یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
رمَضان المُبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا بہت ہی بڑا انعام ہے؛مگر جب ہی کہ اِس اِنعام کی قدر بھی کی جائے؛ ورنہ ہم سے محروموں کے لیے ایک مہینے تک ’’رَمَضان، رَمَضان‘‘ چِلاّئے جانے کے سِوا کچھ بھی نہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ: ’’اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمَضان کیا چیز ہے؟ تو میری اُمَّت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رَمَضان ہی ہوجائے‘‘۔
[صحیح ابن خزیمہ:1886]
ہر شخص سمجھتا ہے کہ سال بھر کے روزے رکھنے کارے دَارَد؛ مگر رمَضان المُبارک کے ثواب کے مُقابلے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: لوگ اِس کی تَمنا کرنے لگیں۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: ’’رمَضان المبارک کے روزے اور ہرمہینے میں تین روزے رکھنا دِل کی کھوٹ اور وَساوِس کو دُور کرتا ہے‘‘۔
[مسند احمد:20738]
آخر کوئی تو بات ہے کہ صحابۂ کرامؓ رمَضان کے مہینے میں جہاد کے سفر میں باوجود نبیٔ کریم ﷺ کے باربار افطار کی اجازت فرمادینے کے روزے کا اہتمام فرماتے، حتیّٰ کہ حضور ﷺ کو حُکماً منع فرمانا پڑا۔
[صحیح ابن خزیمہ:2038]
’’مُسلم شریف‘‘ کی ایک حدیث میں ہے کہ:
صحابۂ کرامؓ ایک غزوے کے سفر میں ایک منزل پر اُترے، گرمی نہایت سخت تھی، اور غُربَت کی وجہ سے اِس قدر کپڑا بھی سب کے پاس نہ تھا کہ دُھوپ کی گرمی سے بَچاؤ کرلیں، بہت سے لوگ اپنے ہاتھ سے آفتاب کی شُعاع سے بچتے تھے، اِس حالت میں بھی بہت سے روزے دار تھے جن سے کھڑے ہوسکنے کا تحمُّل نہ ہوا اور گِر گئے۔
[صحیح مسلم:1119]
صحابۂ کرامؓ کی ایک جماعت گویا ہمیشہ تمام سال روزے دار ہی رہتی تھی۔
نبیٔ کریم ﷺ سے سینکڑوں روایات میں مختلف اَنواع کے فضائل نقل کیے گئے، جن کا اِحاطہ تو مجھ جیسے ناکارہ کے اِمکان سے خارِج ہے ہی؛ لیکن میرا یہ بھی خَیال ہے کہ، اگر اِن کو کچھ تفصیل سے لکھوں تو دیکھنے والے اُکتا جائیں گے، کہ اِس زمانے میں دِینی اُمور میں جس قدر بے اِلتِفاتی کی جا رہی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں، علم وعمل دونوں میں جس قدر بے پرواہی دِین کے بارے میں بڑھتی جا رہی ہے وہ ہر شخص اپنی ہی حالت میں غور کرنے سے معلوم کرسکتا ہے؛ اِس لیے اکیس (۲۱) احادیث پر اِکتِفا کرتا ہوں، اور اُن کو تین فصلوں پر مُنقسِم کرتا ہوں:
فصلِ اول: رمَضان المبارک کے فضائل میں، جس میں دَس احادیث مذکور ہیں۔
دوسری فصل: شبِ قدر کے بیان میں، جس میں سات حدیثیں ہیں۔
تیسری فصل: میں اعتکاف کا ذکر ہے، جس میں تین حدیثیں ہیں، اِس کے بعد خاتمے میں ایک طوِیل حدیث پر اِس رسالے کو ختم کردیا۔
حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنی کریم ذات اور اپنے محبوب ﷺ کے طُفیل اِس کو قبول فرماویں، اور مجھ سِیَہ کار کو بھی اِس کی برکات سے اِنتِفاع کی توفیق عطا فرماویں۔ فَإِنَّہٗ بَرٌّ جَوَادٌ کَرِیْمٌ.
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا حتی کہ رمضان کی آخری رات تک آسمان کے دروازے کھلے رہتے ہیں جو بندہ مومن رمضان کی کسی رات میں نماز پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ہر سجدہ کے بدلہ میں پندرہ سو (1500) نیکیاں لکھ دیتے ہیں (اللہ تعالیٰ جنت میں سرخ یا قوت سے علیشان مکان اس کے لیے بناتے ہیں اس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوتے ہیں، اس میں ایک عالیشان سونے کا محل ہوتا ہے جو سرخ یاقوت سے مزین ہوتا ہے چنانچہ جب وہ رمضان کے پہلے دن کا روزہ رکھتا ہے اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور ہر دن صبح کی نماز سے شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور ماہ رمضان میں وہ جو سجدہ بھی کرتا ہے خواہ دن کو یا رات کو اس کے ہر سجدہ کے بدلہ میں جنت میں ایک درخت لگا دیا جاتا ہے جو اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سوار اس کے سائے تلے پانچ سو سال تک چلتا رہے۔
(شعب الایمان-امام البیھقی:3135، عن ابی سعید)
[کنزالعمال » کتاب: روزوں کا بیان » باب: (الإکمال)» حدیث نمبر: 23706]
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ
إن الله تعالى يغفر في أول ليلة من شهر رمضان لكل أهل القبلة.
ترجمہ:
اللہ تباوک وتعالیٰ رمضان المبارک کی پہلی رات میں تمامحضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ
اہل قبلہ کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔
(رواہ ابو یعلی وابن خزیمۃ والضیاء المقدسی عن انس )
[کنزالعمال »کتاب: روزوں کا بیان » باب: (الإکمال)» حدیث نمبر: 23717]
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
سبحان الله ما تستقبلون وماذا يستقبلكم؟ شهر رمضان يغفر الله في أول ليلة لكل أهل هذه القبلة، قيل: يا رسول الله المنافق؟ قال: "المنافق كافر وليس للكافر في ذلك شيء".
ترجمہ:
سبحان اللہ! کس چیز کا تم استقبال کر رہے ہو اور کون سی چیز تمہارا استقبال کر رہی ہے؟ وہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہے اس کے پہلی رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ اسن قبلہ والوں کی مغفرت فرما دیتے ہیں صحابہ ؓ نے عرض کیا: حضور اکرم ﷺ منافق کی مغفرت بھی ہوجاتی ہے؟ فرمایا منافق تو کافر ہے اور اس انعام میں کافر کا کچھ حصہ نہیں۔
(رواہ البیھقفی فی شعب الایمان عن انس)
[کنزالعمال » کتاب: روزوں کا بیان » باب: (الإکمال) » حدیث نمبر: 23718]
[رواہ ابن خزیمۃ في صحیحہ، وقال: إن صح الخبر. ورواہ البیهقي، ورواہ أبو الشیخ بن حبان في الثواب باختصار عنهما، وفي أسانیدهم علي بن زید بن جدعان. ورواہ ابن خزیمۃ أیضاً. والبیهقي باختصار عنہ من حدیث أبي هریرۃ، وفي إسنادہ کثیر بن زید. کذا في الترغیب. قلت: علي بن زید ضعفہ جماعۃ، وقال الترمذي: صدوق، وصح لہ حدیثاً في السلام، وحسن لہ غیر ما حدیث، وکذا کثیر ضعفہ النسائي وغیرہ، وقال ابن مَعین: ثقۃ، وقال ابن عدي: لم أر بحدیثہ بأساً، وأخرج بحدیثہ ابن خزیمۃ في صحیحہ، کذا في رجال المنذري، ص:۷۰۴؛ لکن قال العیني: الخبر منکر، فتأمل]
ترجَمہ:
حضرت سَلمانؓ کہتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وَعظ فرمایا، کہ: تمھارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے، اِس میں ایک رات ہے (شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ نے اِس کے روزے کو فرض فرمایا، اور اِس کے رات کے قِیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے، جو شخص اِس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قُرب حاصل کرے ایسا ہے جیسا کہ غیرِ رمَضان میں فرض ادا کیا، اور جو شخص اِس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیرِ رمَضان میں سَتَّر فرض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے، اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری(ہمدردی) کرنے کا ہے، اِس مہینے میں مومِن کا رِزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو شخص کسی روزے دار کا روزہ اِفطار کرائے اُس کے لیے گناہوں کے مُعاف ہونے اور آگ سے خَلاصی(چھٹکارے) کا سبب ہوگا، اور روزے دار کے ثواب کی مانند اُس کو ثواب ہوگا؛ مگر اُس روزے دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا، صحابہؓ نے عرض کیا کہ: یا رسولَ اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اِتنی وُسعَت(گُنجائش) نہیں رکھتا کہ روزے دارکو اِفطار کرائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: (پیٹ بھر کھلانے پر مَوقُوف نہیں)، یہ ثواب تو اللہ جَلَّ شَانُہٗ ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے، یا ایک گھونٹ پانی پلاوے، یا ایک گھونٹ لَسِّی پلاوے اُس پر بھی مَرحَمَت فرمادیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اِس کا اوَّل حصَّہ اللہ کی رحمت ہے، اور درمیانی حصہ مَغفِرت ہے، اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔ جو شخص اِس مہینے میں ہَلکا کر دے اپنے غلام وخادم کے بوجھ کو، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کی مغفرت فرماتے ہیں، اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں۔ اور چار چیزوں کی اِس میں کثرت رکھا کرو، جن میں سے دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی رَضا(خوشی) کے واسطے، اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمھیں چارۂ کار(چھُٹکارا) نہیں، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رَب کو راضی کرو وہ کلمۂ طَیَّبہ اور اِستِغفار کی کثرت ہے، اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ: جنَّت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزے دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ (قِیامت کے دن) میری حوض سے اُس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔
[صحیح ابن خزیمہ:1887، شعب الإيمان للبيهقي:3336، فضائل رمضان لابن أبي الدنيا:41، فضائل رمضان لابن شاهين:16، مشيخة أبي طاهر ابن أبي الصقر:43، تفسير البغوي:148، الترغيب والترهيب الأصبهاني:1753، موجبات الجنة لابن الفاخر:55، تاريخ دمشق لابن عساكر:4596، الذيل على جزء بقي بن مخلد من أحاديث الحوض:67]
فائدہ:
مُحدِّثین کو اِس کے بعض رُوَاۃ (حدیث نقل کرنے والوں) میں کلام ہے؛ لیکن اوَّل تو فَضائل میں اِس قدر کلام قابلِ تَحمُّل(برداشت کے قابل) ہے۔ دوسرے، اِس کے اکثر مضامین کی دوسری روایات مُؤیِّد (تائید کرنے والی) ہیں۔ اِس حدیث سے چند اُمور معلوم ہوتے ہیں:
اوَّل نبیٔ کریم ﷺ کا اہتمام، کہ شعبان کی اخیر تاریخ میں خاص طور سے اِس کا وعظ فرمایا، اور لوگوں کو تنبیہ فرمائی؛ تاکہ رمَضان المبارک کا ایک سیکنڈ بھی غَفلت سے نہ گزر جائے، پھر اِس وَعظ میں تمام مہینے کی فضیلت بیان فرمانے کے بعد چند اہم اُمور کی طرف خاص طور سے مُتوجَّہ فرمایا:
سب سے اوَّل شبِ قدر، کہ وہ حقیقت میں بہت ہی اہم رات ہے؛ اِن اَوراق میں اِس کا بیان دوسری فصل میں مستقل آئے گا۔
اِس کے بعد اِرشاد ہے کہ: ’’اللہ نے اِس کے روزے کو فرض کیا اور اِس کے قِیام یعنی تراویح کو سنت کیا۔‘‘ [مسند أحمد:1660] ، اِس سے معلوم ہوا کہ تراویح کا ارشاد بھی خود حق سُبْحَانَہٗ وَتَقَدُّس کی طرف سے ہے، پھر جن روایات میں نبیٔ کریم ﷺ نے اِس کو اپنی طرف منسوب فرمایا کہ: ’’مَیں نے سنت کیا‘‘، اُن سے مراد تاکید ہے، کہ حضور ﷺ اِس کی تاکید بہت فرماتے تھے؛ اِسی وجہ سے سب ائِمَّہ اِس کے سنَّت ہونے پر مُتفِق ہیں۔ ’’بُرھان‘‘ میں لکھا ہے کہ: مسلمانوں میں سے رَوافِض (شیعہ) کے سِوا کوئی شخص اِس کا مُنکِر(انکار کرنے والا) نہیں۔
حضرت مولانا شاہ عبدالحق صاحب مُحدِّث دہلویؒ نے ’’مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّۃ‘‘ میں بعض کُتُبِ فِقہ سے نقل کیا ہے کہ: کسی شہر کے لوگ اگر تراویح چھوڑدیں تو اِس کے چھوڑنے پر اِمام اُن سے مُقاتَلہ(جنگ) کرے۔ اِس جگہ خُصوصِیت سے ایک بات کا لِحاظ رکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ بہت سے لوگوں کا خَیال ہوتا ہے کہ جلدی سے کسی مسجد میں آٹھ دس دن میں کلام مجید سن لیں پھر چھٹِّی، یہ خَیال رکھنے کی بات ہے کہ، یہ دو سنتیں الگ الگ ہیں: تمام کلامُ اللہ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا یہ مستقل سنت ہے، اور پورے رَمَضان شریف کی تراویح مُستقِل سنَّت ہے، پس اِس صورت میں ایک سنت پر عمل ہوا اور دوسری رہ گئی؛ البتہ جن لوگوں کو رَمَضانُ المبارک میں سفر وغیرہ یا اور کسی وجہ سے ایک جگہ روزانہ تراویح پڑھنی مشکل ہو، اُن کے لیے مناسب ہے کہ اوَّل قرآن شریف چند روز میں سن لیں؛ تاکہ قرآن شریف ناقِص(ادُھورا) نہ رہے، پھر جہاں وقت ملا اور موقع ہوا وہاں تراویح پڑھ لی، کہ قرآن شریف بھی اِس صورت میں ناقِص(ادُھورا) نہیں ہوگا، اور اپنے کام کا بھی حَرج نہ ہوگا۔
حضور ﷺ نے روزہ اور تراویح کا ذکر فرمانے کے بعد عام فرض اور نفل عبادات کے اَہتمام کی طرف مُتوجَّہ فرمایا، کہ اِس میں ایک نفل کا ثواب دوسرے مہینوں کے فرائِض کے برابر ہے، اور اِس کے ایک فرض کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستّر فرائض کے برابر ہے۔ اِس جگہ ہم لوگوں کو اپنی اپنی عبادات کی طرف بھی ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے، کہ اِس مبارک مہینے میں فرائض کا ہم سے کس قدر اہتمام ہوتاہے؟ اور نوافل میں کتنا اِضافہ ہوتا ہے؟ فرائض میں تو ہمارے اہتمام کی یہ حالت ہے کہ، سَحر کھانے کے بعد جو سوتے ہیں تو اکثر صبح کی نماز قضا ہوگئی، اور کم از کم جماعت تو اکثروں کی فوت ہوہی جاتی ہے، گویا سَحر کھانے کا شکریہ اداکیا کہ، اللہ کے سب سے زیادہ مُہتَم بِالشان(نہایت اہم) فرض کو یا بالکل قضا کردیا، یاکم از کم ناقِص کردیا، کہ بغیر جماعت کے نماز پڑھنے کو اہلِ اُصول(یعنی اصولِ فقہ کے عُلماء) نے ’’اَدائے ناقص‘‘ فرمایا ہے، اور حضورِ اکرم ﷺ کا تو ایک جگہ ارشاد ہے کہ: ’’مسجد کے قریب رہنے والوں کی تو (گویا) نماز بغیر مسجد کے ہوتی ہی نہیں‘‘۔[بیھقی:5139]
’’مَظاہرِ حق‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’جو شخص بغیر عذر کے بدونِ جماعت نماز پڑھتا ہے اُس کے ذمَّے سے فرض تو ساقط ہو جاتا ہے؛ مگر اُس کو نماز کا ثواب نہیں ملتا‘‘۔ اِسی طرح دوسری نماز مغرب کی بھی جماعت اکثروں کی افطار کی نذَر(بھینٹ) ہوجاتی ہے، اور رکعتِ اولیٰ یا تکبیرِ اولیٰ کا تو ذکر ہی کیا ہے! اور بہت سے لوگ تو عشاء کی نماز بھی تراویح کے احسان کے بدلے میں وقت سے پہلے ہی پڑھ لیتے ہیں۔
یہ تو رمَضان المبارک میں ہماری نماز کا حال ہے جو اہم ترین فرائض میں ہے، کہ ایک فرض کے بدلے میں تین کو ضائع کیا۔ یہ تین تو اکثر ہیں؛ ورنہ ظہر کی نماز قَیلُولہ(دوپہر کو سونے) کی نذر اور عصر کی جماعت اِفطاری کا سامان خریدنے کی نذر ہوتے ہوئے آنکھوں سے دیکھا گیا ہے۔ اِسی طرح اَور فرائض پر آپ خود غور فرمالیں کہ، کتنا اہتمام رمَضانُ المبارک میں اُن کا کیا جاتا ہے؟ اور جب فرائض کا یہ حال ہے تو نوافل کا کیا پوچھنا؟ اِشراق اور چاشت تو رمَضانُ المبارک میں سونے کی نذر ہوہی جاتے ہیں، اور اَوَّابِین کا کیسے اہتمام ہوسکتا ہے جب کہ ابھی روزہ کھولاہے اور آئندہ تراویح کا سَہَم(ڈر) ہے؟، اور تہجُّد کا وقت تو ہے ہی عَین سَحر کھانے کا وقت، پھر نوافل کی گُنجائش کہاں؟ لیکن یہ سب باتیں بے توجُّہی اور نہ کرنے کی ہیں، کہ ع
"تُو ہی اگر نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں"
کتنے اللہ کے بندے ہیں کہ جن کے لیے اِن ہی اوقات میں سب چیزوں کی گُنجائش نکل آتی ہے۔ مَیں نے اپنے آقا(استاد) حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ کو مُتعدِّد رمَضانوں میں دیکھا ہے کہ، باوجود ضُعف(کمزوری) اور پِیرانہ سالی(بُڑھاپے) کے مغرب کے بعد نوافل میں سَوا پارہ پڑھنا یا سُنانا، اور اِس کے بعد آدھ گھنٹہ کھانا وغیرہ ضروریات کے بعد ہندوستان کے قِیام میں تقریباً دو ، سوا دو گھنٹے تراویح میں خرچ ہوتے تھے، اور مدینۂ پاک کے قِیام میں تقریباً تین گھنٹے میں عشاء اور تراویح سے فراغت ہوتی، اِس کے بعد آپ حسبِ اختلافِ موسم دو، تین گھنٹے آرام فرمانے کے بعد تہجُّد میں تلاوت فرماتے، اور صبح سے نصف گھنٹہ قَبل سَحر تَناوُل فرماتے، اِس کے بعد سے صبح کی نماز تک کبھی حِفظ تلاوت فرماتے اور کبھی اَورَاد و وَظائف میں مشغول رہتے، اِسفار یعنی چاندنی میں صبح کی نماز پڑھ کر اِشراق تک مُراقِب(مراقبہ میں) رہتے، اور اِشراق کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ آرام فرماتے، اِس کے بعد سے تقریباً بارہ بجے تک اور گرمیوں میں ایک بجے تک (سنن ابوداؤد کی شرح) ’’بَذْلُ المَجْہُوْد‘‘ تحریر فرماتے، اور ڈاک وغیرہ مُلاحَظہ فرماکر جواب لکھاتے، اِس کے بعد ظہر کی نماز تک آرام فرماتے، اور ظہر سے عصر تک تلاوت فرماتے، عصر سے مغرب تک تسبیح میں مشغول رہتے اور حاضِرین سے بات چِیت بھی فرماتے، ’’بَذلُ المَجہُود‘‘ ختم ہوجانے کے بعد صبح کا کچھ حصَّہ تلاوت میں اور کچھ کُتُب بِینی میں، ’’بذلُ المَجہُود‘‘ اور ’’وَفاءُ الوفا‘‘ زیادہ تر اُس وقت زیرِ نظر (نگاہ میں) رہتی تھی۔ یہ اِس پر تھا کہ رمَضانُ المبارک میں معمولات میں کوئی خاص تغیُّر(تبدیلی) نہ تھا، کہ نوافل کا یہ معمول دَائمی(ہمیشہ) تھا، اور نوافلِ مَذکُورہ کا تمام سال بھی اہتمام رہتا تھا؛ البتہ رکعات کے طُول(لمبائی) میں رمَضانُ المبارک میں اِضافہ ہوجاتا تھا؛ ورنہ جن اَکابر کے یہاں رمَضانُ المبارک کے خاص معمولات مُستقِل تھے اُن کا اتِّباع تو ہرشخص سے نِبھنا بھی مشکل ہے۔ حضرت اقدس مولانا شیخ الہندؒ تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے، اور یکے بعد دِیگرے(یعنی ایک کے بعد دوسرا) مُتفرِّق حُفَّاظ سے کلام مجید سنتے رہتے تھے۔ اور حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری قُدِّسَ سِرُّہٗ کے یہاں تو رمَضانُ المبارک کا مہینہ دن و رات تلاوت ہی کا ہوتا تھا، کہ اُس میں ڈاک بھی بند، اور ملاقات بھی ذرا گَوارا(پسند) نہ تھی، بعض مخصوص خُدَّام(خدمت کرنے والوں) کو صِرف اِتنی اجازت ہوتی تھی کہ، تراویح کے بعد جتنی دیر حضرت سادی چائے کے ایک دو فِنجان نوش(چھوٹی پیالی پینا) فرمائیں اُتنی دیر حاضرِ خدمت ہوجایا کریں۔
بزرگوں کے یہ معمولات اِس وجہ سے نہیں لکھے جاتے کہ سَرسَری نگاہ سے اُن کو پڑھ لیا جائے، یا کوئی تَفریحی فِقرہ(جُملہ) اُن پر کہہ دیا جائے؛ بلکہ اِس لیے ہیں کہ اپنی ہِمَّت کے مُوافِق اُن کا اتباع کیا جائے، اور حَتَّی الوَسَع(یعنی جہاں تک ہوسکے) پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے، کہ ہر لائن اپنے مخصوص اِمتِیازات میں دوسرے پر فائق(بڑھا ہوا) ہے۔ جو لوگ دُنیوی مَشاغِل سے مجبور نہیں ہیں کیا ہی اچھا ہوکہ گیارہ مہینے ضائع کردینے کے بعد ایک مہینہ مَرمِٹنے کی کوشش کرلیں! مُلازِم پیشہ حضرات جو دس بجے سے چار بجے تک دفتر میں رہنے کے پابند ہیں، اگر صبح سے دس بجے تک کم ازکم رمَضانُ المبارک کا مبارک مہینہ تلاوت میں خرچ کردیں تو کیا دِقّت(حَرج) ہے؟ آخر دُنیوی ضروریات کے لیے دَفتر کے عِلاوہ اَوقات میں سے وقت نکالا ہی جاتا ہے، اور کھیتی کرنے والے تو نہ کسی کے نوکر، نہ اوقات کے تغیُّر میں اُن کو ایسی پابندی کہ اُس کو بدل نہ سکیں، یا کھیت پر بیٹھے بیٹھے تلاوت نہ کرسکیں، اور تاجروں کے لیے تو اِس میں کوئی دِقَّت ہی نہیں کہ اِس مبارک مہینے میں دُکان کا وقت تھوڑا سا کم کر دیں، یا کم از کم دُکان ہی پر تجارت کے ساتھ تلاوت بھی کرتے رہا کریں، کہ اِس مبارک مہینے کو کلامِ الٰہی کے ساتھ بہت ہی خاص مُناسَبت ہے۔
اِسی وجہ سے عُموماً اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی تمام کتابیں اِسی ماہ(مہینے) میں نازل ہوئی ہیں، چناںچہ قرآنِ پاک لَوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر تمام کا تمام اِسی ماہ میں نازل ہوا، اور وہاں سے حَسبِ موقع(یعنی موقع کے مطابق) تھوڑا تھوڑا تیئیس سال کے عَرصے(مدَّت) میں نازل ہوا۔[شعب الإيمان للبيهقي:2053] اِس کے عِلاوہ حضرت ابراہیم عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کے صَحیفے اِسی ماہ کی یکم یا ۳؍ تاریخ کو عطا ہوئے، اور حضرت داؤدؑ کو زَبور ۱۸؍ یا ۱۲؍ رمَضان کو ملی، اور حضرت موسیٰؑ کو تَورَیت ۶؍ رمَضانُ المُبارک کو عطا ہوئی، اور حضرت عیسیٰؑ کو اِنجیل ۱۲؍ یا ۱۳؍ رمَضان کو ملی[مسند ابویعلیٰ:2190]؛ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس ماہ کو کلامِ اِلٰہی کے ساتھ خاص مُناسَبت ہے۔ اِسی وجہ سے تلاوت کی کثرت اِس مہینے میں منقول ہے اور مشائخ کا معمول۔
حضرت جبرئیلؑ ہر سال رمَضان میں تمام قرآن شریف نبیٔ کریم ﷺ کو سناتے تھے۔[صحیح مسلم:2308]، اور بعض روایات میں آیا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ سے سنتے تھے[تفسیر الدرالمنثور]، عُلَماء نے اِن دونوں حدیثوں کے مِلانے سے قرآنِ پاک کے دَور کرنے کا - جو عام طور سے رَائج(جاری) ہے- اِستِحباب(یعنی مُستَحب ہونا) نکالا ہے۔ بِالجُملہ تلاوت کا خاص اہتمام جتنا بھی ممکن ہوسکے کرے۔ اور جو وقت تلاوت سے بچے اُس کو بھی ضائع کرنا مناسب نہیں، کہ نبیٔ کریم ﷺ نے اِسی حدیث کے آخر میں چار چیزوں کی طرف خاص طور سے مُتوجَّہ فرمایا، اور اِس مہینے میں اُن کی کثرت کا حکم فرمایا: کلمۂ طیبہ اور اِستغفار، اور جنَّت کے حُصُول اور دوزخ سے بچنے کی دعا؛ اِس لیے جتنا بھی وَقت مِل سکے اِن چیزوں میں صَرف(خرچ) کرنا سَعادَت سمجھے، اور یہی نبیٔ کریم ﷺ کے ارشادِ مبارک کی قدر ہے۔ کیا دِقَّت(حرج) ہے کہ اپنے دُنیوی کاروبار میں مشغول رہتے ہوئے زبان سے دُرود شریف یا کلمۂ طیبہ کا بھی وِرد رہے، اور کَل کو یہ کہنے کا مُنہ باقی رہے:
مَیں گو رہا رَہینِ سِتَم ہائے روزگار
(یعنی مَیں اگرچہ زمانے کے ظلموں میں گھِرا رہا)
لیکن تمھاری یاد سے غافل نہیں رہا۔
اِس کے بعد نبیٔ کریم ﷺ نے اِس مہینے کی کچھ خُصوصِیَّتیں اور آداب ارشاد فرمائے: اوَّلاً یہ کہ: یہ صبر کا مہینہ ہے، یعنی اگر روزہ وغیرہ میں کچھ تکلیف ہو تو اُسے ذوق شوق سے برداشت کرنا چاہیے، یہ نہیں کہ مار دھاڑ، ہَول پُکار(شور وغوغا)؛ جیساکہ اکثرلوگوں کی گرمی کے رَمَضان میں عادت ہوتی ہے، اِسی طرح اگر اتِّفاق سے سحر نہ کھائی گئی تو صبح سے ہی روزے کا سوگ(غم) شروع ہوگیا، اِسی طرح رات کی تراویح میں اگر دِقَّت(تکلیف) ہو تو اُس کو بڑی بَشاشَت(خوشی) سے برداشت کرنا چاہیے، اُس کو مصیبت اور آفت نہ سمجھیں، کہ یہ بڑی سخت محرومی کی بات ہے۔ ہم لوگ دُنیوی معمولی اَغراض کی بہ دولت کھانا پینا، راحت وآرام سب چھوڑ دیتے ہیں، تو کیا رَضائے اِلٰہی کے مُقابلے میں اِن چیزوں کی کوئی وَقعَت(اہمیت) ہوسکتی ہے!!۔
پھر ارشاد ہے کہ: یہ غم خواری کا مہینہ ہے، یعنی: غُرَباء(غریب لوگ)، مَساکِین کے ساتھ مُدارَات(اچھی طرح پیش آنے) کا برتاؤ کرنا، اگر دس چیزیں اپنی افطاری کے لیے تیار کی ہیں تو دو چار غُرباء کے لیے بھی کم از کم ہونی چاہیے، ورنہ اصل تو یہ تھا کہ اُن کے لیے اپنے سے اَفضل نہ ہوتا تو مُساوات(برابری) ہی ہوتی؛ غرض جس قدر بھی ہِمَّت ہوسکے اپنے اِفطار وسَحر کے کھانے میں غُرباء کا حصہ بھی ضرور لگانا چاہیے۔
صحابۂ کرامؓ اُمَّت کے لیے عملی نمونہ اور دِین کے ہر جُزو کو اِس قدر واضح طور پر عمل فرماکر دِکھلا گئے، کہ اب ہر نیک کام کے لیے اُن کی شاہ راہِ عمل(یعنی عمل کا راستہ) کھلی ہوئی ہے، اِیثار(ترجیح دینے) و غم خواری(ہم دَردی) کے باب میں اُن حضرات کا اتِّباع بھی دِل گُردے والے کا کام ہے، سینکڑوں ہزاروں واقعات ہیں جن کو دیکھ کر بجُز(سوائے) حیرت کے کچھ نہیں کہا جاتا۔ ایک واقعہ مثالاً لکھتا ہوں:
ابو جَہمؓ کہتے ہیں کہ: یَرمُوک کی لڑائی میں مَیں اپنے چچازاد بھائی کو تلاش کرنے چلا، اور اِس خَیال سے پانی کا مَشکِیزہ بھی لے لیا کہ اگر اُس میں کچھ رَمَق(جان) باقی ہوئی تو پانی پِلا دُوں گا، اور ہاتھ مُنہ دھو دُوں گا، وہ اِتِّفاق سے پڑے ہوئے مِلے، مَیں نے اُن سے پانی کو پوچھا، اُنھوں نے اِشارے سے مانگا، کہ اِتنے میں برابر سے دوسرے زخمی نے آہ کی، چچا زاد بھائی نے پانی پینے سے پہلے اُس کے پاس جانے کا اشارہ کیا، اُس کے پاس گیا اور پوچھا، تو معلوم ہوا کہ وہ بھی پیاسے ہیں اور پانی مانگتے ہیں، کہ اِتنے میں اُن کے پاس والے نے اشارہ کردیا، اُنھوں نے بھی خود پانی پینے سے قبل اُس کے پاس جانے کا اشارہ کیا، اِتنے مَیں وہاں تک پہنچا تو اُن کی رُوح پَروَاز کرچکی تھی، واپس دوسرے صاحب کے پاس پہنچا تو وہ بھی ختم ہوچکے تھے، تو لَوٹ کر چچازاد بھائی کے پاس آیا، تو دیکھا کہ اُن کا بھی وِصال ہوگیا۔
[شعب الإيمان للبيهقي:3208]
یہ ہیں تمھارے اَسلاف کے اِیثار، کہ خود پیاسے جان دے دی اور اجنبی بھائی سے پہلے پانی پینا گَوارا(پسند) نہ کیا ۔رَضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَأرْضَاھُمْ، وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَھُمْ، اٰمین.
’’رُوحُ البَیان‘‘ میں سِیُوطیؒ کی ’’جَامِعُ الصَّغِیر‘‘ اور سَخاوِیؒ کی ’’المقاصد الحسنة‘‘ سے بہ روایتِ حضرت ابنِ عمرؓ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد نقل کیاہے کہ: میری اُمَّت میں ہروقت پانچ سو برگُزِیدہ(منتخب) بندے اور چالیس اَبدال رہتے ہیں، جب کوئی شخص اُن میں سے مرجاتا ہے فوراً دوسرا اُس کی جگہ لے لیتا ہے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ: اُن لوگوں کے خصوصی اعمال کیا ہیں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ظلم کرنے والوں سے دَرگُزر کرتے ہیں، اور بُرائی کا مَعاملہ کرنے والوں سے (بھی) اِحسان کا برتاؤ کرتے ہیں، اور اللہ کے عطا فرمائے ہوئے رِزق میں لوگوں کے ساتھ ہَمدردی اور غم خواری کا برتاؤ کرتے ہیں۔
[حلية الأولياء(امام)أبو نعيم: ج1 ص8]
ایک دوسری حدیث سے نقل کیا ہے کہ: جو شخص بھوکے کو روٹی کھلائے، یا ننگے کو کپڑا پہنائے، یا مسافر کو شب باشی(رات رہنے) کی جگہ دے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قِیامت کے ہَولوں(پریشانیوں) سے اُس کو پناہ دیتے ہیں۔
[شعب الإيمان للبيهقي:3955]
یحییٰ بَرمَکِیؒ، حضرت سفیان ثوریؒ پر ہر ماہ ایک ہزار درہم خرچ کرتے تھے، تو حضرت سفیانؒ سجدے میں اُن کے لیے دعا کرتے تھے کہ: ’’یا اللہ! یحییٰ نے میری دنیا کی کِفایت کی(یعنی حسبِ ضرورت فائدہ پہنچایا) ، تُو اپنے لُطف سے اُس کی آخرت کی کِفایت فرما‘‘، جب یحییٰ کا انتقال ہوا تو لوگوں نے خواب میں اُن سے پوچھا کہ: کیا گزری؟ اُنھوں نے کہا کہ: سفیانؒ کی دُعا کی بہ دولت مغفرت ہوئی۔
اِس کے بعد حضور ﷺ نے روزہ افطار کرانے کی فضیلت ارشاد فرمائی۔ ایک اَور روایت میں آیا ہے کہ: جو شخص حلال کمائی سے رَمَضان میں روزہ افطار کرائے اُس پر رمَضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیں، اور شبِ قدر میں جِبرئیلؑ اُس سے مُصافَحہ کرتے ہیں، اور جس سے حضرت جبرئیلؑ مصافحہ کرتے ہیں (اُس کی علامت یہ ہے کہ) اُس کے دِل میں رِقَّت(نرمی) پیدا ہوتی ہے، اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ حَمَّاد بن سَلمہؒ -ایک مشہور مُحدِّث ہیں- روزانہ پچاس آدمیوں کے روزہ افطار کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔[روحُ البیان]
افطار کی فضیلت ارشاد فرمانے کے بعد فرمایا ہے کہ: اِس ماہ کا اوَّل حصَّہ رحمت ہے، یعنی: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا اِنعام مُتوجَّہ ہوتا ہے، اور یہ رحمتِ عامَّہ سب مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے، اِس کے بعد جو لوگ اِس کا شکر ادا کرتے ہیں اُن کے لیے اِس رحمت میں اِضافہ(زیادتی) ہوتا ہے: ﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ﴾، اور اِس کے درمیانی حصے سے مغفرت شروع ہوجاتی ہے؛ اِس لیے کہ روزوں کا کچھ حصہ گزر چکا ہے، اُس کا مُعاوَضہ(بدلہ) اور اِکرام مغفرت کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے، اور آخری حصَّہ تو بالکل آگ سے خَلاصی(چھُٹکارا) ہے ہی۔ اَور بھی بہت سی رِوایات میں ختمِ رمَضان میں آگ سے خَلاصِی کی بشارتیں وَارِد ہوئی ہیں۔
رمَضان کے تین حِصے کیے گئے جیساکہ مضمونِ بالا(یعنی اوپر والا مضمون) سے معلوم ہوا، بندۂ ناچیز(مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ) کے خَیال میں تین حصے: رحمت اور مغفرت اور آگ سے خَلاصی کے درمیان میں فرق یہ ہے کہ، آدمی تین طرح کے ہیں: ایک وہ لوگ جن کے اوپر گناہوں کا بوجھ نہیں، اُن کے لیے شروع ہی سے رحمت اور انعام کی بارش ہوجاتی ہے۔ دوسرے وہ لوگ جو معمولی گنہگار ہیں، اُن کے لیے کچھ حصہ روزہ رکھنے کے بعد اُن روزوں کی برکت اور بدلے میں مغفرت اور گناہوں کی مُعافی ہوتی ہے۔ تیسرے وہ جو زیادہ گنہگار ہیں، اُن کے لیے زیادہ حصہ روزہ رکھنے کے بعد آگ سے خَلاصی ہوتی ہے، اور جن لوگوں کے لیے ابتدا ہی سے رحمت تھی اور اُن کے گناہ بخشے بخشائے تھے، اُن کا تو پوچھنا ہی کیا! کہ اُن کے لیے رحمتوں کے کس قدر اَنبار(ڈھیر) ہوںگے!! (وَاللہُ أعْلَمُ وَعِلْمُہٗ أتَمُّ).
اِس کے بعد حضور ﷺ نے ایک اَور چیز کی طرف رَغبت دِلائی ہے، کہ آقا لوگ اپنے مُلازِموں پر اِس مہینے میں تَخفیف(آسانی) رکھیں؛ اِس لیے کہ آخر وہ بھی روزے دار ہیں، کام کی زیادتی سے اُن کو روزے میں دِقَّت(پریشانی) ہوگی؛ البتہ اگر کام زیادہ ہو تو اِس میں مُضایَقہ(حرج) نہیں کہ رمَضان کے لیے ہَنگامی(وَقتی) مُلازِم ایک آدھ بڑھالے؛ مگر جب ہی کہ مُلازِم روزے دار بھی ہو، ورنہ اُس کے لیے رمَضان بے رمَضان برابر، اور اِس ظلم و بے غیرتی کا تو ذکر ہی کیا کہ خود روزہ خور(بے روزہ) ہوکر بے حَیا مُنہ سے روزے دار ملازموں سے کام لے، اور نماز روزے کی وجہ سے اگر تَعمِیل(عمل کرنے) میں کچھ تَساہُل(سستی) ہو تو برسنے لگے: ﴿وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَيَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ﴾ (ترجَمہ:) اور عَن قَریب ظالم لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیسی(مصیبت) کی جگہ لوٹ کر جائیں گے، (مراد جہنَّم ہے)۔[سورۃ الشعراء: ٢٢٧]
اِس کے بعد نبیٔ کریم ﷺ نے رمَضانُ المبارک میں چار چیزوں کی کثرت کا حکم فرمایا: اوَّل: کلمۂ شہادت، احادیث میں اِس کو اَفضلُ الذِّکر(سب ذکر سے افضل) ارشاد فرمایا ہے، مشکوٰۃ میں بروایتِ ابو سعید خُدریؓ نقل کیا ہے کہ: حضرت موسیٰؑ نے ایک مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ: یا اللہ! تُو مجھے کوئی ایسی دعا بتلادے کہ اُس کے ساتھ مَیں تجھے یاد کیا کروں اور دعا کیا کروں، وہاں سے لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ارشاد ہوا، حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا کہ: یہ کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں، مَیں تو کوئی دعا یا ذکرِ مخصوص چاہتا ہوں، وہاں سے ارشاد ہوا کہ: اے موسیٰ! اگر ساتوں آسمان اور اُن کے آباد کرنے والے میرے سِوا یعنی ملائکہ اور ساتوں زمین ایک پلڑے میں رکھ دیے جاویں، اور دوسرے میں کلمۂ طیبہ رکھ دیا جاوے تو وہی جھک جائے گا۔[حاکم:1936]
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ: جو شخص اخلاص سے اِس کلمے کو پڑھے آسمان کے دروازے اُس کے لیے فوراً کھل جاتے ہیں، اور عرش تک پہنچنے میں کسی قِسم کی رَوک نہیں ہوتی بشرطیکہ کہنے والا کَبائِر(بڑے گناہ) سے بچے۔[ترمذی:3590] عادتُ اللہ اِسی طرح جاری ہے کہ، ضرورتِ عامَّہ کی چیز کو کثرت سے مَرحَمَت(عطا) فرماتے ہیں، دنیا میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز جس قدر ضرورت کی ہوتی ہے اُتنی ہی عام ہوتی ہے، مثلاً: پانی ہے، کہ عام ضرورت کی چیز ہے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی بے پایاں(بے انتہا) رحمت نے اُس کو کس قدر عام کر رکھا ہے، اور کِیمیا(یعنی رانگ کو چاندی یا تانبے کو سونا بنانے) جیسی لَغو اور بےکار چیز کو عَنقا(نادِر،غائب) کردیا ہے، اِسی طرح کلمۂ طیبہ اَفضلُ الذِّکر ہے، مُتعَدِّد احادیث سے اُس کی تمام اَذکار پر اَفضَلِیَّت معلوم ہوتی ہے، اُس کو سب سے عام کر رکھا ہے کہ کوئی محروم نہ رہے، پھر بھی اگر کوئی محروم رہے تو اُس کی بدبختی ہے۔ بِالجُملہ بہت سی احادیث اِس کی فضیلت میں وَارِد ہوئی ہے جن کو اِختصاراً (مختصر ہونا) تَرک کیا جاتا ہے۔
دوسری چیز جس کی کثرت کرنے کو حدیثِ بالا میں ارشاد فرمایا گیا وہ اِستِغفار ہے، احادیث میں اِستغفار کی بھی بہت ہی فضیلت وارد ہوئی ہے: ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ: جو شخص استغفار کی کثرت رکھتا ہے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ہر تنگی میں اُس کے لیے راستہ نکال دیتے ہیں، اور ہر غم سے نجات نصیب فرماتے ہیں، اور ایسی طرح روزی پہنچاتے ہیں کہ اُس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔[حاکم:7677] ایک حدیث میں آیا ہے کہ: آدمی گنہگار تو ہوتا ہی ہے، بہترین گنہگار وہ ہے جو توبہ کرتا رہے۔[ابن ماجہ:4244] ایک حدیث قریب آنے والی ہے کہ: جب آدمی گناہ کرتا ہے تو ایک کالا نقطہ اُس کے دِل پر لگ جاتا ہے، اگر توبہ کرتا ہے تو وہ دُھل جاتا ہے ورنہ باقی رہتا ہے۔[ترمذی:2499]
اِس کے بعد حضور ﷺ نے دو چیز کے مانگنے کا اَمر(حکمؔ) فرمایا ہے جن کے بغیر چارہ ہی نہیں: جنت کا حُصُول اور دوزخ سے اَمن۔ اللہ اپنے فضل سے مجھے بھی مَرحَمَت فرمائے اور تمھیں بھی۔
(رواہ أحمد والبزار والبیهقي، ورواہ أبوالشیخ ابن حبان في کتاب الثواب؛ إلا أن عندہٗ: ’’وَتَسْتَغْفِرُ لَهُمُ الْمَلٰئِکَۃُ‘‘ بدل ’’الْحِیتَانَ‘‘، کذا في الترغیب)
ترجَمہ:
حضرت ابوہریرہؓ نے حضورِ اکرم ﷺ سے نقل کیا کہ: میری اُمَّت کو رمَضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مَخصُوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی اُمَّتوں کو نہیں ملی ہیں: (۱) یہ کہ اُن کے مُنہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مُشک سے زیادہ پسند ہے۔ (۲) یہ کہ اُن کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں، اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ (۳) جنت ہر روز اُن کے لیے آراستہ(مُزیَّن) کی جاتی ہے، پھر حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرماتے ہیں کہ: قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مَشقَّتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آویں۔ (۴) اِس میں سَرکش شیاطِین قید کر دیے جاتے ہیں، کہ وہ رمَضان میں اُن بُرائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیرِ رمَضان میں پہنچ سکتے ہیں۔ (۵) رمَضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ: یہ شبِ مغفرت، شبِ قدر ہے؟ فرمایا: نہیں؛ بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے۔
[مسند احمد:7917، فضائل رمضان لابن أبي الدنيا:18، مسند الحارث:319، مسند البزار8571، مختصر قيام الليل للمروزي: ص258، شرح مشكل الآثار للطحاوي:2013، المجالسة وجواهر العلم:2991، تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي:453، فضائل رمضان لابن شاهين:27، شعب الإيمان للبيهقي:3330]
نبیٔ کریم ﷺ نے اِس حدیثِ پاک میں پانچ خُصوصِیَّتیں ارشاد فرمائی ہیں، جو اِس اُمَّت کے لیے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف سے مخصوص انعام ہوئی، اور پہلی اُمَّت کے روزے داروں کو مَرحَمَت(عِنایت) نہیں ہوئی، کاش! ہمیں اِس نعمت کی قدر ہوتی، اور اِن خصوصی عَطایا کے حُصُول کی کوشش کرتے۔
اوَّل یہ کہ، روزے دار کے مُنہ کی بدبو - جو بھوک کی حالت میں ہوجاتی ہے- حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کے نزدیک مُشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ شُرَّاحِ حدیث کے اِس لفظ کے مطلب میں آٹھ قول ہیں، جن کو ’’مُؤطَّا‘‘ کی شرح (اوجز المسالک) میں بندہ (مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ) مُفصَّل نقل کرچکا ہے؛ مگر بندے کے نزدیک اُن میں سے تین قول راجح ہیں: اوَّل یہ کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ آخرت میں اُس بدبو کا بدلہ اور ثواب خوشبو سے عطا فرمائیں گے جو مُشک سے زیادہ عمدہ اور دِماغ پَروَر(یعنی دِماغ کو تازگی پہنچانے والی) ہوگی، یہ مطلب تو ظاہر ہے، اور اِس میں کچھ بُعد(دُوری) بھی نہیں، نیز ’’دُرِّ منثور‘‘ کی ایک روایت میں اِس کی تَصرِیح(وَضاحت) بھی ہے؛ اس لیے یہ بہ منزلۂ مُتعیَّن کے ہے۔[الجوع لابن أبي الدنيا:140] دوسرا قول یہ ہے کہ: قِیامت میں جب قبروں سے اُٹھیں گے تو یہ علامت ہوگی، روزے دار کے مُنہ سے ایک خوشبو جو مُشک سے بھی بہتر ہوگی وہ آئے گی۔ تیسرا مطلب جو بندے کی ناقِص رائے میں اِن دونوں سے اچھا ہے، وہ یہ کہ: دنیا ہی میں اللہ کے نزدیک اِس بُو کی قدر مُشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور یہ اَمر بابُ المَحبَّت سے ہے، جس کو کسی سے محبت وتعلُّق ہوتا ہے اُس کی بُو بھی فَریفتہ(عاشق) کے لیے ہزار خوشبوؤں سے بہتر ہوا کرتی ہے:
اے حافظِ مسکین! چہ کُنی مُشکِ خُتَن را
اَز گَیسُوئے احمد بِسِتاں عِطرِ عَدنَ رَا
(یعنی اے مسکین حافظ! خُتن(تُرکِستان میں ایک علاقہ جہاں کا عِطر مشہور ہے)کے مُشک کو کیا کرے گا؟ تُو احمد ﷺ کے گیسُو(زلفوں) سے عَدن(جَنَّت)کا عِطر لے لے۔)
مقصود روزے دار کا کمالِ تقرُّب(بالکل قریب ہونا) ہے، کہ بہ منزلۂ محبوب کے بن جاتا ہے، روزہ حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ کی محبوب تَرِین(بہت زیادہ پسندیدہ) عبادتوں میں سے ہے، اِسی وجہ سے ارشاد ہے کہ: ’’ہر نیک عمل کا بدلہ ملائکہ دیتے ہیں؛ مگر روزے کا بدلہ مَیں خود عطا کرتا ہوں؛ اِس لیے کہ وہ خالص میرے لیے ہے‘‘۔ بعض مَشائِخ سے مَنقُول ہے کہ: یہ لفظ ’’أُجْزیٰ بِہٖ‘‘ ہے، یعنی یہ کہ اِس(روزے) کے بدلے میں مَیں خود اپنے کو دیتا ہوں۔[بخاری:1904]، اور مَحبُوب کے مِلنے سے زیادہ اُونچا بدلہ اَور کیا ہوسکتا ہے؟۔ ایک حدیث میں اِرشاد ہے کہ: ساری عِبادتوں کا دروازہ روزہ ہے۔[الزهد والرقائق-ابن المبارك:1423]، یعنی: روزے کی وجہ سے قَلب مُنوَّر(نور والا) ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عبادت کی رَغبت پیدا ہوتی ہے؛ مگر جب ہی کہ روزہ بھی روزہ ہو، صرف بھوکا رہنا مراد نہیں؛ بلکہ آداب کی رِعایت رکھ کر، جن کا بیان حدیث نمبر ۹؍ کے ذیل میں مُفصَّل آئے گا۔
اِس جگہ ایک ضروری مسئلہ قابلِ تنبیہ یہ ہے کہ، اِس مُنہ کی بدبو والی حدیثوں کی بِنا پر بعض ائِمَّہ روزے دار کو شام کے وقت مسواک کرنے کو منع فرماتے ہیں، حَنفِیَّہ کے نزدیک مسواک ہر وقت مُستَحب ہے؛ اِس لیے کہ مِسواک سے دانتوں کی بُو زَائل(ختم) ہوتی ہے، اور حدیث میں جس بُو کا ذِکر ہے وہ مِعدے کے خالی ہونے کی ہے نہ کہ دانتوں کی۔ حَنفِیَّہ کے دَلائل اپنے موقع پر کُتُبِ فِقہ وحدیث میں موجود ہیں۔
دوسری خُصوصِیَّت: مچھلیوں کے اِستِغفارکرنے کی ہے، اِس سے مقصود کثرت سے دعا کرنے والوں کا بیان ہے۔ مُتعدِّد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، بعض روایات میں ہے کہ:
مَلائکہ اُس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔
[شعب الإيمان للبيهقي:3603]۔
میرے چچا جان کا ارشاد ہے کہ: مچھلیوں کی خُصوصِیَّت بہ ظاہر اِس وجہ سے ہے کہ، اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا ارشاد ہے:
ترجَمہ: جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُن کے لیے (دنیا ہی میں) مَحبُوبِیَت فرمادیں گے۔
[سورۃ مریم:96]
اور حدیثِ پاک میں ارشاد ہے:
’’جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو جبرئیلؑ سے ارشاد فرماتے ہیں کہ: مجھے فلاں شخص پسند ہے تم بھی اُس سے محبت کرو، وہ خود محبت کرنے لگتے ہیں، اور آسمان پر آواز دیتے ہیں کہ: فلاں بندہ اللہ کا پسندیدہ ہے تم سب اُس سے محبت کرو، پس اُس آسمان والے اُس سے محبت کرتے ہیں، اور پھر اُس کے لیے زمین پر قَبولِیت(قَبول ہونا) رکھ دی جاتی ہے‘‘۔
[بخاری:3209]
اور عام قاعدے کی بات ہے کہ ہر شخص کی محبت اُس کے پاس رہنے والوں کو ہوتی ہے؛ لیکن اِس کی مَحبَّت اِتنی عام ہوتی ہے کہ، آس پاس رہنے والوں ہی کو نہیں؛ بلکہ دریا کے رہنے والے جانوروں کو بھی اِس سے محبت ہوتی ہے، کہ وہ بھی دعا کرتے ہیں، اور گویا بَر(خشکی) سے مُتجاوِز ہوکر بَحر(سمندر) تک پہنچنا محبوبیت کی اِنتِہا ہے؛ نیز جنگل کے جانوروں کا دعا کرنا بہ طریقِ اَولیٰ معلوم ہوگیا۔
تیسری خصوصیت: جنت کا مُزیَّن(تیار) ہونا ہے، یہ بھی بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے، بعض روایات میں آیا ہے کہ: سال کے شروع ہی سے رَمَضان کے لیے جنت کو آراستہ(مُزیَّن) کرنا شروع ہوجاتا ہے۔[شعب الإيمان للبيهقي:3695] اور قاعدے کی بات ہے کہ جس شخص کے آنے کا جس قدر اہتمام ہوتا ہے اُتنا ہی پہلے سے اُس کا انتظام کیا جاتا ہے، شادی کا اہتمام مہینوں پہلے سے کیا جاتا ہے۔
چوتھی خصوصِیَّت: سَرکَش شیاطِین کا قَید ہوجانا ہے، کہ جس کی وجہ سے مَعاصی (گناہ) کا زور کم ہوجاتا ہے، رمَضانُ المبارک میں رحمت کے جوش اور عبادت کی کثرت کا مُقتَضیٰ(تقاضہ) یہ تھا کہ شیاطین بہکانے میں بہت ہی اَن تھک(بے حد) کوشش کرتے، اور پاؤں چوٹی کا زور ختم کردیتے، اور اِس وجہ سے مَعاصی کی کثرت اِس مہینے میں اِتنی ہوجاتی کہ حد سے زیادہ؛ لیکن باوجود اِس کے یہ مُشاہَدہ ہے اور مُحقَّق، کہ مجموعی طور سے گناہوں میں بہت کمی ہوجاتی ہے، کتنے شرابی کبابی ایسے ہیں کہ رمَضان میں خصوصیت سے نہیں پیتے، اور اِسی طرح اَور بھی گناہوں میں کھلی کمی ہوجاتی ہے؛ لیکن اِس کے باوجود گناہ ہوتے ضرور ہیں؛ مگر اُن کے سَرزَد(واقع) ہونے سے اِس حدیثِ پاک میں تو کوئی اشکال نہیں؛ اِس لیے کہ اِس کا مضمون ہی یہ ہے کہ سَرکَش(بَغاوَت کرنے والے) شیاطین قید کردیے جاتے ہیں، اِس بِنا پر اگر وہ گناہ غیر سَرکَشوں کا اثر ہو تو کچھ خَلجان(اِشکال) نہیں؛ البتہ دوسری روایات میں سرکش کی قَید بغیر مُطلَقاً شیاطین کے مُقیَّد(قید) ہونے کا ارشاد بھی موجود ہے، پس اگر اُن روایات سے بھی سرکش شیاطِین کا ہی قَید ہونا مُراد ہے -کہ بَسا اَوقات(یعنی بہت سی مرتبہ) لفظ مُطلَق(بےقید) بولا جاتا ہے؛ مگر دوسری جگہ سے اُس کی قُیُودات معلوم ہوجاتی ہیں- تب بھی کوئی اشکال نہیں رہا؛ البتہ اگر اُن روایات سے سب شیاطِین کا مَحبُوس(قید) ہونا مراد ہو تب بھی اِن مَعاصِی کے صادِر ہونے سے کچھ خَلجَان نہ ہونا چاہیے؛ اِس لیے کہ اگرچہ مَعاصِی عُموماً شیاطین کے اثر سے ہوتے ہیں؛ مگر سال بھر تک اُن کے تَلبُّس(مَیل جول) اور اِختلاط (ساتھ رہنا) اور زَہریلے اثر کے جَماؤ کی وجہ سے نفس اُن کے ساتھ اِس درجہ مانُوس(مائل) اور مُتاثِّر(یعنی اثر لیا ہوا) ہوجاتا ہے کہ تھوڑی بہت غَیبَت(غائب ہونا) محسوس نہیں ہوتی؛ بلکہ وہی خَیالات اپنی طبیعت بن جاتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بغیر رَمَضان کے جن لوگوں سے گناہ زیادہ سَرزَد ہوتے ہیں رمَضان میں بھی اُن ہی سے زیادہ تر صُدور ہوتا ہے، اور آدمی کا نفس چوںکہ ساتھ رہتا ہے؛ اِسی لیے اُس کا اثر ہے۔
دوسری بات ایک اَور بھی ہے: نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جب آدمی کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کے قَلب میں ایک کالا نُقطہ لگ جاتا ہے، اگر وہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو وہ دُھل جاتا ہے؛ ورنہ لگا رہتا ہے، اور اگر دوسری مرتبہ گناہ کرتا ہے تو دوسرا نقطہ لگ جاتا ہے، حتیّٰ کہ اُس کا قلب بالکل سِیَاہ(کالا) ہوجاتا ہے، پھر خیر کی بات اُس کے قلب تک نہیں پہنچتی، اِسی کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنے کلامِ پاک میں ﴿كَلَّاۖ بَلۡۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم﴾ [سورة المطففين:14] سے ارشاد فرمایا ہے، کہ اُن کے قلوب زَنگ آلود(زَنگ لگا ہوا) ہوگئے[ابن ماجہ:4244]، ایسی صورت میں وہ قلوب اُن گناہوں کی طرف خود مُتوجَّہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ایک نوع کے گناہوں کو بے تکلُّف کرلیتے ہیں؛ لیکن اُسی جیسا جب کوئی دوسرا گناہ سامنے ہوتا ہے تو قلب کو اُس سے انکار ہوتا ہے، مثلاً: جو لوگ شراب پیتے ہیں اُن کو اگر سوَّر کھانے کو کہا جائے تو اُن کی طبیعت کو نفرت ہوتی ہے؛ حالاںکہ مَعصِیت(گناہ) میں دونوں برابر ہیں، تو اِسی طرح جب کہ غیرِ رمَضان میں وہ اُن گناہوں کو کرتے رہتے ہیں تو دل اُن کے ساتھ رَنگے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے رمَضانُ المبارک میں بھی اُن کے سرزد ہونے کے لیے شیاطِین کی ضرورت نہیں رہتی۔ بِالجُملہ اگر حدیثِ پاک سے سب شیاطِین کا مُقیَّد ہوجانا مراد ہے تب بھی رمَضانُ المبارک میں گناہوں کے سرزَد ہونے سے کچھ اشکال نہیں، اور اگر مُتمَرِّد(سرکش) اور خبیث شیاطین کا مُقیَّد ہونا مراد ہو تب تو کوئی اِشکال ہے ہی نہیں، اور بندۂ ناچیز (مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ) کے نزدیک یہی توجیہ اَولیٰ ہے۔ اور ہر شخص اِس کو غور کرسکتا ہے اور تجربہ کرسکتا ہے، کہ رمَضانُ المبارک میں نیکی کرنے کے لیے یا کسی مَعصِیت سے بچنے کے لیے اِتنے زور نہیں لگانے پڑتے جتنے غیرِ رمَضان میں پڑتے ہیں، تھوڑی سی ہِمَّت اور توجُّہ کافی ہوجاتی ہے۔
حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحبؒ کی رائے یہ ہے کہ: یہ دونوں حدیثیں مختلف لوگوں کے اعتبار سے ہیں، یعنی فُسَّاق کے حق میں صرف مُتکبِّر شیاطین قَید ہوتے ہیں، اور صُلَحاء کے حق میں مُطلَقاً ہر قِسم کے شیاطِین مَحبُوس ہوجاتے ہیں۔
پانچویں خصوصِیَّت یہ ہے کہ، رمَضانُ المبارک کی آخری رات میں سب روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے، یہ مضمون پہلی روایت میں بھی گزرچکا ہے؛ چوںکہ رمَضانُ المبارک کی راتوں میں شبِ قدر سب سے اَفضل رات ہے؛ اِس لیے صحابۂ کرامؓ نے خَیال فرمایا کہ، اِتنی بڑی فضیلت اِسی رات کے لیے ہوسکتی ہے؛ مگر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اُس کے فضائل مُستقِل علاحدہ چیز ہے، یہ انعام تو ختمِ رمَضان کا ہے۔
(رواہ الحاکم، وقال السخاوي: رواہ ابن حبان فيثقاتہ وصحیحہ، والطبراني في الکبیر، والبخاري في بر الوالدین لہٗ، والبیهقي في الشعب، وغیرهم؛ ورجالہ ثقات، وبسط طرقہ. وروی الترمذي عن أبي هریرۃ بمعناہ، وقال ابن حجر: طرقہ کثیرۃ کما في المرقاۃ)
ترجَمہ:
حضرت کَعب بن عُجرہؓ کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ نبیٔ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: منبر کے قریب ہوجاؤ، ہم لوگ حاضر ہوگئے، جب حضور ﷺ نے منبر کے پہلے درجے پر قدم مُبارک رکھا تو فرمایا: آمین، جب دوسرے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین؛ جب آپ ﷺ خطبے سے فارغ ہوکر نیچے اُترے تو ہم نے عرض کیا کہ: ہم نے آج آپ سے (منبر پر چڑھتے ہوئے) ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اُس وقت جبرئیلؑ میرے سامنے آئے تھے، (جب پہلے درجے پر مَیں نے قدم رکھا تو) اُنھوں نے کہا کہ: ہلاک ہوجیو وہ شخص جس نے رَمَضان کامبارک مہینہ پایا پھر بھی اُس کی مغفرت نہ ہوئی، مَیںنے کہا: آمین، پھر جب مَیں دوسرے درجے پر چڑھا تو اُنھوںنے کہا: ہلاک ہوجیو وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکرِ مبارک ہو اور وہ دُرود نہ بھیجے، مَیں نے کہا: آمین، جب مَیں تیسرے درجے پر چڑھا تو اُنھوں نے کہا: ہلاک ہووہ شخص جس کے سامنے اُس کے والدین یا اُن میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پاویں اور وہ اُس کو جنَّت میں داخل نہ کرائیں، مَیں نے کہا:آمین۔
[المعجم الكبير للطبراني:315، المستدرك على الصحيحين للحاكم:7256]
اِس حدیث میں جبرئیلؑ نے تین بد دُعائیں دی ہیں اور حضورِ اقدس ﷺ نے اُن تینوں پر آمین فرمائی، اوَّل تو حضرت جبرئیلؑ جیسے مُقرَّب فرشتے کی بددُعا ہی کیا کم تھی! اور پھر حضورِ اقدس ﷺ کی آمین نے تو جتنی سخت بد دعا بنادی وہ ظاہر ہے، اللہ ہی اپنے فضل سے ہم لوگوں کو اِن تینوں چیزوں سے بچنے کی توفیق عطا فرماویں اور اِن برائیوں سے محفوظ رکھیں؛ ورنہ ہلاکت میں کیا تردُّد(شک) ہے!!۔ ’’دُرِّ مَنثُور‘‘ کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ: خود حضرت جبرئیلؑ نے حضور ﷺ سے کہا کہ: آمین کہو، تو حضور ﷺ نے فرمایا: آمین[طبرانی:2022]، جس سے اَور بھی زیادہ اِہتمام معلوم ہوتا ہے۔
اوَّل وہ شخص کہ، جس پر رمَضان المبارک گزر جائے اور اُس کی بخشش نہ ہو، یعنی رمَضانُ المبارک جیسا خیر و برکت کا زمانہ بھی غفلت اور مَعاصی میں گزرجائے، کہ رمَضانُ المبارک میں مغفرت اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے، پس جس شخص پر رمَضانُ المبارک کا مہینہ بھی اِس طرح گزرجائے کہ اُس کی بداعمالیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وہ مغفرت سے محروم رہے، تو اُس کی مغفرت کے لیے اَور کون سا وقت ہوگا؟ اور اُس کی ہلاکت میں کیا تأمُّل(شک) ہے؟ اور مغفرت کی صورت یہ ہے کہ، رمَضانُ المبارک کے جو کام ہیں یعنی: روزہ و تراویح، اُن کو نہایت اہتمام سے ادا کرنے کے بعد ہر وقت کثرت کے ساتھ اپنے گناہوں سے توبہ واِستِغفار کرے۔
دوسرا شخص جس کے لیے بد دعا کی گئی وہ ہے جس کے سامنے نبیٔ کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک ہو اور وہ دُرود نہ پڑھے۔ اَور بھی بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، اِسی وجہ سے بعض عُلَماء کے نزدیک جب بھی نبیٔ کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک ہو تو سننے والوں پر درود شریف پڑھنا واجب ہے۔ حدیثِ بالا کے عِلاوہ اَور بھی بہت سی وعیدیں اُس شخص کے بارے میں وَارِد ہوئی ہیں جس کے سامنے حضور ﷺ کا تذکرہ ہو اور وہ درود نہ بھیجے، بعض احادیث میں اُس کو شَقِی(بدبخت) اور بخیل تَر لوگوں میں شمار کیا گیا ہے[ترمذي:3546]، نیز جَفاکار(بے وَفا) [مصنف عبدالرزاق:3121] اور جنت کا راستہ بھولنے والا [ابن ماجه:908]، حتیٰ کہ جہنَّم میں داخل ہونے والا، بددِین تک فرمایا ہے[طبراني:12551]؛ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ: وہ نبیٔ کریم ﷺ کا چہرۂ انور نہ دیکھے گا۔[القول البديع: ص53]
مُحقِّقین عُلَماء نے ایسی روایات کی تاوِیل فرمائی ہو؛ مگر اِس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ درود شریف نہ پڑھنے والے کے لیے آپ کے ظاہرِ ارشادات اِس قدر سخت ہیں کہ اُن کا تحمُّل(برداشت کرنا) دُشوار ہے؟ اور کیوں نہ ہو! کہ آپ ﷺ کے اِحسانات اُمَّت پر اِس سے کہیں زیادہ ہیں کہ تحریر وتقریر اُن کا اِحصَا(شمار) کرسکے۔ اِس کے عِلاوہ آپ کے حقوق اُمَّت پر اِس قدر زیادہ ہیں کہ اُن کو دیکھتے ہوئے درود شریف نہ پڑھنے والوں کے حق میں ہر وعید اور تنبیہ بَجا اور مَوزُوں(مناسب) معلوم ہوتی ہے۔ خود دُرود شریف کے فضائل اِس قدر ہیں کہ اُن سے محرومی مُستَقِل بدنصیبی ہے، اِس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ جو شخص نبیٔ کریم ﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجے حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ اُس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں[صحيح مسلم:11]۔ نیز ملائکہ کا اُس کے لیے دعا کرنا[مسند احمد:15680]، گناہوں کا مُعاف ہونا، دَرجات کا بلند ہونا[سنن نسائي:1297]، اُحُد پہاڑ کے برابر ثواب کا ملنا[مصنف عبدالرزاق:153]، شَفاعت اُس کے لیے واجب ہونا [مسند احمد:15680] ؛ وغیرہ وغیرہ اُمور(کام) مَزِید برآں(اِس کے عِلاوہ)، نیز اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رَضا(خوشی)، اُس کی رحمت، اُس کے غُصَّے سے اَمان(حفاظت)، قِیامت کے ہَول(ڈر) سے نجات، مرنے سے قبل جنَّت میں اپنے ٹھکانے کا دیکھ لینا؛ وغیرہ بہت سے وعدے درود شریف کی خاص خاص مِقداروں پر مُقرَّر فرمائے گئے ہیں۔ [القول البديع]
اِس سب کے عِلاوہ درود شریف سے تنگیٔ مَعِیشَت(روزی) اور فَقر دُور ہوتا ہے، اللہ اور اُس کے رسول کے دربار میں تَقرُّب نصیب ہوتا ہے، دشمنوں پر مدد نصیب ہوتی ہے، اور قَلب کی نِفاق اور زَنگ سے صَفائی ہوتی ہے، لوگوں کو اُس سے مَحبَّت ہوتی ہے؛ اَور بہت سی بَشارَتیں ہیں جو دُرود شریف کی کثرت پر احادیث میں وَارِد ہوئی ہیں۔ فُقَہاء نے اِس کی تَصرِیح(وَضاحَت) کی ہے کہ: ایک مرتبہ عمر بھر میں درود شریف کا پڑھنا عَمَلاً فرض ہے، اور اِس پر عُلَمائے مذہب کا اتِّفاق ہے؛ البتہ اِس میں اِختلاف ہے کہ، جب نبیٔ کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک ہو ہر مرتبہ دُرود شریف پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ بعض عُلَماء کے نزدیک ہر مرتبہ دُرود شریف کا پڑھنا واجب ہے، اور دوسرے بعض کے نزدیک مُستَحب۔
تیسرے وہ شخص کہ جس کے بوڑھے والدین میں سے دونوں یا ایک موجود ہوں، اور وہ اُن کی اِس قدر خدمت نہ کرے کہ جس کی وجہ سے جنَّت کا مُستَحق ہوجائے۔ والدین کے حُقوق کی بھی بہت سی احادیث میں تاکید آئی ہے، عُلَماء نے اُن کے حقوق میں لکھا ہے کہ: مُباح(جائز) اُمور میں اُن کی اطاعت ضروری ہے، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ: اُن کی بے ادبی نہ کرے، تکبُّر سے پیش نہ آئے اگرچہ مُشرِک ہوں، اپنی آواز کو اُن کی آواز سے اُونچی نہ کرے، اُن کا نام لے کر نہ پُکارے، کسی کام میں اُن سے پیش قَدمی(پَہل) نہ کرے، اَمر بِالمَعروف اور نَہِی عَنِ المُنکَر میں نرمی کرے، اگر قَبول نہ کرے تو سلوک کرتا رہے اور ہدایت کی دعا کرتا رہے؛ غرض ہر بات میں اُن کا بہت احترام ملحوظ رکھے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ: جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ باپ ہے، تیرا جی چاہے اُس کی حفاظت کر، یا اُس کو ضائع کردے۔[سنن ابن ماجه:2089] ایک صحابیؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ: والدین کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: وہ تیری جنت ہے یا جہنم[سنن ابن ماجه:3662]، یعنی: اُن کی رَضا جنت ہے اور ناراضگی جہنَّم ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: مُطِیع(فرماںبردار) بیٹے کی مَحبَّت اور شَفقَت(پیار) سے ایک نگاہ والد کی طرف ایک مَقبُول حج کا ثواب رکھتی ہے۔[شعب الإيمان للبيهقي:7856] ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: شرک کے سِوا تمام گناہوں کو جس قدر دل چاہے اللہ مُعاف فرمادیتے ہیں؛ مگر والدین کی نافرمانی کا مرنے کے قَبل دنیا میں بھی وَبال پہنچاتے ہیں۔[حاکم:7263] ایک صحابیؓ نے عرض کیا: مَیں جہاد میں جانے کا ارادہ کرتا ہوں، حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ: تیری ماں بھی زندہ ہے؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: ہاں، حضور ﷺ نے فرمایا کہ: اُن کی خدمت کر، کہ اُن کے قدموں کے نیچے تیرے لیے جنت ہے۔[طبرانی:8162]
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: اللہ کی رَضا باپ کی رَضا میں ہے، اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔[ترمذی:1889] اَور بھی بہت سی روایات میں اِس کا اہتمام اور فَضل وَارِد ہوا ہے، جولوگ کسی غفلت سے اِس میں کوتاہی کر چکے ہیں اور اب اُن کے والدین موجود نہیں، شریعتِ مُطہَّرہ میں اُس کی تَلافِی(کمی کو پورا کرنا) بھی موجود ہے: ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: جس کے والدین اِس حالت میں مرگئے ہوں کہ وہ اُن کی نافرمانی کرتا ہو، تو اُن کے لیے کثرت سے دُعا اور اِستِغفار کرنے سے مُطِیع(فرماںبردار) شمار ہوجاتا ہے۔[شعب الإيمان للبيهقي:7902] ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ: بہترین بھلائی باپ کے بعد اُس کے مِلنے والوں سے حُسنِ سُلُوک ہے۔[ترمذی:1903]
(رواہ الطبراني، ورواتہ ثقاتٌ؛ إلا أن محمدا بن قیس لایحضرني فیہ جرح ولاتعدیل، کذا في الترغیب)
ترجَمہ: حضرت عُبادہؓ کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حضورﷺ نے رمَضانُ المبارک کے قریب ارشاد فرمایا کہ: رمَضان کا مہینہ آگیا ہے جو بڑی برکت والا ہے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس میں تمھاری طرف مُتوجَّہ ہوتے ہیں، اور اپنی رَحمتِ خاصَّہ نازل فرماتے ہیں، خَطاؤں کو مُعاف فرماتے ہیں، دُعاؤں کو قبول کرتے ہیں، تمھارے تَنافُس کو دیکھتے ہیں، اور ملائکہ سے فَخر کرتے ہیں؛ پس اللہ کو اپنی نیکی دِکھلاؤ، بدنصیب ہے وہ شخص جو اِس مہینے میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جاوے۔
’’تنافُس‘‘ اِس کو کہتے ہیں کہ: دوسرے کی حِرص میں کام کیا جاوے، اور مُقابلے پر دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کام کیا جائے۔ تفاخُر اور تقابُل والے آویں اور یہاں اپنے اپنے جوہر دِکھلاویں۔ فخر کی بات نہیں، تَحدِیث بِالنِّعمَۃ(یعنی نعمت کے اِظہار) کے طور پر لکھتا ہوں: اپنی نااَہلِیت سے خود اگرچہ کچھ نہیں کرسکتا؛ مگر اپنے گھَرانے کی عورتوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہوں، کہ اکثروں کو اِس کا اہتمام رہتا ہے کہ دوسری سے تلاوت میں بڑھ جاوے، خانگی کاروبار کے ساتھ پندرہ ، بیس پارے روزانہ بے تکلُّف پورے کرلیتی ہیں۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنی رحمت سے قَبول فرماویں اور زیادتی کی توفیق عطا فرماویں۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: رمَضانُ المبارک کی ہر شَب و رَوز میں اللہ کے یہاں سے جہنَّم کے قَیدی چھوڑے جاتے ہیں، اور ہر مسلمان کے لیے ہر شَب و روز میں ایک دعا ضرور قَبول ہوتی ہے۔
[كشف الأستار عن زوائد البزار:962، الترغيب والترهيب للمنذري:27، مسند أحمد:7450]
خلاصة حكم المحدث : صحيح
[صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب:1002، صحيح الجامع الصغير:2169]
فائدہ:
بہت سی رِوایات میں روزے دار کی دعا کا قبول ہونا وَارِد ہوا ہے[شعب الإيمان البيهقي:3323]، بعض روایات میں آتا ہے کہ: افطار کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے[ابن ماجہ:1751]؛ مگر ہم لوگ اُس وقت کھانے پر اِس طرح گِرتے ہیں کہ دُعا مانگنے کی کہاں فُرصت؟ خود اِفطار کی دعا بھی یاد نہیں رہتی۔ افطار کی مشہور دعا یہ ہے :
ترجَمہ: اے اللہ! تیری اُس رحمت کے صدقے جو ہرچیز کو شامل ہے، یہ مانگتا ہوں کہ: تُو میری مغفرت فرمادے۔
[ابن ماجه:1753، ابن السُّنِّي:481، حاكم:1553]
بعض کُتُب میں خود حضور ﷺ سے یہ دُعا منقول ہے:
’’یَا وَاسِعَ الْفَضْلِ اِغْفِرْلِيْ‘‘
ترجَمہ: اے وسیع عطا والے! میری مغفرت فرما۔
[تحفة المحتاج:2/ 425، مرقاة المفاتيح:1994]
اَور بھی مُتعدِّد دعائیں رِوایات میں وَارِد ہوئی ہیں؛ مگر کسی دعا کی تَخصِیص نہیں، اِجابتِ دُعا کا وقت ہے، اپنی اپنی ضرورت کے لیے دُعا فرماویں، یاد آجائے تو اِس سِیاہ کار کو بھی شامل فرمالیں، کہ سائِل ہوں، اور سائل کا حق ہوتا ہے:
(رواہ أحمد في حدیث، والترمذي وحسنہ، وابن خزیمۃ، وابن حبان في صحیحیهما؛ کذا في الترغیب)
ترجَمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تین آدمیوں کی دعا رَد نہیں ہوتی: ایک: روزے دار کی افطار کے وقت، دوسرے: عادِل بادشاہ کی دعا، تیسرے: مَظلُوم کی، جس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ بادلوں سے اُوپر اُٹھا لیتے ہیں، اور آسمان کے دروازے اُس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، اور ارشاد ہوتا ہے کہ: مَیں تیری مدد کروں گا گو(کسی مَصلَحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔
[مسند أحمد:8043، سنن ابن ماجه:1752، سنن الترمذي:3598،صحيح ابن خزيمة:1901،صحيح ابن حبان:3428، الدعاء للطبراني:1315، السنن الكبرى للبيهقي:66393،مصابيح السنة للبغوي:1614]
فائدہ:
’’دُرِّمَنثور‘‘ میں حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے نقل کیا ہے: جب رمَضان آتا تھا تو نبیٔ کریم ﷺ کا رنگ بدل جاتا تھا، اور نماز میں اِضافَہ(زیادتی) ہوجاتا تھا، اور دُعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے، اور خوف غالب ہوجاتا تھا۔[شعب الإيمان البيهقي:3353] دوسری روایت میں فرماتی ہیں کہ: رمَضان کے ختم تک بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے۔[شعب الإيمان البيهقي:3352]
ایک روایت میں ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ رمَضان میں عرش کے اُٹھانے والے فرشتوں کو حکم فرمادیتے ہیں کہ: اپنی اپنی عبادت چھوڑدو اور روزے داروں کی دُعا پر آمین کہا کرو۔[شعب الإيمان البيهقي:3445] بہت سی رِوایات سے رمَضان کی دُعا کا خُصوصِیَّت سے قَبول ہونا معلوم ہوتا ہے، اور یہ بے تردُّد (بِلاشُبہ) بات ہے کہ، جب اللہ کا وعدہ ہے اور سَچے رسول کا نقل کیا ہوا ہے، تو اُس کے پورا ہونے میں کچھ تردُّد نہیں؛ لیکن اِس کے بعد بھی بعض لوگ کسی غرض کے لیے دعا کرتے ہیں؛ مگر وہ کام نہیں ہوتا، تو اِس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دعا قَبول نہیں ہوئی؛ بلکہ دعا کے قَبول ہونے کے معنیٰ سمجھ لینا چاہیے، نبیٔ کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ: جب مسلمان دعا کرتا ہے - بشرطیکہ قَطع رَحمی (رشتے داری توڑنا) یا کسی گناہ کی دُعا نہ کرے- تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کے یہاں سے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملتی ہے: یا خود وہی چیز ملتی ہے جس کی دعا کی، یا اُس کے بدلے میں کوئی بُرائی، مُصیبت اُس سے ہٹا دی جاتی ہے، یا آخرت میں اِسی قدر ثواب اُس کے حصہ میں لگا دیا جاتا ہے۔[مسند احمد:11133] ایک حدیث میں آیا ہے کہ: قِیامت کے دن حق تَعَالیٰ شَانُہٗبندے کو بُلاکر ارشاد فرمائیں گے کہ: اے میرے بندے! مَیں نے تجھے دُعا کرنے کا حکم دیاتھا اور اُس کے قَبول کرنے کا وعدہ کیا تھا، تُونے مجھ سے دعامانگی تھی؟ وہ عرض کرے گا کہ: مانگی تھی، اِس پر ارشاد ہوگا کہ: تُونے کوئی دعا ایسی نہیں کی جس کو مَیں قبول نہ کیا ہو، تُونے فلاں دعا مانگی تھی کہ: فلاں تکلیف ہٹادی جائے، مَیں نے اُس کو دنیا میں پورا کردیا تھا، اور فلاں غم کے دَفع(دُور) ہونے کے لیے دعاکی تھی؛ مگر اُس کا اَثر کچھ تجھے معلوم نہ ہوا، مَیں نے اُس کے بدلے میں فلاں اَجروثواب تیرے لیے مُتعَیَّن کیا، حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اُس کو ہرہر دعا یاد کرائی جاوے گی، اور اُس کا دُنیا میں پورا ہونا یا آخرت میں اُس کا عِوض(بدلہ) بتلایا جاوے گا، اُس اَجر وثواب کی کَثرت کو دیکھ کر وہ بندہ اِس کی تمنَّا کرے گا کہ: کاش! دنیا میں اُس کی کوئی بھی دعا پوری نہ ہوئی ہوتی، کہ یہاں اُس کا اِس قدر اَجر ملتا۔
[شعب الإيمان البيهقي:1093]
غرض دعا نہایت ہی اہم چیز ہے، اِس کی طرف سے غفلت بڑے سخت نقصان اور خَسارے کی بات ہے، اور ظاہر میں اگر قَبول کے آثار(نشانیاں) نہ دیکھیں تو بددِل نہ ہونا چاہیے۔
اِس رسالے کے ختم پر جو لمبی حدیث آرہی ہے اُس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ، اِس میں بھی حق تَعَالیٰ شَانُہٗ بندے ہی کے مَصالِح(مصلَحتیں) پر نظر فرماتے ہیں، اگر اُس کے لیے اُس چیز کا عطا فرمانا مَصلَحت ہوتا ہے تو مَرحَمَت(عطا) فرماتے ہیں؛ ورنہ نہیں۔ یہ بھی اللہ کا بڑا احسان ہے، کہ ہم لوگ بَسا اَوقات(بہت سی مرتبہ) اپنی نافَہمی سے ایسی چیز مانگتے ہیں جو ہمارے مناسب نہیں ہوتی۔ اِس کے ساتھ دُوسری ضروری اور اہم بات قابلِ لحاظ یہ ہے کہ: بہت سے مرد - عورتیں تو خاص طورسے اِس مَرض میں مُبتلا ہیں، کہ- بَسا اَوقات غُصے اور رَنج میں اَولاد وغیرہ کو بددُعا دیتے ہیں، یاد رکھیں کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے عالی دَربار میں بعض اوقات ایسے خاص قَبولِیت کے ہوتے ہیں کہ جو مانگو مِل جاتا ہے، یہ اَحمق(بے وقوف) غصَّے میں اوَّل تو اولاد کو کوستی(بد دُعا دیتی) ہیں، اور جب وہ مَرجاتی ہے یا کسی مُصیبت میں مُبتلا ہوجاتی ہے تو پھر روتی پھرتی ہیں، اور اِس کا خَیال بھی نہیں آتا کہ یہ مصیبت خود ہی اپنی بددعا سے مانگی ہے۔
نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اپنی جانوں اور اولاد کو نیز مال اور خادموں کو بددعا نہ دیا کرو، مَبادا (ایسا نہ ہو) اللہ کے کسی ایسے خاص وقت میں واقع ہوجائے جو قَبولیت کا ہے[صحیح مسلم:3009]، بِالخُصوص رمَضانُ المبارک کا تمام مہینہ تو بہت ہی خاص وَقت ہے، اِس میں اہتمام سے بچنے کی کوشش اَشد (بہت زیادہ) ضروری ہے۔
حضرت عمرؓ حضورِ اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: رمَضانُ المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے، اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں رہتا۔
[المعجم الأوسط:6170]
حضرت ابن مسعودؓ کی ایک روایت سے ’’تَرغِیب‘‘ میں نقل کیا ہے کہ: رمَضان کی ہر رات میں ایک مُنادِی پکارتا ہے کہ: ’’اے خیر کے تلاش کرنے والے! مُتوجَّہ ہو اور آگے بڑھ، اور اے بُرائی کے طلب گار! بس کر اور آنکھیں کھول‘‘، اِس کے بعد وہ فرشتہ کہتا ہے: کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اُس کی مغفرت کی جائے؟ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اُس کی توبہ قَبول کی جائے؟ کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اُس کی دُعا قبول کی جائے؟ کوئی مانگنے والا ہے کہ اُس کا سوال پورا کیا جائے؟
[شعب الإيمان البيهقي:3334]
اِس سب کے بعد یہ اَمر بھی نہایت ضروری اور قابلِ لحاظ ہے کہ، دعا کے قَبول ہونے کے لیے کچھ شرائط بھی وَارِد ہوئی ہیں، کہ اُن کے فوت ہونے سے بَسا اَوقات دُعا رَد کردی جاتی ہے، مِن جُملہ اُن کے حرام غذا ہے، کہ اِس کی وجہ سے بھی دُعا رَد ہوجاتی ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: بہت سے پریشان حال آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگتے ہیں، اور ’’یا رب، یا رب‘‘ کرتے ہیں؛ مگر کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام؛ ایسی حالت میں کہاں دُعا قَبول ہوسکتی ہے!۔
[صحیح مسلم:1015]
مُؤرِّخِین نے لکھا ہے کہ: ’’کُوفہ‘‘ میں مُستَجاب الدُّعاء (یعنی جس کی دعا قبول ہو) لوگوں کی ایک جماعت تھی، جب کوئی حاکِم اُن پر مُسلَّط(متعیَّن) ہوتا اُس کے لیے بددعا کرتے، وہ ہلاک ہوجاتا، حَجَّاج ظالم کا جب وہاں تَسلُّط(تقرُّر) ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں اِن حضرات کو خاص طور سے شریک کیا، اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے کہا کہ: مَیں اِن لوگوں کی بددعا سے محفوظ ہوگیا، کہ حرام کی روزی اِن کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔ اِس کے ساتھ ہمارے زمانے کی حلال روزی پر بھی ایک نگاہ ڈالی جائے جہاں ہر وقت سُود تک کے جواز کی کوششیں جاری ہوں، مُلازِمین رِشوت کو اور تاجر دھوکہ دینے کو بہتر سمجھتے ہوں۔
(رواہ الطبراني في الأوسط، وابن حبان في صحیحہ؛ کذا في الترغیب)
ترجَمہ:
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: خود حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اور اُس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رَحمت نازل فرماتے ہیں۔
[صحيح ابن حبان:3467، المعجم الأوسط:6434، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1654]
فائدہ:
کس قدر اللہ کا انعام واحسان ہے کہ، روزے کی برکت سے اُس سے پہلے کھانے کو - جس کو’’سَحری‘‘ کہتے ہیں- اُمَّت کے لیے ثواب کی چیز بنادیا، اور اِس میں بھی مسلمانوں کو اجر دیا جاتا ہے۔ بہت سی احادیث میں سَحر کھانے کی فضیلت اور اَجر کا ذکر ہے۔ عَلَّامہ عَینیؒ نے سترہ صحابہؓ سے اِس کی فضیلت کی احادیث نقل کی ہیں، اور اِس کے مستحب ہونے پر اِجماع نقل کیا ہے۔ بہت سے لوگ کاہِلی(سُستی) کی وجہ سے اِس فضیلت سے محروم رہ جاتے ہیں، اور بعض لوگ تراویح پڑھ کر کھانا کھاکر سوجاتے ہیں اور وہ اِس کے ثواب سے محروم رہتے ہیں؛ اِس لیے کہ لُغت میں ’’سَحَر‘‘ اُس کھانے کو کہتے ہیں جو صبح کے قریب کھایا جائے، جیساکہ ’’قامُوس‘‘ نے لکھا ہے، بعض نے کہا ہے: آدھی رات سے اُس کا وقت شروع ہوجاتا ہے، صاحبِ کَشَّافؒ نے اخیر کے چھٹے حصے کو بتلایا ہے، یعنی: تمام رات کو چھ حصَّوں پر تقسیم کرکے اخیر کا حصَّہ، مثلاً اگر غروبِ آفتاب سے طلوعِ صبحِ صادق تک بارہ گھنٹے ہوں تو اخیرکے دو گھنٹے سَحر کا وقت ہے، اور اِن میں بھی تاخیر(دیری) اَولیٰ ہے، بہ شرطے کہ اِتنی تاخیر(دیری) نہ ہو کہ روزے میں شک ہونے لگے۔ سَحری کی فَضِیلت بہت سی اَحادِیث میں آئی ہے:
نبیٔ کریم ﷺ کا اِرشاد ہے کہ: ہمارے اور اہلِ کتاب یہود ونَصاریٰ کے روزے میں سحری کھانے سے فرق ہوتا ہے، کہ وہ سحری نہیں کھاتے۔[صحیح مسلم:1096] ایک جگہ اِرشاد ہے کہ: سحری کھایا کرو اِس میں برکت ہے۔[صحیح بخاری:1923] ایک جگہ ارشاد ہے کہ: تین چیزوں میں برکت ہے: جماعت میں، اور ثَرِید میں، اور سحری کھانے میں۔[المعجم الکبیر طبرانی:6127] اِس حدیث میں جماعت سے عام مراد ہے، نماز کی جماعت اور ہر وہ کام جس کو مسلمانوں کی جماعت مِل کر کرے، کہ اللہ کی مدد اُس کے ساتھ فرمائی گئی ہے۔ اور’’ثَرِید‘‘ گوشت میں پکی ہوئی روٹی کہلاتی ہے جو نہایت لَذِیذ کھانا ہوتا ہے۔ تیسرے سحری، نبیٔ کریم ﷺ جب کسی صحابی کو اپنے ساتھ سحر کھلانے کے لیے بُلاتے تو ارشاد فرماتے کہ: آؤ! برکت کا کھانا کھالو۔[سنن ابوداؤد:2344] ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: سحری کھاکر روزے پر قوَّت حاصل کرو، اور دوپہر کو سوکر اخیر شب کے اُٹھنے پر مدد چاہا کرو۔[سنن ابن ماجہ:1693]
حضرت عبداللہ بن حارثؓ ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ: مَیں حضور ﷺ کی خدمت میں ایسے وَقت حاضر ہوا کہ آپ ﷺ سحری نوش(کھانا) فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ: یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ نے تم کو عطا فرمائی ہے، اِس کو مت چھوڑنا۔[سنن نسائی:2162] حضورﷺ نے مُتعدِّد روایات میں سُحور کی ترغیب فرمائی ہے، حتیّٰ کہ ارشاد ہے کہ: ’’اَور کچھ نہ ہو تو ایک چھُوہارہ(یعنی بڑی اور سوکھی کھجور) ہی کھالے، یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لے‘‘[صحیح ابن حبان:3476]؛ اِس لیے روزے داروں کو اِس ’’ہَم خُرما وہَم ثواب‘‘ (یعنی وہ کام جس میں لَذَّت بھی ہو اور کارِ خیر بھی ، وہ کام جس میں دوہرا فائدہ ہو) کا خاص طور سے اہتمام کرنا چاہیے، کہ اپنی راحت، اپنا نفع، اور مُفت کا ثواب؛ مگر اِتنا ضروری ہے کہ اِفراط(زیادتی) و تَفرِیط(کمی) ہر چیز میں مُضِر(نقصان دینے والی) ہے؛ اِس لیے نہ اِتنا کم کھاوے کہ عبادات میں ضُعف(کمزوری) محسوس ہونے لگے، اور نہ اِتنا زیادہ کھاوے کہ دن بھر کھٹی ڈَکاریں آتی رہیں، خود اِن احادیث میں بھی اِس طرف اِشارہ ہے کہ: چاہے ایک چھُوہارہ ہو یا ایک گھونٹ پانی[مسند الشاميين للطبراني:16]؛ نیز مُستقِل اَحادیث میں بھی بہت کھانے کی مُمانَعت آئی ہے[سنن الترمذی:2380]، حافظ ابنِ حجرؒ صحیح بخاری کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ: سحری کی برکات مُختلِف وُجوہ سے ہیں: اِتِّباعِ سنَّت، اہلِ کتاب کی مُخالَفت، کہ وہ سحری نہیں کھاتے، اورہم لوگ حَتَّی الوَسَع(یعنی جہاں تک ہوسکے) اُن کی مُخالَفت کے مامُور (حکم دیے گئے) ہیں۔
نیز عبادت پر قوَّت، عبادت میں دِل بَستگی(دل لگنے) کی زیادتی، نیز شدَّتِ(سختی) بھوک سے اکثر بدخُلقی(بُرے اخلاق) پیدا ہوجاتی ہے اُس کی مُدافَعَت(روک)، اِس وقت کوئی ضرورت مند سائل آجائے تو اُس کی اِعانت(مدد) ، کوئی پڑوس میں غریب فقیر ہو اُس کی مدد، یہ وقت خُصوصِیَّت سے قَبولِیتِ دعا کا ہے، سحری کی بہ دولت دُعا کی توفیق ہوجاتی ہے، اِس وقت میں ذکر کی توفیق ہوجاتی ہے؛ وغیرہ وغیرہ۔
ابنِ دقیقُ العِیدؒ کہتے ہیں کہ: صُوفیاء کو سُحور کے مسئلے میں کلام ہے کہ، وہ مقصدِ روزہ کے خلاف ہے؛ اِس لیے کہ مقصدِ روزہ پیٹ اور شرم گاہ کی شہوت کا توڑنا ہے، اور سحری کھانا اِس مَقصَد کے خلاف ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ، مقدار میں اِتنا کھانا کہ یہ مَصلَحت بِالکُلِّیہ فوت ہوجائے یہ تو بہتر نہیں، اِس کے عِلاوہ حَسبِ حیثیت وضرورت مختلف ہوتا رہتا ہے۔ بندے کے ناقص خَیال میں اِس بارے میں قولِ فَیصَل (یعنی فیصلے کی بات) بھی یہی ہے کہ: اَصل سُحور واِفطار میں تَقلِیل(کمی کرنا) ہے؛ مگر حسبِ ضرورت اِس میں تغیُّر(تبدیلی) ہوجاتا ہے، مثلاً: طَلَباء کی جماعت، کہ اُن کے لیے تقلیلِ طَعام، مَنافِعِ صوم حاصل ہونے کے ساتھ تحصیلِ علم کی مَضرَّت(نقصان) کو شامل ہے؛ اِس لیے اُن کے لیے بہتر یہ ہے کہ تَقلِیل(کمی کرنا) نہ کریں، کہ علمِ دِین کی اَہمِّیَّت شریعت میں بہت زیادہ ہے، اِسی طرح ذاکِرین کی جماعت؛ علیٰ ہذا(اِسی طرح) دوسری جماعتیں جو تقلیلِ طَعام کی وجہ سے کسی دِینی کام میں اَہمیَّت کے ساتھ مشغول نہ ہوسکیں۔
نبیٔ کریم ﷺ نے ایک مرتبہ جہاد کو تشریف لے جاتے ہوئے اعلان فرمادیا کہ: سفر میں روزہ نیکی نہیں[سنن النسائی:2258]؛ حالاںکہ رمَضانُ المبارک کا روزہ تھا؛ مگر اِس جگہ جہاد کا تَقابُل(سامنا) آپڑا تھا؛ البتہ جس جگہ کسی ایسے دِینی کام میں جو روزے سے زیادہ اہم ہو، ضُعف اور کَسل(سُستی) رَوَا(درست) نہ ہو، وہاں تقلیلِ طَعام ہی مناسب ہے۔ شرحِ ’’اِقناع‘‘ میں علاَّمہ شَعرانیؒ نے نقل کیا ہے کہ: ہم سے اِس پر عَہد لیے گئے کہ پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں۔ بِالخُصوص رمَضانُ المبارک کی راتوں میں بہتر یہ ہے کہ، رمَضان کے کھانے میں غیرِرمَضان سے کچھ تَقلِیل کرے؛ اِس لیے کہ اِفطار وسحر میں جو شخص پیٹ بھر کر کھائے اُس کاروزہ ہی کیا ہے!۔ مَشائخ نے کہا ہے کہ: جو شخص رمَضان میں بھوکا رہے آئندہ رمَضان تک تمام سال شیطان کے زور سے محفوظ رہتا ہے۔
اَور بھی بہت سے مَشائخ سے اِس باب میں شِدَّت منقول ہے: شرحِ اِحیاء میں ’’عوارف‘‘ سے نقل کیاہے کہ: سَہَل بن عبداللہ تَستَریؒ پندرہ روز میں ایک مرتبہ کھانا تناوُل فرماتے تھے، اوررمَضانُ المبارک میں ایک لقمہ؛ البتہ روزانہ اتِّباعِ سنت کی وجہ سے محض پانی سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ حضرت جنیدؒ ہمیشہ روزہ رکھتے؛ لیکن اللہ والے دوستوں میں سے کوئی آتا تو اُس کی وجہ سے روزہ افطار فرماتے، اور فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ایسے دوستوں کے ساتھ کھانے کی فضیلت کچھ روزے کی فضیلت سے کم نہیں‘‘۔ اَور بھی سَلَف(بزرگ) کے ہزاروں واقعات اِس کی شہادت دیتے ہیں کہ، وہ کھانے کی کمی کے ساتھ نفس کی تادِیب(تنبیہ) کرتے تھے؛ مگر شرط وہی ہے کہ: اِس کی وجہ سے اَور دِینی اہم اُمُور میں نقصان نہ ہو۔
(رواہ ابن ماجہ واللفظ لہ، والنسائي، وابن خزیمۃ في صحیحہ، والحاکم، وقال: علیٰ شرط البخاري؛ ذکر لفظهما المنذري في الترغیب بمعناہ)
ترجَمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ اُن کو روزے کے ثَمرات میں بجُز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ اُن کو رات کے جاگنے (کی مَشقَّت) کے سِوا کچھ بھی نہ مِلا۔
[مسند أحمد:9685، سنن الدارمي:2762،سنن ابن ماجه:1690، السنن الكبرى للنسائي:3236، صحيح الترغيب والترهيب:1083]
فائدہ:
عُلَماء کے اِس حدیث کی شَرح میں چند اَقوال ہیں:
اوَّل یہ کہ، اِس سے وہ شخص مراد ہے جو دن بھر روزہ رکھ کر مالِ حرام سے افطار کرتا ہے، کہ جتنا ثواب روزے کا ہوا تھا اُس سے زیادہ گناہ حرام مال کھانے کا ہوگیا، اور دن بھر بھوکا رہنے کے سِوا اَور کچھ نہ ملا۔
دوسرے یہ کہ، وہ شخص مراد ہے جو روزہ رکھتا ہے؛ لیکن غیبت میں بھی مُبتَلا رہتا ہے، جس کا بیان آگے آرہا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ، روزے کے اندر گناہ وغیرہ سے اَحتراز(بچنا) نہیں کرتا۔ نبیٔ اکرم ﷺ کے اِرشادات جامِع(جمع کرنے،گھیرنے والے) ہوتے ہیں، یہ سب صورتیں اُس میں داخل ہیں اور اِن کے عِلاوہ بھی۔ اِسی طرح جاگنے کا حال ہے، کہ رات بھر شب بیداری(رات کو جاگنے) کی؛ مگر تَفرِیحاً(دل لگی سے) تھوڑی سی غِیبت یا کوئی اَور حَماقَت(بے وقوفی) بھی کرلی تو وہ سارا جاگنا بے کار ہوگیا، مثلاً: صبح کی نماز ہی قضا کردی، یا محض رِیا(دِکھلاوا) اور شُہرت کے لیے جاگا تو وہ بے کار ہے۔
(رواہ النسائي وابن ماجہ وابن خزیمۃ، والحاکم صححہ علیٰ شرط البخاري، وألفاظهم مختلفۃ؛ حکاها المنذري في الترغیب)
ترجَمہ:
حضرت ابوعبيده بن جراحؓ سے روايت ہے كہ رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے کہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اُس کو پھاڑ نہ ڈالے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:8898، سنن الدارمي:1773، سنن النسائي:2233، مسند أبي يعلى:878، المستدرك على الصحيحين للحاكم:5153، الأحاديث المختارة:1121]
فائدہ:
ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اِسی طرح روزے سے بھی اپنے دُشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ: روزہ حفاظت ہے اللہ کے عذاب سے۔[شعب الإيمان البيهقي:3307] دوسری روایت میں ہے کہ: روزہ جہنَّم سے حِفاظت ہے۔[سنن النسائی:2231]
ایک روایت میں وَارِد ہوا ہے کہ: کسی نے عرض کیا کہ: یا رسولَ اللہ! روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جھوٹ اور غِیبت سے۔[المعجم الأوسط:4536] اِن دونوں روایتوں میں اور اِسی طرح اَور بھی متعدِّد روایات میں روزے میں اِس قِسم کے اُمور سے بچنے کی تاکید آئی ہے، اور روزے کا گویا ضائع کردینا اُس کو قرار دیا ہے۔ ہمارے اِس زمانے میں روزے کے کاٹنے کے لیے مَشغَلہ اِس کو قرار دیا جاتا ہے کہ، وَاہی تباہی(فُضول)، میری تیری باتیں شروع کردی جائیں، بعض عُلَماء کے نزدیک جھوٹ اور غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، یہ دونوں چیزیں اُن حضرات کے نزدیک ایسی ہیں جیسے کہ کھانا، پینا، وغیرہ سب روزے کو توڑنے والی اَشیاء ہیں، جَمہُور کے نزدیک اگرچہ روزہ ٹوٹتا نہیں؛ مگر روزے کے برکات جاتے رہنے سے تو کسی کو بھی اِنکار نہیں۔
مَشائخ نے روزے کے آداب میں چھ اُمور تحریر فرمائے ہیں، کہ روزے دار کو اِن کا اہتمام ضروری ہے: اوَّل نگاہ کی حفاظت، کہ کسی بے محل جگہ پر نہ پڑے، حتیٰ کہ کہتے ہیں کہ: بیوی پر بھی شَہوَت کی نگاہ نہ پڑے، پھر اجنبی کا کیا ذکر!۔ اور اِسی طرح کسی لَہو ولَعِب (سَیر وتماشا) وغیرہ ناجائز جگہ نہ پڑے، نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: نگاہ اِبلیس کے تِیروں میں سے ایک تِیر ہے، جو شخص اُس سے اللہ کے خوف کی وجہ سے بچ رہے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کو ایسا نورِ ایمانی نصیب فرماتے ہیں جس کی حَلاوَت(مٹھاس) اور لَذَّت قَلب میں محسوس کرتا ہے۔[المعجم الکبیر طبرانی:10362] صُوفیاء نے بے محل کی تفسیر یہ کی ہے کہ: ہر ایسی چیز کا دیکھنا اِس میں داخل ہے جو دل کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ سے ہٹاکر کسی دوسری طرف مُتوجَّہ کر دے۔ دوسری چیز زبان کی حفاظت ہے، جھوٹ، چُغل خوری، لَغو بکواس، غیبت، بَدگوئی، بَدکلامی، جھگڑا؛ وغیرہ سب چیزیں اِس میں داخل ہیں۔ ’’بخاری شریف‘‘ کی روایت میں ہے کہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے، اِس لیے روزے دار کو چاہیے کہ زبان سے کوئی فَحش بات یا جَہالت کی بات مثلاً: تَمسخُر(مذاق اُڑانا)، جھگڑا وغیرہ نہ کرے، اگر کوئی دوسرا جھگڑنے لگے تو کہہ دے کہ: میرا روزہ ہے۔[صحیح البخاری:1894] یعنی دوسرے کی ابتدا کرنے پر بھی اُس سے نہ اُلجھے، اگر وہ سمجھنے والا ہو تو اُس سے کہہ دے کہ: میرا روزہ ہے، اور اگر وہ بے وقوف ناسمجھ ہو تو اپنے دل کو سمجھا دے کہ تیرا روزہ ہے، تجھے ایسی لَغو بات کا جواب دینا مناسب نہیں؛ بِالخصوص غیبت اور جھوٹ سے تو بہت ہی اِحتراز(بچنا) ضروری ہے، کہ بعض عُلَماء کے نزدیک اِس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا، روزے میں اِس شِدَّت سے بھوک لگی کہ ناقابلِ برداشت بن گئی، ہَلاکت کے قریب پہنچ گئیں، صحابۂ کرامؓ نے نبیٔ کریم ﷺ سے دریافت کیا، تو حضور ﷺ نے ایک پیالہ اُن کے پاس بھیجا، اور اُن دونوں کو اُس میں قے کرنے کا حکم فرمایا، دونوں نے قے کی تو اُس میں گوشت کے ٹکڑے اور تازہ کھایا ہوا خون نکلا، لوگوں کو حیرت ہوئی، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اُنھوں نے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی حلال روزی سے تو روزہ رکھا اور حرام چیزوں کو کھایا، کہ دونوں عورتیں لوگوں کی غیبت کرتی رہِیں۔[مسند احمد:23654] اِس حدیث سے ایک مضمون اَور بھی مُترَشِّح(نکلنے والا) ہوتا ہے کہ: غیبت کرنے کی وجہ سے روزہ بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے، حتیٰ کہ وہ دونوں عورتیں روزے کی وجہ سے مرنے کے قریب ہوگئیں، اِسی طرح اَور بھی گناہوں کا حال ہے، اور تجربہ اِس کی تائید کرتا ہے، کہ روزے میں اکثر مُتَّقی لوگوں پر ذرا بھی اثر نہیں ہوتا، اور فاسق لوگوں کی اکثر بُری حالت ہوتی ہے؛ اِس لیے اگر یہ چاہیں کہ روزہ نہ لگے تب بھی اِس کی بہتر صورت یہ ہے کہ، گناہوں سے اِس حالت میں احتراز کریں؛ بالخصوص غیبت سے، جس کو لوگوں نے روزہ کاٹنے کا مَشغَلہ تجویز(مُتعیَّن) کر رکھا ہے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنے کلامِ پاک میں غیبت کو اپنے بھائی کے مُردار گوشت سے تعبیر فرمایا ہے، اور اَحادیث میں بھی بہ کثرت اِس قِسم کے واقعات ارشاد فرمائے گئے ہیں، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ، جس شخص کی غیبت کی گئی اُس کا حقیقتاً گوشت کھایا جاتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے ایک مرتبہ چند لوگوں کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ: دانتوں میں خِلال کرو، اُنھوں نے عرض کیا کہ: ہم نے تو آج گوشت چکھا بھی نہیں، حضور ﷺ نے فرمایا کہ: فلاں شخص کا گوشت تمھارے دانتوں کو لگ رہا ہے، معلوم ہوا کہ اُن کی غِیبت کی تھی۔[الدر المنثور في التفسير بالمأثور:7/ 572، سورۃ الحجرات: آیۃ 12] اللہ تعالیٰ اپنے حِفظ میں رکھے کہ ہم لوگ اِس سے بہت ہی غافل ہیں، عوام کا ذکر نہیں خَواص مُبتلا ہیں، اُن لوگوں کو چھوڑ کر جو دنیادار کہلاتے ہیں، دِین داروں کی مَجالِس بھی بِالعُموم(یعنی عام طور سے) اِس سے کم خالی ہوتی ہیں، اِس سے بڑھ کر یہ ہے کہ، اکثر اُس کو غیبت بھی نہیں سمجھا جاتا ہے، اگر اپنے یا کسی کے دل میں کچھ کھٹکا بھی پیدا ہوتو اُس پر اِظہارِ واقعہ کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ سے کسی نے دریافت کیا کہ: غیبت کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: کسی کی پَسِ پُشت(پیٹھ پیچھے) ایسی بات کرنی جو اُسے ناگَوار(ناپسند) ہو، سائل نے پوچھا کہ: اگر اُس میں وَاقِعتاً وہ بات موجود ہو جو کہی گئی؟ حضور ﷺ نے فرمایا: جب ہی تو غیبت ہے، اگر وَاقِعتاً موجود نہ ہو تب تو بُہتان ہے۔[صحیح مسلم:2579] ایک مرتبہ نبیٔ کریم ﷺ کا دو قبروں پر گزر ہوا ، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اِن دونوں کو عذابِ قبر ہورہا ہے: ایک کو لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے، دوسرے کو پیشاب سے اِحتیاط نہ کرنے کی وجہ سے۔[صحیح البخاری:1378] حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: سود کے سَتَّر سے زیادہ باب ہیں، سب سے سَہَل وہلکا درجہ اپنی ماں سے زِنا کرنے کے برابر ہے[شعب الإيمان البيهقي:5132]، اور ایک درہم سُود کا پینتیس(۳۵) زنا سے زیادہ سخت ہے، اور بدترین سود اور سب سے زیادہ خبیث ترین(بہت زیادہ بُرا) سود مسلمان کی آبرُو رَیزی ہے۔[الكنى والأسماء للدولابي:624]
احادیث میں غیبت اور مسلمان کی آبرُو رَیزی(بے عزَّتی) پر سخت سے سخت وعیدیں آئی ہیں، میرا دل چاہتا تھا کہ اُن میں سے کچھ مُعتَد بِہٖ (یعنی بہت سی) روایات جمع کروں؛ اِس لیے کہ ہماری مجلسیں اِس سے بہت ہی زیادہ پُر رہتی ہیں؛ مگر مضمون دوسرا ہے؛ اِس لیے اِسی قدر پر اِکتِفاء کرتا ہوں۔ اللہ پاک ہم لوگوں کو اِس بَلا (مصیبت) سے محفوظ فرمائیں، اور بزرگوں اور دوستوں کی دعا سے مجھ سِیَاہ کار(گنہ گار) کو بھی محفوظ فرمائیں، کہ باطِنی اَمراض میں کثرت سے مُبتلا ہوں:
کِبر و نَخوَت(تکبرُّ و گھمنڈ)، جَہل وغَفلت، حِقد(دشمنی) وکِینہ، بدظنی
تیسری چیز جس کا روزے دار کو اہتمام ضروری ہے وہ کان کی حفاظت ہے ہر مَکروہ(ناپسندیدہ) چیز سے، جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائز ہے اُس کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: غیبت کا کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔
[إحياء علوم الدين:1/235، طبقات الشافعية الكبرى للسبكي:6/299، المقاصد الحسنة:1036]
چوتھی چیز باقی اَعضائے بدن مثلاً: ہاتھ کا ناجائز چیز کے پکڑنے سے، پاؤں کا ناجائز چیز کی طرف چلنے سے روکنا اور اِسی طرح باقی اعضائے بدن کا، اِسی طرح پیٹ کا اِفطار کے وقت مُشتَبہ(شک والی) چیز سے محفوظ رکھنا۔ جو شخص روزہ رکھ کر حرام مال سے اِفطار کرتا ہے اُس کا حال اُس شخص کا سا ہے کہ کسی مرض کے لیے دوا کرتا ہے؛ مگر اُس میں تھوڑا سا سَنکھیا (زہر) بھی مِلالیتا ہے، کہ اُس مرض کے لیے وہ دوا مُفِید ہوجائے گی؛ مگر یہ زہر ساتھ ہی ہلاک بھی کردے گا۔
پانچویں چیز: افطار کے وقت حلال مال سے اِتنا زیادہ نہ کھانا کہ شِکم سَیر(پیٹ بھرا ہوا) ہوجائے؛ اِس لیے کہ روزہ کی غرض اِس سے فوت ہوجاتی ہے، مقصود روزے سے قوَّتِ شَہوانِیَّہ(خواہشات) اور بہِیمِیّہ(حیوانیت) کا کم کرنا ہے اور قوَّتِ نورانِیہ اور مَلکِیَّہ(فرشتوں والی) کا بڑھانا ہے، گیارہ مہینے تک بہت کچھ کھایا ہے، اگر ایک مہینہ اِس میں کچھ کمی ہوجائے گی تو کیا جان نکل جاتی ہے؟؛ مگر ہم لوگوں کا حال ہے کہ افطار کے وقت تَلافیِٔ مَا فَات (یعنی جو کمی رہ گئی اُسے پورا کرنے) میں اور سحر کے وقت حِفظِ مَا تَقدَّم(یعنی پہلے سے تیاری کرلینا) میں اِتنی زیادہ مقدار کھالیتے ہیں کہ بغیر رمَضان کے اور بغیر روزے کی حالت کے اِتنی مقدار کھانے کی نَوبَت بھی نہیں آتی، رمَضانُ المبارک بھی ہم لوگوں کے لیے خَوَید(یعنی ہرے گیہوں یا جَو) کا کام دیتا ہے۔ علاَّمہ غَزالیؒ لکھتے ہیں کہ: ’’روزے کی غرض یعنی: قَہرِ(غُصَّہ) ابلیس اور شہوتِ نَفسانِیَّہ کا توڑنا کیسے حاصل ہوسکتا ہے اگر آدمی افطار کے وقت اُس مقدار کی تلافی(کمی پوری کرنا) کرلے جو فوت ہوئی‘‘۔ حقیقتاً ہم لوگ بجُز اِس کے کہ اپنے کھانے کے اَوقات بدل دیتے ہیں، اِس کے سِوا کچھ بھی کمی نہیں کرتے؛ بلکہ اَور زیادتی مختلف اَنواع کی کرجاتے ہیں جو بغیر رمَضان کے مُیسَّر(حاصل) نہیں ہوتی، لوگوں کی عادت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ عمدہ عمدہ اَشیاء رمَضان کے لیے رکھتے ہیں، اور نفس دِن بھر کے فاقے کے بعد جب اُن پر پڑتا ہے تو خوب زیادہ سَیر (پیٹ بھرنا) ہوکر کھاتا ہے، تو بجائے قوتِ شَہوانِیہ کے ضعیف ہونے کے اَور بھڑک اُٹھتی ہے اور جوش میں آجاتی ہے، اور مقصد کے خلاف ہوجاتا ہے۔
روزے کے اندر مختلف اَغراض اور فوائد اور اُس کے مَشرُوع(یعنی جائز کیا جانا) ہونے سے مُختلف مَنافِع(فائدے) مقصود ہیں، وہ سب جب ہی حاصل ہوسکتے ہیں جب کچھ بھوکا بھی رہے، بڑا نفع تو یہی ہے جو معلوم ہوچکا، یعنی شہوتوں کا توڑنا، یہ بھی اِسی پر مَوقُوف ہے کہ کچھ وقت بھوک کی حالت میں گزرے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’شیطان آدمی کے بدن میں خون کی طرح چلتا ہے، اُس کے راستوں کو بھوک سے بند کرو‘‘۔[إحياء علوم الدين:1/232] تمام اَعضاء کا سَیر ہونا نفس کے بھوکا رہنے پر مَوقُوف ہے، جب نفس بھوکا رہتا ہے تو تمام اَعضاء سَیر رہتے ہیں، اور جب نفس سَیر ہوتا ہے تو تمام اَعضاء بھوکے رہتے ہیں۔
سِیَاہ کاروں: گنہ گار۔ زَہے نصیب: خوش قسمتی۔ ندارَند تَن پَروَراں آگَہی ء کہ پُر مِعدہ باشد زَحِکمَت تَہِی: پیٹ کو پُوجنے والے عقل نہیں رکھتے؛ اِس لیے کہ پیٹ بھرا دانائی سے خالی ہوتا ہے۔
