باغ فدک ایک نہایت مختصر کھجوروں کا باغ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فی ملا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات تک اس کو اپنی تحویل میں رکھ رکھا تھا اس سے اپنے اہل وعیال کو بقدر قوت (ضرورت بھر) سال بھر کا نفقہ دے دیا کرتے تھے اور باقی جو کچھ بچتا تھا وہ فقراء مساکین پر صدقہ کردیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے متولی ہوئے اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور خلیفہ برحق ہونے کی حیثیت سے آپ کی ہی طرح اس کی آمدنی خرچ کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی عمل کیا، البتہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتظم تجویز فرمادیا تھا۔ باغ فدک کا واقعہ مختصر ہے، مگر شیعوں نے اس کو بے جا لمبا کردیا۔ سیرت مصطفی (۳/۲۴۲-۲۴۹) موٴلف حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی میں باغ فدک کا واقعہ مع شیعوں کے اعتراضات وجوابات مفصلاً مذکور ہے، تفصیل دیکھنی ہو تو اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔
مذکورہ واقعہ بخاری شریف میں کتاب المغازی اور مسلم شریف میں کتاب الجہاد میں مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
حضور ﷺکی وفات کے بعد حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے ان اموال (ترکہ ) سے اپنی میراث کا مطالبہ فرمایا جو اللہ تعالی نے رسول اللہ ْﷺ کو مدینہ اور فدک میں عنایت فرمائے تھے ،اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہﷺ کی وہ روایت مبارکہ سنائی ’’ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے‘‘البتہ آل محمد اسی مال میں سے اپنی ضرورت پوری کرے گی اور خدا کی قسم جو صدقہ رسول اللہ ﷺ چھوڑ گئے اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا، جس حال میں وہ حضور ﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو حضور ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا، اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا راضی ہوگئیں۔
خود شیعوں کی کتاب میں ہے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مذکورہ حدیث سنائی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اس پر راضی ہوں، چنانچہ شیعوں کی کتاب "محجاج السالکین" میں ہے :
"أن أبا بكر لما رأى فاطمة رضي الله تعالى عنها انقبضت عنه وهجرته ولم تتكلم بعد ذلك في أمر فدك كبر ذلك عنده فأراد استرضاءها فأتاها فقال: صدقت يا بنت رسول الله صلّى الله عليه وسلم فيما ادعيت ولكن رأيت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم يقسمها فيعطي الفقراء والمساكين وابن السبيل بعد أن يؤتى منها قوتكم فما أنتم صانعون بها؟ فقالت: افعل فيها كما كان أبي صلى الله تعالى عليه وسلم يفعل فيها فقال: لك الله تعالى أن أفعل فيها ما كان يفعل أبوك، فقالت: والله لتفعلن؟ فقال: والله لأفعلن ذلك، فقالت: اللهم اشهد، ورضيت بذلك، وأخذت العهد عليه فكان أبو بكر يعطيهم منها قوتهم ويقسم الباقي بين الفقراء والمساكين وابن السبيل۔"
(محجاج السالكين بحوالہ تحفہ اثنا عشریہ (اردو) باب نمبر۱۰ خلفاء ثلاثہ ....ص545، دار الإشاعت كراچی)
[الرياض النضرة في مناقب العشرة-الطبري: جلد 1 صفحه 191]
[تفسير روح المعاني-الألوسي: جلد 2 صفحه 430، جلد : 4 صفحه : 221]
[تفسير المنار: جلد 4 صفحه 339]
اور سب سے بڑھ کر خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں حضرت زید بن الحسین بن علی رضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ اگرمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جگہ ہوتا تو یہی فیصلہ کرتا جو فیصلہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔
چنانچہ السنن الكبری للبیہقی میں ہے :
"أخبرنا أبوعبد الله الحافظ … قال زید بن علی بن الحسین بن علي: أما أنا فلو كنت مكان أبي بكر رضي الله عنه لحكمت بمثل ماحکم به أبوبکر رضي الله عنه فی فدك."
(السنن الکبری للبیھقی :6/302)
و في البدایة و النهایة (۲۵۳/۵):
"و تكلمت الرافضة في هذا المقام بجهل عظیم و تکلفوا مالا علم لهم به و كذبوا بمالم یحیطوا بعلمه."
صحيح بخاری میں ہے :
"عن أبي اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري، أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه دعاه، إذ جاءه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد يستأذنون؟ فقال: نعم فأدخلهم، فلبث قليلا ثم جاء فقال:هل لك في عباس، وعلي يستأذنان؟ قال: نعم، فلما دخلا قال عباس: يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا، وهما يختصمان في الذي أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير، فاستب علي، وعباس، فقال الرهط: يا أمير المؤمنين اقض بينهما، وأرح أحدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» يريد بذلك نفسه؟ قالوا: قد قال ذلك، فأقبل عمر على عباس، وعلي فقال: أنشدكما بالله، هل تعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني أحدثكم عن هذا الأمر، إن الله سبحانه كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه أحدا غيره، فقال جل ذكره:{وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب}[الحشر: 6]- إلى قوله - {قدير} [الحشر: 6]، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم، ولا استأثرها عليكم، لقد أعطاكموها وقسمها فيكم حتى بقي هذا المال منها، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر: فأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضه أبو بكر فعمل فيه بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنتم حينئذ، فأقبل على علي، وعباس وقال: تذكران أن أبا بكر فيه كما تقولان، والله يعلم: إنه فيه لصادق بار راشد تابع للحق؟ ثم توفى الله أبا بكر، فقلت: أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، فقبضته سنتين من إمارتي أعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، والله يعلم: أني فيه صادق بار راشد تابع للحق؟ ثم جئتماني كلاكما، وكلمتكما واحدة وأمركما جميع، فجئتني - يعني عباسا - فقلت لكما: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» فلما بدا لي أن أدفعه إليكما قلت: إن شئتما دفعته إليكما، على أن عليكما عهد الله وميثاقه: لتعملان فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وما عملت فيه منذ وليت، وإلا فلا تكلماني، فقلتما ادفعه إلينا بذلك، فدفعته إليكما، أفتلتمسان مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، لا أقضي فيه بقضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنه فادفعا إلي فأنا أكفيكماه."
ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمؤمنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ”ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔
(صحيح البخاري: حدیث نمبر 4033، باب: حديث بني النضير)
نیز امام بیہقی کی ’’السنن الکبری‘‘ میں حضرت امام عامر شعبی سے ایک روایت ہےجس میں واضح طور پر موجود ہے کہ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مرض میں مبتلا ہوگئیں، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی اجازت سے گھر میں تشریف لے گئے اور دوران گفتگو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ :میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کے رسول کی مرضی اور اے آل رسول تمہاری مرضی اور خوشی کی ابتغاء اور جستجو کی خاطر کیا ہے، اس گفتگو کے دوران حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خوشی ورضا مندی کا اظہار فرمایا، جو صاف الفاظ سے مروی ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
"عن الشعبي قال: لما مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا أتاہا أبوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ، فاستأذن علیہا، فقال علي رضی اللہ عنہ: یا فاطمۃ! ہذا أبوبکر یستأذن علیک، فقالت: أتحب أن آذن لہ؟ قال: نعم، فآذنت لہ، فدخل علیہا یترضاہا، وقال: واللہ ما ترکت الدار والمال والأہل والعشیرۃ إلا ابتغاء مرضاۃ اللہ ومرضاۃ رسولہ ومرضاتکم أہل البیت، ثم ترضاہا حتی رضیت۔ ہذا مرسل حسن بإسناد صحیح."
(السنن الکبری للبیہقي، باب بیان مصرف أربعۃ أخماس الفيء … دارالفکر۹/ ۴۳۶، رقم:۱۳۰۰۵)
وهذا إسناد جيد قوى.
[السيرة النبوية - ابن كثير - ج ٤ - الصفحة ٥٧٥]
پھر اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا کیسے حق پہنچتا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں، پورے ذخیرۂ حدیث میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے، جس میں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہونا ثابت ہو، یہ محض اہلِ شیعہ کی طرف سے بدگمانی پیدا کرنے کی گندی حرکت ہے۔
دیگر صحابہ کی روایات-شواہد:
1️⃣ سب سے پہلے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی چند صحیح احادیث سے ثابت کرتا ہوں کہ انبیاء کرام کی میراث نہیں ہوتی۔
باب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا""أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ""لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"".
قَالَ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: صَدَقَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ أَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ أَنَا أَرُدُّهُنَّ، فَقُلْتُ لَهُنَّ: أَلَا تَتَّقِينَ اللَّهَ، أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ، يَقُولُ: ""لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ""، يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ، فَانْتَهَى أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَا أَخْبَرَتْهُنَّ، قَالَ: فَكَانَتْ هَذِهِ الصَّدَقَةُ بِيَدِ عَلِيٍّ مَنَعَهَا عَلِيٌّ عَبَّاسًا، فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا ثُمَّ كَانَ بِيَدِ حَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ثُمَّ بِيَدِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ وَحَسَنِ بْنِ حَسَنٍ كِلَاهُمَا كَانَا يَتَدَاوَلَانِهَا، ثُمَّ بِيَدِ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ وَهِيَ صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا"".
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ .
۔ (۶۳۵۰)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ اَزْوَاجَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حِیْنَ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَرَدْنَ أَنْ یُرْسِلْنَ عُثْمَانَ إِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ یَسْأَلْنَہُ مِیْرَاثَہُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقَالَتْ لَھُنَّ عَائِشَۃُ: أَوَ لَیْسَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَاہُ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۹۰)
۔ (۱۱۰۷۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ اَزْوَاجَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حِیْنَ تُوُفِیِّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَرَدْنَ أَنْ یُرْسِلْنَ عُثْمَانَ إِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ یَسْأَلْنَہُ مِیْرَاثَہُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقَالَتْ لَھُنَّ عَائِشَۃُ: أَوَ لَیْسَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَاہُ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۹۰)
۔ (۱۱۰۷۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا : أَنَّ فَاطِمَۃَ وَالْعَبَّاسَ أَتَیَا أَبَا بَکْرٍ یَلْتَمِسَانِ مِیرَاثَہُمَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَہُمَا حِینَئِذٍیَطْلُبَانِ أَرْضَہُ مِنْ فَدَکَ وَسَہْمَہُ مِنْ خَیْبَرَ، فَقَالَ لَہُمَا أَبُو بَکْرٍ رضی اللہ عنہ : إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((لَا نُورَثُ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔)) وَإِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی ہٰذَا الْمَالِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ لَا أَدَعُ أَمْرًا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَصْنَعُہُ فِیہِ إِلَّا صَنَعْتُہُ۔ (مسند احمد: ۹)
2️⃣ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی چند احادیث نبوی ، جن کے مطابق انبیاء کرام کی میراث نہیں ہوتی۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ""لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي، وَمَئُونَةِ عَامِلِي، فَهُوَ صَدَقَةٌ"".
صحيح مسلم كِتَابٌ : الْجِهَادُ وَالسِّيَرُ بَابٌ : قَوْلُ النَّبِيِّ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ ".
1761 ( 56 ) (المجلد : 5 الصفحة : 156)
وَحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".
مسند أحمد مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
7303 (المجلد : 12 الصفحة : 252)
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ، وَقَالَ مَرَّةً : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، مَا تَرَكْتُ - بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي - فَهُوَ صَدَقَةٌ ".
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين.
3️⃣ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی چند احادیث، جن کے مطابق انبیاء کرام کی میراث نہیں ہوتی۔
مسند أحمد مُسْنَدُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
333 (المجلد : 1 الصفحة : 416)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ : أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ : فَقُلْتُ لَكُمَا : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين
مسند أحمد مُسْنَدُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
336 (المجلد : 1 الصفحة : 417)
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين
حضرت ابوبکر صدیق کے علاوہ میں نے تین اور شخصیات سے بھی یہی حدیث نبوی دکھائی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یکسوئی اور علاحدگی کی علت دراصل یہ ندامت اور اپنی علالت اور صدمہٴ مفارقت پدری ونبوی تھی، اس سلسلے میں جو بھی روایات وارد ہوئی ہیں، ان میں علماء نے غور کرکے یہی معنی ومفہوم اخذ کیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیں
(سیرة المصطفی ۳/۲۴۵وبعدہ، ط: مکتبہ علمیہ سہارنپور)
باغِ فَدَک اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
سیدہ فاطمہ کا جنازہ کس نےپڑھایا؟؟
کیاسیدہ فاطمہ ابوبکرسےناراض رہیں؟؟
سوال:
شیعہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بخاری مسلم میں ہے کہ سیدہ کا جنازہ سیدنا علی نے پڑھایا اور ابوبکر کو خبر تک نہ ہونے دی ، راتوں رات دفن کر دیا۔
جواب:
بخاری حدیث نمبر 4240 اور مسلم حدیث نمبر1759 کے تحت امام زہری کا قول ہے ناکہ حدیث کہ سیدہ فاطمہ کی وفات کی خبر ابوبکر کو نہ دی گئ اور راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا
یہ امام زہری کا تفرد اضافہ و ادراج ہے امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا لیھذا زہری کا اضافہ بلاسند و بلادلیل ہے جوکہ مدرج و مرجوح ہے راجح اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے جنازہ پڑھایا…علماء کا اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات و تعلیقات صحیح ہوں یہ لازم نہیں..(دیکھیے نعمۃ الباری شرح بخاری7/615وغیرہ)
حوالہ نمبر 1…2 …3:
سیدنا امام مالک، سیدنا امام جعفر سیدنا امام زین العابدین جیسے عظیم الشان آئمہ سے روایت ہے کہ
عن مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده علي بن الحسين ماتت فاطمة بين المغرب والعشاء فحضرها أبو بكر وعمر وعثمان والزبير وعبد الرحمن بن عوف فلما وضعت ليصلى عليها قال على تقدم يا أبا بكر قال وأنت شاهد يا أبا الحسن قال نعم تقدم فو الله لا يصلى عليها غيرك فصلى عليها أبو بكر رضى الله عنهم أجمعين ودفنت ليلا
ترجمہ:
سیدہ فاطمہ کی وفات مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی تو فورا ابوبکر عمر عثمان زبیر عبدالرحمن(وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین) پہنچ گئے، سیدنا علی نے فرمایا اے ابو بکر آگے بڑھیے جنازہ کی امامت کیجیے، حضرت ابوبکر نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ حضرت علی نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا
(تاریخ الخمیس1/278 الریاض النضرۃ1/176 سمط النجوم1/536)
حوالہ نمبر4،5:
ثنا محمد بن هارون بن حسان البرقي بمصر ثنا محمد بن الوليد بن أبان ثنا محمد بن عبد الله القدامي كذا قال وإنما هو عبد الله بن محمد القدامي قال مالك بن أنس أخبرنا عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده قال توفيت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا فجاء أبو بكر وعمر وعثمان وطلحة والزبير وسعيد وجماعة كثير سماهم مالك فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل عليها قال لا والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فتقدم أبو بكر فصلى عليها فكبر عليها أربعا ودفنها ليلا…
ترجمہ:
سیدہ فاطمہ رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر عثمان طلحۃ زیر سعید اور دیگر کئ صحابہ جن کےنام امام مالک نے گنوائے سب آئے،حضرت ابوبکر نے علی سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں اور اسی رات دفنایا گیا
(الكامل في ضعفاء الرجال5/422,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر2492)
حوالہ نمبر6:
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا فُرَاتُ بْنُ السَّائِبِ حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ … كَبَّرَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى فَاطِمَةَ أَرْبَعًا …
ترجمہ:
سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں
(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث1/381)
حوالہ نمبر7:
حدثنا عبدالله بن محمد بن جعفر ثنا محمد بن عبدالله رشتة ثنا شيبان ابن فروخ ثنا محمد بن زياد عن ميمون بن مهران عن ابن عباس … كبر أبو بكر على فاطمہ اربعا
ترجمہ:
سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں
(حلیۃ الاولیاء4/96,)
حوالہ نمبر8:
عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده قال توفيت فاطمة ليلا فجاء أبو بكر وعمر وجماعة كثيرة فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل قال والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فتقدم أبو بكر وكبر أربعا
ترجمہ:
سیدہ فاطمہ رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر اور دیگر کئ صحابہ کرام آئے،حضرت ابوبکر نے علی سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں
(ميزان الاعتدال2/488)
حوالہ نمبر9:
أخبرنا محمد بن عمر حدثنا قيس بن الربيع عن مجالد عن الشعبي قال صلى عليها أبو بكر رضي الله عنه
ترجمہ:
سیدنا صدیق اکبر نے سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں
(الطبقات الكبرى8/24)
حوالہ نمبر10:
أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ أَبِي الْمُسَاوِرِ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا.
ترجمہ:
سیدنا صدیق اکبر نے بنت رسول سیدہ فاطمہ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں
(الطبقات الكبرى8/24)
حوالہ نمبر11 12 13 14:
وكبر أبو بكر على فاطمة أربعا
ترجمہ:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں
البدایہ و النہایۃ1/98
اتحاف الخیرۃ2/460
حلیۃ الاولیاء4/96
کنزالعمال15/718
حوالہ نمبر15
امام شعبی فرماتے ہیں
فأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو بكر أحمد بن كامل بن خلف بن شجرة القاضي، ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، ثنا عون بن سلام، ثنا سوار بن مصعب، عن مجالد، عن الشعبي أن فاطمة، رضي الله عنها لما ماتت دفنها علي رضي الله عنه ليلا، وأخذ بضبعي أبي بكر الصديق رضي الله عنه فقدمه يعني في الصلاة عليها
ترجمہ:
بےشک سیدہ فاطمہ کی جب وفات ہوئی تو حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے کندھوں سے پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا اور رات ہی میں سیدہ فاطمہ کو دفنایا
(سنن کبری بیھقی روایت نمبر6896)
مذکورہ حوالہ جات میں سے کچھ یا اکثر ضعیف ہیں مگر تمام سنی شیعہ علماء کے مطابق تعدد طرق ، کثرت طرق کی وجہ سے ضعف ختم ہوجاتا ہے
وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن
ترجمہ:
تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے
(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)
اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ ناراض نہ ہوئیں تھیں بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا…
(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری22/233 وغیرہ کتب)
بالفرض
اگر سیدہ فاطمہ ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر نے انہیں منا لیا تھا راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں
ترضاھا حتی رضیت
سیدنا صدیق اکبر بی بی فاطمہ کو(غلط فھمیاں دور فرما کر) مناتے رہے حتی کہ سیدہ راضی ہوگئیں۔
(سنن کبری12735 عمدۃ القاری15/20,السیرۃ النبویہ ابن کثیر4/575)
ابوبکر…فرضیت عنہ
فاطمہ ابوبکر(کی وضاحت،اظہارمحبت کےبعد)راضی ہوگئیں۔
(شرح نہج بلاغۃ2/57)
سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ فاطمہ کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے
سیدہ فاطمہ کی وصیت:
میری میت کوغسل ابوبکرکی زوجہ اورعلی دیں۔
(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)
یہ جھوٹ ہے کہ سیدہ فاطمہ علی عباس ازواج مطہرات اہلبیت وغیرہ کو رسول کریم کی املاک سے مطلقا محروم کیا گیا….سچ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخود بی بی فاطمہ و اہلبیت میں سے کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ نبی پاک نے اپنی ساری ملکیت اسلام کے نام وقف کی اور فاطمہ ازواج مظہرات اہلبیت وغیرہ پر وقف میں سے جو نفعہ پیداوار ملتی اسکو ان پر خرچ کرتے تھے
اسی طرح رسول کریم کی سنت پے چلتے ہوئے حضرت سیدنا صدیق اکبر عمر و علی رضی اللہ عنھم نے بھی اہلبیت آل رسول ازواج مطہرات وغیرہ کسی کو مالک نہ بنایا
بلکہ
فدک وغیرہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کےچھوڑےہوئےصدقات میں سےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آل محمد اہلبیت ازواج مطہرات فاطمہ علی عباس پر
اور
کچھ صحابہ اور کچھ عوام مسلمین پر خرچ کرتےتھے…عمر و علی رضی اللہ عنھما نے بھی یہی طریقہ جاری رکھا یہی طریقہ رسول کریم کا رہا تھا
( تاریخ الخلفاء ص305,
ابوداود روایت نمبر2970,2972,
سنن کبری للبیھی روایت نمبر12724
بخاری روایت نمبر2776،3712،)
انبیاء کرام علیھم السلام کی میراث درھم و دینار(کوئی مالی میراث)نہیں،انکی میراث تو فقط علم ہے
(شیعہ کتاب الکافی1/34)
رسول اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک دیا یا نہیں؟؟
شیعہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تمام روایات کا تحقیقی جائزہ
مسئلہ باغ فدک اور اہل تشیع کے تضادات
باغِ فَدَک اور شیعیت کی تضاد بیانیاں
بنام حضرت مولانا مفتی شیخ الحدیث والتفسیر عبدالعزیز العزیزی صاحب
حرفِ آغاز
باغِ فَدَک کے حوالے سے یہ نظریہ عوام میں مشہور ہے کہ یہ حق حضرت فاطمہؓ کا تھا جسے خلفائے راشدین (ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن) رضوان اللہ تعالیٰ عنہم نے غصب کیا۔
اِس باطل عقیدے اور نظریے کی ترویج روافض (اہل تشیع) کی طرف سے ہوئی اور اِس جھوٹ کو اتنا کہا گیا کہ یہ بات اہل سنت کے ایوانوں میں صداقت سمجھی جانے لگی۔ چنانچہ اِس دروغ گوئی، افتراء اور کِذب کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم علم اہل سنت، حضراتِ صحابہؓ سے بدظن ہونے لگے، اور خصوصاً خلفائے راشدین پر عدالتیں قائم کرنے لگے۔
میری اِس تحریر کا مقصد اُس حقیقت کو آشکارا کرنا ہے جو پوشیدہ رکھی گئی اور ایسے زخم کو جسم سے نکال پھینکنا ہے جو ناسور بن کر آہستہ آہستہ جسم کے حِصّے میں پھیلتا جارہا ہے۔
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں،
لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
محل وقوع
فَدَک کے محل وقوع کے حوالے سے اہل تشیع کے نزدیک دو موقف اور نظریات پائے جاتے ہیں۔
فَدَک کا پہلا محل وقوع:
فَدَک کے پہلے محل وقوع کے حوالہ جات شیعہ کتب سے مندرجہ ذیل ہیں۔
1) فَدَک منطقہ حجاز میں مدینہ سے تقریباً 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
(یاقوت حموی 1995)
(معجم البلدان 4/238)
2) فَدَک کے مقام پر اِس وقت “الحائط” شہر آباد ہے۔
(جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، صفحہ 396)
3) سنہ 1975عیسوی میں یہ شہر 21 دیہات پر مشتمل تھا جبکہ سنہ 2010عیسوی کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی کل آبادی تقریبا 14000 نفوس ہے۔
فَدَک میں صدر اسلام کے دور میں یہودی آباد تھے
(بلادی جلد 2 صفحہ 206-205)
(معجم معالم الحجاز جلد 8 صفحہ 23)
4) اِس علاقے کی اسٹرٹیجک محل وقوع کو مد نظر رکھتے ہوئے یہودیوں نے اس علاقے کو فوجی علاقہ قرار دیا ہوا تھا۔
(سبحانی حوادث سال ہفتم ہجرت: سرگزشت فدک 1344 ش، صفحہ 14)
5) تاریخی منابع کے مطابق اس علاقہ میں عمر ابن خطاب کے دورِ خلافت تک یہودی آباد تھے لیکن انہوں نے یہودیوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کیا۔
(مرجانی، بہجۃ النفوس و الأسرار فی تاریخ، 2002م، جلد1، صفحہ 438)
6) ظہورِ اسلام کے وقت فَدَک باغات اور نخلستانوں پر مشتمل تھا۔
(یاقوت حموی جلد 4 صفحہ 238)
(معجم البلدان، جلد 4 صفحہ 238)
(ابن منظور،1410ق لسان العرب جلد 10، صفحہ 436)
7) شہر کوفہ جو کھجوروں سے منافع لینے کے حوالے سے ایک غنی شہر سمجھا جاتا تھا۔ فَدَک کی آمدنی
یہاں کے نخلستان میں موجود کھجوروں کے درختوں کی آمدنی کے مساوی سمجھی جاتی تھی۔
(ابن ابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ق، جلد 16 صفحہ 246)
8) جس وقت حضرت عمرؓ نے حجاز سے یہودیوں کو نکالنا چاہا تو فَدَک میں موجود نصف درختوں کے مقابلے میں یہودیوں کو 50 ہزار درہم ادا کیا۔
(جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 14ق، صفحہ 98)
9) پیغمر اکرم(ص) کے زمانے میں فَدَک کی سالانہ آمدنی کا 24 سے 70 ہزار دینار تک کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
(قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ق، جلد 1، صفحہ 113)
(ابن طاووس، کشف المحجۃ الثمرۃ المہجۃ، 1307ق، صفحہ 124)
10) موجودہ دور میں فَدَک سعودیہ عربیہ کے
"حائل" نامی صوبے میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنہ 1999 عیسوی کو اس علاقے کا نام
وادی فاطمہ” رکھا گیا اسی طرح اس میں موجود باغ کو باغ فاطمہ مسجد کو مسجد فاطمہ اور چشمہ کو عیون فاطمہ کا نام دیا گیا۔
(مجلسی کوپائی، فَدَک از غصب تا تخریب،248۔250)
11) اِس علاقے میں موجود عمارتیں اور منارے خراب ہو چکے ہیں اور نخلستان میں موجود اکثر کھجور کے درخت بھی سوکھ چکے ہیں۔
(مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب،1388ش، صفحه 248 و 287۔284)
خلاصہ:
فَدَک کا محل وقوع جغرافیہ دان اور مؤرخین نے مدینہ سے 160 کلومیٹر دور بتایا ہے اور اس میں موجود کجھور کے درختوں کی تعداد بھی بتائی گئی ہے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آدھا مسلمانوں کے پاس تھا آدھا حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ حکومت میں 50 ہزار درہم میں خریدا۔
مدینے سے 160 کلومیٹر کا فاصلہ اور حضرت عمرؓ کے دور تک یہاں یہودی آباد تھے اور آدھا باغ فَدَک حضرت عمرؓ نے اپنے دور حکومت میں حکومتی خزانے سے 50 ہزار درہم میں خریدا تو باغ فدک کی یہ حالت ہمیں اس کے ریاستی معاہدہ ہونےکا خبر دیتی ہے
فَدَک کا دوسرا محل وقوع
فَدَک کے دوسرے محل وقوع کے حوالہ جات شیعہ کتب سے مندرجہ ذیل ہیں۔
1) مہدی عباسی (عہد بنو عباس کا حکمران) نے ابوالحسن (کُنیت امام موسیٰ کاظم) سے کہا: اے ابوالحسن اِس کا حُدودِ اربع بتاؤ، آپ کہنے لگے: اِس کی ایک حَد جبل اُحد ہے، ایک حَد عریش مصر ہے، ایک حَد سیف البحر ہے اور ایک حَد دومۃ الجندل ہے۔
(الاصول من الکافی ، باب الفتی والانفال ،جلد 1 ،صفحہ 543)
(انوار النعمانیہ)
(مناقب مفاخرہ)
شیعہ کتاب اصولِ کافی کی اِسی روایت کو مکمّل تفصیل سے دوسری جگہ لکھا گیا ہے۔
2) علی بن اسباط سے مروی ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم، مہدی عباسی کے پاس آئے تو خلیفہ لوگوں کے غضب شدہ مال واپس کر رہا تھا حضرت نے فرمایا ہماری غضب شدہ کو بھی واپس کر دو اُس نے کہا وہ کیا ہے؟؟ فرمایا جب اللہ نے اپنے نبی کو فَدَک پر فتح دی اور بغیر جنگ حاصل ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اے رسول صلعم ذوالقربی کا حق اُسے دے دو جبرئیل سے حضرت نے پوچھا یہ کون ہے؟ جبرئیل نے خدا سے پوچھا خدا نے وحی کی، فَدَک فاطمہ کو دے دو پس حضرت نے اُن کو بلایا اور فرمایا خدا نے مجھے حکم دیا کہ میں باغِ فَدَک تم کو دے دوں۔
انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلعم جو خدا اور رسول صلعم نے عطا کیا میں نے اُسے قبول کیا پس حضرت فاطمہ کے وکلاء حیاتِ رسول تک اُس کی آمدنی وصول کرتے رہے جب ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے وکلاء فاطمہ کو فَدَک سے باہر نکال دیا
وہ ابوبکر کے پاس آئیں اور واپسی کا سوال کیا تو انہوں نے کہا تم کوئی کالا گورا گواہ لاؤ وہ امیرالمومنین اور اُمِ ایمن کو لے کر گئیں اُنہوں نے گواہی دی ابوبکر نے واگزاشت کے لیے ایک تحریر لکھ دی وہ اِس تحریر کو لے کر نکلیں تو راہ میں عمر ملے انہوں نے کہا یہ کیا ہے ؟؟
سیدہ نے فرمایا ابوبکر نے یہ تحریر مجھ کو لکھ کر دی ہے اُنہوں نے کہا مجھے دکھاؤ اُنہوں نے انکار کیا عمر نے سیدہ کے ہاتھ سے تحریر چھین لی اور اُس کو پڑھ کر تھوک سے مٹایا اور پھاڑ ڈالا اور کہا کہ اس علاقے پر تمہارے باپ نے فوج کشی نہیں کی تھی تم ہماری گردن میں رسی ڈال رہی ہو مہدی نے امام موسیٰ کاظم سے پوچھا؟
اِس علاقے کی حدود کیا ہیں؟؟ فرمایا کہ ایک کوہ احد دوسری عریش مصر ہے تیسری سیف البحر ہے اور چوتھی دومۃالجندل ہے اُس نے پوچھا یہ ہے کُل علاقہ؟؟
فرمایا ہاں اِس علاقے پر لڑائی نہیں ہوئی اس نے کہا کہ یہ تو بہت بڑا علاقہ ہے میں غور کروں گا۔
(اصولِ کافی جلد 1 بابِ مال فئے و انفال و تفسیر خمس)
من گھڑت اور جھوٹی روایات:
اہل تشیع مذہب کی کتاب اصولِ کافی کی یہ روایات ، جس میں فَدَک کو سیدہ کا حق قرار دے کر ایک طویل جھوٹ اور افتراء پر مبنی داستان وضع کی گئی۔ یہ داستان لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا کی مِصداق ٹھہری اور یہ دجل اور افتراء کیسے بے حجاب ہوا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
1) اِس روایت میں امیر المومنین سیدنا علیؓ ہیں۔ جب حضرت علیؓ گواہی کیلئے گئے تو واپس سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ کیوں نہیں آئے۔ اور اگر اُن کے ساتھ تھے تو انہوں نے حضرت عمرؓ کے تحریر پھاڑنے کے عمل پر تنبیہہ کیوں نہیں کی۔ کہ عمرؓ آپ نے ایسا کیوں کیا۔
2) کچھ وقت کیلئے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت علیؓ راہ میں سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ نہیں تھے۔ تو کیا سیدہ فاطمہؓ نے حضرت علیؓ سے اِس کا تذکرہ نہیں کیا کہ وہ تحریر حضرت عمرؓ نے پھاڑ دی جو آپ کی گواہی میں لکھی گئی۔
3) دورِ نبوی میں مصر بازنطینی ریاست کا حِصّہ تھا جس کو سیدنا عمرو بن العاصؓ نے 20 ہجری میں سیدنا عمرؓ کے دور میں فتح کیا۔ تو فَدَک کا رقبہ وہاں تک کیسے پہنچا۔
4) دومتہ الجندل شام کے شہر دمشق کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ مقام دورِ نبوی میں بازنطینی ریاست کا حِصّہ تھا۔ یہاں عرب مسیحی رہائش پذیر تھے۔ جب کہ فَدَک یہودیوں کی رہائشگاہ تھی۔
5) دورِ نبوی میں جغرافیائی لحاظ سے مصر، جبل احد، سیف البحر اور دومتہ الجندل کو نقشے میں دیکھا جائے تو اِس کا کُل رقبہ 10,000,000 مربع کلومیٹر (3,861,022 مربع میل) بنتا ہے۔ اِس کی کُل آبادی تقریباً 50,000,000 کے قریب بنتی ہے اور اِس کی کثافت 5/مربع کلومیٹر (12.9 /مربع میل) کے قریب ہے۔
6) امام موسیٰ کاظم کی کوئی ملاقات بنو عباس کے خلیفہ محمد بن منصور (المعروف مہدی عباسی) سے ثابت نہیں۔ جب کہ تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ایک ہی بار مہدی عباسی نے مدینے سے بغداد بُلا کر امام موسیٰ کاظم کو قید سلاسِل کیا تھا۔ اور خلیفہ اُن سے شدید نفرت کرتا تھا۔
محل وقوع میں تضاد:
اہل تشیع جغرافیہ دان و تاریخ دان نے باغِ فَدَک کی جو کیفیت اور محل وقوع بیان کیا ہے وہ مختلف ہے جبکہ محدثین کا بیان مختلف ہے ۔ جب باغِ فَدَک کے محل وقوع، اُس کی کیفیت، اُس کا ریاستی معاہدہ، آدھا باغ حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں ریاست کے خزانے سے خریدنا ہی اِس کو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ابتداء ہی سے ریاستی تحویل میں تھا اور جس طرح رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے باغِ فَدَک میں تصرف کیا اسی پر خلفائے راشدین نے عمل کیا۔
جب تک اِن روایات کو ردّ کرکے متفق علیہ اور واضح محل وقوع سامنے نہیں آتا اُس وقت تک کوئی بھی دعوی قابلِ قبول نہیں ہے۔ عزیزِ مکرم محل وقوع کے بیان میں کتنا دجل وفریب اور تضاد ہے خود فیصلہ کریں۔
محل وقوع کے بیان سے ہی دعوی فَدَک جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔
*اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی*
*ہم نے تو دل جلا کے، سرِ عام رکھ دیا*
فَدَک ہِبہ یا میراث
ہِبہ زندگی چاہتا ہے جبکہ میراث موت۔
فَدَک کو ہِبہ ثابت کرنے میں اہل تشیع قرانی آیات کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں اُن کے نزدیک جب سورہ اسراء کی اِن آیات کا نزول ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغِ فدک ہِبہ کیا۔
وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا رَّبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِىْ نُفُوْسِكُمْ ۚ اِنْ تَكُـوْنُـوْا صَالِحِيْنَ فَاِنَّهٝ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًا وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٝ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْـرًا
(سورہ الاسراء آیت 26-24)
ترجمہ: اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔ جو تمہارے دلوں میں ہے تمہارا رب خوب جانتا ہے، اگر تم نیک ہو گے تو وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔
سورہ اسراء کا تاریخِ نزول:
اہل تشیع اور اہل سُنت مُفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورت اور اِس کی تمام آیات مکی ہیں جیسے کہ سورہ کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ سورہ واقعہ معراج کو بیان کرتی ہے اور واقعہ معراج نبوت کے دسویں سال پیش آیا جو کہ ہجرت سے تین سال پہلے کا عرصہ ہے۔ جب کہ باغِ فَدَک اور خیبر کا واقعہ محرم 7 ہجری مئی 628 عیسوی کو پیش آیا۔
(مغازی جلد 2 صفحہ 637)
(المغازی واقدی جلد 2 صفحہ 700)
(تاریخ ابنِ کثیر جلد 3)
سوالات:
ایک سوال تو یہ پیدا ہوا کہ جب ایک چیز کا نام و نشان نہیں تو ہِبہ کیسے ؟؟
دوسرا سوال یہ کہ فقہ جعفریہ میں کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں لینے سے پہلے ہِبہ کیا جا سکتا ہے۔؟
کیوں نہ انہی کی تلوار سے انہیں قتل کریں۔
روایت:
محمد بن احمد بن یحیی نے موسی بن عمر سے روایت کیا انہوں نے عباس بن عامر سے روایت کیا انہوں نے ابان سے روایت کیا انہوں نے ابو بصیر سے روایت کیا انہوں نے ابو عبداللہ (امام جعفر صادق) سے روایت کیا
ایک تحفہ کبھی بھی تحفہ نہیں ہوتا جب تک کہ اُسے نہ ملے۔
صدقہ اس کے لئے جائز ہے۔
(الاستبصار جلد 4 صفحہ 107)
اعتراض:
اہل تشیع یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگرچہ سورہ اسراء مکی ہے لیکن یہ آیات مدنی ہیں۔
جواب:
اس آیات اور سورت کے مکی ہونے کی روایات خود شیعہ کتب میں موجود ہے۔
(الکافی کتاب الکفر والایمان طبع 4 جلد 3 صفحہ 52)
ترکیبِ صرف و نحو:
سورہ اسراء کی اِس آیت سے اہل تشیع باغِ فَدَک کو ہِبہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، پر افسوس ہمیشہ اُن کے ہاتھ میں خاک ہی آئی ہے۔
اِس آیت کی صرف و نحو کی ترکیب کرتے ہیں تاکہ اس ہِبہ کے دعوے کی ساری ہوا نکل جائے۔
اِس آیت کا قواعد نحو کے ذریعے جملہ بناتے ہیں۔
الواو استئنافيّة (آت) فعل أمر مبنيّ على حذف حرف العلّة، والفاعل أنت (ذا) مفعول به أوّل منصوب وعلامة النصب الألف (القربى) مضاف إليه مجرور وعلامة الجرّ الكسرة المقدّرة على الألف (حقّه) مفعول به ثان منصوب.. والهاء مضاف إليه الواو عاطفة في المواضع الثلاثة (المسكين، ابن) اسمان معطوفان على (ذا) منصوبان، (السبيل) مضاف إليه مجرور (لا) ناهية جازمة (تبذّر) مضارع مجزوم، والفاعل أنت (تبذيرا) مفعول مطلق منصوب.
جملة: (آت) لا محلّ لها استئنافيّة.
وجملة: (لا تبذّر) لا محلّ لها. معطوفة على الاستئنافيّة.
سورہ اسراء کی آیت کی یہ ترکیب ہے۔ اب کوئی بڑے سے بڑا ماہر عربی دان، علمِ صرفِ نحو پر مہارت رکھنے والا ہماری اِس ترکیب کو غلط ثابت کرکے دِکھائے۔
سیدھے الفاظ میں اِس آیت میں جو حکم ذوالقربی حقہ پر ہے وہی مساکین اور ابنِ السبیل کیلئے ہے۔
آیت کا سیاقِ کلام:
سورہ اسراء کی آیت کو ہِبہ باغ فَدَک مُراد لینے سے چند ایسے ابہام اور پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں جن کو اہل تشیع مذہب نہ سُلجھانے میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی اِس کا کوئی مُدلّل جواب دیا۔
مساکین کا کیا حکم ہے۔ ؟؟
ابن السبیل کا کیا حکم ہے۔ ؟؟
کیا حضور نبی کریم ﷺ پر (نعوذباللہ) ہبہِ فَدَک سے ناانصافی ثابت نہیں آتی۔ ؟؟
کیا یہ اللہ کے حکم کے خلاف فیصلہ نہیں ہے کہ یہ مساکین اور ابن السبیل کا بھی حق تھا۔ ؟؟
کیا اِس آیت کی تخصیص سے حضور نبی کریم ﷺ کے معصوم ہونے پر سوال نہیں اُٹھتا کہ اس میں تبذیر سے منع کیا گیا۔ ؟؟
کیا یہ نبی کریم ﷺ کی شان ہے کہ اُن سے فضول خرچی کا گمان کیا جائے۔ ؟؟
سیاق کلام کو دیکھیں تو پہلی آیت میں والدین کا ذکر ہے تو حضور ﷺ کے والدین اُس وقت تک وفات پا چکے تھے تو نبی ﷺ خطاب میں شامل نہیں اب آپ کا دعوی کیسے ثابت ہو سکتا۔ ؟؟
جب نبی ﷺ خطاب میں شامل نہیں تو فَدَک وقف کے حکم میں ہے اور یہی اہلسنت کا موقف بھی ہے اور ثابت بھی ہے۔
من گھڑت روایت:
ابو سعید سے منسوب روایت ہے کہ:
(( لَمَّا نَزَلَت ھٰذِہِ الآیَةُ :" وَآتِ ذَا القُربٰی حَقَّہُ "
(بنی إسرائیل17: 26) دَعَا رَسُولُ ﷺ فَاطِمَةَ فَأَ عطَاھَا فَدَکَ )
” جب یہ فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ "اپنے عزیز و اقارب کو ان کا حق دیجئے"، تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو بلا کر باغِ فدک دے دیا۔“
(مسند البزّار کشف الأستار 2223)
روایات کی تدوین:
اہل تشیع حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں کثرت سے ہبہِ باغِ فدک میں روایات موجود ہیں۔
ہم سنی اور شیعہ روایات کو دھاگہ ڈالتے ہیں اور ان روایات کی اسانید کو یکجا کرتے ہیں۔
شافی میں کوئی روایت سُنیوں کی طرف سے نقل نہیں کی گئی ۔
تلخیص شافی میں بھی کوئی روایت سُنیوں کی طرف سے پیش نہیں کی گئی۔
کشف الحق ونہج الصدق
میں بھی کوی روایت ذکر نہیں کی گئی۔
طرائف میں ایک روایت مقطوع سند ۔واقدی بشر ابن غیاص اور بشر ابن الولید سے ذکر کی ہے
طرائف میں ابن مردویہ ابوسعید سے منقول کرتے ہیں۔
بحار الانوار میں بابِ نزول الآیات فی امر فَدَک
کہتے ہیں کہ اِس آیت کے نزول بہت زیادہ شیعہ اور سنی روایات منقول ہیں لیکن خود صرف ابو سعید کی روایت نقل کرتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
علامہ طبرسی نے بھی جہاں ذکر کیا ہے ابو سعید سے ذکر کیا ہے۔
منہج الصادقین نے دو روایوں کے اضافے سے ابو سعید کی روایت نقل کی ہے۔
سعدالسعود میں بھی ابو سعید سے نقل کی گئی ہے۔
سعدالسعود میں بیس اسناد ذکر ہیں لیکن تمام ابو سعید کی ہیں ۔
احقاق الحق میں بھی واقدی کی مقطوع سند روایت نقل ہے۔
عماد الاسلام میں ایک ابن مردویہ والی روایت ابو سعید سے طرائف کے حوالے کی نقل ہے۔
عماد الاسلام میں مقطوع سند کنزالعمال کے حوالے سے روایت مذکور ہے۔
عماد الاسلام میں در منثور سے مقطوع سند روایت نقل ہے۔
عمادالاسلام میں معارج النبوت کے حوالے سے ابو سعید کی روایت نقل ہے
شافی اور عماد الاسلام دونوں نے کئی کئی روایات پیش کی اور دعوی کیا کہ یہ روایت کئی طریق سے منقول ہیں لیکن کوئی ایک بھی سند ابو سعید سے ہٹ کر پیش نا کرسکے۔
روضةالصفاد معارج نے بھی یہی ابو سعید والی سند ذکر کی ہے۔
تشئید المطاعن نے بھی وہی ابو سعید والی روایت نقل کی ہے۔
کفایة الموسوم الولایہ میں بھی فَدَک پرتفصیلی بحث کی گئی لیکن روایت وہی ابو سعید والی پیش کی گئی ہیں۔
کفایة الموسوم الولایہ میں ثعلنی کی روایت جو سدی ودیلمی سے نقل کی ہے لیکن اس صاحب نے ہبہ ِ فدک اور دعوے فَدَک کو خلط ملط کیا ہے اور کوی نئی سند ذکر نہیں کی۔
غایت المرام میں بھی بڑے زور شور سے روایت نقل کی لیکن صرف ثعلبی کی ہی ایک روایت کو نقل کیا ہے باقی گیارہ روایات شیعہ کی نقل کی ہیں۔
یہ تمام وہ کتابیں ہیں جو ہبہ ِ فدک میں سنہ 400 ہجری سے اب تک شیعہ کی طرف سے لکھی گئی اور بھی کتابیں ہیں اب جن روایات کو وہ سنیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کی اسنانید کو ملایا جائے تو کل
نو (9) روایات بنتی ہیں ان میں چار کی سند مکمل ذکر کی گئی ہیں جبکہ پانچ کی سندیں مکمل نہیں ہیں. چار کی سندیں مکمل ہیں۔
بعض ابو سعید خدری ؓ کی طرف منسوب کی ہیں۔
*پانچ محذوف السندیں*
شیعہ اِن کی نسبت سنیوں کی طرف کرتے ہیں
پہلی: پہلی سند جو کنزل الاعمال عماد الاسلام الحاکم وغیرہ میں ذکر ہے۔
ابراہیم ابن محمد ابن میمون۔علی ابن عابس ابن النجار۔
دوسری: دوسری سند جو عمادالاسلام، درمنثور اور طعن الرماح وغیرہ میں محذوف السند ذکر ہے۔
ابو یعلی ابن حاتم ابن مردوی ابو سعید۔
تیسری: تیسری سند جو روایت بحار الانوار میں سنی کتب کی نسبت ذکر ہے۔
مامون نے عبیداللہ ابن موسی سے فَدَک کا حال تحریراً دریافت کیا تو اُس نے اُس محذوف سند کو ذکر کیا۔
فضل ابن مرزوق عطیہ عوفی اور ابوسعید
چوتھی: چوتھی سند وہ جس کی نسبت سنیوں کی طرف ہے محذوف السند۔
واقدی بشر ابن ولید بشرابن غیاث
اس کو شوستری نے احقاق الحق میں ذکر کیا ہے۔
پانچویں: پانچویں سند وہ جو معارج النبوت اور مقصد اقصی میں عماد الاسلام کی محزوف السند ذکر ہے
یہ وہ کُل سرمایہ ہے شیعہ کا جس کی نسبت وہ سنیوں کی طرف کرتے ہیں
اور اس کا اصل پودہ ابو سعید اور عطیہ عوفی ہے جس کے یہ پھل پھول ہیں
ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ یہ خبر واحد ہے جس کو نقل در نقل کی صورت میں لوگ متواتر سمجھتے ہیں۔۔
اب ہم بحث کریں گے ابو سعید اور عطیہ عوفی کے بارے میں۔ یہ کون ہیں تاکہ پتہ چلے یہ جھوٹ کا ٹوکرا کس کا ہے۔
جرح و تعدیل راوی سعید محمد ابن سائب الکلبی:
سعید محمد بن اول درجے کی جھوٹے، حدیثیں گھڑنے والا شیعہ تھا۔
علامہ سخاوی نے رسالہ منظومہ جزری میں لکھا ہے،
ان من امثلة ( ای من له اسماء مختلفة ونعوت متعددة ) محمد بن سائب کلبی المفسر ھو ابو النضر الذی روی عنه ابن اسحاق وھو حماد بن سائب روی عنه ابو اسامه وھو ابو سعید الذی روی عنه عطیة الکوفی موھما انه الخدری وھو ابو ھشام روی عنه القاسم بن الولید۔
*ترجمہ: کہ ان لوگوں میں سے جن کے مختلف نام، اور متعدد کنیتیں اور لقب ہیں، ایک محمد بن سائب کلبی مفسر ہیں، اِس کی کنیت ابو نضر ہے، اور اِس کنیت سے ابن اسحاق اِن سے روایت کرتے ہیں، اور اسی کا نام حماد بن سائب بھی ہے، اور ابواسامہ اسی نام سے اِن سے روایت کرتے ہیں، اور اسی کی کنیت ابو سعید ہے، اور اسی کنیت سے عطیه عوفی اِس سے روایت کرتا ہے، تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈالیں، کہ یہ ابوسعید الخدریؓ ہیں، اور انہی کی کُنیت ابو ہشام بھی ہے، اور اِس کنیت سے قاسم بن الولید ان سے روایت کرتے ہیں۔
تقریب التہذیب میں اِن حضرت کے بارے میں یوں لکھا ہے،
محمد بن سائب بن بشیر الکلبی ابو نضرالکوفی النسابه المفسر متھم باالکذب ورمی باالرفض من السادسه مات سنة ماة وست اربعین۔
ترجمہ: محمد بن سائب بن بشیر الکلبی ابوالنضر الکوفی نسبت جاننے والے اور تفسیر لکھنے والے جھوٹ اور رِفض سے متہم ہیں، اِس کی وفات سن 146 ہجری میں ہوئی۔
میزان الاعتدال میں ان صاحب کے متعلق عربی کی طویل عبارت لکھی ہوئی ہے اِس لئے صرف ترجمہ پیش کرتا ہوں۔
محمد بن سائب کلبی جن کی کنیت ابو النضر ہے، وہ کوفی ہیں، اور مفسر اور نسب جاننے والے اخباری ہیں۔
امام ثوری اِس کی نسبت کہتے ہیں، کہ کلبی سے بچنا چاہئے، اس پر کسی نے اِن کو کہا، کہ آپ تو خود اِس سے روایت کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا، میں اُس کے جھوٹ کو اُس کے سچ سے جدا کرنا جانتا ہوں۔
امام بخاری نے کہا ہے، کہ یحیٰی اور ابنِ مہدی نے اس کی روایت قابل ترک بتلائی ہے، اور امام بخاری نے یہ بھی کہا ہے، کہ علی نے یحیٰی سے اور انہوں نے سفیان سے بیان کیا ہے، کہ ابو صالح سے جو میں تم سے بیان کروں، وہ جھوٹی ہے، اور یزید بن زریع نے کلبی سے روایت کیا ہے، کہ وہ عبداللہ بن سبا کے فرقے کا تھا۔
ابو معاویہ کہتے ہیں، کہ اعمش نے کہا ہے، کہ اِس سبائیہ فرقہ سے بچنا چاہئے، کیونکہ وہ کذاب ہوتے ہیں۔
ابنِ حبان نے کہا، کہ کلبی سبائی تھا، یعنی ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں، کہ علی رضی اللہ عنه فوت نہیں ہوئے، اور پھر وہ دنیا کی طرف رجعت کریں گے، اور اسے انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جیسے کہ وہ ظلم سے بھری ہوئی تھی، اور جب بھی وہ بادل کو دیکھتے، تو کہتے کہ امیرالمؤمنین (علی رضی الله عنہ) اِسی میں ہیں۔
ابو عوانہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، کہ میں نے خود کلبی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلٰی اللہ علیه وسلم پر وحی بیان کرتے، اور ایسا اتفاق ہوتا، کہ آپ رفع حاجت کے لئے بیت الخلاء تشریف لے جاتے، تو جبرائیل علیہ السلام، علی رضی الله عنہ پہ اس وحی کو املا کرواتے۔ (یعنی وحی حضرت علی پہ نازل کی جاتی)۔
احمد بن زہیر کہتے ہیں، میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا، کہ کلبی کی تفسیر دیکھنا درست ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔
جوزجانی وغیرہ نے کہا، کہ کلبی بڑا جھوٹا ہے، اور دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا، کہ وہ متروک ہے، یعنی اِس کی روایت لینے کے لائق نہیں ہے،
ابنِ حبان کہتے ہیں، اِس کا جھوٹ ایسا ظاہر ہے، کہ بیان کرنے کی حاجت نہیں، اور اِن حضرت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے، کہ وہ تفسیر کو ابو صالح سے اور ابو صالح کی روایت ابن عباس سے بیان کرتےہیں، حالانکہ نہ ابو صالح نے ابنِ عباس کو دیکھا، اور نہ ہی کلبی نے ایک حرف بھی ابو صالح سے سنا ہے، مگر جب بھی ان کو تفسیر میں کچھ بیان کرنے کی حاجت ہوتی، تو اپنے دل سے نکال لیتے، ایسے کا ذکر کرنا بھی کتاب میں جائز نہیں، کجا یہ کہ اس کی سند (کوئی روایت) لینا۔
تذکرة الحفاظ (حفاظ الحدیث کا تذکرہ) میں امام ذہبی نے اِن کے فرزند ارجمند ہشام بن کلبی کا جہاں تذکرہ کیا ہے، وہاں ان کے پدر بزرگوار "محمد بن سائب کلبی" کو رافضی لکھا ہے، اور اِن کے فرزند ارجمند کو حفاظ الحدیث میں داخل بھی نہیں کیا۔
معجم الادبا میں یاقوت حموی نے جہاں محمد بن جریر طبری کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، وہاں لکھا ہے، کہ طبری نے غیر معتبر تفسیر اپنی تفسیر کی کتاب میں بیان نہیں کی، اسی لئے کتاب میں کچھ بھی محمد بن سائب کلبی، مقاتل بن سلیمان، اور محمد بن عمر واقدی کی کتابوں میں سے نہیں لیا، کیونکہ یہ لوگ اس کے نزدیک مشکوک میں سے ہیں۔
امام محمد طاہر نے "تذکرة الموضوعات" میں کلبی صاحب کے بارے میں فرمایا ہے،
قد قال احمد فی تفسیر الکلبی من اوله الی آخره کذب لایجعل النظر فیه
*ترجمہ:امام احمد نے تفسیر کلبی کے بارے میں کہا ہے، کہ تفسیر کلبی اول تا آخر جھوٹ ہے، اس کی طرف نظر بھی نہیں کرنی چاہئے۔
فریب عیاں ہوا:
یہ حالت ہے جناب "ابو سعید" کی جن کو ابو سعید الخدری (صحابی رسولؐ) کہہ کے پیش کیا جارہا ہے،
عقیدہ کے اعتبار سے پکے سبائی اور رافضی، اور صداقت ایسی، کہ جن کو زندگی میں کبھی نہ دیکھا، نہ سنا، ان سے روایات کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو ان کا شاگرد بنا کے پیش کرتے ہیں، ان کے اعتبار کی یہ کیفیت ہے، کہ طبری جیسا شخص بھی اپنی تفسیر میں اِن سے روایت لینا جائز نہیں سمجھتا، اور یہی صاحب ہیں "ہبہ فَدَک کی حدیث" کے گھڑنے والے، اور اسے پیش کرنے والے، جسے ان کے شاگرد رشید "عطیه عوفی الکوفی"صاحب جو خود بھی شیعہ اور مدلس ہیں، اپنے مذہبی عقائد کی حمایت میں ان سے روایت کرتے ہیں، اور اِن کے دیگر نام اور کنیتیں چھوڑ کے "حدثنا ابو سعید" یا قال ابو سعید کہ کے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالتے ہیں، کہ ابو سعید سے مراد ابو سعید الخدری ہیں۔
چار متصل سندیں:
اہل سنت کتابوں میں ہِبہ باغِ فدک کی جتنی بھی روایات موجود ہیں اُن سب کی سند اِن چار (4) متصل میں سے کوئی ایک ہوگی۔ اور اِن تمام کی سند میں راوی ابو سعید (محمد بن سائب کلبی) ہے لہذا یہ تمام روایات خبرِ واحد ہوئیں جبکہ راوی ابو سعید کلبی کی دروغ گوئیاں ہم جرح و تعدیل میں پہلے ہی بیان کرچکے ہیں۔
پہلی سند:
عبدوس ابن عبداللہ ہمدانی۔قاضی ابو نصر شعیب ابن علی۔موسی ابن سعید۔ ولید ابن علی۔عباد ابن یعقوب۔ علی ابن عباس۔فضل۔ عطیہ۔ ابو سعید
دوسری سند:
ابوحمید مہدی ابن نزار۔ حاکم ابن ابو قاسم ابن ابو الحسکانی۔ حاکم الوالد ابومحمد۔ عمر ابن احمد ابن عثمان۔ عمر ابن حسین ابن علی ابن مالک۔ جعفر ابن محمد احمصی۔ حسن ابن حسین۔ ابو معمرابن سعید۔ ابو علی ابن قاسم کندی۔ یحی ابن یعلی۔ علی ابن مسہر۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابو سعید
تیسری سند:
محمد ابن سلیمان اعبدی۔ ہیثم ابن خلف دوری۔ عبداللہ ابن سلیمان ابن اشعث۔ محمد ابن قاسم زکریا۔ عباد ابن یعقوب۔ علی ابن عابس(علی ابن عباس)۔ جعفر ابن محمد حسینی۔ علی ابن منظر طریفی۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابو سعید
چوتھی سند:
محمد ابن عباس۔ علی ابن عباس مقالعی۔ ابو کریب۔ معاویہ۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابوسعید
اب ہمارا تذکرہ اُن اسناد پر ہے جن کواہل تشیع، سنیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن وہ سب نامکمل اسناد ہیں جبکہ اِن میں راوی عطیہ عوفی اور ابو سعید کلبی ہیں۔ اب زرا عطیہ عوفی کی علمی حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں۔
جرح و تعدیل راوی عطیہ عوفی:
اس جھوٹے مدلس مکار کا حال یہ ہے کہ جمہور محدثین نے اِس کو مضعف، کذاب اور روایت گھڑنے والا کہا ہے۔ چند حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں۔
عطیہ عوفی کو جمہور محدثینِ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تھذیب الأسماء واللغات للنوي:48/1)
(طرح التثریب لابن العراقي: 42/3)
(مجمع الزوائد للھیثمي: 412/1)
(البدرالمنیر لابن الملقن: 463/7)
(عمدۃ القاري للعیني: 250/6)
اِس کو امام یحییٰ بن سعید قطان، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہ نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہوگیا تھا، جیساکہ:
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عطیہ عوفی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام نے اتفاق کرلیا ہے۔"
(الموضوعات: 386/1)
نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے."
(المغنی في الضعفاء: 62/2)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔"
(البدر المنیر: 313/5)
عطیہ عوفی تدلیس کی بُری قِسم میں بُری طرح ملوث تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ کمزور حافظے والا تھا اور بُری تدلیس کے ساتھ مشہور تھا۔"
(طبقات المدلّسین، ص: 50)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہ روایت باطل ہے، اگر واقعی ایسا ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس چیز کا مطالبہ کرنے نہ آتیں جو پہلے سے ان کے پاس موجود اور ان کی ملکیت میں تھی۔"
(میزان الاعتدال: 135/3)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر اس روایت کی سند صحیح بھی ہو تو اس میں اشکال ہے، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور فَدَک تو سات ہجری میں خیبر کے ساتھ فتح ہوا۔ کیسے اس آیت کو اس واقعہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔"
(تفسیر ابن کثیر:69/5)
اہل سنت کی کتب میں جو روایات ذکر ہیں علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 299 میں اِن روایات کے موضوع، افتراء اور بے اصل ہونے کا اقرار کیا ہے۔
عطیہ عوفی اپنے استاذ ابو سعید محمد بن السائب الکلبی (کذاب) سے روایت کرتے ہوئے "عن أبي سعید" یا "حدثني أبو سعید" کہہ کر روایت کرتے ہوئے یہ دھوکا دیتا تھا کہ وہ سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کررہا ہے۔ یہ(والی) تدلیس حرام اور بہت بڑا فراڈ ہے۔ یاد رہے کہ عطیہ عوفی اگر عن ابی سعید کے ساتھ الخدری کی صراحت بھی کردے تو اس سے الکلبی ہی مراد ہے، سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں۔
اِس دھوکے اور مکاری کی تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (176/2)
جھوٹ، سچ نہ بن جائے:
جناب یہ اِن دو جھوٹے، مضعف اور روایت گھڑنے والے راویوں کا حال ہے جو اِن روایات کو وضع اور ترتیب دینے والے ہیں اور جب یہ انبیاء کی وراثت مال ثابت کرنے میں ناکام و نامراد ہوئے تو یہ جھوٹی روایات وضع کی۔
اِن روایات اور راویوں کا تذکرہ کرنا ضروری تھا کیونکہ ایسا نہ ہو کہ اہل سنت عوام اِن روایات کو حقیقت کے پیمانے میں تول کر روافض کے فریب میں آجائیں۔
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آجائے تو سچائی چلی جاتی ہے
درجات مُحدثین:
محققین اہل سنت نے مُحدثین کے چار درجے ذکر کیے ہیں۔
۔اولی
۔ثانیہ
۔ثالثہ
۔رابع
یہ روایات اولی اور ثانیہ طبقے کی روایات نہیں ہیں بلکہ طبقہ ثالث ورابع کی ہیں تو اِن کو اولی اور ثانیہ کے مقابل حجت نہیں مانا جاسکتا۔
درجِ ذیل حوالات۔
(حجةاللہ بالغہ)
(عجالة النافعہ)
(تحفة الاحوزی)
ہِبہ فَدَک میں اہل تشیع روایات میں تضاد :
اب ہم اُن روایات کا تذکرہ کرتے ہیں جو اہل تشیع مُحققین نے صراحت کے ساتھ ہِبہ فَدَک میں نقل کی ہیں اور اِن تمام روایات میں واضح طور پر تضاد اور تصادم نمایاں ہے۔
روایت نمبر 1:
عيون أخبار الرضا فيما احتج الرضا عليه السلام في فضل العترة الطاهرة. قال: والآية الخامسة: قال الله عز وجل: [وآت ذا القربى حقه] خصوصية خصهم العزيز الجبار بها، واصطفاهم على الأمة. فلما نزلت هذه الآية على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ادعوا إلي فاطمة. فدعيت له، فقال: يا فاطمة!. قالت: لبيك يا رسول الله. فقال صلى الله عليه وآله: فدك هي مما لم يوجف عليه بخيل ولا ركاب، وهي لي خاصة دون المسلمين، وقد جعلتها لك، لما أمرني الله به، فخذيها لك ولولدك.
ترجمہ:
امام رضا نے فرمایا: اللہ عزوجل نے جب یہ آیت [وآت ذا القربى حقه] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فَدَک فاطمہؓ کو دے دو پس فَدَک دے دیا گیا۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے عرض کیا اے فاطمہؓ۔۔ فرمایا حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فَدَک اور وہ مال جو بغیر گھوڑے دوڑائے اور بغیر محنت کے حاصل ہو وہ ترے لیے خاص ہے ناکہ اِس میں مسلمانوں کا حصہ ہے۔ پس میں نے تجھے عطاء کر دیا۔ اس لیے کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے پس تو اور ترے بیٹے اِس کو لے لیں۔
(بحارالانوار جلد 29 صفحہ 106-107)
(مجمع البحرين جلد 5 صفحہ 283)
(معجم البلدان جلد 4 صفحہ 238)
(ولخّصه في مراصد الاطّلاع جلد 3 صفحہ 1020)
(عيون أخبار الرّضا عليه السّلام جلد 1 صفحہ 233 ضمن حديث 1)
(تفسير فرات الكوفيّ صفحہ 118-119)
(بأربعة طرق جلد 6 صفحہ 467)
(تفسير التبيان جلد 8 صفحہ 253)
(شواهد التنزيل جلد 1 صفحہ 338-341 حديث 467-473)
(تفسير العيّاشي جلد 2 صفحہ 287 حديث 46-50)
(مجمع الزوائد جلد 7 صفحہ 49)
(عدّ منها شيخنا الطهرانيّ في الذريعة جلد 16 صفحہ 129)
(تاريخ الطبری جلد 3 صفحہ 198)
(العقد الفريد جلد 2 صفحہ 257)
(شرح ابن أبي الحديد جلد 2 صفحہ 19)
(أعلام النساء جلد 3 صفحہ 1205)
(ارشاد الساری جلد 2 صفحہ 390)
(و جاء في الإمامة و السّياسة جلد 1 صفحہ 13)
(و كتاب الإمام عليّ لعبد الفتّاح عبد المقصود جلد 1 صفحہ 225)
و عدّ العلّامة الأميني عشرات المصادر في موسوعته الغدير جلد 3 صفحہ 104، جلد 5 صفحہ 147 صفحہ 777) (و انظر إحقاق الحقّ جلد 1 صفحہ 296،
جلد 3 صفحہ 549،
جلد 10 صفحہ 296- 305 433،
جلد 14 صفحہ 575-577 و 618،
جلد 19 صفحہ 119 و 162)
سورہ اسراء آیت 2
وَآتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ وَ الْمِسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ۔
روایت نمبر 2:
قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ نَزَلَتْ فِي فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ، فَجَعَلَ لَهَا فَدَكَ وَ الْمِسْكِينِ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ، وَ ابْنِ السَّبِيلِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ وَ وُلْدِ فَاطِمَةَ.
ترجمہ:
سورہ اسراء کی یہ آیت قرابتِ رسول اللہ صلی الله عليہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے اِس کا شانِ نزول فاطمہ سلام اللہ علیہ ہیں پس فَدَک فاطمہ سلام اللہ علیہ کو دے دیا گیا تھا اور مساکین سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہ کی اولاد اور ابن السبیل سے مراد آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آلِ فاطمہ ؑ ہیں۔
(بحار الأنوار جلد 29 صفحہ 114)
(تفسير عليّ بن إبراہيم جلد 2 صفحہ 18)
(تفسير عليّ بن إبراہيم جلد 2 صفحہ 326)
روایت نمبر 3:
قَالَ: وَ مَا هُوَ قَالَ: أَعْطِ فَاطِمَةَ فَدَكاً، وَ هِيَ مِنْ مِيرَاثِهَا مِنْ أُمِّهَا خَدِيجَةَ، وَ مِنْ أُخْتِهَا هِنْدٍ بِنْتِ أَبِي هَالَةَ، فَحَمَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مَا أَخَذَ مِنْهُ، وَ أَخْبَرَهَا بِالْآيَةِ.
ترجمہ:
فرمایا آپ فَدَک فاطمہ سلام اللہ علیہ کو دے دو فَدَک میراث ہے اِس کی ماں خدیجہ سلام اللہ علیہ کی طرف سے جو کہ بہن ہے ہند بنت ابی ہالہ کی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ سلام اللہ علیہ کو دیا تھا اور یہی خبر دی ہے اِس آیت میں۔
(بحار الأنوار جلد 29 صفحہ 119)
(كما في الصحاح جلد 1 صفحہ 145)
(القاموس جلد 1 صفحہ 80)
(تفسير العيّاشيّ جلد 1 صفحہ 225 حديث 49)
روایت نمبر 4:
رُوِيَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: أَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ خَرَجَ فِي غَزَاةٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَاجِعاً نَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، فَبَيْنَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَطْعَمُ وَ النَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَتَاهُ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! قُمْ فَارْكَبْ. فَقَامَ النَّبِيُّ فَرَكِبَ وَ جَبْرَئِيلُ مَعَهُ، فَطُوِيَتْ لَهُ الْأَرْضُ كَطَيِّ الثَّوْبِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى فَدَكَ. فَلَمَّا سَمِعَ أَهْلُ فَدَكَ وَقْعَ الْخَيْلِ ظَنُّوا أَنَّ عَدُوَّهُمْ قَدْ جَاءَهُمْ، فَغَلَّقُوا أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ وَ دَفَعُوا الْمَفَاتِيحَ إِلَى عَجُوزٍ لَهُمْ فِي بَيْتٍ لَهُمْ خَارِجٍ مِنَ الْمَدِينَةِ وَ لَحِقُوا بِرُءُوسِ الْجِبَالِ. فَأَتَى جَبْرَئِيلُ الْعَجُوزَ حَتَّى أَخَذَ الْمَفَاتِيحَ، ثُمَّ فَتَحَ أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ، وَ دَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فِي بُيُوتِهَا وَ قُرَاهَا. فَقَالَ جَبْرَئِيلُ: يَا مُحَمَّدُ! هَذَا مَا خَصَّكَ اللَّهُکیا۔ِ وَ أَعْطَاكَهُ دُونَ النَّاسِ، وَ هُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَطْعَمُ وَ النَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَتَاهُ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! قُمْ فَارْكَبْ. فَقَامَ النَّبِيُّ فَرَكِبَ وَ جَبْرَئِيلُ مَعَهُ، فَطُوِيَتْ لَهُ الْأَرْضُ كَطَيِّ الثَّوْبِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى فَدَكَ. فَلَمَّا سَمِعَ أَهْلُ فَدَكَ وَقْعَ الْخَيْلِ ظَنُّوا أَنَّ عَدُوَّهُمْ قَدْ جَاءَهُمْ، فَغَلَّقُوا أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ وَ دَفَعُوا الْمَفَاتِيحَ إِلَى عَجُوزٍ لَهُمْ فِي بَيْتٍ لَهُمْ خَارِجٍ مِنَ الْمَدِينَةِ وَ لَحِقُوا بِرُءُوسِ الْجِبَالِ. فَأَتَى جَبْرَئِيلُ الْعَجُوزَ حَتَّى أَخَذَ الْمَفَاتِيحَ، ثُمَّ فَتَحَ أَبْوَابَ الْمَدِينَةِ، وَ دَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فِي بُيُوتِهَا وَ قُرَاهَا. فَقَالَ جَبْرَئِيلُ: يَا مُحَمَّدُ! هَذَا مَا خَصَّكَ اللَّهُ بِهِ وَ أَعْطَاكَهُ دُونَ النَّاسِ، وَ هُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى قَوْلُهُ: فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَ لا رِكابٍ وَ لكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ، وَ لَمْ يَعْرِفِ الْمُسْلِمُونَ وَ لَمْ يَطَئُوهَا، وَ لَكِنَّ اللَّهَ أَفَاءَهَا عَلَى رَسُولِهِ، وَ طَوَّفَ بِهِ جَبْرَئِيلُ فِي دُورِهَا وَ حِيطَانِهَا، وَ غَلَّقَ الْبَابَ وَ دَفَعَ الْمَفَاتِيحَ إِلَيْهِ. فَجَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فِي غِلَافِ سَيْفِهِ- وَ هُوَ مُعَلَّقٌ بِالرَّحْلِ ثُمَّ رَكِبَ، وَ طُوِيَتْ لَهُ الْأَرْضُ كَطَيِّ الثَّوْبِ، ثُمَّ أَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ هُمْ عَلَى مَجَالِسِهِمْ وَ لَمْ يَتَفَرَّقُوا وَ لَمْ يَبْرَحُوا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: قَدِانْتَهَيْتُ إِلَى فَدَكَ، وَ إِنِّي قَدْ أَفَاءَهَا اللَّهُ عَلَيَّ. فَغَمَزَ الْمُنَافِقُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: هَذِهِ مَفَاتِيحُ فَدَكَ، ثُمَّ أَخْرَجَ مِنْ غِلَافِ سَيْفِهِ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ رَكِبَ مَعَهُ النَّاسُ. فَلَمَّا دَخَلَ الْمَدِينَةَ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ فَقَالَ: يَا بُنَيَّةِ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَفَاءَ عَلَى أَبِيكِ بِفَدَكَ وَ اخْتَصَّهُ بِهَا، فَهِيَ لَهُ خَاصَّةً دُونَ الْمُسْلِمِينَ أَفْعَلُ بِهَا مَا أَشَاءُ، وَ إِنَّهُ قَدْ كَانَ لِأُمِّكِ خَدِيجَةَ عَلَى أَبِيكِ مَهْرٌ، وَ إِنَّ أَبَاكِ قَدْ جَعَلَهَا لَكِ بِذَلِكِ، وَ أَنْحَلْتُكِهَا لَكِ وَ لِوُلْدِكِ بَعْدَكِ. قَالَ: فَدَعَا بِأَدِيمٍ وَ دَعَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: اكْتُبْ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ بِفَدَكَ نِحْلَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، فَشَهِدَعَلَى ذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ مَوْلًى لِرَسُولِ اللَّهِ وَ أُمُّ أَيْمَنَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ أُمَّ أَيْمَنَ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. وَ جَاءَ أَهْلُ فَدَكَ إِلَى النَّبِيِّ، فَقَاطَعَهُمْ
عَلَى أَرْبَعَةٍ وَ عِشْرِينَ أَلْفَ دِينَارٍ فِي كُلِّ سَنَةٍ.
ترجمہ متعلقہ:
اِس روایت میں ایک قِصّہ بیان کیا گیا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آتے ہیں اور اُن سے عرض کرتے ہیں سوار ہوجائیں۔ جبرئیل علیہ السلام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فَدک کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو زمین کپڑے کی طرح لپیٹ دی جاتی ہے۔ جب جبریل امین اور رسول اللهؐ خیبر کے مضافات تک پہنچتے ہیں تو وہاں کے رہائشی خوفزدہ ہو کر فَدَک کی چابیاں ایک بڑھیا کو دے کر خود پہاڑ کی چوٹی سے یہ منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تو جبرئیل امین علیہ السلام بڑھیا سے وہ چابی لے کر دروازے اور دار کھولتے ہیں اور رسول اللهؐ کو دے دیتے ہیں اور عرض کرتے ہیں یارسول اللهؐ یہ خاص ہے آپ کیلئے نہ کے عام انسانوں کیلئے۔۔۔ فتح خیبر کے بعد مدینہ واپس آکر رسول اللهؐ حضرت فاطمہؓ کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ الله تعالیٰ نے یہ مال فئے دیا جو کہ خاص آپ کیلئے ہے۔ اور رسول اللهؐ نے فرمایا کہ یہ بطورِ حق مہر آپ کی والدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا ہے۔ اِس سے یہ حِصّہ دیا گیا ہے اِس کو میں نے آپ کیلئے حلال کیا ہے۔ اور یہ آپ کیلئے اور آپ کے بعد آپ کی اولاد کیلئے ہے۔
اِسی روایت میں ایک اور واقعہ پیش آتا ہے جو رسول اللهؐ کے وصال کے بعد کا ہے کہ جب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو اُم ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اہل فَدَک نے ،24000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ کیا۔
(بحار الأنوار جلد 29 صفحہ 117-116)
(سرّه في البحار جلد 17 صفحہ 378 حديث 46)
(إثبات الهداة جلد 2 صفحہ 116 حديث 515)
(مجمع البحرين جلد 1 صفحہ333)
(مجمع البحرين جلد 5 صفحہ 127)
تعارضاتِ روایاتِ اہل تشیع:
ہِبہ فَدَک پر اختصار کے ساتھ ہم نے اہل تشیع کتابوں سے صرف (4) روایات نقل کی، جن میں موقف ہِبہ فَدَک کے بارے میں واضح طور پر تضاد و تعارض پایا جاتا ہے۔ فَدَک کے معاملے میں اہل تشیع گروہ نے عوام الناس میں جو پروپیگنڈہ اور شور و واویلا کیا اُس کی حقیقت منکشف اور نمایاں ہوگئی کہ یہ باغِ فَدَک کو ہِبہ ثابت نہیں کرسکے۔
بقول شاعر
*بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا*
*جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا*
اب ہم اُن تعارضات کا تذکرہ کرتے ہیں جس کو ہر فرد کے علم میں لانے کی اشد ضروت ہے۔ کہ کس طرح اہل تشیع طبقے نے فَدَک کے معاملے میں عوام کو گمراہ کیا۔
*>* پہلی روایت میں سورہ اسراء کی جس آیت کو بطورِ حوالہ پیش کیا گیا ہے اِس کے بارے میں ہم ماقبل بیان کرچکے ہیں کہ یہ آیت دس (10) یا گیارہ (11) نبوی میں نازل ہوئی۔ جب کہ فَدَک سات (7) یا آٹھ (8) ہجری میں حاصل ہوا.
*>* دوسری روایت میں بھی یہی ذکر کیا گیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ جبکہ آیت کے نزول کے وقت فَدَک موجود ہی نہیں تھا۔
*>* قران نے جو مصارف بیان کیے ہیں اُن میں مساکین کی تاویل حضرت فاطمہؓ کے بیٹوں سے کردی۔ اور ابنِ السبیل کی تاویل آلِ رسولؐ اور آلِ فاطمہؓ سے کردی۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاویل کس قرینے اور کس اشارے کے تحت کی گئی ہے۔ جب کہ آیت میں کوئی اشارہ، کنایہ اور قرینہ موجود نہیں ہے۔
*>* تیسری روایت میں اِس آیت کے شانِ نزول میں یہ ذکر کرتے ہیں کہ فاطمہؓ کو فَدَک حضرت خدیجہؓ کے حق مہر کے عوض دیا گیا اور بطورِ وراثت۔ تو جناب اِس روایت نے تو فَدَک کے ہِبہ ہونے کے تمام دعووں کو جھوٹ اور کھوکھلا ثابت کردیا اور پھر یہاں فَدَک کو میراث کہا گیا ہے۔
*>* چوتھی روایت اوّل تو، کِذب، دروغ گوئی، افتراء اور مکر کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ لیکن اگر بالفرض اِس روایت کو سچ مان لیتے ہیں تو جن شیعہ محققین نے واٰت ذی القربی کے شانِ نزول کو مدنی کہا۔ پھر وہ سب جھوٹ ہے
*<* چوتھی روایت میں ایک باقاعدہ قِصّہ گھڑا گیا ہے کہ جب واٰت ذی القربی آیت نازل ہوئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ فدک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
جبکہ دوسری مرتبہ فتح خیبر کے موقع پر فَدَک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
ساتھ ساتھ اِس روایت میں یہ بھی مرقوم ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فَدَک کو مالِ فئے کے طور پر حضرت فاطمہؓ کیلئے مخصوص کیا۔ جبکہ اِن کا یہ دعویٰ تمام شیعہ روایات سے متصادم و متعارض ہے جو روایات ماقبل بیان کی جاچکی ہیں کہ فَدَک اُس وقت ہِبہ ہوا جب آیت واٰت ذی القربی نازل ہوئی۔
*<* چوتھی روایت ہی میں ایک اور تعارض سامنے آیا کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو فَدَک کے ہِبہ ہونے کے بجائے 20،000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ ہوا۔
"نتیجہ"
*<* اہل تشیع نے فَدَک کے محل وقوع میں جو روایات پیش کی ہیں اُن روایات ہی میں تضاد ہے۔
*<* ہِبہ فَدَک میں جس آیت سے استدلال کیا ہے اُس کے تاریخِ نزول میں بھی اہل تشیع روایات میں تضاد ہے۔
*<* اہل سُنّت کی طرف ہِبہ فَدَک میں جن روایات کے کثیر ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی خبرِ واحد ہے۔
*<* ہبہ فَدَک میں جس راوی کی یہ روایات ہیں جرح و تعدیل میں اُس کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔
*<* یہ تمام روایات محدثین کے طبقہ اولٰی اور ثانیہ سے منقول نہیں ہیں۔
*<* جب تک کسی شے کی ملکیت ثابت نہ ہو، ہِبہ نہیں کی جاسکتی۔ بروایت اہل تشیع
*<* ہِبہ فَدَک میں اہل تشیع روایات میں کثیر تضاد ہے۔
*<* اہل تشیع نے واٰت ذی القربی کے شانِ نزول میں جو روایات پیش کی ہیں اُن میں ہِبہ اور میراث دونوں کا دعویٰ کیا ہے۔
*<* باغِ فَدَک کے بارے میں بروایت اہل تشیع:
اُمِّ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ فَدَک 20،000 دینار سالانہ دینے کا معاہدہ تھا نہ کہ کوئی باغ یا زمین۔
اِن تمام متون کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ باغِ فَدَک کے ہِبہ ہونے میں جتنی بھی اہل سنت اور اہل تشیع روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب من گھڑت، جھوٹ اور دَجَل پر مبنی ہے۔ لہذا ہم تو یہی عرض کرتے ہیں
*ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں*
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے.
اہل تشیع حضرات نے باغِ فَدَک کو باطل تاویلات، جھوٹی روایات اور من گھڑت قِصّوں سے ہِبہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن جب ان سب میں ناکام ہوئے تو انہوں نے اونٹ کو دوسری کروٹ بٹھایا کہ فَدَک میراث ہے۔
جب کہ ہم ماقبل بیان کرچکے ہیں کہ، ہِبہ اور میراث دو متضاد دعوے ہیں، ہِبہ زندگی چاہتا ہے اور میراث موت۔
اور اِس کے ساتھ ساتھ ہم شیعہ کتب سے یہ حوالے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ہِبہ کی ہوئی چیز میراث نہیں ہوسکتی۔
*مذہبِ اہل تشیع میں غیر منقولہ جائیداد میں عورت کا حِصّہ نہ ہونا:*
ہم آپ کے سامنے ایک مسئلے کو پیش کریں گے جس کہ تحت اہل تشیع مذہب میں غیر منقولہ جائیداد میں عورت کا کوئی حِصّہ نہیں ہوتا۔
الکافی نے اس موضوع پر باب باندھا ہے اور گیارہ (11) روایات نقل کی لیکن ہم نے بطورِ اختصار صرف دو (2) روایات نقل کی ہیں۔ جبکہ اصولِ اربعہ میں اِس مسئلے پر کثیر روایات موجود ہیں۔
*روایت نمبر 1:*
علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئاَ
*ترجمہ:*
ابو جعفر نے فرمایا عورتیں زمین اور رہائشی عمارت میں وارث نہیں ہوتیں.
*روایت نمبر 2:*
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سألته عن النساء ما لهن من الميراث؟ قال: لهن قمية الطوب والبناء والخشب والقصب، وأما الأرض والعقارات فلا ميراث لهن فيها، قال: قلت: فالثياب؟ قال: الثياب لهن نصيبهن قال: قلت: كيف صار ذا ولهذه الثمن ولهذه الربع مسمى؟ قال: لأن المرأة ليس لها نسب ترث به۔
*ترجمہ:*
ابو عبد اللہ سے روایت ہے کہ: میں نے ان سے پوچھا کہ عورتوں کے پاس وراثت میں سے کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ان کے پاس اینٹوں، عمارت، لکڑی اور بانس کی قیمت ہے، زمین اور رہائشی امِلاک میں ان کی کوئی میراث نہیں ہے، میں نے کہا: کپڑے؟ انہوں نے فرمایا: کپڑوں کا اپنا حِصّہ ہے، میں نے کہا: کیسے؟ یہ اتنا اور اس کی قیمت، اور اس کو چوتھائی حصہ کہا انہوں نے کہا اس لئے کہ خواتین کو میراث دینے کا کوئی نسب نہیں ہے۔
(الکافی جلد 7 صفحہ 127۔130)
*تعارضات:*
ایک کہاوت مشہور ہے کہ آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا۔
فَدَک کے دعوے پر یہ مثال اہل تشیع پر ثابت آتی ہے کہ جب ہِبہ سے بھاگے میراث کی طرف، تو معصومین کے فرمان کے مطابق غیر منقولہ جائیداد کی وراثت میں عورت کا حِصّہ ہی نہیں۔ تو اب دعویٰ کیا رہ گیا۔ ؟؟
اہل تشیع کی دِلی تسلّی اور اہل سُنّت کی دلجوئی کیلئے، ہم اُن قرانی آیات جن کو اہل تشیع فَدَک کے میراث ہونے پر پیش کرتے ہیں
فَدَک میراث کیسے ؟
اہل تشیع کا قران مجید سے استدلال:
يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ ۖ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَـهُنَّ ثُلُثَا مَا تَـرَكَ ۖ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَـهَا النِّصْفُ ۚ وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْـهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَـرَكَ اِنْ كَانَ لَـهٝ وَلَـدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّـهٝ وَلَـدٌ وَّوَرِثَهٝٓ اَبَوَاهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَـهٝٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّـةٍ يُّوْصِىْ بِـهَآ اَوْ دَيْنٍ ۗ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَـآؤُكُمْۚ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّـهُـمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّـٰهِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا
(سورہ النساء آیت 11)
ترجمہ:
اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔
استدلال اہل تشیع:
اہل تشیع اِس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء کی دنیاوی وِراثت ہوتی ہے۔ تو سب سے پہلی بحث یہ ہے کہ اِس آیت کے تحت رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل ہیں یا نہیں ؟؟
تو جناب اہل تشیع حضرات کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل ہیں۔
اعتراض اہل سنت:
بالفرض ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اِس خطاب میں شامل ہیں تو اس نتیجے میں دوسرے حقائق کو ماننا پڑے گا، جو مندرجہ ذیل ہیں.
1> دوسری آیاتِ وراثت میں بھی رسول اللہ ﷺ کو شاملِ خطاب کرنا ہوگا۔
2> اِس آیت کے تحت رسول اللہ ﷺ کی دوسری بیٹوں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کا وارث ہونا لازم آئے گا۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کے زیادہ تر رشتہ دار حیات نہیں تھے۔ تو پھر رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل کیسے؟؟
3> قران مجید میں بیوی کی وراثت جو کہ دلالت نص اور قطعی الدلالہ ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ کی زوجہ یعنی امہات المؤمنین رضی اللّٰہ عنہما بھی میراث کے خطاب میں شامل ہیں۔ اس پر قران مجید کی یہ آیت اور دوسری آیات بطورِ دلیل ہیں۔ تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہما کو خطاب سے کس دلیل سے علیحدہ کریں گے؟؟ جس کیلئے سورہ النساء کی آیت 12 پیش ہے۔
تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ
(سورہ النساء آیت 12)
ترجمہ:
اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ۔
4> ایک سوال اور پیدا ہوتا کہ سورہ النساء کی آیت نمبر میں 3 میں رسول اللہ ﷺ میں شامل ہیں یا نہیں؟
اگر شامل ہیں تو دلیل کیا ہے؟ اور اگر شامل نہیں ہیں تو دلیل کیا ہے؟؟
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
(سورہ النساء آیت 3)
ترجمہ:
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے.
اہل تشیع کے اعتراضات اور ان کے جوابات
پہلا اعتراض:
سورہ النساء کی وراثت والی آیات میں رسول اللہؑ مخاطب نہیں ہیں آپ کے پاس اِس کی دلیل کیا ہے؟؟
جواب:
1> ہم ماقبل متن میں بیان کرچکے ہیں کہ انبیاء کو دنیاوی مال کا مورث ماننے میں فرائض کی دوسری آیات میں تعرض پیش آتا ہے۔
2> متصل صحیح الاسناد شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود روایات دال ہیں کہ انبیاء دنیاوی مال کے نہ وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو وارث بناتے ہیں اور یہی اِس آیت کی تفسیر ہے۔ اور یہی روایات میں بیان ہوا ہے۔
مختصراً ہم ایک ہی روایت پیش کرتے ہیں۔
روایت:
أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.
متعلقہ ترجمہ:
بے شک علماء انبیاءؑ کے وارث ہیں بے شک انبیاءؑ نہیں بناتے وارث کسی کو درہم و دینار کا، بلکہ اُن کی وراثت تو علم ہے۔
(الکافی جلد 34 صفحہ 1)
(المجلسی فی البحار جلد 16 صفحہ 219)
(قرب الاسناد الحمیری القمی صفحہ 91-92)
(من لا یحضر الفقیہ جلد 2 صفحہ 346)
(بحار الانوار جلد 1 صفحہ 164)
اور یہی ہم معنی روایات صحاح ستہ احادیث کی کتابوں میں ہیں۔
(بخاری حدیث نمبر 6728)
(مسلم حدیث نمبر 1761)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 2976)
دوسرا اعتراض:
جناب آپ بخاری کی روایت "لم یورثوا" جو کہ خبر واحد ہے اُس سے تخصیص کیسے کرسکتے ہو؟؟
جواب:
1> یہ روایت بخاری میں ابوبکر صدیقؓ سے اور الکافی میں امام جعفر صادق ؒ علیہ سے منقول ہے جبکہ دیگر اسناد میں بھی موجود ہے تو آپ کس نظریے سے اِسے خبرِ واحد کہتے ہو؟؟
2> اہل تشیع کی کتاب تحریر احکام جلد 5 کے صفحہ 55 سے 80 تک (37) سینتیس موانع ارث ذکر ہیں اور اکثر کی تخصیص خبر واحد سے کی گئی ہے جیسے کہ
کافر و مسلمان
غلام و آزاد
قاتل ومقتول
لعان والی کا بیٹا
تو اِن پر اعتراض کیوں نہیں؟؟
تضادات اہل تشیع
ہم اہل تشیع کے تضاد بیانات کا ذکر کریں گے اور اُس کے ساتھ ہی چند ایسے سوالات پیش کریں گے۔ جس کا جواب اہل تشیع حضرات کے پاس یقیناً نہیں ہوگا۔
۔۔ ایک ہی آیت میں کبھی حضورؐ کی ذات کو شامل خطاب کرنا اور کبھی نہ کرنا ، کیا یہ عمل تضاد پر مبنی نہیں۔۔؟؟
۔۔ جب آپ حضرت فاطمہؓ کے لیے وراثت ثابت کرتے ہیں تو اس سے حضورؐ کی دوسری بیٹیوں کو کس نظریے اور دلیل سے محروم کرتے ہیں۔۔؟؟
۔۔ حضورؐ کی وراثت مال ثابت کرتے ہوئے اُمُّ المومنین رضی اللہ عنہما کو کس دلیل اور نظریے سے محروم کرتے ہیں۔۔؟؟
۔۔ جب آپ انبیاءؑ کی وراثت مال ثابت کرتے ہو تو آیاتِ فرائض کا کیا حکم ہے؟
کیا فرائض کی تمام آیات سے تعارض لازم نہیں آتا
اہل تشیع کا دوسرا استدلال:
وَاِنِّـىْ خِفْتُ الْمَوَالِىَ مِنْ وَّّرَآئِىْ وَكَانَتِ امْرَاَتِىْ عَاقِرًا فَهَبْ لِىْ مِنْ لَّـدُنْكَ وَلِيًّا۔ ۔يَرِثُنِىْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ۖ وَاجْعَلْـهُ رَبِّ رَضِيًّا
(سورہ مریم آیت 6-5)
ترجمہ:
اور بے شک میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے ہاں سے ایک وارث عطا کر. جو میرا اور یعقوب کے خاندان کا بھی وارث ہو، اور میرے رب اسے پسندیدہ بنا۔
استدلال اہلِ تشیع:
اہل تشیع کہتے ہیں کہ اِس آیت سے مال کی وراثت مراد ہے۔
اِسی وجہ سے حضرت زکریاؑ کو اپنے رشتے داروں کی جانب سے یہ خوف لاحق تھا کہ وہ اُن کے بعد اُن کے مال کے وارث ہوجائیں گے۔ یہ خوف اپنے بعد کا تھا۔
اعتراض اہلِ سنت:
آپ کس قرینے کے تحت یہ کہتے ہیں کہ انبیاءؑ کی وراثت مال ہے.۔؟؟
جواب اہل تشیع:
"مِنۡ وَّرَآءِیۡ" یہ قرینہ ہے کہ حضرت زکریاؑ کو اپنے بعد یہ خوف تھا کہ اُن کے رشتہ دار اُن کے مال کے وارث ہوجائیں گے۔
اعتراض اہلِ سنت:
جناب "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" سے مراد مالی وراثت نہیں ہے اور اِس کا جواب بھی ہم قران مجید ہی سے پوچھتے ہیں کہ "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" سے کیا مراد ہے؟؟
پہلا تعارض:
حضرت یعقوبؑ نے موت کے وقت اولاد سے پوچھا:
اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ
(سورہ البقرہ آیت 133)
ترجمہ:
اُس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟؟
دوسرا تعارض:
قران نے سورہ مریم میں متعدد انبیاءؑ کے ذکر کے بعد فرمایا:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِـمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
(سورہ مریم آیت 59)
ترجمہ:
پھر ان کی جگہ ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز ضائع کی اور خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، پھر عنقریب گمراہی کی سزا پائیں گے
تیسرا تعارض:
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ
(سورہ آل عمران آیت 144)
ترجمہ:
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟
خلاصہ تعارضات:
اِن قرانی آیات سے ایک بات سمجھ آئی کہ تمام انبیاءؑ نے اپنے بعد اپنی امت یا اپنی اولاد کی اللہ کی فرمانبرداری کے بارے میں سوچا ہے، نہ کہ اپنے مال کی وراثت کے بارے میں۔ تو جناب آپ کا استدلال باطل ہے انبیاءؑ کی وراثت پر "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" کو قرینے کے طور پر پیش کرنا بھی باطل ہے۔
متعلقہ آیت کا سیاقِ کلام:
جس آیت سے اہلِ تشیع استدلال کرتے ہیں، اُس میں حضرت زکریاؑ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے وارث طلب کرتے ہیں اور اُن کے وارث حضرت یحییٰؑ ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زکریاؑ نے کن اوصاف کا ذکر کر کے اپنے لئے وارث طلب کیا۔
يَرِثُنِىْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ۖ وَاجْعَلْـهُ رَبِّ رَضِيًّا
(سورہ مریم آیت 6)
ترجمہ:
جو میرا اور یعقوبؑ کے خاندان کا بھی وارث ہو، اور میرے رب اسے پسندیدہ بنا۔
يَا يَحْيٰى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَّاٰتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا
(سورہ مریم آیت 12)
ترجمہ:
اے یحیٰی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا کی۔
ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا
(سورہ فاطر آیت 32)
ترجمہ:
پھر ہم نے اپنی کتاب کا ان کو وارث بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔
تضادات:
1> یہاں قواعد کیسے بدل گئے کیا زکریاؑ کو مال کی زیادہ فکر تھی..؟؟
جب کہ سارے قرینے آپ کے استدلال کے خلاف ہیں۔۔؟؟
2> کیا زکریاؑ کو اللہ کے حکم کا علم نہیں تھا کہ رشتے دار بھی مال کے وارث ہوتے ہیں۔۔؟؟
جب کہ اللہ تعالیٰ نے رشتے داروں کو مالی وارث بنایا ہے۔
3> اہلِ تشیع کے استدلال کے مطابق تمام انبیاءؑ تو امت کی بھلائی کی فکر کریں اور حضرت زکریاؑ مال کی فکر کریں۔
4> کیا "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" کا جو مفہوم آپ نے لیا ہے وہ قران کی دوسری آیات سے متصادم نہیں۔جو انبیاءؑ کی اُمت کی فکر میں بیان کی گئی ہیں..؟؟
5> فرائض کی دوسری آیات جن کا ماقبل ذکر کیا گیا ہے، کیا تمام قرینے علومِ نبوت پر دلالت نہیں کرتے..؟؟
اہل تشیع کا تیسرا استدلال:
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُوْدَ ۖ وَقَالَ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْـرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَىْءٍ ۖ اِنَّ هٰذَا لَـهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ
(سورہ النمل آیت 16)
ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کے ساز و سامان دیے گئے ہیں، بے شک یہ صریح فضیلت ہے۔
استدلال اہل تشیع:
اِس آیت سے شیعہ حضرات نے انبیاءؑ کی وراثت مال ہونا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
کہ داودؑ کے وارث سلیمانؑ ہوئے ہیں۔
اعتراض اہل سنت:
جناب حضرت داودؑ کی سلیمانؑ کے علاوہ بھی اولادیں تھیں.
اولادِ داودؑ:
(1) یہ داودؑ کے بیٹے ہیں جو حبرُون میں اُس سے پَیدا ہُوئے ۔پہلا امنون یزرعیلی اخِینُو عم کے بطن سے تھا.
2) دوسرا دانی ایل کرمِلی ابِیجیل کے بطن سے تھا۔
3) تیسرا ابی سلوم جو جسُور کے بادشاہ تلمی کی بیٹی معکہ کا بَیٹا تھا۔
4) چَوتھا ادُونیاہ جو حجِیّت کا بَیٹا تھا۔
5) پانچواں سفطیاہ ابی طال کے بطن سے تھا.
6) چھٹا اِترعام اُن کی بِیوی عِجلہ سے تھا۔
(کتاب سموئیل آیت 1:3)
اِس کے علاوہ یروشلم میں پیدا ہونے والی داودؑ کی دیگر اولادیں تواریخ کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
1) سِمعا، سُوباب، ناتن اور سُلیمان۔ یہ چاروں عمّی ایل کی بیٹی بت سُوع کے بطن سے تھے۔
2) اِبحار، الِیسمع، الِیفلط، نُجہ، نفج، یفِیعہ، الِیدع اور الِیفلط۔ یہ سب حرموں کے بطن سے تھے اور تمر اِن کی بہن تھی۔
(تواریخ اول باب سوم آیت ۔۔5۔9)
حضرت داودؑ کی ننانوے (99) بیویاں تھیں اور بیس (20) کے قریب بیٹے بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے
یہاں بھی اہل تشیع اپنی روایتی مکر و فریب کے ذریعے سے باطل تاویل اور استدلال کرتے ہوئے صرف سلیمانؑ کو وارث بنا کے دیگر بیٹے، بیٹیوں اور بیویوں کو محروم کررہے ہیں۔
اعتراض اہلِ تشیع:
اہلسنت کی طرف سے لفظ وارث کو مجاز کے بجائے اصل معنی میں کیوں مراد نہیں لیاجاتا اور مجاز میں استعمال کی دلیل کیا ہے۔۔؟؟
پہلا جواب:
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْـرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ (سورہ النمل 15)
ترجمہ: اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا، اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت دی۔
دوسرا جواب:
اسی آیت کی تفسیر میں اہل تشیع مفسرین نے لفظ "ورث" کو علم کی وراثت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ مال کی وراثت کے معنی میں۔
روایت مندرجہ ذیل ہے۔
ولقد آتينا داود وسليمان علما طائفة من العلم أو علما اي علم وقالا الحمد لله فعلا شكرا له ما فعلا وقال الحمد لله الذي فضلنا على كثير من عباده المؤمنين يعم من لم يؤت علما أو مثل علمهما وفيه دليل على فضل العلم وشرف أهله حيث شكراه على العلم وجعلاه أساس الفضل ولم يعتبرا دونه وما أوتيا من الملك الذي لم يؤت غيرهما وتحريض للعالم على أن يحمد الله على ما اتاه من فضله وان يتواضع ويعتقد انه وان فضل على كثير فقد فضل عليه كثير
(تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 59)
تیسرا جواب:
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُوْدَ ۖ وَقَالَ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْـرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَىْءٍ ۖ اِنَّ هٰذَا لَـهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ
(سورہ النمل 16)
ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کے ساز و سامان دیئے گئے ہیں، بے شک یہ صریح فضیلت ہے۔
موقف اہلِ سنت:
سورہ النمل کی آیت 16 میں داودؑ کی وراثت کا جو ذکر ہوا ہے وہ مُلک اور نبوت تھی نہ کہ مال، جس کے وارث سلیمانؑ ہوئے۔ اور اہل تشیع کی مابعد روایات بھی اسی موقف پر دلالت کرتی ہیں کہ مُلک اور نبوت وراثت تھی نہ کہ مال۔
اہل تشیع روایات:
وورث سليمان داود الملك والنبوة في الكافي عن الجواد عليه السلام۔۔۔۔
في الجوامع عن الصادق عليه السلام يعني الملك والنبوۃ۔۔۔۔
والقمي عنه عليه السلام أعطي سليمان بن داود مع علمه معرفة المنطق بكللسان ۔۔۔۔
وفي المجمع عنه عن أبيه عليهما السلام قال أعطي سليمان بن داود ملك مشارق الأرض۔۔۔۔۔
وفي البصائر عنه عليه السلام قال قال أمير المؤمنين عليه السلام لابن عباس ان الله علمنا منطق الطير۔
اِن اہل تشیع تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ سلیمانؑ نبوت وعلوم نبوت اور مُلک کے وارث ہوئے ہیں
تفسیر صافی میں جب وراثت داودؑ کے بارے امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی مُلک اور نبوت ہی وراثت فرمائی ہے
(صافی جلد 4 صفحہ59-60)
الکافی کی ایک اور روایت پیش ہے:
قال ابو عبداللہ۔ان سلیمان ورث داود وان محمد ورث سلیمان۔
(الکافی جلد 1 صفحہ 53 طبع۔تہران)
نتیجہ:
ان تمام روایات سے "ان الانبیاء لم یورثوا" کی بھی تصدیق ہوگئی کہ انبیاءؑ نہ مال کے وارث بناتے ہیں اور نہ ہی مال کے وارث بنتے ہیں
تضادات:
1> داودؑ کی دوسری اولادوں اور بیویوں کو وراثت سے کیسے محروم کردیا..؟؟
2> کیا انبیاءؑ کی وراثت مال ثابت کرتے ہوئے دوسری فرائض سے تعارض پیش نہیں آتا۔.؟؟
3> کیا آپ کا یہ استدلال خود آپ کے آئمہ معصومین کی روایات کے خلاف نہیں جنہوں نے مُلک اور نبوت کو وراثت فرمایا ہے..؟؟
4> الکافی کی روایت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سلیمانؑ کے کس چیز میں وارث ہوئے۔۔؟؟
*دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے*
*اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے*
استدلال اہلِ سنت:
جناب انبیاءؑ کی وراثت علوم نبوت ہوتی ہے نہ کہ مالِ دولت۔
علم و علماء کی فضیلت میں الکافی میں کثیر روایات ذکر ہوئی ہیں
ہم الکافی کی اِس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاءؑ نہ کسی کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مال کا وارث بناتے ہیں.
روایت:
محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.
(الکافی جلد 1 صفحہ 34)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا. جو شخص علم کی طلب میں کسی راستے پر چلا، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلائے گا۔ بے شک فرشتے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اس شخص کیلئے جو اللہ کی رضا کیلئے علم حاصل کرتا ہے اور تمام مخلوقات جو آسمانوں میں اور جو زمین میں یہاں تک کے سمندر کی مچھلیاں استغفار طلب کرتی ہیں طالبعلم کیلئے، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی تمام ستاروں پر بے شک علمائے کرام انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک نہیں بناتے انبیاء وارث کسی کو دینار یا درہم کا، بلکہ ان کی وراثت تو علم ہے۔ اور جو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اسے کافی حصہ ملتا ہے۔
تائیدی روایات اہل تشیع:
روایت نمبر 1:
أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثةالأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين.
یہ بھی اسی حدیث کی تائیدی ہے اور اس میں انما سے حصر ہے اور اہل زبان جانتے ہیں کہ انما اور لکن دونوں استدراک کے لیے ہوتے ہیں اور شک کو دور کرتے ہیں اور مابعد میں داخل ہونے والے شکوک وشبہات کو دور کرتے ہیں.
روایت نمبر 2:
جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة
ترجمہ: حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول ﷺ نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور ﷺ کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے۔
(قرب الاسناد الحمیری القمی صفحہ 92-91)
(بحوالہ المجلسي في البحار جلد 16صفحہ 219)
روایت نمبر 3:
عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَدَّاحِ عَنِ الصَّادِقِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ آبَائِهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ سَلَكَ طَرِيقاً يَطْلُبُ فِيهِ عِلْماً سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقاً إِلَى الْجَنَّةِ وَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِهِ وَ إِنَّهُ لَيَسْتَغْفِرُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ وَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَاراً وَ لَا دِرْهَماً وَ لَكِنْ وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ مِنْهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.
(من لا یحضر الفقیہ جلد 2 صفحہ 346)
(بحار الأنوار ، جلد 1، صفحہ 164)
(الکافی جلد 1 صفحہ 34)
جناب اہل تشیع حضرات اپنی اِس روایت پر درجنوں اعتراض کرتے ہیں
اعتراض اہل تشیع:
یہاں سونا چاندی درھم دینار کا ذکر ہے زمین کا ذکر نہیں تو زمین میں وراثت جاری ہوگی۔
جواب:
1> آپ کا اعتراض اصول پر نہیں قیاسِ باطل پر مبنی ہے کیونکہ لکن و انما حصر کے لیے ہیں۔
اور ما بعد میں پیدا ہونے والے شکوک کو دور کرتے ہیں اصولوں کے مطابق اِس جملے کی نحوی، صرفی و بلاغی ترکیب کریں۔
اور پھر ترجمہ کریں آپ کا اعتراض ہی نہیں بنے گا۔
2> استدلال اہل تشیع سے پہلے ہم اس مسئلے پر وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ اہل تشیع کے نزدیک غیر منقولہ جائیداد کی وراثت میں عورت کا حِصہ نہیں ہوتا۔
اعتراض اہل تشیع:
جناب آپ نے اِس کا ترجمہ غلط کیا ہے اس سے مراد ہے کہ علماء علم کے وارث اور اہل بیت مال کے وارث ہیں۔
جواب:
1> عبارت ان الانبیآء لم یورثوا درھما ودینارا…
جہالت کی حد ہے جو لوگ عربی قواعد کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جو ترجمہ اہل سنت نے کیا وہ درست ہے اور اہل تشیع ترجمہ کی وجہ سے عوام کو دھوکا دینا چاہتے ہیں وہ غلط ہے۔
*مثال:
* واللہ یدعوا الی دارالسلام
ان دونوں عبارتوں میں لفظ احداً مفعول، محزوف اورعام یا نکرہ ہے۔
تو جو ترجمہ ہم نے کیا وہ درست اور اہل تشیع کا غلط ہے۔
2> کتاب اہل تشیع تنزیہ الانبیاء صفحہ 45 حدیث کے اِس حصے کا اہل تشیع کا کیا ہوا فارسی ترجمہ ملاحظہ کریں۔
البتہ میراث انبیاء درہم ودینار نبودہ بلکہ علوم واخلاق ومقامات وصفات مرضیہ ایشاں بودہ است
یہ اہل تشیع کی اپنی کتاب کا کیا ہوا ترجمہ ہے کاش کہ اعتراض کرنے والے جانتے کہ اہل تشیع نے بھی وہی ترجمہ کیا جو ہم نے کیا ہے۔
تو اعتراض ختم۔۔!!
پہلے اِس کا جواب دیں جو اہل تشیع علماء نے ترجمہ کیا ہے.
اعتراض اہل تشیع:
اہل سنت لم یورثوا کو فعل مجہول پڑھتے ہیں جبکہ لم یورثو فعل معروف ہے۔ اِس صورت میں لم یورثو کا فاعل علماء ہونگے، علماء انبیاء کے علم کے وارث ہونگے اور اہل بیت مال کے وارث ہونگے۔
جواب:
اہل بیت اطہار ہر مرد و زن سے بڑھ کر کون عالم ہے اور آئمہ اہل بیت سے روایات موجود ہیں۔
روایت نمبر 1:
وفي الكافي عنه عليه السلام إنما نحن الذين يعلمون وعدونا الذين لا يعلمون وشيعتنا أولوا الألباب وعن الصادق عليه السلام لقد ذكرنا الله وشيعتنا وعدونا
(الکافی کی روایت بحوالہ تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 216)
اِس آیت کے بارے میں امام باقر فرماتے ہیں جو جانتے ہیں وہ ہم ہیں اور جو نہیں جانتے وہ ہمارے دشمن۔
اِس کے ہم معنی اور بہت ساری روایات موجود ہیں۔
روایت نمبر 2:
لأمالي للصدوق
فِي خُطْبَةٍ خَطَبَهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع بَعْدَ فَوْتِ النَّبِيِّ ص وَ لَا كَنْزَ أَنْفَعُ مِنَ الْعِلْمِ. الأمالي للصدوق ن، عيون أخبار الرضا عليه السلام فِي كَلِمَاتِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع بِرِوَايَةِ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْحَسَنِيِقِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ.
(بحارالانوار جلد 1 صفحہ 165)
روایت نمبر 3:
عَنْ عَلِيٍّ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لَا خَيْرَ فِي الْعَيْشِ إِلَّا لِرَجُلَيْنِ عَالِمٍ مُطَاعٍ أَوْ مُسْتَمِعٍ وَاعٍ. نَوَادِرُ الرَّاوَنْدِيِّ، بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ آبَائِهِ ع عَنِ النَّبِيِّ ص قَالَ: لَا خَيْرَ فِي الْعَيْشِ إِلَّا لِمُسْتَمِعٍ وَاعٍ أَوْ عَالِمٍ نَاطِقٍ. وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَرْبَعٌ يَلْزَمْنَ كُلَّ ذِي حِجًى وَ عَقْلٍ مِنْ أُمَّتِي قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هُنَّ قَالَ اسْتِمَاعُ الْعِلْمِ وَ حِفْظُهُ وَ نَشْرُهُ عِنْدَ أَهْلِهِ وَ الْعَمَلُ بِهِ. الخصال مَاجِيلَوَيْهِ عَنْ عَمِّهِ عَنِ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يَرْفَعُونَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ:مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ مَنْهُومُ عِلْمٍ وَ مَنْهُومُ مَالٍ. بيان قال الجوهري النهمة بلوغ الهمة في الشيء و قد نهم بكذا فهو منهوم أي مولع به وفِي الْحَدِيثِ مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ مَنْهُومٌ بِالْمَالِ وَ مَنْهُومٌ بِالْعِلْمِ
(بحار الانوار جلد 1 صفحہ 168)
یہ تمام روایات مطلقاً اہل بیت کے علم کے بارے میں مذکور ہیں۔ تو اب یا تو آپ کی سوچ فاسد ہے، یا یہ روایات۔
اعتراض اہل تشیع:
یہ حدیث (لم یورثو) اِن قرانی آیات کے خلاف ہے.
> يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
(سورہ النساء آیت 11)
> وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
(سورہ النساء آیت 33)
> لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
(سورہ النساء آیت 7)
> وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
(سورہ النمل آیت 16)
> يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
(سورہ مریم آیت 6)
جواب:
1> پہلی تین آیات میں وراثت کا ذکر ہے لیکن مخاطب اُمت ہے نبیؑ نہیں اور کوئی اشارہ، کنایہ اور قرینہ بھی نہیں ہے۔
جبکہ آخری دو آیتوں میں انبیاءؑ کا ذکر ہے مالی وراثت کا ذکر نہیں اِن کی تفصیل استدلال اہل تشیع میں بیان کرچکے ہیں
2> ما قبل بیان کی جانی والی الکافی، بخاری اور تائیدی روایات "لم یورثو" اِن آیات کی تفسیر کرتی ہیں کہ انبیاءؑ کی وراثت مال نہیں ہوتا اور یہ روایات قران کے مخالف نہیں بلکہ اہل تشیع کی کج عقل کے خلاف ہے۔
باغِ فَدَک میں خلفائے راشدینؓ کا طریق
جو عمل اور طریقہ جناب رسول پاک ﷺ نے اموالِ فئے فدک وغیرہ کے متعلق اپنے عہد مبارک اور حیات طیبہ میں مقرر اور جاری فرمایا تھا وہی تمام خلفائے راشدینؓ کی خلافت، حتیٰ کہ حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے دور تک اِس میں کسی قسم کا کوئی تغیر و تبدل واقع نہ ہوا۔
تمام سنی و شیعہ مورخین، محدثین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ جو عمل رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کیا وہی عمل تمام خلفائے راشدینؓ نے اپنی حیات میں کیا۔
اہل تشیع روایات:
اہل تشیع کی ان تمام روایات میں خلفائے راشدینؓ کا فَدَک کے حِصّے کی تقسیم پر طرزِ عمل بیان کیا گیا ہے۔
روایت نمبر 1:
اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد
ترجمہ:
میں اپنا مال جائیداد دینے میں تم سے دریغ نہیں کرتا،جو کچھ مرضی چاہے لے لجیئے۔ آپ اپنے باپ کی اُمت کی سیدہ ؓ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں۔ آپ کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ کا حکم میرے ذات مرے مال میں بلا چوں و چرا جاری و منظور ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ کے والد بزرگوار ﷺ کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا۔
(حق الیقین صفحہ 231)
روایت نمبر 2
کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یاخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل فیہ فی سبیل اﷲ ولک علی اﷲ ان اصنع بہاکما کان یصنع فرضیت بذلک واخذت العہد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیہم منھاما یکفیہمم ثم فعلت الخلفاء بعدہ ذلک
(شرح نہج البلاغۃ، جلد 5 صفحہ 7 از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
ترجمہ:
تم سب سچے ہو۔ مگر اس کاتصفیہ یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ فَدَک کی آمدنی سے تمہارے گزارے کے لئے رکھ لیتے تھے، اور باقی جو بچتا تھا اس کو تقسیم فرما دیتے تھے اور اﷲ کی راہ میں اس میں سے اٹھا لیتے تھے اور میں تمہارے لئے ﷲ کی قسم کھاتا ہوں کہ فَدَک میں وہی کروں گا جو رسول کرتے تھے تو اس پر فاطمہ راضی ہوگئیں اور فَدَک میں اسی پر عمل کرنے کو ابوبکر سے عہد لے لیا اور ابوبکر فَدَک کی پیداوار کرلیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اور پھر ابوبکر کے بعد اور خلفاء نے بھی اسی طرح کیا۔
روایت نمبر 3:
عمل أمير المؤمنين، وإنما أمنع أن يكون أمير المؤمنين عليه السلام قد سار علی طريقة الصديق، فإن التاريخ لم يصرح بشئ من ذلك، بل صرح بأن أميرالمؤمنين كان يرى فدك لأهل البيت، وقد سجل هذا الرأي بوضوح في رسالته إلى عثمان بن حنيف كما سيأتي. فمن الممكن أنه كان يخص ورثة الزهراء وهم أولادها وزوجها بحاصلات فدك، وليس في هذا التخصيص ما يوجب إشاعة الخبر، لأن المال كان عنده وأهله الشرعيون هو وأولاده. كما يحتمل أنه كان ينفق غلاتها في مصالح المسلمين برضى منه ومن أولاده عليهم الصلاة والسلام ، بل لعلهم أوقفوها وجعلوها من الصدقات العامة.
(شرح نہج البلاغۃ، لابن ابی الحدید جلد 16 صفحہ 208)
متعلقہ ترجمہ:
اِس روایت میں حضرت علیؓ کے فَدَک کے استعمال کا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے ابن ابی حدید نے بتایا کہ جس طریق پر ابوبکر صدیقؓ باغِ فَدَک کو استعمال کرتے تھے اسی طریق پر حضرت علیؓ نے باغ فَدَک کو استعمال کیا ہے۔
روایت نمبر 4:
ابوبکرؓ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے تھے، آپ کے بعد عمرؓ بھی ایسا ہی کرتے، عثمانؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علیؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4 صفحہ 44)
(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ میثم البحرانی جلد 5 صفحہ 107)
(الدرۃ النجفیۃ صفحہ 332)
(شرح نہج البلاغۃ، جلد 55 صفحہ 960 فارسی لعلی نقی مطبوعہ تہران)
روایت نمبر 5:
زید بن علی بن حسین کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکرؓ نے کیا ہے۔
(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید، جلد 4 صفحہ 82)
روایت نمبر 6:
زین العابدین بن حسین بن علی فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر فَدَک کی تقسیم کا مقدمہ میری طرف لوٹ کر آتا تو میں بھی اس کا وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر صدیقؓ نےفیصلہ کیا تھا۔
(شرح نہج البلاغۃ، لابن ابی الحدید جلد 4 صفحہ 113)
خلاصہ روایات:
باغِ فَدَک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا طریقہ کار حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ نے اپنایا، اور پھر حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے خلیفہ بننے کے بعد یہی طریقہ کار اپنانے سے یہ بات تو ثابت ہوئی کہ فَدَک مال فئے تھا۔
تضادات اہل تشیع:
1> حضرت علیؓ نے باغِ فَدَک کے مسئلے میں خلفائے ثلاثہ (ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) کا طریق کیوں اختیار کیا۔۔؟؟
2> حضرت حسنؓ نے خلفائے راشدینؓ کا طریق کیوں اختیار کیا..؟؟
3> کیا یہ معقول جواب ہے کہ اہل بیت جو چیز چھوڑ دیں وہ واپس نہیں لیتے۔۔؟؟
4> غصب باغِ فَدَک میں جو الزامات خلفائے ثلاثہؓ پر لگائے جاتے ہیں کیا انہیں الزامات کی زد میں حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ نہیں آتے۔۔؟؟
5> کیا اِن تمام الزامات کی زد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی ذاتِ مبارکہ نہیں آتی۔۔؟؟
ناراضگی حضرت فاطمہؓ
اعتراض اہل تشیع:
اہل سنت کی کتابوں میں کثرت سے حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کی روایات ہیں۔
جواب:
1> حضرت فاطمہؓ اور حضرت صدیقؓ کے متعلق کسی دوسرے شخص کا یہ خیال کہ باہم ناراض تھے۔ اگرچہ وہ شخص بالفرض معصوم بھی ہو۔ یقیناً اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک حضرت فاطمہؓ خود بنفس نفیس اپنی زبان سے ناراضگی کا اظہار نہ فرمائیں۔ اور یہ بات قطعاً کسی معتبر کتاب اہل سنت سے ثابت نہیں ہوسکتی۔
2> صحیحین میں ناراضگی کی چودہ روایات درج ہیں جن میں چار میں ناراضگی کا لفظ ذکر ہے اور اِن چار روایات کی سب سندیں امام زہری پر جا کر جمع ہوتی ہے تو تواتر کیسا؟؟ اور لفظ قال سے راوی کی زیادتی ثابت ہو رہی ہے۔ جو کہ راوی کا گُمان تھا جبکہ دس روایات میں ناراضگی کا لفظ ذکر نہیں ہے
3> اس کے برعکس شیعہ کی معتبر ترین کتابوں میں حضرت فاطمہؓ کی زبانی جناب علی المرتضیؓ سے فَدَک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے، جس کا ازالہ حضرت علیؓ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا۔ بلکہ فَدَک کو جناب رسول کریم علیہ الصلوۃ السلام اور خلفائے ثلاثہ (ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) والے طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدینؓ کے طرز عمل میں کسی تغیر و تبدیلی کو جائز نہ سمجھا۔
جناب علی المرتضیؓ جن پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو حضرت فاطمہؓ نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا۔ اور ابوبکر صدیقؓ جن پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں۔ ان کو ظالم، غاصب سمجھنا کس انصاف اور کس دیانت پر مبنی ہے۔
اہل تشیع روایات:
اہل تشیع کی کتابوں میں حضرت فاطمہؓ کا حضرت ابوبکر صدیقؓ سے راضی ہونا ثابت ہے اور اسی موقف پر اہل سنت و اہل تشیع کتابوں میں روایات موجود ہیں۔
روایت نمبر 1:
قال إن لك ما لأبیك کان رسول الله ﷺ یأخذ من فدك فوتکم ویقسم الباقي و یحمل منه في سبیل الله ولك علىٰ الله أن أضع بها کما کان یصنع فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه
ترجمہ: حضرت ابوبکرؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے کہاجو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گاجیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہؓ خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہد لے لیا۔
(شرح نہج البلاغۃ جلد 5 صفحہ 7 از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
روایت نمبر 2:
وذلك إن لك ما لأبیك کان رسول الله ﷺ یأخذ من فدك قوتکم ویقسم الباقي ویحمل من في سبیل الله ولك علىٰ الله أن أصنع بها کما کانا یصنع فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه به
ترجمہ: اور یہ وہی ہے جو آپ کے والد نے کیا کہ خدا کے رسولؐ فَدَک کا بقدرِ ضرورت حصہ لے لیا کرتے تھے۔ اور باقی اللہ تعالیٰ کے راستے میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور یہ آپ (رسول صلی الله عليہ وسلم) کیلئے اللہ کی طرف سے تھا، میں بھی وہی کروں گا اس معاملے میں، جیسے وہ کرتے تھے، پس وہ راضی ہوگئیں اور میں نے اس عہد کو اس طرح پورا کیا۔
(کتاب درہ تحفیہ شرح نہج البلاغۃ صفحہ 332-331)
(الشیعہ واہل البیت صفحہ 75)
روایت نمبر 3:
إن أبابکر لما رأی أن فاطمة انقبضت عنه وهجرته ولم تتکلم بعد ذلك في أمر فدك کَبُر ذلك عنده فأراد استرضاءها فأتاها فقال لها: صدقت یا ابنة رسو ل الله ﷺ فیما ادعیت ولکنی رأیت رسول الله ﷺ یقسمها فیعطی الفقراء والمساکین وابن السبیل بعد أن یعطی منها قوتکم والصانعین فقالت: افعل فیها کما کان أبي رسول الله ﷺ یفعل فیها. قال أشهد الله علي أن أفعل فیها ما کان یفعل أبوك فقالت: والله لتفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد اللهم اشهد فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه وکان أبوبکر یعطیهم منها قوتهم فیعطی الفقرآء والمسکین
(آفتابِ ہدایت صفحہ251)
اہل سنت روایت:
والله ما تركت الدار والمال والأهل والعشيرة إلا ابتغاء مرضاة الله ، ومرضاة رسوله ، ومرضاتكم أهل البيت . ثم ترضاها حتى رضيت . وهذا إسناد جيد قوي
(البدایہ والنہایۃ جلد 5 صفحہ 289 عمادالدین بن کثیر)
ترجمہ:
اللہ کی قسم ! میں اپنا گھر بار مال اور اہل و عیال، قوم برادری، سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ السلام کی رضاجوئی اور تم اہلبیت نبوت کی رضاجوئی کے لئے چھوڑ چھاڑ آیا تھا جس سے سیدہؓ کو خوش کیا تو سیدہؓ نہایت راضی خوش ہوگئیں اس روایت کی سند نہایت عمدہ، صحیح اور معتبر و مضبوط ہے۔
تعارضات:
1> کیا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا کامل الایمان ہونا ثابت نہیں ہوتا، بوجہ اِس کے حضرت فاطمہؓ کے سوال کرنے پر فرمایا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، انبیاء جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ اور فَدَک اور دوسرے اموالِ وقف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریق اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔
2> حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کی وجہ کیا تھی، فرمانِ رسولؐ کا سنایا جانا، یا فرمانِ رسولؐ کی وجہ سے مال کا نہ ملنا یا کہ فرمانِ رسولؐ کے بارے میں علم نہ ہونا؟؟ کیا حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی بہر صورت رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف نہیں لوٹتی ؟؟
نتیجہ:
یہی وہ نقطہ ہے جس پر مشہور بریلوی عالم ڈاکٹر اشرف جلالی صاحب دامت برکاتہم عالیہ پر ایف۔آئی۔آر درج کروائی گئی۔
جس کے ضمن میں اہل تشیع اور کچھ درباری مُلاؤں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ اشرف جلالی نے حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ جو کہ معصوم ہیں۔
عِصمت کی جس تعریف پر اہل تشیع نے اجماع کیا ہے۔ مُلا باقر مجلسی نے عِصمت کی جو تعریف کی ہے اس پر اہل تشیع کا اجماع ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
"جان لو امامیہ کا اتفاق ہے کہ ائمہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اُن سے اصلاً گناہوں کا صدور ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ عمداً، نسیاناً، خطاً، تاویل یا تفسیر میں غلطی کرنا یا اللہ کو اُن کا بھلا دینا تو ایک طرف رہا"
(بحار الانور جلد 25 صفحہ 211)
(مراۃ العقول جلد 4 صفحہ 352)
یہ دعویٰ تو عِصمت کی اس تعریف کا کر بیٹھے لیکن اس کو کسی بھی صورت ثابت نہیں کرسکتے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کے نسیان اور خطا اجتہادی کے بہت سارے واقعات اہل تشیع نے اپنی تفاسیر میں ذکر کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سہو، نسیان اور خطا اجتہادی کے بارے میں احادیث کی کتابوں میں ابواب باندھے ہیں اور فقہ کی کتابوں میں سہو اور نسیان کے باقاعدہ مسائل پیش کیے ہیں۔
چنانچہ اہل تشیع کی عِصمت کی اس تعریف کے مطابق اگر حضرت فاطمہؓ کا ناراض ہونا تسلیم کرتے ہیں تو ان کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا، اور اگر ناراض ہونا تسلیم نہیں کرتے تو ہمارا موقف ثابت.
انبیاء کی وراثت مال نہ ہونے کی حکمت:
قران مجید سے دلائل:
1> اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ يَقْدِرُ
ترجمہ: اللہ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور جس کی چاہتا ،گھٹا دیتا ہے۔
2> كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ
ترجمہ: اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔
3> اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَا اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه
ترجمہ: یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُنہیں دے رکھا ہے۔
4> وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں زیادتی دے رکھی ہے۔
5> فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ
ترجمہ: جو کچھ حلال اور پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کاشکر ادا کرو۔
6> وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ
ترجمہ: تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں۔
احادیث رسول اللہ ﷺ سے دلائل:
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی ہے:
إن هذا الصدقات إنما هي أوساخ الناس لا تَحل لمحمد ولا لآل محمد ﷺ
ترجمہ: صدقات لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے جو میرے لیے اور آلِ محمد ﷺ کے لیے حلال نہیں۔
(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 345)
اقوالِ فقہاء:
1> شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:
وفي هذا الحکم سر آخر و هو أنه ﷺ إن أخذها لنفسه وجوز أخذها لخاصته والذین یکون نفعهم بمنزلة نفعه کان مظنة أن یظن الظانون ویقول القائلون في حقه ما لیس بحق
*ترجمہ:* رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل پر صدقہ کے حرام ہونے میں دوسرا راز یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اپنے مال کو اپنی ذات کے لیے یا اپنے خاص افراد کے لیے جن کا نفع آپ کا اپنا نفع ہے، کے لیےجائز قرار دیتے تو آپ کے خلاف بدگمانی کرنے والوں اور ناحق اعتراض کرنے والوں کو موقع ہاتھ آجاتا کہ یہ نبی دنیا کا کتنا حریص ہے کہ غربا و مساکین کا حق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
(حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ 46)
2> والفرق بین الأنبیآء وغیرهم إن الله تعالىٰ صان الأنبیاء عن أن یورثوا الدنیا لئلا یکون ذلك شبهة لمن یقدح في نبوتهم بأنهم طلبوا الدنیا وورثوها لورثتهم
*ترجمہ:* اگر انبیاءؑ کے ترکہ میں عام قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو دشمنانِ نبوت کو یہ اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا کہ اُنہوں نے اپنے اور اپنے وارثوں کے لیے مال و دولت جمع کرنے کے لیے نبوت کو آڑ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے «لا نورث ما ترکنا صدقة» کا قانون جاری کروا کر اپنے انبیاءؑ کو اس جاہلانہ اعتراض سے ہمیشہ کے لیے بچالیا۔
(منہاج السنۃ جلد 2 صفحہ 157)
نتیجہ:
اِن آیات، احادیث اور فقہاء کے قول اور اس مفہوم کی دوسری بیسیوں آیاتِ مقدسہ کے مطابق اس دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ ثروت و دولت، مال اور زندگی کا دوسرا ساز و سامان ہے۔ اس کا حقیقی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، جو خالق کائنات ہے۔ انسان کے پاس یہ مال و متاع محض چند روز کے لیے بطورِ امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و احسان سے رفع حاجات اور روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ چیزیں مستعار عطا فرما رکھی ہیں جن پر ہمارا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے
. وَ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
ترجمہ: میں تمہیں جو تبلیغ کررہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا بلکہ اس کا اجر ربّ العالمین ہی کے ذمہ ہے جوقیامت کو وہ عطا فرمائے گا۔
۔ قُلْ لَّا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری
انبیاءؑ اپنی اپنی اُمت کے روحانی باپ ہوتے ہیں۔ نبی کا یہ روحانی رشتہ ہرفرد بشر سے ہوتا ہے۔ ہر کالے گورے اور سرخ و سپید پر برابر کی شفقت ہوتی ہے۔ اس لیے نبی کا ترکہ تمام اُمت پر صدقہ ہوتا ہے جو بلا کسی امتیاز کے آقا و غلام، مرد و زن، بُرے بھلے، صالح و فاسق، قریب و بعید اور ہر خاص و عام تمام مسلمانوں کے مشترکہ مصالح پر صرف کیا جاتا ہے۔ پس اگر نبی کا ترکہ صرف اُس کے اُصول و فروع پر ہی تقسیم کیا جاتا تو اس کے اقربا کے ساتھ تعلق و شفقت کا خاص ظہور ہوتا جو اُمت کے دوسرے افراد سے بے رخی اور ان کی دل شکنی کامظہر ہوتا جو کہ شفقت عام کے سراسر منافی ہے۔ فافهم ولا تکن من القاصرین
اور مذکورہ بالا احادیث میں فرمایا :«ماترکنا فهو صدقة» ان دونوں احادیثِ صحیحہ کو باہم ملانے سے ثابت ہوا کہ انبیاءؑ کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے۔
اگر انبیاءؑ کے ترکہ میں عام رائج قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو ممکن تھا کہ بشری تقاضوں اور دنیا کی حرص کی وجہ سے ان کے ورثا اُن کی موت کا انتظار کرنے لگے جاتے جو ان کے حق میں وَبال ثابت ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی کے ورثا کی بہتری کے پیش نظر ان کو ترکہ سے محروم کرکے دنیا کا عارضی نقصان برداشت کروا کر آخرت کے وبالِ عظیم اور ہمیشہ کی ہلاکت سے بچالیا۔ میرے علم کے مطابق یہ وہ حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے ترکہ میں قانونِ وراثت جاری نہیں فرمایا گیا۔
فَدَک کی حیثیت
اہل تشیع روایات:
روایت نمبر 1:
فَدَک اطراف خیبر کی ایک آباد و زرخیز و وسیع سرزمین تھی اور اس کے نخلستان خیبر سے زیادہ تھے۔ فَدَک میں چند یہودی زندگی بسر کرتے تھے کہ جو خیبریوں سے ارتباط میں تھے اور ان کا رئیس ایک یوشع بن نون نام کا آدمی تھا۔سب سے پہلا شخص جس نے اس زمین پر سکونت اختیار کی تھی فَدَک بن حام تھا لہذا یہ سرزمین اسی کے نام سے معروف ہے۔
(معجم البلدان ،جلد 4 ،صفحہ 238)
روایت نمبر 2:
جب علی المرتضیؓ اُم ایمنؓ کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو اُم ایمنؓ فرماتی ہیں کہ اہل فَدَک نے 24،000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ کیا۔
(بحار الأنوار جلد 29 صفحہ 117-116)
(سرّه في البحار جلد 17 صفحہ 378 حديث 46)
(إثبات الهداة جلد 2 صفحہ 116 حديث 515)
(مجمع البحرين جلد 1 صفحہ 333)
(مجمع البحرين جلد 5 صفحہ 127)
روایت نمبر 3:
پیغمر اکرم ﷺ کے زمانے میں فَدَک کی سالانہ آمدنی کا 24 سے 70 ہزار دینار تک کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
(قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، جلد 1 صفحہ 113)
(سفینۃ البحار، جلد 2 صفحہ 351)
(ناسخ التواریخ، حضرت فاطمہ زہراؑ صفحہ 121)
روایت نمبر 4:
مورخین نے باغ فَدَک کی سالانہ در آمد 70،000 سے 120،000 طلائی سکہ لکھی ہے۔
(بحار الانوار ،جلد 29 صفحہ 118)
روایت نمبر 5:
کہا جاتا ہے کہ جس وقت عمرؓ نے حجاز سے یہودیوں کو نکالنا چاہا تو فَدَک میں موجود نصف درختوں کے مقابلے میں یہودیوں کو 50 ہزار درہم ادا کیا۔
(جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 14ق، صفحہ 98)
اہل سنت روایت:
خیبر کے یہودی زراعت اور باغبانی کے ماہر تھے اگرچہ اُن کی جلا وطنی طے ہو چکی تھی مگر انہوں نے اِس موقع پر تجویز پیش کی کہ انہیں زمین پر صرف کام کرنے کے لیے دیا جائے پیداوار میں سے نصف ان کا ہوگا اور نصف مسلمانوں کا، حضور اکرم ﷺ نے غور کیا تو اس تجویز میں مصلحت محسوس کی؛ کیوں کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ بیک وقت جہاد بھی کرتے اور زراعت بھی، آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے فارغ رکھنے کے خیال سے اس تجویز کو منظور فرمالیا مگر یہ واضح فرما دیا کہ جب ہم چاہیں گے یہ معاملہ ختم کردیں گے آپ ﷺ نے خیبر کی پیداوار سے حصہ وصول کرنے کی ذمہ داری عبداللہ بن رواحہؓ کو سونپ دی وہ جب بھی خیبر آتے اتنی دیانتداری اور انصاف سے پیداوار تقسیم کرتے کہ یہودی کہہ اٹھتے کہ "زمین و آسمان ایسے ہی عدل کی وجہ سے قائم ہیں" یہود حضرت عمر فاروقؓ کے دور تک یہیں آباد رہے مگر چونکہ حضور ﷺ کی یہ وصیت تھی کہ جزیرۃ العرب میں دو دین باقی نہ رہنے دیا جائے اور یہود و نصاریٰ کو یہاں سے نکال دیا جائے اس لئے حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں خیبر اور گردونواح سے تمام یہودیوں کو جلاوطن کرکے شام بھیج دیا اور انہیں متبادل زمینیں فراہم کردیں۔
(صحیح بخاری حدیث 3169)
سیرۃ ابنِ ہشام جلد 2 صفحہ 338-337)
(طبقات ابنِ سعد جلد 2 صفحہ 201)
(التاریخ الاسلامی العام صفحہ 200)
(المعجم الکبیر الطبرانی جلد 2 صفحہ 108)
(فتوح البلدان علامہ بلاذری صفحہ 42)
(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد 2 صفحہ 64)
(تاریخ کامل ابنِ اثیر جلد 2 صفحہ 85)
(روض الانف علامہ سُہیلی جلد 2 صفحہ 247)
خلاصہ روایات:
بستی فَدَک کا نام نوح علیہ السلام کی نسل فَدَک بن حام بن نوح کی وجہ سے فَدَک پڑا جو اِس علاقے کا پہلا آباد کار تھا۔
حضور ﷺ نے محیصہ ابن مسعودؓ کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے اہل فَدَک کی طرف بھیجا، تو اہل فَدَک نے باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں نے خیبر فتح کرلیا ہے آخر ہم کب تک فَدَک کی حفاظت کریں گے، جو کہ ناممکن ہے چنانچہ یوشع بن نون جو اُس وقت فَدَک کا مالک تھا رسول اللہ ﷺ کے سامنے معاہدے کیلئے پیش ہوا اس معاہدے کی بنیادی شق یہ تھی کہ فَدَک بدستور فَدَک کے رہائشیوں کے پاس رہے گا لیکن اس کی نصف سالانہ آمدنی مسلمان کو دی جائے گی۔
جیسا کہ ہم ماقبل اہل سنت اور اہل تشیع روایات سے بیان کر چکے ہیں کہ اہل فَدَک سالانہ 24،000 دینار ادا کیا کرتے تھے۔ اور اس رقم کی وصولی کیلئے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جایا کرتے تھے یہ ایک ہنگامی جنگی معاہدہ تھا جو کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں، اور پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں بھی اسی انداز میں قائم رہا۔ لیکن جب حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت آیا تو رسول اللہ ﷺ کے اِس فرمان کے مطابق کہ جزیرۃ العرب سے غیر مسلموں کو نکال دیا جائے، تو حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں باغِ فَدَک اور اُس سے ملحقہ جائیداد کو 50،000 درہم میں خریدا۔
جناب ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کوئی خاندانی، انفرادی یا ذاتی معاہدہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ریاستی، ہنگامی جنگی معاہدہ تھا جس میں صرف اور صرف 24،000 دینار سالانہ یا فَدَک کی نصف آمدنی سالانہ کی ادائیگی مسلمانوں کو کی جاتی تھی۔
نتیجہ:
نتیجے کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ باغِ فَدَک نہ کسی کی ذاتی ملکیت، نہ مکمل حاصل ہوا، نہ کسی کی ملکیت میں دیا گیا، اور نہ ہی وصالِ رسول ﷺ کے بعد کسی کو اس کا مالک بنایا جا سکتا تھا، بلکہ یہ تو ایک ریاستی معاہدہ تھا جیسا کہ نجران وغیرہ کے علاقوں کے معاہدے ہوئے۔
چنانچہ جس فرد نے باغِ فَدَک کی اصلی حیثیت کو سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اِس کی حیثیت کیا تھی، پھر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے دور میں کیا حیثیت تھی وہ اہل تشیع کے باغِ فَدَک کے بارے میں تمام مکر و فریب کو یقینی طور پر سمجھ جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ان معاہدوں میں حاصل ہونے والے اموال کے مصارف اللہ رب العزت نے قرانِ مجید میں خود بیان فرمائے ہیں تو اِن اموال کو اسی طریق پر تقسیم کیا جائے گا۔ اور یہ تمام اموال وقف کے حکم میں ہیں۔
دعوے جھوٹے، دلیلیں جھوٹی
وعدے جھوٹے، قسمیں جھوٹی
ہم نے جن کو سچا جانا
نکلی وہ سب باتیں جھوٹی
"مالِ فئے انفال اور اس کی تقسیم"
مالِ غنیمت کا حلال ہونا:
رسول اکرم ﷺ فرمایا: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ."
اللہ رب العزت نے مجھے چھ چیزیں وہ عطا فرمائی ہیں جو گزشتہ انبیاء علیہم السلام کو عطا نہیں فرمائیں۔ ان میں سے ایک چیز "أُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ" ہے کہ اللہ نے میرے لیے میدان جنگ کے مال، مالِ غنیمت کو حلال قرار دیا ہے۔
(صحیح مسلم رقم :523)
سابقہ شرائع اور مال غنیمت:
گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے لیے مالِ غنیمت حلال نہیں تھا یعنی ان انبیاء علیہم السلام کے لیے مالِ غنیمت کا استعمال کرنا ٹھیک نہیں تھا، جب جہاد میں نکلتے تھے اور میدان جنگ میں کفار کا مال جمع ہوتا تو اس مال کو کھلے میدان میں رکھ دیا جاتا تھا، آسمان سے آگ آتی اور اس مالِ غنیمت کو کھا جاتی۔ اگر وہ مال غنیمت آسمانی آگ کھا جاتی تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کو قبول فرمالیا اور اگر آگ اس مال کو نہ کھاتی تو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہ جہاد قبول نہیں ہوا۔
لیکن رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ نے مجھے یہ اعزار بخشا ہے کہ مالِ غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے۔ اب اُمت جہاد کرے اور میدان جنگ میں کفار سے مال چھینے، اب آگ کے ذریعے اسے جلانے کی ضرورت نہیں، یہ اسے اپنے حلال اور پاکیزہ رزق کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں یعنی یہ ہمارےنبی ﷺ ایک اعجاز ہے۔
ہمارے نبی ﷺ کا دائرہ نبوت غیر محدود ہے:
اس کی وجہ کیا ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کے لیے تو مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔ہمارے پیغمبر ﷺ کے لیے مال غنیمت حلال کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا دائرہ نبوت محدود تھا، ہمارے نبی ﷺ کا دائرہ نبوت غیر محدود ہے، پہلے نبیوں نے ایک بستی میں رہنا ہے، ایک قوم میں رہنا ہے، ایک گاؤں میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک اس نبی کی نبوت ہے، ہمارے نبی ﷺ کی نبوت کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں حضور ﷺ کی نبوت ہے اور رسول اللہ ﷺ کی امت نے پوری دنیا میں جانا بھی ہے۔
اگر مال غنیمت حلال نہ ہو:
اب اگر یہاں سے چلیں اور دنیا کے کسی دوسرے کونے جا کر جہاد کریں اور مالِ غنیمت بھی ان کے لیے حلال نہ ہو تو پھر کھانے کی دو صورتیں ہیں:
1) کمائیں اور کھائیں
2) مرکز سے مال لائیں اور کھائیں
میدان جہاد میں جاکر کمانا شروع کردیں تو یہ جہاد نہیں کر سکیں گے اور اگر مرکز سے مال لانا چاہیں تو دور ہونے کی وجہ سے مال لا بھی نہیں سکتے۔ تو یہ امت آگے کیسے بڑھے گی؟ اس کے لیے اللہ رب العزت نے ختم نبوت کی برکت سے اعزاز دیا ہے کہ تم بڑھتے چلے جاؤ، کمانا کافر نے ہے اورکھانا تم نے ہے۔
تمہیں کمانے کی ضرورت نہیں ہے، کافر کمائے گا اور تم کھاؤ گے اور یہ کھانا حلال بھی ہوگا اور طیب بھی ہوگا۔
مال کی تین اقسام:
میدان جنگ میں جو مال حاصل ہوتا ہے اس کی تین اقسام ہیں:
1> مالِ غنیمت:
مالِ غنیمت کا معنی کیا ہے؟ میدان جنگ میں گئے اور کفار سے مقابلہ ہوا اور مقابلے کے بعد آپ کو جو مال ملا اسے مالِ غنیمت کہتے ہیں۔
2> مالِ فئے:
بغیر جنگ لڑے کافر خود کو آپ کے حوالے کردے، اس سے جو مال ملتا ہے، اسے مالِ فئے کہتے ہیں۔ تو جو جنگ کے ذریعے مال ملے وہ ”مال غنیمت اور“ بغیر جنگ لڑے ملے تو ”مال فئے“ ہے.
3> انفال:
انفال عربی زبان کا لفظ ہے جو نفل کی جمع ہے، نفل کے لفظی معنی زائد، فضل، احسان اور اللہ کا کرم بھی ہے انفال کو محدثین اور مفسرین نے تھوڑا عام رکھا ہے۔
مالِ غنیمت اللہ اور رسول کا ہے:
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوۡلِ﴾ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ﴾
اے میرے پیغمبر! یہ صحابہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ مال غنیمت کا کیا کرنا ﴿قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوۡلِ﴾
آپ فرمادیں یہ مال غنیمت اللہ کے حکم سے آپ کو ملا ہے اور اللہ کے حکم کے مطابق اور پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقے سے تقسیم ہوگا، اس لیے تمہاری مرضی اور تمہاری رائے کو اس مال غنیمت کی تقسیم میں کوئی بھی دخل نہیں ہے۔
وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
*ترجمہ* اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
(سورۃ الحشر آیت 6)
مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔
(سور الحشر آیت 7)
انفال کی ملکیت کے حصہ دار:
1 اللہ عزوجل
2 نبی ﷺ
3 نبی ﷺ کے قرابت دار
4 یتیم
5 حاجتمند
6 مسافر
مال کی تقسیم کا طریقہ کار:
جب میدان جنگ میں جائیں اور مال غنیمت ملے تو اس مال غنیمت کے پانچ حصے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک حصہ جسے ”خمس“ کہتے ہیں یہ تو بیت المال میں جمع ہوتا ہے اور چار حصے ان مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں جو جہاد میں شامل ہوتے ہیں، کبھی ان چار حصوں کو ”مال انفال“ کہتے ہیں اور کبھی میدان جنگ میں امیر لشکرکہتا ہے کہ جس شخص نے فلاں کافر
کو قتل کیا تو اس کافر کا مال اس قاتل کو دیں گے تو اس مال کو بھی نفل کہتے ہیں۔ اور کبھی جو پانچواں حصہ بیت المال میں جمع ہوا ہے اسی مال میں سے امیر المجاہدین کسی مجاہد کے خاص کارنامے کی وجہ سے اس مجاہد کو بطور اکرام کے دیتا ہے اس مال کو بھی ”مال انفال“ کہتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو مالِ خمس (پانچواں حصہ) بیت المال میں جمع ہوا ہے ایک شخص میدان جنگ میں تو نہیں گیا لیکن مجاہدین کی خدمت کرتا ہے، اس خدمت کرنے والے کو بھی امیر لشکر اس خمس میں سے کچھ مال دیتا ہے تو اس مال کو بھی “مال انفال“ کہتے ہیں۔
تعارضات:
فَدَک مال فئے تھا یا ذاتی مال تھا ؟؟
جواب: باغِ فَدَک بھی دوسرے اموال کی طرح مالِ فئے ہی تھا اور فَدَک کے مال فئے ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔
مال فئے والانفال پر رسول اللہ ﷺ کے بعد تصرف کس کا ہوگا ؟؟
جواب: مالِ فئے کو انفال میں شمار کیا جاتا ہے اور انفال کے بارے میں سورہ انفال کی پہلی آیت میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ انفال فقط اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہے۔ انفال میں کسی غیر کا کسی قسم کا کوئی حق موجود نہیں۔ پس مالِ فئے چونکہ انفال میں سے ہے اس لیے یہ اموال رسول اللہؐ کے ساتھ مختص ہیں اور ان کی رحلت کے بعد ان کے برحق جانشین یاقائم مقام کے سپرد ہوگا۔
(شیح طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، جلد 2، صفحہ 64)
(علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، جلد 9 صفحہ 119)
"فما كان لله فهو لرسوله يضعه حيث يشاء وهو للامام من بعد الرسول"
پس جو اللہ کا ہے وہ رسول کا ہے جیسے چاہیے تصرف کرے اور اس کے بعد امام کا ہے
(العیاشی جلد 2 صفحہ، 35-36-37)
(بحارالانوار جلد 20 صفحہ 53-54-55)
(البرھان جلد 2 صفحہ 61-62-63)
(الوسائل جلد 2 ابواب الانفال)
(تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 254-255)
"هو لله وللرسول وبعده للقائم
مقامه يصرفه حيث يشاء من مصالح نفسه ومن يلزمه مؤنته ليس لأحد فيه شئ"
(التبیان جلد 5 صفحہ 83)
"هي لله وللرسول، وبعده لمن قام مقامه، فيصرفه حيث شاء"
(البیان جلد 4 صفحہ 424)
"وهي لله ولرسوله ولمن قام مقامه بعده"
(تفسیر الآصفی جلد 1 صفحہ 423)
"وھو للأمام بعد الرسول"
(الکافی جلد 1 صفحہ 28 روایات باب الفئی الانفال)
حضرت فاطمہؓ نے کس حق سے مال فئے والانفال یعنی مال وقف کا سوال کیا جب کہ ماقبل تمام روایات بتا رہی ہیں کہ مال وقف پر حق اللہ اور رسولؐ کا ہے اس کی تقسیم کا طریقہ کار خود اللہ نے بیان فرما دیا اور رسولؐ کے بعد اس پر تصرف امام یا قائم مقام کا ہے۔
کیا فاطمتہ الزہرہؓ رسول تھیں ؟؟ امام تھیں ؟؟ خلیفہ تھیں ؟ یا رسولؐ کی قائم مقام تھیں ؟؟
فَدَک کا حِصّہ اہل بیت کو ملنا
روایت نمبر 1:
ابوبکرؓ فَدَک کا غلہ وصول کرتے اور اہل بیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے۔ان کے بعد حضرت عمرؓ بھی فَدَک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد عثمانؓ بھی فَدَک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد علیؓ بھی فَدَک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔
(حجج النھج صفحہ 266)
روایت نمبر 2:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مناسب ترین فیصلہ فرمایا کہ کسی کو مالکانہ حقوق دیے بغیر ان جائیدادوں کے متولی کی حیثیت سے ان کی آمدن اہل بیت پر خرچ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اسی میں اہل بیت و سادات کرام کی مصلحت بھی تھی کیونکہ چند افراد کو مالکانہ حقوق مل جاتے تو ممکن تھا چند پُشتوں بعد یہ ذریعہ آمدن ختم ہو جاتا اور بعد والے سادات کو اس سے حصہ نہ ملتا۔اِس جائیداد کے سرکاری سرپرستی میں محفوظ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً دو صدیوں تک اہل بیت کی آل اولاد کو اِن اموال سے حِصہ پہنچتا رہا اور وہ معاشی طور پر فارغ البال رہے۔
(سنن الکبریٰ للبیہقی حدیث 12734)
نتیجہ:
> اہل تشیع کا محل وقوع کا دعوی ان کی اپنی کتابوں سے متضاد ہے۔
> اہل تشیع کا ہِبہ کا دعوی جھوٹا، خود ساختہ اور خود اپنی روایات سے متضاد اور دجل پر مبنی ہے
> اہل تشیع کا وراثت کا دعوی بھی جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ وراثت ثابت ہونے کی صورت میں فرائض کی آیات سے تعرض پیش آتا ہے
> اہل تشیع کا باغِ فَدَک کی ملکیت رسول اللہ ﷺ یا فاطمہؓ کے لیے جھوٹ ہے کیونکہ فَدَک کی نصف پیداوار سالانہ کا معاہدہ تھا جوکہ ریاستی تھا اہل تشیع نے صحابہؓ پر الزام ثابت کرنے کے لیے خود اپنے استدلالی اصولِ فقہی اور دوسرے ہر قسم کے اصول کو روند دیا لیکن دجل وفریب کے سوا کچھ ثابت نہیں کر سکے۔
ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں
إزالة الشك عن مسئلة فدك
علامہ محمد عبدالستار صاحب تونسوی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد اللہ رب العالمعین والصلواۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء و المرسلین وعلیٰ وازواجہ و اصحابہ اجمعین اما بعد۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا پ ۱۹ سورہ فرقان
وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً
يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ۔ پ ۴ سورۃ آل عمران۔
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً
فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ
وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ
پ ۱۰ سورہ انفال۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
پ۱۱ سورہ توبہ
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
پ۱ سورۃ بقرہ
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا
پ۱ سورۃ بقرہ
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ
وَلا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحاً جَمِيلاً وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآَخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْراً عَظِيماً
إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
انا العلماء ورثۃ الانبیاء وذالک ان الانبیاء لم یورثہ ادرھما ولادیناراً وانما اورثو احادیث من احادیثھم فمن اخذ بشی منھا فقھد اخذا حظاً وافراً (اصول کافی ص ۱۷)
ورث سلیمان داؤد وورث محمد ﷺ سلیمان۔ (اصولی کافی ص ۱۳۷)
اتت فاطمۃ بنت رسول اللہ ﷺ فی شکوٰہ الذی توفی فیہ فقالت رسول اللہ ھذان ابنان فورثھما شیئاً قا امام الحسن فان لہ ھیتی امام الحسین فان لہ جراءتی۔
حسن الفضیل بن یسار قال سمعت ابا جعفر علیہ السلام بقول لاواللہ ماورث رسول اللہ العباس ولاعلی ولاورثۃ الافاظمۃ علیہا السلام (من لایحفر الفقیہہ ج ۲ ص ۲۱۷)
نحن معاشرالانبیاء لا نورث ماترکنا فھوصدقۃ۔
اہل تشیع کے دلائل وراثت
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ
الجواب
نانکحو اماطاب لکم من النساء مثنی و ثلٰث وربعٰ۔ !
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ
الجواب:
فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ
الجواب:
اما انالوکنت مکان ابی بکرحکمت کام حکم بہ ابوبکرفی فدک۔ (ہدایہ ونھایہ ج ۵ ص ۲۸۰)
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ
نحن معاشرالانبیاء لانورث ماترکنا فھو صدقۃ۔
کان رسول اللہﷺ یا خذ من ندک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل ضہ فی سبیل اللہ وللت علی اللہ ان اصنع بھا کما کان یصنع فرضیت بذالک واخذت العھد علیہ بہ وکان یا خذ غلتھا فیدفع الیھم منھا مایکفیھم ثم فعلت الخلفاء بعدہ کذلک الیٰ ان ولی معاویۃؓ۔
امیرالمومنینؓ و اسماء ؓ بنت عمیس فاطمہؓ راغسل دادند۔
ثم تناول یدابی ابکر فبا یعہ۔ !
ثم قام و تھیا للصلوٰۃ و حضرالمسجد و صلی خلف ابی بکرؓ۔
"غضبناک بیرون رفت و مسجد درآمد و بنزد ممبر نشست حضرت فاطمہ دانست کہ حضرت برائے زینتہا چنیں بغضب آمدند۔ "
خطا بہائے شجاعانہ درشت باسیدوصیا نمود کہ مانند جنین دررحم پردہ نشین شدہ و مثل خائناں درخانہ گریخیۃ۔ "
عن جعفر ابن محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمۃ بنت النبی ﷺ فاجء ابوبکر و عمر لیصلوا فقال ابوبکر لعلی ابن ابی طالب تقدم۔ افعال ماکنت لاتقدم وانت خلیفۃ رسول اللہ ﷺ فتقدم ابوبکر و صلی علیھا۔
عن حماد عن ابراھیم قال صلی ابوبکرن الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اللہ ﷺ فکبر علیھا اربعاً۔
لولا انہ سنۃ ما قدمتہ ۔
وما توفیقی الاباللہ العلی العظیم
جاگیر فدک کا اعتراض اور اس کا جواب
[اعتراض] :
شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: ’’ میرے والد محترم نے مجھے فدک کی جاگیر ہبہ میں عطا کی تھی۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ ’’کوئی کالا یا گورا لائیے جو اس کی گواہی پیش کرے۔‘‘
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ام ایمن رضی اللہ عنہ کو گواہ کے طور پر پیش کیا؛ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ ’’ یہ عورت ہے لہٰذا اس کی شہادت مقبول نہیں ۔‘‘ حالانکہ روایات میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں شہادت دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’ یہ آپ کے خاوند ہیں لہٰذا ان کی شہادت بھی مقبول نہیں ۔‘‘
تمام لوگوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہے اور علی رضی اللہ عنہ اور حق لازم و ملزوم ہیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بروز قیامت میرے حضور حوض کوثر پر وارد ہوں ۔‘‘
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر ناراض ہو گئیں اور حلف اٹھایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات چیت نہیں کریں گی اور جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور (بعد از وفات) حاضر ہوں گی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا شکوہ کریں گی۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی : ’’ مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرنا اور میرا جنازہ پڑھنے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلانا ۔
سب روایات میں مذکور ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ رضی اللہ عنہا ! تیری رضا رضائے الٰہی کے موجب ہے اور تیری ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔‘‘سب کتب احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ فاطمہ میرا جگرپارہ ہے؛جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی ؛ اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی ۔‘‘ اگر حدیث نبوی
’’لَانُوْرِثُ‘‘
صحیح ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار؛ عمامہ اور خچر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہ دیتے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دعوی کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ قابل ترجیح نہ ہوتا۔اور اہل بیت جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نجاست سے پاک قرار دیا ہے ؛اس چیز کے مرتکب نہ ہوتے جو ان کے لیے جائز نہیں ہے ؛ اس لیے کہ ان پر صدقہ لینا حرام ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بحرین کا مال آیا تو حضرت جابرانصاری رضی اللہ عنہ کے یہ کہنے پر کہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا:’’جب بحرین کا مال آئے گا تو میں تمہیں تین لپیں بھر کردوں گا۔‘‘
تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ آگے بڑھواور اس تعداد میں لے لو۔‘‘ اس طرح وہ مال ان کو دے دیا گیااور گواہ بھی طلب نہ کیا؛ صرف ان کے قول پر اعتبار کیا۔‘‘
[انتہی کلام الرافضی]
جواب:
پہلی وجہ: شیعہ مصنف کے اعتراضات میں سے مذکورۃ الصدرواقعہ روافض کا پہلا بہتان نہیں ہے بلکہ وہ ایسے لاتعداد جھوٹ وفساد اور بہتان تصنیف کر چکے ہیں ۔جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں :
شیعہ مصنف نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق جاگیر فدک کے جس دعوی کا ذکر کیا ہے؛ یہ دعوی ان کی میراث کے متناقض ہے۔اگر وہ جاگیر بطور ہبہ آپ کی ملی ہوئی تھی تو پھر اسے بطور وراثت ملنے کا سوال باطل ہے۔ یعنی :
۱۔ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کی جاگیر ورثہ کی بنا پر طلب کرتی تھیں ، تو یہ ہبہ نہیں ہو سکتا۔
۲۔ اور اگر یہ جاگیر آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی تو ورثہ باطل ہوا۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں یہ جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منزہ ہیں ۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ دوسروں کی طرح آپ کا ترکہ ورثاء کے مابین تقسیم کیا گیا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ آپ نے اپنی بیماری کی حالت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کے حق سے زیادہ مال کی وصیت کی حالانکہ آپ وارث تھیں ۔ اوراس طرح کی وصیت کرنا وارث کے حق میں ناروا ہے۔ [ یا حالت مرض میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے حق سے زیادہ مال عطا کیا] ۔اور اگر حالت صحت میں آپ نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی تھی، تو وہ ہبہ قبضہ ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ ہبہ کرنے والا اگر کوئی چیز ہبہ کرے اور جس کو ہبہ کیا گیا ہے، وہ اس پر قابض نہ ہو ، یہاں تک کہ ہبہ کرنے والے کی موت واقع ہو جائے تو ایسا ہبہ جمہور علماء کے نزدیک باطل ہے۔
یہ امر موجب حیرت و استعجاب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی اور ام ایمن رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا جملہ صحابہ میں سے کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا۔
دوسري وجہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق اس قسم کے دعوی کا دعوی کرنا آپ پر بہتان ہے۔امام ابو العباس بن سریج نے جو کتاب عیسیٰ بن ابان کے رد پر تصنیف کی ہے ؛ جس میں انہوں نے ان کیساتھ’’قسم اور گواہ‘‘ کے بارے میں گفتگو کا تذکرہ کیا ہے اور انہوں نے وہاں پر کئی دلائل ذکر کیے ہیں ؛اور عیسیٰ بن ابان کے معارضات کا جواب دیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ بحتری بن حسان نے حضرت زید بن علی سے حدیث ذکر کی ہے جس میں انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کہا ہے کہ : انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فدک کی جاگیر عطا کی تھی۔ اور آپ گواہی میں ایک مرد اور ایک عورت کو لیکر پیش ہوئیں ۔ اور فرمایا: مرد کیساتھ مرد اور عورت کیساتھ عورت ۔ سبحان اللہ ! یہ کتنی عجیب بات ہے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی میراث کا سوال کیا ؛ اور آپ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ ہم [انبیاء کی جماعت] وارث نہیں بنتے ۔‘‘
دیگر احادیث میں کوئی ایسی چیز روایت نہیں کی گئی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے علاوہ بھی کسی چیز کا دعوی کیا ہو‘ یا کوئی گواہ پیش کیا ہو۔
جریر نے مغیرہ سے اوراس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے ‘ آپ فدک کی بابت فرماتے ہیں :
’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ جاگیر فدک آپ کو ہبہ کردی جائے ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں سے خرچ کیا کرتے تھے ‘اور بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کراتے اور ان کے کمزور اور ضعیف لوگوں پر خرچ کرتے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں معاملہ ایسے ہی رہا ۔ آپ نے اس کے صدقہ کرنے کا حکم دیا ؛ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کرلیا ۔ اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس جاگیر کو اسی ڈھنگ پر واپس کرتا ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی۔‘‘
[ذکر ابن الجوزِیِ فِی ِکتابِہِ’’سِیرۃِ عمر بنِ عبدِ العزِیزِ،ص:۱۰۹،ط۔المؤیدِ، القاہِرۃِ:۱۳۳۱، ۱۹۲۱، قصۃ عمر بنِ عبدِالعزِیزِ مع أراضیِ فدک التِی ورِثہا عن أبِیہِ وکیف ردہا ِإلی الصدقۃِ۔]
اس کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ انہوں نے دعوی کیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جاگیر ہبہ کردی تھی۔ ایسی کوئی ایک بھی حدیث متصل سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔اور نہ ہی کسی گواہ نے آپ کے حق میں کوئی ایسی گواہی دی۔اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو اسے ضرور نقل کیا جاتا ۔ اس لیے کہ آپ اس جھگڑے میں فریق تھیں ‘ اور آپ کا معاملہ ظاہر تھا۔اس معاملہ میں امت کا بھی اختلاف واقع ہوا؛ اور آپس میں بحث مباحثے ہوئے۔ ان میں سے کسی ایک مسلمان نے بھی یہ گواہی نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کوئی جاگیر عطا کی ہے۔ یا آپ نے کسی چیز کے بارے میں دعوی کیا ہو۔ یہاں تک کہ بختری بن حسان کا دور آگیا۔اس نے حضرت زید سے کچھ ایسی چیزیں روایت کیں جن کی کوئی اصل ہی نہیں ۔اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس سے پہلے کس نے روایت کیا ۔یہ سند اہل علم کے ہاں روایت کردہ احادیث [کی اسناد ] میں سے نہیں ہے:
فضل بن مزروق نے البختری سے ؛ اس نے زید سے روایت کیا ہے۔مصنف کو چاہیے تھا کہ بعض ان جملوں پر توقف کرکے غور و فکر کرتا جن کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا ۔
اس روایت میں حضرت زید رحمہ اللہ کے یہ الفاظ بھی ہیں : اگر اس جگہ پر میں ہوتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ اس سے کوئی بات نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ثابت ہوتی ہے اورنہ ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ؛ اگرچہ اس [روایت ] کی مخالفت کرنے والا کوئی ایک بھی نہ ہو۔اور اگرچہ اس بارے میں مناظرہ بھی نہ ہوا ہو ۔ تو پھر کیسے یہ ہوسکتا ہے جب کہ اس بارے میں روایات بھی موجود ہوں ۔ دین کی بنیاد اس پر قائم ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت ہوجائے ؛ اورپھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کے خلاف کہیں [توحجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی] ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں سے ایسی بات ہوسکتی ہے ؛ جیسا کہ دادی کے مسئلہ پر آپ سے غلطی ہوگئی تھی ؛ مگر جب آپ کو صحیح حدیث پہنچ گئی تو آپ نے اس کی طرف رجوع کرلیا ۔
اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی رافضی کے لیے اس میں کوئی حجت نہیں ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ نہیں فرمایا: میں اپنے گواہ کے ساتھ قسم اٹھاتی ہوں ؛ اور آپ کو منع کردیا گیا ہو۔ یا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہو کہ : میں گواہ کیساتھ قسم أٹھانے کو جائز نہیں سمجھتا ۔ نیز علماء کرام رحمہم اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : یہ حدیث غلط ہے۔ اس لیے کہ حضرت اسامہ بن زیدسے زہری روایت کرتے ہیں ان سے مالک بن اوس بن حدثان روایت کرتے ہیں : آپ نے فرمایا: ’’جس چیز سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احتجاج کیا ہے ‘ کہ آپ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین قسم کے اموال تھے : بنو نضیر ۔ خیبر اور فدک۔‘‘
[سنن ابی داؤد ۳؍۱۹۵ ؛ کتاب الخراج ]
بنو نضیر کے اموال کوآپ کے نائبین و عمال کے لیے روک کر رکھا گیا تھا۔
فدک کی جاگیر مسافروں اور ابناء سبیل کے لیے تھی۔
خیبر : اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ دو حصے مسلمانوں کے مابین تھے۔اور ایک حصہ آپ کے اہل خانہ کے نان و نفقہ کے لیے تھا۔ جوکچھ آپ کے اہل خانہ کے اخراجات سے بچ جاتا اسے آپ دوحصے کرکے فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔
حضرت لیث نے عقیل سے ؛ وہ ابن شہاب سے ؛ وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں : بیشک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خبر دی کہ: دختر نبی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے(کسی کو)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں ۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے(بقدر ضرورت)کھا سکتی ہے ۔‘‘اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا ؛اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں ذرا سی چیزبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔‘‘
[صحیح بخاری:ح:۱۴۱۶۔۵؍۲۰ ؛ کتاب فضائِلِ أصحابِ النبِیِ، باب مناقِبِ قرابۃِ رسولِ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومنقبۃِ فاطِمۃ۔]
امام زہری رحمہ اللہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے؛ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے پاس آدمی بھیج کر ان سے اپنی میراث طلب کی یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فئے کے طور پر دی تھیں ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصرف خیر جو مدینہ منورہ اور فدک میں تھا اور خیبر کی متروکہ آمدنی کا پانچواں حصہ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؛آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال ؛ یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مال میں سے کھا سکتے ہیں ‘‘ ان کو یہ اختیار نہیں کہ کھانے سے زیادہ مال لے لیں ۔‘‘
[صحیح بخاری:ح۹۲۵۔]
صالح ابن شہاب سے ‘وہ عروہ بن زبیر سے ‘ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں :
’’حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ مال دینے سے انکار کردیااور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا ؛میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دے دیا تھا۔ لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے۔ اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور وقف موجود ہیں۔‘‘
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۳۴۴۔]
یہ احادیث ثابت شدہ اور اہل علم کے ہاں بڑی معروف ہیں ۔ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے والد کی میراث طلب کی تھی۔اس لیے کہ آپ یہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے ۔لیکن جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتائی گئی ؛ توآپ نے اسے مان لیا ‘اور واپس چلی گئیں ۔ اور آپ اسے بطور وراثت کیسے طلب کرسکتی تھیں کہ آپ کے متعلق ان چیزوں کی ملکیت ہونے کا دعوی بھی تھا۔ یہ تو ایک لا یعنی سی بات ہے ۔
اس کتاب کے مصنف [ابن مطہر ] کو چاہیے تھا کہ وہ غور و فکر سے کام لیتا۔ مگر کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ....میں بھی [قرآن کو] ایسے ہی پڑھتا ہوں ؛ جیسے آپ پڑھتی ہیں ؛ لیکن میرے علم میں آپ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایاکہ : [یہ سارا مال آپ کے لیے ہے ]
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا یہ مال آپ کے لیے اور آپ کے اقارب کے لیے ہے؟
آپ نے فرمایا : نہیں ؛ اور آپ میرے نزدیک سچی اور امانت دار ہیں ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے اس قسم کا کوئی عہد لیا ہے ‘ یا آپ سے کوئی وعدہ کیا ہے ‘ یا پھر کوئی ایسی بات کہی ہے جس کے موجب یہ صدقات آپ کے ہوسکتے ہیں ؟
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نہیں ‘ایسی کوئی بات نہیں ؛ صرف اتنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’ اے آل محمد ! تمہیں خوشخبری ہو؛ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تونگری لے آئے ہیں ۔‘‘
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ‘ اور آپ بھی سچ کہتی ہیں ۔ آپ کے لیے مال فئے ہے۔ اور میرے علم کے مطابق اس آیت کی تاویل کی روشنی میں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ پورے کا پورا حصہ آپ لوگوں کو دیدیا جائے ۔ لیکن آپ کے لیے آپ کی ضرورت کے مطابق مال فئے ہے ۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات سنتے اور مانتے تھے۔ تو پھر جب آپ کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت گواہ بھی موجود ہوں تو آپ کی بات کیسے رد کی جاسکتی تھی؟
تیسری وجہ :....اگر اس مفروضہ کی صحت تسلیم کر لی جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ بھی تقسیم کیا جاتا؛ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دعویٰ کے مطابق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اور آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ [اس وراثت میں ] آپ کے شریک ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے خلاف صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔اوراگر آپ کاورثہ ناقابل تقسیم تھا تو اس معاملہ میں فریق حریف تمام مسلمان ہیں ؛ ان کے خلاف بھی صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔ البتہ ایسے واقعات میں فقہاء حجاز اور محدثین کے نزدیک مدعی کے حق میں ایک گواہ کیساتھ اس کی حلف کو شامل کر کے فیصلہ صادر کیا جا سکتا ہے۔
بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت کے بارے میں علماء کے دو مشہور اقوال ہیں ، امام احمد سے بھی اس ضمن میں دو روایتیں منقول ہیں :
۱۔ پہلی روایت : مقبول نہیں ، امام ابو حنیفہ، مالک، لیث بن سعد، اوزاعی، اسحاق رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ کا مذہب بھی یہی ہے۔
۲۔ امام احمد کا دوسرا قول: خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہے، امام شافعی ، ابو ثور اور ابن المنذر کی بھی یہی رائے ہے۔
بنا بریں اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی صحت کو تسلیم بھی کیا جائے، تو حاکم وقت ایک مرد یا ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، خصوصاً جب کہ اکثر علماء کے نزدیک خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہی نہیں ۔اور پھر علماء کرام کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو صرف ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اور جو کوئی ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں : تووہ بھی طالب دعوی کے لیے اس وقت تک فیصلہ کرنے کا نہیں کہتے جب تک اس سے پختہ حلف نہ لے لیا جائے ۔
چوتھی وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو لے کر آئیں ؛ اور انہوں نے گواہی دی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔’’ سب محدثین نے روایت کیا ہے کہ ام ایمن ایک جنتی خاتون ہیں۔‘‘
جواب :
یہ ایک جاہلانہ بات ہے، شیعہ مصنف ایسی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہونے کی بجائے مضر ہے۔ اگرایسی بات حجاج بن یوسف یا مختار بن ابی عبید جیسے ظالم لوگوں کے منہ سے بھی نکلتی تو اس کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالی معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا خصوصاً جب کہ مدعی ایک ایسی چیز کی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہو جو کسی اور کے زیر تصرف ہو اور ظاہر میں وہ کسی غیر کا حق ہو۔مگر یہاں تو اس کے قائل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے صادق القول بزرگ ہیں ۔
[اشکال ] :
شیعہ مضمون نگار نے کہا ہے کہ حدیث ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘ سب محدثین نے روایت کی ہے۔‘‘
[جواب] :
یہ صریح کذب ہے۔ یہ روایت کتب حدیث میں مذکور نہیں اور نہ ہی کسی محدث نے اسے روایت کیا ہے۔ ام ایمن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ رہ چکی تھیں ۔
[وجدتْ حدیثین في حق ام أیمن ؛ أم أیمن أمي بعد أمي۔‘‘وضعفہ السیوطي و الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۱؍ ۳۸۹۔ والثانی: من سرہ أن یتزوج امرأۃ من أہل الجنۃ فلیتزوج أم أیمن ۔‘‘ذکر السیوطي أن ابن سعد رواہ عن سفیان بن عقبۃ مرسلاً ؛ وضعفہ الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۵؍ ۲۰۵۔ اس کانام برکۃ بنت ثعلبۃ بن عمرو بن حصن تھا۔ الاصابۃ ۴؍۴۱۵۔]
یہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچی تھیں اور صحابیات میں بڑی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔ بایں ہمہ روایت حدیث میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے؛ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل علم پر افترا پر دازی کر کے کوئی روایت بیان نہیں کی جا سکتی ۔
باقی رہی یہ بات کہ بقول شیعہ مصنف ’’ یہ روایت سب نے ذکر کی ہے۔‘‘ بالکل غلط ہے، ایسا دعویٰ صرف حدیث متواتر کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص اکابر صحابہ کی بیان کردہ حدیث ’’ لَانورث ‘‘ کا منکر ہو اور ام ایمن کے بارے میں ذکر کردہ حدیث کو متواتر قرار دیتا ہو اس کے اجہل الناس اور منکر حق و صداقت ہونے کے بارے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بشرط صحت حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے؛ توایسا مژدہ آپ نے دیگر صحابہ کے بارے میں بھی سنایا ہے۔ آپ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جنت کی بشارت سنائی ہے۔
نیز یہ بھی فرمایا کہ :بیعت الشجرہ میں شمولیت کرنے والوں میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائے گا۔
[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ رضی اللّٰہ عنہم (ح:۲۴۹۶)]
یہ حدیث سنداً صحیح اور محدثین کرام کے نزدیک مسلّم ہے۔وہ حدیث جس میں آپ نے صحابہ کے بارے میں جنت کی شہادت دی ہے، اہل سنن نے متعدد طرق سے بروایت عبدالرحمن بن عوف، سعید بن زید نقل کی ہے۔
[سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخلفاء( ح:۴۶۴۹،۴۶۵۰) و سنن ترمذی کتاب المناقب۔ باب مناقب سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۵۷) عن سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۴۷) عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ ۔]
یہ روایات محدثین کے نزدیک عام طور سے معروف ہیں ۔
پھر جن احادیث میں صحابہ کے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، شیعہ ان کی تکذیب کرتے ہیں اور صحابہ پر یہ کہہ کر معترض ہوتے ہیں کہ وہ اس حدیث کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک عورت کی گواہی قبول نہیں کی ؛ جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اسے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، کیا اس سے بڑا جہل و عناد اور بھی ہوسکتا ہے؟
علاوہ ازیں یہ ضروری نہیں کہ جو شخص جنتی ہو وہ مقبول الشہادۃ بھی ہو۔اس لیے کہ اس امر کا احتمال موجود ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کا ارتکاب کررہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حضرت خدیجہ، فاطمہ و عائشہ رضی اللہ عنہم جیسی جنتی عورتیں شہادت دیں تو قرآن کے حکم کے مطابق ان کی شہادت کو مرد کی شہادت کے مقابلہ میں نصف شہادت قرار دیا جائے گا۔ جس طرح ان میں سے کسی ایک کا میراث میں حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔ اور اس کی دیت بھی مرد سے آدھی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف مذکور نہیں ،تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔پس کسی عورت کے جنتی ہونے سے اس کا مقبول الشہادۃ ہونا لازم نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کر رہی ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک جھوٹا شخص دروغ گوئی سے تائب ہو کر جنت میں جا سکے۔
پانچویں وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لیے قبول نہ کی کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے۔‘‘ یہ صریح کذب ہے ، اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی ہمارے حق میں مضر نہیں ۔ اس لیے کہ بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت اکثر علماء کے نزدیک ناقابل قبول ہے۔ جو علماء اس کی قبولیت کے قائل ہیں وہ اس شرط کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ شہادت کا نصاب پورا ہوجائے، مثلاً خاوند کے ساتھ ایک مرد گواہ اور بھی ہو یا دو عورتیں ہوں ، ایک آدمی اور ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر کرنا جب کہ مدعی سے حلف بھی نہ لیں ؛ ناروا ہے۔
چھٹی وجہ :....شیعہ مصنف کی پیش کردہ روایت کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور حق آپ کے ساتھ لگا لپٹا ر ہے گا؛ اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘اور پھر یہ کہنا کہ یہ روایت سب علماء نے بیان کی ہے۔یہ کذب و جہالت کی انتہا ہے۔ یہ روایت بسند صحیح یا ضعیف کسی نے بھی نقل نہیں کی۔ پھر یہ کہنا کس حد تک صحیح ہے کہ ’’ یہ روایت سب محدثین نے بیان کی ہے۔ ‘‘ اس شخص سے زیادہ جھوٹا اور کون ہو سکتا ہے، جو کسی روایت سے متعلق کہے کہ سب صحابہ و علماء نے یہ روایت بیان کی ہے، حالانکہ وہ حدیث اصلاً کسی ایک سے بھی منقول نہ ہو؛ یہ کھلا ہوا کذب و افترا ہے۔
البتہ اگر یوں کہا جاتا کہ بعض علماء نے یہ روایت بیان کی ہے تو یہ بات کسی حد تک دائرہ امکان کے اندر ہوسکتی تھی ۔
لیکن اس روایت کا اعتبار ہی کیا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سراسر بہتان اورجھوٹ ہے ۔ بخلاف اس روایت کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ’’ام ایمن جنتی عورتوں میں سے ہے ۔‘‘ ایسا کہنا ممکن ہے ۔ اس لیے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نیک عورت تھیں ‘ آپ مہاجرات صحابیات میں سے تھیں ؛ آپ کو جنت کی بشارت دیے جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔بخلاف اس کے کہ کسی ایک انسان کے متعلق کہا جائے کہ : ’’حق اسی کیساتھ ہوگا وہ جہاں کہیں بھی ہوگا اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ایسے کلام سے منزہ ومبراء ہے۔
[مذکورۃ الصدر حدیث درج ذیل وجوہ و اسباب کی بنا پر معنوی اعتبار سے بھی ناقابل قبول ہے] :
اوّل :....حوض نبوی پر اشخاص وارد ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا تھا:
’’ تم صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو۔‘‘
[البخاری ۵؍۳۳ کتاب مناقب الانصار؛ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للأنصار: ’’اصبروا حتی....۔‘‘و مسلم ۳؍ ۱۴۷۴ ؛ کتاب الإمارۃ ؛ باب الأمر بالصبر عند ظلم الولاۃ‘‘۔]
اور دوسری روایت میں ہے :
’’ بیشک میرا حوض ایلہ سے لیکر عدن تک بڑا ہوگا۔ اور اس حوض پر آنے والے سب سے پہلے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے ۔ پراگندہ سروں والے؛ میلے کپڑوں والے ‘ جو مال دار عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے ‘ اور جن کے لیے بند دروازے نہیں کھولے جاتے ۔ان میں سے کسی ایک کی موت آتی ہے تو اس کی خواہش اس کے سینے میں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔‘‘
[رواہ مسلم ۴؍۱۹۰۲؛کتاب الفضائل ؛ باب اثبات حوض نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم و صفاتہ؛ البخاری ۳؍۱۹۰]۔سنن الترمذي ۴؍ ۴۷ ؛ کتاب صفۃ القیامۃ ؛ باب ما جاء في صفۃ أواني الحوض ۔]
جب کہ حق کوئی مجسم چیزیا اشخاص میں سے نہیں جو حوض پر وارد ہونے کے قابل ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ؛ وہ کتاب اللہ اور میرے اہل بیت کی عترت ؛یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘
[سنن الترمذي ۵؍۳۲۸ ؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب أہل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ حسن غریب۔]
وہ حدیث [حضرت علی رضی اللہ عنہ والی] بھی اسی باب سے ہے ۔اس میں کچھ کلام بھی ہے جو کہ اپنے موقع پر ذکر کیاجائے گا۔
اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے مراد قرآن کاثواب ہوگا۔ رہا یہ مسئلہ کہ حق ایک شخص کیساتھ گھومتا ہو ‘ اور وہ شخص حق کے ساتھ گھومتا ہو ؛ وہ اس شخص کی صفت [لازمہ ] ہو کہ اس سے آگے تجاوز نہ کرسکتا ہو۔ تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا قول سچا ہوگا؛ عمل نیک اور صالح ہوگا ؛ اس سے یہ مراد ہر گزنہیں ہوسکتی کہ اس کے علاوہ کسی غیر کے پاس حق میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔
حالانکہ حق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ گردش کرتا ہے اور دوسرا کوئی انسان اس خصوصیت کا حامل نہیں ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ میں یہ وصف تسلیم کیا جائے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم ہونا لازم آتا ہے۔ شیعہ جہالت کی بنا پر عصمت علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتے ہیں ۔جو شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ علی،ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کی نسبت معصوم تر نہ تھے؛بلکہ یوں کہیے کہ ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ۔ اورلوگ شیعہ کی دروغ گوئی سے بخوبی واقف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ بالکل اسی طرح ہیں جس طرح ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ۔ ایسا ہر گز نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ خلفاء ثلاثہ کے فتاویٰ کی نسبت اولیٰ بالصواب ہوں ۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے اقوال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی نسبت ضعیف و مرجوح ہیں ۔یہ بھی درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر خلفاء کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ خوش اور ان کے زیادہ ثنا خواں تھے۔ بخلاف ازیں اگر کوئی شخص کہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد مرتبہ زجر و عتاب فرمایا تو اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی میں یہ شکوہ پہنچایا اور کہا: ’’ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت نہیں فرماتے۔‘‘ تو آپ مسجد نبوی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینے کی اجازت طلب کی ہے۔واضح رہے کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا، [ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے] ۔ البتہ علی رضی اللہ عنہ اگر میری بیٹی کو طلاق دے دیں تو ان کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔ فاطمہ! میرا جگر پارہ ہے جو اس کو شک میں ڈالتا ہے، وہ مجھے شک میں مبتلا کرتا ہے اور جو چیز اس کو ایذا دیتی ہے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ایک داماد
[ان کا نام ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس بن عبد مناف ہے، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے داماد اور آپ کی سب سے بڑی دختر فرخندہ اخترحضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے، ان کی بیٹی کا نام امامہ تھا جن کو حالت نماز میں آپ کندھے پر اٹھا لیا کرتے تھے، جب سجدہ کو جاتے تو زمین پر رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے اٹھا لیا کرتے تھے،
(صحیح بخاری۔ کتاب الصلاۃ ، باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ (ح:۵۱۶) ،صحیح مسلم۔ کتاب المساجد، باب جواز حمل الصبیان فی الصلاۃ(حدیث:۵۴۳)
یہ وہی امامہ بنت ابوالعاص ہیں کہ جب ان کی خالہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا توحضرت علی نے ان سے نکاح کر لیا تھا۔ ابوالعاص متاخر الاسلام ہیں ۔ غزوۂ بدر میں یہ قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے گئے تھے، اور قید کر لئے گئے، جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا توحضرت زینب نے وہ ہار مدینہ روانہ فرمایا جو رخصتی کے وقت ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پہنایا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہار پہچان لیا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا: ’’ اگر تم مصلحت دیکھو تو زینب کے قیدی کو رہا کر دو اور ہار اسے واپس دے دو۔‘‘
(سنن ابی داؤد۔ باب فی فداء الاسیر بالمال، (ح:۲۶۹۲) (]
ان کا ذکر کیا جو بنی عبد شمس کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’ اس (آپ کے داماد ابوالعاص) نے جب بات کی تو سچ بولا اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘
[صحابہ نے تعمیل ارشاد کر دی۔ بعد ازاں حضرت زینب نے ابو العاص سے ہجرت کی اجازت طلب کی جو اس نے دے دی، ابوالعاص ایک تجارتی قافلہ کو لے کر ملک شام گئے، ساحل سمندر پر مسلمانوں کی ایک جماعت آباد تھی جس میں ابو جندل اور ابو بصیر بھی شامل تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ابو العاص کو قید کر لیا اور مدینہ پہنچادیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: زینب نے ابوالعاص کو مال و متاع سمیت پناہ دی ہے۔قید کرنے والوں نے ابوالعاص کو اسلام لانے کی ترغیب دلائی اور ابو العاص کو مخاطب کر کے کہا ’’ ابوالعاص! آپ اشراف قریش میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ آپ رسول اﷲ کے چچا زاد اور داماد بھی ہیں اگر آپ مشرف باسلام ہوجائیں تو اہل مکہ کا سب مال آپ کو غنیمت میں مل جائے گا۔ابوالعاص نے جواباً کہا ’’ تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے، کہ میں مکر و فریب کے ساتھ اپنے مذہب کو چھوڑوں ۔‘‘ جب آپ نے ابوالعاص کو رہا کیا تو پہلے مکہ گئے اور حق داروں کی ایک ایک پائی ادا کی، پھر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو مخاطب کر کے کہا ’’ مکہ والو! بتائیے کیا میں نے واجب الاداء حقوق ادا کیے یا نہیں ۔‘‘؟ انہوں نے کہا ’ اﷲ کی قسم!ضرور۔‘‘ تب ابوالعاص نے کلمہ شہادت پڑھا اور عازم مدینہ ہوئے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کو ابوالعاص کے یہاں بھیج دیا، اور نکاح جدید کی ضرورت نہ سمجھی۔
(مستدرک حاکم (۳؍۲۳۶۔ ۲۳۷) سیرۃ ابن ہشام (ص:۳۱۲،۳۱۴) سنن ابی داؤد۔باب الی متی ترد علیہ امراتہ (ح۲۲۴۰) بذکر النکاح فقط۔
ابوالعاص اموی اور ان کے اشباہ و امثال جن بلند اخلاق اور اوصاف کے حامل تھے، ان کا ذکر و بیان یہاں ممکن نہیں ۔]
ظہور اسلام سے قبل وہ جس طرح عرب بھر میں ممتاز تھے، اسلام لانے کے بعد تاریخ اسلام میں بھی انہیں بلند مقام حاصل ہوا۔ عربوں کے اخلاق جلیلہ اور ان کی بلند پایہ عربی فطرت ہی ہے جس کی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم قوم کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے منتخب فرمایا۔
صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی ا للّٰہ علیہ وسلم ۔ باب ذکر اصھار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح: ۳۷۲۹ ،۵۲۳۰) ۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۲۴۴۹ )
ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر دستک دے کر دریافت فرمایا:
’’ کیا تم نماز (تہجد) نہیں پڑھتے۔‘‘؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہماری جانیں اﷲ کے قبضہ میں ہیں جب چاہتا ہے جگا دیتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر افسوس کے عالم میں اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے چل دئیے، زبان مبارک پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری تھے:
{ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا }
[الکہف۵۳]
’’انسان جھگڑا کرنے میں سب چیزوں سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘
[البخاری، کتاب التہجد۔ باب تحریض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قیام اللیل ، (ح: ۱۱۲۷) صحیح مسلم ۔ کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب الحث علی صلاۃ اللیل و ان قلت۔(حدیث:۷۷۵)۔]
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ کا تعلق ہے، آپ نے فتوی دیا تھا کہ جب کسی عورت کا خاوند فوت ہوجائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت
’’اَبْعَدُ الَاجَلَیْنِ‘‘
(عدت وفات اور وضع حمل ہر دومیں سے جو بعید تر ہو) ہے،
عہد نبوت میں جب ابو سنابل بن بعکک نے یہی فتوی دیا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو سنابل جھوٹ کہتا ہے۔
[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً(ح:۳۹۹۱) صحیح مسلم۔ کتاب الطلاق ، باب انقضاء عدۃ المتوفی عنھا زوجھا، (ح:۱۴۸۴) مسند احمد(۱؍۴۴۷)۔]
اس کے نظائر و امثال بہت ہیں ۔بہر کیف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا تھا۔جیسا کہ وہ خود اپنے حق میں فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔
ساتویں وجہ :....شیعہ مضمون نگارنے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جو واقعہ ذکر کیا ہے وہ ان کے شایان شان نہیں ۔اس سے کوئی جاہل ترین انسان ہی حجت پکڑ سکتا ہے۔ شیعہ مصنف اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ اس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش ہو رہی ہے، حالانکہ یہی واقعہ ان کے حق میں تنقیص شان کا موجب ہے ۔ بشرط صحت اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں فیصلہ صادر نہ کیا تو آپ کس لیے ناراض ہو گئیں ....؟ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حق و صداقت پر مبنی تھا، جس کی خلاف ورزی کسی کے لیے بھی درست نہیں ، لہٰذا اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہ تھی۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف اس کے حق میں فیصلہ صادر کیا جائے اور جب حاکم ایسا نہ کر سکے تو وہ اس سے ناراض ہو جائے اور بات چیت ترک کرنے کی قسم کھالے تو یہ بات اس شخص کے لئے نہ موجب مدح ہے اور نہ حاکم کے حق میں سبب جرح و قدح۔ بخلاف ازیں یہ بات ایسا تقاضا کرنے والے کے لیے جرح و قدح سے قریب تر ہے۔
ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا و دیگر صحابہ سے اس قسم کے جو واقعات منقول ہیں ان میں سے اکثر صریح کذب اور بعض تاویل پر مبنی ہیں ۔ اور اگر ان میں سے بعض گناہ کے موجب بھی ہوں تو ہمیں کب اس سے انکار ہے، کیونکہ ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ اولیاء اللہ اور اہل جنت میں سے ہونے کے باوصف گناہوں سے بری نہ تھے۔ ہم پر امید ہیں کہ اﷲتعالیٰ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔
رافضی مصنف نے جو ذکر کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کرنے کی قسم کھا لی اور کہا کہ اپنے والد محترم (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مل کر اس کا شکوہ کریں گی؛ یہ بات شان فاطمہ رضی اللہ عنہا کے منافی ہے۔ شکوہ صرف بارگاہ ربانی میں کیا جا سکتا ہے اور بس!قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اللہ کے ایک نبی نے کہا تھا:
{ اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِی اِلَیْ اللّٰہِ }
(یوسف:۷۶)
’’میں بارگاہ ایزدی میں اپنے حزن و ملال کا شکوہ کرتا ہوں ۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام دعا فرمایا کرتے تھے:
’’بارالٰہی ! مدح و ستائش صرف تیرے لیے ہے، تیرے حضور ہی میں شکایت کی جاتی ہے تجھی سے مدد چاہی جاتی ہے اور تجھی سے فریادرسی کی جاتی ہے، ہمارا تکیہ صرف تیری ہی ذات پر ہے۔‘‘
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے فرمایا تھا :
’’ سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ سے کیجئے،اور اگر مدد طلب کرنا ہو تو اﷲ سے کیجئے۔‘‘
[مسند احمد (۱؍۲۹۳،۳۰۷) سنن ترمذی۔ کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب (۵۹) (حدیث: ۲۵۱۶) ۔]
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے سوال کیجئے یا مجھ سے طلب امداد کیجئے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
{ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ}
(الانشراح:۷۔۸)
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص حاکم سے مال طلب کرے اور غیر مستحق ہونے کی بنا پر حاکم اس کا مطالبہ پورا نہ کرے اس پر مزید یہ کہ حاکم اس مال کو اپنے عزیز و اقارب پربھی صرف نہ کر رہا ہو بلکہ حسب موقع و مقام سب مستحق مسلمانوں کو دیتا ہو۔
[اگر حدیث نبوی ’’ لانورث ‘‘ سے صرف نظر کر لیا جائے تو اس میں شبہ نہیں کہ سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا دونوں ورثاء میں شامل تھیں ،حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے مذکورۃ الصدرحدیث کی تعمیل میں دونوں کو ورثہ سے محروم کر کے آپ کے صدقہ کو عام صدقات میں جمع کر دیا تھا، تاہم آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے، اہل بیت کو بیت المال سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی اجازت دے دی تھی،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جملہ امور میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے التزام کو قائم رکھا اور ہر صورت میں اسے نبھانے کی کوشش کی، آپ نے بدعات سے کنارہ کش رہنے کی قسم کھائی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑی بدعت اور کیا ہوتی کہ آپ حدیث ’’ لانورث ‘‘ کی خلاف ورزی کرتے، حالانکہ یہ روایت کثیر صحابہ سے مروی ہے، اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔]
پھر کہا جائے کہ وہ طالب ِمال حاکم سے بگڑ گیا۔ تو ظاہر ہے کہ اس کی ناراضگی کا موجب صرف یہ امر ہے کہ حاکم نے اس کو مال نہ دیا اور یہ کہہ دیا کہ دوسرے لوگ اس کی نسبت اس مال کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس ناراضگی میں طالب مال کے لیے مدح و ستائش کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا اگرچہ طالب مظلوم بھی ہو۔ تا ہم اس کی ناراضگی صرف دنیوی مال کی خاطر ہے۔ اس صورت میں طالب مال کو متَّہم کرنا حاکم کو مطعون قرار دینے کی نسبت اقرب الی الصحت ہے۔ خصوصاً جب کہ حاکم یہ مال خود نہیں لے رہا اور طالب مال اسے خود اپنی ذات کے لیے حاصل کرنے کے درپے ہے۔ حاکم واشگاف الفاظ میں کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مجھے مال دینے سے مانع ہے، میرے لیے یہ کیوں کر روا ہے کہ مستحق سے مال لے کر غیر مستحق کو دے دوں ؟ طالب مال اس کے سوا آخر کیا کہہ سکتا ہے کہ میری ناراضگی کا باعث صرف قلیل مال ہے دگر ہیچ۔
جو شخص سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایسا واقعہ بیان کر کے اسے ان کی مدح پر محمول کرتا ہے، اس کا جاہل ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے، اللہ تعالیٰ منافقین کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں :
{وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ o وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ}
(التوبہ: ۵۸۔ ۵۹)
’’بعض منافق صدقات کے متعلق آپ پر طعن کرتے ہیں ، اگر صدقات مل گئے تو خوش، ورنہ ناخوش اور اگر وہ اﷲ کے عطا کردہ مال پر رضا مندی کا اظہار کرتے، اور یوں کہتے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے دیتا رہے گا؛اور اس کا رسول، ہماری رغبت صرف بارگاہ ربانی کی جانب ہے ۔‘‘
اس آیت میں منافقین کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ دیے جانے کی صورت میں خوش ہوتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو غیظ و غضب کا اظہار کرنے لگتے ہیں ، منافقین کی زندگی کا یہی پہلو ان کی مذمت کا موجب ہوا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ جو شخص اسی خصوصیت کی بنا پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح سرائی کرتا ہے، جس کی مذمت بیان کی گئی ہے تو وہ بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ روافض نے اہل بیت کی شان میں جو گستاخیاں کی ہیں اور جس طرح ان کی زندگیوں کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے،وہ کسی بھی اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے ۔ اہل بیت کی جانب سے اللہ تعالیٰ ہی اس کا انتقام لے گا۔
[اشکال ] :
اگر کوئی شخص یہ کہے:سیدہ فاطمہ اپنا حق طلب کرنے آئی تھیں اور حق کا مطالبہ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ۔‘‘
[جواب] :
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو یہود و نصاری تک کے حقوق ادا کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے، بھلا آپ سیدۃ النساء سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق ادا کرنے سے کیوں کر انکار کر سکتے تھے؟، مزید برآں اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا مال اﷲ کی راہ میں صرف کیا کرتے تھے، پھر آپ لوگوں کے حقوق اداکرنے سے کیوں کر باز رہ سکتے تھے۔
[سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایک عزیز مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کی مالی امداد فرمایا کرتے تھے، اس ضمن میں سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی:
{وَلَا یَاتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْـکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُؤْتُوْا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } (نور: ۲۲) (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب حدیث الافک،(حدیث:۴۱۴۱) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی حدیث الافک (حدیث: ۲۷۷۰)]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا مطالبہ کیا تھا؛اور آپ اسے پورا نہ کر سکے۔ بخاری و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں خادم طلب کرنے آئیں اور آپ نے خادم عطا کرنے کی بجائے ان کو تسبیح کے کلمات پڑھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔
[صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابۃ باب باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۶۳۱۸) ،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء باب التسبیح اوّل النھار و عند النوم (حدیث:۲۷۲۷) ۔
یہ پوری حدیث اس طرح ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔
اگر یہ آیت کریمہ کسی انسان کے بارے میں انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی پر نازل ہوتی تو اس نبی کی امت کا سخت بے شرم آدمی بھی اس شخص کی شان میں گستاخی کرنے سے شرم محسوس کرتا، جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی مگرحضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے جذبہ حیاء سے عاری ہیں ، اس لیے کہ حیا ایمان کا جزء ہے،اور انہیں ایمان سے کوئی سروکار نہیں ۔
جب یہ جائز ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ یہ مطالبہ پورا نہ کریں اور اس کا پورا کرنا آپ پر واجب بھی نہ ہو؛ تو اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ وہ خلیفہ رسول سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ اس مطالبہ کی تکمیل سے قاصر رہیں ۔ خصوصاً جبکہ ہم اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا معصوم نہیں اور ممکن ہے آپ ایسا مطالبہ کریں جس کی تکمیل ضروری نہ ہو۔ جب مطالبہ کا پورا کرنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر واجب نہ ہوا تو ایک غیر واجب امر کے ترک کرنے پر آپ ہر گز قابل مذمت نہیں ، یہ امر مباح ہی کیوں نہ ہو۔جب ہم یہ فرض کر لیں کہ اس مطالبہ کا پورا کرنا سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے مباح بھی نہ تھا تو اس کی عدم تکمیل پر آپ مدح کے قابل ہوئے نہ کہ مذمت کے مستحق اور یہ کبھی معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے بعد کسی کا حق ادا کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ:’’ انھیں رات کو دفن کیا جائے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان کا جنازہ نہ پڑھے۔‘‘ صرف وہی شخص اس قصہ کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرسکتا ہے جو بالکل جاہل ہو اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ایسے الزامات لگانا چاہتا ہو جو کہ آپ کی شان کے لائق نہیں ۔ آپ کی شان میں ایسے کلمات کہے جو آپ کی عزت وعظمت کے منافی ہوں ۔ بشرط صحت یہ بات چنداں مفید نہیں ۔ اس لیے کہ جنازہ پڑھنے سے میت کو فائدہ ہی پہنچتا ہے کسی ضرر کا اندیشہ نہیں ۔ نیز یہ کہ اگر ایک کم درجہ کا شخص افضل الخلق کا جنازہ پڑھے تو اسے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لیجیے کہ سب ابرار و اشرار اور منافقین آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ بفرض محال اگر اس سے آپ کو نفع نہیں پہنچتا تو ضرر بھی لاحق نہیں ہوتا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ آپ کی امت میں منافقین بھی ہیں ۔ اس کے باوصف آپ نے کسی کو بھی درود وسلام سے نہ روکا، بلکہ مومن و منافق سب کو درود و سلام کا حکم دیا۔
مذکورۃ الصدرحقائق اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ قبل ازیں ذکر کردہ واقعہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش پر دلالت نہیں کرتا اور اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت پر وہی شخص استناد کرتا ہے جو جاہل مطلق ہو۔ مزید برآں یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ مسلمان اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو اس کی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی اس لیے کہ نماز جنازہ اُس کے لیے ہرحال میں مفید ہے۔
[تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے ، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو ، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی ، ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاں ، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر ، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو ، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔
‘‘ح: ۳۷۰۷۔]
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الاستیعاب میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی اس وصیت کا ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کو غسل دیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی ہی نے آپ کے لیے نعش کا انتخاب کیا تھا جیسا کہ وہ ملک حبشہ میں بچشم خود ملاحظہ کر چکی تھیں ۔ دیکھئے
حلیۃ الاولیاء، ابونعیم:۲؍۴۲، نیز السنن الکبریٰ امام بیہقی :۴؍۳۴، نیز ۳؍۹۶۔
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر کسی انسان پر کسی نے ظلم کیا ہو اور مظلوم وصیت کرجائے کہ ظالم اس کے جنازہ میں شریک نہ ہو تو اس کا یہ فعل ایسی نیکی نہیں ہے جو اس کے لیے قابل ستائش ہو۔ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا حکم نہیں دیا۔ مقام تعجب ہے کہ حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعریف و توصیف کرنے والے ایسے واقعات کس لیے بیان کرتے ہیں جو ان کے لیے موجب مدح ہونے کی بجائے ان کی شان میں قدح وارد کرتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت اور اجماع سے مستفاد ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment