Thursday 6 July 2023

خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضی کے مستند فضائل ومنقبت اور سیرت


حدیث نمبر 1

عَنْ سَهْلِ بْنُ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: «لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالُوا: هُوَ يَا رَسُولَ اللهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، قَالَ فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ، فَأُتِيَ بِهِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ، حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟ قَالَ: «انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ، حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللهِ فِيهِ، فَوَاللهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ»

ترجمہ:

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا کہ: کل میں یہ پرچم ایسے ایک شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ خیبر کو فتح کرا دے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا ..... پس جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ سب امید اور تمنا رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پرچم ان کو عطا فرما دیں گے ..... تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ "علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟" تو لوگوں نے عرض کیا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے (اس لئے وہ اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں) ..... آپ نے ارشاد فرمایا کہ ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجو .... چنانچہ ان کو بلا کر لایا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا آب دہن (تھوک) ڈال دیا تو وہ ایسے اچھے ہو گئے کہ گویا ان کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں .....ن اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے پرچم ان کو عنایت فرمایا (یہ اس کا نشان تھا کہ آج لشکر کے سپہ سالار اور قائد یہ ہوں گے) تو حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں خیبر والوں سے اس وقت تک جنگ کروں کہ وہ ہماری طرح ہو جائیں (یعنی اسلام قبول کر لیں) تو آپ نے فرمایا کہ تم آہستہ روی کے ساتھ جاؤ، یہاں تک کہ ان کی زمین اور ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ، پھر ان کو اسلام کی دعوت دو، اور ان کو بتلا دو کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق واجب ہو گا .... خدا کی قسم! یہ بات کہ تمہارے ذریعہ ان میں سے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہو جائے تمہارے حق میں اس سے بہتر ہے کہ مال غنیمت میں سرخ اونٹ تم کو ملیں۔

[صحیح بخاری:3009+3701+4210+2942، صحیح مسلم:2406(6223)]


تشریح:

خیبر مدینہ سے ایک سو چوراسی کلو میٹر (قریباً سوا سو میل) شمال میں واقع ہے، یہ یہودیوں کی بستی تھی، یہ وہ یہودی تھے جو کسی زمانے میں شام سے نکالے گئے اور یہاں آ کر بس گئے تھے، یہ سب دولت مند اور سرمایہ دار تھے، یہاں انہوں نے بہت مضبوط قلعے بنا لئے تھے اور اس وقت کے معیار کے مطابق جن کی ساز و سامان کا اچھا ذخیرہ بھی رکھتے تھے، یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور بہت زرخیز تھا۔ مدینہ منورہ کے قرب و جوار کے جن یہودیوں کو ان کی غداریوں اور شراتوں کی وجہ سے نکالا اور جلا وطنم کیا گیا تھا وہ بھی یہیں آ کر بس گئے تھے، یہ مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ رکھتے اور سازشیں کرتے رہتے تھے۔ مدینہ منورہ جو رسول خدا ﷺ کا دار الہجرۃ اور مسلمانوں کا دار الحکومت تھا، اس کے لئے خیبر کے یہ یہودی ایک مستقل خطرہ تھے۔ ۶؁ھ کے اواخر میں رسول اللہ ﷺ حدیبیہ سے واپس آ کر اور قریش مکہ سے مصالحبت اور دس سال کے لئے نا جنگ معاہدہ کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے، ذی الحجہ کا قریبا پورا مہینہ مدینہ ہی میں گذرا، محرم ۷؁ھ میں آپ نے خیبر کی خطرناک دشمن طاقت سے تحفظ اور مامون رہنے کے لئے صرف قریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر ساتھ لے کر خیبر کی طرف کوچ فرمایا، خیبر کے قریب پہنچ کر جس جگہ کو لشکر کے قیام کے لئے مناسب سمجھا وہاں قیام فرمایا، حسب معمول آپ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ کہ اگر وہ فی الحال اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ تو سیاسی ماتحتی قبول کر کے جزیہ ادا کیا کریں اور اگر ان میں سے کوئی بات قبول نہ کی گئی تو ہم اللہ کے حکم کے مطابق جنگ کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دینا منظور کریں۔ خیبر کے یہودی سرداروں نے کسی بات کے بھی قبول کرنے سے متکبرانہ انداز میں انکار کر دیا اور جنگ لئے تیار ہو گئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے انہوں نے متعدد قلعے بنا لئے تھے، جن میں سامان جنگ کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں کا بھی وافر ذخیرہ تھا، وہ مطمئن تھے کہ مسلمانوں کا لشکر کسی طرح بھی ان پر فتح نہ حاصل کر سکے گا۔ بہرحال جنگ شروع ہوئی اور کئی دن تک جاری رہی مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے ان کے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا، لیکن ایک قلعہ جو بہت مضبوط اور مستحکم تھا اور اس کی حفاظت اور دفاع کا بھی غیر معمولی انتظام کیا گیا تھا بار بار کے حملوں کے باوجود وہ فتح نہ ہو سکا، تو رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ کل میں یہ پرچم اور جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا اور اللہ اس کے ہاتھ پر یعنی اس کے ذریعہ فتح مکمل کرا دے گا اور یہ آخری قلعہ بھی فتح ہو جائے گا اور اس طرح جنگ کا خاتمہ بالخیر ہو جائے گا پھر یہاں کے یہودی یا تو اسلام قبول کر لیں گے یا سیاسی ماتحتی قبول کر کے جزیہ دینا منظور کر لیں گے ..... حضور نے اس شخص کو نامزد نہیں فرمایا جس کو آئندہ کل پرچم دینے کا آپ کا ارادہ تھا بس یہ فرمایا کہ وہ اللہ ااور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا اور اللہ اس کے ذریعہ یہ آخری قلعہ بھی فتح کرا دے گا، بلاشبہ یہ بڑی فضیلت اور سعادت تھی اور بہت سے حضرات اس کے متمننی اور امیدوار تھے کہ کل پرچم ان کو عطا فرمایا جائے ..... حضرت علی مرتضیٰؓ اس وقت وہاں موجود نہں تھے ..... جب اگلی صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا علی بن ابی طالب کدھر ہیں؟ لوگوں نے بتلایا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے اس لئے وہ اس وقت یہاں حاضر نہیں ہو سکے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کسی کو بھیج کر ان کو بلواؤ، چنانچہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس ھال میں کہ ان کی دونوں آنکھوں میں تکلیف تھی، حضور ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈال دیا فورا تکلیف جاتی رہی اور وہ ایسے ہو گئے جیسے آنکھ میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں، اس کے بعد آپ نے پرچم (جھنڈا) ان کو عطا فرمایا، یہ اس بات کی علامت تھی کہ آج لشکر کی قیادت یہ کریں گے ..... حضرت علی مرتضیٰ نے جھنڈا ہاتھ میں لے کر حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں ان یہودیوں سے اس وقت تک نگ کروں کہ وہ اسلام قبول کر کے ہمارے طرح ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ ایک آدمی کو بھی ہدایت عطا فرما دے اور اس کو ایمان کی دولت حاصل ہو جائے تو یہ تمہارے واسطے اس سے بہتر ہو گا کہ تم کو غنیمت میں بہت سے سرخ اونٹ مل جائیں (اس زمانے میں سرخ اونٹ عربوں کے لئے عزیز ترین دولت تھی) حضور ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ ہماری جنگ کا مقصد دشمن پر فتح حاصل کر کے مال غنیمت سمیٹنا نہیں ہے، اصل مقصد اور نصب العین بندگانِ خداس کی ہدایت ہے، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ میں بس یہی نصب العین پیش نظر رکھنا چاہئے اور اسی کے تقاضے کے مطابق رویہ متعین کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ صحیحین کی مندرجہ بالا حدیث کے راوی حضرت سہل بن سعد ؓ نے اس روایت میں حاضرین مجلس اور اپنے مخاطبین کی خصوصیت یا کسی دوسرے وقتی تقاضے سے جنگ خیبر کے آخری مرحلہ کا صرف اتنا ہی واقعہ بیان کیا ہے جس سے حضرت لی مرتضیٰؓ کی یہ خاص فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے محب اور محبوب ہیں ..... یہ بھی بیان نہیں فرمایا کہ جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت علی مرتضیٰ ہی کے ہاتھ پر یہودیوں کا آخری قلعہ بھی فتح ہوا اور خیبر کی فتح مکمل ہوئی۔ یہاں راقم سطور نے جنگ خیبر کے سلسلہ میں اتنا ہی لکھنا مناسب سمجھا جس سے اس کا پس منظر اور کچھ اجمالی حال بھی معلوم ہو جائے، اس غزوہ خیبر سے متعلق تفصیلات سیرت و تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس حدیث میں ضمنی طور پر حضور ﷺ کے دو معجزے بھی معلوم ہوئے ایک یہ کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی دونوں آنکھوں میں سخت تکلیف تھی حضور ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا فوراً تکلیف دور ہو گئی اور وہ ایسے ہو گئے جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں ..... دوسرا معجزہ یہ معلوم ہوا کہ آئندہ کل فتح مکمل ہو جانے کے بارے میں حضور ﷺ نے جو پیشن گوئی فرمائی تھی وہ پوری ہوئی۔ حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت کی ہوئی اس حدیث کا خاص سبق یہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب ؓ اللہ اور اس کے رسول کے محب و محبوب ہیں اور الحمدللہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ اور امت کے سواد اعظم کا یہی عقیدہ ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے سوا کسی دوسرے کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا محب و محبوب ہونے کی سعادت نصیب نہ ہو اور اللہ و رسول پر ایمان رکھنے والا ہر مومن صادق اپنے ایمانی درجہ کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کا محب و محبوب ہے، سورہ آل عمران کی آیت قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ بھی اس کی دلیل اور شاہد عدل ہے۔





حدیث نمبر 2

عَنْ زِرٍّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِي الله عَنهُ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهِدَ النَّبِيُّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ: «أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ»

ترجمہ:

زر بن حبیش سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جو دانے کو پھاڑ کر پودا نکالتا ہے اور جس نے جانداروں کو پیدا فرمایا، نبی اُمّی ﷺ نے خصوصیت سے مجھ سے فرمایا تھا کہ مجھ سے وہی بندہ محبت کرے گا جو مومن صادق ہو گا اور وہی شخص مجھ سے بغض و عداوت رکھے گا جو منافق ہو گا۔

[صحیح مسلم:33(78) جامع الترمذي:3736، سنن ابن ماجه:114، سنن النسائى الصغرى:5021+5025]


تشریح:

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ وارضاہ کو جن عظیم انعامات اور دینی فضائل سے نوازا، مثلاً یہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں ہیں، اور یہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے اور وہ ان سے محبت فرماتے تھے اور یہ کہ آپ ﷺ نے صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ زہرا ؓ کو ان کے نکاح میں دے کر دامادی کا شرف عطا فرمایا اور اکثر غزوات میں وہ حضور ﷺ کے ساتھ رہے اور بار بار میدان جہاد و قتال میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر کارہائے نمایاں انجام دئیے اور جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا غزوہ خیبر میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشاد و عمل سے یہ ظاہر فرمایا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے محب اور محبوب ہیں .... الغرض ان اور ان جیسے ان کے دوسرے فضائل اور خداوندی انعامات کا یہ حق ہے کہ ہر مومن صادق ان سے محبت کرے اور ان سے بغض و کینہ رکھنے والوں کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ ایمان کی حقیقت سے محروم اور نفاق کے مریض ہیں۔ البتہ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ محبت سے مراد وہی محبت ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک معتبر اور شریعت کے حدود میں ہو، ورنہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں میں سب سے پہلا نمبر ان بدبختوں کا ہے، جنہوں نے ان کو خدا مانا، یا پھر ان بدنصیبوں کا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ نبوت کے اصل مستحق حضرت علی مرتضیٰؓ تھے، اللہ نے جبرئیل کو انہیں کے پاس بھیجا تھا وہ غلطی سے محمد بن عبداللہ کے پاس پہنچ گئے، اسی طرح شیعوں کے اسماعیلیہ و نصیریہ وغیرہ فرقے جو اپنے اماموں کے بارے میں یہ مشرکانہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خدا کا روپ ہیں اور خداوندی صفات و اختیارات ان کو حاصل ہیں۔ اسی طرھ وہ شیعہ اثنا عشریہ جو حضرت علی مرتضیٰ اور ان کی اولاد میں گیارہ شخصیتوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبیوں رسولوں کی طرح نامزد امام معصوم مفترض الطاعۃ، تمام انبیاي سابقین سے افضل کمالات میں ان سے فائق، صاحب وحی و کتاب و صاحب معجزات اور متصرف فی الکائنات ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں .... ظاہر ہے کہ یہ محبت ایسی ہی ہے جیسی محبت کا دعویٰ نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کرتے ہین، جس نے ان کو مشرک اور جہنمی بنا دیا ..... الغرض حضرت علی مرتضیٰ سے اس طرح کی محبت کرنے والے فرقے مشرک فی الالوہیت یا شرک فی النبوۃ ہیں، حضرت علی مرتضیٰ ؓ ان سے بری اور بیزار ہیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک کے نزدیک مقبول محبت وہی ہے جو حضرت علی مرتضیٰ اور ان کی اولاد بزرگان دین سے اہل السنہ والجماعت کو نصیب ہے۔ اس حدیث میں حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے بغض رکھنے والوں کو منافق فرمایا گیا ہے، اس کا خاص مصداق خوارج و نواصب ہیں، جنہوں نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ پر قرآنی ہدایت سے انحراف کا بہتان لگایا اور ان کو دینی حیثیت سے گمراہ قرار دیا اور انہیں میں کے ایک بدبخت عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت کو شہید بھی کیا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد خود صحابہ کرامؓ میں اختلافات پیدا ہوئے اور جمل وصفین کی جنگوں کی بھی نوبت آئی، یہ اختلافات کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے، صحابہ کرامؓ میں سے کوئی بھی حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو دینی حیثیت سے گمراہ سمجھ کر ان سے بغض نہیں رکھتا تھا یہ اجتہادی اختلاف تھا اور ہر فریق نے دوسرے فریق کو مومن و مسلم ہونے کا اظہار و اعلان فرمایا اور بعد میں اس جنگ و قتال پر فریقین کو رنج و افسوس اور اس سب کے بعد سیدنا حضرت حسن ؓ کی مصالحت نے ثابت کر دیا کہ جو کچھ ہوا بغض و عداوت کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اجتہادی اختلاف کی وجہ سے ہوا ..... رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسنؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا "ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ عَلَى يَدَيْهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ" (میرا یہ بیٹا عظیم المقام سردار ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں صلح کرا دے گا) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے تھے، کوئی گروہ بھی منافق نہیں تھا۔ آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صحیح مسلم شریف میں زر بن حبیش کی یہ حدیث ذکر کی گئی ہے اس سے پہلا متصلاً حضرت انسؓ، حضرت براء بن عازب، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مختلف سندوں سے حضور ﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے، اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ حضرت براء بن عازب کی حدیث کے الفاظ صحیح مسلم میں یہ ہیں، حضور ﷺ نے انصار کے بارے میں ارشاد فرمایا: «لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، مَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللهُ» ترجمہ: انصار سے صرف وہی شخص محبت کرے گا جو مومن صادق ہو گا اور وہی شخص بغض رکھے گا جو منافق ہو گا، جو انصار سے محبت کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرمائے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ اللہ کا مبغوض ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف اصحاب کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کی محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے ار بلاشبہ اس بارے میں حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو خصوصیت حاصل ہے، اللہ تعالیٰ اپنی، اپنے رسول پاک اور اپنے تمام محبین و محبوبین کی محبت ہم کو نصیب فرمائے۔








حدیث نمبر 3

عَنْ سَعْدِ بن أَبِىْ وَقَاصٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ، فَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، قَالَ: أَتُخَلِّفُنِي عَلَى الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: «أَلاَ تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ»

ترجمہ:

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اپنا خلیفہ بنا کر مدینہ میں چھوڑ دیا تو انہوں نے عرض کیا، کیا آپ ﷺ مجھ کو بچوں اور عورتوں پر خلیفہ (اور نگراں) بنا کر چھوڑ رہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کیا تم اس بات پر راضی اور خوش نہیں ہو کہ تمہارا مرتبہ اور درجہ میری نسبت سے وہ ہو جو ہارون کا مرتبہ و درجہ موسیٰ کی نسبت سے تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہو گا۔

[صحيح البخاري:4416+3706، صحيح مسلم:2404(6221+ 6220+ 6217+ 6218)، جامع الترمذي:3731، سنن ابن ماجه:121+ 115، مسندالحميدي:71، المعجم الصغير للطبراني:891+ 896]


تشریح:

غزوہ تبوک اور اس کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر حضرت عثمانؓ کے فضائل کے سلسلہ میں کیا جا چکا ہے، یہ حضور ﷺ کا آخری غزوہ تھا اور بعض پہلوؤں سے سب سے اہم غزوہ تھا جس میں روایات کے مطابق تیس ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر آپ ﷺ کے ساتھ تھا، مدینہ منورہ کے سب ہی اہل ایمان جو آپ ﷺ کے ساتھ جا سکتے تھے، لشکر میں شامل تھے، پس وہ منافقین جن کو ایمان کی حقیقت نصیب نہیں تھی جھوٹے بہانے کر کے لشکر میں شامل نہیں ہوئے تھے (مومنین صادقین میں سے بھی دو چار ایسے تھے ..... جو ساتھ چلنے کی نیت رکھنے کے باوجود ..... کسی وجہ سے ساتھ نہیں نہیں جا سکے تھے) ..... رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات، اور صاحبزادی سیدہ فاطمہ طاہرہؓ اور ان کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور لشکر میں جانے والے سب ہی صحابہ کرامؓ کے اہل و عیال مدینہ ہی میں چھوڑ دئیے گئے تھے ..... چونکہ سفر دور دراز کا تھا، اندازہ تھا کہ واپسی طویل مدت میں ہو سکے گی، اس لئے آپ ﷺ نے ضروری سمجھا کہ اس مدت کے لئے کسی کو اپنا نائب اور قائم مقام بنا کر مدینہ میں چھوڑ دیا جائے تا کہ خدا نہ کردہ اگر کوئی خارجی یا داخلی فتنہ برپا ہو تو اس کی قیادت میں اس سے مدینہ میں رہ جانے والوں کی اور دین کی حفاظت کی کاروائی کی جا سکے ..... اس کے لئے آپؓ نے حضرت علیؓ کو زیادہ مناسب سمجھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ آپؓ کے ساتھ نہ چلیں بلکہ مدینہ میں رہیں۔ روایات میں ہے کہ بعض بد باطن منافقین نے کہنا شروع کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے علیؓ کو اس لئے ساتھ نہیں لیا کہ ان کو اس کا اہل نہیں سمجھا، بس بچوں اور عورتوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا ..... حضرت علی مرتضیٰ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا "أَتُخَلِّفُنِي عَلَى الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ"؟ (کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں پر خلیفہ اور نگراں بنا کر چھوڑے جا رہے ہیں؟) حضور ﷺ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا "کیا تم اس پر راضی اور خوش نہیں ہو کہ تمہارا مرتبہ مجھ سے وہ ہو جو ہارون کا موسیٰ سے تھا" بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ میں یہ واقعہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو تورات عطا فرمانے کے لئے طور سینا پر طلب فرمایا (تا کہ وہاں چالیس دن تک گویا اعتکاف کریں اور عبادت و دعا و مناجات میں مشغول رہیں۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نزول قرآن سے پہلے غار حرا میں رہے تھے) تو موسیٰ علیہ السلام نے جاتے وقت اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر اپنی قوم بنی اسرائیل کی اصلاح و تربیت اور فتنوں سے حفاظت کا ذمہ دار بنا کر قوم کے ساتھ چھوڑ دیا تھا ..... تو رسول اللہ ﷺ نے اس واقعہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضرت علیؓ کو جواب دیا کہ میں تم کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر اسی طرح مدینہ میں چھوڑ رہا ہوں جس طرح اللہ کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام طور سینا جاتے وقت اپنی عدم موجودگی کے زمانے تک کے لئے ہارون کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر قوم میں چھوڑ گئے تھے ..... بلا شبہ حضرت علیؓ کی یہ بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانہ سفر کے لئے انہیں کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر مدینہ منورہ میں چھوڑا ..... اور واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قرابت قریبہ اور بعض دوسرے وجوہ سے بھی جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں اس کام کے لئے حضرت علیؓ ہی زیادہ موزوں تھے (یہ بھی ملحوظ رہے کہ شیخین اور دوسرے تمام ہی اکابر صحابہؓ لشکر میں حضور ﷺ کے ساتھ جانے والوں میں تھے اور حضور ﷺ اہم معاملات میں مشورہ کے لئے بھی ان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیعہ علماء و مصنفین غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے اس عمل اور اس ارشاد کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار حضرت علیؓ ہی تھے اور آپ ﷺ نے ان کو اپنی زندگی میں خلیفہ بنا کر اپنے بعد کے لئے خلافت کا مسئلہ بھی طے فرما دیا تھا .... ظاہر ہے کہ اس دلیل کی رکاکت اور غیر معقولیت سمجھنے کے لئے کسی خاص درجہ کی عقل و فہم کی ضرورت نہیں ..... سفر وغیرہ کی محدود مدت کے لئے عارضی طور پر کسی کو اپنا نائب اور قائم مقام بنانے میں اور رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے مستقل خلیفہ اور امت کی امامت عامہ میں جو فرق ہے اس کو ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ پھر اگر ایسا ہوا ہوتا کہ حضرت موسیٰؑ کے بعد ان کے خلیفہ اور ان کی جگہ امت کے امام عام حضرت ہارونؑ ہوئے ہوتے تب تو یہ واقعہ کسی درجہ میں دلیل ہو سکتا تھا ..... لیکن معلوم و مسلم ہے کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کی زندگی ہی میں روایات کے مطابق حضرت موسیٰ کی وفات سے چالیس سال پہلے وفات پا گئے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ یوشع ہوئے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے غزوہ تبوک کو جاتے وقت حضرت علی مرتضیٰؑ کو تو اپنی جگہ گویا مدینہ کا امیر و حاکم اور خلیفہ بنایا تھا لیکن مسجد نبوی میں اپنی جگہ نماز کی امامت کے لئے عبداللہ ابن مکتومؓ کو مقرر فرمایا تھا ..... حالانکہ حضرت علیؓ ہر حیثیت سے ان سے افضل تھے ..... راقم سطور کے نزدیک حضور ﷺ نے یہ اسی لئے کیا تھا کہ غزوہ تبوک کے زمانہ کی حضرت علیؓ کی اس خلافت و نیابت کو حضور ﷺ کی مستقل خلافت اور امامت عامہ کی دلیل نہ بنایا جا سکے۔ واللہ اعلم۔




حدیث نمبر 4

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ. 

ترجمہ:

حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: علی مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں اور وہ ہر ایمان والے کے ولی ہیں۔

[جامع الترمذي:3713]


تشریح:

صاحبِ مشکوٰۃ المصابیح نے جامع ترمذی کی اس روایت کا یہی آخری جز نقل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے، امام ترمذی نے وہ پورا واقعہ بھی نقل کیا ہے جس سلسلہ میں حضور ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا۔ واقعہ کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو امیر بنا کر ان کی سرکردگی میں ایک لشکر کسی مہم پر روانہ فرمایا، اللہ تعالیٰ کی مدد سے مہم کامیاب ہوئی اور فتح حاصل ہوئی، لیکن لشکر میں شامل بعض لوگوں نے حضرت علی مرتضیٰؓ کے اس سلسلہ کے ایک عمل کو صحیح نہیں سمجھا اور واپس آ کر ان لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق حضور ﷺ سے حضرت علیؓ کی شکایت کی آنحضرت ﷺ کو ان کی یہ بات سخت ناگوار ہوئی، کیوں کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں ان کی شکایت صحیح نہیں تھی غلط فہمی پر منبی تھی، اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے شکایت کرنے والوں پر ناگواری ظاہر فرمائی، اور حضرت علی مرتضیٰؓ پر اپنے اعتماد اور خصوصی قرابت و محبت کے خاص تعلق کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا "إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ..... " ہماری اردو زبان کے محاورہ میں اس کا حاصل یہ ہے کہ "علی میرے ہیں اورمیں علی کا ہوں" اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے ساتھ اپنی محبت اور خصوصی قرب و تعلق کا اظہار انہیں الفاظ کے ساتھ حضور ﷺ نے مختلف مواقع جپر فرمایا ہے، جیسا کہ آئندہ درج ہونے والی حدیث سے بھی معلوم ہو گا۔ ملحوظ رہے کہ حضور ﷺ نے بعض مواقع پر دوسرے بعض صحابہؓ کے ساتھ بھی اپنے خصوصی تعلق اور قرب و محبت کا انہیں الفاظ میں اظہار فرمایا ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ایک غزوہ میں شہید ہو جانے والے ایک صحابی حضرت جلیبیبؓ کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ" (1) (یعنی یہ جلیبیب مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں) ..... اسی طرح آپ نے ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے قبیلہ اشعریین کے ایک طرز عمل کا ذکر فرما کر کہ جب وہ جہاد کے سفروں میں جاتے ہیں یا مدینہ کے قیام ہی کے زمانہ میں کھانے پینے کا سامان ان میں سے کچھ لوگوں کے پاس کم ہو جاتا ہے تو جو کچھ جس کے پاس ہوتا ہے وہ سب ایک جگہ جمع کر لیتے ہیں اور آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں ان کے بارے میں ارشاد فرمایا "هُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ" (یعنی یہ اشعریین مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں) ظاہر ہے جیسا کہ عرض کیا گیا آنحضرت ﷺ کی طرف سے یہ ان اشعریین کے سات خصوصی محبت اور قرب و تعلق کا اظہار ہے، اس حدیث کو بھی امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ (1) حدیث کا آخری جملہ ہے "وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ"...... ولی کے معنی دوست، مدد گار اور سرپرست کے ہیں، قرآن مجید میں بھی یہ لفظ مختلف مقامات پر ان میں سے کسی ایک معنی میں اساستعمال ہوا ہے۔ زیر تشریح اس حدیث میں بظاہر یہ لفظ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب و مدعا یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان کو علیؓ کے ساتھ دوستی اور محبت ہی کا تعلق رکھنا چاہئے، میرے ساتھ ان کے خصوصی تعلق کا یہ بھی حق ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ پاک کی اور اپنے سب محبین اور محبوبین کی (جن میں بلا شبہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا بھی خاص مقام و مرتبہ ہے) محبت اس عاجز کو اور سب اہل ایمان کو نصیب فرمائے۔


حدیث نمبر 5

عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلاَ يُؤَدِّي عَنِّي إِلاَّ أَنَا أَوْ عَلِيٌّ.

ترجمہ:

حضرت حبشی بن جنادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: علی مجھ میں سے ہیں اور میں علی میں سے ہوں اور میری طرف سے (یہ اہم پیغام) خود میں پہنچا سکتا ہوں یا علی۔

[جامع الترمذي:3712]


تشریح:

حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے وہ صورت حال پیش نظر رکھنی ضروری ہے جس میں حضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا ..... ۸؁ھ میں فتح مکہ اور وہاں اسلامی اقتدار قائم ہو جانے کے بعد اگلے سال سورہ براءۃ نازل ہوئی، جس میں مشرکین و کفار کے بارے میں خاص اور اہم احکام ہیں مثلاً یہ کہ جو معاہدہ ان کے ساتھ کیا گیا تھا ان کی شرارتوں کی وجہ سے وہ فسخ کر دیا گیا اور یہ کہ اس سال کے بعد کسی مشرک و کافر کو مسجد حرام میں داخلہ کی اجازت نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور یہ ذمہ داری بھی ان کے سپرد ہوئی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حج کے موقع پر مختلف علاقوں سے آنے والے تمام کفار و مشرکین کو اللہ تعالیٰ کے وہ احکام پہنچا دیں جو سورہ براءۃ میں ان کے بارے میں نازل کئے گئے ہیں اور سورہ براءۃ کی وہ سب آیتیں بھی ان کو سنا دیں ..... صدیق اکبر ؓ حضور ﷺ کے حکم کی تعمیل میں حج کے لئے ساتھ جانے والوں کی جمیعت کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ بعد میں حضور ﷺ کو خیال آیا کہ عربوں کا یہ قانون اور ان کی یہ روایت رہی ہے کہ اگر کوئی معاہدہ کیا جائے یا کسی معاہدہ کو فسخ کیا جائے یا اس طرح کا کوئی بھی اہم معاملہ ہو تو وہ قبیلہ کا سردار یا سربراہ بذات خود کرے یا اس کے نائب اور قائم مقام کی حیثیت سے نسبی رشتے سے اس کا کوئی قریب ترین عزیز۔ اس کے بغیر وہ قابل قبول نہ ہو گا ..... تو آپ ﷺ نے ضروری سمجھا کہ آپ کی طرف سے ان اہم اعلانات کے لئے علی مرتضیٰؓ کو بھیجا جائے جو آپ ﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے چنانچہ آپ ﷺ نے ان کو اس کام کے لئے بعد میں مکہ معظمہ کے لئے روانہ فرمایا ..... اس موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا تھا: "عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلاَ يُؤَدِّي عَنِّي إِلاَّ أَنَا أَوْ عَلِيٌّ" الغرض اس ارشاد کے ذریعہ آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بعد حضرت علی مرتضیٰؓ کو اس کام کے لئے بھیجنے کی غرض و غایت بیان فرمائی۔ پھر جب حضرت علی مرتضیٰ جا کر صدیق اکبرؓ سے مل گئے تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ آپؓ امیر کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں یا مامور کی حیثیت سے، تو حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا، میں امیر کی حیثیت سے نہیں مامور کی حیثیت سے آیا ہوں، امیر آپ ہی ہیں اور میں خاص طور سے اس غرض سے بھیجا گیا ہوں۔ یہ جو کچھ ہوا من جانب اللہ ہوا، اگر آنحضرت ﷺ شروع ہی میں حضرت علی مرتضیٰؓ کو امیر حج کی حیثیت سے روانہ فرماتے تو اس سے غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ آنحضرت کے بعد آپ ﷺ کی خلافت کے اولین حق دار حضرت علی مرتضیٰؓ ہیں، امت کو اس غلط فہمی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک میں ڈالا گیا کہ امیر حج بنا کر ابو بکر صدیق ؓ کو روانہ کریں، بعد میں حضور کے قلب میں وہ بات ڈالی گئی جس کی وجہ سے حضور ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو بھیجنا ضروری سمجھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح امت میں رہنمائی فرمائی کہ حضور ﷺ کے بعد مسلمانوں کے امیر اور آپ کے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ہوں گے یہ بالکل اسی طرح ہوا جس طرح کہ آنحضرت ﷺ کے مرض وفات میں جب آپ ﷺ خود مسجد جا کر امامت کرنے سے معذور ہو گئے تو آپ ﷺ کے قلب مبارک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا کہ اپنی جگہ ابو بکر صدیقؓ کو نماز کا امام مقرر فرما دیں۔ ان ربنا لطيف لما يشاء .




حدیث نمبر 6

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: آخَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ آ کر) اپنے اصحاب میں مواخاۃ قائم فرمائی (یعنی صحابہؓ میں سے ہر ایک کو کسی دوسرے کا بھائی بنا دیا) تو حضرت علیؓ آئے (اس حال میں کہ رنج و غم سے) ان کی دونوں آنکھون سے آنسو جاری تھے اور عرض کیا کہ آپ نے اپنے تمام اصحاب کے درمیان مواخاۃ کا رشتہ قائم فرما دیا اور میرے اور کسی دوسرے کے درمیان آپ نے مواخاۃ قائم نہیں فرمائی (یعنی مجھے کسی کا اور میرا کسی کو بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

[جامع الترمذي:3720]


تشریح:

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام جب ہجرت فرما کر مدینہ آئے یہ آنے والے مہاجرین مختلف قبیلوں اور مختلف مقامات کے تھے، تو آنحضرت ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخاۃ کا نظام قائم فمایا یعنی دو دو صحابیوں کا ایک جوڑا بنا کر ان کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دے دیا تا کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں اور ضرورت میں حقیقی بھائی کی طرح کام آویں اور کسی کو تنہائی اور بے کسی کا احساس نہ ہو۔ مثلاً آپ نے حضرت ابو الدرداء انصاریؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا، جن کے درمیان پہلے سے نہ کوئی نسبی رشتہ تھا اور نہ ہم وطنی کا تعلق ..... اس طرح آپ ﷺ نے اپنے تمام اصحاب کے درمیان مواخاۃ کا رشتہ قائم فرما دیا، حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا کسی کے ساتھ یہ رشتہ قائم نہیں فرمایا وہ اکیلے ہی رہ گئے، اس سے رنجیدہ اور غمگین ہو کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ نے اپنے تمام اصحاب کے درمیان مواخاۃ کا رشتہ قائم فرمایا اور مجھے کسی کا اور کسی کو میرا بھائی نہیں بنایا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "انت اخى فى الدنيا والاخرة" (یعنی تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی) .... ظاہر ہے کہ حضرت مرتضیٰؓ کو یہ سن کر کیسی مسرت اور خوشی ہوئی ہو گی .... بلا شبہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو حضور ﷺ کے ساتھ جو قرابت نصیب تھی وہ صرف انہیں کا حصہ تھا جیسا کہ معلوم ہے کہ وہ حضور ﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے اور آپ کی دعوت پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں ہیں اور دامادی کے شرف سے بھی مشرف فرمائے گئے۔ ؓ وارضاہ۔




حدیث نمبر 7

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَيْرٌ فَقَالَ: اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي هَذَا الطَّيْرَ فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَكَلَ مَعَهُ.

ترجمہ:

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (کھانے کے لئے بھنا ہوا یا پکا ہوا) ایک پرندہ تھا تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ! تو میرے پاس بھیج دے ایسے بندے کو جو تیری مخلوق میں تجھ کو سب سے زیادہ محبوب اور پیارا ہو، جو اس پرندہ کے کھانے میں میرے ساتھ شریک ہو جائے، تو آ گئے علی مرتضیٰ ؓ چنانچہ آپ ﷺ کے ساتھ اس پرندہ کے کھانے میں شریک ہو گئے۔

[جامع الترمذي:3721]


تشریح

اس حدیث سے شیعہ صاحبان استدلال کرتے ہیں کہ حضرت علی مرتضیٰؓ اللہ کی ساری مخلوق سے جس میں شیخین بھی شامل ہیں افضل اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب اور پیارے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کی مخلوق میں رسول اللہ ﷺ بھی شامل ہیں اگر حدیث سے یہ نتیجہ نکالا جائے گا تو لازم آ جائے گا کہ ان کو شیخین ہی سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ سے بھی افضل اور للہ کا زیادہ محبوب اور پیارا مانا جائے۔ اس بنا پر شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! تو کسی ایسے بندے کو بھیج دے جو تیرے محبوب ترین بندوں میں سے ہو اور یقیناً حضرت علی مرتضیٰ ؓ اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندوں میں سے ہیں۔ اس حدیث کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ ابن الجوزیؒ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا لیکن یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔


حدیث نمبر 8

عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا دَارُ الحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا.

ترجمہ:

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

[جامع الترمذي:3723]


تشریح:

معلوم ہوا کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ صغر سنی ہی میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر اسلام لائے اور اس کے بعد برابر آپ ﷺ کی تربیت اور صحبت میں رہے اس لئے آپ ﷺ کی تعلیم سے استفادہ میں ان کو ایک درجہ خصوصیت حاصل ہے۔ اسی بنا پر حضور ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا "أَنَا دَارُ الحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا" (میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں) لیکن اس سے یہ سمجھنا اور یہ نتیجہ نکالنا بس حضرت علیؓ ہی حضور ﷺ کے ذریعہ آئے ہوئے علم و حکمت کے حامل و وارث تھے اور ان ہی کے ذریعہ اس کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور ان کے سوا کسی دوسرے سے حضور ﷺ کے لائے ہوئے علم و حکمت کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انتہائی درجہ کی نافہمی ہے، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اُمیین میں اپنا رسول بنا کر بھیجا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور کتاب اللہ اور حکمت کی ان کو تعلیم دیتے ہیں قرآن مجید کی یہ آیتیں بتلاتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کتاب و حکمت کی تعلیم اپنے اپنے ظرف اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق تمام صحابہ کرامؓ نے پائی، لہذا یہ سبھی حضور ﷺ کے ذریعہ آئے ہوئے علم و حکمت کا ذریعہ اور دروازہ ہیں۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی دعوت پر حضرت علی مرتضیٰ ؓ جب اسلام لائے تو جیسا کہ ل کھا جا چکا ہے کہ وہ صغیر السن تھے ان کی عمر مشہور روایات کے مطابق صرف آٹھ یا دس سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم سے استفادہ کی وہی استعداد اور صلاحیت اس وقت ان کو حاصل تھی جو فطری طور پر اس عمر میں ہونا چاہئے لیکن صدیق اکبر ؓ نے اسی دن جب حضور ﷺ کی دعوت پر اسلام قبول کیا تو ان کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی اور فطری طور پر ان کو استفادہ کی وہ کامل استعداد اور صلاحیت حاصل تھی جو اس عمر میں ہونی چاہئے اس لئے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے آئے ہوئے علم و حکمت میں ان کا حصہ دوسرے تمام صحابہ کرامؓ سے مجموعی طور پر زیادہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض وفات میں ان کو اپنی جگہ نماز کا امام مقرر فرمایا یہ بھی حضور ﷺ کی طرف سے حضرت صدیق اکبرؓ کے اعلم بالکتاب والحکمۃ ہونے کی سند تھی پھر صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق ان کو آنحضرت ﷺ کا خلیفہ اور امت کا امام تسلیم کر کے عملی طور پا اس کا اعتراف کیا اور گویا اس حقیقت کی شہادت دی۔ نیز یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ مختلف صحابہ کرام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے علم دین کے مختلف شعبوں میں ان کے تخصص اور امتیاز کا کر فرمایا ہے، جیسا کہ ان شاء اللہ مناقب ہی کے سلسلہ میں آئندہ درج ہونے والی بعض احادیث سے معلوم ہو گا۔ پھر اس واقعی حقیقت میں کس کو شک و شبہ کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ حضرات تابعینؒ نے مختلف صحابہ کرام سے حضور ﷺ کا لایا ہوا علم حاصل کیا، جس کو اللہ تعالیٰ نے محدثین کے ذریعہ حدیث کی کتابوں میں محفوظ کرا دیا اور اسی سے قیامت تک امت کو رہنمائی ملتی رہے گی۔ ذالك تقدير العزيز العليم. یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابن الجوزیؒ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ ناقد محدثین نے زیر تشریح اس حدث "أَنَا دَارُ الحِكْمَةِ" کو موضوع قرار دیا ہے، خود امام ترمذیؒ نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے۔ "هذا حديث غريب منكر" بہرحال سند کے لحاظ سے یہ حدیث محدثین کے نزدیک غیر مقبول اور ناقابل استناد ہے۔


حدیث نمبر 9

عَنْ أُمُّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا فِيهِمْ عَلِيٌّ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْنِي حَتَّى تُرِيَنِي عَلِيًّا.

ترجمہ:

حضرت ام عطیہ انصاریہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر (کسی مہم پر روانہ فرمایا) جس میں علی بن ابی طالب ؓ بھی تھے، کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا، اس حال میں کہ آپ ﷺ (دعا کے لئے) ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک دنیا سے نہ اٹھا، تا آنکہ تو مجھے علی کو دکھا دے۔

[جامع الترمذي:3737]


تشریح:

حدیث کسی تشریح و توضیح کی محتاج نہیں، بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کو ان وجوہ سے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے، حضڑت علی مرتضیٰؓ کے ساتھ غایت درجہ کی محبت تھی ..... اسی کا مظہر حضور ﷺ کی یہ دعا بھی ہے۔


حدیث نمبر 10

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ.

ترجمہ:

حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے دونوں نواسوں) حسنؓ اور حسینؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے والد اور والدہ (علی مرتضیٰ اور سیدہ فاطمہ زہرا ؓ) سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن جنت میں میرے درجہ میں میرے ساتھ ہو گا۔

[جامع الترمذي:3733]


تشریح:

اسی سلسلہ معارف الحدیث (1) میں ناظرین صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے انس ؓ کی وہ حدیث پڑھ چکے ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا۔ متی الساعۃ؟ (قیامت کب آئے گی) آپ ن ے فرمایا۔ تم قیامت کے بارے میں پوچھتے ہو، تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کیا میں نے قیامت کے لئے اس کے سوا کوئی خاص تیاری نہیں کی ہے کہ مجھے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا "انت مع من احببت" مطلب یہ کہ تم اطمینان رکھو، آخرت میں تم ان کے ساتھ کر دئیے جاؤ گے جن سے تمہیں محبت ہے یعنی جب تم کو مجھے سے محبت ہے تو تم میرے ساتھ کر دئیے جاؤ گے ..... اس حدیث کے راوی حضرت انس ؓ، نے بیان فرمایا کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد سن کر تمام صحابہؓ ایسے خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے بعد انہیں کبھی ایسی خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ آگے حضرت انس ؓ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں۔ «فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ» ترجمہ: پس میرا حال یہ ہے کہ میں محبت رکھتا ہوں رسول اللہ ﷺ سے اور ابو بکرؓ و عمرؓ سے اور امید رکھتا ہوں کہ اپنی اس محبت ہی کی وجہ سے آخرت میں مجھے ان حضرات کا ساتھ نصیب ہو گا۔ الغرض یہ اللہ تعالیٰ کا قانون رحمت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اور آپ ﷺ کے محبوبین سے محبت کرنے والے آخرت میں آپ ﷺ کے ساتھ کر دئیے جائیں گے (اور بلاشبہ حضرات حسنینؓ اور ان کی والدہ ماجدہ حضور ﷺ کی لخت جگر سیدہ فاطمہ زہراؓ اور ان کے محترم شوہر اور آپ ﷺ کے عزیز بھائی حضرت علیؓ کا آپ ﷺ کے محبوبین میں خاص مقام ہے) پس جن خوش نصیب اہل ایمان کو محبوب رب العالمین سیدا محمد ﷺ کے ساتھ اور آپ ﷺ کے ان محبوبین کے ساتھ محبت ہو گی۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے اس قانون رھمت کے مطابق آخرت اور جنت میں حضرت ﷺ کی معیت نصیب ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اس عاجر (راقم سطور) کو اور قارئین کو اپنی اور اپنے محبوب سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے محبوبین کی محبت نصیب فرمائے۔


حدیث نمبر 11

عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كُنْتُ شَاكِيًا فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَجَلِي قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِي، وَإِنْ كَانَ مُتَأَخِّرًا فَارْفَعْنِي، وَإِنْ كَانَ بَلاَءً فَصَبِّرْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَأَعَادَ عَلَيْهِ مَا قَالَ، قَالَ: فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ فَقَالَ: اللَّهُمَّ عَافِهِ، (شَكَّ الرَّاوِىْ) أَوْ اشْفِهِ، شُعْبَةُ الشَّاكُّ، فَمَا اشْتَكَيْتُ وَجَعِي بَعْدُ.

ترجمہ:

حضرت علی ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہو گیا تھا (اور مجھے سخت تکلیف تھی) تو رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گذرے اور میں اللہ سے یہ دعا کر رہا تھا اے اللہ، اگر میری موت کا وقت قریب آ گیا تو مجھ کو راحت عطا فرما دے (یعنی موت دے کر اس تکلیف سے نجات دے دے) اور اگر میری موت دیر سے آنے والی ہے تو مجھے فراخی کی زندگی عطا فرما اور اگر یہ (بیماری اور تکلیف تیری طرف سے) امتحان اور آزمائش ہے تو مجھ کو صبر کی توفیق عطا فرما۔ (کہ بےصبری اور تکلیف کا اظہار نہ کروں) تو رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر مجھ سے) فرمایا، تم نے یہ کیا کہا؟ تو (جو میں نے بطور دعا کے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا وہ) میں نے آپ کے سامنے دہرایا تو آپ نے اپنا قدم مبارک مارا اور دعا فرمائی۔ اللَّهُمَّ عَافِهِ، اے اللہ اس کو عافیت عطا فرما دے! (راوی کو شک ہے کہ آپ نے فرمایا) اللَّهُمَّ اشْفِهِ، (اے اللہ اس کو شفا عطا فرما دے) حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی وہ تکلیف نہیں ہوئی۔

[جامع الترمذي:3564،سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 307 (1058)]


تشریح:

حدیث کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ بلاشبہ یہ آنحضرت ﷺ کا معجزہ تھا۔


حدیث نمبر 12

عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «لَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لارْبُطُ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الجُوعِ، وَإِنَّ مَالِىْ لِتَبْلُغُ اَرْبَعِيْنَ اَلْفَ دِيْنَارٍ»

ترجمہ:

حضرت علی ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ: میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس حالت میں دیکھا ہے کہ بھوک کی وجہ سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا (اور اب بفضلہ تعالیٰ میری یہ حالت ہے کہ) میرے مال کی زکوٰۃ چالیس ہزار اشرفیاں ہوتی ہیں۔

[مسند احمد:1368]


تشریح:

اسی سلسلہ معارف الحدیث (1) میں کتاب الرقاق میں وہ حدیثیں درج کی جا چکی ہیں جن میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے فقر و فاقہ کی زندگی پسند فرمائی اور اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کی تھی کئی کئی دن آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے اہل و عیال پر ایسے گذر جاتے تھے کہ کچھ بھی کھانے کی نوبت نہ آتی تھی، ایسے دنوں میں کبھی کبھی آپ ﷺ شدت ضعف سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے جس سے ضعف میں کمی آ جاتی تھی ..... آپ ﷺ کے خاص متعلقین میں حضرت علیؓ بھی تھے، ان کو بھی کبھی ایسا کرنا پڑتا تھا۔ اس حدیث میں انہوں نے اسی وقت کا حوالہ دے کر فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ فاقہ کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ مجھے بھی پیٹ پر پتھر باندھنا پڑ جاتا تھا اور اب بفضل خداوندی میرے پاس اتنی دولت ہے کہ چالیس ہزار اشرفیاں اس کی زکوٰۃ ہوتی ہیں۔ حضور ﷺ کے طریقہ پر فقر و فاقہ کی زندگی پسند کرنا بلاشبہ سعادت اور بہت بڑی فضیلت ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو جائز اور حلال طریقہ سے دولت عطا فرمائے اور وہ اللہ کے شکر کے ساتھ دولت کا حق ادا کرے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعام کی ایک خاص صورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس مضمون کے ارشادات بھی معارف الحدیث (1) کے اسی سلسلے میں ذکر کئے جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو آنحضرت ﷺ کے طریقہ پر فقر و فاقہ کی زندگی کی سعادت بھی عطا فرمائی اور بعد میں دولت اور اس کا حق ادا کرنے کی نعمت سے بھی نوازا۔ ما احسن الدين والدنيا لو اجتمعا۔


حدیث نمبر 13

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَزَيْدِ بْنِ اَرْقَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ بِغَدِيرِ خُمٍّ، أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى لِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ «لَهُ هَنِيئًا يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، وَمُؤْمِنَةٍ»

ترجمہ:

حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے غدیر خم پر نزول اور قیام فرمایا تو آپ ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا ہاتھ پکڑ کر (عام حاضرین و رفقاء سفر سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا کہ "أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ" (کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میں مسلمانوں کا ان کے نفسوں اور ان کی جانوں سے بھی زیادہ دوست اور محبوب ہوں) سب نے عرض کیا کیوں نہیں ہاں! بےشک ایسا ہی ہے (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا "أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ" (کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مسلمان کا اس کے نفس اور اس کی جان سے زیادہ دوست اور محبوب ہوں)سب نے عرض کیا کیوں نہیں ہاں! بےشک ایسا ہی ہے (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا "اَللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" (اے اللہ! میں جس کا دوست ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست ہیں، اے اللہ جو علیؓ سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی فرما اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما) اس کے بعد حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ سے ملے اور (ان کو مبارک باد دیتے ہوئے) فرمایا کہ تمہیں مبارک اور خوشگوار ہو اے ابن ابی طالب! کہ تم ہر صبح اور ہر شام (یعنی ہر وقت) ہر مومن اور مومنہ کے دوست اور محبوب ہو گئے۔

[مسند احمد:18502، فضائل الصحابة لأحمد ابن حنبل:1016]


تشریح:

یہ واقعہ جس کا ذخر اس روایت میں کیا گیا، حجۃ الوداع کے سفر سے واپسی کا ہے "غدیر" کے معنی تالاب کے ہیں اور خم ایک مقام کا نام ہے جس کے قریب یہ تالاب تھا، یہ مقام مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے مشہور بستی "الجحفہ" سئ تین چار میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔ آنحضرت ﷺ حجۃ الوداع سے واپس ہوتے ہوئے اپنے فرقاء سفر کے پورے قافلہ کے ساتھ جس میں مدینہ منورہ اور قرب و جوار کے تمام ہی وہ صحابہ کرامؓ تھے جو اس مبارک سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھے، ۱۸؍ ذی الحجہ کو اس مقام پر پہنچے تھے، اور قیام فرمایا تھا، یہاں آپ ﷺ نے ان رفقاء سفر کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ سے متعلق حدیث کی کتابوں میں جو روایات ہیں۔ ان سے کو جمع کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس خطاب میں کچھ اہم باتیں ارشاد فرمائی تھی جن میں سے ایک بات حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے بارے میں وہ بھی تھی جو اس روایت میں ذکر کی گئی ہے۔ یہ بات آپ ﷺ نے ایک تمہید کے ساتھ خاص اہمیت سے بیان فرمائی۔ سورہ احزاب کے آیت نمبر ۶ میں ارشاد فرمایا گیا ہے: "النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ" اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر سب سے زیادہ محبت و خیرخواہی اپنے نفس اور اپنی عزیز جان کے ساتھ ہوتی ہے، ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کا حق ہے کہ اہل ایمان اپنے نفس اور اپنی جان عزیز سے بھی زیادہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت رکھیں۔ قرآن پاک کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور ﷺ نے حاضرین سے فرمایا کہ کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ میں سب ایمان والوں کی دوستی اور محبت کا ان کے نفسوں اور ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق دار ہوں۔ سب حاضرین نے بیک زبان عرض کیا کہ ہاں! بےشک ایسا ہی ہے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ "کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ ہر مومن کو اپنے نفس اور اپنی عزیز جان سے جو محبت اور تعلق ہے اس سے زیادہ محبت اور تعلق اس کو میرے ساتھ ہونا چاہئے۔ سب حاضرین نے عرض کیا کہ ہاں بےشک ایسا ہی ہے، آپ ﷺ کا ھق ہم میں سے ہر ایک پر یہ ہے کہ اپنے نفس اور اپنی جان عزیزسے بھی زیادہ محبت آپ ﷺ کے ساتھ ہو ..... اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا۔ «اَللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» اے اللہ (تو گواہ رہ کہ) میں جس کا دوست اور محبوب ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست اور محبوب ہیں، تو اے اللہ! میری تجھ سے دعا ہے کہ جو علیؓ سے محبت رکھے تو اس سے محبت کا معاملہ فرما اور جو اس سے عداوت رکھے تو اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما ..... حضور ﷺ کے اس خطاب کے بعد حضرت عمرؓ، حضرت علی مرتضیٰؓ سے ملے اور مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا اے ابن ابی طالب! تم کو مبارک اور خوشگوار ہو کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر ایمان والے اور ہر ایمان والی کے تم محبوب ہو گئے، ہر ایک تم سے ہمیشہ محبت کا تعلق رکھے گا۔ یہاں تک صرف حدیث کے مضمون کی تشریح کی گئ، اس موقع پر راقم سطور ناظرین کو یہ بتلانا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ شیعہ علماء و مصنفین اس حدیث کو اپنے اس عقیدہ اور دعوے کی مضبوط ترین اور سب سے زیادہ وزنی دلیل کے طور پر پیش کرے ہیں غدیر خم کے س خطاب میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد کے لئے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ و جانشین اور امت کا امام و حاکم بنا دیا تھا اور اس خطاب کا خاص مقصد یہی تھا، وہ کہتے ہیں کہ مولیٰ کے معنی آقا، مالک اور حاکم کے ہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میں جن لوگوں کا آقا اور حاکم ہوں۔ علیؓ ان سب کے آقا اور حاکم ہیں، پس یہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت اور امت پر ان کی حاکمیت کا اعلان تھا ..... ان شاء اللہ آئندہ سطور سے ناظرین کرام کو معلوم ہو جائے گا کہ شیعہ علماء کا یہ دعویٰ اور ان کی یہ دلیل کس قدر لچر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں بہت سے الفاظ ایسے جو بیس بیس یا اس سے بھی زیادہ معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ لفظ مولیٰ بھی انہیں الفاظ میں سے ہے۔ عربی لغت کی مشہور و مستند ترین کتاب "القاموس المحیط" میں اس لفظ مولیٰ کے مندرجہ ذیل ۲۱ معنی لکھے ہیں۔ المولى: (1) المالك(2) والعبد(3) والعتق(4) والمعتق(5) والصاحب(6) والقريب كابن العم ونحوه(7) والجار(8) والحليف(9) والابن(10) والعم(11) والنزيل(12) والشريك(13) وابن الاخت(14) والولى(15) والرب(16) والناصر(17) والمنعم(18) والمنعم عليه(19) والمحب(20) والتابع(21) والصهر (1) (ان تمام الفاظ کا ترجمہ مصباح اللغات کی عبارت میں ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں گے جو آگے نقل کی جا رہی ہے) اور عربی لغت کی دوسری مستند و معروف کتاب "اقرب الموارد" میں بھی لفظ مولیٰ کے یہی سب معنی لکھے گئے ہیں۔ (2) لغت حدیث کی مشہور و مستند ترین کتاب "النهاية لابن الاثير الجزري فى غريب الحديث والاثر" میں بھی قریبا یہ سب معنی لکھے گئے ہیں، علامہ طاہر پٹنی نے مجمع بحار الانوار میں نہایہ ہی کے حوالہ سے اس کی پوری عبارت نقل کر دی ہے۔ (3) مصباح اللغات جس میں عربی الفاظ کے معنی اردو زبان میں لکھے گئے ہیں، اس میں قریب قریب ان سب الفاظ کا ترجمہ آ گیا ہے جو "القاموس المحیط" اور "اقرب الموارد" وغیرہ مندرجہ بالا کتابوں میں لکھے گئے ہیں، ہم اس کی عبارت بعینہٖ ذیل میں درج کرتے ہیں۔ المولی = مالک و سردار، غلام آزاد کرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا جس کو انعام دیا جائے، محبت کرنے والا، ساتھی۔ حلیف پڑوسی، مہمان، شریک، بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، چچا، داماد، رشدہ دار، والی، تابع۔ (4) معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن پاک کی کسی آیت یا حضور ﷺ کے کسی ارشاد میں یا کسی بھی فصیح و بلیغ کلام میں جب کوئی کثیر المعنی لفظ استعمال ہو تو خود اس میں یا اس کے سیاق و سباق میں ایسا قرینہ موجود ہوتا ہے جو اس لفظ کے معنی اور اس کی مراد متعین کر دیتا ہے .... اس زیر تشریح حدیث میں خود قرینہ موجود ہے، جس سے اس حدیث کے لفظ مولیٰ کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، حدیث کا آخری دعائیہ جملہ ہے "اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" (اے اللہ جو علی سے دوستی اور محبت رکھے تو اس سے دوستی اور محبت فرما، اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما)۔ اس سے متعین طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث میں لفظ مولیٰ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا مطلب وہی ہے جو اوپر تشریح میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اس بات کی روشن اور قطعی دلیل ہے کہ غدیر خم کے ہزاروں صحابہ کرام کے اس مجمع میں کسی فرد نے، خود حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان کے قریب ترین حضرات نے بھی حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں سمجھا تھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے بعد کے لئے ان کی خلافت و حاکمیت اور امت کی امامت عامہ کا اعلان فرما رہے ہیں، اگر خود حضرت علی مرتضیٰؓ نے اور ان کے علاوہ جس نے بھی ایسا سمجھا ہوتا، تو ان کا فرض تھا کہ جس وقت خلافت کا مسئلہ طے ہو رہا تھا تو یہ لوگ کہتے کہ ابھی صرف ستر (۷۰) بہتر (۷۲) دن پہلے غدیر خم کے موقعہ پر حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنا دیا تھا اور اہتمام سے اس کا اعلان فرمایا تھا الغرض یہ مسئلہ خود حضور ﷺ طے فرما گئے ہیں اور حضرت علیؓ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ نامزد فرما گئے ہیں، اب وہی حضور ﷺ کے خلیفہ اور آپ ﷺ کی جگہ امت کے حکمران اور سربراہ ہیں .... لیکن معلوم ہے کہ نہ حضرت علیؓ نے یہ بات کہی اور نہ کسی اور نے، سبھی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آنحضرت ﷺ کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کر کے بیعت کر لی۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر شیعہ علماء کی یہ بات مان لی جائے کہ حضور ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" فرما کر حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت و جانشینی صاف صاف اعلان فرمایا تھا تو معاذ اللہ حضرت علی ؓ سب سے بڑے مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی وصال کے بعد اس کی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیوں نہیں فرمایا؟ ان کا فرض تھا کہ حضور ﷺ کی اس تجویز کی تنقید اور اس فرمان و اعلان کو عمل میں لانے کے لئے میدان میں آتے اگر کوئی خطرہ تھا تو اس کا مقابلہ فرماتے۔ یہی بات حضرت حسن ؓ کے پوتے حسن مثلث نے اس شخص کے جواب میں فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں رافضیوں والا غالیانہ عقیدہ رکھتا تھا اور حضور ﷺ کے ارشاد من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا تھا، تو حضرت حسن مثلث نے اس شخص سے فرمایا تھا۔ ولو كان الامر كما تقولون ان الله جل وعلى ورسوله صلى الله عليه وسلم اختار عليا لهذا الامر والقيام على الناس بعده فان عليا اعظم الناس خطيئة وجر ما اذ ترك امر رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ (1) ترجمہ: اگر بات وہ ہو جو تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علیؓ کو رسول کے بعد خلافت کے لئے منتخب اور نامزد فرما دیا تھا تو علیؓ سب سے زیادہ خطاکار اور مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اور جب اس شخص نے حضرت حسن مثلث سے یہ بات سن کر اپنے عقیدہ کی دلیل میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا حوالہ دیا تو حضرت حسن مثلث نے فرمایا۔ اما و الله لو يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم بذالك الامر و السلطان و القيام على الناس لا فصح به كما افصح بالصلاة و الزكاة و الصيام و الحج ولقال ايها الناس ان هذا الولي بعدي اسمعوا واطيعوا. (1) تشریح: سن لو! میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا مقصد علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ اور حاکم بنانا ہوتا تو بات آپ ﷺ اسی طرح صراحت اور وضاحت سے فرماتے جس طرح آپ ﷺ نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور حج کے بارے میں صراحت اور وضاحت سے فرمایا ہے اور صاف صاف یوں فرماتے کہ اے لوگو! یہ علی میرے بعد ولی الامر اور حاکم ہوں گے لہٰذا تم ان کی بات سننا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔ اس کے بعد یہ بات وضاھت طلب رہ جاتی ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں اس خطاب میں آپ ﷺ نے یہ بات کس خاص وجہ سے اور کس غرض سے فرمائی۔ واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قریبا تین سو افراد کی جمیعت کے ساتھ یمن بھیج دیا تھا، وہ حجۃ الوداع میں یمن سے مکہ مکرمہ آ کر ہی رسول اللہ ﷺ سے ملے تھے، یمن کے زمانہ قیام میں ان کے چند ساتھیوں کو ان کے بعض اقدامات سے اختلاف ہوا تھا، وہ لوگ بھی حجۃ الوداع میں شرکت کے لئے ان کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ آئے تھے، یہاں آ کر ان میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی اپنے احساس و خیال کے مطابق حضرت علیؓ کی شکایت کی (2) اور دوسرے لوگوں نے بھی ذکر کر دیا ..... بلا شبہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آنحضرت ﷺ سے جن لوگوں نے شکایت کی، حضور ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا عنداللہ اور دین میں جو مقام و مرتبہ ہ ان کو بتلا کر اور ان کے اقدامات کی تصویب اور توثیق فرما کر ان کے خیالات کی اصلاح فرما دی، لیکن بات دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ چکی تھی، شیطان ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں کدورت اور افتراق پیدا کر دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ضرورت محسوس فرمائی کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبوبیت اور مقبولیت کا جو مقام حاصل ہے اس سے عام لوگوں کو آگاہ فرما دیں اور اس کے اظہار و اعلان کا اہتمام فرمائیں .... اسی مقصد سے آپ ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں جس کے لئے آپ ﷺ نے اپنے تمام رفقاء سفر صحابہ کرامؓ کو جمع فرما دیا تھا، خاص اہتمام سے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا تھا۔ "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" جیسا کہ تفصیل سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میں جس کا محبوب ہوں یہ علیؓ بھی اس کے محبوب ہیں لہذا جو مجھ سے محبت کرے اس کو چاہئے وہ ان علی سے بھی محبت کرے، آگے آپ ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ جو بندہ علی سے محبت و موالاۃ کا تعلق رکھے اس سے تو محبت و موالاۃ کا معاملہ فرما اور جو کوئی علی سے عداوت رکھے اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا یہ دعائیہ جملہ اس کا واضح قرینہ ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ محبوب ہے اور دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ..... الخ" کا مسئلہ امامت و خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔ امید ہے کہ یہاں تک جو کچھ اس مسئلہ کے بارے میں عرض کیا گیا وہ ہر صاحب ایمان سلیم القلب کے لئے ان شاء اللہ کافی و شافی ہو گا۔ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ



حدیث نمبر 14

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ قَاضِيًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تُرْسِلُنِي وَأَنَا حَدِيثُ السِّنِّ، وَلَا عِلْمَ لِي بِالْقَضَاءِ، فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ سَيَهْدِي قَلْبَكَ، وَيُثَبِّتُ لِسَانَكَ، فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْكَ الْخَصْمَانِ، فَلَا تَقْضِيَنَّ حَتَّى تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ، كَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأَوَّلِ، فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يَتَبَيَّنَ لَكَ الْقَضَاءُ»، قَالَ: «فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا، أَوْ مَا شَكَكْتُ فِي قَضَاءٍ بَعْدُ»

ترجمہ:

حضرت علی ؓ سے روایت ہے فرمایا کہ: رسول اللہ ﷺ نے مجھے قاضی بنا کر یمن بھیجا (یعنی بھیجنے کا فیصلہ فرمایا) تو میں نے رض کیا کہ اے رسول خدا! آپ مجھے قاضی بنا کر بھیج رہے ہیں اور میں نو عمر ہوں اور مجھے قضاء کا (یعنی نزاعات اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کا کما حقہ) علم نہیں ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قلب کی رہنمائی فرمائے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا (یعنی دل میں وہی ڈالے گا اور زبان سے وہی کہلوائے گا جو صحیح اور حق ہو گا) جب تمہارے پاس دو آدمی کسی نزاعی معاملہ کا فیصلہ کروانے کے لئے آئیں تو تم (معاملہ کو) پہلے پیش کرنے والے کے حق میں فیصلہ نہ کر دینا یہاں تک کہ دوسرے فریق کی بات سن لو، یہ طریقہ تم کو فیصلہ کرنے میں زیادہ کارآمد ہو گا۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ (حضور ﷺ کی اس تعلیم اور دعا کے) بعد مجھے کسی قضیہ کا فیصلہ کرنے کے بارے میں شکو شبہ بھی پیدا نہیں ہوا۔

[جامع ترمذی:1331، سنن ابی داؤد:3582، سنن ابن ماجہ:2310 ]


تشریح:

متن حدیث کی ضروری تشریح ترجمہ میں کر دی گئی ہے البتہ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس واقعہ کی روایت حدیث کی مختلف راویوں سے کی گئی ہے جن میں سے بعض میں کچھ اضافے ہیں، اب سب روایتوں کو سامنے رکھنے کے بعد پورا واقعہ سامنے آ جاتا ہے۔ کنز العمال میں ابن جریر کے حوالے سے واقعہ اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ: "یمن کے کچھ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ ہمارے یہاں کسی ایسے صاحب کو بھیج دئیے جو ہمیں دین سکھائیں اور شریعت کی تعلیم دیں، اور ہمارے نزاعات اور قضیوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کریں۔ تو حضور ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم اس کے لئے یمن چلے جاؤ حضرت علیؓ کا بیان ہے میں نے عرض کیا ہو سکتا ہے کہ وہاں کے لوگ میرے پاس ایسے مقدمات اور ایسے قضیے لے کر آئیں جن کے بارے میں مجھ کو علم نہ ہو تو حضور ﷺ نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا "إِذْهَبْ إِنَّ اللَّهَ سَيَهْدِي قَلْبَكَ، وَيُثَبِّتُ لِسَانَكَ" (جاؤ اللہ تعالیٰ تمہارے قلب کی رہنمائی فرمائے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا) آگے حضرت علیؓ نے بیان کیا کہ اس کے بعد سے اب تک مجھے کسی قضیہ کا فیصلہ کرنے میں کوئی شک و شبہ پیش نہیں آیا" ْ۔ (1) کنز العمال ہی میں مستدرک حاکم، ابن سعد، مسند احمد، ابن جریر وغیرہ کے حوالہ سے اسی واقعہ کی ایک اور روایت حضرت علیؓ ہی سے کی گئی ہے، اس میں ہے کہ: "جب میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ میں نو عمر ہوں اور مجھے نزاعات اور مقدمات کا فیصلہ کرنے میں کوئی خاص بصیرت حاصل نہیں ہے تو آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا اور دعا فرمائی۔ "اللَّهُمَّ ثَبِّتْ لِسَانَهُ، وَاهْدِ قَلْبَهُ" (اے اللہ تو اس کی زبان کو ثابت رکھ اور اس کے قلب کو ہدایت عطا فرما)۔ آخر میں حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ "فَمَا أَشْكَلَ عَلَيَّ قَضَاءٌ بَعْدُ" (تو حضور ﷺ کی اس دعا کے بعد میرے لئے کسی قضیہ کا فیصلہ نہیں ہوا)۔ (2) اس عاجز (راقم سطور) کا خیال ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علیؓ کے سینہ پر دست مبارک رکھا اور وہ دعا فرمائی جو روایت میں ذکر کی گئی ہے اور ساتھ ہی آپ ﷺ کو یقین ہو گیا کہ یہ دعا قبول فرما لی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ "إِنَّ اللَّهَ سَيَهْدِي قَلْبَكَ، وَيٌثَبِّتُ لِسَانَكَ" "سَيَهْدِي" میں "س" یقین کے اظہار کے لئے ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے، انہوں نے اپنی قوم سے کہا: "كلا انى معى ربى سيهدين" یہ حقیقت امت کے مسلمات میں سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت علی مرتضیٰ کو نزاعات اور خصوصیات کے فیصلہ کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا اور اس بارے میں آپ کو تخصص اور امتیاز کا مقام حاصل تھا .... اور بلاشبہ یہ ان کی ایک بڑی فضیلت ہے اور ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ کا معجزہ بھی ہے۔


حدیث نمبر 15

عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِيكَ مَثَلٌ مِنْ عِيسَى أَبْغَضَتْهُ الْيَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وَأَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ مَنْزِلَتَهُ الَّتِي لَيْسَ بِهِ» ثُمَّ قَالَ: «يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يُقَرِّظُنِي بِمَا لَيْسَ فِيَّ، وَمُبْغِضٌ يَحْمِلُهُ شَنَآنِي عَلَى أَنْ يَبْهَتَنِي»

ترجمہ:

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے علی! تم کو عیسیٰ ابن مریم سے خاص مشابہت ہے، یہودیوں نے ان کے ساتھ بغض و عداوت کا رویہ اختیار کیا، یہاں تک کہ ان کی ماں مریم پر (بدکاری کا) بہتان لگایا اور نصاریٰ نے ان کے ساتھ ایسی محبت کی کہ ان کو اس مرتبہ پر پہنچایا جو مرتبہ ان کا نہیں تھا، (رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد) حضرت علیؓ نے فرمایا کہ (بےشک ایسا ہی ہو گا) دو طرح کے آدمی میرے بارے میں ہلاک ہوں گے، ایک محبت کے غلو کرنے والے جو میری وہ بڑائیاں بیان کریں گے جو مجھ میں نہیں ہیں، جو دوسرے بغض و عداوت میں حد سے بڑھنے والے۔ جن کی عداوت ان کو اس پر آمادہ کرنے گی کہ وہ مجھ پر بہتان لگائیں۔

[مسند احمد، السنة لعبدالله بن أحمد:1263 ، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:6102]


تشریح:

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ ارشاد فرمایا تھا اور اسی کی بنیاد پر حضرت علی مرتضیٰؓ نے جو کچھ فرمایا اس کا ظہور ان کے دور خلافت ہی میں ہو گیا ..... خوارج کا فرقہ آپؓ کی مخالفت و عداوت میں اس حد تک چلا گیا کہ آپؓ کو مخرب دین۔ کافر اور واجب القتل قرار دیا، اور انہیں میں کے ایک شقی عبدالرحمٰن بن ملجم نے آپؓ کو شہید کیا اور اپنے اس بدبختانہ عمل کو اس نے اعلیٰ درجہ کا جہاد فی سبیل اللہ اور داخلہ جنت کا وسیلہ سمجھا۔ اور آپ کی محبت میں ایسے غلو کرنے والے بھی پیدا ہو گئے جنہوں نے آپ کو مقام الوہیت تک پہنچا دیا اور ایسے بھی جنہوں نے کہا کہ نبوت و رسالت کے لائق دراصل آپؓ ہی تھے اور اللہ تعالیٰ کا مقصد آپ ہی کو نبی و رسول بنانا تھا اور جبرائیل امین کو وحی لے کر آپ ہی کے پاس بھیجا تھا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اور وحی لے کر محمد ﷺ کے پاس پہنچ گئے اور ان کے علاوہ ایسے بھی جنہوں نے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے وصی اور آپ کے بعد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نامزد امام و خلیفہ اور سربراہ امت تھے اور رسول اللہ ﷺ ہی کی طرح معصوم اور مفترض الطاعۃ تھے اور مقام و مرتبہ میں دوسرے تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور بالاتر تھے اور کائنات میں تصرف اور علم غیب جیسی خداوندی صفات کے بھی آپؓ حامل تھے۔ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے حق میں غلو کرنے والے یہ لوگ مختلف فرقوں میں منقسم ہیں، مذاہب اور فرقوں کی تاریخ میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان فرقوں کی تعداد پچاس کے قریب تک پہنچتی ہے۔ ان فرقوں میں اکثر وہ ہیں جن کا ذکر صرف کتابوں میں ملتا ہے ہماری اس دنیا میں جہاں تک ہمارا علم ہے اب ان کا کہیں وجود نہیں ہے .... جو فرقے اب موجود ہیں ان میں بڑی تعداد فرقہ اثنا عشریہ کی ہے جس کا دوسرا نام امامیہ بھی ہے، اب اکثر ملکوں اور علاقوں میں اسی فرقہ کو "شیعہ" کہا جاتا ہے، یہ فرقہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے بعد ان کی اولاد میں گیارہ حضرات کو انہیں کی طرح اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نامزد امت کا امام و حاکم اور آپ ہی کی طرح معصوم اور مفترض الطاعۃ اور تمام انبیاء سابقین سے افضل ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے، اس فرقہ کے عقائد کی تفصیل اور حقیقت حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی بےنظیر فارسی تصنیف "تحفہ اثنا عشریہ" کے مطالعہ سے معلوم کی جا سکتی ہے اردو خواں حضرات اس موضوع پر امام اہل سنت حضرت مولانا محمد عبدالشکور فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف نیز اس عاجز (راقم سطور) کی کتاب "ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت" کے مطالعہ سے بھی اس فرقہ کا تعارف حاصل کر سکتے ہیں۔



حدیث نمبر 16

عَنْ صُهَيْبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: «مَنْ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ؟» قَالَ: الَّذِي عَقَرَ النَّاقَةَ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: «صَدَقْتَ، فَمَنْ أَشْقَى الْآخَرِينَ؟» قَالَ: لَا عَلِمَ لِي يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: «الَّذِي يَضْرِبُكَ عَلَى هَذِهِ» ، وَأَشَارَ إِلَى يَافُوخِهِ فَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ: وَدِدْتُ أَنَّهُ قَدْ انْبَعَثَ أَشْقَاكُمْ، فَيَخْضِبُ هَذِهِ - يَعْنِي لِحْيَتَهُ - مِنْ هَذِهِ» ، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى مُقَدَّمِ رَأْسِهِ ".

ترجمہ:

حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے (ایک دن) فرمایا، (بتلاؤ) اگلی امتوں میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت کون تھا؟ تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ اے رسول خدا (قوم ثمود کا) وہ بدبخت آدمی تھا جس نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اس کو مار ڈالا تھا (جس کو حضرت صالح علیہ السلام کے معجزہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے پتھر کی چٹان سے پیدا فرمایا تھا، یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا کہ تم نے سچ اور ٹھیک بتایا، (اب بتلاؤ) بعد کے لوگوں میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت کون ہو گا؟ انہوں نے عرض کیا، مجھ کو اس کا علم نہیں، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کے سر کے اگلے حصہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ (انتہائی بدبخت اور سب سے زیادہ شقی) وہ ہو گا جو (تلوار سے) تمہاری اسی جگہ پر ضرب لگائے گا ..... تو حضرت علی مرتضیٰ ؓ (حضور ﷺ کے اس ارشاد کی بنا پر اپنی داڑھی پکڑ کر) فرمایا کرتے تھے، اے عراق والو! میں آرزو مند ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی شقی اور بدبخت ترین آدمی اٹھے اور میری اس داڑھی کو رنگ دے میری اس پیشانی کے خون سے۔

[المعجم الكبير للطبراني:7159]


تشریح:



قرآن مجید کے آخری پارہ کے سورہ الشمس کے آخر میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بدترین کافرانہ سرکشی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا "كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ﴿١١﴾ إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا" الایۃ .... ان آیتوں میں اس شخص کو "أَشْقَا" یعنی انتہائی درجہ کا بدبخت فرمایا گیا ہے جس نے اس اونٹنی کو مار ڈالا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کے معجزہ کے طور پر پیدا فرمایا تھا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے حضور ﷺ کے دریافت فرمانے پر انہیں آیات کی روشنی میں عرض کیا تھا کہ اگلی امتوں میں کا انتہائی درجہ کا شقی اور بدبخت وہ تھا جس نے اس ناقہ کو مار ڈالا۔ اس عاجز راقم سطور کا خیال ہے کہ حضرت علی ؓ سے حضور ﷺ کا یہ سوال دراصل تمہید تھی۔ اس پیش گوئی کی جو آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے خود انہیں کے بارے میں فرمائی، آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے حضرت علیؓ کی شہادت کی پیشن گوئی اس تفصیل کے ساتھ فرمائی کہ بدبخت قاتل تمہارے سر کے اگلے حصہ پر تلوار سے ضرب لگائے گا جس کے نتیجہ میں تمہاری یہ داڑھی خون سے رنگ جائے گی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ وہ قاتل بعد میں آنے والے لوگو ں میں سب سے زیادہ اشقیٰ اور انتہائی درجہ کا بدبخت ہو گا۔ آگے حضرت صہیب ؓ کے بیان سے معلوم ہوا کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ اپنی شہادت کے بارے میں حضور ﷺ کی اس پیش گوئی کو اپنے حق میں بڑی بشارت سمجھتے تھے اور اپنے دار الحکومت عراق کے شہر کوفہ میں فرمایا کرتے تھے کہ اے اہل عراق میں اس کا آرزو مند ہوں اور شوق سے اس دن کا انتظار کر رہا ہوں، جب تم میں کا بدبخت ترین انسان میرے سر کے خون سے میری داڑھی کو رنگ دے گا۔ اور جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا آپ ﷺ کی وفات کے قریبا تیس سال بعد بالکل اسی طرح حضرت علیؓ کی شہادت ہوئی۔ ؓ وارضاہ۔ بلاشبہ پیشنگوئی اور اس کا ٹھیک اسی طرح پورا ہو جانا آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے۔ صَلَّى الله عَلَيْهِ واله وصحبه وبارك وَسَلَّمْ. حضرت علی مرتضیٰؓ کی شہادت صاحب مجمع الفوائد نے حضرت صہیبؓ کی مندرجہ بالا روایت کے بعد متصلا معجم کبیر طبرانی ہی کے حوالہ سے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی شہادت کا واقعہ کس قدر تفصیل سے اسمٰعیل ابن راشد کی روایت سے نقل کیا ہے، ذیل میں اس کا حاصل اور خلاصہ نذر ناظرین کیا جانا مناسب معلوم ہوا، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ فرقہ خوارج کا کچھ تعارف کرا دیا جائے۔ یہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے لشکر ہی کا ایک خاص گروہ تھا جو اپنی حماقت اور ذہنی کجروی کی وجہ سے ان کے ایک فیصلہ کو غلط اور معاذ اللہ قرآن مجید کے صریح خلاف سمجھ کر ان کا مخالف اور آمادہ بغاوت ہو گیا تھا، ان کی تعداد کئی ہزار تھی، پھر حضرت علی مرتضیٰ کی افہام و تفہیم کے نتیجہ میں ان میں سے ایک خاص تعداد راہ راست پر آ گئی، لیکن ان کی بڑی تعداد اپنی گمراہی پر قائم رہی اور قتل و قتال پر آمادہ ہو گئی بالآخر حضرت علی مرتضیٰؓ کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنی پڑی (تاریخ میں یہ واقعہ جنگ نہروان کے نام سے معروف ہے) جس کے نتیجے میں ان میں سے اکثر کا خاتمہ ہو گیا، کچھ باقی رہ گئے، ان باقی رہ جانے والوں میں سے تین شخص برک ابن عبداللہ عمرو ابن بکر تمیمی اور عبدالرحمٰن ابن ملجم مکہ میں جمع ہوئے انہوں نے صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سارا فتنہ ان لوگوں کی وجہ سے جن کے ہاتھوں میں حکومت ہے، ان کو کسی طرح ختم کر دیا جائے، اس سلسلہ میں تین حضرات کو متبعین طور پر نامزد کیا .... حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت علی مرتضیٰؓ ..... برک نے کہا کہ معاویہ کو قتل کر دینے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، عمرو تیمی نے کہا کہ عمرو بن العاص کو ختم کردینے کی میں ذمہ داری لیتا ہوں، عبدالرحمٰن ابن ملجم نے کہا کہ علی کو قتل کر دینے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، پھر انہوں نے آپس میں اس پر عہد و پیمان کیا اور اس کے لئے یہ اسکیم بنائی کہ ہم میں سے ہر ایک ۱۷؍ رمضان المبارک کو جب کہ یہ لوگ فجر کی نماز پڑھانے کے لئے نکل رہے ہوں، حملہ کر کے اپنا کام کریں، اس دور میں نماز کی امامت خلیفہ وقت یا ان کے مقرر کئے ہوئے امیر ہی کرتے تھے۔ اپنے بنائے ہوئےاس پروگرام کے مطابق برک ابن عبداللہ حضرت معاویہؓ کے دارالحکومت دمشق روانہ ہو گیا اور عمرو تمیمی مصر کی طرف جہاں کے امیر و حاکم حضرت عمرو بن العاصؓ تھے، اور عبدالرحمٰن ابن ملجم حضرت علی مرتضیٰؓ کے دارالحکومت کوفہ کے لئے روانہ ہو گیا۔ ۱۷؍ رمضان کی صبح فجر کی نماز پڑھانے کے لئے حضرت معاویہ تشریف لے جا رہے تھے، برک نے تلوار سے حملہ کیا، حضرت معاویہؓ کو کچھ محسوس ہو گیا اور انہوں نے دوڑ کر اپنے کو بچانا چاہا پھر بھی برک کی تلوار سے ان کی ایک سرین پر گہرا زخم آ گیا، برک کو گرفتار کر لیا گیا (اور بعد میں قتل کر دیا گیا) زخم کے علاج کے لئے طبیب بلایا گیا، اس نے زخم کو دیکھ کر کہا کہ جس تلوار کا زخم ہے، اس کو زہر میں بجھایا گیا ہے، اسو کے علاج کی ایک صورت یہ ہے کہ گرم لوہے سے زخم کو داغ دیا جائے اس طرح امید ہے کہ زہر سارے جسم میں سرایت نہیں کر سکے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میں آپ کو ایک ایسی دوا تیار کر کے پلاؤں جس کا اثر یہ ہو گا کہ اس کے بعد آپ کی کوئی اولاد نہ ہو سکے گی، حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ گرم لوہے کے داغ کو تو میں برداشت نہ کر سکوں گا اس لئے مجھے وہ دوا تیار کر کے پلا دی جائے، میرے لئے دو بیٹے یزید اور عبداللہ کافی ہیں ..... ایسا ہی کیا گیا اور حضرت معاویہ صحتیاب ہو گئے۔ عمرو تمیمی اپنے پروگرام کے مطابق حضرت عمرو بن العاصؓ کو ختم کرنے کے لئے مصر پہنچ گیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کہ ۱۷؍ رمضان کی رات میں حضرت عمرو بن العاص کو ایسی شدید تکلیف ہو گئی کہ وہ فجر کی نماز پڑھانے کے لئے مسجد نہیں آ سکے تھے انہوں نے ایک دوسرے صاحب خارجہ بن حبیب کو حکم دیا کہ وہ ان کی جگہ مسجد جا کر نماز پڑھائیں چنانچہ وہ آئے اور نماز پڑھانے کے لئے امام کے مصلے پر کھڑے ہوئے، تو عمرو نے ان کو عمرو ابن العاص سمجھ کر تلوار سے وار کیا۔ وہ وہیں شہید ہو گئے، عمرو گرفتار کر لیا گیا، لوگ اس کو پکڑ کر مصر کے امیر و حاکم حضرت عمرو بن العاصؓ کے پاس لے گئے، اس نے دیکھا کہ لوگ ان کو امیر کے لفظ سے مخاطب کر رہے ہیں، اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ بتلایا گیا کہ یہ مصر کے امیر و حاکم حضرت عمرو بن العاصؓ ہیں، اس نے کہا میں نے جس شخص کو قتل کیا وہ کون تھا؟ بتلایا گیا وہ خارجہ ابن حبیب تھے، اس بدبخت نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو مخاطب کو کے کہا اے فاسق! میں نے تجھ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا تو نے یہ ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ وہ تھا جو ہو گیا، اس کے بعد خارجہ ابن حبیب کے قصاص میں عمرو تمیمی کو قتل کر دیا گیا۔ ان میں سے تیسرا خبیث ترین اور شقی ترین بدبخت عبدالرحمٰن ابن ملجم اپنے پروگرام کے مطابق کوفہ پہنچ گیا تھا وہ ۱۷؍ رمضان کو فجر سے پہلے مسجد کے راستے میں چھپ کر بیٹھ گیا، حضرت علی مرتضیٰؓ کا معمول تھا کہ وہ گھر سے نکل کر الصلوة الصلوة پکارتے ہوئے اور لوگوں کو نماز کے لئے بلاتے ہوئے مسجد تشریف تے۔ اس دن میں حسب معمول اسی طرح تشریف لا رہے تھے کہ اس بدبخت ابن ملجم نے سامنے سے آ کر اچانک آپ کی پیشانی پر تلوار سے وار کیا اور بھاگا لیکن تعاقب کر کے لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت حسن ؓ سے فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو اس قاتل ابن ملجم کے بارے میں جیسا چاہوں گا فیصلہ کروں گا چاہوں گا تو معاف کر دوں گا، اور چاہوں گا تو قصاص میں قتل کرا دوں گا اور اگر میں اس میں فوت ہو جاؤں تو پھر اس کو شرعی قانون قصاص کے مطابق قتل کر دیا جائے لیکن مثنہ نہ کیا جائے (یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء الگ الگ نہ کاٹے جائیں) کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ کٹ کھنے کتے کو بھی مارا جائے تو اس کو مثلہ نہ کیا جائے۔ حضرت علی مرتضیٰ ؓ خبیث ابن ملجم کی اس ضرب کے نتیجہ میں واصل بحق ہو گئے تو حضرت حسن ؓ کے حکم سے اس بدبخت کو قتل کیا گیا، اور غیظ و غضب سے بھرے ہوئے لوگوں نے اس کی لاش کو جلا بھی دیا۔











فرامین رسول بروایت حضرت علی:






























فرامین حضرت علی:










سیدہ ام کلثوم بنت علی کا سیدنا عمر فاروق سے بابرکت نکاح(اہل تشیع معتبر کتب)

  اہل سنت کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیا تھا

  حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لاثانی داماد حضرت عمر فاروق سیدہ اُم کلثوم بنت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے۔

اگر رافضی اس حقیقت کے انکاری ہیں تو کیا تسلیم کرنے والے مندرجہ ذیل شیعہ علماء ان سے کم تر جانتے تھے یا اُن میں انصاف کا کچھ شائبہ تھا؟؟؟۔۔

  صاحب کافی نے کن گندے لفظوں میں اس حقیقت کو ادا کیا ہے!۔

ان ھذا اول فرج غصبناہ

یہ پہلی شرمگاہ ہے جو ہم سے چھین لی گئی۔۔

مکمل روایت :

(باب)  (تزويج ام كلثوم) 

ابو جعفر الکلینی نے کہا:

“علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم و حماد عن زرارۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی تزویج ام کلثوم فقال: ان ذلک فرج غصبناہ”

ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی۔ (الفروع من الکافی 5/ 346)

 اس روایت کی سند شیعہ اصولوں سے صحیح ہے۔ اس کے راویوں علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں۔ ۔

علامہ مجلسی نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے۔

کتاب مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول – العلامة المجلسي – ج ٢٠ – الصفحة٤٢

  تنبیہ: اہل سنت کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے اور امام جعفر صادق رحمتہ اللہ اس سے بری ہیں

اصول کافی سے ثبوت 2

  ابو جعفر الکلینی نے کہا:

“حمید بن زیاد عن ابن سماعۃ عن محمد بن زیاد عن عبداللہ بن سنان و معاویۃ بن عمار عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال: ۔۔۔ان علیاً لما توفی عمر اتی ام کلثوم فانطلق بھا الیٰ بیتہ۔

” ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام سے روایت ہے کہ۔۔۔جب عمر فوت ہوئے تو علی آئے اور ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے۔(الفروع من الکافی 6/115)

مکمل روایت:

(باب) * (المتوفى عنها زوجها المدخول بها اين تعتد وما يجب عليها) *

محمد بن يحيى، وغيره، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن النضربن سويد، عن هشام بن سالم، عن سليمان بن خالد قال: سألت أباعبدالله (عليه السلام) عن امرأة توفى زوجها أين تعتد، في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيثشاءت، ثم قال: إن عليا (عليه السلام) لما مات عمر أتى ام كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته.

  اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں۔

اصول کافی سے ثبوت 3

  ابو عبداللہ جعفر الصادق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب عمر فوت ہو گئے تو علی نے آ کر کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔ (الفروع من الکافی 6/115-116)

مکمل روایت

(10903 – 2) محمد بن يحيى، وغيره، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن النضربن سويد، عن هشام بن سالم، عن سليمان بن خالد قال: سألت أباعبدالله (عليه السلام) عن امرأة توفى زوجها أين تعتد، في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيث شاءت، ثم قال: إن عليا (عليه السلام) لما مات عمر أتى ام كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته.

حميد بن زياد، عن ابن سماعة، عن محمد بن زياد، عن عبد الله بن سنان، ومعاوية ابن عمار، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سألته عن المرأة المتوفى عنها زوجها أتعتد في بيتها أو حيث شاءت؟ قال: بل حيث شاءت، إن عليا عليه السلام لما توفي عمر أتى أم كلثوم فانطلق بها إلى بيته

کتاب فروع الكافي – الشيخ الكليني – ج ٦ – الصفحة ٧٥

ترجمہ

میں نے ابو عبدلله سے پوچھا کہ وہ عورت جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو وہ عدت شوہر کے گھر میں پوری کرے گی یا جہاں وہ چاہے کر لے؟ امام (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا جہاں وہ چاہے کر لے کیونکہ حضرت عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) کے انتقال کے بعد حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) ام کلثوم (رضی اللہ تعالی عنھما) کو اپنے گھر لے آے۔

ان دونوں حدیثوں میں سے پہلی حدیث کو علامہ مجلسی نے موثق (قابل قبول) اور دوسری حدیث کو صحیح کا درجہ دیا ہے۔

کتاب مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول – العلامة المجلسي – ج ٢١ – الصفحة ١٩٩،١٩٨،١٩٧

شیعہ کتاب الاستبصار (اصول اربعہ) سے ثبوت 4

  ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی نے ” الحسین بن سعید عن النضر بن سوید عن ھشام بن سالم عن سلیمان بن خالد” کی سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر الصادق رحمہ اللہ ) نے فرمایا:

جب عمر فوت ہوئے تو علی علیہ السلام نے آ کر ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا پھر انہیں اپنے گھر لے گئے۔ (الاستبصار فیما اختلف من الاخبار 3/472 ح 1258 )

مکمل روایت

[1258] 2 – الحسين بن سعيد عن النضر بن سويد عن هشام بن سالم عن سليمان بن خالد قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن امرأة توفي عنها زوجها أين تعتد في بيت زوجها أو حيث شاءت؟ قال: حيث شاءت، ثم قال: إن عليا عليه السلام لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته.

  اس روایت کی سند بھی شیعہ اسماء الرجال کی رو سے صحیح ہے۔

ان کے علاوہ درج ذیل شیعہ کتب میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم بنت علی کے نکاح کا ذکر موجود ہے:

5: تہذیب الاحکام (8/161، 9/262)

6: الشافی للسید المرتضیٰ علم الھدی (ص 116)

7: مناقب آل ابی طالب لابن شھر آشوب (3/162)

8: کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ للاربلی (ص 10)

9: مجالس المومنین للنور اللہ الشوستری (ص 76)

10: حدیقۃ الشیعہ للاردبیلی (ص 277)







No comments:

Post a Comment