یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
کیا ایسے لوگ عورت سے شادی کرکے ان کے حقوق ہمیشہ ادا کرتے رہنے والے ہوسکتے ہیں؟
مرد وعورت مثال میں برابر ہیں:
اسلام میں عورت کی تشبیہ-مثال:- لباس کی طرح
القرآن:
۔۔۔ وہ(بیویاں) لباسہیں تمہارے لئے اور تم لباس ہو ان(عورتوں)کے۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:187]
یعنی
(1)شرمگاہوں کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔
[حوالہ سورۃ النور:30+31، الاحزاب:35]
(2)جسم کو ڈھانکے کا
(3)زینت وسجاوٹ کا
(4)اور تقویٰ(پرہیزگاری-تہذیب) کا سبب (ہمیشہ ساتھ رکھنے کے قابل) ہیں۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:26]
(5)رات کو لباس بنایا[سورۃ الفرقان:47، النبا:10] تو بیوی کو رات کا ساتھی بنایا۔
(6)وہ تمہارے لیے سکون(ساتھ رہنے)کا سبب ہیں اور تم ان کے لیے سکون کا باعث ہو۔
[تفسير الطبري:2934، تفسير ابن أبي حاتم:1674، حاكم:3087]
(7)اپنائیت یگانگت:- ایک دوسرے سے مربوط اور لازم وملزوم ہوتے ہیں۔
[الجامع لأحکام القرآن،قرطبیؒ :۲/۳۱۴]
بیویوں کیلئے پیغمبر اکرم ﷺ کی وصیت:
عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا (کیوں) کہ عورت ایک خصلت(عادت) پر کبھی نہیں رہ سکتی۔
[احمد:9795-10856(9159-10436)]
(کیونکہ) عورت (فطرتاً) پسلی کی ہڈی کی طرح ہے۔۔۔
﴿اور اس پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے﴾
اگر تم اسے بلکل سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے(یعنی طلاق کی نوبت آ پہنچے گی)
﴿اور اگر تم نے اسے چھوڑ دیا تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔﴾
اور اگر تم اس سے (تعلق) بڑھانا چاہو گے تو اس کا ٹیڑھاپن برداشت کرتے ہوئے اس (کی خوبیوں) کے ساتھ بڑھانا ہوگا۔
[بخاری:5184]
﴿بخاری:5185، ترمذی:1188﴾
عورت پسلی کی ہڈی کی طرح ہے، اور وہ تجھ سے کبھی سیدھی نہیں چل سکتی، پس اگر تم اس سے(تعلق) بڑھانا چاہتے ہو تو بڑھالو، جبکہ اسکا ٹیڑھاپن اپنی جگہ قائم رہے گا، اگر تم نے اسے سیدھا کرنا چاہا تو اسے توڑدو گے، اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔
[مسلم:1468(3643)]
۔۔۔لہٰذا عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا۔
[بخاری:3331]
۔۔۔لہٰذا اس کے ساتھ اسی حال میں زندگی گذارو۔
[احمد:19239]
۔۔۔لہٰذا تم اس کا خیال رکھو (کیوں) کہ اسی میں عقلمندی اور بالغپن ہے۔
[دارمی:2124]
۔۔۔لہٰذا تم اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے زندگی گذارو۔
[ابن ابی شیبہ:19614]
۔۔۔ لہٰذا گھروں کے ذریعہ ان کی بےپردگیوں کو چھپائے رکھو اور خاموشی کے ذریعہ ان کی ٹیڑھپن پر غلبہ پاؤ۔
[کنزالعمال:44999]
صحابہ(نبی کے ساتھیوں) کا حال»
حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے وقت میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ گفتگو اور بہت زیادہ بےتکلفی سے اس ڈر کی وجہ سے پرہیز کرتے تھے کہ کہیں کوئی بےاعتدالی ہوجائے اور ہماری برائی میں کوئی حکم نازل نہ ہوجائے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی تو ہم نے ان سے خوب کھل کے گفتگو کی اور خوب بےتکلفی کرنے لگے۔
[بخاری:5187]
بیویوں کیلئے اللہ کی سفارشی حکم۔
القرآن:
...اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں "بہت" کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
[القرآن-سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 19]
یعنی نرم بات کرو، رات گزارنے میں اور خرچ کرنے میں نرمی اختیار کرو، اس کے ساتھ وہی سلوک اختیار کرو جو تم اپنے ساتھ کرتے ہو۔
[تفسیر(امام)البغوی]
اچھے انداز میں اس سے گفتگو کرے ، نہ بدخلقی سے ، نہ سخت کلام کرے اور نہ اپنا میلان دوسری بیوی کی طرف ظاہر کرنے والا ہو۔
[تفسیر(امام)القرطبی]
تفسیر امام السیوطی»
جب مرد اور عورت کے درمیان کوئی بات واقع ہوجائے تو اس کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے اور آہستگی اختیار کرے اور صبر کرے(اگرچہ یہ تمہیں ناگوار ہو) شاید کہ اللہ تعالیٰ اس میں ایسی بہت سی بھلائیاں "دکھا" دیں جو وہ محبوب کرے گا۔
اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ (1)وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور (2)برائی سے روکتے ہیں، اور (3)نماز قائم کرتے ہیں اور (4)زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور (5)اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقینا اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
[سورۃ التوبۃ:71]
تفسیر:
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہاجرین دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے اور قریش اور ثقیف کے آزاد کئے ہوئے لوگ بھی دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔
[صحيح ابن حبان:3595، تفسير ابن أبي حاتم:10207]
(1)مومن یعنی اللہ کی توحید کی تصدیق کرنے والے۔ یعنی پیغمبر ﷺ کے ساتھی، اور ان میں حضرت علیؓ (خصوصا)
(2)مددگار ہیں ۔۔۔۔ دین میں۔ (اور مومن اپنے دین میں مومن کا متولی-رکھوالا ہے۔)
(3) نیکی یعنی محمد ﷺ پر ایمان لانے کا حکم کرتے ہیں۔
[تفسير مقاتل بن سليمان(م150ھ) : جلد 2 / سفحہ 181]
حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ اللہ ان دونوں سے راضی ہے، نبی کریم ﷺ کی روایت سے، آپ ﷺ نے فرمایا: ہر نیکی صدقہ ہے۔
[صحيح البخاري:6021]
حکم کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یعنیلوگوں میں انصاف کرنے کا
[حوالہ سورۃ آل عمران:21]
حکم کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یعنیعدل ، احسان اور قریبی لوگوں کو دینے کا
[حوالہ سورۃ النحل:90]
(4) برائی
یعنی جو (بات) شریعت و سنت میں معروف(ثابت) نہیں۔
[تفسير الثعلبي:13 /470، تفسير البغوي:3/ 289، التفسير البسيط:9/ 399]
روکتے ہیں ۔۔۔۔۔ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے ان کی عبادت کرنے سے۔
[حوالہ سورۃ الانعام:56]
روکتے ہیں ۔۔۔۔۔ اللہ کے علاوہ کو پکارنے سے
[حوالہ سورۃ غافر:66]
روکتے ہیں ۔۔۔۔۔ فحاشی، منع کردہ باتوں اور بغاوت سے۔
[حوالہ سورۃ النحل:90]
روکتے ہیں ۔۔۔۔۔ نفس کو (ناجائز) خواہشات سے۔
[حوالہ سورۃ النازعات:40]
نکاح کرانے میں جس عورت کا کوئی ولی-سرپرست نہ ہو تو اجنبی مومن بھی ولی بن سکتا ہے، اگر سلطان(حاکم) بھی مسلمان نہ ہو۔
[المصنف - عبد الرزاق:11334 (10488)]
ایک دوسرے کے کام بنانے والے ہمیشہ مددگار ساتھی۔ ایک دوسرے کے دائمی نگہبان۔
(1) "مومن" مرد وعورت دونوں حقوق میں برابر ہیں۔
(2) زندگی بھر کے ساتھی ومددگار ہیں۔ یعنی ہمیشہ باہمی حقوق ادا کرتے رہتے ہیں۔ یعنی
(1)خیرخواہ ہیں (2) جو بات اپنے لئے پسند ہو ساتھی کیلئے بھی وہی پسند کرتے ہیں (3) عیب ڈھانکتے ہیں (4) غلطیوں کو معاف کرتے ہیں(5)قطعِ تعلق نہیں کرتے (6)بھلائی ونفع کی بات سمجھاتے ہیں (7) بری اور نقصاندہ بات سے روکتے ہیں (8) تکلفات میں نہیں ڈالتے (9) دوست کے دشمن سے دوستی نہیں رکھتے۔
مغرب میں عورت کا مقام:-
Unmarried Women are public property.
عورتیں عوامی ملکیت ہیں۔
اسلام میں عورت کا مقام:-
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
کیا میں تمہیں عظیم صدقہ کے بارے میں آگاہ کردوں؟ (یہ خرچ کرنا ہے) اپنی اس(مطلقہ/بیوہ)بیٹی پر جو تمہاری طرف واپس کردی گئی ہو، اور تمہارے سوا اس کا کوئی کمانے والا نہیں۔
[حاکم:7345]
قرآنی شاھدی:سورۃ التوبۃ:71
اسی طرح ایک موقع پر اللہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
بیوہ اور مسکین کی نگہداشت کرنے والا (ان کے کام کرنے والا) ایسا ہے جیسے اللہ کے راستہ میں کوئی جہاد کرنا یا ایسا شخص جو دن کے روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔
[الأدب المفرد-البخاري:131, صحيح الأدب المفرد: ص74، السنن الكبرى-البيهقي:12664]
دینِ اسلام میں عورت کو اتنا اونچا مقام مرتبہ حاصل ہوا ہے جو اسے پہلے کسی ملت میں حاصل نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کوئی اور امت اسے پا سکی ۔ دینِ اسلام نے انسان کو جوعزت واحترام دیا ہے اس میں مرد و عوت دونوں برابر کے شریک ہیں ، اوروہ اس دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات میں برابر ہیں اور اسی طرح دارِ آخرت میں اجر و ثواب میں بھی برابر ہیں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے : { اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی }
سورۃالاسراء ( آیۃ 70 ) ۔
اور اللہ عزوجل کا ایک جگہ پر فرمان کچھ اس طرح ہے : {ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی اس میں حصہ ہے جو ماں باپ اور عزیز و اقارب چھوڑ کر مریں}
سورۃ النساء ( 7 ) اور اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمان ہے : {اور عورتوں کے لیے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہيں اچھائی کے ساتھ}
سورۃ البقرۃ ( 228 ) ۔
ج
ج
ج
ج
اور اللہ مالک الملک کا فرمان اس طرح بھی ہے: {مومن مرد و عورتیں آپس میں ایک دوسرے ( مدد گارو معاون اور) دوست ولی ہیں}
سورۃ التوبـۃ ( 71 ) ۔ ج
ج
اور اللہ تبارک وتعالی نے والدین کے متعلق کچھ اس طرح فرمایا : { اور آپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائيں تو ان کے آگے اف تک نہیں کہنا اور نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چيت کرنا ۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب! ان پر بھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی }
سورۃ لاسراء ( 23 - 24 ) ۔ اور فرمان باری تعالی ہے : { پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہرگز ضائع نہیں کرونگا }
سورۃ آل عمران ( 195 ) ۔
اور اللہ جل شانہ نے فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے : { اور جو بھی نیک عمل کرے چاہے وہ مرد ہو یا عورت لیکن وہ مومن ہو تو ہم اسے یقینا بہتر زندگی عطا فرمائيں گے ، اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے }
سورۃ النحل ( 97 ) ۔ اور اللہ عزوجل نے ایک مقام پر اس طرح فرمایا : { اور جو بھی ایمان کی حالت میں اعمال صالحہ کرے چاہے وہ مرد ہو یا عورت یقینا ایسے لوگ جنت میں جائيں گے ، اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جاۓ گا }
سورۃ النساء ( 124 ) ۔ یہ ہے وہ عزت و تکریم اورمقام ومرتبہ جو اسلام نے عورت کو دی جس کی مثال نہ تو کسی اوردین میں اور نہ ہی کسی قانون میں ملتی ہے ، بلکہ رومن ( اٹلی ) جدت پسندوں نے تویہ قانون پاس کیا ہے کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوۓ اس کی غلام ہے اوراس کے مطلقا کوئی حقوق نہيں ۔
اٹلی میں ایک بڑے اجتماع کےبعد عورت کے متعلق بحث ومناقشہ کے بعد یہ پاس کیا گيا کہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ اہمیت حاصل نہیں ، اور عورت اخروی زندگی کی وارث نہیں بنے گی اور یہ پلید ہے ۔ جاہلیت میں تو عورت ایک گھٹیا سی چيز تھی اسے بیچا اور خریدا جاتا اور اسے شیطانی پلیدی شمار کیا جاتا تھا ۔ اور قدیم ھندوستانی قوانین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وبائيں اور موت، جہنم اور آگ اور سانپوں کا زہر عورت سے بہتر ہے ، اور اسے زندہ رہنے کا حق صرف خاوند کے ساتھ ہی تھا اگر خاوند مرجاۓ اور اسے آگ میں جلایا جاتا تو عورت بھی اس کے ساتھ ہی زندہ جل مرتی اور اگر وہ خاوند کے ساتھ نہ جلتی تو اسے لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ھندوستان کے بعض علاقوں میں تو ابھی تک یہ موجود ہے ۔ اور یھودیت میں یھودی عورت کا کیا حال تھا اس کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں عھد قدیم میں یہ مندرجہ ذیل بات موجود ہے : میں اور میرا دل حکمت وعقل کے علم اور اسے حاصل اور تلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تا کہ میں شر کو جو کہ جہالت اور حماقت کو جو کہ جنوں ہے معلوم کرسکوں ، تو میں نے موت کو پایا عورت جو کہ کھڑکی اور اس کا دل تسمہ اور اس کے ہاتھ بیڑیاں ہيں ۔
سفر الجامعۃ الاصحاح ( 7 : 25 - 26 ) ۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ عھد قدیم پر یھودی اورعیسائی دونوں کا ایمان ہے اور وہ اسے مقدس سمجھتے ہیں ۔ زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اوراورموجودہ اوراس سے پہلے ماضی قریب کے دورمیں عورت کوکیا کچھ حاصل ہے اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کریں گے : ایک ڈانمارک کا ایک مصنف (wieth kordsten) عورت کے بارہ میں کیتھولک چرچ کے نقطہ نظر کی شرح کرتے ہوۓ کہتا ہے : ( دور وسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لیے کہ کیتھولک چرچ کےمذھب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمارہوتی ہے ) ( 586 م ) میلادی کو فرانس میں عورت کے بارہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں اس بات پر غور کیا گيا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا کہ نہیں ؟
اور اس کانفرنس میں مناقشہ کرنے بعد یہ قرار پا کہ عورت ایک انسان ہے لیکن وہ مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے ۔ اور فرانسیسی قانون کی شق نمبر ( 217 ) میں مندرجہ ذیل بات کہی گئی ہے : ( شادی شدہ عورت (اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پر ہوئی ہو کہ اس کی اور اس کے خاوند کی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی) کا کسی کے لیے ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنی ملکیت کو منتقل کرسکتی اور نہ ہی اسے رہن رکھ سکتی ہے ، اور نہ ہی وہ عوض یا بغیرعوض اپنے خاوند کی معاھدے میں شرکت کے بغیر یا پھر اس کی موافقت جو کہ لکھی ہوئی ہو کے بغیر مالک بن سکتی ہے ) اور انگلیڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پر کتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا ، حتی کہ (1850) میلادی تک عورتوں کو شہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اور ان کے لیے (1882) میلادی تک کوئی کسی قسم کے حقوق شخصی نہیں تھے ۔
اور دور حاضر میں یورپ اور امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جو صرف اور صرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کےلیے استعمال ہوتی ہے ، وہ اشتہاری کمپنیوں کا جزلاینفصل ہے ، بلکہ یہاں حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیے گۓ ہیں اور اس کے جسم کو تجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گيا ہے ،اور مردوں نے اپنے بناۓ ہوۓ قانون سے اسے اپنے لیے ہر جگہ پر اس کے ساتھ کھیلنا ہی مقصد بنا لیا ہے ۔
اس کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب تک تو وہ اپنے ھاتھ یا پھر فکر وسوچ سے مال وغیرہ خرچ کرے اور جب وہ بڑی عمر کی ہوجاۓ اور اپنے حواس کھو بیٹھے اور کسی کو کچھ نہ دے سکے تو معاشرہ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اوراسی طرح ادارے بھی اس کوچھوڑ دیتے ہیں اوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں زندگی گزارتی ہے یا پھر نفسیاتی ہسپتالوں میں ۔
تو آپ اس کا مقارنہ و موازنہ ( اس میں کوئی کسی قسم کی برابری نہیں ) اس سے کریں جو قرآن مجید میں آیا ہے : اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : {مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مدد گارو معاون اور ) دوست ہیں}
سورۃ التوبۃ (آیت # 71 ) ۔ اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : {اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ}
سورۃ البقرۃ ( 228 ) ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : { اور آپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائيں تو ان کے آگے اُف تک نہیں کہنا اور نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چيت کرنا ۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب ان بھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی }
سورۃ الاسراء ( 23 - 24 ) ۔
اور جب عورت کو اس کے رب نے اسے یہ عزت واحترام دیا تو ساری بشریت کے لیے واضح کردیا کہ عورت کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ یا تو وہ ماں اور بیوی ہوگی یا پھر بیٹی اور بہن کے روپ میں ، اور اس کے لیے خصوصی قوانین بھی مشروع کیے جو کہ صرف عورت کے ساتھ خاص ہیں نہ کہ مرد کے ساتھ ۔
ج
ج
بیٹیاں اور اسلام:
اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا، اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟
[القرآن» سورۃ نمبر 81 التكوير، آیت نمبر 8-9]
تفسیر:
(6)جاہلیت کے زمانے میں ایک انتہائی وحشیانہ رسم یہ تھی کہ لوگ عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے، اور بعض قبیلے ایسے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کے یہاں بچی پیدا ہوجاتی تو وہ شرم کے مارے اس بچی کو زندہ زمین میں دفن کردیتا تھا۔ قیامت میں اس بچی کو لاکر پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا؟ اس سے ان ظالموں کو سزا دینا مقصود ہوگا جنہوں نے اس بچی کے ساتھ ایسی درندگی کا معاملہ کیا۔
قیامت کی ضرورت:
اس آیت میں غور کیا جائے تو عقیدہ قیامت کی ضرورت بھی نمایاں ہوجاتی ہے ، یعنی ایک ظالم باپ اپنی بیٹی کو بغیر کسی جرم کے زندہ درگور کر دے اور وہ مٹی کے نیچے چیختی چلاتی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کوئی دن ایسا نہ آئے جس میں اس معصوم لڑکی کی داد رسی کی جائے اور اس کے بےرحم باپ کو قرار واقعی سزا دی جائے تو ایسی بےانصافی نہ تو کوئی عقل مند انسان گوارا کرسکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی گنجائش ہے، لہٰذا قیامت کا دن ضروری ہے اور وہ ضرور آئے گا جس میں ہر شخص کو اپنے مظالم کی سزا بھگتنا پڑے گی۔
عورت تک پہنچنے کی آزادی؟
مغربی تہذیب عورت کے آسان حصول کو مقاصد حیات میں سے ایک بہت بڑا مقصد قرار دیتی ہے۔ جس میں عورت عام بازاری اشیاء کی طرح ہر قیمت پر ہر کام کے لیے میسر ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف اسلامی تہذیب ہے، جس میں عورت جنس بازار نہیں ہے، وہ اشرف المخلوقات انسان ہی کی ایک صنف ہے۔
آزادی کے نام پر بے راہ روی؟
انسان کی زندگی میں اور حیوانات کی زندگی میں واحد فرق ضابطوں کا ہے۔ انسانی زندگی جس طرح اپنے تمام دیگر پہلوئوں میں ضابطوں کی پابند ہے اور اس پابندی میں ہی انسانیت مضمر ہے، اسی طرح انسان کے صنفی تعلقات بھی لازماً ضابطوں کے پابند ہوں گے۔ یہ انسانیت اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس لیے اسلام عورت کے احترام اور تکریم پر زور دیتا ہے۔
بے حیائی اور برائی کی آزادی:
عورت کی بے لباسی، اس کی توہین اور تحقیر ہے۔ عورت کا آوارگی میں استعمال انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔ اسلام اس کو برداشت نہیں کرتا۔ ان دو تہذیبوں میں ٹکرائو دراصل اسی نکتے پر قائم ہے۔ یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مغربی تہذیب اور سیکولرازم کا اگر اسلام سے تصادم ہے تو محض اسی نکتے پر ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی عنوانات میں اختلاف نظر آتا ہے، وہ اسی اساسی نکتے سے ہی مربوط ہیں۔ مثلاً تعلیم، ترقی، معیشت، تجارت، سیاست، کسی چیز میں اسلامی تعلیمات اور تصورات انسان کی حقیقی ضرورتوں کی نفی بالکل نہیں کرتیں، بلکہ زندگی کے تمام مراحل میں اسلام مغربی تہذیب سے زیادہ پختہ اور پائیدار ضابطے پیش کرتا ہے۔
دورِ جاہلیت کا قابلِ تقلید عمل:
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے سنا، *اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسے شخص سے جو اپنی بیٹی کو مار ڈالنا چاہتا کہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں*، چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: *اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی کو تمہارے حوالے کر سکتا ہوں اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا۔*
[صحیح بخاری:3828]
اسلام سے پہلے اہلِ عرب بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے تھے اور بعض قبائل یعنی مضر، خزاعہ اور تمیم وغیرہ تو اس حد تک نفرت کرتے تھے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔
[تفسیر قرطبی : سورة نحل (16) زیر آیت نمبر 85]
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ ( رنج وغم سے) بھر جاتا ہے ، وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بری خبر کے باعث جو اسے دی گئی ( اور سوچتا ہے کہ) اس بیٹی کو ذلت کے ساتھ رکھ لے یا مٹی میں دفن کر دے)
[قرآن، سورۃ النحل:58-59]
*زمانہ جاہلیت میں بیٹی کی حالت زار:*
اسلام سے پہلے باپ اپنی بیٹیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے اس کے متعلق ان کی کہانی ان کی زبانی ملاحظہ کریں :
قیس بن عاصم کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : یا رسول اللہ ! میں نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ(8) بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا تھا ، آپ نے فرمایا: *ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دو* ، قیس نے کہا : یا نبی اللہ ! میرے پاس تو اونٹ ہیں تو آپ نے فرمایا : *پھر ہر بیٹی کی طرف سے ایک اونٹ ذبح کر دو۔*
[المعجم الکبیر-طبرانی: حدیث نمبر 863]
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں سے ایک شخص ہمیشہ مغموم رہتا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: *تم کیوں مغموم رہتے ہو؟* اس نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بہت بڑا گناہ کیا تھا اور میں ڈرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کو نہیں بخشے گا اگرچہ میں مسلمان ہوچکا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : *مجھے اپنا گناہ بتاؤ۔* اس نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! میں ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے ، میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ میری بیوی نے مجھ سے سفارش کی کہ میں اس کو چھوڑ دوں ( قتل نہ کروں) حتی کہ وہ بڑی ہوگئی اور وہ عورتوں میں خوبصورت ترین لڑکی تھی ، لوگوں نے اس سے نکاح کرنے کا پیغام دیا ۔ مجھے اس پر عار آیا اور میرے دل نے یہ برداشت نہ کیا کہ میں اس کا نکاح کر دوں یا بغیر نکاح کے گھر میں رہنے دوں ، میں نے اپنی
اسلام میں بیٹی کی فضیلت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت فاطمۃ الزھراءؓ کو آتے دیکھتے تو ان کو (1)خوش آمدید کہتے ، (2)ان کی طرف کھڑے ہوتے (3)اور ان (کے سر) کو بوسہ دیتے ، (4)پھر ان کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
[الادب المفرد-امام بخاری : صفحہ278]
۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : *بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو ، بیشک وہ ہمدردی اور محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔*
[مسند احمد : جلد 4 صفحہ 151]
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: *جو شخص دو بچیوں کے بالغ ہونے تک ان کی کفالت کرے گا قیامت کے دن وہ اور میں اتنا قریب ہوں گے جتنا میرے ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔*
[صحیح مسلم: حدیث نمبر 6695، کتاب البر]
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: *جس شخص کی ایک بیٹی ہوئی اس نے اس کو ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا اور اس کو علم سکھایا اور اچھا علم سکھایا ، نیز اللہ تعالیٰ نے جو اس کو نعمتیں دیں ان نعمتوں میں سے اس نے اپنی بیٹی کو بھی نعمتیں دیں تو اس کی وہ بیٹی اس کے لیے جہنم سے پردہ اور حجاب ہوجائے گی۔*
[حلیۃ الالیاء : حدیث نمبر 6347 کنزالعمال : حدیث نمبر 45391]
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: *جس کی بیٹی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، اور اس کی توہین نہ کرے، اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔*
[سنن ابوداؤد: حدیث نمبر 5146: کتاب الادب]
نبی کریم ﷺ نے حضرت سراقہ بن مالک سے فرمایا: *کیا میں تمہیں سب سے بڑے اور سب سے افضل صدقہ پر آگاہ نہ کروں؟* اس نے عرض کیا: ضرور مہربانی فرمائیے ، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: *تیری وہ بیٹی جو (طلاق پاکر یا بیوہ ہو کر) تیرے گھر میں واپس آجائے اور تیرے سوا اس کے لیے کمانے والا کوئی نہ ہو۔*
[سنن ابن ماجۃ: حدیث نمبر3667 ابواب الادب]
خدانخواستہ اگر کسی بیٹی کو طلاق ہوجائے یا اس کا خاوند فوت ہوجائے اور اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو تو جو باپ اپنی بیٹی کو اپنے گھر میں تحفظ فراہم کرے اور اس کی کفالت کرے تو ایک طرف وہ صلہ رحمی کرکے اپنی بیٹی کی دعائیں لے گا اور دوسری طرف افضل صدقہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرے گا ۔
جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو وہ لڑکے کی نسبت زیادہ خوشی کا اظہار کرے تاکہ اہلِ جاہلیت کی مخالفت ہو ۔ اگر بیٹی ناپسندیدہ مخلوق ہوتی تو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ہاں بیٹیاں پیدا نہ ہوتیں حالانکہ سردار انبیاء ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار بیٹیاں تھیں اور آپ ﷺ نے فرمایا: *بیٹیوں سے کراہت نہ کرو کیونکہ میں بھی متعدد بیٹیوں کا باپ ہوں۔*
[تفسیر روح البیان : سورة النحل (آیت 16) : زیر آیت نمبر 59]
گندے(بےحیاء) اور پاکباز(حیادار) جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں۔ اس کائنات میں نبی کریم ﷺ سے زیادہ پاکباز شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اس اصول کے تحت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی زوجیت میں کسی ایسی خاتون کو لائے جو (معاذ اللہ) پاکباز نہ ہو، کوئی شخص اسی بات پر غور کرلیتا تو اس پر (امی عائشہ پر لگائی گئی) اس تہمت کی حقیقت واضح ہوجاتی۔
کتاب My Body My Choice کی مصنفہ کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کو جب اور جس مرد سے جیسے چاہیں ناجائز-تعلقات رکھنے اور بچہ گِرانے (killing babies) کی اجازت ہونی چاہئے۔
جس پلیت معاشرے کی تہذیب culture اقتدار values اپنی اولاد کو پالنے کے بجائے مھنگے کتوں پر خرچ کرنا عادت ہو، وہ سیدھے سادھے عوام کی ذہنی تخریب اور بےحیائی کے فروغ دینے کیلئے اپنے کارندے اس نفسانی مذہب(راستہ) کو پھیلا رہے ہیں۔
جنسی تعلق کیلئے عورت کی کم از کم کتنی عمر ہو، اس معاملہ میں عورت کی رضامندگی کے بجائے ماہرین کی رائے معتبر ہے، تو ایسا کیوں؟
جبکہ مذاہب کے مقابلے میں خود کو انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار بنتے پھرتے ہیں۔
تفصیل کیلئے دیکھئے نیچے دی گئی ویڈیو:
حقوقِ نسواں، دورِ حاضر کے پر فریب نعرے اور اسلامی تعلیمات
عورتوں کے حقوق اوران کے احترام کے عہد کو دہرانے کے لیے ہر سال ۸/مارچ کو یوم خواتین کے طورپر منایا جاتا ہے ، اس کا سلسلہ کم و بیش سو سال سے جاری ہے ، پہلے یہ دن صرف روس اور چین وغیرہ میں منایا جاتا تھا؛ مگر۱۹۷۵/میں اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ اس دن کو عالمی سطح پر خواتین کے دن کے طورپر منائے جانے کی قرار داد پیش کی اور اس کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے ۔ اس دن عام طورپر حقوقِ نسواں کے علم برداد افراد اور ادارے مختلف جلسے جلوس کے ذریعے یا تحریروں اور تقریروں کے ذریعے سے خواتین کے حقوق کو بیان کرتے ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو ختم کرنے کا عزم دہراتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے سیکڑوں ممالک کا سیاسی و معاشرتی ماحول مختلف ہے اور ہر جگہ کے مسائل و مشکلات الگ الگ ہیں ،اسی مناسبت سے وہاں کی خواتین کے مسائل بھی مختلف ہوں گے، عام طورپر جنسی نابرابری کا زیادہ چرچا کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ عورتوں کو اپنے گھروں میں یا کام کرنے کی جگہوں پر جنسی تفریق سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں امتیاز برتا جاتا ہے ، تیسری دنیا کا معاشرہ تو خیر اس دور میں بھی اس حوالے سے پیچھے ہی سمجھا جاتا ہے ،لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ وہ ممالک جہاں کے بارے میں عام تصوریہ ہے کہ وہاں کے ہر شہری کو مکمل حقوق اور آزادی حاصل ہیں، وہاں کی صورتِ حال بھی اندوہناک ہی ہے؛ چنانچہ یومِ خواتین کے موقع پر جو دنیا بھر سے خواتین کے احتجاج کی خبریں اور تصویریں سامنے آتی ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد یورپی ممالک کی خواتین کی ہی ہوتی ہے ۔
اصل معاملہ کیا ہے؟اصل معاملہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے سال کے ایک مخصوص دن کا متعین کیا جانا بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عورتوں کو معاشرے میں وہ درجہ حاصل نہیں ہے جو مردوں کو حاصل ہے اور یہ بات اتنی باریک اور گہری نہیں ہے کہ اس کوسمجھانے کے لیے باقاعدہ دلائل کی ضرورت پڑے ، بس آپ یہ سمجھیے کہ مردوں کے لیے تو کسی عالمی ادارے کی جانب سے کوئی مخصوص دن متعین نہیں کیا گیا ہے ،جس میں اگر ان کے حقوق و اختیارات کا نہیں تو کم ازکم اسی بات پر زور دیا جائے کہ معاشرے میں ان کی ذمے داریاں کیا کیا ہیں اور انھیں اپنے بیوی بچوں اور دوسرے افراد کے ساتھ زندگی میں کس طرح کا برتاوٴ کرنا چاہیے ۔ پس آٹھ مارچ کے دن کو خواتین کے لیے مخصوص کرلینا اور اس دن آزادی نسواں اور حقوق نسواں وغیرہ پر لکچرز دینا ،لکھنا اور بولنا محض ایک رسم تو ہوسکتی ہے؛ لیکن اس کا کوئی معقول اور درست نتیجہ سامنے آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کی آزادی یا ان کے حقوق کی بات کرنے والے یا اس کے لیے تحریکیں چلانے والے لوگ چاہتے کیا ہیں ،یہ اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکا ، اس ضمن میں اگر آپ اس تحریک کے علمبرداروں کی تحریریں پڑھیں ، ان کی تقریریں سنیں اور ان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کا سارا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے ، سارے ایسے لوگوں کو حقوق نسواں کا علمبردار کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنی تحریروں میں جنسی انارکی کو پیش کیا ہو ۔ اب کوئی بھی انصاف پسند انسان بتائے کہ کیا یہی عورتوں کی آزادی ہے اور کیا بس یہی عورت کا حق ہے کہ وہ جہاں تہاں اپنے وقار ، عصمت اور عفت کی بے حرمتی سہتی پھرے ۔دراصل یہ اشرف المخلوقات کی رسوائی اور شیطان صفت انسانوں کی گندی سوچ کا نمونہ ہے ۔
جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو لازماً اسلام کے معاشرتی نظام پر اشکال کیا جاتا ہے ۔ یہ کہاجاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے ۔ اس کو حقوق سے محروم رکھا ہے اور اسے قیدی بناکر رکھ دیا ہے؛حالاں کہ دوسری طرف آزادیِ نسواں کے علمبرداروں کا حال یہ ہے کہ وہ عورتوں سے دفتروں میں ،کارخانوں میں کام بھی کروا رہے ہیں اور دوسری طرف انھیں سے بچے بھی پیدا کروا رہے ہیں ،بچوں کی پرورش بھی عورتوں کے ذریعے ہی کروا رہے ہیں ،آج کے دور میں جو بہت زیادہ ترقی یافتہ اور روشن خیال اور آزادیِ نسواں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں وہ اپنی عورتوں کو اگر بہت زیادہ با اختیار بنادیتے ہیں تو یہ کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کے لیے کوئی دوسری عورت رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کی زیادتی کی جاتی ہے ،اب کوئی بتائے کہ وہ دوسری عورت کیا عورت نہیں ہے ؟جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس سلسلے بس اس حقیقت کوجان لینا ہی کافی ہے کہ عورتوں کے حقوق و اختیارات کی بات کرنے والے لوگ ،ممالک اور ادارے تو ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے سامنے آئے ہیں؛ جب کہ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو ہر قسم کے مظالم سے اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی ،سب سے پہلے اسلام نے یہ تصور عام کیا کہ بحیثیت انسان کے مردو و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں ، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، چہ جائے کہ انھیں حقوق دیتے۔ جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دئے ہیں اور جس فیاضی سے دئے ہیں، وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہ دے سکا ۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور باقاعدہ اس کا تعین کیا ہے۔اگر بیوی ہے تو گھر کی ملکہ ہے ، بیٹی ہے تو والدین کے لیے رحمت ونعمت ہے ، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنت کی بشارت ہے اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصور ہے ،کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟اس کے علاوہ اسلام نے عورتوں کے تعلیمی ،معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طورپر بیان کیا ہے۔ما ں کی گود کو بچے کی پہلی تعلیم گاہ قرار دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا اور مہذب ہونا کتنا ضروری ہے ۔انھیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا پورا اختیار ہے ، کسی کو اجازت نہیں کہ اس کے مال میں تصرف کرے ۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگر چہ ولی کولڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے؛ لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی ،اس کی رضامندی ضروری ہے ۔ اسلام نے اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورت کی فطری حالت اور ساخت کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اسی وجہ سے کچھ معاملوں میں مردوں کے احکام الگ ہیں؛ جب کہ عورتوں کے الگ ہیں اور اس میں کسی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے ؛ کیوں کہ ہم سب دیکھتے اور جانتے ہیں کہ چاہے انسان کا معاملہ ہو یا حیوان کا یا کسی بھی چیز کا جتنی اس کی صلاحیت اور وسعت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس پر ذمے داری عائد کی جاتی ہے یااسی کے مطابق اس کو اختیارات دئے جاتے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی زندگی بھر کے تمام تر مرحلوں میں مکمل رہنمائی کرتا ہے اور عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے ، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انھیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوشحال اور مامون بن سکتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں خود مسلمانوں کا بھی ایک بڑا طبقہ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات سے دور ہوچکا ہے ، جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے شمار خرابیاں جنم لے چکی ہیں اور بہت سے بدباطن لوگ مسلمانوں کی عملی خامیوں کو اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے میں مردو و زن کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ، اس کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی جائے ، ان شاء اللہ اس سے نہ صرف ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے افراط و تفریط کا خاتمہ ہوگا؛ بلکہ دوسرے لوگ بھی ہمارے طرزِ عمل سے متاثر ہوکر اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے۔
مذہب اسلام اس دنیا میں اس وقت آیا ہے، جب انسانیت دم توڑ رہی تھی، انسانی ظلم وجور پر ظلم کی تاریخ بھی آنسو بہارہی تھی اور عدل ومساوات کی روح تقریباً عنقا ہوچکی تھی۔ اسلام نے ایسے نامساعد حالات کے باوجود انصاف وبرابری کا نعرہ بلند کیا، اور عملاً بھی اس کی شاندار تصویر پیش کی، اور حاکم ومحکوم، آقا وغلام اور اونچ ونیچ کے ناہموار ٹیلوں سے بھرے صحرائے انسانیت میں عدل وانصاف، برابری ومساوات اوریکسانیت وہم آہنگی کے پھول کھلاکر ہر سو نسیم صبح چلادی۔
”مشتے از خروارے“ کے طورپر اسلامی مساوات میں ہم ”حقوق نسواں“ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو عورت عالم گیتی پر جانوروں، بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بے وقعت ومظلوم تھی، کو اسلام نے ذلت ونکبت کے تحت الثریٰ سے اٹھاکر بلندی وعظمت کے بام ثریا پر رونق افروز کردیا، اوراسے ایسے ایسے حقوق عطا کئے جس کا تصور بھی اسلام سے پہلے ناممکن اور معدوم تھا...، مگر آج جبکہ ہر طرف سے اسلام پر یورش ہورہی ہے اورطرح طرح کی بے جاتنقیدوں اور لغو اتہامات کا نشانہ بنایا جارہاہے اوراسلامی اقدار و روایات کو ناقص بلکہ ظلم اور عدم مساوات سے عبارت گردانا جارہاہے اور زور شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ اسلام نے عورتوں کو اس ناجائز حقوق سے محروم رکھا ہے، اور اس کے ساتھ عدل ومساوات کا معاملہ نہیں کیا، حالانکہ اگر عقل وخرد کو تعصب سے پاک وصاف رکھا جائے اور دل ودماغ سے منصفانہ جائزہ لیاجائے تو یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح عیاں ہوجائے گی، کہ عورت چونکہ تمدن انسانی کا محور ومرکز ہے، گلشن ارضی کی زینت ہے، اس لئے اسلام نے باوقار طریقے سے اسے ان تمام معاشرتی حقوق سے نوازا جن کی وہ مستحق تھی، چنانچہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا، دیگر اقوام کے برعکس اسے ذاتی جائداد ومال رکھنے کا حق عطا کیا، شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کی صورت دکھلائی، وراثت میں اس کا حصہ مقرر کرایا، اسے معاشرہ کی قابل احترام ہستی قرار دیا اور اس کے تمام جائز قانونی حقوق کی نشان دہی کی، حاصل یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر حقوق دئے ہیں، خواہ اس کا تعلق ذاتی جائداد وراثت سے ہو یا شادی یا طلاق کا مسئلہ ہو، کوئی دوسرا مذہب اس کا عشر عشیر بھی پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔
دوسری طرف اگر آج ہم افترا پردازوں کے نعرے اور ان کے نتائج پر غور کریں تو اس پرفریب نعرہ نے اس بے چاری کو اس کے سوا کچھ نہیں دیا کہ وہ دفتروں میں کلرکی کرے، اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکریٹری بنے، تجارت چمکانے کیلئے سیلزگرل بنے اور اپنے ایک ایک عضو کو سربازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت نظارہ دے ... ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ، ناجائز بچوں کی بہتات، ایڈز کا شیوع، غرضیکہ تمام معاشرتی واخلاقی خرابیاں اسی نام نہاد ”آزادیٴ نسواں“ کا ثمرئہ تلخ ہے۔
اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا؟ قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور حقیقی ضامن ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقیقت سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کے تحت ہے، مگر
”پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے“
چنانچہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں، چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دئے جن کا تصور قبل از اسلام بعید از قیاس تھی۔
”ای بلائیڈن“ رقمطراز ہیں ”سچا اور اصلی اسلام جو محمد صلى الله عليه وسلم لے کر آئے، اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے (سنت نبوی اور جدید سائنس)
”ڈبلیولائٹرر“ لکھتے ہیں: عورت کو جو تکریم اور عزت محمد صلى الله عليه وسلم نے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے“۔
(Mohammadanism in religious system of the world) ”ای ڈرمنگھم“ حضور صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات کو سراہتے ہوئے اور اسلام کے عورتوں کی زندگی کے تبدیل کردینے کے تعلق سے لکھتا ہے: ”اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی، ان سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا تھا جو محمد صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات سے انہیں حاصل ہوا، جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دیدی گئیں لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ بھی حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ (The Life of Mohammad)
ڈبلیوڈبلیو کیش کہتے ہیں ”اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دئے اور انہیں طلاق کا حق دیا“ (The Eupensin of Islam) ۔
حقوق نسواں اوراس کے چند اہم پہلو
عوموماً عورتوں کو زندگی میں تین اہم مراحل سے گذرنا پڑتا ہے: (۱) پیدائش سے شادی تک (۲) ازدواجی زندگی (۳) شوہر کے بعد کی زندگی۔
پیدائش سے شادی تک۔
پہلے مرحلے میں یہ بات واضح ہے کہ ازدواجی زندگی تک جب ہی پہنچا جاسکتا ہے جبکہ وجود (پیدائش) کو بقا حاصل ہو، مگر اسلام سے پہلے انسان کے اندر صفت بہیمیت پوری طرح غالب آگئی تھی، چنانچہ صنفِ نازک کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا، تین سال، پانچ سال کی نوعمر بچیوں کو محض اسلئے پیوندخاک کردیتے تھے کہ ان کی ناک نہ کٹ جائے، کوئی ان کا داماد نہ کہلانے لگے، لیکن اسلام نے ”واذ المووٴدة سئلت بای ذنب قتلت“ کے جانفزا حکم کے ذریعہ اس فتنہٴ دختر کشی کا سدباب کردیا اور ڈوبتی انسانیت کو حیات اور حوا کی بیٹی کو جینے کا حق دیا۔
”آئرینا میڈمکس“ (Women in Islam 1930) میں اسلام اورماقبلِ اسلام عورت کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ”محمد صلى الله عليه وسلم نے ان چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ہے، نماز، روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپ صلى الله عليه وسلم کے لئے قابل احترام تھی، معاشرہ میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کیا کرتے تھے، محمد صلى الله عليه وسلم نے عورت کو جینے کا حق دیا“ (سنت نبوی اورجدید سائنس۲)
”جنرل گلپ پاشا“ نے حضور صلى الله عليه وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب لکھی ہے (The Life And Tims of Mohammad) وہ اس میں پہلے اسلامی حقوق وراثت کی تعریف کرتے ہیں اور پھر آگے لکھتے ہیں: ”حضور صلى الله عليه وسلم نے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بالکلیہ خاتمہ کردیا“ (ایضاً)
”ریونڈجی ایم راڈویل“ ایک انتہائی متعصّب عیسائی ہے، مگراعترافِ حق سے اپنے آپ کو نہ روک سکا کہ قرآن نے خانہ بدوشوں کی دنیا بدل ڈالی، دخترکشی کو ختم کردیا،اور تعدد ازدواج کو محدود کرکے احسان عظیم کردیا، چنانچہ اس نے بے اختیار لکھ دیا ”قرآنی تعلیمات سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کردیا ہو، اولاد کشی ختم کرنا، توہمات کو دورکرنا، بیویوں کی تعداد گھٹاکر ایک حد مقرر کرنا، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لئے بلاشبہ برکت اور نزول حق تھیں، گوعیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے“ (فاران ستمبر ۱۹۷۶/ بحوالہ میری آخری کتاب)
دوسرا مرحلہ ”ازدواجی زندگی“ ہے۔
اس مرحلے میں عورت کو بہت کچھ نرم گرم سہنا پڑتا ہے، بسا اوقات شوہر کی شہوت اس سے پوری نہیں ہوپاتی تو وہ دیگر راہیں ڈھونڈتا ہے، اخلاقی وتہذیب کی حد کو پار کرکے بازاری یا ان جیسی عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے اور پھرمیاں بیوی کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے، اسلام نے ان ہی خرابیوں اور نقصانات سے بچاؤ کے لئے ”تعدد ازدواج“ کی اجازت دی ہے، اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے بڑے زور شور سے یہ کہتے ہیں کہ تعدد زوجگی میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اوران کا حق منقسم ہوکر رہ جاتا ہے اور سوکن کی شکل میں طرح طرح کی ذہنی، جذباتی اورمعاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پروپیگنڈہ کتنا مبنی برحقیقت ہے اور تعدد ازدواج میں کیا کیا مصالح مضمر ہیں؟ یہ انسانی فطری طریقہ ہے یا اس سے متصادم؟ اس قسم کے سوالوں کا جواب الحمدللہ بہتوں نے دیا ہے اوراس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، ہم تفصیل میں جانا نہیں چاہتے تاہم یہ ضرور کہیں گے کہ اسلام سے پہلے بھی تعدد ازدواج کی رسم رہی ہے اوراس کے بعد بھی جاری ہے بلکہ اسلام نے تو اپنے متبعین کے لئے ایک حد مقرر کی ہے، جبکہ اسلام کے علاوہ میں اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔
موجودہ زمانہ میں بھی تعدد ازدواج کی شکل پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام میں قانوناً اور فطرةً اور غیروں میں جانوروں کی طرح ... یہ گرل فرینڈ کیا ہے؟ کوئی زہرہلاہل کو قند کہہ دے تو کیا اس کی حقیقت بدل جائے گی اور قند بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ مزید دھوکہ دہی اور فریب کا الزام لگے لگا۔
یہی قول مشہور Theosophist نیت بسنت کا ہے موصوفہ اسی پوشیدہ ازدواج پر روشنی ڈالتی ہوئی یورپ کی اخلاقی باختہ حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ”مغرب میں جھوٹی اور نمائش یک زوجگی ہے بلکہ فی الحقیقت تعدد ازدواج ہے مگر کسی ذمہ داری کے بغیر۔ جب آشنا عورت سے مرد کا دل بھر جاتا ہے تواسے وہ نکال باہر کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کسبی عورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کا ابتدائی محب“ اس کے مستقبل کی ذمہ داری نہیں لیتا اور وہ تعدد ازدواج والے گھر میں محفوظ بیوی اور ماں بننے کے مقابلہ میں سوگنا بدتر ہوتی ہے۔ جب ہم ہزاروں مصیبت زدہ عورتوں کو دیکھتے ہیں جو یورپ کے شہروں میں رات کے وقت سڑکوں پر ہجوم لگائے ہوئے چلتی ہیں تو ہمیں یقینا یہ محسوس کرنا پڑتا ہے کہ مغرب کو تعدد ازدواج کے سلسلے میں اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسلامی تعدد ازدواج کے محاسن وفوائد اور مغربی تعدد ازدواج کی قباحت ونقصان پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید رقم کرتی ہیں۔
”عورت کے لئے یہ کہیں زیادہ بہتر ، کہیں زیادہ مسرت انگیز اور کہیں زیادہ عزت بخش ہے کہ وہ (اسلامی) تعدد ازدواج کے سسٹم کے تحت زندگی گزارے، وہ ایک مرد سے متعلق ہو، حلال بچہ اس کی آغوش میں ہو اور وہ عزت کے ساتھ جی رہی ہو،اس کے مقابلے میں (یورپین تعدد ازدواج) کہ اس کی عصمت دری کی جائے، وہ سرکوں پر نکال باہر کردی جائے، بسا اوقات ایک حرامی بچہ کے ساتھ جو غیرقانونی ہو، اس کی کوئی جائے پناہ نہ ہو، کوئی اس کی فکر کرنے والا نہ ہو، اس کی راتوں پر راتیں اس طرح گزریں کہ وہ کسی بھی راہ گیر کا صیدزبوں بننے کو تیار ہو، مادریت کے شرف سے محروم سب کی دھتکاری ہوئی ہو۔ (Marriage commission report بحوالہ تعدد ازدواج: سیدحامد علی)
والیٹر: ایک مشہور فرانسیسی موٴرخ ہے، تہذیب اسلام پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”میں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ لوگ جاہل اور ضعیف العقل ہیں جو مذہب اسلام پر دیگراتہامات کے علاوہ عیش پرستی و راحت کوشی کا الزام لگاتے ہیں، یہ سب اتہامات بے جا اور صداقت سے مبرّا ہیں“۔
ڈاکٹر ”موسیولیبان“ مصنف تمدن عرب رقم طراز ہیں:
مسلمان کی جائز کثرت ازدواج یورپ کے ناجائز کثرت ازدواج سے ہزارہا درجہ بہتر ہے،اسلام پر جس دریدہ ذہنی سے نکتہ چینی کی جاتی ہے اور جس بری صورت میں اسے پیش کیا جاتا ہے وہ فرضی مہیب صورت بھی یورپ کے موجودہ معاشرہ کے آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتی، دراصل یورپین ممالک میں عصمت عنقاء بن گئی ہے۔ (اسلام اور تعدد ازدواج)
تیسرا اہم مرحلہ ”شوہر کے بعد کی زندگی“ ہے۔
اسلام سے پہلے ہوتا یہ تھا کہ جب عورت غیرشادی شدہ ہے اس کی کفالت باپ کے ذمہ ہوتی تھی اور شادی کے بعد شوہر کے زیردست رہتی، باپ سے اسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ اس لئے ہندوستان وغیرہ میں جہیز کا دور دورہ ہوا کہ والدین سے وراثت تو ملتی نہیں اس لئے جہیز میں جو کچھ دے سکتے ہوں دے دیں اسی طرح شادی کے بعد اتفاق سے شوہر کا انتقال اس عورت سے پہلے ہوجائے تو عورت کو شوہر کی جائداد سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی تھی۔ جس کا شاخسانہ ستی کی رسم ہے۔ بلکہ تمام مال غیروں کا ہوجاتا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوتا تھا، مگر اسلام نے آتے ہی اس رسم کا خاتمہ کردیا جس کی وجہ سے عورت جیتے جی مردہ بن کر رہ جاتی تھی۔ اور قرآن کریم نے ”والذین یتوفون منکم الخ“ اورآیت میراث کے ذریعہ اس کا حصہ بیان کرکے اس فتنہ کا سدباب کردیا۔اسلام کی انہیں خوبیوں کو سراہتے ہوئے فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی لکھتے ہیں:
”اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا ذلت کے بجائے عزت ورفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس)
پروفیسر D. S Margoliouthیورپی مصنف ہے جو اسلام اور پیغمبر صلى الله عيله وسلم اسلام کی دشمنی، بہتان تراشی اور اعتراضات والزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر ضمیر کی آواز کو دبا نہ سکا چنانچہ وہ عیسائیت ویہودیت پر حقوق نسواں کے تعلق سے تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”دور جاہلیت کے عرب تو ایک طرف رہے، عیسائیت اور یہودیت میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اورمالک جائداد ہوسکتی ہے، یہ مذاہب اس کی اجازت نہیں دیتے کہ عورت بھی مردوں کی طرح معاشی اعتبار سے خوش حال ہوسکے عورتوں کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں ومعاشروں میں باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرتی تھی۔ محمد صلى الله عليه وسلم نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ (ایضاً)
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر راجندر صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
تاریخی طور پر اسلام عورتوں کو جائداد کے حقوق دینے میں بہت زیادہ فراخ دل اور ترقی پسند رہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۵۶/ میں ہندوکوڈبل سے قبل ہندو عورتوں کا جائداد میں کوئی حصہ نہیں تھا، حالانکہ اسلام مسلم عورتوں کو یہ حق ۱۴ سو سال پہلے دے چکا تھا۔ (The Statement Delhi)
حرف آخر
عورت چونکہ گھر کی زینت ہے اس لئے اس زینت کو نظربد سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے کچھ حدود قائم کئے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان پابندیوں سے عورت کو کوئی نقصان پہنچا ہو، اسے کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو بلکہ یہ تو عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے، انہیں خیال کا اظہار ہملٹن ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”اسلام کے احکام عورتوں کے بارے میں نہایت واضح ہیں، اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو تکلیف پہنچائے اور ان پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔“
سرجان بیگٹ رقم طراز ہے:
”واقعہ یہ ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے عورتوں پر جو پابندیاں عائد فرمائی ہیں ان کی نوعیت سخت نہیں ہے بلکہ ان پابندیوں میں عورتوں کے لئے آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔“ (محمد صلى الله عليه وسلم بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس)
غیروں کے اعتراف حقیقت کے بعد بلا اختیار قلب وذہن میں ”ان الدین عند اللّٰہ الاسلام“ دھڑکرن بن کر دھڑکنے لگتا ہے اور مشاہدہ کی آنکھوں سے ”ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم“ کی تفسیر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اعترافِ حق کے ساتھ ساتھ قبول حق کے بھی حصہ دار بن جاتے۔
حديث ابن مسعود الموقوف: أخرجه ابن أبى شيبة (2/157، رقم 7616) .]
پردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب رواج اور چلن ہے۔
اللہ کے آخری پیغمبر محمد ﷺ کی پیش گوئی-گمراہی کے فتنے:
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے۔
گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں، اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق۔ اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق ۔ یہ (پاکباز مرد اور عورتیں) ان باتوں سے بالکل مبرا(پاک) ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ ان (پاکبازوں) کے حصے میں تو مغفرت ہے اور باعزت رزق۔
[سورۃ النور، آیت نمبر 26]
الله کے نزدیک معزز ومکرم، پرہیزگار ہے۔
[سورۃ الحجرات:13]
"اسلام میں عورتوں کے حقوق"
غیروں کی نظر میں
مذہب اسلام اس دنیا میں اس وقت آیا ہے، جب انسانیت دم توڑ رہی تھی، انسانی ظلم وجور پر ظلم کی تاریخ بھی آنسو بہارہی تھی اور عدل ومساوات کی روح تقریباً عنقا ہوچکی تھی۔ اسلام نے ایسے نامساعد حالات کے باوجود انصاف وبرابری کا نعرہ بلند کیا، اور عملاً بھی اس کی شاندار تصویر پیش کی، اور حاکم ومحکوم، آقا وغلام اور اونچ ونیچ کے ناہموار ٹیلوں سے بھرے صحرائے انسانیت میں عدل وانصاف، برابری ومساوات اوریکسانیت وہم آہنگی کے پھول کھلاکر ہر سو نسیم صبح چلادی۔
”مشتے از خروارے“ کے طورپر اسلامی مساوات میں ہم ”حقوق نسواں“ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو عورت عالم گیتی پر جانوروں، بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بے وقعت ومظلوم تھی، کو اسلام نے ذلت ونکبت کے تحت الثریٰ سے اٹھاکر بلندی وعظمت کے بام ثریا پر رونق افروز کردیا، اوراسے ایسے ایسے حقوق عطا کئے جس کا تصور بھی اسلام سے پہلے ناممکن اور معدوم تھا...، مگر آج جبکہ ہر طرف سے اسلام پر یورش ہورہی ہے اورطرح طرح کی بے جاتنقیدوں اور لغو اتہامات کا نشانہ بنایا جارہاہے اوراسلامی اقدار و روایات کو ناقص بلکہ ظلم اور عدم مساوات سے عبارت گردانا جارہاہے اور زور شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ اسلام نے عورتوں کو اس ناجائز حقوق سے محروم رکھا ہے، اور اس کے ساتھ عدل ومساوات کا معاملہ نہیں کیا، حالانکہ اگر عقل وخرد کو تعصب سے پاک وصاف رکھا جائے اور دل ودماغ سے منصفانہ جائزہ لیاجائے تو یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح عیاں ہوجائے گی، کہ عورت چونکہ تمدن انسانی کا محور ومرکز ہے، گلشن ارضی کی زینت ہے، اس لئے اسلام نے باوقار طریقے سے اسے ان تمام معاشرتی حقوق سے نوازا جن کی وہ مستحق تھی، چنانچہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا، دیگر اقوام کے برعکس اسے ذاتی جائداد ومال رکھنے کا حق عطا کیا، شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کی صورت دکھلائی، وراثت میں اس کا حصہ مقرر کرایا، اسے معاشرہ کی قابل احترام ہستی قرار دیا اور اس کے تمام جائز قانونی حقوق کی نشان دہی کی، حاصل یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر حقوق دئے ہیں، خواہ اس کا تعلق ذاتی جائداد وراثت سے ہو یا شادی یا طلاق کا مسئلہ ہو، کوئی دوسرا مذہب اس کا عشر عشیر بھی پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔
دوسری طرف اگر آج ہم افترا پردازوں کے نعرے اور ان کے نتائج پر غور کریں تو اس پرفریب نعرہ نے اس بے چاری کو اس کے سوا کچھ نہیں دیا کہ وہ دفتروں میں کلرکی کرے، اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکریٹری بنے، تجارت چمکانے کیلئے سیلزگرل بنے اور اپنے ایک ایک عضو کو سربازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت نظارہ دے ... ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ، ناجائز بچوں کی بہتات، ایڈز کا شیوع، غرضیکہ تمام معاشرتی واخلاقی خرابیاں اسی نام نہاد ”آزادیٴ نسواں“ کا ثمرئہ تلخ ہے۔
اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا؟ قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور حقیقی ضامن ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقیقت سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کے تحت ہے، مگر
”پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے“
چنانچہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں، چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دئے جن کا تصور قبل از اسلام بعید از قیاس تھی۔
”ای بلائیڈن“ رقمطراز ہیں ”سچا اور اصلی اسلام جو محمد صلى الله عليه وسلم لے کر آئے، اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے (سنت نبوی اور جدید سائنس)
”ڈبلیولائٹرر“ لکھتے ہیں: عورت کو جو تکریم اور عزت محمد ﷺ نے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے“۔
(Mohammadanism in religious system of the world) ”ای ڈرمنگھم“ حضور ﷺ کی تعلیمات کو سراہتے ہوئے اور اسلام کے عورتوں کی زندگی کے تبدیل کردینے کے تعلق سے لکھتا ہے: ”اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد ﷺ کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی، ان سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا تھا جو محمد ﷺ کی تعلیمات سے انہیں حاصل ہوا، جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دیدی گئیں،لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ بھی حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ (The Life of Mohammad)
ڈبلیوڈبلیو کیش کہتے ہیں ”اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دئے اور انہیں طلاق کا حق دیا“ (The Eupensin of Islam) ۔
حقوق نسواں اوراس کے چند اہم پہلو
عوموماً عورتوں کو زندگی میں تین اہم مراحل سے گذرنا پڑتا ہے: (۱) پیدائش سے شادی تک (۲) ازدواجی زندگی (۳)شوہر کے بعد کی زندگی۔
پیدائش سے شادی تک۔
پہلے مرحلے میں یہ بات واضح ہے کہ ازدواجی زندگی تک جب ہی پہنچا جاسکتا ہے جبکہ وجود (پیدائش) کو بقا حاصل ہو، مگر اسلام سے پہلے انسان کے اندر صفت بہیمیت پوری طرح غالب آگئی تھی، چنانچہ صنفِ نازک کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا، تین سال، پانچ سال کی نوعمر بچیوں کو محض اسلئے پیوندخاک کردیتے تھے کہ ان کی ناک نہ کٹ جائے، کوئی ان کا داماد نہ کہلانے لگے، لیکن اسلام نے ”واذ المووٴدة سئلت بای ذنب قتلت“ کے جانفزا حکم کے ذریعہ اس فتنہٴ دختر کشی کا سدباب کردیا اور ڈوبتی انسانیت کو حیات اور حوا کی بیٹی کو جینے کا حق دیا۔
”آئرینا میڈمکس“ (Women in Islam 1930) میں اسلام اورماقبلِ اسلام عورت کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ”محمد ﷺ نے ان چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ہے، نماز، روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپ ﷺ کے لئے قابل احترام تھی، معاشرہ میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کیا کرتے تھے، محمد ﷺ نے عورت کو جینے کا حق دیا“ (سنت نبوی اورجدید سائنس۲)
”جنرل گلپ پاشا“ نے حضور ﷺ کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب لکھی ہے (The Life And Tims of Mohammad) وہ اس میں پہلے اسلامی حقوق وراثت کی تعریف کرتے ہیں اور پھر آگے لکھتے ہیں: ”حضور ﷺ نے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بالکلیہ خاتمہ کردیا“ (ایضاً)
”ریونڈجی ایم راڈویل“ ایک انتہائی متعصّب عیسائی ہے، مگراعترافِ حق سے اپنے آپ کو نہ روک سکا کہ قرآن نے خانہ بدوشوں کی دنیا بدل ڈالی، دخترکشی کو ختم کردیا،اور تعدد ازدواج کو محدود کرکے احسان عظیم کردیا، چنانچہ اس نے بے اختیار لکھ دیا ”قرآنی تعلیمات سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کردیا ہو، اولاد کشی ختم کرنا، توہمات کو دورکرنا، بیویوں کی تعداد گھٹاکر ایک حد مقرر کرنا، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لئے بلاشبہ برکت اور نزول حق تھیں، گوعیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے“ (فاران ستمبر ۱۹۷۶/ بحوالہ میری آخری کتاب)
دوسرا مرحلہ ”ازدواجی زندگی“ ہے۔
اس مرحلے میں عورت کو بہت کچھ نرم گرم سہنا پڑتا ہے، بسا اوقات شوہر کی شہوت اس سے پوری نہیں ہوپاتی تو وہ دیگر راہیں ڈھونڈتا ہے، اخلاقی وتہذیب کی حد کو پار کرکے بازاری یا ان جیسی عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے اور پھرمیاں بیوی کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے، اسلام نے ان ہی خرابیوں اور نقصانات سے بچاؤ کے لئے ”تعدد ازدواج“ کی اجازت دی ہے، اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے بڑے زور شور سے یہ کہتے ہیں کہ تعدد زوجگی میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اوران کا حق منقسم ہوکر رہ جاتا ہے اور سوکن کی شکل میں طرح طرح کی ذہنی، جذباتی اورمعاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پروپیگنڈہ کتنا مبنی برحقیقت ہے اور تعدد ازدواج میں کیا کیا مصالح مضمر ہیں؟ یہ انسانی فطری طریقہ ہے یا اس سے متصادم؟ اس قسم کے سوالوں کا جواب الحمدللہ بہتوں نے دیا ہے اوراس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، ہم تفصیل میں جانا نہیں چاہتے تاہم یہ ضرور کہیں گے کہ اسلام سے پہلے بھی تعدد ازدواج کی رسم رہی ہے اوراس کے بعد بھی جاری ہے بلکہ اسلام نے تو اپنے متبعین کے لئے ایک حد مقرر کی ہے، جبکہ اسلام کے علاوہ میں اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔
موجودہ زمانہ میں بھی تعدد ازدواج کی شکل پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام میں قانوناً اور فطرةً اور غیروں میں جانوروں کی طرح ... یہ گرل فرینڈ کیا ہے؟ کوئی زہرہلاہل کو قند کہہ دے تو کیا اس کی حقیقت بدل جائے گی اور قند بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ مزید دھوکہ دہی اور فریب کا الزام لگے لگا۔
یہی قول مشہور Theosophist نیت بسنت کا ہے موصوفہ اسی پوشیدہ ازدواج پر روشنی ڈالتی ہوئی یورپ کی اخلاقی باختہ حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ”مغرب میں جھوٹی اور نمائش یک زوجگی ہے بلکہ فی الحقیقت تعدد ازدواج ہے مگر کسی ذمہ داری کے بغیر۔ جب آشنا عورت سے مرد کا دل بھر جاتا ہے تواسے وہ نکال باہر کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کسبی عورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کا ابتدائی محب“ اس کے مستقبل کی ذمہ داری نہیں لیتا اور وہ تعدد ازدواج والے گھر میں محفوظ بیوی اور ماں بننے کے مقابلہ میں سوگنا بدتر ہوتی ہے۔ جب ہم ہزاروں مصیبت زدہ عورتوں کو دیکھتے ہیں جو یورپ کے شہروں میں رات کے وقت سڑکوں پر ہجوم لگائے ہوئے چلتی ہیں تو ہمیں یقینا یہ محسوس کرنا پڑتا ہے کہ مغرب کو تعدد ازدواج کے سلسلے میں اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسلامی تعدد ازدواج کے محاسن وفوائد اور مغربی تعدد ازدواج کی قباحت ونقصان پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید رقم کرتی ہیں۔