دوسری غرض روزے سے فُقَراء کے ساتھ تَشبُّہ(مُشابَہت) اور اُن کے حال پر نظر ہے، وہ بھی جب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب سَحرمیں مِعدے کو دودھ جَلَیبی سے اِتنا نہ بھرے کہ شام تک بھوک ہی نہ لگے، فُقرا کے ساتھ مُشابَہت جب ہی ہوسکتی ہے جب کچھ وقت بھوک کی بے تابی(بے چینی) کا بھی گزرے۔ بِشَرحافیؒ کے پاس ایک شخص گئے، وہ سردی میں کانپ رہے تھے اور کپڑے پاس رکھے ہوئے تھے، اُنھوں نے پوچھا کہ: یہ وقت کپڑے نکالنے کاہے؟ فرمایا کہ: فُقَراء بہت ہیں، اور مجھ میں اُن کی ہَمدَردِی کی طاقت نہیں، اِتنی ہمدردی کرلُوں کہ مَیں بھی اُن جیسا ہوجاؤں۔ مَشائخِ صُوفیاؒء نے عامَّۃً (عام طور سے) اِس پر تنبیہ فرمائی ہے اور فُقَہاء نے بھی اِس کی تَصرِیح(وَضاحت) کی ہے، صاحب ’’مَرَاقِیُ الفَلَاحْ‘‘لکھتے ہیں کہ: سُحور میں زیادتی نہ کرے جیسا کہ مُتنعِّم(مال دار) لوگوں کی عادت ہے، کہ یہ غرض کو فوت کردیتاہے۔ علاَّمہ طَحطَاوِیؒ اِس کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ: غرض کا مقصود یہ ہے کہ بھوک کی تَلخی(کڑواہٹ) کچھ محسوس ہو؛ تاکہ زیادتیِٔ ثواب کا سبب ہو، اور مَساکِین وفُقَراء پر ترس آسکے۔ خود نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ کو کسی برتن کا بھرنا اِس قدر ناپسند نہیں ہے جتنا کہ پیٹ کا پُر ہونا ناپسند ہے[مسند أحمد:17186]۔ ایک جگہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمر سیدھی رہے، اگر کوئی شخص بالکل کھانے پر تُل جائے تو اِس سے زیادہ نہیں کہ، ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، اور ایک تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی خالی[السنن الكبرى للنسائي:6737]۔ آخر کوئی تو بات تھی کہ نبیٔ کریم ﷺ کئی کئی روز تک مُسلسَل لگاتار روزہ رکھتے تھے، کہ درمیان میں کچھ بھی نوش نہیں فرماتے تھے[صحيح البخاري:1669]۔
مَیں نے اپنے آقا(استاد)حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ کو پورے رمَضانُ المبارک میں دیکھا ہے کہ، افطار وسحر دونوں وقت کی مقدار تقریباً ڈیڑھ چَپاتی سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، کوئی خادِم عَرض بھی کرتا تو فرماتے کہ: بھوک نہیں ہوتی، دوستوں کے خَیال سے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔ اور اِس سے بڑھ کر حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوریؒ کے مُتعلِّق سنا ہے کہ: کئی کئی دن مُسلسَل ایسے گزر جاتے تھے کہ، تمام شب کی مقدارِ سحر وافطار بے دودھ کی چائے کے چند فِنجان(چھوٹی پیالیاں) کے سِوا کچھ نہ ہوتی تھی، ایک مرتبہ حضرت کے مُخلِص خادِم حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب مَدَّظِلَّہُ الْعَالِيْ(۱) نے لَجاجَت(عاجزی، مَنَّت سَماجَت) سے عرض کیا کہ: ضُعف(کمزوری) بہت ہوجائے گا، حضرت کچھ تَناوُل ہی نہیں فرماتے، تو حضرت نے فرمایا کہ: اَلحَمدُلِلّٰہ! جنت کا لُطف حاصل ہورہا ہے۔ حق تعالیٰ ہم سِیَاہ کاروں(گنہ گار) کو بھی اِن پاک ہَستیوں کا اِتِّباع نصیب فرماویں تو زَہے نصیب! (خوش قسمتی) مولانا سعدیؒ کہتے ہیں:
ندارَند تَن پَروَراں آگَہی
کہ پُر مِعدہ باشد زَحِکمَت تَہِی
(پیٹ کو پُوجنے والے عقل نہیں رکھتے؛ اِس لیے کہ پیٹ بھرا دانائی سے خالی ہوتا ہے۔)
(۱)حاشیہ: حضرت مولانا حضرت رائے پوری صاحبؒ کے اَجلِّ خُلَفاء میں ہیں، ’’رائے پور‘‘ ہی قِیام رہتا ہے، اپنے شیخ کے قدم بہ قدم مُتَّبِع ہیں، جو لوگ رائے پوری دَربار سے محروم رہ گئے مولانا کے وُجود کو غنیمت سمجھیں، کہ ہر جانے والا اپنی نظیر نہیں چھوڑتا۔ اب حضرت اقدس شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا بھی ۱۵؍ ربیع الاوَّل ۱۳۸۲ھ جمعرات کو وِصال ہوگیا۔ نصیراحمد غُفِرلَہٗ
چھٹی چیز جس کا لِحاظ روزے دار کے لیے ضروری فرماتے ہیں یہ ہے کہ، روزے کے بعد اِس سے ڈرتے رہنا بھی ضروری ہے کہ نہ معلوم یہ روزہ قابلِ قَبول ہے یا نہیں؟ اور اِسی طرح ہر عبادت کے ختم پر، کہ نہ معلوم کوئی لغزش - جس کی طرف اِلتِفات(توجُّہ) بھی نہیں ہوتا - ایسی تو نہیں ہوگئی جس کی وجہ سے یہ منھ پر مار دیا جائے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ: بہت سے قرآن پڑھنے والے ہیں کہ قرآن پاک ان کو لعنت کرتا رہتا ہے[إحياء علوم الدين:1/ 274، التذكرة في الوعظ، لابن الجَوْزي: ص81]۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: قِیامت میں جن لوگوں کا اَوَّلِین وَہْلَہ(پہلی مرتبہ) میں فیصلہ ہوگا (اُن کے مِن جُملہ) ایک شہید ہوگا جس کو بُلایا جائے گا، اور اللہ کے جو جو انعام دنیا میں اُس پر ہوئے تھے وہ اُس کو جَتائے(یاد دِلائے) جائیں گے، وہ اُن سب نعمتوں کا اِقرار کرے گا، اِس کے بعد اُس سے پوچھا جائے گا کہ: اِن نعمتوں میں کیا حق ادائیگی کی؟ وہ عرض کرے گا کہ: تیرے راستے میں قِتال(جنگ) کیا حَتیٰ کہ شہید ہوگیا، ارشاد ہوگا کہ: جھوٹ ہے؛ بلکہ قِتال اِس لیے کیا تھا کہ لوگ بہادر کہیں، سو کہا جاچکا، اِس کے بعد حکم ہوگا اور مُنھ کے بَل کھینچ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایسے ہی ایک عالِم بُلایا جائے گا، اُس کو بھی اِسی طرح سے اللہ کے اِنعامات جَتلاکر پوچھا جائے گا، کہ: اِن اِنعامات کے بدلے میں کیا کارگزاری ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ: علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور تیری رَضا(خوشی) کی خاطر تلاوت کی، ارشاد ہوگا کہ: جھوٹ ہے، یہ اِس لیے کیا گیا تھا کہ لوگ علاّمہ کہیں، سو کہا جاچکا، اُس کو بھی حکم ہوگا اور منھ کے بَل کھینچ کر جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ اِسی طرح ایک دَولت مَند(مال دار) بلایا جائے گا، اُس سے اِنعاماتِ اِلٰہی شمار کرانے اور اِقرار لینے کے بعد پوچھا جائے گا کہ: اللہ کی اِن نعمتوں میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ: کوئی خیر کا راستہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں مَیں نے کچھ خرچ نہ کیا ہو، ارشاد ہوگا کہ: جھوٹ ہے، یہ اِس لیے کیا گیا تھا کہ لوگ سخی کہیں، سو کہا جاچکا، اُس کو بھی حکم ہوگا اور منھ کے بَل کھینچ کر جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا[صحیح مسلم:1905]۔ اللہ محفوظ فرمائیں، کہ یہ سب بدنِیَّتی(بُری نیت) کے ثَمَرات(نتیجے) ہیں۔
اِس قِسم کے بہت سے واقعات اَحادیث میں مذکور ہیں؛ اِس لیے روزے دار کو اپنی نِیت کی حِفاظت کے ساتھ اِس سے خائِف(ڈرنے والا) بھی رہنا چاہیے، اور دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ: اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ اِس کو اپنی رَضا کا سبب بنالیں؛ مگر ساتھ ہی یہ اَمر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ اپنے عمل کو قابلِ قبول نہ سمجھنا اَمرِ آخَر اور کَریم آقا کے لُطف پر نگاہ اَمرِ آخر ہے، اُس کے لُطف کے انداز بالکل نِرالے(انوکھے) ہیں، مَعصِیت پر بھی کبھی ثواب دے دیتے ہیں تو پھر کوتاہیِٔ عَمل کا کیا ذکر؟:
خوبی ہَمِیں کَرِشمہ وناز وخَرام نَیست
بِسیار شَیوَہا است بُتاں رَا کہ نام نَیست
(یعنی خوبی یہ ہی ہے کہ کرشمہ اور ناز و اَکڑ نہیں ہے۔ بہت سے طریقے ہیں محبوبوں کے لیے کہ اُس کا نام نہیں ہے۔)
یہ چھ چیزیں عام صُلَحاء کے لیے ضروری بتلائی جاتی ہیں، خَواص اور مُقرَّبِین(نزدیک والے) کے لیے اُن کے ساتھ ایک ساتوِیں چیز کا بھی اِضافہ(زیادتی) فرماتے ہیں کہ: دل کو اللہ کے سِوا کسی چیز کی طرف بھی مُتوجَّہ نہ ہونے دے، حتیٰ کہ روزے کی حالت میں اِس کا خِیال اور تدبیر کہ افطار کے لیے کوئی چیز ہے یا نہیں؟ یہ بھی خطا فرماتے ہیں۔ بعض مَشائخ نے لکھا ہے کہ: روزے میں شام کو افطار کے لیے کسی چیز کے حاصل کرنے کا قَصد(ارادہ) بھی خَطا ہے؛ اِس لیے کہ یہ اللہ کے وعدۂ رزق پر اَعتِماد کی کمی ہے۔ شرحِ اِحیاء میں بعض مشائخ کا قصَّہ لکھا ہے کہ: اگر افطار کے وقت سے پہلے کوئی چیز کہیں سے آجاتی تھی تو اُس کو کسی دوسرے کو دے دیتے تھے، مَبادَا(ایسا نہ ہو) دل کو اُس کی طرف اِلتِفات ہوجائے اور توَکُّل میں کسی قِسم کی کمی ہوجائے۔ مگر یہ اُمُور بڑے لوگوں کے لیے ہیں، ہم لوگوں کو اِن اُمور کی ہَوَس(تمنا) کرنا بھی بے محل ہے، اور اِس حالت پر پہنچے بغیر اُس کو اختیار کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ مُفسِّرین نے لکھا ہے کہ: ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ﴾ [سورۃ البقرۃ:183] میں آدمی کے ہر جُزو پر روزہ فرض کیا گیا ہے، پس زبان کا روزہ جھوٹ وغیرہ سے بچنا ہے، اور کان کا روزہ ناجائز چیزوں کے سننے سے احتراز، آنکھ کا روزہ لَہو ولَعِب کی چیزوں سے اِحتِراز ہے، اور ایسے ہی باقی اَعضاء، حتیٰ کہ نفس کا روزہ حِرص وشہوتوں سے بچنا، دِل کا روزہ حُبِّ دُنیا(دنیا کی محبت) سے خالی رکھنا، رُوح کا روزہ آخرت کی لَذَّتوں سے بھی اِحتِراز، اور سِرِّ خاص کا روزہ اللہ کے وُجود سے بھی اِحتِراز ہے۔
(رواہ أحمد والترمذي وأبوداود وابن ماجہ والدارمي والبخاري في ترجمۃ باب؛ کذا في المشکاۃ. قلت: وبسط الکلام علیٰ طرقہ العیني في شرح البخاري)
ترجَمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص قَصداً بِلا کسی شرعی عُذر کے ایک دن بھی رمَضان کے روزے کو افطار کردے، غیرِ رمَضان کا روزہ چاہے تمام عمر کے روزے رکھے اُس کا بدل نہیں ہوسکتا۔
[الجامع لعلوم الإمام أحمد:391، سنن الترمذي:723، شرح السنة للبغوي:1753]
فائدہ:
بعض عُلَماء کا مذہب - جن میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہ وغیرہ حضرات بھی ہیں- اِس حدیث کی بِناء پر یہ ہے کہ: جس نے رمَضانُ المبارک کے روزے کو بِلاوجہ کھودیا اُس کی قضا ہو ہی نہیں سکتی چاہے عمر بھر روزے رکھتا رہے؛ مگر جَمہُور فُقَہاء کے نزدیک اگر رمَضان کا روزہ رکھا ہی نہیں تو ایک روزے کے بدلے ایک روزے سے قَضا ہوجائے گی، اور اگر روزہ رکھ کر توڑ دیا تو قضا کے ایک روزے کے عِلاوہ دو مہینے کے روزے کَفَّارے کے ادا کرنے سے فرض ذِمَّے سے ساقِط(ادا) ہوجاتا ہے؛ البتہ وہ برکت اور فضیلت جو رمَضانُ المبارک کی ہے، ہاتھ نہیں آسکتی، اور اِس حدیث پاک کا مطلب یہی ہے، کہ وہ برکت ہاتھ نہیں آسکتی کہ جو رمَضان شریف میں روزہ رکھنے سے حاصل ہوتی۔ یہ سب کچھ اِس حالت میں ہے کہ بعد میں قَضا بھی کرے، اور اگر سِرے سے رکھے ہی نہیں جیسا کہ اِس زمانے کے بعض فُسَّاق(گناہگاروں) کی حالت ہے تو اُس کی گمراہی کا کیا پوچھنا!۔
روزہ اَرکانِ اسلام سے ایک رُکن ہے، نبیٔ کریم ﷺ نے اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ارشاد فرمائی ہے: سب سے اوَّل توحید ورِسالت کا اِقرار، اِس کے بعد اسلام کے چاروں مشہور رُکن: نماز، روزہ، زکوۃ، حج۔[صحیح بخاری:8]۔ کتنے مسلمان ہیں جو مَردُم شماری(یعنی آدمیوں کی گنتی) میں مسلمان شمار ہوتے ہیں؛ لیکن اِن پانچوں میں سے ایک کے بھی کرنے والے نہیں، سرکاری کاغذات میں وہ مسلمان لکھے جائیں؛ مگر اللہ کی فہرست میں وہ مسلمان شمار نہیں ہوسکتے۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ: اسلام کی بنیاد تین چیز پر ہے: کلمۂ شہادت، نماز اور روزہ؛ جو شخص اِن میں سے ایک بھی چھوڑ دے وہ کافر ہے، اُس کا خون کردینا حلال ہے۔[:2349] عُلَماء نے اِن جیسی روایات کو انکار کے ساتھ مُقیَّد کیا ہو یا کوئی تاویل فرمائی ہو؛ مگر اِس سے اِنکار نہیں کہ نبیٔ کریم ﷺ کے ارشادات ایسے لوگوں کے بارے میں سخت سے سخت وَارِد ہوئے ہیں۔ فرائِض کے اَدا کرنے میں کوتاہی کرنے والوں کو اللہ کے قَہر(غُصَّہ) سے بہت ہی زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے، کہ موت سے کسی کو چارہ(چھُٹکارا) نہیں، دنیا کی عَیش وعِشرت بہت جلد چھوٹنے والی چیز ہے، کارآمد(کام آنے والی) چیز صِرف اللہ کی اِطاعت ہے، بہت سے جاہل تو اِتنے پر ہی کِفایت(اِکتِفا) کرتے ہیں کہ روزہ نہیں رکھتے؛ لیکن بہت سے بد دِین زبان سے بھی اِس قِسم کے اَلفاظ بک دیتے ہیں کہ جو کُفر تک پہنچادیتے ہیں، مثلاً: ’’روزہ وہ رکھے جس کے گھرکھانے کو نہ ہو‘‘، یا ’’ہمیں بھوکا مارنے سے اللہ کو کیا مِل جاتا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ؛ اِس قِسم کے الفاظ سے بہت ہی زیادہ اِحتِیاط کی ضرورت ہے، اور بہت غور واہتمام سے ایک مسئلہ سمجھ لینا چاہیے کہ: دِین کی چھوٹی سی چھوٹی بات کا تمَسخُر(ہنسی) اور مَذاق اُڑانا بھی کُفر کا سبب ہوتا ہے، اگر کوئی شخص عمر بھر نماز نہ پڑھے، کبھی بھی روزہ نہ رکھے، اِسی طرح اَور کوئی فرض ادا نہ کرے - بہ شرط یہ کہ اُس کا مُنکِر(انکار کرنے والا) نہ ہو- وہ کافر نہیں، جس فرض کو ادا نہیں کرتا اُس کا گناہ ہوتا ہے، اور جو اعمال ادا کرتا ہے اُن کا اجر ملتا ہے؛ لیکن دِین کی کسی اَدنیٰ سے اَدنیٰ بات کا تَمسخُر(ہنسی) بھی کُفر ہے، جس سے اَور بھی تمام عمر کے نماز، روزے، نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، بہت زیادہ قابلِ لحاظ اَمر ہے؛ اِس لیے روزے کے مُتعلِّق بھی کوئی ایسا لفظ ہرگز نہ کہے، اور اگر تمسخُر وغیرہ نہ کرے تب بھی بغیر عذر افطار کرنے والا فاسِق(گنہ گار) ہے، حَتیٰ کہ فُقَہاء نے تَصرِیح کی ہے کہ: جو شخص رمَضان میں عَلی الاِعلان(کھُلَّم کھُلاَّ) بغیر عُذر کے کھاوے اُس کو قتل کیا جاوے؛ لیکن قتل پر اگر اِسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے قدرت نہ ہو،کہ یہ کام اَمیرُ المُؤمِنِین کا ہے، تو اِس فرض سے کوئی بھی سُبک دَوش(آزاد) نہیں کہ اُس کی اِس ناپاک حرکت پر اظہارِ نفرت کرے، اور اِس سے کم تو ایمان کا کوئی درجہ ہی نہیں کہ اُس کو دل سے بُرا سمجھے۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے مُطِیع(فرمانبردار) بندے کے طُفیل مجھے بھی نیک اعمال کی توفیق نصیب فرماویں، کہ سب سے زیادہ کوتاہی کرنے والوں میں ہوں۔ فصلِ اول میں دَس حدیثیں کافی سمجھتا ہوں، کہ ماننے والے کے لیے ایک بھی کافی ہے چہ جائے کہ ﴿تِلْكَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ﴾ ، اور نہ ماننے والے کے لیے جتنا بھی لکھا جائے بے کار ہے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ سب مسلمانوں کو عَمل کی توفیق نصیب فرماویں۔
***************************
شبِ قَدر کے بیان میں
رمَضانُ المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ’’شبِ قدر‘‘ کہلاتی ہے جو بہت ہی برکت اور خیر کی رات ہے، کلامِ پاک میں اِس کو ہزار مہینوں سے افضل بتلایا ہے، ہزار مہینے کے تِراسِی برس چار ماہ ہوتے ہیں۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اِس رات کی عبادت نصیب ہوجائے، کہ جو شخص اِس ایک رات کو عبادت میں گزار دے اُس نے گویا تِراسِی برس چار ماہ سے زیادہ زمانے کو عبادت میں گزار دیا، اور اِس زیادتی کا بھی حال معلوم نہیںکہ ہزار مہینے سے کتنے ماہ زیادہ افضل ہے۔ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا حقیقتاً بہت ہی بڑا اِنعام ہے، کہ قدر دَانوں(قدر کرنے والوں) کے لیے یہ ایک بے نہایت نعمت مَرحَمت(عطا) فرمائی۔ ’’دُرِّ مَنثور‘‘ میں حضرت انسؓ سے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: شبِ قدر حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ نے میری اُمَّت کو مَرحَمَت(عطا) فرمائی ہے، پہلی اُمَّتوں کو نہیں ملی۔
[الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس:702]
اِس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ اِس انعام کا سبب کیا ہوا؟ بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے پہلی اُمَّتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت بہت ہوئی ہیں، اور آپ کی اُمَّت کی عمریں بہت تھوڑی ہیں،اگر وہ نیک اعمال میں اُن کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن، اِس سے اللہ کے لاڈلے نبی کو رَنج(غم) ہوا، اِس کی تَلافِی(کمی کو پورا کرنے) میں یہ رات مَرحَمت(عطا) ہوئی [شعب الإيمان البيهقي:3395] کہ اگر کسی خوش نصیب کو دَس راتیں بھی نصیب ہوجائیں اور اُن کو عبادت میں گزار دے، تو گویا آٹھ سو تینتیس(۸۳۳) برس چار ماہ سے بھی زیادہ زمانہ کامِل عبادت میں گزار دیا۔ بعض رِوایات سے معلوم ہوتا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ: ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہا، صحابہؓ کو اِس پر رَشک آیا، تو اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہ نے اِس کی تَلافِی(کمی کو پورا کرنے) کے لیے اِس رات کا نزول فرمایا۔[تفسير ابن أبي حاتم:19424، السنن الكبرى للبيهقي:8524] ایک روایت میں ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے چار حضرات کا ذکر فرمایا: حضرت ایوبؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت حِزقِیلؑ، حضرت یوشَعؑ؛ کہ اَسّی اَسّی برس تک اللہ کی عبادت میں مشغول رہے، اور پَل جھپکنے کے برابر بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی، اِس پر صحابۂ کرامؓ کو حیرت ہوئی، تو حضرت جبرئیلؑ حاضرِ خدمت ہوئے اور سورۃُ القَدر سنائی۔[تفسير ابن أبي حاتم:19426] اِس کے عِلاوہ اَور بھی روایات ہیں۔ اِس قِسم کے اختلافِ روایات کی اکثر وجہ یہ ہوتی ہے کہ، ایک ہی زمانے میں جب مختلف واقعات کے بعد کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو ہر واقِعے کی طرف نسبت ہوسکتی ہے۔ بہر حال سببِ نزول جو کچھ بھی ہوا ہو؛ لیکن اُمَّتِ محمدیہ کے لیے یہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا بہت ہی بڑا انعام ہے، یہ رات بھی اللہ ہی کا عَطِیَّہ(انعام) ہے اور اِس میں عمل بھی اُسی کی توفیق سے مُیسَّر(حاصل) ہوتا ہے؛ ورنہ:
تَہِی دَستانِ قِسمَت رَاچہ سُود اَز رَہبرِ کامِل
کہ خِضر اَز آبِ حَیواں تِشنہ مِی آرَد سِکندر را (قِسمت کے مَحروموں کو رہبرِ کامل سے کیا فائدہ ہوتا ہے! اِس لیے کہ خضرؑ آبِ حیات کے چشمے سے سکندر کو پیاسا واپس لے آئے۔)
کس قدر قابلِ رَشک ہیں وہ مَشائخ جو فرماتے ہیں کہ: بُلوغ کے بعد سے مجھ سے شبِ قدر کی عبادت کبھی فوت نہیں ہوئی۔ البتہ اِس رات کی تعیین میں عُلَمائے اُمَّت کے درمیان میں بہت ہی کچھ اختلاف ہے، تقریباً پچاس کے قریب اَقوال ہیں، سب کا اِحاطہ دُشوار ہے؛ البتہ مشہور اَقوال کا ذِکر عَن قَریب آنے والا ہے۔
کُتُبِ اَحادِیث میں اِس رات کی فضیلت مُختلِف اَنواع اور مُتعدِّد رِوایات سے وَارِد ہوئی ہے، جن میں سے بعض کا ذکر آتا ہے؛ مگر چوںکہ اِس رات کی فضیلت خود قرآنِ پاک میں بھی مذکور ہے، اور مُستَقِل ایک سورۃ اِس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ اِس لیے مناسب ہے کہ، اوَّل اِس سورۃِ شرِیفہ کی تفسیر لکھ دی جائے۔ ترجَمہ حضرت اقدس حکیمُ الاُمَّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ کی تفسیر ’’بیانُ القرآن‘‘ سے ماخوذ ہے، اور فوائد دوسری کُتب سے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ﴿إِنَّآ أَنزَلۡنَٰهُ فِي لَيۡلَةِ ٱلۡقَدۡرِ﴾ : بے شک ہم نے قرآن پاک کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔
فائدہ: یعنی: قرآنِ پاک لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اِسی رات میں اُترا ہے، یہی ایک بات اِس رات کی فضیلت کے لیے کافی تھی کہ قرآن جیسی عظمت والی چیز اِس میں نازل ہوئی، چہ جائے کہ اِس میں اَور بھی بہت سے برکات وفضائل شامل ہوگئے ہوں۔ آگے زیادتیِٔ شوق کے لیے ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ﴾: آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے؟ یعنی: اِس رات کی بَڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے، کہ کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اِس میں ہیں؟۔ اِس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں:
﴿لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَيۡرٞ مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡرٖ﴾: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یعنی: ہزار مہینے تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے اِس سے زیادہ شبِ قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے، اور اِس زیادتی کا علم بھی نہیں کہ کتنی زیادہ ہے؟۔
﴿تَنَزَّلُ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ﴾:اِس رات میں فرشتے اُترتے ہیں۔
عَلَّامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ: ملائکہ نے جب ابتدا میں تجھے دیکھا تھا تو تجھ سے نفرت ظاہر کی تھی، اور بارگاہِ عالی میں عرض کیا تھا کہ: ایسی چیز کو آپ پیدا فرماتے ہیں جو دنیا میں فساد کرے اور خون بہاوے؟ اِس کے بعد وَالدین نے جب تجھے اوَّل دیکھا تھا جب کہ تُو مَنی کا قطرہ تھا تو تجھ سے نفرت کی تھی، حَتیٰ کہ کپڑے کو لگ جاتا تو کپڑے کو دھونے کی نوبت آتی؛ لیکن جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اِس قَطرے کو بہتر صورت مَرحَمت(عطا) فرمادی تو والدین کو بھی شَفقَت اور پیار کی نوبت آئی، اور آج جب کہ توفیقِ الٰہی سے تُو شبِ قدر میں مَعرفتِ اِلٰہی اور طاعتِ رَبَّانی میں مشغول ہے تو ملائکہ بھی اپنے اُس فِقرے(جملہ) کی مَعذِرَت(عُذر) کے لیے اُترے ہیں۔
﴿وَٱلرُّوحُ فِيهَا﴾: اور اِس رات میں رُوحُ القُدْس -یعنی حضرت جبرئیلؑ- بھی نازل ہوتے ہیں۔ ’’رُوح‘‘ کے معنیٰ میں مُفسِّرین کے چند قول ہیں: جَمہُور کا یہی قول ہے جو اوپر لکھا گیا کہ: اِس سے حضرت جبرئیلؑ مراد ہیں، علامہ رازی ؒ نے لکھا ہے کہ: یہی قول زیادہ صحیح ہے، اور حضرت جبرئیلؑ کی اَفضَلِیَّت کی وجہ سے مَلائکہ کے ذکر کے بعد خاص طور سے اُن کا ذکر فرمایا۔ بعض کا قول ہے کہ: رُوح سے مراد ایک بہت بڑا فرشتہ ہے کہ تمام آسمان وزَمین اُس کے سامنے ایک لُقمے کے بہ قدر ہیں۔ بعضوں کا قول ہے کہ: اِس سے مراد فرشتوں کی ایک مخصوص جماعت ہے جو اَور فرشتوں کو بھی صرف لَیلَۃُ القَدر ہی میں نظر آتے ہیں۔ چوتھا قول یہ ہے کہ: یہ اللہ کی کوئی مخصوص مخلوق ہے جو کھاتے پیتے ہیں؛ مگر نہ فرشتے ہیں نہ انسان۔ پانچواں یہ کہ: حضرت عیسیٰؑ مراد ہیں جو اُمَّتِ محمدیہ کے کارنامے دیکھنے کے لیے ملائکہ کے ساتھ اُترتے ہیں۔ چھٹا قول یہ ہے کہ: یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے، یعنی اِس رات میں ملائکہ نازل ہوتے ہیں، اور اُن کے بعد میری رحمت خاص نازل ہوتی ہے۔ اِن کے عِلاوہ اَور بھی چند اقوال ہیں؛ مگر مشہور قول پہلا ہی ہے۔ ’’سُننِ بَیہَقِی‘‘ میں حضرت اَنسؓ کے واسطے سے نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ: شبِ قدر میں حضرت جبرئیلؑ فرشتوں کے ایک گِروہ(جماعت) کے ساتھ اُترتے ہیں، اور جس شخص کو ذکر وغیرہ میں مشغول دیکھتے ہیں اُس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔
[شعب الإيمان البيهقي:3444]
﴿بِإِذۡنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمۡرٖ﴾: اپنے پروردگار کے حکم سے ہر اَمرِ خیر کولے کر زمین کی طرف اُترتے ہیں۔
’’مَظاہرِحَق‘‘ میں لکھا ہے کہ: اِسی رات میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی، اور اِسی رات میں آدم ں کا مادَّہ(جس سے کوئی چیز بنائی جائے) جمع ہونا شروع ہوا [عمدۃ القاری:11/ 134]، اِسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے۔ اور دعا وغیرہ کا قبول ہونا بہ کثرت روایات میں وَارِد ہے۔ ’’دُرِّ مَنثُور‘‘ کی ایک روایت میں ہے کہ: اِسی رات میں حضرت عیسیٰؑ آسمان پر اُٹھا لیے گئے[مسند ابویعلیٰ:6757]، اور اِسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔[مسند ابویعلیٰ:6757]
﴿سَلَامٌ﴾:وہ رات سراپا سَلام ہے۔
یعنی: تمام رات ملائکہ کی طرف سے مُومِنین پر سلام ہوتا رہتا ہے، کہ ایک فوج آتی ہے دوسری جاتی ہے، جیسا کہ بعض رِوایات میں اِس کی تَصرِیح(وضاحت) ہے، یا یہ مراد ہے کہ: یہ رات سَراپا سلامتی ہے، شَر وفَساد وغیرہ سے اَمَن ہے۔
﴿هِيَ حَتَّىٰ مَطۡلَعِ ٱلۡفَجۡرِ﴾: وہ رات (اِن ہی برکات کے ساتھ)تمام رات طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ رات کے کسی خاص حصے میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو؛ بلکہ صبح ہونے تک اِن برکات کا ظہور رہتا ہے۔
اِس سورۃ شریفہ کے ذکر کے بعد - کہ خود اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے کلام پاک میں اِس رات کی کئی نوع کی فضیلتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں- احادیث کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی؛ لیکن اَحادیث میں بھی اِس کی فضیلت بہ کثرت وَارِد ہوئی ہے، اُن میں سے چند احادیث ذکر کی جاتی ہے:
نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص لیلۃُ القَدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہو، اُس کے پچھلے تمام گناہ مُعاف کردیے جاتے ہیں۔
[صحيح البخاري:37، صحيح مسلم:759، سنن أبي داود:1371، سنن الترمذي:808، سنن النسائي:1602]
فائدہ:
کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے، اور اِسی حکم میں یہ بھی ہے کہ کسی اَور عبادت: تلاوت اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہو۔ اور ثواب کی اُمید رکھنے کامطلب یہ ہے کہ، رِیا(دِکھلاوا) وغیرہ کسی بدنِیَّتی سے کھڑا نہ ہو؛ بلکہ اخلاص کے ساتھ مَحض اللہ کی رَضا اور ثواب کے حُصول کی نیت سے کھڑا ہو۔ خَطَّابیؒ کہتے ہیں: اِس کامطلب یہ ہے کہ، ثواب کایقین کرکے بَشاشتِ قَلب(دلی خوشی) سے کھڑا ہو، بوجھ سمجھ کر بددِلی کے ساتھ نہیں۔ اورکھلی ہوئی بات ہے کہ جس قدر ثواب کا یقین اور اعتماد زیادہ ہوگا اُتنا ہی عبادت میں مَشقَّت کا برداشت کرنا سَہَل(آسان) ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جو شخص قُربِ اِلٰہی میں جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے عبادت میں اِنہِماک زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ نیز یہ معلوم ہوجانا بھی ضروری ہے کہ، حدیثِ بالا اور اِس جیسی احادیث میں گناہوں سے مراد عُلَماء کے نزدیک صَغِیرہ(چھوٹے) گناہ ہوتے ہیں؛ اِس لیے کہ قرآنِ پاک میں جہاں کَبیرہ(بڑے) گناہوں کا ذکر آتا ہے اُن کو ﴿إلَّا مَنْ تَابَ﴾ (یعنی مگر جو شخص توبہ کرے)[سورۃ الفرقان:70] کے ساتھ ذکر کیا ہے، اِسی بِنا پر عُلَماء کا اِجماع ہے کہ، کبیرہ گناہ بغیرتوبہ کے مُعاف نہیں ہوتا۔ پس جہاں احادیث میں گناہوں کے مُعاف ہونے کا ذکر آتا ہے، عُلماء اُس کو صَغائِر کے ساتھ مُقیَّد فرمایا کرتے ہیں۔ میرے والد صاحب - نَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ وَبَرَّدَ مَضجَعَہٗ - کا ارشاد ہے کہ: احادیث میں صَغائِر کی قید دو وجہ سے مذکور نہیں ہوتی: اوَّل تو یہ کہ مسلمان کی شان یہ ہے ہی نہیں کہ اُس کے ذمَّے کَبیرہ گناہ ہو؛ کیوںکہ جب کبیرہ گناہ اُس سے صَادِر ہوجاتا ہے تو مسلمان کی اَصل شان یہ ہے کہ اُس وقت تک چین ہی نہ آوے جب تک کہ اُس گناہ سے توبہ نہ کرلے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ: جب اِس قِسم کے موقع ہوتے ہیں مثلاً: لیلۃُ القَدر ہی میں جب کوئی شخص بہ اُمیدِ ثواب عبادت کرتا ہے تو اپنی بداعمالیوں پر نَدامَت(اَفسوس) اُس کے لیے گویا لازم ہے، اور ہوہی جاتی ہے؛ اِس لیے توبہ کا تحقُّق(پایا جانا) خود بہ خود ہوجاتا ہے، کہ توبہ کی حقیقت گذشتہ پر نَدامَت(اَفسوس) اور آئندہ کونہ کرنے کا عَزم(پَکّا ارادہ) ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص کَبائِر کا مُرتکِب(عمل کرنے والا) بھی ہو تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ، لَیلَۃُ القَدر ہو یا کوئی اَور اِجابت کا موقع ہو، اپنی بداعمالیوں سے سچے دل سے پُختگی کے ساتھ دِل و زبان سے توبہ بھی کرلے؛ تاکہ اللہ کی رحمتِ کامِلہ مُتوجَّہ ہو، اور صغیرہ کبیرہ سب طرح کے گناہ مُعاف ہوجاویں، اور یاد آجاوے تو اِس سِیاہ کار(گنہ گار) کو بھی اپنی مُخلِصانہ(خُلوص والی) دُعاؤں میں یاد فرمالیں۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رمَضانُ المبارک کا مہینہ آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ: تمھارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری ہی خَیر سے محروم رہ گیا، اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا؛ مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔
[مصنف عبد الرزاق:7383، سنن ابن ماجه:1644، مسند البزار:7273، المعجم الأوسط:1444]
فائدہ:
حقیقتاً اُس کی محرومی میں کیا تَامُّل(شک) ہے جو اِس قدر بڑی نعمت کو ہاتھ سے کھو دے۔ ریلوے مُلازِم چند کوڑیوں کی خاطر رات رات بھر جاگتے ہیں، اگر اَسّی برس کی عبادت کی خاطر کوئی ایک مہینے تک رات میں جاگ لے تو کیا دِقَّت(حَرج، تکلیف) ہے؟ اصل یہ ہے کہ دِل میں تڑپ ہی نہیں، اگر ذرا سا چَسکا(عادت، شوق) پڑجائے تو پھر ایک رات کیا، سیکڑوں راتیں جاگی جاسکتی ہے:
اُلفت میں برابر ہے وَفا ہو کہ جَفا(بے وفائی) ہو ہر چیز میں لَذَّت ہے اگر دل میں مَزا ہو
آخر کوئی تو بات تھی کہ نبیٔ کریم ﷺ باوجود ساری بَشارتوں اور وعدوں کے -جن کا آپ کو یقین تھا- پھر اِتنی لمبی نماز پڑھتے تھے کہ پاؤں وَرَم(سُوجن) کرجاتے تھے[صحیح مسلم:2819]، اُن ہی کے نام لیوا اور اُمَّتی آخر ہم بھی کہلاتے ہیں۔ ہاں! جن لوگوں نے اِن اُمور کی قدر کی وہ سب کچھ کرگئے، اور نمونہ بن کر اُمَّت کو دِکھلا گئے، کہنے والوں کو یہ موقع بھی نہیں رہا کہ: حضور ﷺ کی حِرص(تمنا) کون کرسکتا ہے اور کس سے ہوسکتی ہے؟ دل میں سَما جانے کی بات ہے، کہ چاہنے والے کے لیے دودھ کی نہر پہاڑ سے کھودنی بھی مشکل نہیں ہوتی؛ مگر یہ بات کسی کی جوتیاں سیدھی کیے بغیر مشکل سے حاصل ہوتی ہے:
تمنَّا دَردِ دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی نہیں مِلتا یہ گوہر(موتی) بادشاہوں کے خَزِینے میں
آخر کیا بات تھی کہ حضرت عمرؓ عشاء کی نماز کے بعد گھر میں تشریف لے جاتے اور صبح تک نماز میں گزار دیتے تھے۔ حضرت عثمانؓ دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر نماز میں گزار دیتے، صرف رات کے اوَّل حصے میں تھوڑا سا سوتے تھے، رات کی ایک ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیتے تھے۔ شرح اِحیاء العلوم میں اَبوطالب مَکِّیؒ سے نقل کیا ہے کہ: چالیس تابعین سے بہ طریقِ تواتُر یہ بات ثابت ہے کہ: وہ عشاء کے وُضو سے نمازِ صبح پڑھتے تھے[إحياء علوم الدين،ج1،ص359، دار المعرفة]۔ حضرت شَدَّادؒ رات کو لیٹتے اور تمام رات کَروَٹیں بدل کر صبح کردیتے، اور کہتے: یا اللہ! آگ کے ڈر نے میری نیند اُڑا دی۔ اور اَسود بن یزیدؒ رمَضان میں مغرب عشاء کے درمیان تھوڑی دیر سوتے اور بس۔ سعید بنُ المُسیِّبؒ کے مُتعلِّق مَنقُول ہے کہ: پچاس برس تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھی، صِلہ بن اَشیَمؒ رات بھر نماز پڑھتے اور صبح کو یہ دعا کرتے کہ: یا اللہ! مَیں اِس قابل تو نہیں ہوں کہ جنَّت مانگوں، صرف اِتنی درخواست ہے کہ: آگ سے بچا دیجیو۔ حضرت قَتادہؓ تمام رمَضان تو ہر تین رات میں ایک ختم فرماتے؛ مگر عشرۂ اخیرہ میں ہر رات میں ایک قرآن شریف ختم کرتے۔ امام ابوحنیفہؒ کا چالیس سال تک عشاء کے وُضو سے صبح کی نماز پڑھنا
[امام نووی شافعی ؒنے تہذیب الاسماء صفحہ 704 پہ،علامہ دمیریؒ نے حیات الحیوان جلد 1 صفحہ 122 پہ،حافظ ابن حجر عسقلانی شافعیؒ نے تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ450 پہ،علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے تبیض الصحیفہ صفحہ 15 پہ،قاضی حسین بن محمد دیار مالکیؒ نے تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 366 پہ،عبد الوہاب شعرانی حنبلیؒ نے کتاب المیزان جلد 1 صفحہ 61 پہ، ابن حجر مکی شافعیؒ نے الخیرات الحسان صفحہ 36 پہ امام صاحبؒ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔]
اِتنا مشہور ومعروف ہے کہ، اِس سے اِنکار تاریخ کے اِعتماد(بھروسہ) کو ہٹاتا ہے، جب اُن سے پوچھا گیا کہ: آپ کو یہ قوَّت کس طرح حاصل ہوئی؟ تو اُنھوں نے فرمایا کہ: مَیں نے اللہ کے ناموں کے طُفیل ایک مخصوص طریق پر دُعا کی تھی۔ صرف دوپہر کو تھوڑی دیر سوتے اور فرماتے کہ: حدیث میں قَیلُولہ(دوپہر کے سونے) کا ارشاد ہے[ابن ماجہ:1603]، گویا دوپہر کے سونے میں بھی اِتِّباعِ سنَّت کا اِرادہ ہوتا۔ قرآن شریف پڑھتے ہوئے اِتنا روتے کہ پڑوسیوں کو تَرَس(رحم آنے لگتا تھا، ایک مرتبہ ساری رات اِس آیت کو پڑھتے اور روتے گذار دی: ﴿بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ﴾ [سورۃ القمر، آیۃ 46]. ابراہیم بن اَدہَمؒ رمَضانُ المبارک میں نہ تو دن کو سوتے نہ رات کو۔ امام شافعیؒ رمَضانُ المبارک میں دن رات کی نمازوں میں ساٹھ قرآن شریف ختم کرتے۔ اور اِن کے عِلاوہ سیکڑوں واقعات ہیں جنھوں نے ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (اور نہیں پیدا کیا میں ن ےجنوں اور انسانوں کو سوائے اپنی عبادت کے۔) [سورۃ الذاریات، آیۃ 26] پر عمل کرکے بتلادیا، کہ کرنے والے کے لیے کچھ مشکل نہیں۔
یہ سَلَف(اَگلے) کے واقعات ہیں، اب بھی کرنے والے موجود ہیں، اِس درجے کامُجاہَدہ نہ سہی؛ مگر اپنے زمانے کے موافق، اپنی طاقت وقُدرت کے موافق نمونۂ سَلَف اب بھی موجود ہیں، اور نبیٔ کریم ﷺ کا سچا اِقتِدا کرنے والے اِس دَورِ فساد میں بھی موجود ہیں، نہ راحت وآرام اِنہِماکِ(مشغولی) عبادت سے مانع(رُکاوَٹ) ہوتا ہے نہ دُنیوی مَشاغِل سَدِّ راہ(حائل) ہوتے ہیں، نبیٔ کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ: اللہ کا ارشاد ہے: اے ابنِ آدم! تُومیری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، مَیں تیرے سینے کو غِنا سے بھر دُوںگا اور تیرے فَقر کوبند کر دُوںگا، ورنہ تیرے سینے کومَشاغِل سے بھر دُوںگا اور فَقر زَائل(ختم) نہیں ہوگا[ابن ماجہ:4107]۔ روز مَرَّہ(روزانہ) کے مُشاہَدات اِس سچے ارشاد کے شاہدِ عَدل(سچے گواہ) ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: شبِ قدر میں حضرت جبرئیلؑ ، ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں، اور اُس شخص کے لیے جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کررہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے دُعائے رحمت کرتے ہیں، اور جب عیدُالفِطر کا دن ہوتا ہے تو حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فَخر فرماتے ہیں- اِس لیے کہ اُنھوں نے آدمیوں پر طَعَن(مَلامت) کیا تھا- اور اُن سے دریافت فرماتے ہیں کہ: اے فرشتو! اُس مزدُور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کردے کیا بدلہ ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ: اے ہمارے رب! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی اُجرت پوری دے دی جائے، تو ارشاد ہوتا ہے کہ: فرشتو! میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فرِیضے کو پورا کردیا، پھر دُعا کے ساتھ چِلَّاتے ہوئے (عیدگاہ کی طرف) نکلے ہیں، میری عزت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! میری بخشش کی قَسم! میرے عُلُوِّ شان(بلند مرتبہ) کی قَسم! میرے بُلندیٔ مَرتبہ کی قَسم! مَیں اُن لوگوں کی دُعا ضرور قبول کروں گا، پھر اُن لوگوں کو خِطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے کہ: جاؤ! تمھارے گناہ معاف کردیے ہیں اور تمھاری بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے، پس یہ لوگ عیدگاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ اُن کے گناہ مُعاف ہوچکے ہوتے ہیں۔
حضرت جبرئیلؑ کا ملائکہ کے ساتھ آنا خود قرآنِ پاک میں بھی مذکور ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا، اور بہت سی احادیث میں بھی اِس کی تَصرِیح(وَضاحت) ہے۔ رسالے کی سب سے اخیر حدیث میں اِس کا مُفصَّل ذکر آرہا ہے کہ: حضرت جبرئیلؑ تما م فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ: ہر ذَاکر وشَاغِل(مشغول رہنے والا) کے گھرجاویں اور اُن سے مُصافَحہ کریں۔ ’’غَالِیَۃُ المَواعِظ‘‘ میں حضرتِ اقدس شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی ’’غُنیۃ‘‘ سے نقل کیا ہے کہ: ابنِ عباسص کی حدیث میں ہے کہ: فرشتے حضرت جبرئیلؑ کے کہنے سے مُتفَرِّق ہوجاتے ہیں، اور کوئی گھر چھوٹا بڑا، جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور وہ فرشتے مصافحہ کرنے کے لیے وہاں نہ جاتے ہوں؛ لیکن اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتَّا یا سُوَّر ہو، یا حَرام کارِی(زِنا) کی وجہ سے جُنُبی(یعنی وہ آدمی جسے جماع یا اَحتلام کی وجہ سے غُسل واجب ہو) یا تصویر ہو۔ مسلمانوں کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن میں خَیالی زِینت کی خاطر تصویریں لَٹکائی جاتی ہیں اور اللہ کی اِتنی بڑی نعمتِ رحمت سے اپنے ہاتھوں اپنے کو محروم کرتے ہیں! تصویر لَٹکانے والا ایک آدھ ہوتا ہے؛ مگر اُس گھر میں رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے سے روکنے کا سبب بن کر سارے ہی گھر کواپنے ساتھ محروم رکھتا ہے۔
حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا رسول اللہ ﷺ سے نقل فرماتی ہیں کہ: لَیلۃُ القدر کو رمَضان کے اَخیر عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔
[صحيح البخاري:2017، صحيح مسلم:1169، سنن الترمذي:792]
فائدہ:
جَمہُور عُلَماء کے نزدیک اخیرعشرہ(ّیعنی خری دس دنوں) اِکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے، عام ہے کہ مہینہ ۲۹؍ کا ہو یا ۳۰؍ کا، اِس حساب سے حدیثِ بالا کے مطابق شبِ قدر کی تلاش ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹؍ راتوں میں کرنا چاہیے، اگر مہینہ ۲۹؍ کا ہوتب بھی اَخیر عشرہ یہی کہلاتا ہے؛ مگر ابنِ حَزمؒ کی رائے ہے کہ: عشرہ کے معنیٰ دس کے ہیں؛ لہذا اگر تیس کا چاند رمَضانُ المبارک کا ہو تب تو یہ ہے؛ لیکن اگر ۲۹؍ کا چاند ہو تو اِس صورت میں اَخیر عشرہ بیسویں شب سے شروع ہوتا ہے، اور اِس صورت میں وِتر راتیں یہ ہوںگی: ۲۰، ۲۲، ۲۴، ۲۶، ۲۸؛ لیکن نبیٔ کریم ﷺ لیلۃُ القَدر ہی کی تلاش میں رمَضان المبارک کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے[صحیح البخاری:2025]، اور وہ بالاتفاق اکیسویں شب سے شروع ہوتا تھا؛ اِس لیے بھی جَمہور کا قول: ’’اکیسویں رات سے طاق راتوں میں قوِی احتمال ہے‘‘ زیادہ راجح ہے، اگرچہ احتمال اَور راتوں میں بھی ہے، اور دونوں قولوں پر تلاش جب ممکن ہے کہ، بیسویں شَب سے لے کرعید کی رات تک ہر رات میں جاگتا رہے اور شبِ قدر کی فکر میں لگا رہے، دس گیارہ راتیں کوئی ایسی اہم یا مشکل چیز نہیں جن کو گزار دینا اُس شخص کے لیے کچھ مشکل ہو جو ثواب کی امید رکھتا ہو: عُرفی اگر بگِریہ مُیسَّر شُدے وِصال صَد سال می تَواں بہ تمنَّا گِریستَن
(اے عرفی! اگر محض رونے سے محبوب کی ملاقات ہوجایا کرتی، تو سینکڑوں سال اِس تمنا میں رَویا جاسکتا ہے۔)
حضرت عُبادَہؓ کہتے ہیں کہ: نبیٔ کریم ﷺ اِس لیے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شبِ قدر کی اِطِّلاع فرماویں؛ مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا، حضرت ﷺ نے فرمایا کہ: مَیں اِس لیے آیا تھا کہ تمھیں شبِ قدر کی خبر دوں؛ مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہورہا تھا کہ جس کی وجہ سے اِس کی تعیین اُٹھا لی گئی، کیا بعید ہے کہ یہ اُٹھالینا اللہ کے علم میں بہتر ہو؛ لِہٰذا اب اِس رات کو نوِّیں اور ساتوِیں اور پانچوِیں رات میں تلاش کرو۔
[السنن المأثورة للشافعي:329، مسند أحمد:22721، صحيح البخاري:2023+6049، السنن الكبرى للنسائي:3381، شرح معاني الآثار،الطحاوي:4631، شعب الإيمان:3405،فضائل الأعمال للمقدسي:221]
فائدہ:
اِس حدیث میں تین مضمون قابلِ غور ہیں: اَمرِ اوَّل جو سب سے اہم ہے وہ جھگڑا ہے، جو اِس قدر سخت بُری چیز ہے کہ اِس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے شبِ قدر کی تَعیین اُٹھالی گئی، اور صرف یہی نہیں؛ بلکہ جھگڑا ہمیشہ برکات سے محرومی کا سبب ہوا کرتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تمھیں نماز، روزہ، صدقہ وَغیرہ سب سے اَفضل چیز بتلاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ضرور، حضور ﷺ نے فرمایا کہ: آپس کا سُلوک سب سے اَفضل ہے، اور آپس کی لڑائی دِین کو مُونڈنے والی ہے، یعنی: جیسے اُسترے سے سَر کے بال ایک دَم صاف ہوجاتے ہیں آپس کی لڑائی سے دِین بھی اِسی طرح صاف ہوجاتا ہے۔[سنن ابوداؤد:4919]
دنیا دار، دِین سے بے خبر لوگوں کا کیا ذکر! جب کہ بہت سی لمبی لمبی تسبیحیں پڑھنے والے، دِین کے دعوے دار بھی ہر وَقت آپس کی لڑائی میں مُبتَلا رہتے ہیں، اوَّل حضور ﷺ کے ارشاد کو غور سے دیکھیں اور پھر اپنے اُس دین کی فکر کریں جس کے گھمنڈ میں صُلح کے لیے جھکنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ فصلِ اوَّل میں روزے کے آداب میں گزر چکا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے مسلمانوں کی آبروریزی(بے عزتی) کو بَدترین سُود اور خَبیث ترین سود ارشاد فرمایا ہے؛ لیکن ہم لوگ لڑائی کے زور میں نہ مسلمان کی آبرو(عزت) کی پرواہ کرتے ہیں نہ اللہ اور اُس کے سچے رسول ﷺکے اِرشادات کا خَیال، خود اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَاتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ﴾ (سورۃ الانفال:46) : اور نِزاع(جھگڑا) مت کرو، ورنہ کم ہِمَّت ہوجاؤ گے اور تمھاری ہَوا اُکھڑ جائے گی۔ (بیانُ القرآن) آج وہ لوگ جو ہر وقت دوسروں کا وَقار گھٹانے کی فکر میں رہتے ہیں تنہائی میں بیٹھ کر غور کریں کہ، خود وہ اپنے وَقار کو کتنا صدمہ پہنچا رہے ہیں! اور اپنی اِن ناپاک اور کمینہ حرکتوں سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کتنے ذَلیل ہورہے ہیں! اور پھر دُنیا کی ذِلَّت بدیہی(بالکل واضح)۔
نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ چھوٹ چھُٹاؤ رکھے، اگر اِس حالت میں مرگیا تو سیدھا جہنَّم میں جاوے گا[سنن ابوداؤد:4919]، ایک حدیث میں اِرشاد ہے کہ: ہر پیر و جمعرات کے دن اللہ کی حُضوری میں بندوں ے اعمال پیش ہوتے ہیں، اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رَحمت سے (نیک اَعمال کی بہ دولت) مُشرکوں کے عِلاوہ اَوروں کی مغفرت ہوتی رہتی ہے؛ مگر جن دو میں جھگڑا ہوتا ہے اُن کی مغفرت کے متعلِّق ارشاد ہوتا ہے کہ: اِن کو چھوڑے رکھو جب تک صلح نہ ہو[صحیح مسلم:2565]۔ ایک حدیثِ پاک میں ارشاد ہے کہ: ہر پیر جمعرات کو اعمال کی پَیشی(حضوری) ہوتی ہے اُس میں توبہ کرنے والوں کی توبہ قَبول ہوتی ہے، اور اِستِغفار کرنے والوں کی اِستغفار قَبول کی جاتی ہے؛ مگر آپس میں لڑنے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے[المعجم الاوسط:7419] ایک جگہ ارشاد ہے کہ: شبِ براء ت میں اللہ کی رَحمتِ عامّہ خَلقَت(مخلوق) کی طرف مُتوجَّہ ہوتی ہے، اور (ذرا ذرا سے بہانے سے) مخلوق کی مغفرت فرمائی جاتی ہے؛ مگر دوشخصوں کی مغفرت نہیں ہوتی: ایک کافر، دوسرا: وہ جو کسی سے کِینہ رکھے۔[ابن ماجہ:1319]
ایک جگہ ارشاد ہے کہ: تین شخص ہیں جن کی نماز قَبولیت کے لیے اُن کے سَر سے ایک بالِشت بھی اُوپر نہیں جاتی، جن میں آپس کے لڑنے والے بھی فرمائے ہیں[ابن ماجہ:971]۔ یہ جگہ اُن رِوایات کے اِحاطے(شمار کرنا) کی نہیں؛ مگر چند رِوایات اِس لیے لکھ دی ہیں کہ ہم لوگوں میں عوام کا ذِکر نہیں، خَواص میں اور اُن لوگوں میں جو شُرَفاء(بزرگ) کہلاتے ہیں، دِین دار سمجھے جاتے ہیں، اُن کی مَجالِس، اُن کے مَجامِع، اُن کی تقریرات اِس کمینہ حرکت سے لَبریز(بھرا ہوا) ہیں۔ فَإلَی اللہِ الْمُشْتَکیٰ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ.
لیکن اِن سب کے بعد یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ، یہ سب دنیوی دُشمنی اور عَداوَت پر ہے، اگر کسی شخص کے فِسق کی وجہ سے یا کسی دِینی اَمر کی حِمایت(طرف داری) کی وجہ سے ترکِ تعلُّق کرے تو جائز ہے۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے ایک مرتبہ حضور ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا، تو اُن کے بیٹے نے اُس پر ایسا لفظ کہہ دیا جو صُورتاً حدیث پر اِعتراض تھا، حضرت ابنِ عمرص مرنے تک اُن سے نہیں بولے[صحیح مسلم:442]۔ اَور بھی اِس قسم کے واقعات صحابۂ کرامؓ کے ثابت ہیں؛ لیکن اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ دَانا بِینا(یعنی جاننے والا دیکھنے والا) ہیں، قُلوب کے حال کو اچھی طرح جاننے والے ہیں، اِس سے خوب وَاقِف ہیں کہ کونسا ترکِ تعلُّق دِین کی خاطر ہے اور کونسا اپنی وَجاہت(عزت) اور کسرِ شان(مرتبہ کی کمی) اور بَڑائی(تکبُّر) کی وجہ سے ہے؟ ویسے تو ہر شخص اپنے کینہ اور بُغض کو دِین کی طرف مَنسوب کر ہی سکتا ہے۔
دوسرا اَمر جو حدیثِ بالا میں معلوم ہوتا ہے وہ حِکمتِ اِلٰہی کے سامنے رَضا اور قَبول وتَسلِیم ہے، کہ باوجود اِس کے کہ شبِ قَدر کی تعیین کا اُٹھ جانا صورتاً بہت ہی بڑی خَیر کا اُٹھ جانا تھا؛ لیکن چوںکہ اللہ کی طرف سے ہے؛ اِس لیے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’شاید ہمارے لیے یہی بہتر ہو‘‘۔ نہایت عبرت اور غور کامقام ہے، اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رَحیم وکَرِیم ذات بندے پر ہر وقت مہربان ہے، اگر بندہ اپنی بداعمالی سے کسی مصیبت میں مُبتَلا ہوجاتا ہے تب بھی اللہ کی طرف سے تھوڑی سی توجُّہ اور اِقرارِ عِجز(عاجزی کا اقرار) کے بعد اللہ کا کرم شاملِ حال ہوجاتا ہے، اور وہ مصیبت بھی کسی بڑی خیر کا سبب بنادی جاتی ہے، اوراللہ کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں؛ چناںچہ عُلَمانے اِس کے اِخفاء(پوشیدہ ہونا) میں بھی چند مَصالِح(مَصلَحتیں) ارشاد فرمائے ہیں:
اوَّل یہ کہ، اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سی کوتاہ طَبائِع(سُست طبیعتیں) ایسی ہوتیں کہ اَور راتوں کا اہتمام بِالکل تَرک کردیتیں، اور اِس صورتِ موجودہ میں اِس احتمال پر کہ آج ہی شاید شبِ قدر ہو متعدِّد راتوں میں عبادت کی توفیق طلب والوں کو نصیب ہوجاتی ہے۔
دوسری یہ کہ، بہت سے لوگ ہیں کہ مَعاصی کے بغیر اُن سے رَہا ہی نہیں جاتا، تعیین کی صورت میں اگر باوجود معلوم ہونے کے اِس رات میں مَعصِیت کی جُرأت(ہمت) کی جاتی تو سخت اَندیشہ ناک(خوفناک) تھا۔ نبیٔ کریم ﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لائے کہ ایک صحابی سورہے تھے، آپ ﷺ نے حضرت علی صسے ارشاد فرمایا کہ: اِن کو جَگا دو؛ تاکہ وُضو کرلیں، حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ نے جگا تو دیا؛ مگر حضور ﷺ سے پوچھا کہ: آپ توخیر کی طرف بہت تیزی سے چلنے والے ہیں، آپ نے خود کیوں نہیں جگا دیا؟ حضورﷺ نے فرمایا: مَبادَا(ایسا نہ ہو) انکار کر بیٹھتا، اور میرے کہنے پر اِنکار کُفر ہوجاتا، تیرے کہنے سے اِنکار پر کفر نہیں ہوگا[تفسیر کبیر: سورۃ القدر]، تو اِسی طرح حق سُبْحَانَہٗ وَتَقَدُّس کی رحمت نے گَوارا(پسند) نہ فرمایا کہ اِس عظمت والی رات کے معلوم ہونے کے بعد کوئی گناہ پر جرأت کرے۔ تیسری یہ کہ، تعیین کی صورت میں اگر کسی شخص سے وہ رات اِتِّفاقاً چھوٹ جاتی تو آئندہ راتوں میں اَفسُردگی(غمگینی) وغیرہ کی وجہ سے پھر کسی رات کابھی جاگنا نصیب نہ ہوتا، اور اب رمَضان کی ایک دو رات تو کم از کم ہر شخص کو مُیسَّر(حاصل) ہوہی جاتی ہیں۔
چوتھی یہ کہ، جتنی راتیں طلب میں خرچ ہوتی ہیں اُن سب کا مُستَقِل ثواب علاحدہ ملے گا۔
پانچویں یہ کہ، رمَضان کی عبادت میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ملائکہ پر تفاخُر فرماتے ہیں - جیسا کہ پہلی روایات میں معلوم ہوچکا-، اِس صورت میں تفاخُر کا زیادہ موقع ہے، کہ بندے باوجود معلوم نہ ہونے کے مَحض اِحتمال اور خَیال پر رات رات بھر جاگتے ہیں اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں، کہ جب اِحتمال پر اِس قدر کوشش کررہے ہیں تو اگر بتلا دیا جاتا کہ یہی رات شبِ قدر ہے تو پھر اُن کی کوششوں کا کیا حال ہوتا! ۔ اِن کے عِلاوہ اَور بھی مَصالِح(مَصلَحتیں) ہوسکتی ہیں، ایسے ہی اُمور کی وجہ سے عادۃُ اللہ یہ جاری ہے کہ، اِس نَوع(قِسم) کی اَہم چیزوں کو مََخفِی(پوشیدہ) فرمادیتے ہیں؛ چناںچہ اسمِ اعظم کو مَخفی فرمادیا، اِسی طرح جمعہ کے دِن ایک وَقتِ خاص مَقبُولِیتِ دُعا کا ہے، اُس کو بھی مَخفی فرمادیا، ایسے ہی اَور بہت سی چیزیں اِس میں شامل ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ جھگڑے کی وجہ سے اُس خاص رمَضانُ المبارک میں تعیین بھُلا دی گئی ہو، اور اِس کے بعد دِیگرمَصالِحِ مَذکورَہ کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے تعیین ہٹادی ہو۔
تیسری بات جو اِس حدیثِ پاک میں وارِد ہے وہ شبِ قدر کی تلاش کے لیے تین راتیں ارشاد فرمائی ہیں: نوِیں، ساتوِیں، پانچوِیں؛ دوسری روایت کے ملانے سے اِتنا تو مُحقَّق(ثابت) ہے کہ یہ تینوں راتیں اَخیر عَشرے(دس دن) کی ہیں؛ لیکن اِس کے بعد پھر چند اَحتمال ہیں کہ: اَخیر عَشرے میں اگر اوَّل سے شمار کیاجاوے تو حدیث کا مَحمِل(مصداق) ۲۹،۲۷، ۲۵؛ رات ہوتی ہے، اور اگر اخیر سے شمار کیا جائے جیسا کہ بعض اَلفاظ سے مُترشِّح(نکلنا) ہے تو پھر ۲۹؍ کے چاند کی صورت میں ۲۱، ۲۳، ۲۵؛ اور ۳۰؍ کے چاند کی صورت میں ۲۲، ۲۴، ۲۶ ہے۔ اِس کے عِلاوہ بھی تعیین میں رِوایات بہت مختلف ہیں، اور اِسی وجہ سے عُلماء کے درمیان میں اِس کے بارے میں بہت کچھ اختلاف ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ پچاس کے قریب عُلَماء کے اَقوال ہیں۔
رِوایات کے بہ کثرت اختلاف کی وجہ مُحقِّقِین کے نزدیک یہ ہے کہ، یہ رات کسی تاریخ کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ مختلف سالوں میں مختلف راتوں میں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے روایات مختلف ہیں، کہ ہر سال نبیٔ کریم ﷺ نے اُس سال کے مُتعلِّق مختلف راتوں میں تلاش کا حکم فرمایا، اور بعض سالوں میں متعیَّن طور سے بھی ارشاد فرمایا، چناںچہ ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ: حضور ﷺ کی مجلس میں ایک مرتبہ شبِ قدر کا ذکر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: آج کونسی تاریخ ہے؟ عرض کیا گیا کہ: ۲۳؍ ہے، حضورﷺ نے فرمایا کہ: آج ہی کی رات میں تلاش کرو[تفسیر الدر المنثور: سورۃ القدر]۔ حضرت ابوذَرؓ کہتے ہیں کہ: مَیں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ: شبِ قدر نبی کے زمانے کے ساتھ خاص رہتی ہے یا بعد میں بھی ہوتی ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ: قِیامت تک رہے گی، مَیں نے عرض کیا کہ: رمَضان کے کس حصے میں ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: عشرۂ اول اور عشرۂ آخر میں تلاش کرو، پھر حضورﷺ اَور باتوں میں مشغول ہوگئے، مَیں نے موقع پاکر عرض کیا: اجی! یہ تو بتلاہی دیجیے کہ عشرے کے کونسے حصَّے میں ہوتی ہے؟ حضورﷺ اِتنے ناراض ہوئے کہ نہ اِس سے قَبل مجھ پر اِتنے خَفا(ناراض) ہوئے تھے نہ بعد میں، اور فرمایا کہ: اگر اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کا یہ مقصود ہوتا تو بتلانہ دیتے، آخر کی سات رات میں تلاش کرو، پس اِس کے بعد اَور کچھ نہ پوچھیو۔[شعب الإيمان البيهقي:3398]
ایک صحابی کو حضورﷺ نے ۲۳؍ کی شب متعیَّن طور پر ارشاد فرمائی[المعجم الكبير للطبراني:338]، ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ: مَیں سورہا تھا، مجھے خواب میں کسی نے کہا کہ: اُٹھ! آج شبِ قدر ہے، مَیں جلدی سے اُٹھ کر نبیٔ کریم ﷺ کی خدمت میں گیا، تو آپ کی نماز کی نیت بندھ رہی تھی، اور یہ رات ۲۳؍ کی شب تھی[مسند احمد:2302]۔ بعض روایات میں متعیَّن طور سے ۲۴؍ کی شب کا ہونا بھی معلوم ہوتا ہے[مسند احمد:23890]۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص تمام سال رات کو جاگے وہ شبِ قدر کو پاسکتا ہے، (یعنی: شبِ قدر تمام سال میں دَائِر(گھومنے والی) رہتی ہے۔) کسی نے ابنِ کَعبؓ سے اِس کونقل فرمایا، تو وہ فرمانے لگے کہ: ابن مسعودؓ کی غرض یہ ہے کہ لوگ ایک رات پر قَناعت کرکے نہ بیٹھ جائیں، پھر قَسم کھاکر یہ بتلایا کہ وہ ۲۷؍ رمَضان کو ہوتی ہے[صحيح مسلم:762]۔ اوراِسی طرح سے بہت سے صحابہؓ اور تابعینؒ کی رائے ہے کہ: وہ ۲۷؍ کی شب میں ہوتی ہے۔ اُبَی بن کَعبؓ کی تحقیق یہی ہے؛ ورنہ ابن مسعودؓ کی تحقیق وہی ہے کہ جو شخص تمام سال جاگے وہ اِس کو معلوم کرسکتا ہے۔ اور ’’دُرِّمَنثور‘‘ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ: وہ نبیٔ کریم ﷺ سے یہی نقل کرتے ہیں۔ اَئمہ میں سے بھی امام ابوحنیفہؒ کامشہور قول یہ ہے کہ: تمام سال میں دائر(گھومنے والی) رہتی ہے۔ دوسرا قول امام صاحب کا یہ ہے کہ: تمام رمَضان میں دائر رہتی ہے۔ صاحبین کا قول ہے کہ: تمام رمَضان کی کسی ایک رات میں ہے جومتعیَّن ہے؛ مگر معلوم نہیں۔ شافِعِیَّہ کا رَاجِح قول یہ ہے کہ: ۲۱؍ کی شب میں ہونا اَقرب(غالب گمان) ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا قول یہ ہے کہ: رمَضان کے آخر عشرے کی طاق راتوں میں دائر رہتی ہے، کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کسی دوسری رات میں۔ جَمہُور عُلَماء کی رائے یہ ہے کہ: ستائیسویں رات میں زیادہ اُمید ہے۔ شیخُ الْعَارِفِین مُحیُ الدِّین ابنِ عربی کہتے ہیں کہ: میرے نزدیک اُن لوگوں کا قول زیادہ صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ: تمام سال میں دائر رہتی ہے؛ اِس لیے کہ مَیں نے دومرتبہ اِس کو شعبان میں دیکھا ہے: ایک مرتبہ پندرہ کو اور ایک مرتبہ ۱۹؍ کو، اور دومرتبہ رمَضان کے درمیان عشرے میں: ۱۳؍ کو اور ۱۸؍ کو، اور رمَضان کے اخیر عشرے کی ہر طاق رات میں دیکھا ہے؛ اِس لیے مجھے اِس کا یقین ہے کہ وہ سال کی راتوں میں پھرتی رہتی ہے؛ لیکن رمَضانُ المبارک میں بہ کثرت پائی جاتی ہے۔ ہمارے حضرت شاہ وَلیُ اللہ صاحبؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ: شبِ قدر سال میں دومرتبہ ہوتی ہے: ایک وہ رات ہے جس میں احکامِ خداوَندی نازل ہوتے ہیں، اور اِسی رات میں قرآن شریف لوحِ محفوظ سے اُترا ہے، یہ رات رمَضان کے ساتھ مخصوص نہیں، تمام سال میں دَائر رہتی ہے؛ لیکن جس سال قرآن پاک نازل ہوا اُس سال رمَضانُ المبارک میں تھی، اور اکثر رمَضانُ المبارک ہی میں ہوتی ہے۔ اور دوسری شبِ قدر وہ ہے جس میں رُوحانِیت کا ایک خاص اِنتِشار(پھیلنا) ہوتا ہے اور ملائکہ بہ کثرت زمین پر اُترتے ہیں، اور شیاطِین دُور رہتے ہیں، دُعائیں اور عبادتیں قَبول ہوتی ہیں، یہ ہر رمَضان میں ہوتی ہے، اور اخیر عشرے کی وِتر راتوں میں ہوتی ہے اور بدلتی رہتی ہے۔ میرے والد صاحب -نَوَّرَ اللہُ مَرَقَدَہٗ وَبَرَّدَ مَضْجَعَہٗ- اِسی قول کو راجح فرماتے تھے۔
بہرحال شبِ قدر ایک ہو یا دو، ہر شخص کو اپنی ہِمَّت ووُسعَت کے موافق تمام سال اِس کی تلاش میں سَعِی(کوشش) کرنا چاہیے، نہ ہوسکے تو رمَضان بھر جُستجو(تلاش) کرنا چاہیے، اگر یہ بھی مشکل ہو تو عشرۂ اخیرہ کوغنیمت سمجھنا چاہیے، اِتنا بھی نہ ہوسکے تو عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں کوہاتھ سے نہ دینا چاہیے، اور اگر خدانہ خواستہ(اللہ نہ کرے) یہ بھی نہ ہوسکے تو ستائیسویں شب کو تو بہر حال غنیمتِ بارِدہ(قابلِ قدر) سمجھنا ہی چاہیے، کہ اگر تائیدِ اَیزدی(یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد) شاملِ حال ہے اورکسی خوش نصیب کو مُیسَّر ہوجائے، تو پھر تمام دنیا کی نعمتیں اور راحتیں اِس کے مقابلے میں ہَیچ(کچھ نہیں) ہیں؛ لیکن اگر مُیسَّر نہ بھی ہوتب بھی اَجر سے خالی نہیں، بِالخُصوص مغرب وعشاء کی نماز جماعت سے مسجد میں ادا کرنے کا اہتمام تو ہر شخص کو تمام سال بہت ہی ضرور ہونا چاہیے، کہ اگر خوش قِسمتی سے شبِ قدر کی رات میںیہ دو نمازیں جماعت سے مُیسَّر ہوجائیں توکس قدر باجماعت نمازوں کا ثواب ملے!۔ اللہ کا کس قدر بڑا انعام ہے کہ، کسی دِینی کام میں کوشش کی جائے تو کامیابی نہ ہونے کی صورت میں بھی اُس کوشش کا اَجر ضرور ملتا ہے؛ لیکن اِس کے باوجود کتنے ہِمَّت والے ہیں جو دِین کے دَرپے(چاہنے والے، پیچھے) ہیں، دِین کے لیے مرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں؛ اور اِس کے بالمقابل اغراضِ دُنیویہ میں کوشش کے بعد اگر نتیجہ مُرتَّب نہ ہو تو وہ کوشش بے کار اور ضائع؛ لیکن اِس پر بھی کتنے لوگ ہیں کہ دُنیوی اَغراض اور بے کار لَغو اُمور کے حاصل کرنے کے لیے جان ومال دونوں کو برباد کرتے ہیں۔ ع
حضرت عُبادہؓ نے نبیٔ کریم ﷺ سے شبِ قدر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: رمَضان کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں ہے: ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹ یا رمَضان کی آخر رات میں؛ جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اِس رات میں عبادت کرے اُس کے پِچھلے سب گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں۔ اِس رات کی مِن جُملہ اَور علامتوں کے یہ ہے کہ: وہ رات کھلی ہوئی چمک دار ہوتی ہے، صاف شَفَّاف، نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی؛ بلکہ مُعتَدِل، گویا کہ اُس میں (اَنوار کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے، اِس رات میں صبح تک آسمان کے سِتارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔ نیز اِس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ: اِس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شُعاع کے طلوع ہوتا ہے، ایسا بالکل ہموار ٹِکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودھویں رات کا چاند، اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے اِس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اُس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا(بہ خلاف اَور دنوں کے، کہ طلوعِ آفتاب کے وقت شیطان کا اُس جگہ ظُہور ہوتا ہے۔)
[تفسیر الدر المنثور:8/ 571، مسند أحمد:22714، مختصر قيام الليل: ص258، جامع المسانيد لابن الجوزي:2702، الأحاديث المختارة:342،شعب الإيمان:3419]
وَهَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ۔
[تفسير ابن كثير:8/ 445،جامع المسانيد والسنن:5731، مجمع الزوائد:5041]
فائدہ:
اِس حدیث کا اوّل مضمون تو سابِقہ روایات میں ذکر ہوچکا ہے، آخر میں شبِ قدر کی چند علامات ذکر کی ہیں، جن کا مطلب صاف ہے، کسی توضیح کا محتاج نہیں۔ اِن کے عِلاوہ اَور بھی بعض علامات روایات میں اور اُن لوگوں کے کلام میں ذکر کی گئی ہیں جن کو اِس رات کی دولت نصیب ہوئی ہے، بِالخُصوص اِس رات کے بعد جب صبح کو آفتاب نکلتا ہے تو بغیر شُعاع کے نکلتا ہے، یہ علامت بہت سی روایاتِ حدیث میں وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ پائی جاتی ہے۔ اِس کے عِلاوہ اَور علامتیں لازمی اور لاَبُدِّی(یعنی ضروری) نہیں ہیں۔ عَبدہ بن اَبی لُبابہؓ کہتے ہیں کہ: مَیں نے رمَضان المبارک کی ستائیس شب کو سمندر کا پانی چکھا تو پانی بالکل میٹھا تھا۔ ایوب بن خالدؒ کہتے ہیں کہ: مجھے نہانے کی ضرورت ہوگئی، مَیں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو بالکل میٹھا تھا، اور یہ تیئیسویں شب کا قصہ ہے۔
مشائخ نے لکھا ہے کہ: شبِ قدر میں ہر چیز سجدہ کرتی ہے، حتیٰ کہ درخت زمین پر گرجاتے ہیں اور پھر اپنی جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر ایسی چیزوں کا تعلُّق اُمورِ کَشفِیَّہ سے ہے جو ہر شخص کو محسوس نہیں ہوتے۔
حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ: یا رسولَ اللہ! اگر مجھے شبِ قدر کا پتہ چل جاوے توکیا دعا مانگوں؟ حضور ﷺ نے اَللّٰہُمَّ سے اخیر تک دُعا بتلائی، جس کا ترجَمہ یہ ہے کہ: اے اللہ! تُو بے شک مُعاف کرنے والا ہے، اور پسند کرتا ہے مُعاف کرنے کو، پس مُعاف فرمادے مجھ سے بھی۔
[مسند أحمد:25505، سنن ابن ماجه:3850، سنن الترمذي:3513]
فائدہ:
نہایت جامع دُعا ہے، کہ حق تعالیٰ اپنے لُطف وکرم سے آخرت کے مُطالبے سے مُعاف فرمادیں تو اِس سے بڑھ کر اَور کیا چاہیے؟:
مَن نگویَم کہ طاعَتَم بِپَذِیر قلمِ عَفو بَر گُناہَم کَش
(اے اللہ! مَیں یہ نہیں کہتا کہ: تُو میری عبادت قبول کر،(بلکہ یہ کہتا ہوں:) مُعافی کا قلم میرے گناہوں پر پھیر دے۔)
حضرت سفیان ثَورِیؒ کہتے ہیں کہ: اِس رات میں دعا کے ساتھ مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت دوسری عبادات کے۔ ابنِ رَجبؒ کہتے ہیں کہ: صرف دعا نہیں، بلکہ مختلف عبادات میں جمع کرنا افضل ہے، مثلاً: تلاوت، نماز، دعا اور مُراقَبہ وغیرہ؛ اِس لیے کہ نبیٔ کریم ﷺ سے یہ سب اُمور مَنقُول ہیں، یہی قول زیادہ اَقرب ہے، کہ سابِقہ(اگلی) اَحادیث میں نماز، ذکر وغیرہ کئی چیزوں کی فضیلت گزر چکی ہیں۔
***************************
فصل ثالث
اِعتکاف کے بیان میں
اِعتکاف کہتے ہیں مسجد میں اِعتکاف کی نیت کرکے ٹھہرنے کو۔ حَنفِیَّہ کے نزدیک اِس کی تین قسمیں ہیں: ایک واجب، جو مَنَّت اور نَذَر کی وجہ سے ہو، جیسے یہ کہے کہ: ’’اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو اِتنے دِنوں کا اِعتکاف کروںگا‘‘، یا بغیر کسی کام پر مَوقُوف کرنے کے یوں ہی کہہ دے کہ: ’’مَیں نے اِتنے دِنوں کا اِعتکاف اپنے اوپر لازم کرلیا‘‘، یہ واجب ہوتا ہے، اور جتنے دِنوں کی نیت کی ہے اُس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ دوسری قِسم سُنَّت ہے، جو رمَضانُ المبارک کے اخیر عشرے کا ہے، کہ نبیٔ کریم ﷺ کی عادتِ شریفہ اِن اَیَّام کے اِعتکاف فرمانے کی تھی۔ تیسرا اِعتکاف نفل ہے، جس کے لیے نہ کوئی وَقت، نہ اَیَّام کی مِقدار، جتنے دِن کا جی چاہے کرلے، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص تمام عمر کے اِعتکاف کی نیت کرلے تب بھی جائز ہے؛ البتہ کمی میں اختلاف ہے، کہ امام صاحبؒ کے نزدیک ایک دن سے کم کا جائز نہیں؛ لیکن امام محمدؒ کے نزدیک تھوڑی دیر کا بھی جائز ہے، اور اِسی پر فتویٰ ہے؛ اِس لیے ہر شخص کے لیے مناسب ہے کہ جب مسجد میں داخل ہو اِعتکاف کی نیت کرلیا کرے، کہ اِتنے نماز وغیرہ میں مشغول رہے اِعتکاف کا ثواب بھی رہے۔ مَیں(مولانا محمد زکریا) نے اپنے والد صاحب - نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہٗ وَبَرَّدَ مَضْجَعَہٗ - کو ہمیشہ اِس کا اہتمام کرتے دیکھا، کہ جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو دایاں پاؤں اندر داخل کرتے ہی اِعتکاف کی نیت فرماتے تھے، اوربَسا اوقات خُدّام کی تعلیم کی غرض سے آواز سے بھی نِیت فرماتے تھے۔
اِعتکاف کا بہت زیادہ ثواب ہے، اور اِس کی فضیلت اِس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبیٔ کریم ﷺ ہمیشہ اِس کا اہتمام فرماتے تھے!
[صحیح البخاری:2055]
مُعتکِف(اِعتکاف کرنے والے) کی مثال اُس شخص کی سی ہے کہ کسی کے دَر(دروازہ) پر جا پڑے، کہ اِتنے میری درخواست قبول نہ ہو ٹَلنے کا نہیں۔
[شعب الإيمان البيهقي:3684]
نکل جائے دَم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دِل کی حسرت یہی آرزو ہے
اگر حقیقتاً یہی حال ہو تو سخت سے سخت دِل والا بھی پسیجتا(مہربانی کرتا) ہے، اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی کریم ذات تو بخشش کے لیے بہانہ ڈھونڈتی ہے؛ بلکہ بے بہانہ مَرحَمت(عنایت) فرماتے ہیں:
تُو وہ داتا ہے کہ دینے کے لیے
دَر تیری رحمت کے ہیں ہر دَم کھُلے
خدا کی دَین کا موسیٰ سے پوچھیے اَحوال
کہ آگ لینے کو جائیں پَیمبری مِل جائے
اِس لیے جب کوئی شخص اللہ کے دروازے پر دُنیا سے مُنقَطِع(بے تعلُّق) ہوکر جا پڑے تو اُس کے نوازے جانے میں کیا تَأمُّل(شک) ہوسکتا ہے؟ اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ جس کو اِکرام فرماویں اُس کے بھرپور خزانوں کا بیان کون کرسکتا ہے؟ اِس کے آگے کہنے سے قاصِر(عاجز) ہوں کہ نامَرد، بُلوغ کی کیفیت کیا بیان کرسکتا ہے؟ مگر ہاں! یہ ٹھان لے کہ:
جس گُل کو دِل دیا ہے جس پھول پر فِدا ہوں
یا وہ بغل میں آئے یا جاں قَفَس(پنجرہ،بدن) سے چھوٹے
ابنِ قَیِّمؒ کہتے ہیں کہ: اِعتکاف کا مقصود اور اُس کی رُوح، دِل کو اللہ کی پاک ذات کے ساتھ وَابَستہ(متعلِّق) کرلینا ہے، کہ سب طرف سے ہٹ کر اُسی کے ساتھ مُجتَمع ہوجائے، اور ساری مشغولیوں کے بدلے میں اُسی کی پاک ذات سے مشغول ہوجائے، اور اُس کے غیر کی طرف سے مُنقطِع ہو کر ایسی طرح اُس میں لگ جاوے کہ خِیالات، تَفکُّرات، سب کی جگہ اُس کا پاک ذکر، اُس کی محبت سَما جاوے، حتیٰ کہ مخلوق کے ساتھ اُنس کے بدلے اللہ کے ساتھ اُنس پیدا ہوجاوے، کہ یہ اُنس قبر کی وَحشت میں کام دے، کہ اُس دن اللہ کی پاک ذات کے سِوا نہ کوئی مُونِس(ہمدرد) نہ دل بہلانے والا، اگر دل اُس کے ساتھ مانُوس ہوچکا ہوگا تو کِس قدر لَذَّت سے وَقت گزرے گا!!
دِل ڈُھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھا رہوں تصوُّرِ جاناں کیے ہوئے
صاحبِ ’’مَراقِیُ الفلَاح‘‘ کہتے ہیں کہ: اِعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو اَفضل ترین اعمال میں سے ہے، اِس کی خُصُوصِیَّتیں حَدِّ اِحصَا(شمار کی حد) سے خارِج (باہر) ہیں، کہ اُس میں قَلب کو دُنیا وما فِیہا(یعنی اور جو کچھ دنیا میں ہے) سے یکسو(الگ) کرلینا ہے، اور نفس کو مَولیٰ کے سِپُرد کردینا اور آقا کی چوکھٹ پر پڑجانا ہے:
پھر جی میں ہے کہ دَر پے کسی کے پڑا رہوں
سر زَیرِ بارِ مِنَّتِ دَرباں کیے ہوئے
(سر دربان کے احسان کے بوجھ کے نیچے کیے ہوئے۔ یعنی دروازے پر ہی پڑا رہوں چاہے دربان کا احسان مند ہونا پڑے۔)
نیز اِس میں ہر وقت عبادت میں مشغولی ہے، کہ آدمی سوتے، جاگتے ہر وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے، اور اللہ کے ساتھ تقرُّب ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے مَیں اُس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں، اور جو میری طرف آہستہ بھی چلتا ہے مَیں اُس کی طرف دَوڑ کر آتا ہوں[سنن الترمذي:3603]۔ نیز اِس میں اللہ کے گھر پڑجانا ہے، اور کریم میزبان ہمیشہ گھر آنے والے کا اِکرام کرتا ہے۔ نیز اللہ کے قلعے میں محفوظ ہونا ہے، کہ دُشمن کی رَسائی(پہنچ) وہاں تک نہیں، وغیرہ وغیرہ بہت سے فضائل اور خَواص اِس اہم عبادت کے ہیں۔
مسئلہ:
مرد کے لیے سب سے افضل جگہ مسجدِ مکہ ہے، پھر مسجدِ مدینۂ مُنوَّرہ، پھر مسجدِ بیتُ المُقدَّس، اِن کے بعد مسجدِ جامع، پھر اپنی مسجد۔ امام صاحبؒ کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ جس مسجد میں اِعتکاف کرے اُس میں پانچوں وقت کی جماعت ہوتی ہو، صاحبینؒ کے نزدیک شرعی مسجد ہونا کافی ہے اگر چہ جماعت نہ ہوتی ہو، عورت کے لیے اپنے گھر کی مسجد میں اِعتکاف کرنا چاہیے، اگر گھر میں کوئی جگہ مسجد کے نام سے مُتعیَّن نہ ہو تو کسی کونے کو اِس کے لیے مخصوص کر لے، عورتوں کے لیے اِعتکاف بہ نسبت مَردوں کے زیادہ سَہَل(آسان) ہے، کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے کاروبار بھی گھر کی لڑکیوں وغیرہ سے لیتی رہیں، اور مُفت کا ثواب بھی حاصل کرتی رہیں؛ مگر اِس کے باوجود عورتیں اِس سُنَّت سے گویا بالکل ہی محروم رہتی ہیں۔
حرت ابوسعید خُدریؓ کہتے ہیں کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے رمَضانُ المبارک کے پہلے عشرے میں اِعتکاف فرمایا اورپھر دوسرے عشرے میں بھی، پھر تُرکی خَیمے سے - جس میں اِعتکاف فرما رہے تھے- باہر سَر نکال کر ارشاد فرمایا کہ: ’’مَیں نے پہلے عشرے کا اِعتکاف شبِ قدر کی تلاش اور اِہتمام کی وجہ سے کیا تھا، پھر اِسی کی وجہ سے دوسرے عشرے میں کیا، پھر مجھے کسی بتلانے والے (یعنی فرشتے)نے بتلایا کہ: وہ رات اخیر عشرے میں ہے؛ لِہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اِعتکاف کر رہے ہیں وہ اَخیرعَشرے کا بھی اِعتکاف کریں، مجھے یہ رات دِکھلا دی گئی تھی پھر بھُلادی گئی، (اِس کی علامت یہ ہے)کہ، مَیں نے اپنے آپ کو اِس رات کے بعد کی صبح میں کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا، لِہٰذا اب اِس کو اخیر عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ رَاوِی کہتے ہیں کہ: اِس رات میں بارش ہوئی، اور مسجد چھپَّر کی تھی وہ ٹپکی، اور مَیں نے اپنی آنکھوں سے نبیٔ کریم ﷺ کی پیشانی مُبارک پر کیچڑ کا اثر ۲۱؍ کی صبح کو دیکھا۔
[صحيح البخاري:813، صحيح مسلم:1167، السنن الكبرى للنسائي:3334]
فائدہ:
نبیٔ کریم ﷺکی عادتِ شریفہ اِعتکاف کی ہمیشہ رہی ہے، اِس مہینے میں تمام مہینے کا اعتکاف فرمایا، اور جس سال وِصال ہوا ہے اُس سال بیس روز کا اِعتکاف فرمایا تھا[صحيح البخاري:2044]؛ لیکن اکثر عادتِ شریفہ چوںکہ اخیر عشرے ہی کے اِعتکاف کی رہی ہے؛ اِس لیے عُلَما کے نزدیک سُنَّتِ مُؤکَّدہ وہی ہے۔ حدیثِ بالا سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اِس اِعتکاف کی بڑی غرض شبِ قدر کی تلاش ہے، اور حقیقت میں اِعتکاف اِس کے لیے بہت ہی مناسب ہے، کہ اِعتکاف کی حالت میں اگر آدمی سوتا ہوا بھی ہو تب بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے، نیز اِعتکاف میں چوںکہ آنا جانا اور اِدھر اُدھر کے کام بھی کچھ نہیں رہتے؛ اِس لیے عبادت اور کریم آقا کی یاد کے عِلاوہ اَور کوئی مشغلہ بھی نہ رہے گا؛ لِہٰذا شبِ قدر کے قدر دانوں(قدر کرنے والوں) کے لیے اِعتکاف سے بہتر صورت نہیں۔ نبیٔ کریم ﷺ اوَّل تو سارے ہی رمَضان میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام اورکَثرت فرماتے تھے؛ لیکن اخیر عشرے میں کچھ حَد ہی نہیں رہتی تھی، رات کو خودبھی جاگتے اور گھر کے لوگوں کوبھی جگانے کا اِہتمام فرماتے تھے، جیسا کہ صحیحین(یعنی بخاری ومسلم) کی مُتعدِّد روایات سے معلوم ہوتا ہے، بخاری ومسلم کی رِوایت میں حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ: ’’اخیر عشرے میں حضور ﷺ لُنگی کو مضبوط باندھ لیتے اور راتوں کا اِحیاء(جاگنا) فرماتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی جَگاتے‘‘[صحيح البخاري:2044]۔ لنگی مضبوط باندھنے سے کوشش میں اِہتمام کی زیادتی بھی مراد ہوسکتی ہے، اور بیویوں سے بِالکُلِّیہ(پورے طور سے) اِحتِراز بھی مراد ہوسکتا ہے۔
نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: مُعتکِف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، اور اُس کے لیے نیکیاں اُتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے۔
[سنن ابن ماجه:1781]
فائدہ:
دو مخصوص نفعے اِعتکاف کے اِس حدیث میں ارشاد فرمائے گئے ہیں:ایک یہ کہ، اِعتکاف کی وجہ سے گناہوں سے حفاظت ہوجاتی ہے، ورنہ بَسا اَوقات کوتاہی اور لَغزش سے کچھ اَسباب ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اُس میں آدمی گناہ میں مُبتَلا ہوہی جاتا ہے، اور ایسے مُتبرَّک وقت میں مَعصِیت(گناہ) کا ہوجانا کس قدر ظلمِ عظیم ہے! اِعتکاف کی وجہ سے اُن سے اَمن اور حفاظت رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ، بہت سے نیک اعمال جیسا کہ جنازے کی شِرکت، مَریض کی عِیادَت وغیرہ ایسے اُمور ہیں، کہ اِعتکاف میں بیٹھ جانے کی وجہ سے مُعتکِف اُن کو نہیں کرسکتا؛ اِس لیے اِعتکاف کی وجہ سے جن عبادتوں سے رُکا رہا اُن کا اجر بغیر کیے بھی مِلتا رہے گا۔ اَللہُ أَکبَر! کس قدر رحمت اور فَیَّاضِی(سَخاوَت) ہے، کہ ایک عبادت آدمی کرے اور دس عبادتوں کا ثواب مل جائے۔ درحقیقت اللہ کی رحمت بہانہ ڈُھونڈتی ہے، اور تھوڑی سی توجُّہ اور مانگ سے دُھواں دَار برستی ہے:
بہ بَہانہ می دِہَد ببَہانَمِی دِہَد
(بہانے سے دیتا ہے قیمت سے نہیں دیتا۔)
مگر ہم لوگوں کو سِرے سے اِس کی قدر ہی نہیں، ضرورت ہی نہیں، توجُّہ کون کرے؟ اورکیوں کرے؟ کہ دِین کی وَقعَت(عظمت) ہی ہمارے قُلوب میں نہیں:
(رواہ الطبراني في الأوسط والبیهقي، واللفظ لہ، والحاکم مختصراً وقال: صحیح الإسناد، کذا في الترغیب، وقال السیوطي في الدر: صححہ الحاکم وضعفہ البیهقي)
[حاشیہ: هکذا في النسخۃ التي بأیدینا بلفظ حرف النهي، وهو الصواب عندي لوجوہ، ووقع في بعض النسخ بلفظ ’’ولاء‘‘ بالهمزۃ، وهو تصحیف عندي من الکاتب، وعلیہ قرائن ظاهرۃ]
ترجَمہ:
حضرت ابنِ عباسؓایک مرتبہ مسجدِ نبوی -عَلیٰ صَاحِبِہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ- میں مُعتکِف تھے، آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور سلام کرکے چُپ چاپ بیٹھ گیا، حضرت ابن عباسؓ نے اُس سے فرمایا کہ: مَیں تمھیں غم زَدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں، کیا بات ہے؟ اُس نے کہا کہ: اے رسولُ اللہ کے چچا کے بیٹے! مَیں بے شک پریشان ہوں، کہ فلاں کا مجھ پر حق ہے، اور - نبیٔ کریم ﷺ کی قبرِ اَطہر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ :- اِس قبر والے کی عزَّت کی قَسم! مَیں اُس حق کے ادا کرنے پر قادِر نہیں، حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ: اچھا! کیا مَیں اُس سے تیری سفارش کروں؟ اُس نے عرض کیا: جیسے آپ مناسب سمجھیں، ابن عباسؓ یہ سن کر جوتا پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے، اُس شخص نے عرض کیا کہ: آپ اپنا اِعتکاف بھول گئے؟ فرمایا: بھولا نہیں ہوں؛ بلکہ مَیں نے اِس قبر والے ﷺ سے سنا ہے اور ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا، (یہ لفظ کہتے ہوئے) ابن عباسؓ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، کہ حضور ﷺ فرما رہے تھے کہ: جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے، اُس کے لیے دَس برس کے اِعتکاف سے اَفضل ہے، اور جو شخص ایک دن کا اِعتکاف بھی اللہ کی رَضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کے اور جہنَّم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں، جن کی مَسافَت(دُوری) آسمان اور زمین کی درمیانی مَسافَت سے زیادہ چوڑی ہوتی ہے، (اور جب ایک دن کے اِعتکاف کی یہ فضیلت ہے تودس برس کے اِعتکاف کی کیا کچھ مقدار ہوگی۔)
[اصطناع المعروف لابن أبي الدنيا:90، قضاء الحوائج لابن أبي الدنيا:35، المعجم الأوسط:7326، تاريخ أصبهان:1/ 131، حلية الأولياء:8/ 200، تاريخ بغداد:2071(2018)،شعب الإيمان للبيهقي:3679،البر والصلة لابن الجوزي:420،حياة الصحابة:3/ 169]
فائدہ:
اِس حدیث سے دو مضمون معلوم ہوئے: اول یہ کہ، ایک دن کے اِعتکاف کا ثواب یہ ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کے اور جہنَّم کے درمیان تین خندقیں حائل(آڑ) فرما دیتے ہیں، اور ہر خندق اِتنی بڑی ہے جتنا سارا جہان، اور ایک دن سے زیادہ جس قدر زیادہ دنوں کا اِعتکاف ہوگا اُتنا ہی اجر زیادہ ہوگا۔ عَلَّامہ شَعرانیؒ نے ’’کَشفُ الغُمَّۃ‘‘ میں نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: جو شخص عشرۂ رمَضان کا اِعتکاف کرے اُس کو دو حج اور دو عُمروں کا اجر ہے[شعب الإيمان للبيهقي:3681]، اور جو شخص مسجدِ جماعت میں مغرب سے عشاء تک اِعتکاف کرے کہ نماز، قرآن کے عِلاوہ کسی سے بات نہ کرے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کے لیے جنت میں ایک محل بناتے ہیں۔ دوسرا مضمون جو اِس سے بھی زیادہ اہم ہے وہ مسلمانوں کی حاجت رَوائی(ضرورت پورا کرنا)، کہ دَس برس کے اِعتکاف سے افضل ارشاد فرمایا ہے، اِسی وجہ سے ابن عباسصنے اپنے اِعتکاف کی پرواہ نہیں فرمائی کہ اِس کی تَلافِی(کمی پورا کرنا) پھر بھی ہوسکتی ہے، اور اِس کی قضا ممکن ہے۔ اِسی وجہ سے صوفیاء کا مَقُولہ(بات) ہے کہ: ’’اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے یہاں ٹوٹے ہوئے دِل کی جتنی قدر ہے اُتنی کسی چیز کی نہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم کی بد دُعا سے احادیث میں بہت ڈرایا گیا ہے، حضور ﷺ جب کسی شخص کو حاکم بناکر بھیجتے تھے اَور نصائح کے ساتھ ’’وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ‘‘ بھی ارشاد فرماتے تھے، کہ: مظلوم کی بددعا سے بچیو:
بِتَرس اَز آہِ مَظلُوماں کہ ہَنگامِ دُعا کَردَن
اِجابت اَز دَرِ حَق بہرِاِستِقبال مِی آید
(مظلوموں کی آہ سے ڈر؛ اِس لیے کہ دعا کرنے کے وقت قَبولِیَّت اللہ کے دروازے سے اِستقبال کے لیے آتی ہے۔ )
اِس جگہ ایک مسئلے کا خَیال رکھنا ضروری ہے کہ، کسی مسلمان کی حاجت رَوائی کے لیے بھی مسجد سے نکلنے سے اِعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اور اگر اِعتکاف واجب ہو تو اُس کی قضاء واجب ہوتی ہے، نبیٔ کریم ﷺ ضرورتِ بَشَری کے عِلاوہ کسی ضرورت سے بھی مسجد سے باہر تشریف نہیں لاتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ کا یہ اِیثار(ترجیح دینا) کہ دوسرے کی وجہ سے اپنا اِعتکاف توڑ دیا، ایسے ہی لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ دوسروں کی خاطر خود پیاسے تڑپ تڑپ کر مر جاویں؛ مگر پانی کا آخری قطرہ اِس لیے نہ پئیں کہ دوسرا زخمی جو پاس لَیٹا ہوا ہے وہ اپنے سے مُقدَّم ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کا یہ اِعتکاف نفلی اِعتکاف ہو، اِس صورت میں کوئی اِشکال نہیں۔
خاتمے میں ایک طویل حدیث - جس میں کئی نوع کے فضائل ارشاد فرمائے ہیں- ذکر کرکے اِس رسالے کوختم کیا جاتا ہے:
(کذا في الترغیب، وقال: رواہ أبو الشیخ بن حبان في کتاب الثواب، والبیهقي واللفظ لہ، ولیس في إسنادہ من أجمع علیٰ ضعفہ، قلت: قال السیوطي في التدریب: قد التزم البیهقي أن لایخرج في تصانیفہ حدیثا یعلمہ موضوعا إلخ، وذکر القاري في المرقاۃ بعض طرق الحدیث، ثم قال: فاختلاف طرق الحدیث یدل علیٰ أن لہ أصلا)
ترجَمہ:
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ: اُنھوں نے حضور ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: جنت کو رمَضان شریف کے لیے خوشبوؤں کی دُھونی دی جاتی ہے، اور شروع سال سے آخر سال تک رمَضان کی خاطر آراستہ(مُزیَّن) کیا جاتا ہے، پس جب رمَضانُ المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہَوا چَلتی ہے، جس کا نام ’’مَثِیرہ‘‘ ہے، (جس کے جھونکوں کی وجہ سے) جنت کے دَرختوں کے پَتے اور کِواڑوں(دروازے) کے حَلقے بجنے لگتے ہیں، جس سے ایسی دِل آویز(یعنی دل کو لُبھانے والی) سُرِیلی آواز نکلتی ہے کہ سُننے والوں نے اِس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی، پس خوش نُما(خوب صورت) آنکھوں والی حُوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بَالاخانوں(یعنی اوپر کے مکان) کے درمیان کھڑے ہوکر آواز دیتی ہیں کہ: کوئی ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم سے مَنگنی کرنے والا؛ تاکہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کو ہم سے جوڑ دیں؟ پھر وہی حوریں جنت کے دَاروغہ(نگران) رِضوان سے پوچھتی ہیں کہ: یہ کیسی رات ہے؟ وہ لَبَّیْكَ کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ: رمَضانُ المبارک کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازے محمد ﷺ کی اُمَّت کے لیے (آج)کھول دیے گئے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ رضوان سے فرمادیتے ہیں کہ: جنت کے دروازے کھول دے، اور مالک (جہنَّم کے داروغہ) سے فرمادیتے ہیں کہ: احمد ﷺ کی اُمَّت کے روزے داروں پر جہنَّم کے دروازے بند کر دے، اور جبرئیلؑ کو حکم ہوتا ہے کہ: زمین پر جاؤ اور سَرکَش شیاطین کو قید کرو، اور گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو، کہ میرے محبوب محمد ﷺ کی اُمَّت کے روزوں کو خراب نہ کریں، نبیٔ کریم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ رمَضان کی ہر رات میں ایک مُنادِی کو حکم فرماتے ہیں کہ: تین مرتبہ یہ آواز دے کہ: ہے کوئی مانگنے والا جس کو مَیں عطا کروں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ مَیں اُس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی ہے مغفرت چاہنے والا کہ مَیں اُس کی مغفرت کروں؟ کون ہے جو غَنِی کو قرض دے؟ ایسا غنی جو نادار(فقیر) نہیں، ایسا پورا پورا ادا کرنے والا جو ذرا بھی کمی نہیں کرتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ رمَضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دَس لاکھ آدمیوں کو جہنَّم سے خَلاصِی(چھُٹکارا) مَرحَمَت(عطا) فرماتے ہیں جو جہنم کے مُستحَق ہوچکے تھے، اور جب رمَضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمَضان سے آج تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے تھے اُن کے برابر اُس ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں، اور جس رات شبِ قدر ہوتی ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ حضرت جبرئیلؑ کو حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لَشکر کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں، اُن کے ساتھ ایک سَبز(ہرا) جھنڈا ہوتا ہے جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں، اور حضرت جبرئیلؑ کے سو بازُو ہیں، جن میں سے دو بازُو کو صرف اِسی رات میں کھولتے ہیں، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں، پھر حضرت جبرئیلؑ فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ: جو مسلمان آج کی رات میں کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کررہا ہو، اُس کو سلام کریں اور مصافحہ کریں، اور اُن کی دعاؤں پر آمین کہیں، صبح تک یہی حالت رہتی ہے۔ جب صبح ہوجاتی ہے تو جبرئیلؑ آواز دیتے ہیں کہ: اے فرشتوں کی جماعت! اب کُوچ کرو اور چلو، فرشتے حضرت جبرئیلؑ سے پوچھتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے احمد ﷺ کی اُمَّت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا مُعاملہ فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے اُن پر توجُّہ فرمائی، اور چار شخصوں کے عِلاوہ سب کو مُعاف فرمادیا، صحابہؓ نے پوچھا کہ: یا رسولَ اللہ! وہ چار شخص کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ: ایک وہ شخص جو شراب کا عادِی ہو، دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، تیسرا وہ شخص جو قَطع رَحمی کرنے (یعنی رشتہ توڑنے) والا اور ناتا(رشتے داری) توڑنے والا ہو، چوتھا وہ شخص جو کِینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قَطع تعلُّق کرنے والا ہو۔ پھر جب عیدُ الفِطر کی رات ہوتی ہے تو اُس کا نام (آسمانوں پر) ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزَۃِ‘‘ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے، اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اُتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سِروں(کناروں) پر کھڑے ہوجاتے ہیں، اور ایسی آواز سے جس کو جِنّات اور انسان کے سِوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ: اے محمد ﷺ کی اُمَّت! اُس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے، اور بڑے سے بڑے قُصور کو مُعاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں: کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ: ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اے فرشتو! مَیں تمھیں گواہ بناتا ہوں، مَیں نے اُن کو رمَضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رَضا اور مغفرت عطا کر دی، اور بندوں سے خطاب فرماکر اِرشاد ہوتا ہے کہ: اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزَّت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! آج کے دن اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اُس میں تمھاری مَصلَحت پرنظر کروں گا، میری عزَّت کی قَسم! جب تک تم میرا خَیال رکھوگے مَیں تمھاری لغزشوں پر سَتَّاری کرتا رہوں گا (اور اُن کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزَّت کی قَسم اور میرے جَلال کی قَسم! مَیں تمھیں مُجرِموں (اور کافروں) کے سامنے رُسوا اور فَضِیحت نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور مَیں تم سے راضی ہوگیا؛ پس فرشتے اُس اَجر وثواب کو دیکھ کر جو اِس اُمَّت کو اِفطار کے دن ملتا ہے خوشیاں مَناتے ہیں اور کھِل جاتے ہیں۔ (اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُمْ.)
[أخبار مكة للفاكهي:1575، تنبيه الغافلين:452، رؤية الله للدارقطني:64، شعب الإيمان للبيهقي::3421، فضائل الأوقات للبيهقي:109، مشيخة أبي طاهر ابن أبي الصقر:67، الترغيب والترهيب للأصبهاني:1768، فضائل شهر رمضان لعبد الغني المقدسي:25+26]
فائدہ:
اِس حدیث کے اَکثر مَضامِین رِسالے کے گذِشتہ اَورَاق میں بیان ہوچکے ہیں، البتَّہ چند اُمور قابلِ غور ہیں، جن میں سب سے اوَّل اور اہم تو یہ ہے کہ: بہت سے محروم رمَضان کی مغفرتِ عامَّہ سے بھی مُستثنیٰ(الگ) تھے- جیسا کہ پہلی روایات میں معلوم ہوچکا ہے- اور وہ عید کی اِس مغفرتِ عامَّہ سے بھی مُستثنیٰ(الگ کردیے گئے، جن میں سے آپس کے لڑنے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے بھی ہیں، اُن سے کوئی پوچھے کہ: تم نے اللہ کو ناراض کرکے اپنے لیے کونسا ٹھکانہ ڈھونڈ رکھا ہے؟ افسوس تم پر بھی اور تمھاری اُس عزت پر بھی جس کے حاصل کرنے کے غلط خَیال میں تم رسولُ اللہ ﷺ کی بددُعائیں برداشت کررہے ہو، جبرئیلؑ کی بددعائیں اُٹھا رہے ہو، اور اللہ کی رحمت ومغفرتِ عامّہ سے بھی نکالے جا رہے ہو، مَیں پوچھتا ہوں کہ: آج تم نے اپنے مُقابِل کو زَک(ہار، شکست) دے ہی دی، اپنی مونچھ اُونچی کرہی لی، وہ کتنے دن تمھارے ساتھ رہ سکتی ہے؟ جب کہ اللہ کا پیارا رسول تمھارے اوپر لعنت کررہا ہے، اللہ کا مُقرّب فرشتہ تمھاری ہلاکت کی بد دُعا دے رہا ہے، اللہ جَلَّ شَانُہٗ تمھیں اپنی مغفرت ورحمت سے نکال رہے ہیں۔ اللہ کے واسطے سوچو اور بس کرو، صبح کا بھٹکا شام کو گھر آجائے تو کچھ نہیں گیا، آج وقت ہے اور تَلافی(کمی کو پورا کرنا) ممکن، اور کل جب ایسے حاکم کی پیشی(حضوری) میں جانا ہے جہاں نہ عزت و وَجاہت کی پوچھ نہ مال ومَتاع(سامان) کار آمد(کام آنے والا) ، وہاں صرف تمھارے اعمال کی پوچھ ہے، اور ہر حرکت لکھی لکھائی سامنے ہے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے حقوق میں دَرگُزر فرماتے ہیں؛ مگر بندوں کے آپس کے حقوق میں بغیر بدلہ دیے نہیں چھوڑتے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: مُفلِس میری اُمَّت میں وہ شخص ہے کہ، قِیامت کے دن نیک اعمال کے ساتھ آوے، اور نماز،روزہ، صدقہ؛ سب ہی کچھ لاوے؛ لیکن کسی کو گالی دے رکھی ہے، کسی کو تُہمَت لگا دی تھی، کسی کو مار پِیٹ کی تھی؛ پس یہ سب دعوے دار آویںگے اور اُس کے نیک اعمال میں سے اِن حرکتوں کا بدلہ وُصول کرلیںگے، اور جب اُس کے پاس نیک اعمال ختم ہوجاویں گے تو اپنی بُرائیاں اِن حرکتوں کے بدلے میں اُس پر ڈالتے رہیں گے، اور پھر اِس اَنبار(ڈھیر) کی بہ دولت وہ جہنَّم رَسِید(پہنچنے والا) ہوجائے گا[صحیح مسلم:2581]، اور اپنی کثرتِ اعمال کے باوجود جو حَسرت و یاس(نااُمیدی) کا عالَم ہوگا وہ محتاجِ بیان نہیں:
وہ مایوسِ تمنَّا کیوں نہ سُوئے(طرف) آسماں دیکھے
جو منزل بہ منزل اپنی محنت رائیگاں(بے کار) دیکھے
دوسرا اَمر قابلِ غور یہ ہے کہ، اِس رسالے میں چند مواقع مغفرت کے ذکر کِیے گئے ہیں، اور اِن کے عِلاوہ بھی بہت سے اُمور ایسے ہیں کہ وہ مغفرت کے سبب ہوتے ہیں اور گناہ اُن سے مُعاف ہوجاتے ہیں، اِس پر ایک اشکال ہوتا ہے، وہ یہ کہ: جب ایک مرتبہ گناہ مُعاف ہوچکے تو اِس کے بعد دوسری مرتبہ مُعافی کے کیا معنیٰ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ: مغفرت کا قاعدہ یہ ہے کہ: جب وہ بندے کی طرف مُتوجَّہ ہوتی ہے اگر اُس پر کوئی گناہ ہوتا ہے تو اُس کو مٹاتی ہے، اور اگر اُس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہوتا تو اِس کے بہ قدر اُس پر رحمت اور اِنعام کا اِضافہ ہوجاتا ہے۔
تیسرا اَمر یہ ہے کہ، سابِقہ احادیث میں بھی بعض جگہ اور اِس حدیث میں بھی حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنی مغفرت فرمانے پر فرشتوں کو گواہ بنایا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ: قِیامت کی عدالت کے معاملات ضابطے پر رکھے گئے ہیں، انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام سے اُن کی تبلیغ کے بارے میں بھی گواہ طلب کیے جائیں گے؛ چناںچہ اَحادیث کی کتابوں میں بہت سے مواقع پر نبیٔ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا؛ لِہٰذا تم گواہ رہو کہ مَیں پہنچا چکا ہوں۔ بخاری وغیرہ میں روایت ہے کہ: حضرت نوحؑ قِیامت کے دن بُلائے جائیں گے، اُن سے دریافت کیا جائے گا کہ: تم نے رِسالت کا حق ادا کیا؟ ہمارے اَحکام پہنچائے؟ وہ عرض کریں گے: پہنچائے تھے، پھر اُن کی اُمَّت سے پوچھا جائے گا کہ: تمھیں اَحکام پہنچائے؟ وہ کہیں گے: ﴿مَا جَآءَنَا مِنۢ بَشِيرٖ وَلَا نَذِيرٖ﴾: ہمارے پاس نہ کوئی بَشارت دینے والا آیا نہ ڈرانے والا[سورۃ المائدۃ:19]، تو حضرت نوحؑ سے پوچھا جائے گا کہ: اپنے گواہ پیش کرو، وہ محمد ﷺ اور اُن کی اُمَّت کو پیش کریں گے، اُمَّتِ محمَّدیہ بُلائی جائے گی اور گواہی دے گی[صحیح بخاری3339]۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ: اُن سے جِرَح(سوالات) کی جائے گی کہ: تم کو کیا خبر کہ نوحؑ نے اپنی اُمَّت کو اَحکام پہنچائے؟ یہ عرض کریں گے کہ: ہمارے رسول ﷺ نے خبر دی، ہمارے رسول ﷺ پر جوسچی کتاب اُتری اُس میں خبر دی گئی؛ اِسی طرح اَور انبیاء کی اُمَّت کے ساتھ یہی پیش آئے گا[مسند احمد:11558]، اِسی کے متعلِّق ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلۡنَٰكُمۡ أُمَّةٗ وَسَطٗا لِّتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ﴾.[سورۃ البقرۃ:143]
امام فخرالدین رازیؒ لکھتے ہیں کہ: قِیامت میں گواہیاں چار طرح کی ہوں گی:
ایک ملائکہ کی، جس کے متعلق آیاتِ ذیل میں تذکِرہ ہے:
اِختِصار کے خَیال سے اِن آیات کا ترجَمہ نہیں لکھا، سب آیات کا حاصل قِیامت کے دن اُن چیزوں کی گواہی دینے کا ذکر ہے جن کا بیان آیت کے شروع میں لکھ دیا گیا۔
چوتھا اَمر حدیثِ بالا میں یہ ارشاد مبارک ہے کہ: مَیں تم کو کُفَّار کے سامنے رُسوا اور فَضِیحت(ذلیل) نہ کروں گا، یہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا غایت(اِنتہا) درجے کا لُطف وکرم اور مسلمانوں کے حال پر غیرت ہے، کہ اللہ کی رَضا کے ڈھونڈنے والوں کے لیے یہ بھی لُطف وانعام ہے کہ اُن کی لَغزشوں اور سَیِّئات(برائیاں) سے وہاں بھی دَرگُزر اور پَردہ پوشی کی جاتی ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ حضورِ اقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: قِیامت کے دن حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ایک مومن کو اپنے قریب بلاکر اُس پر پردہ ڈال کر - کہ کوئی دوسرا نہ دیکھے- اُس کی لغزشوں اور سیئات یاد دلاکر اُس سے ہر ہر گناہ کا اِقرار کرائیں گے، اور وہ اپنے گناہوں کی کثرت اور اقرار پر یہ سمجھے گا کہ اب ہلاکت کا وقت قریب آگیا، تو ارشاد ہوگا کہ: مَیں نے دنیا میں تجھ پر سَتَّاری(یعنی پَردہ پوشی) فرمائی ہے تو آج بھی اِن پر پردہ ہے اور مُعاف ہیں[صحیح بخاری:6070]۔ اِس کے بعد اُس کے نیک اعمال کا دفتر اُس کے حوالے کردیا جائے گا۔
اَور بھی سینکڑوں روایات سے یہ مضمون مُستنبَط ہوتا(نکلتا) ہے کہ، اللہ کی رَضا کے ڈھونڈنے والوں، اُس کے احکام کی پابندی کرنے والوں کی لغزشوں سے درگُزر کردیا جاتا ہے؛ اِس لیے نہایت اَہمِیَّت کے ساتھ ایک مضمون سمجھ لینا چاہیے کہ، جو لوگ اللہ والوں کی کوتاہیوں پر اُن کی غیبت میں مُبتَلا رہتے ہیں، وہ اِس کا لحاظ رکھیں کہ مَبادا(ایسا نہ ہو) قِیامت میں اُن کے نیک اعمال کی برکت سے اُن کی لَغزِشیں تو مُعاف کردی جائیں اور پردہ پوشی فرمائی جائے؛ لیکن تم لوگوں کے اعمال نامے غیبت کا دفتر بن کر ہلاکت کا سبب بنیں۔ اللہ جَلَّ شَانُہٗ اپنے لُطف سے ہم سب سے درگُزر فرماویں۔
پانچواں اَمر ضروری یہ ہے کہ: حدیثِ بالا میں عید کی رات کو ’’انعام کی رات‘‘ سے پکارا گیا ہے، اِس رات میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف سے اپنے بندوں کو اِنعام دیا جاتا ہے؛ اِس لیے بندوں کو بھی اِس رات کی بے حد قدر کرنا چاہیے، بہت سے لوگ عوام کا تو پوچھنا ہی کیا، خواص بھی رمَضان کے تھکے ماندے اِس رات میں میٹھی نیند سوتے ہیں؛ حالاںکہ یہ رات بھی خُصوصِیَّت سے عبادت میں مشغول رہنے کی ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں میں جاگے اور عبادت میں مشغول رہے، اُس کا دل اُس دن نہ مرے گا جس دِن سب کے دل مرجاویں گے[سنن ابن ماجہ:1782]، یعنی فِتنہ وفَساد کے وقت جب لوگوں کے قُلوب پر مُردنی(موت کی نشانیاں) چھاتی ہے اُس کا دل زندہ رہے گا۔ اور ممکن ہے کہ صور پھونکے جانے کا دن مراد ہو، کہ اُس کی رُوح بے ہوش نہ ہوگی۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگے اُس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی: لَیلَۃُ الترَّوِیۃ: آٹھ ذِی الحجہ کی رات، لَیلَۃُ العَرْفَۃ: ۹؍ ذی الحجہ کی رات، لَیلَۃُ النَّحر: ۱۰؍ ذی الحجہ کی رات، اور عیدالفطر کی رات، اور شبِ برأت یعنی: ۱۵؍ شعبان کی رات۔[الترغيب والترهيب للأصبهاني:374]
فُقَہاء نے بھی عیدین کی رات میں جاگنا مُستَحب لکھا ہے:’’مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّۃ‘‘ میں امام شافعی صاحبؒ سے نقل کیا ہے کہ: پانچ راتیں دعا کی قَبولِیت کی ہیں: جمعہ کی رات، عیدین کی راتیں، غُرَّۂ(یعنی پہلی تاریخ) رجب کی رات اور نصف شعبان کی رات۔
تنبیہ:
بعض بزرگوں کا ارشاد ہے کہ: رمَضانُ المبارک میں جمعہ کی رات کا بھی خُصوصِیَّت سے اہتمام چاہیے، کہ جمعہ اور اُس کی رات بہت مُتبرَّک اَوقات ہیں، احادیث میں اِن کی بہت فضیلت آئی ہے[سنن ترمذی3570]؛ مگر چوںکہ بعض روایات میں جمعہ کی رات کو قِیام کے ساتھ مَخصوص کرنے کی مُمانَعت بھی وارد ہوئی ہے[صحیح مسلم:1144]؛ اِس لیے بہتر ہے کہ ایک دو رات کو اُس کے ساتھ اَور بھی شامل کرلے۔
آخر میں ناظِرین سے لَجاجَت(عاجزی) سے درخواست ہے کہ: رمَضانُ المبارک کے مخصوص اوقات میں جب آپ اپنے لیے دعا فرمائیں تو ایک سِیاہ کار کو بھی شامل فرمائیں، کیا بعید ہے کہ کریم آقا تمھاری مُخلِصانہ دعا سے اِس کو بھی اپنی رَضا ومَحبت سے نواز دیں۔
*جو شخص (کسی بھی)رات کو سورۃ آل عمران کا آخری(رکوع)پڑھے، لکھا جاۓگا اس کیلئے پوری رات عبادت کرنا.*
[مسند دارمی: حدیث#3439]
جس نے(ترجمہ سمجھکر)پڑھی
{سورۃ اذا زلزلت}
اسکا ثواب آدھے قرآن کے برابر ہے، اور جس نے پڑھی
{قل یا ایھا الکافرون}
اسکا ثواب چوتھائی قرآن کے برابر ہے، اور جس نے پڑھی
{سورۃ قل ھو الله احد}
اسکا ثواب تہائی قرآن کے برابر ہے
[ترمذی:2893]
کیا تمہارے پاس سورة «إذا جاء نصر اللہ والفتح» نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، (ہے) آپ نے فرمایا: یہ ایک چوتھائی قرآن ہے۔
[ترمذی:2895]
سورۃ التکاثر پڑھنا(ثواب میں) 1000 آیات پڑھنا ہے۔
[حاکم:2081]
سورۃ یس(ثواب میں)دس قرآن کے برابر ہے
[ترمذی:2887]
سورۃ الفاتحۃ(ثواب میں)تہائی قرآن کے برابر ہے۔
[عبد بن حميد:678]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
نبی ﷺ نے فرمایا:
جس نے ہر دن۔۔۔اور۔۔۔ہر رات 70 بار الله سے بخشش مانگی(استغفار کیا)،اسے نہیں لکھا جاۓگا غافلين میں۔
[ابن السني:366]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
جو شخص 100 بار کہے سبحان الله(یعنی پاک ہے الله، ہر عیب،کمزوری وظلم سے) اس کیلئے 1000 نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کے 1000 گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
[صحیح مسلم: کتاب الذکر، باب فضل التھلیل والتسبیح، حدیث#2698]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
100 مرتبہ سبحان اللہ (ہر عیب وظلم سے پاک ہے اللہ) پڑھا کرو، اسکا ثواب ایسا ہےگویا تم نے 100 غلام عرب آزاد کئے اور 100 مرتبہ الحمدللہ (سب تعریفیں اللہ کیلئے) پڑھا کرو ،اسکا ثواب ایسا ہےگویا تم نے 100 گھوڑے سامان کے ساتھ جھاد میں سواری کیلئے دیدیئے...
[مسند احمد:حدیث#26911]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
*...اور الله اکبر(اللہ سب سے بڑا ہے) 100 مرتبہ کہا کرو ایسا ہے گویا تم نے 100 اونٹ(نفلی)قربانی میں ذبح کئے اور وہ قبول ہوۓ...*
[احمد:26911، نسائی:10680، ابن ماجہ:3810، طبرانی ،کبیر:1071، طبرانی ،اوسط:7694]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
جو بندہ 100 مرتبہ لا اله الا الله(یعنی الله کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے)کہے تو الله اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھائیں گے کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوگا اور اس روز اس سے بہتر کسی کا عمل نہ ہوگا سواۓ اس کے جس نے اس سے بھی زیادہ کہا.
[مسند الشامیین:994]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
اور جس نے شام کو بھی 100 مرتبہ لا اله الا الله کہا، گویا کہ اس نے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے 100 غلام آزاد کئے
[ترمذی:3471]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
*...اور لاإله إلا الله(نہیں ہے کوئی معبود سوا اللہ کے)100 مرتبہ پڑھا کرو اسکا ثواب تو آسمان وزمین کے درمیان کو بھردیتا ہے ،اس سے بڑھ کر کسی کا کوئی عمل افضل نہیں جو مقبول ہو...*
[احمد:26911، نسائی:10680، ابن ماجہ:3810، طبرانی ،کبیر:1071، طبرانی ،اوسط:7694]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
*کیا میں تمہیں نہ بتاؤں وہ کلمہ جو جنت کے خزانوں میں سے*
[مسلم:2704]
*ایک خزانہ ہے؟*
[ترمذی:3461]
*جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے؟*
[ترمذی:3581]
*جو(کثرت سے)کہے: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ (یعنی نہیں ہے کوئی طاقت اللہ کی نافرمانی سے سوائے اللہ کے بچانے کے اور نہیں ہے کوئی قوۃ اللہ کی فرمانبرداری کی سوائے اسی کی مدد سے)۔*
[البزار:2004]
*تو بےشک یہ اس کیلئے 99 بیماریوں کی دوا ہے(99مصیبتوں کے دروازے بند کرتا ہے)،جن میں ادنی غم ہے.*
[حاکم:1998]
*بندہ جب یہ کلمہ (لاحول ولاقوۃ الابالله) کہتا ہے تو الله فرماتے ہیں: میرا بندہ مسلمان ہوگیا اور میرے سامنے سرِ تسلیم خم ہوگیا۔*
حضرت ابوہریرہ رسول الله ﷺ کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:
جس نے صبح اور شام 100 مرتبہ”سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ“ کہا(یعنی پاکی بیان کرتا ہوں الله کی اس کی تعریف کے ساتھ)، تو قیامت کے دن اُس سے زیادہ افضل عمل لیکر کوئی نہ آئے گا سوائے اُس شخص کے جو اُسی کے مثل یا اُس سے بھی زیادہ یہ کلمہ کہتا ہو۔
یعنی نہیں ہے کوئی معبود(پکارے جانے کے لائق مشکل کشا)سوائے الله کے، وہ اکیلا ہے کوئی شریک نہیں ہے اسکا، اسی کا ہے(سارا)ملک اور اسی کیلئے ہے(تمام)تعریف، اور وہی ہے ہر چیز پر پوری قدرت والا۔
*تو نہیں پہنچ سکےگا کوئی شخص بھی اُس(کےمقام/اجر)کو اس سے پہلے والا اور نہ بعد میں آنے والا سوائے اس کے جو اس سے بھی زیادہ کہے۔*
[احمد:6740]
*اور 100 مرتبہ شام کو کہے*
[نسائی:10335]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
روۓ زمین پر کوئی ایسا بندہ نہیں ہے،جو کہے:
*نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سواۓ الله کے،اور الله سب سے بڑا ہے،اور پاک ہے الله(ہر عیب، بھول،خطا،ظلم،کمزوری سے)،اور سب تعریفیں الله کیلئے ہیں،اور نہیں ہے کوئی طاقت(گناہوں سے بچانےوالی)اور نہیں ہے کوئی قوۃ(نیکی کی توفیق دینےوالی)سواۓ الله کے.*
مگر اس(بندہ)کی خطاؤں کا کفارہ ہوجاۓگا،خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے بقدر ہوں.
[احمد:6479 ترمذی:3460 حاکم:1853]
سورۃ مریم:76
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
*ایک دعا سے تقریباً ڈیڑھ ارب 1,50,00,00,000 نیکیاں کمائیں:*
حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
جو شخص ایمان والے مرد و عورت کیلئے بخشش کی دعا مانگے گا، الله اس کے بدلے میں اس کیلئے ہر مومن مرد و عورت کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھے گا.
[صحیح الجامع،البانی: حدیث#6026]
نوٹ:
دنیا میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ارب ہے۔
قرآنی بخشش کی دعائیں»
سورۃ ابراہیم:41 غافر:7-10، الحشر:10، نوح:28
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
جو مجھ پر 1 بار درود(دعاۓرحمت)بھیجے
الله اس پر 10 بار رحمت بھیجتا ہے
اور
مٹاتا ہے اسکی 10 برائیاں
اور
بلند کرتا ہے اسکے 10 درجات.
[نسائی:1219]
اور جس نے مجھ پر 100 مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان نفاق اور جہنم سے براءت لکھ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُس کو قیامت کے دن شہداء کے ساتھ سکونت عطاء فرمائیں گے۔
[المعجم الاوسط(امام)طبرانی:7235]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
جو چاہے کہ وہ الله کی ایسی تعریف کرے اور نبی پر ایسا درود پڑھے اور الله سے ایسی دعا مانگے جو مخلوق میں سے کسی نے نہ کی ہو:
اے میرے الله! آپ ہی کیلئے ہے تعریف جیساکہ آپ اس(شان)کے لائق ہیں،پس رحمت(ایسی بھیج)سیدنا محمد پر جو آپ(کی شان)کے لائق ہیں،اور کر ہمارے ساتھ(ایسا معاملہ)جو آپ(کی شان)کے لائق ہے،پس بےشک آپ ہی ہیں تقوی(دینے)والے اور بخشش والے.
[القول البدیع(امام سخاوی):ص57]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
اگر آپ الله کی رات دن(نفلی)عبادت کرنا چاہتے ہیں جیساکہ اسکی عبادت کا حق ہے تو کہو:
*سب تعریفیں الله کیلئے ہیں دائمی تعریفیں جو اسکی ہمیشگی کےساتھ ہوں،اور سب تعریفیں الله کیلئے ہیں دائمی تعریفیں جنکی کوئی انتہا نہ ہو اسکی چاہت کےسوا،اور سب تعریفیں الله کیلئے ہیں دائمی تعریفیں جس کا کہنےوالا صرف الله کی رضا کےقریب ہو،اور سب تعریفیں الله کیلئے ہیں دائمی تعریفیں جو ہر آنکھ کےجھپکنے اور ہر سانس کےچلنے کےساتھ ہوں.*
[جامع الاحادیث:33948]
🎁🌹🎁🌹🎁🌹🎁🌹
اے اللہ! تیرے ہی لئے ہے تعریف سب کی سب، اور تیرے ہی لئے ہے شکر سب کا سب، اور تیرا ہی ملک ہے سارا، اور تیری ہی مخلوق ہے ساری، اور تیرےہی قبضہ میں ہے بھلائی ساری، اور تیری ہی طرف لوٹتی ہیں باتیں ساری۔ ہم مانگتے ہیں تجھ سے بھلائیاں ساری اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں برائیوں سے ساری.
[جامع الأحادیث:24740]41820
🎁🎁🎁🎁🎁🎁🎁
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رمضان ''رمض'' سے ماخوذ ہے اور رمض کا معنٰی ''جَلانا ''ہے۔ چونکہ یہ مہینہ مسلمانوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اس لئے اس کا نام رمضان رکھا گیا ہے۔ یا اس لئے یہ نام رکھا گیا ہے کہ یہ ''رمض'' سے مشتق ہے جس کا معنٰی ''گرم زمین سے پاؤں جلنا'' ہے۔ چونکہ ماہِ صیّام بھی نفس کے جلنے اور تکلیف کا موجب ہوتا ہے لہٰذا اس کا نام رمضان رکھا گیا ہے۔ یا رمضان گرم پتھر کو کہتے ہیں۔ جس سے چلنے والوں کے پاؤں جلتے ہیں۔ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا تھا اس وقت بھی موسم سخت گرم تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ رمض کے معنی برساتی بارش ، چونکہ رمضان بدن سے گناہ بالکل دھو ڈالتا ہے اور دلوں کو اس طرح پاک کردیتا ہے جیسے بارش سے چیزیں دھل کر پاک و صاف ہو جاتی ہیں۔
[غنیۃ الطالبین: صفحہ ٣٨٣-٣٨٤]
رمضان کے پانچ حروف ہیں:
''ر'' رضوان اللہ (اللہ کی خوشنودی) ہے۔
''م'' محابۃ اللہ کی ہے (اللہ کی محبت)۔
''ض'' ضمان اللہ کا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری)
مہینہ
رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت
ہے واسطے لوگوں کو اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی
[۲۷۹] سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے [۲۸۰] اور
جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیئے اور دنوں سے [۲۸۱]
اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری
کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم
احسان مانو [۲۸۲]
The month of
Ramadhan: therein was sent down the Qur'an: is a guidance unto mankind, and
with evidences: one of the Books of guidance and the distinction. So
whosoever of you witnesseth the month, he shall fast it, and whosoever sick
or journeying, for him the like number of other days. Allah intendeth for you
ease, and intendeth not for you hardship; so ye shall fulfil the number and
shall magnify Allah for His having guided you,and haply ye may give thanks.
مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو
اول رمضان میں روزہ کا حکم فرمایا اور
بوجہ عذر پھر مریض اور مسافر کو افطار کرنے کی اجازت دی اور دیگر اوقات میں ان
دنوں کے شمار کے برابر روزوں کا قضا کرنا تم پر پھر واجب فرمایا ایک ساتھ ہونے
یا متفرق ہونے کی ضرورت نہیں تو اس میں اس کا لحاظ ہے کہ تم پر سہولت رہے دشواری
نہ ہو اور یہ بھی منظور ہے کہ تم اپنے روزوں کا شمار پورا کر لیا کرو ثواب میں
کمی نہ آ جائے اور یہ بھی مدنظر ہے کہ تم اس طریقہ سراسر خیر کی ہدایت پر اپنے
اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کو بزرگی سے یاد کرو اور یہ بھی مطلوب ہے کہ ان
نعمتوں پر تم شکر کرو اور شکر کرنے والوں کی جماعت میں داخل ہو جاؤ سبحان اللہ
روزہ جیسی مفید عبادت ہم پر واجب فرمائی اور مشقت و تکلیف کی حالت میں سہولت بھی
فرمادی اور فراغت کے وقت میں اس نقصان کے جبر کا طریقہ بھی بتلا دیا۔
اس حکم عام سے یہ سمجھ میں
آتا تھا کہ شاید مریض اور مسافر کو بھی افطار و قضا کی اجازت باقی نہیں رہی اور
جیسے روزہ رکھنے کی طاقت رکھنے والوں کو اب افطار کی ممانعت کر دی گئ ایسے ہی
مسافر اور مریض کو بھی ممانعت ہو گئ ہو اس لئے مریض و مسافر کی نسبت پھر صاف
فرما دیا کہ ان کو رمضان میں افطار کرنے
اور اور دنوں میں اس کے قضا کرنے کی اجازت اسی طرح باقی ہے جیسے تھی۔
یعنی جب اس ماہ مبارک کے
فضائل مخصوصہ عظیمہ تم کو معلوم ہو چکے تو اب جس کسی کو یہ مہینہ ملے اس کو روزہ
ضرور رکھنا چاہیئے اور بغرض سہولت ابتداء میں جو فدیہ کی اجازت برائے چندے دی گئ
تھی وہ موقوف ہو گئ۔
حدیث میں آیا ہے کہ صحف
ابراہیمی اورتوریت اور انجیل سب کا نزول رمضان
ہی میں ہوا اور قرآن شریف بھی رمضان کی
چوبیسویں رات میں لوح محفوظ سے اول آسمان پر سب ایک ساتھ بھیجا گیا پھر تھوڑا
تھوڑا کر کے مناسب احوال آپ پر نازل ہو تا رہا اور ہر رمضان میں جبرئیلؑ قرآن نازل شدہ آپ کو مکرر سنا
جاتے تھے ان سب حالات سے مہینے رمضان کی
فضیلت اور قرآن مجید کے ساتھ اس کی مناسبت اور خصوصیت خوب ظاہر ہو گئ اس لئے اس
مہینے میں تراویح مقرر ہوئی پس قرآن کی خدمت اس مہینے میں خوب اہتمام سے کرنی
چاہیئے کہ اسی واسطے مقرر اور معین ہوا ہے۔
تفسیر (امام) ابن کثیر
نزول قرآن اور ماہ رمضان: ماہ رمضان شریف کی فضیلت وبزرگی کا بیان ہو رہا ہے اسی ماہ مبارک میں قرآن کریم اترا مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور توراۃ چھٹی تاریخ اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا.
ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارہویں کو، اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل و زبور جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزت سے آسمانی دنیا تک تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتًا فوقتًا حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا یہی مطلب آیت (اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ) 97۔ القدر:1) آیت اور آیت (اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ) 44۔ الدخان:3) اور آیت (اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ) 2۔ البقرۃ:185) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کے مہینے میں لیلتہ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلہ مبارکہ بھی کہا ہے ، ابن عباس وغیرہ سے یہی مروی ہے، آپ سے جب یہ سوال ہوا کہ قران کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں اترتا رہا پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلتہ القدر میں اترنے کے کیا معنی؟ تو آپ نے یہی مطلب بیان کیا (ابن مردویہ وغیرہ) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھی رمضان میں قرآن کریم دنیا کے آسمان کی طرف اترا بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت واقعات اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور بیس سال میں کامل ہوا اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارا کیوں نہیں اترا ؟جس کے جواب میں فرمایا گیا آیت (لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا) 25۔ الفرقان:32) یہ اس لئے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں پھر قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں تدبر اور غور و فکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے یہ حق وباطل حرام وحلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے ہدایت وگمراہی اور رشدوبرائی میں علیحدگی کرنے والا ہے، بعض سلف سے منقول ہے کہ صرف رمضان کہنا مکروہ ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہنا چاہے، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رمضان نہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہا کرو، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور محمد بن کعب سے بھی یہی مروی ہے، حضرت ابن عباس اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا مذہب اس کے خلاف ہے، رمضان نہ کہنے کے بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے لیکن سندا وہ وہی ہے امام بخاری نے بھی اس کے رد میں باب باندھ کر بہت سی حدیثیں بیان فرمائی ہیں ایک میں ہے جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور نیک نیتی کے ساتھ رکھے اس کے سبب اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.
وغیرہ غرض اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب رمضان کا چاند چڑھے کوئی شخص اپنے گھر ہو، سفر میں نہ ہو اور تندرست بھی ہو اسے روزے رکھنے لازمی اور ضروری ہیں، پہلے اس قسم کے لوگوں کو بھی جو رخصت تھی وہ اٹھ گئی اس کا بیان فرما کر پھر بیمار اور مسافر کے لئے رخصت کا بیان فرمایا کہ یہ لوگ روزہ ان دنوں میں نہ رکھیں اور پھر قضا کرلیں یعنی جس کے بدن میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے روزے میں مشقت پڑے یاتکلیف بڑھ جائے یا سفر میں ہو تو افطار کرلے اور جتنے روزے جائیں اتنے دن پھر قضا کرلے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان حالتوں میں رخصت عطا فرما کر تمہیں مشقت سے بچا لینا یہ سراسر ہماری رحمت کا ظہور ہے اور احکام اسلام میں آسانی ہے، اب یہاں چند مسائل بھی سنئے (١) سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مقیم ہو اور چاند چڑھ جائے رمضان شریف کا مہینہ آجائے پھر درمیان میں اسے سفر درپیش ہو تو اسے روزہ ترک کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو روزہ رکھنے کا صاف حکم قرآن پاک میں موجود ہے، ہاں ان لوگوں کو بحالت سفر روزہ چھوڑناجائز ہے جو سفر میں ہوں اور رمضان کا مہینہ آجائے، لیکن یہ قول غریب ہے، ابو محمد بن حزم نے اپنی کتاب "محلی"میں صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے لیکن اس میں کلام ہے واللہ اعلم۔ نبی ﷺ رمضان المبارک میں فتح مکہ کے غزوہ کے لئے نکلے روزے سے تھے"کدید"میں پہنچ کر روزہ افطار کیا اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں (متفق علیہ) (٢) صحابہ رحمۃ اللہ تابعین کی ایک اور جماعت نے کہا کہ سفر میں روزہ توڑ دینا واجب ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت (فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ) 2۔ البقرۃ:185) لیکن صحیح قول جو جمہور کا مذہب ہے یہ ہے کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ رکھے خواہ نہ رکھے اس لئے کہ ماہ رمضان میں لوگ جناب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلتے تھے بعض روزے سے ہوتے تھے بعض روزے سے نہیں ہوتے تھے پس روزے دار بےروزہ پر اور بےروزہ دار روزہ دار پر کوئی عیب نہیں پکڑاتا تھا اگر افطار واجب ہوتا تو روزہ رکھنے والوں پر انکار کیا جاتا، بلکہ خود نبی ﷺ سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے، بخاری ومسلم میں ہے حضرت ابو درداء ؓ فرماتے ہیں رمضان المبارک میں سخت گرمی کے موسم میں ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھے رکھے پھر رہے تھے ہم میں سے کوئی بھی روزے سے نہ تھا سوائے رسول اللہ ﷺ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کے۔ (٣) تیسرا مسئلہ۔ ایک جماعت علماء کا خیال ہے جن میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ حضور ﷺ سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے، ایک دوسری جماعت کا خیال ہے کہ روزہ نہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں رخصت پر عمل ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ سے سفر کے روزے کی بابت سوال ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو روزہ توڑ دے اس نے اچھا کیا اور جو نہ توڑے اس پر کوئی گناہ نہیں.
تیسری جماعت کا قول ہے کہ رکھنا نہ رکھنا دونوں برابر ہے۔ ان کی دلیل حضرت عائشہ والی حدیث ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ !میں روزے اکثر رکھا کرتا ہوں تو کیا اجازت ہے کہ سفر میں بھی روزے رکھ لیا کروں فرمایا اگر چاہو تو روزہ رکھو، اور اگر چاہو نہ رکھو. (بخاری ومسلم)
چوتھا مسئلہ: آیا قضاء روزوں میں پے درپے روزے رکھنے ضروری ہیں یا جدا جدا بھی رکھ لئے جائیں تو حرج نہیں؟ ایک مذہب بعض لوگوں کا یہ ہے کہ قضا کو مثل ادا کے پورا کرنا چاہئے ، ایک کے پیچھے ایک یونہی لگاتار روزے رکھنے چاہئیں دوسرے یہ کہ پے درپے رکھنے واجب نہیں خواہ الگ الگ رکھے خواہ ایک ساتھ اختیار ہے جمہور سلف وخلف کا یہی قول ہے اور دلائل سے ثبوت بھی اسی کا ہے، رمضان میں پے درپے رورزے رکھنا اس لئے ہیں کہ وہ مہینہ ہی ادائیگی روزہ کا ہے اور رمضان کے نکل جانے کے بعد تو صرف وہ گنتی پوری کرنی ہے خواہ کوئی دن ہو اسی لئے قضاء کے حکم کے بعد اللہ کی آسانی کی نعمت کا بیان ہوا ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو، بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو،
پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مریض اور مسافر وغیرہ کو یہ رخصت دینا اور انہیں معذور جاننا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ آسانی کا ہے سختی کا نہیں اور قضا کا حکم گنتی کے پورا کرنے کے لئے ہے اور اس رحمت نعمت ہدایت اور عبادت پر تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑائی اور ذکر کرنا چاہئے جیسے اور جگہ حج کے موقع پر فرمایا آیت (فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا) 2۔ البقرۃ:200) یعنی جب احکام حج ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو اور جگہ جعمہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد فرمایا کہ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور رزق تلاش کرو اور اللہ کا ذکر زیادہ کرو تاکہ تمہیں فلاح ملے، اور جگہ فرمایا آیت (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ) 15۔ الحجر:98) یعنی سورج کے نکلنے سے پہلے سورج کے ڈوبنے سے پہلے رات کو اور سجدوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیا کرو، اسی لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد تسبیح اور تکبیر پڑھنی چاہئے، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کا نماز سے فارغ ہونا صرف اللہ اکبر کی آوازوں سے جانتے تھے، یہ آیت دلیل ہے اس امر کی کہ عیدالفطر میں بھی تکبیریں پڑھنی چاہئیں داود، بن علی اصبہانی ظاہری کا مذہب ہے کہ اس عید میں تکبیروں کا کہنا واجب ہے کیونکہ اس میں صیغہ امر کا ہے ولتکبرو اللہ اور اس کے بالکل برخلاف حنفی مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ اس عید میں تکبیریں پڑھنا مسنون نہیں ، باقی بزرگان دین اسے مستحب بتاتے ہیں گو بعض تفصیلوں میں قدرے اختلاف ہے پھر فرمایا تاکہ تم شکر کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لا کر اس کے فرائض کو ادا کر کے اس کے حرام کردہ کاموں سے بچ کر اس کی حدود کی حفاظت کر کے تم شکر گزار بندے بن جاؤ۔
تفسیر الدر المنثور» امام سیوطی(م911ھ)
قرآن کریم رمضان میں نازل ہوا
(۱) ابن ابی حاتم، ابو الشیخ ، ابن عدی، بیہقی نے السنن میں اور دیلمی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے فرفوعا اور موقوفا روایت کیا ہے کہ رمضان نہ کہو اس لئے کہ رمضان اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے بلکہ تم شہر رمضان کہو یعنی رمضان کا مہینہ۔ [فتح الباري لابن حجر :4/135/ خلاصة حكم المحدث :ضعيف]
(۲) امام وکیع، ابن جریر نے مجاہد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رمضان نہ کہو کیونکہ تو نہیں جانتا کہ رمضان کیا ہے؟ شاید یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک ہو لیکن تم کہو شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ جیسے اللہ عزوجل نے فرمایا۔ (۳) ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں گناہوں کو جلا دیا جاتا ہے اور شوال اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں گناہوں کو اوپر اٹھا لیا جاتا ہے جیسے اونٹنی اپنی دم کو اوپر اٹھاتی ہے۔
(٤) ابن مردویہ اور الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کا نام اس لئے ہے کہ کیونکہ اس میں گناہ جل جاتے ہیں۔ (۵) ابن مردویہ اور الاصبہانی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ! رمضان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس میں مؤمنین کے گناہوں کو جلا دیتے ہیں اور ان کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں (پھر) پوچھا گیا شوال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اس میں لوگوں کے گناہوں کو اوپر اٹھا لیتے ہیں (یعنی ختم فرما دیتے ہیں! کوئی گناہ اس میں باقی نہیں رہتا مگر یہ کہ اس کو بخش دیتے ہیں۔ (٦) بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ نے ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے یعنی رمضان اور ذوالحجہ۔
رمضان المبارک پانے کی دعا: (۷) البزار ، طبرانی نے الاوسط میں بیہقی نے شعب میں انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب رجب (کا مہینہ) داخل ہوتا یہ دعا فرماتے: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ. ترجمہ:
(۸) مالک، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے طلحہ بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بکھرے ہوئے بالوں والا آیا اور کہا رسول اللہ ! مجھ کو بتائیے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر روزے فرض کئے ہیں آپ نے فرمایا رمضان کا مہینہ (فرض ہے) مگر یہ کہ تو نفل روزے رکھ لے پھر اس نے پوچھا مجھ کو بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر زکوٰۃ فرض کی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس کو اسلام کے احکام بتائیے اس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت دی ہے میں کوئی نفلی عمل نہیں کروں گا اور اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر فرض فرمایا ہے اس میں کمی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کامیاب ہوگیا اگر اس نے سچ کہا یا جنت میں داخل ہوگا اگر اس نے سچ کہا۔
(۹) مالک، ابن ابی شیبہ، بخاری، نسائی، بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آ جاتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دئیے جاتے ہیں۔
(۱۰) ابن ابی شیبہ، احمد، نسائی اور بیہقی نے عرفجہ رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ہم عتبہ بن فرقد رحمہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہم کو رمضان کے بارے میں بیان فرما رہے تھے اچانک نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی داخل ہوئے تو عتبہ بن فرقد خاموش ہوگئے اور (اس صحابی سے) فرمایا اے ابو عبید اللہ ہم کو رمضان کے بارے میں بتائیے کس طرح آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سنا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رمضان مبارک ایسا مہینہ ہے اس میں جنت کا دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس میں جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور اس میں شیاطین کو قید کر لیا جاتا ہے اور ہر رات ایک آواز لگانے والا آواز لھاتا ہے اے خیر کے متلاشی متوجہ ہو اور اے شر کے متلاشی بس کر یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا ہے۔
(۱۱) امام احمد، طبرانی، بیہقی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر افطار کے وقت اللہ تعالیٰ کے چند بندے ہیں جو دوزخ سے آزاد کئے گئے ہیں۔
روزہ کفارہ سیئات (۱۲) مسلم اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازیں ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک مٹانے والے ہیں ان گناہوں کو جو ان کے درمیان ہو جائیں جب بڑے گناہوں سے بچے۔
(۱۳) ابن حبان اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اس کی حدود کو بچانا اور حفاظت کی ان چیزوں کی جن کی حفاظت کرنی چاہئے تھی تو پہلے سب گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔
(۱٤) ابن ماجہ نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر افطار کے وقت اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ (دوزخ سے) آزاد ہوتے ہیں اور ہر رات میں ایسا ہوتا ہے۔
(۱۵) ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینے کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات کو باندھ دیا جاتا ہے دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور اس میں سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ اور ایک پکارنے والا ہر رات پکارتا ہے اے خیر کے متلاشی متوجہ ہو اور اس شر کے متلاشی بس کر، اور اللہ تعالیٰ کے لئے دوزخ سے آزاد ہوتے ہیں اور ہر رات کو ایسا ہوتا ہے۔
(۱٦) ابن ابی شیبہ، نسائی اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا ہم تم کو خوشخبری دیتے ہیں کہ تمہارے پاس رمضان کا مبارک مہینہ آچکا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض فرما دئیے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور اس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی خیر سے محروم ہوگیا تو وہ (پوری خیر) سے محروم ہوگیا۔
(۱۷) احمد، البزار، ابو الشیخ نے بیہقی اور الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینہ میں میری امت کو پانچ باتیں دی گئیں جو ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دی گئیں۔ جو ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دی گئیں۔ (۱) روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (۲) ان کے لئے فرشتے استغفار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ افطار کر لیں۔ (۳) ہر دن اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو سمجھاتے ہیں پھر (جنت سے) فرماتے ہیں عنقریب میرے نیک بندے جو (دنیا میں) مشقت اور تکلیف کو اٹھائیں وہ تیری طرف لوٹ آئیں۔ (٤) اس (مبارک مہینہ) میں شیاطین قید کر دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ اس مہینہ میں نجات پاتے ہیں اتنے کسی اور مہینہ میں نجات نہیں پاتے۔ (۵) اور ان کے لئے آخری رات میں مغفرت کی جاتی ہے کہا گیا یا رسول اللہ ! کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن عمل کرنے والے کو اس کو پورا اجر دیا جاتا ہے جب وہ اپنے عمل کو پورا کر لیتا ہے۔
(۱۸) بیہقی اور الاصبہانی نے جابر بن عبدا للہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینہ میں میری امت کو پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی بنی کو نہیں دی گئیں پہلی یہ ہے کہ جب رمضان کے مہینہ کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر (رحمت) فرماتے ہیں اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت فرما دیتے ہیں اس کو کبھی عذاب نہیں دیا جاتا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ منہ کی بوجب شام ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاک ہوتی ہے اور تیسری چیز یہ ہے کہ فرشتہ ہر دن اور رات میں ان کے لئے استغفار کرتے ہیں اور چوتھی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کو حکم فرماتے ہیں کہ وہ تیار ہو جائے اور میری بندوں کے لئے مزین (یعنی خوبصورت) ہو جائے۔ عنقریب وہ دنیا کی تھکان سے آرام حاصل کرنے کے لئے میرے گھر اور میری کر امت میں آجائیں۔ اور پانچویں چیز یہ ہے کہ جب آخری رات ہوتی ہے تو ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ صحابہ میں سے ایک آدمی نے کہا کیا یہ لیلۃ القدر ہے آپ ﷺ نے فرمایا نہیں کیا تم مزدوں کی طرف دیکھتے ہو جو کام کرتے ہیں جب وہ کام سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو پورا پورا اجر دیا جاتا ہے۔
(۱۹) بیہقی نے شعب الایمان میں اور اصبہانی نے الترغیب میں حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے لئے رمضان کی ہررات میں چھ لاکھ (آدمی) کو جہنم سے آزاد ہوتے ہیں اور جب آخری رات ہوتی ہے۔ تو گزشتہ تمام راتوں کی تعداد کے برابر آزاد کئے جاتے ہیں۔
(۲۰) بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا رمضان کے مہینہ کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو جنتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور سارا مہینہ کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور سارا مہینہ اس میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ اور سرکش جن کو ہتھکڑی ڈال دی جاتی ہے (یعنی باندھ دیا جاتا ہے) اور ایک پکارنے والا ہررات صبح ہونے تک پکارتا ہے اے خیر کے تلاش کرنے والو! (خیر کو) پورا کرو اور خوش ہو جاؤ اور اے شر کے تلاش کرنے والے بس کر اور آسمان کی طرف کہہ۔ آسمان سے (آواز آتی ہے) ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ ہم اس کو بخش دیں، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ ہم اس کی توبہ قبول کریں، ہے کوئی دعا کرنے والا کہ ہم اس کی دعا قبول کریں، ہے کوئی سوال کرنے وال کہ ہم اس کا سوال پورا کریں۔ اور ہر افطاری کے وقت رمضان کے مہینہ کی ہر رات سے اللہ تعالیٰ ساٹھ ہزار بندوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہیں اور جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو سارے مہینے میں جتنے لوگ آزاد کئے گئے تھے اس کے برابر مزیر آزاد کئے جاتے ہیں۔ یعنی بیس مرتبہ ساٹھ ساٹھ ہزار آزاد کئے جاتے ہیں۔ (۲۱) ابن ابی شیبہ، ابن خریمہ نے الصحیح میں بیہقی اور الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم پر یہ رمضان کا مہینہ پہنچ چکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی قسم مسلمان ہر مسلمان کے لئے اس سے بہتر مہینہ نہیں گزرا۔ اور منافقوں پر اس سے برا مہینہ نہیں گزرا رسول اللہ ﷺ کی قسم اللہ تعالیٰ اس کا اجر و ثواب اس کے داخل ہونے سے پہلے لکھ دیتا ہے۔اور (اس مال کے) داخل ہونے سے پہلے اس کا گناہ اور اس کی بدبختی لکھ دی جاتی ہے اور یہ اس وجہ سے مؤمن اس میں نفقہ تیار کرتا ہے عبادت میں قوت حاصل کرنے کے لئے اور منافق اس میں تیار کرتا ہے مؤمنین کی غیبت اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کے پیچھے پڑنے کو اور یہ (مہینہ) مؤمنین کے لئے غنیمت ہے اور فاجر لوگوں پر تاوان ہے۔ (۲۲) العقیلی انہوں نے اسے ضعیف کہا ہے۔ ابن خزیمہ نے صحیح میں بیہقی ، خطیب، الاصبہانی نے الترغیب میں سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری دن میں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اے لوگو تمہارے پاس بڑا برکت والا عظمت والا مہینہ پہنچ چکا ہے یہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کئے ہیں اور رات کے قیام مستحب بنایا ہے جو اس میں ایک نیکی کرے گا وہ اس طرح ہوگا جیسے اس نے باقی مہینوں میں فرض ادا کیا اور جو اس میں فرض (نماز) ادا کرے کرے گا تو اس کو اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے باقی مہینوں میں ستر فرض ادا کئے اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے یہ مہینہ غم خواری کا ہے اور اس مہینہ میں مؤمن کا رزق زیادہ کر دیا جاتا ہے جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرا ئے گا تو اس کے لئے گناہوں سے مغفرت ہوگی اور آگ سے چھٹکارا ہوگا اور اس کے لئے اتنا ہی اجر ہوگا جتنا روزہ دار کو ملے گا اور وہ روزہ دار کے اجر میں کمی نہ ہوگی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں سے ہر ایک اس چیز کو نہیں پاتا جس سے روزہ دار کو افطار کرائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس کو بھی عطا فرمائیں گے جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور ایک گھونٹ پانی سے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرا دے۔ اور جس نے روزہ دار کا پیٹ بھرد یا اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کو اس طرح پلائیں گے جس سے کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور اس مہینہ کا اول اور درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ آگ سے چھٹکارا ہے اور جس نے اس مہینہ میں اپنے غلام سے ہلکا کر دیا (کام کو) تو اس کی مغفرت کر دی جائے گی اور آگ سے چھٹکارا ہو جائے گا اس میں چار کاموں کو کثرت سے کر و دو کان ایسے ہیں کہ ان دونوں کے ذریعے تمہارا رب راضی ہوگا اور دو کام ایسے ہیں جس سے تم بے پرواہ نہیں ہو وہ دو کام جن سے تمہارا رب راضی ہوگا وہ یہ ہیں کہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس سے استغفار کرنا اور دو کام جن سے تم بے پرواہ نہیں ہو وہ یہ ہیں کہ تم جنت کا سوال کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔
تراویح سنت ہے (۲۳) ابن ابی شیبہ، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر آتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے تم پر فرض کئے ہیں اور میں اس کے قیام کو سنت قرار دیتا ہوں سو جو شخص اس کا روزہ رکھے گا اور اس کا قیام کرے گا ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو وہ گناہوں سے ایسا نکل جائے گا جیسے آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ تو اس دن اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ [مصنف ابن أبي شيبة» كتاب الصلاة» أَبْوَابُ صَلاةِ التَّرَاوِيحِ ... رقم الحديث: 7533(7779)
(۲٤) بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرض نماز (کے بعد دوسری) نماز تک جو اس سے ملی ہوئی ہے (درمیان والے گناہوں کا) کفارہی ہے۔ اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک جو اس سے ملا ہوا ہے کفارہ ہے ان (گناہوں) کا جو ان کے درمیان ہوئے۔ اور ایک مہینہ ، دوسرے ،مہینہ یعنی رمضان کا مہینہ (دوسرے) رمضان کے مہینہ تک کفارہ ہے ان (گناہوں) کا جو ان کے درمیان ہوئے مگر تین گناہ (معاف نہیں ہوتے) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا سنت طریقہ کو چھوڑ دینا۔ اور عہدکو توڑ دینا یا رسول اللہ صلی اللہ ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کو تو ہم نے سمجھ لیا (لیکن) نکث الصفۃ اور ترک السنۃ سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نکث الصفۃ یہ ہے کہ تو ایک شخص کے داہنے ہاتھ کے ساتھ بیعت کرے پھر اس کی مخالفت کرے اور اسے اپنی تلوار کے ساتھ قتل کر دے اور ترک السنۃ یہ ہے کہ (مؤمنین کی) جماعت سے نکل جانا۔
(۲۵) ابن خزیمہ، بیہقی اور الاصبہانی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ جب رمضان کا مہینہ آیا تو رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سبحان اللہ تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟ اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے؟ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! کیا وحی نازل ہوئی یا دشمن پہنچ چکا ہے؟ فرمایا نہیں لیکن رمضان کا مہینہ ہے اس کی پہلی رات میں اللہ تعالیٰ ان تمام قید والوں کو مغفرت فرماتے ہیں۔ صحابہ میں سے ایک آدمی اپنے سر کو ہلا کر کہنے لگا واہ واہ (آپ نے کیا فرما دیا؟) نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا یہ سن کر کیا تیرا سینہ تنگ ہوگیا اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہ لیکن میں نے منافق کافر ہے اور کافر کے لئے اس میں سے کچھ نہیں۔
(۲٦) بیہقی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا جب رسول اللہ ﷺ کے لئے منبر تیار فرمایا تو اس کی تین سیڑھیاں تھیں جب رسول اللہ ﷺ پہلی سیڑھی پر چڑھے تو فرمایا آمین۔ مسلمانوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو آمین آمین کہتے ہوئے سنا اور کسی کو ہم نے نہیں دیکھا آپ نے فرمایا جبرئیل علیہ السلام مجھ سے پہلے پہلی سیڑھی پر چڑھتے اور فرمایا اے محمد ﷺ میں نے کہا لبیک وسعدیک جبرئیلؑ نے فرمایا جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پایا (اور ان کی خدمت کرکے) اس کی مغفرت نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ اس کو تباہ و برباد کرے۔ (اور مجھ سے کہا) آپ کہہ دیجئے آمین۔ میں نے کہا آمین پھر جب وہ دوسری سیڑھی پر چڑھے تو جبرئیلؑ نے فرمایا اے محمد ﷺ میں نے کہا لبیک وسعد یک۔ پھر فرمایا جس نے رمضان کا مہینہ پایا۔ دن کو روزہ رکھا اور رات کو قیام کیا پھر مرگیا اس کی مغفرت نہ ہوئی اور دوزخ میں داخل ہوگیا اللہ تعالیٰ ا س کو بھی تباہ و برباد کرے آپ کہہ دیجئے آمین۔ میں نے کہا آمین۔ میں نے کہا آمین۔ جب جبرئیلؑ تیسری سیڑھی پر چڑھے تو کہا اے محمد ﷺ میں نے کہا لبیک وسعد یک۔ پھر فرمایا جس کے سامنے آپ کا ذکر ہو اور اس نے آپ پر درود نہ بھیجا اور پھر مر جائے (اس حال میں) کہ اس کی مغفرت نہ ہوئی اور دوزخ میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی تباہ و برباد کرے۔ آپ فرما دیجئے آمین میں نے کہا آمین۔
رمضان میں گناہ بخشوانے کی کوشش (۲۷) امام حاکم (انہوں نے اسی صحیح کہا ہے) نے سعد بن اسحاق کعب بن عجرہ ؓ سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منبر لے آؤ تو ہم منبر لے آئے جب آپ پہلی سیڑھی پر چڑھے تو فرمایا آمین جب دوسری پر چڑھے تو فرمایا آمین جب تیسری پر چڑھے تو فرمایا آمین جب آپ نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم نے آپ سے آج ایسی چیز سنی ہے جو پہلے ہم نے نہیں سنی تھی آپ نے فرمایا جبرئیل میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا (ہلاکت ہو) اس شخص کے لئے جو رمضان (کا مہینہ) پائے اور اس کی مغفرت نہ ہو، میں نے کہا آمین۔ جب دوسری سیڑھی پر چڑھے تو انہوں نے فرمایا ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے۔ میں نے کہا آمین۔ جب تیسری سیڑھی پر چڑھے تو انہوں نے فرمایا ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس نے اپنے بوڑھے والدین کو یا ان میں سے ایک کو پایا اور (ان کی خدمت نہ کی) انہوں نے اس کو جنت میں داخل نہ کرایا تو میں نے کہا آمین (کہ ایسا ہی ہو)۔
(۲۸) امام ابن حبان نے حسن بن مالک حویرث رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ منبر پر پہلی سیڑھی پر چڑھے تو فرمایا آمین پھر دوسری سیڑھی پر چڑھے تو فرمایا آمین پھر تیسری سیڑھی پر چڑھے تو فرمایا آمین پھر فرمایا میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے تھے اور فرمایا محمد جس نے رمضان (کا مہینہ) پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کرے میں نے کہا آمین پھر انہوں نے فرمایا جس نے اپنے والدین یا ان میں سے ایک کو پایا پھر وہ دوزخ میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہلاک کرے میں نے کہا آمین۔ پھر فرمایا جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور اس نے آپ پر درود نہ بھیجا تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی تباہ وبرباد کرے میں نے کہا آمین۔
(۲۹) ابن خدیجہ اور ابن حابن نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف لائے تو فرمایا آمین آمین عرض کیا گیا یا رسول اللہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور آپ نے فرمایا آمین آمین آمین آپ نے فرمایا جبرئیل علیہ السلام میر ے پاس تشریف لائے اور فرمایا جس شخص نے رمضان کا مہینہ پایا اس کی بخشش نہ ہوئی اور جہنم میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کو تباہ و برباد کرے آپ فرما دیجئے آمین آمین آمین۔
(۳۰) امام بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب رمضان کا مہینہ آجاتا تو آپ اپنی چادر مبارک کو مضبوطی سے کس لیتے پھر رمضان کے گزرنے تک بستر مبارک پر تشریف نہ لاتے یہاں تک کہ مہینہ گزر جاتا۔
(۳۱) بیہقی، اصبہانی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب رمضان کا مہینہ آجاتا تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کثرت سے نماز پڑھتے اور گڑ گڑاہٹ سے دعا مانگتے اور رمضان میں انتہائی خوف زدہ ہو جاتے۔
(۳۲) البزار، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب رمضان کا مہینہ آجاتا تو رسول اللہ ﷺ پر قیدی کو چھوڑ دیتے اور ہر سائل کو عطا فرما دیتے تھے۔
(۳۳) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا رمضان میں پہلی تہائی رات یا آخری تہائی رات کے بعد ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ ہے کوئی سائل جو سوال کرے اور اس کو عطا کیا جائے ہے کوئی استغفار کرنے والا جو استغفار کرے اور اس کو بخش دیا جائے ، ہے کوئی توبہ کرنے والا جو توبہ کرے اور اس کی توبہ قبول کی جائے۔
(۳٤) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کو سجایا جاتا ہے ایک سال سے دوسرے سال تک رمضان کے مہینہ کے لئے اور حوروں کو سجایا جاتا ہے ایک سال سے دوسرے سال تک رمضان کے روزہ داروں کے لئے جب رمضان داخل ہوتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ اس ماہ میں میرے لئے کچھ اپنے بندوں میں سے تجویز کر دیجئے۔ اور حور کہتی ہیں اے اللہ! اس ماہ میں اپنے بندوں میں سے میرے لئے شوہر بنا دیجئے ۔ جس نے اس ماہ میں کسی مسلمان پر بہتان نہیں لگایا اور نشہ آور چیز نہیں پی اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں اور جس شخص نے اس ماہ میں کسی مسلمان پر تہمت لگائی یا کوئی نشہ آور چیز پی لی۔ اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو ایک سال کے لئے ختم فرما دیتے ہیں سو ڈرو تم رمضان کے مہینے میں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے گیارہ مہینے بنائے کہ تم اس میں کھاتے ہو پیتے ہو اور لذت حاصل کرتے ہو اور اپنے لئے ایک مہینہ بنایا سو ڈرو تم رمضان کے مہینہ سے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔
(۳٦) دارقطنی نے(ا لا فر ادمیں) طبر انی، ابو نعیم نے (الحلیہ میں بیہقی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کو رمضان کے لئے مزین کیا جاتا ہے ایک سال کے شروع سے آنے والے سال تک جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جنت کے پتوں سے حور عین پر تو وہ کہتی ہے اے میرے رب ہمارے لئے اپنے بندوں میں سے شوہر بنا دیجئے کہ جس سے ہم اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں اور وہ ہم سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں۔
(۳۷) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ، ابن خزیمہ، ابو الشیخ نے الثواب میں، ابن مردویہ ، بیہقی الاصبہانی نے الترغیب میں أبو مسعود انصاری ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک دن سنا اور رمضان کا اچانک نکلا ہوا تھا آپ نے فرمایا اگر بندے جان لیتے جو رمضان کی فضیلت بیان کیجئے؟ آپ نے فرمایا جنت کو رمضان کے لئے سجایا جاتا ہے ایک سال سے دوسرے سال تک جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ہوا چلتی ہے تو جنت کے پتے آواز دینے لگتے ہیں حورعین اس کی طرف دیکھ کر کہتی ہے۔ اے میرے رب ہمارے لئے اس مہینہ میں اپنے بندوں میں سے شوہر بنا دیجئے کہ ہم ان کے ساتھ آنکھیں ٹھنڈی کریں اور ہمارے ساتھ آنکھیں ٹھنڈی کریں ان سے کہا جاتا ہے جو بندہ رمضان کا ایک مہینہ روزہ بھی رکھتا ہے تو اس کا نکاح حورعین سے کر دیا جاتا ہے موتی کے ایسے خیمہ میں جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی لفظ آیت ’’حور مقصورات فی الخیام‘‘ ان میں سے ہر عورت پر ستر جوڑے ہوں گے اور کوئی بھی جوڑہ دوسرے رنگ کا نہ ہوگا اور اس کو ستر قسم کی خوشبو دی گئی ہوگی اور اس میں سے ہر ایک رنگ دوسری سے مختلف نہ ہوگا اور ان میں سے ہر عورت کی خدمت کے لئے ستر ہزار خادمات اور ستر ہزار خادم ہوں گے اور ہر خادم کے پاس ایک سونے کا بڑا تھال ہوگا جس میں ایک رنگ کا کھانا ہوگا۔ دوسرے لقمہ میں وہ لذت پائے گا جو پہلے میں نہ ہوگی اور عورت کے لئے اس میں سے ستر سرخ یاقوت کے تخت ہوں گے اور ہر تخت پر ستر بستر ہوں گے جس کا اندر حصہ موٹے ریشم کا ہوگا ہر بستر صوفے ہوں گے اور اس کے شوہر کو بھی اسی طرح سر یاقوت کا تخت دیا جائے گا موتیوں سے جڑا ہوا اس پر سونے کے دو کنگن ہوں گے یہ اس دن کا بدل ہے جس دن اس نے روزہ رکھا۔ دوسری نیکیوں کی جزاء اس کے علاوہ ہے۔
[صحیح ابن خزیمہ:1886]
(۳۸) بیہقی اور الصبہانی میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان کی پہلی روات ہوتی تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور رمضان کی آخری رات تک ان میں سے کوےء دروازہ بند نہیں کیا جاتا مؤمن بندہ جب اس میں سے کسی رات میں نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر سجدہ کے بدلہ میں ڈیڑھ ہزار نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور سرخ یاقوت کا ایک گھر اس کے لئے جنت میں بنا دیتے ہیں جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اس میں ایک سونے کا محل ہوگا جو سرخ یاقوت سے جڑا ہوگا جب رمضان کے پہلے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے پہلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس دن کی طرح رمضان کے مہینہ کے ہر دن میں (گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اور اس کے لئے روزانہ ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں صبح کی نماز سے سورج غروب ہونے تک اور ہر سجدہ کے بدلہ میں جو وہ رمضان کے مہینہ میں دن یا رات میں سجدہ کرتا ہے ایک درخت ہوگا جس کے سایہ میں ایک سوار پانچ سو سال تک چلے گا۔
(۳۹) بزار اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور حرمت کے لحاظ سے عظیم ذوالحجہ کا مہینہ ہے۔
(٤۰) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور دنوں کا سردار جمعہ ہے۔
(٤۱) بیہقی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی اوقات کا چناؤ کیا اور ان میں فرض نمازیں مقرر فرمائیں پھر دنوں کو چنا اور ان میں سے جمعہ بنایا اور مہینوں کو چنا کا چنا پھر ان سے رمضان کا مہینہ بنایا اور راتوں کو چنا اور ان میں سے لیلۃ القدر بنائی جگہوں کو چنا اور ان میں سے مساجد بنائیں۔
(٤۲) ابو الشیخ نے الثواب میں بیہقی اور اصبہانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جنت کا تیار کیا جاتا ہے اور سجایا جاتا ہے ایک سال سے دوسرے سال تک رمضان کے مہینہ کے داخل ہونے کے لئے جب رمضان کے مہینہ کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ہوا چلتی ہے جس کو مشیرہ کہا جاتا ہے۔ جس سے جنت کے پتے ہلتے ہیں اور کواڑ بجتے ہیں۔ آواز سنی جاتی ہے کہ سننے والوں نے اس سے اچھی آواز نہیں سنی ہوگی پھر موٹی آنکھوں والی حوریں کودتی ہیں یہان تک کی جنت کی بلندی میں جھانکتی ہیں اور آواز لگاتی ہیں ہے کوئی اللہ کی طرف نکاح کا پیغام دینے والا کہ اللہ تعالیٰ اس کا نکاح کر دے پھر حورعین کہتی ہیں اے جنت کے رضوان یہ کون سی رات ہے؟ وہ ان کو تلبیہ کے ساتھ جواب دیتا ہے پھر کہتا ہے یہ رمضان کے مہینہ کی پہلی رات ہے امت محمدیہ کے روزہ داروں پر جنت کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں اے جبرئیل! نیچے زمین پر اتر جا سرکش شیاطین کو باندھ دے اور ان کو لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ دے پھر ان کو سمندر میں ڈال دے یہاں تک کہ میرے حبیب محمد ﷺ کی امت کے روزوں کو خراب نہ کریں اللہ تعالیٰ رمضان کے مہینہ کی ہر رات میں ایک آواز دینے والے کو فرماتے ہیں کہ آواز لگا کوئی ہے سوال کرنے والا کہ میں اس کو عطا کروں، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ کو قبول کروں، ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ اس کی مغفرت کروں، کون مالدار بھرے ہوئے خزانوں والی ذات کو قرض دے گا جو کسی چیز سے محروم نہیں ہے جو پورا پورا بدلہ دینے والا ہے ذرہ برابر بھی کمی کرنے والا نہیں ہے۔ پھر فرمایا اور اللہ تعالیٰ رمضان کے مہینہ میں ہر دن افطار کے وقت دس لاکھ ایسے لوگ کو آزاد فرماتے ہیں جن پر دوزخ واجب ہو چکی تھی۔ جب رمضان کا مہینہ کا آخری دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن میں اتنی مقدار میں لوگوں کو آزاد فرماتے ہیں جتنی شروع مہینے سے آخری دن تک آزاد فرمایا تھا۔
لیلۃ القدر میں فرشتوں کی جماعت کا نزول جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرماتے ہیں تو وہ فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور ان کے ساتھ سبز(ہرا) جھنڈا ہوتا ہے اس جھنڈا کو کعبہ کی پشت پر لگایا جاتا ہے اور ان کے چھ سوپر ہوتے ہیں ان میں سے دو پروں کو اس رات میں کھولتے ہیں جب ان کو اس رات میں کھولتے ہیں تو وہ مشرق سے مغرب تک پہنچ جاتے ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام اس رات میں فرشتوں کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ہر اس شخص کو سلام کریں جو کھڑا ہے، بیٹھا ہے، نماز پڑھ رہا ہے یا ذکر کر رہا ہے وہ فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کی دعا پر آمین کہتے ہیں یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ جب فجر طلوع ہو جاتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام آواز دیتے ہیں: اے فرشتوں کی جماعت کوچ کوچ (یعنی زمین سے اب کوچ کر جاؤ) تو وہ کہتے ہیں کہ احمد ﷺ کی امت کے مؤمنین کی ضروریات کا اللہ تعالیٰ نے کیا کیا؟ جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات میں ان کی طرف دیکھا ہے۔ اور ان کو معاف کر دیا ہے اور ان کی مغفرت فرما دی مگر چار آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون ہیں آپ ﷺ نے فرمایا وہ آدمی جو شراب کا عادی ہو، والدین کی نافرمانی کرنے والا قطع رحمی کرنے والا، مشاحن ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ مشاحن کیا ہے؟ آپ نے فرمایا قطع تعلق کرنے والا جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس رات کو بدلہ دینے کی رات کہا جاتا ہے۔ جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہر شہر میں فرشتوں کو بھیجتے ہیں وہ زمین کی طرف اترتے ہیں اور ہر گلی کے شروع میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور پکارتے ہیں آواز کے ساتھ جس کو اللہ کی ساری مخلوق سوائے انسان اور جنات کے سنتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اے محمد ﷺ کی امت رب کریم کی طرف نکلو بہت بڑا (اجر) دے گا اور بڑے بڑے گناہ معاف کر دے گا۔ جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام (پورا) کرے؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے معبود! ہمارے سرداران کا بدلہ یہ ہے کہ ان کوپورا پورا بدلہ دیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! رم گواہ ہو جاؤ میں رمضان کے مہینہ کے روزے اور اس کے قیام کے ثواب کو اپنی رضا مندی اور ان کی مغفرت بنا دیا ہے۔ اور فرماتے ہیں اے میرے بندو! مجھ سے سوال کرو میری عزت اور جلال کی قسم تمہارے اس مجمع میں آج کے دن مجھ سے تم اپنی آخرت کے لئے کچھ بھی مانگو گے میں تم کو عطا کروں گا۔ اور اپنی دنیا کے لئے مانگو گے تو تمہاری طرف دیکھوں گا۔ میری عزت کی قسم میں تمہاری لغزشوں کو چھپا دوں گا۔ جب تک تم مجھے دیکھتے رہو گے اور میری عزت کی قسم! میں تم کو حد نافذ کرنے والوں کے سامنے رسوا نہیں کروں گا اب بخشے بخشائے لوٹ جاؤ تم نے مجھے راضی کیا اور میں تم سے راضی ہوں پس فرشتے خوش ہو جاتے ہیں اور اس امت کو جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے رمضان کے مہینہ میں افطاری کے وقت اس کی وجہ سے استغفار کرتے ہیں
(٤۳) بیہقی نے شعب الایمان میں کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے اپنے بندوں پر رمضان کے مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اے موسیٰ جو شخص قیامت کے دن آئے گا اور اس کے اعمال نامہ میں دس رمضان ہوں گے تو وہ ابدال میں سے ہوگا اور جو شخص قیامت کے دن آئے گا اور اس کے اعمال نامہ میں بیس رمضان ہوں گے تو وہ مخبتین میں سے ہوگااور جو شخص قیامت کے دن آئے گا اور اس کے اعمال نامہ میں تیس رمضان ہوں گے تو وہ میرے نزدیک ثواب کے لحاظ سے افضل الشہداء میں سے ہوگا۔ اے موسیٰ میں عرش اٹھانے والے (فرشتوں) کو حکم دیتا ہوں کہ جب رمضان کا مہینہ داخل ہو جائے تو عبادت سے رک جاؤ اور جو کوئی رمضان کے روزے رکھنے والا دعا کرے تو تم آمین کہو اور میں نے اپنی ذات پر یہ واجب کر لیا ہے کہ رمضان کے روزہ رکھنے والوں کی دعا کو رد نہ کروں۔
روزے دار کے حق میں مخلوقات کا استغفار
اے موسیٰ میں نے رمضان میں آسمانوں زمین پہاڑوں جانوروں اور حشرات الارض کو الہام کرتا ہوں کہ رمضان کے روزہ رکھنے والوں کے لئے استغفار کریں اے موسیٰ! تین آدمیوں کو تلاش کرو جو رمضان کے روزے رکھنے والے ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھو اور ان کے ساتھ کھاؤ اور پیو بلاشبہ میں زمین کے اس ٹکڑے پر عذاب نازل نہیں کرتا جس میں تین آدمی روزہ رکھنے والے ہوں گے اے موسیٰ اگر تو سفر کر رہا ہو تو آگے اور اگر تو مریض ہوتو ان کو حکم کر کہ وہ تجھ کو اٹھا کر لء جائیں اور کہہ دو عورتوں سے اور حیض والیوں کو اور چھوٹے بچوں سے کہ وہ تیرے لئے ظاہر نہ ہوں۔ جہاں رمضان کے روزے رکھنے والے روزہ کے وقت ظاہر ہوتے ہیں اگر میں اپنے آسمانوں اور اپنی زمین کو اجازت دوں تو روزے داروں کو سلام کریں اور ان سے کلام کریں اور ان کو خوشخبری دیں اس چیز کی جو میں ان کو انعام دینے والا ہوں میں اپنے ان بندوں سے کہتا ہوں جنہوں نے رمضان کے روزے رکھے کہ واپس لوٹ جائیں اپنی سواریوں کی طرف کیا تم مجھ سے اس بات پر راضی نہیں ہوکہ میں نے تمہارے روزوں کے ثواب کے بدلہ میں تم کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے اور میں تمہارا بہت آسان حساب لوں گا اور میں تمہاری لغزشوں کو معاف کر دوں گا اور میں تم کو خرچ کرنے کا بدلہ دے دوں گا اور میں کسی کے سامنے تم کو رسوا نہ کروں گا۔ میری عزت کی قسم رمضان کے روزہ کے بعد اور اس جگہ ٹھہرنے کے بعد آخرت کے متعلق مجھ سے جو سوال کروگے میں تم کو عطا کروں گا اور جو تم مجھ سے دنیا کے کسی کام کے بارے میں سوال کرو گے تو میں تم کو دیکھوں گا۔
(٤٤) طبرانی نے الاوسط میں بیہقی اور الاصبہانی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ذکر کرنے والا رمضان میں بخشا ہوا ہے اور اس (رمضان) میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔
(٤٦) ابن ماجہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رمضان (کا مہینہ) داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ مہینہ تمہارے پاس حاضر ہوا ہے اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے جو اس سے محروم ہوگیا تو (گویا) وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہوگیا اور اس کی خیر سے محروم نہیں ہوتا مگر (جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے) محروم کیا گیا۔
(٤۷) البزار نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے رمضان کے ہر دن اور ہر رات میں لوگ آزاد کئے جاتے ہیں اور ہر رات اور دن میں ہر مسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے۔
(٤۸) الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان کے مہینے کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف (رحمت کی نگاہ سے) دیکھتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ اپنے بنرے کی طرف (رحمت کی نگاہ سے) دیکھتے ہیں تو اس کو کبھی بھی عذاب نہیں دیتے اور ہر دن اللہ کے لئے دس لاک بندے جہنم سے آزاد شدہ ہوتے ہیں اور جب انتیس کی رات ہوتی ہے جو پورے ماہ میں جتنے لوگ آزاد کئے گئے تھے ان کے برابر ضرور (مزید) لوگوں کو آزاد فرماتے ہیں اور جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو فرشتے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں اور جبار (یعنی اللہ تعالیٰ) اپنے نور کے ساتھ تجلی فرماتے ہیں ایسے نور کے ساتھ جس کی صفت بیان کرنے والے اس کی صفت کو بیان نہیں کر سکتے اور اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں جبکہ لوگ کل عید منائیں گے اے فرشتوں کی جماعت کا کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جب وہ اپنا کام پورا کر لے تو فرشتے عرض کرتے ہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم گواہ ہو جاؤ میں نے ان کی مغفرت فرما دی۔
(٤۹) طبرانی نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن فرمایا جب رمضان کا مہینہ آچکا تھا (فرمایا) تمہارے پاس ایسا برکت والا مہینہ آچکا ہے جس میں اللہ تعالیٰ (اپنی رحمت سے) تم کو ڈھانپ لیں گے رحمت کو نازل فرمائیں گے ، گناہوں کو معاف فرمائیں گے اور اس میں دعاؤں کو قبول فرمائیں گے اللہ تعالیٰ تمہارے نیکیوں کے مقابلے کو دیکھے گا اور اپنے فرشتوں پر تمہارے ذریعے فخر فرمائیں گے سو تم اللہ تعالیٰ کو اپنی نیکیاں دکھاؤ بلاشبہ بدبخت وہ ہے جو اس (مبارک مہینہ) میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہے۔
(۵۰) ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے الاوسط میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا یہ رمضان تمہارے پاس آچکا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے رمضان کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی جب رمضان میں اس کی مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی۔
(۵۱) ابو الشیخ نے الشواب میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کا مہینہ میری امت کا مہینہ ہے ان میں مریض ہوتا ہے تو وہ اس کی بیمار پرسی کرتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان روزہ رکھتا ہے تو جھوٹ نہیں بولتا غیبت نہیں کرتا اور اس کا افطار کرنا پسندیدہ ہے اور وہ اپنے فرائض کی حفاظت کے لئے عشاء کی نمازوں کی طرف کوشش کرتا ہے۔ تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے (یعنی گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے) جیسے سانپ اپنی جھلی سے نکل جاتا ہے۔
(۵۲) ابن مردویہ اور اصبہانی نے ترغیب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان میں ایک دن کا روزہ رکھا اور تین چیزوں سے محفوظ رہا تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس میں تین چیزیں کیا ہیں جو اس میں برابر ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس میں تین چیزیں یہ ہیں اس کی زبان ، اس کا پیٹ اور اس کی شرم گاہ یہ تینوں چیزیں اس میں برابر ہیں۔
