Thursday 13 July 2023

مسئلہ باغ فدک

باغ فدک ایک نہایت مختصر کھجوروں کا باغ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فی ملا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات تک اس کو اپنی تحویل میں رکھ رکھا تھا اس سے اپنے اہل وعیال کو بقدر قوت (ضرورت بھر) سال بھر کا نفقہ دے دیا کرتے تھے اور باقی جو کچھ بچتا تھا وہ فقراء مساکین پر صدقہ کردیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے متولی ہوئے اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور خلیفہ برحق ہونے کی حیثیت سے آپ کی ہی طرح اس کی آمدنی خرچ کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی عمل کیا، البتہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتظم تجویز فرمادیا تھا۔ باغ فدک کا واقعہ مختصر ہے، مگر شیعوں نے اس کو بے جا لمبا کردیا۔ سیرت مصطفی (۳/۲۴۲-۲۴۹) موٴلف حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی میں باغ فدک کا واقعہ مع شیعوں کے اعتراضات وجوابات مفصلاً مذکور ہے، تفصیل دیکھنی ہو تو اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔

مذکورہ واقعہ بخاری شریف میں کتاب المغازی اور مسلم شریف میں کتاب الجہاد میں مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:

حضور ﷺکی وفات کے بعد حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر صدیق  سے ان اموال (ترکہ ) سے اپنی میراث کا مطالبہ فرمایا جو اللہ تعالی نے رسول اللہ ْﷺ کو مدینہ اور فدک میں عنایت فرمائے تھے ،اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق  نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہﷺ کی وہ روایت مبارکہ سنائی ’’ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے‘‘البتہ آل محمد اسی مال میں سے اپنی ضرورت پوری کرے گی اور خدا کی قسم جو صدقہ رسول اللہ ﷺ چھوڑ گئے اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا، جس حال میں وہ حضور ﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو حضور ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا، اس پر حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا راضی  ہوگئیں۔

خود شیعوں کی کتاب میں ہے   کہ جب  ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مذکورہ حدیث سنائی  تو   فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اس پر راضی ہوں، چنانچہ شیعوں  کی کتاب  "محجاج السالکین"  میں ہے :

"أن أبا بكر لما رأى فاطمة رضي الله تعالى عنها انقبضت عنه وهجرته ولم تتكلم بعد ذلك في أمر فدك كبر ذلك عنده فأراد استرضاءها فأتاها فقال: صدقت يا بنت رسول الله صلّى الله عليه وسلم فيما ادعيت ولكن رأيت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم يقسمها فيعطي الفقراء والمساكين وابن السبيل بعد أن يؤتى منها قوتكم فما أنتم صانعون بها؟ فقالت: افعل فيها كما كان أبي صلى الله تعالى عليه وسلم يفعل فيها فقال: لك الله تعالى أن أفعل فيها ما كان يفعل أبوك، فقالت: والله لتفعلن؟ فقال: والله لأفعلن ذلك، فقالت: اللهم اشهد، ورضيت بذلك، وأخذت العهد عليه فكان أبو بكر يعطيهم منها قوتهم ويقسم الباقي بين الفقراء والمساكين وابن السبيل۔"

(محجاج السالكين بحوالہ  تحفہ اثنا  عشریہ (اردو) باب نمبر۱۰ خلفاء ثلاثہ  ....ص545، دار الإشاعت  كراچی)

[الرياض النضرة في مناقب العشرة-الطبري: جلد 1  صفحه 191]

[تفسير روح المعاني-الألوسي: جلد 2  صفحه 430، جلد : 4  صفحه : 221]

[تفسير المنار: جلد 4  صفحه 339]





اور سب سے بڑھ کر خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں حضرت زید بن الحسین بن علی رضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ اگرمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ   کی جگہ ہوتا تو یہی فیصلہ کرتا جو فیصلہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے کیا ۔

چنانچہ السنن الكبری للبیہقی  میں ہے :

"أخبرنا أبوعبد الله الحافظ … قال زید بن علی بن الحسین بن علي: أما أنا فلو كنت مكان أبي بكر رضي الله عنه لحكمت بمثل ماحکم به أبوبکر رضي الله عنه فی فدك."

(السنن الکبری للبیھقی :6/302) 

و في البدایة و النهایة (۲۵۳/۵):

"و تكلمت الرافضة في هذا المقام بجهل عظیم و تکلفوا مالا علم لهم به و كذبوا بمالم یحیطوا بعلمه."

صحيح بخاری  میں ہے :

"عن أبي اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري، أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه دعاه، إذ جاءه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد يستأذنون؟ فقال: نعم فأدخلهم، فلبث قليلا ثم جاء فقال:هل لك في عباس، وعلي يستأذنان؟ قال: نعم، فلما دخلا قال عباس: يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا، وهما يختصمان في الذي أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير، فاستب علي، وعباس، فقال الرهط: يا أمير المؤمنين اقض بينهما، وأرح أحدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» يريد بذلك نفسه؟ قالوا: قد قال ذلك، فأقبل عمر على عباس، وعلي فقال: أنشدكما بالله، هل تعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني أحدثكم عن هذا الأمر، إن الله سبحانه كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه أحدا غيره، فقال جل ذكره:{وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب}[الحشر: 6]- إلى قوله - {قدير} [الحشر: 6]، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم، ولا استأثرها عليكم، لقد أعطاكموها وقسمها فيكم حتى بقي هذا المال منها، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر: فأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضه أبو بكر فعمل فيه بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنتم حينئذ، فأقبل على علي، وعباس وقال: تذكران أن أبا بكر فيه كما تقولان، والله يعلم: إنه فيه لصادق بار راشد تابع للحق؟ ثم توفى الله أبا بكر، فقلت: أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، فقبضته سنتين من إمارتي أعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، والله يعلم: أني فيه صادق بار راشد تابع للحق؟ ثم جئتماني كلاكما، وكلمتكما واحدة وأمركما جميع، فجئتني - يعني عباسا - فقلت لكما: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» فلما بدا لي أن أدفعه إليكما قلت: إن شئتما دفعته إليكما، على أن عليكما عهد الله وميثاقه: لتعملان فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وما عملت فيه منذ وليت، وإلا فلا تكلماني، فقلتما ادفعه إلينا بذلك، فدفعته إليكما، أفتلتمسان مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، لا أقضي فيه بقضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنه فادفعا إلي فأنا أكفيكماه."

ترجمہ:

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمؤمنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ”ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔

(صحيح البخاري: حدیث نمبر 4033، باب: حديث بني النضير)

نیز امام بیہقی کی ’’السنن الکبری‘‘ میں حضرت امام عامر شعبی سے ایک روایت  ہےجس میں واضح طور پر موجود ہے کہ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مرض میں مبتلا ہوگئیں، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی اجازت سے گھر میں تشریف لے گئے اور دوران گفتگو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ :میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کے رسول کی مرضی اور اے آل رسول تمہاری مرضی اور خوشی کی ابتغاء اور جستجو کی خاطر  کیا ہے، اس گفتگو کے دوران حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خوشی ورضا مندی کا اظہار فرمایا، جو صاف الفاظ سے مروی ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

"عن الشعبي قال: لما مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا أتاہا أبوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ، فاستأذن علیہا، فقال علي رضی اللہ عنہ: یا فاطمۃ! ہذا أبوبکر یستأذن علیک، فقالت: أتحب أن آذن لہ؟ قال: نعم، فآذنت لہ، فدخل علیہا یترضاہا، وقال: واللہ ما ترکت الدار والمال والأہل والعشیرۃ إلا ابتغاء مرضاۃ اللہ ومرضاۃ رسولہ ومرضاتکم أہل البیت، ثم ترضاہا حتی رضیت۔ ہذا مرسل حسن بإسناد صحیح."

(السنن الکبری للبیہقي، باب بیان مصرف أربعۃ أخماس الفيء … دارالفکر۹/ ۴۳۶، رقم:۱۳۰۰۵)

وهذا إسناد جيد قوى.

[السيرة النبوية - ابن كثير - ج ٤ - الصفحة ٥٧٥]

پھر اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا کیسے حق پہنچتا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں، پورے ذخیرۂ حدیث میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے، جس میں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہونا ثابت ہو، یہ محض اہلِ شیعہ کی طرف سے بدگمانی پیدا کرنے کی گندی حرکت ہے۔


دیگر صحابہ کی روایات-شواہد:

1️⃣ سب سے پہلے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی چند صحیح احادیث سے ثابت کرتا ہوں کہ انبیاء کرام کی میراث نہیں ہوتی۔

Sahih Bukhari - 6730
کتاب:کتاب فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں

باب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ مَالِكٍ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ عُرْوَةَ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا""أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَتْ عَائِشَةُ:‌‌‌‏ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ ""لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"".

ترجمہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی بیویوں نے چاہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں، اپنی میراث طلب کرنے کے لیے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یاد دلایا۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے؟







Sahih Bukhari - 4034
کتاب:کتاب غزوات کے بیان میں
باب:بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان

قَالَ:‌‌‌‏ فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ صَدَقَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ أَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏تَقُولُ:‌‌‌‏ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ أَنَا أَرُدُّهُنَّ، ‌‌‌‌‌‏فَقُلْتُ لَهُنَّ:‌‌‌‏ أَلَا تَتَّقِينَ اللَّهَ،‌‌‌‏ أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ، ‌‌‌‌‌‏يَقُولُ:‌‌‌‏ ""لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ""،‌‌‌‏ يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ،‌‌‌‏ فَانْتَهَى أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَا أَخْبَرَتْهُنَّ،‌‌‌‏ قَالَ:‌‌‌‏ فَكَانَتْ هَذِهِ الصَّدَقَةُ بِيَدِ عَلِيٍّ مَنَعَهَا عَلِيٌّ عَبَّاسًا،‌‌‌‏ فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا ثُمَّ كَانَ بِيَدِ حَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ثُمَّ بِيَدِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ وَحَسَنِ بْنِ حَسَنٍ كِلَاهُمَا كَانَا يَتَدَاوَلَانِهَا، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ بِيَدِ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ وَهِيَ صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا"".

ترجمہ:
مالک بن اوس نے یہ روایت تم سے صحیح بیان کی ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اس میں سے ان کے حصے دیئے جائیں، لیکن میں نے انہیں روکا اور ان سے کہا تم اللہ سے نہیں ڈرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا؟ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس ارشاد میں خود اپنی ذات کی طرف تھا۔ البتہ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس جائیداد میں سے تا زندگی ( ان کی ضروریات کے لیے ) ملتا رہے گا۔ جب میں نے ازواج مطہرات کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے بھی اپنا خیال بدل دیا۔ عروہ نے کہا کہ یہی وہ صدقہ ہے جس کا انتظام پہلے علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کو اس کے انتظام میں شریک نہیں کیا تھا بلکہ خود اس کا انتظام کرتے تھے ( اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسے خرچ کیا تھا، اسی طرح انہیں مصارف میں وہ بھی خرچ کرتے تھے ) اس کے بعد وہ صدقہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظام میں آ گیا تھا۔ پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظام میں رہا۔ پھر جناب علی بن حسین اور حسن بن حسن کے انتظام میں آ گیا تھا اور یہ حق ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا۔

Sunnan e Abu Dawood - 2976
کتاب:محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
باب:باب: مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان ۔

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ مَالِكٍ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ عُرْوَةَ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ عَائِشَةَ، ‌‌‌‌‌‏أَنَّهَا قَالَتْ:‌‌‌‏ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ:‌‌‌‏ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ .

ترجمہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو امہات المؤمنین نے ارادہ کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے اپنا آٹھواں حصہ طلب کریں، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سب سے کہا ( کیا تمہیں یاد نہیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔

Musnad Ahmed - 6350
کتاب:فرائض کے ابواب
باب:اس چیز کا بیان انبیائے کرام کا وارث نہیں بنایا جاتا

۔ (۶۳۵۰)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ اَزْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَدْنَ أَنْ یُرْسِلْنَ عُثْمَانَ إِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ یَسْأَلْنَہُ مِیْرَاثَہُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالَتْ لَھُنَّ عَائِشَۃُ: أَوَ لَیْسَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَاہُ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۹۰)

ترجمہ:
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پاگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات نے چاہا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجیں، تاکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اپنی میراث کا مطالبہ کر سکیں، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارے وارث نہیں بنتے، ہم جو کچھ چھوڑکر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔

Musnad Ahmed - 11072
کتاب:سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات
باب:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ترکہ اور میراث کا بیان


 ۔ (۱۱۰۷۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ اَزْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ تُوُفِیِّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَدْنَ أَنْ یُرْسِلْنَ عُثْمَانَ إِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ یَسْأَلْنَہُ مِیْرَاثَہُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالَتْ لَھُنَّ عَائِشَۃُ: أَوَ لَیْسَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَاہُ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۹۰)

ترجمہ:
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پاگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات نے چاہا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجیں، تاکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اپنی میراث کا مطالبہ کر سکیں، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارے وارث نہیں بنتے، ہم جو کچھ چھوڑکر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔

Musnad Ahmed - 11076
کتاب:سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات
باب:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ترکہ اور میراث کا بیان

۔ (۱۱۰۷۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَنَّ فَاطِمَۃَ وَالْعَبَّاسَ أَتَیَا أَبَا بَکْرٍ یَلْتَمِسَانِ مِیرَاثَہُمَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُمَا حِینَئِذٍیَطْلُبَانِ أَرْضَہُ مِنْ فَدَکَ وَسَہْمَہُ مِنْ خَیْبَرَ، فَقَالَ لَہُمَا أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا نُورَثُ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔)) وَإِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ہٰذَا الْمَالِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ لَا أَدَعُ أَمْرًا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُہُ فِیہِ إِلَّا صَنَعْتُہُ۔ (مسند احمد: ۹)

ترجمہ:
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فدک والی زمین اور خیبر والے حصہ میں سے اپنا میراث والا حق طلب کیا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے فرمایا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ہمارے وارث نہیں بنتے، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتاہے۔ البتہ آل محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس مال میں سے کھاتے رہیں گے، اللہ کی قسم! میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو کام جس طرح کرتے دیکھا، میں بھی ویسے ہی کروں گا۔





2️⃣ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی چند احادیث نبوی ، جن کے مطابق انبیاء کرام کی میراث نہیں ہوتی۔

Sahih Bukhari - 6729
کتاب:کتاب فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
باب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے

 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‌‌‌‌‌‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ ""لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، ‌‌‌‌‌‏مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي، ‌‌‌‌‌‏وَمَئُونَةِ عَامِلِي، ‌‌‌‌‌‏فَهُوَ صَدَقَةٌ"".

ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرا ورثہ دینار کی شکل میں تقسیم نہیں ہو گا۔ میں نے اپنی بیویوں کے خرچہ اور اپنے عاملوں کی اجرت کے بعد جو کچھ چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے۔“

صحيح مسلم كِتَابٌ : الْجِهَادُ وَالسِّيَرُ بَابٌ : قَوْلُ النَّبِيِّ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ ".
1761 ( 56 ) (المجلد : 5 الصفحة : 156)
وَحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".



مسند أحمد مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
7303 (المجلد : 12 الصفحة : 252)
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ، وَقَالَ مَرَّةً : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، مَا تَرَكْتُ - بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي - فَهُوَ صَدَقَةٌ ".
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين.

3️⃣ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی چند احادیث، جن کے مطابق انبیاء کرام کی میراث نہیں ہوتی۔

مسند أحمد مُسْنَدُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
333 (المجلد : 1 الصفحة : 416)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ : أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ : فَقُلْتُ لَكُمَا : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين

مسند أحمد مُسْنَدُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
336 (المجلد : 1 الصفحة : 417)
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين

حضرت ابوبکر صدیق کے علاوہ میں نے تین اور شخصیات سے بھی یہی حدیث نبوی دکھائی ہے۔





متعدد صحیح روایات میں یہ مضمون آیا ہے کہ گروہِ انبیاء نہ کسی کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث بنتا ہے، انبیاء جو کچھ چھوڑجائیں وہ سب فی سبیل اللہ صدقہ اور خیرات ہے، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خیبر، فدک اور بنو نضیر کی جائدادوں سے اپنا حصہ طلب کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث سنائی اور فرمایا یہ جائدادیں تو وقف ہیں، ان میں میراث جاری نہ ہوگی؛ ہاں جس جس کام مثلاً اہل وعیال کے نفقہ وغیرہ میں جناب نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے ہم بھی اسی طرح خرچ کرتے رہیں گے، رواةِ حدیث نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد دو طرح کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، بعض روایات میں ہے ”فغضبت فاطمة“ اور بعض میں ہے فوجدت فاطمة“ جن کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ اس پر ناراض ہوئیں؛ لیکن لفظ وجدت میں یہ بھی احتمال ہے کہ راوی کا منشا یہ ہو کہ حضرت فاطمہ غمگین ہوئیں اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنا حصہٴ میراث طلب کیا اور صدیق اکبر نے ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنادی تو عجب نہیں کہ ان کو اس طلبگاری پر ایک گونہ ندامت اور رنج ہوا ہو، بہرحال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا وہ بلاشبہ صحیح اور درست تھا، قرآن وحدیث کے بالکل موافق تھا؛ باقی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیوں ناراض یا غمگین ہوئیں، اس کی کوئی یقینی وجہ روایات میں مذکور نہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ بات بھی درست نہیں کہ اس واقعے کے بعد ناراضگی کی وجہ سے انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تکلم نہیں فرمایا اور اسی حال میں آپ انتقال فرماگئیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی وفات کے بعدسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل برداشتہ تھیں اور اسی دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ بھی پیش آیا جس سے آپ کو صدمہ پہنچا، نیز اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی علالت کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ربط ضبط میں فرق آگیا تھا اور ملنا جلنا بدستور سابق باقی نہ رہا، معاذ اللہ یہ نہ تھا کہ سلام وکلام کی بھی نوبت نہ آئی ہو، ایسی متارکت تو تین دن سے زیادہ جائز نہیں، چہ جائیکہ تمام عمر کے لیے ہو، نیز سب کو معلوم ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے محرم نہ تھے جن کے ساتھ ہمیشہ آپ کو کلام وسلام کا اتفاق ہوتا ہو اور پھر اس واقعے کی وجہ سے ناراض ہوکر ترک کردیا گیا ہو، کیوں کہ غیرمحرم سے بلاضرورت سلام وکلام درست ہی نہیں ہے۔


حاصل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یکسوئی اور علاحدگی کی علت دراصل یہ ندامت اور اپنی علالت اور صدمہٴ مفارقت پدری ونبوی تھی، اس سلسلے میں جو بھی روایات وارد ہوئی ہیں، ان میں علماء نے غور کرکے یہی معنی ومفہوم اخذ کیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیں

(سیرة المصطفی ۳/۲۴۵وبعدہ، ط: مکتبہ علمیہ سہارنپور)



باغِ فَدَک اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ:

شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے:
جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔
(شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)

شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے :
جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔
(شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)


شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے:
یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔
(شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)





شیعہ کتب سے دلائل:

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:​

اور دین میں فقیہ بننے کی کوشش کرو اس لئے کہ فقہا ہی انبیاء کے وارث ہوتے ہیں انبیاء ورثہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ ورثہ میں علم چھوڑتے ہیں۔
(من لا یحضرۃ الفقیہ اردو از شیخ صدوق۔ جلد 4۔ صفحہ 301)


حضرت علی علیہ سلام نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں آپ کا ترکہ کی میراث لوں گا۔۔۔۔۔۔ فرمایا: انبیاء نے کون چیز میراث چھوڑی ہے؟ عرض کیا: آپ سے پہلے انبیاء نے کیا چیز میراث میں پائی؟ََََ۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا: کتاب خدا اور اپنے نبی کی سنت​​.

(تفسیر فرات اردو از فرات بن ابراہیم کوفی۔ حصہ اول۔ صفحہ 149)​





حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
جوشخص طلب علم کے لئے راستہ طے کرتا ہے اللہ اس کو جنت کی طرف لے جاتا ہے اور ملائکہ اپنے پروں کو طالب علم کے لئے بچھاتے ہیں کیونکہ وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اور آسمان اور زمین کے رہنے والے حتٰی کے دریا کی مچھلیاں طالبعلم کے لئے استغفار کرتی ہیں۔
اور فرمایا کہ:
عالم دین کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت ستاروں پر اور چاندنی رات پر اور علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لئے درہم دینار، بلکہ چھوڑتے ہیں علم دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا اس نے بڑا نصیبہ پایا۔
(اصول کافی اردو۔ جلد 1۔ کتاب العقل والجہل۔ صفحہ 76)​


امام جعفر صادق علیہ سلام نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں مالک ہوتے درہم و دینار کے بلکہ وہ تو وارث ہوتے ہیں ان کی احادیث کے۔ پس جس نے ان احادیث سے کچھ لیا۔ اس نے کافی نصیبہ پا لیا۔
​(اصول کافی اردو ۔ جلد 1۔ کتاب العقل والجہل۔ صفحہ 71)​







مسئلہ فدک کو سمجھنے کے لئے امور ذیل کو ملحوظ و مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔

(1) فدک ایک گاؤں تھا جو مدینہ طیبہ سے تین منزل پر تھا جسمیں چشمے اور کھجور کے درخت تھے ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فدک بغیر لڑائی کے صلحا قبضہ میں آیا تھا اور اموال فئی میں سے تھا ۔ اہل سنت اور اہل تشیع بلکہ تمام مؤرخین مسلم و غیرمسلم کا اس بات میں کامل اتفاق و اتحاد اور کلمہ واحدہ ہے فدک اموال فئی میں سے تھا ۔ خود اہل تشیع کی کتاب شرح نہج البلاغہ: مصنفہ سید علی نقی ، فیض الاسلام کے صفحہ 959 پر ہے ؛

اہل فدک نصف آں راو بقولے تمام را بصلح و آشتی تسیلم نمودند ۔
ترجمہ:
فدک کے لوگوں نے اس کا نصف اور ایک دوسرے قول میں ہے کہ تمام فدک صلح سے ، بغیر جنگ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔
[شرح نہج البلاغہ: مصنفہ سید علی نقی ، فیض الاسلام کے صفحہ 959 ]

اور مال فئی قرآن شریف نے ایسے اموال کو قرار دیا ہے جو بغیر جنگ کے صلح سے قبضہ میں آویں ۔

(2) اموال فئی فدک ہو یا غیر فدک ، اس متعلق قرآن مجید میں صاف اور صریح واضح الفاظ میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے ۔
جس قدر اموال فئی ہیں ، وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور رشتہ دار رانِ نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں اور عام مسلمانوں میں سے یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے اوع فقرا مہاجرین اور انصار مدینہ اور ان کے بعد انے والے خیر خواہ حاجتمند ، مسلمانوں کے لئے ہیں ۔ تاکہ اموال فئی دولتمند بے حاجت لوگوں کے لینے دینے اور قبضہ میں نا آ جاویں جو کچھ اور جتنا کچھ رسول اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم حقدار مسلمانوں کو دیدیں لے لو ۔ اور جو تم سے روک لیں اس سے تم رک جاؤ ۔
( پ 28 سورۃ حشر )

اموال فئی کے متعلق یہ آیت بالکل محکم اور اپنے معنیٰ میں نہایت واضح اور غیر مبہم ہے ۔اور اموال فئی کے مستحق لوگوں کو بخوبی عیاں و نمایا ں کر کے بیان کر دیتی ہے ۔ جوکہ نہ رسول اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مخفی تھی اور نہ صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم سے پوشیدہ تھی اور نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے مسلمان سے کسی حجاب و نقاب میں مضمر تھی ۔
اور مال فئی کے متعلق اہل تشیع کی کتاب تفسیر صافی صفحہ 210 پر ہے کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے انفال فئی کے متعلق فرمایا :

فهذا كله لله ولرسوله، فما كان لله فهو لرسوله يضعه حيث شاء وهو للأمام بعد الرسول.
ترجمہ:
فئی اللہ تعالی اور اس کے رسول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور اس کا حق ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے قائم مقام خلیفہ بنے ۔
اس سے ثابت ہوا کہ فئی کسی کی شخصی ملکیت اور وراثت نہیں ہے ۔



(3) یہ امر بھی فریقین کی معتبر کتابوں سے ثابت اور محقق ہے جیسا کہ عنقریب ناظرین کی خدمت میں واضح کر دیا جائے گا ۔ (ان شاءاللہ تعالی ) اموال فئی فدک وغیرہ کے متعلق جو عمل اور طریقہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد مبارک اور حیات طیبہ میں مقرر اور جاری فرمایا تھا ۔ تمام خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی خلافت راشدہ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ کے دور تک اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہ ہوا ۔ اور عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عمل صدیق و فاروق اور عثمان غنی اور علی المرتضی اور حسن المجتبے رضوان اللہ تعالی اجمعین یکساں طور پر واحد و متحد رہا ذرا بھر فرق اور سر مو تفاوت اس مدت میں ایک لمحہ کے لئے بھی واقع نہیں ہوا ۔ یعنی قرآن مجید میں مزکورہ بالا بیان کردہ حکم و حدایت کے موافق جس طرح خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرما یا بعینہ وہی عمل جو ں کا توں تمام خلفائے راشدین نے جاری رکھا ۔ ۔
اگر نعوذبااللہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہم وغیرہ کا یہ عمل ظالمانہ یا غاصبانہ کہا جائے تو اسی عمل کو جاری رکھنے والے حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کس طرح مستثنےٰ اور مبرا ہوں گے ( العیاذبااللہ )


(4) نیز یہ امر بھی فریقین کی معتبر و مستند مسلمہ کتابوب میں ثابت ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کیا کہ میں جب تک زندہ ہوں ان اموال فئی فدک وغیرہ میں عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی جاری رکھوں گا ان میں کسی کو کسی قسم کا تغیر و تبدل اور کوئی دوسرا طریقہ جاری نہ کرنے دوں گا ۔ ہاں میرے ذاتی اموال میں آپ کو اختیار ہے جو چاہیں لے لیں سب کچھ آپ پر قربان ہے ۔
چناچہ شیعہ کی معتبر کتاب حق الیقین کے صفحہ 231 پر ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللی عنہ نے بہت سے فضائل و مناقب جناب سیدہ رضی اللہ عنہا کے بیان کیے اور کہا :
اموال واحوال خود را از تو مضايقه ندارم آنچه خواهى بگير تو سيده امت پدر خودى و شجره طيبه از براى فرزندان خود انكار فضل تو كسى نمى‌تواند كرد و حكم تو نافذ است در مال من اما در اموال مسلمانان مخالفت گفته پدر تو نميتوانم كرد
ترجمہ:
میں اپنا مال جائیداد دینے میں تم سے دریغ نہیں رکھتا جو کچھہ مرضی چاہے لے لیں آپ اپنے باپ کی امت کی سیدہ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں آپ کے فضائل کا کو ئی انکار نہیں رکھتا آپ کا حکم میرے ذاتی مال میں بلا چوں چرا جاری اور منظور ہے ۔لیکن عام مسلمانوں کے مال میں میں آپ کے والد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت ہر گز نہیں کر سکتا ۔
اسی قسم کے الفاظ بخاری شریف میں بھی ہیں ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ رضی اللہ عنہا کیخدمت میں عرض کیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار مجھے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ محبوب ہیں ۔
نیز بخاری شریف میں ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ۔
میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ سکتا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے ۔ میں ضرور وہی عمل جاری رکھوں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں اگر کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے چھوڑ دوں تو گمراہ ہو جاؤں گا ۔
یعنی سیدہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں اپنے اموال پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا مگر فدک وغیرہ اموال فئی میں حکم و رضا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کچھ کرنے کو گمراہی جانا ۔


( 5 ) مسئلہ فدک میں یہ امر سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ فدک کی محرومی کی وجہ سے جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر جنابہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی کہانی اہل سنت والجماعت کی کسی معتبر کتاب میں جنابہ سیدہ رضی اللہ عنہا کی زبانی ثابت نہیں کی جا سکتی یہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے خود فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا حق غصب کر لیا ہے اور مجھ پر ظلم کیا ہے میں ان سے ناراض ہوں ان سے کبھی بات نہیں کروں گی ہمارا دعوٰی ہے کہ قیامت تک کوئی شخص اہل سنت کی معتبر کتابوب سے اس قسم کا ثبوت پیش نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔
مگر اس کے بر عکس شیعہ کی معتبر کتابوں میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ پر اس فدک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے ۔ جس کا ازالہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا بلکہ فدک کو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق و فاروق و غنی رضی اللہ عنہم اجمعین والے سابقہ طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدین کے طرز عمل میں کسی تغیر کو جائز نہ سمجھا ۔ تو جناب علی رضی اللہ عنہ جن پر سیدہ فاطمہ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو سیدہ رضی اللہ عنہا نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن پر سیدہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں ان کا ظالم ، غاصب سمجھنا کس انصاف اور کس دیانت پر مبنی ہے ؟؟؟



( 6 ) مسئلہ فدک کو سمجھنے کے لئے یہ حقیقت بھی خوب ملحوظ اور ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شیعہ حضرات کے نزدیک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حیطان سبعہ (سات باغوں) پر قابض اور متصرف تھیں ۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے املاک ، اراضی و باغات اس کے علاوہ تھے ۔ ان سات باغوں کی وراثت حسب روایت شیعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جناب سیدہ رضی اللہ عنہا سے طلب کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہی جواب دیا کہ ان میں وراثت نہیں ہو سکتی اور ان سات باغوں میں سے ایک حبہ بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو نہ دیا ۔
چناچہ فروع کافی جلد ثالث ص 28 پر ہے۔
احمد ابن محمد نے موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت کی کہ میں نے امام موسیٰ کاظم سے ان سات باغوں کے متعلق دریافت کیا جو فاطمہ علیاالسلام کے پاس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھے۔ تو امام صاحب نے فرمایا میراث نہ تھے بلکہ وقف تھے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے اتنا لے لیتے تھے جو کہ مہمانوں کو کافی ہوتا تھا ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گے ۔ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ان سات باغوں کی بابت جناب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے جھگڑا کیا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ نے شہادت دی وہ وقف ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اور وہ سات باغ ۔ دلال ، عفاف ، حسنیٰ ، صافیہ ، مالام ابراہیم ، مبیت اور برقہ تھے۔

اب قابل غور امر یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس یہ سات باغ بھی تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اراضی اور باغات بھی علاوہ تھے تو فدک کے اموال فئی کے متعلق اس قسم کا نظریہ کہ یہ اموال فدک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو دے دئے تھے --------- شان نبوت پر سخت حملہ ہے جبکہ کتب شیعہ کے مطابق فدک کی پیدوار ہزاروں دینار تھی جیسا کہ ملا باقر مجلسی حیات القلوب میں نقل کرتا ہے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فدک سے یہ معاہدہ کر لیا کہ وہ ہر سال چوبیس ہزار دینا دیں ________ تو اس قسم کا نظریہ خلاف قرآن اور شان نبوت کے منافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سات باغ بھی سیدہ کو دے جائیں اور ہزاروں دینار کی آمدنی کے اموال فئی فدک سیدہ رضی اللہ عنہا کو دے جائےں ۔


میراث انبیاء علیہم السلام​

اب میراث کے دعوٰی کی حقیقت بھی سمجھ لیجیے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خود حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اب مزکورہ سات باغوں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ میراثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے یہ تو و قفِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان میں میراث نہیں ہے ۔ تو فدک جس کو قرآن مجید نے سراحتا وقف و فئی قرار دیا اس میں کیسے وراثت کا سوال جائز ہو سکتا ہے جس طرح ان سات باغوں اور اموال فئی فدک وغیرہ میں وراثت کا سوال غلط ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تما اموال میں وراثت کا سوال باطل اور غلط ہے اس میں اہل سنت اور اہل تشیع کی معتبر روایات اور احادیث متفق اور متحد ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کی مالی وراثت ہر گز نہیں ہوتی بلکہ صرف علوم و اخلاق بنوت ہی ہیں جو ان مقدس بزرگوں کی وراثت ہوتی ہے ۔

دلیل نمبر ( 1)

شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی صفۃ 18 میں ہے کہ

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان العلماء ورثۃ الانبیاء لم یورثوادیناراولادرھماولکن اورثواالعلم فمن اخذمنہ اخذ بحظ وافر
ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انبیاء کے وارث علماء ہی ہیں کیونکہ انبیاء دینار و درہم کا کسی کو وارث نہیں بناتے لیکن علم وراثت میں دیتے ہیں پس جس نے ان کے علم سے حصہ لیا اس نے اچھا حصہ پالیا۔
( اصول کافی ص 18 )


دلیل نمبر ( 2 )

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کو وصیت فرمائی ۔

وتفقھہ فی الدین فان الفقھاء ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثو دینارا ولا درھما ولٰکنھم ورثو العلم فمن اخذ منہ اخذ بحظ وافر
ترجمہ:
اے بیٹے! دین کا پورا کامل علم حاصل کر کیونکہ دین کو پوری طرح سمجھنے والے عالم انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء نے دینار و درہم کا وارث کسی کو نہیں بنایا وہ تو صرف علمکی وراثت دے جاتا ہیں تو جس نے اس علم دین کو حاصل کیا اس نے اچھا حصہ پا لیا۔
(شیعہ کی معتبر کتاب من الا یحضرالفقیہ ج دوم ص 346 )




دلیل نمبر ( 3 )

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ان العلماء ورثۃ الانبیاء وزاک ان الانبیاء لم یورثوا درھما ولا دینارا وانما اورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ حظا وافرا
ترجمہ:
بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء اپنی وراثت درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ احادیث ( علوم و احکام شریعت ) ہی اپنی وراثت چھوڑ جاتے ہیں ۔ پس جس شخص نے احادیث و علوم نبوت سے کچھ حصہ لیا تواس نے بڑا کافی وافی حصہ لیا۔
(اصول کافی ص 17 )


ان تینوں روایات نے ثابر کر دیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ ن نے صاف طور پر فرمادیا کہ حضرات انبیاء کرام علیہ السلام کی وراثت مالی درہم و دینار اموال دنیا ہر گز نہیں ہوتی بلکہ ان کی وراثت صرف علوم احادیث و اخلاق نبوت ہوتی ہے۔

دلیل نمبر ( 4 )

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ورث سلیمان داود ورث محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلیمان
ترجمہ:
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے وارث ہوئے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان علیہ السلام کے وارث ہوئے۔
( اصولِ کافی ص 137 )


حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد پر غور کیجیے کیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان علیہ السلام کے قریبی جدی رشتہ دار ہونے کے باعث ان کے مال اموال کے وارث ہوئے یا ہو سکتے تھے ۔۔۔ تو امام صاحب کا مقصد یہاں بھی وہی وراثت نبوت و علوم و اخلاق نبوت ہے یعنی انبیاء علیہ السلام کی وراثت علمی دینی اور اخلاقی روحانی ہی ہوتی ہے نہ کہ مالی اور دنیاوی۔




دلیل نمبر 5

شیعہ کی معتبر کتاب خصال بن بابویہ ص 39 پہ ہے :

اتت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شکواہ الذی توفی فیہ فقالت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذان ابنان نورثھما شیئا قال امام الحسن فان لہ ھیبتی وامام الحسین فان لہ جرائتی ۔
ترجمہ:
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مرض الموت میں آئیں اور عرض کیا یہ دونوں بچے ہیں ان کو کچھ میراث دے دیجیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور حسین رضی اللہ عنہ کے لئے میری جرائت ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وراثت میں اپنے ان دونوں نواسوں کو اپنے اخلاق ہی عطاء کئے اور مالی وراثت کا نام و نشان بھی نہ لیا۔
نیز شیعہ کی معتبر کتاب “ مناقب فاخرہ للعترۃ الطاہر ص 189 پر بھی یہ روایت موجود ہے اور شرح نہج البلاغہ حدیدی جلد دوم جز شانزدہم ص 261 پر بھی یہ روایت موجود ہے۔




دلیل 6

شیعہ کی معتبر کتاب من لا یحضرالفقیہ ج 2 ص 217 پہ ہے :

عن الفضیل بن یسار قال سمعت اباجعفر علیہ السلام یقول لا واللہ ماورث رسول اللہ العباس ولاعلی ولا ورثتہ الا فاطمہ علیہ السلام ۔ ۔
ترجمہ:
فضیل بن یسار نے نقل کیا کہ میں نے حضرت امام محمد باقر سے سنا وہ فرماتے تھے اللہ کی قسم کہ جناب رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس اور چچازاد بھائی حضرت علی اور دوسرے تمام رشتے دار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث نہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث صرف اکیلی حضرت فاطمہ علیہ السلام ہی ہوئی ۔

من لایحضر الفقیہ کی اس روایت معتبرہ پر غور کیجیے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت نہ حضرت عباس کو ملی اور نہ کسی دوسرے وارث رشتےدار ، ازواج مطہرات کو سوائے بی بی حضرت فاطمہ کے کوئی حقدار وراثت نہ تھا تو اب غور کیجیے قرآن کریم میں جو وراثت مالی کا قانون اور حکم منصوص بیان فرمایا گیا ہے کہ وراثت مالی لڑکی کو نصف اور ازواج کو آٹھواں حصہ دیا جائے ۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی مالی وراثت بموجب حکم قرآن ہوتی تو پھر شیعہ حضرات کے نزدیک امام صاحب کیوں یہ ارشاد فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام رشتے دار اور حقدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث نہ ہوئے بلکہ صرف اکیلی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مال و وارث ہوئی تھی یہ تمام مزکورہ روایات صراحتا دلالت کرتی ہیں کہ آئمہ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی وراثت اس طرح ہر گز نہ تھی جس طرح کے عام مسلمانوں کی مالی وراثت ان کے ورثاء اور رشتے داروں میں بموجب حکم قرآن تقسیم ہوتی ہے ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مالی وراثت کے حکم سے خارج اور مستثناء ہیں ۔ اور اہل سنت والجماعت بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد :

نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکنا فھو صدقہ ِ
ترجمہ:
ہم انبیاء مالی وراثت نہیں چھوڑ جاتے وہ وقف اور صدقہ فی سبیل اللہ ہوتا ہے ۔

کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی وراثت نہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مالی وراثت کے حکم سے خارج اور مستثناء ہیں ۔



سیدہ کے سوال کی کیفیت​

عام طور پہ شیعہ حضرات اوران کے ذاکرین اور مجتہدین بڑی شدت سے یہ دعوٰی کرتے ہیں
کہ اہل سنت کی بخاری شریف میں ثابت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دربار ِ خلافت میں گیئں اور وراثتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال کیا مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث رسول سنا کر سیدہ کو خالی ہاتھ واپس کیا جس سے وہ ناراض ہو گیئں ۔ ۔ ۔
مگر یہ خیال اور دعوٰی بالکل غلط ہے ۔ بخاری شریف اور مسلم شریف وغیرہ کی تحقیق سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دربارِ خلافت میں اس سوال کے لیے بالکل نہیں گیئں ۔ بلکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا آدمی بھیجا ۔جس نے جا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ سول کیا ۔ دیکھیے بخارے شریف جلد اول صفحہ 526 پر ثابت ہے ۔
عن عائشہ ان فاطمہ ارسلت الی ابی بکر تسئلہ میراثھا من النبی صلی اللہ علیہ وسلم مما افاءاللہ ۔ِ ِ ۔ ۔
ترجمہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا کر اموال فئ میں میراث کا سوال کیا ۔

تو بخاری شریف کے الفاظ ارسلت فاطمہ ۔ صراحۃ دلالت کرتے ہیں کہ خود سیدہ نہیں گیئں بلکہ کسی قصد کو بھیج کر سوال کیا ۔ تو جس روایت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کرنے اور جانے کا ذکر ہے وہ مجازی طور پر ہے ۔ کیونکہ واقعہ واحد ہے یعنی جو کام کسی کے حکم سے کیا جاتا ہے اس کام کو اس حکم کرنیوالے کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے نہر نکالی ہے یا سڑک بنائی ہے ۔ تو خود بادشاہ نہ تو نہر نکالتا ہے اور نہ سڑک بناتا ہے بلکہ مزدور اور مستری یہ کام کرتے ہیں ۔ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے وہ کام اس کی طرف منسوب ہوتا ہے ۔اس لئے یہاں بھی سوال کرنے یا آنے کا جو ذکر سیدہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہے وہ بطور مجاز اور حکم دینے اور آدمی بھیجنے کے ہے ۔






سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کی حقیقت و حکمت​

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی وراثت نہ تھی اور جب کہ قرآن مجید اموال فئی کے متعلق حکم دے رہا ہے کہ
جس قدر اموال فئی ہیں ، وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور رشتہ دار رانِ نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں اور عام مسلمانوں میں سے یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے اوع فقرا مہاجرین اور انصار مدینہ اور ان کے بعد انے والے خیر خواہ حاجتمند ، مسلمانوں کے لئے ہیں ۔ تاکہ اموال فئی دولتمند بے حاجت لوگوں کے لینے دینے اور قبضہ میں نا آ جاویں جو کچھ اور جتنا کچھ رسول اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم حقدار مسلمانوں کو دیدیں لے لو ۔ اور جو تم سے روک لیں اس سے تم رک جاؤ ۔
( پ 28 سورۃ حشر )
تو سیدہ کے وراثت کے سوال کا مقصد کیا تھا؟ تواس کا جواب یہ ہے جو زبدۃالمحققین ، عمدۃالمتاخرین علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نےعرف شذی شرح ترمزی ص 485 پر سید سمہودی کا قول نقل کیا ہے کہ
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا سوال ترکہ کے حصول ملکیت یعنی مالک بننے کے خیال اور ارادہ سے نہ تھا بلکہ صرف ان اموال فئی اور وقف اموال میں بطور قرابت رشتہ داری متولی بننے کے متعلق تھا ۔ جس کے جواب میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنادی جو حضرت علی اور حضرت عباس ، حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما وغیرہ کبار صحابہ جانتے تھے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال متروکہ میں کسی قسم کی وراثت نہیں چل سکتی ۔ نہ مالکانہ نہ متولیانہ ۔ بس اس حقیقت کے بعد پھر کبھی سیدہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ سے اس سوال کی نوبت نہیں آئی جبکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔
تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہماری مالی وراثت نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے تو اس مال سے آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نان نفقہ خرچ ہوتا رہے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اور تحقیق میں خدا کی قسم اٹھا کر کے کہتا ہوں کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی صدقات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تبدیل نہ کروں گا ، وہ صدقات جس طرح کے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھے جوں کے توں اسی طرح رکھوں گا اور ضرور بالضرور ان صدقات میں بعینہ وہی عمل اور دستور جاری رکھوں گا جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا ۔
( بخاری شریف ج اور ص 526)

یعنی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں یہی کہلا بھیجا کہ میں عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاری رکھوں گا اور اسی مال سے آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ خوراک ہوتا رہے گا تو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے مطمئن ہو گئیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عملِ نبوی میں کسی قسم کے ردوبدل کا ارادہ نہیں رکھتے ، خود شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں میں بھی ثابت ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اسی جواب پر مطمئن اور خوش ہو گئیں ۔ اور ان اموال فئی فدک وغیرہ سے اپنے تمام اخراجات خانگی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے وصول کرتی رہیں ۔ چناچہ شیعہ کی معتب کتاب شرح نھج البلاغہ درۃ نجفیۃ ص 332 سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےسیدہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ۔
میں تیرے سامنے اللہ تعالٰی کاعھد کر کے کہتا ہوں کہ میں ان اموالِ فئی فدک وغیرہ میں اسی طرح کروں گا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اس پر سیدہ رضی اللہ عنہا اس بات پہ راضی اور خوش ہو گئیں اور صدیق اکبر سے یہی عھد لے لیا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان اموالِ فئی کی پیداوار وصول کر کے حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانے کے لئے ان کا تمام خرچ کافی و وافی دے دیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔
در حقیقت حضرت سیدہ کے سوال کا مقصد اور منشا یہی تھا کہ قریبی رشتہ داروں کو اس وقفِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اموال کا متولی بنایا جائے ۔ مگر چونکہ متولی بنانے میں یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں میں یہ غلط فہمی ہو جائیگی کہ اموالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو وقف تھے ان میں وراثت جاری کر دی گئی ہے اور آئندہ کے لئے ان اموالِ فئی کو بجائے وقف سمجھنے کے ورثا اور رشتہ داروں میں تقسیم ہو جانے کا غلط خیال جاری ہوجاتا جس کو ابتدا ہی سے بند کر دیا گیا ۔
یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سوال کو عدالت میں پیش کراکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کو واضح فرمانا چاہتی تھیں تاکہ عدالت میں یہ بات پیش ہو کر خوب واضح ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان نبوت صرف اللہ تعالٰی کے ارشاد ، تبلیغِ دین اور ہدایتِ خلق کے لئے تھا نہ کے اپنی اولاد اور اقرباء کو جاگیردار اور مالدار بنانے کےلئے حتی کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقنوضہ جائیداد تک بھی کسی رشتہ دار کو نہیں مل رہی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان و مال ہر چیز اللہ کے لئے وقف تھی ۔
یہ سوال عدالت میں پیش نہ ہونے کی صورت میں ممکن تھا کہ لوگ یہ خیال کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت بھی باقی لوگوں کی طرح تقسیم ہوئی ہو گی ۔
نیز حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے اس سوال و جواب کے ذریعہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت کو دنیا کے سامنے واضح کر دیاکہ خلیفہ رسول مقبول حکمِ رسول مقبول کے خلاف کسی کی رعایت نہیں کرتا، خواہ کیسی محبوب اور معززترین ہستی کیوں نہ ہو ۔





باغ فدک کے مسئلے کی حقیقت :
(دلیل شیعوں کی معتبر کتابوں سے)
سب سے پہلےجانتے ہیں کہ فدک کیا ہے؟فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے اور یہ بھی کہاگیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا۔
(لسان العرب جلد2، صفحہ 473)

فدک کے مسئلے کی حقیقت:
آئیے اب ہم جانتے ہیں کہ فدک کے مسئلےکی حقیقت کیا ہے؟ جسے منافقین و فتنہ جو اور امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن، عرصۂ دراز سے بھڑکا رہے ہیں، اپنے ناپاک مقاصد اور خود غرضیوں کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر اک دھوم مچا رکھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت اور عام مسلمانوں کے درمیان بُعد و افتراق، پھوٹ اور اختلاف ثابت کر یں۔ دراصل وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اہلِ بیت ایک طرف تھے اور مہاجرین و انصار میں سے ’’السابقون الاولون“ اور پوری امت دوسری طرف۔
اللہ کی قسم! ایسی بات نہیں تھی یہ مسئلہ اتنا اختلافی نہیں تھاجتنا ان شیعوں نے صرف طعن وتشنیع کیلئےکردیا ہے بات صرف اتنی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وفات پا جانے کے بعدلوگوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خلافت اور مسلمانوں کی امارات کیلئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کےآپ رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا دیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا گیاکہ آپ رضی اللہ عنہ فدک میں سےاپنی میراث کا سوال کریں جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے کہاکہ رسول اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم (یعنی انبیاء علیھم السلام) میراث نہیں چھوڑتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے اورآل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی اس مال میں سے حصہ دیا جاتا ہے اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقات میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا تمام صدقات اسی طرح رہیں گےجس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد مبارک میں تھےمیں بھی ان صدقات کوانہی مصارف میں استعمال کروں گاجن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم استعمال کیا کرتے تھےمیں اپنے اقرباء سے صلہ رحمی کرنے سےزیادہ یہ پسند کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقرباء سےصلہ رحمی کروں ۔جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔

مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔
’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔‘‘
(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)

اسی نے کہا تھا (اشعار)
’’میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘
’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘
’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘
’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے۔‘‘
(روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)

شیعہ ابن میثم نہج البلاغ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے کہاجو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھےباقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھےیہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہ خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہد لے لیا۔
(شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7، از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)

اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے۔
(شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)

شیعہ حضرات کو یہ گوارا نہیں کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اتنی آسانی سے اس فیصلہ پر راضی ہوجائیں۔ انہوں نے صفحوں پر صفحے سیاہ کردیے، بیشمار کتابیں اس پر لکھ ماری ہیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں بکیں۔ طعن و تشنیع کے تیر برسائے، آپ کو کافر، فاسق، مرتد اور اسلام سے خارج کہا، لکھا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اہلِ بیت پر ظلم کرتے اور ستم ڈھاتے تھے۔ یہ معاملہ جن سے متعلق تھا، انہوں نے ایک دوسرے کو کچھ نہ کہا، زیادہ نہ کم۔ اور یہ بدبخت اپنی طرف سے ان پر الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ ہم شیعہ حضرات کی اپنی کتابوں سے اس بات کو ثابت کریں گے بلکہ خود اُن کے ائمہ نے تسلیم کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف یہ بات زبان ہی سے نہیں کہی بلکہ اپنے عمل سے اس کو پورا کیا ہے ۔۔۔۔۔!
شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعدعلی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44، شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332،شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران)

اور یہ لوگ اس پر راضی بھی کیوں ہوں؟ ان میں سے مجلسی نے لکھا ہے:
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا اہلِ بیت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک کو غصب کرلینا سب سے بڑی آفت اور سب سے بڑا حادثہ ہے… المناک اور کرب انگیز بات یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کی خلافت غصب کرلی۔ مہاجرین اور انصار سے جبری بیعت لے لی۔ فدک اہل بیت سے اس اندیشہ کی بناء پر چھین لیا کہ اگر ان کے پاس رہے گا تو لوگ مال کے لالچ میں ان کی طرف میلان رکھیں گے اور ان ظالموں (یعنی ابوبکر اور ان کے ساتھیوں) کو چھوڑ دیں گے۔ ان کو اس حد تک فقر و غربت میں مبتلا کردیا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہ بچا۔ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو ان کی طرف کوئی میلان و دلچسپی نہ رہے کہ کہیں لوگ ان کی باطل خلافت کو نہ توڑ دیں۔ اسی لیے یہ لوگ من گھڑت اور ناپاک یہ روایت پیش کرنے لگے کہ ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
(گالی گلوچ اور دشنام طرازی میں مجلسی جیسا بے باک کم ہی ہوگا۔ وہ نبی کے کسی بھی صحابی کا ذکر لعن طعن اور تکفیر و تفسیق کے بغیر نہیں کرتا۔ اس نے فدک کی بحث میں لکھا ہے کہ جب ابوبکر نے فاطمہ سے اس بات پر گواہ طلب کیے کہ فدک ان کا ہے، تو علی نے ابوبکر سے کہا: کیا تو گواہ طلب کرتا ہے؟ کیا گواہ ہی سب کچھ ہیں؟ آپ نے کہا: ہاں، اس پر علی نے آپ سے کہا، اگر گواہ گواہی دے دیں کہ فاطمہ نے زنا کیا ہے تو تُو کیا کرے گا؟ آپ نے کہا: میں دوسرے تمام لوگوں کی طرح اس پر بھی حد قائم کروں گا (عیاذاً باللہ)
(حق الیقین للمجلسی صفحہ ۱۹۳) دیکھئے کس قدر جرأت و بےباکی ہے۔ ذرا شرم نہیں آتی۔
”حق الیقین‘‘ فارسی للملا مجلسی صفحہ ۱۹۱ بعنوان ’’مطاعن ابی بکر‘‘)

کتنے ہی گمراہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلتے گئے؟ کینہ رکھتے ہوئے ان واقعات پر جو وقوع پذیر نہیں ہوئے۔ قوم کے بیوقوف افراد نہیں جانتے کہ جس گھر کو وہ مکڑی کے جال کی طرح بن رہے ہیں، حق کے ایک ہی جھکڑ کے سامنے اس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔
شیعہ کتب گواہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے۔۔۔۔۔۔؟؟
یہ روایت جسے ان شیعوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض وحسد کی بنا ء پررد کر دیا ہےیہ شیعہ نہیں جانتے کہ ان کے پانچویں امام نےاسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کیا ہےاور خود ان شیعوں کی اپنی کتاب میں موجود ہے، جی ہاں!ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے… اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا۔‘‘
(’’الاصول من الکافی‘‘ کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)

جعفر ابوعبداللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے:
’’علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں۔‘‘
(’’الاصول من الکافی‘‘ باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32)



مجلسی اور اس جیسے دیگر اصحابِ ضلال کے پاس ان روایات کا کیا جواب ہے؟ فارسی کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم ہے کہ:
’’اگر یہ گناہ کی بات ہے تو پھر تمہارا شہر بھی اس گناہ سے خالی نہیں۔“
اس کے علاوہ بھی دو روایتیں ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔۔۔!!
’’ابراہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت۔‘‘
( کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77)

دوسری روایت میں ہے:
’’سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔‘‘
(”کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)

مجلسی اور دیگر شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے تھے جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ قومِ شیعہ کے دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:
(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ۔
(’’الفروع من الکافی‘‘ ،کتاب الوصایا ،جلد ۷ ،صفحہ ۴۷، ۴۸)

اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی۔۔۔۔؟؟
کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری مال کو اپنی ذاتی ملکیت بنالیا تھا؟ عقلِ سلیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ اِس دور میں بھی، جو لوٹ کھسوٹ کا دور ہے، دین سے بیگانگی اور حرام و حلال سے بے پرواہی کا دور ہے، اس دورِ پرفتن میں بھی بادشاہ اور حکام جب زمین کے کسی ٹکڑے کے حاکم بن جاتے ہیں یا اسے فتح کرلیتے ہیں تو دوسروں کو فراموش کرکے سب کچھ اپنی ذاتی ملکیت نہیں سمجھ لیتے، بلکہ مال کو ملک و ملت کے لیے، رعایا کی بہبود کے لیے اور عوام کی ہر قسم کی ضروریات پر صرف کرتے ہیں۔ میری جان اور میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ، کیا یہ لوگ انہیں ایسا سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو سب لوگوں پر ترجیح دیتے تھے؟ اللہ کی قسم! یہ افتراء و بہتان ہے۔ اللہ کا مہربان و عظیم رسول ان گھٹیا جذبات سے بلند تر اور پاک تھا۔
ایک اور چیز بھی قابلِ غور ہے کہ اگر فدک کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے۔
یہ بھی وضاحت کرتے چلیں دیں کہ یہ اعتراض کرنے والے بیچارے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔
ان کے چوتھے امام … ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔‘‘
(”الفروع من الکافی‘‘ کتاب المواریث ،جلد7،صفحہ 137)
ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے:
’’ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ
میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں۔‘‘
(”من لا یحضرہ الفقیہ““،کتاب الفرائض والمیراث جلد۴ ،صفحہ ۳۴۷)

اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی۔
(مزید تفصیل کے لیے شیعہ کی دیگر فقہی کتب کی مراجعت کریں)

اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خفا ہو کر پھر آئیں اور آخری دم تک ان سے بات نہ کی، ہاں! آپ اپنے مطالبہ سے پھر گئیں اور پھر اپنی پوری زندگی میں اس موضوع پر کبھی بات نہ کی … نیز جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:
’’سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا۔
(”حق الیقین‘‘ ،صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی)

اس کمزور بنیاد پر وہ ماتمی مجلسوں، اہلِ بیت کے حقوق غصب ہوجانے کا واویلا، اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور اہلِ بیت کے درمیان عداوت و کدورت کی اس عمارت کو قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیادیں اول روز ہی منہدم ہوچکی تھیں، وہم وتخیلات کے جس تانے بانے کو بننا چاہتے تھے، ہواؤں کے تھپیڑوں سے اس کی دھجیاں فضا میں بکھر چکی ہیں۔ ابنِ سبا کی اس ذریت پر سربراہِ اہلِ بیت، فاطمہ کے شوہر، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ضربِ کاری لگائی تھی۔ دیکھیے امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:
’’جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا۔‘‘
(”الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱ ’’شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)

اسی لیے جب ابوجعفر محمد باقر سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا:
’’میں آپ پر قربان جائوں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا:
’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘
کہنے لگے:
’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔‘‘
(”شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)

دیکھو شیعوں کے امام تو شیعوں ہی کی کتابوں میں کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیاپھر یہ شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں دھرتے ہیں۔۔۔؟؟
باقر کے بھائی زید بن علی بن حسین نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ کہا تھا جو آپ کے دادا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، بحتری بن حسان کے پوچھنے پر آپ نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔‘‘
(”شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)

میرے خیال میں معاملہ صاف ہوچکا ہے اور اب مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
یہ سلسلۂ گفتگو ختم کرنے سے پہلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر کلینی کی نقل کردہ دو روایات اور پیش کردیں۔ پہلی روایت ابو عبداللہ جعفر کی ہے، آپ نے کہا:
’’مالِ غنیمت وہ ہے کہ اس پر کسی بخیل کا دل نہ ڈگمگایا ہو، یا قوم نے مصالحت نہ کرلی ہو، یا کسی قوم نے خود اپنے ہاتھوں سے نہ دیا ہو، ہر بنجر زمین اور جنگلات کے مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامِ وقت، جس مصرف میں چاہیں استعمال کریں۔‘‘
(”الاصول من الکافی‘‘ کتاب الحجۃ، باب الفتی والانفال ،جلد ۱ ،صفحہ ۵۳۹)

مطلب صاف واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام وقت سب لوگوں سے زیادہ اس میں تصرف کا حق دار ہے۔

دوسری روایت ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ اسے بھی ’’الاصول من الکافی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے۔
روایت سنیے!
شیعہ حضرات کے ساتویں امام ابو الحسن موسیٰ، مہدی کے پاس آئے، دیکھا کہ وہ مظالم دور کر رہے ہیں، ان سے کہنے لگے: اے امیر المومنین! ہمارے مظالم کیوں دور نہیں کیے جاتے؟
وہ پوچھنے لگے: ابو الحسن کون سے مظالم؟ کہا کہ فدک ، مہدی نے ان سے کہا: اے ابوالحسن اس کا حدودِ اربع بتاؤ، آپ کہنے لگے: اس کی ایک حد جبل احد ہے، ایک حد عریش مصر ہے، ایک حد سیف البحر ہے اور ایک حد دومۃ الجندل ہے۔
( ”الاصول من الکافی “باب الفتی والانفال ،جلد 1 ،صفحہ 543)
گویا کہ پوری آدھی دنیا! کہاں چھوٹا سا خیبر کا گاؤں اور کہاں آدھی دنیا؟ ذرا دیکھیے! یہ قوم کس قدر جھوٹ بولتی ہے، ان کی مبالغہ آرائیاں دیکھیے، کس طرح یہ لوگ اتنی سی بات کو افسانہ بنا دیتے ہیں۔ بس اسی سے ان حضرات کی مبالغہ آرائیوں کا اندازہ کرلیجیے۔
اس پر ہم فدک، امیر المومنین، خلیفۂ رسولِ صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کی افضلیت و حقانیت اور شیعہ حضرات کی اپنی کتابوں سے نقل کردہ روایات کی روشنی میں اہلِ بیت سے آپ رضی اللہ عنہ کی محبت کی بحث ختم کرتے ہیں۔





سیدہ فاطمہ کا جنازہ کس نےپڑھایا؟؟

کیاسیدہ فاطمہ ابوبکرسےناراض رہیں؟؟

سوال:

شیعہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بخاری مسلم میں ہے کہ سیدہ کا جنازہ سیدنا علی نے پڑھایا اور ابوبکر کو خبر تک نہ ہونے دی ، راتوں رات دفن کر دیا۔

جواب:

بخاری حدیث نمبر 4240 اور مسلم حدیث نمبر1759 کے تحت امام زہری کا قول ہے ناکہ حدیث کہ سیدہ فاطمہ کی وفات کی خبر ابوبکر کو نہ دی گئ اور راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا

یہ امام زہری کا تفرد اضافہ و ادراج ہے امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا لیھذا زہری کا اضافہ بلاسند و بلادلیل ہے جوکہ مدرج و مرجوح ہے راجح اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے جنازہ پڑھایا…علماء کا اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات و تعلیقات صحیح ہوں یہ لازم نہیں..(دیکھیے نعمۃ الباری شرح بخاری7/615وغیرہ)

حوالہ نمبر 1…2 …3:

سیدنا امام مالک، سیدنا امام جعفر سیدنا امام زین العابدین جیسے عظیم الشان آئمہ سے روایت ہے کہ

عن مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده علي بن الحسين ماتت فاطمة بين المغرب والعشاء فحضرها أبو بكر وعمر وعثمان والزبير وعبد الرحمن بن عوف فلما وضعت ليصلى عليها قال على تقدم يا أبا بكر قال وأنت شاهد يا أبا الحسن قال نعم تقدم فو الله لا يصلى عليها غيرك فصلى عليها أبو بكر رضى الله عنهم أجمعين ودفنت ليلا

ترجمہ:

سیدہ فاطمہ کی وفات مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی تو فورا ابوبکر عمر عثمان زبیر عبدالرحمن(وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین) پہنچ گئے، سیدنا علی نے فرمایا اے ابو بکر آگے بڑھیے جنازہ کی امامت کیجیے، حضرت ابوبکر نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ حضرت علی نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا

(تاریخ الخمیس1/278 الریاض النضرۃ1/176 سمط النجوم1/536)

حوالہ نمبر4،5:

ثنا محمد بن هارون بن حسان البرقي بمصر ثنا محمد بن الوليد بن أبان ثنا محمد بن عبد الله القدامي كذا قال وإنما هو عبد الله بن محمد القدامي قال مالك بن أنس أخبرنا عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده قال توفيت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا فجاء أبو بكر وعمر وعثمان وطلحة والزبير وسعيد وجماعة كثير سماهم مالك فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل عليها قال لا والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فتقدم أبو بكر فصلى عليها فكبر عليها أربعا ودفنها ليلا…

ترجمہ:

سیدہ فاطمہ رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر عثمان طلحۃ زیر سعید اور دیگر کئ صحابہ جن کےنام امام مالک نے گنوائے سب آئے،حضرت ابوبکر نے علی سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں اور اسی رات دفنایا گیا

(الكامل في ضعفاء الرجال5/422,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر2492)

حوالہ نمبر6:

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا فُرَاتُ بْنُ السَّائِبِ حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ … كَبَّرَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى فَاطِمَةَ أَرْبَعًا …

ترجمہ:

سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث1/381)

حوالہ نمبر7:

حدثنا عبدالله بن محمد بن جعفر ثنا محمد بن عبدالله رشتة ثنا شيبان ابن فروخ ثنا محمد بن زياد عن ميمون بن مهران عن ابن عباس … كبر أبو بكر على فاطمہ اربعا

ترجمہ:

سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(حلیۃ الاولیاء4/96,)

حوالہ نمبر8:

عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده قال توفيت فاطمة ليلا فجاء أبو بكر وعمر وجماعة كثيرة فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل قال والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فتقدم أبو بكر وكبر أربعا

ترجمہ:

سیدہ فاطمہ رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر اور دیگر کئ صحابہ کرام آئے،حضرت ابوبکر نے علی سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں

(ميزان الاعتدال2/488)

حوالہ نمبر9:

أخبرنا محمد بن عمر حدثنا قيس بن الربيع عن مجالد عن الشعبي قال صلى عليها أبو بكر رضي الله عنه

ترجمہ:

سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(الطبقات الكبرى8/24)

حوالہ نمبر10:

أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ أَبِي الْمُسَاوِرِ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا.

ترجمہ:

سیدنا صدیق اکبر نے بنت رسول سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

(الطبقات الكبرى8/24)

حوالہ نمبر11 12 13 14:

وكبر أبو بكر على فاطمة أربعا

ترجمہ:

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں

البدایہ و النہایۃ1/98

اتحاف الخیرۃ2/460

حلیۃ الاولیاء4/96

کنزالعمال15/718

حوالہ نمبر15

امام شعبی فرماتے ہیں

فأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو بكر أحمد بن كامل بن خلف بن شجرة القاضي، ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، ثنا عون بن سلام، ثنا سوار بن مصعب، عن مجالد، عن الشعبي أن فاطمة، رضي الله عنها لما ماتت دفنها علي رضي الله عنه ليلا، وأخذ بضبعي أبي بكر الصديق رضي الله عنه فقدمه يعني في الصلاة عليها

ترجمہ:

بےشک سیدہ فاطمہ کی جب وفات ہوئی تو حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے کندھوں سے پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا اور رات ہی میں سیدہ فاطمہ کو دفنایا

(سنن کبری بیھقی روایت نمبر6896)

مذکورہ حوالہ جات میں سے کچھ یا اکثر ضعیف ہیں مگر تمام سنی شیعہ علماء کے مطابق تعدد طرق ، کثرت طرق کی وجہ سے ضعف ختم ہوجاتا ہے

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

ترجمہ:

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ ناراض نہ ہوئیں تھیں بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا…

(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری22/233 وغیرہ کتب)

بالفرض

اگر سیدہ فاطمہ ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر نے انہیں منا لیا تھا راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں

ترضاھا حتی رضیت

سیدنا صدیق اکبر بی بی فاطمہ کو(غلط فھمیاں دور فرما کر) مناتے رہے حتی کہ سیدہ راضی ہوگئیں۔

(سنن کبری12735 عمدۃ القاری15/20,السیرۃ النبویہ ابن کثیر4/575)



ابوبکر…فرضیت عنہ

فاطمہ ابوبکر(کی وضاحت،اظہارمحبت کےبعد)راضی ہوگئیں۔

(شرح نہج بلاغۃ2/57)


سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ فاطمہ کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے

سیدہ فاطمہ کی وصیت:

میری میت کوغسل ابوبکرکی زوجہ اورعلی دیں۔

(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)

یہ جھوٹ ہے کہ سیدہ فاطمہ علی عباس ازواج مطہرات اہلبیت وغیرہ کو رسول کریم کی املاک سے مطلقا محروم کیا گیا….سچ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخود بی بی فاطمہ و اہلبیت میں سے کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ نبی پاک نے اپنی ساری ملکیت اسلام کے نام وقف کی اور فاطمہ ازواج مظہرات اہلبیت وغیرہ پر وقف میں سے جو نفعہ پیداوار ملتی اسکو ان پر خرچ کرتے تھے

اسی طرح رسول کریم کی سنت پے چلتے ہوئے حضرت سیدنا صدیق اکبر عمر و علی رضی اللہ عنھم نے بھی اہلبیت آل رسول ازواج مطہرات وغیرہ کسی کو مالک نہ بنایا

بلکہ

فدک وغیرہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کےچھوڑےہوئےصدقات میں سےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آل محمد اہلبیت ازواج مطہرات فاطمہ علی عباس پر

اور

کچھ صحابہ اور کچھ عوام مسلمین پر خرچ کرتےتھے…عمر و علی رضی اللہ عنھما نے بھی یہی طریقہ جاری رکھا یہی طریقہ رسول کریم کا رہا تھا

( تاریخ الخلفاء ص305,

ابوداود روایت نمبر2970,2972,

سنن کبری للبیھی روایت نمبر12724

بخاری روایت نمبر2776،3712،)

انبیاء کرام علیھم السلام کی میراث درھم و دینار(کوئی مالی میراث)نہیں،انکی میراث تو فقط علم ہے

(شیعہ کتاب الکافی1/34)





رسول اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک دیا یا نہیں؟؟
شیعہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تمام روایات کا تحقیقی جائزہ

یاد رہے مسئلہ فدک پر شیعہ اس بات کے مدعی ہیں ، کہ " فدک " سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کیا گیا تھا،
اس کے ساتھ ہی وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں ، کہ اہل سُنت کی معتبر کُتب احادیث کی صحیح روایات میں یہ واقعہ موجود ہے!
میرا تمام دنیاء شیعیت کو کھلا چیلنج ہے، اھل سُنت کی مُستند و معتبر کُتب سے " ہبۂ فدک " پر ایک بھی صحیح روایت پیش کردیں ، جس کے راوی ، شیعہ ، رافضی ، کذاب ، دجال ، نہ ہوں ، میں ایک لمحے میں مذہب شیعیت قبول کرلونگا!
البتہ شیعہ دوستوں نے آج تک اپنی کُتب میں جو روایات ہبہ کی پیش کی ہیں ، یا کُتب اھل سُنت کی طرف ان کی نسبت کی ہے ، ان روایات کے ایک ایک راوی کو ائمۂ جرح و تعدیل کی کُتب سے شیعہ اور کذاب ثابت کرونگا ان شاء اللہ!
پوری دنیا کے شیعہ مل کے بھی ہبہ کی ایک روایت بھی ایسی ثابت نہیں کرسکتے ، جس کے راوی شیعہ نہ ہوں،
بلکہ ان کی کُتب میں جس روایت پر انہیں بڑا ناز و فخر ہے ، اور جھوٹ بولتے ہوئے وہ روایت " صحابئی رسول سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرف مختلف طُرُق سے منسوب کرتے ہیں ، اس کے بھی آخری راوی صحابئی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ وہ بھی ایک شیعہ راوی ہے ، جس کی کنیت کبھی تو ابو سعید ہوتی تھی ، کبھی تو یہ صاحب ابو نضر کی کنیت اختیار کرتے ہیں ، کبھی ابو ہشام اور کبھی ابو سعید ، اس سے روایت کرنے والے اس کے شاگرد بھی اسی کی طرح شیعہ ہیں ،
شیعہ دوستوں کے مجتھدین نے مسئلۂ فدک پہ جو معرکة الآرا کتب لکھی ہیں پہلے ان کی تفصیل؛
آج کے زمانہ میں اردو میں لکھی جانے والی تمام کتب ان کُتب کا چربہ ہیں۔
سید شریف مرتضی المعروف علم الھدی کی تصنیف " شافی "
ابو جعفر طوسی کی " تلخیص شافی "
جلال الدین حسن بن یوسف بن علی مطھر حلی کی " کشف الحقائق و نہج الصدق "
ثقة الاسلام علی بن طاؤس حلی کی " طرائف فی معرفت مذاہب الطوائف "
قاضی نوراللہ شوستری کی " احقاق الحق "
ملا باقر مجلسی کی بحار الانوار جلد 8
اور پھر اسی کا خلاصہ فارسی زبان میں " حق الیقین " اور " حیات القلوب " میں
مولوی دلدار علی لکھنوی کی " عماد الاسلام "
مولوی محمد پرقلی کی " تشئید المطاعن "
مجتھد سید محمد کی " طعن الرماح "
سید محمد باقربن سید محمد موسوی کی " بحر الجواھر"
اسماعیل بن احمد علوی طبرسی کی " کفایة المؤحدین فی عقائد الدین "
مقرب الخاقان مرزا محمد تقی کی " ناسخ التواریخ " وغیرہ ہیں ، جن میں تفصیل سے " فدک " کی بحث کی گئی ہے،
ان تمام کتب جن کے نام اوپر ذکر کئے گئے ہیں ، ان میں سے " کشف الحق " میں پہلے " میراث " کا دعوی کیا گیا ہے، پھر " ہبہ " کا،
بقیہ تقریبا تمام کتب میں پہلے ہبہ کا دعوی کیا گیا ہے،
عمادالاسلام میں مجتھد مولانا دلدار علی صاحب لکھتے ہیں ، کما یقول المسئلة الرابعة ان فاطمة ھل ادعت الخ؛
یعنی چوتھا مسئلہ یہ ہے، کہ آیا فاطمہ رضی اللہ عنھا نے پہلے میراث کا دعوی کیا تھا ، یا ہبہ کا ؟ یا پہلے ہبہ کا دعوی اور پھر میراث کا؟ اھل سنت کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے ، پہلے میراث کا دعوی کیا گیا تھا پھر ہبہ کا ، اور امامیہ اس کے برعکس کہتے ہیں۔
اس عبارت سے مجتھد صاحب یہ باور کرانا چاہتے ہیں ، کہ ہبہ کا دعوی اہل سنت کے نزدیک بھی صحیح ہے،
حالانکہ اھل سنت کی کسی معتبر اور صحیح روایت سے ہبہ کا دعوی ثابت ہی نہیں ، اور اھل سنت اس بات کو مانتے ہی نہیں ، کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے ہبہ کا دعوی بھی کیا تھا ، اس لئے وہ عمارت جو اس روایت کی بناء پر شیعہ دوستوں نے کھڑی کی ہے ، کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے شھادت طلب کی گئی تھی اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گواہی نامکمل ہونے کے سبب وہ شھادت رد کردی تھی،
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی اپنی شہرہ آفاق تصنیف " تحفۂ اثنا عشریہ " میں تیرھویں اعتراض کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں؛
جواب اس اعتراض کا یہ ہے، کہ حضرت زھراء رضی اللہ عنھا کا دعوٰئ ہبہ اور گواہی میں جناب علی وام ایمن یا بروایت دیگر جناب حسنین رضی اللہ عنھم کو پیش کرنے کی روایات افتراء اور جھوٹ ہے ، کیونکہ اہل سُنت کی کتابوں میں اس معاملہ کی کسی عنوان کوئی روایت موجود نہیں ، لہذا اس کا سہارا لےکر اھل سُنت پر الزام لگانا اور ان سے جواب طلب کرنا نادانی اور دھاندلی ہے۔
" روایاتِ ہبۂ فدک کی حقیقت "
سب سے قبل چوتھی صدی ہجری کی اھل تشیع کی جس کتاب " شافی " میں تفصیل سے " فدک " کے مسئلہ کو لکھا گیا ہے ، اس میں صرف ایک روایت ہبہ کے بارہ میں پیش کی گئی ہے، اس روایت کا خلاصہ یہ ہے ، کہ جب قرآن مجید کی آیت " وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ " سورہ اسراء آیت نمبر 26 نازل ہوئی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " فدک " حضرت فاطمہ کو ہبہ فرمادیا، ( حالانکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور فدک تو سن سات ھجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا اس آیت پر ائمۂ معصومین کے اقوال بھی ذکر کئے جائیں گے ان شاءاللہ ) یہ وہی روایت ہے ، جس کے آخری راوی ابو سعید ہیں جن کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہا اور سمجھایا جاتا ہے، اس کے علاوہ " شافی " میں اور کوئی روایت ہبہ کی مذکور نہیں؛
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ، کہ سید شریف مرتضی علم الھدی جیسے اعلی پائے کے شیعہ مجتھد کو اھل سنت کی کسی معتبر کتاب سے اور کوئی روایت نہیں ملی ، وگرنہ وہ اسے ضرور ذکر کرتے، ( یہ موصوف چوتھی صدی ھجری کے مجتھد ہیں ،
" تلخیص شافی " میں بھی اس روایت کے علاوہ کوئی اور روایت ہبۂ فدک کی مذکور نہیں،
" کشف الحق ونہج الصدق " میں بھی صحیح سند کے ساتھ کوئی اور روایت مذکور نہیں ،
" طرائف " میں ایک روایت بشر بن ولید اور واقدی اور بشر بن غیاث کے واسطہ سے پیش کی گئی ہے، اس کے علاوہ ایک اور روایت سید الحفاظ بن مردویہ کی نقل کی گئی ہے،
" بحار الانوار " میں ملا باقر مجلسی نے وآت ذی القربی کی تفسیر میں یہ تو لکھا ہے ، کہ " آیت کے شان نزول میں بہت سی روایات بہت سے اھل سنت و شیعہ مفسرین نے بیان کی ہیں ، شیعہ مجتھد شیخ طبرسی سے ایک روایت بغیر سند کے ذکر کرتے ہیں ، حالانکہ مجتھد طبرسی نے اس روایت کے راویوں کا ذکر کیا ہے ، مجلسی صاحب نے اس روایت کے راوی چھوڑ دئے، صرف ابو سعید خدری کا ذکر کیا،
لیکن طبرسی صاحب نے راوی ذکر کئے ہیں ، سلسلۂ سند یوں ہے۔
اخبرنا السید ابو حمید مھدی بن نزارالحسنی قرآة قال حدثنا الحاکم ابوالقاسم بن عبداللہ الحسکانی قال حدثنا الحاکم الوالد ابو محمد قال حدثنا عمر بن احمد بن عثمان بغداد شفاھا قال اخبرنی عمر بن الحسین بن علی بن مالک قال حدثنا جعفر بن محمد الاحمصی قال حدثنا حسن بن حسین قال حدثنا ابو معمر بن سعید جیشم وابو علی القاسم الکندی ویحی بن یعلی وعلی بن مسھر عن فضیل بن مرذوق عن عطیة الکوفی عن ابی سعید الخدری قال لما نزلت الخ
احباب اس روایت کے آخری تین راوی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید الخدری " کو ذہن نشین کرلیں،
دوسری روایت جو ملا باقر مجلسی صاحب نے لکھی ہے اس کے راوی درج ذیل ہیں،
محمدبن العباس عن علی بن العباس المقانعی عن ابی کریب عن معاویہ عن " فضیل بن مرذوق " عن عطیة " عن ابی سعید الخدری "
تیسری روایت سید ابن طاؤس کی کتاب سعد السعود سے مجلسی صاحب نقل کرتے ہیں ، اس روایت کے آخری تین راوی بھی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید الخدری " ہیں ،
قاضی نوراللہ شاستری نے اپنی کتاب " احقاق الحق میں بھی اسی روایت کو ذکر کیا ہے۔
عماد الاسلام میں جو روایت سید الحفاظ ابن مردویہ سے ذکر کی گئی ہے، اس کے آخری راوی بھی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید " یہی تین ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ " آخری راوی کا نام صرف ابو سعید لکھا ہے ابو سعید الخدری نہیں "
دوسری روایت " کنزالعمال " شیخ علی متقی سے بیان کی ہے اور اسی روایت کو " حاکم نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے ، اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے ،
" تفرد به ابراھیم بن محمد بن میمون عن علی بن عابس بن النجار۔
یعنی اسے صرف ابراھیم بن محمد بن میمون نے علی بن عابس بن نجار سے روایت کیا ہے۔
اسی کتاب میں تیسری روایت علامہ سیوطی کی تفسیر در منثور سے نقل کی گئی ہے،
اسی کتاب میں چوتھی روایت " معارج النبوت " سے نقل کی گئی ہے،
ان چاروں روایات کو نقل کرنے کے بعد مصنف صاحب ایک جملہ ارشاد فرماتے ہیں ،
وقال السید المرتضی فی الشافی وقد روی من طریقة مختلفة غیر طریق ابی سعید۔
سید مرتضی " شافی " میں لکھتے ہیں ابو سعید کے علاوہ اور بھی کئی طریقوں سے یہ روایت مروی ہے،
لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے ، اپنے اس دعوی کی دلیل کے طور پہ کسی اور مختلف الاسناد روایت کو ذکر نہیں کرتے ،
چوتھی صدی ھجری سے لے کے پندرھویں صدی ھجری تک جتنے لوگوں نے اھل تشیع میں سے " فدک " کے موضوع کو اپنی اپنی تصانیف میں لکھا ہے، یا اھل سنت کی چند کتب سے جن روایات کا تذکرہ کیا ہے ، اس کے علاوہ ان کے پاس " ہبۂ فدک " میں اور کوئی روایت نہیں ، اگر ہوتی تو ضرور باالضرور اس کا تذکرہ کرتے،
میں پہلے وہ تمام روایات نمبر وار پیش کروں گا ، جو ہبہ کے متعلق اھل سنت یا اھل تشیع کی کتب میں موجود ہیں ، پھر ان کو روایت کرنے والے راویوں کا کچا چٹھا بیان کروں گا ان شاء اللہ۔
یہ روایات جس طریقۂ اسناد سے بھی پیش کرلیں ، اس کا آخری راوی " ابو سعید " ہے جسے کہیں " ابو سعید الخدری " کے نام سے ذکر کیا گیا ہے اور کہیں صرف " ابو سعید "
ایک ہی شخص اس پردۂ زنگاری میں چُھپا ہوا ہے ، اسی کے مختلف رنگ دوسروں نے لئے ہیں ، یہ ایک ہی گندا دریا ہے ، جس سے جھوٹ ، دجل ، اور فریب کی مختلف نہریں نکلی ہیں ،
اسے آسان کرنے کے لئے میں یوں سمجھاتا ہوں
روایت نمبر 1 ) جسے سید الحفاظ ابن مردویہ سے طرائف میں نقل کیا گیا ہے ، اس میں ساتویں ، آٹھویں اور نویں راوی " " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید " ہیں
روایت نمبر 2) بحار الانوار میں بغیر سند کے اور تفسیر مجمع البیان طبرسی میں تفصیل سے سند کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اس کے بارھویں ، تیرھویں اور چودھویں راوی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید " ہیں؛
روایت نمبر 3) یہ روایت بھی بحار الانوار میں سید ابن طاؤس کی کتاب " سعد السعود " سے نقل کی گئی ہے ، اور ابن طاؤس نے اسے تفسیر محمد بن علی بن مروان سے نقل کیا ہے، اس روایت کے نویں ، دسویں ، اور گیارھویں راوی بھی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید " ہیں؛
روایت نمبر 4 ) بھی بحار الانوار میں ذکر کی گئی ہے اس کے پانچویں ، چھٹے ، اور ساتویں راوی بھی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید " ہیں؛
روایت نمبر 5) جو " کنزالعمال " سے عماد الاسلام میں نقل کی گئی ہے، اسے " حاکم " کی تاریخ میں سے لیا گیا ہے ، اس کا سلسلہ بھی ابو سعید پہ ختم ہورہا ہے ؛
روایت نمبر 5 ) جو " عماد الاسلام میں " تفسیر در منثور سیوطی " سے نقل کی گئی ہے، اس میں سند کا حوالہ نہیں دیا گیا، لیکن " طعن الرماح " میں اسی روایت کے ساتھ یہ ذکر کیا گیا ہے، کہ " بزار " ابو یعلی " ابن حاتم " اور ابن مردویہ نے اسے ابو سعید الخدری سے روایت کیا ہے؛
روایت نمبر 6) بحار الانوار میں ذکر کی گئی ہے، جس میں مامون الرشید کی طرف منسوب کیا گیا ہے، کہ اس نے عبید اللہ بن موسی سے " فدک " کا حال تحریرا دریافت کیا تو اس نے وہ روایت جس کا ذکر مھدی بن نزار نے کیا ہے ، لکھ بھیجی تو مامون الرشید نے " فدک " اولاد فاطمہ کو لوٹا دیا تھا، اس روایت کے آخری تین راوی بھی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید " ہیں ؛
روایت نمبر 7 ) جسے طرائف میں بشر بن ولید ، واقدی ، بشر بن غیاث سے بیان کیا گیا ہے ، اور اسی کو قاضی نوراللہ شوستری نے احقاق الحق میں وقدی کے حوالہ سے ذکر کیا ہے ، اس روایت کی اسناد ذکر ہی نہیں کی گئیں ؛
روایت نمبر 8 ) جسے معارج النبوة " اور " مقصد اقصی " سے عماد الاسلام میں نقل کیا گیا ہے ان کے آخری راوی بھی " فضیل بن مرذوق " عطیة الکوفی " ابو سعید " ہیں؛
چونکہ یہ روایات مختلف طریقوں سے یا سند کو حذف کرکے بیان کی جاتی ہیں ، تو ہمارے اھل سُنت یہ سوچ کے گھبرا جاتے ہیں ، کہ ایک صحابئی رسول " ابو سعید الخدری " کی یہ روایت ہے ، کیسے یہ روایت غلط ہوسکتی ہے، نیز چونکہ ہماری ہی کتب سے یہ روایات نقل کی جارہی ہیں ، اس لئے یہ روایات لازمی صحیح ہونگی ، اس سے اکثر لوگوں کے دماغوں میں شبہ اور خلجان پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے، لیکن ان بیچاروں کو یہ معلوم نہیں ہوتا ، کہ جس نام ابو سعید الخدری سے ان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ ابو سعید الخدری نہیں بلکہ یہ وہ ابو سعید ہے جو کلبی کے خطاب سے مشہور اور صاحب تفسیر ہے ،
ان صاحب کے بہت سے نام اور مختلف کنیتیں ہیں ، اور اسی وجہ سے لوگوں کو اکثر ان کے نام میں دھوکہ ہو جاتا ہے،
کبھی ان کا نام محمد بن سائب کلبی لیا جاتا ہے، اور کبھی حماد بن سائب کلبی کے نام سے پکارے جاتے ہیں ، ان صاحب کی تین مختلف کنیتیں ہیں ،
نمبر 1 ابو نصر ، نمبر 2 ابو ہشام ، نمبر 3 ابو سعید۔
عطیہ عوفی ان کے خاص الخاص شاگرد ہیں ، اور وہ شیعہ ہیں ، اس قسم کی روایات کو جب بھی عطیہ عوفی اس شخص سے روایت کرتے ہیں ، ایسا انداز اپناتے ہیں ، کہ جس سے لوگوں کو یہ دھوکا ہوتا ہے، کہ عطیہ عوفی " ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ " سے روایت کررہے ہیں ، عطیہ عوفی " حدثنا یا قال ابو سعید کہ کے چُپ ہو جاتے ہیں ، کلبی یا خدری کی تخصیص نہیں کرتے ،
اسماءالرجال کی کتب میں ان استاد شاگرد کا جو تعارف کروایا گیا ہے ، اس سے آپ دوستوں کو صورت احوال سمجھنے میں آسانی ہوگی ،
پہلے میں عطیہ عوفی الکوفی کا تعارف کرواتا ہوں،
اسماءالرجال ( " دینی علوم کو نہ جاننے والے دوستوں کے لئے وضاحت " اسماء الرجال اس علم کو کہتے ہیں جس سے روایت کرنے والے راویوں کی مکمل حقیقت پتہ چلتی ہے، کہ وہ کون تھے ؟ کیا تھے ؟ سچے تھے ؟ جھوٹے تھے ؟ وغیرہ وغیرہ ) کی معتبر ترین کتاب " تقریب التھذیب میں ان حضرت کے تعارف میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں،
کما یقول عطية بن سعد الکوفی یخطی کثیر او کان شیعیا مدلسا۔
ترجمہ ؛ عطیہ بن سعد الکوفی روایت میں غلطی بھی کرتے تھے ، تدلیس بھی کرتے تھے ، اور شیعہ بھی تھے۔
ان صاحب کی روایات تین وجوھات سے ہم اھل سنت کےنزدیک مردود ہے،
نمبر 1) کثیر الخطا ہونے کی وجہ سے ان کی روایات یقین کے قبل نہیں،
نمبر 2) تدلیس کی وجہ سے ان کی روایات پایۂ اعتبار سے ساقط ہیں،
نمبر 3) شیعہ ہونے کے وجہ سے ان کی روایات اھل سُنت کے نزدیک قابل اعتبار نہیں ،
روایت میں خطا کرنا اور شیعہ ہونا ، یہ دو چیزیں تو محتاج بیاں نہیں ، البتہ تدلیس کیا چیز ہے ؟ اور راوی میں یہ عیب کس درجہ کا ہوتا ہے ، یہ قابل بیاں ہے ، تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے ، کہ مدلس ( تدلیس کرنے والا) راوی کی روایت کس درجہ کی ہوتی ہے،
علامہ ابن جوزی رح اپنی مشہور زمانہ کتاب " تلبیس ابلیس " میں لکھتے ہیں،
ومن تلبیس ابلیس علی علماء المحدثین روایة الحدیث الموضوع من غیر ان یبنواانه موضوع وھذا خیانة منھم علی الشرع ومقصودھم تنفیق احادیثھم وکثرة روایاتھم وقد قال النبی من روی عنا حدیثا یری انه کذب فھو احد الکاذبین ومن ھذاالفن تدلیسھم فی الروایة فتارة یقول احدھم فلان عن فلان او قال فلان عن فلان یوھم انه سمع منه ولم یسمع وھذا قبیح لانه یجعل المنقطع فی مرتبة المتصل ۔
ترجمہ؛ یعنی محدثین کو تدلیس حدیث موضوع کو روایت کرنے میں یہ دھوکہ ہوتا ہے، کہ وہ یہ بیان نہیں کرتے ، کہ یہ حدیث موضوع ہے، حالانکہ یہ بات اس کی شرح میں خیانت ہے، اور ان کا اپنی احادیث کا جاری کرنا ، اور کثرت سے روایات کا ہونا مقصود ہوتا ہے، اور پیغمبر ﷺ نے فرمایا، کہ جو شخص میری طرف سے کوئی حدیث روایت کرے، اور وہ یہ جانتا ہو، کہ وہ حدیث جھوٹی ہے، تو وہ خود بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے، اور فن حدیث میں روایت کی تدلیس یہ ہے، کہ راوی یہ کہے، کہ فلاں نے فلاں سے فلاں نے کہا فلاں سے ، جس سے یہ وہم دلاتا ہے، کہ فلاں نے فلاں سے سنا ہے، حالانکہ نہیں سنا ، تو یہ بہت بری بات ہے، اس لئے کہ راوی حدیث منقطع کو ( جس کا راوی درمیان سے چھوٹا ہوا ہو ) متصل کے ( جس کے راوی تسلسل سے چلے آرہے ہوں ) برابر کرنا چاہتا ہے۔
عطیہ عوفی صاحب کے متعلق اسماء الرجال کی دوسری معتبر ترین کتاب " میزان الاعتدال " میں یوں لکھا ہے۔
عطیه بن سعید العوفی الکوفی تابعی شھیر ضعیف قال سالم المرادی کان عطیة یتشیع وقال احمد ضعیف الحدیث وکان ھیثم یتکلم فی عطیة وروی ابن المدائنی عن یحییٰ قال عطیة وابو ھارون وبشیر بن حرب عندی سواء وقال احمد بلغنی ان عطیة کان یاتی الکلبی فیاخذ عنه التفسیر کان یکتبه بابی سعید فیقول قال ابوسعید قلت یعنی یوھم انه الخدری وقال النسائی وجماعته ضعیف۔
ترجمہ؛ عطیه بن سعد عوفی کوفی تابعی مشہور ضعیف ہے، اور ابو حاتم کہتے ہیں ، کہ ان کی حدیث ضعیف ہے، سالم مرادی کہتے ہیں ، کہ عطیه شیعہ تھا ، امام احمد کہتے ہیں ، کہ وہ ضعیف الحدیث ہے، ہیثم کو عطیه میں کلام ہے، اور ابن مدینی نے یحی سے روایت کی ہے، کہ وہ کہتے ہیں ، کہ عطیه اور ابو ھارون اور بشر بن حرب میرے نزدیک برابر ہیں ( یعنی تینوں کذاب ہیں ) امام احمد کہتے ہیں ، کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے، کہ عطيه کلبی کے پاس آتے ، اور ان سے تفسیر لیتے ، اور اسے ابو سعید کے نام سے لکھ دیتے ، اور یوں کہتے ، کہ ابوسعید نے ایسا کہا ہے، ذہبی کہتے ہیں ، کہ اس سے مراد یہ ہے، کہ ان کا مقصود یہ ہوتا ، کہ لوگ یہ سمجھیں ، کہ یہ ابو سعید خدری ( رضی اللہ عنہ ) ہیں ، اور نسائی اور ایک جماعت نے ان کو ضعیف کہا ہے۔
علامہ سخاوی نے بھی رسالہ منظومہ جزری میں جو اصول حدیث میں باب من له اسماء مختلفة ونعوت متعددة میں جہاں کلبی کا ذکر کیا ہے ، وھاں یہ لکھا ہے، وھو ابو سعید الذی روی عنه عطیة العوفی موھما انه الخدری ۔
کہ یہی کلبی ابو سعید کی کنیت سے بھی پکارے جاتے ہیں ، اور عطیه عوفی ان سے جو روایت کرتے ہیں ، وہ اسی کنیت سے یعنی قال ابو سعید کہ کے روایت کرتے ہیں ، تاکہ لوگوں کو یہ خیال ہو، کہ یہ ابو سعید الخدری ہیں۔
ابو سعید صاحب کے شاگرد رشید عطیه عوفی الکوفی صاحب کے جو حالات مختصرا اسماء الرجال کی کتب سے میں نے بیان کئے ، ان سے روز روشن کی طرح یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے، کہ ہبہ کی روایات سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے نہیں ، بلکہ ابو سعید کلبی صاحب کا گھڑا ہوا افسانہ ہے ، جو بزعم خود مفسر بھی تھے،
اب ان ابو سعید صاحب کی حقیقت بھی دیکھ لی جئے، یہ کس باغ کی مولی ہیں ، تاکہ آپ دوستوں کو یہ معلوم ہوجائے ، کہ یہ صاحب جن پر ھبہ کی تمام روایات کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اول درجے کی جھوٹے ، حدیثیں گھڑنے والے ، اور شیعہ تھے۔
علامہ سخاوی نے رسالہ منظومہ جزری میں لکھا ہے،
ان من امثلة ( ای من له اسماء مختلفة ونعوت متعددة ) محمد بن سائب کلبی المفسر ھو ابو النضر الذی روی عنه ابن اسحاق وھو حماد بن سائب روی عنه ابو اسامه وھو ابو سعید الذی روی عنه عطیة الکوفی موھما انه الخدری وھو ابو ھشام روی عنه القاسم بن الولید۔
ترجمہ؛ کہ ان لوگوں میں سے جن کے مختلف نام ، اور متعدد کنیتیں اور لقب ہیں ، ایک محمد بن سائب کلبی مفسر ہیں ، انہی کی کنیت ابو نضر ہے، اور اس کنیت سے ابن اسحاق ان سے روایت کرتے ہیں ، اور انہی کا نام حماد بن سائب بھی ہے، اور ابواسامہ اسی نام سے ان سے روایت کرتے ہیں ، اور انہی کی کنیت ابو سعید ہے ، اور اسی کنیت سے عطیه عوفی ان سے روایت کرتے ہیں ، تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈالیں ، کہ یہ ابوسعید الخدری ہیں ، اور انہی کی کُنیت ابو ھشام بھی ہے، اور اس کنیت سے قاسم بن الولید ان سے روایت کرتے ہیں۔
تقریب التھذیب میں ان حضرت کے بارہ میں یوں لکھا ہے،
محمد بن سائب بن بشیر الکلبی ابو نضرالکوفی النسابه المفسر متھم باالکذب ورمی باالرفض من السادسه مات سنة ماة وست اربعین۔
ترجمہ؛ محمد بن سائب بن بشیر الکلبی ابوالنضر الکوفی نسبت جاننے والے اور تفسیر لکھنے والے جھوٹ اور رفض سے متھم ہیں ، اس کی وفات سن 146 ھجری میں ہوئی۔
میزان الاعتدال میں ان صاحب کے متعلق یوں لکھاہے، ( عربی کی لمبی عبارت ہے اس لئے صرف ترجمہ پیش کرتا ہوں )
محمد بن سائب کلبی جن کی کنیت ابو النضر ہے ، وہ کوفی ہیں ، اور مفسر اور نسب جاننے والے اخباری ہیں ، امام ثوری ان کی نسبت کہتے ہیں ، کہ کلبی سے بچنا چاہئے ، اس پر کسی نے ان کو کہا ، کہ آپ تو خود ان سے روایت کرتے ہیں ، تو انہوں نے جواب دیا ، میں اس کے جھوٹ کو اس کے سچ سے جدا کرنا جانتا ہوں ، اور امام بخاری نے کہاہے ، کہ یحی اور ابن مھدی نے اس کی روایت قابل ترک بتلائی ہے، اور امام بخاری نے یہ بھی کہا ہے، کہ علی نے یحی سے اور انہوں نے سفیان سے بیان کیا ہے، کہ ابو صالح سے جو میں تم سے بیان کروں ، وہ جھوٹی ہے، اور یزید بن زریع نے کلبی سے روایت کی ہے، کہ وہ عبداللہ بن سبا کے فرقہ کا تھا ، اور ابو معاویہ کہتے ہیں ، کہ اعمش نے کہا ہے، کہ اس سبائیہ فرقہ سے بچنا چاہئے ، کیونکہ وہ کذاب ہوتے ہیں ، اور ابن حبان نے کہا ، کہ کلبی سبائی تھا، یعنی ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں ، کہ علی رضی اللہ عنہ مرے نہیں ، اور پھر وہ دنیا کی طرف رجعت کریں گے، اور اسے انصاف سے اس طرح بھر دیں گے ، جیسے کہ وہ ظلم سے بھری ہوئی تھی ، اور جب بھی وہ بادل کو دیکھتے ، تو کہتے ، کہ امیرالمؤمنین ( علی رضی اللہ عنہ ) اسی میں ہیں ، اور ابو عوانہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں ، کہ میں نے خود کلبی کو یہ کہتے ہوئے سنا ، کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ پر وحی بیان کرتے ، اور ایسا اتفاق ہوتا ، کہ آپ رفع حاجت کے لئے بیت الخلاء تشریف لے جاتے ، تو جبرائیل علیہ السلام ، علی رضی اللہ عنہ پہ اس وحی کو املا کرواتے ( یعنی وحی حضرت علی پہ نازل کی جاتی ) احمد بن زہیر کہتے ہیں ، میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا ، کہ کلبی کی تفسیر دیکھنا درست ہے؟ انہوں نے کہا نہیں ، اور جوزجانی وغیرہ نے کہا ، کہ کلبی بڑا جھوٹا ہے، اور دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا، کہ وہ متروک ہے ، یعنی اس کی روایت لینے کے لائق نہیں ہے، اور ابن حبان کہتے ہیں ، اس کا جھوٹ ایسا ظاھر ہے، کہ بیان کرنے کی حاجت نہیں ، اور ان حضرت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے، کئ وہ تفسیر کو ابو صالح سے اور ابو صالح کی روایت ابن عباس سے بیان کرتےہیں ، حالانکہ نہ ابو صالح نے ابن عباس کو دیکھا ، اور نہ ہی کلبی نے ایک حرف بھی ابو صالح سے سنا ہے، مگر جب بھی ان کو تفسیر میں کچھ بیان کرنے کی حاجت ہوتی ، تو اپنے دل سے نکال لیتے ، ایسے کا ذکر کرنا بھی کتاب میں جائز نہیں ، کجا یہ کہ اس کی سند ( کوئی روایت ) لینا۔
تذکرة الحفاظ ( حفاظ الحدیث کا تذکرہ ) میں امام ذہبی نے ان کے فرزند ارجمند ھشام بن کلبی کا جہاں تذکرہ کیا ہے، وہاں ان کے پدر بزرگوار " محمد بن سائب کلبی " کو رافضی لکھا ہے، اور ان کے فرزند ارجمند کو حفاظ الحدیث میں داخل بھی نہیں کیا ،
معجم الادبا میں یاقوت حموی نے جہاں محمد بن جریر طبری کے کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، وہاں لکھا ہے، کہ طبری نے غیر معتبر تفسیر اپنی تفسیر کی کتاب میں بیان نہیں کی ، اسی لئے کتاب میں کچھ بھی " محمد بن سائب کلبی ، مقاتل بن سلیمان ، اور محمد بن عمر واقدی کی کتابوں نہیں لیا، کیونکہ یہ لوگ ان کے نزدیک مشکوکین میں سے ہیں ،
امام محمد طاھر نے " تذکرة الموضوعات " میں کلبی صاحب کے بارہ میں فرمایا ہے،
قد قال احمد فی تفسیر الکلبی من اوله الی آخره کذب لایجعل النظر فیه
ترجمہ؛ امام احمد نے تفسیر کلبی کے بارہ میں کہا ہے، کہ تفسیر کلبی اول تا آخر جھوٹ ہے، اس کی طرف نظر بھی نہیں کرنی چاہئے۔
یہ حالت ہے جناب " ابو سعید " کی جن کو ابو سعید الخدری ( صحابئی رسول کہ کے پیش کیا جارہا ہے،
عقیدہ کے اعتبار سے پکے سبائی اور رافضی ، اور صداقت ایسی ، کہ جن جن کو زندگی میں کبھی نہ دیکھا ، نہ سنا ، ان سے روایات کرتے ہیں ، اور اپنے آپ کو ان کا شاگرد بنا کے پیش کرتے ہیں ، ان کے اعتبار کی یہ کیفیت ہے، کہ طبری جیسا شخص بھی اپنی تفسیر میں ان سے روایت لینا جائز نہیں سمجھتا ، اور یہی صاحب ہیں " ہبۂ فدک کی حدیث " کے گھڑنے والے ، اور اسے پیش کرنے والے ، جسے ان کے شاگرد رشید " عطیه عوفی الکوفی " صاحب جو خود بھی شیعہ اور مدلس ہیں ، اپنے مذہبی عقائد کی حمایت میں ان سے روایت کرتے ہیں ، اور ان کے دیگر نام اور کنیتیں چھوڑ کے " حدثنا ابو سعید " یا قال ابو سعید " کہہ کے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالتے ہیں ، کہ ابو سعید سے مراد ابو سعید الخدری صحابی ہیں،






مسئلہ باغ فدک اور اہل تشیع کے تضادات

باغِ فَدَک اور شیعیت کی تضاد بیانیاں

بنام حضرت مولانا مفتی شیخ الحدیث والتفسیر عبدالعزیز العزیزی صاحب 

حرفِ آغاز

باغِ فَدَک کے حوالے سے یہ نظریہ عوام میں مشہور ہے کہ یہ حق حضرت فاطمہؓ کا تھا جسے خلفائے راشدین (ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن) رضوان اللہ تعالیٰ عنہم نے غصب کیا۔

اِس باطل عقیدے اور نظریے کی ترویج روافض (اہل تشیع) کی طرف سے ہوئی اور اِس جھوٹ کو اتنا کہا گیا کہ یہ بات اہل سنت کے ایوانوں میں صداقت سمجھی جانے لگی۔ چنانچہ اِس دروغ گوئی، افتراء اور کِذب کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم علم اہل سنت، حضراتِ صحابہؓ سے بدظن ہونے لگے، اور خصوصاً خلفائے راشدین پر عدالتیں قائم کرنے لگے۔

میری اِس تحریر کا مقصد اُس حقیقت کو آشکارا کرنا ہے جو پوشیدہ رکھی گئی اور ایسے زخم کو جسم سے نکال پھینکنا ہے جو ناسور بن کر آہستہ آہستہ جسم کے حِصّے میں پھیلتا جارہا ہے۔

اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں 

مجھے ہے حُکمِ اذاں،

لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

محل وقوع 

فَدَک کے محل وقوع کے حوالے سے اہل تشیع کے نزدیک دو موقف اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ 

فَدَک کا پہلا محل وقوع: 

فَدَک کے پہلے محل وقوع کے حوالہ جات شیعہ کتب سے مندرجہ ذیل ہیں۔ 

1) فَدَک منطقہ حجاز میں مدینہ سے تقریباً 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

(یاقوت حموی 1995)

(معجم البلدان 4/238) 

2) فَدَک کے مقام پر اِس وقت “الحائط” شہر آباد ہے۔

(جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، صفحہ 396) 

3) سنہ 1975عیسوی میں یہ شہر 21 دیہات پر مشتمل تھا جبکہ سنہ 2010عیسوی کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی کل آبادی تقریبا 14000 نفوس ہے۔

فَدَک میں صدر اسلام کے دور میں یہودی آباد تھے

(بلادی جلد 2 صفحہ 206-205)

(معجم معالم الحجاز جلد 8 صفحہ 23) 

4) اِس علاقے کی اسٹرٹیجک محل وقوع کو مد نظر رکھتے ہوئے یہودیوں نے اس علاقے کو فوجی علاقہ قرار دیا ہوا تھا۔

(سبحانی حوادث سال ہفتم ہجرت: سرگزشت فدک 1344 ش، صفحہ 14) 

5) تاریخی منابع کے مطابق اس علاقہ میں عمر ابن خطاب  کے دورِ خلافت تک یہودی آباد تھے لیکن انہوں نے یہودیوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کیا۔

(مرجانی، بہجۃ النفوس و الأسرار فی تاریخ‌، 2002م، جلد1، صفحہ 438)

6) ظہورِ اسلام کے وقت فَدَک باغات اور نخلستانوں پر مشتمل تھا۔

(یاقوت حموی جلد 4 صفحہ 238)

(معجم البلدان، جلد 4 صفحہ 238)

(ابن منظور،1410ق لسان العرب جلد 10، صفحہ 436) 

7) شہر کوفہ جو کھجوروں سے منافع لینے کے حوالے سے ایک غنی شہر سمجھا جاتا تھا۔ فَدَک کی آمدنی

یہاں کے نخلستان میں موجود کھجوروں کے درختوں کی آمدنی کے مساوی سمجھی جاتی تھی۔

(ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ق، جلد 16 صفحہ 246) 

8) جس وقت حضرت عمرؓ نے حجاز سے یہودیوں کو نکالنا چاہا تو فَدَک میں موجود نصف درختوں کے مقابلے میں یہودیوں کو 50 ہزار درہم ادا کیا۔

(جوہری بصری، السقیفۃ و فدک،  14ق، صفحہ 98) 

9) پیغمر اکرم(ص) کے زمانے میں فَدَک کی سالانہ آمدنی کا 24 سے 70 ہزار دینار تک کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

(قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ق، جلد 1، صفحہ 113)

(ابن طاووس، کشف المحجۃ الثمرۃ المہجۃ، 1307ق، صفحہ 124) 

10) موجودہ دور میں فَدَک سعودیہ عربیہ کے

"حائل" نامی صوبے میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنہ 1999 عیسوی کو اس علاقے کا نام

وادی فاطمہ” رکھا گیا اسی طرح اس میں موجود باغ کو باغ فاطمہ مسجد کو مسجد فاطمہ اور چشمہ کو عیون فاطمہ کا نام دیا گیا۔

(مجلسی کوپائی، فَدَک از غصب تا تخریب،248۔250) 

11) اِس علاقے  میں موجود عمارتیں اور منارے خراب ہو چکے ہیں اور نخلستان میں موجود اکثر کھجور کے درخت بھی سوکھ چکے ہیں۔

(مجلسی کوپائی، فدک از غصب  تا تخریب،1388ش، صفحه 248 و 287۔284) 

خلاصہ: 

فَدَک کا محل وقوع جغرافیہ دان اور مؤرخین نے مدینہ سے 160 کلومیٹر دور بتایا ہے اور اس میں موجود کجھور کے درختوں کی تعداد بھی بتائی گئی ہے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آدھا مسلمانوں کے پاس تھا آدھا حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ حکومت میں 50 ہزار درہم میں خریدا۔

مدینے سے 160 کلومیٹر کا فاصلہ اور حضرت عمرؓ کے دور تک یہاں یہودی آباد تھے اور آدھا باغ فَدَک حضرت عمرؓ نے اپنے دور حکومت میں حکومتی خزانے سے 50 ہزار درہم میں خریدا تو باغ فدک کی یہ حالت ہمیں اس کے ریاستی معاہدہ ہونےکا خبر دیتی ہے

فَدَک کا دوسرا محل وقوع 

فَدَک کے دوسرے محل وقوع کے حوالہ جات شیعہ کتب سے مندرجہ ذیل ہیں۔ 

1) مہدی عباسی (عہد بنو عباس کا حکمران) نے ابوالحسن (کُنیت امام موسیٰ کاظم) سے کہا: اے ابوالحسن اِس کا حُدودِ اربع بتاؤ، آپ کہنے لگے: اِس کی ایک حَد جبل اُحد ہے، ایک حَد عریش مصر ہے، ایک حَد سیف البحر ہے  اور ایک حَد دومۃ الجندل ہے۔ 

(الاصول من الکافی ، باب الفتی والانفال ،جلد 1 ،صفحہ 543)

(انوار النعمانیہ)

(مناقب مفاخرہ) 

شیعہ کتاب اصولِ کافی کی اِسی روایت کو مکمّل تفصیل سے دوسری جگہ لکھا گیا ہے۔ 

2) علی بن اسباط سے مروی ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم، مہدی عباسی کے پاس آئے تو خلیفہ لوگوں کے غضب شدہ مال واپس کر رہا تھا حضرت نے فرمایا ہماری غضب شدہ کو بھی واپس کر دو اُس نے کہا وہ کیا ہے؟؟ فرمایا جب اللہ نے اپنے نبی کو فَدَک پر فتح دی اور بغیر جنگ حاصل ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اے رسول صلعم ذوالقربی کا حق اُسے دے دو جبرئیل سے حضرت نے پوچھا یہ کون ہے؟ جبرئیل نے خدا سے پوچھا خدا نے وحی کی، فَدَک فاطمہ کو دے دو پس حضرت نے اُن کو بلایا اور فرمایا خدا نے مجھے حکم دیا کہ میں باغِ فَدَک تم کو دے دوں۔

انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلعم جو خدا اور رسول صلعم نے عطا کیا میں نے اُسے قبول کیا پس حضرت فاطمہ کے وکلاء حیاتِ رسول تک اُس کی آمدنی وصول کرتے رہے جب ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے وکلاء فاطمہ کو فَدَک سے باہر نکال دیا

وہ ابوبکر کے پاس آئیں اور واپسی کا سوال کیا تو انہوں نے کہا تم کوئی کالا گورا گواہ لاؤ وہ امیرالمومنین اور اُمِ ایمن کو لے کر گئیں اُنہوں نے گواہی دی ابوبکر نے واگزاشت کے لیے ایک تحریر لکھ دی وہ اِس تحریر کو لے کر نکلیں تو راہ میں عمر ملے انہوں نے کہا یہ کیا ہے ؟؟

سیدہ نے فرمایا ابوبکر نے یہ تحریر مجھ کو لکھ کر دی ہے اُنہوں نے کہا مجھے دکھاؤ اُنہوں نے انکار کیا عمر نے سیدہ کے ہاتھ سے تحریر چھین لی اور اُس کو پڑھ کر تھوک سے مٹایا اور پھاڑ ڈالا اور کہا کہ اس علاقے پر تمہارے باپ نے فوج کشی نہیں کی تھی تم ہماری گردن میں رسی ڈال رہی ہو مہدی نے امام موسیٰ کاظم سے پوچھا؟

اِس علاقے کی حدود کیا ہیں؟؟ فرمایا کہ ایک کوہ احد دوسری عریش مصر ہے تیسری سیف البحر ہے اور چوتھی دومۃالجندل ہے اُس نے پوچھا یہ ہے کُل علاقہ؟؟

فرمایا ہاں اِس علاقے پر لڑائی نہیں ہوئی اس نے کہا کہ یہ تو بہت بڑا علاقہ ہے میں غور کروں گا۔

(اصولِ کافی جلد 1 بابِ مال فئے و انفال و تفسیر خمس) 

   من گھڑت اور جھوٹی روایات:  

اہل تشیع مذہب کی کتاب اصولِ کافی کی یہ روایات ، جس میں فَدَک کو سیدہ کا حق قرار دے کر ایک طویل جھوٹ اور افتراء پر مبنی داستان وضع کی گئی۔ یہ داستان لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا کی مِصداق ٹھہری اور یہ دجل اور افتراء کیسے بے حجاب ہوا۔ ملاحظہ فرمائیں۔ 

1) اِس روایت میں امیر المومنین سیدنا علیؓ ہیں۔ جب حضرت علیؓ گواہی کیلئے گئے تو واپس سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ کیوں نہیں آئے۔ اور اگر اُن کے ساتھ تھے تو انہوں نے حضرت عمرؓ کے تحریر پھاڑنے کے عمل پر تنبیہہ کیوں نہیں کی۔ کہ عمرؓ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ 

2) کچھ وقت کیلئے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت علیؓ راہ میں سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ نہیں تھے۔ تو کیا سیدہ فاطمہؓ نے حضرت علیؓ سے اِس کا تذکرہ نہیں کیا کہ وہ تحریر حضرت عمرؓ نے پھاڑ دی جو آپ کی گواہی میں لکھی گئی۔ 

3) دورِ نبوی میں مصر بازنطینی ریاست کا حِصّہ تھا جس کو سیدنا عمرو بن العاصؓ نے 20 ہجری میں سیدنا عمرؓ کے دور میں فتح کیا۔ تو فَدَک کا رقبہ وہاں تک کیسے پہنچا۔ 

4) دومتہ الجندل شام کے شہر دمشق کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ مقام دورِ نبوی میں بازنطینی ریاست کا حِصّہ تھا۔ یہاں عرب مسیحی رہائش پذیر تھے۔ جب کہ فَدَک یہودیوں کی رہائشگاہ تھی۔ 

5) دورِ نبوی میں جغرافیائی لحاظ سے مصر، جبل احد، سیف البحر اور دومتہ الجندل کو نقشے میں دیکھا جائے تو اِس کا کُل رقبہ 10,000,000 مربع کلومیٹر (3,861,022 مربع میل) بنتا ہے۔ اِس کی کُل آبادی تقریباً 50,000,000 کے قریب بنتی ہے اور اِس کی کثافت 5/مربع کلومیٹر  (12.9 /مربع میل) کے قریب ہے۔ 

6) امام موسیٰ کاظم کی کوئی ملاقات بنو عباس کے خلیفہ محمد بن منصور (المعروف مہدی عباسی) سے ثابت نہیں۔ جب کہ تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ایک ہی بار مہدی عباسی نے مدینے سے بغداد بُلا کر امام موسیٰ کاظم کو قید سلاسِل کیا تھا۔ اور خلیفہ اُن سے شدید نفرت کرتا تھا۔

 محل وقوع میں تضاد:

اہل تشیع جغرافیہ دان و تاریخ دان نے باغِ فَدَک کی جو کیفیت اور محل وقوع بیان کیا ہے وہ مختلف ہے جبکہ محدثین کا بیان مختلف ہے ۔ جب باغِ فَدَک کے محل وقوع، اُس کی کیفیت، اُس کا ریاستی معاہدہ، آدھا باغ حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں ریاست کے خزانے سے خریدنا ہی اِس کو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ابتداء ہی سے ریاستی تحویل میں تھا اور جس طرح رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے باغِ فَدَک میں تصرف کیا اسی پر خلفائے راشدین نے عمل کیا۔

جب تک اِن روایات کو ردّ کرکے متفق علیہ اور واضح محل وقوع سامنے نہیں آتا اُس وقت تک کوئی بھی دعوی قابلِ قبول نہیں ہے۔ عزیزِ مکرم محل وقوع کے بیان میں کتنا دجل وفریب اور تضاد ہے خود فیصلہ کریں۔

محل وقوع کے بیان سے ہی دعوی فَدَک جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ 

*اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی* 

    *ہم نے تو  دل جلا کے،  سرِ عام  رکھ دیا*   

فَدَک ہِبہ یا میراث 

ہِبہ زندگی چاہتا ہے جبکہ میراث موت۔

فَدَک کو ہِبہ ثابت کرنے میں اہل تشیع قرانی آیات کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں اُن کے نزدیک جب سورہ اسراء کی اِن آیات کا نزول ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغِ فدک ہِبہ کیا۔ 

وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا رَّبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِىْ نُفُوْسِكُمْ ۚ اِنْ تَكُـوْنُـوْا صَالِحِيْنَ فَاِنَّهٝ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًا وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٝ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْـرًا

(سورہ الاسراء آیت 26-24) 

ترجمہ: اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔ جو تمہارے دلوں میں ہے تمہارا رب خوب جانتا ہے، اگر تم نیک ہو گے تو وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔

سورہ اسراء کا تاریخِ نزول: 

اہل تشیع اور اہل سُنت مُفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورت اور اِس کی تمام آیات مکی ہیں جیسے کہ سورہ کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ سورہ واقعہ معراج کو بیان کرتی ہے اور واقعہ معراج نبوت کے دسویں سال پیش آیا جو کہ ہجرت سے تین سال پہلے کا عرصہ ہے۔ جب کہ باغِ فَدَک اور خیبر کا واقعہ محرم 7 ہجری مئی 628 عیسوی کو پیش آیا۔ 

(مغازی جلد 2 صفحہ 637)

(المغازی واقدی جلد 2 صفحہ 700)

(تاریخ ابنِ کثیر جلد 3) 

سوالات: 

ایک سوال تو یہ پیدا ہوا کہ جب ایک چیز کا نام و نشان نہیں تو ہِبہ کیسے ؟؟ 

دوسرا سوال یہ کہ فقہ جعفریہ میں کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں لینے سے پہلے ہِبہ کیا جا سکتا ہے۔؟ 

کیوں نہ انہی کی تلوار سے انہیں قتل کریں۔

روایت:

محمد بن احمد بن یحیی نے موسی بن عمر سے روایت کیا انہوں نے عباس بن عامر سے روایت کیا انہوں نے ابان سے روایت کیا انہوں نے ابو بصیر سے روایت کیا انہوں نے ابو عبداللہ (امام جعفر صادق) سے روایت کیا

ایک تحفہ کبھی بھی تحفہ نہیں ہوتا جب تک کہ اُسے نہ ملے۔

صدقہ اس کے لئے جائز ہے۔

(الاستبصار جلد 4 صفحہ 107) 

اعتراض:

اہل تشیع یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگرچہ سورہ اسراء مکی ہے لیکن یہ آیات مدنی ہیں۔

جواب:

اس آیات اور سورت کے مکی ہونے کی روایات خود شیعہ کتب میں موجود ہے۔

(الکافی کتاب الکفر والایمان طبع 4 جلد 3 صفحہ 52) 

ترکیبِ صرف و نحو: 

سورہ اسراء کی اِس آیت سے اہل تشیع باغِ فَدَک کو ہِبہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، پر افسوس ہمیشہ اُن کے ہاتھ میں خاک ہی آئی ہے۔

اِس آیت کی صرف و نحو کی ترکیب کرتے ہیں تاکہ اس ہِبہ کے دعوے کی ساری ہوا نکل جائے۔ 

اِس آیت کا قواعد نحو کے ذریعے جملہ بناتے ہیں۔ 

الواو استئنافيّة (آت) فعل أمر مبنيّ على حذف حرف العلّة، والفاعل أنت (ذا) مفعول به أوّل منصوب وعلامة النصب الألف (القربى) مضاف إليه مجرور وعلامة الجرّ الكسرة المقدّرة على الألف (حقّه) مفعول به ثان منصوب.. والهاء مضاف إليه الواو عاطفة في المواضع الثلاثة (المسكين، ابن) اسمان معطوفان على (ذا) منصوبان، (السبيل) مضاف إليه مجرور (لا) ناهية جازمة (تبذّر) مضارع مجزوم، والفاعل أنت (تبذيرا) مفعول مطلق منصوب.

جملة: (آت) لا محلّ لها استئنافيّة.

وجملة: (لا تبذّر) لا محلّ لها. معطوفة على الاستئنافيّة. 

سورہ اسراء کی آیت کی یہ ترکیب ہے۔ اب کوئی بڑے سے بڑا ماہر عربی دان، علمِ صرفِ نحو پر مہارت رکھنے والا ہماری اِس ترکیب کو غلط ثابت کرکے دِکھائے۔

سیدھے الفاظ میں اِس آیت میں جو حکم ذوالقربی حقہ پر ہے وہی مساکین اور ابنِ السبیل کیلئے ہے۔

آیت کا سیاقِ کلام: 

سورہ اسراء کی آیت کو ہِبہ باغ فَدَک مُراد لینے سے چند ایسے ابہام اور پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں جن کو اہل تشیع مذہب نہ سُلجھانے میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی اِس کا کوئی مُدلّل جواب دیا۔ 

مساکین کا کیا حکم ہے۔ ؟؟ 

ابن السبیل کا کیا حکم ہے۔ ؟؟ 

کیا حضور نبی کریم ﷺ پر (نعوذباللہ) ہبہِ فَدَک سے ناانصافی ثابت نہیں آتی۔ ؟؟ 

کیا یہ اللہ کے حکم کے خلاف فیصلہ نہیں ہے کہ یہ مساکین اور ابن السبیل کا بھی حق تھا۔ ؟؟ 

کیا اِس آیت کی تخصیص سے  حضور نبی کریم ﷺ کے معصوم ہونے پر سوال نہیں اُٹھتا کہ اس میں تبذیر سے منع کیا گیا۔ ؟؟ 

کیا یہ نبی کریم ﷺ  کی شان ہے کہ اُن سے فضول خرچی کا گمان کیا جائے۔ ؟؟ 

سیاق کلام کو دیکھیں  تو پہلی آیت میں والدین کا ذکر ہے تو حضور ﷺ کے والدین اُس وقت تک وفات پا چکے تھے تو نبی ﷺ خطاب میں شامل نہیں اب آپ کا دعوی کیسے ثابت ہو سکتا۔ ؟؟ 

جب نبی ﷺ خطاب میں شامل نہیں تو فَدَک وقف کے حکم میں ہے اور یہی اہلسنت کا موقف بھی ہے اور ثابت بھی ہے۔ 

من گھڑت روایت:  

ابو سعید سے منسوب روایت ہے کہ:

(( لَمَّا نَزَلَت ھٰذِہِ الآیَةُ :" وَآتِ ذَا القُربٰی حَقَّہُ "

(بنی إسرائیل17: 26) دَعَا رَسُولُ ﷺ فَاطِمَةَ فَأَ عطَاھَا فَدَکَ )

” جب یہ فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ "اپنے عزیز و اقارب کو ان کا حق دیجئے"، تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو بلا کر باغِ فدک دے دیا۔“ 

(مسند البزّار کشف الأستار 2223) 

روایات کی تدوین: 

اہل تشیع حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں کثرت سے ہبہِ باغِ فدک میں روایات موجود ہیں۔

ہم سنی اور شیعہ روایات کو دھاگہ ڈالتے ہیں اور ان روایات کی اسانید کو یکجا کرتے ہیں۔ 

شافی میں کوئی روایت سُنیوں کی طرف سے نقل نہیں کی گئی ۔

تلخیص شافی میں بھی کوئی روایت سُنیوں کی طرف سے پیش نہیں کی گئی۔ 

کشف الحق ونہج الصدق

میں بھی کوی روایت ذکر نہیں کی گئی۔ 

طرائف میں ایک روایت مقطوع سند ۔واقدی بشر ابن غیاص اور بشر ابن الولید سے ذکر کی ہے 

طرائف میں ابن مردویہ ابوسعید سے منقول کرتے ہیں۔ 

بحار الانوار میں بابِ نزول الآیات فی امر فَدَک

کہتے ہیں کہ اِس آیت کے نزول بہت زیادہ شیعہ اور سنی روایات منقول ہیں لیکن خود صرف ابو سعید کی روایت نقل کرتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ 

علامہ طبرسی نے بھی جہاں ذکر کیا ہے ابو سعید سے ذکر کیا ہے۔ 

منہج الصادقین نے دو روایوں کے اضافے سے ابو سعید کی روایت نقل کی ہے۔ 

سعدالسعود میں بھی ابو سعید سے نقل کی گئی ہے۔ 

سعدالسعود میں بیس اسناد ذکر ہیں لیکن تمام ابو سعید کی ہیں ۔ 

احقاق الحق میں بھی واقدی  کی مقطوع سند روایت نقل ہے۔ 

عماد الاسلام میں ایک ابن مردویہ والی روایت ابو سعید سے طرائف کے حوالے کی نقل ہے۔ 

عماد الاسلام میں مقطوع سند کنزالعمال کے حوالے سے روایت مذکور ہے۔ 

عماد الاسلام میں در منثور سے مقطوع سند روایت نقل ہے۔ 

عمادالاسلام میں معارج النبوت کے حوالے سے ابو سعید کی روایت نقل ہے 

شافی اور عماد الاسلام دونوں نے کئی کئی روایات پیش کی اور دعوی کیا کہ یہ روایت کئی طریق سے منقول ہیں لیکن کوئی ایک بھی سند ابو سعید سے ہٹ کر پیش نا کرسکے۔ 

روضةالصفاد معارج نے بھی یہی ابو سعید والی سند ذکر کی ہے۔ 

تشئید المطاعن نے بھی وہی ابو سعید والی روایت نقل کی ہے۔ 

کفایة الموسوم الولایہ میں بھی فَدَک پرتفصیلی بحث کی گئی لیکن روایت وہی ابو سعید والی پیش کی گئی ہیں۔ 

کفایة الموسوم الولایہ میں ثعلنی کی روایت جو سدی ودیلمی سے نقل کی ہے لیکن اس صاحب نے ہبہ ِ فدک اور دعوے فَدَک کو خلط ملط کیا ہے اور کوی نئی سند ذکر نہیں کی۔ 

غایت المرام میں بھی بڑے زور شور سے روایت نقل کی لیکن صرف ثعلبی کی ہی ایک روایت کو نقل کیا ہے باقی گیارہ روایات شیعہ کی نقل کی ہیں۔ 

یہ تمام وہ کتابیں ہیں جو ہبہ ِ فدک میں سنہ 400 ہجری سے اب تک شیعہ کی طرف سے لکھی گئی اور بھی کتابیں ہیں اب جن روایات کو وہ سنیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کی اسنانید کو ملایا جائے تو کل

نو (9) روایات بنتی ہیں ان میں چار کی سند مکمل ذکر کی گئی ہیں جبکہ پانچ کی سندیں مکمل نہیں ہیں. چار کی سندیں مکمل ہیں۔

بعض ابو سعید خدری ؓ کی طرف منسوب کی ہیں۔ 

*پانچ محذوف السندیں*  

شیعہ اِن کی نسبت سنیوں کی طرف کرتے ہیں

پہلی: پہلی سند جو کنزل الاعمال عماد الاسلام الحاکم وغیرہ میں ذکر ہے۔

ابراہیم ابن محمد ابن میمون۔علی ابن عابس ابن النجار۔

دوسری: دوسری سند جو عمادالاسلام، درمنثور اور طعن الرماح وغیرہ میں محذوف السند ذکر ہے۔

ابو یعلی ابن حاتم ابن مردوی ابو سعید۔ 

تیسری: تیسری سند جو روایت بحار الانوار میں سنی کتب کی نسبت ذکر ہے۔ 

مامون نے عبیداللہ ابن موسی سے فَدَک کا حال تحریراً دریافت کیا تو اُس نے اُس محذوف سند کو ذکر کیا۔

فضل ابن مرزوق عطیہ عوفی اور ابوسعید 

چوتھی: چوتھی سند وہ جس کی نسبت سنیوں کی طرف ہے محذوف السند۔

واقدی بشر ابن ولید بشرابن غیاث

اس کو شوستری نے احقاق الحق میں ذکر کیا ہے۔

پانچویں: پانچویں سند وہ جو معارج النبوت اور مقصد اقصی میں عماد الاسلام کی محزوف السند ذکر ہے 

یہ وہ کُل سرمایہ ہے شیعہ کا جس کی نسبت وہ سنیوں کی طرف کرتے ہیں

اور اس کا اصل پودہ ابو سعید اور عطیہ عوفی ہے جس کے یہ پھل پھول ہیں

 ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ یہ خبر واحد ہے جس کو نقل در نقل کی صورت میں لوگ متواتر سمجھتے ہیں۔۔

اب ہم بحث کریں گے ابو سعید اور عطیہ عوفی کے بارے میں۔ یہ کون ہیں تاکہ پتہ چلے یہ جھوٹ کا ٹوکرا کس کا ہے۔ 

جرح و تعدیل راوی سعید محمد ابن سائب الکلبی: 

سعید محمد بن اول درجے کی جھوٹے، حدیثیں گھڑنے والا شیعہ تھا۔

علامہ سخاوی نے رسالہ منظومہ جزری میں لکھا ہے،

ان من امثلة ( ای من له اسماء مختلفة ونعوت متعددة ) محمد بن سائب کلبی المفسر ھو ابو النضر الذی روی عنه ابن اسحاق وھو حماد بن سائب روی عنه ابو اسامه وھو ابو سعید الذی روی عنه عطیة الکوفی موھما انه الخدری وھو ابو ھشام روی عنه القاسم بن الولید۔

*ترجمہ: کہ ان لوگوں میں سے جن کے مختلف نام، اور متعدد کنیتیں اور لقب ہیں، ایک محمد بن سائب کلبی مفسر ہیں، اِس کی کنیت ابو نضر ہے، اور اِس کنیت سے ابن اسحاق اِن سے روایت کرتے ہیں، اور اسی کا نام حماد بن سائب بھی ہے، اور ابواسامہ اسی نام سے اِن سے روایت کرتے ہیں، اور اسی کی کنیت ابو سعید ہے، اور اسی کنیت سے عطیه عوفی اِس سے روایت کرتا ہے، تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈالیں، کہ یہ ابوسعید الخدریؓ ہیں، اور انہی کی کُنیت ابو ہشام بھی ہے، اور اِس کنیت سے قاسم بن الولید ان سے روایت کرتے ہیں۔

تقریب التہذیب میں اِن حضرت کے بارے میں یوں لکھا ہے،

محمد بن سائب بن بشیر الکلبی ابو نضرالکوفی النسابه المفسر متھم باالکذب ورمی باالرفض من السادسه مات سنة ماة وست اربعین۔

ترجمہ: محمد بن سائب بن بشیر الکلبی ابوالنضر الکوفی نسبت جاننے والے اور تفسیر لکھنے والے جھوٹ اور رِفض سے متہم ہیں، اِس کی وفات سن 146 ہجری میں ہوئی۔ 

میزان الاعتدال میں ان صاحب کے متعلق عربی کی طویل عبارت لکھی ہوئی ہے اِس لئے صرف ترجمہ پیش کرتا ہوں۔

محمد بن سائب کلبی جن کی کنیت ابو النضر ہے، وہ کوفی ہیں، اور مفسر اور نسب جاننے والے اخباری ہیں۔ 

امام ثوری اِس کی نسبت کہتے ہیں، کہ کلبی سے بچنا چاہئے، اس پر کسی نے اِن کو کہا، کہ آپ تو خود اِس سے روایت کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا، میں اُس کے جھوٹ کو اُس کے سچ سے جدا کرنا جانتا ہوں۔ 

امام بخاری نے کہا ہے، کہ یحیٰی اور ابنِ مہدی نے اس کی روایت قابل ترک بتلائی ہے، اور امام بخاری نے یہ بھی کہا ہے، کہ علی نے یحیٰی سے اور انہوں نے سفیان سے بیان کیا ہے، کہ ابو صالح سے جو میں تم سے بیان کروں، وہ جھوٹی ہے، اور یزید بن زریع نے کلبی سے روایت کیا ہے، کہ وہ عبداللہ بن سبا کے فرقے کا تھا۔ 

ابو معاویہ کہتے ہیں، کہ اعمش نے کہا ہے، کہ اِس سبائیہ فرقہ سے بچنا چاہئے، کیونکہ وہ کذاب ہوتے ہیں۔ 

ابنِ حبان نے کہا، کہ کلبی سبائی تھا، یعنی ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں، کہ علی رضی اللہ عنه فوت نہیں ہوئے، اور پھر وہ دنیا کی طرف رجعت کریں گے، اور اسے انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جیسے کہ وہ ظلم سے بھری ہوئی تھی، اور جب بھی وہ بادل کو دیکھتے، تو کہتے کہ امیرالمؤمنین (علی رضی الله عنہ) اِسی میں ہیں۔   

ابو عوانہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، کہ میں نے خود کلبی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلٰی اللہ علیه وسلم پر وحی بیان کرتے، اور ایسا اتفاق ہوتا، کہ آپ رفع حاجت کے لئے بیت الخلاء تشریف لے جاتے، تو جبرائیل علیہ السلام، علی رضی الله عنہ پہ اس وحی کو املا کرواتے۔ (یعنی وحی حضرت علی پہ نازل کی جاتی)۔ 

احمد بن زہیر کہتے ہیں، میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا، کہ کلبی کی تفسیر دیکھنا درست ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ 

جوزجانی وغیرہ نے کہا، کہ کلبی بڑا جھوٹا ہے، اور دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا، کہ وہ متروک ہے، یعنی اِس کی روایت لینے کے لائق نہیں ہے، 

ابنِ حبان کہتے ہیں، اِس کا جھوٹ ایسا ظاہر ہے، کہ بیان کرنے کی حاجت نہیں، اور اِن حضرت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے، کہ وہ تفسیر کو ابو صالح سے اور ابو صالح کی روایت ابن عباس سے بیان کرتےہیں، حالانکہ نہ ابو صالح نے ابنِ عباس کو دیکھا، اور نہ ہی کلبی نے ایک حرف بھی ابو صالح سے سنا ہے، مگر جب بھی ان کو تفسیر میں کچھ بیان کرنے کی حاجت ہوتی، تو اپنے دل سے نکال لیتے، ایسے کا ذکر کرنا بھی کتاب میں جائز نہیں، کجا یہ کہ اس کی سند (کوئی روایت) لینا۔ 

تذکرة الحفاظ (حفاظ الحدیث کا تذکرہ) میں امام ذہبی نے اِن کے فرزند ارجمند ہشام بن کلبی کا جہاں تذکرہ کیا ہے، وہاں ان کے پدر بزرگوار "محمد بن سائب کلبی" کو رافضی لکھا ہے، اور اِن کے فرزند ارجمند کو حفاظ الحدیث میں داخل بھی نہیں کیا۔ 

معجم الادبا میں یاقوت حموی نے جہاں محمد بن جریر طبری کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، وہاں لکھا ہے، کہ طبری نے غیر معتبر تفسیر اپنی تفسیر کی کتاب میں بیان نہیں کی، اسی لئے کتاب میں کچھ بھی محمد بن سائب کلبی، مقاتل بن سلیمان، اور محمد بن عمر واقدی کی کتابوں میں سے نہیں لیا، کیونکہ یہ لوگ اس کے نزدیک مشکوک میں سے ہیں۔ 

امام محمد طاہر نے "تذکرة الموضوعات" میں کلبی صاحب کے بارے میں فرمایا ہے،

قد قال احمد فی تفسیر الکلبی من اوله الی آخره کذب لایجعل النظر فیه

*ترجمہ:امام احمد نے تفسیر کلبی کے بارے میں کہا ہے، کہ تفسیر کلبی اول تا آخر جھوٹ ہے، اس کی طرف نظر بھی نہیں کرنی چاہئے۔ 

فریب عیاں ہوا:

یہ حالت ہے جناب "ابو سعید" کی جن کو ابو سعید الخدری (صحابی رسولؐ) کہہ کے پیش کیا جارہا ہے،

عقیدہ کے اعتبار سے پکے سبائی اور رافضی، اور صداقت ایسی، کہ جن کو زندگی میں کبھی نہ دیکھا، نہ سنا، ان سے روایات کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو ان کا شاگرد بنا کے پیش کرتے ہیں، ان کے اعتبار کی یہ کیفیت ہے، کہ طبری جیسا شخص بھی اپنی تفسیر میں اِن سے روایت لینا جائز نہیں سمجھتا، اور یہی صاحب ہیں "ہبہ فَدَک کی حدیث" کے گھڑنے والے، اور اسے پیش کرنے والے، جسے ان کے شاگرد رشید "عطیه عوفی الکوفی"صاحب جو خود بھی شیعہ اور مدلس ہیں، اپنے مذہبی عقائد کی حمایت میں ان سے روایت کرتے ہیں، اور اِن کے دیگر نام اور کنیتیں چھوڑ کے "حدثنا ابو سعید" یا قال ابو سعید کہ کے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالتے ہیں، کہ ابو سعید سے مراد ابو سعید الخدری ہیں۔ 

چار متصل سندیں: 

اہل سنت کتابوں میں ہِبہ باغِ فدک کی جتنی بھی روایات موجود ہیں اُن سب کی سند اِن چار (4) متصل میں سے کوئی ایک ہوگی۔ اور اِن تمام کی سند میں راوی ابو سعید (محمد بن سائب کلبی) ہے لہذا یہ تمام روایات خبرِ واحد ہوئیں جبکہ راوی ابو سعید کلبی کی دروغ گوئیاں ہم جرح و تعدیل میں پہلے ہی بیان کرچکے ہیں۔ 

پہلی سند:

عبدوس ابن عبداللہ ہمدانی۔قاضی ابو نصر شعیب ابن علی۔موسی ابن سعید۔ ولید ابن علی۔عباد ابن یعقوب۔ علی ابن عباس۔فضل۔ عطیہ۔ ابو سعید 

دوسری سند:

ابوحمید مہدی ابن نزار۔ حاکم ابن ابو قاسم ابن ابو الحسکانی۔ حاکم الوالد ابومحمد۔ عمر ابن احمد ابن عثمان۔ عمر ابن حسین ابن علی ابن مالک۔ جعفر ابن محمد احمصی۔ حسن ابن حسین۔ ابو معمرابن سعید۔ ابو علی ابن قاسم کندی۔ یحی ابن یعلی۔ علی ابن مسہر۔ فضل ابن مرزوق۔  عطیہ عوفی۔ ابو سعید 

تیسری سند:

محمد ابن سلیمان اعبدی۔ ہیثم ابن خلف دوری۔ عبداللہ ابن سلیمان ابن اشعث۔ محمد ابن قاسم زکریا۔ عباد ابن یعقوب۔ علی ابن عابس(علی ابن عباس)۔ جعفر ابن محمد حسینی۔ علی ابن منظر طریفی۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابو سعید 

چوتھی سند:

محمد ابن عباس۔ علی ابن عباس مقالعی۔ ابو کریب۔ معاویہ۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابوسعید

اب ہمارا تذکرہ اُن اسناد پر ہے جن کواہل تشیع، سنیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن وہ سب نامکمل اسناد ہیں جبکہ اِن میں راوی عطیہ عوفی اور ابو سعید کلبی ہیں۔ اب زرا عطیہ عوفی کی علمی حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں۔ 

جرح و تعدیل راوی عطیہ عوفی:

اس جھوٹے مدلس مکار کا حال یہ ہے کہ جمہور محدثین نے اِس کو مضعف، کذاب اور روایت گھڑنے والا کہا ہے۔ چند حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں۔ 

عطیہ عوفی کو جمہور محدثینِ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔ 

(تھذیب الأسماء واللغات للنوي:48/1)

(طرح التثریب لابن العراقي: 42/3)

(مجمع الزوائد للھیثمي: 412/1)

(البدرالمنیر لابن الملقن: 463/7)

(عمدۃ القاري للعیني: 250/6) 

اِس کو امام یحییٰ بن سعید قطان، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہ نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔

اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہوگیا تھا، جیساکہ:

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عطیہ عوفی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام نے اتفاق کرلیا ہے۔" 

(الموضوعات: 386/1) 

نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے." 

(المغنی في الضعفاء: 62/2) 

حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔" 

(البدر المنیر: 313/5) 

عطیہ عوفی تدلیس کی بُری قِسم میں بُری طرح ملوث تھا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"یہ کمزور حافظے والا تھا اور بُری تدلیس کے ساتھ مشہور تھا۔" 

(طبقات المدلّسین، ص: 50) 

حافظ ذہبی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہ روایت باطل ہے، اگر واقعی ایسا ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس چیز کا مطالبہ کرنے نہ آتیں جو پہلے سے ان کے پاس موجود اور ان کی ملکیت میں تھی۔" 

(میزان الاعتدال: 135/3) 

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر اس روایت کی سند صحیح بھی ہو تو اس میں اشکال ہے، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور فَدَک تو سات ہجری میں خیبر کے ساتھ فتح ہوا۔ کیسے اس آیت کو اس واقعہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔"

(تفسیر ابن کثیر:69/5) 

اہل سنت کی کتب میں جو روایات ذکر ہیں علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 299 میں اِن روایات کے موضوع، افتراء اور بے اصل ہونے کا اقرار کیا ہے۔ 

عطیہ عوفی اپنے استاذ ابو سعید محمد بن السائب الکلبی (کذاب) سے روایت کرتے ہوئے "عن  أبي سعید" یا "حدثني أبو سعید" کہہ کر روایت کرتے ہوئے یہ دھوکا دیتا تھا کہ وہ سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے  یہ روایت بیان کررہا ہے۔ یہ(والی) تدلیس حرام اور بہت بڑا فراڈ ہے۔ یاد رہے کہ عطیہ عوفی اگر عن ابی سعید کے ساتھ الخدری کی صراحت بھی کردے تو اس سے الکلبی ہی مراد ہے، سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں۔

اِس دھوکے اور مکاری کی تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (176/2) 

جھوٹ، سچ نہ بن جائے: 

جناب یہ اِن دو جھوٹے، مضعف اور روایت گھڑنے والے راویوں کا حال ہے جو اِن روایات کو وضع اور ترتیب دینے والے ہیں اور جب یہ انبیاء کی وراثت مال ثابت کرنے میں ناکام و نامراد ہوئے تو یہ جھوٹی روایات وضع کی۔

اِن روایات اور راویوں کا تذکرہ کرنا ضروری تھا کیونکہ ایسا نہ ہو کہ اہل سنت عوام اِن روایات کو حقیقت کے پیمانے میں تول کر روافض کے فریب میں آجائیں۔ 

بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے

جھوٹ آجائے تو سچائی چلی جاتی ہے

درجات مُحدثین: 

محققین اہل سنت نے مُحدثین کے چار درجے ذکر کیے ہیں۔

۔اولی

۔ثانیہ

۔ثالثہ

۔رابع

یہ روایات اولی اور ثانیہ طبقے کی روایات نہیں ہیں بلکہ طبقہ ثالث ورابع کی ہیں تو اِن کو اولی اور ثانیہ کے مقابل حجت نہیں مانا جاسکتا۔

درجِ ذیل حوالات۔

(حجةاللہ بالغہ)

(عجالة النافعہ)

(تحفة الاحوزی)

  ہِبہ فَدَک میں اہل تشیع روایات میں تضاد : 

اب ہم اُن روایات کا تذکرہ کرتے ہیں جو اہل تشیع مُحققین نے صراحت کے ساتھ ہِبہ فَدَک میں نقل کی ہیں اور اِن تمام روایات میں واضح طور پر تضاد اور تصادم نمایاں ہے۔ 

   روایت نمبر 1:

عيون أخبار الرضا  فيما احتج الرضا عليه السلام في فضل العترة الطاهرة. قال: والآية الخامسة: قال الله عز وجل: [وآت ذا القربى حقه] خصوصية خصهم العزيز  الجبار بها، واصطفاهم على الأمة. فلما نزلت هذه الآية على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ادعوا إلي فاطمة. فدعيت له، فقال: يا فاطمة!. قالت: لبيك يا رسول الله. فقال صلى الله عليه وآله: فدك هي مما لم يوجف عليه بخيل  ولا ركاب، وهي لي خاصة دون المسلمين، وقد جعلتها لك، لما أمرني الله  به، فخذيها لك ولولدك. 

 ترجمہ:

امام رضا نے فرمایا: اللہ عزوجل نے جب یہ آیت [وآت ذا القربى حقه] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فَدَک فاطمہؓ کو دے دو پس فَدَک دے دیا گیا۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے عرض کیا اے فاطمہؓ۔۔ فرمایا حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فَدَک اور وہ مال جو بغیر گھوڑے دوڑائے اور بغیر محنت کے حاصل ہو وہ ترے لیے خاص ہے ناکہ اِس میں مسلمانوں کا حصہ ہے۔ پس میں نے تجھے عطاء کر دیا۔ اس لیے کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے پس تو اور ترے بیٹے اِس کو لے لیں۔ 

(بحارالانوار جلد 29 صفحہ 106-107) 

(مجمع البحرين جلد 5 صفحہ 283) 

(معجم البلدان جلد 4 صفحہ 238) 

(ولخّصه في مراصد الاطّلاع جلد 3 صفحہ 1020) 

(عيون أخبار الرّضا عليه السّلام جلد 1 صفحہ 233 ضمن حديث 1) 

(تفسير فرات الكوفيّ صفحہ 118-119) 

(بأربعة طرق جلد 6 صفحہ 467) 

(تفسير التبيان جلد 8 صفحہ 253) 

(شواهد التنزيل جلد 1 صفحہ 338-341 حديث 467-473) 

(تفسير العيّاشي جلد 2 صفحہ 287 حديث 46-50) 

(مجمع الزوائد جلد 7 صفحہ 49)  

(عدّ منها شيخنا الطهرانيّ في الذريعة جلد 16 صفحہ 129)  

(تاريخ الطبری جلد 3 صفحہ 198) 

(العقد الفريد جلد 2 صفحہ 257) 

(شرح ابن أبي الحديد جلد 2 صفحہ 19) 

(أعلام النساء جلد 3 صفحہ 1205) 

(ارشاد الساری جلد 2 صفحہ 390) 

(و جاء في الإمامة و السّياسة  جلد 1 صفحہ 13) 

(و كتاب الإمام عليّ لعبد الفتّاح عبد المقصود جلد 1 صفحہ 225) 

و عدّ العلّامة الأميني عشرات المصادر في موسوعته الغدير جلد 3 صفحہ 104، جلد 5 صفحہ 147 صفحہ 777)  (و انظر إحقاق الحقّ جلد 1 صفحہ 296،

جلد 3 صفحہ 549،

جلد 10 صفحہ 296- 305 433،

جلد 14 صفحہ 575-577 و 618،

جلد 19 صفحہ 119 و 162)

سورہ اسراء آیت 2

وَآتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَ الْمِسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ‏۔

روایت نمبر 2: 

قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ نَزَلَتْ‏  فِي فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ، فَجَعَلَ لَهَا فَدَكَ وَ الْمِسْكِينِ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ، وَ ابْنِ السَّبِيلِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ وَ وُلْدِ فَاطِمَةَ.

ترجمہ: 

سورہ اسراء کی یہ آیت قرابتِ رسول اللہ صلی الله عليہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے اِس کا شانِ نزول فاطمہ سلام اللہ علیہ ہیں پس فَدَک فاطمہ سلام اللہ علیہ کو دے دیا گیا تھا اور مساکین سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہ کی اولاد اور ابن السبیل سے مراد آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آلِ فاطمہ ؑ ہیں۔ 

(بحار الأنوار ج‏لد 29 صفحہ 114) 

(تفسير عليّ بن إبراہيم جلد 2 صفحہ 18) 

(تفسير عليّ بن إبراہيم جلد 2 صفحہ 326) 

روایت نمبر 3: 

قَالَ: وَ مَا هُوَ قَالَ: أَعْطِ فَاطِمَةَ فَدَكاً، وَ هِيَ مِنْ مِيرَاثِهَا مِنْ أُمِّهَا خَدِيجَةَ، وَ مِنْ أُخْتِهَا هِنْدٍ بِنْتِ أَبِي هَالَةَ، فَحَمَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مَا أَخَذَ مِنْهُ، وَ أَخْبَرَهَا بِالْآيَةِ. 

ترجمہ: 

فرمایا آپ فَدَک فاطمہ سلام اللہ علیہ کو دے دو فَدَک میراث ہے اِس کی ماں خدیجہ سلام اللہ علیہ کی طرف سے جو کہ بہن ہے ہند بنت ابی ہالہ کی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ سلام اللہ علیہ کو دیا تھا اور یہی خبر دی ہے اِس آیت میں۔ 

(بحار الأنوار ج‏لد 29 صفحہ 119) 

(كما في الصحاح جلد 1 صفحہ 145) 

(القاموس جلد 1 صفحہ 80) 

(تفسير العيّاشيّ جلد 1 صفحہ 225 حديث 49)

روایت نمبر 4: 

رُوِيَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: أَنَ‏ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ خَرَجَ فِي غَزَاةٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَاجِعاً نَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، فَبَيْنَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَطْعَمُ وَ النَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَتَاهُ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! قُمْ فَارْكَبْ. فَقَامَ النَّبِيُّ فَرَكِبَ وَ جَبْرَئِيلُ مَعَهُ، فَطُوِيَتْ لَهُ الْأَرْضُ كَطَيِّ الثَّوْبِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى فَدَكَ. فَلَمَّا سَمِعَ أَهْلُ فَدَكَ وَقْعَ الْخَيْلِ ظَنُّوا أَنَّ عَدُوَّهُمْ قَدْ جَاءَهُمْ، فَغَلَّقُوا أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ وَ دَفَعُوا الْمَفَاتِيحَ إِلَى عَجُوزٍ لَهُمْ فِي بَيْتٍ لَهُمْ خَارِجٍ مِنَ الْمَدِينَةِ وَ لَحِقُوا بِرُءُوسِ الْجِبَالِ. فَأَتَى جَبْرَئِيلُ الْعَجُوزَ حَتَّى أَخَذَ الْمَفَاتِيحَ، ثُمَّ فَتَحَ أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ، وَ دَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فِي بُيُوتِهَا وَ قُرَاهَا. فَقَالَ جَبْرَئِيلُ: يَا مُحَمَّدُ! هَذَا مَا خَصَّكَ اللَّهُکیا۔ِ وَ أَعْطَاكَهُ‏ دُونَ النَّاسِ، وَ هُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي‏ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَطْعَمُ وَ النَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَتَاهُ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! قُمْ فَارْكَبْ. فَقَامَ النَّبِيُّ فَرَكِبَ وَ جَبْرَئِيلُ مَعَهُ، فَطُوِيَتْ لَهُ الْأَرْضُ كَطَيِّ الثَّوْبِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى فَدَكَ. فَلَمَّا سَمِعَ أَهْلُ فَدَكَ وَقْعَ الْخَيْلِ ظَنُّوا أَنَّ عَدُوَّهُمْ قَدْ جَاءَهُمْ، فَغَلَّقُوا أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ وَ دَفَعُوا الْمَفَاتِيحَ إِلَى عَجُوزٍ لَهُمْ فِي بَيْتٍ لَهُمْ خَارِجٍ مِنَ الْمَدِينَةِ وَ لَحِقُوا بِرُءُوسِ الْجِبَالِ. فَأَتَى جَبْرَئِيلُ الْعَجُوزَ حَتَّى أَخَذَ الْمَفَاتِيحَ، ثُمَّ فَتَحَ أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ، وَ دَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فِي بُيُوتِهَا وَ قُرَاهَا. فَقَالَ جَبْرَئِيلُ: يَا مُحَمَّدُ! هَذَا مَا خَصَّكَ اللَّهُ بِهِ وَ أَعْطَاكَهُ‏ دُونَ النَّاسِ، وَ هُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي‏ الْقُرْبى‏ قَوْلُهُ: فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَ لا رِكابٍ وَ لكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى‏ مَنْ يَشاءُ، وَ لَمْ يَعْرِفِ الْمُسْلِمُونَ وَ لَمْ يَطَئُوهَا، وَ لَكِنَّ اللَّهَ أَفَاءَهَا عَلَى رَسُولِهِ، وَ طَوَّفَ بِهِ جَبْرَئِيلُ فِي دُورِهَا وَ حِيطَانِهَا، وَ غَلَّقَ الْبَابَ وَ دَفَعَ الْمَفَاتِيحَ إِلَيْهِ. فَجَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فِي غِلَافِ سَيْفِهِ- وَ هُوَ مُعَلَّقٌ بِالرَّحْلِ ثُمَّ رَكِبَ، وَ طُوِيَتْ لَهُ الْأَرْضُ كَطَيِّ الثَّوْبِ، ثُمَّ أَتَاهُمْ‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ هُمْ عَلَى مَجَالِسِهِمْ وَ لَمْ يَتَفَرَّقُوا وَ لَمْ يَبْرَحُوا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: قَدِانْتَهَيْتُ إِلَى فَدَكَ، وَ إِنِّي قَدْ أَفَاءَهَا اللَّهُ عَلَيَّ. فَغَمَزَ الْمُنَافِقُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: هَذِهِ مَفَاتِيحُ فَدَكَ، ثُمَّ أَخْرَجَ‏ مِنْ غِلَافِ سَيْفِهِ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ رَكِبَ مَعَهُ النَّاسُ. فَلَمَّا دَخَلَ الْمَدِينَةَ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ‏ فَقَالَ: يَا بُنَيَّةِ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَفَاءَ عَلَى أَبِيكِ بِفَدَكَ وَ اخْتَصَّهُ بِهَا، فَهِيَ لَهُ خَاصَّةً دُونَ الْمُسْلِمِينَ‏ أَفْعَلُ بِهَا مَا أَشَاءُ، وَ إِنَّهُ قَدْ كَانَ لِأُمِّكِ خَدِيجَةَ عَلَى أَبِيكِ مَهْرٌ، وَ إِنَّ أَبَاكِ قَدْ جَعَلَهَا لَكِ‏  بِذَلِكِ، وَ أَنْحَلْتُكِهَا لَكِ‏ وَ لِوُلْدِكِ بَعْدَكِ. قَالَ‏: فَدَعَا بِأَدِيمٍ‏ وَ دَعَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: اكْتُبْ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ بِفَدَكَ نِحْلَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، فَشَهِدَعَلَى ذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ مَوْلًى لِرَسُولِ اللَّهِ وَ أُمُّ أَيْمَنَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ أُمَّ أَيْمَنَ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. وَ جَاءَ أَهْلُ فَدَكَ إِلَى النَّبِيِّ، فَقَاطَعَهُمْ
عَلَى أَرْبَعَةٍ وَ عِشْرِينَ أَلْفَ دِينَارٍ فِي كُلِّ سَنَةٍ. 

   ترجمہ متعلقہ:

اِس روایت میں ایک قِصّہ بیان کیا گیا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آتے ہیں اور اُن سے عرض کرتے ہیں سوار ہوجائیں۔ جبرئیل علیہ السلام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فَدک کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو زمین کپڑے کی طرح لپیٹ دی جاتی ہے۔ جب جبریل امین اور رسول اللهؐ خیبر کے مضافات تک پہنچتے ہیں تو وہاں کے رہائشی خوفزدہ ہو کر فَدَک کی چابیاں ایک بڑھیا کو دے کر خود پہاڑ کی چوٹی سے یہ منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تو جبرئیل امین علیہ السلام بڑھیا سے وہ چابی لے کر دروازے اور دار کھولتے ہیں اور رسول اللهؐ کو دے دیتے ہیں اور عرض کرتے ہیں یارسول اللهؐ یہ خاص ہے آپ کیلئے نہ کے عام انسانوں کیلئے۔۔۔  فتح خیبر کے بعد مدینہ واپس آکر رسول اللهؐ حضرت فاطمہؓ کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ الله تعالیٰ نے یہ مال فئے دیا جو کہ خاص آپ کیلئے ہے۔ اور رسول اللهؐ نے فرمایا کہ یہ بطورِ حق مہر آپ کی والدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا ہے۔ اِس سے یہ حِصّہ دیا گیا ہے اِس کو میں نے آپ کیلئے حلال کیا ہے۔ اور یہ آپ کیلئے اور آپ کے بعد آپ کی اولاد کیلئے ہے۔

اِسی روایت میں ایک اور واقعہ پیش آتا ہے جو رسول اللهؐ کے وصال کے بعد کا ہے کہ جب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو اُم ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اہل فَدَک نے ،24000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ کیا۔

(بحار الأنوار ج‏لد 29 صفحہ 117-116) 

(سرّه في البحار جلد 17 صفحہ 378 حديث 46) 

(إثبات الهداة جلد 2 صفحہ 116 حديث 515) 

(مجمع البحرين جلد 1 صفحہ333) 

(مجمع البحرين جلد 5 صفحہ 127)

   تعارضاتِ روایاتِ اہل تشیع: 

ہِبہ فَدَک پر اختصار کے ساتھ ہم نے اہل تشیع کتابوں سے صرف (4) روایات نقل کی، جن میں موقف ہِبہ فَدَک کے بارے میں واضح طور پر تضاد و تعارض پایا جاتا ہے۔ فَدَک کے معاملے میں اہل تشیع گروہ نے عوام الناس میں جو پروپیگنڈہ اور شور و واویلا کیا اُس کی حقیقت منکشف اور نمایاں ہوگئی کہ یہ باغِ فَدَک کو ہِبہ ثابت نہیں کرسکے۔ 

بقول شاعر

*بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا*

*جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا* 

اب ہم اُن تعارضات کا تذکرہ کرتے ہیں جس کو ہر فرد کے علم میں لانے کی اشد ضروت ہے۔ کہ کس طرح اہل تشیع طبقے نے فَدَک کے معاملے میں عوام کو گمراہ کیا۔ 

*>* پہلی روایت میں سورہ اسراء کی جس آیت کو بطورِ حوالہ پیش کیا گیا ہے اِس کے بارے میں ہم ماقبل بیان کرچکے ہیں کہ یہ آیت دس (10) یا  گیارہ (11) نبوی میں نازل ہوئی۔ جب کہ فَدَک سات (7) یا آٹھ (8) ہجری میں حاصل ہوا. 

*>* دوسری روایت میں بھی یہی ذکر کیا گیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ جبکہ آیت کے نزول کے وقت فَدَک موجود ہی نہیں تھا۔ 

*>* قران نے جو مصارف بیان کیے ہیں اُن میں مساکین کی تاویل حضرت فاطمہؓ کے بیٹوں سے کردی۔ اور ابنِ السبیل کی تاویل آلِ رسولؐ اور آلِ فاطمہؓ سے کردی۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاویل کس قرینے اور کس اشارے کے تحت کی گئی ہے۔ جب کہ آیت میں کوئی اشارہ، کنایہ اور قرینہ موجود نہیں ہے۔ 

*>* تیسری روایت میں اِس آیت کے شانِ نزول میں یہ ذکر کرتے ہیں کہ فاطمہؓ کو فَدَک حضرت خدیجہؓ کے حق مہر کے عوض دیا گیا اور بطورِ وراثت۔ تو جناب اِس روایت نے تو فَدَک کے ہِبہ ہونے کے تمام دعووں کو جھوٹ اور کھوکھلا ثابت کردیا اور پھر یہاں فَدَک کو میراث کہا گیا ہے۔ 

*>* چوتھی روایت اوّل تو، کِذب، دروغ گوئی، افتراء اور مکر کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ لیکن اگر بالفرض اِس روایت کو سچ مان لیتے ہیں تو جن شیعہ محققین نے واٰت ذی القربی کے شانِ نزول کو مدنی کہا۔ پھر وہ سب جھوٹ ہے 

*<* چوتھی روایت میں ایک باقاعدہ قِصّہ گھڑا گیا ہے کہ جب واٰت ذی القربی آیت نازل ہوئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ فدک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔

جبکہ دوسری مرتبہ فتح خیبر کے موقع پر فَدَک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔

ساتھ ساتھ اِس روایت میں یہ بھی مرقوم ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فَدَک کو مالِ فئے کے طور پر حضرت فاطمہؓ کیلئے مخصوص کیا۔ جبکہ اِن کا یہ دعویٰ تمام شیعہ روایات سے متصادم و متعارض ہے جو روایات ماقبل بیان کی جاچکی ہیں کہ فَدَک اُس وقت ہِبہ ہوا جب آیت واٰت ذی القربی نازل ہوئی۔ 

*<* چوتھی روایت ہی میں ایک اور تعارض سامنے آیا کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو فَدَک کے ہِبہ ہونے کے بجائے 20،000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ ہوا۔ 

"نتیجہ" 

*<* اہل تشیع نے فَدَک کے محل وقوع میں جو روایات پیش کی ہیں اُن روایات ہی میں تضاد ہے۔ 

*<* ہِبہ فَدَک میں جس آیت سے استدلال کیا ہے اُس کے تاریخِ نزول میں بھی اہل تشیع روایات میں تضاد ہے۔ 

*<* اہل سُنّت کی طرف ہِبہ فَدَک میں جن روایات کے کثیر ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی خبرِ واحد ہے۔ 

*<* ہبہ فَدَک میں جس راوی کی یہ روایات ہیں جرح و تعدیل میں اُس کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ 

*<* یہ تمام روایات محدثین کے طبقہ اولٰی اور ثانیہ سے منقول نہیں ہیں۔ 

*<* جب تک کسی شے کی ملکیت ثابت نہ ہو، ہِبہ نہیں کی جاسکتی۔ بروایت اہل تشیع 

*<* ہِبہ فَدَک میں اہل تشیع روایات میں کثیر تضاد ہے۔ 

*<* اہل تشیع نے واٰت ذی القربی کے شانِ نزول میں جو روایات پیش کی ہیں اُن میں ہِبہ اور میراث دونوں کا دعویٰ کیا ہے۔ 

*<* باغِ فَدَک کے بارے میں بروایت اہل تشیع:

اُمِّ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں کہ فَدَک 20،000 دینار سالانہ دینے کا معاہدہ تھا نہ کہ کوئی باغ یا زمین۔ 

اِن تمام متون کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ باغِ فَدَک کے ہِبہ ہونے میں جتنی بھی اہل سنت اور اہل تشیع روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب من گھڑت، جھوٹ اور دَجَل پر مبنی ہے۔ لہذا ہم تو یہی عرض کرتے ہیں

*ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں*

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے.

اہل تشیع حضرات نے باغِ فَدَک کو باطل تاویلات، جھوٹی روایات اور من گھڑت قِصّوں سے ہِبہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن جب ان سب میں ناکام ہوئے تو انہوں نے اونٹ کو دوسری کروٹ بٹھایا کہ فَدَک میراث ہے۔

جب کہ ہم ماقبل بیان کرچکے ہیں کہ، ہِبہ اور میراث دو متضاد دعوے ہیں، ہِبہ زندگی چاہتا ہے اور میراث موت۔

اور اِس کے ساتھ ساتھ ہم شیعہ کتب سے یہ حوالے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ہِبہ کی ہوئی چیز میراث نہیں ہوسکتی۔ 

*مذہبِ اہل تشیع میں غیر منقولہ جائیداد میں عورت کا حِصّہ نہ ہونا:*  

ہم آپ کے سامنے ایک مسئلے کو پیش کریں گے جس کہ تحت اہل تشیع مذہب میں غیر منقولہ جائیداد میں عورت کا کوئی حِصّہ نہیں ہوتا۔

الکافی نے اس موضوع پر باب باندھا ہے اور گیارہ (11) روایات نقل کی لیکن ہم نے بطورِ اختصار صرف دو (2) روایات نقل کی ہیں۔ جبکہ اصولِ اربعہ میں اِس مسئلے پر کثیر روایات موجود ہیں۔ 

*روایت نمبر 1:* 

علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئاَ 

*ترجمہ:* 

ابو جعفر نے فرمایا عورتیں زمین اور رہائشی عمارت میں وارث نہیں ہوتیں. 

*روایت نمبر 2:*

 عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سألته عن النساء ما لهن من الميراث؟ قال: لهن قمية الطوب والبناء والخشب والقصب، وأما الأرض والعقارات فلا ميراث لهن فيها، قال: قلت: فالثياب؟ قال: الثياب لهن نصيبهن قال: قلت: كيف صار ذا ولهذه الثمن ولهذه الربع مسمى؟ قال: لأن المرأة ليس لها نسب ترث به۔ 

*ترجمہ:* 

ابو عبد اللہ سے روایت ہے کہ: میں نے ان سے پوچھا کہ عورتوں کے پاس وراثت میں سے کیا ہے؟  انہوں نے کہا: ان کے پاس اینٹوں، عمارت، لکڑی اور بانس کی قیمت ہے، زمین اور رہائشی امِلاک میں ان کی کوئی میراث نہیں ہے، میں نے کہا: کپڑے؟ انہوں نے فرمایا: کپڑوں کا اپنا حِصّہ ہے، میں نے کہا: کیسے؟ یہ اتنا اور اس کی قیمت، اور اس کو چوتھائی حصہ کہا انہوں نے کہا اس لئے کہ خواتین کو میراث دینے کا کوئی نسب نہیں ہے۔ 

(الکافی جلد 7 صفحہ 127۔130) 

*تعارضات:* 

ایک کہاوت مشہور ہے کہ آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا۔

فَدَک کے دعوے پر یہ مثال اہل تشیع پر ثابت آتی ہے کہ جب ہِبہ سے بھاگے میراث کی طرف، تو معصومین کے فرمان کے مطابق غیر منقولہ جائیداد کی وراثت میں عورت کا حِصّہ ہی نہیں۔ تو اب دعویٰ کیا رہ گیا۔ ؟؟

اہل تشیع کی دِلی تسلّی اور اہل سُنّت کی دلجوئی کیلئے، ہم اُن قرانی آیات جن کو اہل تشیع فَدَک کے میراث ہونے پر پیش کرتے ہیں 

فَدَک میراث کیسے ؟

اہل تشیع کا قران مجید سے استدلال: 

يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ ۖ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَـهُنَّ ثُلُثَا مَا تَـرَكَ ۖ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَـهَا النِّصْفُ ۚ وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْـهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَـرَكَ اِنْ كَانَ لَـهٝ وَلَـدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّـهٝ وَلَـدٌ وَّوَرِثَهٝٓ اَبَوَاهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَـهٝٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّـةٍ يُّوْصِىْ بِـهَآ اَوْ دَيْنٍ ۗ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَـآؤُكُمْۚ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّـهُـمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّـٰهِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا

(سورہ النساء آیت 11) 

ترجمہ: 

اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔ 

 استدلال اہل تشیع: 

اہل تشیع اِس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء کی دنیاوی وِراثت ہوتی ہے۔  تو سب سے پہلی بحث یہ ہے کہ  اِس آیت کے تحت رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل ہیں یا نہیں ؟؟

تو جناب اہل تشیع حضرات کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل ہیں۔ 

اعتراض اہل سنت: 

بالفرض ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اِس خطاب میں شامل ہیں تو اس نتیجے میں دوسرے حقائق کو ماننا پڑے گا، جو مندرجہ ذیل ہیں. 

1> دوسری آیاتِ وراثت میں بھی رسول اللہ ﷺ کو شاملِ خطاب کرنا ہوگا۔ 

2> اِس آیت کے تحت رسول اللہ ﷺ کی دوسری بیٹوں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کا وارث ہونا لازم آئے گا۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کے زیادہ تر رشتہ دار حیات نہیں تھے۔ تو پھر رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل کیسے؟؟  

3> قران مجید میں بیوی کی وراثت جو کہ دلالت نص اور قطعی الدلالہ ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ کی زوجہ یعنی امہات المؤمنین رضی اللّٰہ عنہما بھی میراث کے خطاب میں شامل ہیں۔ اس پر قران مجید کی یہ آیت اور دوسری آیات بطورِ دلیل ہیں۔ تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہما کو خطاب سے کس دلیل سے علیحدہ کریں گے؟؟ جس کیلئے سورہ النساء کی آیت 12 پیش ہے۔ 

تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ

(سورہ النساء آیت 12) 

ترجمہ:

اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ۔ 

4> ایک سوال اور پیدا ہوتا کہ سورہ النساء کی آیت نمبر میں 3 میں رسول اللہ ﷺ میں شامل ہیں یا نہیں؟

اگر شامل ہیں تو دلیل کیا ہے؟  اور اگر شامل نہیں ہیں تو دلیل کیا ہے؟؟  

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

(سورہ النساء آیت 3) 

ترجمہ:

اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے.





اہل تشیع کے اعتراضات اور ان کے جوابات  

پہلا اعتراض: 

سورہ النساء کی وراثت والی آیات میں رسول اللہؑ مخاطب نہیں ہیں آپ کے پاس اِس کی دلیل کیا ہے؟؟ 

جواب: 

1> ہم ماقبل متن میں بیان کرچکے ہیں کہ انبیاء کو دنیاوی مال کا مورث ماننے میں فرائض کی دوسری آیات میں تعرض پیش آتا ہے۔  

2> متصل صحیح الاسناد شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود روایات دال ہیں کہ انبیاء دنیاوی مال کے نہ وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو وارث بناتے ہیں اور یہی اِس آیت کی تفسیر ہے۔ اور یہی روایات میں بیان ہوا ہے۔

مختصراً ہم ایک ہی روایت پیش کرتے ہیں۔ 

روایت: 

أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر. 

متعلقہ ترجمہ: 

بے شک علماء انبیاءؑ کے وارث ہیں بے شک انبیاءؑ نہیں بناتے وارث کسی کو درہم و دینار کا، بلکہ اُن کی وراثت تو علم ہے۔ 

(الکافی جلد 34 صفحہ 1)

(المجلسی فی البحار جلد 16 صفحہ 219)

(قرب الاسناد الحمیری القمی صفحہ 91-92)

(من لا یحضر الفقیہ جلد 2 صفحہ 346)

(بحار الانوار جلد 1 صفحہ 164) 

اور یہی ہم معنی روایات صحاح ستہ احادیث کی کتابوں میں ہیں۔ 

(بخاری حدیث نمبر 6728)

(مسلم حدیث نمبر 1761)

(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 2976) 

دوسرا اعتراض:

جناب آپ بخاری کی روایت "لم یورثوا" جو کہ خبر واحد ہے  اُس سے تخصیص کیسے کرسکتے ہو؟؟  

جواب: 

1> یہ روایت بخاری میں ابوبکر صدیقؓ سے اور الکافی میں امام جعفر صادق ؒ علیہ سے منقول ہے جبکہ دیگر اسناد میں بھی موجود ہے تو آپ کس نظریے سے اِسے خبرِ واحد کہتے ہو؟؟ 

2> اہل تشیع کی کتاب تحریر احکام جلد 5 کے صفحہ 55 سے 80 تک (37) سینتیس موانع ارث ذکر ہیں اور اکثر کی تخصیص خبر واحد سے کی گئی ہے جیسے کہ 

کافر و مسلمان

غلام و آزاد

قاتل ومقتول

لعان والی کا بیٹا 

تو اِن پر اعتراض کیوں نہیں؟؟  

تضادات اہل تشیع  

ہم اہل تشیع کے تضاد بیانات کا ذکر کریں گے اور اُس کے ساتھ ہی چند ایسے سوالات پیش کریں گے۔ جس کا جواب اہل تشیع حضرات کے پاس یقیناً نہیں ہوگا۔ 

۔۔ ایک ہی آیت میں کبھی حضورؐ کی ذات کو شامل خطاب کرنا اور کبھی نہ کرنا ، کیا یہ عمل تضاد پر مبنی نہیں۔۔؟؟ 

۔۔ جب آپ حضرت فاطمہؓ کے لیے وراثت ثابت کرتے ہیں تو اس سے حضورؐ کی دوسری بیٹیوں کو کس نظریے اور دلیل سے محروم کرتے ہیں۔۔؟؟ 

۔۔ حضورؐ کی وراثت مال ثابت کرتے ہوئے اُمُّ المومنین رضی اللہ عنہما کو کس دلیل اور نظریے سے محروم کرتے ہیں۔۔؟؟ 

۔۔ جب آپ انبیاءؑ کی وراثت مال ثابت کرتے ہو تو آیاتِ فرائض کا کیا حکم ہے؟

کیا فرائض کی تمام آیات سے تعارض لازم نہیں آتا 

اہل تشیع کا دوسرا استدلال: 

وَاِنِّـىْ خِفْتُ الْمَوَالِىَ مِنْ وَّّرَآئِىْ وَكَانَتِ امْرَاَتِىْ عَاقِرًا فَهَبْ لِىْ مِنْ لَّـدُنْكَ وَلِيًّا۔ ۔يَرِثُنِىْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ۖ وَاجْعَلْـهُ رَبِّ رَضِيًّا

(سورہ مریم آیت 6-5) 

ترجمہ:

اور بے شک میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے ہاں سے ایک وارث عطا کر. جو میرا اور یعقوب کے خاندان کا بھی وارث ہو، اور میرے رب اسے پسندیدہ بنا۔

استدلال اہلِ تشیع: 

اہل تشیع کہتے ہیں کہ اِس آیت سے مال کی وراثت مراد ہے۔

اِسی وجہ سے حضرت زکریاؑ کو اپنے رشتے داروں کی جانب سے یہ خوف لاحق تھا کہ وہ اُن کے بعد اُن کے مال کے وارث ہوجائیں گے۔ یہ خوف اپنے بعد کا تھا۔ 

اعتراض اہلِ سنت: 

آپ کس قرینے کے تحت یہ کہتے ہیں کہ انبیاءؑ کی وراثت مال ہے.۔؟؟ 

جواب اہل تشیع: 

"مِنۡ وَّرَآءِیۡ" یہ قرینہ ہے کہ حضرت زکریاؑ کو اپنے بعد یہ خوف تھا کہ اُن کے رشتہ دار اُن کے مال کے وارث ہوجائیں گے۔ 

اعتراض اہلِ سنت: 

جناب "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" سے مراد مالی وراثت نہیں ہے اور اِس کا جواب بھی ہم قران مجید ہی سے پوچھتے ہیں کہ "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" سے کیا مراد ہے؟؟ 

پہلا تعارض: 

 حضرت یعقوبؑ نے موت کے وقت اولاد سے پوچھا:

اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ

(سورہ البقرہ آیت 133) 

ترجمہ:

اُس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟؟ 

دوسرا تعارض: 

قران نے سورہ مریم میں متعدد انبیاءؑ کے ذکر کے بعد فرمایا:

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِـمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

(سورہ مریم آیت 59) 

ترجمہ:

پھر ان کی جگہ ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز ضائع کی اور خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، پھر عنقریب گمراہی کی سزا پائیں گے

تیسرا تعارض: 

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ

(سورہ آل عمران آیت 144) 

ترجمہ:

اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ 

خلاصہ تعارضات: 

اِن قرانی آیات سے ایک بات سمجھ آئی کہ تمام انبیاءؑ نے اپنے بعد اپنی امت یا اپنی اولاد کی اللہ کی فرمانبرداری کے بارے میں سوچا ہے، نہ کہ اپنے مال کی وراثت کے بارے میں۔ تو جناب آپ کا استدلال باطل ہے انبیاءؑ کی وراثت پر "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" کو قرینے کے طور پر پیش کرنا بھی باطل ہے۔ 

متعلقہ آیت کا سیاقِ کلام: 

جس آیت سے اہلِ تشیع استدلال کرتے ہیں، اُس میں حضرت زکریاؑ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے وارث طلب کرتے ہیں اور اُن کے وارث حضرت یحییٰؑ ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زکریاؑ نے کن اوصاف کا ذکر کر کے اپنے لئے وارث طلب کیا۔ 

يَرِثُنِىْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ۖ وَاجْعَلْـهُ رَبِّ رَضِيًّا

(سورہ مریم آیت 6) 

ترجمہ:

جو میرا اور یعقوبؑ کے خاندان کا بھی وارث ہو، اور میرے رب اسے پسندیدہ بنا۔

يَا يَحْيٰى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَّاٰتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا

(سورہ مریم آیت 12)

ترجمہ:

اے یحیٰی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا کی۔

ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا

(سورہ فاطر آیت 32) 

ترجمہ:

پھر ہم نے اپنی کتاب کا ان کو وارث بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ 

تضادات: 

1> یہاں قواعد کیسے بدل گئے کیا زکریاؑ کو مال کی زیادہ فکر تھی..؟؟

جب کہ سارے قرینے آپ کے استدلال کے خلاف ہیں۔۔؟؟ 

2> کیا زکریاؑ کو اللہ کے حکم کا علم نہیں تھا کہ رشتے دار بھی مال کے وارث ہوتے ہیں۔۔؟؟

جب کہ اللہ تعالیٰ نے رشتے داروں کو مالی وارث بنایا ہے۔ 

3> اہلِ تشیع کے استدلال کے مطابق تمام انبیاءؑ تو امت کی بھلائی کی فکر کریں اور حضرت زکریاؑ مال کی فکر کریں۔ 

4> کیا "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" کا جو مفہوم آپ نے لیا ہے وہ قران کی دوسری آیات سے متصادم نہیں۔جو انبیاءؑ کی اُمت کی فکر میں بیان کی گئی ہیں..؟؟ 

5> فرائض کی دوسری آیات جن کا ماقبل ذکر کیا گیا ہے، کیا تمام قرینے علومِ نبوت پر دلالت نہیں کرتے..؟؟

اہل تشیع کا تیسرا استدلال: 

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُوْدَ ۖ وَقَالَ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْـرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَىْءٍ ۖ اِنَّ هٰذَا لَـهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ

(سورہ النمل آیت 16) 

ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کے ساز و سامان دیے گئے ہیں، بے شک یہ صریح فضیلت ہے۔ 

استدلال اہل تشیع:

اِس آیت سے شیعہ حضرات نے انبیاءؑ کی وراثت مال ہونا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

کہ داودؑ کے وارث سلیمانؑ ہوئے ہیں۔ 

اعتراض اہل سنت:

جناب حضرت داودؑ کی سلیمانؑ کے علاوہ بھی اولادیں تھیں. 

اولادِ داودؑ:

(1) یہ داودؑ کے بیٹے ہیں جو حبرُون میں اُس سے پَیدا ہُوئے ۔پہلا امنون یزرعیلی اخِینُو عم کے بطن سے تھا. 

2) دوسرا دانی ایل کرمِلی ابِیجیل کے بطن سے تھا۔ 

3) تیسرا ابی سلوم جو جسُور کے بادشاہ تلمی کی بیٹی معکہ کا بَیٹا تھا۔ 

4) چَوتھا ادُونیاہ جو حجِیّت کا بَیٹا تھا۔ 

5) پانچواں سفطیاہ ابی طال کے بطن سے تھا. 

6) چھٹا اِترعام اُن کی بِیوی عِجلہ سے تھا۔

(کتاب سموئیل آیت 1:3) 

اِس کے علاوہ یروشلم میں پیدا ہونے والی داودؑ کی دیگر اولادیں تواریخ کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔ 

1) سِمعا، سُوباب، ناتن اور سُلیمان۔ یہ چاروں عمّی ایل کی بیٹی بت سُوع کے بطن سے تھے۔  

2) اِبحار، الِیسمع، الِیفلط، نُجہ، نفج، یفِیعہ، الِیدع اور الِیفلط۔  یہ سب حرموں کے بطن سے تھے اور تمر اِن کی بہن تھی۔

(تواریخ اول باب سوم آیت ۔۔5۔9) 

حضرت داودؑ کی ننانوے (99) بیویاں تھیں اور بیس (20) کے قریب بیٹے بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے

یہاں بھی اہل تشیع اپنی روایتی مکر و فریب کے ذریعے سے باطل تاویل اور استدلال کرتے ہوئے صرف سلیمانؑ کو وارث بنا کے دیگر بیٹے، بیٹیوں اور بیویوں کو محروم کررہے ہیں۔ 

اعتراض اہلِ تشیع:

اہلسنت  کی طرف سے لفظ وارث کو مجاز کے بجائے اصل معنی میں کیوں مراد نہیں لیاجاتا اور مجاز میں استعمال کی دلیل کیا ہے۔۔؟؟ 

پہلا جواب:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْـرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ (سورہ النمل 15) 

ترجمہ: اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا، اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت دی۔ 

دوسرا جواب:

اسی آیت کی تفسیر میں اہل تشیع مفسرین نے لفظ "ورث" کو علم کی وراثت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ مال کی وراثت کے معنی میں۔

روایت مندرجہ ذیل ہے۔ 

ولقد آتينا داود وسليمان علما طائفة من العلم أو علما اي علم وقالا الحمد لله فعلا شكرا له ما فعلا وقال الحمد لله الذي فضلنا على كثير من عباده المؤمنين يعم من لم يؤت علما أو مثل علمهما وفيه دليل على فضل العلم وشرف أهله حيث شكراه على العلم وجعلاه أساس الفضل ولم يعتبرا دونه وما أوتيا من الملك الذي لم يؤت غيرهما وتحريض للعالم على أن يحمد الله على ما اتاه من فضله وان يتواضع ويعتقد انه وان فضل على كثير فقد فضل عليه كثير

(تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 59) 

تیسرا جواب:

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُوْدَ ۖ وَقَالَ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْـرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَىْءٍ ۖ اِنَّ هٰذَا لَـهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ

(سورہ النمل 16) 

ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کے ساز و سامان دیئے گئے ہیں، بے شک یہ صریح فضیلت ہے۔ 

موقف اہلِ سنت:

سورہ النمل کی آیت 16 میں داودؑ کی وراثت کا جو ذکر ہوا ہے وہ مُلک اور نبوت تھی نہ کہ مال، جس کے وارث سلیمانؑ ہوئے۔ اور اہل تشیع کی مابعد روایات بھی اسی موقف پر دلالت کرتی ہیں کہ مُلک اور نبوت وراثت تھی نہ کہ مال۔

اہل تشیع روایات: 

وورث سليمان داود الملك والنبوة في الكافي عن الجواد عليه السلام۔۔۔۔

 في الجوامع عن الصادق عليه السلام يعني الملك والنبوۃ۔۔۔۔

 والقمي عنه عليه السلام أعطي سليمان بن داود مع علمه معرفة المنطق بكللسان ۔۔۔۔

 وفي المجمع عنه عن أبيه عليهما السلام قال أعطي سليمان بن داود ملك مشارق الأرض۔۔۔۔۔

 وفي البصائر عنه عليه السلام قال قال أمير المؤمنين عليه السلام لابن عباس ان الله علمنا منطق الطير۔

اِن اہل تشیع  تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ سلیمانؑ نبوت وعلوم نبوت اور مُلک کے وارث ہوئے ہیں

تفسیر صافی میں جب وراثت داودؑ کے بارے امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی مُلک اور نبوت ہی وراثت فرمائی ہے 

(صافی جلد 4 صفحہ59-60)

الکافی کی ایک اور روایت پیش ہے:

قال ابو عبداللہ۔ان سلیمان ورث داود وان محمد ورث سلیمان۔

(الکافی جلد 1 صفحہ 53 طبع۔تہران)  

نتیجہ:

ان تمام روایات سے "ان الانبیاء لم یورثوا" کی بھی تصدیق ہوگئی کہ انبیاءؑ نہ مال کے وارث بناتے ہیں اور نہ ہی مال کے وارث بنتے ہیں 

تضادات: 

1> داودؑ کی دوسری اولادوں اور بیویوں کو وراثت سے کیسے محروم کردیا..؟؟  

2> کیا انبیاءؑ کی وراثت مال ثابت کرتے ہوئے دوسری فرائض سے تعارض پیش نہیں آتا۔.؟؟ 

3> کیا آپ کا یہ استدلال خود آپ کے آئمہ معصومین کی روایات کے خلاف نہیں جنہوں نے مُلک اور نبوت کو وراثت فرمایا ہے..؟؟  

4> الکافی کی روایت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سلیمانؑ کے کس چیز میں وارث ہوئے۔۔؟؟ 

*دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے*

*اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے*

استدلال اہلِ سنت:

جناب انبیاءؑ کی وراثت علوم نبوت ہوتی ہے نہ کہ مالِ دولت۔

علم و علماء کی فضیلت میں الکافی میں کثیر روایات ذکر ہوئی ہیں

ہم الکافی کی اِس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاءؑ نہ کسی کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مال کا وارث بناتے ہیں. 

روایت:

محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.

(الکافی جلد 1 صفحہ 34) 

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا. جو شخص علم کی طلب میں کسی راستے پر چلا، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلائے گا۔ بے شک فرشتے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اس شخص کیلئے جو اللہ کی رضا کیلئے علم حاصل کرتا ہے اور تمام مخلوقات جو آسمانوں میں اور جو زمین میں یہاں تک کے سمندر کی مچھلیاں استغفار طلب کرتی ہیں طالبعلم کیلئے، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی تمام ستاروں پر بے شک علمائے کرام انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک نہیں بناتے انبیاء وارث کسی کو دینار یا درہم کا، بلکہ ان کی وراثت تو علم ہے۔ اور جو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اسے کافی حصہ ملتا ہے۔ 

تائیدی روایات اہل تشیع: 

روایت نمبر 1:

أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثةالأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين. 

یہ بھی اسی حدیث کی تائیدی ہے اور اس میں انما سے حصر ہے اور اہل زبان جانتے ہیں کہ انما اور لکن دونوں استدراک کے لیے ہوتے ہیں اور شک کو دور کرتے ہیں اور مابعد میں داخل ہونے والے شکوک وشبہات کو دور کرتے ہیں. 

روایت نمبر 2:

جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة  

ترجمہ: حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول ﷺ نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور  ﷺ کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے۔ 

(قرب الاسناد الحمیری القمی صفحہ 92-91)

(بحوالہ المجلسي في البحار جلد 16صفحہ 219) 

روایت نمبر 3:

عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَدَّاحِ عَنِ الصَّادِقِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ آبَائِهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ مَنْ سَلَكَ طَرِيقاً يَطْلُبُ فِيهِ عِلْماً سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقاً إِلَى الْجَنَّةِ وَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِهِ وَ إِنَّهُ لَيَسْتَغْفِرُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ وَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَاراً وَ لَا دِرْهَماً وَ لَكِنْ وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ مِنْهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.

(من لا یحضر الفقیہ جلد 2 صفحہ 346)

(بحار الأنوار ، ج‏لد 1، صفحہ 164)

(الکافی جلد 1 صفحہ 34) 

جناب اہل تشیع حضرات اپنی  اِس روایت پر درجنوں اعتراض کرتے ہیں  

اعتراض اہل تشیع:

یہاں سونا چاندی درھم دینار کا ذکر ہے زمین کا ذکر نہیں تو زمین میں وراثت جاری ہوگی۔

جواب:

1> آپ کا اعتراض اصول پر نہیں قیاسِ  باطل پر مبنی ہے کیونکہ لکن و انما حصر کے لیے ہیں۔

اور ما بعد میں پیدا ہونے والے شکوک کو دور کرتے ہیں اصولوں کے مطابق اِس جملے کی نحوی، صرفی و بلاغی ترکیب کریں۔

اور پھر ترجمہ کریں آپ کا اعتراض ہی نہیں بنے گا۔ 

2> استدلال اہل تشیع سے پہلے ہم اس مسئلے پر وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ اہل تشیع کے نزدیک غیر منقولہ جائیداد کی وراثت میں عورت کا حِصہ نہیں ہوتا۔ 

اعتراض اہل تشیع:

جناب آپ نے اِس کا ترجمہ غلط کیا ہے اس سے مراد ہے کہ علماء علم کے وارث اور اہل بیت مال کے وارث ہیں۔ 

جواب:

1> عبارت ان الانبیآء لم یورثوا درھما ودینارا…

جہالت کی حد ہے جو لوگ عربی قواعد کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جو ترجمہ اہل سنت نے کیا وہ درست ہے اور اہل تشیع ترجمہ کی وجہ سے عوام کو دھوکا دینا چاہتے ہیں وہ غلط ہے۔

*مثال:

* واللہ یدعوا الی دارالسلام 

ان دونوں عبارتوں میں لفظ احداً مفعول، محزوف اورعام یا نکرہ ہے۔ 

تو جو ترجمہ ہم نے کیا وہ درست اور اہل تشیع کا غلط ہے۔ 

2> کتاب اہل تشیع تنزیہ الانبیاء صفحہ 45 حدیث کے اِس حصے کا اہل تشیع کا کیا ہوا فارسی ترجمہ ملاحظہ کریں۔

البتہ میراث انبیاء درہم ودینار نبودہ بلکہ علوم واخلاق ومقامات وصفات مرضیہ ایشاں بودہ است

یہ اہل تشیع کی اپنی کتاب کا کیا ہوا ترجمہ ہے کاش کہ اعتراض کرنے والے جانتے کہ اہل تشیع نے بھی وہی ترجمہ کیا جو ہم نے کیا ہے۔

تو اعتراض ختم۔۔!!

پہلے اِس کا جواب دیں جو اہل تشیع علماء نے ترجمہ کیا ہے. 

اعتراض اہل تشیع:

اہل سنت لم یورثوا کو فعل مجہول پڑھتے ہیں جبکہ لم یورثو فعل معروف ہے۔ اِس صورت میں لم یورثو کا فاعل علماء ہونگے، علماء انبیاء کے علم کے وارث ہونگے اور اہل بیت مال کے وارث ہونگے۔ 

جواب:

اہل بیت اطہار ہر مرد و زن سے بڑھ کر کون عالم ہے اور آئمہ اہل بیت سے روایات موجود ہیں۔ 

روایت نمبر 1:

وفي الكافي عنه عليه السلام إنما نحن الذين يعلمون وعدونا الذين لا يعلمون وشيعتنا أولوا الألباب وعن الصادق عليه السلام لقد ذكرنا الله وشيعتنا وعدونا 

(الکافی کی روایت بحوالہ تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 216) 

اِس آیت کے بارے میں امام باقر فرماتے ہیں جو جانتے ہیں وہ ہم ہیں اور جو نہیں جانتے وہ ہمارے دشمن۔ 

اِس کے ہم معنی اور بہت ساری روایات موجود ہیں۔ 

روایت نمبر 2:

لأمالي للصدوق

فِي خُطْبَةٍ خَطَبَهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع بَعْدَ فَوْتِ النَّبِيِّ ص‏ وَ لَا كَنْزَ أَنْفَعُ مِنَ الْعِلْمِ. الأمالي للصدوق ن، عيون أخبار الرضا عليه السلام فِي كَلِمَاتِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع بِرِوَايَةِ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْحَسَنِيِ‏قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ. 

(بحارالانوار جلد 1 صفحہ 165) 

روایت نمبر 3:

عَنْ عَلِيٍّ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ لَا خَيْرَ فِي الْعَيْشِ إِلَّا لِرَجُلَيْنِ عَالِمٍ مُطَاعٍ أَوْ مُسْتَمِعٍ وَاعٍ. نَوَادِرُ الرَّاوَنْدِيِّ، بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ آبَائِهِ ع عَنِ النَّبِيِّ ص قَالَ: لَا خَيْرَ فِي الْعَيْشِ إِلَّا لِمُسْتَمِعٍ وَاعٍ أَوْ عَالِمٍ نَاطِقٍ. وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ أَرْبَعٌ يَلْزَمْنَ كُلَّ ذِي حِجًى وَ عَقْلٍ مِنْ أُمَّتِي قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هُنَّ قَالَ اسْتِمَاعُ الْعِلْمِ وَ حِفْظُهُ وَ نَشْرُهُ عِنْدَ أَهْلِهِ وَ الْعَمَلُ بِهِ. الخصال مَاجِيلَوَيْهِ عَنْ عَمِّهِ عَنِ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يَرْفَعُونَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ:مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ مَنْهُومُ عِلْمٍ وَ مَنْهُومُ مَالٍ. بيان قال الجوهري النهمة بلوغ الهمة في الشي‏ء و قد نهم بكذا فهو منهوم أي مولع به وفِي الْحَدِيثِ‏ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ مَنْهُومٌ بِالْمَالِ وَ مَنْهُومٌ بِالْعِلْمِ‏ 

(بحار الانوار ج‏لد 1 صفحہ 168) 

یہ تمام روایات مطلقاً اہل بیت کے علم کے بارے میں مذکور ہیں۔ تو اب یا تو آپ کی سوچ فاسد ہے، یا یہ روایات۔ 

اعتراض اہل تشیع:

یہ حدیث (لم یورثو) اِن قرانی آیات کے خلاف ہے. 

> يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

(سورہ النساء آیت 11) 

> وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا

(سورہ النساء آیت 33) 

> لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا

(سورہ النساء آیت 7) 

> وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ

(سورہ النمل آیت 16) 

> يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا

(سورہ مریم آیت 6) 

جواب: 

1> پہلی تین آیات میں وراثت کا ذکر ہے لیکن مخاطب اُمت ہے نبیؑ نہیں اور کوئی اشارہ، کنایہ اور قرینہ بھی نہیں ہے۔

جبکہ آخری دو آیتوں میں انبیاءؑ کا ذکر ہے مالی وراثت کا ذکر نہیں اِن کی تفصیل استدلال اہل تشیع میں بیان کرچکے ہیں 

2> ما قبل بیان کی جانی والی الکافی، بخاری اور تائیدی روایات "لم یورثو" اِن آیات کی تفسیر کرتی ہیں کہ انبیاءؑ کی وراثت مال نہیں ہوتا اور یہ روایات قران کے مخالف نہیں بلکہ اہل تشیع کی کج عقل کے خلاف ہے۔

باغِ فَدَک میں خلفائے راشدینؓ کا طریق

جو عمل اور طریقہ جناب رسول پاک ﷺ نے اموالِ فئے فدک وغیرہ کے متعلق اپنے عہد مبارک اور حیات طیبہ میں مقرر اور جاری فرمایا تھا وہی تمام خلفائے راشدینؓ کی خلافت، حتیٰ کہ حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے دور تک اِس میں کسی قسم کا کوئی تغیر و تبدل واقع نہ ہوا۔

تمام سنی و شیعہ مورخین، محدثین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ جو عمل رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کیا وہی عمل تمام خلفائے راشدینؓ نے اپنی حیات میں کیا۔ 

اہل تشیع روایات:

اہل تشیع کی ان تمام روایات میں خلفائے راشدینؓ کا فَدَک کے حِصّے کی تقسیم پر طرزِ عمل بیان کیا گیا ہے۔ 

روایت نمبر 1:

اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد 

ترجمہ:

میں اپنا مال جائیداد دینے میں تم سے دریغ نہیں کرتا،جو کچھ مرضی چاہے لے لجیئے۔ آپ اپنے باپ کی اُمت کی سیدہ ؓ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں۔ آپ کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ کا حکم میرے ذات مرے مال میں بلا چوں و چرا جاری و منظور ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ کے والد بزرگوار ﷺ کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا۔ 

(حق الیقین صفحہ 231) 

روایت نمبر 2

کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یاخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل فیہ فی سبیل اﷲ ولک علی اﷲ ان اصنع بہاکما کان یصنع فرضیت بذلک واخذت العہد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیہم منھاما یکفیہمم ثم فعلت الخلفاء بعدہ ذلک 

(شرح نہج البلاغۃ، جلد 5 صفحہ 7 از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران) 

ترجمہ:

تم سب سچے ہو۔ مگر اس کاتصفیہ یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ فَدَک کی آمدنی سے تمہارے گزارے کے لئے رکھ لیتے تھے، اور باقی جو بچتا تھا اس کو تقسیم فرما دیتے تھے اور اﷲ کی راہ میں اس میں سے اٹھا لیتے تھے اور میں تمہارے لئے ﷲ کی قسم کھاتا ہوں کہ فَدَک میں وہی کروں گا جو رسول کرتے تھے تو اس پر فاطمہ راضی ہوگئیں اور فَدَک میں اسی پر عمل کرنے کو ابوبکر سے عہد لے لیا اور ابوبکر فَدَک کی پیداوار کرلیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اور پھر ابوبکر کے بعد  اور خلفاء نے بھی اسی طرح کیا۔ 

روایت نمبر 3:

عمل أمير المؤمنين، وإنما أمنع أن يكون أمير المؤمنين عليه السلام قد سار علی طريقة الصديق، فإن التاريخ لم يصرح بشئ من ذلك، بل صرح بأن أميرالمؤمنين كان يرى فدك لأهل البيت، وقد سجل هذا الرأي بوضوح في رسالته إلى عثمان بن حنيف  كما سيأتي. فمن الممكن أنه كان يخص ورثة الزهراء وهم أولادها وزوجها بحاصلات فدك، وليس في هذا التخصيص ما يوجب إشاعة الخبر، لأن المال كان عنده وأهله الشرعيون هو وأولاده. كما يحتمل أنه كان ينفق غلاتها في مصالح المسلمين برضى منه ومن أولاده عليهم الصلاة والسلام ، بل لعلهم أوقفوها وجعلوها من الصدقات العامة. 

(شرح نہج البلاغۃ، لابن ابی الحدید جلد 16 صفحہ 208) 

متعلقہ ترجمہ:

اِس روایت میں حضرت علیؓ کے فَدَک کے استعمال کا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے ابن ابی حدید نے بتایا کہ جس طریق پر ابوبکر صدیقؓ باغِ فَدَک کو استعمال کرتے تھے اسی طریق پر حضرت علیؓ نے باغ فَدَک کو استعمال کیا ہے۔ 

روایت نمبر 4:

ابوبکرؓ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے تھے، آپ کے بعد عمرؓ بھی ایسا ہی کرتے، عثمانؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علیؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ 

(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4 صفحہ 44)

(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ میثم  البحرانی جلد 5 صفحہ 107)

(الدرۃ النجفیۃ صفحہ 332)

(شرح نہج البلاغۃ، جلد 55 صفحہ 960 فارسی لعلی نقی مطبوعہ تہران) 

روایت نمبر 5:

زید بن علی بن حسین کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکرؓ نے کیا ہے۔ 

(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید، جلد 4 صفحہ 82) 

روایت نمبر 6:

زین العابدین بن حسین بن علی فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر فَدَک کی تقسیم کا مقدمہ میری طرف لوٹ کر آتا تو میں بھی اس کا وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر صدیقؓ نےفیصلہ کیا تھا۔ 

(شرح نہج البلاغۃ، لابن ابی الحدید جلد 4 صفحہ 113) 

خلاصہ روایات: 

باغِ فَدَک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا طریقہ کار حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ نے اپنایا، اور پھر حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے خلیفہ بننے کے بعد یہی طریقہ کار اپنانے سے یہ بات تو ثابت ہوئی کہ فَدَک مال فئے تھا۔  

تضادات اہل تشیع:

1> حضرت علیؓ نے باغِ فَدَک کے مسئلے میں خلفائے ثلاثہ (ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) کا طریق کیوں اختیار کیا۔۔؟؟ 

2> حضرت حسنؓ نے خلفائے راشدینؓ کا طریق کیوں اختیار کیا..؟؟ 

3> کیا یہ معقول جواب ہے کہ اہل بیت جو چیز چھوڑ دیں وہ واپس نہیں لیتے۔۔؟؟ 

4> غصب باغِ فَدَک میں جو الزامات خلفائے ثلاثہؓ پر لگائے جاتے ہیں کیا انہیں الزامات کی زد میں حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ نہیں آتے۔۔؟؟ 

5> کیا اِن تمام الزامات کی زد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی ذاتِ مبارکہ نہیں آتی۔۔؟؟ 

ناراضگی حضرت فاطمہؓ  

اعتراض اہل تشیع: 

اہل سنت کی کتابوں میں کثرت سے حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کی روایات ہیں۔ 

جواب:

1> حضرت فاطمہؓ اور حضرت صدیقؓ کے متعلق کسی دوسرے شخص کا یہ خیال کہ باہم ناراض تھے۔ اگرچہ وہ شخص بالفرض معصوم بھی ہو۔ یقیناً اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک حضرت فاطمہؓ خود بنفس نفیس اپنی زبان سے ناراضگی کا اظہار نہ فرمائیں۔ اور یہ بات قطعاً کسی معتبر کتاب اہل سنت سے ثابت نہیں ہوسکتی۔ 

2> صحیحین میں ناراضگی کی چودہ روایات درج ہیں جن میں چار میں ناراضگی کا لفظ ذکر ہے اور اِن چار روایات کی سب سندیں امام زہری پر جا کر جمع ہوتی ہے تو تواتر کیسا؟؟ اور لفظ قال سے راوی کی زیادتی ثابت ہو رہی ہے۔ جو کہ راوی کا گُمان تھا جبکہ دس روایات میں ناراضگی کا لفظ ذکر نہیں ہے  

3> اس کے برعکس شیعہ کی معتبر ترین کتابوں میں حضرت فاطمہؓ کی زبانی جناب علی المرتضیؓ سے فَدَک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے، جس کا ازالہ حضرت علیؓ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا۔ بلکہ فَدَک کو جناب رسول کریم علیہ الصلوۃ السلام اور خلفائے ثلاثہ (ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) والے طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدینؓ کے طرز عمل میں کسی تغیر و تبدیلی کو جائز نہ سمجھا۔

جناب علی المرتضیؓ جن پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو حضرت فاطمہؓ نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا۔ اور ابوبکر صدیقؓ جن پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں۔ ان کو ظالم، غاصب سمجھنا کس انصاف اور کس دیانت پر مبنی ہے۔ 

اہل تشیع روایات: 

اہل تشیع کی کتابوں میں حضرت فاطمہؓ کا حضرت ابوبکر صدیقؓ سے راضی ہونا ثابت ہے اور اسی موقف پر اہل سنت و اہل تشیع کتابوں میں روایات موجود ہیں۔ 

روایت نمبر 1:

قال إن لك ما لأبیك کان رسول الله ﷺ یأخذ من فدك فوتکم ویقسم الباقي و یحمل منه في سبیل الله ولك علىٰ الله أن أضع بها کما کان یصنع فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه 

ترجمہ: حضرت ابوبکرؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے کہاجو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گاجیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہؓ خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہد لے لیا۔

(شرح نہج البلاغۃ جلد 5 صفحہ 7 از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران) 

روایت نمبر 2:

وذلك إن لك ما لأبیك کان رسول الله ﷺ یأخذ من فدك قوتکم ویقسم الباقي ویحمل من في سبیل الله ولك علىٰ الله أن أصنع بها کما کانا یصنع فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه به 

ترجمہ: اور یہ وہی ہے جو آپ کے والد نے کیا کہ خدا کے رسولؐ فَدَک کا بقدرِ ضرورت حصہ لے لیا کرتے تھے۔ اور باقی اللہ تعالیٰ کے راستے میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور یہ آپ (رسول صلی الله عليہ وسلم) کیلئے اللہ کی طرف سے تھا، میں بھی وہی کروں گا اس معاملے میں، جیسے وہ کرتے تھے، پس وہ راضی ہوگئیں اور میں نے اس عہد کو اس طرح پورا کیا۔

(کتاب درہ تحفیہ شرح نہج البلاغۃ صفحہ 332-331)

(الشیعہ واہل البیت صفحہ 75) 

روایت نمبر 3: 

إن أبابکر لما رأی أن فاطمة انقبضت عنه وهجرته ولم تتکلم بعد ذلك في أمر فدك کَبُر ذلك عنده فأراد استرضاءها فأتاها فقال لها: صدقت یا ابنة رسو ل الله ﷺ فیما ادعیت ولکنی رأیت رسول الله ﷺ یقسمها فیعطی الفقراء والمساکین وابن السبیل بعد أن یعطی منها قوتکم والصانعین فقالت: افعل فیها کما کان أبي رسول الله ﷺ یفعل فیها. قال أشهد الله علي أن أفعل فیها ما کان یفعل أبوك فقالت: والله لتفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد اللهم اشهد فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه وکان أبوبکر یعطیهم منها قوتهم فیعطی الفقرآء والمسکین

(آفتابِ ہدایت صفحہ251) 

اہل سنت روایت:

والله ما تركت الدار والمال والأهل والعشيرة إلا ابتغاء مرضاة الله ، ومرضاة رسوله ، ومرضاتكم أهل البيت . ثم ترضاها حتى رضيت . وهذا إسناد جيد قوي

(البدایہ والنہایۃ جلد 5 صفحہ 289 عمادالدین بن کثیر) 

ترجمہ:

اللہ کی قسم ! میں اپنا گھر بار مال اور اہل و عیال، قوم برادری، سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ السلام کی رضاجوئی اور تم اہلبیت نبوت کی رضاجوئی کے لئے چھوڑ چھاڑ آیا تھا جس سے سیدہؓ کو خوش کیا تو سیدہؓ نہایت راضی خوش ہوگئیں اس روایت کی سند نہایت عمدہ، صحیح اور معتبر و مضبوط ہے۔ 

تعارضات: 

1> کیا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا کامل الایمان ہونا ثابت نہیں ہوتا، بوجہ اِس کے حضرت فاطمہؓ کے سوال کرنے پر فرمایا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، انبیاء جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ اور فَدَک اور دوسرے اموالِ وقف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریق اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ 

2> حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کی وجہ کیا تھی،  فرمانِ رسولؐ کا سنایا جانا، یا فرمانِ رسولؐ کی وجہ سے مال کا نہ ملنا یا کہ فرمانِ رسولؐ کے بارے میں علم نہ ہونا؟؟ کیا حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی بہر صورت رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف نہیں لوٹتی ؟؟ 

نتیجہ:

 یہی وہ نقطہ ہے جس پر مشہور بریلوی عالم ڈاکٹر اشرف جلالی صاحب دامت برکاتہم عالیہ پر ایف۔آئی۔آر درج کروائی گئی۔

جس کے ضمن میں اہل تشیع اور کچھ درباری مُلاؤں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ اشرف جلالی نے حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ جو کہ معصوم ہیں۔

عِصمت کی جس تعریف پر اہل تشیع نے اجماع کیا ہے۔ مُلا باقر مجلسی نے عِصمت کی جو تعریف کی ہے اس پر اہل تشیع کا اجماع ہے۔ وہ کہتا ہے کہ 

"جان لو امامیہ کا اتفاق ہے کہ ائمہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اُن سے اصلاً گناہوں کا صدور ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ عمداً، نسیاناً، خطاً، تاویل یا تفسیر میں غلطی کرنا یا اللہ کو اُن کا بھلا دینا تو ایک طرف رہا" 

(بحار الانور جلد 25 صفحہ 211)

(مراۃ العقول جلد 4 صفحہ 352) 

یہ دعویٰ تو عِصمت کی اس تعریف کا کر بیٹھے لیکن اس کو کسی بھی صورت ثابت نہیں کرسکتے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کے نسیان اور خطا اجتہادی کے بہت سارے واقعات اہل تشیع نے اپنی تفاسیر میں ذکر کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سہو، نسیان اور خطا اجتہادی کے بارے میں احادیث کی کتابوں میں ابواب باندھے ہیں اور فقہ کی کتابوں میں سہو اور نسیان کے باقاعدہ مسائل پیش کیے ہیں۔ 

چنانچہ اہل تشیع کی عِصمت کی اس تعریف کے مطابق اگر حضرت فاطمہؓ کا ناراض ہونا تسلیم کرتے ہیں تو ان کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا، اور اگر ناراض ہونا تسلیم نہیں کرتے تو ہمارا موقف ثابت. 

انبیاء کی وراثت مال نہ ہونے کی حکمت: 

قران مجید سے دلائل: 

1> اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ  يَقْدِرُ

ترجمہ: اللہ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور جس کی چاہتا ،گھٹا دیتا ہے۔ 

2> كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ

ترجمہ: اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔ 

3> اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَا اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه

ترجمہ: یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُنہیں دے رکھا ہے۔ 

4> وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں زیادتی دے رکھی ہے۔ 

5> فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ

ترجمہ: جو کچھ حلال اور پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کاشکر ادا کرو۔ 

6> وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ 

ترجمہ: تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں۔ 

احادیث رسول اللہ ﷺ سے دلائل: 

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی ہے:

إن هذا الصدقات إنما هي أوساخ الناس لا تَحل لمحمد ولا لآل محمد ﷺ

ترجمہ: صدقات لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے جو میرے لیے اور آلِ محمد ﷺ کے لیے حلال نہیں۔

(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 345)

 

اقوالِ فقہاء: 

1> شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: 

وفي هذا الحکم سر آخر و هو أنه ﷺ إن أخذها لنفسه وجوز أخذها لخاصته والذین یکون نفعهم بمنزلة نفعه کان مظنة أن یظن الظانون ویقول القائلون في حقه ما لیس بحق 

*ترجمہ:* رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل پر صدقہ کے حرام ہونے میں دوسرا راز یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اپنے مال کو اپنی ذات کے لیے یا اپنے خاص افراد کے لیے جن کا نفع آپ کا اپنا نفع ہے، کے لیےجائز قرار دیتے تو آپ کے خلاف بدگمانی کرنے والوں اور ناحق اعتراض کرنے والوں کو موقع ہاتھ آجاتا کہ یہ نبی دنیا کا کتنا حریص ہے کہ غربا و مساکین کا حق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

(حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ 46) 

2> والفرق بین الأنبیآء وغیرهم إن الله تعالىٰ صان الأنبیاء عن أن یورثوا الدنیا لئلا یکون ذلك شبهة لمن یقدح في نبوتهم بأنهم طلبوا الدنیا وورثوها لورثتهم 

*ترجمہ:* اگر انبیاءؑ کے ترکہ میں عام قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو دشمنانِ نبوت کو یہ اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا کہ اُنہوں نے اپنے اور اپنے وارثوں کے لیے مال و دولت جمع کرنے کے لیے نبوت کو آڑ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے «لا نورث ما ترکنا صدقة» کا قانون جاری کروا کر اپنے انبیاءؑ کو اس جاہلانہ اعتراض سے ہمیشہ کے لیے بچالیا۔

(منہاج السنۃ جلد 2 صفحہ 157) 

نتیجہ: 

اِن آیات، احادیث اور  فقہاء کے قول اور اس مفہوم کی دوسری بیسیوں آیاتِ مقدسہ کے مطابق اس دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ ثروت و دولت، مال اور زندگی کا دوسرا ساز و سامان ہے۔ اس کا حقیقی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، جو خالق کائنات ہے۔ انسان کے پاس یہ مال و متاع محض چند روز کے لیے بطورِ امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و احسان سے رفع حاجات اور روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ چیزیں مستعار عطا فرما رکھی ہیں جن پر ہمارا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے  

. وَ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

ترجمہ: میں تمہیں جو تبلیغ کررہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا بلکہ اس کا اجر ربّ العالمین ہی کے ذمہ ہے جوقیامت کو وہ عطا فرمائے گا۔

 

۔ قُلْ لَّا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری

انبیاءؑ اپنی اپنی اُمت کے روحانی باپ ہوتے ہیں۔ نبی کا یہ روحانی رشتہ ہرفرد بشر سے ہوتا ہے۔ ہر کالے گورے اور سرخ و سپید پر برابر کی شفقت ہوتی ہے۔ اس لیے نبی کا ترکہ تمام اُمت پر صدقہ ہوتا ہے جو بلا کسی امتیاز کے آقا و غلام، مرد و زن، بُرے بھلے، صالح و فاسق، قریب و بعید اور ہر خاص و عام تمام مسلمانوں کے مشترکہ مصالح پر صرف کیا جاتا ہے۔ پس اگر نبی کا ترکہ صرف اُس کے اُصول و فروع پر ہی تقسیم کیا جاتا تو اس کے اقربا کے ساتھ تعلق و شفقت کا خاص ظہور ہوتا جو اُمت کے دوسرے افراد سے بے رخی اور ان کی دل شکنی کامظہر ہوتا جو کہ شفقت عام کے سراسر منافی ہے۔ فافهم ولا تکن من القاصرین 

اور مذکورہ بالا احادیث میں فرمایا :«ماترکنا فهو صدقة» ان دونوں احادیثِ صحیحہ کو باہم ملانے سے ثابت ہوا کہ انبیاءؑ کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے۔

اگر انبیاءؑ کے ترکہ میں عام رائج قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو ممکن تھا کہ بشری تقاضوں اور دنیا کی حرص کی وجہ سے ان کے ورثا اُن کی موت کا انتظار کرنے لگے جاتے جو ان کے حق میں وَبال ثابت ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی کے ورثا کی بہتری کے پیش نظر ان کو ترکہ سے محروم کرکے دنیا کا عارضی نقصان برداشت کروا کر آخرت کے وبالِ عظیم اور ہمیشہ کی ہلاکت سے بچالیا۔ میرے علم کے مطابق یہ وہ حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے ترکہ میں قانونِ وراثت جاری نہیں فرمایا گیا۔

 

فَدَک کی حیثیت  

اہل تشیع روایات: 

روایت نمبر 1:

فَدَک اطراف خیبر کی ایک آباد و زرخیز و وسیع سرزمین تھی اور اس کے نخلستان خیبر سے زیادہ تھے۔ فَدَک میں چند یہودی زندگی بسر کرتے تھے کہ جو خیبریوں سے ارتباط میں تھے اور ان کا رئیس ایک یوشع بن نون نام کا آدمی تھا۔سب سے پہلا شخص جس نے اس زمین پر سکونت اختیار کی تھی فَدَک بن حام تھا لہذا یہ سرزمین اسی کے نام سے معروف ہے۔ 

(معجم البلدان ،جلد 4 ،صفحہ 238) 

روایت نمبر 2:

جب علی المرتضیؓ اُم ایمنؓ کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو اُم ایمنؓ فرماتی ہیں کہ اہل فَدَک نے 24،000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ کیا۔ 

(بحار الأنوار ج‏لد 29 صفحہ 117-116)

(سرّه في البحار جلد 17 صفحہ 378 حديث 46)

(إثبات الهداة جلد 2 صفحہ 116 حديث 515)

(مجمع البحرين جلد 1 صفحہ 333)

(مجمع البحرين جلد 5 صفحہ 127) 

روایت نمبر 3:

پیغمر اکرم ﷺ کے زمانے میں فَدَک کی سالانہ آمدنی کا 24 سے 70 ہزار دینار تک کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ 

(قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، جلد 1 صفحہ 113)

(سفینۃ البحار، جلد 2 صفحہ 351)

(ناسخ التواریخ، حضرت فاطمہ زہراؑ صفحہ 121) 

روایت نمبر 4:

مورخین نے باغ فَدَک کی سالانہ در آمد 70،000 سے 120،000 طلائی سکہ لکھی ہے۔ 

(بحار الانوار ،جلد 29 صفحہ 118) 

روایت نمبر 5:

کہا جاتا ہے کہ جس وقت عمرؓ نے حجاز سے یہودیوں کو نکالنا چاہا تو فَدَک میں موجود نصف درختوں کے مقابلے میں یہودیوں کو 50 ہزار درہم ادا کیا۔  

(جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 14ق، صفحہ 98) 

اہل سنت روایت: 

خیبر کے یہودی زراعت اور باغبانی کے ماہر تھے اگرچہ اُن کی جلا وطنی طے ہو چکی تھی مگر انہوں نے اِس موقع پر تجویز پیش کی کہ انہیں زمین پر صرف کام کرنے کے لیے دیا جائے  پیداوار میں سے نصف ان کا ہوگا اور نصف مسلمانوں کا، حضور اکرم ﷺ نے غور کیا تو اس تجویز میں مصلحت محسوس کی؛ کیوں کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ بیک وقت جہاد بھی کرتے اور زراعت بھی، آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے فارغ رکھنے کے خیال سے اس تجویز کو منظور فرمالیا مگر یہ واضح فرما دیا کہ جب ہم چاہیں گے یہ معاملہ ختم کردیں گے آپ ﷺ نے خیبر کی پیداوار سے حصہ وصول کرنے کی ذمہ داری عبداللہ بن رواحہؓ کو سونپ دی وہ جب بھی خیبر آتے اتنی دیانتداری اور انصاف سے پیداوار تقسیم کرتے کہ یہودی کہہ اٹھتے کہ "زمین و آسمان ایسے ہی عدل کی وجہ سے قائم ہیں" یہود حضرت عمر فاروقؓ کے دور تک یہیں آباد رہے مگر چونکہ حضور ﷺ کی یہ وصیت تھی کہ جزیرۃ العرب میں دو دین باقی نہ رہنے دیا جائے اور یہود و نصاریٰ کو یہاں سے نکال دیا جائے اس لئے حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں خیبر اور گردونواح سے تمام یہودیوں کو جلاوطن کرکے شام بھیج دیا اور انہیں متبادل زمینیں فراہم کردیں۔ 

(صحیح بخاری حدیث 3169)

سیرۃ ابنِ ہشام جلد 2 صفحہ 338-337)

(طبقات ابنِ سعد جلد 2 صفحہ 201)

(التاریخ الاسلامی العام صفحہ 200)

(المعجم الکبیر الطبرانی جلد 2 صفحہ 108)

(فتوح البلدان علامہ بلاذری صفحہ 42)

(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد 2 صفحہ 64)

(تاریخ کامل ابنِ اثیر جلد 2 صفحہ 85)

(روض الانف علامہ سُہیلی جلد 2 صفحہ 247) 

خلاصہ روایات: 

بستی فَدَک کا نام نوح علیہ السلام کی نسل فَدَک بن حام بن نوح کی وجہ سے فَدَک پڑا جو اِس علاقے کا پہلا آباد کار تھا۔

حضور ﷺ نے محیصہ ابن مسعودؓ کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے اہل فَدَک کی طرف بھیجا، تو اہل فَدَک نے باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں نے خیبر فتح کرلیا ہے آخر ہم کب تک فَدَک کی حفاظت کریں گے، جو کہ ناممکن ہے چنانچہ یوشع بن نون جو اُس وقت فَدَک کا مالک تھا رسول اللہ ﷺ کے سامنے معاہدے کیلئے پیش ہوا اس معاہدے کی بنیادی شق یہ تھی کہ فَدَک بدستور فَدَک کے رہائشیوں کے پاس رہے گا لیکن اس کی نصف سالانہ آمدنی مسلمان کو دی جائے گی۔

جیسا کہ ہم ماقبل اہل سنت اور اہل تشیع روایات سے بیان کر چکے ہیں کہ اہل فَدَک سالانہ 24،000 دینار ادا کیا کرتے تھے۔ اور اس رقم کی وصولی کیلئے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جایا کرتے تھے یہ ایک ہنگامی جنگی معاہدہ تھا جو کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں، اور پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں بھی اسی انداز میں قائم رہا۔ لیکن جب حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت آیا تو رسول اللہ ﷺ کے اِس فرمان کے مطابق کہ جزیرۃ العرب سے غیر مسلموں کو نکال دیا جائے، تو حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں باغِ فَدَک اور اُس سے ملحقہ جائیداد کو 50،000 درہم میں خریدا۔

جناب ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کوئی خاندانی، انفرادی یا ذاتی معاہدہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ریاستی، ہنگامی جنگی معاہدہ تھا جس میں صرف اور صرف 24،000 دینار سالانہ یا فَدَک کی نصف آمدنی سالانہ کی ادائیگی مسلمانوں کو کی جاتی تھی۔ 

نتیجہ: 

نتیجے کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ باغِ فَدَک نہ کسی کی ذاتی ملکیت، نہ مکمل حاصل ہوا، نہ کسی کی ملکیت میں دیا گیا، اور نہ ہی وصالِ رسول ﷺ کے بعد کسی کو اس کا مالک بنایا جا سکتا تھا، بلکہ یہ تو ایک ریاستی معاہدہ تھا جیسا کہ نجران وغیرہ کے علاقوں کے معاہدے ہوئے۔

چنانچہ جس فرد نے باغِ فَدَک کی اصلی حیثیت کو سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اِس کی حیثیت کیا تھی، پھر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے دور میں کیا حیثیت تھی وہ اہل تشیع کے باغِ فَدَک کے بارے میں تمام مکر و فریب کو یقینی طور پر سمجھ جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ان معاہدوں میں حاصل ہونے والے اموال کے مصارف اللہ رب العزت نے قرانِ مجید میں خود بیان فرمائے ہیں تو اِن اموال کو اسی طریق پر تقسیم کیا جائے گا۔ اور یہ تمام اموال وقف کے حکم میں ہیں۔ 

دعوے جھوٹے، دلیلیں جھوٹی

وعدے جھوٹے، قسمیں جھوٹی

ہم    نے   جن   کو   سچا  جانا

نکلی  وہ  سب  باتیں   جھوٹی

 

"مالِ فئے انفال اور اس کی تقسیم" 

مالِ غنیمت کا حلال ہونا: 

رسول اکرم ﷺ فرمایا: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ."

اللہ رب العزت نے مجھے چھ چیزیں وہ عطا فرمائی ہیں جو گزشتہ انبیاء علیہم السلام کو عطا نہیں فرمائیں۔ ان میں سے ایک چیز "أُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ" ہے کہ اللہ نے میرے لیے میدان جنگ کے مال، مالِ غنیمت کو حلال قرار دیا ہے۔ 

(صحیح مسلم رقم :523) 

سابقہ شرائع اور مال غنیمت:

گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے لیے مالِ غنیمت حلال نہیں تھا یعنی ان انبیاء علیہم السلام کے لیے مالِ غنیمت کا استعمال کرنا ٹھیک نہیں تھا، جب جہاد میں نکلتے تھے اور میدان جنگ میں کفار کا مال جمع ہوتا تو اس مال کو کھلے میدان میں رکھ دیا جاتا تھا، آسمان سے آگ آتی اور اس مالِ غنیمت کو کھا جاتی۔ اگر وہ مال غنیمت آسمانی آگ کھا جاتی تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کو قبول فرمالیا اور اگر آگ اس مال کو نہ کھاتی تو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہ جہاد قبول نہیں ہوا۔

لیکن رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ نے مجھے یہ اعزار بخشا ہے کہ مالِ غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے۔ اب اُمت جہاد کرے اور میدان جنگ میں کفار سے مال چھینے، اب آگ کے ذریعے اسے جلانے کی ضرورت نہیں، یہ اسے اپنے حلال اور پاکیزہ رزق کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں یعنی یہ ہمارےنبی ﷺ ایک اعجاز ہے۔ 

ہمارے نبی ﷺ کا دائرہ نبوت غیر محدود ہے:

اس کی وجہ کیا ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کے لیے تو مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔ہمارے پیغمبر ﷺ کے لیے مال غنیمت حلال کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا دائرہ نبوت محدود تھا، ہمارے نبی ﷺ کا دائرہ نبوت غیر محدود ہے، پہلے نبیوں نے ایک بستی میں رہنا ہے، ایک قوم میں رہنا ہے، ایک گاؤں میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک اس نبی کی نبوت ہے، ہمارے نبی ﷺ کی نبوت کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں حضور ﷺ کی نبوت ہے اور رسول اللہ ﷺ کی امت نے پوری دنیا میں جانا بھی ہے۔ 

اگر مال غنیمت حلال نہ ہو:

اب اگر یہاں سے چلیں اور دنیا کے کسی دوسرے کونے جا کر جہاد کریں اور مالِ غنیمت بھی ان کے لیے حلال نہ ہو تو پھر کھانے کی دو صورتیں ہیں:

1) کمائیں اور کھائیں

2) مرکز سے مال لائیں اور کھائیں 

میدان جہاد میں جاکر کمانا شروع کردیں تو یہ جہاد نہیں کر سکیں گے اور اگر مرکز سے مال لانا چاہیں تو دور ہونے کی وجہ سے مال لا بھی نہیں سکتے۔ تو یہ امت آگے کیسے بڑھے گی؟ اس کے لیے اللہ رب العزت نے ختم نبوت کی برکت سے اعزاز دیا ہے کہ تم بڑھتے چلے جاؤ، کمانا کافر نے ہے اورکھانا تم نے ہے۔

تمہیں کمانے کی ضرورت نہیں ہے، کافر کمائے گا اور تم کھاؤ گے اور یہ کھانا حلال بھی ہوگا اور طیب بھی ہوگا۔ 

مال کی تین اقسام:

میدان جنگ میں جو مال حاصل ہوتا ہے اس کی تین اقسام ہیں: 

1> مالِ غنیمت:

مالِ غنیمت کا معنی کیا ہے؟ میدان جنگ میں گئے اور کفار سے مقابلہ ہوا اور مقابلے کے بعد آپ کو جو مال ملا اسے مالِ غنیمت کہتے ہیں۔ 

2> مالِ فئے:

بغیر جنگ لڑے کافر خود کو آپ کے حوالے کردے، اس سے جو مال ملتا ہے، اسے مالِ فئے کہتے ہیں۔ تو جو جنگ کے ذریعے مال ملے وہ ”مال غنیمت اور“ بغیر جنگ لڑے ملے تو ”مال فئے“ ہے. 

3> انفال:

انفال عربی زبان کا لفظ ہے جو نفل کی جمع ہے، نفل کے لفظی معنی زائد، فضل، احسان اور اللہ کا کرم بھی ہے انفال کو محدثین اور مفسرین نے تھوڑا عام رکھا ہے۔

مالِ غنیمت اللہ اور رسول کا ہے:

﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوۡلِ﴾ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ﴾

اے میرے پیغمبر! یہ صحابہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ مال غنیمت کا کیا کرنا ﴿قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوۡلِ﴾

آپ فرمادیں یہ مال غنیمت اللہ کے حکم سے آپ کو ملا ہے اور اللہ کے حکم کے مطابق اور پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقے سے تقسیم ہوگا، اس لیے تمہاری مرضی اور تمہاری رائے کو اس مال غنیمت کی تقسیم میں کوئی بھی دخل نہیں ہے۔ 

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

*ترجمہ* اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

(سورۃ الحشر آیت 6) 

مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ  

ترجمہ: جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔

(سور الحشر آیت 7) 

انفال کی ملکیت کے حصہ دار: 

1 اللہ عزوجل

2 نبی ﷺ

3 نبی ﷺ کے قرابت دار

4 یتیم

5 حاجتمند

6 مسافر 

مال کی تقسیم کا طریقہ کار: 

جب میدان جنگ میں جائیں اور مال غنیمت ملے تو اس مال غنیمت کے پانچ حصے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک حصہ جسے ”خمس“ کہتے ہیں یہ تو بیت المال میں جمع ہوتا ہے اور چار حصے ان مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں جو جہاد میں شامل ہوتے ہیں، کبھی ان چار حصوں کو ”مال انفال“ کہتے ہیں اور کبھی میدان جنگ میں امیر لشکرکہتا ہے کہ جس شخص نے فلاں کافر

کو قتل کیا تو اس کافر کا مال اس قاتل کو دیں گے تو اس مال کو بھی نفل کہتے ہیں۔ اور کبھی جو پانچواں حصہ بیت المال میں جمع ہوا ہے اسی مال میں سے امیر المجاہدین کسی مجاہد کے خاص کارنامے کی وجہ سے اس مجاہد کو بطور اکرام کے دیتا ہے اس مال کو بھی ”مال انفال“ کہتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو مالِ خمس (پانچواں حصہ) بیت المال میں جمع ہوا ہے ایک شخص میدان جنگ میں تو نہیں گیا لیکن مجاہدین کی خدمت کرتا ہے، اس خدمت کرنے والے کو بھی امیر لشکر اس خمس میں سے کچھ مال دیتا ہے تو اس مال کو بھی “مال انفال“ کہتے ہیں۔

تعارضات: 

فَدَک مال فئے تھا یا ذاتی مال تھا ؟؟

جواب: باغِ فَدَک بھی دوسرے اموال کی طرح مالِ فئے ہی تھا اور فَدَک کے مال فئے ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔  

مال فئے والانفال پر رسول اللہ ﷺ کے بعد تصرف کس کا ہوگا ؟؟ 

جواب: مالِ فئے کو انفال میں شمار کیا جاتا ہے اور انفال کے بارے میں سورہ انفال کی پہلی آیت میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ انفال فقط اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہے۔ انفال میں کسی غیر کا کسی قسم کا کوئی حق موجود نہیں۔ پس مالِ فئے چونکہ انفال میں سے ہے اس لیے یہ اموال رسول اللہؐ کے ساتھ مختص ہیں اور ان کی رحلت کے بعد ان کے برحق جانشین یاقائم مقام کے سپرد ہوگا۔

(شیح طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، جلد 2، صفحہ 64)   

(علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، جلد 9 صفحہ 119) 

"فما كان لله فهو لرسوله يضعه حيث يشاء وهو للامام من بعد الرسول" 

پس جو اللہ کا ہے وہ رسول کا ہے جیسے چاہیے تصرف کرے اور اس کے بعد امام کا ہے 

(العیاشی جلد 2 صفحہ، 35-36-37)

(بحارالانوار جلد 20 صفحہ 53-54-55)

(البرھان جلد 2 صفحہ 61-62-63)

(الوسائل جلد 2 ابواب الانفال)

 (تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 254-255) 

"هو لله وللرسول وبعده للقائم

مقامه يصرفه حيث يشاء من مصالح نفسه ومن يلزمه مؤنته ليس لأحد فيه شئ"

(التبیان جلد 5 صفحہ 83) 

"هي لله وللرسول، وبعده لمن قام مقامه، فيصرفه حيث شاء"

(البیان جلد 4 صفحہ 424) 

"وهي لله ولرسوله ولمن قام مقامه بعده"

(تفسیر الآصفی جلد 1 صفحہ 423) 

"وھو للأمام بعد الرسول"

(الکافی جلد 1 صفحہ 28 روایات باب الفئی الانفال) 

حضرت فاطمہؓ نے کس حق سے مال فئے والانفال یعنی مال وقف کا سوال کیا جب کہ ماقبل تمام روایات بتا رہی ہیں کہ مال وقف پر حق اللہ اور رسولؐ کا ہے اس کی تقسیم کا طریقہ کار خود اللہ نے بیان فرما دیا اور رسولؐ کے بعد اس پر تصرف امام یا قائم مقام کا ہے۔ 

کیا فاطمتہ الزہرہؓ رسول تھیں ؟؟ امام تھیں ؟؟ خلیفہ تھیں ؟ یا رسولؐ کی قائم مقام تھیں ؟؟ 

فَدَک کا حِصّہ اہل بیت کو ملنا  

روایت نمبر 1: 

ابوبکرؓ فَدَک کا غلہ وصول کرتے اور اہل بیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے۔ان کے بعد حضرت عمرؓ بھی فَدَک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد عثمانؓ بھی فَدَک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد علیؓ بھی فَدَک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔ 

(حجج النھج صفحہ 266) 

روایت نمبر 2: 

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مناسب ترین فیصلہ فرمایا کہ کسی کو مالکانہ حقوق دیے بغیر ان جائیدادوں کے متولی کی حیثیت سے ان کی آمدن اہل بیت پر خرچ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اسی میں اہل بیت و سادات کرام کی مصلحت بھی تھی کیونکہ چند افراد کو مالکانہ حقوق مل جاتے تو ممکن تھا چند پُشتوں بعد یہ ذریعہ آمدن ختم ہو جاتا اور بعد والے سادات کو اس سے حصہ نہ ملتا۔اِس جائیداد کے سرکاری سرپرستی میں محفوظ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً دو صدیوں تک اہل بیت کی آل اولاد  کو اِن اموال سے حِصہ پہنچتا رہا اور وہ معاشی طور پر فارغ البال رہے۔ 

(سنن الکبریٰ للبیہقی حدیث 12734) 

نتیجہ: 

> اہل تشیع کا محل وقوع کا دعوی ان کی اپنی کتابوں سے متضاد ہے۔ 

> اہل تشیع کا ہِبہ کا دعوی جھوٹا، خود ساختہ اور خود اپنی روایات سے متضاد اور دجل پر مبنی ہے 

> اہل تشیع کا وراثت کا دعوی  بھی جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ وراثت ثابت ہونے کی صورت میں فرائض کی آیات سے تعرض پیش آتا ہے  

> اہل تشیع کا باغِ فَدَک کی ملکیت رسول اللہ ﷺ یا فاطمہؓ کے لیے جھوٹ ہے کیونکہ فَدَک کی نصف پیداوار سالانہ کا معاہدہ تھا جوکہ ریاستی تھا اہل تشیع نے صحابہؓ پر الزام ثابت کرنے کے لیے خود اپنے استدلالی اصولِ فقہی اور دوسرے ہر قسم کے اصول کو روند دیا لیکن دجل وفریب کے سوا کچھ ثابت نہیں کر سکے۔ 

ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے

پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں



إزالة الشك عن مسئلة فدك
علامہ محمد عبدالستار صاحب تونسوی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد اللہ رب العالمعین والصلواۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء و المرسلین وعلیٰ وازواجہ و اصحابہ اجمعین اما بعد۔


بند جہاں جہاں تقریر کے لئے مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عموماً ہر موقعہ و ہر مقام پربعض لوگوں کی طرف سے مسئلہ فدک کے متعلق دریافت کیا گیا۔ حالانکہ فدک کا مسئلہ کوئی اس قسم کا اصولی مسئلہ نہیں۔ جو کہ ضروریات دین میں سے ہو۔ اگر ایک شخص کا ضروریات دین پر ایمان ہو، اور اس کو فدک کے حالات و حقائق حتیٰ کہ نام تک بھی علم نہ ہو۔ تو اس کے دین و ایمان میں کوئی خلل اور نقص واقع نہ ہوگا۔ یہ تو ایک تاریخی واقعہ ہے (جس کو موضوع بحث بنانا بلکہ ایمان و کفر کا دارومدار ٹھیرانا۔ اور اس کے لئے عام مسلمانوں میں ہیجان و ہنگامہ آرائی کی مہمیں اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی کوشش کونسی خدمت دین اور تقاضائے ایمان ہے۔)
بندہ کو اس مسئلہ پر خامہ فرسائی اور توجہ کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ میرا کامل اعتقاد اور محکم یقین ہے کہ جناب صدیق ؓ و فاروق رضۃ غنی ؓ و علی ؓ عباس و حسنین، سیدہ بی بی فاطمۃ الزہراہ سیدہ بی بی عاشہ صدیقہ ؓ ، بنو ہاشم اور قریش، تمام انصارو مہاجرین سب کے سب یک دل و یک جان اور رحمآء بینھم کے پورے مصداق اور وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وغیرہ احکام قرآنی کے پورے پابند کامل اتفاق و اتحاد اور وحدت و محبت کی گہرائیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ آج کل اسلامی اتحاد و تنظیم کے خلاف اسٹیجوں،پریسوں سے وعظ کہے جارہے ہیں۔ اور اہل اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے موجودہ دور تک دو مخالف گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کو خلفاء رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اسلام اور مقتدایان اہل ایمان جناب صدیق ؓ و فاروق ؓ غنی ؓ و علی ؓ سیدہ بتول ؓ ۔ ان نجوم ہدایت، تربیت یافتگان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس قسم کے طعن و تشنیع اور عیب چینی اور بدگوئی کا موقعہ فراہم کیا جارہا ہے۔ کہ یہ سب حضرات سرمایہ پرست، خودغرض، فقراء و مساکین کے حقوق خورد برد کرنیوالے اور دنیاوی اقتدار اور مال و متاع کیلئے (نعوذ باللہ) باہم دشمن اوردست بگریبان تھے۔
عاجز نے مذکورہ بالا یہی دو امور مدنظر رکھ کر یہ چند سطور، برادران اسلام کی ہمدردی اور خیرخواہی کیلئے لکھی ہیں۔ تاکہ ائمہ اسلام و مقتدایان دین کے پاکیزہ کردار اور مقدس سیرت کو اور وحدت اسلامی کے نظریہ اور اسلامی اخوت و اتحاد کے زرین اصول کو بدنما داغ لگانے والوں کے ناجائز حملوں سے پاک صاف سمجھیں۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔
واقعہ فدک کی تشریح سے پہلے اس حقیقت پر غہر کیجئے کہ ہردیانتدار، منصف مزاج انسان بخوبی جانتا ہے کہ موجودہ دور وقرن ہو۔ عا ازمنہ ماضیہ کی گذشتہ تاریخ ہو یا زمان مستقبل کے آنیوالے اوقات ہوں، ہر دور وہر قرن میں جب بھی کوئی اجتماعی قومی ملی، دینی و مذہبی تحریک اٹھائی گئی۔ یا اٹھائی جاوے گی۔ تو اس کی کامیابی اور ترقی کا دارومدار صرف اس امر پر ہے کہ اس تحریک کو چلانے ، اپنانے، ماننے والے، اس کی ترقی و کامیابی کے لئے، سردھڑکی بازی لگانے اور ہر قسم کی مالی و جانی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ بلکہ اپنا سب کچھ گھر بار مال و دولت، حتیٰ کہ اپنی جانوں تک کو اس تحریک کی کامیابی کے لئے لگادیں مگر یہ سب کچھ تب گوارا کیا جاتا ہے جبکہ لوگوں کو اس تحریک کے بانی وموسس اور اس تحریک کے اٹھانے چلانے والے لیڈر پر پورا اعتماد اور مکمل بھروسہ ہو کہ یہ شخص، خود غرض مفاد پرست نہیں۔ قومی و ملی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد سے بہتر سمجھتا ہے، اور اجتماعی مصالح کو اپنے ذاتی اور اپنے خاندان و رشتہ داروں کی مصلحتوں سے مقدم رکھتا ہے۔
ہمیشہ ہر تحریک کی کامیابی کی روح اور ترقی کا راز یہی رہا ہے کہ اس کے بانی اور لیڈر نے اخلاص کے ساتھ اپنا سب کچھ قوم کی خدمت اور مصلحت کے لئے وقف کردیا، تب اس شخص کے پیچھے قوم نے لبیک کہا۔
دنیا میں اس طریقہ کے مروج او پسندیدہ ہونے اور اس عمل کے محبوب و مرغوب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس او معصوم تعلیمات اور بے لوث پاکیزہ زندگیوں سے دنیا کو پہلا سبق یہی ملا۔
بادشاہی ملوکیت اور نبوت و خلافت نبوت کے درمیان نمایاں امتیاز اور بنادی فرق یہی ہوتا ہے۔ کہ ملوک و بادشاہ دنیاوی سازوسامان مال و دولت اور عیش و عشرت، لذات و خواہشات نفسانی پرمفتون و فریفتہ ہوتے ہیں۔ ان کی ساری دلبستگی اور رات و دن کی سردردی اور ہر وقت کی دوڑ دھوپ کا مقصد صرف دنیا ہی دنیا ہوتی ہے، اور اس کے برعکس حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے خلفائے عظام ؓ کا مقصد و مطمع نظر اور ان کی ساری سعی و کوششوں کا مرکز محور اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی کے بغیر اور کچھ ہی نہیں ہوتا۔ ان حضرات کو رات دن یہی تڑپ یہی جذبہ دامن گیر رہتا ہے کہ گھر بار، مال و دولت، عزیز و اقارب، دوست، احباب اپنا جسم وجان، عیش و ٓآرام اور عزت و آبرو سب کچھ اس کی راہ ورضا میں فنا و فدا ہوجائے۔ تو یہی حقیقی کامیابی اور انتہائی امید و آرزو ہے۔ ان حضرات کو اس رہ میں جتنے مظالم و مصائب اور شدائد وحوادث پیش آئیں۔ ان سب کو برداشت کرنے میں لذت و راحت محسوس کرتے ہیں، ان حضرات کا اصلی مقام و مرتبہ یہی عبدیت اور للہیت ہی ہے۔ کہ زندگی کا ہر لمحہ اور ہر سانس اور زندگی کے تمام علائق و لواحق صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں اگر کھچ کہتے سنتے ہیں تو اس کے لئے، اگر مرتے جیتے ہیں تو اسی کے لئے۔ اور یہی سبق اور روح اپنے جانشینوں اور پسم ماندگا میں چھوڑ جاتے ہیں۔
قیصر و کسریٰ شاہان عالم تو اپنے جانشینوں کے لئے دنیا وی مال و متاع حشم و خدم، حکومت و تکبر وراثت چھوڑجاتےہیں۔ مگر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اخلاص و للہیت اور اخلاق و علوم نبوت اور راہ خدا میں قربانی و جاں نشانی کا درس وراثت میں چھوڑ جاتے ہیں، ان کے پاس مال و متاع جس قدر رہا تو بیت المال یعنی خزانہ الٰہی، جو دین الٰہی کے لئے ور عاجز محتاج لوگوں اور یتیموں مسکینوں، کے لئے رہا۔
آنحضرت ﷺ کے متعلق قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے۔


قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ


یا رسول اللہ ! فرمادیجیئے کہ میری بدنی اور مالی اعمال و عبادات، اور میری زندگی اور موت، سب کچھ، اللہ تعالیٰ رب العالمین ہی لئے ہے۔
پ۸ سورہ انعام


قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا پ ۱۹ سورہ فرقان


تو کہ میں نہیں مانگتا تم سے اس پر کچھ اجر۔ مگر جو کوئی چاہے کہ پکڑ لے اپنے رب کی راہ۔ حدیث شریف میں وارد ہے۔
مالی وللدنیا۔ مجھے مال و متاع دنیا سے کوئی تعلق و لگاؤ نہیں۔ !
یہی وجہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کو رات دن ہر لمحہ و ہر لحظہ یہی مگر و دامن گیر تھی۔ کہ اللہ تعالیٰ سے بے علم و بے تعلق اور دار دنیا میں مست و مدہوش ہوکر دار آخرت کی دائمی زندگی سے بے خبر انسان خواہشات نفس اور حب دنیا کی گرفتاریوں سے نکل کر معرفت الٰہی اور تعلق باللہ کے انوار سے منور ہوں اور مکر آخرت میں دائمی رضا الٰہی کے لئے اپنا مال و جان عزیز و اقارب، دوست و احباب ،گھر بار، سب کچھ قربان کر کے بارگاہ الٰہی میں سرفراز و سرخرو ہوجائیں۔
آنحضرت ﷺ نے رات دن ،صبح شام،ہر لمحہ و ہرآن، متواتر و مسلسل تئیس سال تک نہایت ہی عرق ریزی، اور جان فشانی سے اس دعوت الی اللہ اور تبلیغ و تربیت و تذکیہ کو پورے اہتمام سے جاری رکھا اور انتہائی اخلاص اور درد دل اور سوز و گداز سے ہدایت خلق کے لئے شان و مصروف رہے۔ تو اس، مبارک تعلیم و تبلیغ اور تربیت و تذکیہ کا اتنا زبردست نتیجہ اور غیر معمولی اثر ہوا کہ لوگ جوق در جوق دین الٰہی کو قبول کرنے لگے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادہے۔


وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً


یارسول اللہ! تو دیکھے کہ اللہ کے دین میں فوجوں کی فوجیں داخل ہورہی ہیں۔
یعنی حضورﷺ کے سامنے دین الٰہی میں فوجوں کی فوجیں داخل ہوگئیں اور حضور ﷺ کی تعلیم و تربیت سے جو لوگ دین الٰہی میں داخل و شامل، ہوئے۔ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے۔


يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ۔ پ ۴ سورۃ آل عمران۔


آپ کی تعلیم و تربیت سے یہ لوگ پاکیزہ اعمال و عقائد اور اخلاق عالیہ سے متصف اور مزکی ہوجاتے ہیں، اس سے پہلے ضرور صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔
مگر آنحضرتﷺ کی تعلیم و تربیت اور تذکیہ و تطہیر نے ان کو سب گمراہیوں اور برائیوں سے دور اور اتنا محفوظ و مبرا کردیا کہ قرآن شریف میں ان شاگردان رسولﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے نہایت عالی شان اور زوردار الفاظ میں ان کے کمال ایمان و تقویٰ اور رشد و ہدایت اور امانت، دیانت صداقت ،لیاقت اور اپنی دائمی رضامندی اور ان کے قطعی ہونے کا متعدد جگہ اعلان و بیان فرمایا ہے۔ پ ۲۶ سورہ فتح۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر جو چودہ سو سرفروش جانباز پروانہ ہائے شمع رسالت جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے مقدس و نورانی ہاتھ پر کفار کے مقابلہ میں حضور پر نورﷺ کے حکم سے شہید ہوجانے پر بیعت کی تھی، جن کی سرفروشی اور کمال عشق و محبت رسول اللہﷺ کا نقشہ خود شیعہ حضرات کی معتبر کتاب حیات انفلوب جلد دوم ص ۴۰۵ پر مرقوم ہے کہ
عروہ بن مسعود حضورﷺ کی خدمت میں آیا ۔حدیبیہ میں عروہ نے دیکھا کہ صحابہ ؓ حضورﷺ کی اتنی زبردست تعظیم واطاعت کرتے ہیں کہ حکم رسولﷺ کی تعمیل میں ایک دوسرے سے بڑھتے ہیں۔ گردنیں جھکی ہیں،نظریں اٹھاکر نہیں دیکھتے،بات آہستہ کرتے ہیں، وضو کا پانی تبرک کے طور پر ہاتھوں پرلیتے ہیں اور زمین پر گرنے نہیں دیتے، واپس جاکر بیان کیا کہ ایسی تعظیم و اطاعت کسی کی کوئی نہیں کرتا جیسے صحابہ ؓ حضورﷺ کی کرتے ہیں۔
اس بیعت کو بیعت الرضوان کہا جاتا ہے۔کیونکہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔


إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ


جن لوگوں نے یارسول اللہ ! تیرے ہاتھ پر بیعت کی، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔
جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔


لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً


تحقیق اللہ تعالیٰ راضی اور خوش ہوگیا ایمان والوں سےجب بیعت کرنے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے پھر بخوبی جانا جو (صدق و اخلاص اور شوق شہادت، اور حسن نیت) ان کے دلوں میں تھا، پھر اتارا ان پر اطمینان اور انعام دیا۔ ان کو ایک فتح، نزدیک! انہی چودہ سو نورانی وفادار سرفروش جانبازوں کے حق میں آگے اسی سورہ میں فرمایا۔


فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا


پس اللہ تعالیٰ نے اتارا (اپنی طرف سے سکینہ (قلبی وروحانی سکون) اپنے رسول اور ایمان والوں پر اور انکو، تقویٰ کی بات پر قائم دائم کردیا۔ اور وہی تھے اس کے نہایت مستحق اور لائق۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی اہلیت کو اہلیت کو بخوبی جانتا ہے۔ اور اسی سورہ میں ان حضرات کے حق میں فرمایا۔


وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ


جناب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام، کفار کے مقابلہ میں سخت اور مضبوط اور باہم نرم و مہربان ہیں۔ اپنے رب کی بارگاہ میں کثرت سے رکوع و سجود ان کا تو دیکھے گا کہ جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل اور رضامندی طلب کرتے رہتے ہیں۔ کثرت سجود کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے۔ یہی ان کی صفت اور شان تورات میں ہے۔
غرضیکہ سورہ فتح ان ہی صحابہ کرام کے دائمی تقویٰ و طہارت اور ان کی صداقت و لیاقت اور کمال ایمان و اخلاص اور اللہ تعالیٰ کے رضا و خوشنودی کی واضع طور پر بیان کر رہی ہے۔
یہی تو اصحاب بیعۃ الرضوان کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول ﷺ کے نزدیک کمال ایمان و تقویٰ اور دائمی قرب ورضا کا حصول تھا کہ جس کے باعث بعد میں آنے والے مسلمان اپنی مشکلات و مصائب میں اور کفار کے مقابلہ میں فتوحات حاصل کرنے کیلیے یہ کوشش کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ کے صحابہ ؓ میں سے اہل بدر یا اہل بیعۃ الرضوان کو تلاش کریں تاکہ ان کی دعا اور برکت اور کمال روحانی سے مشکل حل ، ذکر فتح حاصل ہو۔
پار ہ ۲۶ سورہ حجرات میں صحابہ ؓ اجمعین کے حق میں فرمایا۔


وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ


پر اللہ تعالیٰ نے محبت ڈال دی، تمہاری دل میں ایمان کی اور اسکو تمہارے دلوں پختہ ۔ مزیں کردیا۔ اور نفرت وکراہت، ڈال دی تمہارے دلوں میں کفر اور گناہ و نافرمانی سے ایسے لوگ ہی ہیں نیک راہ پر۔
سبحان اللہ! کیا ہی صحابہ کرام کی شان ایمان سے اور ان حضرات کوکسی قدر کفر اور گناہ سے کراہت اور اللہ تعالیٰ ورسول اللہﷺ کی نافرمانی سے کس قدر نفرت ہے۔
پارہ ۲۸ سورہ حشر میں انصار و مہاجرین کی شان میں فرمایا۔


لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ


فقراء و مہاجرین جوکہ اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے، جو محض اللہ کا فضل اور رضامندی ڈھونڈھتے اور اللہ اور اس کے رسول مقبولﷺ کی مدد کرتے ہیں۔ یہ ہی لوگ ہیں، انتہائی سچے اور وہ لوگ جنہوں نے مہاجرین کے آنے سے پہلے مدینہ طیبہ میں گھر اور ایمان تیار کررکھا ہے۔


پ ۱۰ سورہ انفال۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ


جو لوگ ایمان لائے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر راہ خدا میں جہاد کئے اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور مدد کی، یہ سب ہی ہیں حقیقی سچے، پکے ایماندار، ان مغفرت الٰہی ہے اور عزت کی روزی ہے۔


پ۱۱ سورہ توبہ
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ


سابقین اولین، مہاجرین وانصار اور ان کے نیکی میں پیروکار، سب سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے، ان کیلئے جنات و بہشت تیار ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
غرضیکہ قرآن مجید میں اس کے علاوہ بھی کئی مقامات میں انصار و مہاجرین کے قطعی بہشتی اور کامل الایمان اور تقویٰ و طہارت، قرب اور رضا الٰہی کے حصول کی صراحت کی گئی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو لوگوں کو دعوت دی ہے کہ اس قسم کا کامل، مکمل پختہ و پسندیدہ ایمان لاؤ۔ جیسا کہ شاگردان رسول مقبول ﷺ صحابہ کرام ؓ لاچکے ہیں۔


پ۱ سورۃ بقرہ
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا


اگر اہل کتاب اس طرح پر ایمان لادیں جس طرح تم مسلمان (صحابہ ؓ ) ایمان لاچکے ہوتو یقیناً راہ ہدایت کو پالیا۔


پ۱ سورۃ بقرہ
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ


اور جب منافق و بے ایمان لوگوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ایمان لاؤ اسطرح کا جس طرح کہ دوسرے لوگ (صحابہ کرام ؓ ) ایمان لاچکے ہیں۔
تو ایسی کامل الایمان اور پاکیزہ جماعت جن کی تعداد وکثرت یدخلون فی دین اللہ افواجا۔ سے واضع ہے جن کو قطعی بہشتی اور دائمی رضا الٰہی کا مستحق اور تقویٰ وطہارت کا اہل قرار دیا جن کے متعلق کفر و فسق اور ہرگناہ سے نفرت کراہت کی شہادت قرآن نے دی کیا ان کے متعلق خیال وگمان کیا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کے سامنے آنحضرتﷺ کی لخت جگر، طیبہ طاہرہ مخدومہ کائنات خاتون جنت ؓ پر ظلم اور ان کاحق غصب کیا گیا اور وہ ساری کامل الایمان فوجیں، انصار مہاجرین بنی ہاشم، بنی عبدمناف اس ناجائز اور ناحق کاروائی میں خاموش اور دم بخود رہیں۔ اگر بالفرض یہ اس طرح مانا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی قرآن مجید میں شہادتیں غلط اور جناب رسول اللہﷺ کی تئیس سالہ تعلیم و تربیت اور تذکیہ و محنت رائیگان و بے اثر ہوکر رہ جائیں گی اور جس دین و شریعت اور قرآن و نبوت کا ثبوت ایسی جماعت کے ذریعہ پہنچا ہو وہ دین و قرآن اور نبی کس طرح قابل اعتماد و حق ہوگا۔ العیاذ باللہ!
واقعہ فدک اور سیدہ ؓ پر ظلم کی کہانی جس کا تذکرہ، قرآن مجید میں ہے۔ نہ فرمان رسول مقبولﷺ میں ہے اگر اس تاریخی واقعہ میں کوئی ایسی بات بالفرض ثابت ہو جس سے صحابہ کرام ؓ شاگردان رسولﷺ کی ساری جماعت کے ایمان اور دیانت و امانت اور نصوص قرآن اور احادیث نبویہ ﷺ سے ثابت شدہ راستی صداقت و تقویٰ پر زدپڑتی ہو۔ تو ایسی تاریخی بات قرآن و حدیث، رسول مقبول کے مقابلہ میں ناقابل قبول یا قرآن و حدیث کے مطابق کسی تاویل ، توجیہ کی مستحق ہوگی اصولی طور پر قرآن مجید اور حدیث رسولﷺ مقبول کے خلاف صرف کسی تاریخی واقعہ پر دین و مذہب اور عقیدہ و ایمان کی بنیاد رکھنا جہالت و ضلالت ہے۔
واقعہ فدک کے متعلق صحیح تشریح ، توجیہ چھوڑ کر یہ سمجھنا کہ صدیق اکبر ؓ ، خلیفہ اول نے ظلم اور ناحق کیا اور تمام مہاجر وانصار اور اہل ایمان کی فوجیں اس ظلم و کفر میں شریک ہوگئے۔ بنی ہاشم اور نبی علی السلام کے عم محترم حضرت عباس ؓ اور اسداللہ الغالب حیدر کرار ؓ جیسے بہادر اور غیور، خاموش رہے۔ یہ قرآن و حدیث کا انکار اور خدا و رسول خدا کو جھٹلانا ہے تو اگر اس واقعہ کی صحیح حقیقت اور توجیہ وتشریح معلوم نہ ہو۔ تو قرآن و حدیث کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقع کو ہی صحیح نہ سمجھنا بہتر اور حسن عاقبت کا موجب ہوگا۔ اس اصولی تشریح کے بعد ہم واقعہ فدک کی حقیقت کو واضع کرتے ہیں۔ بتوفیق اللہ ۔
فدک!
مسئلہ فدک کو سمجھنے کے لئے امور ذیل کو ملحوظ و مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ (۱) فدک ایک گاؤں تھا، جو مدینہ طیبہ سے تین منزل پرتھا جسمیں چشمے اور کچھ کھجور کے درخت رھتے۔
یہ ایک مسئلہ حقیقت ہے کہ فدک بغیر لڑائی کے صحابہ ؓ قبضہ حضور علیہ السلام میں آیا تھا اور امور ​میں تھا۔ اہل سنت اور اہل تشیع بلکہ تمام مورخین مسلم و غیر مسلم کا اس بات میں کامل اتفاق واتحاد اور کلمہ واحدہ ہے کہ فدک اموال نئی میں تھا۔ خود شیعہ حضرات کی کتاب شرح نہج البلاغہ مصنفہ سید علی نقی، فیض الاسلام کے ص ۹۵۹ پر ہے۔
اہل فدک نصف آں را و بقولے تمام را بصلح و آتشی تسلیم نمووند۔
فدک کے لوگوں نے اس کا نصف اور ایک دوسرے قول میں ہے کہ تمام فدک صلح سے، بغیر جنگ کے حضورﷺ کے سپرد کردیا۔
اور فئی قرآن شریف نے ایسے اموال کو قرار دیا ہے۔ جو بغیر جنگ کے صلح سے قبضہ میں آویں۔
(۲) اموال نئی فدک ہویا غیر فدک، اس کے متعلق قرآن مجید میں صاف و صریح واضع الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ پ ۲۸ سورہ حشر۔
ماافاء اللہ علیٰ رسولہ من اھل القریٰ فللہ وللرسول ولذی القربیٰ والیتٰمیٰ والمساکین وابن السبیل کیلایکون دولۃ بین الاغنیا (الآیۃ)
جس قدر اموال نئی ہیں، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولاللہﷺ کیلئے اور زی القربیٰ یعنی رشتہ داران رسولاللہ ﷺ کے لئے ہیں۔ اورعام مسلمانوں میں سے یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے اور فقراء مہاجرین اور انصار مدینہ اور ان کے بعد آنے والے خیر خواہ حاجتمند، مسلمانوں کے لئے ہیں۔
تاکہ اموال نئی دولت مند بے حاجت لوگوں کو لینے دینے اور قبضہ میں نہ آجاویں جو کچھ اور جتنا کچھ رسول اللہﷺ تم حقدار مسلمانوں کو دیدیں لے لو۔ اور جو تم سے روک لیں اس سے تم رک جاؤ۔
اموال نئی کے متعلق یہ آیت بالکل محکم اوراپنے معنیٰ میں نہایت واضع اور، غیر مبہم ہے۔ اور اموال نئی کے مستحق لوگوں کو بخوبی عیاں و نمایاں کرکے بیان کردیتی ہے۔ جو کہ نہ رسول پاک ﷺ سے مخفی تھی۔ اور نہ صدیق وفاروق سے پوشیدہ تھی اور ن ہ سیدہ ؓ و علی ؓ یا کسی دوسرے مسلمان سے کسی حجاب و نقاب مضمر مستتر تھی۔
اور فئی کے متعلق شیعہ حضرات کی کتاب تفویر صانی صفحہ ۲۱۰ پر ہے کہ امام جعفر صادق ؓ نے انفال وفی کے متعلق فرمایا۔
ھی للہ و للرسول علیہ السلام ولمن قام مقامہ بعدہ!
فئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا حق ہے۔ اور اس کا حق ہے جو رسولﷺ کے بعد اس کا قائمقام خلیفہ بنے!۔
اس سے ثابت ہوا کہ فئی کسی کی شخصی ملکیت اور وراثت نہیں۔
(۳) یہ امر بھی فریقین کی معتبر کتابوں سے ثابت و محقق ہے۔ جیساکہ کہ عنقریب ناظرین کی خدمت میں واضع کردیا جائیگا (انشاء اللہ تعالیٰ) کہ اموال فئی فدک وغیرہ کے متعلق جو عمل اور طریقہ جناب رسول پاک ﷺ نے اپنے عہد مبارک اور حیات طیبہ میں مقرر اور جاری فرمایا تھا۔ تمام خلفائے راشدین ؓ کی خلافت راشدہ حتیٰ کہ حضرت علی ؓ اور حضرت حسن کی خلافت راشدہ کے دور تک اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہ ہوا۔ اور عمل رسول مقبولﷺ اور عمل صدیق و فاروق اور عثمان غنی اور علی المرتضیٰ و حسن المجتبیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
یکساں طور پر واحد و متحد رہا ذرہ بھر فرق اور سرموتفادت اس مدت میں ایک لمحہ کے لئے بھی واقع نہیں ہوا یعنی قرآن مجید میں مذکورہ بالا بیان کردہ حکم و ہدایت کے موافق جسطرح خود آنحضرتﷺ نے عمل فرمایا۔ بعینہ وہی عمل جوں کا توں تمام خلفائے راشدین نے جاری رکھا ہا۔ مروان و نجیرہ نے اپنی حکومت کے رو میں قطع و برید کی توجناب عمر ابن عبدالعزیز نے اپنی خلافت کے زمانہ میں پھر وہی عمل مطابق حکم قرآن اور مطابق عمل رسول اللہﷺ و خلفائے راشدین از سرنوجاری فرمایا۔
اگر نعوذباللہ صدیق ؓ و فاروق ؓ وغیرہ کا یہ عمل ظالمانہ، فاصبانہ یا مرتدانہ و منافقہ نہ کہا جائے، تو ان مہذب خطابات اور ایسے شائستہ ، ومقدس کلمات سے اسی عمل کو جاری وشروع فرمانے والے (آنحضرتﷺ) اور باقی اور قائم و دائم رکھنے والے (حضرت علی ؓ و حضرت حسن ؓ ) کس طرح مستثنیٰ اور میرا ہوں گے۔ (العیاذ باللہ)
بلکہ یہ امر بھی ثابت ہے کہ اموال فئی میں سے اراضی وباغات بنی تضیر وغیرہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کی تولیت میں دیدیئے تھے۔ کہ وہ انکی پیداوار اور آمدنی کے ہر قسم کے منتظم ومتولی رہیں۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات حضرت عمر ؓ کی خلافت میں ان اموالی فئی کوعمل رسول مقبول ﷺ کے مطابق تمام مستحقین مذکورہ میں تقسیم کرتے تھے۔
(۴) نیز یہ امر بھی فریقین کی معتبر مستند مسلمہ کتابوں میں ثابت ہے کہ صدیق اکبر ؓ نے سیدہ ؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں جب تک زندہ ہوں، ان اموال فئی فدک وغیرہ میں عمل رسول مقبولﷺ کو ہی جاری رکھوں گا ان میں کسی کو کسی قسم کا تغیر وتبدل اور کوئی دوسرا طریقہ جاری نہ کرنے دوں گا ہاں میرے ذاتی مال اموال میں سے آپ کو اختیار ہے، جو چاہیں لے لیں۔ سب کچھ آپ پر قربان ہے۔
چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب حق الیقین کے صفحہ ۲۳۱ پر ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے بہت سے فضائل و مناقب جناب سیدہ ؓ کے بیان کئے اور کہا۔
اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی بگیر۔ تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد۔
میں اپنا مال جائیداد دینے میں تم سے دریغ نہیں رکھتا۔ جو کچھ مرضی چاہے لے لجیئے آپ اپنے باپ کی امت کی سیدہ ؓ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں۔
آپ کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ کا حکم میرے ذاتی مال میں چوں و چرا جاری و منظور ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ کے والد بزرگوارﷺ کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا۔
اسی قسم کے الفاظ بخاری شریف میں ہیں۔ صدیق اکبر ؓ نے سیدہ کی خدمت میں عرض کیا۔
قرابۃ رسول اللہ ﷺ احب الی من قرابتی۔!
جناب رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار مجھے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ محبوب ہیں۔
نیز بخاری شریف میں ہے کہ سیدہ ؓ کی خدمت میں عرض کیا۔
لست تار گاً شیئاً کان رسول اللہ ﷺ یعمل بہ الا انی عملت بہ فانی اخشی ان ترکت شیئاً من امرہ ان ازیغ۔!
میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑسکتا جس پر جناب رسول اللہ ﷺ عمل کرتے تھے۔ میں ضرور وہی عمل جاری رکھوں گا۔کیونکہ میں ڈرتا ہوں، اگر کوئی چیز آپﷺ کے عمل سے چھوڑدوں تو گمراہ ہوجاؤں گا۔ یعنی سیدہ ؓ کی خدمت اپنے مال اموال پیش کرنے سے دریغ نہ کیا مگر فدک وغیرہ اموال فئے میں حکم ورضاء رسول ﷺ کے خلاف کچھ کرنے کو گمراہی جانا۔
(۵) مسئلہ فدک میں یہ امر سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ فدک کی محرومی کی وجہ سے جناب صدیق اکبر ؓ پر سیدہ ؓ کی ناراضگی کی کہانی اہل السنت والجماعت کی کسی معتبر کتاب میں جناب سید النساء بی بی فاطمۃ الزہرا ؓ کی زبانی ثابت نہیں کی جاسکتی۔ یہ کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ سیدہ ؓ نے خود فرمایا ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ نے میرا حق غصب کرلیا ہے اور مجھ پر ظلم کیا ہے میں اس سے ناراض ہوں اس سے کبھی بات چیت نہ کروں گی۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ قیامت تک کوئی شخص اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اس قسم کا ثبوت پیش نہیں کرسکتا ناراضگی جو فعل قلب ہے جب تک خود ظاہر نہ کی جائے دوسرے کو اس کا علم نہیں ہوسکتا ہاں اندازے اور قیاس سے بوجہ بعض قرائن و حالات کے دوسرا شخص بیان کرے گا۔ مگر بالفرض اگر وہ دوسرا شخص معصوم بھی ہو اندازے اور قیاس سے کسی شخص کے متعلق کوئی رائے ظاہر کرے تو اس رائے و قیاس مین غلط فہمی کا احتمال ہوسکتا ہے جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام معصوم نبی نے کشتی توڑنے کے وقت رائے ظاہر کی، تونے کشتی کو اس لئے توڑا کہ کشتی والوں کو غرق کرے، حالانگہ حضرت خضر علیہ السلام نے یہ کام دوسری غرض کے لئے کیا تھا تو دوسرے شخص کے متعلق کوئی رائے یہ ضروری نہیں کہ وہ صحیح ہو۔ تو سیدہ ؓ اور صدیق ؓ کے متعلق کسی دوسرے شخص کا یہ خیال کہ باہم ناراض تھے۔ اگرچہ وہ شخص بالفرض معصوم بھی ہو۔ یقیناً اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک سیدہ ؓ خود بنفس نفیس اپنی زبانی ناراضگی کا اظہار نہ فرمائیں۔ اور یہ بات قطعاً کسی معتبر کتاب اہل سنت سے ثابت نہیں ہوسکتی۔
مگر اس کے برعکس شیعہ کی معتبر ترین کتابوں میں سیدہ ؓ کی زبانی جناب علی الرمرتضیٰ ؓ پر اس فدک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے، جس کا ازالہ حضرت علی ؓ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا۔ بلکہ فدک کو جناب رسول کریم علیہ السلام اور صدیق و فاروق وغنی ؓ اجمعین والے طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدین کے طرز عمل میں کسی تغیر کو جائز نہ سمجھا۔
جناب علی المرتضیٰ رضۃ جن پر سیدہ ؓ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو سیدہ ؓ نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا۔ اور۰ ابوبکر صدیق ؓ جن پر سیدہ ؓ کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں۔ ان کو ظلم، غاصب سمجھنا کس انصاف اور کس دیانت پرمبنی ہے؟
(۶) مسئلہ فدک کو سمجھنے کیلئے یہ حقیقت بھی خوب ملحوظ اور ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شیعہ حضرات کے نزدیک سیدہ ؓ جناب رسول اللہﷺ کے حیطان سبعہ (سات باغوں ) پر قابض اور متصرف تھیں۔ اور حضرت علی ؓ کے املاک ، اراضی و باغات اس کے علاوہ تھے۔ ان سات باغوں کی وراثت حسب روایت شیعہ آنحضرت ﷺ کے حقیقی چچا حضرت عباس ؓ نے جناب سیدہ ؓ سے طلب کی تو حضرت علی ؓ اور سیدہ ؓ نے یہی جواب دیا کہ ان میں وراثت نہیں ہوسکتی اور ان سات باغوں میں سے ایک حب بھی حضرت عباس کو نہ دیا۔
عن احمد ابن محمد عن ابی الحسن الثانی علیہ السلام قال سائتہ عن الحیطان السبعۃ التی کانت میراث رسول اللہ ﷺ لفاطمۃ علیہ السلام فقال لا۔ انما کانت وقفاً۔ کان رسول اللہ ﷺ یا خذ الیہ منھا ما ینفق علیٰ اضیافہ ۔فلما قبض جاء العباس یخاصم فاطمۃ فیھا۔ فشھد علی علیہ السلام وغیرہ انما وقف علی فاظمۃ علیہ السلام وھی الدلال والعفاف والحسنیٰ والصافیہ ومالا ابراھیم والمبین و البرقہ۔ !
احمد ابن محمد نے امام موسیٰ کا ظم علیہ السلام سے روایات کی کہ میں نے امام موسیٰ کا ظم سے ان سات باغوں کے متعلق دریافت کیا جو فاطمہ علیہ السلام کے پاس جناب رسول اللہ ﷺ کی میراث تھے۔ تو امام صاحب نے فرمایا میراث نہ تھے بلکہ وقف تھے۔ جناب رسول اللہ ﷺ ان میں سے اتنا لے لیتے تھے جو کہ مہمانوں کو کافی ہوتا تھا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے۔ تو حضرت عباس ؓ نے ان سات باغوں کی بابت جناب فاطمۃ ؓ سے جھگڑا کیا پھر حضرت علی ؓ وغیرہ نے شہادت دی وہ وقف ہیں حضرت فاطمہ پر۔ اور وہ سات باغ دلال، عفاف، حسنیٰ، صافیہ ، مالام ابراہیم، مبیت اور برقہ تھے۔!
اب قابل غور امر یہ ہے کہ جناب سیدہ کے پاس یہ سات باغ بھی تھے اور حضرت علی رضۃ کی اراضی اور باغات بھی علاوہ تھے تو فدک کے اموال فئے کے متعلق اس قسم کا نظریہ کہ یہ اموال فدک آنحضرت ﷺ نے اپنی بیٹی کو دے دیئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شان نبوت پر سخت حملہ ہے جبکہ کتب شیعہ کے بینا کے مطابق فدک کی پیداوار ہزاروں دینار تھی جیسےکہ ملا باقر مجلسی حیات القلوب میں نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اہل فدک سے معاہدہ کرلیا کہ وہ ہر سال چوبیس ہزار دینار دیں۔ تو اس قسم کا نظریہ خلاف قرآن اور شان نبوت کے منافی ہے کہ آنحضرت ﷺ ، سات باغ بھی سیدہ ؓ کو دے جاویں اور ہزاروں دینار جو لاگھوں روپے ہوتے ہیں کی آمدنی کے اموال فئی فدک بھی سیدہ رضۃ کو دے جاویں۔ یہ تو کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم کی نص صریح کے خلاف رسول پاک ﷺ کی طرف ایک خود غرضانہ خویش پروری اور اربانوازی کا بدترین الزام منسوب کرنا ہے (العیاذباللہ)
اور آپ کی شان رحمۃ اللعالمینی پر سخت بے انصافی اور بے رحمی کا دھبہ ہے حالانکہ اصحاب صفہ و دیگر فقراء مہاجرین و انصار کے پاس بدن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور پیٹ پالنے کے لئے نان جویں میسر نہ تھی اور جہاد فی سبیل اللہ کے ضروریات اور مصارف میں اس قدر تنگی تھی کہ آنحضرت ﷺ کا آخری غزہ تبوک جو عیش اعسرۃ اور سخت تنگی کی گھڑی سے مشہور ہے۔ اس غزوہ میں، مجادوں ایک ایک دانہ کھجور کا ملتا رہا اور جب وہ ختم ہونے کو آگیا تو چند مجاہدوں کو ایک دانہ دیا جاتا تھا جسے وہ بارے بارے چوس کر پانی پی لیا کرتے تھے اور قرآن مجید میں اس غزوہ کی سواریوں کا نقشہ ان الفاظ میں پیش کرتاے۔


وَلا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ


اور ان صحابہ کرام ؓ پر کوئی گناہ نہیں جو آپ کی خدمت میں آکر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے جہاد میں جانے کیلئے سامان اور سواری کا انتظام فرمایئے آپ ان کو جواب دیتے ہیں کہ مجھے کہیں سے تمہارے لئے سواریاں نہیں مل سکتیں تو وہ بیچارے ایسی حالت مین واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ٹپک رہی ہوتی ہے اس غم والم میں کہ انکو جہاد فی سبیل اللہ میں جانے کے لئے کچھ خرچ حاصل نہیں ہوسکتا۔
تو کیا العیاذباللہ ، آنحضرت ﷺ نے تمام فقراء ، مساکین، یتامیٰ انصارومہاجرین کے حقوق اور ضروریات اسلامی کو پس پشت ڈال کر خلاف حکم قرآن اتنا تمام مال اپنی بیٹی کی ملکیت میں دیدیا تھا حالانکہ خود شیعہ کی کتابوں اور اہلسنت کی کتابوں میں ثابت ہے کہ سیدہؓ نے جب آنحضرت ﷺ سے خانگی کاروبار میں امداد کے لئے لونڈی مانگی تو آنحضرتﷺ نے سبحان اللہ، الحمداللہ اللہ اکبر کی تسبیحات نماز کے بعد تنتیس ۳۳ بار پڑھنے کی تعلیم فرمادی اور فرمایا کہ خادموں نوکروں سے ان تسبیحات کا پڑھ لینا بدر جہا بہتر اور کار آمدہے، اور جب سیدہؓ نے فدک کے متعلق سوال کیا تو آنحضرتﷺ نے صاف انکار کردیا اور اپنی زندگی میں اسلامی ضروریات اور بنو ہاشم اور یتیموں ، مسکینوں اور بیوگان کی ضرورت میں صرف کرتے رہتے مگر سیدہؓ نہ دیا۔ جیساکہ مشکوٰۃ شریف، ابوداؤد شریف میں مرقوم ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آںحضرتﷺ کو حکم فرمایا۔


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحاً جَمِيلاً وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآَخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْراً عَظِيماً


اے نبی علیہ السلام اپنی ازواج کو فرمادیجیئے ، اگر تم دنیا کی زندگی اور اسکی زیب و زینت چاہتی ہو تو پس آؤ۔ ہم تمکو یہ سامان دنیا دیکر اپنے سے اچھے طریقہ پر دور اور جدا کردیں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دارآخرت کی طلبگار ہو تو اللہ تعالیی نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کیلئے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
اور آگے فرمایا۔


إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا


اللہ تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تم اہل بیت نبوی کو حب دنیا کی میل سے پاک صاف کر کے اللہ اور رسولﷺ اور آخرت کی محبت کے پاک مقام اور عالی مرتبہ پر فائز کردے۔
تو کیا رسول پاکﷺ ازواج مطہرات کے لئے جس مبغوض چیز سامان دنیا کو ناپسند فرمارہے ہیں۔ اس مبغوض و مذموم سامان دنیا کو اپنی لخت جگر سیدہؓ کیلئے پسند کیا اور تمام مستحق لوگوں کو محروم کر کے العیاذباللہ اتنا کثیر مال سیدہؓ کو دے دیا اور جس دنیا سے پاکی و تطہیر کی بجائے جاگیرداری اور دنیاداری میں ملوث اور مبتلا کر گئے ۔
تو آیات قرآنیہ اور طریقہ نبویہ اس بات پر صراحۃً دلالت کرتے ہیں کہ جن حضرات نے ہبہء فدک کی یہ کہانی گھڑی ہوئی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فدک سیدہؓ کو ہبہ کردیا تھا۔ یہ بالکل اور موضوع اور شان نبوت کے خلاف ہے اور ہبہ کی کہانی کو شیعہ حضرات کا دوسرا دعویٰ بھی رد کردیتا ہے کہ سیدہؓ نے فدک کے بارے میں صدیق اکبرؓ سے میراث رسول اللہﷺ کا مطالبہ کیا۔
تو بالفرض اگر فدک کا ہبہ ہوچکا تھا تو اس میں پھر میراث کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ جبکہ ایک چیز مورث کی ملکیت بھی نہیں رہی پھر اس میں دعویٰ میراث کیسے ہوسکتا ہے تو حسب قول شیعہ سیدہؓ کا دعویٰ کرنا بھی ہبہ کی کہانی با بالکل لغو اور باطل قرار دیتا ہے۔
میراث انبیاء علیہم السلام!
اب میراث کے دعوے کی حقیقت بھی سمجھ لیجیئے جب سیدہؓ اور علیؓ خود حضرت عباسؓ کو ان مذکورہ سات باغوں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ میراث رسول علیہ السلام نہیں۔ یہ تو وقف رسولﷺ ہیں۔ ان میں میراث نہیں۔
تو فدک جس کو قرآن مجید نے صراحۃً وقف وفئی قراردیا۔ اس میں کیسے وراثت کا سوال جائز ہوسکتا ہے۔ جس طرح ان سات باغوں اور اموال فئی فدک وغیرہ میں وراثت کا سوال غلط ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے تمام اموال میں وارثت کا سوال باطل اور غلط ہے ۔ اس میں اہل سنت اور اہل تشیع کی معتبر روایات واحادیث متفق اور متحد ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی مالی وراثت ہرگز نہیں ہوتی بلکہ صرف علوم و اخلاق نبوت ہی ہیں جو ان مقدس بزرگوں کی وراثت ہوتی ہے۔
دلیل اول:​(۱) حضرت امام جعفر صادقؒ نے فرمایا۔
قال رسول اللہﷺ ان العماع ورثہ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثو! دیناراًولادرہما ولکن اورثواالعلم فمن اخذ منہ اخذ بحظ وانر۔ (شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی ص ۱۸)
ارشاد فارمایا جناب رسول اللہﷺ نے کہ انبیاء کے وارث علماء ہی ہیں۔ کیونکہ انبیاء دینار ودرہم (مال دنیا) کا کسی کو وارث نہیں بناتے لیکن علم وراثت میں دیتے ہیں پس جس نے ان کے علم سے حصہ لیا اس نے اچھا حصہ پالیا۔
دلیل دوم:​حضرت علی المرتضیٰؓ شیر خدا نے اپنے بیٹے محمد بن حنیفیہ کو وصیت فرمائی۔
وتفقھ فی الدین فان الفقھار ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثوادینارًا ولادرھماً ولٰکنھم ورثو اللعلم فمن اخذ منہ اخذ بحظ وافر۔!
اے بیٹے دین کا پورا کامل علم حاصل کر۔ کیونکہ دین کو پوری طرح سمجھنے والے عالم انبیاء کے وارث ہیں۔ کیوںکہ انبیاء نے دینار و درہم (دنیاوی اموال) کا وارث کسی کو نہیں بنایا وہ تو صرف علم کی وراثت دے جاتے ہیں تو جس نے اس علم دین کو حاصل کیا اس نے اس علم دین کو حاصل کیا اس نے اچھا حصہ پالیا۔
دلیل سوم (۳)​امام جعفرؓ نے فرمایا۔


انا العلماء ورثۃ الانبیاء وذالک ان الانبیاء لم یورثہ ادرھما ولادیناراً وانما اورثو احادیث من احادیثھم فمن اخذ بشی منھا فقھد اخذا حظاً وافراً (اصول کافی ص ۱۷)


بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء اپنی وراثت درہم ودینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ احادیث (علوم و احکام شریعت)ہی اپنی وراثت چھوڑجاتے ہیں۔ پس جس شخص نے احادیث وعلوم نبوت سے کچھ حصہ لیا تو اس نے بڑا کافی وافی حصہ لی۔
تو ان تینوں روایات نے ثابت کردیا کہ جناب رسول اللہﷺ نے جناب علی المرتضیٰ ؓ ور جناب امام جعفر صادقؓ نے صاف طور پر فرمادیا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت مالی درہم ودینار اموال دنیا ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کی وراثت صرف علوم واحادیث واخلاق نبوت ہوتی ہے جسطرح کہ تیسری روایت میں لفظ انما جو حصر کے لئے ہوتا ہے دلالت کررہا ہے۔
دلیل چہارم (۴): ​حضرت امام جعفر صادقؒ نے فرمایا:


ورث سلیمان داؤد وورث محمد ﷺ سلیمان۔ (اصولی کافی ص ۱۳۷)


حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے اور جناب محمد علیہ السلام حضرت سلیمان علیہ السلام کے وارث ہوئے۔
تو حضرت امام جعفرصادقؒ کے اس ارشاد پر غور کیجیئے کیا جناب محمد مصطفیٰﷺ حضرت سلیمان علیہ السلام کے قریبی، جدی رشتہ دار ہونے کے باعث ان کے مال اموال کے وارث ہوئے یا ہوسکتے تھے۔ تو امام صاحب کا مقصد یہاں بھی وہی وراثت نبوت و علوم و اخلاق نبوت سے یعنی انبیاء علیہم السلام کی وراثت علمی دینی، اور اخلاقی روحانی ہی ہوتی ہے نہ کہ مالی ودنیاوی!
دلیل پنجم (۵):​شیعہ کی معتبر کتاب خصال بن بابویہ ص ۳۹) پرثابت ہے


اتت فاطمۃ بنت رسول اللہ ﷺ فی شکوٰہ الذی توفی فیہ فقالت رسول اللہ ھذان ابنان فورثھما شیئاً قا امام الحسن فان لہ ھیتی امام الحسین فان لہ جراءتی۔


جناب سیدہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں مرض الموت میں آئیں اور عرض کیا۔ یہ دونوں بچے ہیَں۔ ان کو کچھ میراث دے دیجیئے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ حسنؓ کے لئے میری ہیبت اور حسینؓ کےلئے میری جرائت ہے۔
آںحضرتﷺ کے اس ارشاد پر غور کیجیئے کہ آپ نے اپنی وراثت میں اپنے ان دونوں عزیزوں کو اپنے اخلاق ہی عطا کئے اور مالی وراثت کا نام ونشان بھی نہ لیا۔ نیز شیعہ کی معتبر کتاب "مناقب فاخرہ اللعترۃالطاھرۃ " ص ۱۸۹ پر بھی یہ روایت ثابت ہے اور شرح نہج الباغۃ حدیدی جلد دوم جزرشانزدہم ص ۲۶۱ پر بھی یہ روایت موجود ہے۔


دلیل ششم (۶):​

حسن الفضیل بن یسار قال سمعت ابا جعفر علیہ السلام بقول لاواللہ ماورث رسول اللہ العباس ولاعلی ولاورثۃ الافاظمۃ علیہا السلام (من لایحفر الفقیہہ ج ۲ ص ۲۱۷)


فضیل ابن یسار نے نقل کیا کہ میں نے حضرت امام محمد باقر سے سنا وہ فرماتے تھے اللہ کی قسم کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اور چچازاد بھائی حضرت علیؓ اور دوسرے تمام رشتہ دار آپ کے وارث نہ ہوئے۔ آپﷺ کی وارث صرف اکیلی حضرت فاطمہؓ ہی ہوئی تھیں۔
من لایحفر الفقیہہ کی اس روایت معتبرہ پر غور کیجیئے کہ امام محمدباقر فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی وراثت نہ حضرت عباسؓ کو ملی اور نہ کسی دوسرے وارث ورشتہ دار، ازواج مطہرات وغیرہ کو سوائے بی بی فاطمہ علیہ السلام کے کوئی حقدار وراثت نہ تھا۔​
تو اب غور کیجیئے قرآن کریم میں جو وراثت مالی کا قانون اور حکم منصوص بیان فرمایا گیا ہے کہ وراثت مالی لڑکی کو نصف اور ازواج کو آٹھواں حصہ دیا جائے۔ پاس اگر جناب رسول اللہﷺ کی بھی یہی مالی وراثت بموجب حکم قرآن ہوتی۔ تو پھر، شیعہ حضرات کے نزدیک امام صاحب کیوں یہ ارشاد فرماتے کہ حضور علیہ السلام کے تمام رشتہ دار اور حقدار آپ کے وارث نہ ہوئے بلکہ صرف اکیلی جناب فاطمہ علیہ السلام مالک ووارث ہوئی تھیں۔ یہ تمام مذکورہ روایات صراحۃً دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کی مالی وراثت اس طرح ہرگز نہ تھی جس طرح کہ عام مسلمانوں کی مالی وراثت ان کے ورثاء اور رشتہ داروں میں، بموجب حکم قرآن تقسیم ہوتی ہے۔ بلکہ حضورعلیہ السلام اس مالی وراثت کے حکم سے خارج اور مستثنیٰ ہیں۔
اور اہل السنت والجماعت بھی تو یہی کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے ارشاد


نحن معاشرالانبیاء لا نورث ماترکنا فھوصدقۃ۔


ہم انبیاء مالی وراثت نہیں چھوڑجاتے بلکہ جو مال چھوڑ جاتے ہیں وہ وقف وصدقہ فی سبیل اللہ ہوتا ہے۔
کے مطابق آنحضرت ﷺ کی مالی وراثت نہ تھی اور آپ اس مالی وراثت کے حکم سے خارج و مستثنیٰ ہیں۔

سیدہؓ کے سوال کی کیفیت
عام طور پر شیعہ حضرات اور ان کے ذاکرین ومجتہدین بڑی شدت سے یہ دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ اہل سنت کی بخاری شریف میں ثابت کہ سیدہؓ ابوبکرصدیقؓ کے دربار خلافت میں گئیں۔ اور وراثت رسول علیہ السلام کا سوال کیا مگر ابوبکر صدیقؓ نے حدیث رسول سناکر سیدہؓ کو خالی ہاتھ واپس کیا جس سے وہ ناراض ہوگئیں۔
اور بعض اہل سنت والجماعت بھی اپنے مطالعہ کی کمی اور بخاری شریف وغیرہ کتب احادیث کو پوری طرح نہ دیکھنے کے باعث یہی خیال کرتے ہیں کہ سیدہؓ نے جاکر جناب ابوبکرصدیقؓ سے وراثت کا سوال کیا۔
مگر یہ خیال بالکل ٖغلط ہے بخاری شریف اور مسلم شریف وغیرہ کی تحقیق سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ سیدہؓ بالکل جناب ابوبکرصدیقؓ کے پاس دربار خلافت میں اس سوال کے لئے نہیں گئیں۔ بلکہ سیدہؓ نے اپنا آدمی بھیجا۔
جس نے جاکر جناب ابوبکرصدیقؓ سے یہ سوال کیا دیکھیئے بخاری شریف جلد اول، ص ۵۲۶ پر ثابت ہے۔
عن عائشۃ ؓ فاطمۃ ارسلت الیٰ ابی بکر تسئلہ میراثھا من النبی ﷺ مما فاء اللہ
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ جناب فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آدمی بھیج کر اموال فئی میں میراث کا سوال کیا۔ الخ۔
تو بخاری شریف کے یہ الفاظ ارسلت فاظمۃ، الخ صراحۃً دلالت کرتے ہیں کہ خود سیدہؓ نہیں گئیں بلکہ کسی قاصد کو بھیج کر سوال کیا۔ تو جس روایت میں سیدہؓ کے سوال کرنے اور جنے کا ذکر ہے وہ مجازی طور پر ہے۔ کیونکہ واقعہ واحد ہے۔ یعنی جو کام کسی کے حکم سے کیا جاتا ہے اس کام کو اس حکم کرنیوالے کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے نہر نکالی ہے یا سڑک بنائی ہے۔ تو خود بادشاہ نہ تو نہرنکالتا ہے اور نہ سڑک بناتاہے۔ بلکہ مزدور و مستری یہ کام کرتے ہیں۔ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے وہ کام اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اس لئے یہاں بھی سوال کرنے یا آنے کو جو ذکر سیدہؓ کے متعلقہے وہ بطور مجاز اور حکم دینے اور آدمی بھیجنے کے ہے۔

سیدۃؓ کے سوال کی حقیقت و حکمت
جب آنحضرتﷺ کی مالی وراثت نہ تھی اور جبکہ صراحۃً قرآن مجید اموال فئی کے متعلق حکم دے رہا ہے کہ اللہ و رسول اللہﷺ اور ذوالقربیٰ اور یتامیٰ ومساکین اور ابن سبیل اور فقراء مہاجرین وانصار وغیرہ کیلئے ہیں۔ کسی کے قبضہ میں اس طرح نہ دیئے جائیں، کہ یہ مال دولت مند و بے حاجت لوگوں کے قبضہ اور تصرف اور لینے دینے میں آجاویں تو سیدہؓ کے وراثت کے سوال کا مقصد کیا تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے جو زہدۃالمحقیقین، عمدۃ المتاخرین حضرت علامہ سیدہ محمد انورشاہ صاحب مرحوم نے عرف شذی شرح ترمذی صفحہ ۴۸۵ پر سید سمہودی کا قول نقل کیا ہے: کہ "حضرت فاطمہ ؓ کا سوال ترکہ کے حصول ملکیت یعنی مالک بننے کے خیال اور ارادہ سے نہ تھا۔ بلکہ صرف ان اموال ٖفئی اور وقف اموال میں بطور قرابت و رشتہ داری متولی بننے کے متعلق تھا۔" جس کے جواب میں صدیق اکبرؓ نے حدیث رسول اللہﷺ سنا دی جوکہ حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہ کبار صحابہ ؓ بہت سے حضرات جانتے تھے کہ نبی علیہ السلام کے اموال متروکہ میں کسی قسم کی وراثت نہیں چل سکتی۔ نہ مالکانہ، نہ متولیانہ۔ بس اس حقیقت کے بعد پھر کبھی سیدہؓ کو صدیقؓ سے اس سوال کی نوبت نہیں آئی۔ جبکہ صدیق اکبرؓ نے کہا۔
ان رسول اللہﷺ قال لانورث ما ترکنا فھو صدقۃ۔ انما یا کل آل محمد ﷺ من ھذا المال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانی واللہ لااغیر شیئاً من صدقات النبی ﷺ التی کانت علیھانی عھد النبی ﷺ ولا عملن فیھا بما عمل فیھا رسول ﷺ ۔ (بخاری شریف جلد اول ص ۵۲۶)
تحقیق جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ہماری مالی وراثت نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ وقف ہوتاہے تو اس مال سے آل محمد ﷺ کا نان نفقہ کرچ ہوتا رہیگا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تحقیق میں خدا کی قسم کر کے کہتاہوں کوئی معمولی سی معمولی چیز بھی صدقات رسول اللہﷺ میں سے تبدیل نہ کروں گا۔ وہ صدقات جسطرح کہ جناب رسول اللہﷺ کے عہد میں تھے۔ جوں کے توں اس طرح رکھوں گا اور ضرور بالضرور ان صدقات میں بعینہ وہی عمل اور دستور جاری رکھوں گا۔ جو خود حضور پرنورﷺ کا عمل تھا۔ یعنی صدیق اکبرؓ نے سیدہؓ کی خدمت میں یہی کہلا کر بھیجا کہ مین عمل رسول اللہ ﷺ کو جاری رکھوں گا اور اس مال سے آل محمد ﷺ کا خرچ خوراک ہوتا رہے گا۔ تو سیدہؓ صدیق اکبرؓ کے اس جواب سے مطمئن ہوگئیں۔ کہ صدیق اکبرؓ عمل نبویﷺ میں کسی قسم کے ردوبدل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
خود شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں میں بھی ثابت ہے کہ سیدہؓ ، صدیق اکبرؓ کے اسی جواب پر مطمئن اور خوش ہوگئیں۔ اور ان اموال فئے فدک وغیرہ سے اپنے تمام، اخراجات خانگی صدیق ؓ سے وصول کرتی رہیں۔ صدیقؓ نے سیدہ ؓ کی خدمت میں عرض کیا۔
وذالک علی اللہ ان اضع بھا کما کان یصنع فرضیت بذالک واخذت العھد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیھم منھا مایکفیھم الخ۔ (شیعہ نہج البلاغۃ درۃ نجفیۃ ص ۳۳۲)
میں تیرے سامنے اللہ تعالیٰ کا عہد کر کے کہتاہوں کہ میں ان اموال فئی فدک وغیرہ میں اسی طرح کروں گا۔ جس طرح آنحضرت علیہ السلام کرتے تھے پس سیدہؓ اس بات پر راضی اور خوش ہوگئیں اور صدیق اکبرؓ سے یہی عہد لے لیا اور صدیق اکبرؓ ان اموال فئی کی پیداوار وصول کر کے حضرت سیدہؓ اور ان کے گھرانے کیلئے ان کا تمام کرچ کافی دوانی دے دیا کرتے تھے۔
درحقیقت سیدہؓ کے سوال کا مقصد اور منشاء یہی تھا کہ قریبی رشتہ داروں کو اس وقف رسول اللہﷺ اموال فئے کا متولی بنایا جاوے۔ مگر چونکہ اس متولی بنانے میں یہ اندیشہ اور خطرہ تھا کہ لوگوں میں یہ غلط فہمی ہوجائیگی کہ اموال رسول اللہﷺ جو وقف تھے ان میں وراثت جاری کردیگئی اور آئیندہ کے لئے ان اموال فئے کو بجائے وقف سمجھنے کے ورثاء اور رشتہ داروں میں تقسیم ہوجانے کا غلط خیال جاری ہوجاتا جس کو ابتدا ہی سے بند کردیاگیا۔
اور اسی وجہ سے حضرت عمرؓ نے بھی اپنی خلافت کے دوران میں حضرت علیؓ اور حجرت عباسؓ کو اراضی اور باغات فئی، جوان دونوں حضرات کی تولیت میں تھے تقسیم تولیت کے سوال پر انکار کردیا۔ تاکہ ان میں تقسیم بطور وراثت نہ سمجھی جاوے یا سیدہؓ اس سوال کو عدالت میں پیش کراکر حضورﷺ کی نبوت کی صداقت کو واضع فرمانا چاہتی تھیں تاکہ عدالت میں یہ بات پیش ہوکر خوب واضع و مشہور ہوجائے کہ حضور کا اعلان نبوت صرف اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور تبلیغ دین اورہدایت خلق کے لئے تھا نہ کہ اپنی اولاد واقرباء کو جاگیردار اور مالدار بنانے کیلئے حتیٰ کہ حضورﷺ کی مقبوضہ جائیداد تک بھی کسی رشتہ دار کو نہیں مل رہی۔ نبی علیہ السلام کی جان ومال ہر چیز، اللہ تعالیٰ کے لئے وقف تھا
یہ سوال عدالت میں پیش نہ ہون کی صورت میں ممکن تھا کہ لوگ یہ خیال کرتے کہ حضورﷺ کی وراثت بھی باقی لوگوں کی طرح تقسیم ہوئی ہوگی۔
اور اس کے ساتھ ساتھ سیدہؓ نے اپنی اولاد وورثاء کیلئے بھی اپنی موجودگی میں یہ فیصلہ کراکر واضع کرادیا تاکہ میری اولاد کبھی میرے بعد اموال رسول میں میراث رسول میراث حاصل کرنے کی سعی نہ کرتی رہے۔ یا سیدہؓ صدیق اکبرؓ کے خیال وارادہ کی تحقیق کرنا چاہتی تھیں کہ حضور علیہ السلام کی طرح ایتمیٰ ۔ مساکین اور بنی ہاشم وغیرہ مستحقین پر خرچ کریں گے۔ یا کوئی طرز جدید اختیار کریں گے۔ جب صدیق اکبرؓ نے یہ کہا کہ " میں بعینہ اسی طرح کروں گا جس طرح آںحضرت ﷺ کرتے تھے تو سیدہؓ مطمئن اور خوش ہوگئیں۔
نیز سیدہؓ نے اس سوال وجواب کے ذریعہ صدیق کی صداقت کو دنیا کے سامنے واضع کردیا کہ خلیفہ رسول مقبول حکم رسول مقبول ﷺ کے خلاف کسی کی دو رعایت نہیں کرتا۔ خواہ کیسی محبوب و معززترین، ہستی کیوں نہ ہو۔

اہل تشیع کے دلائل وراثت

دلیل اول
(1) قرآن مجید ہے ۔


يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ


اللہ تعالیٰ تمہیں حکم کرتے ہیں کہ تمہاری وراثت سے تمہاری اولاد میں ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملنا ہے۔
اس آیۃ میں عام حکم ہے جس سے جناب رسول اللہ ﷺ باہر نہیں ہیں۔ ان کا مال بھی ان کی بیٹی کا حق تھا۔ لیکن ابوبکر صدیقؓ نے سیدہؓ کو وراثت نہ دی اور صریح قرآن کے خلاف حدیث نحن معاشرالانبیاء لانورث خود اپنی روایت پیش کر کے سیدہؓ کو حق نہ دیا۔

الجواب

اس آیت میں خطاب امت کو ہے اور جناب رسول اللہ ﷺ اس میں داخل نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ اہلسنت اور اہل تشیع دونوں کے مذہب میں ثابت و محقق ہے کہ انبیاء کرام کی مالی وراثت ہرگز نہیں ہوتی۔ جس طرح کہ ہم اہل تشیع کی معتبر کتابوں سے جناب رسول اللہ ﷺ اور حضرت علیؓ اور امام جعفرصادقؓ کے فرمان نقل کرچکے ہیں اور امام اہل سنت کی کتابوں میں خود حضور علیہ السلام سے صحیح احادیث، متعدد صحابہ کرامؓ حضرت حذیفہؓ بن یمان، زبیر بن العوام، عباس وعلی، عثمان ،عمر، عبدالرحمٰن بن عوف، سعد ابن وقاص ابودرداء، ابوہریرہ اور ازواج مطہرات سے منقول و مروی ہیں کہ انبیاء کرام کی مالی وراثت نہیں ہوتی۔
یہ حدیث صرف ابوبکرصدیقؓ کی روایت نہیں بلکہ مذکورہ بالا تمام صحابہ کرام اور ائمہ اہلبیت سب کے ہاں مشہور و معروف تھی۔ اگر صرف ابوبکر صدیقؓ نے سنی ہوتی تب بھی وہ حدیث موجب علم یقینی تھی۔ کیونکہ حدیث کے متواتر و مشہور اور خبرواحد ہونے کی تقسیم ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے خود حضور علیہ السلام سے نہ سنا ہو۔ حضور علیہ السلام سے خود سننے کے بعد قطعی و یقینی ہونے میں قرآن مجید اور حدیث شریف میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
لہٰذا اس قطعی ویقینی حدیث رسول مقبولﷺ نے آیۃ یوصیکم اللہ الخ۔ کے خطاب کی تعین و تشریح کردی کہ یہ امت کے ساتھ مخصوص ہے۔ آنحضرتﷺ اس حکم میں داخل نہیں جیسا کہ:


نانکحو اماطاب لکم من النساء مثنی و ثلٰث وربعٰ۔ !


نکاح کرو عورتوں میں سے جن کو پسند کرو۔ دو یا تین یا چار۔!
میں صرف امت کیلیئے حکم ہے اور حضورپرنورﷺ مستثنیٰ ہیں کیوں کہ آنحضرت ﷺ کو چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت تھی۔
تو اس حدیث سے اس آیت کی تخصیص و تعین اور تشریح ہورہی ہے مخالفت لازم نہیں آتی۔ جس طرح کہ خود شیعہ حضرات کے نزدیک بھی اس آیت سے بہت سی چیزوں کی تشریح ہوچکی ہے جیسے باپ کی کافر اولاد اور غلام اور قاتل اولاد اور لعان کے بعد پیدا ہونے والی اولاد وارث نہیں ہوتی۔
دلیل دوم:


وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ


اور سلیمان علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔
تو اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت مالی بھی ہے۔

الجواب:

اس آیت میں وراثت سے مراد علوم ونبوت وبادشاہت کی وراثت ہے اس آیت کا سیاق وسباق اور مقام مدح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس سے مراد وراثت علمی اور نبوت میں قائم مقامی ہے کیونکہ داؤد علیہ السلام کے انیس بیٹے تھے تو ان میں سے صرف اکیلے سلیمان علیہ السلام کو کیسے مالی وراثت مل سکتی تھی کہ باقی سب محروم ہوں۔
شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی کی روایات بھی اسی معنیٰ کی تائید کرتی ہے۔ ص ۱۳۷ پر مرقوم ہے۔
قال ابو عبداللہ علیہ السلام ان سلیمان ورث داؤد وان محمدًا ورث سلیمان۔
امام جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے اور جناب محمد ﷺ سلیمان علیہ السلام کے وارث ہوئے۔ تو اس میں بھی یہی علوم ونبوت کی وراثت مراد ہے کیونکہ آںحضرت ﷺ حضرت سلیمان علیہ السلام کے مال کے وارث تو ہرگز نہیں ہوئے۔
دلیل سوم:
حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا مانگی، کہ:


فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ


اے میرے رب! مجھے ایک بیٹا دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث بنے۔
تو اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہ السلام کی وراثت ملی ہے۔

الجواب:

اس آیت میں بھی وراثت سے مراد مالی وراثت ہرگز نہیں ہوسکتی۔ بلکہ علوم اور نبوت میں قائم مقامی اور وراثت مراد ہے۔ کہ میرا اور آل یعقوب علیہ السلام کے علوم واخلاق نبوت کا قائمقام اور وارث بنے ورنہ زکریا علیہ السلام کے وقت آل یعقوب بنی اسرائیل کے ہزاروں لاکھوں آدمی موجود تھے، ان سب کی مالی وراثت صرف زکریا علیہ السلام کے بیٹے کو کس طرح حاصل ہوسکتی تھی۔ علاوہ ازیں پیغمبر کی شان نبوت کے خلاف ہے کہ مال دنیا کی فکر میں خوفزدہ ہوکر دعا مانگے کہ شرعی حکم سے وارث ہونے والے میرے چچا زاد بھائی نہ لے جاویں۔ ھم دعوےٰ سے کہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کہیں انبیاء علیہم السلام کی مالی وراثت ان کے اقرباء وورثاء میں تقسیم ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ یہ ثابت کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہے کہ کسی نبی بعد اسکی بیٹی یا پوتی یا زوجہ وغیرہ یا کوئی عورت اس کی وارث بنائی گئی ہو۔
کیا سیدہؓ و علیؓ سے یہ حقیقت مخفی تھی کہ خواہمخواہ سیدہؓ کو نبی علیہ السلام کے ترکہ کا وارث خیال کرتے ہوں۔ اور آیت مذکورہ سے اس قسم کااستدلال کرتے ہوں علاوہ ازیں جب حضرت عباسؓ نے اراضی فئی کی مشترکہ تولیت کو چھوڑدیا تو وہ اراضی صرف حضرت علیؓ کی تولیت میں رہیں۔ اگر وراثت ہوتی تو حضرت علیؓ کیسے حضرت عباسؓ کا حق اپنے قبضہ میں رکھ سکتے تھے۔ بلکہ حضرت علیؓ کے بعد وہ اراضی حضرت حسن مجتبیٰؓؓ کے قبضہ میں اور ان کے بعد صرف حضرت حسینؓ کے قبضہ میں رہیں۔
اگر یہ وراثت ہوتی تو حضرت عباسؓ اور ازواج مطہراتؓ اپنا حصہ لیتے اور پھر حضرت علیؓ کے بعد حضرات حسنؓ و حسینؓ اور انکی ہمشیرہ گانؓ اپنے حصص تقسیم کرلیتے اور اگر نبی علیہ السلام کے ترکہ کا تقسیم نہ کرنا ظلم تھا تو یہ ظلم صرف سیدہؓ پر نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت عباس اور حضورﷺ کے ازواج مطہرات جن میں خودصدیق اکبرؓ کی صاحبزادی اماالمومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی تھیں ان سب پر ظلم ہوا۔
حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کی خلافت راشدہ میں بھی اراضی فدک وغیرہ کی آمدنی اسی طرح سے تقسیم ہوتی رہی جس طرح صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ وغیرہ کے زمانہ میں ہوتی تھی اور اہلبیت ، نبوت کے چشم وچراغ حضرت زید ابن شہید نے فرمایا۔


اما انالوکنت مکان ابی بکرحکمت کام حکم بہ ابوبکرفی فدک۔ (ہدایہ ونھایہ ج ۵ ص ۲۸۰)


اگر ابوبکرصدیقؓ کی جگہ میں ہوتا تو فدک کے بارے میں وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکرصدیقؓ نے کیا تھا۔
اگر فدک کو عمل رسول مقبولﷺ کے مطابق رکھنا ناحق اور ناجائز تھا تو اس میں حضرت صدیقؓ کے ساتھ حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ و حسینؓ اور زید شہید سب کے سب شریک ہیں۔
سوال: ​​اگر نبی اکرمﷺ کی میراث نہیں تھی تو ازواج مطہرات کو حجرے کیوں دیئے گئے؟
جواب:​حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں جس طرح سیدہ فاطمہ اور حضرت اسامہ کو گھر بنواکر ان کی ملکیت میں دیدیئے تھے۔ اسی طرح ہر ایک زوجہ مطہرہؓ کیلئے ایک ایک حجرہ بنواکر ان کے قبضہ میں دیدیا تھا۔ قرآن مقدس سے بھی یہی معلوم و مفہوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔


وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ


اے حضور کی ازواج مطہرات اپنے گھروں میں رہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ حجرے ازواج مطہرات کی ملکیت تھے۔ بطور میراث انکو نہیں دیئے گئے تھے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ حجرات مبارکہ ازواج مطہراتؓ کی ملکیت نہیں تھے بلکہ حضورپرنورﷺ کی ملکیت تھے۔ تو پھر حضوراکرمﷺ کی وفات کے بعد حضرات امہات المومنین کو ان حجروں میں رہنے کا استحقاق اس طرح ہے جس طرح ایک عام مسلمان عورت کو خاوند کی وفات کے بعد، آیا عدت میں خاوند کے مکان میں رہنے کا حق ہے۔ کیونکہ ان ایام عدت میں وہ دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔
چونکہ حضورکریمﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات کو شرعاً کسی اور سے نکاح کرنی کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا ان کو بھی تاحین حیات حضوراکرمﷺ کے مکانات میں رہائش اور سکونت کا استحقاق ہے اور وہ عملاً انہی کے ملک ہیں رہیں گے۔
روایت ہبہ !
ہبئہ فدک کا خیال اگرچہ مطالبئہ وراثت کے بعد بالکل باطل ہوجاتا ہے۔ تاہم جن روایات میں ہبہ کو ثابت اور بیان کیا گیا ہے وہ سب روافض کی اپنی بنائی ہوئی جھوٹی اور موضوع ہیں اور ان کے راوی رافضی ہیں۔
قصہ ہبہ کے خلاف اہل سنت کی کتاب معتبرہ میں ثابت ہے کہ جب حضرت عمر ابن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو بنی مروان کو جمع کرکے فدک کے متعلق فرمایا
ان فاطمۃ ؓ سئلت ان یجعلھا الھا فابیٰ۔!
سیدہ فاطمہؓ نے عرض کی کہ حضورﷺ مجھے فدک دیدیں۔ تو حضورﷺ نے انکار کردیا۔
جب آنحضرت ﷺ کا وصال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ اپنے دور خلافت میں فدک کے متعلق وہی کرتے رہے جو عمل رسول مقبولﷺ کرگئے۔ حتیٰ کہ مجھ تک پہنچ گیا۔ جب حضورپرنورﷺ نے فدک سیدہ فاطمہؓ کو نہ دیا۔ تو جو چیز حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو نہیں دی۔ میرے لئے بھی اپنے ملک اور قبضہ میں رکھنا جائز نہیں۔ میں تم کو گواہ کر کے فدک کو اسی حالت پر رد کرتا ہوں جس حالت پر جناب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھا۔ (ابوداؤد شریف۔مشکوٰۃ شریف)
تحقیق روایت ناراضگی
اب قابل غور امر یہ ہے کہ جناب سیدہؓ نے صدیقؓ سے وراثت رسولﷺ کا سوال کیا تو صدیقؓ نے حدیث رسولﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نحن معاشرالانبیاء لانورث ماترکنا فھو صدقۃ۔

بیان کی تو سیدہؓ غضبناک ہوگئیں۔ اور پھر کبھی کلام نہ کیا۔ اسکی کیا حقیقت ہے؟
الجواب:​درحقیقت روایت ہی ہے۔ جب صدیق اکبرؓ نے حدیث رسول اللہﷺ بیان کی جو کہ متعدد حضرات صحابہ ؓ و اہلبیت ؓ جانتے اور مانتے تھے، تو سیدہ ؓ مطمئن اور خوش ہوگئیں اور اس بارے میں وفات تک پھر کسی قسم کا کلام نہ کیا۔ اس روایت میں یہ ھرگز نہ تھا کہ صدیق اکبرؓ سے کوئی کلام نہ کیا اور ان سے ناراض ہوگئیں تھیں۔ کیونکہ سیدہؓ کا حدیث رسول اللہﷺ سن کر ناراض ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ ایک ادنیٰ مسلمان بھی ایسا نہیں جو کہ حدیث رسول سن کر ناراض ہو چہ جائیکہ سیدہؓ ناراض ہوں۔
توغضب کا لفظ روایت میں کیوں آگیا۔ اس کا جواب کیا ہے؟
(1) روایت فدک اصل میں صرف تین صحابہؓ سے مروی ہے۔
حضرت عائشہؓ صدیقہ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابوالطفیلؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوالطفیل کی روایت میں ناراضگی کا نام و نشان نہیں۔ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت میں زہریؒ کے ذریعہ ہے اور زہری کے متعدد شاگردوں میں سے بعض نے کسی جگہ ناراضگی کا ذکر کیا اور کسی جگہ نہ کیا۔ لیکن دوسرے بعض نے بالکل ذکر ہی نہیں کیا۔
اور جہاں جہاں ناراضگی کا ذکر ہے۔ اس میں خود سیدہؓ کی زبان سے کسی صحیح روایت میں ان کا غضبناک اور ناراض ہونا ثابت نہیں۔ ناراضگی فعل قلب ہے جب تک ظاہر نہ کیجاوے دوسرے شخص کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی۔ البتہ قرائن سے دوسرا شخص قیاس کرسکتا ہے۔ تو قیاس واندازہ سے راوی نے ناراضگی سمجھ کر غضبت روایت کیا ہے۔ جو اسکی غلط فہمی کا نتیجہ ہے بمقتضائے بشریت غلط فہمی ہوسکتی ہے۔ کیوںکہ قرائن خارجی سے نتیجہ نکالنے میں کبھی بڑوں سے بھی ایسی بات ہوجاتی ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور سے واپسی پر یہ سمجھا کہ ہارون علیہ السلام نے ان کے پیچھے قوم کی خبر گیری میں میرے حکم کی اچھی طرح تعمیل نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ غصہ میں ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر کھینچے حالانکہ ہارون علیہ السلام بالکل بے قصور تھے۔ اور موسیٰ علیہ السلام کا یہ اندازہ ہارون علیہ السلام کی بابت درست نہ تھا۔
(2) علاوہ ازیں بعض چیزیں راوی اپنے قیاس سے صحیح سمجھ کر واقعہ بیان کرتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ اس کا بیجا قیاس اور تاثر ہوتا ہے صحیح واقعہ نہیں ہوتا اس کی سیرت میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
ایک دفعہ حضورﷺ ازواج مطہرات سے چند روزبالاخانہ میں قیام پذیر ہوگئے تو مشہور ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات کو طلاق دیدی ہے۔ حضرت عمرؓ یہ خبر سن کر سمجد میں آئے جہاں لوگ یہ کہ رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے طلاق دیدی ہے۔ حضرت عمرؓ نے بالاخانہ میں جاکر حضور علیہ السلام سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کوئی طلاق نہیں دی۔
جس طرح حضور علیہ السلام کی خلوت نشینی اور ازواج کے پاس آنے جانے سے رک جانے کے باعث لوگوں نے اپنے قیاس واندازہ سے طلاق سمجھ لی تھی۔ حالانکہ واقع میں کوئی طلاق نہ تھی اسی طرح اس روایت کے راوی نے اپنے استاد سے لم تتکلم کے الفاظ سنے اور اس سے اپنی غلط فہمی کے باعث ناراضگی سمجھ کر غضبت کا لفظ روایت میں بیان کردیا اور پھر ایک دوسرے سے نقل ہوتاگیا حالانکہ لم تتکلم کا مقصد یہ تھا کہ سیدہؓ کو فدک کے متعلق تسلی ہوگئی کہ اس میں وراثت بھی نہیں۔ اور اس میں مثل عمل رسول اللہ ﷺ عمل جاری رہنا ہے تو پھر اس بارے میں کبھی کوئی کلام دوبارہ نہ کیا۔
یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ صدیقؓ پر ناراض ہوکر کلام تکلم بند کردیا اس غلط فہمی کے بیان سے راوی کے عدل وصداقت اور ثقہ ومعتبر ہونے پر کوئی اعتراض وشک نہیں ہوجاتا تو جس طرح حضورعلیہ السلام سے دریافت کرنے کے بعد ثابت ہوا کہ لوگوں کا قیاس غلط تھا واقعہ اس طرح نہ تھا تو اسی طرح اس ناراضگی سیدہؓ کے متعلق جب تک سیدہؓ کی زبانی ثبوت نہ طے کیے یقین وجرائت کی جاسکتی ہے کہ صدیقؓ سے حدیث رسول ﷺ کی سیدہؓ فی الواقع ناراض ہوگئی تھیں۔ بلکہ راوی نے اپنا قیاس واندازہ ناراضگی کا لگایا ہے جو فی الحقیقت واقعہ نہیں ہے۔ لم تتکلم کے الفاظ اپنے استاذ سے سنے اور اس کا سبب ناراضگی سمجھ کر روایت بالمعنیٰ میں غضبت کا لفاظ بیان کردیا جس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ ایک استادزہریؒ سے اس کے مختلف شاگرد مختلف الفاظ میں روایت بیان کررہے ہیں اور غضبت ذکر کرنیوالے شاگرد بھی کبھی اس لفاظ کو بیان کرتے ہیں کبھی نہیں کرتے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ روایت بالمعنیٰ کررہے ہیں۔ تو روایت بالمعنیٰ کرنے میں راوی سے غلط فہمی ہوگئی۔ اور بخاری شریف کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے راوی ثقہ، عادل و معتبر ہیں۔ واضاع و کذاب نہیں۔ ان میں سے اگر ایک سے خطا اجتہادی یا غلط فہمی ہوجائے تو یہ ان کی صداقت وعدالت ، دیانت و ثقاہت کے خلاف نہیں اور نہ اس سے کتاب کی صحت پر حرف آتا ہے۔
بالفرض اگر ناراضگی کا واقعہ ہوتا تو صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظام اور تابعین واہل مدینہ میں اس کا عام چرچا اور شہرت ہوتی۔ لیکن سوائے زہریؓ کے بعض شاگردوں کے اور کوئی اسکو ذکر نہیں کرتا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناراضگی کا کوئی واقعہ نہیں تھا۔
عقل و درایت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سیدہؓ جن کا لقب "بتول" یعنی تارک دنیا اور خاتون جنت اور مخدومہء کائنات ہو۔ صدیق اکبرؓ سے حدیث رسول مقبولﷺ سن کر ہرگز ناراض نہ ہوں بلکہ راضی اور خوش ہوں۔
رضامندی سیدہؓ
کیونکہ کتب اہل سنت اور اہل تشیع میں سیدہؓ کی رضامندی کے روایات اور واقعات بھی ثابت ہیں۔ بہیقی، شروح بخاری و شروح مشکوۃٰ ۔ نبراس شرح شرح عقائد صہ ۵۵۰ البدایہ والنہایہ ۔ طبقات ابن سعد وغیرہ کتب اہل سنت میں سیدہؓ کی رضامندی ثابت ہے۔
حضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ جناب سیدہؓ کی خدمت میں حضرت علیؓ کی موجودگی میں گئے اور کہا۔
واللہ ما ترکت الدار والمال والاھل والعشیرۃ الاابتغاء مرضات اللہ، ومرضاۃ رسولہ ومرضاتکم اھل البیت ثم ترضاھا حتیٰ رضیت وھذا اسناد جید قوی۔! (البدایہ والنہایۃ ج۵ ص ۲۸۹ عمادالین ؓ بن کثیر)
اللہ کی قسم ! میں اپنا گھر بار مال اور اہل و عیال، قوم برادری، سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ السلام کی رضاجوئی اور تم اہلبیت نبوت کی رضاجوئی کے لئے چھوڑ چھاڑ آیا تھا جس سے سیدہؓ کو خوش کیا تو سیدہؓ نہایت راضی خوش ہوگئیں اس روایت کی سند نہایت عمدہ، صحیح اور معتبر و مضبوط ہے۔
شیعہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغۃ ابن منیم بحرانی جز ۳۵ ص ۵۴۳ من کتابہ الیٰ عثمان ابن حنیف، دوسری کتاب شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ص ۲۹۶ جز شانزدھم اور تیسری کتاب درہ نحفیہ مطبوعہ طہران ص ۳۳۲ پر ہے۔


کان رسول اللہﷺ یا خذ من ندک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل ضہ فی سبیل اللہ وللت علی اللہ ان اصنع بھا کما کان یصنع فرضیت بذالک واخذت العھد علیہ بہ وکان یا خذ غلتھا فیدفع الیھم منھا مایکفیھم ثم فعلت الخلفاء بعدہ کذلک الیٰ ان ولی معاویۃؓ۔


جناب صدیق اکبرؓ نے حضرت سیدہؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ فدک کی فدک کی آمدنی سے تمہارا خرچ لے لیا کرتے تھے۔ باقی ماندہ تقسیم فرماتے اور فی سبیل اللہ جہاد وغیرہ میں سواریاں لے دیتے تھے۔ اور اللہ کی قسم کھا کر تم سے معاہدہ کرتاہوں کہ میں فدک میں اسی طرح کروں گا جس طرح آنحضرتﷺ کرتے تھے تو حضرت سیدہؓ فدک کے اس فیصلہ پر راضی اور خوش ہوگئیں اور حضرت صدیقؓ سے اس بات کا عہد لیا۔ تو حضرت ابوبکرؓ فدک کی پیداوار وصول کر کے اس سے اہلبیت کا کافی دانی کرچ دے دیتے تھے پھر صدیق اکبرؓ کے بعد امیر معاویہؓ کی حکومت آنے تک تمام خلفاء نے یہی عمل جاری رکھا۔
تو شیعہ حضرات کی ان تینوں کتابوں کی یہ روایت اس حقیقت کو واضع کرتی ہے۔
(1) فدک کی پیداوار جناب رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اہلبیت وفقراء ، مساکین اور فی سبیل اللہ عین اسلامی ضروریات میں خرچ کی جاتی تھی۔ فدک خاص سیدہ یا حضرت علیؓ و حسنینؓ میں سے کسی کو ہبہ نہ کیا گیا تھا۔
(2) جناب سیدہؓ نے حضرت صدیقؓ سے یہی معاہدہ لیا کہ حضرت رسول اکرمﷺ کا عمل اور طریقہ تقسیم جاری رکھا جائے چنانچہ حضرت صدیقؓ نے یہی معاہدہ کرلیا اور جناب سیدہؓ راضی خوش ہوگئیں۔
(3) جناب سیدہؓ اور حضرات حسنین شریفین فدک کی پیداوار سے اپنا تمام خرچ حضرت صدیق اکبرؓ سے لیتے رہے۔
(4) جس طرح رسول پاکﷺ کا عمل تھا اسی طرح صدیق اکبرؓ کا عمل تھا۔ اور بعینہ یہی عمل تمام خلفائے راشدین حضرت عمرفاروقؓ عثمان غنیؓ اور علی المرتضیٰؓ اور حسن مجتبیٰ ؓ کا رہا حتیٰ کہ امیر معاویہ ؓ کی سلطنت آگئی۔ اس عرصہ میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ کیونکہ یہی حکم خدا ورسولﷺ خدا کا تھا اس لئے تمام خلفائے راشدینؓ نے اسی حکم کی پابندی کی۔ تو اب صدیق اکبرؓ پرجناب سیدہؓ کی ناراضگی کی بات کسی راوی کی غلط فہمی کانتیجہ ہے۔ ورنہ سیدہؓ اللہ تعالیٰ اور حکم رسول مقبولﷺ کا حکم دیکھ کر اس حکم کے خلاف ناراضگی کیسے رکھ سکتی تھیں۔ اگر ناراض ہوتیں تو اپنا اور اپنے بچوں کا تمام خرچ خوراک کیوں وصول فرماتی رہیں۔
(5) بعض لوگوں کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوگیا کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے خلافت میں فدک مروان کو دیدیا تھا بلکہ اس سے بخوبی ثابت ہے کہ وہ بھی عمل رسول اللہ ﷺ اور عمل صدیقؓ وفاروقؓ کی مانند عمل کرتے رہے جس طرح مذکورہ تینوں کتابوں سے ثابت ہے کہ سیدہؓ اپنا اور اپنے خاندان کا خرچ صدیق اکبرؓ سے لیتے رہیں اور تمام خلفائے راشدین کا عمل یکساں رہا۔
اسی طرح شیعہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغۃ مصنفہ سید علی نقی فیض الاسلام کے ص ۹۶۰ سطر چار پر مرقوم ہے۔
"ابوبکر غلہ و سود آن را گرفتہ بقدر کفایت باہل بیت علیہم السلام مے داد و خلفاء بعد ازوبراں اسلوب رفتار نمود ندتازمان معاویہؓ " اس سے بھی واضع ہے کہ سیدہؓ خرچ لیتی رہین۔ ناراضگی نہ تھی اگر ناراض ہوتیں تو خرچ وصول نہ فرماتیں۔
علاوہ ازیں کتب شیعہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جناب سیدہؓ کی ہر طرح کی خدمت حضرت صدیق اکبرؓ کی اطہیہ محترمہ اسماء بنت عمیس کرتی رہتی تھیں۔ حتیٰ کہ جناب سیدہؓ کے مرض کے زمانہ میں تیمارداری کے تمام فرائض حضرت صدیق اکبرؓ کی بیوی حضرت اسماء ہی سرانجام دیتی رہیں۔ اور سیدہ کی وفات کے بعد تجہیز تکفین اور غسل کا کام بھی اسماء زوجہ صدیق اکبرؓ نے سرانجام دیا۔​جلاء العیون ص ۷۳ پر ہے۔


امیرالمومنینؓ و اسماء ؓ بنت عمیس فاطمہؓ راغسل دادند۔


جناب علی المرتضیٰ ؓ ور حضرت اسماء بنت عمیس نے جناب سیدہؓ کو غسل دیا۔
حتیٰ کہ سیدہؓ کو بیماری کے زمانہ میں گہوارہ کے ذریعہ حضرت اسماءؓ نے پردہ بنا کر دکھایا۔ جس پر سیدہؓ نے وصیت فرمائی کہ میری وفات کے بعد گہوارہ بنا کر میرے جنازہ کا پردہ کیا جاوے۔ جو کہ حسب وصیت حضرت اسماءؓ نے بنایا۔
نیز حضرت علیؓ کا بیعت کرنا اور صدیق اکبرؓ کے پیچھے نمازیں ادا کرنا کتب شیعہ میں صراحۃً موجود ہے۔​احتجاج طبرسی ص ۵۶ پر ہے۔


ثم تناول یدابی ابکر فبا یعہ۔ !


پھر حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے حضرت صدیق اکبرؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرلی اور اسی کتاب کے ص ۶۰ پر حضرت علیؓ کے متعلق مرقوم ہے۔


ثم قام و تھیا للصلوٰۃ و حضرالمسجد و صلی خلف ابی بکرؓ۔


پھر حضرت علی المرتضیٰ ؓ ٹھے اور نماز کیلئے تیاری کر کے مسجد میں حاضر ہوئے اور ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے نماز، ادا کی۔
بعینہ یہی عبارت تفسیر قمی اور مراۃ العقول شرح الاصول والفروع میں بھی موجود ہے۔
اگر سیدہؓ ناراض ہوتیں تو علی المرتضیٰ ؓ حضرت صدیق اکبرؓ کی بیعت، کیوں کرتے اور ان کے پیچھے نمازیں کیوں پڑھتے؟ اب چودہ سو سال بعد آنے والا تو سیدہؓ کی ناراضگی کانام سن کر جناب ابوبکرؓ سے بیزاری کو تقاضائے ایمان سمجھتاہے۔ لیکن شیر خدا جیسے کامل الایمان کے سامنے اگر حقیقۃً ، ناراضگی ثابت ہوتی تو صدیقؓ کے ہاتھ پر کیوں بیعت فرماتے اور کیوں ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے؟
تو ان تمام واقعات مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہؓ اور علیؓ صدیق اکبرؓ سے راضی تھے۔ ورنہ ان تعلقات کی صورت نہ بنتی۔ اگر بالفرض سیدہؓ صدیق اکبرؓ پر ناراض ہوگئیں تو جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام پر غصہ ہوکر ان کی ڈاڑھی اور ان کے بال پکڑ کر کھینچے۔ حالانکہ ہارون علیہ السلام بے قصور تھے۔ یا جسطرح کتب شیعہ میں ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ سیدہؓ کو چاندی کے زیور پہنچے دیکھ کر غضبناک ہوگئے۔
شیعہ کی کتاب "منتہی الآمال" مصنفہ شیخ عباس قمی مطبوعہ اسیران ص ۹۷پر ہے۔


"غضبناک بیرون رفت و مسجد درآمد و بنزد ممبر نشست حضرت فاطمہ دانست کہ حضرت برائے زینتہا چنیں بغضب آمدند۔ "


یا۔ حضرت سیدہ فاطمہؓ نے حضرت علیؓ پرغصہ ہوکر فدک کے سلسلہ میں فرمایا "اشتملت شملۃ الجنین وقعدت حجرۃ الظنین الخ " شیعہ کی کتاب احتجاج طبرسی ص ۶۵ مطبوعہ نجف اشرف۔ جس کا ترجمہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب "حق الیقین" جلد اول ص ۱۶۱ پر یو لکھا ہے۔


خطا بہائے شجاعانہ درشت باسیدوصیا نمود کہ مانند جنین دررحم پردہ نشین شدہ و مثل خائناں درخانہ گریخیۃ۔ "


اور شیعہ کی کتاب " جلاء العیون " کے صفحات ۶۱ اور ۷۱ پر مرقوم ہے کہ سیدہؓ حضرت علیؓ پر ناراض ہوکر حضورﷺ کے گھر چلی گئیں۔ اور ص ۶۱ کے دوسرے مقام پرہے کہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں جاکر حضرت علیؓ کی شکایت کی۔"
تو مذکورہ واقعات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت ہارون علیہ السلام پر غصہ ہوجانے سے اور آنحضرت ﷺ کے سیدہؓ پر غضب ناک ہوجانے اور سیدہؓ کے علی المرتضیٰ ؓ پر ناراض ہوجانے سے اگر ان حضرات کے شان و ایمان پرکسی قسم کا اعتراض اور حرف نہیں آتا تو سیدہؓ کے جواب میں ادب واحترام کے ساتھ صدیق اکبرؓ کے حرف حدیث رسول ﷺ پیش کرنے سے اگر بالفرض سیدہؓ کو ناراضگی آگئی ہوتو صدیق اکبرؓ کے ایمان اور شان پر اعتراض کرنا کونسا انصاف اور دیانت ہے۔
سیدہؓ کا جنازہ!
اور یہ کہنا کہ سیدہؓ کی ناراضگی کی وجہ سے نہ صدیقؓ کو سیدہؓ کی وفات کا علم ہوا۔ اور نہ وہ شریک جنازہ ہوئے اور نہ انکو اس کی اطلاع بھیجی گئی۔ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ صدیقؓ کو سیدہؓ کی وفات کی اطلاع بھیجنے کی ضرورت نہ تھی جبکہ ان کی اہلیہ اسماء ؓ بنت عمیس، سیدہؓ کی تیماردار اور ہروقت بیماری میں خدمت گار تھیں۔ اور تجہیزو تکفین اور غسل سیدہؓ کا کام بھی صدیقؓ کی بیوی نے بنایا۔
اور کسی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ صدیق اکبرؓ نے سیدہؓ کا جنازہ نہیں پڑھا بلکہ بعض روایات میں ہے کہ صدیق اکبرؓ سیدہؓ کے جنازہ کے امام تھے جیسے کنزالعمال جلد ۶ کتاب الفضائل من قسم الافعال ص ۳۱۸ پر ہے۔


عن جعفر ابن محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمۃ بنت النبی ﷺ فاجء ابوبکر و عمر لیصلوا فقال ابوبکر لعلی ابن ابی طالب تقدم۔ افعال ماکنت لاتقدم وانت خلیفۃ رسول اللہ ﷺ فتقدم ابوبکر و صلی علیھا۔


حضرت جعفر بن محمد اپنے والد بزرگوار سے روایت کرتے ہیں کہ جب سیدہ بی بی فاطمہ ؓ حضورﷺ کی بیٹی فوت ہوئیں تو ابوبکرؓ و عمرؓ جنازہ پڑھنے کیلئے آئے تو جناب صدیقؓ نے حضرت علیؓ کو کہا کہ تم امام بنو تو حضرت علیؓ نے فرمایا خلیفہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں۔ میں امام نہیں بن سکتا۔ پس ابوبکر امام بنے اور سیدہؓ کاجنازہ پڑھا۔
اور طبقات ابن سعدؒ جلد ہشتم ص ۲۹ پر ثابت ہے۔


عن حماد عن ابراھیم قال صلی ابوبکرن الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اللہ ﷺ فکبر علیھا اربعاً۔


جناب ابوبکر صدیقؓ نے بی بی فاطمۃ ؓ کا جنازہ پڑھا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔
یہ روایت بعینہ " سیرت حلبیہ" جلد سوم ص ۳۹۱ پر بھی ثابت ہے۔
اہل سنت واہل تشیع کے مورخین نے لکھا ہے کہ جناب امام حسین ؓ نے حضرت امام حسن ؓ کے جنازہ پر سعید ابن العاص اموی حاکم مدینہ کو امام بنایا اور فرمایا۔

لولا انہ سنۃ ما قدمتہ ۔

اگر جنازہ میں حاکم کی امامت کا دستور نہ ہوتا تو میں اس کو امام نہ بناتا۔
تو یہ طریقہ جاریہ اور دستور مسلمہ بھی تائید کرتا ہے کہ سیدہؓ کے نماز جنازہ کے امام بھی ضرور بالفضرور ابوبکرصدیقؓ ہی بنے ہوں۔ واللہ اعلم۔
اصولی طور پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ روایات نفی، پر روایات اثبات کو ترجیح ہوتی ہے۔
تو اس سے بھی یہ ثابت ہوگیا کہ جن روایات میں حضرت علیؓ یا حضرت عباسؓ کے متعلق "صلیٰ علیھا" کے الفاظ وارد ہیں تو ان سے جنازہ پڑھنا مراد ہے۔ امامت مراد نہیں واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم،
انصاف اور دیانتداری سے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس صدیق اکبرؓ نے فدک کی آمدنی میں سے عمل رسولﷺ کے خلاف اپنے اوپر اور اپنے اہل وعیال اور خاندان ورشتہ داروں پر ایک پائی بھی خرچ نہ کی اور اپنی دو سالہ خلافت میں بیت المال سے جو مال بطور وظیفہ لیا تھا وہ سارے کا سارا بوقت وفات وصیت کرکے بیت المال میں واپس کر دیا اور وصیت کی کہ مجھے نئے کپڑوں کی بجائے پرانے کپڑوں میں کفن دیا جائے۔
وہ کسی پر ظلم اور ناحق کیسے اور کیوں کرے گا۔ جزاہ اللہ تعالیٰ و رضی عنہ وارضاہ۔ آمین۔
تو حضورﷺ کے جانشین اول خلیفہ بلا فصل سیدناابوبکر صدیقؓ کے اخلاص اورا نتہائی محبت و اطاعت رسول مقبول ﷺ اور صداقت، امانت، دیانت میں کمال ہی اس امر کا موجب تھا کہ صدیقؓ کی، بیعت خلافت پر تمام صحابہ مہاجرین وانصار، بنی ہاشم و قریش سب کے سب متفق و متحد ہوگئے۔ اس باہمی اتفاق و اتحاد اور محبت وخوات کی وجہ سے یہ حضرات دنیا اور آخرت میں بلند مقامات اور اعلیٰ مراتب پر فائز المرام ہوگئے۔ اوران حضرات ہی کا زمانہ ہر دور اور ہر قرن میں آنے والی نسلوں کیلئے ایک نمونہ اور لائحہ عمل چھوڑ کیا کہ اگر مسلمان اپنے دین و ایمان کی صحت و سلامت اور دنیاوی عروج وترقی اور اخروی نجات وسرخروئی چاہتے ہیں۔
تو ان کیلئے صرف یہی ایک راہ اتباع نبویﷺ اور اتحاد و اتفاق ہے جس پر کہ شاگردان رسول ﷺ ، جناب صدیقؓ و فاروقؓ ، غنیؓ ، علیؓ صحابہ کرامؓ اور اہلبیت عظام نے عمل پیرا ہوکر اپنے مولا حقیقی جل شانہ، اور اس کے رسول پاک ﷺ اور تمام مخلوق کو راضی کر کے دنیا کی تاریخ میں ایک بے نظیر نمونہ اپنے پیچھے چھوڑا۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی، توفیق بخشے۔ آمین، ثم آمین


وما توفیقی الاباللہ العلی العظیم



جاگیر فدک کا اعتراض اور اس کا جواب

[اعتراض] :

شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: ’’ میرے والد محترم نے مجھے فدک کی جاگیر ہبہ میں عطا کی تھی۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ ’’کوئی کالا یا گورا لائیے جو اس کی گواہی پیش کرے۔‘‘

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ام ایمن رضی اللہ عنہ کو گواہ کے طور پر پیش کیا؛ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ ’’ یہ عورت ہے لہٰذا اس کی شہادت مقبول نہیں ۔‘‘ حالانکہ روایات میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘

پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں شہادت دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’ یہ آپ کے خاوند ہیں لہٰذا ان کی شہادت بھی مقبول نہیں ۔‘‘

تمام لوگوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہے اور علی رضی اللہ عنہ اور حق لازم و ملزوم ہیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بروز قیامت میرے حضور حوض کوثر پر وارد ہوں ۔‘‘ 

 سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر ناراض ہو گئیں اور حلف اٹھایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات چیت نہیں کریں گی اور جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور (بعد از وفات) حاضر ہوں گی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا شکوہ کریں گی۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی : ’’ مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرنا اور میرا جنازہ پڑھنے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلانا ۔

سب روایات میں مذکور ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ رضی اللہ عنہا ! تیری رضا رضائے الٰہی کے موجب ہے اور تیری ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔‘‘سب کتب احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ فاطمہ میرا جگرپارہ ہے؛جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی ؛ اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی ۔‘‘ اگر حدیث نبوی

’’لَانُوْرِثُ‘‘

صحیح ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار؛ عمامہ اور خچر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہ دیتے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دعوی کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ قابل ترجیح نہ ہوتا۔اور اہل بیت جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نجاست سے پاک قرار دیا ہے ؛اس چیز کے مرتکب نہ ہوتے جو ان کے لیے جائز نہیں ہے ؛ اس لیے کہ ان پر صدقہ لینا حرام ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بحرین کا مال آیا تو حضرت جابرانصاری رضی اللہ عنہ کے یہ کہنے پر کہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا:’’جب بحرین کا مال آئے گا تو میں تمہیں تین لپیں بھر کردوں گا۔‘‘

تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ آگے بڑھواور اس تعداد میں لے لو۔‘‘ اس طرح وہ مال ان کو دے دیا گیااور گواہ بھی طلب نہ کیا؛ صرف ان کے قول پر اعتبار کیا۔‘‘

[انتہی کلام الرافضی] 


جواب:

پہلی وجہ: شیعہ مصنف کے اعتراضات میں سے مذکورۃ الصدرواقعہ روافض کا پہلا بہتان نہیں ہے بلکہ وہ ایسے لاتعداد جھوٹ وفساد اور بہتان تصنیف کر چکے ہیں ۔جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں :

شیعہ مصنف نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق جاگیر فدک کے جس دعوی کا ذکر کیا ہے؛ یہ دعوی ان کی میراث کے متناقض ہے۔اگر وہ جاگیر بطور ہبہ آپ کی ملی ہوئی تھی تو پھر اسے بطور وراثت ملنے کا سوال باطل ہے۔ یعنی :

۱۔ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کی جاگیر ورثہ کی بنا پر طلب کرتی تھیں ، تو یہ ہبہ نہیں ہو سکتا۔

۲۔ اور اگر یہ جاگیر آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی تو ورثہ باطل ہوا۔

اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں یہ جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منزہ ہیں ۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ دوسروں کی طرح آپ کا ترکہ ورثاء کے مابین تقسیم کیا گیا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ آپ نے اپنی بیماری کی حالت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کے حق سے زیادہ مال کی وصیت کی حالانکہ آپ وارث تھیں ۔ اوراس طرح کی وصیت کرنا وارث کے حق میں ناروا ہے۔ [ یا حالت مرض میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے حق سے زیادہ مال عطا کیا] ۔اور اگر حالت صحت میں آپ نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی تھی، تو وہ ہبہ قبضہ ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ ہبہ کرنے والا اگر کوئی چیز ہبہ کرے اور جس کو ہبہ کیا گیا ہے، وہ اس پر قابض نہ ہو ، یہاں تک کہ ہبہ کرنے والے کی موت واقع ہو جائے تو ایسا ہبہ جمہور علماء کے نزدیک باطل ہے۔

یہ امر موجب حیرت و استعجاب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی اور ام ایمن رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا جملہ صحابہ میں سے کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا۔

دوسري وجہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق اس قسم کے دعوی کا دعوی کرنا آپ پر بہتان ہے۔امام ابو العباس بن سریج نے جو کتاب عیسیٰ بن ابان کے رد پر تصنیف کی ہے ؛ جس میں انہوں نے ان کیساتھ’’قسم اور گواہ‘‘ کے بارے میں گفتگو کا تذکرہ کیا ہے اور انہوں نے وہاں پر کئی دلائل ذکر کیے ہیں ؛اور عیسیٰ بن ابان کے معارضات کا جواب دیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ بحتری بن حسان نے حضرت زید بن علی سے حدیث ذکر کی ہے جس میں انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کہا ہے کہ : انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فدک کی جاگیر عطا کی تھی۔ اور آپ گواہی میں ایک مرد اور ایک عورت کو لیکر پیش ہوئیں ۔ اور فرمایا: مرد کیساتھ مرد اور عورت کیساتھ عورت ۔ سبحان اللہ ! یہ کتنی عجیب بات ہے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی میراث کا سوال کیا ؛ اور آپ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ ہم [انبیاء کی جماعت] وارث نہیں بنتے ۔‘‘

دیگر احادیث میں کوئی ایسی چیز روایت نہیں کی گئی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے علاوہ بھی کسی چیز کا دعوی کیا ہو‘ یا کوئی گواہ پیش کیا ہو۔

جریر نے مغیرہ سے اوراس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے ‘ آپ فدک کی بابت فرماتے ہیں :

’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ جاگیر فدک آپ کو ہبہ کردی جائے ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں سے خرچ کیا کرتے تھے ‘اور بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کراتے اور ان کے کمزور اور ضعیف لوگوں پر خرچ کرتے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں معاملہ ایسے ہی رہا ۔ آپ نے اس کے صدقہ کرنے کا حکم دیا ؛ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کرلیا ۔ اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس جاگیر کو اسی ڈھنگ پر واپس کرتا ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی۔‘‘

[ذکر ابن الجوزِیِ فِی ِکتابِہِ’’سِیرۃِ عمر بنِ عبدِ العزِیزِ،ص:۱۰۹،ط۔المؤیدِ، القاہِرۃِ:۱۳۳۱، ۱۹۲۱، قصۃ عمر بنِ عبدِالعزِیزِ مع أراضیِ فدک التِی ورِثہا عن أبِیہِ وکیف ردہا ِإلی الصدقۃِ۔] 

اس کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ انہوں نے دعوی کیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جاگیر ہبہ کردی تھی۔ ایسی کوئی ایک بھی حدیث متصل سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔اور نہ ہی کسی گواہ نے آپ کے حق میں کوئی ایسی گواہی دی۔اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو اسے ضرور نقل کیا جاتا ۔ اس لیے کہ آپ اس جھگڑے میں فریق تھیں ‘ اور آپ کا معاملہ ظاہر تھا۔اس معاملہ میں امت کا بھی اختلاف واقع ہوا؛ اور آپس میں بحث مباحثے ہوئے۔ ان میں سے کسی ایک مسلمان نے بھی یہ گواہی نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کوئی جاگیر عطا کی ہے۔ یا آپ نے کسی چیز کے بارے میں دعوی کیا ہو۔ یہاں تک کہ بختری بن حسان کا دور آگیا۔اس نے حضرت زید سے کچھ ایسی چیزیں روایت کیں جن کی کوئی اصل ہی نہیں ۔اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس سے پہلے کس نے روایت کیا ۔یہ سند اہل علم کے ہاں روایت کردہ احادیث [کی اسناد ] میں سے نہیں ہے:

فضل بن مزروق نے البختری سے ؛ اس نے زید سے روایت کیا ہے۔مصنف کو چاہیے تھا کہ بعض ان جملوں پر توقف کرکے غور و فکر کرتا جن کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا ۔

اس روایت میں حضرت زید رحمہ اللہ کے یہ الفاظ بھی ہیں : اگر اس جگہ پر میں ہوتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ اس سے کوئی بات نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ثابت ہوتی ہے اورنہ ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ؛ اگرچہ اس [روایت ] کی مخالفت کرنے والا کوئی ایک بھی نہ ہو۔اور اگرچہ اس بارے میں مناظرہ بھی نہ ہوا ہو ۔ تو پھر کیسے یہ ہوسکتا ہے جب کہ اس بارے میں روایات بھی موجود ہوں ۔ دین کی بنیاد اس پر قائم ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت ہوجائے ؛ اورپھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کے خلاف کہیں [توحجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی] ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں سے ایسی بات ہوسکتی ہے ؛ جیسا کہ دادی کے مسئلہ پر آپ سے غلطی ہوگئی تھی ؛ مگر جب آپ کو صحیح حدیث پہنچ گئی تو آپ نے اس کی طرف رجوع کرلیا ۔

اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی رافضی کے لیے اس میں کوئی حجت نہیں ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ نہیں فرمایا: میں اپنے گواہ کے ساتھ قسم اٹھاتی ہوں ؛ اور آپ کو منع کردیا گیا ہو۔ یا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہو کہ : میں گواہ کیساتھ قسم أٹھانے کو جائز نہیں سمجھتا ۔ نیز علماء کرام رحمہم اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : یہ حدیث غلط ہے۔ اس لیے کہ حضرت اسامہ بن زیدسے زہری روایت کرتے ہیں ان سے مالک بن اوس بن حدثان روایت کرتے ہیں : آپ نے فرمایا: ’’جس چیز سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احتجاج کیا ہے ‘ کہ آپ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین قسم کے اموال تھے : بنو نضیر ۔ خیبر اور فدک۔‘‘

[سنن ابی داؤد ۳؍۱۹۵ ؛ کتاب الخراج ] 

بنو نضیر کے اموال کوآپ کے نائبین و عمال کے لیے روک کر رکھا گیا تھا۔

فدک کی جاگیر مسافروں اور ابناء سبیل کے لیے تھی۔

خیبر : اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ دو حصے مسلمانوں کے مابین تھے۔اور ایک حصہ آپ کے اہل خانہ کے نان و نفقہ کے لیے تھا۔ جوکچھ آپ کے اہل خانہ کے اخراجات سے بچ جاتا اسے آپ دوحصے کرکے فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔

حضرت لیث نے عقیل سے ؛ وہ ابن شہاب سے ؛ وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں : بیشک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خبر دی کہ: دختر نبی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے(کسی کو)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں ۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے(بقدر ضرورت)کھا سکتی ہے ۔‘‘اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا ؛اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں ذرا سی چیزبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔‘‘

[صحیح بخاری:ح:۱۴۱۶۔۵؍۲۰ ؛ کتاب فضائِلِ أصحابِ النبِیِ، باب مناقِبِ قرابۃِ رسولِ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومنقبۃِ فاطِمۃ۔] 

امام زہری رحمہ اللہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے؛ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے پاس آدمی بھیج کر ان سے اپنی میراث طلب کی یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فئے کے طور پر دی تھیں ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصرف خیر جو مدینہ منورہ اور فدک میں تھا اور خیبر کی متروکہ آمدنی کا پانچواں حصہ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؛آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال ؛ یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مال میں سے کھا سکتے ہیں ‘‘ ان کو یہ اختیار نہیں کہ کھانے سے زیادہ مال لے لیں ۔‘‘

[صحیح بخاری:ح۹۲۵۔] 

صالح ابن شہاب سے ‘وہ عروہ بن زبیر سے ‘ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں :

’’حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ مال دینے سے انکار کردیااور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا ؛میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دے دیا تھا۔ لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے۔ اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور وقف موجود ہیں۔‘‘

[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۳۴۴۔] 

یہ احادیث ثابت شدہ اور اہل علم کے ہاں بڑی معروف ہیں ۔ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے والد کی میراث طلب کی تھی۔اس لیے کہ آپ یہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے ۔لیکن جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتائی گئی ؛ توآپ نے اسے مان لیا ‘اور واپس چلی گئیں ۔ اور آپ اسے بطور وراثت کیسے طلب کرسکتی تھیں کہ آپ کے متعلق ان چیزوں کی ملکیت ہونے کا دعوی بھی تھا۔ یہ تو ایک لا یعنی سی بات ہے ۔

اس کتاب کے مصنف [ابن مطہر ] کو چاہیے تھا کہ وہ غور و فکر سے کام لیتا۔ مگر کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ....میں بھی [قرآن کو] ایسے ہی پڑھتا ہوں ؛ جیسے آپ پڑھتی ہیں ؛ لیکن میرے علم میں آپ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایاکہ : [یہ سارا مال آپ کے لیے ہے ] 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا یہ مال آپ کے لیے اور آپ کے اقارب کے لیے ہے؟

آپ نے فرمایا : نہیں ؛ اور آپ میرے نزدیک سچی اور امانت دار ہیں ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے اس قسم کا کوئی عہد لیا ہے ‘ یا آپ سے کوئی وعدہ کیا ہے ‘ یا پھر کوئی ایسی بات کہی ہے جس کے موجب یہ صدقات آپ کے ہوسکتے ہیں ؟

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نہیں ‘ایسی کوئی بات نہیں ؛ صرف اتنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

’’ اے آل محمد ! تمہیں خوشخبری ہو؛ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تونگری لے آئے ہیں ۔‘‘

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ‘ اور آپ بھی سچ کہتی ہیں ۔ آپ کے لیے مال فئے ہے۔ اور میرے علم کے مطابق اس آیت کی تاویل کی روشنی میں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ پورے کا پورا حصہ آپ لوگوں کو دیدیا جائے ۔ لیکن آپ کے لیے آپ کی ضرورت کے مطابق مال فئے ہے ۔‘‘

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات سنتے اور مانتے تھے۔ تو پھر جب آپ کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت گواہ بھی موجود ہوں تو آپ کی بات کیسے رد کی جاسکتی تھی؟

تیسری وجہ :....اگر اس مفروضہ کی صحت تسلیم کر لی جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ بھی تقسیم کیا جاتا؛ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دعویٰ کے مطابق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اور آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ [اس وراثت میں ] آپ کے شریک ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے خلاف صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔اوراگر آپ کاورثہ ناقابل تقسیم تھا تو اس معاملہ میں فریق حریف تمام مسلمان ہیں ؛ ان کے خلاف بھی صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔ البتہ ایسے واقعات میں فقہاء حجاز اور محدثین کے نزدیک مدعی کے حق میں ایک گواہ کیساتھ اس کی حلف کو شامل کر کے فیصلہ صادر کیا جا سکتا ہے۔

بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت کے بارے میں علماء کے دو مشہور اقوال ہیں ، امام احمد سے بھی اس ضمن میں دو روایتیں منقول ہیں :

۱۔ پہلی روایت : مقبول نہیں ، امام ابو حنیفہ، مالک، لیث بن سعد، اوزاعی، اسحاق رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ کا مذہب بھی یہی ہے۔

۲۔ امام احمد کا دوسرا قول: خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہے، امام شافعی ، ابو ثور اور ابن المنذر کی بھی یہی رائے ہے۔

بنا بریں اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی صحت کو تسلیم بھی کیا جائے، تو حاکم وقت ایک مرد یا ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، خصوصاً جب کہ اکثر علماء کے نزدیک خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہی نہیں ۔اور پھر علماء کرام کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو صرف ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اور جو کوئی ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں : تووہ بھی طالب دعوی کے لیے اس وقت تک فیصلہ کرنے کا نہیں کہتے جب تک اس سے پختہ حلف نہ لے لیا جائے ۔

چوتھی وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو لے کر آئیں ؛ اور انہوں نے گواہی دی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔’’ سب محدثین نے روایت کیا ہے کہ ام ایمن ایک جنتی خاتون ہیں۔‘‘

جواب :

یہ ایک جاہلانہ بات ہے، شیعہ مصنف ایسی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہونے کی بجائے مضر ہے۔ اگرایسی بات حجاج بن یوسف یا مختار بن ابی عبید جیسے ظالم لوگوں کے منہ سے بھی نکلتی تو اس کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالی معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا خصوصاً جب کہ مدعی ایک ایسی چیز کی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہو جو کسی اور کے زیر تصرف ہو اور ظاہر میں وہ کسی غیر کا حق ہو۔مگر یہاں تو اس کے قائل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے صادق القول بزرگ ہیں ۔

[اشکال ] :

شیعہ مضمون نگار نے کہا ہے کہ حدیث ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘ سب محدثین نے روایت کی ہے۔‘‘

[جواب] :

یہ صریح کذب ہے۔ یہ روایت کتب حدیث میں مذکور نہیں اور نہ ہی کسی محدث نے اسے روایت کیا ہے۔ ام ایمن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ رہ چکی تھیں ۔

[وجدتْ حدیثین في حق ام أیمن ؛ أم أیمن أمي بعد أمي۔‘‘وضعفہ السیوطي و الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۱؍ ۳۸۹۔ والثانی: من سرہ أن یتزوج امرأۃ من أہل الجنۃ فلیتزوج أم أیمن ۔‘‘ذکر السیوطي أن ابن سعد رواہ عن سفیان بن عقبۃ مرسلاً ؛ وضعفہ الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۵؍ ۲۰۵۔ اس کانام برکۃ بنت ثعلبۃ بن عمرو بن حصن تھا۔ الاصابۃ ۴؍۴۱۵۔]

یہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچی تھیں اور صحابیات میں بڑی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔ بایں ہمہ روایت حدیث میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے؛ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل علم پر افترا پر دازی کر کے کوئی روایت بیان نہیں کی جا سکتی ۔

باقی رہی یہ بات کہ بقول شیعہ مصنف ’’ یہ روایت سب نے ذکر کی ہے۔‘‘ بالکل غلط ہے، ایسا دعویٰ صرف حدیث متواتر کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص اکابر صحابہ کی بیان کردہ حدیث ’’ لَانورث ‘‘ کا منکر ہو اور ام ایمن کے بارے میں ذکر کردہ حدیث کو متواتر قرار دیتا ہو اس کے اجہل الناس اور منکر حق و صداقت ہونے کے بارے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔

اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بشرط صحت حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے؛ توایسا مژدہ آپ نے دیگر صحابہ کے بارے میں بھی سنایا ہے۔ آپ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جنت کی بشارت سنائی ہے۔

نیز یہ بھی فرمایا کہ :بیعت الشجرہ میں شمولیت کرنے والوں میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائے گا۔

[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ رضی اللّٰہ عنہم (ح:۲۴۹۶)] 

یہ حدیث سنداً صحیح اور محدثین کرام کے نزدیک مسلّم ہے۔وہ حدیث جس میں آپ نے صحابہ کے بارے میں جنت کی شہادت دی ہے، اہل سنن نے متعدد طرق سے بروایت عبدالرحمن بن عوف، سعید بن زید نقل کی ہے۔

[سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخلفاء( ح:۴۶۴۹،۴۶۵۰) و سنن ترمذی کتاب المناقب۔ باب مناقب سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۵۷) عن سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۴۷) عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ ۔]

یہ روایات محدثین کے نزدیک عام طور سے معروف ہیں ۔

پھر جن احادیث میں صحابہ کے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، شیعہ ان کی تکذیب کرتے ہیں اور صحابہ پر یہ کہہ کر معترض ہوتے ہیں کہ وہ اس حدیث کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک عورت کی گواہی قبول نہیں کی ؛ جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اسے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، کیا اس سے بڑا جہل و عناد اور بھی ہوسکتا ہے؟

علاوہ ازیں یہ ضروری نہیں کہ جو شخص جنتی ہو وہ مقبول الشہادۃ بھی ہو۔اس لیے کہ اس امر کا احتمال موجود ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کا ارتکاب کررہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حضرت خدیجہ، فاطمہ و عائشہ رضی اللہ عنہم جیسی جنتی عورتیں شہادت دیں تو قرآن کے حکم کے مطابق ان کی شہادت کو مرد کی شہادت کے مقابلہ میں نصف شہادت قرار دیا جائے گا۔ جس طرح ان میں سے کسی ایک کا میراث میں حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔ اور اس کی دیت بھی مرد سے آدھی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف مذکور نہیں ،تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔پس کسی عورت کے جنتی ہونے سے اس کا مقبول الشہادۃ ہونا لازم نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کر رہی ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک جھوٹا شخص دروغ گوئی سے تائب ہو کر جنت میں جا سکے۔

پانچویں وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لیے قبول نہ کی کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے۔‘‘ یہ صریح کذب ہے ، اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی ہمارے حق میں مضر نہیں ۔ اس لیے کہ بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت اکثر علماء کے نزدیک ناقابل قبول ہے۔ جو علماء اس کی قبولیت کے قائل ہیں وہ اس شرط کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ شہادت کا نصاب پورا ہوجائے، مثلاً خاوند کے ساتھ ایک مرد گواہ اور بھی ہو یا دو عورتیں ہوں ، ایک آدمی اور ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر کرنا جب کہ مدعی سے حلف بھی نہ لیں ؛ ناروا ہے۔

چھٹی وجہ :....شیعہ مصنف کی پیش کردہ روایت کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور حق آپ کے ساتھ لگا لپٹا ر ہے گا؛ اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘اور پھر یہ کہنا کہ یہ روایت سب علماء نے بیان کی ہے۔یہ کذب و جہالت کی انتہا ہے۔ یہ روایت بسند صحیح یا ضعیف کسی نے بھی نقل نہیں کی۔ پھر یہ کہنا کس حد تک صحیح ہے کہ ’’ یہ روایت سب محدثین نے بیان کی ہے۔ ‘‘ اس شخص سے زیادہ جھوٹا اور کون ہو سکتا ہے، جو کسی روایت سے متعلق کہے کہ سب صحابہ و علماء نے یہ روایت بیان کی ہے، حالانکہ وہ حدیث اصلاً کسی ایک سے بھی منقول نہ ہو؛ یہ کھلا ہوا کذب و افترا ہے۔

البتہ اگر یوں کہا جاتا کہ بعض علماء نے یہ روایت بیان کی ہے تو یہ بات کسی حد تک دائرہ امکان کے اندر ہوسکتی تھی ۔

لیکن اس روایت کا اعتبار ہی کیا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سراسر بہتان اورجھوٹ ہے ۔ بخلاف اس روایت کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ’’ام ایمن جنتی عورتوں میں سے ہے ۔‘‘ ایسا کہنا ممکن ہے ۔ اس لیے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نیک عورت تھیں ‘ آپ مہاجرات صحابیات میں سے تھیں ؛ آپ کو جنت کی بشارت دیے جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔بخلاف اس کے کہ کسی ایک انسان کے متعلق کہا جائے کہ : ’’حق اسی کیساتھ ہوگا وہ جہاں کہیں بھی ہوگا اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ایسے کلام سے منزہ ومبراء ہے۔

[مذکورۃ الصدر حدیث درج ذیل وجوہ و اسباب کی بنا پر معنوی اعتبار سے بھی ناقابل قبول ہے] :

اوّل :....حوض نبوی پر اشخاص وارد ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا تھا:

’’ تم صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو۔‘‘

[البخاری ۵؍۳۳ کتاب مناقب الانصار؛ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للأنصار: ’’اصبروا حتی....۔‘‘و مسلم ۳؍ ۱۴۷۴ ؛ کتاب الإمارۃ ؛ باب الأمر بالصبر عند ظلم الولاۃ‘‘۔] 

اور دوسری روایت میں ہے :

’’ بیشک میرا حوض ایلہ سے لیکر عدن تک بڑا ہوگا۔ اور اس حوض پر آنے والے سب سے پہلے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے ۔ پراگندہ سروں والے؛ میلے کپڑوں والے ‘ جو مال دار عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے ‘ اور جن کے لیے بند دروازے نہیں کھولے جاتے ۔ان میں سے کسی ایک کی موت آتی ہے تو اس کی خواہش اس کے سینے میں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔‘‘

[رواہ مسلم ۴؍۱۹۰۲؛کتاب الفضائل ؛ باب اثبات حوض نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم و صفاتہ؛ البخاری ۳؍۱۹۰]۔سنن الترمذي ۴؍ ۴۷ ؛ کتاب صفۃ القیامۃ ؛ باب ما جاء في صفۃ أواني الحوض ۔] 

جب کہ حق کوئی مجسم چیزیا اشخاص میں سے نہیں جو حوض پر وارد ہونے کے قابل ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ؛ وہ کتاب اللہ اور میرے اہل بیت کی عترت ؛یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘

[سنن الترمذي ۵؍۳۲۸ ؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب أہل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ حسن غریب۔] 

وہ حدیث [حضرت علی رضی اللہ عنہ والی] بھی اسی باب سے ہے ۔اس میں کچھ کلام بھی ہے جو کہ اپنے موقع پر ذکر کیاجائے گا۔

اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے مراد قرآن کاثواب ہوگا۔ رہا یہ مسئلہ کہ حق ایک شخص کیساتھ گھومتا ہو ‘ اور وہ شخص حق کے ساتھ گھومتا ہو ؛ وہ اس شخص کی صفت [لازمہ ] ہو کہ اس سے آگے تجاوز نہ کرسکتا ہو۔ تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا قول سچا ہوگا؛ عمل نیک اور صالح ہوگا ؛ اس سے یہ مراد ہر گزنہیں ہوسکتی کہ اس کے علاوہ کسی غیر کے پاس حق میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔

حالانکہ حق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ گردش کرتا ہے اور دوسرا کوئی انسان اس خصوصیت کا حامل نہیں ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ میں یہ وصف تسلیم کیا جائے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم ہونا لازم آتا ہے۔ شیعہ جہالت کی بنا پر عصمت علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتے ہیں ۔جو شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ علی،ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کی نسبت معصوم تر نہ تھے؛بلکہ یوں کہیے کہ ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ۔ اورلوگ شیعہ کی دروغ گوئی سے بخوبی واقف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ بالکل اسی طرح ہیں جس طرح ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ۔ ایسا ہر گز نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ خلفاء ثلاثہ کے فتاویٰ کی نسبت اولیٰ بالصواب ہوں ۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے اقوال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی نسبت ضعیف و مرجوح ہیں ۔یہ بھی درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر خلفاء کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ خوش اور ان کے زیادہ ثنا خواں تھے۔ بخلاف ازیں اگر کوئی شخص کہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد مرتبہ زجر و عتاب فرمایا تو اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ہوگا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی میں یہ شکوہ پہنچایا اور کہا: ’’ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت نہیں فرماتے۔‘‘ تو آپ مسجد نبوی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:

’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینے کی اجازت طلب کی ہے۔واضح رہے کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا، [ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے] ۔ البتہ علی رضی اللہ عنہ اگر میری بیٹی کو طلاق دے دیں تو ان کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔ فاطمہ! میرا جگر پارہ ہے جو اس کو شک میں ڈالتا ہے، وہ مجھے شک میں مبتلا کرتا ہے اور جو چیز اس کو ایذا دیتی ہے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ایک داماد


[ان کا نام ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس بن عبد مناف ہے، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے داماد اور آپ کی سب سے بڑی دختر فرخندہ اخترحضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے، ان کی بیٹی کا نام امامہ تھا جن کو حالت نماز میں آپ کندھے پر اٹھا لیا کرتے تھے، جب سجدہ کو جاتے تو زمین پر رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے اٹھا لیا کرتے تھے،

(صحیح بخاری۔ کتاب الصلاۃ ، باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ (ح:۵۱۶) ،صحیح مسلم۔ کتاب المساجد، باب جواز حمل الصبیان فی الصلاۃ(حدیث:۵۴۳)

یہ وہی امامہ بنت ابوالعاص ہیں کہ جب ان کی خالہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا توحضرت علی نے ان سے نکاح کر لیا تھا۔ ابوالعاص متاخر الاسلام ہیں ۔ غزوۂ بدر میں یہ قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے گئے تھے، اور قید کر لئے گئے، جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا توحضرت زینب نے وہ ہار مدینہ روانہ فرمایا جو رخصتی کے وقت ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پہنایا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہار پہچان لیا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا: ’’ اگر تم مصلحت دیکھو تو زینب کے قیدی کو رہا کر دو اور ہار اسے واپس دے دو۔‘‘

(سنن ابی داؤد۔ باب فی فداء الاسیر بالمال، (ح:۲۶۹۲) (]


ان کا ذکر کیا جو بنی عبد شمس کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’ اس (آپ کے داماد ابوالعاص) نے جب بات کی تو سچ بولا اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘


[صحابہ نے تعمیل ارشاد کر دی۔ بعد ازاں حضرت زینب نے ابو العاص سے ہجرت کی اجازت طلب کی جو اس نے دے دی، ابوالعاص ایک تجارتی قافلہ کو لے کر ملک شام گئے، ساحل سمندر پر مسلمانوں کی ایک جماعت آباد تھی جس میں ابو جندل اور ابو بصیر بھی شامل تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ابو العاص کو قید کر لیا اور مدینہ پہنچادیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: زینب نے ابوالعاص کو مال و متاع سمیت پناہ دی ہے۔قید کرنے والوں نے ابوالعاص کو اسلام لانے کی ترغیب دلائی اور ابو العاص کو مخاطب کر کے کہا ’’ ابوالعاص! آپ اشراف قریش میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ آپ رسول اﷲ کے چچا زاد اور داماد بھی ہیں اگر آپ مشرف باسلام ہوجائیں تو اہل مکہ کا سب مال آپ کو غنیمت میں مل جائے گا۔ابوالعاص نے جواباً کہا ’’ تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے، کہ میں مکر و فریب کے ساتھ اپنے مذہب کو چھوڑوں ۔‘‘ جب آپ نے ابوالعاص کو رہا کیا تو پہلے مکہ گئے اور حق داروں کی ایک ایک پائی ادا کی، پھر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو مخاطب کر کے کہا ’’ مکہ والو! بتائیے کیا میں نے واجب الاداء حقوق ادا کیے یا نہیں ۔‘‘؟ انہوں نے کہا ’ اﷲ کی قسم!ضرور۔‘‘ تب ابوالعاص نے کلمہ شہادت پڑھا اور عازم مدینہ ہوئے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کو ابوالعاص کے یہاں بھیج دیا، اور نکاح جدید کی ضرورت نہ سمجھی۔

(مستدرک حاکم (۳؍۲۳۶۔ ۲۳۷) سیرۃ ابن ہشام (ص:۳۱۲،۳۱۴) سنن ابی داؤد۔باب الی متی ترد علیہ امراتہ (ح۲۲۴۰) بذکر النکاح فقط۔

ابوالعاص اموی اور ان کے اشباہ و امثال جن بلند اخلاق اور اوصاف کے حامل تھے، ان کا ذکر و بیان یہاں ممکن نہیں ۔] 

ظہور اسلام سے قبل وہ جس طرح عرب بھر میں ممتاز تھے، اسلام لانے کے بعد تاریخ اسلام میں بھی انہیں بلند مقام حاصل ہوا۔ عربوں کے اخلاق جلیلہ اور ان کی بلند پایہ عربی فطرت ہی ہے جس کی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم قوم کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے منتخب فرمایا۔

صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی ا للّٰہ علیہ وسلم ۔ باب ذکر اصھار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح: ۳۷۲۹ ،۵۲۳۰) ۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۲۴۴۹ )


ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر دستک دے کر دریافت فرمایا:

’’ کیا تم نماز (تہجد) نہیں پڑھتے۔‘‘؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہماری جانیں اﷲ کے قبضہ میں ہیں جب چاہتا ہے جگا دیتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر افسوس کے عالم میں اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے چل دئیے، زبان مبارک پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری تھے:

{ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا }

[الکہف۵۳] 

’’انسان جھگڑا کرنے میں سب چیزوں سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘

[البخاری، کتاب التہجد۔ باب تحریض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قیام اللیل ، (ح: ۱۱۲۷) صحیح مسلم ۔ کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب الحث علی صلاۃ اللیل و ان قلت۔(حدیث:۷۷۵)۔] 

جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ کا تعلق ہے، آپ نے فتوی دیا تھا کہ جب کسی عورت کا خاوند فوت ہوجائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت

’’اَبْعَدُ الَاجَلَیْنِ‘‘

(عدت وفات اور وضع حمل ہر دومیں سے جو بعید تر ہو) ہے،

عہد نبوت میں جب ابو سنابل بن بعکک نے یہی فتوی دیا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو سنابل جھوٹ کہتا ہے۔

[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً(ح:۳۹۹۱) صحیح مسلم۔ کتاب الطلاق ، باب انقضاء عدۃ المتوفی عنھا زوجھا، (ح:۱۴۸۴) مسند احمد(۱؍۴۴۷)۔] 

اس کے نظائر و امثال بہت ہیں ۔بہر کیف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا تھا۔جیسا کہ وہ خود اپنے حق میں فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔

ساتویں وجہ :....شیعہ مضمون نگارنے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جو واقعہ ذکر کیا ہے وہ ان کے شایان شان نہیں ۔اس سے کوئی جاہل ترین انسان ہی حجت پکڑ سکتا ہے۔ شیعہ مصنف اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ اس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش ہو رہی ہے، حالانکہ یہی واقعہ ان کے حق میں تنقیص شان کا موجب ہے ۔ بشرط صحت اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں فیصلہ صادر نہ کیا تو آپ کس لیے ناراض ہو گئیں ....؟ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حق و صداقت پر مبنی تھا، جس کی خلاف ورزی کسی کے لیے بھی درست نہیں ، لہٰذا اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہ تھی۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف اس کے حق میں فیصلہ صادر کیا جائے اور جب حاکم ایسا نہ کر سکے تو وہ اس سے ناراض ہو جائے اور بات چیت ترک کرنے کی قسم کھالے تو یہ بات اس شخص کے لئے نہ موجب مدح ہے اور نہ حاکم کے حق میں سبب جرح و قدح۔ بخلاف ازیں یہ بات ایسا تقاضا کرنے والے کے لیے جرح و قدح سے قریب تر ہے۔

ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا و دیگر صحابہ سے اس قسم کے جو واقعات منقول ہیں ان میں سے اکثر صریح کذب اور بعض تاویل پر مبنی ہیں ۔ اور اگر ان میں سے بعض گناہ کے موجب بھی ہوں تو ہمیں کب اس سے انکار ہے، کیونکہ ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ اولیاء اللہ اور اہل جنت میں سے ہونے کے باوصف گناہوں سے بری نہ تھے۔ ہم پر امید ہیں کہ اﷲتعالیٰ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔

رافضی مصنف نے جو ذکر کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کرنے کی قسم کھا لی اور کہا کہ اپنے والد محترم (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مل کر اس کا شکوہ کریں گی؛ یہ بات شان فاطمہ رضی اللہ عنہا کے منافی ہے۔ شکوہ صرف بارگاہ ربانی میں کیا جا سکتا ہے اور بس!قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اللہ کے ایک نبی نے کہا تھا:

{ اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِی اِلَیْ اللّٰہِ }

(یوسف:۷۶) 

’’میں بارگاہ ایزدی میں اپنے حزن و ملال کا شکوہ کرتا ہوں ۔‘‘

موسیٰ علیہ السلام دعا فرمایا کرتے تھے:

’’بارالٰہی ! مدح و ستائش صرف تیرے لیے ہے، تیرے حضور ہی میں شکایت کی جاتی ہے تجھی سے مدد چاہی جاتی ہے اور تجھی سے فریادرسی کی جاتی ہے، ہمارا تکیہ صرف تیری ہی ذات پر ہے۔‘‘

سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے فرمایا تھا :

’’ سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ سے کیجئے،اور اگر مدد طلب کرنا ہو تو اﷲ سے کیجئے۔‘‘

[مسند احمد (۱؍۲۹۳،۳۰۷) سنن ترمذی۔ کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب (۵۹) (حدیث: ۲۵۱۶) ۔] 

آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے سوال کیجئے یا مجھ سے طلب امداد کیجئے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

{ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ}

(الانشراح:۷۔۸) 

یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص حاکم سے مال طلب کرے اور غیر مستحق ہونے کی بنا پر حاکم اس کا مطالبہ پورا نہ کرے اس پر مزید یہ کہ حاکم اس مال کو اپنے عزیز و اقارب پربھی صرف نہ کر رہا ہو بلکہ حسب موقع و مقام سب مستحق مسلمانوں کو دیتا ہو۔


[اگر حدیث نبوی ’’ لانورث ‘‘ سے صرف نظر کر لیا جائے تو اس میں شبہ نہیں کہ سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا دونوں ورثاء میں شامل تھیں ،حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے مذکورۃ الصدرحدیث کی تعمیل میں دونوں کو ورثہ سے محروم کر کے آپ کے صدقہ کو عام صدقات میں جمع کر دیا تھا، تاہم آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے، اہل بیت کو بیت المال سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی اجازت دے دی تھی،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جملہ امور میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے التزام کو قائم رکھا اور ہر صورت میں اسے نبھانے کی کوشش کی، آپ نے بدعات سے کنارہ کش رہنے کی قسم کھائی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑی بدعت اور کیا ہوتی کہ آپ حدیث ’’ لانورث ‘‘ کی خلاف ورزی کرتے، حالانکہ یہ روایت کثیر صحابہ سے مروی ہے، اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔]


پھر کہا جائے کہ وہ طالب ِمال حاکم سے بگڑ گیا۔ تو ظاہر ہے کہ اس کی ناراضگی کا موجب صرف یہ امر ہے کہ حاکم نے اس کو مال نہ دیا اور یہ کہہ دیا کہ دوسرے لوگ اس کی نسبت اس مال کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس ناراضگی میں طالب مال کے لیے مدح و ستائش کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا اگرچہ طالب مظلوم بھی ہو۔ تا ہم اس کی ناراضگی صرف دنیوی مال کی خاطر ہے۔ اس صورت میں طالب مال کو متَّہم کرنا حاکم کو مطعون قرار دینے کی نسبت اقرب الی الصحت ہے۔ خصوصاً جب کہ حاکم یہ مال خود نہیں لے رہا اور طالب مال اسے خود اپنی ذات کے لیے حاصل کرنے کے درپے ہے۔ حاکم واشگاف الفاظ میں کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مجھے مال دینے سے مانع ہے، میرے لیے یہ کیوں کر روا ہے کہ مستحق سے مال لے کر غیر مستحق کو دے دوں ؟ طالب مال اس کے سوا آخر کیا کہہ سکتا ہے کہ میری ناراضگی کا باعث صرف قلیل مال ہے دگر ہیچ۔

جو شخص سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایسا واقعہ بیان کر کے اسے ان کی مدح پر محمول کرتا ہے، اس کا جاہل ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے، اللہ تعالیٰ منافقین کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں :

{وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ o وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ}

(التوبہ: ۵۸۔ ۵۹) 

’’بعض منافق صدقات کے متعلق آپ پر طعن کرتے ہیں ، اگر صدقات مل گئے تو خوش، ورنہ ناخوش اور اگر وہ اﷲ کے عطا کردہ مال پر رضا مندی کا اظہار کرتے، اور یوں کہتے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے دیتا رہے گا؛اور اس کا رسول، ہماری رغبت صرف بارگاہ ربانی کی جانب ہے ۔‘‘

اس آیت میں منافقین کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ دیے جانے کی صورت میں خوش ہوتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو غیظ و غضب کا اظہار کرنے لگتے ہیں ، منافقین کی زندگی کا یہی پہلو ان کی مذمت کا موجب ہوا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ جو شخص اسی خصوصیت کی بنا پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح سرائی کرتا ہے، جس کی مذمت بیان کی گئی ہے تو وہ بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ روافض نے اہل بیت کی شان میں جو گستاخیاں کی ہیں اور جس طرح ان کی زندگیوں کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے،وہ کسی بھی اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے ۔ اہل بیت کی جانب سے اللہ تعالیٰ ہی اس کا انتقام لے گا۔

[اشکال ] :

اگر کوئی شخص یہ کہے:سیدہ فاطمہ اپنا حق طلب کرنے آئی تھیں اور حق کا مطالبہ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ۔‘‘

[جواب] :

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو یہود و نصاری تک کے حقوق ادا کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے، بھلا آپ سیدۃ النساء سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق ادا کرنے سے کیوں کر انکار کر سکتے تھے؟، مزید برآں اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا مال اﷲ کی راہ میں صرف کیا کرتے تھے، پھر آپ لوگوں کے حقوق اداکرنے سے کیوں کر باز رہ سکتے تھے۔

[سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایک عزیز مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کی مالی امداد فرمایا کرتے تھے، اس ضمن میں سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی:

{وَلَا یَاتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْـکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُؤْتُوْا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } (نور: ۲۲) (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب حدیث الافک،(حدیث:۴۱۴۱) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی حدیث الافک (حدیث: ۲۷۷۰)] 

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا مطالبہ کیا تھا؛اور آپ اسے پورا نہ کر سکے۔ بخاری و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں خادم طلب کرنے آئیں اور آپ نے خادم عطا کرنے کی بجائے ان کو تسبیح کے کلمات پڑھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔

[صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابۃ باب باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۶۳۱۸) ،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء باب التسبیح اوّل النھار و عند النوم (حدیث:۲۷۲۷) ۔


یہ پوری حدیث اس طرح ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔


اگر یہ آیت کریمہ کسی انسان کے بارے میں انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی پر نازل ہوتی تو اس نبی کی امت کا سخت بے شرم آدمی بھی اس شخص کی شان میں گستاخی کرنے سے شرم محسوس کرتا، جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی مگرحضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے جذبہ حیاء سے عاری ہیں ، اس لیے کہ حیا ایمان کا جزء ہے،اور انہیں ایمان سے کوئی سروکار نہیں ۔

جب یہ جائز ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ یہ مطالبہ پورا نہ کریں اور اس کا پورا کرنا آپ پر واجب بھی نہ ہو؛ تو اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ وہ خلیفہ رسول سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ اس مطالبہ کی تکمیل سے قاصر رہیں ۔ خصوصاً جبکہ ہم اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا معصوم نہیں اور ممکن ہے آپ ایسا مطالبہ کریں جس کی تکمیل ضروری نہ ہو۔ جب مطالبہ کا پورا کرنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر واجب نہ ہوا تو ایک غیر واجب امر کے ترک کرنے پر آپ ہر گز قابل مذمت نہیں ، یہ امر مباح ہی کیوں نہ ہو۔جب ہم یہ فرض کر لیں کہ اس مطالبہ کا پورا کرنا سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے مباح بھی نہ تھا تو اس کی عدم تکمیل پر آپ مدح کے قابل ہوئے نہ کہ مذمت کے مستحق اور یہ کبھی معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے بعد کسی کا حق ادا کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔

شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ:’’ انھیں رات کو دفن کیا جائے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان کا جنازہ نہ پڑھے۔‘‘ صرف وہی شخص اس قصہ کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرسکتا ہے جو بالکل جاہل ہو اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ایسے الزامات لگانا چاہتا ہو جو کہ آپ کی شان کے لائق نہیں ۔ آپ کی شان میں ایسے کلمات کہے جو آپ کی عزت وعظمت کے منافی ہوں ۔ بشرط صحت یہ بات چنداں مفید نہیں ۔ اس لیے کہ جنازہ پڑھنے سے میت کو فائدہ ہی پہنچتا ہے کسی ضرر کا اندیشہ نہیں ۔ نیز یہ کہ اگر ایک کم درجہ کا شخص افضل الخلق کا جنازہ پڑھے تو اسے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لیجیے کہ سب ابرار و اشرار اور منافقین آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ بفرض محال اگر اس سے آپ کو نفع نہیں پہنچتا تو ضرر بھی لاحق نہیں ہوتا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ آپ کی امت میں منافقین بھی ہیں ۔ اس کے باوصف آپ نے کسی کو بھی درود وسلام سے نہ روکا، بلکہ مومن و منافق سب کو درود و سلام کا حکم دیا۔

مذکورۃ الصدرحقائق اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ قبل ازیں ذکر کردہ واقعہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش پر دلالت نہیں کرتا اور اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت پر وہی شخص استناد کرتا ہے جو جاہل مطلق ہو۔ مزید برآں یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ مسلمان اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو اس کی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی اس لیے کہ نماز جنازہ اُس کے لیے ہرحال میں مفید ہے۔

[تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے ، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو ، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی ، ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاں ، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر ، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو ، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔

‘‘ح: ۳۷۰۷۔] 

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الاستیعاب میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی اس وصیت کا ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کو غسل دیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی ہی نے آپ کے لیے نعش کا انتخاب کیا تھا جیسا کہ وہ ملک حبشہ میں بچشم خود ملاحظہ کر چکی تھیں ۔ دیکھئے

حلیۃ الاولیاء، ابونعیم:۲؍۴۲، نیز السنن الکبریٰ امام بیہقی :۴؍۳۴، نیز ۳؍۹۶۔

یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر کسی انسان پر کسی نے ظلم کیا ہو اور مظلوم وصیت کرجائے کہ ظالم اس کے جنازہ میں شریک نہ ہو تو اس کا یہ فعل ایسی نیکی نہیں ہے جو اس کے لیے قابل ستائش ہو۔ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا حکم نہیں دیا۔ مقام تعجب ہے کہ حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعریف و توصیف کرنے والے ایسے واقعات کس لیے بیان کرتے ہیں جو ان کے لیے موجب مدح ہونے کی بجائے ان کی شان میں قدح وارد کرتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت اور اجماع سے مستفاد ہوتا ہے۔






No comments:

Post a Comment