تعلیمِ خواتین برائے مالداری»
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
علمُوا نساءكم سُورَة الْوَاقِعَة فَإِنَّهَا سُورَة الْغنى۔
ترجمہ:
اپنی عورتوں کو سورۃ الواقعہ سکھاؤ، کیونکہ یہ مالدار کرنے والی سورت ہے۔
[الدیلمی:4005، جامع الاحادیث للسیوطی:14180،کنزالعمال:2641، تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:ج8 ص3]
حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
علمُوا رجالكم سُورَة الْمَائِدَة وَعَلمُوا نِسَائِكُم سُورَة النُّور
ترجمہ:
سکھاؤ اپنے مردوں کو سورۃ المائدہ اور سکھاؤ اپنی عورتوں کو سورۃ النور۔
[سعيد بن منصور:2428، شعب الایمان:2428، جامع الاحادیث للسیوطی:14179، کنزالعمال:44949، تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:ج6 ص124]
تربیت کے اصول:
(1)بچوں کو تنہائی میں نصیحت کیا کریں۔ لوگوں کے سامنے کبھی مت ڈانٹیں۔
(2)بچوں کو تب تک گلے لگائے رکھیں جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑیں۔
(3)بچوں میں اتنی خوداعتمادی پیدا کریں کہ وہ جب کوئی غلطی کریں تو خود اس کا اعتراف کیا کریں۔
(4)سونے سے پہلے زندگی کے اصول وآداب سکھایا کریں۔
اولاد کی ظاہری وباطنی تربیت
اہمیت ․․․․انداز
[ترمذی:1952، حاکم:7679، بیہقی:2273]
یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے الله تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہیں ، خود قرآن نے ان کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ (سورۃ الفرقان:74) اور الله تعالیٰ نے دواولو العزم پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کے سلسلہ میں ذکر فرمایا کہ انہو ں نے خدا سے اولاد کے لیے دعا فرمائی اور الله تعالیٰ نے اس کو قبول فرمایا۔ (الصافات:100۔مریم:5) اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی خواہش انسان کی ایک فطری اور جائز خواہش ہے، الله تعالیٰ ہی نے ان کو انسان کے لیے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنایا ہے، بچوں کے بغیر کسی خوب صورت اور جاذب قلب ونظر سماج کا تصور بھی ممکن نہیں، اسلام نے جیسے سماج کے مختلف طبقات کے حقوق اور واجبات متعین کیے ہیں ؛ اس طرح بچوں سے متعلق ان کے سرپرستوں اور سماج کے فرائض کی بھی راہ نمائی کی ہے، بچوں سے متعلق اسلام کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان دنیا میں نئے انسان کی آمد پر خوش ہو ،نہ کہ غمگین اور فکر مند، الله تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام (ھود:71-69) اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام (آل عمران:29) کی پیدائش کی اطلاع دی تو اس کو ”خوش خبری“ سے تعبیر فرمایا گیا ،بچوں کی پیدائش خوشی کی بات ہے، اس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی کوئی تفریق نہیں، اسلام سے پہلے لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہوتے اور اس کو اپنے لیے باعث عار تصور کرتے تھے قرآن مجید نے اس کو کافرانہ طریقہ قراردیا ہے اور اس کی مذمت فرمائی ہے۔ (الزخرف:17) کیوں کہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لیے لڑکے زیادہ مفید ہوں گے یا لڑکیاں؟ اور کون مشکل وقتوں میں اس کے کام آئے گا؟ بچوں کا سب سے بنیادی حق ان کے زندہ رہنے کا حق ہے ، ہندوستان نے بچوں کے حقوق پر منعقدہ کنونشن کے دستاویز پر دستخط کیا ہے، اس میں پہلا حق یہی ہے اسلام نے جس طرح اس حق کی رعایت رکھی ہے شاید ہی اس کی مثال مل سکے، عام طور پر بچہ کا قانونی وجود اس وقت مانا جاتا ہے جب اس کی پیدائش ہو چکی ہو، لیکن اسلام کی نگاہ میں جس روز ماں کے رحم میں تخم انسانی نے قرار پکڑا اسی دن سے وہ ایک قابل احترام اور لائق حفاظت انسان ہے؛ اسی لیے اسلام کی نظر میں اسقاطِ حمل جائز نہیں ،بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی حفاظت اور بقا کا انتظام نہ صرف والدین اور سرپرست،بلکہ پوری انسانی برادری کا فریضہ ہے، اسی مقصد کے لیے شریعت نے ماں پر یہ اخلاقی حق رکھا ہے کہ وہ بچوں کودودھ پلائے، قرآن مجید نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس کا ذکر کیا ہے ، اس لیے میڈیکل سائنس میں یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ مفید کوئی غذا نہیں، پھر جب تک بچے اس لائق نہ ہو جائیں کہ خود کسبِ معاش کر سکیں اس وقت تک بچوں کی کفالت والدین اور والدین نہ ہوں تو دوسرے قریبی رشتہ داروں پر رکھی گئی ہے۔ ماں باپ کے لیے یہ روا نہیں رکھا گیا کہ وہ نابالغ بچوں کو مزدوری پر لگائیں او راپنی ذمے داری سے پہلوتہی برتیں ۔ (الدرالمختار مع الرد:337/5) آپ صلی الله علیہ وسلم نے سرپرستوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ بچوں کے معاملہ میں ایثار سے کام لیا جائے، چناں چہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا خدا نے ہر شخص کے لیے مجھ سے پہلے جنت کا داخلہ حرام کر دیا ہے ، لیکن میں قیامت کے روز اپنی داہنی طرف ایک عورت کو جنت کے دروازے کی سمت دوڑتے ہوئے دیکھوں گا، کہوں گا کہ اسے کیا سوجھی کہ مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے؟ مجھ سے کہا جائے گا کہ یہ ایک خوب صورت بیوی تھی، اس کی یتیم لڑکیاں تھیں، اس نے اپنی ساری خوب صورتی ان لڑکیوں کی تربیت کی بھینٹ چڑھا دی، یہاں تک کہ لڑکیاں جوان ہو گئیں، الله تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی قدردانی کی، اس کا نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں ۔ ( کنزالعمال) سب سے زیادہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس بات کی تاکید فرمائی وہ بچوں کی تعلیم او ران کی تربیت ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اسلام بچوں کی جبری تعلیم کا بھی قائل ہے تو بے جانہ ہو گا، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان کے لیے تحصیل علم کو فرض قرار دیا ہے۔ ( ابن ماجہ عن انس) ظاہر ہے کہ فرائض میں ضرورت بڑھنے پر جبر سے بھی کام لیا جاسکتا ہے ، امام بخاری نے اپنی کتاب میں ایک عنوان کے تحت ثابت کیا ہے کہ پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہونا چاہیے۔ (بخاری ، باب الاغتباط فی العلم والحکمة) ”تعلیم“ میں دین کی تعلیم بھی داخل ہے کہ بقدر ضرورت علم دین حاصل کیے بغیر نہ انسان اپنی دنیا کو بہتر بنا سکتا ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے، اس لیے ایسے علم کا حصو لبھی ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پوری کرسکے اور ایک باعزت اور خود دار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اس کے لیے ممکن ہو، قرآن مجید نے اس کے لیے ایک جامع تعبیر اختیار کی ہے کہ اپنے آپ کو او راپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچاؤ ﴿قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً﴾․(التحریم:6) بچوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے دین کی تعلیم تو ضروری ہے ہی، طریقہ معاش کی بھی تعلیم ضروری ہے ، تاکہ وہ جائز طریقہ پر اپنی ضروریات کو پوری کرسکیں اور غیر سماجی طریقہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوں، بچوں کی تعلیم اسلام کی نگاہ میں کس درجہ اہم ہے ؟ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ گو اصولی طور پر بالغ ہونے کے بعد بچوں کی کفالت باپ پر واجب نہیں، سوائے اس کے کہ وہ معذور ہو، لیکن اگر لڑکے حصول تعلیم میں مشغول ہوں اور والدین ان کے اخراجات ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، تو پھر ان کا نفقہ بھی واجب ہے ، اسی طرح فقہا نے طلبہ کے لیے زکوٰة کو جائز قرار دیا اور بعض اہلِ علم نے ان کو بھی قرآن مجید کے بیان کیے ہوئے مصارف زکوٰة ”فی سبیل الله“ کے زمرہ میں رکھا ہے، بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی ضروری ہے ، تربیت ہی دراصل انسان کو انسان بناتی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص نے اپنی اولاد کو اچھے اخلاق وآداب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ ( ترمذی، باب ماجاء فی ادب الولد) اور ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو تہذیب اور شائستگی سکھاؤ احسنوا أدبھم․ ( ابن ماجہ ، باب بر الوالد الخ) آپ صلی الله علیہ وسلم واقعی انسانی نفسیات کے عارف اوررہبر تھے اور ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں راہ نمائی فرمایا کرتے تھے، چناں چہ ایک موقعہ پر نہایت جامعیت کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بچوں کے ان حقوق کا ذکر فرمایا جووالدین پر ہیں، ارشاد ہوا:ساتویں دن بچہ کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور نہلایا دھلایا جائے، تیرہ سال میں نماز اور روزہ کے لیے سر زنش کی جائے سولہ سال کی عمر میں باپ اس کی شادی کر دے پھر اس کا ہاتھ پکڑے ا ورکہے میں نے تجھے اخلاق سکھا دیے قد ادبتک تعلیم دے دی اور تمہارا نکاح کر دیا، میں الله کی پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ تو دنیامیں میرے لیے فتنہ کا یا آخرت میں عذاب کا باعث بنے۔ (مسند احمد، ابن حبان عن انس ) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اسوہ اور ارشادات کے ذریعہ ہمیں بچوں کی تعلیم وتربیت کے طریقوں سے بھی آگاہ فرمایا، اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ بچوں کے مزاج اور موقع ومحل کو دیکھتے ہوئے کبھی نرمی اور کبھی سختی کا معاملہ کیا جائے بے جاتشدد اور ہر وقت سخت گیری فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہے، اس لیے اصل میں بچوں کے ساتھ شفقت مطلوب ہے، حضرت انس راوی ہیں کہ میں نے کسی شخص کو بال بچوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ شفیق نہیں دیکھا ( مسلم) ایک بار حضرت اقرع بن حابس نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت حسین کا بوسہ لے رہے ہیں، حضرت اقرع نے کہا میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی ان کا بوسہ نہیں لیا! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفقت ومحبت کچھ اپنے ہی بچوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم بہت ہی شفقت اور بے تکلفی کا معاملہ فرماتے، جب سفر میں جاتے یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو مدینے سے جو بچے آپ صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑنے یا آپ صلی الله علیہ وسلم کے استقبال کے لیے آگے تک جاتے آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو اپنی سواری پر آگے پیچھے بیٹھا لیتے۔ بچوں کے ساتھ ہمیشہ بے احترامی او رحوصلہ شکنی کا رویہ بہتر نہیں، ان کے مزاج اور نفسیات کا لحاظ ضروری ہے، جہاں حد سے زیادہ سختی بچوں کی تربیت کے لیے مضر ہے، وہیں یہ بھی روا نہیں کہ جہاں تنبیہ اور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہو وہاں بھی اپنے آپ کو مہر بہ لب رکھا جائے، اس سے بچوں کی تربیت نہیں ہو پاتی اور ان میں بد تہذیبی کا رحجان بڑھتا جاتا ہے۔ بعض بچوں میں اپنی ہر ضد کو پورا کرنے کا مزاج بن جاتا ہے ، یہ بات بچوں کے مستقبل کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حسب ضرورت بچوں کی تنبیہ کا بھی حکم دیا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بچے دس سال کے ہو جائیں او رنماز پڑھنے میں کوتاہی کریں تو ان کی کسی قدر سرزنش بھی کی جائے۔ (ترمذی:93/1) اسی لیے فقہا نے والدین کو بال بچوں کی اور اساتذہ کو طلبا کی مناسب حد میں رہتے ہوئے تادیب اور سر زنش کی اجازت دی ہے ، بچوں کے لیے دعا خیر بھی ان کا ایک حق ہے ،اپنے بچوں کے لیے بھی اور قوم کے بچوں کے لیے بھی، کیوں کہ دعا بہرحال اثر رکھتی ہے ، قرآن مجید میں بعض انبیاء کی دعائیں ذکر کی گئی ہیں، جن میں الله تعالیٰ سے اولاد کی صالحیت اور حق پر استقامت کا ذکر آیا ہے، اس سلسلہ میں مشہور محدث اورصاحب دل امام عبدالله بن مبارک کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں گانے بجانے اور عیش وعشرت میں مست رہتے تھے، یہاں تک کہ شراب بھی منھ سے لگ گئی تھی، آپ کے والدین کو اس پر بڑی کڑھن تھی اور دن رات رو رو کر الله سے دعائیں کرتے تھے، اسی درمیان جب ایک دن عیش ونشاط کی بزم آراستہ تھی اور شراب کا دور چل رہا تھا کہ آپ کی آنکھ لگی گئی اور آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک خوب صورت باغ ہے، جس میں ایک ٹہنی پر پرندہ بیٹھا ہوا ہے او اوروہ اس آیت کو پڑھ رہا ہے، ترجمہ: ” کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل الله کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں۔“ (الحدیث:16) امام عبدالله بن مبارک بے چین ہو کر اٹھے، ان کی زبان پر تھا کہ خدایا!وہ وقت آگیا، پھر تو اسی وقت جام چکنا چور کر دیے، رنگین کپڑے اتار پھینکے، غسل کیا اور خدا کے حضور توبہ کی، یہاں تک کہ علم ومعرفت کے اُفق پر خورشید بن کر چمکے کہ شاید ہی کوئی محدث اور فقیہ ہو، جس نے ان کی علمی عظمت اور فضل وتقویٰ کا اعتراف نہ کیا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ والدین کی دعا کا اثر تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ مشینی دور میں بچوں کو سرپرست اپنا وقت نہیں دے پاتے ،جو بچوں کے لیے سب سے اہم ضرورت ہے، وہ باپ اور بزرگوں کی سچی محبت سے محروم ہیں اور بچوں کی تربیت کے پہلو پر بے توجہی عام ہے ،کتابوں کی دکانوں پر ایسی کتابوں کی بھر مار ہے جس سے بچوں کے اخلاق بگڑتے ہیں ، لیکن ایسا لٹریچر مقدار اور معیار کے اعتبار سے بہت کم ہے، جو بچوں کی فطری او راخلاقی تربیت کا سروسامان ہو، دوسرے ذرائع ابلاغ بھی بچوں میں تعمیری رحجان پیدا کرنے کے بجائے تخریبی اور غیر اخلاقی میلان پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں ، اس لیے بچوں کا حق صرف یہ نہیں کہ ان کے لیے خورد ونوش کا انتظام کر دیا جائے ، بلکہ ان کے لیے اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو معلم اخلاق بنایا جائے اور لوگوں کو یہ بات سمجھائی جائے کہ بچوں کے لیے کمانا ہی سب کچھ نہیں، بلکہ بچوں پر اپنے وقت کا صرف کرنا بھی بنیادی اور اہم ہے اور ان کو اس سے محروم رکھنا ان کے ساتھ ناانصافی اور حق تلفی ہے # لے لے کے خدا کا نام چلاّتے ہیں پھر بھی اثر دعا نہیں پاتے ہیں کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز کرتے نہیں پرہیز دوا کھاتے ہیں |
انسان کی فطرت میں بنیادی طور پر خیر کا غلبہ ہے، اسی لیے ہر شخص سچائی، انصاف، دیانت داری، مروت اور شرم وحیا کو قابل تعریف سمجھتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جھوٹ، ظلم، خیانت، بے مروتی او ربے حیائی کو ناپسند کرتا ہے، یہاں تک کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص اس کو جھوٹا کہہ دے تو اس سے اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات یہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان بعض دفعہ بے حیائی کا کام کرتا ہے ؛ لیکن اپنے عمل پرپردہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ، یہ دراصل فطرت کی آواز ہے؛ اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام پر پیدا ہوتا ہے، یعنی الله کی فرماں برداری کے مزاج پر پیدا کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں:” کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یھودانہ، اوینصرانہ، او یمجسانہ․“(بخاری:1395) 1/185) لیکن خارجی حالات کی وجہ سے بہت دفعہ انسان اپنی اصل فطرت سے ہٹ جاتا ہے، اس کا رحجان گناہ کی طرف بڑھنے لگتا ہے، ظلم وناانصافی، بے حیائی وبے شرمی، کبروغرور اور دوسروں کی تحقیر سے اس کے قلب کو تسکین ملتی ہے، یہ انسان کی اصل فطرت نہیں ہے ؛ بلکہ خارجی عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والا انحراف ہے! جو خارجی عوامل انسان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو ہیں: ایک: ماحول، دوسرے: تعلیم، تعلیم کامطلب تو واضح ہے، ماحول کے اصل معنی گردوپیش کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان رہتا ہے، فکر ونظر او رعملی زندگی میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، پانی کی اصل فطرت ٹھنڈا ہونا ہے، وہ نہ صرف خود ٹھنڈا ہوتا ہے ؛ بلکہ دوسرے کو بھی ٹھنڈک پہنچاتا ہے ؛ لیکن جب سخت گرمی او رتپش کا موقع ہوتا ہے اور دُھوپ کی تمازت بڑھی ہوئی ہوتی ہے تو پانی بھی گرم ہو جاتا ہے او رپینے والوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی، اسی طرح انسان پر اس کے ماحول کا اثر پڑتا ہے۔ اگر اس کو نیک، شریف، با اخلاق لوگوں کا ماحول میسر آجاتا ہے تو اس کی فطری صلاحیت پروان چڑھتی ہے اور اس کی خوبیاں دو چند ہو جاتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے پانی میں برف ڈال دیا جائے کہ اس سے اس کی ٹھنڈک اور بڑھ جاتی ہے اور یہ پانی پیاسوں کے لیے اکسیر بن جاتا ہے ، اگر اس کو غلط ماحول ملے تو اس کے اندر جو خوبیاں تھیں وہ بھی بتدریج ختم ہو جاتی ہیں، اس کی مثال اس صاف شفاف پانی کی ہے، جس کے اندر کسی نے گندگی ڈال دی ہو۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ماحول کی اہمیت او راس کے اثرات کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نیک آدمی کی مثال اس شخص کی ہے جو مشک رکھے ہوا ہو، اگر تم کو اس سے مشک نہ مل سکے تو خوشبو تو مل جائے گی اور خراب آدمی کی دوستی وہم نشینی کی مثال بھٹّی دُھونکنے والے کی ہے، اگر تمہارا کپڑا نہ جلے تو کم سے کم اس کے دُھوئیں سے نہ بچ سکو گے۔ (بخاری،باب المناسک) ماحول کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن وحدیث میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ انسان اچھے ماحول میں رہے اور خراب ماحول سے اپنے آپ کو بچائے، الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم راست گو اور راست عمل لوگوں کے ساتھ رہا کرو: ﴿کونوا مع الصادقین﴾․(توبہ) مدینہ تشریف لانے کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے تمام مسلمانوں پر یہ بات واجب قرار دی گئی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کو چھوڑ کر مدینہ میں آکرمقیم ہو جائیں، چناں چہ جزیرة العرب کے طول وعرض سے صحابہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں آباد ہو گئے، ہجرت کرنے والوں کی تعداد چند سوتھی؛ لیکن فتح مکہ کے موقع پر جو لوگ آپ کے ہم رکاب تھے، ان کی تعداد دس ہزار تھی، اور ظاہر ہے کہ فتح مکہ کی مہم میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ مدینہ بالکل خالی ہو جائے، بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کے علاوہ بہت سے جوان بھی مدینہ میں موجود رہے ہوں گے ؛ تاکہ مدینہ کا تحفظ خطرہ میں نہ پڑ جائے، ان میں بیشتر لوگ ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے، ہجرت کے حکم کا بنیادی سبب یہی تھا کہ لوگوں کو ایک معیاری دینی ماحول ملے، یہ ماحول ہی کا اثر تھا کہ جو لوگ ظلم وجور، قتل وقتال، بے حیائی وبے شرمی اور شراب وکباب کے لیے مشہور تھے، انہوں نے ایک ایسی بلند پایہ سوسائٹی کا نقشہ چھوڑا کہ انبیائے کرام کے سوا زمین کے سینے پر اور آسمان کے سائے میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی، یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بافیض صحبت اور ماحول کا اثر تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مختلف طریقوں پر ماحول سازی کا حکم دیا ہے جیسا کہ گذرا، آپ نے اچھے لوگوں کی صحبت اختیا رکرنے کی ترغیب دی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ فرض نمازوں کے علاوہ وہ دوسری نمازیں گھروں میں پڑھو، یہ افضل طریقہ ہے۔(بخاری) حضرت عبدالله بن عمر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو، اس کو قبرستان نہ بناؤ۔ ( مسلم) فقہاء نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ فرض نمازوں کے پہلے اور بعد میں جو سنن مؤکدہ ہیں، انہیں گھر میں ادا کریں۔ (حاشیة الطحطاوی:1/30) غور کیجیے کہ مسجد سے زیادہ پاکیزہ جگہ کون سی ہو سکتی ہے او رنماز جیسی عبادت کے لیے کون سا مقام ہے جو اس سے زیادہ موزوں ہو؛ لیکن اس کے باوجود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سنن ونوافل کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا، بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی وجہ سے گھر کا ماحول دینی بنے گا، بچے جب اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے ہوتے دیکھتے ہیں تو اکثر وہ ان کی نقل کرنے لگتے ہیں او رنماز کی اہمیت ان کے تحت الشعور میں بیٹھ جاتی ہے۔ اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی ہے، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ؛ بلکہ اس میں تلاوت کیا کرو، خاص کر سورہٴ بقرہ کی کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے، شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ ( مسلم) گھر میں تلاوتِ قرآن ایک ایسا عمل ہے جو ماحول بنانے میں بہت مؤثر ہوتا ہے، گھر کے بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمیں قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں ذکر کرنے کی فضیلت بیان کی ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں الله کا ذکر کیا جاتا ہے او رجس گھر میں الله کا ذکر نہیں ہوتا ہے، ان کی مثال زندہ اورمردہ شخص کی ہے ۔ ( مسلم) اسی طرح اس بات کو بھی بہتر قرار دیا گیا ہے کہ گھر میں کوئی جگہ نماز کے لیے مخصوصی کر لی جائے، اگر گھر میں نماز پڑھنی ہو تو وہیں نمازپڑھی جائے، اس کو حدیث وفقہ کی کتابوں میں ” مسجد البیت“ سے تعبیر کیا گیا ہے، ماحول کو بگاڑ سے بچانے کی تدبیر کے طور پر شریعت کے اس حکم کو دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے مکان یا زمین کے پڑوس میں مکان یا زمین فروخت کی جائے تو پڑوسی کو اس میں حق شفعہ حاصل ہوتا ہے، اگر پڑوسی وہی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو، جو قیمت دوسرا دے رہا ہو تو اس کو اس پڑوسی کے ہاتھ ہی بیچناواجب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی ہدایت فرمائی۔ ( سنن ابی داود:3518) ماحول کا اثر یوں تو ہر سن وسال کے لوگوں پرپڑتا ہے ؛ لیکن بچوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، انسان کے جسم میں سب سے پہلے دماغ کی نشو ونما ہوتی ہے اور دماغ کی ترقی کا مرحلہ تیز رفتاری کے ساتھ طے پاتا ہے، اسی لیے بچوں میں کسی بات کے اخذ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ بولنے والوں سے الفاظ سیکھتا ہے، چلنے والوں سے چلنے کا انداز سیکھتا ہے، اپنے بڑوں سے اُٹھنے بیٹھنے او رکھانے پینے کے طریقے سیکھتا ہے، گانے سن کر گنگناتا ہے، گالیاں سن کر گالیاں ہی اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں او راگر اچھی باتیں سنے تو ان کو دہراتا ہے، اگر باپ کو نماز پڑھتے ہوتے دیکھتا ہے تو رُکوع وسجدے کی نقل کرتا ہے، مسجد جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو مسجد جانے کی کوشش کرتا ہے، لڑکے اپنے والد کے سر پر ٹوپی دیکھ کر ٹوپی پہننا چاہتے ہیں اور لڑکیاں اپنی ماں کے سر پردوپٹہ او رجسم پر برقعہ دیکھ کردوپٹہ اوربرقعہ پہننا چاہتی ہیں، غرضیکہ اس کا ذہن تیزی سے ماحول میں پیش آنے والی چیزوں و کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ موجودہ حالات میں صورتِ حال یہ ہے کہ بچہ صبح سات بجے اسکول جانے کی تیاری کرتا ہے او رشام پانچ بجے یا اس کے بعد گھر واپس آتا ہے ، جانے سے پہلے کا وقت سونے اور تیاری کرنے میں گذر جاتا ہے، واپسی کے بعد بھی مغرب تک کا وقت کھیل کود وغیرہ میں، گویا ان کا پورا دن اسکول کے ماحول میں گذرتا ہے، مغرب کے تین ساڑھے تین گھنٹے کے بعد بچے سو جاتے ہیں ؛ کیوں کہ ان کی عمر کے لحاظ سے انہیں آٹھ گھنٹہ سونا چاہیے، اس تین چار گھنٹے میں انہیں اسکول کا ہوم ورک بھی کرنا ہے او رکھانا پینا بھی ہے ؛ اس لیے بہت کم وقت ایسا بچتا ہے، جس میں وہ اپنے والدین او ربھائی بہنوں کے ساتھ بیٹھیں، کچھ وقت مغرب کے بعد او رکچھ وقت فجر کے بعد، عمومی صورت حال یہ ہے کہ والد آفس اور کاروبار سے اتنی دیر سے آتے ہیں کہ بچے نیند کی آغوش میں جاچکے ہوتے ہیں، ماں کھانا پکانے اور اگر خدانخواستہ ٹی وی دیکھنے کا شوق ہو تو ٹی وی دیکھنے میں اپنا وقت گزار دیتی ہیں، اکثر بچوں کے لیے ماں باپ کے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا۔ اسکول کا ماحول یہ ہے کہ اگر عیسائی مشنری اسکولوں میں گئے تو وہ صبح سے شام تک عیسائی طور طریقوں کو برتتے ہوئے دیکھتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر اس طرح آویزاں ہوتی ہے کہ گویا وہ خدا ہیں اور بندوں پر اپنا دست کرم رکھ رہے ہیں، ہندو انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں داخل ہوئے تو وہاں مورتیاں ہیں، وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ ہے، ہندوتہوار منائے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ بچوں پر ہندو آئیڈیالوجی نقش ہو کر رہ جائے، مسلم انتظامیہ کے تحت جو اسکول ہیں ان میں معیار تعلیم کے پست ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا فقدان ہے، مخلوط تعلیم کا نظام ہر جگہ ہے، یونی فارم شرم وحیا کے تقاضا سے آزاد ہے، کلچرل پروگرام کے نام سے بے ہودہ ڈرامہ کرایا جاتا ہے اور لڑکیاں رقص کرتی ہیں، چند ہی مسلم ادارے اس سے مستثنیٰ ہیں اور وہ بہرحال قابل تحسین اور لائق تشکر ہیں۔ ان حالات میں ماں باپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں دینی ماحول بنائیں، چھٹی کے اوقات اور بچوں کی تعطیل کے ایام اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں، ان اوقات میں انہیں ضروری دینی باتیں سکھائیں او رسمجھائیں، نماز اور تلاوتِ قرآن کا ماحول بنائیں ، گھر کی خواتین ڈھکا چھپا باپردہ لباس پہنیں، گھر کے بڑے مرد وعورت آپسی گفتگو میں تہذیب وشائستگی او رباہمی ادب واحترام کا لحاظ رکھیں، زبان کی حفاظت کریں او رکوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں جس میں بچوں سے تربیت کی باتیں کہی جاسکتی ہوں، موجودہ حالات میں اگر ہم نے بچوں کو دین واخلاق سے ہم آہنگ ماحول فراہم نہیں کیا تو آئندہ نسل کے لیے بڑا خطرہ ہے؛ کیوں کہ ہمارا تعلیمی نظام بھی دین واخلاق سے بیگانہ ہے او رتعلیم گاہ کا ماحول بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہے، ان حالات میں اگر والدین نے بچوں کو مناسب ماحول فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی تو یہ بچوں کے ساتھ یقینا بڑا ظلم ہے اور ان کے والدین وسرپرست عندالله جواب دہ ہیں۔ |
اولاد کی تربیت
|
اولاد الله تعالیٰ کی منجملہ نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے اور دنیوی زندگی کی زیب وزینت ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿المال والبنون زینة الحیاة الدنیا﴾یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے رب کائنات سے درخواست کی﴿رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ﴾․ (سورة الصافات:100 و101)۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی﴿وَإِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِن وَرَائِیْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً فَہَبْ لِیْ مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً،یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیّاً، یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً﴾․(سورة مریم آیت:5،7) الله تعالیٰ کے مخصوص بندوں کی پکار بھی یہی رہی ہے﴿رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُن﴾․(سورة الفرقان، آیت:74) بعض مضمون نگاروں نے بھی لکھا ہے کہ”اشھی ثمرات الحیاة الی الانسان: الاولاد“ انسان کے نزدیک پوری زندگی کی مرغوب اشیا میں سب سے مرغوب چیز اولاد ہے۔ اور یہی زندگی کا خوش گوار پھل ہے۔ تعمیر ارض ان ہی پر منحصر ہے اوریہی تخلیق کائنات کا منشا ہے۔ ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی الله عنہ اپنے بیٹے یزید پر ناراض ہوئے تو احنف نے کہا: اے امیر المومنین!”اولادنا ثمار قلوبنا وعماد ظہورنا“ اولاد ہمارے دلوں کے ثمرات ہیں اور کمر کے ستون ہیں۔ امام غزالی نے فرمایا”الصبی امانة عند والدیہ وقلبہ الطاہر جو ہرة نفسیة ساذجة خالیة من کل نقش وصورة، وھو قابل لکل ما نقش علیہ…“ اولاد والدین کے نزدیک ایک امانت ہیں، جن کے قلوب سادہ لوح کی مانند ہیں، جو چیز نقش کرنا چاہیں کر لیں۔ مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوا کہ اولاد الله رب العزت کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جب اولاد نعمت ہیں تو ان کی قدر کرنی چاہیے، ان کی قدر یہی ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے ”توحید“ کی تعلیم دیں۔ بچوں کی شروع سے ہی ایسی اسلامی تربیت کریں کہ کہ زندگی کی آخری سانس تک ” موحد“ رہیں۔ ان کا عقیدہٴ توحید زندگی کے کسی موڑ پر نہ لڑکھڑا ئے۔ بچوں کے ذہن پر ایام طفولت سے یہ نقش کر دیں کہ جس ذات کی ہم عبادت کرتے ہیں ، اس کا نام الله ہے، وہ اپنی ذات وصفات میں منفرد ہے ، اس جیسی کوئی چیز نہیں ، اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں، ساری کائنات کا نفع ونقصان، موت وحیات، بیماری وشفا، اس کے دست قدرت میں ہے۔ وہ غنی ہے، سب اس کے محتاج ہیں۔ ماں کے لیے ضروری ہے کہ جس وقت بچے بولنا سیکھیں سب سے پہلے انہیں اپنے خالق ومالک ” الله“ کا مبارک نام سکھائے، پھر کلمہ توحید”لا الہ الله“ سکھائے۔ حضرت عبدالله بن عباس کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”افتحوا علی صبیانکم اول کلمة بلا الہ الا الله․“ (رواہ الحاکم) اپنے بچوں کی زبان سب سے پہلے ”لا الہ الا الله“ سے کھلواؤ۔ بچہ جب تھوڑا سا سمجھنے لگے تو اس کی سمجھ کے مطابق اسے حلال وحرام کی تعلیم دیں۔ حضرت عبدالله بن عباس فرماتے ہیں:”اعملوا بطاعة الله، واتقوا معاصی الله، ومروا اولادکم بامتثال الاوامر واجتناب النواھی، فذلک وقایة لھم ولکم عن النار․“ (رواہ ابن جریر) الله کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے باز رہو۔ اپنی اولاد کو احکامات الہیہ کو بجالانے کی تلقین کرو اور محرمات سے متنبہ کرو، اسی میں تمہارے او رتمہاری اولاد کے لیے بچاؤ ہے، عذاب نار سے۔ جیسا کہ خود الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارا﴾․( سورة التحریم، آیت:6) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ۔ حضرات فقہاء اسی آیت سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے او راس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن) حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”مروا اولادکم بالصلاة وھم ابناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وہم ابناء عشر، وفرقوا بینھم المضاجع․“ (ابوداؤد) بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کر دیں۔ عام طور پر بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار ہو جاتے ہیں، اس وقت ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہیے او ران کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے، دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی پختہ ہو جاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آجاتا ہے، اس لیے نماز کے معاملہ میں ان پر سختی کرنی چاہیے، نیزاس عمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ لٹانا چاہیے، ایک ساتھ ایک بستر پر لٹانے میں مفاسد کا اندیشہ ہے۔ یعنی لڑکا ماں کے ساتھ اور لڑکی باپ کے ساتھ نہ لیٹے، اسی طرح دس سال کی عمر سے زیادہ کے بھائی بہن بھی ایک ساتھ نہ لیٹیں۔ اولاد کے متعلق باپ کی ذمہ داری اولاد کی تعلیم وتربیت میں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے، اس لیے باپ ہی سے فطرةً اولاد ڈرتی ہے اور لحاظ کرتی ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:” کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ، والامیر راع، والرجل راع علی اہل بیتہ، والمراةٴ راعیة علی بیت زوجھا وولدہ․“(متفق علیہ) رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اس کی ذمے داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا ، عورت اپنے شوہر کے گھر او ربچوں کی ذمہ دار ہے۔ ”عن ابی موسی الاشعری رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما نحل والد ولدا عن نحل افضل عن ادب حسن․“(ترمذی) اس حدیث میں سب سے بہترین تحفہ اولاد کے لیے ادب حسن بتلایا گیا ہے۔ ”عن ابن عباس عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اکرموا اولادکم، واحسنوا ادبھم․“ (ابن ماجہ) اس حدیث میں اولاد کی عزت او راچھی تربیت کا حکم دیا گیا ہے۔ ”عن علی قال: علموا اولادکم واھلیکم الخیر وادبوھم․“ حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے اہل وعیال کو بھلائی کی تعلیم دو اور انہیں ادب سکھاؤ۔ ”عن ابن عباس عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ، ویحسن اسمہ․“ (البیہقی) اس حدیث میں باپ کی ذمہ داری اچھا نام او رادب حسن بتلائی گئی ہے۔ حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت کی اور ارشاد فرمایا: الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے او رجلا دیا جائے ، ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو، اگرچہ وہ دونوں حکم دیں کہ اپنے بال بچوں اور مال ودولت کو چھوڑ کر الگ ہو جاؤ، فرائض نماز کو جان بوجھ کر بھی نہ چھوڑنا، کیوں کہ جس نے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی اس سے الله کا ذمہ بری ہو گیا۔ ( یعنی الله کے امن وامان سے وہ محروم ہو گیا) شراب کبھی نہ پیو، اس لیے کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ الله تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو، اس لیے کہ نافرمانی کی وجہ سے الله کا غضب نازل ہوتا ہے۔ میدان جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگنے سے بچو، اگرچہ تمام لوگ شہید ہو جائیں، جب لوگ کسی وبا کی وجہ سے مر رہے ہوں او رتم اس بستی میں موجود ہو تو ٹھہرے رہو، موت کے خوف سے مت بھاگو ، اپنے بچوں پر گنجائش کے مطابق خرچ کرتے رہو، تربیت کی غرض سے اپنی لاٹھی اپنے گھر والوں سے نہ اٹھاؤ۔ الله تعالیٰ کے احکام کے بارے میں ان کو ڈراتے اور سمجھاتے رہو۔ ( رواہ احمد فی مسندہ) یعنی اپنے اہل وعیال کو خلاف شرع باتوں پر عذاب لہی سے ڈراتے اور سمجھاتے رہو،تاکہ خواہش نفس سے مغلوب ہو کر وہ اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھیں۔ اس حدیث میں بچوں پر گنجائش کے مطابق خرچ کرنے او رتعلیم وادب حسن کے لیے لاٹھیوں کا سہارا لینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے اولاد کی بر وقت مناسب پٹائی بھی کرنی چاہیے، تاکہ وہ خلاف شرع عادتوں سے اجتناب کریں۔ لہٰذا جس نے اپنی اولاد کے لیے مذکورہ بالا ہدایات پر عمل کیا اور اپنی اولاد کو دینی تعلیم وتربیت سے مالا مال کیا وہ دنیا میں بھی کام یاب ہے اور آخرت میں بھی کام یاب ہے۔ دنیوی کام یابی آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ ایک نمونہ بن جائے گا او رآخرت کی کام یابی یہ ہے کہ الله تعالیٰ ان کو اعزاز واکرام سے نوازے گا۔ حضرت عبدالله بن عمر کی روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عدل وانصاف کرنے والے حضرات الله تعالیٰ کے یہاں نور کے منبروں پر ہوں گے او رالله تعالیٰ کے دائیں طرف ہوں گے۔ اور الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہ حضرات ہیں جو اپنے فیصلوں میں ، اپنے اہل وعیال کے معاملات میں او راپنے اختیارات میں عدل وانصاف سے کام لیتے ہیں ۔ (مسلم) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن کریم پڑھنے والے او راس پر عمل کرنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اور چمک سورج کی روشنی او رچمک سے بھی زیادہ ہو گی ۔ تو خود قرآن پڑھنے والے او راس پر عمل کرنے والے کو کتنا عظیم ثواب دیا جائے گا؟ نیک صالح اولاد کے اخروی ثمرات میں سے جنت کا بلند مقام حاصل کرنا بھی ہے ۔ یہ اعزارواکرام ہی ہے ،جب والدین اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کرتے ہوں گے۔ حضرت نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ ان کے والد اُن کو لے کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور کہا، میں نے اس لڑکے کو اپنا ایک غلام عطا کیا ہے۔ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اپنے سارے لڑکوں کو اسی طرح دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنا عطیہ لوٹا لو۔ (متفق علیہ) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں اس کا لڑکا آیا۔ اس نے اسے پیار کیا او رپھر گود میں بیٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی لڑکی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا۔ یہ دیکھ کر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم نے دونوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔ دیکھیے کس قدر انصاف کا حکم ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ |
اولاد کی تعلیم و تربیت کے دو مدرسے
ایک مدرسہ ماں کی گود ہے، جہاں اس کی تربیت ہوتی ہے، یہاں معلمہ مربیہ خود اس کی ماں ہوتی ہے اور یہی بچہ کا پہلا مدرسہ ہے، اس مدرسہ میں جیسی تربیت ہوگی اسی طرح کے اثرات بعد کی زندگی میں مرتب ہوتے چلے جاتے ہیں اور دوسرا مدرسہ درودیوار کا مروجہ مدرسہ ہے، جہاں اس کا مربی معلم اور استاذ ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں ماں باپ بچوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر صدقہ کرایا کرتے تھے، تاکہ ان کے دل سے مال کی محبت نکلے ،بخل کی عادت نہ ہو، اور غریبوں کی ہم دردی کا مزاج بنے، اس طرح بچپن ہی سے نمازوں کا شوق وذوق ان کے اندر پیدا کرتے تھے، خو د حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تواسے نماز پڑھنے کو کہا جائے اور جب دس برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو تنبیہ کی جائے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت کی فکر حمل کے زمانے ہی سے کرتی رہیں، آج کتنے ماں باپ ایسے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد سے شکایت ہے کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ماں باپ کے علاوہ سب کی بات سنتی ہے، یہ بھی تو دیکھو کہ آپ نے اسی طرح تربیت کی تھی، یا نہیں؟ پہلے زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ اولاد بنے گی تو میری وجہ سے، بگڑے گی تو میری وجہ سے، اس زمانے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بنے گی تو خود بنے گی اور بگڑے گی تو خودبگڑے گی، جس کا نتیجہ لامحالہ یہی نکلے گا کہ اولاد تو بھگتے گی ہی، ماں باپ کو بھی بھگتنا پڑے گا، آج کل اولاد کی وجہ سے لوگ کتنے پریشان ہیں؟ اس کی وجہ صحیح تربیت نہ ہونا ہے، جب کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، بہر حال آج کا سب سے بڑا المیہ اور فکر یہ ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے صالح معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے اور جب صالح معاشرہ وجود میں نہیں آئے گا تو جرائم کی کثرت ہوگی۔
بچپن کی صحیح تربیت مستقبل میں کام یابی کی ضمانت
بچپن کی مثال ہمیشہ کمہار کی کچی مٹی سے دی جاتی ہے، بچوں کے کمہار اساتذہ اور والدین ہوتے ہیں، ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر مستقبل میں ملک وملت کا نام روشن کریں، کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ناکام ہوں، یہ فرض ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کریں اوراس کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، بلکہ صحیح اور منظم طریقہ سے ہم ایسی عادات کا بچوں کو خوگر بنائیں ،جس کے وہ عادی ہوجائیں، مثلاً معمولی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہ کریں، بیجا لاڈ پیار کی وجہ سے بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگذر نہ کریں، کھیل کود کے لیے وقت مقرر کریں، بچپن ہی سے نماز کی عادت ڈلوائیں، صحابہ کرام کے سچے واقعات سنائیں، ادعیہ مسنونہ یاد کرائیں ،اگر مائیں اس طرح کا نظم وضبط کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کو اچھی اچھی عادات اور اطوار کی عادی بنائیں گی تو جلد ہی اس کا اچھا اثر بچوں میں ملاحظہ فرمائیں گی، کیوں کہ مستقبل میں یہی عادتیں کام یابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔
نئی نسل کو اسلامی ماحول اور دینی تربیت کی ضرورت
آج مسلمانوں کے بچے دینی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے کافی پستی میں ہیں اور ان بچوں کے حق میں دین سیکھنے کا دروازہ بند ہوتا جارہا ہے، چوں کہ عصری تعلیم میں مذہبی عقائد کا ذکر نہیں ہے، مسلمانوں کے بزرگوں اور دینی پیشواؤں کا تذکرہ نہیں ہے اور اسکولی نصاب میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے عقیدوں کے خلاف ہیں، اس میں دوسرے مذہب کے پیشواؤں کا تذکرہ اس انداز سے ملتا ہے کہ پڑھنے والے بچوں کے دلوں میں ان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے اور بچوں کے سادہ ذہن پر دوسرے مذہب کے خیالات اور عقیدوں کی چھاپ لگ جائے ،انسانی فکر پرتعلیم کے ساتھ ساتھ ماحول کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات ماحول کا اثر تعلیم سے بھی بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ اسکولوں میں ہندو مذہب کی بنیاد پر تیار شدہ ڈرامے، ناچ گانے کی مشقیں ، کہیں کہیں رام لیلا اور دوسرے ہندو تہواروں کے منانے کے لیے خصوصی پروگرام، غرض کہ پورا ماحول بچے کے ذہن پر اثر ڈالتا ہے اور بتدریج اپنے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ بچوں کو اسکول میں داخل کرادینے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں اور پھر سوائے فیس ادا کرنے یا امتحان پر بچوں کا نتیجہ معلوم کرلینے کے وہ بچوں کی دینی واخلاقی نگہ داشت کے بارے میں کوئی تعلق نہیں رکھتے۔
تادیب میں احتیاط
ماہرین کا کہنا ہے کہ مار پیٹ بچوں کی نشو ونما کے لیے نقصان دہ ہے، حد سے زیادہ زد وکوب بچوں کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اگر چہ والدین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کی اصلاح کے لیے انہیں ہلکی پھلکی سزا دیں، لیکن مارپیٹ اور جسمانی تشدد نہیں کرنا چاہیے، اس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بچوں کی نشوو نما میں مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور بچے ذہنی معذوری کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی، جس طرح چاہے، پٹائی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک تو اب قویٰ کمزور ہوگئے ہیں، بچوں میں تحمل نہیں رہا، ایک آدھ چھڑی لگادی تو الگ بات ہے، مگر ان پر غصہ نہیں نکالنا چاہیے، آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا حساب بھی ہوگا۔
شیخ العجم والعرب حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سہارن پوری کو ایک صاحب نے خط لکھا کہ میں بچوں کو بہت مارتا ہوں؟ حضرت شیخ نے جواب دیا ”قیامت کا انتظار کرو“ کیا مطلب؟ قیامت کے دن تو حساب دینا پڑے گا، اس کی نافرمانی اور تمہاری سزا دونوں تو لے جائیں گے، اور انصاف کیا جائے گا ۔اس لیے بچوں کو زدوکوب کرنے سے پہلے اس کی سزا کا تصور بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
والدین کی عادات بچے جلد سیکھتے ہیں
بچے کی اچھی تربیت جہاں ان کے کام یاب مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، وہیں یہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے، بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اہم ترین ہوتا ہے ،بچہ کم عمری میں اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت محتاط رہنا چاہیے، ناپسندیدہ کاموں سے گریز کرنا چاہیے، بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرنا ہو تو نصیحتوں کے ساتھ ساتھ خود بھی اس سے پرہیز کرنا چاہیے، آپ دیکھیں گے کہ بچے سچ بولنے کے عادی ہوجائیں گے۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بچے اپنے والدین کی بری عادتیں جلدی سیکھ لیتے ہیں ،یہ تحقیق ایک سال تک جاری رہی۔ بہر کیف جوو الدین اپنے بچوں کو اچھے اور برے کے بارے میں بتاتے ہیں اگر وہ خود ہی ناپسندیدہ عادات کے مالک ہوں تو بچوں کی تربیت کیسے درست انداز میں کرسکیں گے؟!
بچوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت
بچوں میں قیادت کی صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے، ماہرین نفسیات کے مطابق اگر بروقت بچوں کو صحیح مواقع فراہم کردیے جائیں توجملہ صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے، نیز بچوں کی کوششوں کی تعریف ان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، ماں باپ کا تلخ رویہ بچے کے اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے، اپنے خیالات کو بچے پر مسلط نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس میں پوشیدہ صلاحیتیں باہر نکالنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ،بچے کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں سامنے رکھتے ہوئے اس کے مزاج و طاقت کو پرکھ کر ہی اسے ہدایت دینا چاہیے، صلاحیت سے زیادہ توقعات رکھنے سے بچنے میں احساس کمتری پیدا ہونے لگتی ہے ،ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں پر کلاس میں اول پوزیشن لانے کا دباؤ کبھی نہیں ڈالنا چاہیے، مزید دباؤ ڈالنے کی صورت میں کبھی کبھی بچے خود سوزی اور خود کشی تک کرلیتے ہیں، مختلف سوالات کا نام بچپن ہے، بچے ہر پل کچھ نیا جاننا یا سمجھنا چاہتے ہیں، والدین مصروفیت کے باوجود بچوں کے سوالات کے جواب دیں، جھڑکیں نہیں ،بچوں کے سوالات کا صحیح جواب دینا ہی انہیں صحت مند علم فراہم کرے گا۔
تعلیم کے ساتھ تربیت اور بڑوں کا احترام زندگی کا جزءِ لاینفک ہے، ورنہ تعلیم سے خاک فائدہ ہوگا، اگرہم چاہتے ہیں کہ بچے بڑوں کا احترام کریں تو ہمیں بھی بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا پڑے گا، ان کے دوستوں کا بھی احترام واستقبال کرنا ہوگا، بچے کے دوست سے بھی بچے کی شکایت کرنا مناسب نہیں ہے، اس کے دوستوں کے سامنے اپنے بچوں کو ڈانٹنا، پھٹکارنا یا مارنا یا ان پر تنقید کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، بہر حال وقت کے پیش نظر مصلحت وحکمت کے ساتھ بچہ کو تربیت دیں۔
والدین کو اپنی اولاد کے روشن مستقبل اور مثالی انسان بنانے کے خواب کی تکمیل کے لیے ماحول کی اصلاح اور تعمیری خطوط پر ہونے والی کوششوں میں حصہ لینا بھی ضروری ہے، تاکہ بچے غلط راہ پر جانے سے ہر وقت محفوظ و مامون رہیں۔
بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کا مشفقانہ سلوک
تعلیم اور تربیت، دونوں ضروری
اولاد اللہ کی جانب سے یقینا والدین کے لیے بڑی نعمت ہیں، جس کا تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کے شکر گذار ہوں اور اپنی اولاد کی اچھے انداز میں پرورش وتربیت کریں۔ عام طور سے والدین اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کے سبب حتی الوسع ان کی سہولیات کا خیال کرتے ہیں اوربہت سے لوگ ان کی تعلیم وتربیت پر بھی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کام یاب ہوں اور ان کے بہترین وارث بنیں۔ لیکن موجودہ زمانہ کا المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنی اولاد کی پرورش و تربیت اس طور پر کرنے لگے ہیں جو بظاہر ان کے حق میں بہتر دکھائی دیتی ہے، مگر فی الواقع وہ حقیقی کام یابی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔مثلا بہت سے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ہر طرح کے تعیشات کی اشیا فراہم کرتے ہیں ، ان کے خرچ کے لیے بڑی رقمیں دیتے ہیں، جہاں وہ گھومنے کے لیے جانا چاہتے ہیں انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں، جس طرح کے کپڑوں کی خواہش کا وہ اظہار کرتے ہیں، مہیا کرتے ہیں۔آگے چل کرجس کایہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غلط راہوں میں بھٹکنے لگتے ہیں ۔اگر شروع سے ان کی صحیح خطوط پر پرورش کی جاتی ہے ، انہیں بے جاآزادی نہیں دی جاتی اور ان کی تمام خواہشات کو پورا کرنے کی بجائے یہ سوچا جاتا کہ کیاان کے حق میں بہتر ہے اور کیاغلط؟ تویہ صورت حال سامنے نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی پرورش بہتر طور پر محتاط انداز میں کریں۔
عصر حاضر میں یہ صورت حال بھی سامنے آرہی ہے کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کے لیے ایسی تعلیم کا بندوبست کر رہے ہیں جس کے مادی فوائد تو نظر آتے ہیں، لیکن روحانی واخلاقی اعتبار سے بچے کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے ۔مگر چوں کہ آج کل ہر چیز کو مادیت کے پیمانے پر تولا جارہا ہے ، اس لیے تعلیم دیتے ہوئے بھی اس چیز کو پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ مادی لحاظ سے اس تعلیم کا کیا فائدہ ہے؟ یاد رکھنا چاہیے کہ مال ودولت کا حصول حقیقی کام یابی نہیں ہے، اس سے دنیوی زندگی میں قدرے سہولیات تو حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی حقیقی کام یابی بھی حاصل ہوسکے۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنی اولاد کے لیے ایسی تعلیم وتربیت کا بندوبست کیاجائے جو اسے حقیقی کام یابی سے ہم کنار کرنے والی ہو۔ والدین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی اولاد کے لیے اس بات کی فکر کریں کہ وہ جہنم کی آگ سے خلاصی پاجائیں ۔ کیوں کہ جہنم ایسا براٹھکانہ ہے جس کا ایندھن انسان ہوں گے۔ اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے: ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ“۔(تحریم 6) اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کو ایسی تعلیم و تربیت دیں جوانہیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔ کیوں کہ اس کا مقصد ہی انسان کو سیدھا راستہ دکھانا ، اللہ کی وحدانیت پر لوگوں کے یقین کو پختہ بنانا اور اس بات کوواضح کرنا ہے کہ ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے ، محض اللہ کی ذات باقی رہنے والی ہے ، اس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے ، وہی رازق ومالک ہے ، اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چناں چہ وہی عبادت کے لائق ہے ، اس کے احکام کی پیروی لازمی ہے اور اس کے مبعوث کیے ہوئے دین پر چلنے میں ہی فلاح یابی ہے اور ہر انسان کو بالآخر اس کی طرف لو ٹنا ہے۔ رب کائنات پر مضبوط یقین اور اس کے بھیجے ہوئے انبیاء ورسل پر اعتقاد کامل کے بعد انسان کی فلاح کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں اور وہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے لگتا ہے ۔ اس کے برعکس مادی علوم و فنون کے بارے میں پورے طور سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی ۔ خاص طور سے وہ نظام جو لینن، مارکس ، ڈارون ، فرائڈجیسے لوگوں نے پیش کیے ، وہ انسان کو اس کے حقیقی مقصدسے ہٹاکر محض مادیت پسند بناتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جہاں محض تعلیم ہے ، مگر تربیت کا فقدان ہے ، وہاں تعلیم کے پورے نتائج سامنے نہیں آپاتے ۔ اگر تربیت بچپن سے ہی کی جائے تو اور زیادہ بہتر ہے۔ تربیت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ادارہ میں ہی کی جائے اور گھر پر بچہ کو آزاد چھوڑ دیا جائے ، بلکہ وہ تربیت جو گھر پر کی جاتی ہے ، عام طور سے زیادہ موثر و مضبوط ہوتی ہے پھر گھر پر تربیت کرنا زیادہ آسان بھی ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ والدین سب سے پہلے خود نیک ہوں اورجس چیز کی تربیت اولاد کودیں پہلے اس پر خود عامل ہوں ، بچے بہت سی باتیں اپنے والدین کی نقل وحرکت اور ان کے کاموں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب والدین کھانا سلیقہ سے کھاتے ہیں ، لقمہ بناتے ہیں ، اپنے آگے سے کھاتے ہیں ، بسم اللہ پڑھ کر کھاتے ہیں تو بچے بھی ویسے ہی کرتے نظر آتے ہیں ، والدین لباس پہنتے ہیں اور بچوں کو بھی وہی لباس پہناتے ہیں تو بچے بخوشی اسے پہن لیتے ہیں ۔ اگر والدین نماز پڑھتے ہیں تو وہ بھی نماز پڑھتے ہیں ۔ اگر بچپن میں والدین اپنے بچوں کو سلام کی عادت ڈلواتے ہیں، کلمے سکھاتے ہیں ، اچھے اچھے طریقہ بتاتے ہیں تو وہ بہت حد تک اپنے والدین کی باتوں اور ان کے ماحول کو اختیار کر لیتے ہیں ۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرہ کے بہت سے گھرانوں کا ماحول اس قدر آزاد ہوگیا ہے کہ اولاد پر اس کا اچھا اثر مرتب ہوتا نظرنہیں آتا ۔ والدین رات کو دیر تک جاگتے ہیں اور دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ بچوں کی بھی عادت اسی طرح کی پڑنے لگتی ہے ۔دن بھر گھروں میں ٹی وی چلتا رہتا ہے ، جسے والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ چھوٹے بچوں کو بھی ٹی وی دیکھنے کی عادت پڑجاتی ہے۔ ایک تو اس سے ضیاع وقت ہوتا ہے، دوسرے اس پربہت سی منفی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بہت سے والدین قسم قسم کے فیشن کے کپڑے خود بھی پہنتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی پہناتے ہیں ۔ بعض جگہ خواتین کے بے جا میک اپ اور ان کے فیشن سے بچے متاثر ہوتے ہیں اور بچیاں انتہائی کم عمر “میں میک اپ کرنے لگتی ہیں، جس کا نتیجہ بعد میں اچھا نہیں نکلتا ۔ اس لیے والدین کو تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں بہت زیادہ سنجیدہ و حساس ہونے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” باپ کا اپنے اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہی ہے کہ بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کرے“۔ اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے بھی دعا کریں ۔ ارشاد باری ہے ” اور میری اولاد میں صلا ح وتقوی دے “۔(احقاف15)”تقوی “انتہائی اہم چیز ہے، جس سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ، اس سے انسان کی افضلیت بڑھتی ہے ۔ ارشاد باری ہے ”بلاشبہ تم میں زیادہ مکرم اللہ کے نزدیک وہ ہے جو متقی ہے “حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اولاد سے بے انتہا محبت کر تے ہیں ، ان کے لیے اعلی سہولیات مہیا کرتے ہیں، ان کے لیے گاڑیاں خریدتے ہیں ، زمینیں خریدتے ہیں اور کشادہ مکانات بناتے ہیں ۔ تاکہ اولاد پریشان نہ ہو اور وہ آرام کی زندگی بسر کریں، مگر ان کی تعلیم کا بہتر بندوبست نہیں کرتے یا ایسی تعلیم دلانے میں عار محسوس کرتے ہیں جو ان کی دنیا و آخرت دونوں جہاں کی کا م یابی کے لیے ضروری ہے ۔ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ والدین ایسا کردار پیش کریں کہ نئی نسل کامیاب و بامراد ہو۔ نئی نسل کے تحفظ اور اور ان کی کام یابی کے لیے دین اسلام کس قدر زور دیتا ہے ،اس کا اندازہ اس آیت سے لگا یا جاسکتا ہے ، جس میں پروردگار نے ارشاد فرما یا ” اور اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ نسل کشی بہت ہی بڑا گنا ہ ہے “۔(بنی اسرائیل 31) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نسل کشی گناہ عظیم ہے اور اولاد کے قتل کی تمام شکلیں ناجائز ہیں ۔موجودہ دور میں والدین کے ہاتھوں اپنے بچوں کے قتل کے واقعات کی شرح فیصد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو ، مگر اولاد کی پیدائش روکنے کے لیے جوکوششیں چل رہی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں شریعت اسلامی ان کی اجازت نہیں دیتی۔ |
|
ماشاء اللہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ نے بہت عمدہ مواد تربیت اولاس پہ جمع کردیا ہے۔
ReplyDelete