(۵۳) الاصبہانی نے زہرہ رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رمضان کا مہینہ ایک تسبیح دوسرے مہینوں میں ہزار تسبیح (یعنی سبحان اللہ کہنا) سے افضل ہے۔
(۵٤) الاصبہانی نے معلیٰ بن فضل رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (ایسے) لوگ (بھی تھے جو) چھ ماہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ رمضان کا مہینہ ان تک پہنچے۔ اور چھ ماہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ یہ ان سے قبول فرمائے۔
(۵۵) الاصبہانی نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا رمضان کے مہینے میں جمعہ کی فضیلت سارے دنوں پر ایسی ہے جیسے رمضان کی فضیلت سارے مہینوں پر۔
(۵٦) الاصبہانی نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رمضان کا ایک دن کا روزہ ہزار دنوں سے افضل ہے اور رمضان میں ایک تسبیح ہزار تسبیحوں سے افضل ہے اور ایک رکعت رمضان میں ہزار رکعتوں سے افضل ہے۔
(۵۷) الاصبہانی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان سلامتی سے گزر جائے تو پورا سال سلامت ہوتا ہے اور جب عجمہ سلامت ہوتو سارے دن سلامت ہوتے ہیں۔
(۵۸) الاصبہانی نے اوزاعی کے طریق سے مکحول قاسم بن مخیمرہ اور عبدہ بن ابی لبابہ رحمہم اللہ سے روایت کیا ہے کہ ہم نے ابو لبابہ باہلی ، واثلہ بن اسقع اور عبد اللہ بن بشیر ؓ سے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جنت ایک سال سے دوسرے سال تک رمضان کے مہینہ کے لئے سجائی جاتی ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنی جان اور اپنے دین کو محفوظ کر لیا رمضان کے مہینے میں تو اللہ تعالیٰ حورعین سے اس کا نکاح فرما دیں گے اور اس کو جنت کے محلوں میں سے ایک محل عطا فرما دیں گے اور جس نے برا کام کیا یا کسی مؤمن پر بہتان باندھا رمضان کے مہینہ میں نشہ لانے والی چیز پی لی تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک سال کے (نیک) اعمال ختم فرما دیں گے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینہ میں ڈرو اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے گیارہ مہینے بنا دئیے ہیں جس میں تم سیر شکم ہوکر کھاؤ اور پیو اور رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اس میں (گناہوں سے بچنے) کی اپنی حفاظت کرو۔
(۵۹) الاصبہانی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت ہرگز کبھی مصیبت میں مبتلا نہ ہوگی جب تک رمضان کے مہینہ کو قائم رکھیں گے ایک انصاری صحابی نے عرض کیا ان کے رمضان کے مہینہ کو ضائع کر دینے سے ان کی مصیبت پڑے گی آپ نے فرمایا حرام کاموں کا ارتکاب کرنا جس نے برا کوم کیا یا زنا کیا یا چوری کی تو اس سے رمضان کے مہینہ کے روزے قبول نہیں کئے جائیں گے اور رب تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اسی طرح ایک سال تک لعنت برستی رہے گی اور اگر وہ (دوسرا) رمضان آنے سے پہلے مر جائے تو چاہئے کہ اس کو جہنم کی خوشخبری دے دو۔ رمضان کے مہینے میں ڈرو اس میں نیکیوں (کا ثواب) کئی گناہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح برائیاں بھی کئی گناہ ہو جاتی ہیں۔
(٦۰) الاصبہانی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رمضان کی جب پہلی رات تھی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور فرمایا اے لوگوں اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن سے تمہاری جنت سے کفایت فرمائی ہے اور تم سے دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جیسے فرمایا لفظ آیت ’’ادعونی استجب لکم‘‘ (یعنی مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا) خبردار اللہ تعالیٰ نے ہر سرکش شیطان پر سات فرشتے مسلط کئے ہیں رمضان کے ختم ہونے تک وہ ان کو نہیں چھوڑیں گے خبردار! آسمان کے روازے پہلی رات سے آخری رات تک کھول دئیے جاتے ہیں خبردار دعا اس میں قبول کی جاتی ہے۔ جب پہلے عشرہ کی پہلی رات ہوتی تھی تو رسول اللہ ﷺ عبادت کے لئے کمر بستہ ہو جاتے آپ اپنے گھر سے باہر تشریف لے آتے اور راتوں میں اعتکاف بیٹھتے اور راتوں کو اللہ کی عبادت کرتے کہا گیا ’’شد المئذر‘‘ سے کیا مراد ہے تو فرمایا اس سے مراد ہے کہ وہ اپنی عورتوں سے جدا ہو جاتے تھے۔
(٦۱) بیہقی نے شعب الایمان میں اسحاق بن ابی اسحاق سے روایت کیا ہے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے کعب ؓ سے فرمایا تم اپنے اعمال میں رمضان کو کیسا پاتے ہوتو انہوں نے فرمایا ہم اس کو گناہوں سے اتارنے والا پاتے ہیں۔
(٦۲) امام احمد البزار بن خریمہ، ابن حبان، ابن مردویہ اور بیہقی نے عمرو بن مرہ جہنی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی قضاء قبیلہ کا رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا آپ مجھ کو بتائیے اگر میں لا الہ الا اللہ اور آپ کے رسول اللہ ہونے کی گواہی دوں اور پانچوں نمازیں پڑھوں رمضان کے روزے رکھوں اور اس کا قیام کروں اور زکوٰۃ ادا کروں تو میں کن کے ساتھ ہوں گا آپ ﷺ نے فرمایا جس کی موت ان (کاموں) پر آئے تو وہ قیامت کے دن انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا اور آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو کھڑا فرمایا جب تک کہ والدین کی نافرمانی نہ کرے۔
رمضان المبارک میں نیکیوں کی طرف سبقت کرنا
(٦۳) بیہقی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جب رمضان (کا مہینہ)آتا تو آپ خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ کہتے تھے یہ مبارک مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض فرمائے ہیں لیکن اس کے قیام کو فرض نہیں فرمایا تاکہ آدمی ایسا کہتے ہوئے ڈرے کہ جب فلاں روزہ رکھے گا تو میں روزہ رکھو گا اور جب فلاں افطار کرے گا تو میں بھی افطار کروں گا کبردار بلاشبہ روزہ کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ سے باطل سے اور لگو باتوں سے بھی روزہ ہونا چاہئے۔ خبردار اس مہینہ سے آگے نہ بڑھو جب تم پہلی کا چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب تم (شوال کا چاند) دیکھو تو روزہ چھوڑ دو جب بادل ہو جائیں تو (تیس کی) گنتی پوری کر لو۔
وأما قولہ تعالیٰ: ’’الذی انزل فیہ القران‘‘
(٦٤) امام احمد، ابن جریر، محمد بن نصر، ابن ابی حاتم، طبرانی، بیہقی نے شعب الایمان میں اصبہانی نے الترغیب میں واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی رات میں اتارے گئے تو رات رمضان کے چھ (دن) گزرنے پر اتاری گئی۔ اور انجیل رمضان کے تیرہ (دن) گزرنے پر اتاری گئی۔ اور زبور رمضان کے اٹھارہ دن گزرنے پر اتاری گئی۔ اور قرآن مجید چوبیس دن گزرنے پر اتارا گیا۔
تمام کتب سماویہ رمضان میں نازل کئے گئے
(٦۵) ابو یعلی ، ابن مردویہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی رات میں اتارے گئے اور موسیٰ علیہ السلام پر تورات رمضان کے چھ راتیں گزرنے پر اتاری گئیں اور داؤد علیہ السلام پر زبور بارہ (راتیں) گزرنے پر اتاری گئی اور عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل رمضان کے اٹھارہ راتیں گزرنے پر اتاری گئی۔ اور محمد ﷺ پر فرقان (یعنی قرآن) رمضان کے چوبیس راتیں گزارنے پر اتارا گیا۔
(٦٦) ابن الضریس نے ابو الجعد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی رات میں اتارے گئے اور انجیل رمضان کے اٹھارہ راتیں گزرنے پر اتاری گئی اور قرآن رمضان کے چوبیس راتیں گزرنے پر اتارہ گیا اور ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مجھے تورات کے بدلہ میں سبع طوال (یعنی سات لمبی سورتیں) دی گئیں اور انجیل کے بدلہ میں مجھے مئین (وہ سورتیں جن میں تقریبا سو آیتیں ہیں) دی گئی۔ اور زبور کے بدلہ میں مجھے المثانی دی گئی اور مجھے فضیلت دی گئی مفصل سورتوں کے ساتھ۔
(٦۷) محمد بن نصر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ پہلے صحیفے اتارے گئے رمضان کے پہلے دن اور تورات رمضان کے چھٹے دن میں اتاری گئی اور انجیل رمضان کے بارھویں دن میں اتاری گئی اور زبور رمضان کے اٹھارویں دن میں اتاری گئی اور قرآن مجید رمضان کے چوبیسویں دن میں اتارا گیا۔
(٦۸) ابن جریر، محمد بن نصر نے کتاب الصلوٰۃ میں ابن ابی حاتم ، طبرانی، ابن مردویہ بیہقی نے الاسماء والصفات میں مقسم رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے عطیہ بن اسود نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘ اور ’’انا انزلنا فی لیلۃ القدر‘‘ اور ’’انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ‘‘ کے بارے میں میرے دل میں شک ہوگیا ہے حالانکہ (قرآن) تو شوال، ذی القعد، ذی الحجہ، محرم اور ربیع الاول میں (بھی اتارا گیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ رمضان اور لیلۃ المبارکہ میں ایک دفعہ اکٹھا ہی اتارا گیا پھر اس کے بعد مختلف مہینوں میں اور مختلف دنوں میں تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا۔
(٦۹) الفریابی، ابن جریر، محمد بن نصر، طبرانی، ابن مردویہ، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) بیہقی اور الضیاء نے المختارہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن اکٹھا اتارا گیا اور (دوسرے) لفظ میں قرآن لوح محفوظ سے چوبیس رمضان کو اتارا گیا پھر آسمان دنیا کے بیت العزۃ میں رکھا گیا (اس کے بعد) جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ پر تھوڑا تھوڑا کرکے اتارتے رہے اور ترتیل سے پڑھتے رہے۔
(۷۰) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ شھر رمضان لیلۃ المبارکۃ اور لیلۃ القدر تین چیزوں کا ذکر ہے ہے کہ لیلۃ القدر وہی لیلۃ المبارکہ ہے اور وہ رمضان میں ہے قرآن ایک مرتبہ اکٹھا لوح محفوظ سے بیت المعمور کی طرف نازل کیا گیا اور وہ ستاروں کے دوسری جگہ سے آسمان دنیا میں جہاں قرآن رکھا گیا پھر محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔ اس کے بعد امر اور نہی کی صورت میں اور جنگوں کے حکم کی صورت میں تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا۔
(۷۱) ابن الضریس ، نسائی، محمد بن نصر، طبرانی، حاکم انہوں نے اسے صحیح کہا ہے، ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن ایک دفعہ اکٹھا رمضان کی لیلۃ القدر میں آسمان دنیا کی طرف نازل کیا گیا جب اللہ تعالیٰ زمین میں کسی کام کا ارادہ فرماتے تھے تو اس کے متعلق قرآن کو نازل فرماتے یہاں تک کہ سارے قرآن کو جمع فرما دیا۔
(۷۲) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن مجید ایک دفعہ اکٹھا لیلۃ القدر میں جبرئیل علیہ السلام پر نازل ہوا پھر وہ اس کو لے کر اترتے تھے جس کے لانے کا ان کو حکم دیا جاتا تھا۔
(۷۳) ابن الضریس نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ قرآن مجید ایک مرتبہ اکھٹا رمضان کے مہینہ میں لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا (اور) بیت العزہ میں رکھا گیا پھر نبی اکرم ﷺ پر لوگوں کی باتوں کے جواب میں بیس سال میں اتارا گیا۔
(۷٤) ابو یعلی، ابن عساکر نے حضرت حسن بن علی ؓ سے روایت کیا کہ جب (ان کے والد) حضرت علی ؓ شہید کئے گئے تو آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم تم نے ایسے شخص کو ایسی رات میں قتل کیا جس میں قرآن نازل ہوا اور اس رات میں عیسیٰ علیہ السلام (آسمان کی طرف) اٹھا لئے گئے اور اسی رات میں یوشع بن نون قتل کئے گئے اور اسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی
(۷۵) ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے ابن جریج رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اس رمضان کے مہینہ میں قرآن نازل ہوتا تھا یہاں تک کہ وحی (آنا) بند ہوگئی اور محمد ﷺ کی وفات ہوگئی قرآن مجید میں سے ہر چیز لیلۃ القدر میں نازل ہوتی تھی (اور) اس سال میں نازل ہوئی تھی۔ پھر ساتویں آسمان پر آسمان دنیا میں جبرئیل علیہ السلام پر نازل ہوئے (اور) جبرئیل محمد ﷺ پر وحی لے کر آئے تھے جس کا اس کے رب نے حکم دیا ہوتا۔
(۷٦) عبد بن حمید، ابن الضریس نے داؤد بن ابی ہند رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عامر بن شعبی رحمہ اللہ علیہ سے پوچھا رمضان کا وہ مہینہ جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔ کیا آپ پر سارے سال میں قرآن نازل ہوتا تھا یا صرف رمضان میں؟ انہوں نے فرمایا ہاں (سارے سال میں نازل ہوتا تھا) لیکن جبرئیل علیہ السلام محمد ﷺ پر رمضان میں پیش کرتے تھے جو پورے سال میں نازل ہوتا تھا پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتے تھے اس کا حکم فرما دیتے تھے اور جس کو چاہتے تھے اس کو ثابت رکھتے۔ جس کو چاہتے تھے اس کو منسوخ کر دیتے تھے اور جس کو چاہتے تھے اس کو بھلا دیتے تھے۔
(۷۷) ابن ابی حاتم نے ضحاک رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘ سے مراد ہے کہ رمضان کے ہر روزے کو قرآن میں نازل کیا گیا۔
وأما قولہ تعالی: ’’ھدی للناس وبینت من الھدی والفرقان‘‘
(۷۸) ابن المنذر نے ابن جریج رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ھدی للناس‘‘ سے مراد ہے کہ اس سے (لوگ) ہدایت پاتے ہیں اور لفظ آیت ’’وبینت من الھدی‘‘ سے مراد ہے کہ اس میں حلال و حرام اور حدود کے بارے میں احکام ہیں۔
(۷۹) ابن جریر نے سدی رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’وبینت من الھدی والفرقان‘‘ سے مراد ہے کہ (اس قرآن میں) حلال و حرام کی کھلی ہوئی دلیلیں ہیں۔
وأما قولہ تعالی: ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘:
(۸۰) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رمضان کے مہینہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا جاتا تھا جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو چھوڑ دیا گیا۔
(بقیہ حاشیہ آیت نمبر 192 پر ملاحظہ کریں)
(آیت نمبر185 کا بقیہ حاشیہ)
(۸۱) ابن ابی شیبہ، مسلم نے جابر بن سمرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عاشورہ کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرماتے تھے اور اس پر ہم کو آمادہ فرماتے تھے اور آپ اپنی طرف سے اس کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ جب رمضان فرض کیا گیا پھر ہم کو نہ تو (عاشورہ کے روزہ کا) حکم دیا گیا اور نہ ہم کو منع کیا گیا اور نہ ہم کو اس کی ترغیب دی۔
(۸۲) عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘ سے مراد ہے کہ جو گھر میں ٹھہرا ہوا ہو۔
(۸۳) عبد بن حمید نے مجاہد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘ سے مراد ہے کہ جو شخص شہر میں مقیم ہوتا ہے سفر کی حالت میں اس کو چاہئے کہ روزے رکھے۔
(۸٤) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو مقیم ہے۔
(۸۵) وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے رمضان کو اس حال میں پایا کہ وہ مقیم تھا پھر اس نے سفر اختیار کر لیا تو اس پر روزے لازم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘۔
(۸٦) سعید بن منصور نے حضرت ابن عمر ؓ سے لفظ آیت ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘کے بارے میں روایت کیا کہ جس شخص نے رمضان (کے مہینہ) کو اپنے اہل و عیال میں پایا پھر اس نے سفر کا ارادہ کیا تو اس کو چاہئے کہ روزے رکھے۔
(۸۷) دار قطنی نے ضعیف سند کے ساتھ جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے مہینہ کا ایک دن کا روزہ نہ رکھے اپنے گھر پر موجود ہوتے ہوئے اس کو چاہئے کہ ایک اونٹ کی قربانی کرے اگر اس کو نہ پائے تو اس کو چاہئے کہ تیس صاع کھجوروں کے مسکینوں کو کھلائے۔
وأما قولہ تعالیٰ: ’’ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر‘‘:
(۸۸) ابن جریر نے حسن اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ جب مریض کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو وہ روزے نہ رکھے۔
(۸۹) ابن ابی شیبہ نے عطا رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنا نماز کی طرح سے ہے جب روزہ نہ رکھا جائے تو قصر کرے۔ اور روزہ رکھے تو پوری نماز پڑھے۔ (پوری نماز پڑھے تو روزہ بھی رکھے)
(۹۰) سفیان بن عینیہ، ابن سعد، عبد بن حمید، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر اور بیہقی سنن میں انس بن مالک قشیری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز ساقط کر دی ہے اور حمل والی عورت اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی روزہ ساقط کر دیا ہے۔
(۹۱) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا (اس میں) آسانی بھی ہے اور تنگی بھی ہے تو اللہ کی طرف سے آسانی کو لے لو۔
(۹۲) امام مالک، شافعی، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ حمزہ سلمی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو نہ رکھ۔
(۹۳) دار قطنی نے حمزہ بن عمرو ا سلمی ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں کیا مجھ کو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۹٤) امام احمد نے عبد بن حمید اور مسلم رحمہ اللہ علیہ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں نقل کیا ہے کہ اگر تو روزہ رکھنا چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر تو نہ رکھنا چاہے تو نہ رکھ۔
(۹۵) عبد بن حمید، دار قطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ہر کام کیا آپ نے (سفر میں) روزہ بھی رکھا اور نہ بھی رکھا اور آپ نے سفر میں نماز پوری پڑھی اور قصر بھی کی۔
(۹٦) خطیب نے کتاب التلخیص میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں رخصت کی آیت نازل ہونے کے بعد بھی نبی اکرم ﷺ نے روزہ رکھا۔
(۹۷) عبد بن حمید نے ابو عیاض ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان میں سفر فرمایا تو لوگوں میں یہ آواز لگائی کہ جو شخص چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ابو عیاض ؓ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم ﷺ نے کیسے کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ نے روزہ رکھا تھا اور آپ اس بات کے زیادہ حق دار تھے۔
(۹۸) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنے والے اور روزہ نہ رکھنے والے کسی پر میں عیب نہیں لگاتا۔
سفر کے دوران روزے رکھنا
(۹۹) عبد بن حمید نے سعید بن مسیب اور عامر رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ دونوں حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب رمضان میں سفر کرتے تھے اور روزہ رکھنے والے روزہ رکھتے تھے اور نہ رکھنے والے بھی ہوتے تھے روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے پر اور روزہ رکھنے والے روزہ نہ رکھنے والوں پر عیب نہیں لگاتے تھے۔
(۱۰۰) امام مالک ، شافعی، عبد بن حمید، بکاری، ابو داؤد نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ رمضان میں سفر کیا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہ رکھا (لیکن) روزہ رکھنے والے نے روزہ نہ رکھنے والے پر اور روزہ نہ رکھنے والے نے روزہ رکھنے والے پر عیب نہیں لگایا۔
(۱۰۱) امام مسلم، ترمذی، نسائی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے رمضان کے مہینہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا ہم میں سے روزہ رکھنے والا بھی تھا اور نہ رکھنے والا بھی تھا روزہ نہ رکھنے والے نے روزہ رکھنے والے پر اور روزہ رکھنے والے نے روزہ نہ رکھنے والے پر کوئی اعتراض نہیں کیا (یعنی کسی نے کسی کو برا نہیں کہا) اور وہ جانتے تھے کہ جس نے طاقت پائی روزہ رکھ لیا یہ بھی اچھا ہے اور جس نے کمزوری پائی اس نے نہ رکھا یہ بھی اچھا ہے۔
(۱۰۲) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، نسائی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔
(۱۰۳) ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، نسائی، ابن ماجہ، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نے کعب بن عاصم اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی سے نہیں ہے۔
(۱۰٤) عبد بن حمید نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھوں میرے نزدیک زیادہ پسند ہے اس سے کہ میں روزہ رکھ لوں۔
(۱۰۵) عبد بن حمید نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر صدقہ فرمایا ہے۔
(۱۰٦) عبد بن حمید نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ رخصت آسمان سے نازل ہوئی ہے اگر تم چاہو تو اس کو واپس کردو۔
(۱۰۷) عبد بن حمید نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان میں سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر تو صدقہ کر لے اور وہ واپس کر دیا جائے تو تجھ کو غصہ نہیں آئے گا ، (اس طرح) یہ بھی صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے۔
(۱۰۸) نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حضر میں روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔
(۱۰۹) ابن ابی شیبہ ، عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنے والا سفر میں روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔
(۱۱۰) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا سفر میں روزہ نہ رکھنا ضروری ہے۔
(۱۱۱) عبد بن حمید نے محرز بن ابی ہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے سفر میں روزہ رکھا جب وہ واپس آئے تو ابوہریرہ ؓ نے روزہ قضا کرنے کا حکم فرمایا۔
(۱۱۲) عبد بن حمید نے عبد اللہ عامر بن ربیعہ رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے نہیں اس شخص کو جس نے سفر میں روزہ رکھا تھا حکم فرمایا کہ وہ روزہ کو لوٹالے (یعنی دوبارہ رکھ لے)۔
(۱۱۳) وکیع، عبد بن حمید نے عامر بن عبد العزیز رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر تجھ پر آسانی ہوتو روزہ رکھ لو اور ایک روایت میں ہے اگر آسانی ہو (اور تکلیف نہ ہو) تو روزہ رکھ لو اور اگر مشکل ہوتو روزہ نہ رکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ’’یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر‘‘۔
سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے
(۱۱٤) عبد بن حمید، نسائی، ابن جریر نے خیثمہ رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا روزہ رکھ لے میں نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ لفظ آیت ’’فعدۃ من ایام اخر‘‘ (یعنی دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرو) تو انہوں نے جواب دیا یہ آیت ان دنوں نازل ہوئی جب ہم بھوکے سفر کرتے تھے اور سواریوں سے بھوکے ہی اترتے تھے اور آج ہم سیر ہو کر سفر کرتے ہیں اور پیٹ بھر کر (سواریوں سے) اترتے ہیں۔
(۱۱۵) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص روزہ نہ رکھے یہ رخصت ہے اور جو روزہ رکھ لے یہ افضل ہے۔
(۱۱٦) عبد بن حمید نے ابراہیم سعید بن جبیر اور مجاہد سے روایت کیا کہ یہ تینوں حضرات سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو روزہ نہ رکھو اور گار چاہو تو روزہ رکھ لو اور روزہ رکھنا افضل ہے۔
(۱۱۷) عبد بن حمید نے العوام کے طریق سے مجاہد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں روزہ رکھتے بھی تھے اور نہ بھی رکھتے تھے اور آپ کے اصحاب کو دیکھا گیا کہ وہ روزہ رکھتے تھے اور آپ فرماتے تھے تم لوگ کھاؤ میں (اس حال میں) ہوتا ہوں کہ میرا رب مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے (راوی) عوام نے کہا کہ میں نے مجاہد سے پوچھا اس بارے میں تیری کیا رائے؟ تو انہوں نے فرمایا رمضان میں روزہ رکھنا افضل ہے غیر رمضان میں روزہ رکھنے سے۔
(۱۱۸) عبد بن حمید نے ابو البختری کے طریق سے روایت کیا ہے کہ عبیدہ رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا ایک آدمی نے سفر کیا جبکہ اس نے رمضان کے پہلے روزے رکھے تھے تو اس کو چاہئے کہ باقی دنوں میں بھی روزے رکھ لے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘ اور بتایا کہ ابن عباس ؓ فرماتے تھے جو شخص چاہے روزہ رکھ لے اور جو شخص چاہے نہ رکھے۔
(۱۱۹) عبد بن حمید نے محمد بن سیرین رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ہے کہ میں نے عبیدہ رحمہ اللہ علیہ سے پوچھا کیا میں رمضان میں سفر کروں؟ انہوں نے فرمایا نہیں۔
سفر میں رمضان کے روزے رکھنا افضل ہے
(۱۲۰) عبد بن حمید نے ابراہیم رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ جب آدمی رمضان کو پالے تو سفر پر نہ نکلے۔ اگر وہ نکلے اور وہ رمضان کے پہلے روزے رکھ چکا ہے تو اس کو چاہئے کہ سفر میں بھی روزے رکھے کیونکہ رمضان میں اس کی قضا کرنا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے غیر رمضان میں قضا کرنے سے۔
(۱۲۱) عبد بن حمید نے ابو مجلز رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ جب رمضان آجائے تو کوئی آدمی ہرگز سفر نہ کرے اگر وہ انکار کرے اس بات سے کہ وہ سفر کرے گا تو اس کو چاہئے کہ روزہ رکھے۔
(۱۲۲) عبد بن حمید نے عبد الرحمن بن قاسم رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ابراہیم بن محمد رحمہ اللہ علیہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے ان کو سلام کیا اور یہ رمضان کا مہینہ تھا حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ عرض کیا عمرہ کا تو انہوں نے فرمایا تو بیٹھا رہا یہاں تک کہ یہ مہینہ داخل ہوگیا (یعنی رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا ہے) لہٰذا اب سفر نہ کر عرض کیا میرے ساتھی اور میرے اہل و عیال (سفر میں) نکل چکے ہیں تو انہوں نے فرمایا اور اگر ہوکے تو ان کو واپس بلالو پھر ٹھہرے رہوں یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ گزر جائے۔
(۱۲۳) عبد بن حمید نے ام دردہ ؓ سے روایت کیا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھی میرے پاس ایک قاصد آیا اور یہ رمضان کا مہینہ تھا مجھ سے حضرت عائشہ نے فرمایا یہ کون ہے؟ میں نے کہا میرے بھائی کا قاصد ہے وہ سفر پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا (گھر سے) نہ نکلو یہاں تک کہ (رمضان کا) مہینہ ختم ہو جائے اگر رمضان کا مہینہ راستے میں آجائے تو میں وہیں قیام کر لوں۔
(۱۲٤) عبد بن حمید نے حسن رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رمضان میں آدمی کے سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر چاہے تو روزہ نہ رکھے۔
(۱۲۵) عبد بن حمید نے حسن رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان (کے مہینہ) کو قید نہیں بنایا (کہ آدمی گھر میں قید رہے اور سفر نہ کرے)۔
(۱۲٦) عبد بن حمید نے عطا رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ جس شخص نے رمضان کا مہینہ پالیا اس کو سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں پھر اس میں کوئی حرج نہیں کہ روزہ نہ رکھے۔
(۱۲۷) عبد بن حمید وأبو داؤد نے سنان بن علمہ بن محبق ھذلی سے وہ اپنے والد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے پاس سواری ہو جو اسے ایسی جگہ میں پہنچاتی ہو جہاں انسان کھانے سے سیر ہو سکتا ہے اور اس کو رمضان آجائے تو روزہ رکھے۔
(۱۲۸) ابن سعد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریض اور مسافر پر روزہ نہ رکھنے کا صدقہ فرمایا۔
(۱۲۹) طبرانی نے انس بن مالک سے اور انہوں نے (قبیلہ) لعب میں سے ایک آدمی سے روایت کیا کہ ہم پر رسول اللہ ﷺ کے شہسواروں نے حملہ کیا تو میں آپ کے پاس پہنچا آپ کھانا تناول فرما رہے تھے آپ نے فرمایا بیٹھ جا ہمارے اس کھانے میں سے کھالے۔ میں نے عرج کیا یا رسول اللہ ! میں روزہ دار ہوں آپ ﷺ نے فرمایا بیٹھ جا میں تجھ کو نماز اور روزہ کے بارے میں بتاتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور مسافر سے اور مریض سے اور حاملہ عورت سے روزہ معاف کر دیا ہے۔
(۱۳۰) ابن ابی شیبہ نے عکرمہ رحمہ اللہ علیہ سے لفظ آیت ’’فعدۃ من ایام اخر‘‘ کے تحت نقل کیا اگر مسافر چاہے تو حضر میں روزے ملا کر رکھ لے یا متفرق کرکے رکھ لے۔
(۱۳۱) ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے قضاء رمضان کرکے رکھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ’’فعدۃ من ایام اخر‘‘ یہ دوسرے ایام میں گنتی پوری کرے۔
(۱۳۲) ابن ابی شیبہ، دار قطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے قضاء رمضان کے بارے میں روایت فرمایا جیسا تو چاہے روزہ رکھ لے ابن عمر ؓ نے فرمایا جیسے تو نے افطار کئے ویسے رکھ۔
(۱۳۳) امام مالک، وابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رمضان کے مہینہ کی (قضا روزے لگاتار رکھے جو شخص مرض یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکا۔
قضا روزے رکھنا
(۱۳٤) سعید بن منصور اور بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے رمضان کے قضا روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ’’فعدۃ من ایام اخر‘‘ جب گنتی پوری ہوتو پھر متفرق رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۱۳۵) ابن ابی شیبہ، دار قطنی، بیہقی نے ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا کہ قضاء رمضان کے روزے متفرق رکھنے کے بارے میں پوثھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم کو روزہ نہ رکھنے کے بارے میں اجازت اس لئے نہیں دی اور وہ اس کے قضا کرنے میں تم پر مشقت ڈالے سو تم گنتی کو پورا کر لو اور جیسے چاہو کرو۔
(۱۳٦) دار قطنی نے رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا کہ گنتی کو پورا کرو اور جیسے چاہو روزے رکھو۔
(۱۳۷) ابن ابی شیبہ، دار قطنی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ ان سے قضاء رمضان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا گنتی کو پورا کرو یعنی جیسے چاہو روزے رکھو۔
(۱۳۸) دار قطنی نے عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ قضاء رمضان کے روزے میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ’’فعدۃ من ایام اخر‘‘۔
(۱۳۹) امام وکیع، ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے سوال کیا کہ میں رمضان کے روزوں کو کس طرح قضا کروں؟ انہوں نے فرمایا جیسے تو چاہے روزے رکھ اور گنتی پوری کر لفظ آیت ’’فانما یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر‘‘۔
(۱٤۰) ابن المنذر، دار قطنی، بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ (یہ آیت اسی طرح) نازل ہوئی لفظ آیت ’’فعدۃ من ایام اخر متشابعت‘‘ (پھر) ’’متشابعات‘‘ (کا لفظ) ختم کر دیا گیا بیہقی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ لفظ منسوخ کر دیا گیا اس حدیث کو دار قطنی نے صحیح کہا۔
قضاء کے روزے متواتر رکھنا ضروری نہیں
(۱٤۱) دار قطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص پر رمضان کے (قضا) روزے ہوں تو اس کو چاہئے متواتر روزے رکھے اور ان میں متفرق نہ کرے۔
(۱٤۲) دار قطنی نے عبد اللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے رمضان کے قضا روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا لگاتار روزے رکھے اور اگر جدا جدا کرکے رکھے تو بھی کافی ہو جائیں گے۔
(۱٤۳) دار قطنی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان کے قضا روزوں کے بارے میں فرمایا اگر چاہو تو متفرق رکھو اور اگر چاہو تو لگاتار رکھو۔
(۱٤٤) ابن ابی شیبہ، امام دار قطنی نے ابن عبا س ؓ سے اسی طرح روایت کیا محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ سے رمضان تک قضاء روزے متفرق طور پر رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ تیری مرضی ہے مثلا کسی پر قرضہ ہو اور وہ ایک ایک دو یا دو درہم کرکے ادا کرے تو قرضہ ادا نہیں ہوجائے گا؟ (یقیناًہو جائے گا) اللہ تعالیٰ زیادہ حق دار ہیں کہ اس کو قبول فرمائیں اور مغفرت بھی فرما دیں۔
(۱٤۵) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدیکم العسر‘‘ میں ’’الیسر‘‘ سے مراد سفر میں روزہ نہ رکھنا ہے اور عسر سے مراد سفر میں روزہ رکھنا ہے۔
(۱٤٦) ابن مردویہ نے محجن بن ادرع ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا اور آپ نے ایک لمحہ کے لئے اسے دیکھا۔ پھر فرمایا کیا تو نے اس کو دیکھا کہ وہ سچی نماز پڑھ رہا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو اہل مدینہ میں سب سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کو نہ سنا ورنہ تو اس کو ہلاک کر دے گا اور آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کے ساتھ آسانی کا ارادہ فرمایا ہے اور تنگی کا ارادہ نہیں۔
(۱٤۷) امام احمد نے أعرج ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا بلاشبہ تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسان ہو بلاشبہ تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسان ہے۔
(۱٤۸) ابن سعد، احمد، ابو یعلی، طبرانی، ابن مردویہ نے عروہ تمیمی ؓ سے روایت کیا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا ہم پر اس (دین) میں کچھ حرج ہے؟ آپ نے فرمایا اے لوگو! اللہ کا دین آسان ہے تین دفعہ آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔
(۱٤۹) البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آسانی پیدا کرو تنگی پیدا نہ کرو، نرمی پیدا کرو اور نفرت نہ دلاؤ۔
(۱۵۰) امام احمد نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے اس میں نرمی کے ساتھ لوگوں کو داخل کرو۔
(۱۵۱) البزار نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے اس میں نرمی کے ساتھ داخل کرو تیزی سے دوڑنے والا نہ تو زمین کا سفر طے کرتا ہے۔
(۱۵۲) احمد نے ابو ذر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اسلام نرم اور (مطیع گھوڑے کی طرح ہے اس پر سوار نہیں ہوتا مگر جو نرم طبیعت ہو۔
(۱۵۳) امام بخاری، نسائی، بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا دین آسان ہے اور ہرگز کوئی دین نہیں آئے گا مگر دین (اسلام) اس پر غالب آجائے گا (ہر کام میں) میانہ روی اختیار کرو اور اللہ کو قرب حاصل کرو اور (لوگوں کو) خوشخبری دو۔ اور مدد طلب کرو صبح و شام اور رات کے کچھ وقت میں۔
(۱۵٤) امام طیالسی، احمد، بیہقی نے بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم آپ کے ساتھ اکٹھے چلتے رہے اچانک ایک آدمی ہمارے سامنے نماز پڑھ رہا تھا (اور) کثرت سے رکوع اور سجدے کر رہا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو اس کو ریا کار خیال کرتا ہے میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا تم اپنے اوپر اعتدال کا راستہ لازم کر لو سو جو شخص اس دین پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے یہ دین اس پر غالب آجاتا ہے۔
دین میں داخل ہونے کی ترغیب
(۱۵۵) بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے پس اس میں لوگوں کو نرمی کے ساتھ داخل کرو اور اس کے بندوں کی طرف اللہ کی عبادت کو ناپسندیدہ نہ بنا دو کیونکہ تیز دوڑنے والا نہ سفر طے کرتا ہے اور نہ سواری کو باقی رکھتا ہے۔
(۱۵٦) بیہقی نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دین مضبوط ہے سوا س میں لوگوں کو نرمی کے ساتھ داخل کرو اور اپنے رب کی عبادت کو اپنی ذات کے نزدیک مبغوض نہ بنادو کیونکہ تیز دوڑنے والا نہ سفر طے کرتا ہے اور نہ سواری کو باقی رکھتا ہے ۔ پس اس آدمی کی طرح عمل نہ کر جو خیال کرتا ہے کہ وہ کبھی نہیں مرے گا تو ڈرجا ایسا ڈرنا کہ تو (اس بات کا) خوف کرتا ہو کہ توکل مر جائے گا۔
(۱۵۷) طبرانی اور بیہقی نے سہل بن ابی امام رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی جانوں پر سختی نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنی جانوں پر سختی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے اور ان کے باقی لوگوں کو تم گرجا گھروں اور نصاری کے عبادت خانوں میں پاؤں گے۔
(۱۵۸) بیہقی نے معبد جہنی رحمہ اللہ علیہ کے طریق سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم افضل ہے عمل سے۔ بہترین اعمال درمیانی درجہ کے ہیں اللہ کا دین سختی اور غلو کے درمیان ہے۔ نیکی دو چیزوں کے درمیان ہے اس کو نہیں پاتا ہے مگر اللہ کی مدد سے اور بہت برا چلنا تیز چلنا ہے۔
(۱۵۹) ابن عبید اور بیہقی نے اسحاق بن سوید رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ عبد اللہ بن مطرف نے بتکلف عبادت کی تو اس کو مطرف نے کہا اے عبد اللہ! علم افضل ہے عمل سے اور نیکی دو چیزوں کے درمیان ہے اور بہترین کام درمیانی درجہ کے ہیں اور بہت برا چلنا، تیز چلنا ہے۔
(۱٦۰) ابو عبید اور بیہقی نے تمیم داری رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ اپنے دین میں سے اپنے لئے کچھ حاصل کرلو اور اپنی ذات میں سے اپنے دین کچھ حاصل کرلو یہاں تک کہ تیرے ذریعہ (اللہ کا) حکم قائم رہے (ایسی) عبادت پر جس کی تو طاقت رکھتا ہے۔
(۱٦۱) بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو یہ پسند فرماتے ہیں کہ تو اس کی رخصت پر عمل کرے جیسے وہ پسند کرتا ہے کہ تو اس کے فرائض پر عمل کرے۔
ّ(۱٦۲) البزار و الطبرانی وابن حبان نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتے ہیں کہ تو اس کی رخصت پر عمل کرے۔ جیسے وہ پسند فرماتا ہے کہ تو اس کے فرائض پر عمل کرے۔
(۱٦۳) احمد، البزار، ابن خزیمہ، ابن حبان، طبرانی فی الاوسط اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتے ہیں کہ اس کی رخصت پر عمل کرے۔ جس طرح وہ ناپسند کرتا ہے کہ تو اس کی نافرمانی کرے۔
(۱٦٤) بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا اللہ تعالیٰ کو کون سا دین پسند ہے؟ آپ نے فرمایا جو سیدھا اور آسان ہو (یعنی دین اسلام)۔
(۱٦۵) الطبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہیں کرتا اس کو عرفات کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہوگا۔
(۱٦٦) الطبرانی نے عبد اللہ بن یزید بن ادیم رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے ابو درداء ، واثلہ بن اسقع ابو امامہ اور انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ ان کی رخصت کو قبول کیا جائے جیسے بندہ اپنے رب کی مغفرت کو پسند کرتا ہے۔
(۱٦۷) احمد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میری ٹھوڑی کو اپنے کندھے پر رکھا تاکہ میں حبشی لوگوں کا کھیل دیکھ لوں یہاں تک کہ میں دیکھتے دیکھتے تھک گئی اور ان کے (دیکھنے سے ہٹ گئی) اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ اس دن آپ ﷺ نے فرمایا یہود جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) یعنی میں سیدھا اور آسان دین دیکر بھیجا گیا ہوں۔
(۱٦۸) ترمذی نے نوارد الاصول میں حضرت حسن رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ کا دین غلو سے نیچے اور کوتاہی سے بلند ہے۔
(۱٦۹) عبد الرزاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ طعن نہ کرو اس شخص پر جس نے سفر میں روزہ رکھا اور جس نے نہیں رکھا اور اس میں سے اپنے لئے آسانی اختیار کر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ’’یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر‘‘۔
(۱۷۰) عبد الرزاق نے مجاہد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ تجھ پر لازم ہے کہ آسانی کو اختیار کر کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف آسانی کا ادارہ فرماتے ہیں۔
(۱۷۱) ابن ابی حاتم نے ربیع رحمہ اللہ سے لفظ آیت ’’ولتکملوا العدۃ‘‘ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے رمضان (کے روزوں) کی تعداد پوری کرو۔
پورے مہینے کے روزے فرض ہیں
(۱۷۲) ابو داؤد، نسائی، ابن المنذر، دار قطنی نے اپنی سنن میں حضرت حذیقہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینہ سے پہلے روزے نہ رکھو یہاں تک کہ تم چاند دیکھ لو یا تیس دن پورے کر لو پھر روزے رکھو یہاں تک کہ عید کا چاند دیکھ لو یا تیس دن پورے کرلو۔
(۱۷۳) امام ابو داؤد، ترمذی، نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے مہینے سے پہلے ایک یا دو روزے نہ رکھو مگر یہ کہ کوئی ایسا دن آجائے جس میں تم نفلی روزہ پہلے رکھتے ہو۔ اور روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند کو دیکھ لو پھر روزے رکھو اگر اس کے آگے بادل حائل ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کر لو پھر عید کرو۔
(۱۷٤) بخاری، مسلم اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چاند دیکھ کر افطار کرو اگر مطلع ابر آلود ہو جائے تو گنتی پوری کر لو اور دوسرے لفظ میں یوں ہے تیس کی گنتی پوری کر لو۔
(۱۷۵) دار قطنی نے رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کے لئے شعبان کی گنتی پوری کرو اور مہینے کو ایک روزہ کے ساتھ بھی آگے نہ بڑھاؤ۔ جب تم (رمضان کا چاند) دیکھ لو تو روزے رکھو اور جب تم (شوال کا چاند) دیکھ لوتو افطار کرو اگر تم پر بادل چھا جائے تو تیس دونوں کی گنتی پوری کرکے پھر افطار کرلو۔ بلاشبہ مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور آپ نے تیسری مرتبہ میں اپنے انگوٹھے کو بند فرما لیا۔
(۱۷٦) دار قطنی نے عبد الرحمن بن زید بن خطاب رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا ہم نے نبی اکرم ﷺ کے صحابہ سے صحبت اختیار کی تو انہوں نے ہم سے یہ بیان فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اگر تم پر بادل چھا جائیں تو تیس دن شمار کرو اگر دو انصاف والے گواہی دیدیں تو روزے رکھو اور افطار کرو اور قربانی کرو۔
(۱۷۷) دار قطنی نے ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان کے تیس روزے پورے کرنے کے لئے صبح کو روزہ رکھا پھر دو دیہاتی آئے اور انہوں نے لا الہ الا اللہ کے ساتھ گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا تھا تو آپ نے سب کو (روزہ) افطار کرنے کا حکم فرما دیا۔
(۱۷۸) ابن جریر نے ضحاک رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ولتکملوا العدۃ‘‘ سے مراد ہے کہ مریض اور مسافر نے جو روزے نہیں رکھے تھے ان کی گتنی پوری کر لیں۔
(۱۷۹) ابن المنذر نے ابن ابی حاتم اور مروزی رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ وہ عیدین کی کتاب میں زید بن اسلم ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ لفظ آیت ’’ولتکبروا اللہ علی ما ھدکم‘‘ سے مراد ہے کہ تم لوگ عید الفطر کے دن تکبیریں کہو۔
(۱۸۰) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مسلمانوں پر حق ہے کہ جب وہ شوال کا چاند دیکھیں تو وہ اللہ کی بڑائی بیان کریں (یعنی تکبیریں کہیں) یہاں تک کہ اپنی عید سے فارغ ہو جائیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ’’ولتکبروا العدۃ ولتکبروا اللہ‘‘۔
(۱۸۱) طبرانی نے معجم صغیر میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی عیدوں کو تکبیروں کے ساتھ مزین کرو۔
(۱۸۲) المروزی، دار قطنی، بیہقی نے سنن میں ابو عبد الرحمن سلمی ؓ سے روایت کیا کہ (ہم لوگ) عید الفطر میں عید الاضحی سے زیادہ تکبیروں میں شدت کرتے تھے۔
(۱۸۳) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں زہری رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ (اپنے گھر سے) عید الفطر کے دن (جب عید کی نماز کے لئے) تشریف لے جاتے تھے تو (راستہ میں) تکبیر پڑھتے جاتے تھے یہاں تک کہ عید گاہ میں پہنچ جاتے نماز ادا فرما لیتے جب آپ نماز ادا فرما لیتے تھے تکبیر ختم فرما دیتے۔
(۱۸٤) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت نافع بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اونچی آواز سے تہلیل اور تکبیر کہتے ہوئے عیدین کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔
(۱۸۵) ابن ابی شیبہ نے عطا رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ سنت طریقہ میں سے ہے کہ عید کے دن تکبیر کہی جائے۔
(۱۸٦) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، المروزی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ یوں تکبیر کہا کرتے تھے ’’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ وللہ اکبر وللہ الحمد‘‘۔
(۱۸۷) ابن ابی شیبہ، المروزی، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ یوں تکبیر کہا کرتے تھے ’’اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر واجل علی ما ھدانا‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا ہے، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے لئے سب تعریفیں ہیں، اللہ تعالیٰ سے سب سے بڑا ہے اور طاقتور ہے۔
(۱۸۸) امام بیہقی نے ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ حضرت عثمان ؓ ہم کو تکبیر سکھایا کرتے تھے:
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا اللہم انت الاعلی وأجل من ان یکون بک صاحبۃ أو یکون لک ولد أو یکون لک شریک فی الملک أو تکون لک ولی من الذل وکبرہ تکبیرا اللہم اغفرلنا اللہم ارحمنا
ترجمہ: اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ بڑا ہے، بہت بڑا ہے، اے اللہ! تو سب سے اعلیٰ طاقتور ہے اس بات سے کہ تیری بیوی ہو، اس سے بات سے کہ تیرا لڑکا ہو، اس بات سے کہ تیرے ملک میں تیرا کوئی شریک ہو، یا اس بات سے کہ تیرا کوئی مدد گار ہو پھسلنے سے (یعنی تو ان سب چیزوں سے پاک ہے) اور اس کی بڑائی بیان کرو تکبیر کہتے ہوئے۔ اے اللہ! ہماری مغفرت فرما اور ہم پر رحم فرما۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور نیک نیتی کے ساتھ رکھے اس کے سبب اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، اور جو شخص شب_قدر میں ایمان اور ثواب کا کام سمجھ کر قیام کرے تو اس کے اگلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔
مسدد، یحیی، ابن جریج، عطاء سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خبر دیتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی ایک عورت سے (جس کا نام ابن عباس نے لیا تھا لیکن میں بھول گیا) فرمایا کہ تمہیں میرے ساتھ حج کرنے سے کس چیز نے روکا؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک پانی بھرنے والا اونٹ تھا جس پر اس کا بیٹا اور فلاں شخص (یعنی اس کا شوہر) سوار ہو کر چلے گئے اور صرف ایک اونٹ چھوڑ گیا، جس ہر ہم پانی لادتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو اس مہینہ میں عمرہ کرلے اس لئے کہ رمضان میں عمرہ کرنا ایک حج کے برابر ہے یا اسی کے مثل کچھ فرمایا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پنج وقتہ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، ان گناہوں کا جو درمیانی اوقات میں سرزد ہوئے ہوں، کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔ أخرجه أحمد (2/400، رقم 9186) ، ومسلم (1/209، رقم 233) ، والترمذى (1/418، رقم 214) . وأخرجه أيضًا: البيهقى (10/187، رقم 20548) .
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب ہوتی پہلی رات رمضان کی تو کھولے جاتے ہیں دروازے جنّت کے تو نہیں بند کیا جاتا ہے کوئی ایک دروازہ بھی پورے ماہ کو، رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی آسمان سے طلوعِ صبح تک یہ ندا کرتا رہتا ہے کہ اے خیر کے طلب گار تمام کر اور بشارت حاصل کراوراے بُرائی کے چاہنے والے رک جا اور عبرت حاصل کر۔ کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کی بخشش کی جائے ۔ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔ کیا کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے ۔ کیا کوئی سوالی ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔ اللہ بزرگ و برتر رمضان شریف کی ہر رات میں افطاری کے وقت ساٹھ ہزار گناہ گار دوزخ سے آزاد فرماتاہے جب عید کا دن آتا ہے تو اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے کہ جتنے تمام مہینہ میں آزاد فرماتا ہے۔ تیس مرتبہ ساٹھ ساٹھ ہزار۔(یعنی اٹھارہ لاکھ).
قال المنذرى (2/63) : حديث حسن لا بأس به فى المتابعات
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک جنت ابتدائے سال سے آئندہ سال تک رمضان شریف کے لئے آراستہ کی جاتی ہے۔ فرمایا جب پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ہوا سفید اور بڑی آنکھوں والی حوروں پر چلتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ اے پروردگار اپنے بندوں سے ہمارے لئے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔
المحدث : الهيتمي المكي/ المصدر : الزواجر الصفحة أو الرقم:1/197/ خلاصة حكم المحدث :صحيح أو حسن
المحدث : المنذري/ المصدر : الترغيب والترهيب الصفحة أو الرقم:2/114(2/406) خلاصة حكم المحدث :[إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
حضرت کعب بن عجرہؓ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:تم لوگ منبر کے پاس حاضر ہو۔ پس ہم منبرکے پاس حاضر ہوئے ۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم منبر کے پہلے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ''آمین''۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا''آمین''۔ اور جب تیسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ''آمین''۔ جب منبر شریف سے اترے تو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی کہ کبھی نہ سنتے تھے۔ فرمایا بے شک جبرئیلؑ نے آکر عرض کی کہ ــ''بے شک وہ شخص دور ہو (رحمت سے یا ہلاک ہو) جس نے رمضان شریف کو پایا اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی'' میں نے کہا ــ''آمین ''۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا: ''وہ شخص دور ہو جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ درود شریف نہ پڑھے ''میں نے کہا ''آمین''جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا کہ'' دور ہو وہ شخص جو اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کا موقع پائے پھر بھی کوتاہی کے نتیجے میں جنت میں داخل نہ ہوسکے ''میں نے کہا ''آمین''.
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، مگر ہم لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں، کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد مادّیت اور دنیاوی کاروبار کے لیے ہے، اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ آپ حضرات نے یہ حدیث شریف سنی ہوگی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، (شعب الایمان۳/۳۷۵، تخصیص شہر رجب بالذکر) ترجمہ: اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے، یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔
آپ غور فرمائیں کہ رمضان المبارک آنے سے دو ماہ پہلے ہی رمضان کا انتظار اوراشتیاق ہورہا ہے، اوراس کے حاصل ہونے کی دعا کی جارہی ہے، یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں رمضان کی صحیح قدروقیمت ہو۔
رمضان کے معنی
”رمضان“ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”جھُلسادینے والا“ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو ”رمضان“ کہتے ہیں۔ (شرح ابی داؤد للعینی ۵/۲۷۳)
رمضان رحمت کا خاص مہینہ
اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میںآ دمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔
روزے کا مقصد
روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے اور چوں کہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے، اگرچہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورة البقرہ آیت ۱۸۳) ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لیے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
کیوں کہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جب کہ وہ سیراور چھکاہوا ہو، اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سُسْت پڑجائے اور یہی ”تقویٰ“ ہے۔
اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اورنہ بیوی رکھتے ہیں، جبکہ روزہ (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) انہی تین چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کرکے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کروگے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی اور وہ صفت ہے: لاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوٴْمَرُوْنَ۔ (سورئہ تحریم) ترجمہ: وہ (فرشتے) خداکی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیاجاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔ (بیان القرآن) اور اسی کاحاصل ”تقویٰ“ ہے۔
تقریباً اسی بات کو اس حدیث شریف میں بھی فرمایاگیاہے جو ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لِکُلِّ شَیْءٍ زَکوٰةٌ وَزَکوٰةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ (ابن ماجہ ص۱۲۵) ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ”روزہ“ ہے۔
بہرحال روزے کا مقصد تقویٰ ہے، اسی تقویٰ کے حصول کے لیے اس آخری امت پر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھا گیا اور یہ زمانہ اِس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت وتربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اورنہایت معتدل مدت اور وقت ہے۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیاگیا جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شبِ قدر) ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں زمانہ ہوسکتاتھا، اسی کے ساتھ ساتھ اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیاگیا جس کو ”تراویح“ کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس مبارک مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور ان دونوں عبادتوں کے احادیث شریفہ میں بہت زیادہ فضائل ارشاد فرمائے گئے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ وَمَنْ قَامَ رَمضََانَ اِیْمَانًا وَّ احتِسَابًا غُفِرَ لَہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ․ (صحیح بخاری ۱/۲۷۰، صحیح مسلم۱/۲۵۹) ترجمہ: جو شخص ماہِ رمضان کے روزے رکھے بحالت ایمان اور بامید ثواب تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ماہِ رمضان میں کھڑاہو یعنی نوافل (تراویح وتہجد وغیرہ) پڑھے بحالت ایمان اور بامید ثواب اس کے بھی گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
تقویٰ کے حصول میں معاون چیزیں
لیکن صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے، اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے، گزشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ”تقویٰ“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے، بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے، اس لیے چند ایسی چیزوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن پر عمل کرکے ہمیں روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۱) عبادت کی مقدار میں اضافہ
رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے، دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کریں، مثلاً: مغرب کے بعد سنتوں سے الگ یا کم از کم سنتوں کے ساتھ چھ (۶) رکعت اوّابین پڑھیں۔ (جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ اوّابین افطار کی نذر ہوجاتی ہیں) عشاء کی نماز سے چند منٹ پہلے آکر چار رکعت یادو رکعت نفل پڑھیں۔ سحری کھانے کے لیے اٹھنا ہی ہے تو چند منٹ پہلے اٹھ کر کم از کم چار رکعت تہجد پڑھ لیں۔ اسی طرح اشراق کی نماز اور اگراشراق کے وقت نیند کا غلبہ ہوتو چاشت کی چند رکعتیں تو پڑھ ہی لیں۔ ظہر کے بعد دو سنتوں کے ساتھ دو رکعت نفل اور عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھ لیں۔ کیوں کہ نماز کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ سے مروی حدیث شریف میں ہے: اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہ وَہُوَ سَاجِدٌ (مسلم شریف حدیث ۱۱۱۱، باب ما یقال فی الرکوع والسجود) یعنی بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے، تو گویا نماز کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم تحفہ عطا کیاہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!
(۲) تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت
دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، ارشادِ مبارک ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، (سورئہ بقرہ آیت ۱۸۵) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری شریف۱/۳، حدیث۶) تمام بزرگانِ دین کی زندگیوں میں یوں تو قرآنِ کریم میں اشتغال بہت زیادہ نظر آتاہے، لیکن رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تلاوت کے معمول میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس مبارک مہینے میں ایک قرآنِ کریم دن میں، ایک رات میں اور ایک تراویح میں، اس طرح اکسٹھ (۶۱) قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ ماضی کے ہمارے تمام اکابر (حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائپوری، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا یحییٰ کاندھلوی، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، شاہ عبدالقادر رائپوری، شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنی، فقیہ الامت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی، مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی، فدائے ملت مولانا سیداسعدمدنی وغیرہم) کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کریم کا معمول دیدنی ہوتا تھا۔ لہٰذا ہم کو بھی اس مبارک ماہ میں عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت کی مقدار زیادہ کرنی ہے، عام آدمی کو بھی روزانہ کم از کم تین پارے پڑھنے چاہئیں، تاکہ پورے مہینے میں کم از کم تین قرآنِ کریم ختم ہوجائیں۔
(۳) تراویح میں قرآنِ کریم صحیح پڑھنے اور سننے کا اہتمام
اس مبارک مہینے میں ہرموٴمن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے، کیوں کہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے، نیز پڑھنے والے کو خود قرآنِ کریم بددعا دیتا ہے۔ (احیاء العلوم عن انس ۱/۲۷۴، فی ذمّ تلاوة الغافلین) اس طرح قرآن کریم پڑھنے والا اور سننے والے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حافظ صاحب نہایت تیزگامی کے ساتھ حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے چلے جارہے ہیں، ایک سانس میں سورئہ فاتحہ کو ختم کردیا جاتا ہے ، صحیح طریقے سے رکوع، سجدہ اور تشہد ادا نہیں ہورہا ہے، چالیس پینتالیس منٹ میں پوری نماز ختم، اب گھنٹوں مجلسوں میں بیٹھ کر گپ شپ ہورہا ہے اورحافظ صاحب وسامعین میں سے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے قرآنِ کریم کی توہین میں کتنا حصہ لیا اور رمضان کی مبارک ساعتوں میں کتنی بے برکتی اور قرآن کریم کی کتنی بددعا لی؟ خدا را اس صورتِ حال سے بچئے اور اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر بند نہ کیجیے اور صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرکے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔
(۴) استغفار کی کثرت
چوتھا کام یہ کرنا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ”آمین“ فرمایا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل امین علیہ الصلاة والسلام میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، الیٰ آخر الحدیث (مستدرک حاکم ۴/۱۷۰، کتاب البر والصلة، الترغیب والترہیب ۲/۵۶)
ظاہر ہے کہ اس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام بددعا کریں اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہیں، اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔
(۵) دعا کا اہتمام
رمضان المبارک کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی لازم ہے، بہت سی روایات میں روزے دار کی دعا کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ثَلٰثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ، الحدیث۔ (ترمذی شریف ۲/۲۰۰، حدیث ۳۵۹۸، مسند احمد حدیث ۹۷۴۳) ترجمہ: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) ایک روزے دار کی افظار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم کی بددعاء، اس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں اورآسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اورارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو(کسی مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔
بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لیے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، ملک وملت کے لیے اور عالم اسلام کے لیے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۶) صدقات کی کثرت
رمضان المبارک میں نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا دریا پورے سال ہی موجزن رہتا تھا، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں (بخاری شریف ۱/۳) جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو ضرور نوازتے۔ لہٰذا ہم کو بھی اس بابرکت مہینے میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے صدقات کی کثرت کرنی چاہیے۔
(۷) کھانے کی مقدار میں کمی
ساتویں چیز جس کالحاظ رمضان المبارک کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ہے ”کھانے کی مقدار میں کمی کرنا“ ہے، کیوں کہ روزے کا مقصد قوتِ شہوانیہ وبہیمیہ کا کم کرنا اور قوتِ ملکیہ ونورانیہ کا بڑھانا ہے، جب کہ زیادہ کھانے سے یہ غرض فوت ہوجاتی ہے، بقول شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افظار کے وقت تلافیٴ مافات میں (کہ پورے دن بھوکا رہا)اور سحر کے وقت حفظ ماتقدم میں (کہ پورے دن بھوکا رہناہے) اتنی زیادہ مقدار میں کھالیتے ہیں کہ بغیر رمضان کے بھی اتنی مقدار کھانے کی نوبت نہیں آتی جس کی وجہ سے کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، حقیقتاً ہم لوگ صرف کھانے کے اوقات بدلتے ہیں یعنی افظار میں، تراویح کے بعد اور پھر سحری میں، اس کے علاوہ کچھ بھی کمی نہیں کرتے، بلکہ مختلف قسم کی زیادتی ہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے قوتِ شہوانیہ و بہیمیہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے اورمقصد کے خلاف ہوجاتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا مَلَأ اٰدَمِیٌّ وِعَاءً شَرَّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ فَاِنْ کَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفسِہ۔ (ترمذی شریف ۲/۶۰) یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی برتن کا بھرنا اتنا ناپسند نہیں جتنا پیٹ کا بھرنا ناپسند ہے،ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمرسیدھی رہے، اگر زیادہ ہی کھانا ہے تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ البتہ اتنا کم نہ کھائے کہ عبادات کے انجام دینے میں اور دوسرے دینی کاموں میں خلل واقع ہو۔
(۸) گناہوں سے پرہیز
رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ فِیْ اَن یَّدَعَ طَعَامَہوَشَرَابَہ۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۵) ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ (معارف الحدیث۴/۰۰۰۰)
ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلَّا الْجُوْعُ وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلَّا السَّہْرُ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث ۱۶۹۰۔ سنن نسائی حدیث ۳۳۳۳) ترجمہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَالَمْ یَخْرِقْہَا۔ (نسائی شریف حدیث ۲۲۳۳، مسند احمد حدیث ۱۶۹۰) ترجمہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۴، حدیث ۱۸۹۴، صحیح مسلم حدیث ۱۱۵۱)
ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر تقوے کی سعادت سے متمتع نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین!
$$$
روزہ اور رمضان کی اہمیت
استقبالِ رمضان
ماہِ رمضان بڑی فضیلت،عظمت،رحمت،مغفرت اور برکت کا مہینہ ہے،رمضان کی صحیح قدرو قیمت کا احساس در اصل اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو تھا ،اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم رجب کے مہینے کے شروع ہوتے ہی رمضان کا استقبال و انتظار فرمایا کرتے تھے،بلکہ پوری امت کو یہ حکم فرمایا کہ :”احصوا ہلال شعبان لرمضان“․رمضان کے لیے شعبان کے چاندکو اچھی طرح یاد رکھو۔(ترمذی) اور رمضان تک پہنچنے کی دعا مانگناشروع فرما دیا کرتے تھے،حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:”اللّٰھمَّ باَرِکْ لَنَافِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَان“اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔(مسند احمد ،رقم الحدیث2228)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب رمضان کا چاند دیکھتے تو قبلہ کی طرف رخ فرما کر یہ دعا فرمایا کرتے تھے :اے اللہ!اس(چاند) کو ہمارے اوپر امن وایمان اور سلامتی واسلام ،وعافیت داربنا ،بیماریوں سے حفاظت اور روزے ،نماز(وتراویح)اور قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ مزّین رکھیے،یا اللہ! ہمیں رمضان کے لیے اور رمضان کو ہمارے لیے سلامتی وعافیت کے ساتھ رکھیے،اور رمضان اس حال میں مکمل ہو کہ آپ نے ہماری مغفرت فرما دی ہو اور ہم پر رحم فرما دیا ہو اور ہمارے قصور معاف کر دیے ہوں۔ (فضائل رمضان لابن ابی الدنیا ،رقم الحدیث20)۔
بعض احادیث میں یہ دعا منقول ہے:اے اللہ!مجھے رمضان کے لیے اور رمضان کو میرے لیے صحیح سالم رکھیے اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبولیت کا ذریعہ بنا دے۔(کنزالعمال)
رمضان کی نسبت اللہ کے ساتھ:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔(کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر ودیلمی ،فیض القدیر)
رمضان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے رمضان کی خاطر چاند دیکھنے اور شعبان کے چاند کی تاریخوں کو یاد کرنے کا حکم دیااور فرمایا:شعبان کے چاند(اور اس کی تاریخوں)کے حساب کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تا کہ رمضان کا حساب صحیح ہو سکے(ترمذی واللفظ لہ،سنن دار قطنی،السنن ا لکبری)۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شعبان کے(چاند اور اس) مہینے کی تاریخیں جتنے اہتمام سے یاد رکھتے تھے اتنے اہتمام سے کسی دوسرے مہینے کی تاریخیں یاد نہیں رکھتے تھے،پھررمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھتے تھے اور اگر(29شعبان)کو چاند دکھائی نہ دیتا تو تیس (شعبان کے)دن پورے کرکے پھر رمضان کے روزے رکھتے تھے۔(ابو داود،مسند احمد،سنن دار قطنی)
آپ صلی الله علیہ وسلم اس مہینے میں عبادت واطاعت کا اور زیادہ اہتمام فرماتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے :جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتاتھااور آپ صلی الله علیہ وسلم کی نمازوں میں زیادتی ہو جاتی تھی اور دعاوٴں میں تضرع وزاری بڑھادیتے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا رنگ سرخ ہو جاتا تھا ۔(شعب الایمان للبیھقی)ایک دوسری جگہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے :کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اپنا تہبند کس لیتے تھے پھر اپنے بستر پر نہیں آتے تھے یہاں تک کہ رمضا ن کا مہینہ گزر جاتا۔ (شعب ا لایمان للبیھقی)
معلی ابن الفضل تابعی فرماتے ہیں :صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین رمضان سے چھ مہینے پہلے اللہ سے دعائیں مانگنا شروع فرما دیا کرتے تھے کہ:اے اللہ!ہمیں رمضان تک پہنچا دے اور رمضان کے بعد چھ مہینے تک یہ دعا کیا کرتے تھے کہ:اے اللہ!رمضان میں جو عبادتیں کیں ان کو قبول فرما ۔
ہمارے بزرگوں کا معمول بھی رمضان میں اپنے آپ کو دیگر مصروفیات سے فارغ کرنے کا تھا۔لہٰذا ہمیں بھی رمضان کا استقبال اور انتظار کرنے کے لیے مذکورہ باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے:
1...یہ دعا کی جائے کہ اللہ ہم کو بخیر وعافیت رمضان تک پہنچائے اور پھر رمضان کی رحمت،خیروبرکت سے خوب استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
2...دوسری مصروفیات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
3...رمضان کے جو کام پہلے ہو سکتے ہیں ان کو پہلے کر لیں اور جو کام موٴخر ہو سکتے ہیں ان کو موٴخر کریں۔
4...29شعبان کو چاند دیکھنے کا اہتمام کریں۔
5...رمضان سے پہلے ہی گناہوں سے پکی وسچی توبہ کر کے اپنے گناہوں کی بخشش اور دل کی صفائی کر لیں تا کہ پہلے ہی دن سے رمضان کی برکتوں سے اچھی طرح فائدہ اٹھا سکیں۔
روزے کی اہمیت
روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے،اللہ رب العزت نے فرمایا:اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کئے گئے تھے،تاکہ تم متقی بن جاوٴ۔(سورہ بقرہ:183)
1... روزہ گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ روزہ رکھا اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابوداوٴد، ترمذی)
2... روزہ گناہوں سے ڈھال ہے…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:روزہ ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ دے۔
3... روزہ جہنم کی آگ سے بچاوٴ کا مضبوط قلعہ ہے… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:روزہ ڈھال ہے اور جہنم کی آگ سے بچاوٴ کا مضبوط قلعہ ہے۔(شعب الایمان،کتاب الصیام،مسند احمد:رقم الحدیث:8857)
4... روزہ جہنم کی آگ سے ہزاروں میل دوری کا سبب ہے… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے اللہ کی رضا کے لیے روزہ رکھا تو اللہ تعالی اس کو جہنم سے اتنا دور فرمادیتے ہیں کہ جتنی مقدار کوّا اپنی عمر کی ابتداء سے بوڑھے ہو کر مرنے تک اڑتے ہوئے مسافت طے کرتا ہے۔ (شعب الایمان،کتاب الصیام،مسند احمد:رقم الحدیث:10388)
5... روزہ بہترین سفارشی ہے…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:روزہ اور قرآن سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔
6... روزہ دار کی نیند عبادت،سانس لینا، تسبیح اوردعا مقبول ہے… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:روزہ دار کی نیند عبادت ہے،اس کاسانس لینا تسبیح ہے،اوراس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔(حلیة الاولیاء،کنزالایمان)
7.... روزہ دار کے لیے جنت کی حور آراستہ اور مزین کی جاتی ہے… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جنت ماہِ رمضان کے لیے شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے،اورحوریں بھی روزہ داروں کے لیے شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہیں۔(شعب الایمان:کتاب الصیام،رقم الحدیث:3359)
8... روزہ دار کے لیے جنت میں داخلے کا اسپیشل گیٹ…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جنت میں ایک دروازہ ہے اس کا نام ”ریّان“ہے اورقیامت کے دن اس سے صرف روزہ دار داخل ہونگے،کہاجائے گا”روزے دار کہاں ہیں؟“،پھر وہ کھڑے ہو جائیں گے اورجب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تووہ دروازہ بند کر دیاجائیگا۔ (بخاری،مسلم)
9... روزہ جسم کی زکوة ہے(شعب الایمان،کتاب الصیام)روزہ رکھو تندرست رہو۔
رمضان اور روزے کے فضائل پر قرآن وحدیث میں بیسیوں دلیلیں موجود ہیں ،سب کا مقصدیہ ہے کہ رمضان کا مہینہ ہمارے لیے حاضر ہو گیا ہے،یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک پیکج ہے جس کی مدت بہت محدود ہے،جس قدر چاہیں ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور فائدہ وہی اٹھاتا ہے جو عقل مند ہو،اگر آپ اپنے آپ کو عقل مندوں کی فہرست میں شمار کرتے ہیں تو خوب خوب فائد ہ اٹھا کر اپنے عقل مند ہونے کا ثبوت دیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
رمضان کی پہلی رات ہی سے شیطانوں،اور سر کش جنوں کو قید کر دیا جا تا ہے، اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جا تا ہے اور ان میں سے کو ئی دروا زہ بھی کھلا نہیں رہتا ،اور جنت کے دروازوں کو کھول دیا جا تا ہے اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور اللہ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ” اے خیر کے طلب کرنے والے! آگے بڑھ، اور اے شر کے طلب کرنے والے! رک جا“ اور اللہ کی طرف سے دوزخ سے بہت سے لوگ آزاد کیئے جا تے ہیں اور یہ واقعہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔
حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ:بلا شبہ جنت ماہ رمضان کیلیے شروع سال سے اخیر تک سجائی جا تی ہے، اور حوریں بھی رمضان کے روزے رکھنے والوں کیلیے شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہیں، جب رمضان شریف کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت (اللہ تعالی) سے عرض کرتی ہے اے اللہ ! اس مبارک مہینہ میں اپنے بندوں میں سے کچھ بندے میرے اندر قیام کرنے والے مقرر فرما دیجئے؛( جو عبا دت کر کے میرے اندر داخل ہو سکیں)اور (اسی طرح) حوریں بھی عرض کرتی ہیں کہ اے اللہ ذوالجلال! اس با برکت مہینے میں اپنے بندوں میں سے ہمارے واسطے کچھ خاوند مقرر فرما دیجئے۔
رمضان آچکا ،آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے،جنت کے دروازے کھول دئیے گئے،رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے،جہنم کے دروازے بند کردئے گئے،سرکش شیاطین کی گردن میں طوق ڈال کر سمندروں میں پھینک دیا گیا،رمضان کورحمت مغفرت اور بخشش کاذریعہ بنادیا گیا،چناں چہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رمضان کا اول حصہ رحمت ہے اور اس کا درمیانی حصہ مغفرت ہے اور اس کا آخری حصہ دوزخ سے آزادی ہے۔
ہماری بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ اس ماہِ مبارک میں اپنے اللہ کو راضی کرلیں ،اپنے گناہوں کی بخشش کروالیں،وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سید الملائکہ کی بد دعا ہو اور سید الانبیاء کی آمین ہو،ایک روایت میں ہے کہ:حضور صلی الله علیہ وسلم منبر کی طرف تشریف لائے، اور اپنے منبر کے پہلے درجے پر قدم مبارک رکھا تو فرما یا :آمین، جب دوسرے پر قدم رکھا تو پھر فرما یا :آمین جب تیسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا :آمین،جب آپ خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے اترے تو ہم (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین)نے عرض کیا کہ: ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی ،آپ صلی الله علیہ وسلم سے فرما یا ، کیا تم نے بھی وہ بات سنی ہے؟ ہم نے عرض کیا جی ، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے( جب پہلے درجے پر میں نے قدم رکھا تو)انہوں نے کہا :ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اسکے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھا پے کو پائے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائے میں نے کہا :آمین! پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا :ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہو اور وہ آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے میں نے کہا :آمین! پھر انہوں نے کہا کہ: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضا ن المبارک کا مہینہ پایاپھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی ،میں نے کہا :آمین۔
اس بد دعا کی قبولیت میں کس کو شک ہو سکتا ہے؟لہذا اس حدیث کو ہر وقت سامنے رکھیں ،اور یہ خیال رہے کہ اس بد دعا میں ہم داخل نہ ہو جائیں۔ جبکہ روزہ رکھنے سے آدمی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے کہ روز ہ دار کے منہ کی بو (جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے)اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیا دہ پاکیزہ(اور پسندیدہ ہے)کما فی الحدیث۔
روزے کا صلہ اللہ جل شانہ خود دیتے ہیں ،چناچہ ایک روایت میں ہے:اللہ عزوجل فرما تے ہیں کہ: روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا ، دوسری روایت کے مطابق اللہ فرماتے ہیں:روزہ کا بدلہ میں خود ہوں۔اسی محبت کی وجہ سے فرمایا کہ:روزہ دار کے منہ کی بدبو اللہ کے ہاں مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے“،اوریہ محبت ہی تو ہے کہ محبوب کو محب سے ملاقات میں مزہ آتا ہے ،فرمایا:کہ روزہ دار کو اپنے رب سے ملاقات کے وقت فرحت ملے گی۔
روزہ دار کے اعزاز کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جنت میں داخلہ کے لیے اللہ نے روزہ داروں کے لیے ایک علیحدہ دروازہ کا اہتمام فرمایا جیساکہ حدیث میں ہے جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ”ریاّن“ ہے۔اس دروازہ سے قیامت کے دن صرف روزہ دار داخل ہونگے ، قیامت کے دن اللہ تعالی کی طرف سے روزہ داروں کا نام لے کر بلا یا جائے گا ۔ وہ اس دعوت پر کھڑے ہونگے ، اور ان کے علاوہ کوئی اور اس دروازہ سے داخل نہ ہوگا۔
رمضان کس طرح قیمتی بنائیں
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے :” ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کا مہینہ گزر گیا اور اس نے اپنے گناہ نہ بخشوائے۔ “،آج رمضان کا مہینہ آتا ہے اور گزر جاتا ہے مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ،معمول کی طرح زندگی چل رہی ہوتی ہے ،احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم پر رمضان کا مہینہ گزر رہا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سستی کرتے ہیں اور رمضان کو اہمیت نہیں دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ہلاکت کی طرف دھکیل رہے ہوتے ہیں ،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں اور کوشش کریں کہ ہمارا رمضان اس طرح گزرے جس طرح ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم گزارا کرتے تھے،اصحابِ پیغمبر گزارا کرتے تھے ،اسلافِ امت اور اکابرین گزارا کرتے تھے،اس کے لیے ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ ٹائم ٹیبل اور نظام الاوقات کے ساتھ گزارنا ہوگااور رمضان کے لیے ایک مضبوط پلاننگ اور منصوبہ بندی کرتے ہوئے دستور العمل تیار کرناہوگا،تاکہ اس ماہ میں کسی بھی خیرکے کام اور اللہ کے وعدوں سے محروم نہ ہوسکیں اور رمضان کے یہ قیمتی اوقات اور ساعتیں قیمتی سے قیمتی تر ہو سکیں،لہٰذا دیگر امور اور معاملات کو جتنا موٴخر کر سکتے ہیں ان کو موٴخر کریں،اگر رمضان میں چھٹی کا اختیار ہو اور پیچھے معاملات میں حرج نہ آتا ہو تو چھٹی کریں،اگر چھٹی کا اختیار نہ ہو توکم از کم اپنے اوقات کو ایسا مرتب کریں کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی براہِ راست عبادت میں گذر جائے۔چناں چہ:
1...سب سے پہلے پکی وسچی توبہ کریں،تاکہ گناہوں سے پاک وصاف ہوکررمضان کے انوارات اور برکات سے مستفید ہو سکیں۔
2... اخلاص کے ساتھ روزہ کا اہتمام کریں …آج کل دین سے بہت دوری ہونے کی وجہ سے بعض مسلمان روزوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اور اکثر روزہ چھوڑ دیتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ روزے اور رمضان کے تمام فضائل سامنے رکھتے ہوئے اور بندگی بجا لاتے ہوئے اخلاص کے ساتھ روزوں کا اہتمام کریں۔
3...تراویح کا باجماعت اہتمام کریں…کیوں کہ تراویح مغفرت کا ذریعہ ہے کہ اللہ کے محبوب صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” من قام رمضان إیماناً واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ،“جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھا اس کے گذشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، تراویح کے واسطہ سے روزانہ اللہ کے چالیس مقاماتِ قرب حاصل ہوتے ہیں،سجدہ مقامِ قرب ہے،اور یہی سجدہ معراج کے دن تحفہ میں ملا،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے” الصلوة معراج الموٴمن“فرماکر اس کو موٴمن کی معراج قرار دیا۔اللہ ربّ العزت نے بڑے عجیب انداز سے اس بات کو قرآنِ کریم میں سمجھایا،فرمایا:”واسجد واقترب“کہ سجدہ کرو اور ہمارے قریب آجاوٴ۔
4...تلاوت قرآنِ کریم کی کثرت کریں…رمضان اور قرآن میں ایک خاص مناسبت اور جوڑ ہے،اسی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم،صحابہ کرام اور بزرگانِ دین اس ماہِ مقدس میں اور دنوں کی بنسبت تلاوت کلامِ پاک کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے،حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ایک قرآن دن میں،ایک رات میں اور ایک تراویح میں،اسی طرح پورے رمضان میں اکسٹھ قرآن کریم کے ختم فرماتے تھے،علامہ شامی رحمہ اللہ روزانہ ایک قرآن ختم فرماتے تھے۔
5...سنتوں اورنوافل کا اہتمام کثرت سے کریں…ایک تو اس وجہ سے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من تقرب فیہ بخصلة من الخیر کان کمن أدی فریضة فیماسواہ“رمضان میں نفل پر فرض کا ثواب ہوگا،دوسرا اس وجہ سے کہ جب نوافل کا اہتمام کیا جائے تو سنتوں پر پختگی ہوتی ہے اور جب سنتوں کا اہتمام کیا جائے تو فرائض پر پختگی ہوتی ہے،جب کہ رمضان میں ایک فرض کی ادائیگی سے ستر فرضوں کا ثواب ملتا ہے،تیسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن فرائض کی کمی کو نوافل سے پورا کیا جائے گا۔
لہٰذا سنت موٴکدّہ اورغیر موٴکدہ کی پابندی کے ساتھ مندرجہ ذیل نوافل کا بھی اہتمام کیا جائے: تہجد…سحری کے لیے تو بیدار ہوتے ہی ہیں صرف اتنا اہتمام کر لیا جائے کہ سحری سے آگے پیچھے تھوڑا سا وقت نکال کرچند رکعات نماز پڑھ لی جائیں۔کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ فرائض کے بعد سب سے افضل نماز تہجدکی نماز ہے(ترمذی:90)َ،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ جو رات کو اٹھے اوراپنے اہل کو بھی اٹھا کر دو رکعت نفل پڑھے تو ان کانام ذکر کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے “(ابن ماجہ)۔
اشراق (2سے 8 رکعت)… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ”کہ اے ابن آدم!تو دن کے شروع حصہ میں چار رکعت نمازخالص میرے لیے پڑھ،میں تجھ کو اس دن کی شام تک کفایت کرونگا“(ترمذی)۔
صلا ة الضحی یعنی چاشت(6سے 12 رکعت )…نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے”کہ جو شخص چاشت کی دورکعت میں مواظبت(پابندی) اختیار کرے، اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں“ (ترمذی:1/108)۔
صلاةالاوابین( 6سے 20 رکعت )…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :” کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں اور درمیان میں کوئی بری بات نہیں کی اس کو بارہ(12)سال کی عبادت کے برابر ثواب ملتا ہے “،اور فرمایا:”کہ جس نے بیس(20)رکعت پڑھیں اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔“ (ترمذی:1/98)
تحیة الو ضو…جب بھی وضو کریں تو اگر مکروہ وقت نہ ہو تو کم ازکم دورکعت پڑھ لیں۔یہی وہ نماز ہے جس نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اس مقام پر فائز کیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ،اے بلال( رضی اللہ عنہ!)تمہارا وہ کونسا عمل ہے جس کی وجہ سے جنت میں تمہارے جوتوں کی کھٹکھٹاہٹ میں نے اپنے سامنے سنی،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا،اے اللہ کے رسول !اور تو کوئی عمل یاد نہیں لیکن جب بھی وضو کرتا ہوں تو اس سے نماز ضرور پڑھتا ہوں…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو ایسا کریگا اس کے لیے جنت واجب ہوگی۔
تحیة المسجد …جب بھی مسجد میں داخل ہوں تو کم از کم دو رکعت پڑھ لیا کریں۔(ترمذی:1/71)
صلاة تسبیح …جس کے بارے میں اللہ کے محبوب صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چچا کو فرمایا،اے چچا میں آپ کو عطیہ نہ دوں،ہدیہ وگفٹ نہ دوں،کیا (بڑی) خبر نہ دوں،جب آپ یہ کام کروگے تو اللہتعالیٰ آپ کے اول وآخر،قدیم وجدید ،اور عمداً(وسہواً)،صغیرہ وکبیرہ،پوشیدہ وظاہرسب گناہ بخش دیگا،یہ نماز اگر ہر دن ہو سکے تو پڑھو ،ورنہ ہر جمعہ،ورنہ سال میں ایک دفعہ،اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے توعمر میں ایک دفعہ (ضرور)پڑھو۔
صلاةالحا جہ…جب بھی کوئی حاجت پیش آئے تو نماز پڑھیں۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ”کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے لیے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالی مجھے بینائی عطا فرمائیں حضورصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اگر تم صبر کرو تو بہت ثواب ہوگا اگر کہو تو میں دعا کروں، انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ دعا فرمائیے، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو صلاةالحاجة کی تعلیم فرمائی، جسے پڑھ کر اللہ تعالی نے دوبارہ بینائی عطا فرمائی“۔(ترغیب وترھیب :174)
صلاة التوبہ…حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”کہ کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور اس کے بعد فورا ًطہارت کرکے دورکعت نماز پڑھے، پھر اللہ تعالی سے مغفرت چاہے اللہ جلّ شانہ اس کے گناہ بخش دے گا“(ترمذی:1/92)۔
صدقات کی کثرت…آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنداکرتا ہے اوربری موت کو ٹالتا ہے“اور فرمایا: ” تم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے کیوں نہ ہو “۔(ترغیب وترہیب:221)
ذکراللہ کی کثرت…(تیسرا کلمہ ، درودشریف اور استغفار صبح وشام سو سودفعہ۔)․ذکر اللہ کی کثرت:جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر کیا کرو یہاں تک کہ لوگ کہیں کہ یہ پاگل ہے“ اور فرمایا:”کہ اللہ جل شانہ کا ایسا ذکر کرو کہ منا فقین کہیں کہ یہ ریاکار ہے“۔(ترغیب وترہیب:383)
گناہوں سے بچنے کا اہتمام…آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جو جھوٹ بولنااور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔(بخاری وترمذی)
دعا کی کثرت …حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”کہ اگر کوئی چاہے کہ اللہ تعالی تنگی اور مصیبت کے وقت اس کی دعا ئیں قبول فرمائے تو اس کو چاہیے کہ خوشحالی میں کثرت سے دعا کیا کرے ۔(ترمذی)
اللہ ربّ العزت ہم سب کو رمضان کی قدر کی توفیق نصیب فرمائے۔
ماہِ رمضان اور سخاوت
اہل عرب کی جو بنیادی صفات زمانہٴ جاہلیت کی مذکور ہیں وہ یہ کہ ان میں شجاعت بہت زیادہ تھی، اور سخاوت بھی ان کا طرہٴ امتیاز تھا، جاہلی دور میں ہزار ہا خرابیوں کے باوجود یہ بنیادی خوبیاں اسلام سے قبل بھی ان میں ودیعت تھیں، اسلام نے ان صفات کو مزید نکھار ا، ان کے لئے مرنا کوئی دشوار ومشکل نہ تھا؛ لیکن اسلام نے انہیں اسلام کے لئے مرنا سکھایا، اسی طرح مال خرچ کرنا مہمانوں کی ضیافت جو سخاوت ہی کا اثر ہے ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا، ابو ذر غفاری اسلام قبول کر نے کے لئے مکہ مکرمہ آئے ہوئے ہیں؛ مگر تین دن تک حضرت علی نے ان سے بغیر کسی گفت گو کے ضیافت فرمائی، نیز اہل عرب میں زمانہٴ جاہلیت میں بھی سخاوت بہت ہی زیادہ رائج تھی، جس کا عربی اشعار سے بھی بخوبی اندازہ ہوتاہے، نیز حضرت خدیجہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی جو صفات بیان کیں ہیں ان میں یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ ”انک تقری الضیف“کہ آپ صلی الله علیہ وسلم مہمانوں کی ضیافت فرماتے ہیں، مہمان نوازی در حقیقت سخاوت ہی کا اثر ہے۔
رمضان المبارک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے معمولات میں یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم تیز وتند ہوا کی طرح سخاوت ، فرمایا کرتے تھے۔(بخاری1/3)
تیز وتند آندھی سے اس لئے تشبیہ دی گئی کیوں کہ اس آندھی کا نفع وفائدہ ہر ایک کو پہنچتا ہے اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی سخاوت اور رحمت کا اثر سب کو پہنچتا ہے، اس حدیث سے امام نووی نے کچھ فوائد ذکر فرمائے ہیں: ہر وقت انسان سخاوت کرے، رمضان میں خیر کی راہوں میں خرچ کرنے میں اضافہ ہونا چاہئے، نیک لوگوں کے ا جتماع پر خرچ کرے، نیکوکاروں کی زیارت کے موقع پر خرچ کرے۔(فتح الباری 1/31)
ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول کچھ یوں ذکر کیا گیا کہ جب رمضان آجاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ہر قیدی کو چھوڑ دیتے اور ہر مانگنے والے کو عطا کردیتے۔ (طبقات الکبری1/99)
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی سائل کو کبھی ”لا“ نہیں کہایعنی انکار نہیں فرمایا، اس کے سوال کو ٹالا نہیں، کبھی کسی بھی مانگنے والے کو واپس نہیں لوٹایا۔ (فتح الباری1/31)
حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852) فرماتے ہیں: ر مضان میں چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن کریم کا زیادہ دور فرماتے تھے، اور قرآن کریم کے ورد سے دل میں استغناء کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور یہی استغناء کی کیفیت انسان کو سخاوت کی راہ پر ڈالدیتی ہے، نیز رمضان میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیگر دنوں کے مقابلہ میں زیادہ نعمتوں سے نوازتے ہیں اسی سنت الہیہ کو اپناتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی رمضان میں اپنی امت پر زیادہ خرچ کرتے تھے۔(فتح الباری1/31)
اسی کا اثر تھا کہ صحابہ کرام اور بزرگانِ دین بالخصوص رمضان المبارک میں سخاوت میں اضافہ کو ترجیح دیا کرتے تھے، ابن عمر رمضان میں افطار یتیموں ، مسکینوں کے ساتھ فرماتے تھے،بیت المال ان کے لئے کثیر مقدار میں نفقہ جاری کرتا تھا پھر بھی کچھ جمع کرکے نہ رکھتے تھے، ایوب بن وائل کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر کے پاس چار ہزار درہم اور ایک چادر آئی، دوسرے دن ایوب نے ابن عمر کو دیکھا کہ وہ بازار میں جانور کے لئے ادھار گھاس خرید رہے ہیں، جب ایوب بن وائل نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ابن عمر نے وہ رقم ایک فقیر کو ہدیہ دے دی۔ (المعجم الوسیط)
امام شافعی فرماتے ہیں: میں لوگوں کے لئے رمضان میں سخاوت کو زیادہ پسند کرتا ہوں، اس میں لوگوں کا فائدہ زیادہ ہے کیوں کہ لوگ عبادتوں میں روزوں میں مشغول ہوتے ہیں(طبقات الشافعیہ) حماد بن ابی سلیمان رمضان کے مہینے میں پانچ سو افراد کو افطار کرواتے، انہیں عید میں ہر ایک کو سو درہم عطا کرتے، محمد بن احمد اصحاب علم وفضل میں ان کا شمار ہے، اہل علم فقراء پر ان کا احسان مشہور تھا، یہ رمضان میں فقراء کے لئے افطار کا سامان مہیا فرماتے۔(طبقات الشافعیہ1/182)
امام زہری فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ تو تلاوت قرآن اور لوگوں کو کھانا کھلانے کا ہے۔
رمضان میں سخاوت کا فائدہ 1...یہ بابر کت مہینہ ہے عامل کے اجر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2...روزہ داروں اور شب بیداروں کی امداد کرنے سے ان کی عبادتوں کے مثل اجر کے ہم بھی مستحق ہوں گے، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا اس کو بھی روزہ دارکے اجر میں کمی کئے بغیر ویسے ہی اجر ملے گا۔ 3...رمضان خو دایسا مہینہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اس مہینہ میں اپنے بندوں پر سخاوت کرتا ہے، رحمت کے ذریعہ ،مغفرت کے ذریعہ ، آگ سے آزادی کے ذریعہ بالخصوص شب قدر میں بندے بھی بندوں پر سخاوت میں مشغول رہیں۔ 4...روزہ اور صدقہ کا اجتماع ہوجائے گا یہ دونوں جنت کو واجب کرنے والے ہیں، ایک حدیث میں آتاہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے بالا خانے ہیں کہ اس کے ظاہری حصے سے اندرونی نظارہ ہوگا اور باطن سے ظاہری نظارہ ہوگا، صحابہ کرام نے سوال کیا وہ کس کے لئے ہوگا یارسول اللہ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے گفت گو عمدہ کی اور کھانا کھلایا، اور روزہ پر مداومت کی، اور را ت میں نماز ادا کی جب کہ لوگ آرام کررہے ہوں، بعض اسلاف کا کہنا ہے کہ نماز انسان کو آدھے راستے تک پہنچادیتی ہے اور روزہ بادشاہ کے دربار تک، اور صدقہ ہاتھ پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں داخل کردیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے سوال کیا کس نے صبح روزے کی حالت میں کی؟ ابو بکر نے فرمایا: میں نے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے سوال کیا کون جنازے کے ساتھ گیا تھا ؟ابو بکر نے فرمایا: میں ، پھر سوال ہوا کہ کس نے صدقہ کیا؟ ا س پر ابو بکر نے جواب دیا : میں نے، پھر سوال کیا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ آپ نے جواب دیا: میں نے،یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیزیں جس میں بھی جمع ہوجائیں وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ 5...نیز صدقہ روزے کے خلل کمی نقصان کو پورا کردیتا ہے، اسی لئے جن افراد سے روزہ نہیں ہوسکتا انہیں فدیہ دینے کا حکم دیا گیا؛ لہٰذا روزے کی کمی کی تکمیل کے لئے صدقہٴ فطر کو واجب قرارد یاگیا، الغرض رمضان المبارک کا معظم مہینہ مالداروں سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں اپنے مالوں سے غرباء کا حق نکالیں اور انہیں پہنچانے کا اہتمام کریں، اور اپنے دلوں سے بے نیازی واستغناء پیدا کرتے ہوئے مال کو راہِ خدا میں لٹادیں، اس لئے کہ مال، تو سال بھر آتا جاتا رہے گا لیکن رمضان کا مبارک مہینہ زندگی میں بار بار نصیب نہیں ہوتا، کم از کم اپنا معمول یہ بنائیں کہ ہم اپنے مال سے فرض زکوٰة کے علاوہ اتناحصہ غرباء پر خرچ کریں گے، اور اس پر عمل بھی کریں ان شاء اللہ بہت زیادہ نفع ہوگا، اس لئے کہ راہِ خدا میں دینا در حقیقت اپنے ہی گھر کو بھر لینا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ ہمیں سخی بناوے، اور ماہِ رمضان سے کما حقہ استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین!
رمضان اورتلاوتِ قرآن
رمضان المبارک کو قرآن کریم سے گہری مناسبت ہے، امام رازی لکھتے ہیں: روزہ اور نزول قرآن کے درمیان گہرا تعلق ہے، جب یہ مہینہ نزولِ قرآن کے ساتھ خاص کیا گیا تو ضروری تھا کہ یہ مہینہ روزوں کے ساتھ بھی خاص ہو۔(تفسیر کبیر3/98) حضرت موسی علیہ السلا م کو جب اللہ تعالیٰ نے کتاب دینے کاارادہ کیاتو انہیں ایک ماہ تک روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر اس کے بعد دس دن کا اضافہ کیا ،اس کے بعد کلام الہٰی عطاکیا گیا؛ اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں طویل قرأت فرماتے ، ایک رات رمضان میں حضرت حذیفہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نیت باندھ لی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورہ بقرہ پڑھی، پھر سورہٴ نساء، پھر سورہٴ آل عمران، کسی بھی آیت تخویف پر سے گذرتے تو رکتے، دو ہی رکعت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ پڑھا تھا کہ حضرت بلال آگئے، نماز کے لیے اذان دے دی،(مسند احمد) امام نسائی نے نقل کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے چار رکعات نماز ادا کی تھی ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسی اہتمام کو دیکھ کر بعض اسلاف رمضان کی تین راتوں میں ختم فرماتے، بعض لوگ ہر ہفتہ ایک قرآن اور بعض افراد ہر دس دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا اہتمام کرتے۔(لطائف المعارف1/11)
قرآن کریم کی تلاوت کے فضائل وفوائد بے شمار ذکر کیے گئے ہیں؛اسی لیے اکابراولیائے کرام تلاوتِ قرآن کا بہت ہی زیادہ اہتمام فرماتے تھے؛ چناں چہ بعض بعض افراد کے تلاوتِ قرآن کے ایسے محیر العقول واقعات ہیں، جنہیں دیکھ کر سوائے حیرانگی کے کچھ نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذا ایسے ہی چند واقعات کو تاریخ کی کتابوں سے یہاں نقل کیا جارہا ہے، جسے پڑھ کر ہم بھی اس ابدی وسرمدی کتاب کی تلاوت کی طرف متوجہ ہوں، اس کی تلاوت کے ذریعہ اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں۔
٭.. امام بخاری… رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے، ان کی امامت فرماتے، ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت فرماتے، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے، ہر دن سحری تک قرآ ن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے، اس طرح تین رات میں قرآن ختم فرماتے اورر مضان کے ہر دن میں ایک قرآن ختم کرتے اور یہ ختم افطار کے موقعہ پر ہوتا اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعاء کا اہتمام کرتے۔ (فتح الباری1/481)
٭..امام احمد… امام احمد دن رات میں سو رکعت نماز پڑھتے تھے، جب کوڑے لگنے سے کمزور ہوئے تو رات دن میں ڈیڑھ سو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے، حالاں کہ عمر اس وقت اسی برس کے قریب تھی، ہر سات دن میں ایک ختم فرماتے، ہر سات راتوں میں ایک قرآن مجید ختم فرماتے، عشاء کی نماز کے بعد تھوڑی دیر سوتے پھرصبح تک نماز دعا میں رہتے، امام احمد نے پانچ حج کئے جس میں تین پیدل تھے اور دو حج سوار ہو کر۔ (صفة الصفوة 1/484)
٭.. زھیر بن محمد…رمضان کے ایک دن ورات میں تین قرآن ختم فرماتے، مکمل رمضان میں 90 دفعہ قرآن ختم کرتے۔ (صفة 1/510)
٭.. ابو العباس بن عطاء…روز انہ ایک قرآن کریم کی تلاوت کرتے، رمضان کے ایک دن ورات میں تین قرآن ختم فرماتے۔(صفة 1/533) (البدایہ 11/164)
٭.. ابو بکر محمد بن علی کنانی…انہوں نے دوران طواف 12 ہزار دفعہ قرآن کریم کی تلاوت کی۔ (ایضا 1/539)
٭.. ابوبکر بن عباس …جب ان کی وفات کا وقت قریب ہوا تو ان کی بہن رونے لگی، آپ نے ان کی جانب دیکھ کر فرمایا کیوں روتی ہو؟ دیکھو گھر کے اس حصے کو !جس میں تمہارے بھائی نے اٹھارہ ہزار دفعہ قرآن کریم کی تلاوت کی ہے۔ (صفة 2/96) اسی طرح ابو بکر نے اپنے فرزند کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کو ضائع نہیں کرے گا، جس نے چالیس سال سے ہر رات قرآن ختم کیاہے۔(ایضا) (البدایہ 10/243) چالیس سال تک پشت کو زمین سے نہیں لگایا،60 سال تک روزانہ ایک ختم کرتے،80 رمضان کے روزے رکھے، وفات 96سال میں ہوئی۔
٭..عبد اللہ بن ا دریس…ان کی وفات کے موقعہ پر ان کی لڑکی رونے لگی، انہوں نے تسلی دی کہ مت رو ، تمہارا والد اس گھر میں چار ہزار دفعہ قرآن مجید کی تلاوت کر چکا ہے۔(صفة 2/98) (البدایہ والنہایہ 10/226)
٭.. محمد بن یوسف البناء…یہ فتوی دینے پر اجرت لیتے تھے اور صرف ایک درہم اپنے لیے خرچ کرتے، بقیہ صدقہ کردیتے، ہر دن ایک دفعہ قرآن مجید ختم فرماتے۔ (صفة الصفوة 2/287)
٭.. عبد العزیز المقدسی…یہ ابدال میں سے ہیں، انہوں نے بلوغ سے ہی گناہوں سے بچنے کی بڑی فکر کی اور اس کا اہتمام کرتے رہے، ان کا بیان ہے کہ بلوغ سے لے کر اخیر عمر تک ان کی لغزشیں(36) رہیں، نیز انہوں نے ان میں سے ہر غلطی پر ایک لاکھ دفعہ استغفار کیا اور ہر غلطی کے لیے ایک ہزار رکعت نماز ادا کی، ہر غلطی کی جانب سے ایک دفعہ قرآن ختم کیا ہے، اس کے باوجود بھی میں اللہ کے غصہ سے مامون نہیں کہ وہ میری پکڑ فرمادے اور میں توبہ کی قبولیت کی امیدپر ہوں۔(صفة 2/395)
قرآن کریم کی تلاوت کوئی مقرر نہیں اپنے نشاط وقوت پر موقوف ہے، نیز حضرت عثمان سے مروی ہے کہ وہ ہر رات ایک قرآن ختم فرماتے، نیز یہی عمل سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے، اسی لیے چالیس دن سے تاخیرمیں ایک ختم میں کرنا بلا عذر مکروہ ہے۔ (غذاء الالباب 2/153)
٭.. شیخ علی بن الحسن شافعی…حالتِ احرام میں سفر حج کے دوران ان کا انتقال ہوا، بہت زیادہ اونچی ہمت والے تھے، کئی مرتبہ حج کیے، ایک ہزار سے زائد دفعہ عمرہ کیے، چار ہزار سے زائد دفعہ تلاوت کے ذریعہ قرآن کو ختم کیا، ہر رات ستر مرتبہ کعبة اللہ کاطواف کرتے۔ (مرآة الجنان2/252)
٭.. ولید بن عبد الملک…یہ اپنے ظلم فسق وفجور میں مشہور تھا، اس کے باوجود قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرتا تھا، تین دن میں ایک قرآن ختم کرتا اور رمضان میں سترہ دفعہ قرآن ختم کردیتا (مرآة الجنان1/91)
٭.. مامون الرشید…یہ عباسی خلفاء کا بہترین شخص تھا ،اس میں کئی خوبیاں جمع تھیں، لیکن یہ خلقِ قرآن کے فتنہ سے متاثر ہوا، اس کی بناء پر کئی علماء پر ظلم بھی کیا، اس کے بارے میں منقول ہے کہ بعض دفعہ رمضان میں 33 دفعہ قرآن حکیم ختم کرتا۔(تاریخ الخلفاء1/126)
٭.. محمد بن علی بن محمد ابو جعفر…یہ ہمدان کے رہنے والے ہیں، کئی دفعہ انہوں نے حج کیا،قرآن کریم بہت عمدہ آواز میں تلاوت فرماتے، مسجد نبوی میں ہر سال ایک رات میں روضہ کے پاس کھڑے ہو کر قرآن کریم ختم فرماتے۔ (المنتظم 5/100)
٭.. عبد الملک بن الحسن بن احمد…حدیث کے رواة میں سے ہیں، ان کا شمار بڑے زاہدوں میں ہے ہر رات ایک قرآن کریم ختم فرماتے، کثرت سے روزے رکھتے۔ (المنتظم 4/483) (البدایہ 12/147)
٭.. صالح بن محمد ابو الفضل شیرازی… یہ قاری قرآن تھے، یہ فرماتے تھے کہ میں نے چار ہزاردفعہ قرآن ختم کئے ہیں۔(المنتظم 4/22)
٭..ابو بکر بن احمد بن عمر البغدادی…یہ بڑے عبادت گذار اور صاحب ورع وتقوی ہیں، یہ ایک سال مکہ مکرمہ میں قیام کیے ہوئے رہے، جس میں انہوں نے ایک ہزار دفعہ قرآن کریم ختم کیا۔ (الدارس فی تاریخ المدارس 1/414)
٭..ابو الحسن سلمی…ابن الحاجب کہتے ہیں کہ ان کا شمار بڑے علماء میں ہے، یہ فقیہ تھے، دن ورات میں ایک دفعہ قرآن کریم ختم فرماتے، (الدارس فی تاریخ المدارس1/79)
٭..ابو علی عبد الرحیم بن القاضی الاشرف ابی المجد…یہ صاحب ثروت تھے، بہت زیادہ صدقہ وخیرات کا اہتمام فرماتے، عبادت وریاضت قابل رشک تھی، ہر دن ورات میں ایک دفعہ مکمل قرآن کریم ختم کرنے کی پابندی فرماتے۔ (البدایہ 13/31)
٭..شیخ ابو الفرج ابن الجوزی… معروف عالم دین ہیں ،بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے وعظ میں کئی کئی لوگ تائب ہوجاتے، تقریبا اسی (80) سال عمر ہوئی، ہر دن ورات میں ایک دفعہ قرآن ختم فرماتے۔ (البدایہ 13/13)
٭..سعید بن جبیر…حضرت ابن عباس کے عظیم شاگرد وں میں سے ہیں، تفسیر فقہ اور دیگر علوم کے امام ہیں، صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ان کی ملاقات ہے، مغرب اور عشاء کے درمیان نمازمیں ایک قرآن کریم روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے ختم فرماتے، پھر کعبة اللہ میں بیٹھ کر تلاوت کرتے ہوئے ختم فرماتے، بعض دفعہ کعبة اللہ میں ایک ہی رکعت میں ختم فرماتے، ان کے سلسلہ میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات میں کعبة اللہ میں نماز میں ڈھائی قرآن تلاوت فرمائی۔ (البدایہ 9/116)
٭..امام ابو حنیفہ…امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب ہر دن ورات میں ایک قرآن ختم فرماتے، جب رمضان کا مہینہ ہوتا تو عید الفطر ولیلة الفطر کو ملا کر62 قرآن ختم فرماتے۔ (اخبار ابی حنیفہ1/41)
خارجہ کہتے ہیں کہ ایک رکعت میں قرآن کریم ختم کرنا چار ائمہ کے سلسلہ میں ہے، عثمان بن عفان، تمیم داری ،سعید بن جبیر اور امام ابو حنیفہ ، نیز یحییٰ بن نضیر کے سلسلہ میں بھی ہے۔ (مغانی الاخیار5/161)
٭..امام شافعی…امام شافعی رمضان کے مہینہ میں ساٹھ(60) دفعہ قرآن کریم ختم کرتے۔ (نداء الریان 1/198)
٭..اسود بن یزید…اسود رمضان میں ہر دو راتوں میں ایک قرآن ختم فرماتے، رمضان کے علاوہ نو(9) راتوں میں ہمیشہ ختم فرماتے۔ (نداء الریان 1/197)
٭..قتادة…سات دن میں ایک دفعہ ہمیشہ قرآن ختم فرماتے، رمضان میں تین دن میں ایک دفعہ ختم فرماتے، جب عشرہٴ اخیر آتا ہر رات میں ایک دفعہ ختم فرماتے۔ (نداء الریان1/198)
٭..نخعی…عشرہٴ اخیر میں ہر رات میں ایک ختم فرماتے اور بقیہ مہینہ میں تین دن میں ایک دفعہ ختم فرماتے۔ (نداء الریان1/198)
٭..سعدبن ابراہیم…یہ ہر دن ایک قرآن ختم فرماتے۔ (نداء الریان1/198)
٭..امام زہری… جب رمضان آتاتو کہتے کہ یہ تلاوتِ قرآن اور کھانا کھلانے کا مہینہ ہے۔ (نداء الریان1/199)س
٭..سفیان ثوری…رمضان آتا تو دیگر عبادات چھوڑ کر قرآن کی تلاوت کی طرف متوجہ ہوتے۔
٭..ابن عون…بکار السیرینی کہتے ہیں کہ ابن عون ایک دن روزہ رکھتے، ایک دن افطار کرتے، میں ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رہا، بہترین خوش بو استعمال کرتے، نرم کپڑا پہنتے، ہر ہفتہ ایک دفعہ قرآن ختم فرماتے۔ (تاریخ الاسلام للذہبی3/132)
٭..ابن عمار… ابن عمار ہر تین دن میں ایک ختم فرماتے۔ (تاریخ الاسلام للذہبی4/267)
٭..شیخ علی بن الحسین… بڑے پُر ہمت شافعی عالم دین ہیں، کئی مرتبہ حج کیے ہیں، ان کے سلسلہ میں مروی ہے کہ ایک ہزار سے زائد عمرہ ادا کیے تھے، چار ہزار دفعہ سے زیادہ قرآن کریم ختم کیے، ہر رات کئی کئی مرتبہ طواف فرماتے تھے، ان کا انتقال حج کے احرام کی حالت میں ہوا۔ (مرآة الجنان2/252)
٭..امام مالک…ابن عبد الحکیم کہتے ہیں کہ جب رمضان آجاتا امام مالک اہل علم کی مجالس ترک کردیتے اور حدیث کا پڑھنا پڑھانا موقوف کردیتے تلاوتِ قرآن کی جانب متوجہ ہوجاتے۔(لطائف 1/172)
٭..شیخ الحدیث زکریا…ماضی قریب کے وہ عظیم بزرگ ہیں جن کی اصلاحی وعلمی وحدیثی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں، ان کے سلسلہ میں مذکور ہے کہ 38ھ میں ماہِ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا، جو تقریبا 80ھ تک رہا، بلکہ اس کے بعد تک بھی جاری رہا۔ (آپ بیتی 2/67)
ایک حکیم صاحب حضرت شیخ الحدیث صاحب سے ملاقات کے لیے ماہِ رمضان میں آئے، لیکن شام تک وہ تلاوت میں اور اپنے اشغال ہی میں رہے، یہ دیکھ کر آخر کار وہ یہ جملہ کہہ کر گئے، رمضان اللہ کے فضل سے ہمارے یہاں بھی آتا ہے مگر یوں بخار کی طرح کہیں نہیں آتا۔ (ایضا 2/69)
نیز شیخ الحدیث نے اپنی دادی صاحبہ کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ حافظہ تھیں، خانگی مشاغل میں کھانا پکانے کے علاوہ روزانہ ایک منزل پڑھنے کا معمول تھا اور رمضان المبارک میں روز انہ چالیس پارے تلاوت کا معمول تھا۔(آپ بیتی 2/62)
ایسے ہی عاشقین قرآن کے سلسلہ میں وہیب بن ورد کا ایک اقتباس نقل کرنا مناسب ہے کہ ایک شخص نے وہیب سے سوال کیا کہ کیا آپ رات میں سوتے نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کے عجائبات مجھے سونے سے روک د یتے ہیں۔ ایک شخص دوماہ تک آپ کے ساتھ رہا، انہیں سوتا ہوا نہیں دیکھا، اس نے سوال کیا کہ کیا ہوا آپ سوتے کیوں نہیں؟ انہوں نے جواب دیا قرآن کریم کا ایک اعجوبہ ختم نہیں ہوتاکہ دوسرا کھل جاتاہے، قرآن کریم یاد رکھ کر بھی سونے والے کے سلسلہ میں احمد ابی الحوار کہتے ہیں: میں قرآن کریم پڑھتاہوں، اس کی آیت کریمہ میں غوروفکر کرتاہوں تو میری عقل حیران رہ جاتی ہے، تعجب ہے ان حفاظ قرآن پر کہ کیسے انہیں نیند آتی ہے کیسے انہیں گنجائش ہوتی ہے اس بات کی کہ وہ دنیاوی مصروفیات میں مشغول رہیں، اس حال میں کہ وہ قرآن کریم پڑھتے ہوں، بہر حال اگر وہ تلاوت کردہ کو سمجھ لیتے اور اس کا حق جانتے تو اس میں لذت محسوس ہوتی تو ان کی نیندیں اڑ جاتیں۔(لطائف المعارف 1/173)
الغرض اکابر کا قرآن کریم سے عشق ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم بھی قرآن کریم سے اپنے لگاوٴ میں اضافہ کریں اور قرآن کریم کی تلاوت کو اپنی ذمہ داری سمجھیں، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین!
رمضان کو کیسے قیمتی بنائیں
رمضان کے مبارک مہینے کو کیسے قیمتی بنایا جائے؟ اس میں کون سے اعمال اختیار کیے جائیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر رمضان کی آمد کے ساتھ ہر مسلمان مرد وعورت کے ذہن میں اٹھتا ہے، بہت اہم ،انتہائی قیمتی اور اہمیت کا حامل سوال ہے، رمضان کے مہینے کو قیمتی بنانے کے لیے جہاں فرض روزہ اور پانچ وقت کی نماز باجماعت کا اہتمام اور تمام معاصی کا ترک کرنا ضروری ہے، وہیں ایسے اعمال ، اسباب ووسائل کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے جن سے یہ مبارک مہینہ مزیدقیمتی بن جائے، ذیل میں اختصار کے ساتھ ان وسائل واسباب کا تذکرہ کرتے ہیں جن کو اختیار کرکے ہر مسلمان اس مہینے کو قیمتی بنا سکتا ہے:
افطار کروانا
اس مبارک مہینے میں ہر مسلمان حسب استطاعت روزہ داروں کو افطار کرواکر دہرا اجر حاصل کرسکتا ہے، چناں چہ حضرت زید بن خالدجھنی رضی الله عنہ نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا اس کو روزہ دار کے مثل اجر ملے گااور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ)
خیر کے کاموں میں خرچ
خیر کے کاموں میں خرچ کے ذریعہ سے جہاں ایک طرف نیکی کے کاموں میں تعاون اور مستحق لوگوں کی امداد ہوتی ہے تو دوسری طرف رمضان میں عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اجر حاصل ہوتا ہے۔
مکمل یکسوئی
رمضان کے مبارک مہینے کوقیمتی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم اس مہینے میں گھر کے تمام افراد پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں موجود اسباب معاصی سے اپنے آپ کو دور رکھیں، تاکہ یکسو ہوکر الله کی عبادت میں مشغول ہوسکیں، سلف صالحین رحمہم الله تو اس مہینے میں قرآن وحدیث کی تعلیم کو موقوف کردیتے تھے، تاکہ قرآن کی تلاوت، اس میں غور وفکر اور تدبر، عبادت اور قیام اللیل یعنی تہجد کے لیے مکمل طور سے فارغ ہوجائیں، تو کیا ہم لوگ ایک مہینہ کے لیے اپنے آپ کو میڈیا کے ایمان کش سیلاب سے خود کو دور نہیں رکھ سکتے!۔
دعا کا اہتمام
ویسے تو رمضان کا لمحہ لمحہ دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے،لیکن افطار سے پہلے کے چند لمحات بہت ہی قیمتی ہوتے ہیں ،یہ دعا کی قبولیت کے یقینی اوقات میں سے ہیں، بجائے فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے اس وقت کو قیمتی جان کر دعامیں مصروف ہو جائیں، اپنے لیے اور تمام امت مسلمہ کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سوال کریں۔
والدین کی اطاعت
رمضان کو قیمتی بنانے کا ایک بہت ہی اہم وسیلہ اور ذریعہ والدین کی اطاعت وفرماں برداری ہے، کوشش کریں کہ اس مہینے میں خاص طور سے والدین کے قریب رہیں، ان کی خدمت کریں ، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، ان کو ہر طرح کی راحت وسہولت پہنچانے کی فکر کریں۔
مسواک کا اہتمام
مسواک کا اہتمام کریں، مسواک جیسے پورے سال میں سنت ہے، ایسے ہی رمضان میں اس کا کرنا سنت ہے، بلکہ عام دنوں کے مقابلے میں اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
رمضان میں عمرہ کرنا
رمضان میں عمرہ کرنا ایک بہت بڑا عمل ہے ، ثواب کے اعتبار سے اس کا اجر ایک حج کے برابر ہے، اس میں بھی لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، اس لئے کوشش کریں کہ ائمہ مساجد اور علماء سے مشاورت کے بعد اس عمل کو انجام دیں۔
دعوت الی الله
اس مہینے میں دعوت الی الله کے عمل کو اہتمام و خصوصیت کے ساتھ انجام دیں، لوگوں کو مساجد کی طرف اور اعمال خیر کی طرف متوجہ کریں۔
اہل ثروت کے لئے
اہل ثروت واصحاب خیر حضرات معتمد علماء کرام کی دینی کتب خاص کر رمضان کے مسائل وفضائل سے متعلق کتابیں خرید کر مسلمانوں میں تقسیم کریں، تاکہ معاشرے میں رمضان کے مسائل وفضائل کے معلوم کرنے کی ایک عام فضا قائم ہوجائے۔
تلاوت قران کریم
قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں، لیکن کوشش کریں کہ قرآن کریم کو صحیح اور درست پڑھیں ، تلفظ اور ادائیگی میں فحش غلطیوں سے اجتناب کریں، اگر پہلے سے پڑھا ہوا نہیں تو کوشش اس بات کی کریں کہ اس مہینے میں قرآن پاک کے حوالے سے اتنی محنت کریں کہ قرآن صحیح پڑھنا آجائے۔
ما تحتوں کی فکر
اپنی اولاد ، بہن بھائیوں اور اپنے ما تحتوں کی فکر کریں کہ وہ بھی اس مہینے کو قیمتی بنائیں ، خدانخواستہ ان کے اوقات کسی غلط اور لغو کام میں صرف نہ ہوجائیں، پیار، محبت ،ترغیب اور بقدر ضرورت ترہیب کے ساتھ ان کو اعمال خیر کی طرف متوجہ کریں۔
نماز پنج گانہ باجماعت کا اہتمام
نماز پنج گانہ باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں، عام طور سے مغرب میں افطار کی وجہ سے اور فجر میں نیند کے غلبہ کی وجہ سے جماعت کی نماز سے غفلت برتی جاتی ہے، یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے، تھوڑی سی ہمت کرکے ہم خود بھی اور ترغیب کے ذریعے دوسروں کو بھی اس غفلت سے بچا سکتے ہیں، فرائض باجماعت ادا کرنے کے اہتمام کے علاوہ سنن اور نوافل کا بھی خاص اہتمام کریں، اشراق، چاشت ، اوابین اور تہجد کے علاوہ بھی کچھ وقت نوافل کے لیے مخصوص کردیں، کیوں کہ رمضان میں نفل کا ثواب فرائض کے بقدر کردیا جاتا ہے۔
وقت سحر اعمال کا اہتمام
سحری کا وقت بہت ہی قیمتی وقت ہوتا ہے، اس وقت الله کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، ایک تو سحری کھانے کا اہتمام ہو، اس کے علاوہ کچھ وقت بچا کر اذکار ، وظائف اور استغفار میں لگائیں، اس وقت استغفار کرنا متقیوں اور اہل جنت کی صفات میں سے ہے۔
خواتین کے لئے
خواتین رمضان کی مبارک گھڑیوں کو صرف کھانے پکانے میں صرف نہ کریں، اس میں کوئی شک نہیں کہ افطاری وسحری تیار کرنا باعث اجر وثواب ہے، لیکن بقدر ضرورت وقت اس میں صرف کریں اور اس کے علاوہ اوقات کو اعمال صالحہ میں صرف کریں۔
بازاروں میں فضول گھومنے پھرنے سے اجتناب
رمضان میں بہت سارے خواتین وحضرات بازاروں میں گھوم پھر کر کپڑوں، جوتوں اوردیگر اشیاء کی خریداری کے عنوان سے اپنے قیمتی اوقات ضائع کر تے ہیں، اعمال صالحہ سے محروم ہوجاتے ہیں، رمضان سے متعلق جتنی ضروریات ہیں وہ اس مہینے کے شروع ہونے سے پہلے ہی خرید لیں اور باقی اگر رمضان میں کوئی ضرورت ہو تو بقدر ضرورت چیزیں خرید کر فورا گھر لوٹ آئیں، بازاروں اور شاپنگ مالوں میں فضول گھوم پھر کر اپنا قیمتی وقت ضائع اور بربادمت کریں۔
بیس رکعات تراویح کا اہتمام
نماز تراویح اور اعتکاف کا مکمل اہتمام کریں، بیس رکعات تروایح پرخیر القرون سے لے کر آج تک تمام امت مسلمہ متفق ہے، سستی اور غفلت یا کسی کے شک میں ڈالنے سے کچھ رکعات(مثلاآٹھ رکعات) پڑھ کر جان نہ چھڑائیں، بلکہ مکمل ۲۰ رکعات پڑھنے کا اہتمام کریں، اس طرح سستی کرنا بڑی محرومی کی بات ہے۔
خواتین کی تراویح و اعتکاف
خواتین اپنے گھروں میں فرض نمازوں کے ساتھ تراویح اور اعتکاف کا بھی اہتمام کریں، تراویح اور اعتکاف کا حکم جیسے مردوں کے لیے ہے ، ایسے ہی خواتین کے لیے بھی ہے۔
بچوں کو نماز روزہ کا عادی بنائیں
کوشش کریں کے سات سال کے بچوں کو نماز اور روزہ کا عادی بنائیں ان کی حوصلہ افزائی کریں،ہمت دلائیں تاکہ وہ بھی اس مہینے کی برکات سے مالا مال ہوجائیں۔
حضرت ربیع بنت معوز رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم رمضان میں اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے تھے اور ان کو مشغول رکھنے لیے کھلونے بنا کر دیتے تھے۔
یہ چند امور رمضان کے مہینے کو قیمتی بنانے کے حوالے سے قابل توجہ ہیں، ان کے علاوہ بھی ائمہ مساجد اور مستند علماء سے پوچھ پوچھ کر اپنا رمضان قیمتی بناسکتے ہیں، اللہ تعالی سب مسلمانوں کو اس مبارک ماہ کی قدر نصیب فرمادے۔(آمین)
سحری سے اشراق تک کے مسنون اعمال
٭... فجرکے قریب سحری کھانا سنت ہے اور یہ کھانا برکت والا ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”تسحَّرُوا فإن فی السحور برکة“․ (صحیح البخاری۔ باب برکة السحور )۔
ترجمہ: سحری کھایا کرو، کیوں کہ سحری کا کھانا برکت والا ہوتاہے۔
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ۔کسی نے دریافت کیا کہ سحری اور نماز میں کتنا فاصلہ تھا ؟ حضرت زید بن ثابت نے فرمایا: جتنی دیر میں پچاس آیات پڑھی جائیں۔( صحیح البخاری، باب وقت الفجر)
٭... جب فجرکے وقت مؤذن کی آواز سنیں تو اس کے ساتھ اذان کے الفاظ دہراتے جائیں ،پھر یہ دعا پڑھیں:”اللّہم ربَّ ہذہ الدَّعوة التَّامَّة والصلاةِ القآئمةِ آتِ محمَّداً الوَسیلة َوالفَضیلة وَابعثہُ مقاما محموداً الذی وعدتہ“․ ( صحیح البخاری، باب الدعاء عند النداء)
اس دعا کے پڑھنے سے قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہونے کی بڑی امید ہے ۔جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں بشارت آئی ہے۔
بیہقی کی روایت میں اس دعا کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں :إنک لاتخلف المیعاد ․ لہٰذا ان کلمات کو بھی شامل کرلینا بہتر ہے۔
نوٹ : یہ دعا ہراذان کے بعد پڑھنا سنت ہے۔
اس کے بعد فجر کی دو سنتیں اداکریں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :” رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“․ (صحیح مسلم، باب استحباب رکعتی الفجر)۔
ترجمہ: فجر کی دو سنتیں دنیا وما فیہا سے بہترہیں۔
٭... اذان واقامت کے درمیان دعا مانگیں ․ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”الدعاء لایُرد بین الأذان والإقامة“․ (رواہ الترمذی وقال: حدیث حسن)۔
ترجمہ: اذان واقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی۔
٭... فجر کی نماز باجماعت مسجد میں اداکریں ․․ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ عشا اور فجر کی نماز کا کتنا ثواب ہے تو گھٹنوں کے بل بھی چل کرآتے۔ (بخاری ومسلم)
٭... خواتین کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ گھرپر نماز ادا کریں، نمازکو صحیح وقت پر اداکریں اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھیں۔
٭... نماز فجر کے بعد نماز کی جگہ بیٹھ کر ذِکرُ اللہ میں مشغول رہیں،بہترین ذِکر‘ تلاوت قرآن ہے، لہٰذا کم ازکم آدھا پار ہ تلاوت کرلیں اور بقیہ آدھا کسی اور وقت پور اکرلیں، تاکہ رمضان شریف میں کم ازکم ایک مرتبہ پورے قرآن مجیدکا دور پورا ہوجائے۔
پُورے حج وعمرہ کا ثواب
رحمتِ عالم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے نماز فجر ادا کی، پھر اشراق تک نماز کی جگہ بیٹھ کر ذکر اللہ میں مشغول رہا اس کے بعد اشراق کی دو رکعتیں پڑھ لیں، تواس کو حج وعمرہ جیسا ثواب ملے گا ۔اس کے بعدآپ صلی الله علیہ وسلم نے تین بار فرمایاکہ پورے حج وعمرہ کا ثواب ملے گا۔(رواہ الترمذي وقال حدیث حسن)
دوسری حدیث میں ہے کہ ان دو رکعتوں کے پڑھنے سے جسم کے تین سو ساٹھ جوڑوں کی طرف سے صدقہ ادا ہوجاتا ہے۔(رواہ مسلم فی باب استحباب صلاة الضحی)․
یہ فضیلت خواتین بھی حاصل کریں، نماز کی جگہ بیٹھ کر ذکر اللہ میں مشغول رہیں، اس کے بعد اشراق کی دو رکعتیں پڑھ لیں اور حج وعمرہ کا ثواب مفت میں کمائیں۔
اشراق سے عصر تک کے اعمال
٭... اگر آرام کریں تو یہ نیت کرلیں کہ جسمانی اور دماغی تھکاوٹ دور ہوگی تو دوبار ہ اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہو جاؤں گا تو یہ آرام بھی عبادت میں لکھا جائے گا ۔
٭... اور اگرڈیوٹی پر جانا ہو تو یہ نیت کرلے کہ رزق حلال کماؤں گا اور اہل وعیال کے حقوق ادا کروں گا تو ڈیوٹی کے تمام اوقات بھی عبادت میں لکھے جائیں گے، البتہ یہ خیال رہے کہ اس دوران زبان آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور تمام اعضا گناہوں سے محفوظ رہیں، خاص کر غیبت، جھوٹ، تمسخر اور ایذا رسانی اور بد نظری سے پور ااجتناب کرے۔
یہی فضیلت تاجرکو بھی ملے گی ،اگر نیت درست ہو، رزق حلال حاصل کرنے کی نیت ہو تجارت میں جھوٹ ا ور خیانت اور وعدہ خلافی سے بچے ۔
٭... اور دینی علوم حاصل کرنے والے طالب علم کو بھی یہی فضیلت ملے گی ،بشرطے کہ علم حاصل کرنے کا مقصد اللہ تعالی کو راضی کرنا ہواور میڈیکل وغیرہ کے طلبہ بھی اگر نیت رکھیں کہ اس علم کو حاصل کرکے رزق حلال کے حصول کاذریعہ بنائیں گے اور اپنے مسلمان بھائیوں اور انسانیت کی خدمت کریں گے تو ان کا جو وقت طلبِ علم میں صرف ہوگا وہ بھی ان شاء اللہ تعالی باعث اجر ہوگا۔
٭... ظہر تک آرام یا کام کاج کرنے کے بعد مؤذن کی آواز سنیں تو اس کے ساتھ اذان کے الفاظ دہراتے جائیں، پھروہی دعا پڑھیں جو پہلے لکھی جاچکی ہے۔اس کے بعد چار رکعت سنت مؤکدہ اداکریں اور اذان واقامت کے درمیان دُعا میں مشغول رہیں یا تلاوت وذِکر کریں ․ظہر کی نمازباجماعت مسجد میں اداکریں‘ صف اول اور تکبیرئہ اولی کی فضیلت حاصل کریں،اس کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ پڑھیں۔
٭... خواتین کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ گھرپر نماز ادا کریں، نمازکو صحیح وقت پر اداکریں اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھیں۔
٭... ظہرکے بعد قیلولہ کریں، اس میں اتباع سنت کی نیت ہونی چاہیے اور اگر آرام کا موقع نہ ہو تو کوئی بھی جائز کام کر سکتے ہیں۔ گناہوں سے بچنے کا پورااہتمام کریں، غیبت ‘ جھوٹ ‘تمسخر اور ایذا رسانی اور بد نظری سے پور ااجتناب کریں۔
٭... عصر کے لیے جب مؤذن پکارے تو اس کے ساتھ اذان کے الفاظ دہراتے جائیں، پھروہی دعا پڑھیں جو پہلے لکھی جاچکی ہے۔اس کے بعد چار رکعت سنت غیرمؤکدہ اداکریں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالی اس شخص پر رحمت نازل فرمائے جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے۔ (رواہ مسلم )․یہ فضیلت مرد وعورت سب کے لیے ہے۔
اور اذان واقامت کے درمیان دعا میں مشغول رہیں یا تلاوت وذکر کریں، مرد حضرات عصرکی نمازباجماعت مسجد میں اداکریں‘ صفِ اول اور تکبیرئہ اولی کی فضیلت حاصل کریں۔
خواتین کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ گھرپر نماز ادا کریں، اذان واقامت کے درمیان دُعا میں مشغول رہیں یا تلاوت وذکر کریں،عصرکی نمازکو صحیح وقت پر اداکریں اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھیں․۔
عصر کے بعد سے تراویح تک کے اعمال
٭... قرآن مجید کی تلاوت کریں یا استراحت یعنی آرام کریں ۔ اگر جمعہ کا دن ہو تو مغرب تک درود شریف پڑھنے میں مصروف رہیں، اس وجہ سے کہ جمعہ دن درود شریف پڑھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
روزہ داروں کو افطار کرانے کے لیے حسب توفیق کوشش کریں، مسجد میں افطاری پہنچائیں۔
٭... خواتین گھر کے کام کو ثواب کی نیت سے کریں، اپنے گھر والوں کے لیے جو افطاری وغیرہ تیار کریں تو دل سے یقین ر کھیں کہ ان شاء اللہ تعالی ان تمام روزہ داروں کو افطار کرانے کا ثواب مجھے ملے گا، جو میری تیارکی ہوئی افطاری کھائیں گے ۔
٭... افطاری کے وقت دعا مانگیں۔ رحمتِ عالم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے بلا شبہ افطاری کے وقت روزہ دار کے لیے ایک خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی۔(رواہ ابن ماجہ، باب فی الصائم لاترد دعوتہ)۔
٭... افطاری کے وقت یہ دعا پڑھیں: اللّہم لَکَ صُمتُ وعلی رِزقِک أَفطَرتُ ․ (رواہ ابو داود، باب القول عند الإفطار)۔
ترجمہ:اے اللہ! میں نے تیری رضا کے لیے روزہ رکھا اورتیرے دئیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
اور افطاری کے بعد یہ دعاپڑھیں :ذَہَبَ الظَّمأُ وابتَلَّتِ العُروقُ وثَبَتَ الأجرُ إن شاء اللہ۔(رواہ ابو داود، باب القول عند الإفطار)
ترجمہ: پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہوگئیں اور اور اجر ثابت ہوگیا ان شاء اللہ۔
٭... مرد حضرات مغرب کی نمازباجماعت مسجد میں اداکریں،اس کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ پڑھیں اور خواتین گھر میں نمازپڑھیں۔
٭... شام کے مسنون اذکار اور دعائیں پڑھیں اور اللہ تعالی کا شکر اداکریں کہ آج کا روزہ اس کی دی ہوئی توفیق سے پورا ہوا ۔
بیوی بچوں سے ہنسنا بولنا بھی ثواب ہے
٭... اپنے بیوی بچوں سے شفقت ومحبت کے ساتھ گفتگو کریں، ہنسیں بولیں، بچوں سے شفقت والفت کا اظہار کریں۔ رحمتِ عالم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:تم میں بہترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہو ۔(رواہ الترمذی، وقال: حسن صحیح)۔
مرد حضرات عشا کی نمازباجماعت مسجد میں اداکریں، اس کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ پڑھیں اور تراویح پڑھیں اور خواتین گھر میں نمازپڑھیں، اگر فتنہ کا خوف نہ ہو تو مسجد جاکر بھی تراویح پڑھ سکتی ہیں، بشرطے کہ پردہ کے اہتمام کے ساتھ جائیں اور خوش بو استعمال نہ کریں۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:جس نے رمضان کی راتوں میں نماز میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (رواہ الترمذی، وقال: حسن صحیح)۔
تراویح کے بعد سے سحری تک کے اعمال
٭... تراویح کے بعد چاہے آرام کریں یا کوئی بھی جائز مصروفیت اختیار کریں صرف اتنا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کوئی گناہ سر زد نہ ہو، تو آپ کی پوری رات عبادت میں لکھی جائے گی غیبت ، جھوٹ اور بد نظری سے پور ااجتناب کریں۔ رمضان کی مقدس راتوں کو فلم بینی اور لغو باتوں میں ضائع نہ کریں۔
٭... فجر سے پہلے رات کا آخری تہائی حصہ، جو تہجد کا وقت ہے، اس میں عبادت اور دعا میں مصروف ہو جائیں اس وقت اللہ تعالی خود اپنے بندوں سے فرماتے ہیں کہ ہے کوئی مانگنے والا میں اسے عطا کروں ؟ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار میں اس کی مغفرت کردوں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والے میں اس کی توبہ قبول کرلوں․(صحیح الخاری، باب الدعاء والصلاة من آخر اللیل)۔
٭... آپ پختہ عزم کرلیں کہ باقی زندگی غفلت اور اللہ تعالی کی نا فرمانی میں برباد نہ کروں گا ․کیوں کہ گناہوں وا لی زندگی بے کیف اور پریشانیوں سے بھری ہوئی ہے اور اللہ تعالی کی اطاعت وفرماں برداری میں دونوں جہاں کا لطف ہے۔
نوٹ: جو اعمال بیان ہوئے ہیں ان میں سحری، افطاری اور تراویح کے علاوہ سب اعمال پورے سال انجام دینے والے ہیں۔
آخری عشرہ کے خاص اعمال
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ازار مبارک کس لیتے تھے اور رات بھر عبادت میں جاگتے تھے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے․(صحیح البخاری، باب العمل فی العشر الأواخر)․
٭... اگر ہو سکے تو آخری عشرہ کا اعتکاف کرلیں، یہ اس عشرہ کی خاص سنت ہے ۔
٭... اگر اعتکاف نہ کر سکیں تو کم ازکم ان مقدس راتوں میں خوب زیادہ عبادت وتلاوت کریں ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آخری عشرہ میں عبادت کا اور زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ (صحیح الخاری)
٭... اگر زیادہ عبادت کی توفیق نہ ہوتو کم ازکم اتنا تو کریں کہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کریں اورفرائض اور واجبات سے غفلت نہ برتیں۔
واضح رہے کہ فرائض اور واجبات کی فضیلت نفلی عبادات کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے، ان سے اللہ تعالی کا بہت قرب حاصل ہوتاہے ان کے بعد نفلی عبادات کا نمبر ہے ․بہت سے لوگ فرض نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور نوافل بہت شوق سے پڑھتے ہیں․بلا شبہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوتاہے، لیکن فرائض کی ادائیگی کے بعدنوافل کا درجہ ہے․ کیوں کہ فرائض سے غفلت برتنا فسق ہے ۔
زندگی میں تبدیلی لانے کا آسان ترین نسخہ
دین داری اور تقوی والی زندگی حاصل کرنے کا سب سے سہل اورآسان طریقہ یہ ہے کہ انسان صالحین اور متقین کی صحبت اختیار کرلے، صحبت صالحین غفلت کا بہترین علاج ہے، وہ حضرات جو خود متبع سنت ہوں اورقرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوں، ہر عمل میں جائز وناجائز کا خیال کرتے ہوں، اللہ تعالی سے ڈرنے والے ہوں ان کے دل فکر آخرت سے لبریز ہوں جب ایسے لوگوں سے تعلق اور دوستی ہوگی تو خود بھی انسان ان شاء اللہ تعالی ویسا ہی ہو جائے گا ‘کسی عالمِ ربانی کو اپنا مشیر بنائیں،جو اپنی تربیت کسی مصلح سے کراچکا ہو ‘ زندگی کے تمام امور میں ان سے پوچھ کراور مشورہ کرکے عمل کرے اور یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے۔صالحین کے قافلہ میں شامل ہوجانا بڑی سمجھ داری اور سعادت کی بات ہے۔
نہایت اہم بات اگر کوئی شخص فرائض اور واجبات اور سنت موٴکدہ کی پابندی کرلے اور گناہوں سے بچتا رہے اور حقوق العباد کو بھی ضائع نہ کرے تو وہ اللہ تعالی کا ولی ہے اوروہ ان شاء اللہ تعالی ضروررمضان شریف کی برکتوں سے مالا مال ہوگا۔
دعا
اے اللہ! ہمیں اپنے فرماں بردار اور مقبول بندوں شامل فرما لیجیے اور ہمارے چھوٹے بڑے سب گناہ معاف فرما دیجیے اور رمضان المبارک کی برکتوں سے خوب نوازئیے اور عافیت والی زندگی عطا فرمائیے اوردنیا سے اس حال میں اٹھائیے کہ آپ ہم سے راضی ہوں اورحسن خاتمہ عطا فرمائیے۔میدان حشر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیے اورہمارے ساتھ معافی اور درگزر کا معاملہ فرمائیے۔آمین۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے خصوصی فضائل
اسلام کی پانچ بنیادی تعلیمات میں توحید، نماز، زکاة اور حج کے ساتھ ماہ رمضان کے روزوں کا بھی شمار ہے ۔ ماہ رمضان بڑی فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اہل ایمان کی طرف اللہ تعالی کی خصوصی رحمتیں متوجہ ہوتی ہیں۔ احادیث و آثار میں رمضان شریف کے بڑے فضائل اور برکات مذکور ہیں۔ احادیث کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک پر خصوصی رنگ غالب ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کاہے، دوسرا عشرہ مغفرت کااور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا۔ (صحیح ابن خزیمة ، حدیث 1780، بیہقی شعب الایمان)
یوں تو رمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں (آخری عشرہ) کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وطاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ احادیث میں ذکرہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے ۔(صحیح مسلم، حدیث 2009) سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے اخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جاتے تھے۔
دیگر احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ، حدیث :1884، صحیح مسلم، حدیث :2008)شعب الایمان بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے بستر پر نہیں آتے تھے۔ (حدیث:3471)
راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ہمیشہ ہی تھا، لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے۔ یہ مضمون حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں ، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں۔ (سنن نسائی ،حدیث : 1336)
دوسرا خصوصی معمول جس کا ذکرحدیث میں ہے وہ ہے اپنے اہل خانہ کو رات میں عبادت کے لیے جگانا۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کو سارا سال ہی جگایا کرتے تھے ، لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ جگانے کے ذکر کا صاف مطلب یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گھروالوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔
اعتکاف: مسجد میں بہ نیت عبادت قیام
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (بخاری، حدیث: 1885 ) صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔ (بخاری، حدیث : 1886)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری، حدیث: 1903 )
آخری عشرہ کا اعتکاف (یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام)سنت علی الکفایہ ہے۔ اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ طاعات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اعتکاف کی حقیقت خالق ارض و سماء اور مالک الملک کے دربار عالی میں پڑجانے کا نام ہے۔ اعتکاف، عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت سے اللہ کی رضا و خوشنوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلة القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلة القدر کو تلاش کرو۔(صحیح بخاری ،حدیث : 1880 )
حضرت ا بوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اورہم نے بھی کیا۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے۔ مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلادیا گیا۔یاد رکھو لیلة القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 771 )
لیلة القدر: ہزار مہینوں سے بہتر رات
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورة نازل فرمائی، ارشاد ہوا: ”ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبریل) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی ہے اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔“ (سورة القدر97:1-5 )
ایک دوسری آیت میں اس کو مبارک رات کہا گیا ہے، ارشاد ہے: ” قسم ہے اس کتاب کی جو حق کو واضح کرنے والی ہے۔ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے “۔ (سورة الدخان 44:2)
چناں چہ شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی کم و بیش تراسی سال) کی عبادت سے زیادہ ہے۔ نیز، اسی رات اللہ تعالی نے قرآن مجید کو یکبارگی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا اور پھر اس کے بعد نبوت کی۲۳سالہ مدت میں حسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوتا رہا۔ انھیں آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو ملائکہ نزول کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تکمیل کرتے رہیں۔ اس رات میں فرشتوں کا نزول بھی رحمت و برکت کا سبب ہوتا ہے۔
لیلة القدر کامطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیتوں اورفضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جوبھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ۔ تواللہ تعالی نے اس رات کی جلالت ومنزلت اورمقام ومربتہ کی بنا پراس کانام لیلة القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں اس رات کی بہت قدر ومنزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمارآیات و احادیث سے ثابت ہے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص شب قدر کو ایمان اوراجروثواب کی نیت سے عبادت کرے ، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1768 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مہینہ (رمضان کا) تم کو ملا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا ، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے۔“ (سنن ابن ماجہ، حدیث : 1634، معجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 1500)
مسلمانوں کو ترغیب و تاکید ہے کہ وہ اس رات کو اللہ تعالی کی عبادت کریں، رات کو دعا و عبادت اور ذکر وتلاوت میں گزاریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مبارک رات کی تلاش کے لیے اعتکاف فرماتے تھے اور رمضان کے آخری عشرہ میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سید الرسل اور محبوب رب العالمین تھی ، وہ اللہ کے نزدیک مقبول اور بخشے بخشائے تھے، لیکن پھر بھی اللہ کی رضا کی تلاش میں آپ اتنی جدوجہد فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کے ہم بہت زیادہ محتاج ہیں۔ لہٰذا، ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہیے اور آخری عشرہ کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہیے۔
اس رات کو رمضان اورخاص کراس کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1880 ) اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ،باقی نو رہ جائیں تو ان میں، باقی سات رہ جائیں توان میں ، باقی پانچ رہ جائیں تو ان میں۔ ( صحیح بخاری، حدیث : 1881) پھر احادیث کی روشنی میں شب قدر کے آخری عشرہ میں بھی طاق راتوں میں وقوع کا زیادہ امکان معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1878 ) جب کہ بعض احادیث میں ستائیسویں رات کو شب قدر ہونے کی بات بھی وارد ہوئی ہے۔جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔ ( سنن ابوداود ، حدیث : 1178، مسند احمد وغیرہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عني ) اے اللہ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کردے ) (سنن ترمذی ، حدیث : 3435، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ وغیرہ)
حضرات محدثین و علماء فرماتے ہیں کہ شب قدر سے متعلق روایات کثرت سے مروی ہیں اور ان کے مجموعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے، اور طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستائیسویں رات میں اور زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں مصلحت و حکمت سے شب قدر کو مخفی رکھا ہے ۔اس کو مخفی رکھنے میں شاید ہماری طلب اور ذوق جستجو کا امتحان مقصود ہے۔ اگر کوئی شخص خلوصِ نیت اورصدقِ دل سے کوشش کرے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ،تو ان شاء اللہ وہ محروم نہیں رہے گا۔ اہل ذوق کے یہاں تو سارا معاملہ ذوقِ طلب اور شوقِ جستجو ہی کا ہے، بقول وحشت کلکتوی:
نشانِ منزلِ جاناں ملے ملے، نہ ملے $ مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجو میرا
===========================
$$$
لفظ اعتکاف کا مادہ(ع۔ک۔ف) ہے، جس کے معنیٰ ہیں: *تعظیماً کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سے وابستہ رہنا۔*
اور اصطلاحِ شریعت میں الاعتکاف کے معنیٰ ہیں: *عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا۔*
قرآن میں ہے:
وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ[البقرة:187]
*جب تم مسجدوں میں اعتکاف "بیٹھے" ہو۔*
سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ[الحج:25]
*خواہ وہ وہاں کے "رہنے والے" ہوں یا باہر سے آنے والے۔*
وَالْعاكِفِينَ [البقرة:125]
*اور اعتکاف کرنے والوں*
فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [الشعراء:71]
*اور اس کی پوجا پر "قائم" رہیں*
عکفتہ علٰی کذا
*کسی چیز پر "روک" رکھنا*
يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [الأعراف:138]
*یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لیے "بیٹھے" رہتے تھے۔*
ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [طه:97]
*جس معبود کی پوجا پر تو "قائم و معتکف" تھا۔*
وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [الفتح:25]
*اور قربانی کے جانوروں کو بھی "روک دیئے گئے" ہیں۔*
[مفردات القرآن-امام الراغب(م606ھ)»
القرآن:
*....میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک کرو جو (یہاں) طواف کریں اور اعتکاف میں بیٹھیں اور رکوع اور سجدہ بجا لائیں۔*
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 125]
القرآن:
*...اور ان (اپنی بیویوں) سے اس حالت میں مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہو، یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدود ہیں، لہذا ان (کی خلاف ورزی) کے قریب بھی مت جانا...*
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 187]
عیدین اور رمضان کی تعیین میں شریعت کا ضابطہاحادیث کی روشنی میں
امسال یعنی ۱۴۳۵ھ مطابق ۲۰۱۴/ میں گزشتہ سالوں کے برخلاف اتفاق سے” سعودی عرب“ کی ۱۰/ذی الحجہ میں ”ہندوستان“ کی ۸/ ذوالحجہ کی تاریخ واقع ہوئی؛ حالانکہ پچھلے سالوں میں عیدالاضحی کے حوالے سے” سعودی عرب“ اور”ہندوستان“ کی تاریخ میں عموماً ایک ہی دن کا فرق ہوتا تھا ، اسی وجہ سے ”ہندوستان“ میں بقرعید کے ایام کی تعیین میں بعض لوگوں کو شبہ پیدا ہوگیا، ملک کے مختلف علاقوں سے راقم الحروف کے پاس کثرت سے فون موصول ہوئے کہ امسال بقرعید کس دن ہے؟ کیاایسا تو نہیں کہ ذی الحجہ کا چاند حقیقت میں ۲۹ / ذوقعدہ میں افق پر موجود ہو؛ لیکن کسی وجہ سے لوگوں کو چاند نظر نہ آیا ہو؟بعض لوگوں نے توصرف تشفی اور تحقیق کے لیے رابطہ قائم کیا؛ جب کہ کچھ علاقوں سے ایسی بھی خبریں موصول ہوئیں کہ وہاں پر غلط قسم کی افواہیں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بقرعید ہی نہیں؛ بلکہ عید الفطر اورماہِ رمضان کی تعیین میں بھی شرعی نقطئہ نظر کے حوالے سے لوگ شک وشبہہ میں پڑ رہے ہیں، چنانچہ” دہلی“ کے ایک دیندار اعلی عہدیدار نے یہ خبرد ی کہ ہمارے یہاں چند غیرملکی افرادنے امسال” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے ”ہندوستان“ کی تاریخ کے حساب سے ۸ ذوالحجہ کو قربانی کی ہے، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان اور عیدالفطر میں بھی وہ لوگ” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں، موصوف نے اس مسئلے سے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی نقطئہ نظر واضح کرنے کی خواہش ظاہر کی، زیرنظر تحریر اسی مسئلہ سے متعلق ہے، جس سے امید ہے کہ ان شاء اللہ رمضان ، عید اور بقرعید وغیرہ ایام کی تعیین میں شریعت کا اصل حکم واضح ہوکر سامنے آجائے گا۔
شریعتِ اسلام نے انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے سال میں دودن خوشی ومسرت کے لیے تجویز کیے ہیں؛ لیکن یہ ایام دنیا کے عام تہواروں کی طرح محض رسمی تہوار نہیں؛ بلکہ انعاما تِ خداوندی کی شکر گزاری کے ایام ہیں، اسلام نے ان کو عبادت کے ایام قرار دیاہے ، اِن سے متعلق شریعت کی مستقل تعلیمات وھدایات ہیں، اِن ایام کی ابتداء وانتہاء اور ان کومنانے کاطریقہ شریعت کی طرف سے متعین کردیا گیاہے، یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل وانعام ہے کہ اس نے خوشی کے لیے جن ایام کو منتخب فرمایا، اُس کو بھی ہمارے لیے عبادت بنادیا کہ ایک طرف انسان اپنی فطرت کے مطابق خوشی منائے اور دوسری طرف آخرت کے اجروثواب کو بھی حاصل کرے، اِس سے اسلام کی جامعیت وشمولیت کے ساتھ ساتھ اس کا دینِ فطرت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
لیکن کوئی بھی عبادت اُس وقت عبادت بنے گی؛ جب کہ اُس کو اس طریقے پر ادا کیا جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ الٰہی کے ذریعے بندوں کے لیے متعین فرمایا ہے۔ احکام واوامر کے جو اصول اور ضابطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے فرمائے ہیں ، اُن کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا ہی اصل بندگی ہے، عبادات کا مدار عقلِ انسانی پر نہیں؛ بلکہ وحیِ الٰہی کے مطابق اِطاعت وفرماں برداری پر ہے، اسی لیے شریعت نے بندے کو اس بات کا مکلف بھی نہیں بنایا ہے کہ وہ احکام خداوندی کو عقلی پیمانے پر جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کرے، اِس سے بندگی کی روح پر آنچ آتی ہے، حقیقت میں اللہ تعالی ہی اپنے ہر حکم کی علل وحکمتوں سے واقف ہے، انسان کی ناقص عقل حکمِ الٰہی کی ساری حکمتوں کے ادراک سے قاصر ہے؛ چنانچہ فرض نمازوں کا پانچ کے عدد میں منحصر ہونا،روزہ کی ابتداء صبح صادق سے اور انتہا غروبِ آفتاب پر ہونا، فرض روزوں کے لیے بارہ مہینوں میں سے رمضان ہی کے مہینے کا متعین ہونا، وغیرہ وغیرہ احکام شرعیہ کے رازوں سے اللہ تعالی ہی کی ذات خوب واقف ہے۔
رمضان ، عید اوربقرعید اِسلام میں وہ عبادتیں ہیں جن کی ابتداء اور انتہاء کی تعیین کو شریعتِ اسلام نے چاند سے متعلق کیاہے؛ لیکن چاند سے متعلق کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلے میں شریعت کے قوانین وضابطے کیاہیں ؟ اس کو سمجھنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ ان احکام کا چاند سے تعلق اُسی وقت معتبر ہوگا؛ جب کہ اس سلسلے میں شریعت کے مسلمہ اصول وضابطوں کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے بغیر یہ عبادتیں عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہونگی ۔
افسوس کہ آج کل عبادتوں میں انسانی رایوں کی دخل اندازی کثرت سے ہونے لگی ہے، شریعت کا جو حکم بھی انسان کی ناقص عقل کے ناقص معیار پرنہ اتر سکے، اُس مسئلے میں بے جا تاویلات وتشریحات کی بھی جرأت ہونے لگی ہے، ترقی یافتہ شکلوں سے فائدہ اٹھانے کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصول وضوابط بھی مجروح کیے جانے لگے۔الأمان والحفیظ۔[1]
بہرِحال ! چاند سے متعلق احکامِ شرعیہ کے حوالے سے پہلے چند مسلمہ ضابطے اور ان کی مختصر ضروری تشریحات ملاحظہ فرمائیں:
(۱) شریعتِ اسلام نے جن معاملات کامدار چاند ہونے پر رکھاہے،اُس سے مراد چاند کا افق پر موجود ہونا نہیں؛ بلکہ اُس کا قابلِ رویت ہونااور عام نگاہوں سے دیکھا جانا ہے۔
چاند سے متعلق شریعت کے مسلمہ ضابطوں میں یہ ضابطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اگر اس ضابطہ کو صحیح طو رپر سمجھ لیا جائے تو چاند سے متعلق کسی بھی حکمِ شرعی میں شک وشبہ کی کوئی نوبت ہی نہ آئے، چاند سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند ہونا کس کو قراردیا اور نہ ہونا کس کو کہا؟ آیا چاند کا صرف افق پر موجود ہونا شرعی احکام میں کافی تسلیم کیا جائے گا یا عام انسانی آنکھوں سے دیکھنے پر اس کے ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں ارشاداتِ نبوی ملاحظہ فرمائیں!
حدیث کی سب سے بڑی مستند کتاب جو اعتماد میں قرآن کے بعددوسرا درجہ رکھتی ہے یعنی: صحیح بخاری میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو؛ جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو حساب لگالو( یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو)۔
مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کاہے؛ اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو ( شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔
یہ دونوں حدیثیں حدیث کی دوسری سب مستند کتابوں میں بھی موجود ہیں جن پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ اور دونوں میں روزہ رکھنے اور عید کرنے کا مدار چاند کی رویت پر رکھا ہے۔ لفظ ”رویت“ عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کے معنی:”کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے کے ہیں“۔ اس کے سوا اگر کسی دوسرے معنی میں لیا جائے تو حقیقت نہیں مجاز ہے؛اس لیے حاصل اس ارشادِ نبوی کا یہ ہوا کہ تمام احکامِ شرعیہ جو چاند کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہیں، ان میں چاندکا ہونا یہ ہے کہ عام آنکھوں سے نظر آئے۔ معلو م ہوا کہ مدارِ احکام چاند کا افق پر وجود نہیں؛ بلکہ رویت ہے۔ اگر چاند افق پر موجود ہو؛ مگر کسی وجہ سے قابلِ رویت نہ ہو تو احکامِ شرعیہ میں اس وجود کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔
حدیث کے اس مفہو م کو اسی حدیث کے آخری جملہ نے اور زیادہ واضح کردیا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ اگر چاند تم سے مستور اور چھپا ہوا رہے یعنی: تمہاری آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں تو پھر تم اس کے مکلّف نہیں کہ ریاضی کے حسابات سے چاند کے وجوداور پیدائش معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ یا آلاتِ رصدیہ اور دور بینوں کے ذریعہ اُس کا وجود دیکھو؛ بلکہ فرمایا:
یعنی: اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو تیس دن پورے کرکے مہینہ ختم سمجھو۔
اس میں لفظ ”غمَّ“ خاص طورسے قابلِ نظر ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی عربی محاورہ کے اعتبار سے بحوالہ ”قاموس وشرح قاموس“ یہ ہیں:
غُمَّ الْہِلَالُ عَلَی النَّاسِ غَمًّا اذا حَالَ دُوْنَ الْہِلاَلِ غَیْمٌ رَقِیضرٌ أو غَیْرُہ فَلَمْ یُر․ (تاج العروس شرح قاموس)
لفظ ”غم الھلال علی الناس“ اُس وقت بولاجاتاہے؛ جب کہ ہلال کے درمیان کوئی بادل یا دوسری چیز حائل ہوجائے اور چاند دیکھا نہ جاسکے۔
جس سے معلوم ہوا کہ چاند کا وجود خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرکے یہ حکم دیا ہے؛ کیونکہ مستور ہو جانے کے لیے موجود ہونا لازمی ہے ، جو چیز موجود ہی نہیں اس کو معدوم کہا جاتاہے ، محاورات میں اس کو مستور نہیں بولتے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ چاند کے مستو رہوجانے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی سبب پیش آئے ۔ بہرِحال جب نگاہوں سے مستور ہوگیا اور دیکھا نہ جاسکا تو حکمِ شرعی یہ ہے کہ روزہ وعیدوغیرہ میں اُس کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔
(۲)قرآن وحدیث میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوتا، لہٰذا جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہو کہ ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ معتبر ماننے کے نتیجے میں مہینے کے دن اٹھائیس رہ جائیں یا اکتیس ہو جائیں، وہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور جہاں اتنا فاصلہ نہ ہو، وہاں اختلافِ مطالع غیر معتبر ہوگا۔
(۳) ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ۔
ترمذی شریف میں امام ترمذی نے مستقل ایک باب قائم کیا ہے ”بابُ مَا جَاءَ لِکُلِّ أہْلِ بَلَدٍ رُوٴْیَتُہُمْ“ یعنی: ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ، پوری حدیث کا ترجمہ یہ ہے:
ابن عباس کی والدہ ام الفضل نے کُریب کو (جو حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ تھے) کسی ضرورت سے حضرت معاویہ کے پاس ملک شام بھیجا،کریب نے ام الفضل کا کام نمٹایا، ابھی وہ شام ہی میں تھے کہ رمضان کا چاند نظر آیا، چاند جمعہ کی رات میں نظر آیا تھا (اور انھوں نے پہلا روزہ جمعہ کو رکھا تھا) پھر وہ مہینہ کے آخر میں مدینہ آئے ابنِ عباس نے دریافت کیا تم نے چاند کب دیکھاتھا؟ انھوں نے کہا ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا،ابنِ عباس نے پوچھاکیا تم نے خود جمعہ کی رات میں چاند دیکھا تھا (مسلم کی روایت میں ہے نعم، ہاں خود دیکھا تھا)لوگوں نے بھی دیکھاتھا، پس انھوں نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابنِ عباس نے فرمایا: مگر ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے، پس ہم برابر روزے رکھتے رہیں گے؛ تاآنکہ ہم تیس دن پورے کریں یا چاند دیکھ لیں،کریب نے پوچھا:کیا آپ کے لیے حضرت امیرمعاویہ کا چاند دیکھنا اور ان کاروزہ رکھنا کافی نہیں؟ابنِ عباس نے فرمایا:نہیں ہمیں رسول اللہ… نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (تحفة الالمعی) آگے امام ترمذی فرماتے ہیں: وَالْعَمَلُ عَلیٰ ھٰذالْحَدِیثِ عِنْدَ أھْلِ الْعِلْمِ أنَّ لِکُلِّ أَھْلِ بَلَدٍ رُوٴیَتُھُمْیعنی: تمام اہلِ علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر جگہ کے لیے اسی جگہ کی روٴیت معتبرہوگی۔ (ترمذی شریف۱/۱۴۸)
ترمذی شریف کی دوسری حدیث میں ہے: انَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اَلصُّوْمُ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَالْفِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُوْنَ وَالأضْحٰی یَوْمَ تُضَحُّوْنَ (ترمذی شریف ۱/۱۵۰) یعنی رمضان، عیدالفطر اور عید الاضحی جماعت اور سواداعظم کے ساتھ ہے۔[2]
(۴) عام طور پرروٴیتِ ہلال کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے شہادت کا معاملہ قراردیا ہے؛ البتہ رمضان کے چاند میں خبر کو کافی سمجھا ہے بشرطیکہ خبر دینے والا ثقہ مسلمان ہو، ترمذی ،ابوداوٴ، نسائی وغیرہ میں ایک اعرابی اور ابوداوٴد کی روایت میں حضرت ابن عمرکے واقعہ سے ثابت ہے کہ صرف ایک ثقہ مسلمان کی خبر پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شروع کرنے اور روزہ رکھنے کا اعلان فرمادیا، نصابِ شہادت کو ضروری نہیں سمجھا رمضان کے علاوہ دوسرے ہرچاند کی شہادت کے لیے نصاب ِشہادت اور اس کی تمام شرائط کو ضروری قراردیا اور سب فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے، اور سنن دار قطنی میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلالِ عید کے لیے دوآدمیوں سے کم کی شہادت کافی نہیں قرار دی۔
پھر شہادت کی ایک قسم تو یہ ہے کہ آدمی بچشم خود چاند دیکھنے کی گواہی دے ، دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شہادت پرشہادت دے، یہ ”شہادة علی الشہادة“ کہلاتی ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلان شہر کے قاضی کے سامنے شہادت پیش ہوئی، قاضی نے اس کا اعتبار کرکے شہر میں رمضان یا عید کا اعلان کردیا؛ یہ شہادت علی القضاء کہلاتی ہے۔
حاصل یہ ہواکہ جب کسی شہر میں عام طور پر چاند نظر نہ آئے تو چاند کے ثبوت کے لیے مذکورہ تین صورتیں شرعاً معتبر ہیں اور دوسرے شہر میں روٴیت ہلال کے ثبوت کے لیے کافی ہیں، (کبھی استفاضے کے ذریعے بھی روٴیت کا ثبوت ہوجاتا ہے، جس کی شرائط کتبِ فقہ میں مذکور ہیں؛ لیکن استفاضے کے ذریعے چاند کے ثبوت میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ مہینے کا ۲۸یا ۳۱ کا ہونا لازم نہ آئے) البتہ دور دراز ممالک سے اگر مذکورہ بالا طریقوں پر شہادت پہنچتی ہے، تو بعض فقہاء جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار ہوتا ہے ،وہ اس شہادت کوقابلِ عمل قرار نہیں دیتے اور جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہوتاہے، اُن کے نزدیک اس شہادت کے معتبر ہونے کے لیے مذکورہ نصوص کی روشنی میں ایک شرط یہ بھی ضروری ہوگی کہ اس شہادت کے قبو ل کرلینے سے مہینہ اٹھائیس یا اکتیس کا ہونا لازم نہ آئے، اگر ایسا ہوگا تو وہ شہادت معتبر نہ ہوگی۔
چاند سے متعلق مذکورہ بالا شرعی ضابطوں کی روشنی میں یہ بات بغیر کسی شک وتردد کے کہی جاسکتی ہے کہ امسال یعنی ۱۴۳۵ھ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰/دن کا تھا ؛ کیونکہ ۲۹/ ذی قعدہ کو ملک کے کسی بھی علاقے سے رویت کی خبر موصول نہیں ہوئی اور تادمِ تحریر (۱۰،ذوالحجہ۱۴۳۵ھ) بھی کوئی خبر نہیں مل سکی ہے، لہٰذا ۲۹/ ذی قعدہ کو اگر کسی ذریعہ سے چاند کا افق پر موجود ہونا ثابت بھی ہوجائے، تب بھی پہلے ضابطے کی وجہ سے اس کو شرعاً غیر معتبر قرار دیا جائے گا ، نیز” سعودی عرب“ کی تاریخ ”ہندوستان“ میں رہنے والوں کے لیے شرعاً حجت نہ ہوگی ؛ اس لیے کہ ہر علاقے کے لیے اسی جگہ کی رویت شرعاً معتبر ہوتی ہے، جیسا کہ ضابطہ نمبر۲ میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے، اور امسال تو ”سعودی عرب“ کی تاریخ اور” ہندوستان“ کی تاریخ میں دودن کا فرق ہوگیا، ایسی صورت میں ”سعودی عرب“ کی روٴیت ”ہندوستان“ کے لیے اور بھی زیادہ غیر معتبر ہوگی ورنہ تو ”ہندوستان“ میں ذی قعدہ کے مہینے کا ۲۸/ دن کا ہونا لازم آئے گا، جونص قطعی کی رو سے ممنوع ہے۔
اسی طرح اِس موقع پر احتیاط کی بات کہنا (مثلاً: بقرعید کے دو ہی دن قربانی کی جائے، تیسرے دن قربانی نہ کی جائے۔ وغیرہ) شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے، جب مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہو، اس میں کسی طرح کا کوئی شک نہ ہو تو ایسے موقع پر مسئلے کی ناواقفیت کی بناء پر احتیاط کی بات کرنا بلا وجہ لوگوں کو شک و شبہے میں ڈالنا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ امسال ۱۴۳۵ھ مطابق۲۰۱۴/ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰ / دن کا تھا، جس کے مطابق ۱۰/ذی الحجہ یعنی ۶/ اکتوبر بروز دوشنبہ بقرعید تھی ، لہٰذا جن لوگوں نے امسال” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے ”ہندوستان“ میں دو روز قبل یعنی ۸/ ذی الحجہ کو قربانی کی ہے، اُن کی قربانی درست نہیں ہوئی، ان کاعمل احادیثِ نبویہ کے صریح خلاف تھا، اُ ن کو غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ نمازیں بھی سعودی وقت کے مطابق ادا کرتے ہیں؟شبِ قدر، عاشورہ کی تعین بھی سعودی تاریخ سے کرتے ہیں ؟اگر وہ تمام شرعی اعمال میں سعودی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں، تو اُن کا عمل شرعاً صحیح نہیں ہے اور اگر عید و بقرعید ہی میں ایسا کرتے ہیں، تو فرق کی وجہ کیا ہے؟
$$$
[1]اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے، نہیں ، ہر گز نہیں، نئی ایجادات بھی اللہ کی نعمتیں ہیں ،ان سے وحشت و بیزاری نہ کوئی دین کا کام ہے، نہ عقل کا ؛ البتہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے میں شریعت کے حدود و قیود کو سامنے رکھنا ضروری ہے؛چنانچہ اُس وقت تک ان سے استفادہ جائز ہوگا؛ جب تک کہ ان کی وجہ سے شریعت پر کوئی آنچ نہ آئے، نئی ایجادات کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے گا، نہ کہ شریعت کو نئی ایجادات کی روشنی میں۔
[2]اس حدیث کی روشنی میں اس صورت کا حکم بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص جدہ سے تیس رمضان کو سحری کھا کر ہندوستان آیا، یہاں انتیسواں روزہ تھا اور شام کو چاند نظر نہیں آیا؛ اس لیے اگلے دن لوگوں نے تیسواں روزہ رکھا ؛ لیکن جدہ سے آنے والے کا اکتیسواں روزہ ہوجائے گا ، پھر بھی اسے اس دن عید منانے کی اجازت نہیں؛ بلکہ عید اگلے دن مقامی سب مسلمانوں کے ساتھ منائے گا، یہ حکم مذکورہ حدیث سے ہی نکلا ہے۔
*تحفۂ رمضان»* *دعا کی قبولیت اور شیاطین کی گرفتاری»*
حضرت علی سے روایت ہے کہ:
جب رمضان شریف کی پہلی رات ہوئی تو اللہ کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم (لوگوں سے خطاب کرنے کے لئے) کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرکے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! تمہاری طرف سے تمہارے دشمن جنات کے لیے الله تعالیٰ کافی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تم سے دعاء قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے(چنانچہ قرآن پاک میں)ارشاد ہے: *﴿مجھ سے دعاء مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔﴾*
[ سورۃ غافر:60]
خوب سن لو! اللہ پاک نے ہر سرکش شیطان پر سات فرشتے(نگرانی کے لئے)مقرر فرما دیئے ہیں، لہٰذا اب وہ ماہِ رمضان گزرنے تک چھوٹنے والے نہیں ہیں(اور یہ بھی سن لو!)رمضان شریف کی پہلی رات سے اخیر رات تک(کے لئے)آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اس مہینے میں دعاء قبول ہوتی ہے۔ جب رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی پہلی شب ہوتی تو آپ ﷺ (ہمہ تن عبادت میں مصروف ہونے کے لئے) تہبند کس لیتے اور ازواج مطہرات سے علیحدہ ہوجاتے، اعتکاف فرماتے، شبِ بیداری کا اہتمام کرتے، کسی نے پوچھا: تہبند کس لیتے کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا: حضور ﷺ ان دنوں بیویوں سے الگ رہتے تھے۔
[كنز العمال:24274]
تحفۂ رمضان»
فرشتوں کی دعا اور یاقوت کا محل:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ بھی رمضان شریف کی آخری رات تک بند نہیں کیا جاتا۔ اور کوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کی راتوں میں سے کسی رات میں نماز پڑھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر سجدہ کے بدلے میں ڈھائی ہزار نیکیاں لکھے گا اور اس کے لیے جنت میں سرخ یا قوت کا ایک مکان بنا دے گا جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے لیے سونے کا ایک محل ہو گا جو سرخ یاقوت سے آراستہ ہو گا پھر جب روزہ دار رمضان المبارک کے پہلے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گزشتہ سب (چھوٹے) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس روزہ دار کے لیے روزانہ صبح کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ستر ہزار فرشتے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے رہتے ہیں۔ اور رمضان شریف کی رات یا دن میں (اللہ کے حضور جب) کوئی سجدہ کرتا ہے تو ہر سجدے کے عوض اس کو (جنت میں) ایک ایسا درخت ملتا ہے جس کے سایہ میں سوار پانچ سو برس تک چل سکتا ہے۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جنت ماہِ مضان کے لیے شروع سال سے آخر سال تک سجائی جاتی ہے، جب رمضان شریف کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت (اللہ تعالیٰ سے) عرض کرتی ہے: اے اللہ! اس مبارک مہینہ میں اپنے بندوں میں سے کچھ بندے میرے اندر قیام کرنے والے مقرر فرما دیجئے (جو عبادت کرکے میرے اندر داخل ہو سکیں) (اسی طرح) حوریں بھی عرض کرتی ہیں کہ اے خدائے ذوالجلال! س بابرکت مہینے میں اپنے بندوں میں سے ہمارے واسطے کچھ خاوند مقرر فرما دیجیے، چنانچہ جس شخص نے رمضان شریف کے مہینے میں اپنے نفس کی (منع کردہ خواہشات سے)حفاظت کی اور کوئی نشہ آور چیز نہ پی اور نہ کسی مومن پر کوئی بہتان لگایا اور نہ کوئی گناہ (کبیرہ) کیا تو اللہ جل شانہ (رمضان شریف کی) ہر رات میں اس بندہ کی سو حوروں سے شادی کر دیتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک محل سونے چاندی، یاقوت اور زمرد کا تیار کر دیتے ہیں (اس محل کی لمبائی چوڑائی کا یہ عالم ہے کہ) اگر ساری دنیا اکٹھی اس محل میں رکھ دی جائے تو ایسی معلوم ہو جیسے دنیا میں کوئی بکریوں کا باڑہ ہو (یعنی جس طرح تمام دنیا کے مقابلے میں بکریوں کا باڑہ چھوٹا سا معلوم ہوتا ہے اسی طرح اگر ساری دنیا جنت کے اس محل میں رکھ دی جائے تو بکریوں کے باڑے کی طرح چھوٹی سی معلوم ہو گی)۔ اور جس شخص نے اس مبارک مہینے میں کوئی نشہ والی چیز پی یا کسی مومن پر کوئی بہتان لگایا یا کوئی گناہ (کبیرہ) کیا *تو اللہ تعالیٰ اس کے سال بھر کے نیک اعمال ختم کر دیں گے۔* لہٰذا رمضان شریف کے مہینے میں بے احتیاطی سے بچو! کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اس میں حدود سے آگے نہ بڑھو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے گیارہ مہینے مقرر کئے ہیں جن میں (طرح طرح کی) نعمتیں استعمال کرتے ہو اور لذتیں حاصل کرتے ہو۔ رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ نے (اپنی عبادت کرنے کے لیے) خاص فرما لیا ہے۔ لہٰذا رمضان کے مہینہ میں بے احتیاطی سے گریز کرو اور جان و دل سے اطاعت کرو۔
[شعب الإيمان-البيهقي:3359]
[صحيح ابن خزيمة:1886 عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْغِفَارِيِّ]
تحفہ رمضان»
شب و روز لاکھوں کی تعداد میں مغفرت»
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
جب رمضان شریف کے مہینے کی پہلی رات ہوتی ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں (اور پورے مہینے یہ دروازے کھلے رہتے ہیں) ان میں سے کوئی ایک دروازہ بھی پورے مہینے میں بند نہیں ہوتا اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں (اور تمام مہینے دروازے بند رہتے ہیں) اس دوران کوئی ایک دروازہ بھی نہیں کھلتا اور سرکش جنات قید کر دیئے جاتے ہیں۔
اور (رمضان شریف کی) ہر رات میں ایک آواز لگانے والا (تمام رات) صبح صادق تک یہ آواز لگاتا رہتا ہے کہ اے بھلائی اور نیکی کے تلاش کرنے والے! (نیکی کا ارادہ کر) اور خوش ہوجا اور اے بدی کا قصد کرنے والے! (بدی سے) رک جا اور اپنے حالات میں غور کر (اور ان کا جائزہ لے) اور یہ بھی آواز لگاتا ہے کوئی گناہوں کی معافی چاہنے والا ہے کہ اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کر لی جائے۔ کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔ کوئی ہم سے کسی چیز کے متعلق سوال کرنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کر دیا جائے۔ اور رمضان شریف کے مہینہ میں روزانہ رات کو (روزہ) افطار کرتے وقت ساٹھ ہزار (60,000) آدمی جہنم سے بری فرماتے ہیں، جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اتنی تعداد میں جہنم سے بری فرماتے ہیں کہ مجموعی طور پر جتنی تعداد میں پورے مہینے میں آزاد فرماتے ہیں یعنی ساٹھ ہزار تیس مرتبہ جن کی کل مجموعی تعداد اٹھارہ لاکھ (18,00,000) ہوتی ہے۔
[شعب الإيمان،للبيهقي:3334
فضائل الأوقات،للبيهقي: 51
جامع الأحاديث،للسيوطي: 2583]
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ رمضان المبارک کی ہر شب میں چھ لاکھ (6,00,000) آدمیوں کو دوزخ سے بری فرماتے ہیں‘ اور جب رمضان المبارک کی آخری شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ (اتنی تعداد میں آدمیوں کو دوزخ سے) بری فرماتے ہیں جتنی تعداد میں آج رات تک پورے مہینہ میں آزاد فرمائے ہیں۔‘‘
حضرت ابن عباس سے رمضان المبارک کی فضیلت کے متعلق ایک بہت طویل اور جامع روایت منقول ہے اس میں یہ بھی ہے کہ: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ۔۔۔حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ(10,00,000) آدمیوں کو جہنم سے بری فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہو چکے تھے اور جب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آج تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کئے گئے ہیں ان کے برابر اس ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں۔ ‘‘
[شعب الإيمان،للبيهقي:3421
فضائل الأوقات،للبيهقي:109
جامع الأحاديث،للسيوطي:38559]
*تحفہ رمضان» رمضان شریف میں امت پر پانچ خصوصی انعام»*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ:
رمضان شریف کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی گئی ہیںجو پہلی امتوں کو نہیں ملیں:
(1)روزہ دار کے منہ کی بدبو (جو بھوک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(2) ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعائے مغفرت کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
(3)جنت ہر روز ان کے لیے سجائی جاتی ہے‘ پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آئیں۔
(4)اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں۔ (یعنی رمضان میں شیاطین قید ہونے کی بناء پر روزہ داروں کو گناہوں پر نہیں ابھار سکتے‘ لیکن انسان کا نفس گناہ کرانے میں شیاطین سے کم نہیں ہے اور گناہوں کا چسکا بھی گناہوں کی پٹڑی پر چلاتا رہتا ہے تاہم پھر بھی گناہوں کی کمی اور عبادت کی کثرت کا ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے۔)
(5)رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے صحابہ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔
[مسند احمد:7917، فضائل رمضان لابن أبي الدنيا:18، مسند الحارث:319، مسند البزار8571، مختصر قيام الليل للمروزي: ص258، شرح مشكل الآثار للطحاوي:2013، المجالسة وجواهر العلم:2991، تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي:453، فضائل رمضان لابن شاهين:27، شعب الإيمان للبيهقي:3330]
*ایک روزہ کا بدلہ»*
حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے رمضان کے چاند نظر آنے پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان المبارک کی کیا حقیقت ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہو جائے۔ پھر (قبیلہ) خزاعہ کے ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! رمضان کے بارے میں ہمیں کچھ بتلایئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا رمضان المبارک کے لیے جنت شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے۔ جب رمضان شریف کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش (اعلیٰ) کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جس سے جنت کے درختوں کے پتے ہلنے (اور بجنے) لگتے ہیں اور حوریں عرض کرتی ہیں: اے ہمارے رب! اس مبارک مہینے میں ہمارے لیے اپنے بندوں میں سے کچھ شوہر مقرر کر دیجئے جن سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریںاور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں (اس کے بعد پھر) آپ نے فرمایا کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کا روزہ رکھے گا مگر یہ بات ہے کہ اس کی شادی ایسی حور سے کر دی جاتی ہے جو ایک ہی موتی سے بنے ہوئے خیمے میں ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں فرمایا ہے کہ حُوْرٌ مَّقْصُوْرَاتٌ فِی الْخِیَامْ (یعنی حوریں خیموں میں رکی رہنے والی)
[سورہ الرحمن :۷۲]
ان عورتوں میں سے ہر عورت کے جسم پر ستر قسم کے لباس ہوں گے جن میں سے ہر لباس کا رنگ دوسرے لباس سے مختلف ہو گا اور انہیں ستر قسم کی خوشبودی جائے گی جن میں سے ہر عطر کا انداز دوسرے سے مختلف ہو گا اور ان میں سے ہر عورت کی (خدمت اور) ضرورت کے لیے ستر ہزار نوکرانیاں اور ستر ہزار خادم ہوں گے‘ ہر خادم کے ساتھ ایک سونے کا بڑا پیالہ ہو گا جس میں کئی قسم کا کھانا ہو گا (اور وہ کھانا اتنا لذیذ ہو گا کہ) اس کے آخری لقمے کی لذت پہلے لقمے سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اور ان میں سے ہر عورت کے لیے سرخ یاقوت کے تخت ہوں گے‘ ہر تخت پر ستر بسترے ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے اور ہر بسترے پر ستر گدے ہوں گے اور اس کے خاوند کو بھی اسی طرح سب کچھ دیا جائے گا (اور وہ) موتیوں سے جڑے ہوئے سرخ یاقوت کے ایک تخت پر بیٹھا ہو گا۔ اس کے ہاتھوں میں دو کنگن ہوں گے یہ رمضان المبارک کے ہر روزہ کا بدلہ ہے(خواہ) جو (شخص) بھی روزہ رکھے۔ (روزہ دار نے) روزہ کے علاوہ جو نیکیاں (اور اعمال صالحہ) کئے ہیں ان کا اجر و ثواب اس کے علاوہ ہے مذکورہ ثواب صرف روزہ رکھنے کا ہے۔‘‘
[صحیح ابن خزیمہ:1886]
*بلاعذر روزہ نہ رکھنا»*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جس نے (شرعی) اجازت اور مرض کی (مجبوری) کے بغیر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا (اگر وہ ساری) عمر (بھی) روزے رکھے تب بھی اس کی قضا نہیں ہو سکتی۔
[سنن الترمذی:723]
*تحفہ رمضان» اے نیکی کے طالب آگے بڑھ۔*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ رمضان کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین کو بند کر دیا جاتا ہے اور مضبوط باندھ دیا جاتا ہے اور سرکش جنوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اس کا کوئی دروازہ بھی کھولا نہیں جاتا اور بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ اور ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ اے نیکی کے طالب آگے بڑھ کہ نیکی کاوقت ہے۔ اور اے بدی کے چاہنے والے بدی سے رک جا اور اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھ۔ کیونکہ یہ وقت گناہوں سے توبہ کرنے اور ان کو چھوڑنے کا ہے اور خدا تعالیٰ کے لیے ہے۔ دوزخ کی آگ سے آزاد کئے ہوئے یعنی اللہ تعالیٰ آزاد کرتا ہے بہت بندوں کو دوزخ کی آگ سے بحرمت اس ماہ مبارک کے اور یہ آزاد کرنا رمضان شریف کی ہر رات میں ہے شب قدر کے ساتھ مخصوص نہیں۔
[سنن الترمذي:682]
فائدہ: *مسند احمد اور ترمذی کی روایتوں میں تطبیق(جوڑ)»*
اوپر مسند احمد کی روایت میں منقول ہوا کہ رمضان المبارک کی "آخری" شب میں امت کی مغفرت کی جاتی ہے۔
وَيُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ
[مسند أحمد:7917]
اور اس روایت ترمذی میں رمضان کی "ہر" رات میں عتق و آزادی کا ذکر ہے.
وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ.
[سنن الترمذي:682]
تو سمجھ میں یوں آتا ہے کہ شاید ترمذی کی روایت میں ہر روز کے گناہوں کے منادی(پکارنے والے) کی خبر دی گئی ہو، اور جب تمام رمضان میں ہر روز کے گناہ رات کو معاف کر دیئے جاتے ہیں تو آخری شب میں تمام گناہوں کی مغفرت کی خبر دے دی گئی۔ ہر روز گناہ معاف ہونے کا لازمی نتیجہ آخری شب میں کل گناہوں کی مغفرت اور نَجَاةً مِنَ النَّارِ (یعنی جہنم کسے نجات) کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اور اگر ﴿وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ﴾ (اور یہ ہر رات ہوتا ہے) کا یہ مطلب ہو کہ یہ منادی رمضان المبارک کی ہر شب میں ہوتی ہے تو اس صورت میں وللہ عتقا من النار منادی کا جز ہو گا اور اس کا تعلق ﴿كُلُّ لَيْلَةٍ﴾ سے نہ ہو گا۔ پھر کسی تطبیق کی حاجت نہیں رہتی۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اپنی شرح [مشکوٰۃ اشعۃ اللمعات] میں چونکہ وہ ترجمہ اختیار فرمایا ہے جو اوپر گزرا ہے اس لیے اس میں توجیہہ کی ضرورت پیش آئی۔
واللّٰہ اعلم بمرادہ و رسولہ
فائدہ: *شیاطین اور جنوں کے قید کرنے کی حکمت»*
اس ماہ مبارک کے اندر شیاطین اور سرکش جنوں کے قید کر دینے میں حکمت یہ ہے کہ وہ روزہ داروں کے دلوں میں وسوسہ گناہوں کا نہ ڈال سکیں اور معصیت کی طرف ان کو نہ بلائیں اسی کا یہ اثر ہے کہ اکثر گرفتار ان معاصی اس ماہ مبارک میں گناہوں سے پرہیز کرنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جاتے ہیں۔
*شیاطین کے قید ہوجانے کے باوجود بعض لوگوں سے گناہ کیوں ہو جاتے ہیں؟*
بعض لوگوں سے اس ماہ کے اندر بھی جو معاصی (گناہوں) کا صدور ہو جاتا ہے اس میں شیاطین کی پہلی وسوسہ اندازی اور سابقہ "عادت" پڑی ہوتی ہے، اس "عادت" کی وجہ سے اس مبارک زمانہ میں بھی ان سے گناہ ہوجاتے ہیں یا یہ اثر ہے نفس کی قوت (برائی کی طرف لے جانے والی قوت) داعیہ الی الشر کا کہ نفس گناہوں کی طرف رغبت دلاتا ہے اس لیے گناہ ہو جاتے ہیں شیاطین کے اثر سے گناہ نہیں ہوتے تو جو گناہ اس مبارک ماہ میں ہوتے ہیں وہ نفس کے تقاضا اور اس کی قوت داعیہ الی الشر(یعنی برائی کی طرف بلائے جانے والی قوت) کے سبب ہوتے ہیں اور شیاطین کے وساوس کی وجہ سے جو گناہ رمضان سے قبل ہوا کرتے تھے ان سے اس زمانہ میں لوگوں کو محفوظ کر دیا جاتا ہے۔
*شاہ محمد اسحاق کا جواب»*
اس اشکال کا ایک جواب استاذ الکل حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب دہلویؒ نے دیا ہے جس کو صاحب مظاہر حق نے پسند فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فاسقوں کے بہکانے سے صرف "سرکش" شیطان روک دیئے جاتے ہیں اور "کم" درجہ کے شیطان ان کو بہکاتے رہتے ہیں جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بہ نسبت اور دنوں کے ایام رمضان میں گناہ کم کرتے ہیں لیکن کچھ گناہ ان سے ہوتے رہتے ہیں۔
*مسلمانوں کی ذمہ داری»*
ماہ مبارک کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہئے شب و روز کے ساعات کو اعمال صالحہ کے ساتھ مزین و معمور رکھنے کی سعی اور کوشش میں مصروف رہنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment