Monday 17 July 2023

حدیثِ متواتر اور احادیث متواتر

حدیثِ متواتر

حدیثِ مُتَواتِر:-
متواتر وہ حدیث ہے جس کو ابتداء سے لے کر آخر سند تک ہر زمانہ میں اتنے لوگوں نے(مسلسل) بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃّ محال نظر آئے، اور سند کی انتہا ایسی چیز پر ہو جس کا تعلق محسوسات سے ہو، نظر وفکر سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا ہے، یہ(یقین)حدیثِ متواتر سے حاصل ہوتا ہے، مثلاً:- قرآن پاک بھی تواتر سے امت تک پہنچا ہے اور علمِ یقین کا درجہ رکھتا ہے۔
مثالِ حدیث:-
﴿امام ترمذی لکھتے ہیں کہ﴾
ہم سے حدیث بیان کی (1)ابوھشام الرفاعی نے، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (2)ابوبکر بن عیاش نے کہ، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (3)عاصم نے، ان سے (5) زِرّ نے ، وہ  حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:
مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔
[جامع ترمذی» کتاب:-علم کا بیان» باب:-اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے» حدیث نمبر: 2659]

[الجامع الصغير وزيادته:11465صحيح الجامع:6519]

نوٹ:-
یہ حدیث یہاں صرف ایک صحابی کی ایک سند سے بیان کی گئی ہے،جبکہ یہ حدیث تقریباً 62 یا 100 سے زائد سے صحابہ نے روایت کیا۔[قواعد المحدثین:٦٠٢]  مختلف سندوں(طریقوں)سے احادیث کی کتابوں میں منقول ہے۔


اس کے علاوہ احادیث متواترہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی  رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة" میں تقریباً ایک سو گیارہ متواتر احادیث نقل کی ہیں، اور علامہ محمد بن الجعفر الکتّانی کی کتاب: "النظم المتناثر من الحدیث المتواتر" میں احادیث متواتر کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم







حدیث متواتر کی لغوی تعریف:  "متواتر" کا لفظ "تواتر" سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے: مسلسل، پے در پے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تتْرَى )
ترجمہ: پھر ہم نے پے در پے رسول بھیجے
[المؤمنون :44]

اصطلاحی  تعریف: 
وہ روایت جسے  ایک بہت بڑی تعداد  روایت کرے جن کا جھوٹ پر متفق و متحد  ہونا ناممکن ہو ، یہ تعداد اپنے ہی جیسی  تمام صفات کی حامل  ایک بڑی جماعت سے  روایت  کرے، اور انہوں نے یہ خبر بذریعہ حس حاصل کی ہو۔

علمائے کرام نے متواتر حدیث کیلئے 4 شرائط ذکر کی ہیں:

1- اسے بہت بڑی تعداد بیان کرے۔

2- راویوں  کی تعداد اتنی  ہو کہ عام طور پر اس قدر عدد کا کسی جھوٹی خبر کے بارے میں  متفق ہونا محال ہو۔

3- مذکورہ راویوں کی تعداد سند کے ہر طبقے میں ہو، چنانچہ  ایک بہت بڑی جماعت  اپنے ہی جیسی ایک بڑی جماعت سے روایت کرے، یہاں تک کہ سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچ جائے۔

4-  ان راویوں کی بیان کردہ خبر  کا استنادی ذریعہ حس ہو، یعنی: وہ یہ کہیں کہ : ہم نے سنا، یا ہم نے دیکھا، کیونکہ  جو بات سنی نہ گئی ہو، اور نہ دیکھی گئی ہو، تو اس میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے وہ روایت متواتر نہیں رہے گی۔

متواتر حدیث کی اقسام:

1- متواتر لفظی:
ایسی روایت جس کے الفاظ اور معنی دونوں تواتر کیساتھ ثابت ہوں

اس کی مثال:  حدیث: (‏مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ‏ ‏فَلْيَتَبَوَّأْ ‏ ‏مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ)
ترجمہ: جو مجھ [محمد صلی اللہ علیہ وسلم] پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ  جہنم میں بنا لے۔
اس روایت کو بخاری: (107) ، مسلم (3) ، ابو داود (3651)  ترمذی (2661) ، ابن ماجہ (30 ، 37) اور احمد (2/159) نے روایت کیا ہے۔

اس روایت کو نقل کرنے  والے صحابہ کرام کی تعداد72  سے بھی زیادہ ہے، اور  صحابہ کرام سے یہ روایت بیان کرنے والوں کی تعداد نا قابل شمار ہے۔

2-  متواتر معنوی: ایسی روایت جس  کا مفہوم تواتر کیساتھ ثابت ہو،  الفاظ  میں کچھ کمی بیشی ہو۔

اس کی مثال:  دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کی احادیث ہیں، چنانچہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے سے متعلق ایک سو  کے قریب روایات ملتی ہیں، ان تمام احادیث میں  یہ بات  مشترک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے، ان تمام روایات کو سیوطی رحمہ اللہ نے  اپنے ایک رسالے میں جمع کیا ہے، جس کا نام ہے: " فض الوعاء في أحاديث رفع اليدين في الدعاء "

متواتر حدیث کا حکم:

متواتر حدیث   کی تصدیق کرنا  یقینی طور پر لازمی امر ہے؛ کیونکہ متواتر حدیث سے  قطعی اور یقینی علم حاصل ہوتا ہے؛  اور اس قطعی و یقینی علم کیلئے ایسی حدیث کو کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، نیز ایسی روایت کے حالات بھی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی عقلمند  اس  حدیث کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رکھتا۔

مصادر:

-  "نزہۃ النظر" از حافظ ابن حجر

- "الحدیث المتواتر" از ڈاکٹر خلیل ملا خاطر

- "الحديث الضعيف وحكم الاحتجاج به "از: شیخ ڈاکٹر  عبد الكريم بن عبد الله الخضیر

- " معجم مصطلحات الحديث ولطائف الأسانيد"از: ڈاکٹر  محمد ضياء الرحمن اعظمی



مُتَواتِرات:Recurrents-Incessants -Frequents 
کسی محسوس واقعہ (مَثَلاً : کسی قول یا فعل وغیرہ) کو خود سننے اور دیکھنے والوں کی ابتداء سے آخر (اب) تک ہر زمانہ میں ایسی بڑی تعداد اس واقعہ کی خبر دے کہ ان سب کا جھوٹ یا غلطی پر متفق ہونا عادتاً محال سمجھا جاۓ. 
[الاحکام فی اصول الاحکام : ١/١٥١؛ التوضیح والتلویح : ٢ / ٢-٣؛ تسہیل الوصول : صفحہ ١٤٠؛ فتح الملھم : ١ /٥-٦]
یعنی عقل یہ باور نہ کرے کہ ان سب نے سازش کرکے جھوٹ بولا ہوگا یا ان سب کو مغالطہ لگ گیا ہوگا.

مُتَواتِرات، علم یقینی(بدیہی) کا فائدہ دیتی ہیں۔
[شرح نخبة الفكر:٢٤-٢٥]
بدیہی یعنی جس کے سمجھنے یا سمجھانے میں غور و فکر نہ کرنا پڑے، صریح، کھلا ہوا، یقینی، جو فطری یا قدرتی طور پر معلوم ہو

اور مُتَواتِر کے رجال(یعنی مرد، خبر پہنچانے والے) سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ بغیر بحث کے اس پر عمل واجب(لازم) ہے.
[شرح نخبة الفكر:٢٥]

مثلا :

لوگوں کے سامنے احادیث بیان کرنے کی فضیلت:

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ...
ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور توجہ سے سنے، اسے محفوظ رکھے اور دوسروں تک پہنچائے، کیونکہ بہت سے علم کی سمجھ رکھنے والے علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں...

[جامع الترمذي:2657+2658، سنن ابن ماجه:232، المعجم الصغير للطبراني:72]








حدیث نمبر 1

قحط کے وقت مشرکوں کا مسلمانوں سے دعا کرنے کو کہنے کا بیان 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ وَالْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّی هَلَکُوا فِيهَا وَأَکَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ فَجَائَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ هَلَکُوا فَادْعُ اللَّهَ فَقَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ثُمَّ عَادُوا إِلَی کُفْرِهِمْ فَذَلِکَ قَوْلُهُ تَعَالَی يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُونَ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَزَادَ أَسْبَاطٌ عَنْ مَنْصُورٍ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُقُوا الْغَيْثَ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ سَبْعًا وَشَکَا النَّاسُ کَثْرَةَ الْمَطَرِ قَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَانْحَدَرَتْ السَّحَابَةُ عَنْ رَأْسِهِ فَسُقُوا النَّاسُ حَوْلَهُمْ

ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انھوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابوسفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد ! ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہوگا  (خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا) لیکن وہ پھر کفر کرنے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا (ترجمہ) جس دن ہم انھیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعائے استسقاء کی (مدینہ میں) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی «اللهم حوالينا ولا علينا» کہ اے اللہ ! ہمارے اطراف و جوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے اردگرد خوب بارش ہوئی۔ 
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1020 (981)    حدیث متواتر حدیث مرفوع     مکررات  22   متفق علیہ 17] 

Narrated Masruq (RA): One day I went to Ibn Masud who said, "When Quraish delayed in embracing Islam, the Prophet ﷺ I invoked Allah to curse them, so they were afflicted with a (famine) year because of which many of them died and they ate the carcasses and Abu Sufyan (RA) came to the Prophet ﷺ and said, O Muhammad ﷺ ! You came to order people to keep good relation with kith and kin and your nation is being destroyed, so invoke Allah I? So the Prophet ﷺ I recited the Holy verses of Sirat-Ad-Dukhan: Then watch you for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible. (44.10) when the famine was taken off, the people renegade once again as nonbelievers. The statement of Allah, (in Sura "Ad-Dukhan"-44) refers to that: On the day when we shall seize you with a mighty grasp. (44.16) and that was what happened on the day of the battle of Badr." Asbath added on the authority of Mansur, "Allahs Apostle ﷺ prayed for them and it rained heavily for seven days. So the people complained of the excessive rain. The Prophet ﷺ said, O Allah! (Let it rain) around us and not on us. So the clouds dispersed over his head and it rained over the surroundings."


حجۃ الوداع کا بیان
حدیث نمبر 2
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏السَّنَةُ:‏‏‏‏ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، ‏‏‏‏‏‏مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ‏‏‏‏‏‏ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ:‏‏‏‏ ذُو الْقَعْدَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَذُو الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُحَرَّمُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى، ‏‏‏‏‏‏وَشَعْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ شَهْرٍ هَذَا ؟"قُلْنَا:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَيْسَ ذُو الْحِجَّةِ ؟"قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا ؟"قُلْنَا:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ ؟"قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا ؟"قُلْنَا:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ ؟"قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحْسِبُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَسَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يُبَلَّغُهُ أَنْ يَكُونَ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ"، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مُحَمَّدٌ إِذَا ذَكَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ صَدَقَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ مَرَّتَيْنِ ؟".
ترجمہ:
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ (رض) نے اور ان سے ابوبکرہ (رض) نے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آگیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ دیکھو ! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاولیٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ (پھر آپ نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور ان کے رسول کو بہتر علم ہے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا شاید آپ مشہور نام کے سوا اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا : کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ پھر دریافت فرمایا اور یہ شہر کون سا ہے ؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا شاید اس کا کوئی اور نام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھیں گے، جو مشہور نام کے علاوہ ہوگا۔ ، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا یہ مکہ نہیں ہے ؟ ہم بولے کیوں نہیں (یہ مکہ ہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اور یہ دن کون سا ہے ؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا شاید اس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے مشہور نام کے سوا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے ؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس تمہارا خون اور تمہارا مال۔ محمد نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابوبکرہ (رض) نے یہ بھی کہا، اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن کا تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں اور تم بہت جلد اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ ہاں، پس میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ ہاں اور جو یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ جسے وہ پہنچائیں ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جو یہاں بعض سننے والوں سے زیادہ اس (حدیث) کو یاد رکھ سکتا ہو۔ محمد بن سیرین جب اس حدیث کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو کیا میں نے پہنچا دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ یہ جملہ فرمایا۔ 
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 4406 (4201)    حدیث متواتر حدیث مرفوع     مکررات  17   متفق علیہ 13 ]


خون مال اور عزت کی شدت بیان میں۔ 
حدیث نمبر 3
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، فَلَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يُبَلِّغُهُ يَكُونُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ "، قَالَ ابْنُ حَبِيبٍ فِي رِوَايَتِهِ: وَرَجَبُ مُضَرَ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي.
ترجمہ:
سیدنا ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حالت پر ویسا ہو گیا جیسا اس دن تھا، جب اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان بنائے تھے، برس بارہ مہینے کا ہے ان میں چار مہینے حرام ہیں۔ ( یعنی ان میں لڑنا بھڑنا درست نہیں ) تین مہینے تو برابر لگے ہوئے ہیں، ذیقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب، مضر کا مہینہ جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں ہے۔ “ بعد اس کے فرمایا : ” یہ کون سا مہینہ ہے ؟ “ ہم نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم سمجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مہینہ کا کچھ اور نام رکھیں گے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کیا مہینہ ذی الحجہ کا نہیں ؟ “ ہم نے عرض کیا : ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ کون سا شہر ہے ؟ “ ہم نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم سمجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شہر کا کچھ اور نام رکھیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا یہ شہر نہیں ہے ؟ “ ( یعنی مکہ کا شہر ) ہم نے عرض کیا : ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ کون سا دن ہے ؟ “ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا اور کوئی نام رکھیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ یوم النحر نہیں ہے ؟ “ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! بیشک یہ یوم النحر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ( عزتیں ) حرام ہیں تم پر جیسے یہ دن حرام ہے، اس شہر میں، اس مہینے میں ( جس کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ایسے ہی مسلمان کو جان، عزت، دولت بھی حرام ہے اس کا لینا بلاوجہ شرعی درست نہیں ) اور قریب تم ملو گے اپنے پروردگار سے وہ پوچھے گا تمہارے عملوں کو، پھر مت ہو جانا میرے بعد گمراہ کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ( یعنی آپس میں لڑو ) اور ایک دوسرے کو مارو۔ ( یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری نصیحت اور بہت بڑی اور عمدہ نصیحت تھی افسوس ہے کہ مسلمانوں نے تھوڑے دنوں تک اس پر عمل کیا آخر آفت میں گرفتار ہوئے اور عقبیٰ کو الگ تباہ کیا ) جو حاضر ہے وہ یہ حکم غائب کو پہنچا دے کیونکہ بعض وہ شخص جس کو پہنچائے گا زیادہ یاد رکھنے والا ہو گا۔ اس وقت سننے والے سے۔ “ پھر فرمایا :” دیکھو میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔ “ 
[صحیح مسلم: حدیث نمبر 4383 (11683)    حدیث متواتر حدیث مرفوع     مکررات  17   متفق علیہ 13 ]



ایک اور (طریقہ) نماز 
حدیث نمبر 4

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ انْکَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ فَزِعًا حَتَّی أَتَی الْمَسْجِدَ فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي بِنَا حَتَّی انْجَلَتْ فَلَمَّا انْجَلَتْ قَالَ إِنَّ نَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْکَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنْ الْعُظَمَائِ وَلَيْسَ کَذَلِکَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا بَدَا لِشَيْئٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِکَ فَصَلُّوا کَأَحْدَثِ صَلَاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنْ الْمَکْتُوبَةِ.
ترجمہ:
 محمد بن بشار، عبدالوہاب، خالد، ابوقلابة، نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کپڑوں کو گھسیٹتے ہوئے جلدی سے باہر نکلے اور مسجد تشریف لے گئے۔ پھر متواتر اس وقت تک ہماری امامت کرواتے رہے جب تک گرہن ختم نہیں ہوگیا۔ جب سورج صاف ہوگیا تو ارشاد فرمایا لوگ خیال کرتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن کسی عظیم شخصیت کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ہرگز نہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں تو وہ ان کی مطیع ہوجاتی ہے۔ اگر تم لوگ ایسا دیکھو تو فرض نماز کی طرح نماز پڑھو جو گرہن ہونے سے پہلے گزری ہو۔

[سنن نسائی: حدیث نمبر 1486 (21587)   حدیث متواتر حدیث مرفوع     مکررات  10   متفق علیہ 0 ]




حدیث نمبر 5

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الطَّالَقَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ الْمَازِنِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو نَعَامَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُنَيْدَةَ الْبَرَاءُ بْنُ نَوْفَلٍ عَنْ وَالَانَ الْعَدَوِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَصَلَّى الْغَدَاةَ ثُمَّ جَلَسَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ الضُّحَى ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ مَكَانَهُ حَتَّى صَلَّى الْأُولَى وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ كُلُّ ذَلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ثُمَّ قَامَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ النَّاسُ لِأَبِي بَكْرٍ أَلَا تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُهُ صَنَعَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ يَصْنَعْهُ قَطُّ قَالَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ نَعَمْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَأَمْرِ الْآخِرَةِ فَجُمِعَ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ بِصَعِيدٍ وَاحِدٍ فَفَظِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ حَتَّى انْطَلَقُوا إِلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام وَالْعَرَقُ يَكَادُ يُلْجِمُهُمْ فَقَالُوا يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ وَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ قَالَ لَقَدْ لَقِيتُ مِثْلَ الَّذِي لَقِيتُمْ انْطَلِقُوا إِلَى أَبِيكُمْ بَعْدَ أَبِيكُمْ إِلَى نُوحٍ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ قَالَ فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى نُوحٍ عَلَيْهِ السَّلَام فَيَقُولُونَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللَّهُ وَاسْتَجَابَ لَكَ فِي دُعَائِكَ وَلَمْ يَدَعْ عَلَى الْأَرْضِ مِنْ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا فَيَقُولُ لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي انْطَلِقُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَهُ خَلِيلًا فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا فَيَقُولُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فَإِنَّهُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَيُحْيِي الْمَوْتَى فَيَقُولُ عِيسَى لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى سَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ انْطَلِقُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَشْفَعَ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ فَيَنْطَلِقُ فَيَأْتِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام رَبَّهُ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ فَيَنْطَلِقُ بِهِ جِبْرِيلُ فَيَخِرُّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ وَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ قَالَ فَيَرْفَعُ رَأْسَهُ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَرَّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ أُخْرَى فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ قَالَ فَيَذْهَبُ لِيَقَعَ سَاجِدًا فَيَأْخُذُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِضَبْعَيْهِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ مِنْ الدُّعَاءِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى بَشَرٍ قَطُّ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ خَلَقْتَنِي سَيِّدَ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ وَأَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ حَتَّى إِنَّهُ لَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ أَكْثَرُ مِمَّا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَأَيْلَةَ ثُمَّ يُقَالُ ادْعُوا الصِّدِّيقِينَ فَيَشْفَعُونَ ثُمَّ يُقَالُ ادْعُوا الْأَنْبِيَاءَ قَالَ فَيَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ وَالنَّبِيُّ وَلَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ ثُمَّ يُقَالُ ادْعُوا الشُّهَدَاءَ فَيَشْفَعُونَ لِمَنْ أَرَادُوا وَقَالَ فَإِذَا فَعَلَتْ الشُّهَدَاءُ ذَلِكَ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ أَدْخِلُوا جَنَّتِي مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا قَالَ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَالَ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرُوا فِي النَّارِ هَلْ تَلْقَوْنَ مِنْ أَحَدٍ عَمِلَ خَيْرًا قَطُّ قَالَ فَيَجِدُونَ فِي النَّارِ رَجُلًا فَيَقُولُ لَهُ هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ فَيَقُولُ لَا غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ أُسَامِحُ النَّاسَ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَسْمِحُوا لِعَبْدِي كَإِسْمَاحِهِ إِلَى عَبِيدِي ثُمَّ يُخْرِجُونَ مِنْ النَّارِ رَجُلًا فَيَقُولُ لَهُ هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ فَيَقُولُ لَا غَيْرَ أَنِّي قَدْ أَمَرْتُ وَلَدِي إِذَا مِتُّ فَأَحْرِقُونِي بِالنَّارِ ثُمَّ اطْحَنُونِي حَتَّى إِذَا كُنْتُ مِثْلَ الْكُحْلِ فَاذْهَبُوا بِي إِلَى الْبَحْرِ فَاذْرُونِي فِي الرِّيحِ فَوَاللَّهِ لَا يَقْدِرُ عَلَيَّ رَبُّ الْعَالَمِينَ أَبَدًا فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ قَالَ مِنْ مَخَافَتِكَ قَالَ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرْ إِلَى مُلْكِ أَعْظَمِ مَلِكٍ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَهُ وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهِ قَالَ فَيَقُولُ لِمَ تَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ قَالَ وَذَاكَ الَّذِي ضَحِكْتُ مِنْهُ مِنْ الضُّحَى
ترجمہ:
 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح فجر کی نماز پڑھائی، اور نماز پڑھا کر چاشت کے وقت تک اپنے مصلی پر ہی بیٹھے رہے، چاشت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ضحک کے آثار نمودار ہوئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ہی تشریف فرما رہے، تآنکہ طہر، عصر اور مغرب بھی پڑھ لی، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، حتیٰ کہ عشاء کی نماز بھی پڑھ لی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آج کے احوال سے متعلق کیوں نہیں دریافت کرتے؟ آج تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا؟ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے متعلق دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! میں بتاتا ہوں ۔ دراصل آج میرے سامنے دنیا و آخرت کے وہ نمام امور پیش کئے گئے جو آئندہ رونما ہونے والے ہیں، چنانچہ مجھے دکھایا گیا کہ تمام اولین و آخرین ایک ٹیلے پر جمع ہیں، لوگ پسینے سے تنگ آکر بہت گھبرائے ہوئے ہیں، اسی حال میں وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں، اور پسینہ گویا ان کے منہ میں لگام کی طرح ہے، وہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہتے ہیں کہ اے آدم! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو اپنا برگزیدہ بنایا ہے اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میرا بھی وہی حال ہے جو تمہارا ہے اپنے باپ آدم کے بعد دوسرے باپ ابوالبشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، چنانچہ وہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کردیجئے، اللہ نے آپ کو بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، آپ کی دعاؤں کو قبول کیا ہے، اور زمین پر کسی کافر کا گھر باقی نہیں چھوڑا، وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، البتہ تم حضرت موسی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے ان سے براہ راست کلام فرمایا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی معزرت کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ وہ پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کر دیتے تھے اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام بھی معذرت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم اس ہستی کے پاس جاؤ جو تمام اولاد آدم کی سردار ہے وہی وہ پہلے شخص ہیں جن کی قبر قیامت کے دن سب سے پہلے کھولی گئی، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کریں گے۔ 
چنانچہ نبی علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں جاتے ہیں، ادھر سے حضرت جبرائیل بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوتے ہیں، اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ میرے پیغمبر کو آنے کی اجازت دو اور انہیں جنت کی خوشخبری بھی دو، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ پیغام نبی علیہ السلام کو پہنچاتے ہیں جسے سن کر نبی علیہ السلام سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور متواتر ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، ایک ہفتہ گذرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے ہم اسے سننے کے لئے تیار ہیں، آپ جس کی سفارش کریں گے، اس کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھاتے ہیں اور جوں ہی اپنے رب کے رخ تاباں پر نظر پڑتی ہے، اسی وقت دوبارہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور مزید ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے اس کی شنوائی ہوگی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہوگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ریز ہی رہنا چاہیں گے لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام آکر بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب منور ایسی دعاؤں کا دروازہ کھولتا ہے جو اب سے پہلے کسی بشر پر کبھی نہیں کھولا تھا ۔ چنانچہ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پروردگار! تونے مجھے اولاد آدم کا سردار بنا کر پیدا کیا اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین میرے لئے کھولی گئی، میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے والے اتنے زیادہ ہیں جو صنعاء اور ایلہ کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ جگہ کو پر کئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کہا جائے کہ صدیقین کو بلاؤ وہ آکر سفارش کریں گے پھر کہا جائے گا کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو بلاؤ چنانچہ بعض انبیاء علیہم السلام تو ایسے آئیں گے جن کے ساتھ اہل ایمان کی ایک بڑی جماعت ہوگی، بعض کے ساتھ پانچ چھ آدمی ہوں گے بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوگا، پھر شہداء کو بلانے کا حکم ہوگا چنانچہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے۔ جب شہداء بھی سفارش کر چکیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں ارحم الرحمین ہوں، جنت میں وہ تمام لوگ داخل ہوجائیں جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، چنانچہ ایسے تمام لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو! جہنم میں کوئی ایسا آدمی تو نہیں ہے جس نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہو؟ تلاش کرنے پر انہیں ایک آدمی ملے گا، اسی کو بارگاہ الٰہی میں پیش کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کیا کبھی تونے کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں بیع وشراء اور تجارت کے درمیان غریبوں سے نرمی کرلیا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جس طرح یہ میرے بندوں سے نرمی کرتا تھا، تم بھی اس سے نرمی کرو، چنانچہ اسے بخش دیا جائے گا۔ اس کے بعد فرشتے جہنم سے ایک اور آدمی کو نکال کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے بھی یہی پوچھیں گے کہ تونے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہے؟ وہ کہے گا کہ نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کا سرمہ بنانا اور سمندر کے پاس جا کر اس راکھ کو ہوا میں بکھیر دینا، اس طرح رب العالمین مجھ پر قادر نہ ہوسکے گا، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تونے یہ کام کیوں کیا؟ وہ جواب دے گا تیرے خوف کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا ملک دیکھو، تمہیں وہ اس اس جیسے دس ملکوں کی حکومت ہم نے عطاء کردی، وہ کہے گا کہ پروردگار! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے کیوں مذاق کرتا ہے؟ اس بات پر مجھے چاشت کے وقت ہنسی آئی تھی اور میں ہنس پڑا تھا۔
[مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 15 (46284)    حدیث قدسی حدیث متواتر]  


 شہادتین کے اقرار میں۔
حدیث نمبر 6

"أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله". 
ترجمہ:
مجھے حکم ہوا کہ لوگوں سے قتال جاری رکھوں ، حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ اور اگر انھوں نے اس کو کہہ لیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا مگر ان کے ھق کی وجہ سے ، اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ 
بخاری و مسلم بروایت ابوہریرہ یہ خبرمتواتر ہے۔
[کنزالعمال:جلد اول:حدیث نمبر 373 (142433فصل چہارم۔۔۔ ایمان اور اسلام کے احکام میں یہ فصل دو فرع پر مشتمل ہے۔ پہلی فرع  شہادتین کے اقرار میں۔ ]


روزہ کے مباحات ومفسدات
حدیث نمبر 7
- "أفْطَرَ الحَاجِمُ والمَحْجُومُ".
ترجمہ:
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: حجامہ (سینگی) کھینچے والے اور کھینچوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ 
[الجامع الصغير وزيادته:2016صحيح الجامع:1132]

مرواہ احمد بن حنبل وابو داؤد والنسائی وابن ماجہ وابن حبان والحاکم عن ثوبان وھو متواتر) کلام :۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھے التحدیث 157 والتنکتیر والا فادہ 113 ۔ 
[کنزالعمال:جلد چہارم:حدیث نمبر 23812 (165889)   ]



 روزے کے افطار کا بیان
حدیث نمبر 8

 لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر [فإن اليهود يؤخرون] . ( ...   عن أبي هريرة) .
ترجمہ:
حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاــ نے فرمایا : لوگ اس وقت تک برابر بھلائی پر رہیں گے جب تک روزہ جلدی افطار کریں گے۔
رواہ مسلم ، عن ابوہریرہ (رض)) فائدہ : ۔۔۔ سنن ابن ماجہ میں ہے یہودی رزوہ تاخیر سے افطار کرتے ہیں دیکھئے سنن ابن ماجہ رقم 1698 عجیب بات ہے شیعہ حضرات بھی تاخیر سے روزہ افطار کرتے ہیں جب کہ یہ مشہور ومتواتر حدیث ہے خدا جانے انھوں نے تاخیر سے روزہ افطار کرنے میں کونسی بھلائی دیکھی ہے۔ 
[کنزالعمال:جلد چہارم:حدیث نمبر 23871 (165948) ]


حدیث نمبر 9

لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ.

[الجامع الصغير وزيادته:9320، صحيح الجامع:5189]



سندا ضعیف لیکن متنا متواتر حدیث:
حدیث نمبر 10

"كل مسكر حرام".

هذا الإسناد ضعيف بسبب الإفريقي، وقد تقدَّم في الحديث (١٨٠٧) أن هذا المتن متواتر، والله أعلم.



كثرت شواہد کے سبب حدیث کی صحت متواتر کے درجہ میں.
حدیث نمبر 11

اللَّهُمَّ بارِك لِأُمَّتِي في بُكورها".

الحديث بهذا الإسناد ضعيف جدًا؛ لأن فيه هشامَ بنَ زياد وهو متروك.

وللحديث شواهد كثيرة، ترتقي بمجموعها إلى درجة الصحة، وهو حديث متواتر.



الحديث بهذا الإسناد ضعيف جدًا؛ فيه عمار أبو ياسر ضعيف، وعدي بن الفضل متروك، ومحمد بن عنبسة مجهول، وله متابعة عند البزار وابن عدي، فيرتقي بها إلى الحسن لغيره، وللحديث شواهد كثيرة وهو حديث متواتر.





حدیث نمبر 12
پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے۔

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا.، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِب الْقَبْرِ:‏‏‏‏ كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ سِوَى بَوْلِ النَّاسِ.
ترجمہ:
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ مجاہد سے وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ ﷺ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ ﷺ نے کیوں کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہوجائے۔
[صحيح البخاری - وضو کا بیان - حدیث نمبر 216]

متواترٌ ثابت الصحة. انظر: نظم المتناثر (ص ٣٦: ٢٢)




حدیث نمبر 13
 "من كنت مولاه فعلي مولاه".

حديث متواتر نصّ على تواتره عدد من الأئمة الكرام منهم الحافظ ابن حجر رحمه الله فقد قال في الفتح (٧/ ٩٣)

عن على: أن النبى - صلى الله عليه وسلم - حضر الشجرة بخم ثم خرج آخذا بيد على فقال يا أيها الناس ألستم تشهدون أن الله ربكم قالوا بلى قال ألستم تشهدون أن الله ورسوله أولى بكم من أنفسكم وأن الله ورسوله مولاكم قالوا بلى قال فمن كان الله ورسوله مولاه فإن هذا مولاه وقد تركت ما إن أخذتم به فلن تضلوا بعده كتاب الله سببه بيده وسببه بأيديكم وأهل بيتى
[جامع الاحادیث:32347، كنز العمال:36441، أخرجه ابن أبى عاصم فى السنة (٢/٦٠٥، رقم ١٣٦١) ، والمحاملى فى أماليه (١/٨٥، رقم ٣٥) .]

لكن هذا الحديث يرتقي بشواهده الكثيرة، وقد سبق بيان أن الحديث متواتر في الجملة، وعليه فحديث علي رضي الله عنه هذا صحيح لغيره.


حدیث نمبر 14
 "إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْمَسْحِ".

أما المسح على الخفين فهو ثابت، بل متواتر عنه - صلى الله عليه وسلم - رواه عنه قريبًا من سبعين صحابيًا. (انظر: نظم المتناثر ص ٤٢؛ ونصب الراية ١/ ١٦٢).


حدیث نمبر 15
غسل دخول سے واجب ہوتا ہے یا انزال سے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي بَعْضُ مَنْ أَرْضَي، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا جُعِلَ ذَلِكَ رُخْصَةً لِلنَّاسِ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ لِقِلَّةِ الثِّيَابِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُسْلِ وَنَهَى عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ يَعْنِي الْمَاءَ مِنَ الْمَاءِ.

ترجمہ:
ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہوگا) پھر آپ ﷺ نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نهى عن ذلك یعنی ممانعت سے مراد الماء من الماء (غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کردیا ہے۔
[سنن ابو داؤد - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 214]

فالحديث بمتابعاته وشواهده صحيح بلا شك بل أكثره شبه متواتر، لكثرة من نقله من الصحابة ومن بعدهم، والله أعلم.




حدیث نمبر 16
(جاری)


















No comments:

Post a Comment