہری ہیں وہ نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھے بیت المعمور تک اُٹھالے گئے۔ پھر میرے پاس دو برتن ایک شراب کا اور ایک دودھ کا لائے گئے، میں نے دودھ کو پسند کر لیا۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہی فطرت ہے، آپ اور آپ کی امت اسی (فطرت) پر ہیں۔ اور مجھ پر ایک رات اور دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر میں چھٹے آسمان پر واپس اُترا اور دوبارہ حضرت موسیٰؑ سے ملا۔ انہوں نے نمازوں کی فرضیت کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا: پچاس نمازیں ہر دن۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: آپ کی اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نے آپ سے پہلے لوگوں پر تجربہ کیا ہے۔ اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت محنت کی ہے۔ اپنے رب کے حضور جائیے اور اپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجئے! تو میں حضور خداوندی میں واپس گیا۔ تو دس نمازوں کی کمی منظور ہوگئی۔ پھر میں حضرت موسیٰؑ کی طرف لوٹا، موسیٰؑ نے پھر پہلے کی طرح بات کی، میں پھر درگاہ کریمی میں گیا، پھر دس نمازوں کی کمی منظور ہوگئی، پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا۔ حضرت موسیٰ نے پھر پہلے کی طرح سمجھایا، میں پھر اللہ کے حضور گیا، پھر دس نمازوں کی کمی ہوگئی، پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا۔ حضرت موسیٰ نے پھر پہلے کی طرح سمجھایا، میں پھر اللہ کے حضور گیا، تو مجھے ہر دن دس نمازوں حکم ہوگیا، پھرمیں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس لوٹ آیا۔ حضرت موسیٰ ؑنے پھر پہلے کی طرح سمجھایا، میں پھر اللہ کے حضور گیا، تو مجھے ہر دن پانچ نمازوں کا حکم ہوگیا، پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا۔ حضرت موسیٰ نے کہا کس چیز کے ساتھ امر کئے گئے ؟ میں نے کہا: ہر دن پانچ نمازوں کا حکم کیا گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: آپ کی اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اور فرمایا کہ میں نے آپ سے پہلے لوگوں پر تجربہ کیا ہے۔ اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت محنت کی ہے۔ اپنے رب کے حضور جائیے اور اپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجئے! آپ ﷺنے فرمایا کہ میں اپنے رب سے سوال کرتے کرتے شرما گیا، اب میں راضی ہوں اور تسلیم کرلیتا ہوں، پھر جب میں وہاں سے گذرا تو ایک آواز دینے والے نے آواز دی کہ میں نے اپنے فرض کو نافذ (مضبوط) کیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔‘‘
[صحيح البخاري:3887 بَابُ الْمِعْرَاجِ]
(3)اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو کیا عطا کیا؟
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس رات مجھے سیر كروائی گئی اور میں مكہ میں آیا تو میں اپنے معاملے میں پر اعتماد نہ تھا اور مجھے معلوم ہوگیا كہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔ آپ غمگین ہو كر علیحدہ بیٹھ گئے۔ اللہ كا دشمن ابوجہل وہاں سے گزرا اور آكر آپ ﷺ كے پاس بیٹھ گیا۔ اور آپ ﷺ سے استہزاء كرتے ہوئے كہا: كیا كوئی نئی بات ہو گئی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے كہا: وہ كیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: آج رات مجھے سیر کروائی گئی ہے۔ ابو جہل نے كہا: كس طرف؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بیت المقدس كی طرف۔ ابو جہل نے كہا: (واہ) پھر بھی آپ ﷺ صبح كے وقت ہمارے درمیان موجود ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل كو سمجھ نہیں آئی كہ آپ كو جھٹلا دے اس ڈر سے كہ كہیں وہ آپ كی قوم كو بلائے تو آپ اس بات كا انكار كر دیں۔ ابو جہل نے كہا: اگر میں آپ كی قوم كو بلاؤں اور جو آپ نے مجھے بتایا ہے انہیں بھی بتائیں تو آپ كا اس بارے میں كیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ ابو جہل نے آواز دی: اے بنی كعب بن لؤئی كے لوگو! آؤ۔ لوگ ٹولیوں كی صورت میں اس كی طرف آنے لگے اور آكر بیٹھ گئے۔ ابو جہل نے كہا: اپنی قوم كو بتاؤ جو آپ نے مجھے بتایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آج رات مجھے سفر كروایا گیا۔ لوگوں نے كہا: كس طرف؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بیت المقدس كی طرف لوگوں نے كہا: آپ پھر بھی ہمارے درمیان بیٹھے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، كچھ لوگ تالیاں بجانے لگے اور كچھ لوگ آپ کے (ان کے گمان میں) جھوٹے دعوے پر تعجب كرتے ہوئے اپنے ہاتھ اپنے سر پر ركھنے لگے، كہنے لگے: كیا آپ ہمیں اس مسجد كے اوصاف(تفصیل) بیان كرنے كی قدرت ركھتے ہیں؟ ان لوگوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس ملک میں گئے تھے اور وہ مسجد دیكھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں انہیں اوصاف(تفصیل) بتانے لگا میں انہیں اوصاف بتا رہا تھا كہ كوئی نشانی مجھ پر ملتبس(مبہم،غیر واضح) ہو گئی۔ آپ نے فرمایا: پھر وہ مسجد میرے سامنے كردی گئی، میں اسے دیكھ رہا تھا حتی كہ وہ عقال یا عقیل كے گھروں كے سامنے (screen like) كردی گئی، اور میں اس كی نشانیاں بتا رہا تھا۔ اور اسے دیكھ رہا تھا۔ اس میں ایسی نشانی بھی تھی جو مجھے یاد نہیں تھی۔ لوگوں نے كہا: اللہ كی قسم! یہ نشانی اس نے درست بتائی ہے۔
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:39331، مسند أحمد:2819، مسند البزار:5305، السنن الكبرى - النسائي:11221، المعجم الكبير للطبراني:12782، الأحاديث المختارة:37، سلسلة الأحاديث الصحيحة:3021]
نوٹ:
تذکرہ اس دلیل کا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جاگتے ہوئے چڑھے تھے۔
اور یہ بھی کہ قریش نے اس کا انکار کیا اور اگر یہ خواب ہے تو اس کا انکار نہیں کیا جاتا۔
[التوحيد لابن منده(م395ھ): حدیث نمبر 27]
نبوت کا ثبوت(پیغمبر کے پیغام کی سچائی کا ثبوت)
[دلائل النبوۃ للبیھقی:656(2/364)، دلائل النبوة لإسماعيل لأصبهاني:75]
معراج میں 3 (عظیم)عطائیں:
تین چیزیں نبی ﷺ کو (شبِ معراج میں)عطا کی گئیں:
(1)پانچوں نمازیں
(2)سورۃ البقرۃ کی آخری (دو) آیات
(3)اور آپ کی امت میں سے جو شخص شرک نہ کرے، اسکے ہلاک کرنے والے گناہوں کو معاف کردیا جاۓ گا۔
[صحیح مسلم:173، سنن الترمذی:3276 تفسیر سورۃ النجم16، سنن نسائی:452]
(4)اور یہ بھی (وعدہ ہوا) کہ جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اس کو نہ کرپائے تو اس کی ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر اس کو کرلیا تو کم از کم دس نیکیاں کر کے لکھی جائیں گی۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اور پھر اس کو نہ کرے تو وہ بالکل نہ لکھی جائے گی۔ اور اگر اس کو کرلے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔
[تفسیر عبدالرزاق:1527، صحيح مسلم:162]
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا،
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا۔
جسمانی معراج کے واقعہ کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: " لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ فَمَنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَمِعُوا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكَ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: أَوَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِيمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
ترجمہ:
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کرائی گئی تو صبح کے وقت یہ خبر سن کر کچھ لوگ مرتد ہو گئے اور اہل ایمان میں تصدیق کی۔ کچھ لوگ یہ خبر حضرت ابوبکر کے پاس لے کر گئے اور بولے: کیا آپ کو اپنے ساتھی کی اس بات کا یقین ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو راتوں رات بیت المقدس تک کی سیر کروائی گئی ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا انہوں نے ایسا ہی کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے کہا: اگر انہوں نے یہ فرمایا ہے تو یہ بالکل سچ ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا تم اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ وہ راتوں ہی رات بیت المقدس تک گئے بھی ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں، میں تو اس سے بھی بڑی بات کو تسلیم کرتا ہوں کیونکہ میں صبح اور شام ان کے پاس آسمان سے آنے والی خبروں کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔ اسی بناء پر ان کا نام "ابوبکر صدیق" رکھا گیا۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور ان (امام بخاری ومسلم) نے اِس کی تخریج نہیں کی ہے۔
[الشريعة للآجري:1030+1259، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة-اللالكائي:1430، أمالي ابن بشران:558]
حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں یہ دونوں حضرات نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات کو مجھے لے جایا گیا اس کی صبح کو میں مکہ میں بیٹھا ہوا اپنے متعلق سوچ رہا تھا اور سمجھا ہوا تھا کہ میری قوم والے مجھے جھوٹا قرار دیں گے۔ ایک گوشہ میں الگ تھلگ غمگین بیٹھا ہوا تھا اتنے میں اس طرف سے ابو جہل کا گزر ہوا اور مذاق کے لہجے میں اس نے کہا کیا کوئی نئی چیز حاصل کی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں مجھے آج رات لے جایا گیا تھا۔ ابو جہل نے کہاکہاں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیت المقدس کو ، ابوجہل بولا پھر صبح ہوئی تو تم ہمارے سامنے موجود تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ہاں ابو جہل انکار نہ کرسکا اس کو اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ بات اسی پر نہ آپڑے ، کہنے لگا تم نے جو بات میرے سامنے بیان کی ہے کیا اپنی قوم والوں کے سامنے بھی بیان کرو گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ۔ ابو جہل نے کہا اے گروہ کعب بن لوی یہاں آئو ، آواز پر لوٹ ٹوٹ پڑے اور رسول اللہ ﷺ اور ابو جہل کے پاس آگئے ، ابو جہل بولا اب جو کچھ تم نے مجھے بیان کیا اپنی قوم سے بھی بیان کرو۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں مجھے آج رات لے جایا گیا ، لوگوں نے پوچھا کہاں ، فرمایا بیت المقدس کو۔ لوگوں نے کہا پھر صبح کو تم ہمارے سامنے بھی ہو ، فرمایا ہاں ۔ یہ سنتے ہی کچھ لوگ مذاق میں تالیاں بجانے لگ گئے اور کچھ لوگوں نے تعجب سے اپنا سر پکڑ لیا اور کچھ لوگ جو ایمان لا چکے تھے اور حضور ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرچکے تھے وہ اسلام سے پھرگئے اور ایک مشرک بھاگتا ہوا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اب آپ کا اپنے ساتھی کے متعلق کیا خیال ہے ؟ تو وہ کہہ رہا ہے کہ رات مجھے بیت المقدس کو لے جایا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: کیا انہوں نے ایسا کہا ، لوگوں نے کہا ہاں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اگر انہوں نے ایسا کہا ہے تو سچ کہا ہے، لوگوں نے کہا کہ کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات میں بیت المقدس کو چلے گئے اور صبح سے پہلے بھی آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: میں تو ان کی اس سے بھی بڑی تصدیق کرتا ہوں کہ ان کے پاس جو صبح اور شام آسمان سے خبریں آتی ہیں تو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اسی لیے کہا جانے لگا ۔
[تفسير البغوي(م516ھ): حدیث نمبر 1286، ج5 / ص65=سورۃ الاسراء: آیۃ#1]
[تفسير الخازن(م741ھ): ج3 / ص116، تفسير ابن كثير(م774ھ): ج5/ ص14، الدر المنثور:5/ 188]
کیا یہ معراج روح کو ہوئی یا آپ کے جسم کے ساتھ ہوئی؟
اور اگر یہ خواب ہوتا تو اس میں کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا، اور ام ہانیؓ آپ کو یہ نہ کہتیں: آپ لوگوں کے سامنے بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلادیں گے۔ اور نہ اس کے سبب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فضیلت دی جاتی، اور نہ قریش کے لئے تشبیع وتکذیب ممکن ہوتی، حالانکہ جب آپ ﷺ نے اس بارے خبر دی تو قریش نے آپ کو جھٹلا یا حتیٰ کہ کچھ لوگ مرتد ہوگئے جو ایمان لاچکے تھے۔ پس اگر یہ خواب ہوتا تو کوئی اس کا انکار نہ کرتا۔
[تفسیر القرطبی:سورۃ الاسراء/بنی اسرائیل:1]
اس اختلاف کو قاضی عیاضؒ نے اپنی کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ‘‘ میں اس طرح لکھا ہے:
’’پھر اگلے لوگوں اور عالموں کے اسراء کے روحانی یا جسمانی ہونے میں تین مختلف قول ہیں ۔ایک گروہ اسراء کا روحانی کے ساتھ اور خواب میں ہونے کا قائل ہے۔اور اس پر بھی متفق ہیں کہ پیغمبروں کا خواب وحی اور حق ہوتا ہے۔معاویہ کا مذہب بھی یہی ہے حسن بصری کو بھی اسی کا قائل بتاتے ہیں۔لیکن اس کا مشہور قول اس کے برخلاف ہے۔اور محمد بن اسحاق نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔اُن کی دلیل ہے خداکا یہ فرمانا﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾‘‘اورحضرت عائشہ کا یہ قول کہ نہیں کھویا ہم نے رسول اللہ ﷺکے جسم کویعنی آپﷺکا جسم مبارک معراج میں نہیں گیا تھااور آنحضرت ﷺکا یہ فرماناکہ اس حالت میں کہ میں سوتا تھااور انس کا یہ قول کہ آنحضرتﷺاُس وقت مسجد حرام میں سوتے تھے۔پھر معراج کا قصہ بیان کرکےآخر میں کہا کہ میں جاگااور اس وقت مسجد حرام میں تھابہت سے اگلے لوگ اور مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ اسراء جسم کے ساتھ اورجاگنے کی حالت میں ہوئی اور یہی بات حق ہے۔ابن عباس، جابر، انس، حذیفہ، عمر، ابی ھریرہ، مالک بن صعصعہ، ابوحبۃ البدری، ابن مسعود، ضحاک، سعید بن جبیر، قتادہ، ابن المسیب، ابن شہاب، ابن زید، حسن ابراہیم بن مسروق، مجاھد عکرمہ، اور ابن جریج سب کا یہی مذہب ہے۔اور حضرت عائشہ کے قول کی یہی دلیل ہے۔اور طبری، ابن حنبل اور مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کا یہی قول ہے۔متأخرین میں سے بہت سے فقیہ، محدث، متکلم اور مفسر اسی مذہب پر ہیں۔ایک گروہ بیت المقدس تک جسم کے ساتھ بیداری میں جانے اور آسمانوں پر روح کے ساتھ جانے کا قائل ہے۔اُن کی دلیل خدا کا یہ قول ہے: ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی﴾یہاں اسراء کی انتہاءمسجداقصےٰ بیان کی ہے۔پھر ایسی بڑی قدرت اور محمد ﷺکو بزرگی دینے اور اپنے پاس بلانے سے اُن کی بزرگی ظاہر کرنے پر تعریف کی اور تعجب کیاہے اور اگر مسجد اقصےٰ سے اور بھی جسم کے ساتھ جاتے تو اس کا ذکر کرناتعریف کے موقع پر زیادہ مناسب تھا۔
[قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، پشاور، مکتبہ شان اسلام، سن ندارد، ص126]
اور علامہ سہیلی رحمہ اللہ ’’الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مہلب نے شرح بخاری میں اہلِ علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیا ہے کہ معراج دو مرتبہ ہوئی، ایک مرتبہ خواب میں، دوسری مرتبہ بیداری میں جسد شریف کے ساتھ۔‘‘
[ج:۱ ص:۲۴۴]
اس سے معلوم ہوا کہ جن حضرات نے یہ فرمایا کہ معراج خواب میں ہوئی تھی، انہوں نے پہلے واقعہ کے بارے میں کہا ہے، ورنہ دوسرا واقعہ جو قرآنِ کریم اور احادیثِ متواترہ میں مذکور ہے، وہ بلاشبہ بیداری کا واقعہ ہے اور جسمانی طور پر ہوا ہے، یہی اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔
جمہور کے دلائل:
مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ نے اپنی کتاب’’قصص القرآن‘‘میں جمہور علماء کی رائے کو درست سمجھتے ہوئے فہرست کی شکل میں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ: قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ بغیر کسی تأویل کے بصراحت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسراء اور معراج کا واقعہ بجسد عنصری اور بحالت بیداری پیش آیا ہےمولاناسیوہاروی ؒ نے جن آیات کوبطوردلیل پیش کیا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1: سورۂ بنی اسرائیل کی آیت’’اسری بعبدہ‘‘میں اسراء کے متبادر معنیٰ وہی ہے جو حضرت موسیٰؑ اورحضرت لوط ؑسے متعلق آیات میں ہیں یعنی بحالت بیداری اور بجسد عنصری رات میں لے چلنا۔وہ دو آیتیں یہ ہیں:
پہلی آیت: ﴿قَالُوْا یَالُوْطُ اِنَّارُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطَعٍ مِّنَ الَّیْلِ﴾
[سورۃ ھود: ۸۱]
’’فرشتوں نے کہا: لوط! ہم تو تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں۔ یہ تجھ تک ہرگز نہیں پہنچ پائیں گے۔ پس تو اپنے لوگوں کو کچھ رات گئے (یہاں سے) لے نکل۔‘‘
یہ آیت﴿فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطَعٍ مِّنَ الَّیْلِ﴾[سورۃ الدخان:23]میں بھی موجود ہے۔ٍ
دوسری آیت: ﴿وَلَقَدْ اَوْحَیْنَا اِلیٰ مُوْسیٰ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ﴾
[سورۃ طہ: ۷۷]
’’اوربلاشبہ ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا‘‘
اور سورۂ شعراء میں ہے: ﴿وَاَوْحَیْنَا اِلیٰ مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ﴾
[سورۃ الشعراء : 52]
’ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاور ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جا۔تمہارا تعاقب ضرور کیا جائے گا۔‘‘
اور یہی آیت سورۂ دخان میں بھی موجود ہے۔
ان تمام آیت میں لفظ’’اسراء‘‘ٍکا جس طرح اطلاق کیا گیا ہےاس سے دو حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے ایک یہ کہ ’’ اسراء‘‘ اس سیر اور اس چلنے کو کہتے ہیں جو رات میں پیش آئے اس لئے دن یا شام کے چلنے پر ’’ اسراء ‘‘کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ’’سری یا سراء‘‘کا ان تمام آیات میں روح مع جسد پر اطلاق ہواہے……یہ نہ خواب کی شکل میں تھا اور نہ روحانی طور پر اور نہ رؤیا کشفی کے طریقے پر بلکہ روح مع جسد کےتھا۔]‘‘
(2) آیت﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ﴾میں ’’رؤیا‘‘بمعنیٰ عینی مشاہدہ ہے نہ کہ خواب یا روحانی رؤیت اور لغت عرب میں رؤیا کے یہ معنیٰ مجازی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
(3) آیت﴿اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾میں قرآن نے اس وقعے کو اقرار وانکار کی شکل میں ایمان وکفر کے لئے معیار قرار دیا ہے اور اگرچہ انبیاءؑکے روحانی مشاہدے یا خواب پر بھی مشرکین ومنکرین کا انکار وجحود ممکن اور ثابت ہے لیکن تبادر یہی ظاہر کرتاہے کہ واقعے کی عظمت وفخامت کے پیش نظرمنکرین کا انکار اس لئے شدید سے شدید ترہوا کہ رسول اکرم ﷺنے اس واقعے کو عینی مشاہدے کی طرح بیان فرمایاہے۔
(4) سورۂ النجم کی آیت﴿مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَاطَغٰی﴾میں رؤیت جبرئیل نہیں بلکہ واقعۂ اسراء کا مشاہدۂ عینی مراد ہے۔اور اس میں یہ بتلا نا مقصود ہے کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا قلب نے ہو بہو اس کی تصدیق کی۔
(5) صحیح حدیث میں ہےکہ جب مشرکین نے اس واقعے کے انکار پر حجّت قائم کی کہ اگر یہ صحیح ہے تو رسول اکرمﷺبیت المقدس کی موجودہ جزئی تفصیلات بتائیں کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ نہ انہوں نے بیت المقدس کو کبھی دیکھا ہے اور نہ بغیر دیکھے جزئی تفصیلات بتائی جاسکتی ہیں تب رسول اکرم ﷺکے سامنےسے بیت المقدس کے درمیانی حجابات من جانب اللہ اُٹھادیےگئے اور آپ ﷺنے ایک ایک چیز کامشاہدہ کرتے ہوئے مشرکین کے سوالات کےصحیح جوابات مرحمت فرمائےجن میں مسجد کی بعض تعمیری تفصیلات تک زیربحث آئیں، یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مشرکین سمجھ رہے تھے کہ آپﷺاسراء کو بحالت بیداری اور بجسد عنصری ہونا بیان فرمارہےہیں اور رسول اکرم ﷺنےان کے خیال کی تردید نہیں فرمائی بلکہ اس کی تائید کے لئے معجزانہ تصدیق کا مظاہر فرماکر ان کو لاجواب بنادیا۔
(6) ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بسند صحیح منقول ہے کہ قرآن مجید میں مذکور ’’رؤیا‘‘سے مرادرؤیا عین ہے نہ کہ خواب یا روحانی مشاہدہ۔
(7) آیت: ﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ﴾میں مذکور ہے کہ واقعۂ اسراء اور جہنم کے اندر سینڈھ کے درخت کا موجود ہونااور آگ میں نہ جلنایہ دونوں واقعے اقرار وانکار کی صورت میں ایمان وکفر کے لئے آزمائش ہیں پس جبکہ جہنمیوں کی غذاکے لئے ایک مادی خارداردرخت کا موجود ہونا، سرسبز شاداب رہنااور آگ سے نہ جلنا مشرکین کے انکار کا سبب ہوا، بلا شبہ اسراءکے واقعے میں بھی آزمائش کا پہلو یہی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے کس طرح زمان ومکان کی قیود کو توڑکر بجسد عنصری وبحالت بیداری وہ سیر کرلی جس کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل اور والنجم میں اور صحیح احادیث میں ہےاور یقیناً مشرکین نے اس کا نکار کیاجس کے رد میں قرآن نے اس کو﴿اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾کہہ کر اس قدر اہمیت دی ورنہ تو أنبیاء علیہم السلام کے روحانی مشاہدات اور خواب کے واقعات کا انکار توان کے لئے ایک عام بات تھی۔
(8) اسراء کا واقعہ جب پیش آیا تو صبح کو رسول اکرمﷺنےجن صحابہ کی محفل میں اس واقعہ کا تذکرہ کیاوہ سب باتفاق یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ بجسد عنصری بحالت بیداری پیش آیامثلاًحضرت عمرؓ، حضرت انسؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ وغیرہ اور اس کے برعکس ذیل کے قائلین میں حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے اسماءگرامی ہیں جن کا اسلام یا حرم نبوی سے تعلق اس واقعہ سے برسوں بعد مدینہ کی زندگی پاک سے وابستہ ہے اس لئے واقعہ کے ایام میں موجود اصحاب کا قول ہے۔
(9) حضرت عائشہ ؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کا جو مسلک جمہور کے خلاف منقول ہے وہ بلحاظ درجہ روایت وصحت سند نہ صرف مرجوح بلکہ مجروح ہے اس لئے اول تو ان بزرگوں کی جانب اس قول کا انتساب ہی درست نہیں اور بالفرض صحیح بھی ہو تو جمہور کے مسلک کے مقابلہ میں ہرحیثیت سے مرجوح ہے۔
[سیُوہاروی، مولانا محمدحفظ الرحمٰن، قصص القرآن، ج2، حصہ4، ص469-470]
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی معراج نبوی کو جسد عنصری کا سفرقراردیتے ہیں۔وہ اپنی تفسیر’’تفہیم القرآن‘‘میں واقعہ معراج کے بارے میں رقمطرازہیں کہ: ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰیسے بیان کی ابتداکرنا خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی بہت بڑاخارقِ عادت واقعہ تھاجو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونماہوا۔ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنایہ اہمیت نہیں رکھتاکہ اسے بیان کرنے کے لئے اس تمہید کی ضرورت ہوکہ تمام کمزوریوں اور نقائص سےپاک ہے وہ ذات جس نےاپنے بندے کو یہ خواب دیکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔پھر یہ الفاظ بھی کہ’’ایک رات اپنے بندے کو لے گیا‘‘جسمانی سفر پر صریحاًدلالت کرتے ہیں۔خواب کے سفر یا کشفی سفرکے لئے یہ الفاظ کسی طرح موزوں نہیں ہوسکتے۔‘‘
[مودودی، ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، لاہور، ادارہ ترجمان القرآن، 1982ء، ج2، ص589]
اسراء اور معراج دو حصے ہیں:
(1)مکۃ المکرمہ سے بیت المقدس تک رات کے کچھ حصہ میں کرائے گئے جسمانی سیر کو "اسراء" کہتے ہیں، اس کا انکار قطعی ثابت بات کا انکار ہے جو کفر ہے۔
حوالہ
من أنكر المعراج الى المسجد الأقصى لثبوته بالنص القطعي وهو قوله تعالى سبحان الذي اسرا بعبده۔
[روح البيان:9/225]
اور
(2)دوسرا سیر بیت المقدس سے اوپر آسمانوں پر چڑھنے کو "معراج" کہتے ہیں۔
اگر کوئی اس سفر کا انکار کرے تو کافر نہیں لیکن بدعتی(گمراہ) ہوگا۔
حوالہ
وَخير الْمِعْرَاج حق من رده فَهُوَ مُبْتَدع ضال۔
ترجمہ:
اور واقعہ معراج حق ہے جو اس کی تردید کرے وہ بدعتی اور گمراہ ہوگیا۔
تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری لکھتے ہیں:
من أنكر المعراج ينظر إن أنكر الإسراء من مكة إلى بيت المقدس فهو كافر، ولو أنكر المعراج من بيت المقدس لا يكفر۔
ترجمہ:
جو شخص معراج کا انکار کرتا ہے وہ اگر مکہ سے بیت المقدس تک رات کے سفر کا انکار کرے تو وہ کافر ہے اور اگر بیت المقدس سے معراج کا انکار کرے تو وہ کافر نہیں ہے۔
وَمَنْ أَنْكَرَ الْإِسْرَاءَ مِنْ مَكَّةَ إلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَهُوَ كَافِرٌ وَمَنْ أَنْكَرَ الْمِعْرَاجَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَلَيْسَ بِكَافِرٍ۔
ترجمہ:
جو مکہ سے بیت المقدس تک سیر کا انکار کرے وہ کافر ہے اور جو بیت المقدس سے (آسمانوں پر) چڑھنے کا انکار کرے وہ کافر نہیں۔
[البحر الرائق شرح كنز الدقائق-ابن نجيم، زين الدين: ج1/ ص370]
وَمُنْكِرُ الْمِعْرَاجِ إنْ أَنْكَرَ الْإِسْرَاءَ إلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَكَافِرٌ وَإِنْ أَنْكَرَ الْمِعْرَاجَ مِنْهُ فَمُبْتَدَعٌ۔
ترجمہ:
اور معراج کا منکر اگر بیت المقدس کی طرف سیر کا انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر (آسمانوں پر) چڑھنے کا انکار کرتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔
[تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي:1/315، فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي:1/340]
عرفِ عام(عوامی اصطلاح)میں دونوں کے"مجموعہ"کو معراج کہتے ہیں۔
************************
انبیاء کی برزخی زندگی:
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَتَيْتُ ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ : " مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ".
ترجمہ:
حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :"معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰؑ کی قبر پر ہوا، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔
[صحيح مسلم » كِتَاب الْفَضَائِلِ » بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386(2375)]
عقیدہ حیات النبی ﷺ کے دلائل
انبیاء کی برزخی زندگی »
امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کی بیت المقدس میں انبیائے کرام کیساتھ ملاقات ہوئی تھی:
صحیح احادیث میں یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام کی امامت کروائی تھی، اس کے درج ذیل دلائل ہیں:
1- حضرت ابو ہریرہ (راضی ہو اللہ اس سے) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے پیغمبر (رحمتیں ہوں اللہ کی اس پر اور سلامتی بھی) نے فرمایا:
وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ، وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ - يَعْنِي: نَفْسَهُ -، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ۔
ترجمہ:
۔۔۔ میں نے دیکھا کہ انبیائے کرام کی بڑی جماعت وہاں موجود ہے، موسی (سلامتی ہو ان پر) کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا گویا کہ وہ گٹھے ہوئے جسم اور گھنگریالے بالوں والے آدمی ہیں گو یا کہ وہ قبیلہ ازد شنوءہ کے ایک آدمی ہیں اور عیسی بن مریم(سلامتی ہو ان دونوں پر) کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو لوگوں(میرے ساتھیوں) میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی(راضی ہو اللہ اس سے) ہیں اور ابراہیم (سلامتی ہو ان پر) کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا لوگوں میں سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب [یعنی محمد ﷺ خود] ہیں اس کے بعد نماز کا وقت آیا تو میں نے ان کی امامت کروائی۔
[صحیح مسلم:172، مستخرج أبي عوانة:419، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:5011، التوحيد لابن منده:25+26، حياة الأنبياء-للبيهقي:9]
2- حضرت عباس کے بیٹے عبداللہ (راضی ہو اللہ ان دونوں سے) سے مروی ہے کہ :
فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ جِيءَ بِقَدَحَيْنِ، أَحَدُهُمَا عَنِ الْيَمِينِ، وَالْآخَرُ عَنِ الشِّمَالِ
ترجمہ:
"جس وقت پیغمبر ﷺ مسجد اقصیٰ(یعنی بیت المقدس) میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگے، پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو تمام انبیائے کرام آپ کیساتھ(جماعت بناکر) نماز ادا کر رہے تھے"۔[مسند أحمد:2324، البعث والنشور للبيهقي-ت حيدر:188(ت الشوامي:752)، جامع المسانيد لابن الجوزي:3142، الأحاديث المختارة:544]
اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے، تاہم پہلی مسلم کی روایت اس کیلیے شاہد ہے۔
اور امام ابن کثیرؒ نے اس روایت narration کی سند chain of narrators کو صحیح کہا ہے.
[تفسير ابن كثير - ت السلامة: ج5 / ص28 تَفْسِيرُ سُورَةِ الْإِسْرَاءِ:1]
دوم:
علمائے کرام کا اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ یہ نماز پیغمبر ﷺ کے آسمان کی طرف جانے سے پہلے تھی یا واپسی پر آپ نے نماز پڑھائی؟ ان دونوں میں سے پہلا موقف راجح ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قَالَ عِيَاضٌ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ صَلَّى بِالْأَنْبِيَاءِ جَمِيعًا فِي بَيْتِ الْمُقَدّس ثمَّ صعد مِنْهُم إِلَى السَّمَاوَاتِ مَنْ ذَكَرَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَآهُ وَيَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ صَلَاتُهُ بِهِمْ بَعْدَ أَنْ هَبَطَ مِنَ السَّمَاءِ فَهَبَطُوا أَيْضًا وَقَالَ غَيْرُهُ رُؤْيَتُهُ إِيَّاهُمْ فِي السَّمَاءِ مَحْمُولَةٌ عَلَى رُؤْيَةِ أَرْوَاحِهِمْ إِلَّا عِيسَى لِمَا ثَبَتَ أَنَّهُ رُفِعَ بِجَسَدِهِ
ترجمہ:
قاضی عیاض رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: اس بات کا احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے تمام انبیائے کرام کی بیت المقدس میں جماعت کروائی، اور پھر ان میں سے وہ سب آسمانوں پر چلے گئے جنہیں آپ ﷺ نے آسمانوں پر دیکھا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں آسمان سے واپسی پر نماز پڑھائی اور وہ بھی آپ ﷺ کیساتھ بیت المقدس اتر آئے۔۔۔
تاہم زیادہ اسی بات کا امکان ہے کہ پیغمبر ﷺ نے انہیں بیت المقدس میں آسمان پر جانے سے پہلے نماز پڑھائی۔
[فتح الباري شرح صحيح البخاري-ابن حجر العسقلاني: ج7 / ص209 ]
سوم:
ہر مسلمان کیلیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اگر شہداء کی برزخی زندگی اللہ تعالی کے ہاں کامل ہے تو پھر انبیائے کرام کی زندگی زیادہ کامل ترین ہوگی؛ اس لیے ایک مسلمان کو برزخی زندگی کے بارے میں ایمان رکھنا چاہیے اور چاہیے کہ اس کی کیفیت و حقیقت کے بارے میں کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے۔
اللہ تعالی نے شہداء کی زندگی کے بارے میں فرمایا:
( وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [169] فَرِحِينَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [170] يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ )
ترجمہ:
جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو ، وہ تو زندہ ہیں جو اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں [169] جو کچھ اللہ کا ان پر فضل ہو رہا ہے اس سے وہ بہت خوش ہیں اور ان لوگوں سے بھی خوش ہوتے ہیں جو ان کے پیچھے ہیں اور ابھی تک ان سے ملے نہیں، انہیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے [170] اللہ تعالی کا ان پر جو فضل اور انعام ہو رہا ہے اس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالی یقیناً مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا [آل عمران: 169- 171]
اسی طرح حضرت انس بن مالک (راضی ہو اللہ اس سے) سے مروی ہے کہ اللہ کے پیغمبر (رحمتیں ہوں اللہ کی اس پر اور سلامتی بھی) نے فرمایا:
الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ في قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ۔
ترجمہ:
انبیاء(سارے پیغمبر اپنی قبروں میں (برزخی) زندگی کی حالت میں نماز پڑھتے ہیں۔
[مسند البزار:6888، مسند أبي يعلى:3425، فوائد تمام:58، حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي:1+2, سلسلة الأحاديث الصحيحة:621]
نوٹ:
انبیاء کی زندگی کا ثبوت اپنی اپنی قبروں میں ہے، ہر جگہ نہیں۔
امام ابن حجر مکیؒ نے فرمایا:
وَمَا أَفَادَهُ مِنْ ثُبُوتِ حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ حَيَاةً بِهَا يَتَعَبَّدُونَ وَيُصَلُّونَ فِي قُبُورِهِمْ مَعَ اسْتِغْنَائِهِمْ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ كَالْمَلَائِكَةِ أَمْرٌ لا مرية فيه وقد صنف البيهقي جزأ في ذلك
ترجمہ:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام قبروں میں برزخی زندگی کیساتھ ہیں اور نمازیں پڑھتے اور عبادت گزاری کرتے ہیں، نیز وہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے کی حاجت نہیں رکھتے، اور یہ ایسی بات ہے جس میں کوئی شک نہیں، بیہقی رحمہ اللہ نے اس بارے میں خصوصی ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔۔۔
[عون المعبود وحاشية ابن القيم : ج3 / ص261]
نیز قرآن مجید میں شہداء کے بارے میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ وہ برزخی زندگی کیساتھ ہیں اور انہیں رزق بھی دیا جاتا ہے، ان کی زندگی ان کے جسموں کے ساتھ ہے، تو انبیائے کرام کیساتھ بالاولی ہوگی۔
چہارم:
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت المقدس میں انبیائے کرام کی روحوں اور جسموں دونوں کیساتھ ملاقات ہوئی تھی؟ یا صرف روحوں کیساتھ ہوئی تھی جسموں کے ساتھ نہیں ہوئی؟ اس بارے میں اہل علم کے دو قول ہیں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انبیائے کرام کے جسم اطہر کو آسمانوں میں دیکھا جانا الجھن کا باعث ہے، کیونکہ انبیائے کرام کے جسم مبارک تو زمین پر قبروں میں ہیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ:
انبیائے کرام کی روحوں نے ان کے جسموں کی شکل دھار لی، یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ اس رات انبیائے کرام کے اجسام مبارک نبی ﷺ کی شان و مقام عیاں کرنے کیلیے آپ سے ملاقات کی غرض سے لائے گئے"
[فتح الباری:7 / 210]
راجح بات یہی ہے کہ آپ ﷺ کی ملاقات انبیائے کرام کی روحوں کیساتھ ہوئی جنہوں نے جسموں کی صورت دھاری ہوئی تھی، سوائے عیسی علیہ السلام کے، کیونکہ انہیں روح اور بدن سمیت آسمانوں پر اٹھایا گیا ، لیکن ادریس علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہے تا ہم ان کے بارے میں بھی راجح یہی ہے کہ ان کا حکم بھی باقی انبیائے کرام والا ہی ہے عیسی علیہ السلام والا نہیں ہے۔
چنانچہ سب انبیائے کرام کے بدن قبروں میں ہیں اور ان کی روحیں آسمانوں میں ہیں، لہٰذا نبی ﷺ کیساتھ ملاقات کیلیے اللہ تعالی نے تمام انبیائے کرام کی روحوں کو ان کے حقیقی جسموں کی شکل اپنانے کی طاقت دے دی تھی، اسی بات کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن رجب سمیت دیگر اہل علم نے راجح قرار دیا ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ ﷺ نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات آسمانوں میں دیکھا، آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا پر ، یحیی اور عیسی علیہما السلام کو دوسرے آسمان پر ، یوسف علیہ السلام کو تیسرے آسمان پر ، ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر ، ہارون علیہ السلام کو پانچویں آسمان پر ، موسی علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر ، اور ابراہیم علیہ السلام کو ساتویں پر دیکھا ، موسی اور ابراہیم کے درمیان ترتیب الٹ بھی ہو سکتی ہے، تو یہ حقیقت میں انبیائے کرام کی روحوں کو ان کے جسموں کی صورت دی گئی تھی۔
جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ : یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے انبیائے کرام کے وہی جسم دیکھے جو قبروں میں دفن تھے؛ تو یہ بالکل غیر مناسب ہے۔"
[ مجموع الفتاوى:4 / 328]
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ ﷺ نے جنہیں بھی آسمانوں میں دیکھا وہ حقیقت میں ان انبیائے کرام کی روحیں تھیں، ما سوائے عیسی علیہ السلام کہ کیونکہ انہیں آسمانوں پر جسم سمیت اٹھا لیا گیا تھا" انتہی
[فتح الباری:2 / 113]
اسی موقف کو ابو الوفاء بن عقیل نے راجح قرار دیا ہے، جیسے کہ ان سے حافظ ابن حجر نے نقل کیا ہے، اور ظاہری طور پر یہ بھی لگتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے چند مشائخ کا رد صرف اس لیے کیا کہ انہوں نے دوسرے موقف کو اپنایا ہے، چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معراج کی رات انبیائے کرام کی حالت کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے کہ : کیا دیگر انبیائے کرام کو بھی نبی ﷺ کی ملاقات کیلیے ان کے جسموں سمیت وہاں لے جایا گیا؟ یا ان انبیائے کرام کی روحیں وہیں رہتی ہیں جہاں نبی ﷺ کی ان سے ملاقات ہوئی تھی، اور ان کی روحوں کو جسموں کی شکل دے دی گئی تھی؟ جیسے کہ ابو الوفاء بن عقیل نے واضح لفظوں میں اس چیز کا ذکر کیا ہے، ہمارے کچھ مشائخ نے پہلے موقف [یعنی: انبیائے کرام کو ان کے جسموں سمیت وہاں لے جایا گیا] کو اختیار کیا ہے، ان کی دلیل صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (میں نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے) تو اس سے معلوم ہوا کہ موسی علیہ السلام کو بھی اسی وقت ساتھ لے لیا گیا تھا جب آپ ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا۔
میں [ابن حجر] کہتا ہوں کہ: یہ کوئی لازمی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی روح کا زمین میں دفن جسم کیساتھ تعلق ہو، اس طرح انہیں نماز پڑھنے کی استطاعت حاصل ہو گئی، لیکن ان کی روح حقیقت میں آسمانوں پر ہی تھی"۔
[فتح الباری:7 / 212]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ بدن چاہے موسی علیہ السلام کا ہو یا کسی اور کا کوئی بھی بدن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بلکہ یہ خصوصیت روح کی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جس وقت نبی ﷺ نے موسی علیہ السلام کو ان کی قبر میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ، پھر انہیں بیت المقدس میں دیکھا، پھر انہیں چھٹے آسمان پر دیکھا، تو یہ جگہ کی بار بار تبدیلی موسی علیہ السلام کی روح کیلیے تھی آپ کے بدن کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات بالکل واضح ہے کہ انبیائے کرام کے بدن قبروں میں ہیں، سوائے عیسی اور ادریس علیہما السلام کے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو ان کی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا پھر انہیں چھٹے آسمان پر دیکھا حالانکہ دونوں کے درمیان فاصلہ بھی بہت تھوڑا تھا، تو یہ بدن کیلیے کبھی نہیں ہو سکتا [یہ صرف روح کیلیے ہی ممکن ہے]" ۔
[مجموع الفتاوى:5 / 526 - 527]
شیخ صالح آل شیخ حفظہ اللہ کہتے ہیں:
میرے نزدیک صحیح ترین موقف یہ ہے کہ: یہ معاملہ صرف روح کے ساتھ خاص ہے جسموں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، ما سوائے عیسی علیہ السلام کے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جب تمام انبیائے کرام سے ملاقات ہوئی تو سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی تو اس کے بارے میں درج ذیل صورتیں ہی ہو سکتی ہیں:
- تمام انبیائے کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جسموں کے ساتھ نماز ادا کی، اس کیلیے تمام انبیائے کرام کے جسموں کو قبروں میں سے جمع کیا گیا، اور پھر دوبارہ ان کے جسموں کو قبروں میں لوٹا دیا گیا، اور روحیں آسمانوں پر چلی گئیں۔
- یا پھر یوں کہا جائے کہ یہ معاملہ صرف روحوں کیساتھ ہی تھا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات آسمان پر پہلے ہو چکی تھی۔
اب یہاں یہ بات سب کیلیے واضح ہے کہ : آسمان کی طرف زندہ اٹھائے جانے کا معاملہ صرف عیسی علیہ السلام کے ساتھ خاص تھا کہ انہیں زندہ حالت میں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا، اب یہ کہنا کہ دیگر تمام انبیائے کرام کے اجساد مطہرہ کو بھی روحوں سمیت آسمانوں پر لے جایا گیا اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ یہ بات بہت سے دلائل سے متصادم ہے، کیونکہ انبیائے کرام قیامت قائم ہونے تک اپنی قبروں میں رہیں گے۔
چنانچہ ان کے فوت ہو جانے کے بعد انہیں دفن کرنے کا یہ مطلب لینا کہ: انبیائے کرام کے جسد مطہر قبروں میں ہیں تو یہ اصل کے مطابق ہے۔
جبکہ دوسرے موقف والوں کا کہنا ہے کہ: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ ان کیلیے انبیائے کرام کو قبروں سے اٹھایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی پھر آسمان پر ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کیلیے لازمی طور پر کوئی واضح دلیل ہونی چاہیے، لیکن غور کرنے پر جو دلیل ملتی ہے وہ اس بات سے بالکل الٹ ہے۔
قصہ مختصر کہ: اس بارے میں متقدمین اور متاخرین اہل علم کے دو موقف ہیں۔
واقعہ معراج کی ترتیب:
اسراء اور معراج كى شب اللہ عزوجل كى ان عظيم الشان نشانيوں ميں سے ہے جو نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم كى صداقت اور اللہ کے نزديک آپ کے عظيم مقام ومرتبہ پر دلالت کرتي ہے، نيز اس سے اللہ عزوجل كى حيرت کن قدرت اور اس کے اپني تمام مخلوقات پر عالى وبلند ہونے کا ثبوت ملتا ہے.
قرآن مجید میں تین مقامات پر معراج کا ذکر ہے ، سورۂ بنی اسرائیل میں دو جگہ اور سورۂ نجم میں ایک جگہ، سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں فرمایا گیا:
" پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندہ کو مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) تک جس کے گرد اگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیاتا کہ ہم اسے اپنی( قدرت) کی نشانیاں دکھائیں ، بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے"
(سورہ بنی اسرائیل:۱)
اسی سورہ بنی اسرائیل کی 60ویں آیت میں فرمایا گیا :
" اور اے پیغمبر وہ وقت یاد کر و جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ دکھاوا جو ہم نے تم کو دکھلایا اس کو لوگوں کے لئے آزمائش قرار دیا اور اسی طرح وہ درخت جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے (آزمائش کیلئے تھا ) اور ہم ان لوگوں کو ( طرح طرح سے ) ڈالے ہیں لیکن ان کی شرارتوں میں اور زیادتی ہوتی ہے
( بنی اسرائیل :60)
" اور وہ خواب جو ہم نے تمھیں دکھایا اور وہ خبیث درخت جس کا ذکر قرآن میں ہے ان سب کو لوگوں کے لئے فتنہ بنا دیا"
(بنی اسرائیل:60)
تیسری جگہ سورۂ نجم کی ابتدائی آیا ت میں اس کا ذکر فرمایا گیا:
" اور وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا ، پھر اور زیادہ قریب ہوا تو دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم، پھر اﷲ نے اپنے بندے (محمد) کی طر ف وحی بھیجی جو کچھ کہ بھیجی، جو کچھ انھوں نے دیکھا اس کو ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا، کیا جو کچھ انھوں نے دیکھا تم اس کے بارے میں ان سے جھگڑتے ہو اور انھوں نے اس کو ایک اور دفعہ بھی دیکھا ہے، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے جب کے اس سدرۃ المنتہیٰ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا، ان کی نگاہ نہ تو بہکی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی ، انھوں نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں"
(سورہ النجم:7 - 18)
واقعہ کی تفصیل جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک رات حضور اکرمﷺ آرام فرمارہے تھے کہ دو فرشتے جبریل اور میکائیل آئے، آپﷺ کو بیدار کیا اور اپنے ساتھ حرم کعبہ میں لائے، وہاں انھوں نے حضورﷺ کا سینہ چاک کر کے دل کو آبِ زم زم سے دھویا اور اپنے مقام پر رکھ دیا،پھر حضور ﷺ کو صفا و مروہ کے درمیا ن لائے جہاں بُرّاق کھڑا تھا، وہ اونٹ سے کم اور دراز گوش سے بڑا تھا ، اس کا چہرہ آدمی کی طرح ، کان ہاتھی کے مانند، گردن اونٹ سی، بال گھوڑے کے مثل، کمر شیر جیسی، پیر گائے کے سے، سینہ یاقوتِ سرخ کے دانہ کے مانند تھا، ران پر دو پر تھے، زین بندھی تھی، اس جنتی بُرّاق کانام جارود تھا، جبرئیل ؑ اور میکائیل ؑ نے حضور ﷺ کو براق پر سوار کر وایا اور روانہ ہوئے ، دائیں بائیں فرشتوں کی جماعتیں تھیں، راستہ میں کھجور کے درختوں کے جُھنڈ نظر آئے ، جبرئیل ؑ نے کہا :یہ آپ ﷺ کا دارالہجرت ہے ، یہاں اتر کر آپ ﷺ نے دو رکعت نفل نماز پڑھی، پھر جبرئیل ؑ نے طور ِ سینا پر براق کو روکا جہاں آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، آپﷺ کی تیسری منزل بیت اللحم تھی جس کے بار ے میں حضرت جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش ہے، وہاں بھی آپ ﷺ نے نماز پڑھی، وہاں سے بیت المقدس آئے جہاں مسجد اقصیٰ تھی، وہاں آپ ﷺ براق سے اترے ، استقبال کے لئے فرشتوں کی کثیر تعداد تھی جن کی زبانوں پر " السلام علیک یا رسول اللہ، یا اول ، یا آخر ، یا حاشر" تھا، مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء آپ ﷺ کے منتظر تھے، وہاں آپﷺ نے نماز میں تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی، حضرت جبرئیل ؑ بھی مقتدیو ں میں تھے، بعد ختم نماز آپﷺنے پیغمبروں سے ملاقات فرمائی، جب آپ ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپﷺ کے سامنے تین پیالے پیش کئے جن میں سے ایک میں دودھ ، دوسرے میں شراب اور تیسرے میں پانی تھا، آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ اُٹھا لیا، جبریل ؑ نے عرض کیا: حضور ﷺ کو فطرت سلیمہ کی طرف ہدایت نصیب ہوئی،یہ سفر کی پہلی منزل تھی اس کو" اسرا ء" بھی کہا جاتا ہے، اس کے بعد سفر کی دوسری منزل شروع ہوئی جو اصل معراج ہے،(سیرت طیبہ - قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی) وہاں سے جبرئیلؑ آپﷺ کو صخرہ پر لائے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ہیں، وہاں ایک سیڑھی نمودار ہوئی، آپ ﷺ آسمان پر پہنچے تو ایک بزرگ ہستی سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں، آپﷺ نے انہیں سلام کیا اور حضرت آدم ؑ نے جواب دیا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پہلے آسمان سے آپ ﷺ دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے جہاں دو نوجوان پیغمبروں حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، دونوں کو آپ ﷺ نے سلام کیا اور دونوں نے جواب دیا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام ، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، آپ ﷺ نے تمام پیغمبروں کو سلام کیا انھوں نے جواب دیا… مبارک باد دی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا، وہاں سے آپ ﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جا یا گیا جہاں آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ، آپﷺ نے انھیں سلام کیا ، انھوں نے جواب دیا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا، اس کے بعد آپﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا اور بیت المعمور دکھلایاگیا جو فرشتوں کا کعبہ ہے اور زمین پر کعبہ کے عین اوپر واقع ہے، وہاں ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے طواف کررہے تھے،سدرہ ایک بیری کا درخت ہے، اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل مٹکوں کی طرح تھے، فرشتے جگنوؤں کی طرح ان پتوں پر تھے، انھوں نے حضور ﷺ کا دیدار کیا، سِدرہ کی جڑ سے چار نہریں پھوٹ رہی تھیں دو ظاہر اور دو پوشیدہ ، حضرت جبرئیل ؑ نے بتلایا کہ جو ظاہر ہیں وہ دجلہ اور فرات ہیں اور جو پوشیدہ ہیں وہ جنت کی نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں ،یہاں آپ ﷺ کی خدمت میں شراب ،دودھ اور شہد کے پیالے پیش کئے گئے ، آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا، جبرئیل ؑ نے کہا یہ فطرت کی جانب رہنمائی ہے جو آپ ﷺ کی امت کا طرۂ امتیاز ہے۔
(مصباح الدین شکیل سیرت احمد مجتبیٰ)
سدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حدِّ فاصل ہے، اس کے آگے عالمِ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ، یہیں پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نجم میں ہے، حضور اکرم ﷺ جنت میں داخل ہوئے ، حضرت جبرئیل سدرہ سے کچھ آگے رُ ک گئے اور عرض کیاکہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاک ہو جاؤں ، اب آپﷺ کا اور آپﷺ کے رب کا معاملہ ہے ، حضور ﷺ سجدے میں گر پڑے اس مقام پر سبز رنگ کا ایک تخت ظاہر ہوا جس کا نام رفرف ہے ، اس کے ساتھ ایک فرشتہ تھا، حضرت جبرئیل ؑ نے حضور ﷺ کو اس فرشتہ کے سپردکیا، آپﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے ، حضورﷺ نے عرض کیا : التحیات ُللہ و الصَّلوٰت و الطّیّبٰتُ( تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لئے ہیں) اللہ تعالیٰ کا جواب آیا: السلام علیک ایُّھا النبی و رَحمتہُ اللّٰہ وَ بَر کا تُہٗ(سلام ہو آپ پراے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں) آنحضرتﷺ نے دوبارہ عرض کیا ، السلام علینا وَ عَلیٰ عبادِ ا للّٰہ اللصٰلحینِ(سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر ) اس پر حضرت جبرئیل ؑ اور ملائکہ کی آواز سنائی دی، اَشْھَدُ اَن لا اِلٰہ الا اللہ وَ اَشْھَدُ اَنَّ محمداً عبدہٗ و رسولُہٗ،(میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں)۔
معراج میں اُمت کے لئے پچاس نمازیں فرض کی گئیں، واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ مجھے اپنی اُمت کا تجربہ ہے، اس کی پا بجائی آپﷺ کی امت سے بھی نہ ہو سکے گی، چنانچہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کی جو کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں ؛لیکن اس کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر رکھا گیا، سدرۃ المنتہیٰ سے آپﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے او ر وہ سبز رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے تھے۔
آپﷺ نے داروغہ جہنم کو دیکھا جو نہ ہنستا تھا اور نہ اس کے چہرہ پر خوشی کی علامت تھی ، آپﷺ نے جنت و جہنم بھی دیکھی ، آپﷺ نے ان لوگوں کو دیکھا جو یتیموں کا مال ظلم کرکے کھا جاتے تھے، ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے جو ان کی پاخانہ کی راہ سے نکل رہے تھے،آپ ﷺ نے سود خواروں کو دیکھا جن کے پیٹ اتنے بڑے تھے کہ وہ حرکت نہیں کر سکتے تھے،آپ ﷺ نے زنا کاروں کو بھی دیکھا جن کے سامنے تازہ گوشت اور سڑے ہوئے چھچڑے بھی تھے ، وہ تازہ گوشت چھوڑ کر سڑے ہوئے چھچڑے کھا رہے تھے،آپ ﷺ نے ان عورتوں کو بھی دیکھا جو زنا کے ذریعہ حاملہ ہوتی ہیں اور ان سے ہوئی اولاد کو اپنے شوہروں کی اولاد میں داخل کرلیتی ہیں، آپﷺ نے دیکھا کہ ایسی عورتوں کے سینہ میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھو کر انھیں زمین و آسمان کے درمیا ن لٹکایا گیا ہے،آپ ﷺ نے آتے جاتے ہوئے مکہ والوں کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انھیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا ، آپﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا، اس وقت قافلہ سو رہا تھا ، پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپﷺ کے دعوے کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔
(الرحیق المختوم - مولانا صفی الرحمن مبارکپوری)
علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ جب صبح میں حضور ﷺ نے حرم میں یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کی تکذیب کی اور کہا کہ مکہ سے بیت المقدس جانے کے لئے ایک مہینہ اور واپس آنے کے لئے ایک مہینہ کا عرصہ لگتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سفر راتوں رات طئے کر لیا جائے اور آپ ﷺ آسمان پر بھی جا کر آئیں ، جب حضرت ابو بکر ؓ نے یہ بات سنی تو کہا کہ اگر حضور ﷺ یہ بات فرمائی ہے تو بالکل سچ ہے اور میں اس واقعہ کی تصدیق کرتا ہوں ، جب آپ ﷺسے کفارقریش نے سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ بیت المقدس میرا دیکھا ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو آپﷺ کے سامنے رکھ دیا جسے دیکھ کر آپ تفصیل بیان کرنے لگے ، حضور ﷺ تفصیل بیان کرتے جاتے تھے اور حضرت ابوبکرؓ اس کی تصدیق کرتے جاتے تھے ، اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا ، کفار مکہ جنہوں نے اس واقعہ کی تکذیب کی تھی یہ سن کر سخت حیران ہوئے۔
آپ ﷺ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلہ سے ملنے کا ذکر بھی فرمایا اور بتلایا اس کی آمد کا وقت کیاہے ، آپ ﷺ نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلہ کے آگے آگے آرہا تھا، جیسا کچھ آپ ﷺ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا۔
معراج کی تاریخ
حضور ﷺ کو معراج ہوئی، یعنی آپﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے، معراج کی تاریخ میں کافی اختلاف ہے، اس کے بارے میں علماء کے کئی قول ہیں:
۱-جس سال حضور ﷺ کو نبوت دی گئی اسی سال معراج ہوئی- (طبری)
۲-ہجرت سے چھ ماہ قبل
۳-ہجرت سے آٹھ ماہ قبل
۴-ہجرت سے گیارہ ماہ قبل
۵-ہجرت سے ایک سال قبل
۶-ہجرت سے ایک سال دو مہینے پہلے
۷-ہجرت سے ایک سال ایک مہینہ پہلے
۸-ہجرت سے پندرہ مہینے قبل
۹-ہجرت سے دیڑھ سال قبل
۱۰-ہجرت سے تین سال قبل
۱۱-ہجرت سے پانچ سال قبل،
(فتح الباری: باب المعراج بحوالہ سیرت احمد مجتبی)
ان میں سے آٹھ اقوال میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے معراج ہوئی ، تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی فرضیت معراج کی شب ہوئی اور حضرت خدیجہ ؓ نماز پنجگانہ فرض ہونے سے پہلے وفات پا گئیں،یہ بھی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوئی تھی، اس طرح معراج حضرت خدیجہ ؓ کی وفات اور طائف کے سفر سے واپسی کے بعد کسی مہینہ میں ہوئی ، ابن حزم نے یہی لکھا ہے، علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد حضور ﷺپر نماز فرض کی گئی ، حضرت جبریل امین آئے اور وضو کرکے تمام ارکان و افعال کے ساتھ نماز پڑھ کر دکھائی، آپﷺ نے ان کی پیروی کی ، اس کے بعد حضور ﷺ معراج کی شب مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان اور سدرۃ المنتہیٰ کی جانب تشریف لے گئے۔
( سیرت النبی صلم - علامہ عبدالرحمن ابن خلدون)
لیکن عام خیال ہے کہ معراج ماہِ رجب کی ستائیسویں شب کو ہوئی.
لیکن اتنی بات پر بلا اختلاف سب کا اتفاق ہے کہ معراج نزول وحی کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے جو مکہ معظمہ میں پیش آیا۔
[زرقانی جلد 1 صفحہ 355 تا 358]
[البداية والنهاية-امام ابن كثير: ج3 / ص107]
جس پر قرآن مجید[سورة الإسرء:1،.سورة النجم:14-15] اور متواتر (یعنی اس زمانے کے گواہوں اور ہر زمانے میں مسلسل اس خبر کو پہنچانے والے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جن کا عادتاً جھوٹ پر متفق ہونا ناممکن ہے)احادیث مبارکہ سے بھی ثبوت ملتا ہے۔
[ مسلم، کتاب الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ ﷺ ۔۔ الخ : ۱٦۲ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’معراج کی رات جب میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو میں نے ملاحظہ کیا کہ وہ لمبے، کم گوشت اور سیاہ بالوں والے شخص تھے، جیسے کہ شنوء ہ (قبیلہ) کے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملا، وہ میانہ قامت تھے اور سرخ رنگ گویا وہ ابھی حمام سے نکلے ہیں ( یعنی تروتازہ اور خوش رنگ تھے)۔ پھر میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب۔ مجھ سے کہا گیا جس کو چاہو پسند کر لو۔ میں نے دودھ لے لیا اور اسے پی لیا۔ تو اس فرشتے نے کہا، آپ کو فطرت کی راہ دکھائی گئی، یا آپ فطرت کو پہنچ گئے، اگر آپ شراب کو اختیار کرتے تو آپ کی (ساری) امت گمراہ ہو جاتی۔‘‘
[ مسلم، کتاب الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ ﷺ ۔۔ الخ : ۱٦۸ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے خود کو پیغمبروں کی ایک جماعت میں پایا۔ دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، وہ چھریرے بدن کے اور گھنگریالے بالوں والے ایک شخص تھے، جیسے شنوءہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ میں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بھی دیکھا، وہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ ان کے مشابہے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھا، وہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور ان سے سب سے زیادہ مشابہے تمھارے صاحب (یعنی آپ خود) ہیں۔ پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کروائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک کہنے والے نے کہا، اے محمد! یہ مالک ہیں جہنم کے داروغہ! انھیں سلام کیجیے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو انھوں نے مجھے پہلے سلام کردیا۔‘‘
[ مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال : ۱۷۲ ]
سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے معراج کا واقعہ لوگوں سے ذکر کیا۔ جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا اور یوں میں نے اسے دیکھ دیکھ کر قریش کو اس کی نشانیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔‘‘
[ بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب حدیث الإسراء : ۳۸۸٦۔ مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم ۔۔ الخ : ۱۷۰ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’معراج کی رات جب میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو میں نے ملاحظہ کیا کہ وہ لمبے، کم گوشت اور سیاہ بالوں والے شخص تھے، جیسے کہ شنوء ہ (قبیلہ) کے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملا، وہ میانہ قامت تھے اور سرخ رنگ گویا وہ ابھی حمام سے نکلے ہیں ( یعنی تروتازہ اور خوش رنگ تھے)۔ پھر میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب۔ مجھ سے کہا گیا جس کو چاہو پسند کر لو۔ میں نے دودھ لے لیا اور اسے پی لیا۔ تو اس فرشتے نے کہا، آپ کو فطرت کی راہ دکھائی گئی، یا آپ فطرت کو پہنچ گئے، اگر آپ شراب کو اختیار کرتے تو آپ کی (ساری) امت گمراہ ہو جاتی۔‘‘
[ مسلم، کتاب الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ ﷺ ۔۔ الخ : ۱٦۸ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے خود کو پیغمبروں کی ایک جماعت میں پایا۔ دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، وہ چھریرے بدن کے اور گھنگریالے بالوں والے ایک شخص تھے، جیسے شنوءہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ میں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بھی دیکھا، وہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ ان کے مشابہے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھا، وہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور ان سے سب سے زیادہ مشابہے تمھارے صاحب (یعنی آپ خود) ہیں۔ پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کروائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک کہنے والے نے کہا، اے محمد! یہ مالک ہیں جہنم کے داروغہ! انھیں سلام کیجیے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو انھوں نے مجھے پہلے سلام کردیا۔‘‘
[ مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال : ۱۷۲ ]
سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے معراج کا واقعہ لوگوں سے ذکر کیا۔ جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا اور یوں میں نے اسے دیکھ دیکھ کر قریش کو اس کی نشانیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔‘‘
[ بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب حدیث الإسراء : ۳۸۸٦۔ مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم ۔۔ الخ : ۱۷۰ ]
************************
اخلاقی واصلاحی تعلیم
غیبت
غیبت کے متعلق ارشادِ ربانی ہے: وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ (سورۃ الحجرات:۱۲) اور تم میں سے ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، ارشادِ نبوی ہے:
"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا عُرِجَ بِیْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَھُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ یَخْمُشُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَصُدُوْرَھُمْ فَقُلْتُ مَنْ ھَؤُلَائِ یَا جِبْرِیْلُ قَالَ ھَؤُلَائِ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ وَیَقَعُوْنَ فِیْ أَعْرَاضِھِمْ"۔
[سنن ابوداؤد، باب فی الغیبۃ، حدیث نمبر:4878 عن انس بن مالکؓ]
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے معراج ہوئی تو (ملاء اعلیٰ کے اس سفر میں) میرا گذرکچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن سرخ تانبے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور اپنے سینوں کو نوچ نوچ کے زخمی کررہے تھے میں نے جبرئیل سے پوچھا: کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں، جبرئیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے
(یعنی اللہ کے بندوں کی غیبتیں کیا کرتے تھے اوران کی آبروؤں سے کھیلتے تھے)۔
تخريج الحديث
مسند احمد:13340، إسناده صحيح على شرط مسلم من جهة عبد الرحمن بن جبير، وأما متابعه راشد بن سعد، فمن رجال أصحاب السنن، وهو ثقة. أبو المغيرة: هو عبد القدوس بن الحجاج الخولاني، وصفوان: هو ابن عمرو السََّكسكي.
وأخرجه الضياء في "المختارة" (2285) من طريق عبد الله بن أحمد، عن أبيه، بهذا الإسناد.
وأخرجه أبو داود (4878) و (4879) ، وابن أبى الدنيا في "الصمت " (577) ، والطبراني في "الأوسط " (8) ، وفي "الشاميين " (932) ، والبيهقي في "الشعب " (6716) ، وفي "الآداب " (138) ، والبغوي في "التفسير " 4/216، والضياء (2286) من طريق أبي المغيرة عبد القدوس الخولاني، به.
وأخرجه أبو داود (4878) ، والبيهقي في "الشعب " (6716) ، وفي "الآداب " (138) من طريق بقية، عن صفوان، به. وأشار أبو داود بإثر الحديث (4878) إلى أن يحيى بن عثمان حدثه بهذا الحديث عن بقية مرسلاَ ليس فيه أنس.
وأخرجه الضياء في "المختارة" (2285) من طريق عبد الله بن أحمد، عن أبيه، بهذا الإسناد.
وأخرجه أبو داود (4878) و (4879) ، وابن أبى الدنيا في "الصمت " (577) ، والطبراني في "الأوسط " (8) ، وفي "الشاميين " (932) ، والبيهقي في "الشعب " (6716) ، وفي "الآداب " (138) ، والبغوي في "التفسير " 4/216، والضياء (2286) من طريق أبي المغيرة عبد القدوس الخولاني، به.
وأخرجه أبو داود (4878) ، والبيهقي في "الشعب " (6716) ، وفي "الآداب " (138) من طريق بقية، عن صفوان، به. وأشار أبو داود بإثر الحديث (4878) إلى أن يحيى بن عثمان حدثه بهذا الحديث عن بقية مرسلاَ ليس فيه أنس.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَيْرُ يَوْمٍ تَحْتَجِمُونَ فِيهِ سَبْعَ عَشْرَةَ، وَتِسْعَ عَشْرَةَ، وَإِحْدَى وَعِشْرِينَ " وَقَالَ: " وَمَا مَرَرْتُ بِمَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي، إِلَّا قَالُوا: عَلَيْكَ بِالْحِجَامَةِ يَا مُحَمَّدُ
ترجمہ:
وہ بہترین دن جس میں تم سینگی لگوا سکتے ہو، سترہ، انیس اور اکیس تاریخ ہے اور فرمایا کہ شب معراج میرا ملائکہ کے جس گروہ پر بھی ذکر ہوا ، اس نے مجھ سے یہی کہا کہ اے محمد ﷺ! سینگی لگوانے کو اپنے اوپر لازم کر لیجئے۔
[مسند احمد:3316 (سنن الترمذی:2053، سنن ابن ماجہ:3478)]
[مسند احمد:3316 (سنن الترمذی:2053، سنن ابن ماجہ:3478)]
[الراوي : عبدالله بن عباس المحدث : أحمد شاكر المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 5/109 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح - المحدث : الألباني المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 3332 خلاصة حكم المحدث : حسن]
[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الشَّعَرِ » بَابُ مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ التَّعَوُّذِ ... رقم الحديث: 1709
موطأ مالك برواية أبي مصعب الزهري » كتاب الجامع » باب ما يؤمر به من التعوذ ... رقم الحديث: 1099]
یحیی بن سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جس رات معراج ہوئی ایک عِفريت(دیو) نظر آیا گویا
اس کے ایک ہاتھ میں ایک شعلہ تھا آگ کا جب رسول اللہ ﷺ نگاہ کرتے تو اس کو دیکھتے آپ ﷺ کی طرف چلا آتا
تھا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا میں آپ ﷺ کو چند کلمات سکھا دوں کہ اگر آپ ﷺ ان کو فرمائیں تو
ان کا شعلہ بجھ جائے آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں سکھاؤ جبرائل نے کہا کہو اعوذ بوجہ اللہ یعنی
پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی منہ سے جو بڑا عزت والا ہے اور اس کے کلمات سے جو
پورے ہیں جن سے کوئی نیک یا بد آگے نہیں بڑھ سکتا برائی سے اس چیز کی جو آسمان سے
اترے اور جو اسمان کی طرف چڑھے اور برائی سے ان چیزوں کی جن کو پیدا کیا ہے اس نے
زمین میں اور جو نکلے زمین سے اور رات دن کے فتنوں سے اور شب و روز کی آفتوں سے
اور حادثوں سے مگر جو حادثہ بہتر ہے یا رحمن۔
تخريج الحديث وشواھدہ
الجامع - معمر بن راشد:19831، مصنف ابن أبي شيبة:23599، 29620
مسند احمد:7969، أخرجه البيهقي 2/219 من طريق عبد الله بن أحمد بن حنبل، عن أبية، هذا الإسناد.
وأخرجه إسحاق بن راهويه (89) ، والبخاري (461) و (3423) و (4808) ، مسلم (541) ، والنسائي في "الكبرى" (11440) ، والبغوي في "شرح السنة" 746) ، وفي "التفسير" 4/64 من طريق محمد بن جعفر، به.
وأخرجه إسحاق (88) و (89) ، والبخاري (461) و (1210) و (3284) (4808) ، ومسلم (541) ، وابن حبان (6419) من طرق عن شعبة، به.
وأخرجه النسائي في "الكبرى" (551) ، وابن حبان (2349) من طريق أبي سلمة، والنسائي (550) من طريق سعيد بن المسيب، كلاهما عن أبي هريرة.
وفي الباب عن ابن مسعود، سلف برقم (3926) . وانظر بقية شواهده هناك.
حديث خالد بن الوليد: أخرجه الطبرانى (4/114، رقم 3838) . قال الهيثمى (10/126) : فيه المسيب بن واضح وقد وثقه غير واحد وضعفه جماعة وكذلك الحسن بن على المعمرى وبقية رجاله رجال الصحيح.
حديث أبى رافع: أخرجه عبد الرزاق (11/35، رقم 19831) والبيهقى فى شعب الإيمان (4/175، رقم 4710) .
أخرجه أحمد (2/298، رقم 7956) ، والبخارى (3/1260، رقم 3241) ، ومسلم (1/384، رقم 541) ، والنسائى فى الكبرى (6/443، رقم 11440) . وأخرجه أيضًا: البيهقى (2/219، رقم 3001) .
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : فُرِضَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ ، ثُمَّ نُقِصَتْ حَتَّى جُعِلَتْ خَمْسًا ، ثُمَّ نُودِيَ : " يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَإِنَّ لَكَ بِهَذِهِ الْخَمْسِ خَمْسِينَ " . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , وَأَبِي ذَرٍّ , وَأَبِي قَتَادَةَ , وَمَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ . قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ أَنَسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب كَمْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ ... رقم الحديث: 213]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب معراج میں نبی ﷺ پر پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں ، کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں اور پھر نداء لگائی گئی کہ اے محمد ﷺ ! ہمارے یہاں بات بدلتی نہیں ، آپ کا ان پانچ پر پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔
تخريج الحديث
وأخرجه بأطول مما هنا ضمن حديث المعراج الطويل الذي رواه أبو ذر الغفاري: البخاري (349) و (3342) ، ومسلم (163) ، والنسائي في "الكبرى" (314) ، وأبو عوانة 1/133-135، وابن حبان (7406) ، والآجري في "الشريعة" ص481-482، وابن منده في "الإيمان" (714) ، والبغوي (3754) من طرق عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن أنس بن مالك.
وسيأتي من هذا الطريق في مسند أبي بن كعب 5/143-144.
وسلف ضمن الحديث المطول برقم (12505) من طريق ثابت عن أنس.
جنت کی شجرکاریاں:
حدیث:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ وَأَنَّهَا قِيعَانٌ وَأَنَّ غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔
زادالطبرانی ولاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
(ترمذی، كِتَاب الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ وَالتَّحْمِيدِ ،حدیث نمبر:3462 ، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زیارت کی آپ نے فرمایا: اے محمد! آپ میری طرف سے اپنی امت کوسلام کہنا اور ان کواطلاع فرمانا کہ جنت کی زمین بہت پاکیزہ ہے عمدہ پانی والی ہے اور ہموار میدان ہے اور اس کی شجرکاری (سُبْحَانَ اللَّهِ) اور (وَالْحَمْدُ لِلَّهِ) اور (وَلَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَر) کہنا ہے۔
امام طبرانیؒ نے (لاحول ولاقوۃ الاباللہ) کا ذکر بھی کیا ہے۔
تخريج الحديث
مسند احمد:23552، وقد حسَّن هذا الإسناد المنذري في "الترغيب والترهيب" 2/445.
وأخرجه الشاشي في "مسنده" (1114) ، وابن حبان (821) ، والطبراني في "الكبير" (3898) ، وفي "الدعاء" (1657) ، والبيهقي في "شعب الإيمان" (657) ، وابن حجر في "نتائج الأفكار" 1/100 من طريق أبي عبد الرحمن المقرئ، بهذا الإسناد. وقال الحافظ ابن حجر: هذا حديث حسن.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (3898) ، والبيهقي (658) من طريق عبد الله ابن وهب، عن أبي صخر، به. وسقط سالم بن عبد الله من مطبوع الطبراني.
وله شاهد من حديث ابن عمر عند الطبراني في "الكبير" (13354) ، وفي "الدعاء" (1658) ، ولفظه: "أكثروا من غرس الجنة، فإنه عذب ماؤها، طيب ترابها، فأكثروا من غراسها: لا حول ولا قوة إلا بالله". وإسناده ضعيف لضعف اثنين من رواته.
وروي حديث أبي أيوب بغير هذا اللفظ، فقد أخرجه ابن أبي شيبة 13/516، وعبد بن حميد (231) ، والطبراني في "الكبير" (3900) من طريق المطَّلب بن عبد الله بن حنطب، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص قال: لقيت أبا أيوب فقال لي: ألا آمرك بما أمرني به رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أكثر من قول: لا حول ولا قوة الا بالله، فإنها من كنوز الجنة". وإسناده حسن، وحسَّنه ابن حجر في "المطالب العالية" 3/261.
وأخرجه كذلك الطبراني في "الكبير" (3899) ، وفي "الأوسط" (1964) من طريق خارجة بن عبد الله بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، عن أبي أيوب، وإسناده ضعيف.
ويشهد له بهذا اللفظ غير ما حديث، انظر ما سلف في مسند أبي هريرة برقم (7966) ، وهو بهذا اللفظ صحيح.
وفي باب غراس الجنة حديث ابن مسعود قال: قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَقِيتُ إبراهيم ليلةَ أُسرِي بي فقال: يا محمد، أَقرىء أمَّتك مني السلام، وأَخبرهم أن الجنة طيبة التربة، عذبة الماء، وأنها قِيعان، وأن غِراسها: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر". أخرجه الترمذي (3462) وحسَّنه، مع أن فيه عبد الرحمن بن إسحاق أبا شيبة الواسطي، وهو ضعيف.
وفيه أيضاً دون قصة لُقيِّ إبراهيم عن ابن عباس عند الطبراني في "الأوسط" (8470) ، وفي "الدعاء" (1676) . وإسناده ضعيف.
وبنحوه من حديث جابر عند الترمذي (3464) ، وصححه ابن حبان (826) ، بلفظ: "من قال: سبحان الله وبحمده، غُرِست له به نخلة في الجنة". ورجاله ثقات.
وعن معاذ بن أنس الجهني، سلف برقم (15645) ، وسنده ضعيف، وانظر تتمة شواهده هناك.
حدیث:حضرت انسؓ نے فرمایا کہ جناب رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا: الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ۔
(سنن ابن ماجہ، كِتَاب الْأَحْكَامِ،بَاب الْقَرْضِ،حدیث نمبر:۲۴۲۲، شاملہ،موقع الإسلام)
(تذکرۃ القرطبی:۲/۴۵۹۔ ابن ماجہ، بیہقی، المتجرالرابح۔ اتحاف السادۃ:۵/۵۰۱)
ترجمہ:جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے جنت کے دروازہ پر یہ لکھا ہوا دیکھا، صدقہ کا ثواب دس گنا ہے اور قرضہ دینے کا اٹھارہ گنا، میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا: قرضہ دینا صدقہ کرنے سے افضل کیوں ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیونکہ سائل جب مانگا ہے تو عام طور پر اس کے پاس کچھ موجود ہوتا ہے، جب کہ قرضہ مانگنے والا قرضہ ضرورت ہی کے وقت طلب کرتا ہے۔
تخريج الحديث
مسند أبي داود الطيالسي:1237 ، سنن ابن ماجه:2431 ، المعجم الأوسط للطبراني:6719 ، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:8/332، شعب الإيمان للبيهقي:3288 ، جزء فيه ثلاثة وثلاثون حديثا من حديث أبي القاسم البغوي:30
[تفسير القرطبي =سورة البقرة (2): آية 245]
اللہ کےلئے خرچ کرنے والوں کا اجر:
إِنَّ المُصَّدِّقينَ وَالمُصَّدِّقٰتِ وَأَقرَضُوا اللَّهَ قَرضًا حَسَنًا يُضٰعَفُ لَهُم وَلَهُم أَجرٌ كَريمٌ {57:18} |
تحقیق جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد اور عورتیں اور قرض دیتے ہیں اللہ کو اچھی طرح اُنکو ملتا ہے دونا اور اُنکو ثواب ہے عزت کا [۳۰] |
Surely those men who give Sadaqah (alms) and those women who give Sadaqah and have advanced a good loan to Allah, for them it will be multiplied, and for them there is a noble reward. |
یعنی جو اللہ کے راستہ میں خالص نیّت سے اس کی خوشنودی کی خاطر خرچ کریں اور غیراللہ سے کسی بدلہ یا شکریہ کے طلبگار نہ ہوں گویا وہ اللہ کو قرض دیتے ہیں۔ سو اطمینان رکھیں کہ ان کا دیا ہوا ضائع نہ ہوگا۔ بلکہ کئ گنا کرکے لوٹا یا جائے گا۔ |
حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ كُوفِيٌّ , حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَمُرُّ بِالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الْقَوْمُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الرَّهْطُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَلَيْسَ مَعَهُمْ أَحَدٌ حَتَّى مَرَّ بِسَوَادٍ عَظِيمٍ ، فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا ؟ قِيلَ : مُوسَى وَقَوْمُهُ ، وَلَكَنِ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَانْظُرْ ، قَالَ : فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ مِنْ ذَا الْجَانِبِ وَمِنْ ذَا الْجَانِبِ ، فَقِيلَ : هَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَسِوَى هَؤُلَاءِ مِنْ أُمَّتِكَ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَدَخَلَ ، وَلَمْ يَسْأَلُوهُ وَلَمْ يُفَسِّرْ لَهُمْ ، فَقَالُوا : نَحْنُ هُمْ ، وَقَالَ قَائِلُونَ : هُمْ أَبْنَاؤُنَا الَّذِينَ وُلِدُوا عَلَى الْفِطْرَةِ وَالْإِسْلَامِ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ : أَنَا مِنْهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ : أَنَا مِنْهُمْ ؟ فَقَالَ : سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وفي الباب عن ابْنِ مَسْعُودٍ ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ .
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2383]
ابوحصین عبداللہ بن احمد بن یونس، عبشربن قاسم، حصین، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس
رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ معراج تشریف لے گئے تو آپ
کا ایسے نبی یا نبیوں پر گزر ہوا کہ ان کے ساتھ ایک قوم تھی پھر کسی نبی یا نبیوں
پر سے گزرے تو ان کے ساتھ ایک جماعت تھی پھر ایسے نبی یا انبیاء پر سے گزر ہوا کہ
ان کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا یہاں تک کہ ایک بڑے مجمع کے پاس سے گزرے تو
پوچھا یہ کون ہیں کہا گیا کہ موسیٰ اور ان کی قوم آپ ﷺ سر کو بلند کیجئے
اور دیکھئے آپ ﷺ نے فرمایا اچانک میں نے دیکھا کہ وہ ایک جم غفیر ہے جس نے آسمان
کے دونوں جانب کو گھیر ہوا ہے پھر کہا گیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے علاوہ ستر
ہزار آدمی اور ہیں جو بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے اس کے بعد نبی ﷺ گھر چلے گئے نہ
لوگوں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور نہ ہی آپ نے بتایا چنانچہ بعض حضرات کہنے
لگے کہ شاید وہ ہم لوگ ہوں جبکہ بعض کا خیال تھا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہونے
والے بچے ہیں اتنے میں رسول اللہ ﷺ دوبارہ تشریف لائے اور فرمایا وہ لوگ ہیں جو نہ داغتے ہیں نہ
جھاڑ پھونک کرتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے
ہیں اس پر عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور عرض کیا میں ان میں سے ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں پھر
ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور پوچھا میں بھی انہی میں سے ہوں آپ نے فرمایا عکاشہ تم
پر سبقت لے گئے اس باب میں حضرت ابن مسعود اور ابوہریرہ ؓ بھی احادیث منقول ہیں یہ
حدیث حسن صحیح ہے.
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 344 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 7]
حضورﷺ نے معراج میں جنت کو دیکھا ہے:
حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
بَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللؤلؤ الْمُجَوَّفِ فَقُلْتُ مَاهَذَا؟ قَالَ: الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ۔
(صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۸۹۔ترمذی:۳۳۶۰)
(بخاری، كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ،بَاب ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَجَدُّ أَبِي نُوحٍ وَيُقَالُ جَدُّ نُوحٍ،حدیث نمبر:۳۰۹۴، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: میں جنت میں چل رہا تھا کہ اچانک ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کنارے خولدار موتی کے قبے تھے میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (حضرت جبریل نے) فرمایا: یہ وہ کوثر (نہر) ہے، جو آپ کو آپ کے پروردگار نے عطاء فرمائی ہے۔
فائدہ:اس مسئلہ میں کم وبیش سینکڑوں دلائل احادیث شریف میں وارد ہیں ہم نے بطورِ خلاصہ صرف ایک آیت اور ایک حدیث کے ذکرپراکتفاء کیا ہے، اہلِ طلب نہایہ ابن کثیر جلددوم، البعث والنشور، امام بیہقی اور حاوی الارواح ابن قیم کی طرف رجوع فرمائیں؛ نیزوجود جنت پرمتفرق دلائل کتاب ہذا میں بہت جگہ ذکر کئے گئے ہیں ان کوبھی دیکھا جاسکتا ہے۔
تخريج الحديث
حدیث:معراج کی طویل حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا
فِيهَاجَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَاتُرَابُهَا الْمِسْكُ۔
(بخاری، كِتَاب أَحَادِيثِ
الْأَنْبِيَاءِ،بَاب ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَجَدُّ أَبِي نُوحٍ
وَيُقَالُ جَدُّ نُوحٍ،حدیث نمبر:۳۰۹۴، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:
میں جنت میں داخل ہوا تو اس میں چمکدار
موتیوں کے گنبد تھے اور اس کی زمین کستوری کی تھی۔
[مسند أحمد: 21288، حديث أبي ذر، فأَخرجه
البخاري تعليقاً (1636) و (3342) ، ومسلم (163) ، والنسائي في "الكبرى"
(314) ، وأبو عوانة (354) ، وابن حبان (7406) ، وابن منده في "الإيمان"
(714) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" 2/379-382 من طريق عبد الله بن وهب،
والبخاري (349) ، والبزار في "مسنده" (3892) ، وأبو يعلى (3616) ،
والآجري في "الشريعة" ص481-482، وابن منده بإثر الحديث (714) ، والبغوي
(3754) من طريق الليث بن سعد، والبخاري (3342) من طريق عنبسة بن خالد الأيلي،
ثلاثتهم عن يونس ابن يزيد الأيلي، عن الزهري، عن أنس، عن أبي ذر. وبعضهم يختصره.
حديث
أبى بن كعب: أخرجه عبد الله بن أحمد فى زوائده (5/143، رقم 21326) قال الهيثمى
(1/66) : رجاله رجال الصحيح. وأبو يعلى (6/295، رقم 3614) ، والضياء (3/332، رقم
1127، ورقم 1128) وقال: إسناده صحيح.]
سدرۃ المنتہیٰ پھل، پتے اور نہریں:
حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَمَّا رُفِعْتُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى
فِى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ نَبْقُهَا مِثْلُ قِلاَلِ هَجَرَ وَوَرَقُهَا مِثْلُ
آذَانِ الْفِيَلَةِ يَخْرُجُ مِنْ سَاقِهَا نَهْرَانِ ظَاهِرَانِ وَنَهْرَانِ
بَاطِنَانِ قُلْتُ يَاجِبْرِيلُ مَاهَذَا قَالَ أَمَّاالْبَاطِنَانِ فَفِى
الْجَنَّةِ وَأَمَّاالظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ۔
(دارِقطنی، الطهارة،حدیث نمبر:۳۶، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف
المصرية)
ترجمہ:جب مجھے (معراج کی شب) ساتویں
آسمان میں سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا تواس کے بیرہجرکے مٹکوں کی طرح (بڑے
اور موٹے) تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے، اس کے تنہ سے دوظاہری
نہریں نکلتی ہیں اور دوباطنی، میں نے پوچھا اے جبریل یہ (باطنی اور ظاہری نہریں)
کیا ہیں؟ فرمایا: باطنی توجنت میں ہیں اور ظاہری (نہریں دنیا میں) دریائے نیل اور
دریائے فرات ہیں۔
[ رواه مسلم في صحيحه، كتاب
الإيمان، باب الإسراء (1/150) ، ورقم الحديث: 164. صحيح الجامع الصغير: (3/18) ،
ورقمة: 2861، وعزاه إلى البخاري 3207 (3887) ومسلم (164) وأحمد(12673)
والترمذي. والنسائى فى الكبرى (1/138، رقم 313) مسند أبي يعلى:3185، صحيح ابن خزيمة:301، مستخرج أبي عوانة:338،8134،
صحيح ابن حبان:7415،48، المعجم الصغير للطبراني:113، المعجم الكبير للطبراني:599، سنن الدارقطني:33، المستدرك على الصحيحين للحاكم:271-272،420، صفة الجنة لأبي نعيم
الأصبهاني:302، البعث والنشور للبيهقي:181،
شرح السنة للبغوی:3752 ، صفة الجنة للضیاء المقدسی:68]
جنت کے دروازہ کی ایک عبارت
قرضہ دینے والے کا ثواب صدقہ دینے والے سے
زیادہ ہے:
حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ آقائے دوعالم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي على بَابِ
الجَنَّةِ مَكْتُوبٌ: الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالقَرْضُ
بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، فَقُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَابَالُ القَرْضِ أَکْثَرُ مِنَ
الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لاِنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالمُسْتَقْرِضُ
لاَيَسْتَقْرِضُ إِلاَّمِنْ حَاجَةٍ۔
(تذکرۃ القرطبی:۲/۴۵۹۔ ابن ماجہ:2431 ، بیہقی:، المتجرالرابح۔ اتحاف السادۃ:۵/۵۰۱)
ترجمہ:جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے جنت کے دروازہ
پریہ لکھا ہوا دیکھا صدقہ کا ثواب دس گنا ہے اور قرض کا اٹھارہ گنا میں نے جبرئیل
سے پوچھا: قرض میں ایسی کونسی بات ہے کہ وہ ثواب کے اعتبار سے صدقہ کرنے سے بڑھا
ہوا ہے؟ فرمایا کیونکہ مانگنے والا مانگتا ہے جب کہ اس کے پاس کچھ موجود ہوتا ہے،
جب کہ قرض خواہ، قرضہ نہیں مانگتا مگر ضرورت کے وقت۔
[إسناده ضعيف لضعف خالد بن يزيد بن أبي مالك. عبيد الله بن عبد
الكريم: هو أبو زرعة الرازي الحافظ.
وأخرجه ابن حبان في
"المجروحين" 1/ 284، والطبراني في "الأوسط" (6719)، وفي
"مسند الشاميين" (4/ 1614)، وابن عدي في "الكامل" 3/ 883،
وأبو نعيم في "الحلية" 332/ 8 - 333، والبيهقي في "الشعب"
(3566)، وابن الجوزي في "العلل المتناهية" (990) من طريق هشام بن خالد،
بهذا الإسناد.
وله شاهد ضعيف من حديث أبي أمامة عند
الطيالسي (1141)، والطبراني (7976)، والبيهقي في "الشعب" (3564) و
(3565)، وابن الجوزي في "العلل المتناهية" (989).]
حور کی دعوتِ نکاح:
حدیث: سرکارِ دوعالم سیدنا ونبینا محمدرسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم سے روایت منقول ہے کہ جب آپ کو معراج کرائی گئی تو آپ نے حور کی صفت
بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ولقد رأيت جبينها كالهلال في طول البدر منها
ألف وثلاثون ذراعا في رأسها مائة ضفيرة مابين الضفيرة والضفيرة سبعون ألف ذؤابة
والذؤابة أضوأ من البدر مكلل بالدر وصفوف الجواهر على جبينها سطران مكتوبان بالدر
الجوهر في السطر الأول: بسم الله الرحمن الرحيم وفي السطر الثاني: من أراد مثلي
فليعمل بطاعة ربي فقال لي جبريل يامحمد: هذه وأمثالها لأمتك فأبشر يامحمد وبشر
أمتك وأمرهم بالاجتهاد۔
ترجمہ:میں نے اس کی پیشانی کوچودھویں کے
طویل چاند کی طرح دیکھا ہے جس کی لمبائی ایک ہزار تیس ہاتھ کے برابر تھی، اس کے
سرمیں سومینڈھیاں تھیں، ہرمینڈھی سے دوسری تک سترہزار چوٹیاں تھیں اور ہرچوٹی
چودہویں کے چاند سے زیادہ روشن تھی، موتی کا تاج سجا تھا اور جواہر کی لڑیاں اس
پیشانی پرپڑتی تھیں، جوہر کے ساتھ دوسطریں لکھی تھیں، پہلی سطر میںبِسْمِ اللَّهِ
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھی تھی اور دوسری میں یہ لکھا تھا کہ
جوشخص میرے جیسی حور کا طلب گار ہے اس کوچاہئے کہ وہ میرے پروردگار کی اطاعت کرے
پھرحضرت جبریل نے مجھ سے کہا: اے محمد! یہ اور اس طرح کی (حوریں) آپ کی امت کے لیے
ہیں، آپ بھی خوش ہوں اور اپنی امت کوبھی اس کی خوشخبری سنادیں اور ان کونیک اعمال
میں محنت اور کوشش کا حکم دیدیں۔
[التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة، للقرطبی: 986، التوضيح
لشرح الجامع الصحيح، لابن الملقن:19/141، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، للعينى:14/95]
یہ حوریں کیسے کیسے خیموں میں رہتی ہیں:
حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لماأسري بی دخلت الجنة موضعا يسمى البيدخ
عليه خيام اللؤلؤ، والزبرجد الأخضر، والياقوت الأحمر، فقلن: السلام عليك يارسول
الله، قلت: ياجبريل ماهذا النداء؟ قال: هؤلاء المقصورات في الخيام يستأذنون ربهن
في السلام عليك، فأذن لهن فطفقن يقلن: نحن الراضيات فلانسخط أبدا، نحن الخالدات
فلانظعن أبدا، وقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم الآية حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي
الْخِيَامِ۔
(البعث والنشور:۳۷۶۔ درمنثور:۶/۱۶۱)
ترجمہ:جب مجھے معراج کرائی گئی تومیں
جنت میں ایک جگہ پرداخل ہوا جس کا نام (نہر بیدخ) تھا اس پر لؤلؤ، زبرجد، اخضر اور
یاقوت، احمر کے خیمے نصب تھے ان (میں رہنے والی حوروں) نے کہا: السلام علیکم
یارسول اللہ (اے اللہ کے رسول! آپ پرسلام ہو) میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کن کی
آواز تھی؟ انہوں نے فرمایا: یہ وہ حوریں ہیں جوخیموں میں رکی ہوئی ہیں انہوں نے
اپنے رب تعالیٰ سے آپ کوسلام کہنے کی اجازت طلب کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو (اس
کی) اجازت عطاء فرمائی ہے؛ پھروہ حوریں جلدی سے بول پڑیں: ہم راضی رہنے والی ہیں
(اپنے خاوندوں پر) کبھی ناراض نہ ہونگی، ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی (جنت سے)
نکالی نہ جائیں گے؛ پھر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي
الْخِيَامِ (الرحمن:۷۲) حوریں ہیں خیموں میں رکی
رہنے والیاں۔
[البعث والنشور
للبيهقي:340، صفة الجنة لابن ابی الدنیا:252، تخريج أحاديث إحياء علوم الدين:4216، قرطبي:17/187، الدر
المنثور:7/718]
جنت کی شجرکاریاں:
حدیث:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي
فَقَالَ يَامُحَمَّدُ أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ
الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ وَأَنَّهَا قِيعَانٌ وَأَنَّ
غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ
وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔
زادالطبرانی ولاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
(ترمذی، كِتَاب الدَّعَوَاتِ عَنْ
رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي فَضْلِ
التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ وَالتَّحْمِيدِ ،حدیث نمبر:۳۳۸۴، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:
جس
رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زیارت کی آپ نے
فرمایا: اے محمد! آپ میری طرف سے اپنی امت کوسلام کہنا اور ان کواطلاع فرمانا کہ
جنت کی زمین بہت پاکیزہ ہے عمدہ پانی والی ہے اور ہموار میدان ہے اور اس کی
شجرکاری (سُبْحَانَ اللَّهِ) اور (وَالْحَمْدُ
لِلَّهِ) اور (وَلَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَر) کہنا ہے۔
[ترمذی:3462،بزار:1992،صَحِيح الْجَامِع: 5152 , الصَّحِيحَة: 105، صَحِيح التَّرْغِيبِ
وَالتَّرْهِيب: 1550]
امام طبرانی رحمہ اللہ نے (لاحول ولاقوۃ
الاباللہ) کا ذکر بھی کیا ہے۔
[احمد:23552،
إسناده ضعيف، عبد الله بن عبد الرحمن مجهول الحال معروف النسب، فجدُّه
هو الصحابي الجليل عبد الله بن عمر بن الخطاب، تفرَّد بالرواية عنه أبو صخر -وهو
حميد بن زياد- ولم يوثقه سوى ابن حبان، وأبو صخر صدوق، وباقي رجال الإسناد ثقات
رجال الشيخين. أبو عبد الرحمن: هو عبد الله بن يزيد المقرئ، وحيوة: هو ابن شريح
المصري.
وقد حسَّن هذا الإسناد
المنذري في "الترغيب والترهيب" 2/445.
وأخرجه الشاشي في
"مسنده" (1114) ، وابن حبان (821) ، والطبراني في "الكبير"
(3898) ، وفي "الدعاء" (1657) ، والبيهقي في "شعب الإيمان"
(657) ، وابن حجر في "نتائج الأفكار" 1/100 من طريق أبي عبد الرحمن
المقرئ، بهذا الإسناد. وقال الحافظ ابن حجر: هذا حديث حسن.
وأخرجه الطبراني في
"الكبير" (3898) ، والبيهقي (658) من طريق عبد الله ابن وهب، عن أبي
صخر، به. وسقط سالم بن عبد الله من مطبوع الطبراني.
وله شاهد من حديث ابن عمر
عند الطبراني في "الكبير" (13354) ، وفي "الدعاء" (1658) ،
ولفظه: "أكثروا من غرس الجنة، فإنه عذب ماؤها، طيب ترابها، فأكثروا من
غراسها: لا حول ولا قوة إلا بالله". وإسناده ضعيف لضعف اثنين من رواته.
وروي حديث أبي أيوب بغير هذا
اللفظ، فقد أخرجه ابن أبي شيبة 13/516، وعبد بن حميد (231) ، والطبراني في
"الكبير" (3900) من طريق المطَّلب بن عبد الله بن حنطب، عن عامر بن سعد
بن أبي وقاص قال: لقيت أبا أيوب فقال لي: ألا آمرك بما أمرني به رسول الله صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أكثر من قول: لا حول ولا قوة الا بالله، فإنها من
كنوز الجنة". وإسناده حسن، وحسَّنه ابن حجر في "المطالب العالية"
3/261.
وأخرجه كذلك الطبراني في
"الكبير" (3899) ، وفي "الأوسط" (1964) من طريق خارجة بن عبد
الله بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، عن أبي أيوب، وإسناده ضعيف.
ويشهد له بهذا اللفظ غير ما حديث، انظر ما سلف في مسند أبي هريرة
برقم (7966) ، وهو بهذا اللفظ صحيح.
وفي باب غراس الجنة حديث
ابن مسعود قال: قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَقِيتُ
إبراهيم ليلةَ أُسرِي بي فقال: يا محمد، أَقرىء أمَّتك مني السلام، وأَخبرهم أن
الجنة طيبة التربة، عذبة الماء، وأنها قِيعان، وأن غِراسها: سبحان الله، والحمد
لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر". أخرجه الترمذي (3462) وحسَّنه، مع أن
فيه عبد الرحمن بن إسحاق أبا شيبة الواسطي، وهو ضعيف.
وفيه أيضاً دون قصة لُقيِّ
إبراهيم عن ابن عباس عند الطبراني في "الأوسط" (8470) ، وفي
"الدعاء" (1676) . وإسناده ضعيف.
وبنحوه من حديث جابر عند
الترمذي (3464) ، وصححه ابن حبان (826) ، بلفظ: "من قال: سبحان الله وبحمده،
غُرِست له به نخلة في الجنة". ورجاله ثقات.
وعن معاذ بن أنس الجهني، سلف برقم (15645) ، وسنده ضعيف، وانظر تتمة
شواهده هناك.]
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " انْتَهَيْتُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَنَظَرْتُ ، فَإِذَا أَنَا فَوْقِي بِرَعْدٍ وَصَوَاعِقَ ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُيُوتِ ، فِيهَا الْحَيَّاتُ ، تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ ، فَقُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا ، فَلَمَّا نَزَلْتُ وَانْتَهَيْتُ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا ، فَإِذَا أَنَا بِرَهْجٍ وَدُخَانٍ وَأَصْوَاتٍ ، فَقُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ : الشَّيَاطِينُ يَحْرِفُونَ عَلَى أَعْيُنِ بَنِي آدَمَ أَنْ لَا يَتَفَكَّرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَلَوْلَا ذَلِكَ لَرَأَتْ الْعَجَائِبَ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 8557]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں ۔ پھر جب میں آسمان دنیا پر واپس آیا تو میری نگاہیں نیچے پڑ گئیں وہاں چیخ و پکار، دھواں اور آوازیں سنائی دیں میں نے پوچھا جبرائیل یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ شیاطین ہیں جو بنی آدم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں تاکہ وہ آسمان اور زمین کی شہنشاہی میں غور فکر نہ کرسکیں اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کو بڑے عجائبات نظر آتے۔
[مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 1581 حدیث مرفوع مکررات 19 متفق علیہ 0]
تخريج الحديث
|
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ ، قُلْتُ : مَا هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ خُطَبَاءُ أُمَّتِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ، كَانُوا يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ، أَفَلَا يَعْقِلُونَ ؟ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ... رقم الحديث: 12614]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا شبِ معراج میں ایسے لوگوں کے پاس سے
گذرا جن کے منہ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟
بتایا گیا کہ یہ دنیا کے خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ
کو بھول جاتے تھے اور کتاب کی تلاوت کرتے تھے، کیا یہ سمجھتے نہ تھے۔
تخريج الحديث
|
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ ، ثنا أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، أَوْ غَيْرِهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِفَرَسٍ يَجْعَلُ كُلَّ خَطْوٍ مِنْهُ أَقْصَى بَصَرِهِ ، فَسَارَ وَسَارَ مَعَهُ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَى عَلَى قَوْمٍ يَزْرَعُونَ فِي يَوْمٍ وَيَحْصُدُونَ فِي يَوْمٍ ، كُلَّمَا حَصَدُوا عَادَ كَمَا كَانَ ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ : مَنْ هَؤُلاءِ ؟ قَالَ : الْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْحَسَنَةُ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ ، وَمَا أَنْفَقُوا مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يَخْلُفُهُ ، ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ تُرْضَخُ رُءُوسُهُمْ بِالصَّخْرِ ، فَلَمَّا رُضِخَتْ عَادَتْ كَمَا كَانَتْ ، وَلا يَفْتُرُ عَنْهُمْ مَنْ ذَلِكَ شَيْءٌ ، قَالَ : يَا جِبْرِيلُ مَنْ هَؤُلاءِ ؟ قَالَ : هَؤُلاءِ تَثَاقَلَتْ رُءُوسُهُمْ عَنِ الصَّلاةِ ، ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ عَلَى أَدْبَارِهِمْ رِقَاعٌ ، وَعَلَى أَقْبَالِهِمْ رِقَاعٌ ، يَسْرَحُونَ كَمَا تَسْرَحُ الأَنْعَامُ إِلَى الضَّرِيعِ ، وَالزَّقُّومِ ، وَرِضْفِ جَهَنَّمَ ، قُلْتُ : مَا هَؤُلاءِ يَا جِبْرِيلُ ؟ قَالَ : هَؤُلاءِ الَّذِينَ لا يُؤَدُّونَ صَدَقَاتِ أَمْوَالِهِمْ ، وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ ، وَمَا اللَّهُ بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ ، ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ لَحْمٌ فِي قِدْرٍ نَضِيجٍ وَلَحْمٌ آخَرُ نِيءٌ خَبِيثٌ ، فَجَعَلُوا يَأْكُلُونَ الْخَبِيثَ وَيَدَعُونَ النَّضِيجَ الطَّيَّبَ ، قَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَنْ هَؤُلاءِ ؟ قَالَ : هَذَا الرَّجُلُ مِنْ أُمَّتِكَ يَقُومُ مِنْ عِنْدِ امْرَأَتِهِ حَلالا ، فَيَأْتِي الْمَرْأَةَ الْخَبِيثَةَ ، فَيَبِيتُ مَعَهَا حَتَّى يُصْبِحَ ، وَالْمَرْأَةُ تَقُومُ مِنْ عِنْدِ زَوْجِهَا حَلالا طَيِّبًا ، فَتَأْتِي الرَّجُلَ الْخَبِيثَ ، فَتَبِيتُ عِنْدَهُ حَتَّى تُصْبِحَ ، ثُمَّ أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ جَمَعَ حِزْمَةً عَظِيمَةً لا يَسْتَطِيعُ حَمْلَهَا ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَزِيدَ عَلَيْهَا ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَا هَذَا ؟ قَالَ : هَذَا رَجُلٌ مِنْ أُمَّتِكَ عَلَيْهِ أَمَانَةُ النَّاسِ لا يَسْتَطِيعُ أَدَاءَهَا ، وَهُوَ يَزِيدُ عَلَيْهَا ، ثُمَّ أَتَى عَلَى قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ وَأَلْسِنَتُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ حَدِيدٍ ، فَكُلَّمَا قُرِضَتْ عَادَتْ كَمَا كَانَتْ ، لا يَفْتُرُ عَنْهُمْ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ ، قَالَ : يَا جِبْرِيلُ مَا هَؤُلاءِ ؟ قَالَ : خُطَبَاءُ الْفِتْنَةِ ، ثُمَّ أَتَى عَلَى حَجَرٍ صَغِيرٍ يَخْرُجُ مِنْهُ ثَوْرٌ عَظِيمٌ ، فَيُرِيدُ الثَّوْرُ أَنْ يَدْخُلَ مِنْ حَيْثُ خَرَجَ فَلا يَسْتَطِيعُ ، فَقَالَ : مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟ قَالَ : هَذَا الرَّجُلُ يَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ الْعَظِيمَةِ فَيَنْدَمُ عَلَيْهَا ، فَيُرِيدُ أَنْ يَرُدَّهَا فَلا يَسْتَطِيعُ ، ثُمَّ أَتَى عَلَى وَادٍ فَوَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً وَوَجَدَ رِيحَ مِسْكٍ مَعَ صَوْتٍ ، فَقَالَ : مَا هَذَا ؟ قَالَ : صَوْتُ الْجَنَّةِ تَقُولُ : يَا رَبِّ ائْتِنِي بِأَهْلِي وَبِمَا وَعَدْتَنِي ، فَقَدْ كَثُرَ غَرْسِي ، وَحَرِيرِي ، وَسُنْدُسِي ، وَإِسْتَبْرَقِي وَعَبْقَرِيِّي ، وَمَرْجَانِي ، وَفِضَّتِي وَذَهَبِي ، وَأَكْوَابِي ، وَصِحَافِي ، وَأَبَارِيقِي ، وَفَوَاكِهِي ، وَعَسَلِي ، وَثِيَابِي ، وَلَبَنِي ، وَخَمْرِي ، ائْتِنِي بِمَا وَعَدْتَنِي ، فَقَالَ : لَكِ كُلُّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ ، وَمُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ ، وَمَنْ آمَنَ بِي وَبِرُسُلِي ، وَعَمِلَ صَالِحًا ، وَلَمْ يُشْرِكْ بِي شَيْئًا ، وَلَمْ يَتَّخِذْ مِنْ دُونِي أَنْدَادًا فَهُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ ، وَمَنْ أَقْرَضَنِي جَزَيْتُهُ ، وَمَنْ تَوَكَّلَ عَلَيَّ كَفَيْتُهُ ، إِنِّي أَنَا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا ، لا خُلْفَ لِمِيعَادِي ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ، تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ، فَقَالَتْ : قَدْ رَضِيتُ ، ثُمَّ أَتَى عَلَى وَادٍ فَسَمِعَ صَوْتًا مُنْكَرًا ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَا هَذَا الصَّوْتُ ؟ قَالَ : هَذَا صَوْتُ جَهَنَّمَ ، يَقُولُ : يَا رَبِّ ائْتِنِي بِأَهْلِي وَبِمَا وَعَدْتَنِي ، فَقَدْ كَثُرَ سَلاسِلِي ، وَأَغْلالِي ، وَسَعِيرِي ، وَحَمِيمِي ، وَغَسَّاقِي وَغِسْلِينِي ، وَقَدْ بَعُدَ قَعْرِي ، وَاشْتَدَّ حَرِّي ، ائْتِنِي بِمَا وَعَدْتَنِي ، قَالَ : لَكِ كُلُّ مُشْرِكٍ وَمُشْرِكَةٍ ، وَخَبِيثٍ وَخَبِيثَةٍ ، وَكُلُّ جَبَّارٍ لا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ، قَالَ : قَدْ رَضِيتُ ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى أَتَى بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَنَزَلَ ، فَرَبَطَ فَرَسَهُ إِلَى صَخْرَةٍ فَصَلَّى مَعَ الْمَلائِكَةِ ، فَلَمَّا قُضِيَتِ الصَّلاةُ ، قَالُوا : يَا جِبْرِيلُ ! مَنْ هَذَا مَعَكَ ؟ قَالَ : هَذَا مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، فَنِعْمَ الأَخُ وَنِعْمَ الْخَلِيفَةُ ، ثُمَّ لَقُوا أَرْوَاحَ الأَنْبِيَاءِ فَأَثْنَوْا عَلَى رَبِّهِمْ تَعَالَى ، فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اللَّهُمَّ الَّذِي اتَّخَذَنِي خَلِيلا ، وَأَعْطَانِي مُلْكًا عَظِيمًا ، وَجَعَلَنِي أُمَّةً قَانِتًا ، وَاصْطَفَانِي بِرِسَالَتِهِ ، وَأَنْقَذَنِي مِنَ النَّارِ ، وَجَعَلَهَا عَلَيَّ بَرْدًا وَسَلامًا ، ثُمَّ إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ أَثْنَى عَلَى رَبِّهِ ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَلَّمَنِي تَكْلِيمًا ، وَاصْطَفَانِي ، وَأَنْزَلَ عَلَيَّ التَّوْرَاةَ، وَجَعَلَ هَلاكَ فِرْعَوْنَ عَلَى يَدَيَّ وَنَجَاةَ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى يَدَيَّ ، ثُمَّ إِنَّ دَاوُدَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَثْنَى عَلَى رَبِّهِ ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لِي مُلْكًا وَأَنْزَلَ عَلَيَّ الزَّبُورَ ، وَأَلانَ لِي الْحَدِيدَ ، وَسَخَّرَ لِي الْجِبَالَ ، يُسَبِّحْنَ مَعِي وَالطَّيْرُ ، وَأَتَانِي الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ، ثُمَّ إِنَّ سُلَيْمَانَ أَثْنَى عَلَى رَبِّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي سَخَّرَ لِي الرِّيَاحَ ، وَالْجِنَّ وَالإِنْسَ ، وَسَخَّرَ لِي الشَّيَاطِينَ يَعْمَلُونَ مَا شِئْتُ مِنْ مَحَارِيبَ ، وَتَمَاثِيلَ ، وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِي ، وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ، وَعَلَّمَنِي مَنْطِقَ الطَّيْرِ ، وَأَسَالَ لِي عَيْنَ الْقِطْرِ ، وَأَعْطَانِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي ، ثُمَّ إِنَّ عِيسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَثْنَى عَلَى رَبِّهِ ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَلَّمَنِي التَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ ، وَجَعَلَنِي أُبْرِئُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ ، وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِهِ ، وَرَفَعَنِي فَطَهَّرَنِي مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ، وَأَعَاذَنِي وَأُمِّي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ، وَلَمْ يَجْعَلْ لِلشَّيْطَانِ عَلَيْنَا سَبِيلا ، وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَثْنَى عَلَى رَبِّهِ ، فَقَالَ : كُلُّكُمْ أَثْنَى عَلَى رَبِّهِ وَأَنَا مُثْنٍ عَلَى رَبِّي ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَرْسَلَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ، وَكَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ، وَأَنْزَلَ عَلَيَّ الْفُرْقَانَ ، فِيهِ تِبْيَانُ كُلِّ شَيْءٍ ، وَجَعَلَ أُمَّتِي خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ، وَجَعَلَ أُمَّتِي وَسَطًا ، وَجَعَلَ أُمَّتِي هُمُ الأَوَّلُونَ وَهُمُ الآخِرُونَ ، وَشَرَحَ لِي صَدْرِي ، وَوَضَعَ عَنِّي وِزْرِي ، وَرَفَعَ لِي ذِكْرِي ، وَجَعَلَنِي فَاتِحًا وَخَاتَمًا ، فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بِهَذَا فَضَلَكُمْ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ أُتِيَ بِآنِيَةٍ ثَلاثَةٍ مُغَطَّاةٍ ، فَدُفِعَ إِلَيْهِ إِنَاءٌ ، فَقِيلَ لَهُ : اشْرَبْ ، فِيهِ مَاءٌ ، ثُمَّ دُفِعَ إِلَيْهِ إِنَاءٌ آخَرُ فِيهِ لَبَنٌ ، فَشَرِبَ مِنْهُ حَتَّى رَوِيَ ، ثُمَّ دُفِعَ إِلَيْهِ إِنَاءٌ آخَرُ فِيهِ خَمْرٌ ، فَقَالَ : قَدْ رَوِيتُ لا أَذُوقُهُ ، فَقِيلَ لَهُ : أَصَبْتَ أَمَا إِنَّهَا سَتُحَرَّمُ عَلَى أُمَّتِكَ ، وَلَوْ شَرِبْتَهَا لَمْ يَتَّبِعْكَ مِنْ أُمَّتِكَ إِلا قَلِيلٌ ، ثُمَّ صُعِدَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ ، فَقِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ ، قِيلَ : وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، فَنِعْمَ الأَخُ وَنِعْمَ الْخَلِيفَةُ ، نِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ، فَدَخَلَ فِيهِ فَإِذَا هُوَ بِشَيْخٍ جَالِسٍ تَامّ الْخَلْقِ ، لَمْ يَنْقُصْ مِنْ خَلْقِهِ شَيْءٌ كَمَا يَنْقُصُ مِنْ خَلْقِ الْبَشَرِ ، عَنْ يَمِينِهِ بَابٌ يَخْرُجُ مِنْهُ رِيحٌ طَيِّبَةٌ ، وَعَنْ شِمَالِهِ بَابٌ يَخْرُجُ مِنْهُ رِيحٌ خَبِيثَةٌ ، إِذَا نَظَرَ إِلَى الْبَابِ الَّذِي عَنْ يَمِينِهِ ضَحِكَ ، وَإِذَا نَظَرَ إِلَى الْبَابِ الَّذِي عَنْ يَسَارِهِ بَكَى وَحَزِنَ ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَنْ هَذَا الشَّيْخُ وَمَا هَذَانِ الْبَابَانِ ؟ فَقَالَ : هَذَا أَبُوكَ آدَمُ ، وَهَذَا الْبَابُ الَّذِي عَنْ يَمِينِهِ بَابُ الْجَنَّةِ ، وَإِذَا رَأَى مَنْ يَدْخُلُهُ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ ضَحِكَ وَاسْتَبْشَرَ ، وَإِذَا نَظَرَ إِلَى الْبَابِ الَّذِي عَنْ شِمَالِهِ بَابِ جَهَنَّمَ ، فَإِذَا رَأَى مَنْ يَدْخُلُهُ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ بَكَى وَحَزِنَ ، ثُمَّ صَعِدَ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَاسْتَفْتَحَ ، فَقِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ فَقَالَ : جِبْرِيلُ ، قَالُوا : وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، فَنِعْمَ الأَخُ وَنِعْمَ الْخَلِيفَةُ ، وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ، فَدَخَلَ فَإِذَا هُوَ بِشَابَّيْنِ ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَنْ هَذَانَ الشَّابَّانِ ؟ فَقَالَ : هَذَا عِيسَى وَيَحْيَى ابْنَا الْخَالَةِ ، ثُمَّ صَعِدَ إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ ، فَقَالُوا : مَنْ هَذَا مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، فَنِعْمَ الأَخُ وَنِعْمَ الْخَلِيفَةُ وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ، فَدَخَلَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدْ فُضِّلَ عَلَى النَّاسِ فِي الْحُسْنِ كَمَا فُضِّلَ الْقَمَرُ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ ، فَقَالَ : مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟ قَالَ : أَخُوكَ يُوسُفُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ صَعِدَ السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ ، فَقَالُوا : مَنْ هَذَا مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ، فَدَخَلَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ : مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الْجَالِسُ ؟ قَالَ : هَذَا أَخُوكَ إِدْرِيسُ رَفَعَهُ اللَّهُ مَكَانًا عَلِيًّا ، ثُمَّ صُعِدَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ ، فَقَالُوا لَهُ : مَنْ هَذَا مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، فَنِعْمَ الأَخُ وَنِعْمَ الْخَلِيفَةُ ، وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ، فَدَخَلَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ جَالِسٍ يَقُصُّ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَنْ هَذَا وَمَنْ هَؤُلاءِ الَّذِينَ حَوْلَهُ ؟ قَالَ : هَذَا هَارُونُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُخَلَّفُ فِي قَوْمِهِ ، وَهَؤُلاءِ قَوْمُهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ ، ثُمَّ صُعِدَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ ، فَقَالُوا : مَنْ هَذَا مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، فَلَنِعْمَ الأَخُ وَنِعْمَ الْخَلِيفَةُ وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ جَالِسٍ ، فَجَاوَزَهُ فَبَكَى الرَّجُلُ ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : هَذَا مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا يُبْكِيهِ ؟ قَالَ : يَزْعُمُ بَنُو إِسْرَائِيلَ أَنِّي أَفْضَلُ الْخَلْقِ ، وَهَذَا قَدْ خَلَّفَنِي ، فَلَوْ أَنَّهُ وَحْدَهُ وَلَكِنْ مَعَهُ كُلُّ أُمَّتِهِ ، ثُمَّ صُعِدَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ ، فَقَالُوا : مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالُوا : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالُوا : حَيَّاهُ اللَّهُ مِنْ أَخٍ وَخَلِيفَةٍ ، فَنِعْمَ الأَخُ وَنِعْمَ الْخَلِيفَةُ وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ أَشْمَطَ جَالِسٍ عَلَى كُرْسِيٍّ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ ، وَعِنْدَهُ قَوْمٌ جُلُوسٌ فِي أَلْوَانِهِمْ شَيْءٌ وَقَالَ عِيسَى يَعْنِي أَبَا جَعْفَرٍ الرَّازِيَّ : وَسَمِعْتُهُ مَرَّةً يَقُولُ : سُودُ الْوُجُوهِ فَقَامَ هَؤُلاءِ الَّذِينَ فِي أَلْوَانِهِمْ شَيْءٌ فَدَخَلُوا نَهَرًا يُقَالُ لَهُ : نِعْمَةُ اللَّهِ ، فَاغْتَسَلُوا فَخَرَجُوا وَقَدْ خَلَصَ مِنْ أَلْوَانِهِمْ شَيْءٌ ، فَدَخَلُوا نَهَرًا آخَرَ يُقَالُ لَهُ رَحْمَةُ اللَّهِ ، فَاغْتَسَلُوا فَخَرَجُوا وَقَدْ خَلَصَ مِنْ أَلْوَانِهِمْ شَيْءٌ ، فَدَخَلُوا نَهَرًا آخَرَ ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ : وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا سورة الإنسان آية 21 ، فَخَرَجُوا وَقَدْ خَلَصَ أَلْوَانُهُمْ مِثْلَ أَلْوَانِ أَصْحَابِهِمْ ، فَجَلَسُوا إِلَى أَصْحَابِهِمْ ، فَقَالَ : يَا جِبْرِيلُ ! مَنْ هَذَا الأَشْمَطُ الْجَالِسُ ؟ وَمَنْ هَؤُلاءِ الْبِيضُ الْوُجُوهِ ؟ وَمَنْ هَؤُلاءِ الَّذِينَ فِي أَلْوَانِهِمْ شَيْءٌ ؟ فَدَخَلُوا هَذِهِ الأَنْهَارَ فَاغْتَسَلُوا فِيهَا ثُمَّ خَرَجُوا وَقَدْ خَلَصَتْ أَلْوَانُهُمْ ، قَالَ : هَذَا أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ مَنْ شَمِطَ عَلَى الأَرْضِ ، وَهَؤُلاءِ الْقَوْمُ الْبِيضُ الْوُجُوهُ قَوْمٌ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ، وَهَؤُلاءِ الَّذِينَ فِي أَلْوَانِهِمْ شَيْءٌ قَدْ خَلَطُوا عَمَلا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا تَابُوا فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ، ثُمَّ مَضَى إِلَى السِّدْرَةِ ، فَقِيلَ لَهُ : هَذِهِ السِّدْرَةُ الْمُنْتَهَى ، يَنْتَهِي كُلُّ أَحَدٍ مِنْ أُمَّتِكَ خَلا عَلَى سَبِيلِكَ ، وَهِيَ السِّدْرَةُ الْمُنْتَهَى يَخْرُجُ مِنْ أَصْلِهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ ، وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ ، وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ ، وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى ، وَهِيَ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا سَبْعِينَ عَامًا ، وَإِنَّ وَرَقَةً مِنْهَا مُظِلَّةٌ الْخَلْقَ ، فَغَشِيَهَا نُورٌ وَغَشِيَتْهَا الْمَلائِكَةُ ، قَالَ عِيسَى : فَذَلِكَ قَوْلُهُ : إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16 ، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ : سَلْ ، فَقَالَ : إِنَّكَ اتَّخَذْتَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلا ، وَأَعْطَيْتَهُ مُلْكًا عَظِيمًا وَكَلَّمْتَ مُوسَى تَكْلِيمًا ، وَأَعْطَيْتَ دَاوُدَ مُلْكًا عَظِيمًا ، وَأَلَنْتَ لَهُ الْحَدِيدَ ، وَسَخَّرْتَ لَهُ الْجِبَالَ ، وَأَعْطَيْتَ سُلَيْمَانَ مُلْكًا عَظِيمًا ، وَسَخَرْتَ لَهُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ وَالشَّيَاطِينَ وَالرِّيَاحَ ، وَأَعْطَيْتَهُ مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ ، وَعَلَّمْتَ عِيسَى التَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ ، وَجَعَلْتَهُ يُبْرِئُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ ، وَأَعَذْتَهُ وَأُمَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ، فَلَمْ يَكُنْ لَهُ عَلَيْهِمَا سَبِيلٌ ، فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : قَدِ اتَّخَذْتُكَ خَلِيلا وَهُوَ مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ : مُحَمَّدٌ حَبِيبُ الرَّحْمَنِ ، وَأَرْسَلْتُكَ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً ، وَجَعَلْتُ أُمَّتَكَ هُمُ الأَوَّلُونَ وَهُمُ الآخِرُونَ ، وَجَعَلْتُ أُمَّتَكَ لا تَجُوزُ لَهُمْ خُطْبَةٌ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنَّكَ عَبْدِي وَرَسُولِي ، وَجَعَلْتُكَ أَوَّلَ النَّبِيِّينَ خَلْقًا وَآخِرَهُمْ بَعْثًا ، وَأَعْطَيْتُكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي ، وَلَمْ أُعْطِهَا نَبِيًّا قَبْلَكَ ، وَأَعْطَيْتُكَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ أُعْطِهَا نَبِيًّا قَبْلَكَ وَجَعَلْتُكَ فَاتِحًا وَخَاتَمًا ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَضَّلَنِي رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِسِتٍّ : قَذَفَ فِي قُلُوبِ عَدُّوِي الرُّعْبَ فِي مَسِيرَةِ شَهْرٍ ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ ، وَلَمْ يَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِي ، وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ، وَأُعْطِيتُ فَوَاتِحَ الْكَلامِ وَجَوَامِعَهُ ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي فَلَمْ يَخْفَ عَلَيَّ التَّابِعُ وَالْمَتْبُوعُ مِنْهُمْ ، وَرَأَيْتُهُمْ أَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَنْتَعِلُونَ الشَّعْرَ ، وَرَأَيْتُهُمْ أَتَوْا عَلَى قَوْمٍ عِرَاضِ الْوُجُوهِ ، صِغَارِ الأَعْيُنِ ، فَعَرَّفْتُهُمْ مَا هُمْ ، وَأُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلاةً ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى : كَمْ أُمِرْتَ مِنَ الصَّلاةِ ؟ قَالَ : بِخَمْسِينَ صَلاةً ، قَالَ : ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لأُمَّتِكَ ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ أَضْعَفُ الأُمَمِ ، فَقَدْ لَقِيتُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شِدَّةً ، فَرَجَعَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ ، فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرًا ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ : بِكَمْ أُمِرْتَ ، قَالَ : بِأَرْبَعِينَ صَلاةً ، قَالَ : ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لأُمَّتِكَ ، فَإِنَّ أُمَّتِكَ أَضْعَفُ الأُمَمِ ، وَقَدْ لَقِيتُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شِدَّةً ، فَرَجَعَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ التَّخْفِيفَ ، فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرًا ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ لَهُ : بِكَمْ أُمِرْتَ ؟ فَقَالَ : بِثَلاثِينَ ، قَالَ : ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لأُمَّتِكَ ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ أَضْعَفُ الأُمَمِ ، وَقَدْ لَقِيتُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شِدَّةً ، فَرَجَعَ مُحَمَّدٌ فَسَأَلَ رَبَّهُ التَّخْفِيفَ ، فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرًا ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ لَهُ : بِكَمْ أُمِرْتَ ؟ فَقَالَ : بِعِشْرِينَ صَلاةً ، قَالَ : ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ عَنْ أُمَّتِكَ ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ أَضْعَفُ الأُمَمِ ، فَقَدْ لَقِيتُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شِدَّةً ، فَرَجَعَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ رَبَّهُ التَّخْفِيفَ ، فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرًا ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ لَهُ : بِكَمْ أُمِرْتَ ؟ فَقَالَ : بِعَشْرٍ ، قَالَ : ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لأُمَّتِكَ ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ أَضْعَفُ الأُمَمِ ، وَقَدْ لَقِيتُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شِدَّةً ، فَرَجَعَ مُحَمَّدٌ فَسَأَلَ رَبَّهُ التَّخْفِيفَ فَوَضَعَ عَنْهُ خَمْسًا ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ : بِكَمْ أُمِرْتَ ؟ فَقَالَ : بِخَمْسٍ ، قَالَ : ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ أَضْعَفُ الأُمَمِ ، وَقَدْ لَقِيتُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شِدَّةً ، قَالَ : قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ ، وَمَا أَنَا بِرَاجِعٍ إِلَيْهِ ، فَقِيلَ لَهُ : كَمَا صَبَرَتْ نَفْسَكَ عَلَى الْخَمْسِ فَإِنَّهُ يُجْزَى عَنْكَ بِخَمْسِينَ ، يُجْزَى عَنْكَ كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا ، قَالَ عِيسَى : بَلَغَنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : كَانَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّهُمْ عَلَيَّ أَوَّلا وَخَيْرَهُمْ آخِرًا . قَالَ الْبَزَّارُ : وَهَذَا لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ . ..[كشف الأستار » كِتَابُ الإِيمَانِ » بَابٌ مِنْهُ فِي الإِسْرَاءِ ... رقم الحديث: 52]
*********************************
غیرت
حضرت عمرؓ بالطبع غیور واقع ہوئے تھے،یہاں تک کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی غیرت کا پاس ولحاظ کرتے تھے،صحیح مسلم، ترمذی اورصحاح کی تقریبا سب کتابوں میں باختلاف الفاظ مروی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجنت میں ایک عالیشان طلائی قصر ملاحظہ فرمایا جو فاروق اعظم ؓ کے لئے مخصوص تھا اس کے اندر صرف اس وجہ سے تشریف نہیں لے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی غیر ت کا حال معلوم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ سے اس کا ذکر فرمایا تو وہ روکر کہنے لگے" أَعَلَيْكَ أَغَارُ يَا رَسُولَ اللَّهِ" (کیا میں آپ کے مقابلہ میں غیرت کروں گا یا رسول اللہﷺ۔
[صحيح البخاري:5226، صحيح مسلم:2394، صحيح ابن حبان:6886]
روحوں کا ٹھکانہ
آنحضرتﷺ نے معراج کے سفر اور سچے خوابوں میں بعض پیغمبروں کو آسمان اور جنت کے مختلف درجات میں دیکھا۔
(مسلم، باب بیان ارواح الشھداء فی الجنۃ، حدیث نمبر:۳۵۰۰۔ وترائی اھل الجنۃ اھل الغرف، حدیث نمبر:۳۶۹۶)
مالک جہنم کے فرشتوں کا سردار
اللہ تعالی نے سورۃ زخرف آیت ۷۷ میں مالک فرشتہ کا ذکر
فرمایا ہے اوریہ جہنم کا داروغہ ہے اورجہنم کے سب داروغوں سے بڑا بھی ہے اور ان کا
سردار بھی ہے،حضورﷺ نے اس کو معراج کی شب میں دیکھا ہے اس نے
حضورﷺ سے سلام کرنے میں پہل بھی فرمائی
ہے۔
(مسلم
شریف از حضرت انسؓ)
اور آپ ﷺ نے اس کو(ایک مرتبہ)خواب میں بھی دیکھا اس کی
شکل نہایت مکروہ تھی یعنی جس طرح تم کسی مرد کو نہایت بدصورت دیکھتے ہو وہ ایسا ہی
مکروہ منظر ہے۔
طوق
اور زنجیر ابھی تیار ہیں
(حدیث)حضرت
ابوہریرہؓ نے معراج کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ پھر نبی ﷺ ایک
وادی پر تشریف لائے اور مکروہ آواز سنی اور بدبودار ہوا پائی تو پوچھا اے جبریل
یہ کیا ہے؟تو انہوں نے عرض کیا:
هذا صوت جهنم ، تقول: يارب آتني ماوعدتني فقدكثرت سلاسلي وأغلالي
وسعيري وحميمي وضريعي وغساقي وعذابي،وقد بعد قعري، واشتد حري ، فآتني
ما وعدتني ، قال : لك كل مشرك ومشركة، وكافر وكافرة، وكل خبيث وخبيثة
، وكل جبار لا يؤمن بيوم الحساب
(مختصر تاریخ دمشق،باب ذکر عروجہ الی السماء
واجتماعہ:۱/۱۷۱)
(ترجمہ)یہ
جہنم کی آواز ہے یہ کہتی ہے اے میرے پروردگار آپ نے میرے ساتھ جو وعدہ فرمایا ہے
وہ مجھے عطا فرمائیے میری زنجیریں ،طوقیں،سوزش،جلتا ہوا پانی بہنے والی پیپ
اورعذاب بہت بڑھ گیا ہے میری گہرائی بڑھ گئی میری گرمی سخت ہوگئی پس
آپ نے میرے ساتھ جو وعدہ فرمایا ہے وہ مجھے عطا فرمائیے تو اللہ تعالی نے فرمایا
ہر مشرک(مرد) اورمشرک (عورت)اورہر خبیث مرد اورخبیث (عورت)اورہر مغرور قیامت کا منکر
تیرے لئے ہے۔[ التخويف من النار والتعريف
بحال دار البوار:129]
اگر
پتھر اور لوہا بھی جہنم میں ڈالیں تو ان کو بھی کھا جائے گی
(حدیث)
حضرت ابو سعید خدریؓ حدیث معراج میں حضور ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
ثم
عرضت علی النار فاذافیھا غضب اللہ ورجزہ ونقمتہ لوطرح فیھا الحجارۃ والحدید
لاکلتھا ثم اغلقت دونی
(ضعیف:۱)
(ترجمہ)اس
کے بعد میرے سامنے دوزخ پیش کی گئی(مجھے اس میں اللہ تعالی کا غضب،گرج اور انتقام
نظر آیا اگر اس میں پتھروں اورلوہے کو ڈال دیا جائے تو یہ ان کو بھی کھاجائے، اس
کے(ملاحظہ کرانے کے) بعد میرے سامنے دوزخ کو بند کر دیا گیا۔
[البعث والنشور للبيهقي:183، التخويف من النار والتعريف بحال دار
البوار: 88]
کیا واقعۂِ معراج کے موقع پر "التحیات" کا ذکر کیا گیا تھا؟
حضرت مقاتل ابن حبان سے مروی ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا تو سدرۃالمنتہیٰ کے قریب حجاب اکبر تک حضرت جبرائیل بھی میرے ہمراہ تھے، پھر جبرائیل نے مجھے آگے بڑھنے کو کہا تو میں نے کہا: نہیں بلکہ تم آگے چلو۔
عرض کی: اے محمد! اس جگہ سے آگے آپ کے علاوہ کسی کو پڑھنے کی اجازت نہیں اور اللہ کے نزدیک آپ کو مجھ پر فضیلت ہے۔
آپ نے فرمایا: پھر میں آگے بڑھا اور سونے کے ایک تخت پر پہنچا جس پر جنت کے ریشمی کپڑے بچھڑے تھے بس جبریل نے پیچھے سے مجھے پکارا: اے محمد! بے شک اللہ تعالی آپ کی تعریف فرما رہے ہیں آپ غور سے سنے اور احکامات کی اطاعت کریں اور کلام الہی سے گھبرائے نہیں۔
پھر میں نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عرض کیا:
تمام زبانی، جسمانی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں۔
جواب میں اللہ نے فرمایا:
اے نبی! تجھ پرسلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
میں نے عرض کیا:
ہم پر بھی اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی۔
پھر جبرائیل نے کہا:
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ نے فرمایا:
ایمان لایا پیغمبر اس پر جو اس کے رب کے ہاں سے اس کی طرف نازل ہوا۔
[سورۃ البقرہ:285]
میں نے کہا:
ہاں اے رب! میں آپ پر ایمان لایا۔
اور تمام مومن بھی ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس کے فرشتوں کتابوں اور رسولوں پر اور ہم اس کے کسی ایک پیغمبر میں بھی تفریق نہیں کرتے۔
[سورۃ البقرہ:285]
جیسا کہ یہودیوں نے پیغمبر موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان تفریق کی تھی یا نصاریٰ نے تفریق کی تھی۔
اللہ نے فرمایا:
اللہ کسی کو اس کی قوت وبرداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیک عمل کرے گا اسے اس کا ثواب ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے اس کا عذاب ہوگا۔
[سورۃ البقرہ:286]
پھر فرمایا:
اے محمد! آپ مانگیں عطا کیا جائے گا۔
تو میں نے عرض کیا:
اے ہمارے رب! ہم تیری مغفرت کے طلبگار ہیں اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
[سورۃ البقرہ:286]
اللہ نے فرمایا:
بے شک ہم نے آپ کو اور آپ کی امت کو بخش دیا ہے اور آپ کی امت کے ہر اس شخص کو جس نے میری وحدانیت اور تیری رسالت کی تصدیق کی ہے.
پھر فرمایا:
اے محمد! آپ سوال کریں عطا کیا جائے گا۔
تو میں نے عرض کیا:
اے ہمارے رب! ہمارے بھول اور ختم کی گرفت نہ فرمانا۔
[سورۃ البقرہ:286]
اللہ نے فرمایا:
تمہارے ساتھ ایسا ہی ہوگا، ہم تمہاری بھول چوک اور خطاؤں کی گرفت نہ فرما ئیں گے اور اس پر بھی جو تمہاری خواہش کے بغیر کرایا جائے گا۔
پھر فرمایا:
آپ سوال کریں عطا کیا جائے گا۔
تو میں نے عرض کیا:
اے ہمارے رب! ہم پر ویسے ہی سخت غصہ کم نہ بھیجئے جیسے ہم سے پہلے والے لوگوں پر بھیجے گئے تھے۔
[سورۃ البقرہ:286]
اس لیے کہ جب بنی اسرائیل کوئی خطا یا گناہ کرتے تھے تو اللہ تعالی پاکیزہ کھانے بھی ان پر حرام فرما دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ:
یہودیوں کے جرائم کے سوا بھی ہم نے ان پر پاکیزہ چیزوں کو حرام کردیا حالانکہ وہ ان کے لئے حلال تھیں۔[سورۃ النساء: 160]
اللہ نے فرمایا:
تمہاری یہ دعا قبول ہوئی اور مانگو عطا کیا جائے گا۔
میں نے عرض کیا:
اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو ہمیں معافی عطا فرما دے۔
[سورۃ البقرہ:286]
فرمایا:
ایسا ہی ہوگا، اور مانگو عطا کیا جائے گا۔
میں نے عرض کیا:
اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالنا جس کو سہارنے کی ہمت نہ ہو۔
[سورۃ البقرہ:286]
کیونکہ میری امت کمزور ہے۔
اللہ نے فرمایا:
ایسا ہی ہوگا اور مانگو عطا کیا جائے گا۔
میں نے عرض کیا:
اور ہم سے درگزر کیجئے اور ہمیں بخش دیجئے اور ہم پر رحم کیجئے آپ بھی ہمارے مددگار ہیں اور کافر لوگوں پر ہمیں کامیابی عطا کیجیے۔
[سورۃ البقرہ:286]
فرمایا:
ایسا ہی ہوگا تمہارے صبر کرنے والے بیس آدمی دو سو(کافروں)پر غالب آجائیں گے۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي:805]
[سورۃ البقرۃ:285=تفسير السمرقندي:1/189، تفسير القرطبي:3/425، لطائف الإشارات = تفسير القشيري:3/67، تفسير الحداد:1/517 (تفسير حدائق الروح والريحان:24/205)]
اس واقعہ کے بارے میں (نہایت رحم کرنے والے پروردگار کی طرف سے تم پر سلامتی ہو) [سورۃ يٰس:58] آیت کے تحت چند تفسیر کی کتابوں میں یہ بات ملی ہے کہ:
"مفسرین کا کہنا ہے کہ:
اس سے اشارہ ہے اللہ تعالی کے اس سلام کی طرف جو شبِ معراج کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی نے فرمایا تھا:
" السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ "
اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی سلامتی ، رحمتیں اور برکتیں ہوں۔۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلام کو قبول کرتے ہوئے جواب دیا تھا:
" اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ"
ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی ہو۔
[روح البیان-علامہ إسماعيل حقي : ج3/ص38، 5/ 88، 5/ 121، 7/ 221، 7/ 468]
[تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس:1/313، مرآة الزمان في تواريخ الأعيان:22/108]
اسی طرح چند شارحینِ حدیث نے تشہد کی دعا ذکر کرتے ہوئے جو شرح کی ہے وہاں اس سے ملتی جلتی بات ملتی ہے، جیسے کہ محدث بدر الدین عینی نے [شرح سنن ابو داود:4/238] اور [نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار:4/449] میں ذکر کی ہے، محدث القسطلاني نے [إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:2/129] میں، محدث عبد الحق الدهلوي نے [لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح:3/45] میں ، محدث عثمان الكماخي نے [المهيأ في كشف أسرار الموطأ:1/300] میں ، محدث محمد أنور شاه الكشميري نے [فيض الباري على صحيح البخاري:3/233]نے ، نیز ملا علی قاری نے اسے [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:2/732] میں ابن الملک سے نقل کیا ہے۔
اور عبيد الله الرحماني المبارکپوری نے اسے [مرعاة المفاتيح:3/233] میں، اور محمد بن علي بن آدم الأثيوبي نے اسے [البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج:9/362] میں اور محمد الأمين الهرري نے اسے[الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم:7 /113، شرح سنن ابن ماجه للهرري:6/83] میں ذکر کی ہے۔
اسی طرح یہ واقعہ کچھ فقہ کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے:
تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق:1/121، الجوهرة النيرة على مختصر القدوري:1/55، البناية شرح الهداية-بدر الدين العيني:2/265، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:1/100 میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔
لیکن کسی نے بھی اس واقعہ کو "سند" کے ساتھ ذکر نہیں کیا، اس لیے اس واقعہ کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کرنا درست نہیں ہے، بالکل اسی طرح یہ واقعہ بچوں کو بھی نہیں سکھانا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی تمام احادیث کو بیان کرنا حرام ہے، صرف ایک صورت میں بیان کرنا جائز ہے جب ان احادیث کی حقیقت عیاں کرنا مقصود ہو اور ان سے لوگوں کو خبردار کرنا ہو۔
شبِ معراج منانا؟
اولاً تو حتمی طور پر یہ بات طے نہیں ہے کہ معراج کس سال اور مہینہ اور کس شب میں پیش آئی؟ دوسرے اگر کوئی تاریخ ثابت بھی ہوجائے تو اس رات میں خصوصیت کے ساتھ عبادت کرنے اور اس کا غیر ضروری اہتمام کرنے کا ثبوت دور نبوت، دور صحابہ اور سلف صالحین سے نہیں ہے، اس لئے جو حضرات اس رات میں خصوصی پروگرام وغیرہ کرنے پر نکیر کرتے ہیں وہ حق پر ہیں۔ اور جن مساجد میں اس رات میں پروگرام کرنے کا سلسلہ جاری ہے اسے ختم کرنا ضروری ہے، تاکہ اس بدعت پر روک لگ سکے۔
یکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہٰذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا؛ لأنہ لم یفعلہ النبي ا ولا أصحابہ، فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز، وقالوا: ذٰلک کلہ بدعۃ۔ [مراقي الفلاح مع الطحطاوي، فصل في تحیۃ المسجد ۳۲۶]
اعلم إنا لم نجد في الأحادیث لا اثباتاً ولا نفیاً مما اشتہر بینہم من تخصیص الخامس عشر من رجب بالتعظیم والصوم والصلاۃ۔
[ما ثبت بالسنۃ ۱۹۱-۱۹۲، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۵؍۵۰۰ میرٹھ]
ومن ہنا یعلم کراہۃ الإجتماع علی صلوۃ الرغائب التي تفعل في رجب أو في أولی جمعۃ منہ، وأنہا بدعۃ ۔
[شامی زکریا ۲؍ ۴۶۹، حلبی کبیر ؍۴۳۲، البدایۃ والنہایۃ۳؍ ۱۰۹، مرقاۃ المفاتیح ۱۱؍ ۱۳۸، روح المعاني ۹؍ ۱۰، معارف القرآن بیت الحکمۃ دیوبند ۵؍ ۴۴۳، سیرۃ المصطفی ۱؍ ۲۸۸]
حافظ الحدیث امام ابن حجر عسقلانی لكھتے ہيں:
" ماہ رجب اور اس ميں روزے ركھنے اور نہ ہى اس كے كسى معين دن ميں روزہ ركھنے، اور نہ ہى اس ميں كسى مخصوص رات كا قيام كرنے كى فضيلت كے متعلق كوئى صحيح حديث وارد نہيں جو قابل حجت ہو"
: تبيين العجب بما ورد في فضل رجب ]11 ]
رجب کے روزے اور اسکی راتوں میں قیام کے متعلق جتنی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ ساری جھوٹ اور بہتان ہیں.
[المنار المنیف ، امام ابن قیم :ص96]
شدید ضعیف بلکہ موضوع ہیں.
[تبیین العجب ،امام ابن حجر :ص11
مجموع الفتاوی الکبری ،امام ابن تیمیہ :25/290]
www.islamqa.info/ur/75394
شب برات اور معراج كا روزہ ركھنا
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ سے رجب کا روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ تو آپ ﷺ نے فرمایا تم شعبان کا روزہ کیوں نہیں رکھتے؟
خلاصہ یہ کہ رجب کے روزہ کی ممانعت جاہلیت کی تعظیم والے پہلو کے پیش نظر ہے یا اس روزے کو لازم یا زیادہ فضیلت کا باعث سمجھ کر رکھنے کی وجہ سے ہے، اگر کسی شخص کی عادت (مثلاً) پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کی ہو اور 27 رجب پیر یا جمعرات کو آجائے (جیساکہ اس مرتبہ 27 رجب بروزِ جمعرات ہے) تو ایسے شخص کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں حرج نہیں ہے۔
كنز العمال (8/ 653):
"24580- عن خرشة بن الحر قال: "رأيت عمر بن الخطاب يضرب أكف الرجال في صوم رجب حتى يضعوها في الطعام، فيقول: رجب وما رجب! إنما رجب شهر كانت تعظمه الجاهلية فلما جاء الإسلام ترك". "ش طس".
مصنف ابن أبي شيبة (2/ 345):
"حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن وبرة، عن عبد الرحمن، عن خرشة بن الحر، قال: رأيت عمر يضرب أكف الناس في رجب، حتى يضعوها في الجفان، ويقول: كلوا، فإنما هو شهر كان يعظمه أهل الجاهلية ".
مصنف ابن أبي شيبة (2/ 345):
"حدثنا وكيع، عن سفيان، عن زيد بن أسلم، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن صوم رجب فقال: «أين أنتم من شعبان»؟"
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 256):
" وكراهية ابْن عمر صَوْم عَاشُورَاء نَظِيره كَرَاهِيَة من كره صَوْم رَجَب إِذا كَانَ شهراً يعظمه الْجَاهِلِيَّة فكره أَن يعظم فِي الْإِسْلَام مَا كَانَ يعظم فِي الْجَاهِلِيَّة من غير تَحْرِيم صَوْمه على من صَامَهُ".
اسراء و معراج كا جشن منانا:
يہ رات جس ميں اسرا ومعراج کا واقعہ پيش آيا اس كى تعيين کے بارہ ميں کوئي صحيح حديث وارد نہيں ہے، بلکہ اس كى تعيين ميں جو روايتيں بھي آئي ہيں محدثين کے نزديک نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہيں، اور اس شب کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلا دينے ميں اللہ تعالى كى کوئي بڑي حکمت ضرور پوشيدہ ہے، اور اگر اس كى تعيين ثابت بھي ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے اس ميں كسى طرح کا جشن منانا يا اسےكسىعبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہيں ہے، کيونکہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام نےنہ تو اس ميں كسى طرح کا کوئي جشن منايا اور نہ ہي اسے كسى عبادت کے لئے خاص کيا، اور اگر اس شب ميں جشن منانا اور اجتماع کرنا شرعا ثابت ہوتا تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم اپنے قول يا فعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے، اور اگر عہد نبوي يا عہد صحابہ ميں ايسي کوئي چيز ہوتي تو وہ بلا شبہ معروف ومشہور ہوتي اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے کيونکہ انہوں نے نبي صلى اللہ عليہ وسلم سے نقل کرکے امت کو ہر وہ بات پہنچائي جس كى امت کو ضرورت تھي، اوردين کے كسى بھي معاملہ ميں کوئي کوتاہي نہ كى بلکہ وہ نيكى کے ہرکام ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والے تھےچنانچہ اگر اس شب ميں جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے كى کوئي شرعي حيثيت ہوتي تو وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے.
نبي صلى اللہ عليہ وسلم امت کے سب سےزيادہ خيرخواہ تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے پيغام الہي کو پورے طور پر پہنچا کرامانت كى ادائيگي فرمادي، لہذا اگر اس شب كى تعظيم اور اس ميں جشن منانا دين اسلام سے ہوتا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم قطعا اسے نہ چھوڑتے اور نہ ہي اسے چھپاتے، ليکن جب عہد نبوي اور عہد صحابہ ميں يہ سب کچھ نہيں ہوا تو يہ بات واضح ہوگئى کہ شب معراج كى تعظيم اور اس کے اجتماع کا دين اسلام سے کوئي واسطہ نہيں ہے، اللہ تبارک وتعالى نے اس امت کے لئے اپنے دين كى تکميل فرما دي ہے، اور ان پر اپني نعمت کا اتمام کرديا ہے، اور ہراس شخص پرعيب لگايا ہے جو مرضي الہي کے خلاف بدعات ايجاد کرے.
اللہ سبحانہ وتعالى نے اپني کتاب مبين قرآن کريم ميں سورۃ المائدہ کے اندر فرمايا:
اليوم أکملت لکم دينکم وأتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا المائدۃ ( 5 / 3 ).
آج ميں نےتمہارےلئےدين کوکامل کرديا، اور تم پر اپنا انعام پورا کرديا اور تمہارے لئے اسلام کے دين ہونے پر رضامند ہوگيا.
اور اللہ عزوجل نے سورۃ الشورى ميں فرمايا:
أم لهم شرکاء شرعوا لهم من الدين مالم يأذن به الله ولولا کلمة الفصل القضي بينهم وإن الظالمين لهم عذاب أليم الشورى ( 42 / 21 ).
کيا ان لوگوں نے ايسے ( اللہ کے ) شريک ( مقرر کر رکھے ہيں جنہوں نے ايسے احکام دين مقرر کردئے ہيں جواللہ تعالى کے فرمائے ہوئے نہيں ہيں، اگر فيصلہ کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ( ابھي ہي ) ان ميں فيصلہ کر ديا جاتا، يقينا ( ان ) ظالموں کے لئے ہي درد ناک عذاب ہے.
رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث ميں بدعات سے بچنے كى تاکيد اور اس کے گمراہي ہونے كى صراحت ثابت ہے، تاکہ امت کے افراد ان کے بھيانک خطرات سے آگاہ ہو کر ان کے ارتکاب سے پرہيزواجتناب کريں.
چنانچہ صحيح بخاري ومسلم ميں حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے مروي ہے کہ رسول صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد "
جس نے ہمارے اس دين ميں کوئي نيا کام نکالا جو ( دراصل ) اس ميں سے نہيں ہے وہ ناقابل قبول ہے.
اور صحيح مسلم كى ايک روايت ميں يہ الفاظ ہيں کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد "
جس نے کوئي ايسا عمل کيا جو ہمارے اسلام ميں نہيں تو وہ ناقابل قبول ہے.
اور صحيح مسلم ميں حضرت جابربن عبداللہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ کے دن اپنےخطبہ ميں فرمايا کرتےتھے:
" أما بعد فإن خير الحديث کتاب الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة "
حمدوصلاۃ کے بعد: بيشک بہترين بات اللہ كى کتاب اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم کا طريقہ ہے، اور بدترين کام نئي ايجاد کردہ بدعتيں ہيں اورو ہر بدعت گمراہي ہے.
اور سنن ميں حضرت عرباض بن ساريہ رضي اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے وہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں انتہائي جامع نصيحت فرمائي جس سے دلوں ميں لرزہ طاري ہوگيا اور آنکھيں اشکبار ہوگئيں، تو ہم نے کہا اے اللہ کےرسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ الوداعي پيغام معلوم ہوتا ہے لہذا آپ ہميں وصيت فرمائيے آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" أوصيکم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن تأمرعليکم عبد فإنه من يعش منکم بعدي فسيرى اختلافا کثيرا فعليکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسکوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة "
ميں تمہيں اللہ سے ڈرتے رہنے، حاکم وقت كى بات سننے اور ماننے كى وصيت کرتا ہوں اگرچہ تم پر حبشي غلام ہي حاکم بن جائے، اور ميرے بعد جوشخص زندہ رہےگا وہ بہت سے اختلافات ديکھے گا، اس وقت تم ميري سنت اور ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت کو لازم پکڑو اسے دانتوں سے مضبوط پکڑلو اوردين ميں نئي نئي باتوں سے بچو کيونکہ ہر نئي چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہي ہے.
رسول اکرم صلى اللہ عليہ وسلم کے صحابہ اور سلف صالحين بھي بدعتوں سے ڈراتے اور ان سے بچنے كى تاکيد کرتے رہےکيونکہ بدعات دين ميں زيادتي اور مرضي الہي کے خلاف شريعت سازي ہيں بلکہ يہ اللہ کے دشمن يہود ونصاري كى مشابہت ہے، جس طرح انہوں نے اپنے اپنے دين ( يہوديت، عيسائيت ) ميں نئي چيزوں کا اضافہ کرليا اور مرضي الہي کے خلاف بہت سي چيزيں ايجاد کرليں نيز بدعات ايجاد کرنے کا لازمي نتيجہ دين اسلام کونقص اور عدم کمال سے متہم کرنا ہے.
اور يہ تو واضح ہي ہے کہ بدعات کے ايجاد کرنے ميں بہت بڑي خرابي اور شريعت كى انتہائي خلاف ورزي ہے، نيز اللہ عزوجل کے اس فرمان
اليوم اکملت لکم دينکم
آج ميں نے تمہارے لئے تمہارا دين مکمل کرديا ہے
سے ٹکراؤ اور بدعات سے ڈرانے اور نفرت دلانے والي احاديث رسول كى صريح مخالفت بھي ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے احوال كى اصلاح فرمادے انہيں دين كىسمجھ عطا فرما دے اور ہميں اور ان کو حق پر کاربند اور ثابت قدم رہنے اور خلاف حق امور سے گريز کرنے كىتوفيق عطا فرمائے، وہ اللہ اس کا کارساز اوراس پر قادر ہے.
اور اللہ اپنے بندے اور رسول ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اور آپ کے اہل وعيال اور ساتھيوں پر رحمت وسلامتي اور برکت نازل فرمائے.
شبِ قدر افضل ہے یا شب ِمعراج؟
لیلۃ القدر اور لیلۃ المعراج میں سے افضل رات کون سی ہے؟ اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"لیلۃ المعراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں افضل ہے، جبکہ لیلۃ القدر امت کے حق میں افضل ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے لیلۃ المعراج لیلۃ القدر سے زیادہ سود مند ہے، جبکہ امت کیلیے لیلۃ القدر لیلۃ المعراج سے زیادہ سود مند ہے، اگر چہ امت کو بھی لیلۃ المعراج میں بہت کچھ ملا ہے، لیکن پھر بھی شرف اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے لیلۃ المعراج اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے زیادہ بہتر ہے" اس مسئلہ کے بارے میں یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ جواب ہے۔
امام علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی اس بارے میں گفتگو بھی ان کے شیخ یعنی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تائید میں ہے کہ لیلۃ المعراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے افضل ہے، اور لیلۃ القدر امت کیلیے افضل ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ :
اللہ تعالی نے لیلۃ القدر میں ہمارے لئے کچھ عبادات مقرر کی ہیں جو کہ لیلۃ المعراج کیلیے نہیں ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی لیلۃ المعراج کو خصوصی طور پر قیام اللیل یا ذکر وغیرہ نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ لیلۃ القدر کی شان اور مقام و مرتبہ کی وجہ سے اس رات میں قیام اور ذکر وغیرہ کیا کرتے تھے۔
No comments:
Post a Comment