”عورت کے لئے یہ کہیں زیادہ بہتر ، کہیں زیادہ مسرت انگیز اور کہیں زیادہ عزت بخش ہے کہ وہ (اسلامی) تعدد ازدواج کے سسٹم کے تحت زندگی گزارے، وہ ایک مرد سے متعلق ہو، حلال بچہ اس کی آغوش میں ہو اور وہ عزت کے ساتھ جی رہی ہو،اس کے مقابلے میں (یورپین تعدد ازدواج) کہ اس کی عصمت دری کی جائے، وہ سرکوں پر نکال باہر کردی جائے، بسا اوقات ایک حرامی بچہ کے ساتھ جو غیرقانونی ہو، اس کی کوئی جائے پناہ نہ ہو، کوئی اس کی فکر کرنے والا نہ ہو، اس کی راتوں پر راتیں اس طرح گزریں کہ وہ کسی بھی راہ گیر کا صیدزبوں بننے کو تیار ہو، مادریت کے شرف سے محروم سب کی دھتکاری ہوئی ہو۔ (Marriage commission report بحوالہ تعدد ازدواج: سیدحامد علی)
والیٹر: ایک مشہور فرانسیسی موٴرخ ہے، تہذیب اسلام پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”میں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ لوگ جاہل اور ضعیف العقل ہیں جو مذہب اسلام پر دیگراتہامات کے علاوہ عیش پرستی و راحت کوشی کا الزام لگاتے ہیں، یہ سب اتہامات بے جا اور صداقت سے مبرّا ہیں“۔
ڈاکٹر ”موسیولیبان“ مصنف تمدن عرب رقم طراز ہیں:
مسلمان کی جائز کثرت ازدواج یورپ کے ناجائز کثرت ازدواج سے ہزارہا درجہ بہتر ہے،اسلام پر جس دریدہ ذہنی سے نکتہ چینی کی جاتی ہے اور جس بری صورت میں اسے پیش کیا جاتا ہے وہ فرضی مہیب صورت بھی یورپ کے موجودہ معاشرہ کے آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتی، دراصل یورپین ممالک میں عصمت عنقاء بن گئی ہے۔ (اسلام اور تعدد ازدواج)
تیسرا اہم مرحلہ ”شوہر کے بعد کی زندگی“ ہے۔
اسلام سے پہلے ہوتا یہ تھا کہ جب عورت غیرشادی شدہ ہے اس کی کفالت باپ کے ذمہ ہوتی تھی اور شادی کے بعد شوہر کے زیردست رہتی، باپ سے اسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ اس لئے ہندوستان وغیرہ میں جہیز کا دور دورہ ہوا کہ والدین سے وراثت تو ملتی نہیں اس لئے جہیز میں جو کچھ دے سکتے ہوں دے دیں اسی طرح شادی کے بعد اتفاق سے شوہر کا انتقال اس عورت سے پہلے ہوجائے تو عورت کو شوہر کی جائداد سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی تھی۔ جس کا شاخسانہ ستی کی رسم ہے۔ بلکہ تمام مال غیروں کا ہوجاتا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوتا تھا، مگر اسلام نے آتے ہی اس رسم کا خاتمہ کردیا جس کی وجہ سے عورت جیتے جی مردہ بن کر رہ جاتی تھی۔ اور قرآن کریم نے ”والذین یتوفون منکم الخ“ اورآیت میراث کے ذریعہ اس کا حصہ بیان کرکے اس فتنہ کا سدباب کردیا۔اسلام کی انہیں خوبیوں کو سراہتے ہوئے فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی لکھتے ہیں:
”اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا ذلت کے بجائے عزت ورفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس)
پروفیسر D. S Margoliouthیورپی مصنف ہے جو اسلام اور پیغمبر ﷺ اسلام کی دشمنی، بہتان تراشی اور اعتراضات والزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر ضمیر کی آواز کو دبا نہ سکا چنانچہ وہ عیسائیت ویہودیت پر حقوق نسواں کے تعلق سے تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”دور جاہلیت کے عرب تو ایک طرف رہے، عیسائیت اور یہودیت میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اورمالک جائداد ہوسکتی ہے، یہ مذاہب اس کی اجازت نہیں دیتے کہ عورت بھی مردوں کی طرح معاشی اعتبار سے خوش حال ہوسکے عورتوں کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں ومعاشروں میں باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرتی تھی۔ محمد ﷺ نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ (ایضاً)
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر راجندر صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
تاریخی طور پر اسلام عورتوں کو جائداد کے حقوق دینے میں بہت زیادہ فراخ دل اور ترقی پسند رہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۵۶/ میں ہندوکوڈبل سے قبل ہندو عورتوں کا جائداد میں کوئی حصہ نہیں تھا، حالانکہ اسلام مسلم عورتوں کو یہ حق ۱۴سو سال پہلے دے چکا تھا۔ (The Statement Delhi)
حرف آخر
عورت چونکہ گھر کی زینت ہے اس لئے اس زینت کو نظربد سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے کچھ حدود قائم کئے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان پابندیوں سے عورت کو کوئی نقصان پہنچا ہو، اسے کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو بلکہ یہ تو عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے، انہیں خیال کا اظہار ہملٹن ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”اسلام کے احکام عورتوں کے بارے میں نہایت واضح ہیں، اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو تکلیف پہنچائے اور ان پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔“
سرجان بیگٹ رقم طراز ہے:
”واقعہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے عورتوں پر جو پابندیاں عائد فرمائی ہیں ان کی نوعیت سخت نہیں ہے بلکہ ان پابندیوں میں عورتوں کے لئے آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔“ (محمد ﷺ بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس)
غیروں کے اعتراف حقیقت کے بعد بلا اختیار قلب وذہن میں ”ان الدین عند اللّٰہ الاسلام“ دھڑکرن بن کر دھڑکنے لگتا ہے اور مشاہدہ کی آنکھوں سے ”ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم“ کی تفسیر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اعترافِ حق کے ساتھ ساتھ قبول حق کے بھی حصہ دار بن جاتے۔
ج
ج
عفت وعصمت
جاہلیت میں عورت کی حیثیت:
اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں جو حیثیت دی جاتی تھی اور جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا وہ کسی سے مخفی نہیں اور نہ ہی تعریف کا محتاج ہے ، یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جو انتہائی مظلوم اورستم رسیدہ تھا انکو ظلم وستم سے نجات دلانے کی کوئی سعی نہ کی جاتی تھی۔
اور اپنی(مملوکہ)لونڈیوں کو زنا کرانے پرمجبور مت کرو (اور بالخصوص)جب وہ پاک دامن رہنا چاہیں محض اس لیے کہ دنیوی زندگی کا کچھ فائدہ (یعنی مال)تم کو حاصل ہوجائے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کی حیثیت ان کی نظروں میں کیا تھی اور کیسے افعال پر اس کو مجبور کیا جاتا تھا، صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کی عورتیں رہن بھی رکھی جاتی تھیں جیساکہ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں کعب بن اشرف کے پاس گیا اور غلہ قرض دینے کی درخواست کی تو اس نے کہا :
یعنی اپنی عورتوں کومیرے پاس رہن رکھ دو،انہوں نے کہا ہم اپنی عورتوں کوآپ کے پاس کس طرح رھن رکھ سکتے ہیں، آپ توعرب کے حسین ترین آدمی ہیں․
اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کتنی مظلوم تھی اوراس کی عصمت کس قدر پامال کی جاتی تھی۔(۲)
اسلام میں عورت کا مقام :
ان ہی ظلم آفریں اور ظلم زدہ گھٹاؤں میں جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا توعورتوں کو ان کے حقوق دئیے گئے، افراط وتفریط ختم ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ظلم سے نکالنے کی خصوصی جدوجہد فرمائی ، حجة الوداع کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطاب فرمایا اس وقت بھی اس طرف خاص توجہ دلائی بلکہ اخیر وقت تک اس سلسلے میں فکرمند رہے اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سماج میں عورت کو عزت واحترام کا مقام دیا ہے۔ اسکو خاندان کی ملکہ بنایا، اس کی مستقل شخصیت کو تسلیم کیا اور انسانی حقوق میں مرد کے برابر درجہ دیا(۳) اور پہلا قرآنی مشورہ نسوانی حقوق کے سلسلے میں جس کا اعلان کیا گیا وہ یہ تھا:
اے لوگو:اپنے پروردگارسے ڈرو جس نے تم کوایک جاندار سے پیداکیا اوراس سے اس کاجوڑپیداکیا اوران دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلائیں․
اسلام میں عفت کا تصور:
اللہ پاک کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کا جائز طریقہ نکاح بتایا تاکہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے، اس کے شعلوں کو بجھایا جاسکے ، بلاشبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پورا کرسکتا ہے اور عفت جیسی صفت سے متصف ہوسکتا ہے اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کو قرآن میں محفوظ کردیا جن الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی۔ چناچہ فرمایا :
اورنہ بدکاری کریں گے اورنہ اپنے بچوں کو کوقتل کریں گی اورنہ بہتان کی (اولاد) لاویں گی۔
اسی طرح حضور علیہ السلام نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطہ نظرکوبیان فرمایا اوربدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اورکثرتِ اموات کاسبب زناکوبتایاچنانچہ ایک لمبی حدیث میں منجملہ اورباتوں کے یہ بھی فرمایا:
”ولافشا الزنا فی قوم قط الا کثرفیہم الموت“(۴)
ترجمہ:
یعنی کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی ہی کثرت ہوجاتی ہے․
اسی طرح برائی کے پھیلنے کو طاعون اور مختلف بیماریوں کا باعث بتلایا چناچہ سنن ابن ماجہ میں ہے:
یعنی جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اور بلاروک ٹوک ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالی ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتاہے جس سے ان کے اسلاف نا آشنا تھے۔
اسی بدکاری کو روکنے کے لیے شریعت مطہرہ نے حدود بھی مقرر فرمادیں اور ساتھ میں بدکاری کرنے والے کے بارے میں شفقت و مہربانی نہ کرنے کی بھی تلقین فرمادی چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے۔
قرآن پاک نے انسانیت کو پاکدامنی کا راستہ بھی دکھادیا اوراپنے دل کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان فرمایاکہ اگر تم ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کرو تو پس پردہ کرو چناچہ فرمایا :
”واذا سئلتموھن متاعاً فاسئلوھن من وراء حجاب ذلکم أطھر لقلوبکم وقلوبھن“(احزاب:۵۳)
ترجمہ:
اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہرسے مانگا کرو یہ بات (ہمیشہ کے لیے) تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے․
اگرچہ یہ آیت ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی لیکن علت کے عموم سے پتا چلتا ہے کہ یہی طریقہ ہی انسانیت کے لیے ذریعہ نجات ہے اور نفسانی وسوسوں اور خطروں سے حفاظت کا ذریعہ حجاب ہی ہے اور بے پردگی قلب کی نجاست اور گندگی کا ذریعہ ہے۔(۶)
اسی طرح امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں نکاح کے فوائد بیان کرتے ہوئے شیطان سے حفاظت اور پاکدامنی کو ہی سرفہرست گنوایا چناچہ فرمایا:
یعنی (نکاح کے فوائد میں سے) شیطان سے بچاؤ شہوت کا توڑ اور اس کے خطرے کادور ہو نا اور نظروں کا پست ہونا اور شرمگاہ کی حفاظت ہے۔
گویاعفت کا نظام برقرار رکھنے کے لیے نکاح مشروع کیا گیا ۔
پردہ کی اہمیت:
عورتوں کے پردے کا بیان سات آیات میں آیا ہے اور ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً وعملاً پردے کے احکام بتائے گئے ہیں ، اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کا وارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے پھر صحابیات کے نزدیک پردے کی اس قدر اہمیت تھی کہ کسی موقع پر بے پردہ رہنا گوارہ نہ کرتی تھیں۔ جیسے ایک صحابیہ کاواقعہ ہے کہ راستہ سے جارہی تھیں، پردے کے حکم کی خبر سنی تو وہیں ایک کنارے میں بیٹھ گئیں اور چادر منگوائی پھر چادر اورڑھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہے تھے، آپ علیہ السلام کے ساتھ اونٹنی پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں اچانک اونٹ کا پاؤں پھنسل گیا اور آپ دونوں زمین پر گر پڑے ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام سے آکر پوچھا: ''چوٹ تو نہیں لگی''؟ فرمایا: ''نہیں! تم پہلے صفیہ کو دیکھو''، یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اپنے چہرے پر کپڑا ڈالا پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور قریب پہنچ کر ان کے اوپر کپڑا ڈال کر ان کو چھپاکر پوچھا اس کے بعد وہ کھڑی ہوئیں اور پھر ان کو سوار کیا۔ (۸)
اس حدیث سے پردہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پردہ اتنا ضروری ہے کہ ایسی حالت میں بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پردہ کا اہتمام فرمایا۔(۹)
ابوداؤد کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ایک کنارے میں چلنے کا حکم فرمایا اور ایک مرد کو دو عورتوں کے درمیان چلنے سے بھی منع فرمایا معلوم ہوا کہ پردہ شریعت میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔(۱۰)
پردہ کا حکم:
پردے سے متعلق قرآن وحدیث میں تفصیل سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں چناچہ پردہ سے متعلق سب سے پہلی آیت ۵ھ میں نازل ہوئی جس میں غیرمحرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیرکسی نیت کے دیکھنا کراھةًداخل ہے ، اللہ تعالی کا رشاد ہے :
”قل للمومنین یغصوامن ابصارہم“(النور۳۰)
ترجمہ:
آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں․
اور احادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں کہ اگر بلاارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے تو اپنی نظر کو پھیرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ پہلی نظر جو بلاارادہ اچانک پڑجائے وہ توغیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے ورنہ بالقصد پہلی نظر بھی معاف نہیں۔
پردہ کے احکام ذکر فرماتے ہوئے مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عورت کا تمام بدن ستر ہے اپنے گھر میں بھی اسکو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے اور فرمایا کہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن وجمال کو نامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن وجمال کا نظارہ کیا کریں۔(۱۱)
وقرن فی بیوتکن کے تحت فرمایا کہ عورت کو اپنی یہ زینت ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سرِ بازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں․ حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔(۱۲)
اسی طرح احکام القران کے حوالہ سے فتاوی رحیمیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جو عورت عطر اور خوشبو لگاکر نکلتی ہے وہ زانیہ ہے ۔
پردہ کے درجات:
۱- شرعی حجاب یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں اس کی دلیل یہ ہے:
”وقرن فی بیوتکن“(احزاب:۳۳)
ترجمہ:
اورتم اپنے گھروں میں رہو۔
۲- ضرورت کے تحت جب عورت کوگھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیرتک اوڑھ کر نکلے جس کا حکم”یدنین علیھن من جلابیبھن“(احزاب:۵۹)
ترجمہ:
(کہہ دیجیے کہ) سر سے نیچے کرلیاکریں اپنی چادریں۔
میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو،صرف ایک آنکھ راستے دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔
۳- پورا جسم تو مستور ہو مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں ، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد رحمہم اللہ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی خواہ فتنہ کاخوف ہو یا نہ ہو البتہ امام اعظم رحمہ للہ نے فرمایا کہ اگر فتنہ کا خوف ہو تو کھولنا منع ہے لیکن اس زمانہ میں خوف فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ ونادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے اس لیے متأخرین فقہاء احناف نے بھی وہی فتوی دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورتوں کے لیے چہرے یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔(۱۳)
پردہ فطری ضرورت :
فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز قیمتی ہوتی ہے اس کو خفیہ اور پوشیدہ جگہ رکھا جاتا ہے کہ جس طرح پیسہ قیمتی چیز ہے تو انسان اس کو چھپاکر رکھتا ہے اسی طرح عورت بھی قیمتی ہونے کے باعث اسی بات کی حقدار ہے کہ اس کو پردے میں رکھا جائے چناچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمة اللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں پردہ کی فطری ضرورت کو اسی انداز میں سمجھایا کہ ریل میں انسان اپنے پیسوں کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اندر کی بھی اندر والی جیب میں رکھتا ہے اسی طرح عورت کو بھی پردہ میں رکھنا چائیے ،اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے۔(۱۴)
ایمان کے بعد جو سب سے پہلا فرض ہے وہ ستر عورت ہے ، تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں فرض رہا ہے بلکہ شرائع کے وجود سے پہلے جب جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے سبب حضرت آدم علیہ السلام کا جنتی لباس اترگیا تو وہاں بھی انہوں نے ستر کھلا رکھنے کو جائز نہیں سمجھا اس لیے آدم وحواء علیھماالسلام دونوں نے جنت کے پتے اپنے ستر پر باندھ لیے جس کو قرآن نے یوں تعبیر فرمایا:
”طفقا یخصفان علیھما من و رق الجنة“(اعراف:۲۲)
ترجمہ:
اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ رکھتے گئے․
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے واقعہ سے بھی یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اتنی بات تو صلحاء وشرفاء میں ہمیشہ رہی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کا اختلاط نہ ہوکہ جب وہ دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے گئیں تو ہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہوگئیں اور پوچھنے پر وجہ یہ ہی بتائی کہ مردوں کا ہجوم ہے ، ہم اپنے جانوروں کو پانی اسی وقت پلائیں گے جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائیں گے ۔
بے پردہ رہنے کے نقصانات :
شریعت مطہرہ نے خواتین کو باپردہ رہنے کاحکم دیا اورباپردہ زندگی گزار نے سے ہی معاشرہ میں امن وسکون باقی رہتا ہے اور اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بے پردگی سے جتنے مفاسد اور برائیاں معاشرہ میں جنم لیتی ہیں ان کو شمار میں لانا مشکل ہے ، عورتوں کا بے پردہ رہنا ہی مردوں کی بدنظری کا باعث بنتا ہے جس سے گناہوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی بدنظری کو مہلک بیماری اورفتنہ بتایا:
”ایاکم والنظرة فانھا تزرع فی القلب شھوة وکفی بھافتنة“
ترجمہ:
یعنی (اجنبی عورتوں کو)تاک جھانک کرنے سے اپنے کوبچاؤ اس سے دلوں میں شہوت کابیچ پیدہوتاہے اورفتنہ پیداہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے۔
اسی طرح حضرت داود علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہوئے عورتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی:
”قال لابنہ یابنی امش خلف الأسد والاسود ولاتمش خلف المرأة“(۱۵)
ترجمہ:
فرمایا: اے بیٹا! شیر اور سانپ کے پیچھے جانا مگر(اجنبی)عورت کے پیچھے نہ جانا۔
یحییٰ علیہ السلام نے بھی بدنظری اور حرص ولالچ کو زنا کا باعث بتایا:
”قیل لحییٰ: مابدء الزنا؟ قال: النظروالتمنی“․(۱۶)
ترجمہ:
حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ زنا کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نامحرم کو دیکھنے اور حرص کرنے سے۔
بعض صحابہ سے روایت ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا غیر محرم کو دیکھنا ہے اور زنا میں چھ خرابیاں ہیں، تین کا تعلق دنیا سے ہے اور تین کا تعلق آخرت سے ہے ۔
دنیا میں تو یہ ہیں :
۱- رزق میں کمی وبے برکتی۔ ۲- نیکی کی توفیق سے محرومی۔
۳- لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ۔
اور آخرت کی تین یہ ہیں:
۱- اللہ کا غضب۔ ۲- عذاب کی سختی ۔ ۳- دوزخ میں داخلہ۔(۱۷)
اس دور میں نکاح کرنا مشکل اور گناہ میں پڑنا آسان ہوگیا ہے جب کہ صحابہ وسلف کے دور میں عفیف رہنا آسان تھا کیونکہ ان کا نکاح کرنا آسان تھا ، اس وقت ہمیں بے پردگی نے اس قدر جکڑلیا ہے کہ ہر وقت بازاروں میں بدنظری کا گناہ جاری ہے اس لیے ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کوعام کیا جائے اورعفت کے تحفظ کے لیے قرآن وسنت کی ہدایات کو مشعل راہ بنایا جائے اور ہمہ وقت اللہ پاک سے پاکدامنی کی دعا کی جائے۔
(۵) سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن ،باب العقوبات (۲/۱۳۳)
(۶) معارف القرآن ،مولاناادریس کاندھلوی صاحب رحمةاللہ علیہ (۵/۵۳۷)
(۷) احیاء العلوم (۲/۳۶)للاِمام غزالی رحمہ اللہ
(۸) بخاری جلد: ۲، ص۹ ۲۱
(۹) پردہ اورحقوق زوجین ،ص۵۳ ،مولاناکمال الدین
(۱۰) ابوداؤد،جلد: ۲ ،ص۳۷۵
(۱۱) معارف القرآن مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ، ص۱۱۷،
(۱۲) معارف القرآن مولانا ادریس کاندھلوی رحمة اللہ علیہ،ص۴۸۹
(۱۳) معارف القرآن ،مفتی شفیع صاحب رحمةاللہ علیہ،جلد:۷،ص۲۱۳
(۱۴) ملفوظات حکیم الامت ، جلد: ۱ ، ص۱۱۵
(۱۵) احیاء العلوم ، جلد: ۳ ص۹۸
(۱۶) فتاویٰ رحیمیہ ، جلد: ۹ ، ص۳۶
(۱۷) تنبیہ الغافلین ، ص۳۷۶ ،حقانیہ
(۱۸) صحیح مسلم باب فی الادعیة ، ج: ۴،ص۲۰۸۷
$$$
عورتوں کے حقوق سیرتِ نبوی کی روشنی میں
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔(۱)
لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔
مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔(۲)
عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت وکوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس کامطالبہ کررہی تھی؛ بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا ہی چاہیے تھا ۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کو گناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔(۳)
یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے؛ بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
عورتوں کو زندہ رکھنے کا حق
عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا؛ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔ فرمایا:
وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔
ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو او رلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاوٴ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباسفرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا(۴)۔
عورت بحیثیتِ انسان
اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے :
خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں ا شاد ہے کہ:
ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انھیں فضیلت دی۔
چنانچہ آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔(۵)
عورتوں کی تعلیم کا حق
انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی کی تگ ودو میں پیچھے رہ جاتاہے۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتاہے؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیاگیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضة اور دوسری جگہ ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
جیسا کہ گزشتہ دور میں جس طرح علم مردوں میں پھیلا، اسی طرح عورتوں میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے؛ لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں؛ بلکہ صحابہٴ کرام کے مدِمقابل تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:
حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابوبکر، ام شریک، فاطمہ بنت قیس،وغیرہ نمایاں تھیں۔(۷)
معاشرتی میدان
جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ جانفزا سنایا:
مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں آپ کا ارشاد ہے:
النکاحُ من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی(۹)
نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(۱۰)
چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
ہن لباس لکم وانتم لباس لہن (البقرہ: ۱۸۷)
عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا ۔
یعنی کہ تم دونوں کی شخصیت ایک دوسرے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ تم ان کے لیے باعثِ حسن وآرائش ہو تو وہ تمہارے لیے زینت وزیبائش غرض دونوں کی زندگی میں بہت سے تشنہ پہلو ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بغیر پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔(۱۱)
معاشی حقوق
معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسے دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔
(۱) عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:
عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔
(۳) وراثت: بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ (النساء: ۱۱) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
(۴) مال وجائیداد کا حق: اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے؛ کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے؛ اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے؛ مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
(۵) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے؛ جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔
تمدنی حقوق
شوہر کا انتخاب : شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن(۱۲)
شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیا جائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔(۱۳)
اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔
ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل انداز ی کریں گے۔
خلع کا حق
اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔
حسن معاشرت کا حق
قرآن میں حکم دیا گیا: وعاشروہن بالمعروف عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ (النساء: ۱۹) چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خیرُکم خیرُکم لاہلہ۔ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔(۱۴)
بیویوں کے حقوق
اسلام کے آنے کے بعد لوگوں نے عورتوں کو بے قدری کی نگاہوں سے دیکھا، اس بے قدری کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ عبادت میں اتنے محو رہتے تھے کہ بیوی کی کوئی خبر نہیں۔ حضرت عمرو بن العاس اور حضرت ابودرداء کا واقعہ کابڑی تفصیل سے حدیث میں مذکور ہے کہ کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کی بیوی کو ان سے شکایت ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے، لہٰذا تم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کا بھی خیال رکھو۔
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:
”لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(۱۵)
آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:
خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(۱۶)
تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔
کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔(۱۸)
عورتوں کا معاشرتی مقام اسلام کی نظر میں
اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ”معروف“ کاخیال کیا جائے؛ تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ:
اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔
معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم دیاہے۔ دوسرے یہ کہ ”معروف“ کے ساتھ اسے مقید کردیا ہے، لہٰذا امام ابوبکر جصاص رازی(المتوفی ۷۰ھ) معروف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں عورتوں کا نفقہ، مہر، عدل کا شمار کرسکتے ہیں۔
اور معروف زندگی گزارنے سے مطلب یہ ہے کہ گفتگو میں نہایت شائستگی اور شیفتگی سے کام لیا جائے باتوں میں حلاوت ومحبت ہو حاکمانہ انداز نہ ہو اور ایک بات کو توجہ کے ساتھ سنیں اور بے رخی بے اعتنائی نہ برتیں اور نہ ہی کوئی بدمزاحی کی جھلک ظاہر ہو۔(۱۹)
قرآن میں صرف معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر خدا نے فرض کیاہے؛ بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جیسے مطلقہ عورت کے باری میں صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ:
ایذا دِہی کے خیال سے ان کو نہ روک رکھو؛ تاکہ تم زیادتی کرو۔
آزادیِ رائے کا حق
اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے خواہ وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی۔ اس کو پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔
ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ :”تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)
حضرت عمر کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو۔
جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلَمُ مِنْ عُمَر تم سب تم سے زیادہ علم والے ہو۔اس عورت کی آزادیِ رائے کو مجروح قرار نہیں دیا کہ حضرت عمر کو کیوں ٹوکا گیا اور ان پر کیوں اعتراض کیا گیا؛ کیوں کہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضیلت میں تھی۔ نفس جواز میں نہ تھی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی آزادیِ رائے کا پورا حق ہے؛ حتی کہ اسلام نے لونڈیوں کو بھی اپنی آزادانہ رائے رکھنے کاحق دیا۔ اور یہ اتنی عام ہوچکی تھی کہ عرب کی لونڈی اس پر بے جھجھک بناتردد کے عمل کرتی تھیں حتی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رائے سے جو بحیثیت نبوت ورسالت کے نہیں ہوتی تھی، اس پر بھی بے خوف وخطر کے اپنی رائے پیش کرتی تھیں اور انھیں کسی چیز کاخطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی نافرمانی کا۔(۲۰)
اس آزادیِ رائے کا سرچشمہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت نے ازواجِ مطہرات میں آزادیِ ضمیر کی روح پھونک دی تھی، جس کااثر تمام عورتوں پر پڑتا تھا۔
--------------------
حواشی:
(۱) مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، سید جلال الدین عمری، مطبع ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ ا سلامی، مارچ۱۹۸۶ء،ص:۱۵
(۲) اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۱۵
(۳) اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۲۹۔۳۰
(۴) ابوداوٴد، باب فضل من عال یتامی، ابوداوٴد سلیمان بن الاشعث السجستانی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۰
(۵) اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ، ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۱
(۶) ابوداوٴد، باب فضل من عال فی یتامی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۱
(۷) مسلمان عورتوں کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ: سید جلال الدین عمری، ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ اسلامی، مارچ ۱۹۸۶ء، ص: ۲۹
(۸) نسائی ، ابی عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الشہیر (النسائی)، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ۱۳۰۳ھ ص: ۶۰۹
(۹) بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸
(۱۰) بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸
(۱۱) اسلام میں عورت کا مقاموم ومرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۵
(۱۲) مشکوٰة کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰
(۱۳) مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱
(۱۴) مشکوٰة، کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰
(۱۵) مشکوٰة بروایت صحیح مسلم ، فی قصة حجة الوداع، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۲۵
(۱۶) مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱
(۱۷) مشکوٰة، عن ترمذی، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص:
(۱۸) اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۶۰۔۶۱
(۱۹) اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد رحمانی، دینی بک ڈڈپو اردوبازار، دہلی، ص: ۱۷
(۲۰) اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد، رحمانی،دینی بک ڈپو، اردوبازار دہلی، ص: ۲۲۔۲۳
اسلام كے بابركت ظہور سے قبل حىات انسانى مىں حد درجہ كجى، انحراف اور بے راہ روى كے ساتھ ساتھ اىك زبردست المىہ ىہ بھى تھا كہ وہ عورتوں كے حوالے سے عجىب وغرىب اور انسانىت سے بعىد تصورات ركھتے تھے، ان كے ساتھ زندگى بھى گذارتے، انھىں حصولِ اولاد كاذرىعہ بھى بناتے؛ بلكہ ان سے ہر ممكن خواہشات كى تكمىل كرتے، مگر ان كا مرتبہ ان كى نگاہوں مىں بس اتنا سا تھا كہ وہ عام حالات مىں شہوانى تسكىن كا ذرىعہ ىا بىوى ہونے كى صورت مىں حصول اولاد كى مشىن تھى؛ بلكہ اس سے بھى بڑھ كر عورت كو انتہائى غىرعادلانہ روىہ اختىار كرتے ہوئے ہرنوع كى سماجى اور شخصى برائى كا سرچشمہ، گوناگوں سىئات كا پىش خىمہ اور زندگى مىں پىش آنے والى تمام تر آفات وبلىات كا واحد سبب بھى خىال كىاجاتاتھا۔
پھر ىہ رجحانات عورت كے تئىں صرف غىرمہذب اور تمدن نا آشنا قوموں ہى كے نہىں تھے؛ بلكہ بڑى بڑى تہذىب ىافتہ اور تارىخ مىں اپنى تہذىب، اپنے تمدن، اپنى ترقى اور اپنے عروج كى دھاك بٹھانے والى قومىں بھى ان پست ترىن اورحددرجہ زبوںخىالات سے مستثنىٰ نہ تھىں۔
تفصىل كا ىہاں موقع نہىں، ہم ان تہذىبوں مىں سے چند اىك كى روداد بہ اجمال بىان كرنے پر اكتفاء كرىں گے، تاكہ حق پرستوں كے ىقىن مىںاضافہ ہو اور سچائى سے سرگردانى كے شكاروں كى آنكھوں سے تذبذب وتردد كى دبىز پٹى ہٹ جائے۔ (ان شاء اللہ)
عورت تہذىبِ ىونان مىں
قدىم اقوام مىں سب سے زىادہ روشن اور شاندار تہذىب كے حاملىن اہل ىونان مانے جاتے ہىں، مگر اس قوم كے ابتدائى دور مىں صورت حال ىہ تھى كہ اخلاقى نظرىہ، قانونى حقوق اور معاشرتى برتاؤ ہراعتبار سے عورت كى حىثىت انتہائى گرى ہوئى تھى، ىونانى خرافىات (Mythology) مىں اىك فرضى عورت پانڈورا (Pandora) كو اسى طرح تمام مصائب وآفات كا موجب قرار دىاگىا تھا، جس طرح ىہودى خرافىات مىں حضرت حوا كو، حضرت حواؑ كے تئىں اس غلط افسانے كى شہرت نے جس طرح ىہودى ومسىحى اقوام كے قانونى معاشرتى اور اخلاقى روىوں پر زبردست اثر ڈالا ہے وہ كسى صاحبِ بصىرت اور اہلِ نظر سے پوشىدہ نہىں، قرىب قرىب اىسا ہى اثر پانڈورا كے حوالے سے اس ىونانى توہم كا اہل ىونان پر پڑا۔ ان كى نگاہ مىںعورت اىك ادنىٰ درجہ كى مخلوق تھى اور معاشرت كے ہر پہلو مىںاس كا مرتبہ گرا ہوا تھا، عزت وشرافت كے تمام حقوق صرف اور صرف مردوں كے ساتھ مخصوص تھے، عورتىں ان سے ىكسر محروم تھىں۔
تمدنى ارتقاء كے ابتدائى مراحل مىں خواتىن كے تئىں ىہ طرزِ عمل تھوڑى سى ترمىم كےساتھ برقرار رہا اور علم كى روشنى كا صرف اتنااثر ہوا كہ عورت كى قانونى حىثىت تو ماقبل ہى كى طرح رہى، البتہ معاشرتى پہلو مىں كچھ تغىرات رونما ہوئے،اسے گھر كى ملكہ بنادىاگىا، عصمت وعفت كے آبگىنے كى حفاظت كى جانے لگى اور شرىف ىونانىوں كے ہاں پردے كا چلن عام ہوگىا۔
مگر رفتہ رفتہ اس بے چارى كو پہلے سے بھى زىادہ المناك واندوہناك مقام تك پہنچادىا گىا اور اىك زمانہ وہ آىا جب اسے صرف وہوسناكى اورشہوت رانى كا ذرىعہ بناكر ركھ دىاگىا اور مآل كار ىہى چىز تہذىب ِ ىونان كى تارىخ كے پردے سے نابود ہوجانے كا سبب بنى۔
عورت تہذىب ِ روم مىں
ىونانىوں كے بعد جس قوم كو تہذىب وتمدن مىں بامِ عروج نصىب ہوا، وہ اہل روم تھے، مگر ىہاں بھى اتار چڑھاؤ كا وہى افسوسناك پہلو ہمارے سامنے نظر آتا ہے، جو ىونانىوں كے دائمى زوال كا سبب بنا۔
رومى لوگ جب وحشت كى تارىكى سے نكل كر تارىخ كے روشن منظر پر نمودار ہوئے، تو ان كے نظامِ معاشرت كا نقشہ كچھ ىوں تھا كہ مرد اپنے خاندان كا سردار ہے، اس كو اپنى بىوى پر حقوقِ مالكانہ حاصل ہىں؛ بلكہ بعض حالات مىں وہ اپنى رفىقۂ حىات اور زندگى كے ہر نشىب وفراز مىںاس كى غم خوارى وغم گسارى كرنے والى بىوى كو قتل تك كردىنے كا مكمل اختىار ركھتا ہے، پھر جب وحشت كم ہوئى اور تہذىب مىں رومىوں كا قدم آگے بڑھا، تو اگرچہ قدىم خاندانى نظام برقرار رہا، مگر سابقہ سخت گىرىوں مىں كچھ توازن پىدا ہوا اور اعتدال قائم كرنے كى كوشش كى گئى؛ بلكہ اىك زمانے تك رومىوں كے نظامِ حىات مىں عورتوں كے بارے مىں معتدل اور متوازن رجحانات پائے جاتے رہے؛ چنانچہ عورت كو قابلِ قدر سمجھا جانے لگا، اس كى عزت وعصمت كى حفاظت كى جانے لگى، عورت ومرد كے تعلق كى شكل صرف نكاح كو قرار دىاگىا، اىك عورت كو اسى وقت عزت كى نگاہ سے دىكھا جاتا جب وہ كسى خاندان كى ماں ہو اور بىسوا طبقہ بھى گرچہ موجود تھا، مگر معاشرے مىں اس كو اور اس كے گرد طواف كرنے والے كو معاشرے كا ذلىل فرد تصور كىاجاتا تھا۔
لىكن تہذىب وتمدن مىں رفتہ رفتہ ترقى كے مدارج طے كرنے كے ساتھ ساتھ عورت كے تعلق سے ان كے نظرىات بھى بدلنے شروع ہوگئے اور اىك زمانہ وہ آىا كہ نكاح صرف اىك قانونى معاہدہ بن كر رہ گىا، جس كا قىام وبقاء فرىقىن كى رضامندى پر منحصر تھا، ازدواجى تعلق كى ذمہ دارىوں كو بہت ہلكا لىا جانے لگا، عورت كو وراثت اور ملكىت ِ مال كے حقوق اس شان سے دىے گئے كہ وہ باپ اور شوہر كے قبضے سے بالكل ہى آزاد ہوگئى اور زن ومرد كے درمىان غىرنكاحى تعلقات كا عىب رومى معاشرے سے اىسا ناپىدہوا كہ اپكٹىٹس (Epictetus) جو فلاسفۂ رواقىىن مىں سخت ترىن محتسب ِ اخلاق مانا جاتا ہے، وہ اپنے شاگردوں كو ىوں ہداىت كرتا ہے كہ: ’’جہاں تك ہوسكے شادى سے پہلے عورت كى محبت سے اجتناب كرو، مگر جو اس معاملے مىں ضبط نہ ركھ سكىں، انھىں ملامت بھى نہ كرو۔‘‘
پھر اىك دن وہ آىا كہ عورت صرف اور صرف سامانِ تعىش اور ذرىعۂ لذت اندوزى بن كر رہ گئى، شہوانىت، عرىانىت اور فواحش كاطوفانِ بلاخىز بپاہوگىا، تھپىڑوں مىں بے حىائى وعرىانىت كے مظاہرے ہونے لگے، ننگى اور نہاىت ہى فحش تصوىرىں ہرگھر كى زىنت ٹھہرىں، قُبحہ گرى كے كاروبار كو حىرت ناك حد تك ترقى ملى اور ان كا ذوقِ شہوت پرستى اس قدر شباب پر تھا كہ اس كا اثر زندگى كى ہنگامہ خىزىوں اور پىہم تكان سے چور ذہن كو فرحت بخشنے والے كھىلوں پر بھى پڑا؛ چنانچہ رومىوں مىں فلورا (Flora) نامى كھىل كو قبولِ عام حاصل تھا؛ اس لىے كہ اس مىں لڑكىاں برہنہ ہوكر دوڑتى تھىں، جنھىں دىكھ كر شائقىن محظوظ ہوتے تھے۔
قصہ كوتاہ ىہاں بھى عورت تہذىب وترقى كے مختلف ادوار سے گذركر بالآخر شہوت پرستى وہوس رانى كے اسى نقطے پر آٹھہرتى ہے، جہاں اسے تہذىب ِ ىونان نے پہنچاىا تھا اورانجام كار تہذىب روم كا قصرِ شوكت وعظمت بھى اىسا پىوبندِ خاك ہوا كہ پھر اس كے كھنڈرات كا بھى نام ونشان نہ رہا۔
عورت قدىم مسىحى ىورپ مىں
ىونان وروم كے نىرِ اقبال كے گہنانے اور آفتابِ عظمت كے كجلانے كے بعد مسىحىت آئى اور اس نے عورت كى زبوںحالى اور اس كے حقوق كے استحصال كى روك تھام كا بىڑا اٹھاىا اور اوّل اوّل اس نے عمدہ خدمات انجام دىں، مگر افسوس كہ اس كا نظرىہ بھى صنف ِ نازك كے بارے مىں انتہاپسندانہ ہى واقع ہوا؛ چنانچہ آباءِ مسحىىن كا ابتدائى اور بنىادى نظرىہ ىہ تھا كہ عورت گناہوں كى ماں اور برائى كى جڑ ہے، معصىت كى تحرىك كا سرچشمہ اور جہنم كا دروازہ ہے، تمام انسانى مصائب كا آغاز اسى سے ہوا ہے،اس كا عورت ہونا ہى اس كے شرمناك ہونے كےلىے كافى ہے، اس كو اپنے حسن ومہ وَشى پر نازاں نہىں؛ بلكہ پشىمان ہونا چاہىے؛ كىوں كہ پىاسى نگاہوں كو دعوتِ نظارہ دىنے والا اس كا ىہ جمالِ جہاں آراء شىطان كا سب سے بڑا ہتھىار ہے، اس كو دائماً اور لازماً كفارہ ادا كرتے رہنا چاہىے؛ كىوں كہ وہ دنىا اور اہلِ دنىا ہر دو كے لىے مصىبتوں كى پىامبر اور آفتوں كى علم بردار ہے۔
ترتولىان (Tertulian) جو ابتدائى دور كے ائمہ مسىحىت مىں سے ہے، عورت كے متعلق مسىحى نظرىہ كى ترجمانى ىوں كرتا ہے كہ: ’’وہ شىطان كے آنے كا دروازہ ہے، وہ شجرِ ممنوع كى طرف لے جانے والى، خدا كے قانون كو توڑنے والى اور خدا كى تصوىر ’’مرد‘‘ كو غارت كرنے والى ہے‘‘، كرائى سوسسٹم (Chrysostom)جس كو مسىحىت كے اولىائے كبار مىں شمار كىاجاتا ہے، لكھتا ہے: ’’عورت اىك ناگزىر برائى، اىك پىدائشى وسوسہ، اىك مرغوب آفت، اىك خانگى خطرہ، اىك غارت گر دل ربا اور اىك آراستہ مصىبت ہے۔‘‘
پىروانِ دىن مسىح كا دوسرا نظرىہ ىہ بھى تھا كہ عورت ومرد كا باہمى تعلق خواہ نكاح ہى كے ذرىعے ہو بہ جائے خود نجس اور قابلِ احتراز چىز ہے، پھر ىہ راہبانہ اور تجردانہ تصور مسىحىت شرىعت كے زىرِاثر جتنے قوانىن مغربى دنىا مىں نافذ ہوئے ان كى خصوصىات ىہ تھىں:
(۱) معاشى حىثىت سے عورت كو كلىتاً بے بس كركے اسے مرد كى ملكىت مىں دے دىا گىا، وراثت مىںاس كےحقوق محدود تھے اور ملكىت مىں محدود تر؛ چنانچہ وہ اپنى كمائى ہوئى دولت سے بھى دست بردار تھى اور اس كى ہرشى كا مالك اس كا شوہر تھا۔
(۲) طلاق اور خلع كى سرے سے اجازت نہ تھى، خانگى حالات چاہے جس قدر بھى بدحالى كا شكار ہوجائىں، اگر زوجىن مىں ناچاقى حد سے بڑھ جاتى اور بہ ظاہر مصالحت كى كوئى سبىل نہ نكلتى، تو اس كے تدارك كى ان كے ہاں بس ىہ شكل تھى كہ زن وشوہر كے درمىان تفرىق كردى جائے اور تاعمر دونوں اىك دوسرے سے علىحدہ رہىں، نكاحِ ثانى كى اجازت نہ مذہب كى رو سے تھى اور نا ہى سماج اس كا روادار تھا اوراب ان كے لىے دو ہى شكلىں رہ جاتى تھىں كہ ىا تو وہ بقىہ مدتِ حىات راہب اور راہبہ بن كر گذارىں ىا پورى زندگى بدكارى وہوس كارى كى نذر كردىں۔
(۳) شوہر كے مرنے كى صورت مىں بىوى كے لىے اور بىوى كى موت كے بعد شوہر كے لىے دوسرے نكاح كى اجازت نہ تھى، مسىحى مذہب كے ٹھىكے دار كہتے تھے كہ ىہ محض شہوت رانى اور ہوس كى بندگى ہے ان كى زبان مىں اس فعل كا نام ’’مہذب زناكارى‘‘ تھا۔
دنیا كى دیگر تہذیبیں اور عورت
ىہ حالت تو دنىا كى دو عظىم الشان تہذىبوں اور پھر تىسرى مسىحى تہذىب كا گہوارہ رہنے والى مغربى دنىا كى تھى، مگر دنىا كے دىگر ممالك مصر ،بابل اور اىران بھى عورت كا كوئى مرتبہ جو انسانىت نوازى پر مبنى ہوتسلىم كرنے كو كسى طور پر تىار نہ تھے۔
عورت ہندوستانى معاشرے مىں
اسى طرح ہندوستانى سماج كا نظرىہ بھى عورت كى بابت ماسبق اقوام سے مختلف نہ تھا، جوآج بھى ہندومعاشرے مىں بہت حد تك موجود ہے؛ چنانچہ عورت ان كے ہاں اىك داسى اور مرد اس كا سوامى اور پتى دىو ىعنى مالك ومعبود ہوتا، اس كو بچپن مىں باپ كى، جوانى مىں شوہر كى اور بىوگى مىں اولاد كى مملوكہ بن كر رہنا پڑتا،اسے شوہر كى چتا پر بھىنٹ چڑھا دىا جاتا، اس كو وراثت اور دىگر حقوقِ ملكىت سے محروم كىاجاتا، اس پر نكاح كے انتہائى سخت قوانىن مسلط كىے جاتے، جن كے زىرِ اثر وہ اپنى رضا اور پسند كے بغىر اىك مرد كے حوالے كردى جاتى،اور پھر تاحىنِ حىات كسى بھى صورت مىں وہ اس كى ملكىت سےنہىں نكل سكتى، ہندووں مىں عورت كو ىہودىوں اور ىونانىوں كى طرح گناہوں كى جڑ اور مصائب كا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا اور اس كى مستقل حىثىت تسلىم كرنے سے انكار كىاجاتا تھا، دوسرى جانب جب اس پر محبت كى نگاہ ہوتى تھى تو خواہشات كا كھلونا بنالى جاتى، وہ مرد كے اعصاب پر اس طرح چھاجاتى كہ خود بھى ڈوبتى تھى اور مردوں كو بھى قعرِہلاكت مىں پہنچاكر دم لىتى تھى؛ چنانچہ ىہ لنگ اور ىونى كى پوجا، ىہ عبادت گاہوں مىں عرىاں اور جڑواں مجسّمے، ىہ دىوداسىاں، ىہ ہولى كى رنگ رلىاں اور ىہ درىاؤں كے نىم عرىاں اشنان؛ آخر كس چىز كى ىادگار ہىں؟ اسى بامِ مارگى ہى كے تو باقىات غىرصالحات ہىںجو اىران، بابل، ىونان، اور روم كى طرح ہندوستان مىں بھى تہذىب وترقى كى انتہاء كے بعد وبا كى طرح پھىلى اور ہندوقوم كو غىرمنتہى مدت كے لىے تنزل وانحطاط كى عمىق ترىن كھائى مىں پھىنك گئى۔
عورت عرب جاہلیت مىں
جب تہذىب وتمدن كے مراكز اور تارىخِ اقوام مىں اپنى تہذىب، اپنى ثقافت اور اپنے عروج كى چھاپ چھوڑنے والى قوموں كى نگاہوں مىں عورت ہر طرح كى پستى اور زبوں حالى كى حق دار تھى اور انسان كى حىثىت سے ملنے والى خداداد شرافت وكرامت اور بزرگى مىں اس كا كوئى حصہ نہىں تھا، تو سرزمىنِ حجاز كا كىا كہنا، وہ تو وادى غىرذى زرع اور فطرتاً بنجر واقع ہوئى تھى اوراس كا اثر وہاں كے مكىنوں پر بھى كامل تھا؛ چنانچہ وہ علم وتمدن سے خار كھائے بىٹھے تھے، تہذىب اور شائستگى سے انھىں خداواسطے كا بىر تھا،حسنِ اخلاق اور حسنِ سلوك كے نام سے بھى وہ ناآشنا تھے، كسى كو اس كے حقوق دىنا اور دلانا ان كى جاہلى غىرت وشجاعت كے لىے چىلنج تھا، ان كے ہاں كوئى نظم وضبط نہ تھا، وجہ ظاہر تھى كہ وہ لوگ كسى كے تابع اور زىرحكومت رہنا جانتے ہى نہ تھے۔
متذكرہ بالا گونا گوں خبىث اوصاف كےساتھ ساتھ ان كے اندر اىك اور خبىث ترىن وصف ىہ تھا كہ ان كے معاشرے مىں عورت كے لىے كسى طرح كى شرافت ِ انسانى كا كوئى خانہ نہ تھا، اس كےساتھ ظلم، تعدى، جفاكىشى اور ہر طرح كى بدسلوكى كارواج عام تھا، اس كے حقوق كو پورى ڈھٹائى كے ساتھ پامال كىا جاتا، اس كے كمائے ہوئے مال پر بھى مرد اپنى ملكىت جتاتا، تركہ ومىراث مىں اس كا كوئى حصہ نہ تھا، شوہر كى وفات ىا طلاق كےبعد نكاحِ ثانى كى اجازت نہ تھى، قرآن كرىم نے عورتوں پر اس جاںگسل زىادتى كى مخالفت كى اور ممانعتى حكم نازل فرماىا (البقرہ:۲۳۳) دىگر اسبابِ زندگى اور حىوانات كى طرح وہ بے چارى بھى وراثت كے طور پر مرنے والے كے وارثىن مىں منتقل ہوتى رہتى،اس سے بھى اللہ تعالىٰ نے منع فرماىا (نساء:۱۹) اشىائے خوردنى مىں بہت سى چىزىں مردوں كے لىے خاص كرلى گئى تھىں، عورتوں كا ان مىں كوئى حصہ نہ تھا، قرآن كرىم نے ان كى اس زىادتى كا ذكر كىاہے (انعام:۱۳۹) اكثر تو غىرت وجاہلىت كى وجہ سے اور بسا اوقات فقر وتنگدستى كى بنا پر لڑكىوں كو زندہ درگور كرنے سے بھى نہ چوكتے، جب لڑكى پىدا ہوتى تو ان كے چہرے فق ہوجاتے، پژمردگى اور اضمحلال دور ہى سےٹپكتے ہوئے نظر آتے، ان كے دل گھٹتے رہتے اور انھىں اتنى عار محسوس ہوتى كہ وہ معاشرے سے، اپنے ملاقاتىوں سے اور دىدوشنىد ركھنےوالوں سے بھاگے پھرتے اور ىہى عار اور شرمندگى انھىں اپنى لڑكى كے زندہ درگور كردىنے جىسے غىرانسانى اور خالص وحشىانہ فعل پر ابھارتى اور وہ اىسا بہىمانہ اقدام كرڈالتے، فرزدق شاعر كے دادا صعصعہ بن ناجىہ نے ظہورِ اسلام سے قبل تك تىن سو لڑكىوں كو زندہ درگور ہونے سے بچاىا تھا اور وہ سرزمىنِ عرب سے لڑكىوں كو زندہ درگور كرنے كى وبا كو ختم كرنے والے پہلے شخص تھے، اسلام لانے كے بعد كئى اصحابِ نبى ﷺ نے اس اس سلسلے كے بڑے ہى دردانگىز اور جگر خراش واقعات بىان كىے ہىں۔
عورت اسلام كے سایۂ رحمت مىں
تارىخ كے مختلف اور بھىانك مراحل سے گذرنے كے بعد چھٹى صدى عىسوى مىں بھى عورت اسى ذلت وخوارى، اسى آہ وزارى اور اسى بے ىارى ومددگارى كے المناك دوراہے پر كھڑى تھى، جہاں صدىوں پہلے اسے كبھى تہذىبِ ىونان وروم نے پہنچاىا تھا، اس كا كرب انتہا كو پہنچ چكا تھا اور بہ ظاہر كوئى بھى اس كا مونس وىاور نہ تھا۔
بالآخر صنف ِ لطىف كے درد كى كَسك اوراس كى پىہم سسكىوں نے رحمت ِ خداوندى مىں جولانى پىدا كى اور پھر اللہ تبارك وتعالىٰ نے حراء كى پہاڑى سے جہاں آپؐ كو بنى نوع انسان كے لىے بالعموم نسخۂ كىمىا اثر دے كر مبعوث فرماىا، وہىں آپؐ كى بعثت صدىوں سے دبى كچلى صنف عورت كے لىے بھى سراپا لطف ورحمت ثابت ہوئى، آپؐ نے خدائى تعلىمات اور اپنے شبانہ روز كے اعمال كے ذرىعے عورت كى حىثىت اور اس كى قدر ومنزلت كو واشگاف كىا، لوگوں كے قلوب پر اس كى كرامت وشرافت كا نقش بٹھاىا اور تاابد كے لىے عورت كو مقام ومرتبے كى اس معراج تك پہنچادىا كہ اس سے بلند مرتبہ بشرى تصورات سے باہر ہے۔
آئىے ہم قدرے غائرانہ نظر سے دىكھىں كہ اسلام نے عورت كو كب كىا مقام ومرتبہ عطا كىا ہے اور بہ چشمِ خوىش وحقىقت بىں مشاہدہ كرىں كہ اسلام نے؛ بلكہ صرف اسلام نے صنف ِ لطىف كو كس طرح ثرىٰ سے ثرىا تك پہنچانے كا عظىم القدر كارنامہ انجام دىا ہے۔
اسلام میں ماں كا مرتبہ
ىہ اىك مسلّم الثبوت حقىقت ہے كہ اللہ تبارك وتعالىٰ نے دنىا بنائى اور اس وىرانۂ آبادنما مىں رونق، دىدہ زىبى اور دل فرىبى پىداكرنے كى غرض سے ماں كے مقدس وجود كو وجود بخشا، ىہى وجہ ہے كہ ماں كے اندر پاكىزگى اور تخلىقىت كا لافانى ذخىرہ مخفى ہے، ماں سے بہتر اور برتر دنىا مىں كوئى ذات نہىں، ماں اىك اىسا لفظ ہے جو كام ودہن كو لذت بخشتا اوركانوں مىں شہد گھولتا ہے، ماں كى پىشانى مىں نور، آنكھوں مىں سرور، باتوں مىں بے لوث محبت، دل مىں ناپىد كنار درىائے رحمت، ہاتھوں مىں بے پناہ شفقت، پىروں مىں بے بہا نعمت جنت اور ماں كى آغوش مىں بے پاىاں راحت وسكون ہے، ماں كا ذكر آتے ہى ہر انسان كے دل مىں؛ بلكہ اس كى رگ رگ مىںاىك لطىف احساس ابھر آتا ہے، وہ عمر كے كسى بھى مرحلے مىں ہو، ماں كے لمس اور اس كى گود كے گرم احساس كو كبھى نہىں بھول پاتا، انسان پر جب كوئى آفت ٹوٹ پڑتى ہے، كوئى دكھ پرىشانى او رتكلىف پہنچتى ہے تو خدائے لاىزال كے بعداسے اس دنىائے دوں مىں اگر كوئى غم خوار نظر آتا ہے، تو وہ صرف ماںكى ذاتِ اقدس ہے ؎
شدتِ حالات نے جب جب بھى ٹھكراىا مجھے
صرف ماں تھى جس نے بڑھ كر لےلىا آغوش مىں
ماں كى عظمت ورفعت افلاك كى وسعتوں سے پرے ہے، ماں كے قدموں كى دھول مىں شفقت كے پھول اگتے ہىں، ماں اىسى دھوپ ہے جہاں صدق وصفا كے موتى چمكتے ہىں، ماں اىسى روشنى ہے جس مىں ممتا اور محبت كى كلىاں خنداں نظر آتى ہىں، ماں اىك اىسا نور ہے جس مىں تپش نہىں ہوتى، ماں اىك تابندہ ستارہ ہے جو زندگى كى تارىكىوں مىں روشنى بكھىرتا ہے، ماں اىسا دىپ ہے جس كى تابش كے آگے زہرہ ومرىخ اور كہكشاں كى روشنى بھى ہىچ ہے، ماں كى نظرِكرم ولطف وعناىت ابرِ رحمت كا خوش گوار ساىہ ہے، ماں كا دل سمندر سے بھى زىادہ عمق ركھتا ہے جہاں ہر رنج وغم چھپ جاتے ہىں، ماں اىسى راگ ہے جس كى لے اور لورى زندگى مىںلگنے والے بڑے سے بڑے زخم كى ٹىس اور چبھن كو چن لىتى ہے، ماں اىسا چمن زار ہے جس كے گلوں پر كبھى پژمردگى نہىں آتى، ماں اىك اىسى خوشبو ہے جس كے وجود سے پورى كائنات معطر ہے اور سب سے بڑھ كر ىہ كہ ماں دنىا والوں كے لىے قدرت كا عظىم ترىن تحفہ اور خداوندى انعام ہے۔
اسلام نے بھى اولِ دن سے ہى دنىا كى اس مقدس ترىن ہستى كى عظمت، قداست، كرامت، حرمت اور اس كے جذبے كى صداقت كا بھرپور احساس اورلحاظ كىا اور ماں كو وہ مرتبۂ بلند وبالا بخشا كہ اس كے زىرِ قدم جنت بسادى،اس عظىم ہستى كے احترام وتكرىم كو اس كى اولاد پر واجب قرار دىا اور اپنے تابعداروں كو ىہ ہداىت دى كہ خدا ورسولؐ كے بعد عزت اوراحترام كى سب سے زىادہ حق دار تمہارى ماں ہے۔
حضرت ابوہرىرہؓ سے رواىت ہے كہ اىك آدمى حضور ﷺ كے پاس آىا اور اس نے درىافت كىاكہ اللہ كے رسولؐ مىرے حسنِ سلوك كا سب سے زىادہ حق دار كون ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرماىا: ’’أمُّكَ‘‘ قال: ’’ثُمَّ مَنْ؟‘‘ قَالَ: ’’أمُّكَ‘‘ قَالَ: ’’ثم من؟‘‘ قال: ’’أبُوْكَ‘‘. (بخارى ج۲ ص۸۸۳، مسلم ج۲ ص ۳۲۲)
اس حدىث پاك سے بہ وضاحت وصراحت ىہ معلوم ہوتا ہے كہ انسان كے حسنِ برتاو اور حسنِ اخلاق كى سب سے زىادہ حق دار اس كى ماں ہے اور ماں كا حق اولاد پر باپ سے تىن گنا بڑھا ہوا ہے۔
قرآنِ كرىم نے بھى جہاں خدائے واحد كى پرستش اور عبادت كى جگہ جگہ تلقىن كى ہے اور ساتھ ہى والدىن كے ساتھ احسان كا حكم دىا ہے، وہىں متعدد مقامات پر ماں كے زمانۂ حمل، ولادت اور رضاعت كى جاںگسل تكلىفوں كو ذكر كركے اس كے مرتبے كے سوا ہونے اوراس كے حقِ تعظىم وتكرىم كے فزوں تر ہونے پر واضح اشارہ دىا ہے۔
معاوىہ بن جاہمہؓ سے رواىت ہے كہ: ’’مىرے والد جاہمہ آپ ﷺ كى خدمت مىں حاضر ہوئے اور عرض كىا كہ : ’’مىرا جہاد مىں جانے كا ارادہ ہے اور اس سلسلے مىں مىں آپ ﷺ كے پاس مشورے كو حاضر ہوا ہوں‘‘ آپ ﷺ نے ان سے درىافت فرماىا: ’’ہلْ لَكَ مِنْ أمٍ؟‘‘ قال ’’نَعَمْ‘‘ قال: ’’فَألزَمْہا؛ فإنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيہا‘‘. (نسائى ج۲ ص۵۳)
(آپ ﷺ نے درىافت فرماىا: ’’كىا تمہارى ماں حىات ہىں؟‘‘ انھوں نے جواب دىا ’’ہاں‘‘ توآپ ﷺ نے ارشاد فرماىا: ’’انھىں كى خدمت گزارى مىں لگے رہو؛ كىوںكہ ان كے قدموں كے نىچے جنت ہے‘‘)۔
اىسے وقت مىں جب كہ اسلام كى وسعت محدود تر تھى، كفارِ مكہ كى ىورش كا خطرہ ہمہ وقت منڈلاتا رہتا تھا اور مسلمانانِ مدىنہ كے قلوب پر ہرگھڑى ىہ اندىشہ چھاىا رہتا كہ نہ معلوم كب اور كس جانب سے دشمنانِ اسلام كى كون سى ٹولى مسلمانوں كا قصہ پاك كردىنے كو آدھمكے، اىسى تشوىشناك صورتِ حال كا تقاضا تو ىہى تھا كہ آپ ﷺ حضرت جاہمہؓ كو رزم گاہ حق وباطل كى طرف رخ كرنے كا حكم دىتے، مگر آپ ﷺ نے حالات كى حددرجہ نزاك كے على الرغم اپنے صحابىؓ كو ماں كى خدمت كا نہ صرف حكم دىا؛ بلكہ اس كے التزام كى ہداىت فرمائى اور علت ىہ بتلائى كہ جنت ان كے قدموں كے نىچے ہے۔ دنىا كے كسى بھى دھرم اور مذہب مىں ماں كے تئىں اىسا اعلىٰ ترىن تصور كب پىش كىاگىا ہوگا؟
ماں كى نافرمانى سخت ترین گناہ
حضرت مغىرہ بن شعبہؓ سے مروى ہے كہ آپ ﷺ نے ارشاد فرماىا: ’’إنَّ اللّٰہ حَرَّمَ عَلَيكُمْ عُقُوْقَ الأُمَّہاتِ‘‘ (بخارى ج۱ ص۲۰۰، مسلم ۲ ص۷۵)
(اللہ تبارك و تعالىٰ نے تمہارے اوپر ماؤں كے عقوق (ىعنى ان كى عدم بجاآورى) كو حرام قرار دىا ہے)
جب تك ماں باپ كسى ناجائز كام كا حكم نہ كرىں اس وقت تك ماں باپ كى اطاعت ضرورى اورنافرمانى حرام ہے؛ ىہاں تك كہ علماء كرام نے فرماىا كہ اگر بىٹے نے نفل كى نىت باندھ ركھى ہو اور ماں باپ لا علمى مىں كسى كام سے آواز دىں، تو نىت توڑ كر آنا ضرورى ہے۔
حضرت ابوبكرؓ سے مروى ہے كہ آپ ﷺ نے فرماىا: ’’والدىن كى نافرمانى اور قطع رحمى سے بڑھ كر كوئى گناہ نہىں، جس كا عذاب فى الفور ہونا چاہىے اور جوعذاب باقى رہ جائے وہ اس كے علاوہ ہے۔‘‘ (الادب المفرد)
حضرت عمران بن حصىنؓ سے مروى ہے كہ حضور ﷺ نے فرماىا: ’’زنا، شراب خورى اور چورى كے بارے مىں تمہارا كىا خىال ہے؟ انھوں نے جواب دىا كہ: ’’سب بے حىائىاں ہىں اور ان پر عذاب ہوگا‘‘ حضور ﷺ نے فرماىا ’’ہاں سب سے بڑا گناہ تمہىں نہ بتاؤں وہ ہے اللہ عزوجل كے ساتھ شرىك كرنا اور والدىن كى نافرمانى كرنا، آپ ﷺ اس وقت تكىہ لگائے بىٹھے تھے اس كے بعد سىدھے ہوكر بىٹھ گئے اور فرماىا: ’’اور جھوٹى گواہى‘‘۔ (الادب المفرد)
حضرت اسماء بنت ابى بكرؓ سے رواىت ہے كہ رسول اللہ ﷺ اور قرىش مكہ كے (حدىبىہ والے) معاہدے كے زمانے مىں مىرى ماں جو اپنے مشركانہ مذہب پر قائم تھى (سفر كركے مدىنے مىں) مىرے پاس آئىں، تو مىں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض كىا كہ: ’’إنَّ أمِّى قَدِمَتْ عَلَى وَہى رَغِبَةٌ، أَفَأصِلُہا؟ قال: ’’نَعَمْ صِلِى أمَّكَ‘‘. (بخارى ج۱ ص۳۵۷، مسلم ج۲ ص۸۸۴)
(مىرى ماں مىرے پاس آئى ہىں اور وہ خدمت كى خواہاں ہىں، كىا مىںان كے ساتھ صلہ رحمى كروں؟ آپ ﷺ نے فرماىا: ’’ہاں، اپنى امى كے ساتھ حسن سلوك كرو‘‘)۔
حضرت اسماءؓ صدىق اكبرؓ كى صاحبزادى اور دوسرى ماں سے حضرت عائشہ صدىقہؓ كى بڑى بہن تھىں، رواىات مىں ان كى ماں كا نام ’’قيلہ بنت عبدالعزى‘‘ مذكور ہے، انھىں حضرت ابوبكرؓ نے زمانۂ جاہلىت ہى مىں طلاق دے كرالگ كردىا تھا، صلح حدىبىہ كے زمانے مىں جب مسلمانوں كو مكہ اور كفاركو مدىنہ آمد ورفت كى اجازت تھى، وہ اپنى صاحبزادى سے ملاقات كى خاطر آئىں، حضرت اسماءؓ نے درىافت كىا كہ مىرى ماں جو مشركہ ہىں كچھ خواہش لے كر مىرے ىہاں آئى ہىں، ىعنى وہ چاہتى ہىں كہ مىں ان كى كچھ خدمت كروں، بعض شراحِ حدىث نے ’’راغبة‘‘ كا ترجمہ منحرف ہونے سے اور بىزار ہونے سے كىا ہے، اس صورت مىں معنى ىہ ہوںگے كہ مىرى والدہ مجھ سے ملنے آئى ہىں، لىكن وہ دىنِ اسلام سے بىزار ہىں، اىسى صورت مىں مىرا ان سے كىا برتاؤ ہونا چاہىے؟ ماں ہونے كى وجہ سے ان كے ساتھ حسن سلوك كروں ىا كفر وشرك كى بنا پر ان سے تركِ تعلق اور بے رخى اختىار كروں؟ تو رسول اللہ نے انھىں ہداىت فرمائى كہ ان كى خدمت كرو اور ان كے ساتھ حسنِ سلوك كرو جو ماں كا، ماں ہونے كى وجہ سے حق ہے۔
قرآن كرىم مىں سورئہ لقمان مىں بھى اولاد كو ىہى ہداىت ہے كہ اگر ماں باپ كا فرومشرك ہوں اور اپنى اولاد كو بھى كفر كو اختىار كرنے پر مجبور كرىں، تو ان كا حكم نہ مانا جائے البتہ خدمت اور حسن سلوك مىں پھر بھى كوتاہى نہ برتى جائے۔
اسلام مىں بىٹى كى حىثىت
قبل از اسلام بىٹى كى پىدائش عالمى معاشرے مىں نحوست كى علامت سمجھى جاتى تھى؛ بلكہ آج بھى دنىا كے مختلف خطوں اور مختلف طبقاتِ انسانى مىں لڑكى كو اىك بوجھ اور مصىبت باور كىاجاتا ہے اور اس كى پىدائش چہرے پر رونق اور شادابى لانے كى بہ جائے پژمردگى اور افسردگى كا سبب بن جاتى ہے۔
اسلام نے بتاىا كہ بىٹى كا وجود باعث ِ ننگ وعار ہونے كى بہ جائے رحمت ِ خداوندى كے نزول كا سبب ہے؛ بلكہ جذبۂ صادق اور كامل شفقت ورافت كے ساتھ اس كى تربىت،اس كى تعلىم، اس كى حقوق رسانى اور اس كے ساتھ احسان كا برتاؤ كرنا جنت مىں داخلے كا باعث ہوگا۔
حضرت انسؓ سے مروى ہے كہ آپ نے ارشاد فرماىا: ’’مَنْ عَالَ جَارِييتَينِ حَتّٰى تَبْلُغَا جَاءَ يوْمَ القِيامَةِ أَنَا وَہوْ كَہاتَينِ وَضَمَّ أَصَابِعَہٗ‘‘. (مسلم ج۲، ص۳۳)
(جو شخص دو لڑكىوں كى ان كے بلوغ تك پرورش كرے تو قىامت كے دن، مىں اور وہ ان دو انگلىوں كى طرح ہوں گے ، راوى كہتے ہىں كہ ’’پھر آپ نے اپنى انگلىوں كو ملادىا‘‘)
لڑكىاں دوزخ سے بچاؤ كا سامان
حضرت عائشہؓ سے رواىت ہے كہ آپ نے فرماىا: ’’مَنِ ابْتُلِى مِنْ ہذِہٖ الْبَنَاتِ بِشَىءٍ فَحَسَّنَ إلَيہنَّ كُنْ لَہٗ سِتْراً مِنَ النَّارِ‘‘. (بخارى شرىف ج۱ ص۱۹۰، مسلم شرىف ج۲ ص۳۳۰)
(جس شخص پر اللہ كى طرف سے بىٹىوں كى ذمہ دارى ڈالى گئى (اور اس نے اس ذمہ دارى كو نبھاىااور) ان كے ساتھ حسنِ سلوك كىا، تو ىہ بىٹىاں اس كے لىے جنت سے بچاؤ كا ذرىعہ بنىں گى)۔
ىعنى اگر انسان اپنے گناہوں كى وجہ سے جہنم رسىد ہونے والا ہوگا، تو وہ اپنى بىٹىوں كے ساتھ عمدہ سلوك كى بنا پر بخش دىاجائے گا اور بارى تعالىٰ اس كے لىے دخولِ جنت كا حكم صادر فرمادىں گے۔
لڑكىوں اور بہنوں كى عمدہ تربىت كا صلہ
بىٹى كے ساتھ ساتھ اگر كوئى شخص اپنى بہن كى بھى پرورش وپرداخت اور تعلىم وتربىت كى ذمہ دارى لے لے اور اپنى وسعت بھر ان كى تربىت مىں كوئى كسر نہ اٹھا ركھے تو اىسا شخص بہ زبانِ وحى ترجمان جنت كا مستحق بن جاتا ہے۔
(جس شخص كى تىن بىٹىاں ىا تىن بہنىں ہوں ىا دو بىٹىاں ىا دو بہنىں ہوں اور اس نے ان كے ساتھ حسنِ سلوك كىااور ان كے بارے مىں اللہ سے ڈرتا رہا تو اس كو بدلے مىں جنت ملے گى)
لڑكوں اور لڑكىوں كے ساتھ ىكساں روىہ اپنائىں
عبداللہ بن عباسؓ سے رواىت ہے كہ آپ ﷺ نے فرماىا: ’’مَنْ كَانَتْ لَہٗ اُنْثٰى فَلَمْ يئِدْہا، وَلَمْ يفہنْہا وَلَمْ يوْثِرْ وَلَدَہٗ عَلَيہا - يعْنِى الذُّكُوْرَ - أَدْخَلَہٗ اللّٰہ الْحَنَّةَ‘‘. (مشكوٰة شرىف ص۴۲۳، مسند احمد ج۱ ص۲۲۳)
(جس كےپاس لڑكى ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ كرے، نہ اس كى توہىن كرے اور نہ برتاؤ مىں لڑكے كو اس پر ترجىح دے (ىعنى دونوں كے ساتھ ىكساں سلوك روا ركھے) تو اللہ تعالىٰ اس كو جنت مىں داخل فرمائے گا)۔
اسلام مىں بىوى كا مقام ومرتبہ
اسلام نے پورى انسانىت كو باخبر كىا كہ بىوى تمہارے لىے اللہ كى دى ہوئى اىك بڑى نعمت ہے، تمہارى ہم راز و دم ساز، تمہارى رفىقۂ حىات، تمہارى زندگى كے نشىب وفراز مىں تمہارى غم خوار وغم گسار؛ بلكہ زندگى كے ہرگام پر تمہارے لىے سكون وطمانىت كا سامان كرنے والى ہے؛ اس وجہ سے اگر تمہارے حقوق كى ادائىگى مىں اس سے كچھ تقصىر سرزد ہوجائے، تو بھى اس كے ساتھ حسنِ معاشرت كا معاملہ كرو۔
حضرت ابوہرىرہؓ سے رواىت ہے كہ آپ ﷺ نے ارشاد فرماىا: ’’اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ خَيراً فَإنَّہنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعِ وَإنَّ أَعْوَجَ شَىءٍ فِى الصِّلَعِ أَعْلَاہ فإنْ ذَہبْتَ تُقِيمُہٗ كَسَرْتَہٗ وإنْ تَرَكْتَہٗ لَمْ يزَلْ أَعْوَجَ فَاَسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيراً‘‘. (بخارى شرىف ج۱ ص۶۴۹، مسلم شرىف ج۱ ص۴۷۵)
(اے لوگو! بىوىوں كے ساتھ بہتر سلوك كرنے كے بارے مىں وصىت حاصل كرلو؛ اس لىے كہ وہ پسلى سے پىداكى گئى ہىں اور سب سے زىادہ كجى پسلى كے اوپرى حصے مىں ہوتى ہے اگر تم اس كو زبردستى سىدھا كرنے كى كوشش كروگے، تو وہ ٹوٹ جائے گى اور اپنے حال پر چھوڑدوگے تو وہ ٹىڑھى ہى رہے گى؛ اس لىے عورتوں كے ساتھ حسنِ معاشرت كے بارے مىں مىرى وصىت قبول كرو)۔
ىعنى اگر كوئى شخص زبردستى اور تشدد كے بل بوتے پر عورت كى فطرى كجى كو دور كرنے كى كوشش كرے گا، تو كامىابى كى بہ جائے افتراق اور علىحدگى كى نوبت بھى آسكتى ہے؛ اس لىے كہ دماغ و زبان مىں كجى اس كى فطرت مىں داخل ہے اور ىہ اس كے لىے موجب ِ ننگ نہىں؛ بلكہ ىہ تواس كى ادا وناز ہے؛ لہٰذا اگر تم ان سے كوئى فائدہ حاصل كرنا چاہتے ہو، تو اس كى كمزورىوں كو نظر انداز كرتے ہوئے اس كے ساتھ بہتر سلوك اور دل دارى كا معاملہ كرو، لفظ ’’اِسْتَوْصُوْا‘‘ سے آپ ﷺ نے كلام كا آغاز فرماىا تھا اور اسى لفظ پر آپ نے اپنى بات ختم فرمائى، اس سے اندازہ لگاىاجاسكتا ہے كہ آپ ﷺ كو بىوىوں كے ساتھ حسنِ معاشرت كا كس قدر اہتمام تھا۔
نىك عورت نعمتِ عظمىٰ
عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروى ہے كہ آپ ﷺ نے ارشاد فرماىا: ’’اَلدُّنْيا كُلُّہا مَتَاعٌ وَخَيرُ مَتَاعِ الدُّنْيا اَلْمَرْأةُ الصَّالِحَةُ‘‘. (مسلم شرىف ج۱ ص۴۷۵)
(دنىا كى حىثىت اىك سامان كى سى ہے اور دنىا كا بہترىن سامان نىك عورت ہے)۔
احادىث مباركہ مىں نىك عورتوں كى متعدد علامتىں بىان كى گئى ہىں، بعض رواىتوں مىں آىا ہے كہ نىك عورت وہ ہے جو شوہر كى آخرت پر (ىعنى اعمال آخرت پر) معاون ہو، بعض مىں آىا كہ بہترىن عورت وہ ہے جو اپنى ذات اور شوہر كے اموال مىں كسى گناہ كى جوىا نہ ہو اور كسى خىانت كا ارتكاب نہ كرے، اىك اور رواىت مىںنىك عورت كى ىہ علامتىں بتلائى گئى ہىں كہ: جب شوہر كوئى حكم دے (شرعى دائرے مىںرہ كر) تو بىوى اس كى اطاعت كرے، جب شوہر اسے دىكھے تو اسے قلبى سرور حاصل ہو، جب شوہر كسى بات پر قسم كھالے، تو بىوى اسے برى كردے اور جب شوہر گھر سے غائب ہوتو بىوى اپنے نفس اور شوہر كے مال مىں خىانت سے محترز رہے۔ (الترغىب والترہىب ج۳ ص۴۱)
اسلام كى نظر مىں بہترىن شخص
حضرت ابوہرىرہؓ سے مروى ہے كہ آپﷺ نے ارشاد فرماىا: ’’أَكْمَلُ الْمُؤمِنِينَ إيمَاناً أَحْسَنُہمْ خُلْقاً وَخِيارُكُمْ لنسائہٖ‘‘. (ترمذى شرىف ج۱ ص۲۱۹)
(سب سے زىادہ كامل اىمان اس شخص كا ہے، جس كے اخلاق عمدہ ہوں اور تم مىں بہترىن شخص وہ ہے جو اپنى بىوى كے حق مىں بہتر ثابت ہو)
اپنى بىوى سے نفرت نہىں، محبت كرو!
حضرت ابوہرىرہؓ سے مروى ہے كہ آپ نے ارشاد فرماىا: ’’لَا ييفْرُكُ مُؤمِنٌ مُؤمِنَةً إنْ كَرِہ مِنْہا خُلْقاً رَضِى مِنْہا آخَرَ‘‘. (مسلم شرىف ج۱ ص۴۷۵)
(كوئى اىمان والا شوہر اپنى مومنہ بىوى سے نفرت نہ كرے، اگر اس كى كوئى عادت اس كى نظروں مىں ناپسندىدہ ہے تو دوسرى كوئى عادت پسندىدہ بھى ہوگى)
ىعنى اگر بىوى مىں كوئى اىسى عادت ہے جو شوہر كى نگاہ مىں قابل اعتراض اور مكروہ ہو، تو اس كى بنا پر وہ اسے نفرت و كراہت كا شكار نہ بنائے؛ بلكہ اس كے دىگر خصائلِ محمودہ كو دىكھتے ہوئے اس سے درگزر كا معاملہ كرے، ىہ حدىث شرىف آىت كرىمہ: ’’وَعَاشِرُوْہنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ كَرِہتُمُوْہنَّ فَعَسٰى أنْ تَكرَہوا شَيئًا وَّ يجْعَلَ اللّٰہ فِيہ خَيراً كَثِيراً‘‘. (نساء:۱۹) كى سچى اور واضح تشرىح ہے۔
متذكرہ بالا ٹھوس اور روشن حقائق كے پىش نظر ىہ بات برملا اور بہ بانگِ دُہل كہى جاسكتى ہے (اور كسى عقلِ دانا اور نگاہ بىنا ركھنے والے شخص كو اس سے انكار كى مجال بھى نہىں ہوسكتى) كہ اسلام ہى وہ مذہب ہے، جس نے عورت كو صدىوں كى ذلت اور برسہا برس كے ظلم وجور كى اندوہناك كھائىوں سے نكال كر عظمت وتقدس اور عفت وپاكىزگى كى انتہا تك پہنچادىا،اس كو وہ مقام ومرتبہ عطا كىا جس كا عُشرِ عشىر بھى دنىا كى اب تك كى تمام تر تہذىبىں نہ دے سكىں اور اس كى آغوشِ شفقت ورحمت مىں صنف ِ لطىف كو وہ سكون وطمانىت حاصل ہوئى كہ تارىخِ انسانىت كا كوئى بھى مذہب اور تحرىك ہزاروں دعووں كے باوصف اسے وہ سكون بخشنے مىں كبھى كامىاب نہ ہوئى۔
تہذىبِ جدىد كى غلط اندىشىاں
ىہ حقىقت بھى ہر قلب سلىم پر آشكارا ہوجانى چاہىے كہ تہذىب ِ جدىد كے عورت كو اس كے حقوق دىے جانے كے پرفرىب نعرے، داناىانِ فرنگ كى طرف سے مساواتِ مردوزن كى اٹھتى ہوئى صدائىں، مغرب اور مغربى دسترخوان كے زلہ خواروں كى طرف سے صنف ِ اناث كے معاشى استقلال كى صداہائے بازگشت اور اپنى ہوسناكى وشىطنت كو تسكىن فراہم كرنے كى غرض سے زن وشوہر كے آزادانہ باہمى اختلاط كا ڈنكا پىٹنا؛ ان سب كے پىچھے بشرى قوتوں كى كم كوشىاں اور اذہانِ انسانى كى غلط اندىشىاں كارفرما ہىں، ىہى وجہ ہے كہ تہذىب ِ نو اپنى عمر كى صرف اور صرف دو ڈھائى صدىاں بتانے كے بعد ہى پورى طرح مخدوش، شكستہ اور بنى نوع انسانى كى خدمت انجام دىنے مىں برى طرح ناكام ہوچكى ہے؛ بلكہ حقىقت ىہ ہے كہ آج جو پورى انسانىت ذلت ورسوائى، فحاشى وبے حىائى اور انسانىت كے رتبے سے ہزار درجہ گرے ہوئے افعالِ قبىحہ وشنىعہ مىںملوث نظر آرہى ہے ىہ سب اسى تہذىب كى دَىن ہے اور كوئى بھى صاحب بصىرت انسان ادنىٰ تامل كے بغىر ىہ پىش گوئى كرسكتا ہے كہ مستقبل قرىب مىں ہى اس تہذىب كے كَل پرزے بكھرا چاہتے ہىں۔
حرفِ انتہاء
اسلام كى آمد سے پہلے جو تہذىبىں عالمِ وجود مىں آئىں اور ان مىں جو صنف ِ نازك كے ساتھ نا انصافى كا، جو روجبر كا اورہوس رانى وشہوت پرستى كا روىہ اپناىا گىا، اس كى وجہ ىہ تھى كہ ان تمام تہذىبوں كے معاشرتى، تمدنى اور اخلاقى قوانىن مىں تفرىط كا بھىانك عنصر غالب تھا، ان كے علم بردار معاشرے كى تشكىل كرنا چاہتے تھے، مگر عورت كو (جو انسانىت كانصف حصہ ہے) كوئى مقام ومرتبہ دىے بغىر اور اسے كسى حىثىت كے قابل سمجھے بغىر اور جہاں تك بات ہے تہذىب ِ جدىد اور اس كى سىہ كارىوں كى، تو سچ توىہ ہے كہ اس كے اولىن معمارقدىم مسىحى تہذىب مىں عورت كے خلاف سنگ دلانہ اصولِ معاشرت مىں نرمى پىدا كرنے اور معاشرے مىںاسے اىك لائق مقام ومرتبہ دلانے كى نىت لے كر اٹھے تھے، مگر افسوس كہ اس تہذىب كى آبادكارى جن اصولوں كو سامنے ركھ كر انجام دى گئى اور جن نقاط كو اس كى ترقى كے اہم عوامل كى حىثىت سے اختىار كىاگىا، ان سب مىں افراط كا چور پوشىدہ تھا؛ چنانچہ رفتہ رفتہ اس منحوس تہذىب كے سہارے عورت ذلت ورسوائى كے ٹھىك اسى مقام تك پہنچ گئى جو تہذىب ِ ىونان و روم اور قدىم مسىحى ىورپ مىں اس كا مقدر تھا۔
واقعہ ىہ ہے كہ عورت كواىك ممتازشناخت دلانے، معاشرے مىں اسے اس كے لائق قدر ومنزلت عطا كرنے،اسے عظمت وتكرىم كا زرىں تاج پہنانے اوراس كے تمام حقوق (خواہ خانگى ہوں ىا سماجى، شخصى ہوں ىا اجتماعى) بے كم وكاست بخشنے مىں مكمل طور پر اگر نقطۂ عدل كو كوئى پاسكا ہے تو وہ صرف ’’مذہب اسلام‘‘ ہے اور آج بھى اگر انسانى سماج كى سب سے ذلىل، فرىب خوردہ، شىاطىن الانس كى زىاں كارىوں كى شكار اور گُرگہائے انسان نما كى فرىب دہى وبہىمىت كا تختۂ مشق بننے والى معصوم صنف ِ نازك كو اس كا كھوىا ہوا ’’وقار‘‘، اس كى گمشدہ ’’عزت‘‘، اس كى سلب كردہ ’’قدرومنزلت‘‘ اور سعادت اگر مل سكتى ہے تو وہ صرف اور صرف ’’اسلام‘‘ كى آغوشِ رحمت مىں۔
٭٭٭
صنفِ نازک کے ساتھ نبی رحمت ﷺ کا برتاؤ
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے ساری مخلوقات کے لیے ”نبی رحمت “ بنا کر بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی شانِ رحیمی وکریمی اس ”صنفِ نازک“ پر کیوں سایہ فگن نہ ہوتی ، جس کو دنیا ”آبگینہ “ جیسے لطیف ونازک شیء کے ساتھ تشبیہ دیتی ہے؛ بلکہ نرم اور نازک شی کے ساتھ دنیا والوں کی رعایت واہتمام بھی زیادہ ہوتا ہے تو آپ کے رحم وکرم سے ”عورت“ کیوں محروم ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی تعلیمات میں عورت کی رعایت اوراس کی صنفی نزاکت کے ساتھ احکام موجود ہیں ، موجودہ دور کا اس صنف نازک کے ساتھ یہ المیہ ہے کہ اس نے عورت کو گھر کی ”ملکہ “ کے بجائے ”شمع محفل “ بنادیا ہے ، اس کی نسوانیت اور نزاکت کو تار تار کرنے کے لیے ”زینتِ بازار“ اور اپنی تجارت کے فروغ کا ”آلہٴ کار“ اور ”ذریعہ “ بنادیا، عورت کے لیے پردہ کے حکم میں در اصل اس کی نزاکت کی رعایت ہی مقصود ہے کہ اسے مشقت انگیز کاموں سے دور رکھ کر اس کو درونِ خانہ کی صرف ذمہ داری سونپی جائے ۔
اللہ عزوجل اپنے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلمپر نازل کردہ کتاب میں عورتوں کے تعلق سے فرمایا ہے : ”عاشروھن بالمعروف“ (اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صنف نازک کے بہترین برتاوٴ کی تاکید
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاوٴ کی تاکید کی ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عورتوں کے ساتھ اچھابرتاوٴ اور ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ۔
خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی ،بہترین برتاوٴ ، اچھی معاشرت کی تاکید فرمائی ہے ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا : تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاوٴ کرنے والا ہو(ترمذی :کتاب المناقب : باب فضل ازواج النبی ، حدیث : ۳۸۹۵ )
اور ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتاہو ں(مسلم : کتاب الرضاع ، باب الوصیة بالنساء ، حدیث : ۱۴۶۸)
اور ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور بہترین برتاوٴ کو کمالِ ایمان کی شرط قرار دیا ہے ، حضرتِ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاوٴ (سب کے ساتھ )(اور خاص طور سے )بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت کا ہو۔ (المستدرک: کتاب الایمان: حدیث: ۱۷۳)
بیویوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ برتاوٴ
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ازواج کے ساتھ کس طرح بے تکلف، پر لطف اور دوستانہ تعلقات تھے اسکا اندازہ مندرجہٴ ذیل واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔
$ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ : جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو دونوں حالتوں کا علم مجھے ہوجاتا ہے ، حضرت عائشہ نے پوچھا کہ : یا رسول اللہ ! کس طرح علم ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایاکہ : جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہوتو ”لا وربّ محمد“(محمد کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو، اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہوتو ”لا ورب ابراہیم “(ابراہیم کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو ، اس وقت تم میرا نام نہیں لیتیں ؛ بلکہ حضرت ابراہیم کا نام لیتی ہو ، حضرت عائشہ نے فرمایا : (یا رسول اللہ ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں )نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی (بخاری: کتاب الأدب: باب مایجوز من الھجران من عصی، حدیث: ۶۰۷۸)
$ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ کے گھر میں تھے اور ان کی باری کا دن تھا ، حضرت عائشہنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حلوہ پکایا اور حضرت سودہ کے گھر پر لائیں اور لا کر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا ، اور حضرت سودہ بھی سامنے بیٹھی ہوئی تھیں ، ان سے کہا کہ تم بھی کھاوٴ،سودہ کو یہ بات گراں لگی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جب میرے یہاں باری کا دن تھا تو پھر یہ حلوہ پکاکر کیوں لائیں؟ اس لیے انھوں نے کھانے سے انکار کردیا ، حضرت عائشہ نے حضرت سودہ کے منہ پر مل دیا، حضرت سودہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن میں آیا ہے کہ ”جزاء سےئة سےّئة مثلھا “یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی کرے تو تم بھی بدلے میں اسی کے بقدر برائی کرو ؛ لہٰذا بدلہ میں تم بھی ان کے منہ پر حلوہ مل دو ؛ چنانچہ حضرت سودہ نے تھوڑا سا حلوہ اٹھا کر حضرت عائشہ کے چہرے پر مل دیا ، اب دونوں کے چہرے پر حلوہ ملا ہوا ہے ، یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہورہا ہے ، اس دوران حضرت عمر کی آمد ہوئی توحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو منہ دھونے کو کہا (مسند ابی یعلی: مسند عائشہ: حدیث:۴۴۷۶، دارالمأمون، دمشق، مجمع الزوائد: باب عشرة النساء: حدیث: ۷۶۸۳)
$ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی تو پیدل دوڑ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی اور آگے نکل گئی ، اس کے بعد جب (موٹاپے ) سے میرا جسم بھاری ہوگیا تو (اس زمانے میں بھی ایک دفعہ )ہمارا دوڑ میں مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے ، اس وقت آپ نے فرمایا : یہ تمہاری اس جیت کا جواب ہوگیا(ابوداوٴد: کتاب الجہاد، باب فی السبق علی الرجل، حدیث: ۲۵۷۸)
$ حضرتِ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز )حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کر رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا کھیل دکھانے کے لیے میرے لیے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے ، (جو مسجد میں کھلتا تھا)میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے ؛ یہاں تک کہ( میرا جی بھر گیا )اور میں خود ہی لوٹ آئی۔ (مسلم: باب الرخصة فی اللعبة اللتی لا معصیة فیہ فی ایام العید: حدیث:۸۹۲)
$ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح ورخصتی کے بعد آپ کے پاس آجانے کے بعد بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری سہلیاں تھیں ، جب حضرت گھر میں تشریف لاتے تو وہ (آپ کے احترام میں کھیل چھوڑ کر )گھر کے اندر چھپتیں تو آپ ان کو میرے پاس بھجوادیتے اور میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔(بخاری: باب الانبساط الی النّاس، حدیث: ۵۷۷۹)
عورت پر ظلم وزیادتی کی ممانعت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کو مارنے پیٹنے یااس کو کسی بھی قسم کی تکلیف دینے سے سختی سے منع فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹنے لگے جس طرح غلام کو پیٹا جاتا ہے اور پھر دوسرے دن جنسی میلان کی تکمیل کے لیے اس کے پاس پہنچ جائے(بخاری: کتاب النکاح، باب ما یکرہ من ضرب النساء، حدیث: ۲۹۰۸)
ایک دفعہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیویوں کے حقوق کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کھاوٴ تو اس کو کھلاوٴ ، اور جب تم پہنو تو اس کو پہناوٴ ، نہ اس کے چہرے پر مارو اور نہ برا بھلا کہو اور نہ جدائی اختیار کرو ، اس کا موقع آبھی جائے یہ گھر میں ہی ہو(ابوداوٴد: کتاب النکاح، باب فی حق المرأة علی زوجھا، حدیث: ۲۱۴۳)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے والوں کو خراب لوگ فرمایا: اپنی بیویوں کو مارنے والے اچھے لوگ نہیں ہیں ،(ابن حبان :باب معاشرة الزوجین، حدیث: ۱۴۸۹) اور خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا،(مسلم: باب مباعدتہ، حدیث: ۲۳۴۸)
عورت کے حقوق کی رعایت کی تاکید
جس طرح مرد یہ چاہتا ہے کہ بیوی اس کے لیے بناوٴ وسنگار کرے ،اسی طرح مرد کو بھی عورت کے لیے بناوٴ سنگار کرنا چاہیے ،صاف ستھرا رہناچاہیے!
ابن عباسفرمایا کرتے تھے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے میں بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کے لیے اپنا بناوٴ سنگھار کرتی ہے ؛ چونکہ ارشادِ باری عزوجل ہے : وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرة: ۲۲۸)(اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا حق ان پر ہے دستور کے مطابق )میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ تومیری تمام حقوق کی ادائیگی کرے ، حالانکہ اللہ عزوجل کا ارشا دہے کہ ”وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَةٌ“ (اور مردوں کوعورتوں پر فضیلت ہے )(السنن الکبریٰ للبیہقی: باب حق المرأة علی الزوج، حدیث: ۱۵۵۰۵)یعنی جس طرح مرد کو ہر اعتبار سے عورت پر فضیلت حاصل ہے ، اسی طرح اسے اخلاق کے اعتبارسے بھی اس پر فضیلت ہوناچاہیے ۔
ابویوسف سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جیسے مجھے یہ پسند ہے کہ میری بیوی میرے لیے زینت کرے ،اسے بھی یہ اچھا لگتا ہے کہ میں اس کے لیے زینت کروں ”کما یعجبنی أن تتزین لی زوجتی یعجبھا أن اتزین لھا (الفتاوی الھندیة: ۵/۲۵۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ازواج کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے
حضراتِ انبیاء اہلِ خانہ کی ضروریات کا خیال کرتے تھے ،چنانچہ حضرت موسی اللہ کے پیغمبر ہیں ، ان کی بیوی بیمار حالت میں ہیں ، انھیں سردی لگی اور وقت کے پیغمبر آگ ڈھونڈنے کے لیے چل پڑے ، پرودگار کو پسند آیا اور نبوت سے سرفراز فرمایا ۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ تھی، کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے ، گھر کی دیگر ضروریات پوری کرتے ، حضرت عائشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھا ، تو انھوں نے بتایا کہ : ”اپنے سر سے جوئی نکالتے ، اپنی بکری کا دودھ دوہتے ، اپنے کپڑے سی لیتے ، اپنی خدمت خود کرلیتے ، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھاو چھوڑ کر چلے جاتے (ترمذی: باب مما فی صفة اوانی الحوض: حدیث: ۲۴۸۹)
بچیوں کی پرورش کی فضیلت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحم وکرم نہ صرف ازواج کے ساتھ مخصوص تھا؛ بلکہ پوری صنف نازک کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین برتاوٴ کا حکم کیا ، قبل از اسلام عرب میں لڑکیوں ں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا، لڑکی کی پیدائش کو باعث ننگ وعار باور کیا جاتا، جیسا کہ قرآن مجید نے خود اس کی منظر کشی کی ہے ”وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِیْمٌ، یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہ“ (سورة النحل: ۵۸) جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب سے جو اسے دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف عورت کو جینے کا حق دیااور اس کو معاشرہ میں بلند مقام عطا کیا ؛ بلکہ عورت کے وجود کو خیر وبرکت کا باعث او رنزول رحمت کا ذریعہ اور اس کی نگہداشت اور پرورش کو دخولِ جنت کا ذریعہ بتایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں ، پھر جب تک وہ اس کے پاس رہیں یا یہ ان کے پا س رہے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرے تو وہ دونوں بیٹیاں اس کو ضرور جنت میں داخل کرادیں گی (ابن حبان: باب ما جاء فی الصبر والثواب، حدیث:۲۹۴۵)
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ یہ ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا ۔ (ترمذی:باب ما جاء فی النفقة علی البنات والاخوات، حدیث: ۱۹۱۴)
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے ان بیٹیوں کے کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے بچاوٴ کا سامان بن جائیں گی (بخاری: باب رحمة الولد، حدیث:۵۹۹۵)
عورتوں کی کوتاہیوں سے درگذر کا حکم
نہ صرف یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاوٴ کا حکم دیا ؛ بلکہ اس کی کمی کمزوری اور خاص مزاجی کیفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکالیف کو انگیز کرنے کی بھی تاکید فرمائی:
اسی کو اللہ عز وجل نے یوں فرمایا : وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ کَرِھُتُمُوْھُنَّ شَےْئاً فَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَےْئاً وَیَجْعَلُ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً “(النساء: ۱۹)اور ان عورتوں کے ساتھ حسن وخوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ ناپسند ہو ں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی منفعت رکھ دے ۔
اسی کو ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت کو اس لیے مبغوض نہ رکھے کہ اس کی کوئی عادت ناگوارِ خاطر ہے ؛ اس لیے کہ اگر ایک عادت ناپسند ہے تو ممکن ہے کوئی دوسری عادت پسند آجائے(مسلم: باب الوصیة بالنساء، حدیث: ۱۴۶۹)
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم و کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کراس کے ساتھ رحم وکرم کرنے کا حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا، اس پر بے جاسختی سے روکا؛ اس کوقعر مذلت سے نکال عزت ووقار کا تاج پہنایا، ماں، بہو، ساس ، بیوی وغیرہ کی شکل میں اس کے حقوق عنایت کیے ، اس کی تعظیم واکرام کا حکم کیا، اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کو جنت کا وسیلہ اور ذریعہ فرمایا، یہ صنف نازک کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریم کا طرز وعمل تھا۔
$$$
کیا یہ عورت کا قصور ہے؟
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جس مسلمان کی تین بیٹیاں ہوں، وہ ان پر خرچ کرتا ہو، حتی کہ ان کی شادی کرادے یا وہ مر جائیں تو وہ باپ کے لیے دوزخ کی آگ سے حجاب ہوں گی۔ کسی نے عرض کیا اگر دو بیٹیاں ہوں؟ فرمایا، اگر دوبیٹیاں ہوں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔ ( طبرانی) نیز یہی بشارت ایک بیٹی کے سلسلہ میں بھی مرو ی ہے کہ جس شخص نے ایک بیٹی کی شادی کرائی قیامت کے دن الله تعالیٰ اس کے سر پر بادشاہت کا تاج سجائیں گے، اسی عمل پر ایسے آدمی کے لیے جو اپنی دو یا تین بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش میں حسن سلوک اور احسان کرے اور بالغ ہونے پر ان کی شادیاں کرائے اسے جنت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اس طرح معیت کی بشارت ہے، جیسے یہ دو انگلیاں ہیں (آپ صلی الله علیہ وسلم نے اشارہ سے دکھلایا)۔ ( ابن حبان وطبرانی) بیٹی کی پیدائش پر اس کی ضروریات کو پوری کرنے والے کے لیے تا قیامت معاونت ربانی کی بھی عظیم خوش خبری ہے۔ چناں چہ ارشاد فرمایا کہ جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو الله تعالیٰ فرشتوں کو بھیجتے ہیں جو زمین پر آکر کہتے ہیں : ” السلام علیکم اے گھر والو اس لڑکی کو اپنے پَروں تلے ڈھانپ لیتے ہیں او ربچی کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں کمزو رجان کمزور سے پیدا ہوئی ہے، جو شخص اس بچی کا انتظام چلاتا ہے اس کی قیامت کے دن تک معاونت کی جاتی ہے ۔“ (طبرانی)
یہ او ران جیسی بیسیوں احادیث میں انسانی معاشرے کے لیے عموماً او رمسلم معاشرے کے لیے خصوصاً یہ پیغام پر مسرت اور مژدہٴ جان فزا ہے کہ اے بیٹی کی پیدائش پر منھ لٹکانے والے بھاگے بھاگے پھرنے والے باپ! خوش ہو جا کہ تیری بیٹی کا وجود تیرے لیے ننگ وعار، ذلت وبے عزتی اور بد شگونی وبد فالی نہیں ہے، بلکہ وہ بیٹی تیرے لیے سراپا رحمت ہی رحمت ہے ۔ اس کے سلسلے میں کبھی زحمت کا گمان بھی نہ کر، بلکہ ہمیشہ رحمت کا خزانہ سمجھنا، کیوں کہ یہ تیری دنیا بھی سنوارے گی، باعث برکت ہو گی او راس کی پرورش اور دیکھ بھال تجھے بڑی آسانی کے ساتھ جنت تک پہنچائے گی او رجہنم سے سد سکندری کی طرح آڑ بن جائے گی، نیز وہ لڑکی کا باپ اور میں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں۔
ایک طرف عرب دورِ جاہلیت کا وہ معاملہ تھا ،جو لڑکی کی پیدائش کو اپنے لیے باعث ننگ وعار سمجھتے ہوئے اسے زندہ در گور کر دیا کرتے تھے اور دوسری طرف بیٹی کی پیدائش پر اس کی تربیت وپرورش کے حوالے سے یہ بشارتیں او رتیسری طرف ہمارا ماحول اور لڑکیوں کے سلسلے میں موجود ابتر صورتِ حال ہے، جو ہر سلیم الفطرت انسان کو اس کی سنگینی پر بے چین کر چھوڑتی ہے۔ آج یہ خیال صدفی صد غلط ثابت ہو رہا ہے کہ لڑکی کی پیدائش کو منحوس، باعث ننگ وعار سمجھنا یہ جاہلیت کے دور کی دین ہے یا سماجی جہالت ہے، جب جب تعلیمی سدھار ہوتا جائے گا اور علم کی روشنی پھیلے گی تو جنس کی بنیاد پر فرق وامتیاز خود بہ خود مٹتا چلا جائے گا، لیکن موجودہ اعداد وشمار اس تصور کے برخلاف ہیں، کیوں کہ اس وقت یہ رسم جاہلیت، یعنی دختر کشی کا رحجان معیاری گھرانوں، بہترین کالونیوں میں رہنے والے خاصے پڑھے لکھے او راچھا کمانے والوں میں بھی موجود ہے، چناں چہ یونی سیف کی تازہ رپورٹ کے مطابق پیدائش سے پہلے یا بعد تقریباً پانچ کروڑو بچیوں کو بے رحمی سے ختم کر دیا گیا ہے۔ 1991ء سے 2011ء تک بیس سال کے عرصے میں ایک کروڑ پچاس لاکھ بچیوں کو پیدائش سے پہلے مار ڈالا گیا ہے۔ (بحوالہ راج:18/ ستمبر2011ء)
اس سے آگے بڑھیں تو اور بھی حیرت واستعجاب ہو گا،26/ ستمبر2011ء کو یہ خبر شائع ہوئی کہ کیرل میں یہ قانون پاس ہونے جارہا تھا کہ تیسری مرتبہ ماں کے پیٹ میں بچہ آتے ہی باپ کو جیل جانا پڑے گا دس ہزار روپے جرمانہ دینا یقینی ہے، اس میں مذہبی اور سیاسی لحاظ سے کوئی چھوٹ نہ ہو گی، بلکہ گورنر کی طرف سے بھی پابندی لگا کر قانون کو او رمضبوط کیا جائے گااور نہ جانے کیا کیا ہتھکنڈے دختر کشی یا بالفاظ دیگر فیملی پلان کے نام پر مردوں کی نس بندی وغیرہ کے ذریعہ کیے گئے اور کیے جارہے ہیں؟ ( العیاذبالله) اس عمل کا محرک جہاں حکومت وقت کی پالیسی یا اسلام دشمنی پر مبنی خیالات کو عام کرنا ہے، وہیں سیدھی سی بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ جوں جوں رحم میں جنس کی تشخیص کی میڈیکل سہولت عام ہوتی گئی ویسا ہی قتل کا تناسب زیادہ ہوتا گیا، اس لیے کہ عموماً والدین، خاندان اور سسرال کے دیگر احباب حتی الامکان ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ آخری بچہ یا پہلا ہر حال میں لڑکا ہی ہو، اس لیے وہ ڈاکٹر او رجدید میڈیکل جانچ وغیرہ کا سہارا لے کر پیٹ میں پلنے والی لڑکی کو دنیائے آب وگل میں آنے سے پہلے ہی بن بلایا مہمان سمجھ کر ختم کرکے نہ صرف ملک وسماج کو خراب، بلکہ اپنے ایمان وآخرت کو برباد کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ فیملی پلاننگ کی دین ہے ، اگر یہ فیملی پلاننگ کا حربہ اور نظام، سماج اور ملک میں نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی لڑکی کو مارنے کے بارے میں نہیں سوچتا، بلکہ یہ خیال کرتا کہ جو بھی بچہ آرہا ہے، آنے دو،ا بھی مواقع بہت ہیں، آگے کبھی بھی لڑکا ہو سکتا ہے، جس سے اپنی نسل چل جائے گی، کوئی فکر کی بات ہی نہیں ہے، جس کی مثال آج سعودی عرب ودیگر متدین اسلامی ممالک میں موجود ہے، لیکن اس کے برخلاف فیملی پلاننگ کا قانون در حقیقت لڑکیوں کے لیے سم قاتل ہونے کے علاوہ او رکچھ نہیں۔ خوب سمجھ لیں۔
دختر کشی یا لڑکی کی پیدائش پر ناخوش ہونا الله کے نظام قدرت اور فطرت کے ساتھ کھلواڑ ہے اور جب جب ایسا ہو گا تو اس کے مضر اثرات دنیا میں ضرور ظاہر ہو کر رہیں گے، آج پوری دنیا میں یہ فکر عام ہو چکی ہے اور اکثر جگہوں پر حکومتوں کی سربراہی میں الله کے نظام کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، اس تشویش ناک صورت حال کی وجہ صرف اور صرف زمانہ جاہلیت کا تصور اورمغربی تہذیب کی تقلید ہے، جاہلیت قدیمہ او رجاہلیت جدیدہ میں صرف فرق یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں پیدائش کے بعد بچی کو زندہ درگور کیا جاتا تھا او راب بے رحم اور ظالم سنگ دل ماں باپ رحم مادر ہی میں مختلف طریقوں سے اسقاطِ حمل کراکے دختر کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
یاد رکھیے! بچی الله تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، وہ خالق نسوانیت ہے او رحضور نبی کریم صلی الله علیہ سلم محسن نسوانیت ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عورت کا وہ بطن قابل مبارک باد ہے جس سے پہلی اولاد لڑکی ہو، الله ہی اولاد عطا کرنے والا ہے، وہی ان کو رزق دینے والا ہے اور پوری دنیا کا نظام چلارہا ہے، اشرف المخلوقات انسان سے لے کر حیوانات اور کیڑے مکوڑوں تک وہی تخلیق وربوبیت کا اختیار رکھتا ہے، اگر انسان اس کے نظام قدرت کے ساتھ کھلواڑ کرے گا تو اس کے نقصانات پورے معاشرے پر مرتب ہو کر رہیں گے، خاندانی نظام منتشر ہو جائے گا، جس کے برے نتائج اس وقت مغربی دنیا بھگت رہی ہے، جہاں مستحکم وپاکیزہ خاندان کا کوئی تصور نہیں ہے، لہٰذا انسانی بنیادوں پر حکومتوں، جماعتوں، تنظیموں ، مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اور بطور خاص میڈیکل شعبہ سے جڑے ڈاکٹروں اور علمائے ربانین کی ذمہ داری ہے کہ اس خطرناک سوچ اور اس کے مضر اثرات ونقصانات سے ہر خاص وعام کو آگاہ کریں، عوام بھی اپنی توجہ صرف لڑکوں کے بجائے لڑکیوں پر بھی مرکوز کریں، جو الله جل شانہ کی عظیم نعمت اور دنیا وآخرت میں باعث برکت ہے، سسرال والے اپنی بہوؤں کو، شوہر اپنی بیویوں کو اورخاندان کے رشتہ دار اپنی خاندانی لڑکیوں کو اس سلسلے میں کوئی ٹھیس نہ دیں، انہیں تکلیف دہ باتوں کے ذریعے یا زبان وہاتھ کے ذریعہ ہر گز کوئی تکلیف نہ دیں، کیوں کہ اس میں اس کے کسی عمل کوکچھ بھی دخل نہیں ہے، یہ تو رب العالمین کی قدرت کی کرشمہ سازی ہے، وہ جسے چاہے جو چاہے دے او رچاہے نہ دے، جب ہمارا یہ ایمان ہے تو اس کے خلاف یا عدم وقوع پر اشکال اعتراض کیوں؟ لڑکی کی پیدائش پر بہو، بیوی یا خاندانی لڑکی پر لعنت وملامت کیوں؟ کیا یہ عورت کا قصور ہے؟ بعض لوگ صرف لڑکوں کی پیدائش پر بھی اظہارِ افسوس اور بظاہر ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
مگر در حقیقت خوشی ہی ہوتی ہے، بہرحال اس امر پر ناراضگی یا اظہارِ افسوس کرنا بھی بالکل کوئی معقول بات نہیں ہے، نیز یہ مسئلہ پہلے مسئلے کے مقابلہ میں بہت ہی خفیف ہے اور عام طور سے اس کا کوئی زیادہ چرچا بھی نہیں ہوتا، لیکن یہاں بھی وہی تقدیر پر راضی رہنے والی بات ہے، جس کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی ایک مؤمن کی شان ہے اور اس کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنا گویا تقدیر پر عدم رضا مندی کے مترادف ہو گا، جو ایک مؤمن کی شان کے سراسر خلاف ہے۔
تیسرا طبقہ جن کے یہاں ملی جلی اولاد یعنی لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہیں، وہ ہر اعتبار سے مطمئن اور بے فکر ہوتے ہیں اور نہ ہی خاندان وسماج کی طرف سے ان پر کوئی حرف گیری ہوتی ہے، اس لیے وہ طبقہ خارج از بحث ہے۔
آخر میں وہ طبقہ آتا ہے جن کے یہاں اولاد تو ہوتی ہے، مگر بہ تقدیر الہٰی یا تو مردہ پیدا ہوتی ہے یا پیدا ہونے کے چند دن بعد انتقال کر جاتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ والدین یقیناًاظہارِ ہم دردی کے ضرور مستحق ہیں کہ الله تعالیٰ نے ان کی سونی گود ہری بھری ہوتے ہی پھر سے سونی کر دی، مگر ساتھ ہی وہ اس بشارت کے بھی مستحق ہیں جو اولاد کے انتقال کر جانے پر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایسے والدین کو دی ہے۔ چناں چہ ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس کی اولاد دنیا میں زندہ نہ رہے یا کسی کی ایک آدھی اولاد بعد ولادت انتقال کر جائے یا مردہ ہی پیدا ہو تو وہ اولاد آخرت میں اپنے والدین کی نجات کا ذریعہ بنے گی، بلکہ یہاں تک ارشاد فرمایا کہ وہ اولاد اپنے والدین کی نجات کے سلسلے میں الله تعالیٰ سے حجت کرے گی او رہر حال میں ان کی سفارش کرکے اگر وہ اپنے اعمال کی وجہ سے مستحق جہنم ہیں تو ان کو نجات دلاکر اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گی اور الله تعالیٰ بھی ان کی سفارش قبول فرمائیں گے۔
یقینا دنیوی اعتبار سے یہ والدین تعزیت اور اظہارِ ہم دردی کے مستحق ہیں، مگراخرو ی اعتبار سے یہ چیز انتہائی مبارک، بلکہ ذریعہ نجات ہے اور اس معاملہ میں بھی نہ عورت کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی اس کے کسی عمل کا کچھ دخل، بلکہ یہ سارا نظام قدرت خداوندی کے تابع ہے، لہٰذا ان تمام اُمور میں ایک بندہٴ مؤمن کو تقدیر کے ہر فیصلے پر بلاچوں چرا راضی رہنا چاہیے او رہر چیز کو خواہ وہ لڑکی ہو یا لڑکا یا مردہ ہو کر پیدا ہو یا پیدا ہو کر انتقال کر جائے ہر صورت کو، خدائی حکم سمجھ کر مان لینا چاہیے، یہی ایک مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے اور ایسے ہی لوگ کام یاب ہیں، کیوں کہ ایمان کا ایک شعبہ”والقدر خیرہ وشرہ من الله تعالی“ بھی ہے، اس لیے ان تمام معاملات میں عورت کو موردِ الزام ٹھہرانا یا اس کو قصوروار گرداننا نادانی، حماقت اور جہالت ہے، بلکہ یہ سارا معاملہ الله تعالیٰ ہی کی مرضی او رمشیت کے تابع ہے، جس کو قبول کرنا ہی عین ایمان، عبدیت وبندگی ہے، الله تعالیٰ ہمیں ان حقائق کا صحیح علم اور اس پر مکمل ایمان لانے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!
یہ فتویٰ سائنس کا ہے ملاّ کا نہیں
(۱) دنیا میں انسان کی آمد، انسان کا خالق سے رشتہ، انسان کا مخلوق سے رشتہ، انسان کا کائنات سے رشتہ، انسان کا انسان سے رشتہ مرد اور عورت کا کائنات میں کام ومقام یہ چند بہت اہم بنیادی سوالات رہے ہیں۔ جن کا جواب تاریخ کے ہر دور میں آسمانی ہدایت کے تحت بھی دیا گیا اور خالص فلسفیانہ اور عقلی جوابات بھی دئے گئے۔ اسی طرح کے اہم ترین سوال یعنی اختلافِ مرد و زن و حیثیت مرد وزن پر حالیہ دور میں پھر اختلاف اور بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ہوا یہ کہ ماہ جنوری میں ایک مباحثہ کے دوران دنیا کی 100 سب سے بہتر یونیورسٹیوں میں نمبر ایک کی یونیورسٹی ہارورڈ کے صدر لیری سمرس (Larry Summers) نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ حساب اور انجینئرنگ جیسے مضامین میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجہ حیاتیاتی اختلافات (جسمانی) ہوسکتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلہ میں ہوئی ریسرچ کا حوالہ بھی دیا۔ امریکہ کی ایک تحقیق میں کیمیلا بینبو (Camilla Benbow) اور ڈیوڈ لیبنکی (Daid Lubinski) 20 سال تک ذہین طلباء کے ریکارڈ کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ لڑکے حساب، کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ میں بہتر صلاحیت دکھاتے ہیں اور لڑکیاں بایولوجی، سماجیات اور عمرانیات میں زیادہ بہتر صلاحیت اور دلچسپی دکھاتی ہیں۔ جرمنی کی گین یونیورسٹی کے سائنسداں پیٹرا کیمپل وغیرہ نے اس کی ایک امکانی وجہ زمانہ حمل میں نر جنین کا مردوں کے خاص ہارمون (Testosterone) سے زیادہ فیضیاب ہونا بتایا ہے۔ جبکہ مادہ جنین کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ وکاس سنگھ ٹائمس آف انڈیا 30/1/05 لیری سمرس کے اس علمی انکشاف کے بعد دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکی اسکولوں میں اساتذہ میں خواتین اساتذہ کی تعداد 35% ہے مگر حساب اور سائنس کے میدان میں یہ تعداد 20% رہ جاتی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا 28/1/05 ۔
ایک اور تحقیق جو کہ 7/2/05 کو شائع ہوئی اس کے مطابق مردوں کا دماغ خواتین کے مقابلہ 4 گنا تیزہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مردوں کے دماغ کے خلیات Cells میں پیغامات کی ترسیل کی رفتار خواتین کی رفتار سے 4گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈ اور فلپ ورنان اور یونیورسٹی آف ویسٹرن اونٹاریو کے اینڈریو جائسن نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں بتایا کہ ہم نے 186 مرد طلباء اور 201 طالبات پر مختلف سائنسی تجربات سے دونوں کے دماغی خلیات کی رفتار کار میں یہ فرق پایا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ مردوں کے دماغی خلیات پر ایک حفاظتی مادّہ مائلین Myelin کی پرت خواتین کے خلیات کے مقابلہ زیادہ موٹی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان خلیات کے درمیان اور آپس میں خواتین کے خلیات کے مقابلہ زیادہ سرعت سے پیغامات ارسال ہوتے ہیں۔
(۲) سائنسدانوں نے پایا کہ کسی شے کو دیکھنے کے بعداس کی اطلاع کو آنکھ سے دماغ کے اُس حصہ تک پہنچنے میں جہاں سے اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے جو وقت لگتا ہے وہ مدت خواتین میں زیادہ ہے۔
راجر ڈابسن اور آئبرڈیل۔ سنڈے ٹائمز لندن بحوالہ 7/2/05 to 1 ان سائنسی انکشافات کے بعد ”جدیدیت“ اور ”سائنسی فکر“ کے حاملین نے عجیب غیر سائنسی اور اڑیل رویہ اپنایا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اختلاف یا فرق بناوٹ کا نہیں ماحول کا ہے۔ کیونکہ عرصہٴ دراز سے خواتین کی حق تلفی ہوتی رہی ہے ان کو کمتر، کم عقل اور کمزور بتایا گیا ہے تو شاید انھوں نے بھی ایسا مان لیا ہے ورنہ اگر ان کو مردوں کے برابر مواقع ملیں تو وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ وغیرہ۔
مگر مغرب کے ہی بڑے بڑے مفکرین اور محققین بھی کوئی ”دقیانوسی ملاّ“ تو نہیں ہیں اگر وہ تجربات کی روشنی میں کچھ رائے اور نتائج پیش کررہے ہیں تو یا تو اسے مان لینا چاہئے یا اسے ردّ کرنے کے لیے علمی، عقلی ، تاریخی دلائل لانے چاہئیں۔ ورنہ بقول پروفیسر اسٹیون پنکر Steven Pinker کے کہ کسی سائنسی رائے کو پیش کردینے سے ہی اتنا مشتعل ہوجانا اور کوئی دلیل نہ دینا سچائی کو جارح بتانے جیسا ہے۔ پروفیسر موصوف اسی ہارورڈ یونیورسٹی میں علم النفسیات کے پروفیسر ہیں۔ انسانی سماج میں مرد اور عورت کی ذمہ داریاں، حقوق اور دائرئہ کار کے بارے میں جو الٰہی رہنمائی ملتی ہے اُس کے برخلاف جب بھی انسانوں نے چلنے کی کوشش کی تو یاتو عورت کو دیوی بنایا یا دیوداسی۔ مگراس کواس کا صحیح مقام، مرتبہ اور دائرئہ کار نہیں دیا۔ اس حقیقت سے کیسے انکار ممکن ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی بناوٹ، مزاج، رجحانات، اندرونی نظام اور ہارمون کانظام اور ان کے افعال سب انتہائی مختلف ہیں۔ اب یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک جیسے ہی کاموں کے لیے اتنی الگ مخلوق بنائی جاتی؟ اگر مرد اور عورت دونوں ایک جیسے کام کرسکتے ہیں یا ایک جیسی ذمہ داریاں اٹھاسکتے ہیں تو دونوں میں اتنا واضح بدنی، ذہنی ، نفسیاتی فرق کیوں ہے؟
عورتوں کو کمزور بتاکر ان پر ظلم کرنا کسی بھی الٰہی رہنمائی کے شایان شان نہیں ہے۔ جن طاقتوں نے عورتوں کی ترقی کے نام پر انہیں 24 گھنٹہ کام پر لگادیا ہے، وہ ہی دراصل سب سے بڑے ظالم ہیں۔ ورنہ شریعت نے دونوں کو ان کے لیے موزوں دائرئہ کار مختص کیا ہے۔ اسی لحاظ سے عائلی اور سماجی قوانین بنائے گئے ہیں۔ ترغیبات کے ذریعہ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی کہ آخری خطبہ میں اور آخری وصیت میں حضور اکرم … نے عورتوں سے خصوصی بہتر برتاؤ کی تلقین کی۔ جن جدید و قدیم تہذیبوں نے اس تقسیم دائرئہ کار کو نظر انداز کیا انھوں نے مردوزن دونوں کے ساتھ ظلم کیا۔ سائنس جوں جوں ترقی کرے گی اور حقیقتوں سے پردہ اٹھائے گی اسلام کا چہرہ روشن سے روشن تر ہوتا جائے گا۔ باطل کا پروپیگنڈہ بیکار جائے گا۔
اسلام میں عورت کا مقام اور حقوق
﴿لِّلَّذِیْنَ یُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْم، وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:226-225)
جو لوگ قسم کھا لیتے ہیں اپنی عورتوں کے پاس جانے سے ان کے لیے مہلت ہے چار مہینے کی، پھر اگر باہم مل گئے تو الله بخشنے والا ،مہربان ہے اوراگر ٹھہرا لیا ہے چھوڑ دینے کو تو بے شک الله سننے والا، جاننے والا ہے
تفسیر:بیوی کے پاس نہ آنے کی قسم کھانے کا حکم
اہل عرب میں یہ ظالمانہ دستور تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ آنے کی قسم کھا کر انہیں مستقل اذیت میں مبتلا کر دیتے ، نہ طلاق ملتی کہ دوسری شادی کر لیں، نہ بیوی جیسے حقوق ملتے۔ ایسی قسم اٹھانے کو اصطلاح شریعت میں ”ایلاء“ کہتے ہیں ۔ ایلاء کا معنی بھی قسم اٹھانا ہے ۔ (احکام القرآن للجصّاص: البقرہ تحت آیة رقم:226)
الله تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں واضح کر دیا ہے کہ ایسے لوگوں کو صرف چار مہینے کی مہلت ہے ،اگر وہ ازدواجی تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں ،تو قسم توڑ کر ازدواجی تعلقات بحال کریں اور قسم کا کفارہ دیں او راگر چار مہینے تک ازدواجی تعلقات بحال نہیں کیے تو بیوی کو خود بخود طلاق بائن پڑ جائے گی۔
إیلاء کے متعلق فقہی مسائل
1..اگر قسم نہیں کھائی، لیکن بیوی سے صحبت کرنے سے چار مہینے تک رکا رہا توإیلاء نہ ہو گا۔
2..خدا کی قسم نہیں کھائی، بلکہ یوں کہا کہ” تجھ سے صحبت کروں تو تجھ کو طلاق“ اس سے بھی إیلاء ہو جائے گا۔ (تبیین الحقائق:3/177)
3..کسی مدّت متعینہ کو ذکر کیے بغیر اگر یوں کہہ دیا کہ ”خداکی قسم! تجھ سے صحبت نہیں کروں گا“ اگر اسی طرح چار مہینے بغیر رجوع کیے گزر گئے تو إیلاء ہو جائے گااور بیوی کو طلاق بائن پڑ جائے گی۔ (ایضاً)
4..اگر قسم میں چار مہینے کی مدّت متعین کر دے ،تب بھی إیلاء ہو جائے گا۔
5..اگر چار مہینے سے زائد عرصے کی مدت ذکر کر دے تو بھی ایلاء ہو جائے گا۔ ( تبیین الحقائق:3/175)
6..اگر چار مہینے سے کم کی مدت متعین کر دے تو إیلاء نہ ہو گا، البتہ قسم ہو جائے گی، اگر اس عرصے میں بیوی سے صحبت کر لی تو قسم کا کفارہ دینا ہو گا اگر قسم پوری کر لی تو گناہ بھی نہ ہو گا، نہ کفارہ واجب ہو گا، نہ نکاح پر کوئی اثر پڑے گا۔
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَء ٍ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِن کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذَلِکَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحاً وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکُیْم﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:228)
اور طلاق والی عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک او ران کو حلال نہیں کہ چھپا رکھیں جو پیدا کیا الله نے ان کے پیٹ میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں الله پر او رپچھلے دن پر اور ان کے خاوند حق رکھتے ہیں ان کے لوٹا لینے کا اس مدت میں اگر چاہیں سلوک سے رہنا اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق او رمردوں کو عورت پر فضیلت ہے اور الله زبردست ہے، تدبیر والا
ربط آیات: چوں کہ گزشتہ آیات میں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی احکام بیان کیے جار ہے ہیں ،اب میاں بیوی کے معاشرتی احکام بیان کیے جارہے ہیں۔
تفسیر: میاں بیوی کے باہمی حقوق
مذکورہ آیت میں ایک حق تو بتایا جارہا ہے کہ اگر مزاج میں عدم موافقت کی وجہ سے میاں بیوی میں جدائی ہو گئی ہے تو عورت کو چاہیے عدت گزارتے ہوئے اگر اس کے پیٹ میں حمل ہے تو ظاہر کر دے۔ چوں کہ حمل کی وجہ سے عدت کی مدت بڑھ جاتی ہے۔ اور عدت سے گزرنے اور جلدی دوسری جگہ شادی کرنے کے شوق میں حمل کو چھپا کر نہ بیٹھے اور عدت میں بھی پہلے شوہر کو زیادہ حق حاصل ہے، اگر وہ حسن معاشرت کے ساتھ بیوی رکھنے پر آمادہ ہے تو وہ رجوع کر لے، کیوں کہ عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں، آگے ان حقوق پر روشنی ڈالتے ہیں۔
یورپ کی تحریک آزادی نسواں کا سرسری جائزہ
اسلام نے عورت کو انفرادی او رمعاشرتی طور پر کیا مقام دیا ہے ؟ اس پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ایک نظر یورپ کی تحریک آزادی نسواں پر ڈال لیں ،کیوں کہ ہمارے ارد گرد اٹھنے والی حقوق نسواں کی علم بردار تحریکوں کا فکر ی ماخذ یہی تحریک ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ قدیم میں عورتوں کا کوئی معاشرتی مقام نہ تھا ، روم ویونان کے فلاسفہ اسے نحوست کی علامت قراردیتے تھے ، بلکہ یورپی مفکرین ایک عرصے تک اس موضوع پر سر کھپاتے رہے کہ عورت میں روح ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر ہوتی ہے تو حیوانی ہے یا انسانی؟ اگر انسانی ہے تو مرد کے مقابلے میں اس کا معاشرتی مقام کیا ہے ؟ وہ مرد کی پیدائشی غلام ہے یا اس کا مرتبہ غلاموں سے ابتر ہے؟ اگر کسی عورت کو مقام ومرتبہ ملتا تو فقط اس لیے کہ وہ ان کی معاشرتی تقریبات کی روح رواں بن کر عیاش طبقے کے لیے سامان تفریح پیدا کرتی ہے،اس کی عزت کا سارا انحصار اسی پر تھا،کہ وہ مرد کے لیے کہاں تک سامان عیش مہیاکر سکتی ہے ، یورپ میں جب تک جاگیرداری نظام قائم تھا ،عورت کی حیثیت زرعی غلام کی سی تھی، تاہم اس کی کفالت اور نان ونفقہ کی ذمے داری مرد ہی اٹھاتا تھا۔ لیکن عورتیں گھریلو صنعتوں میں کام کرکے مرد کی کفالت کا معاوضہ بھی چکا دیتی تھیں، جب جاگیرداری نظام کی جگہ صنعتی انقلاب نے لی، تو لوگ دیہاتوں کو چھوڑ کر شہروں میں آبسے، پھر یورپ کا مزاج بخل اور سنگ دلی اور خود غرضی سے مرکب ہے ، ہر شخص کی زندگی کا محور اس کی ذات ہے ، کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ، مرد نے عورت کا مالی سہارا بننے سے انکار کر دیا، خواہ ماں ہو یا بیوی۔ جس نے بے راہ روی کو جنم دیا۔ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے اخلاق ومذہب کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ، اب عورت کی عزت وعصمت بھی گئی اور مزید یہ کہ معاشی ذمے داری بھی خو دانہیں کے کمزور کندھوں پر آپڑی، خاندانی نظام بگڑ گیا اور عورت کو نفسیاتی اور مالی تحفظ ملنے والے سارے ذرائع ختم ہو گئے ، رہی سہی کسر پہلی جنگ عظیم نے نکال دی، جس میں یورپ کے لاکھوں آدمی مر گئے ، کئی مستقل معذور ہو گئے ، اپنے پیچھے لاکھوں عورتیں اور بچے بے سہارا چھوڑ گئے، مردوں کی تعداد کم ہو گئی ، تعدد ازدواج ناجائز تھا، کارخانوں میں عورتوں سے مزدوری کے علاوہ جنسی تسکین بھی حاصل کی جاتی ، انہیں معاوضہ بھی مردوں کی بنسبت کم دیا جاتا ، ان حالات میں عورتوں کو اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے تحریک چلانا پڑی ، ہڑتالیں ہوئیں، جلسے ہوئے ، ملکی قانون سازی میں حق رائے دہی کا مطالبہ کیا گیا، تاکہ وہاں جاکر عورتوں کے حقوق وضع کیے جائیں، پھر پارلیمنٹ سے پاس کرا کر ملکی قوانین بناکر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیے جائیں، اس پوری جدوجہد میں کئی کھٹن راستے آئے ، جہاں عورتوں کو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ، بہرحال مطالبے منظور ہوئے، ملکی قوانین بن گئے ، عورت پارلیمنٹ میں پہنچ گئی، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟
1..اب بھی عورت کو بحیثیت عورت کوئی مقام نہیں ملا، بلکہ جس قدر مرد کا دل لبھانے کے فن سے واقف ہو گی اسی قدر عزت ملے گی۔
2..اب بھی اس کے نازک کندھوں پر معاشی ذمے داری کا فریضہ قائم ہے، شوہر مالی سہارا بننے کے لیے تیار نہیں ۔
3..اب بھی اسے ذاتی تشخص اور آزادی نصیب نہیں ہوئی، اپنے تعارف کے لیے باپ اور شوہر کا سہارا لینا پڑتا ہے ، اپنی جائیداد پر تصرف کے لیے باپ یا شوہر کا واسطہ ضرور ی ہے۔
4..اب بھی اس کی ذات تجارتی مارکیٹنگ کے لیے” ایک وسیلہ“ ہے۔ (مُلخص شبہات حول الاسلام، ص:171)
اسلام میں عورت کا مقام
اسلام نے عورت کو چودہ سو سال پہلے سے ایسے حقوق دیے ہیں جن سے یورپ کی عورت آج بھی محروم ہے اور بغیر کسی مطالبے کے دیے۔ 1..شرفِ انسانیت: اسلام نے عورت کو شرف انسانیت سے نواز کر اسے کائنات کی اشرف المخلوقات کا جز قرار دیا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء ﴾․ ( النساء:1) ( اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیداکیا اس کا جوڑا اورپھیلائے ان دونوں سے بہت مرداور عورتیں۔ 2..عزت نفس کا احترام: اسلام مرد وعورت کی عزت وناموس اور مقام ومرتبہ میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُن﴾․(الحجرات:11)(اے ایمان والو! ٹھٹھا نہ کریں ایک لوگ دوسروں سے، شاید وہ بہتر ہوں ان سے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے، شاید وہ بہتر ہوں ان سے) 3..مساوی اجر وثواب: اسی طرح آخرت میں اجر وثواب کے لحاظ سے مرد وعورت دونوں کو مساوی قرار دیا ہے:﴿أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی﴾․ (آل عمران:195) ( میں ضائع نہیں کرتا محنت کسی محنت کرنے والے کی تم میں سے، مرد ہو یا عورت) 4..حصول علم: اسلام نے عورت کے لیے دینی تعلیم کا حصول لازمی قرار دیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے حقوق ، شوہر کے حقوق ، علاوہ معاشرتی حقوق اور حلال وحرام کا امتیاز کر سکے ، دنیاوی علوم، جو مباح ہیں، شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان کے سیکھنے پر بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔ 5..خود مختاری: عورت اپنے معاملات میں جو شرعی حدود سے باہر نہ ہوں، مکمل خود مختار ہے، بلکہ نکاح جیسے اہم اور بنیادی مسائل اس کی رضا مندی کے بغیر منعقد ہی نہیں ہو سکتے اور اپنی جائیداد کے تصرف میں کسی واسطے کی محتاج نہیں، اس کا شوہر اس کے مہر میں سے بھی کچھ واپس نہیں لے سکتا۔ 6..علیحدگی کا حق: اگر شوہر ظالم ہے او راس کے ساتھ رہنا مشکل ہے تو حق خلع استعمال کرکے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے۔ 7..معاشی کفالت: شادی سے پہلے تعلیم وتربیت، نان نفقہ کا انتظام، بلوغت کے بعد اچھے رشتے کی تلاش اور پھر باعزت رخصتی کرانا والدین کا شرعی فریضہ ہے ، شادی کے بعد نان ونفقہ کی تمام تر ذمے داری شوہر پر عائد ہو جاتی ہے۔یوں اس کے نازک کندھوں پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔ 8..حق وراثت: عزیز واقارب کے فوت ہونے کے بعد ان کے ترکہ میں عورتوں کا حصہ بھی مقرر ہے اور وہ پنے مال میں مکمل خود مختار ہوتی ہیں، جہاں چاہیں صرف کریں۔
یہاں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے حصے کے مقابلے میں آدھا کیوں ہوتا ہے؟ یاد رہے مرد پر معاشی بوجھ زیادہ ہوتا ہے، والدین کا نفقہ، بیوی کا نفقہ، اولاد کا نفقہ، بعض اوقات ”ولی“ ہونے کی حیثیت سے بہنوں اور قریبی اعزہ کا نفقہ بھی لازم ہو جاتا ہے، اس کے مقابلے میں عورت پر کوئی معاشی بوجھ نہیں ہوتا، بیٹی کی حیثیت سے اس کا نفقہ باپ پر ہے ، بیوی کی حیثیت سے اس کا نفقہ شوہر پر ہے، ماں ہونے کی حیثیت سے اس کا نفقہ اولاد پر ہے ۔ اس کی وجہ سے عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں آدھا رکھا گیا ہے، جو اس کا جیب خرچ ہے، مرد کا دگنا حصہ اس کے افضل ہونے کی وجہ سے نہیں، اگر افضل ہونے کی وجہ سے حصہ دگنا ہوتا تو پھر نیک، صالح، عالم کا حصہ، جاہل کے حصے سے زیادہ ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔
9..قرآن کریم مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے: ﴿وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالَمْعُرْوْفِ﴾اور گزران کرو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح) اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھرو الوں کے ساتھ اچھا ہو ۔(جامع الترمذی، المناقب، رقم الحدیث:3895) 10..دوسرے نکاح پر کڑی شرط: اگر شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ وہ دونوں بیویوں میں عدل، انصاف کے وہ تمام تقاضے پورے کر سکے گا جو شریعت مطہرہ نے شوہر پر عائد کیے ہیں؟ مثلاً نان ونفقہ میں برابری، ساتھ رہنے میں برابری ، اگر وہ اس انصاف پر قادر ہے توفبہا، بصورت دیگراسے دوسری شادی کی اجازت نہیں، تاکہ پہلی بیوی کے حقوق ضائع نہ ہوں، اسی طرح بیوی پر بھی کچھ حقوق ہیں، اطاعت شعار ہو ، نیکی میں رغبت رکھنے والی ہو، قناعت پسند ہو ، شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت ومال کی محافظ ہو ، جب شوہر بستر پر بلائے تو بلاعذر شرعی انکار نہ کرے۔
اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے اسے دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ حقوق نسواں کی تنظیموں نے مسلمان خواتین کو کیوں ہدف بنا رکھا ہے؟ ان کے طریقہ واردات اورچیخ وپکار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصد پردہ نشین اور باحیا خواتین کو گھروں او رپردوں سے نکال کر بے حیائی کو فروغ دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیمیں مسلمان ممالک میں کام کرنے کے باوجود عورتوں کو دیے گئے اسلامی حقوق کا مطالبہ اسلام ( مذہب) کا حوالہ دے کر نہیں کرتیں، کیوں کہ اس سے ان کے مقاصد پر زد پڑتی ہے، مثلاً :بے حیائی کو فروغ دینا ،خاندانی نظام کو تباہ کرنا ، اگر ان کا واقعی یہی مقصد ہے تو معاف کیجیے اسلام اس چھچھورے پن کی اجازت نہیں دیتا ،بلکہ ایسی سرگرمیوں کو عزت وشرف کے منافی سمجھتا ہے ، ان تنظیموں کو واپس یورپ لوٹ جانا چاہیے، جہاں کی مظلوم عورت اس ”آزادی“ سے تنگ آکر اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لے رہی ہے۔ ( مُلخص: شبہات حول الاسلام: الاسلام والمرأة:171)
اسلام اور طلاق
عفت کی زندگی گزارنے کے لیے نکاح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور انسانی نسل کی بقا کے لیے نکاح ہی جائز ذریعہ ہے ، عفت اور اولاد نکاح کے بنیادی مقاصد ہیں ، یہ مقاصد اپنے درست نتائج کے ساتھ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک میاں بیوی میں محبت ، برداشت ، جذبہ ایثار کوٹ کوٹ کر نہ بھر اہو اور دونوں اختلاف مزاج وعادت کے باوجود ایک دوسرے کی رعایت نہ رکھتے ہوں ، اگر مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو اورتحمل کا مادہ مفقود ہو ، شب ورز کا ہر لمحہ تلخیوں سے پر ہو ، مصالحت کی ہر تدبیر ناکامی کا شکار ہو رہی ہو تو میاں بیوی کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اپنی زندگیوں کو ان تلخیوں کی نذر کر دیں ، جس کا نتیجہ دنیا وآخرت میں سوائے بربادی کے کچھ نہیں ، دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ، اسلام اسی دوسرے راستے کی طرف راہ نمائی کرتا ہے ، طلاق اگرچہ الله تعالیٰ کی جائز ٹھہرائی چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز ہے، لیکن جب میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق میں کوتاہی کرنے لگیں تو صرف ضرورت اور آخری تدبیر کے طور پراسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اسلام دینِ فطرت ہے، وہ انسانی فطرت کی تمام کمزوریوں سے مکمل آگاہ ہے ، اس کے ہر فیصلے میں ان کمزوریوں کی مکمل رعایت ہوتی ہے۔
اسلام سے قبل دنیا طلاق کے متعلق افراط وتفریط کا شکار تھی ، آسمانی مذہب رکھنے کا دعویٰ کرنے والے یہودیوں میں کس قدر افراط تھا اس کا اندازہ تورات کی اس عبارت سے لگائیں۔
یہودیّت اورطلاق
تورات میں ہے:”اگر کوئی مرد کوئی عورت لے کے اس سے بیاہ کرے اور بعد اس کے ایسا ہو کہ وہ اس کی نگاہ میں عزیز نہ ہو اس سبب سے کہ اس نے اس میں سے کوئی پلید بات پائی تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کے اس کے ہاتھ میں دے اور اسے اپنے گھر سے باہر کرے اور جب وہ اس گھر سے نکل گئی تو جاکے دوسرے مرد کی ہو وے۔ “ (استثناء:24:1)
یعنی طلاق دینے میں کوئی توقف نہیں ، بات بات پر طلاق دی جاسکتی ہے ، اس کے بالمقابل مسیحیوں میں کس قدر سختی او رتنگی ہے اس کا اندازہ انجیل کے اس حکم سے لگائیں۔
مسیحیت اور ہندومت میں طلاق کا تصور
”جسے خدا نے جوڑا اسے آدمی جدانہ کرے، جوکوئی اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ اس پہلی کے خلاف زنا کرتا ہے اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے۔“ ( مرقس:1:127)
اس وقت مسیحی آبادی کا بڑا حصہ کیتھولک فرقے سے منسلک ہے ، ظہور اسلام کے وقت مسیحیت کی ڈور باگ اسی فرقے کے ہاتھ میں تھی، ان کے ہاں طلاق اب بھی مطلقاً ناجائز ہے، پندرہویں صدی کے آواخر میں اس فرقے کے ظالمانہ طور طریقوں کے خلاف مزاحمت ہوئی، جس کے نتیجے میں دوسرا بڑا فرقہ پروٹسٹنٹ وجود میں آیا ،جس نے پوپ کے مذہبی اقتدار کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ، اس وقت یورپ کے اکثر ممالک کا سرکاری مذہب پروٹسٹنٹ ہے۔ انہوں نے عورت کو طلاق کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے کہ فریقین میں سے کوئی عدالت میں گواہوں سے دوسرے کے متعلق زنا یا ظلم ثابت کر دے، یہ تو ان مذاہب کا حال ہے جو اپنے ہر قانون کو آسمانی قرار دیتے ہیں۔
دوسری طرف ہندومت میں طلاق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، بلکہ شوہر کے مرنے سے بھی طلاق نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ہندؤوں کا نظریہ ہے کہ
” خاوند کی حیثیت پر میشور یعنی خدا کی سی ہے اور پرمیشور ایک ہی ہے، لہٰذا شوہر بھی ایک ہونا چاہیے ۔“ ( تحفة الہند:ص:194)
شوہر کی لاش کے ساتھ بیوی کو ستی ( زندہ جلانے) کا عمل اسی نظریہ کی پیداوار ہے ، شوہر مالک ہے ، عورت مملوک ہے لہٰذا مالک کے ساتھ مملوک کا فنا ہو جانا وفا کی علامت سمجھی جاتی ہے ،اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں اور کام یاب بھی ہوئیں، لیکن عورت کو طلاق ملنے کا حق نہیں ملا،البتہ جمہوری نظام حکومت نے ہندومذہب کو معاشرتی اور عائلی قوانین سے بے دخل کرکے مذہبی رسموں تک محدود کر دیا ہے ۔ اسمبلیوں میں طلاق کے جواز پر بل پاس ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف الحاد پرست معاشروں میں طلاق کااختیار ہی عورت کو دے دیا گیا ہے، اس افراط وتفریط میں اسلام کا نظام طلاق کس قدر منصفانہ ہے۔
اسلام میں طلاق دینے کے طریقے
جس بیوی سے صحبت یا خلوتِ صحیحہ ہو چکی ہو اسے طلاق دینے کے تین طریقے ہیں۔
1..پہلا طریقہ جو سب سے اچھا ہے:سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق دے اور اس وقت دے جب بیوی حیض وغیرہ سے پاک ہو اور ان پاکی کے دنوں میں صحبت بھی نہ ہو ئی ہو۔ عدت گزرتے ہی خود بخود جدائی ہو جائے گی۔ دوسری اور تیسری طلاق کی ضرورت ہی نہیں۔ اسے طلاق احسن بھی کہتے ہیں۔ (تبیین الحقائق:3/21)
2..دوسرا طریقہ جو صرف اچھا ہے:شوہر تین طلاقیں دے، لیکن اکٹھی نہ دے، بلکہ ہر پاکی کے زمانے میں ایک طلاق دے ، تین پاکیاں گزرنے کے ساتھ تین طلاق بھی پوری ہو جائیں گی ۔ لیکن ان پاکی کے ایام میں صحبت بھی نہ ہوئی ہو ۔ اسے طلاق حسن اور طلاق سنت کہتے ہیں۔(تبیین الحقائق:3/23)
3..تیسرا طریقہ جو بدعت اور حرام ہے:طلاق دینے کا بدعت اورحرام طریقہ وہ ہے جو مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے خلاف ہو ۔ مثلاً یک بارگی تین طلاقیں دینا، یا حالت حیض میں طلاق دینا، یاجس پاکی میں صحبت کی ہو اس میں طلاق دینا ،ان تمام صورتوں میں طلاق ہونے کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ہوتا ہے ۔ (تبیین الحقائق:3/24)
جس عورت سے نکاح ہو چکا ہو لیکن خلوت صحیحہ (تنہائی) کی نوبت نہیں آئی تو ایسی عورت کو پاکی اور حیض کے دنوں میں بھی طلاق دینا درست ہے ،مگر ایک طلاق دے ۔ (تبیین الحقائق:3/7)
الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی اقسام
اس کی دو قسمیں ہیں: طلاق صریح: یعنی ایسے الفاظ سے طلاق دینا جس سے عام طور پر طلاق ہی کا معنی سمجھا جاتا ہو، اس کے علاوہ کوئی اور معنی نہ نکلتا ہو، مثلاً تجھے طلاق ہے ، میں نے تجھے چھوڑ دیا، میں نے تجھے آزاد کیا، طلاق صریح میں شوہر کی نیت کی ضرورت نہیں ۔ بلانیت طلاق واقع ہو جاتی ہے، البتہ عدت میں رجوع کر لے تو دوبارہ اس کی بیوی ہو جائے گی ۔ ( تبیین الحقائق:3/39) عدت گزرنے کے بعد حق رجوع ختم ہو جاتا ہے ۔ البتہ نیا مہر باندھ کر نیا نکاح کر سکتا ہے ۔
رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے رجوع کر لے ( یعنی میں اپنی بیوی کو دوباہ اپنے نکاح میں رکھتا ہوں ) یا عمل سے رجوع کر لے، مثلاً بیوی سے بوس وکنار یا صحبت کر لے ۔ ( تبیین الحقائق:3/149) چوں کہ عدت میں رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے ،اس لیے اسے طلاق رجعی بھی کہتے ہیں۔ یاد رہے یہ حق رجوع دو طلاقوں تک رہتا ہے، تیسری طلاق میں یہ حق ختم ہو جاتا ہے۔(ایضاً)
طلاق بائن
یعنی ایسے الفاظ سے طلاق دینا جس سے طلاق کا مطلب بھی نکلتا ہو ،اس کے علاوہ دوسرا معنی بھی نکلتا ہو، مثلاً شوہر نے غصے میں کہا ”نکل جا“ اس سے طلاق کا مطلب بھی نکلتا ہے کہ ”تجھے طلاق ہے، نکل جا“ دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جا۔ اگر نیت طلاق کی ہے تو طلاق بائن پڑ جائے گی ۔ (تبیین الحقائق:3/78)
طلاق بائن کب ہوتی ہے او رکب نہیں؟ کہاں نیت کااعتبار ہے اورکہاں نہیں ؟ یہ سب فقہی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے ۔ البتہ طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ اس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جاتی ہے ۔ اس میں حق رجوع نہیں ، البتہ نیا مہر باندھ کر نیا نکاح کیا جاسکتا ہے۔
تفسیر:مطلقہ عورت کی عدت کا بیان
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوء﴾ (اور طلاق والی عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک) جب زوجین میں باہمی رنجش ہو جائے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں مسلسل کوتاہی ہونے لگے اور اصلاح احوال کی تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں، تو پھر عقد نکاح ختم کر دیناچاہیے، عقد نکاح ختم کرنے کا نام طلاق ہے ، طلاق کے بعد عورت فوراً دوسرا نکاح نہیں کر سکتی ، بلکہ کچھ مدت گزارنے کے بعد دوسرے نکاح کی اجازت ہے ، اس مدت کو عدّت کہتے ہیں ۔ عدّت گزارنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اگر پہلے شوہر کے نطفے سے کوئی بچہ رحم مادر میں پرورش پا رہا ہے، تو اس کا نسب محفوظ ہو جائے گا، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے معاشرے میں نکاح کی اہمیت اور احترا م میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ عقد نکاح کوئی خرید فروخت کا معاملہ نہیں، جو ایک جگہ سے ختم ہوا تو فوراً دوسری جگہ جڑ گیا۔ اس کا تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح نکاح میں ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت کی ازدواجی زندگی کا شہرہ ہو جاتا ہے ، اسی طرح جب یہ عقد ختم ہو جاتا ہے تو مدتِ عدت گزارنے سے ان کی جدائی کی بھی شہرت ہو جاتی ہے ، یہی شہرت ان کے نئے نکاح کے پیغام کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
اس آیت میں مطلقہ کی عدت کا تذکرہ ہے، اگر مطلقہ آزاد خاتون ہے او راس کا شوہر اس سے صحبت یا خلوت صحیحہ کر چکا ہو تو اس کی عدت تین حیض ہیں، تین حیض گزرنے سے پہلے وہ دوسرا نکاح نہیں کر سکتی، اگرعورت کو حمل ٹھہر چکا ہے تو اس کا اظہار کر دے، کیوں کہ حاملہ کی عدت تین حیض نہیں، بلکہ وضع حمل ہے ۔ بچہ کی پیدائش کے بعد ہی وہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے، حمل چھپانے سے عدت کے حساب میں خلل آجائے گا، اس لیے الله تعالیٰ نے ”الله اور آخرت“ پر ایمان لانے کا شعوری احساس دلا کر تاکید فرمائی ہے کہ عورتیں اپنے حمل کی حالت نہ چھپائیں۔
عدّت کی مختلف اقسام
عدّت لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جسے شمار کیا جائے ۔ اور اصطلاحِ شریعت میں اس مدت کوکہتے ہیں جس میں عورت ایک نکاح ختم ہونے کے بعد وسرا نکاح نہیں کر سکتی،۔ (ردالمحتار، باب العدة:3/503) چوں کہ نکاح ختم ہونے کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں، اس لیے عدت کے ایام مختلف ہوتے ہیں۔
1.. اگر شوہر فوت ہو جائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے ۔ ﴿وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً﴾․ (البقرة:234)
2..اگر شوہر نے طلاق دی ہے تو دیکھیں گے عورت کو حیض آتا ہے یا نہیں ؟ اگر حیض آتا ہے تو اس کی عدت تین حیض ہے:﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَء ٍ﴾․(البقرة:228)
اگر حیض نہیں آتا تو اس کی عدت تین ماہ ہے:﴿وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْن﴾․(الطلاق:4)
3..اگر خاتون حاملہ ہو تو اس کی عدت بہر صورت وضع حمل ہے ، یعنی بچہ پیدا ہونے تک وہ عدّت میں ہو گی ، حاملہ کو خواہ طلاق ملی ہو یا شوہر فوت ہوا ہو:﴿ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنّ﴾․ (الطلاق:4) یہ سب آزاد عورتوں کی عدت ہے ، پاکستان کے عائلی قوانین میں ہر خاتون کی عدت نوے(90) دن رکھی گئی ہے ۔ یہ قرآن وسنت سے صریح بغاوت ہے، کسی بھی مسلمان کے لیے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
طلاق رجعی میں مرد کو حق رجوع حاصل ہے
﴿وَبُعُولَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنّ﴾: جن عورتوں کو طلا ق رجعی ملی ہو۔ ان کے شوہر انہیں دوبارہ بغیر نکاح کے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں ، لیکن یہ حق رجوع اس وقت تک رہے گا جب تک عورت عدت میں ہو گی اور یہ عدت بھی تیسری طلاق کی نہ ہو۔ مدت عدت گزرتے ہی حق رجوع ختم ہو جاتا ہے، البتہ چاہیں تو نیا نکاح نیا مہر باندھ کر، کر سکتے ہیں، بشرطیکہ تین طلاقیں نہ دی ہوں۔ اگر عدّت میں رجوع کرنا ہو تو اس کا مقصد گھر بسانا ہو، نہ کہ بیوی کو ستانا۔
عورتوں کے بھی حقوق ہیں
﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾زمانہ جاہلیت میں عورتوں کا کوئی خاص معاشرتی مقام نہ تھا، نہ ہی انہیں کوئی انفرادی حقوق حاصل تھے ، اس آیت میں بتایا گیا کہ میاں اور بیوی حقوق اور ان کی ادائیگی میں برابر ہیں، ہاں! یہ ضرور ہے کہ مرد کو زندگی کے سفر کا نگران بنایا گیا ہے، اس لحاظ سے اس پر ذمے داریاں بھی عورت کی بنسبت زیادہ ہیں او راسی لحاظ سے یک گونہ اسے فضیلت بھی حاصل ہے۔ عورتوں کے حقوق پر تفصیلی بحث گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
عدّت سے متعلقہ فقہی مسائل
1..طلاق کی عدت اس عورت پر ہے جس سے شوہر صحبت یا خلوت صحیحہ کر چکا ہو ، جس سے صحبت نہ ہوئی ہو اور خلوت صحیحہ بھی میسر نہ آئی ہو اس پر کوئی عدت نہیں۔ (فتاوی عالمگیری:2/543)
2..طلاق بائنہ کی عدّت میں عورت اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ ( الفقہ الاسلامی وادلّتہ:9/6964)
3..شوہر کے طلاق دیتے وقت یا انتقال کے وقت بیوی جس مکان میں رہائش پذیر تھی ،وہیں عدت کے ایّام گزارے گی ۔ ( تبیین الحقائق :3/270) البتہ اگر مکان گرنے کا اندیشہ ہو یا عورت کو اس میں اپنی عزت وناموس کا خوف ہو تو مکان تبدیل کر سکتی ہے۔ ( تبیین الحقائق:3/270)
4..طلاق رجعی کی عدت میں شوہر سے کوئی پردہ نہیں ، البتہ طلاق بائنہ کی عدت میں او رتین طلاقوں کی عدت میں شوہر سے مکمل پردہ کرنا ضروری ہے۔ (فتاوی عالمگیری:2/551)
5..جس عورت کو تین طلاقیں مل چکی ہوں یا طلاقِ بائنہ ملی ہو ، یا شوہر کا انتقال ہوا ہو، ان کو ان تمام صورتوں میں عدت کے اندر بننا سنورنا جائز نہیں، البتہ طلاق رجعی کی عدت میں بننا سنورنا جائز ہے۔ (تبیین الحقائق:3/366)
6..اگر معتدہ بیمار ہو تو اس کے لیے طبیب کو گھر پر بلا لیا جائے یا زبانی مرض بتا کر دوا منگالی جائے ،اگر یہ مشکل ہو تو ہسپتال لے جانا جائز ہے۔ ( تبیین الحقائق:3/270)
7..طلاق کی عدّت میں نان ونفقہ شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔ (ہدایة:2/423) اور عدّتِ وفات میں نان ونفقہ کا خرچ خود اٹھائے کیوں کہ شوہر کے ترکہ سے بیوی کا حصہ مقرر ہوتا ہے۔(تبیین الحقائق: 3/271) اگر عدت وفات میں نان ونفقہ کا مناسب انتظام نہیں ہو سکتا تو ملازمت کے لیے گھر سے باہر جاسکتی ہے، لیکن رات اسی مکان میں آکر گزارے۔ ( ایضاً)
8..اگر عورت کو طلاق اپنی معصیت کی وجہ سے ہوئی ، مثلاً سوتیلے بیٹے سے غلط تعلق بنا لیا یا نعوذ بالله مرتدہ ہو گئی تو نان ونفقہ نہیں ملے گا۔ (ہدایہ:2/434) (جاری)
طلاق رجعی ہے دو بار تک، اس کے بعد رکھ لینا موافق دستور کے یا چھوڑ دینا بھلی طرح سے اور تم کو روا نہیں کہ لے لو کچھ اپنا دیا ہوا عورتوں سے، مگر جب کہ خاوند عورت دونوں ڈریں اس بات سے کہ قائم نہ رکھ سکیں گے الله کا حکم تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر اس میں کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جاوے، یہ الله کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ،سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو کوئی بڑھ چلے الله کی باندھی ہوئی حدود سے، سو وہی لوگ ہیں ظالم
تفسیر:طلاق کی تعداد اور خلع کا بیان
مذکورہ آیتوں میں دو چیزوں کی وضاحت کی گئی ہے، ایک طلاق کی تعداد کا بیان، دوسرا خلع کا بیان۔
زمانہ قدیم میں طلاق کی کوئی تعداد متعین نہیں تھی، لوگ طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے پھر رجوع کر لیتے ،اسی طرح طلاق ورجوع کا یہ سلسلہ سینکڑوں بار ہوتا ،کبھی عورت کو اذیّت دینے کی غرض سے اسے اس طرح سے معلق رکھا جاتا۔ اسلام نے اس ظالمانہ طریقہ طلاق کو ختم کرکے طلاق کی تعداد متعین کر دی کہ صرف دو طلاقوں کے بعد رجوع کا حق ہو گا، تیسری طلاق دینے کے بعد میاں بیوی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جائیں گے ۔ رجوع کرنے کا حق بھی اس وقت ہے جب طلاق صریح الفاظ سے دی ہو، اگر طلاق کنائی ہو تو تجدید نکاح او رمہر ضروری ہے، اگر طلاق دینے کے بعد اصلاح احوال کی اُمید ہو تو رجوع کرنا چاہیے، بصورت دیگر خوش اُسلوبی کے ساتھ جدا ہو جانا چاہیے۔
اگر میاں بیوی میں موافقت نہ ہوتی ہو اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی ا دائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوں اور شوہر طلاق بھی نہ دے رہا ہو یا شوہر تو پورے حقوق ادا کررہا ہے لیکن بیوی کو شوہر پسند نہیں تو اس صورت میں بیوی خلع کے ذریعے جدا ہو سکتی ہے۔
خلع کسے کہتے ہیں؟
خلع لغت میں ”اتارنے“ کو کہتے ہیں۔( فتح القدیر، کتاب الطلاق باب الخلع:4/188) اصطلاح شریعت میں لفظ ”خلع“ کے ذریعے معاوضہ لے کر عقد نکاح ختم کرنے کا نام خلع ہے ۔ (ایضاً) جس کا طریقہ کاریہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر کوپیش کش کرے کہ میں اتنا مال دے کر آپ سے ”خلع“ کرتی ہوں، شوہر اس پر رضا مندی کا اظہار کر دے تو خلع ہو جاتا ہے اورنکاح ختم ہو جاتا ہے اور طلاق بائن پڑ جاتی ہے، اگر لفظ خلع کا ذکر نہ ہو مطلقاً مال کا تذکرہ ہو، مثلاً بیوی کہے اس قدر مال لے کر مجھے طلاق دے دو اور شوہر نے قبول کر لیا، یا شوہر کی طرف سے پیش کش ہو اور عورت قبول کر لے تو طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے، اسی قدر مال عورت کے ذمے واجب رہتا ہے۔(ہدایة کتاب الطلاق:2/387)
اسلام میں سب سے پہلا خلع
حضرت ابی بن کعب رضي الله عنه کی صاحبزادی حضرت جمیلہ رضی الله عنہا حضرت ثابت بن قیس رضي الله عنه کے عقد نکاح میں تھیں، حضرت ثابت بن قیس معمولی اور واجبی شکل وصورت کے مالک تھے، حضرت جمیلہ رضی الله عنہا نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ حضرت ثابت بن قیس اگرچہ عمدہ اخلاق کے مالک ہیں ،لیکن ان کی شکل وصورت مجھے پسند نہیں، ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے۔ آپ نے فرمایا کیا تم ثابت کو وہ باغ واپس کردوگی جو انہوں نے تمہیں دیا ہے؟ حضرت جمیلہ رضی الله عنہا نے رضا مندی کا اظہار کیا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا تم اس سے باغ واپس لے کر اس کے بدلے میں اسے طلاق دے دو، یہ اسلام میں سب سے پہلا خلع تھا۔ مذکورہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی۔ ( صحیح البخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع، رقم الحدیث:5273)
خلع سے متعلّقہ فقہی مسائل
1...اگر خلع کی نوبت بیوی کی زیادتیوں کی وجہ سے آئی ہے او رخلع کی پیش کش بھی اسی کی طرف سے ہے تو گناہ گار ہو گی ، شوہر کو مال لینے میں کوئی گناہ نہیں، البتہ مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے، کیوں کہ یہ مکروہ ہے ۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الطلاق، باب الخلع:2/508)
2...اگر خلع کی نوبت لانے میں سارا ہاتھ مرد کا ہے، وہ بیوی کے حقوق شرعیہ اداکرنے میں کوتاہی کا مرتکب تھا تو اس صورت میں شوہر کے لیے مہر لینا بھی جائز نہیں ہو گا، اگر لیا تو گناہ گار ہو گا ، عورت مال دینے سے گناہ گار نہیں ہو گی ۔ (ایضاً)
3...اگر مرد عورت کو قصور وار سمجھتا ہے او رعور ت مرد کو قصور وار سمجھتی ہے، ہر فریق اپنی رائے میں خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم سمجھتا ہے، تو پھر نہ مرد کو مال لینے میں گناہ ہو گا او رنہ عورت کو خلع کی پیشکش کرنے میں گناہ ہو گا۔(ملخص از بیان القرآن، البقرة تحت آیة رقم:229)
4...خلع کے ذریعے ہونی والی طلاق طلاق بائن شمار ہوتی ہے ۔ (ہدایة ، کتاب الطلاق:2/384) اگر دونوں دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرنا چاہیں تو تجدید نکاح اور مہر کے ذریعے اکٹھے ہو سکتے ہیں ۔ بشرطیکہ تین طلاقیں نہ ہو چکی ہوں ۔
5...خلع کی عدّت میں نان ونفقہ شوہر کے ذمے واجب ہے ،البتہ اگر عورت خود کہہ دے کہ میں نان ونفقہ بھی نہیں لوں گی تو کچھ ذمے نہیں۔ (ردّالمحتار، کتاب الطلاق:2/276)
6...عدالت کی طرف سے شوہر کی رضا مندی کے بغیر دی جانے والی خلع کی ڈگری سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا،نکاح برقرار ہی رہتا ہے، کیوں کہ خلع کی صحت کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری ہے۔ ( تبیین الحقائق، کتاب الطلاق:2/271)
ایک مجلس میں تین طلاقوں کا شرعی حکم
شریعت مطہرہ نے طلاق دینے کا احسن طریقہ یہ بتایا کہ ایک طلاق ایک پاکی ( جس میں صحبت نہ کی گئی ہو ) میں دے کر چھوڑ دیا جائے، اس کے علاوہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تین طلاقیں تین پاکیوں میں الگ الگ دی جائیں اور کسی بھی پاکی میں صحبت نہ کی گئی ہو۔ اگر کوئی شخص شریعت کے بتائے ان طریقوں کو پامال کرتے ہوئے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے یا بیک کلمہ تین طلاقیں دے دے تو اس کی یہ طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ۔ قرآن کریم کی ظاہری آیت اور احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام کے آثار ، فقہائے کرام، اور محدثین ومجتہدین کے اقوال سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں، یا ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں ، حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کے زمانہ خلافت میں تو اس مسئلے پر صحابہ کرام کا اجماع ہوا، اسی بنا پر ائمہ اربعہ،، امام اعظم ابوحنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم الله تعا لیٰ ایسی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے او راسی کا فتوی دیتے تھے، اگرچہ ایسی طلاق دینے والا شخص گناہ گار ہو گا، لیکن غلط طریقہ اختیار کرنے سے وقوع طلاق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،مندرجہ ذیل صحابہ کرام ایک مجلس اور ایک لفظ سے بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت عبدالله بن مسعود ، حضرت عبدالله بن عباس، حضرت عبدالله بن عمر، امّ المومنین حضرت عائشہ ، حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت زید بن ثابت ، حضرت انس بن مالک، امّ المؤمنین حضرت ام سلمہ ، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابوموسی الاشعری، حضرت مغیرہ بن شعبہ ث۔(مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، مجموعہ مقالات ہند جلد سوم، طلاق ثلث)
تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے والوں کا تجزیہ
غیر مقلّدین، منکرین حدیث ، فرقہ اثنا عشریہ، ایک مجلس میں دی گئی او رایک لفظ سے دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے ہیں، ان کا استدلال قرآن کریم کی اسی آیت ”الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ“ سے ہے کہ طلاق شریعت کی نظر میں وہی معتبر ہے جویکے بعد دیگر ے واقع کی گئی ہو ،یعنی نہ بیک لفظ ہو، نہ بیک مجلس ہو، کیوں کہ ”مَرَّتَانِ“ یکے بعد دیگرے کو کہتے ہیں۔ بیک لفظ او ربیک مجلس میں تین طلاقیں دینا شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے موافق نہیں ہے۔ اسی لیے ایک سے زائد طلاقیں لغو شمار ہوں گی، غیر مقلدین کا یہ طرزِ استدلال کئی وجوہ سے انتہائی کمزور بنیادوں پر قائم ہے۔
1...پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ آیت طلاق رجعی کی آخری حد اور طلاق کی انتہائی تعداد بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، نہ کہ طلاق کا طریقہ بیان کرنے کے لیے ، کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں طلاق ورجوع کا سلسلہ بغیر کسی قید اور عدد کے چلتا رہتا تھا، یہاں تک یہ آیت نازل ہوئی اور طلاق کی تعداد متعین کر دی گئی، چناں چہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:
طلاق کی کوئی حد نہیں تھی، آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کر لیا کر تا تھاتو ان کے لیے تین طلاق کی حد مقرر کردی گئی، ایک اور دو طلاقوں تک رجعت کر سکتا ہے، تیسری کے بعد حق رجوع ختم ہو جاتا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ، البقرة تحت آیة رقم:229)
علامہ ابن جریر طبری (تفسیر ابن کثیر ، البقرة تحت آیة رقم:229) حافظ ابن اکثیر (ایضاً) امام رازی رحمہم الله تعالیٰ نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا، نیز علامہ آلوسی رحمہ الله اس تفسیر کو ”الیق بالنظم وأوفق بسبب النزول“ ( یعنی نظم قرآن سے زیادہ مناسب اور سبب نزول کے زیادہ موافق ) بتایا ہے۔ (روح المعانی، البقرة تحت آیة رقم:229)البتہ امام مجاہد کی رائے کے مطابق یہ آیت طلاق دینے کے طریقے کے بیان کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ( احکام القرآن للجصاص: البقرة تحت آیة رقم:299) اگر اس قول کو راجح قرار دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ طلاق الگ الگ الفاظ میں دینی چاہیے۔ اس پر تو کسی کا اختلاف ہی نہیں ، سب کے نزدیک طلاق ”احسن طریقے“ سے یا ”حسن طریقے“ سے دینا مسنون ہے۔ اصل سوال تو اُسی طرح قائم ہے کہ کوئی شخص مسنون طریقے کو چھوڑ کر بیک لفظ یا بیک مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہے، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ آیت کریمہ اس کے متعلق خاموش ہے، بلکہ تفریق مجلس ( یعنی ہر طلاق کے لیے الگ مجلس ہو ) کے متعلق اس میں کوئی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔
2...دوسری وجہ یہ ہے ”مَرَّتَانِ“ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،ایک معنی ہے ”یکے بعد دیگرے“ یہی معنی لے کر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طلاق وہی معتبر ہو گی، جو یکے بعد دیگر ے جدا جدا الفاظ کی صورت میں دی گئی ہو، غیر مقلدین اسی معنی کو حتمی قرار دیتے ہیں ، حالاں کہ ”مَرَّتَانِ“ کا دوسرا معنی ”دو چند، دگنا“ ہے، چناں چہ قرآن کریم میں کئی مقام پر ”مَرَّتَانِ“ کا لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ﴿أُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُم مَّرَّتَیْْن﴾․ (القصص:54) ( وہ لوگ پائیں گے اپنا ثواب دُھرا)اسی طرح ازواج مطہرّات رضی الله عنہنّ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے﴿ وَمَن یَقْنُتْ مِنکُنَّ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ وَتَعْمَلْ صَالِحاً نُّؤْتِہَا أَجْرَہَا مَرَّتَیْْن﴾․ (الأحزاب:31) ( اور تم سے جو کوئی الله اور اس کے رسول کی تابع دار رہے گی اور نیک عمل کرے گی اسے ہم اس کا ثواب بھی دوگنا دیں گے) ان دونوں آیتوں میں ”مَرَّتَیْْن“ سے ، دوگنا اور دُھرا مراد ہے۔
”مرتان “کے ان دو معنوں کی وضاحت کے بعد یہ بات کھل کر معلوم ہوگئی کہ جس طرح طلاق پہلے معنی کے اعتبار سے یکے بعد دیگرے واقع ہو جاتی ہے، اسی طرح دوسرے معنی کے اعتبار سے بیک لفظ اور بیک مجلس میں دی گئی دو اور تین بھی واقع ہو جائیں گی۔ (اعلاء السنن:11/179)
3... بقول حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب رحمہ الله کے:
یہ بات بھی کس قدر مضحکہ خیز ہے ،جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ممنوع اور غیر مشروع قرار دے کراسے ایک طلاق قرار دیتے ہیں، وہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق بھی ممنوع اور غیر مشروع ہے۔ پھر یہ ممنوع طلاق نافد بھی ہو گی۔
حالاں کہ ان کے مفروضے کے مطابق وہ بھی نافذ نہیں ہونی چاہیے ۔ ملاحظہ فرمائیں غیر مقلدین کے رئیس اعظم نواب صدیق حسن خان کے فرزند نواب میر نور الحسن کی حسب ذیل عبارت:
واذ أدلة باشد اگرچہ بدعی بود ایں صورت منجملہ صور طلاق بدعی واقع است بانکہ فاعلش آثم باشد نہ سائر صور بدعی کہ درآنہا طلاق واقع نمی شود۔ (عرف الجادی من جنان ہدی الہادی ، ص:121، مطبع صدیقی بھوپال)
سوال یہ ہے کہ جب ممنوع اور غیر مشروع ہونے میں ایک مجلس کی تین طلاق اور تیں طلاقوں کی یہ ایک طلاق برابر اور یکساں ہیں یا دونوں کی ممنوعیت وغیر مشروعیت میں تفاوت ہے؟ اگر دونوں میں تفاوت اور کمی بیشی ہے تو اس تفاوت پر شرعی نص در کار ہے، بالخصوص جو لوگ دوسروں سے ہر بات پر کتاب وسنت کی نص کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس دعوے پر قرآن وحدیث سے کوئی واضح دلیل پیش کریں اور اگر دونوں کی ممانعت یکساں ہے اور یہی بات جناب میر نور الحسن مرحوم کی عبارت سے ظاہر ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ مفروضہ خود ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلّم او رقابل عمل نہیں ہے، بلکہ مغالطہ اندازی کے لیے ایک ایسی بات چلتا کر دی ہے جو واقعیت سے یکسر بے بہرہ او رمحروم ہے۔ ( مجموعہ مقالات ہند، طلاق ثلاث صحیح ماخذ کی روشنی میں :3/439)
عموماً ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ شریعت میں اکھٹی تین طلاقیں دینا ممنوع ہے ۔ اب اگر ان ممنوع طلاقوں کو ”الطلاق مرتان“ آیت کریمہ کے عموم میں داخل مان لیں، ان کے نفاذ کو تسلیم کر لیا جائے تو شریعت کی ممانعت کا کوئی معنی ہی نہ ہو گا۔
بظاہر یہ بات بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک بے بنیاد مفروضے سے زیادہ نہیں، اس لیے کہ اس جواب میں ”سبب “اوراس پر مرتب ہونے والے ”حکم“ کو خلط ملط کر دیا گیا ہے ۔ اسباب اور ان پر مرتب ہونے والے احکام دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اسباب کے استعمال کا مکلف بندہ ہے ، اس پر احکام کا مرتب کرنا الله تعالیٰ کا کام ہے، لہٰذا جب شریعت کی طرف سے معلوم ہو جائے کہ فلاں کام کا فلاں حکم ہے تو بندہ جب بھی وہ فعل سر انجام دے گا، تو لامحالہ اس کا حکم بھی ظہور پذیر ہو گا۔ اگر وہ فعل شریعت کی طرف سے دی گئی اجازت اور طریقے کے موافق نہ ہواتو کرنے والاگناہ گارہو گا ،لیکن اس ناجائز فعل کے اختیار کرنے سے اس فعل کے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،وہ لا محالہ مرتب ہو کر رہے گا ۔ اسے ایک مثال سے سمجھیے، الله تعالیٰ نے عورت کے ساتھ ہم بستری کو وجوبِ غسل کا سبب بنایا ،اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ہم بستری کرے تو جائز فعل ہے، غسل فرض ہو جائے گا ،لیکن اگر کسی اجنبی عورت کے ساتھ ہم بستری کا ارتکاب کیا تو اس فعل کے حرام اور ممنوع ہونے کے باوجود اس پر شرعاً غسل بھی فرض ہو گا، بعینہ طلاق کی یہی صورت ہے ۔ الله تعالیٰ نے فعل طلاق کو نکاح ختم کرنے کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے، جب کسی مکلف شخص سے فعل طلاق کا صدور ہو گا تو لامحالہ اس کا اثر بھی مرتب ہو گا ،چاہے طلاق کا یہ مشروع عمل یعنی شریعت کے بتاے ہوئے طریقے کے مطابق ہو یا ناجائز طریقے کے مطابق ہو ، چناں چہ حضرت عبدالله بن عمر رضي الله عنه نے اپنی زوجہ کو بحالت حیض طلاق دی تھی ،جس کاناجائز او رممنوع ہونا شرعاً مسلّم ہے، اس کے باوجود اس طلاق کو نافذ مانا گیا۔ اس صریح نص کے بعد تو اس مفروضہ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ ( ملخص از مجموعہ مقالات ہند، طلاق ثلاث:3/436)
دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں تین طلاقوں کوایک طلاق شمارکیا جاتا تھا، لیکن حضرت عمر فاروق رضي الله عنه نے اپنے زمانہ خلافت میں تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کے لیے شوہر پر حرام کر دیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حضرت عمر فاروق رضي الله عنه قرآن وحدیث کے مخالف تھے؟ ( نعوذ بالله) کیا صحابہ کرام رضي الله عنهم جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی چھوٹی چھوٹی سنتوں کی حفاظت کر تے تھے وہ دین کے اتنے اہم مسئلے کی تبدیلی پر خاموش رہے ؟ حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کے زمانہ خلافت کے بعد عہد عثمانی اورعہد مرتضوی میں کتنے صحابہ کرام یا ان کے شاگرد حضرات ایسے تھے جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تین طلاقوں کے متعلق ایک طلاق کا فتوی اور فیصلہ دیتے تھے؟ اورکتنے صحابہ کرام حضرت عمرفاروق کے فیصلے کے مطابق تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے، کیاغیر مقلدین اس بات کا صحیح سند سے جواب دے سکتے ہیں؟ (ملخص از مجموعہ مقالات ہند، طلاق ثلاث:3/473،490)
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی، یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت، اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاویں، اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے الله کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں الله کی، بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے
تفسیر:حلالہ شرعیہ کی وضاحت
اس آیت کریمہ میں تیسری طلاق کا ذکر ہے ، تیسری طلاق کے بعد حق رجوع نہیں رہتا، میاں بیوی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں ، دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ عورت عدت گزار کر دوسرا نکاح کرے ،اس دوسرے نکاح میں شوہر ہم بستر بھی ہو، پھر اگر یہ دوسرا شوہر طلاق دے یا بقضائے الہی فوت ہو جائے تو پہلے شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے اور بیوی پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جاتی ہے، اسی کو حلالہ شرعیہ کہتے ہیں۔ پہلے شوہر کے واسطے حلال ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ دوسرا شوہر ہم بستر ہو، قرآن کریم میں ”حتی تنکح“ کا لفظ اسی پر دلالت کر رہا ہے۔
حضرت رفاعہ رضي الله عنه نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، بعد میں ان کا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا، کچھ عرصے بعد یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا؛ یا رسول الله: میں رفاعہ کی بیوی تھی، انہوں نے مجھے تین طلاقیں دیں، پھر میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کر لیا، لیکن ان میں مردانگی کمزوری ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تبسم فرماکر پوچھا: شاید تم دوبارہ رفاعة کے پاس جانا چاہتی ہو ؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، ہاں جب تک تم اپنے اس دوسرے شوہر سے ہم بستری کا لطف نہ اٹھا لو اور وہ تم سے لطف نہ اٹھالیں۔ (احکام القرآن للجصّاص، البقرہ تحت آیة رقم:230)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے شوہر کے واسطے حلال ہونے کے لیے ہم بستری شرط ہے۔
حلالہ کی غرض سے کیے جانے والے نکاح کاحکم
اگر کسی نے اس شرط پر نکاح کیا کہ ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دے دوں گا، تاکہ عورت عدّت گزار کر اپنے پہلے شوہر کے لیے تجدید نکاح کے ذریعے حلال ہو جائے تو اس شرط کے ساتھ منعقد ہونے والے نکاح سے حلالہ تو ہو جائے گا، لیکن گناہ گار ہو گا ،کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے کرایا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (جامع الترمذی، رقم الحدیث:1119) یہ حرمت صرف شرط لگانے کی وجہ سے ہے، اگر شرط نہ ہو تو حلالہ بھی ہو جائے گا او رگناہ بھی نہ ہو گا۔
اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو، پھر پہنچیں اپنی عدت تک تو رکھ لو ان کو موافق دستور کے یا چھوڑ دو ان کو بھلی طرح سے اور نہ روکے رکھو ان کو ستانے کے لیے ،تاکہ ان پر زیادتی کرو او رجو ایسا کرے گا وہ بے شک اپنا ہی نقصان کرے گا اور مت ٹھہراؤ الله کے احکام کو ہنسی اور یاد کرو الله کا احسان جو تم پر ہے اور اس کوکہ جو اتار ی تم پر کتاب اور علم کی باتیں کہ تم کو نصیحت کرتا ہے اس کے ساتھ اور ڈرتے رہو الله سے اورجان رکھو کہ الله سب کچھ جانتا ہے اورجب طلاق دی تم نے عورتوں کو، پھر پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو اب نہ روکو ان کو اس سے کہ نکاح کر لیں اپنے انہی خاوندوں سے ،جب کہ راضی ہو جاویں آپس میں موافق دستور کے، یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو کہ تم میں سے ایمان رکھتا ہے الله پر اور قیامت کے دن پر، اس میں تمہارے واسطے بڑی ستھرائی ہے او ربہت پاکیزگی اور الله جانتا ہے او رتم نہیں جانتے (جاری)
رضاعت اور عدت کے چند احکام
ستانے کی نیت سے رجوع نہیں کرنا چاہیے
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النَّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُن﴾زمانہ جاہلیت میں لوگ جب اپنی بیویوں پر ناراض ہوتے تو طلاق دے دیتے ،پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرکے دوبارہ قید نکاح میں لے لیتے، یہ رجوع گھر بسانے کی غرض سے نہیں ہوتا تھا ،بلکہ عورت پر اپنے غصے کی بھڑاس نکالنے او رانتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ہوتا تھا ، اسے ازدواجی حقوق سے محروم رکھا جاتا۔ یوں عورت ظلم کی چکی میں پس کر زندگی گزار دیتی ، نہ دوسرا نکاح کرکے خوش وخرم زندگی گزار سکتی اور نہ ہی شوہر حقوق ادا کرنے پر آمادہ ہوتا ۔الله تعالیٰ نے اس آیت میں تنبیہ فرمائی ہے کہ رجوع تب کرنا چاہیے جب طلاق پر واقعی شرمندگی ہو اورگھر بسانے کی مکمل نیت ہو ۔ ستانے کی نیت سے رجوع کرنا احکام الہٰی کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔
نکاح میں عورت کی رضا مند ی پیش نظر ہونی چاہیے
﴿فَلاَ تَعْضُلُوہُن…﴾ عدت مکمل ہونے کے بعد عورت کے نکاح میں روک ٹوک نہیں کرنی چاہیے ، نکاح عورت کا شرعی حق ہے، وہ جہاں چاہے کر سکتی ہے، البتہ ”کفو“ کوپیش نظر رکھے۔ اگر پہلے شوہر نے تین طلاقیں نہ دی ہوں تو اس کے ساتھ بھی نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں، عزیز واقارب کو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے، الله تعالیٰ کا ہر حکم بھلائی اور خیر خواہی پر مبنی ہے ، اگر نکاح کے معاملے میں مرد وعورت کی رضا مندی کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو ان کے گناہوں میں مبتلا ہو جانے کا قوی خدشہ رہتا ہے، جس سے معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت معقل بن یساررضي الله عنه نے اپنی بہن کانکاح ایک شخص سے کرایا، اس نے کچھ عرصے بعد اسے طلاق دے دی ، حضرت معقل رضي الله عنه نے رجوع کی التجا کی، لیکن وہ نہ مانا، عدت گزرنے کے بعد اس نے نکاح کی خواہش ظاہر کی، حضرت معقل رضي الله عنه کی بہن بھی راضی تھیں،لیکن حضرت معقل رضي الله عنه آڑے آگئے اور اپنی ہمشیرہ کا نکاح اس شخص سے کرانے سے انکار کر دیا ،کیوں کہ یہ پہلے حضرت معقل رضي الله عنه کی فرمائش کو بے مروتی سے رد کر چکا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جب دونوں راضی ہیں تو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
﴿وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْْنِ کَامِلَیْْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَہَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّہُ بِوَلَدِہِ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَیْْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:233)
اور بچے والی عورتیں دودھ پلاویں اپنے بچوں کو دو برس پورے جو کوئی چاہے کہ پوری کرے دودھ کی مدت اور لڑکے والے یعنی باپ پر ہے کھانا او رکپڑا ان عورتوں کا موافق دستور کے، تکلیف نہیں دی جاتی کسی کو مگر اس کی گنجائش کے موافق، نہ نقصان دیا جاوے ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے او رنہ اس کو کہ جس کا وہ بچہ ہے یعنی باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور وارثوں پر بھی یہی لازم ہے ۔ پھر اگر ماں باپ چاہیں کہ دودھ چھڑالیں، یعنی دو برس کے اندر ہی اپنی رضا اور مشورہ سے تو ان پر کچھ گناہ نہیں او راگر تم لوگ چاہو کہ دودھ پلواؤ کسی دایہ سے اپنی اولاد کوتو بھی تم پر کچھ گناہ نہیں، جب کہ حوالہ کردو جو تم نے دینا ٹھہرایا تھا موافق دستور کے اور ڈرو الله سے اور جان رکھو کہ الله تمہارے سب کاموں کو خوب دیکھتا ہے
تفسیر:بچوں کے دودھ پلانے کی مدّت
ان آیات میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال، ان کے دودھ پلانے کی مدت او راس کے متعلقہ احکام کی تفصیل بیان کی جارہی ہے ، بچوں کو دودھ پلانے کی ذمے داری ماں پر عائد ہوتی ہے، جب بچے کی عمر دو سال کی ہو جائے تو پھر ماں کا دودھ چھڑا دیا جائے ، عورت کو دودھ پلانے پر کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، البتہ شوہر کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان ونفقہ کا مکمل انتظام کرے، ماں اور باپ دونوں اپنی طاقت ووسعت کے مطابق اپنی اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کریں ۔ ہر ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ایک جذبانی لگاؤ ہوتا ہے، مر دکو اس سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے ، دودھ تو پلوالے، لیکن عورت کو کھانے پینے کی سہولیات سے محروم رکھے۔ یہ مناسب نہیں۔ اسی طرح عورت کو بھی چاہیے کہ بے جا مطالبے کرکے مرد کو مشقت میں نہ ڈالے۔
﴿ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاًً…﴾ اگر ماں باپ باہمی رضا مندی سے ، بچے کی صحت یا کسی عذر کے پیش نظر بچے کا دودھ قبل از وقت چھڑانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں، لیکن بچے کے حق میں یہ فیصلہ مضر اور نقصان دہ نہ ہو، بچے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے آیا اجرت پر رکھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ یہ سارے معاملات صحیح طور پر اس وقت تک بجا آور نہیں ہو سکتے جب تک دلوں میں تقوی کی شمع روشن نہ ہو، اس لیے تاکید کی جاری ہے وَاتَّقُواْ اللّہ ”الله سے ڈرو“ اسے تمہارے سب کاموں کی خبر ہے کہ کون سا کام کس غرض اور کس نیت سے کیا جارہاہے ۔
اگر والد فوت ہو چکا ہو تو پھر عورت کے نان ونفقہ کی تمام ذمے داریاں ورثا پر عائد ہوں گی ، اگر آیا رکھی گئی تو اس کی اجرت بھی ورثا کے ذمے ہو گی ، یہ سب اس وقت ہے جب بچے کے حصے میں وراثت وغیرہ سے مال نہ ہو، اگر بچے کے حصے میں مال موجود ہے تو اسی مال سے یہ خرچ ادا کیا جائے گا۔
دودھ پلانے سے متعلقہ مسائل
٭...ماں کے دودھ پلانے کی اکثر مدت دو سال ہے ۔ ( البحر الرائق:3/223)
٭...عورت جب تک خاوند کے نکاح میں ہو یا طلاق ہو جانے کے بعد عدت میں ہو تو دودھ پلانے پر اجرت کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرہ تحت آیة رقم:233)
٭...اگر ماں کمزور ہے یا کسی عذر کی بنا پر دودھ نہیں پلاسکتی تو اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا ۔ (رد المحتار:3/619)
٭...عدت گزرنے کے بعد باپ کو چاہیے اجرت دے کر بچے کو حقیقی ماں کا دودھ پلوائے ،اگر وہ آیا سے زیادہ اجرت کا مطالبہ کرتی ہے تو آیا سے پلوائے۔ ( الفقہ الاسلامی وادلتہ:10/7279)
٭...اگر بچے کا باپ انتقال کر جائے تو بچے کو پرورش اور دودھ پلوانے کی ساری ذمے داری ورثا پر عائد ہوتی ہے ۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرة،تحت آیة رقم:233)
٭...اگر بچہ ماں کے علاوہ کسی کا دودھ نہیں پیتا او رباپ مالی کمزوری کی بنا پرآیا نہیں رکھ سکتا تو ماں ہی کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا۔ (ردّالمحتار:2/111)
٭...اگر والدین باہمی رضا مندی سے بچے کا دودھ دو سال مکمل ہونے سے پہلی ہی چھڑالیں تو کوئی حرج نہیں۔ ( البحرالرائق:2/223)
﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ أَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْر، وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُم بِہِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاء أَوْ أَکْنَنتُمْ فِیْ أَنفُسِکُمْ عَلِمَ اللّہُ أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُونَہُنَّ وَلَکِن لاَّ تُوَاعِدُوہُنَّ سِرّاً إِلاَّ أَن تَقُولُواْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ النِّکَاحِ حَتَّیَ یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ فَاحْذَرُوہُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَفُورٌ حَلِیْمٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:235-234)
اور جو لوگ تم میں سے مر جاویں اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو چاہیے کہ وہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن، پھر جب پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس بات میں کہ کریں وہ اپنے حق میں قاعدہ کے موافق اور الله کو تمہارے تمام کاموں کی خبر ہے او رکچھ گناہ نہیں تم پر اس میں کہ اشارہ میں کہو پیغام نکاح ان عورتوں کا،یا پوشیدہ رکھو اپنے دل میں، الله کو معلوم ہے کہ تم البتہ ان عورتوں کا ذکر کر وگے لیکن ان سے نکاح کا وعدہ نہ کر رکھو چھپ کر، مگر یہی کہ کہہ دو کوئی بات رواج شریعت کے موافق اور نہ ارادہ کرو نکاح کا یہاں تک کہ پہنچ جاوے عدّت مقررہ اپنی انتہاکو اور جان رکھو الله کو معلوم ہے جو کچھ تمہارے دل میں ہے، سو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ الله بخشنے والا اور تحمل کرنے والا ہے
تفسیر:جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدت کا شرعی حکم
قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں اس عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو، زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسی عورت کو منحوس سمجھ کر ایک سال کے لیے الگ تھلگ کر دیتے ، اسلام نے ان زیادتیوں سے نجات دلا کر ایسی عورت کی عدّت چار مہینے دس دن مقرر کی ہے ۔ عورت کے لیے یہ سوگ کے ایام ہیں، اس لیے ان دنوں میں زیب وزینت اختیار کرنا، دوسرا نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کے لیے ایسی عورتوں کو پیام نکاح بھیجنا بھی جائز نہیں ،البتہ اشاروں اشاروں میں نکاح کا پیغام دینے میں کوئی حرج نہیں۔ عدت مکمل ہو جانے کے بعد عورت جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
عدّت وفات سے متعلقہ چندفقہی مسائل
٭...جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدّت چار مہینے دس دن ہے ، اگر عورت حاملہ ہو تو عدت وضع حمل ہے۔
٭...عدت وفات میں عورت کو بناؤ سنگھار کرنا، عمدہ لباس پہننا، خوش بو لگانا، بلا ضرورت شدیدہ گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں۔(الدرالمختار، فصل فی الحداد:2/853)
٭...بیوہ جب تک عدت وفات میں ہو اسے صاف لفظوں میں نکاح کا پیغام دینا، نکاح کا وعدہ کرنا حرام ہے۔
﴿لاَّ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاء مَا لَمْ تَمَسُّوہُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَہُنَّ فَرِیْضَةً وَمَتِّعُوہُنَّ عَلَی الْمُوسِعِ قَدَرُہُ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدْرُہُ مَتَاعاً بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ ، وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہِ عُقْدَةُ النِّکَاحِ وَأَن تَعْفُواْ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَیْْنَکُمْ إِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:237-236)
کچھ گناہ نہیں تم پر اگر طلاق دو تم عورتوں کو اس وقت کہ ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور نہ مقرر کیا ہو ان کے لیے کچھ مہراو ران کو کچھ خرچ دو،مقدور والے پر اس کے موافق ہے او رتنگی والے پر اس کے موافق جو خرچ کہ قاعدہ کے موافق ہے ،لازم ہے نیکی کرنے والوں پراو راگر طلاق دو ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے اور ٹھہرا چکے تھے تم ان کے لیے مہر تو لازم ہوا آدھا اس کا کہ تم مقرر کرچکے تھے، مگر یہ کہ درگزر کریں عورتیں یا د رگزر کرے وہ شخص کہ جس کے اختیار میں ہے گرہ نکاح کی یعنی خاوند او رتم مرد درگزر کرو تو قریب ہے پرہیز گاری سے اور نہ بھلا دو احسان کرنا آپس میں، بے شک الله جو کچھ تم کرتے ہو خوب دیکھتا ہے
تفسیر:صحبت اور خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دینے کی صورت میں حق مہر کا حکم
ان آیات میں اس عورت کے احکام بیان کیے گئے ہیں جسے صحبت اور خلوتِ صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی گئی ہو، اس صورت میں مرد وعورت کے باہمی حقوق اور کیا ذمے داریاں ہیں؟ اس کے متعلق تفصیل بیان کی جارہی ہے۔
ایک صورت تو یہ ہے کہ بوقت نکاح عورت کا مہر ہی مقرر نہ کیا گیا ہو اور صحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق ہو گئی ہو ،اس صورت میں عورت پر کوئی عدّت نہیں او رمرد پر حق مہر نہیں، البتہ مرد اپنی حیثیت کے موافق ایک جوڑا عورت کو ہدیہ میں پیش کر دے، تاکہ حادثہ طلاق سے پیدا ہونے والی تلخی کا مداویٰ ہو سکے۔
﴿وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنّ﴾… سے دوسری صورت بیان کی جارہی ہے اگر مہر مقرر ہو او رصحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق ہو گئی ہو تو اس صورت میں شوہر پر نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے، اگر دونوں عفو اور درگزر سے کام لیں تو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے ، عورت کا فضل واحسان یہ ہے کہ وہ اپنا مہر ہی معاف کر دے او رمرد کا فضل واحسان یہ ہے کہ وہ پورا مہر دے دے، یہ مرد کے لیے زیادہ فضیلت کا باعث ہے، مرد عورت پر یک گونہ فضیلت رکھتا ہے، اس لیے اسے فضل واحسان کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے ،تاہم اگر شوہر مفلس ہے تو نصف مہر ہی ادا کر دے، اس پر کچھ گناہ نہیں۔
طلاق او رحق مہر سے متعلق فقہی مسائل
٭...”بِیَدِہِ عُقْدَةُ النِّکَاحِ“ ( اس کے اختیار میں ہے گرہ نکاح کی) اس آیت سے معلوم ہوا کہ طلاق دینے کا اختیار مرد کے پاس ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:236)
٭...بغیر مہر مقرر کیے بھی نکاح ہو جاتا ہے۔ ( الھدایہ:1/303)
٭...اگر ایسی عورت کو صحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلا ق ہو جائے تو صرف ایک جوڑا دینا واجب ہے، یہی مہر کے قائم مقام ہے۔ (فتاوی عالمگیری:2/314)
٭...جوڑا عمدہ ہو یامتوسط؟ اس میں شوہر کی مالی حیثیت کا اعتبار ہے۔ (ردّ المحتار:2/336)
٭...بوقت نکاح مہر مقرر ہو چکا تھا پھر صحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق ہو گئی تو مقرر شدہ مہر کا نصف مرد کے ذمے واجب الادا ہے۔(فتاوی عالمگیری:2/313)
٭...مہر مقرر ہو چکا تھا، صحبت یا خلوت صحیحہ کے بعد طلاق ہوئی تو پورا مہر مرد کے ذمے واجب الادا ہے۔ (فتاوی عالمگیری:2/313)
٭...مہر مقرر نہیں ہوا تھا، پھر صحبت یا خلوت صحیحہ کے بعد طلاق ہوئی تو عورت کو پورا مہر مثل دیا جائے گا۔ (فتاوی عالم گیری:2/314)
حَافِظُواْ عَلَی الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَی وَقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْنَ، فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُکْبَاناً فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْکُرُواْ اللّہَ کَمَا عَلَّمَکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُونَ﴾(سورہ بقرہ، آیت:239-238)
خبردا ر رہو سب نمازوں سے اور بیج والی نماز سے او رکھڑ ے رہو الله کے آگے ادب سے پھر اگر تم کو ڈر ہو کسی کا تو پیادہ پڑھ لو یا سوار، پھر جس وقت تم امن پاؤ تو یاد کرو الله کو، جس طرح کہ تم کو سکھایا ہے، جس کو تم نہ جانتے تھے
ربط آیات:طلاق وعدت کے احکامات کے درمیان نماز کا تذکرہ آگیا، جس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ اسلام معاشرت اور عبادت میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، دونوں اطاعت الہیٰ کا مصداق ہیں، البتہ معاشرت اورمعاملات میں اتنا انہماک نہ ہو کہ عبادات، جو مقصود زندگی ہیں، ان میں خلل آنے لگے۔
تفسیر:درمیانی نماز کے اہتمام کا حکم
ان آیات میں الله تعالیٰ نے تمام نمازوں کی بالعموم اور صلاة وسطی (درمیانی نماز) کی بالخصوص حفاظت کی تاکید فرمائی ہے، حفاظت صلوة کے تین درجے ہیں۔ ادنی یہ کہ نماز وقت پرپڑھی جائے اور فرائض وواجبات ترک نہ ہوں۔ اوسط یہ کہ جسم صاف ستھرا ہو، دل میں خشوع وخضوع ہو، سنن ومستحبات کی پوری رعایت ہو ۔ اعلی یہ کہ نماز میں بارگاہ الہٰی میں حاضری کا ایسا استحضار ہو کہ گویا نماز بار ی تعالیٰ کے مواجہ میں ادا ہو رہی ہے۔”وَقُومُواْ“ حضرت زید بن ارقم رضي الله عنه فرماتے ہیں ابتدائے اسلام میں بحالت نماز بقدر ضرورت گفتگو کی اجازت تھی، یہاں تک کہ اس آیت سے یہ اجازت ختم کر دی گئی۔(مسند احمد بن حنبل:4/368)
صلوٰة وُسْطیٰ کون سی ہے؟
الله تعالیٰ نے تمام نمازوں کو بالعموم اور صلوة وسطی کی بالخصوص حفاظت کی تاکید فرمائی ہے ” صلوة وسطی“ درمیانی نماز کو کہتے ہیں ، درمیانی نماز کون سی ہے؟ اس میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مختلف اقوال منقول ہیں، کسی کے ہاں نماز ظہر کسی کے ہاں نماز عصر، کسی کے کہاں نماز مغرب، کسی کے ہاں نماز عشاء صلوة وسطی ہے۔ کسی نے توقف اختیار کیا ،صحابہ کرام رضی الله عنہم کی جماعت مبارکہ میں سے حضرت علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابوہریرہ رضي الله عنهم اور تابعین میں سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ، امام نخعی رحمہم الله تعالیٰ نے نماز عصر کو صلوة وسطی کا مصداق بتایا ہے۔( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:238)
کیوں کہ نماز عصر، دن کی دو نمازوں فجر وظہر اور رات کی دو نمازوں مغرب وعشاء کے بیچ میں آتی ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ الله تعالی نے صلوة وسطی سے صلوة عصر کی مراد پر اہل علم کااجماع نقل کیا ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:238) اس کی حفاظت کی تاکید اس لیے کی گئی کہ یہ وقت سورج ڈھلنے کا ہے، جس میں دن بھر کی تمام سرگرمیاں اپنی اختتامی مراحل میں آکر عروج پر پہنچ جاتی ہیں اور نماز ضائع ہو نے کے مواقع بکثرت پیش آتے ہیں۔
خوف کی حالت میں نماز کی ادائیگی کا حکم
﴿فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُکْبَاناً﴾… پنج وقتہ نماز فرض کس قدر اہمیت رکھتی ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عین حالت جنگ میں بھی نماز ترک کرنے کی اجازت نہیں، جہاں ہر لمحے جان کو خطرہ درپیش رہتا ہے ۔ الله تعالیٰ نے ایسے ماحول میں کچھ آسانیاں اور سہولتیں بھی رکھ دی ہیں ۔ قرآن کریم میں بحالت خوف نماز پڑھنے کا تذکرہ دو بار آیا ہے، سورة نساء کی آیت:102، میں باجماعت نماز کا بیان ہے اور یہاں انفرادی نماز کا تذکرہ ہے، اگر میدان جنگ میں دشمن کی کارروائی کا خطرہ ہو تو نماز زمین اور سواری دونوں پر پڑھی جاسکتی ہے، قبلہ رخ ہونا بھی ضروری نہیں ، رکوع او رسجدہ مشکل ہو جائے تو اشارے سے بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے، بس سجدے کا اشارہ رکوع کی بنسبت زیادہ جُھک کر کرے ۔ اگر قیام بھی مشکل ہو جائے تو نماز قضا کرکے بعد میں ادا کی جائے احناف کے ہاں چلتے ہوئے نماز خوف پڑھنا جائز نہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرة تحت آیة رقم:239)البتہ امام شافعی رحمہ الله تعالیٰ نے اس کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ ( تفسیر الامام الشافعی رحمہ الله، البقرة تحت آیة رقم:239)
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِیَّةً لِّأَزْوَاجِہِم مَّتَاعاً إِلَی الْحَوْلِ غَیْْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیَ أَنفُسِہِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ، وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْنَ،کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾․(سورہ بقرہ ،آیت:241-240)
اور جو لوگ تم میں سے مرجاویں اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو وہ وصیت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک بر س تک، بغیر نکالنے کے گھر سے، پھر اگر وہ عورتیں آپ نکل جاویں تو کچھ گناہ نہیں تم پر اس میں کہ کریں وہ عورتیں اپنے حق میں بھلی بات اور الله زبردست ہے حکمت والا اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے واسطے خرچ دینا قاعدہ کے موافق لازم ہے پرہیز گاروں پر اسی طرح بیان فرماتا ہے الله تمہارے واسطے اپنے حکم ،تاکہ تم سمجھ لو
تفسیر:مطلقہ کو جوڑا دینا مستحب ہے
﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْن﴾… ابتدائے اسلام میں بیوہ کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہ تھا، عدت بھی ایک سال تھی ، نان ونفقے کی مکمل ذمے داری شوہر کے ورثا پر عائد تھی، آیت میراث نازل ہونے کے بعد ان کا حصہ بھی مقرر ہوا اور عدت بھی چار مہینے دس دن ٹھہرا دی گئی، تب سے اس آیت کا حکم بھی منسوخ ہو گیا۔ (وللمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌ) اس آیت سے ہدایت دی جارہی ہے کہ مطلقہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اختیار کیا جائے، ان کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک جوڑا بھی تحفتاً دے دیا جائے۔ یہ استحباب کا درجہ ہے، البتہ جس عورت کا مہر مقرر نہ ہوا ہو اورصحبت یا خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دے دی گئی ہو اسے جوڑا دینا واجب ہے ۔
﴿کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ﴾… الله تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی رحمت اوراپنے احسان کی طرف متوجہ فرمارہے ہیں کہ نکاح وطلاق اور عدت کے واضح احکام بیان فرمادیے ہیں، جس پر عمل کرکے خدا کی خوش نودی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اسے سمجھو اور اس پر عمل کرو۔نکاح وطلاق کے احکام یہاں ختم ہو گئے ہیں۔(جاری)
پاکدامن عورتوں پہ تہمت لگانے کا وبال :
ماں ککا مقام: :
ماں کے اپنی اولاد پر حقوق:
ماں کے اپنی اولاد پر بہت زیادہ حقوق ہیں انہیں شمار میں لانا ممکن نہیں، تاہم ان میں سے کچھ ہم ذکر کرتے ہیں:
دل و جان کے ساتھ جس قدر ممکن ہو سکے ماں سے محبت اور ماں کا احترام ؛ کیونکہ ماں سب سے زیادہ حسن سلوک کی حق دار ہے۔
اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: (اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) اس حدیث کو بخاری: (5626) اور مسلم: (2548) نے روایت کیا ہے۔
نیز ماں نے ہی تمہیں اپنے پیٹ میں حفاظت کے ساتھ اٹھائے رکھا، اپنے سینے سے تمہیں دودھ پلایا، اس لیے ماں کی محبت لازمی چیز ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، بلکہ فطرت بھی اسی کی متقاضی ہے، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ بچوں کی ماں سے اور ماؤں کی بچوں سے محبت تو جانوروں اور چوپاؤں میں بھی اللہ تعالی نے فطری طور پر رکھی ہے، اس لیے انسان میں ان سے بھی زیادہ ہونی چاہیے جبکہ مسلمان میں انسانوں سے بھی زیادہ ہونی چاہے۔
اگر ماں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو والدہ کا مکمل خیال رکھا جائے، بلکہ یہ تو اولاد کے ذمہ قرض ہے؛ کیونکہ جب اولاد چھوٹی تھی تو ماں نے ہی اس کی ہر چیز کا خیال رکھا تھا، ماں ہی بچوں کی وجہ سے تکالیف جھیلا کرتی تھی اور راتوں کو جاگتی تھی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے لیے حسن سلوک کی تاکیدی نصیحت کی ؛ کہ ماں نے اسے دوران حمل تکلیف جھیل کر اٹھائے رکھا اور زچگی کے دوران بھی تکلیف اٹھائی۔[الأحقاف: 15]
بلکہ اگر جہاد والدین کی خدمت میں رکاوٹ بنے تو جہاد کی بجائے والدین کی خدمت کو بسا اوقات مقدم رکھا جائے گا۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور جہاد کے لیے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے استفسار فرمایا: (کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟) تو اس نے کہا: جی ہاں، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں کی خدمت میں جد و جہد کر) اس حدیث کو بخاری: (2842) اور مسلم: (2549) نے روایت کیا ہے۔
والدہ کو ایسی کوئی بات نہ کہیں جسے سن کر انہیں تکلیف ہو یا کوئی اقدام ایسا نہ کریں جسے وہ ناگوار سمجھیں۔
اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ توں انہیں اف تک نہ کہہ ۔ [الإسراء: 23]
تو اگر "اُف" کہنا حرام ہے تو انہیں تکلیف پہنچانے کا کیا حکم ہو گا؟!!
اگر مالی طور پر والدہ کا ہاتھ تنگ ہو، اور ان کے اخراجات اٹھانے کے لیے ان کا خاوند بھی نہ ہو، یا خاوند تو ہو لیکن مالی استطاعت نہ ہو تو ان کے اخراجات برداشت کریں، بلکہ نیک لوگوں کے ہاں ماں کے کھانے پینے اور دیگر اخراجات اپنے بچوں کے اخراجات سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
جیسے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تین آدمی پیدل چلے جا رہے تھے کہ بارش ہونے لگی ، اس پر انہوں نے پہاڑ میں ایک غار کی پناہ لی، تو اچانک ان کے غار کے منہ پر ایک چٹان آ گری [جس سے غار کا منہ بند ہو گیا]، اس پر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم اپنے انتہائی نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو، اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی : اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے اونچی آواز میں رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ ۔۔" اس حدیث کو بخاری: (2102) اور مسلم: (2743) نے روایت کیا ہے۔
والدہ اگر کسی جائز کام کا حکم دے تو ان کے حکم کی تعمیل کی جائے، لیکن اگر کسی برائی کا حکم دے جیسے کہ شرکیہ کام وغیرہ کا تو یہ قاعدہ ہے کہ جہاں خالق کی نافرمانی ہو وہاں مخلوق کا حکم نہیں مانا جائے گا۔
اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت رکھنا۔ [لقمان: 15]
والدہ کی وفات کے بعد والدہ کے ذمے کفارے ادا کرنا، ان کی طرف سے صدقہ کرنا، حج یا عمرہ کرنا وغیرہ سنت سے ثابت عمل ہیں۔
جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ: (جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہو گئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کرو؛ کیونکہ تم خود ہی دیکھو کہ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اس قرض کو ادا کرتی؟ اسی طرح اللہ کا حق بھی ادا کرو؛ کیونکہ اللہ کے حق کو ادا کرنا زیادہ لازمی ہے) اس حدیث کو بخاری: (1754) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ان کی وفات کے بعد ان تمام لوگوں سے تعلقات کو بحال رکھیں جن کے ان کے ساتھ تعلقات اور رشتہ داری تھی، مثلاً: والدہ کے عزیز و اقارب اور سہیلیاں وغیرہ۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (والدین کے ساتھ بہترین سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ جب والد رخصت ہو جائے تو اُس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔) اس حدیث کو مسلم: (2552) نے روایت کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment