اسبال (ٹخنوں سے نیچے پہنچے لٹکانا) ناجائز:
نماز میں اسبالِ ازارسے متعلق احادیث
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، ثُمَّ قَالَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ فَقَالَ : إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ " .
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جاوٴ، دوبارہ وضو کر کے آوٴ!تو وہ شخص وضو کر کے آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاوٴ،وضو کر کے آوٴ! وہ شخص گیا اور وضو کر کے آیا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ،جو اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے ہوئے ہو۔(ابوداوٴد، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: ۶۳۸)
تشریح: اس حدیث کی علماء نے چند تاویلیں کی ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
(۱) دوبارہ وضو کرنے کا حکم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے عطا کیا؛ تاکہ وہ دورانِ وضو غور کرسکے اور اپنے عملِ مکروہ پر متنبہ ہوکر، اس سے پرہیز کرے، نیز اکمل وافضل طریقے پر نماز ادا کرے۔
(۲) اسبالِ ازار کے عمل کی وجہ سے، اس سے جو گناہ سر زد ہوا ہے، وضو کے ذریعہ وہ گناہ ختم ہوجائے۔
(۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضو کرنے کا حکم زجراً وتوبیخاً فرمایاہے۔
(۴) حدیث میں نماز کے قبول نہ ہونے سے مراد کامل قبولیت ہے، یعنی اسبالِ ازار کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا فرض تو ادا ہوجائے گا؛ لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل خوشنودی حاصل نہ ہوگی۔
لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسبالِ ازار سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ (مرقاة المفاتیح، باب الستر، الفصل الثانی ۲/۲۳۴، مکتبہ امدادیہ، ملتان، پاکستان)
تخريج الحديث
|
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَنْ أَسْبَلَ إِزَارَهُ فِي صَلَاتِهِ خُيَلَاءَ ، فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي حِلٍّ وَلَا حَرَامٍ " ، قَالَ أَبُو دَاوُد : رَوَى هَذَا جَمَاعَةٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، مَوْقُوفًا عَلَى ابْنِ مَسْعُودٍ ، مِنْهُمْ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ .
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ازراہِ تکبر نماز میں اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہو، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ اس کے لیے جنت حلال ہوگی، نہ جہنم حرام ہوگی۔
تشریح: اس حدیث میں اگر چہ علماء نے تاویل کی ہے؛ لیکن حدیث کے ظاہری الفاظ بہت سخت ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، لہٰذا ان مسلمانوں کے لیے اس حدیث میں لمحہٴ فکریہ ہے، جو اسبالِ ازار کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، نیز دوسری حدیث میں اسبال ازار کرنے والوں کو زبردست پھٹکار لگائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے لیے نہ جنت حلال ہونے کا وعدہ ہے اورنہ جہنم حرام ہونے کی ضمانت، یعنی ایسا شخص جہنمی ہے، اس کا جنت میں داخلہ نہ ہوگا۔
کیا اگر تکبر نہ ہو تو ٹخنے سے نیچے کپڑے پہن سکتے ہیں؟
ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہننے کی وباء اتنی عام ہوچکی ہے کہ عوام کاتو پوچھنا نہیں، بہت سے اہل علم بھی اس طرح کپڑے پہنتے ہیں اور جب ان کو ٹوکا جاتا ہے، تو وہ ان احادیث کا سہارا لیتے ہیں جن میں ”خیلاء“ یعنی تکبر کی قید مذکور ہے، نیز حضرت ابو بکر کی حدیث سے بھی یہ حضرات استدلال کرتے ہیں، تقریباً یہی حال ان حضرات کا بھی ہے، جنہیں دین کی کچھ سوجھ بوجھ ہے اور وہ اپنی زندگی دین کے مطابق نہیں؛ بلکہ دین کو اپنی زندگی کے مطابق کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اللہ ان سب کو دین کا صحیح فہم عطا کرے اور ان کی زندگیوں کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کردے۔ (آمین)
اسبال ازار کی احادیث میں ”خیلاء “کی قید کی حقیقت
اسبال ازار کے سلسلے میں جتنی احادیث واردہوئی ہیں، انھیں دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱) وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے ،یعنی اگر کوئی تکبر کی بناء پر اسبالِ ازار کرتا ہے، اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو گھٹیا سمجھتا ہے، تو ایسے شخص کے لیے وہ وعیدیں ہیں جو احادیث میں ذکر کی گئی ہیں۔
(۲) وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید نہیں، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدوں کا ہر وہ شخص مصداق ہے، جو اسبال ازار کرتا ہے، چاہے اس میں تکبر ہو، چاہے تکبر نہ ہو۔
اسبال ازارکب حرام ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا پہلی قسم کی احادیث کے مطابق ”خیلاء“ یعنی تکبر کے ساتھ اسبال ازار ممنوع اور حرام ہے، اور اسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدیں ہیں، یا دوسری قسم کی احادیث کے مطابق مطلقاً اسبالِ ازار حرام ہے، چاہے تکبر ہو یا نہ ہو؟
”خیلاء “کی قیداتفاقی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار ومشرکین تفاخر وتکبر اور احساسِ برتری کے مظاہرے کے لیے اپنے کپڑوں میں حد سے زیادہ اسراف کرتے تھے، جب وہ چلتے تو ان کی چادریں اور لنگیاں زمین پر گھسٹتی تھیں، اور اسے وہ بڑائی کی علامت جانتے تھے؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان جب ایک سفیر کی حیثیت سے قریش کے پاس گئے، تو قریش نے حضرت عثمان کی لنگی ٹخنوں سے اوپر دیکھ کر کہا : آپ اسے نیچی کرلیں؛ کیوں کہ روٴساء قریش اسے معیوب سمجھتے ہیں، تو آپ نے جواب دیا : ”لَا، ہَکَذَا إزْرَةُ صَاحِبِیْ صلی اللہ علیہ وسلم “ یعنی میں ایسا ہر گز نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ میرے حبیب کی یہی سنت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبة، کتاب المغازی، غزوة الحدیبیة، حدیث نمبر: ۳۶۸۵۲)
جن احادیث میں ”خیلاء“ کی قید ہے، ان میں اس لفظ کے ذریعہ مشرکین کے اسی تکبر کی ترجمانی کی گئی ہے، اور ان کے متکبرانہ احوال کو اس لفظ ”خیلاء“ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ ”خیلاء“ کی قید مشرکین کی حالت اور واقعہ کو بیان کرنے کے لیے ہے، یعنی یہ قید صرف واقعی ہے، احترازی نہیں ہے؛ لہذا اب تکبر ہو ،یا نہ ہو ،دونوں صورتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننا درست نہ ہوگا۔
کیا عرف وعادت کی وجہ سے اسبالِ ازار جائز ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ اور اتنی سخت وعیدوں کے بعد کسی ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے لیے یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ بلا کسی عذرِ شدیدکے اسبالِ ازار کی جرأت کرسکے، اور ادنیٰ بھی دینی غیرت رکھنے والا کوئی مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان عالی کے مقابلہ میں عرف وعادت کو ترجیح نہیں دے سکتا اور اس کا بہانہ نہیں بنا سکتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداس عمل سے پوری زندگی اجتناب فرمایا اور اپنے صحابہ کو اس سے منع فرمایا؛ حالانکہ صحابہٴ کرام ،امت کی سب سے بہترین جماعت ہیں، اگر تکبر نہ ہونے کا کسی کو دعویٰ ہوسکتا ہے، تو وہ اسی مقدس جماعت کو زیب دیتا ہے، لہٰذا اگر کبر نہ ہونے کی بناء پر اسبالِ ازار جائز ہوتا، توحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہٴ کرام کے لیے جائز ہونا چاہیے تھا۔
اسبال ازار ”کبر“ کی وجہ سے ہی ہوتا ہے
" وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الإِزَارِ فَإِنَّهُ مِنَ الْمَخْيَلَةِ ، وَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمَخْيَلَةَ " .
[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ السِّينِ » مَنِ اسْمُهُ سُلَيْمٌ » سُلَيْمُ بْنُ جَابِرٍ أَبُو جُرَيٍّ الْهُجَيْمِيُّ ... رقم الحديث: 6265+6269]
[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ السِّينِ » مَنِ اسْمُهُ سُلَيْمٌ » سُلَيْمُ بْنُ جَابِرٍ أَبُو جُرَيٍّ الْهُجَيْمِيُّ ... رقم الحديث: 6265+6269]
اپنے تہبند کو نصف ساق (آدھی پنڈلی) تک اونچا رکھو، پس اگر اس سے انکار کرو تو کم از کم ٹخنوں سے اونچا رکھو اور تہبند (شلوار یا پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچتے رہو اس لیے کہ یہ تکبر میں سے ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں فرماتے.
تخريج الحديث
|
تشریح: صحابہ کی طہارتِ باطنی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسبالِ ازار سے ان کو منع فرمانا، اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اسبالِ ازار کا یہ عمل ہی شریعت کے نزدیک قبیح اور مکروہ ہے، چاہے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس کے اندر کبر نہیں ہے، بعض احادیث کے اند ر”خیلاء“ یعنی کبر کی جو قید آئی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو تکبراً ایسا کرے، اس کے لیے وعید ہے،اور جس میں تکبر نہیں ہے اس کے لیے اسبالِ ازار کی اجازت ہے؛بلکہ اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اسبالِ ازار کا سبب ہی کبر ہے، یعنی جن کے اندر کبر ہوتا ہے وہی یہ حرکت کرتے ہیں، اسی حدیث کی وجہ سے صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:
”وَحَاصِلُہ أنَّ الْاسْبَالَ یَسْتَلْزِمُ جَرَّ الثَّوْبِ، وَجَرُّ الثَّوْبِ یَسْتَلْزِمُ الْخُیَلاَءَ، وَلَوْ لَمْ یَقْصِدِ اللَّابِسُ الْخُیَلاَءَ“
یعنی اسبالِ ازار کپڑے گھسیٹنے کو مستلزم ہے اور کپڑا گھسیٹنا تکبر کو مستلزم ہے، چاہے پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری ۱۰/۳۲۵،کتاب اللباس)
اسبالِ ازار مطلقاً حرام
علماء کی ایک بڑی جماعت نے تکبر اور عدمِ تکبر کے درمیان فرق کیے بغیر اسبالِ ازار کو حرام قرار دیا ہے، اور عدمِ تکبر کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا ہے؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے بعد اسبالِ ازار کرنے کو تکبر کی دلیل قرار دیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتح الباری:۱۰/۳۲۵،کتاب اللباس)
اسبالِ ازار کی حالت میں پڑھی گئی نماز کا شرعی حکم
بہت سے مسلمان جن تک اسبالِ ازار کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدیں نہیں پہنچی ہیں، وہ جس طرح نماز سے باہر اسبال ازار کرتے ہیں، اسی طرح نماز میں بھی یہ عمل کرتے ہیں؛ جب کہ اسبالِ ازار کے سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدیں بہت ہی سخت ہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : ”لَا یَقْبَلُ صَلاةَ مُسْبِلٍ“ یعنی اللہ تعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اسبالِ ازار کی حالت میں جو نماز ادا کی گئی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ وہ نماز دوبارہ پڑھی جائے گی، یا مکروہ تحریمی ہوگی یا مکروہ تنزیہی؟
اسبالِ ازار کی حالت میں نماز مکروہ
جس اسبالِ ازار کی حرکت سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی سختی سے منع فرمایا ہے، اور جس پر اتنی شدید وعیدیں سنائی ہیں، اسی حرکت کو نماز میں کرنا ،اللہ تعالیٰ کے سامنے اور اس کے دربار میں کرنا، کس درجہ قبیح، مذموم اور کتنا گھناوٴنا اور برا عمل ہوگا، اس کا فیصلہ ہر ایمان رکھنے والا دل کرسکتا ہے؛ اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اسبال ازار کے ساتھ جو نماز ادا کی جائے، وہ مکروہ ہوتی ہے۔
ہاں اگر کوئی شرعی معذور ہے، تووہ اس سے مستثنیٰ ہے، اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غالب گمان ہو کہ اس میں تکبر نہ ہوگا (اور اس کا دعویٰ اس زمانے میں کون کرسکتا ہے اور اگر کوئی کرتا بھی ہے، تو یہ شیطانی دھوکہ ہے، الا ماشاء اللہ)تو اس کی نماز اگر چہ اس درجہ مکروہ نہیں؛ لیکن فی الجملہ کراہت سے وہ بھی خالی نہیں ۔
وَاطَالَةُ الذَّیْلِ مَکْرُوْہَةٌ عِنْدَ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَالشَّافِعِيِّ فِي الصَّلاَةِ وَغَیْرِہَا․(مرقاة المفاتیح،باب الستر، الفصل الثانی ۲/۶۳۴، حدیث:۷۶۱)
امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک دامن (کپڑے) کو ٹخنوں سے زیادہ لمبا کرنا نماز اور خارج نمازدونوں میں مکروہ ہے۔
صادق ومصدوق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ اس مسئلہ میں بالکل صریح اور واضح ہیں کہ اسبالِ ازار علامتِ تکبر ہے، لہٰذا اس کے بعد تکبر نہ ہونے کا دعویٰ کرنا نفسانی اور شیطانی دھوکہ ہے، جو انسان کا کھلا دشمن ہے، جب صحابہ جیسی برگزیدہ اور مقدس جماعت کو اس سے گریز کرنے کا حکم دیا گیا، تو ہم اور آپ کس شمار میں آتے ہیں، لہذا ہر مسلمان کو نماز کے اندر بھی اور نماز کے باہر بھی اسبالِ ازارسے پورے طور پر اجتناب کرنا چاہیے!
نماز سے پہلے پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑنے کا حکم؟
اسبالِ ازار کے سلسلے میں جو احادیث اوپر آپ کے سامنے آئی ہیں، اسی طرح اسبالِ ازار کی حالت میں نماز کا جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس کا تقاضہ تویہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے محبت رکھنے والا ہر مومن اپنی پوری زندگی میں اس عمل سے بالکل گریز کرے؛چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھیں احادیث کے احترام میں ہمارے اکثر مسلمان بھائی نماز سے قبل پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑ لیتے ہیں؛ تاکہ ٹخنے کھل جائیں اور کم از کم نماز میں اس گناہ سے بچ سکیں اور ان کی نماز سنت کے مطابق ادا ہوجائے۔
کیا نماز سے قبل پائینچے موڑنا مکروہ ہے؟
تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا نماز سے پہلے پائینچے موڑنے کا یہ عمل درست ہے، اس طرح کرنے سے نماز میں کوئی کراہت تو نہیں آئے گی؛ کیوں کہ بعض حضرات پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار نہیں دیتے، اور وہ کہتے ہیں کہ اسبالِ ازار کی حالت میں ہی نماز ادا کی جائے؟
نماز سے قبل پائینچے موڑنا درست ہے
احادیثِ مبارکہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم کپڑے ایسے ہی بنوائیں جن میں خود بخود ٹخنے کھلے رہیں، پائینچے موڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے؛ لیکن ہمارے اکثر نوجوان جو چست جینزیا دیگر پینٹ پہنتے ہیں، جن میں پائینچے موڑے بغیر ٹخنے کھولنے کی کوئی دوسری شکل نہیں ہوتی، تو اب ان کے سامنے دوہی صورت رہ جاتی ہے، (۱) اسی حالت میں (یعنی ٹخنے ڈھکے ڈھکے) نماز پڑھنا، (۲)پائینچے موڑ کر نماز پڑھنا۔
پہلی صورت میں وہ مندرجہ بالا ان تمام احادیث کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں گے، جن میں اس عمل کی قباحت بیان کی گئی ہے، لہٰذا ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ نماز سے قبل پائینچے موڑ لیں؛ تاکہ کم از کم نماز کی حالت میں اس گناہ سے بچ سکیں، خلاصہ یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھنا حدیث کی خلاف ورزی ہے اور کم از کم نمازمیں پائینچے موڑ کر ٹخنوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔
نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے
بعض مکاتبِ فکر کے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہے، تو وہ نماز سے قبل اپنے پائینچے نہ موڑے؛ کیوں کہ یہ عمل مکروہ ہے، جس سے نماز میں کراہت آتی ہے، حتی کہ ان میں سے بعض نے اس عمل کو مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے، اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ نماز واجبُ الاعادہ ہوگی۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى مَنْ يَجُرُّ إِزَارَهُ بَطَرًا
اللہ اس آدمی کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا کہ جو اپنی ازار کو متکبرانہ انداز میں نیچے لٹکاتا ہے۔
تخريج الحديث
لَا تُسْبِلْ إِزَارَكَ ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْبِلِينَ
اپنے کپڑے مت لٹکاؤ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کپڑا لٹکانے والے کو پسند نہیں فرماتے ۔
[سنن ابن ماجہ: جلد سوم:حدیث نمبر 454 ، 33501]
تخريج الحديث
|
تشریح:ان حدیثوں میں فخر اور غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج ہوگا، وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظرکرم بھی نہ فرمائے گا، ہائے ایسے لوگوں کی محرومی و بدبختی! اللہم احفظنا !
حضرت ابو سعید خدریؓ کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پاجامہ نصف پنڈلی تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو،تو یہ بھی جائز ہے؛ لیکن اس سے نیچے جائز نہیں؛ بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ " .
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی فخرو تکبر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا، حضرت ابو بکر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا تہبند اگر میں اس کا خیال نہ رکھوں، تو نیچے لٹک جاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو فخروغرور کے جذبہ سے ایسا کرتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ حضرت ابو بکرکے ازار کا تھا، آپ نے کبھی بھی ارادے سیٹخنوں سے نیچے تہبند نہیں باندھا، اور یہ حضرات صحابہٴ کرام کی دینی فکر اور اطاعتِ حکمِ الٰہی اور حکمِ رسول کی اعلیٰ مثال ہے کہ وہ اپنے اُن اعمال کو جو صرف صورةً مخالفت کی فہرست میں آتے ہیں، انھیں بھی صریح مخالفت تصور کرتے تھے، اور ان سے احتیاط برتتے تھے۔
تخريج الحديث
|
مخالفین کے دلائل
یہ حضرات اپنے اس موقف اور مسلک کی تائید میں کئی دلائل پیش کرتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
پہلی دلیل: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارک جس میں کپڑے اور بالوں کو سمیٹنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے:
عن ابن عباس رضي اللہ عنہما، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: أُمِرْتُ أنْ أسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةٍ، لاَ أکُفُّ شَعْراً وَلاَ ثَوْباً․
حضرت عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں، اور نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑوں کو۔(بخاری، کتاب الصلاة، باب لا یکف ثوبہ فی الصلاة، حدیث نمبر: ۸۱۶)
تشریح: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کپڑوں کا سمیٹنا ممنوع ہے، اور پائینچے موڑنا بھی کپڑے کا سمیٹنا ہے، لہٰذا وہ بھی ممنوع ہوگا۔
دوسری دلیل: فقہاء کی وہ عبارتیں ہیں جن میں ”کَفِّ ثوب“ کی کراہت کا حکم بیان کیا گیا، جیسے ”در مختار“ میں ہے:
وَکُرِہَ کَفُّہ: أَيْ رَفَعُہ، وَلَوْ لِتُرَابٍ، کَمُشْمِرٍّ کُمٍّ أَوْ ذَیْلٍ․ (در مختار علی رد المحتار ۲/۴۰۶)
مکروہ ہے کپڑے کو سمیٹنا، چاہے مٹی سے بچنے کے لیے ہو، جیسے آستین چڑھانا اور دامن سمیٹنا۔
اور شامی میں اس کے تحت لکھا ہے:
”وَأشَارَ بِذٰلِکَ الیٰ أنَّ الْکَرَاہَةَ لاَ تَخْتَصُّ بِالْکَفِّ وَہُوَ فِي الصَّلاَةِ“
اس کے ذریعہ مصنف نے اشارہ کیا ہے کہ کپڑا سمیٹنے کی کراہت نماز کی حالت کے ساتھ خاص نہیں ہے․(رد المحتار۲/۴۰۶)
پہلی عبارت میں مطلقاً کپڑا سمیٹنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، اور شامی میں یہ صراحت کی گئی کہ کپڑا سمیٹنا، چاہے نماز کے اندر ہو، یا اس سے پہلے، دونوں حالتوں میں مکروہ ہے، لہٰذا دونوں عبارتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان جو کپڑا پہنے ہوئے ہے، اگر اسے کہیں سے بھی موڑے، تو یہ عمل مکروہ ہوگا، اور پائینچے موڑنا بھی اسی قبیل سے ہے، لہٰذا یہ بھی مکروہ ہوگا۔
تیسری دلیل: پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے، اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہٰذا پائینچے موڑنے کا عمل بھی مکروہ ہوگا۔
مخالفین کے دلائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ
پہلی دلیل کا جائزہ: پہلی دلیل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جس حدیث سے پائینچے نہ موڑنے پر استدلال کیا گیا ہے ، یہ استدلال درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اس حدیث میں ”کف ثوب“ (یعنی کپڑے سمیٹنے) سے مراد ”ازار“ کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ ہیں، اور اس کی حکمت صاحب فتح الباری شرح صحیح البخاری علامہ ابن حجر نے یہ لکھی ہے:
”وَالْحِکْمَةُ فِيْ ذٰلِکَ أَنَّہ اذَا رَفَعَ ثَوْبَہ وَشَعْرَہ عَنْ مُبَاشَرَةِ الْأَرْضِ أشْبَہَ الْمُتَکَبِّرَ“ (فتح الباری۲/۳۷۷، کتاب الصلوة، باب السجود علی سبعة اعظم)
اور حکمت اس میں یہ ہے کہ جب وہ اپنے کپڑے اور بالوں کو مٹی لگنے کے ڈر سے اٹھائے گا، تو اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت پیدا ہوگی۔
اور پائینچے موڑنا سنت پر عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ تکبر کی وجہ سے؛ لہٰذا یہ اس حدیث کے تحت داخل نہیں ،نیز ایک دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جو نیچے پیش کی جاتی ہے۔
حدیث سے پائینچے موڑنے کی تائید
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس طرح نماز پڑھائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے:
عن أبي جُحَیفة قال: ․․․․ فرأیتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ في حُلَّةٍ مُشَمِّراً، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ إلی الْعَنَزَةِ․․
حضرت ابو جحیفة فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے لباس میں تشریف لائے، جس میں ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الصلوة، باب التشمر فی الثیاب، حدیث نمبر: ۸۶ ۵۷)
ایک دوسری سند میں یہ الفاظ بھی ہیں: کَأَنِّيْ أَنْظُرُ إلیٰ بَرِیْقِ سَاقَیْہِ․․․
یعنی صحابی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازار نیچے سے اتنی اٹھا رکھی تھی، گو یا کہ میں آپ کی پنڈلیوں کی چمک ابھی تک دیکھ رہا ہوں۔
اس حدیث میں ایک لفظ آیا ہے ”مُشَمِّراً“ جو ”تشمیر“ سے بنا ہے، اور تشمیرُالثوبِ کے معنی لغت میں ہیں: آستین چڑھانا، پائینچے موڑنا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر کرنا۔(القاموس الوحید ۱/۸۸۶، مادہ: ش م ر)نیز علامہ ابن حجر نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں: ”رَفَعُ أسْفَلِ الثَّوْبِ“ یعنی کپڑے کے سب سے نچلے حصے کو اٹھانا۔ (فتح الباری۲/۳۱۵)جس کی ایک شکل پینٹ یا پائجامے کے پائینچے موڑنا بھی ہے۔
پائینچے موڑنا ”کَفِّ ثوب“ کی حدیث کے تحت داخل نہیں
اسی لیے علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ احادیث میں ”کفِّ ثوب“ کی جو ممانعت آئی ہے ،وہ ”ازار“ وغیرہ کے علاوہ میں ہے:
وَیُوٴْخَذُ مِنْہُ أنَّ النَّہْيَ عَنْ کَفِّ الثِّیَابِ فِي الصَّلاَةِ مَحَلُّہ فِيْ غَیْرِ ذَیْلِ الْازَارِ․․․ (فتح الباری۲/۳۱۶)
اس حدیث سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ نماز میں ”کف ثوب“ کی ممانعت ”ازار“ کے نچلے حصے کے علاوہ میں ہے۔
دونوں حدیثوں کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ پہلی حدیث میں ”کف ثوب“ سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں، اور ان کپڑوں میں ”کف ثوب“ کی علت متکبرین کے ساتھ مشابہت ہے،اور دوسری حدیث نیز علامہ ابن حجر کی شرح سے یہ واضح ہوگیا کہ ”ازار“ کے نچلے حصے کو اٹھانا، یا موڑنا ”کف ثوب“کی ممانعت میں داخل نہیں، لہٰذا پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے ہمارے بھائیوں کو دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے!
دوسری دلیل کا جائزہ: حدیث کی اس بھر پور توضیح وتشریح سے یہ مسئلہ بالکل صاف ہوگیا کہ فقہ کی کتابوں میں جس ”کف ثوب“ کو مکروہاتِ صلوٰة میں شمار کیا گیا ہے، وہاں بھی ”کف ثوب “ یعنی کپڑے سمیٹنے سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں، اور پینٹ یا پائجامہ وغیرہ کا موڑنا اس میں داخل نہیں، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ کی عام کتابوں میں ”کف ثوب“ کی مثال میں آستین اور قمیص کے دامن کا تذکرہ ملتا ہے، کہیں ازار یا پائجامے کا ذکر نہیں ملتا۔
نیز فقہ کی کتابوں میں بھی ”کف ثوب“ کی وہی علت بیان کی گئی، جو مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں علت میں گزری ہے، یعنی متکبرین کے ساتھ مشابہت؛ چنانچہ کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں لکھا ہے: ”(وَکَفَّ ثَوْبَہ) لاِٴَنَّہ نَوْعُ تَجَبُّرٍ“
اور نماز کے مکروہات میں کپڑے کا سمیٹنا ہے؛ کیوں کہ یہ تکبر کی ایک قسم ہے۔ (تبیین الحقائق ۱/۱۶۴، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا)
تیسری دلیل کا جائزہ: ان کی تیسری دلیل یہ ہے کہ پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس دلیل کے دو جواب ہیں:
(۱) ٹخنے سے اوپر کپڑا کرنے کو بد ہیئتی قرار دینا، بعینہ جدید دور کے افراد کے ذہنوں کی ترجمانی ہے؛ کیوں کہ سوائے چند حضرات کے ماڈرن دور کا کوئی بھی فرد ٹخنے سے اوپر کپڑا پہننے کو، چاہے جس طرح بھی ہو، اچھی ہیئت قرار نہیں دیتا؛ بلکہ اس میں عار محسوس کرتا ہے، اور اسے معیوب سمجھتا ہے، تو کیا ہم ان کے معیوب سمجھنے کی وجہ سے اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیں گے!
(۲) ٹخنوں سے اوپر پائینچے رکھنے کو بد ہیئتی قرار دینا غلط اور بلا دلیل ہے؛ کیوں کہ قاعدہ ہے کہ جو ہیئت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، وہ بری ہیئت نہیں ہوسکتی، اور اس ہیئت کے ساتھ نماز مکروہ نہیں ہوگی، اور ٹخنے کھلے رکھنے، نیز ”ازار“ اوپر اٹھانے کا عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسا کہ ابھی احادیث میں گزرا، لہٰذا اسے بدہیئتی قرار دینا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور آپ کی سنت کے خلاف ہوگا، جیسا کہ کُرتے کے بٹن کھلے رہنا بھی بظاہر بد ہیئتی ہے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس لیے مکروہ نہیں، اور اس سے نماز میں کراہیت نہیں آتی۔(ابوداوٴد، کتاب اللباس، باب فی حل الازرار، حدیث نمبر: ۴۰۸۲)
نمازسے پہلے پائینچے موڑنے کے سلسلے میں علماءِ حق کے فتاویٰ
نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے جواز کے فتاویٰ، کتابوں میں کثرت سے موجود ہیں؛ لیکن اختصار کے پیش نظر ہم صرف دو فتووٴں پر اکتفاء کرتے ہیں، ایک دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ، دوسرا علماءِ عرب کا فتویٰ۔
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں سائل نے نماز سے قبل پائینچے موڑ کر ٹخنے کھولنے سے متعلق مسئلہ دریافت کیا ہے، بعض مخالفین نے جو اسے شبہے میں ڈالا تھا، ان کے دلائل کا مدلل جواب بھی طلب کیا ہے، فتوے میں ان تمام دلائل کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں، اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار دیا گیا ہے، فتویٰ بعینہ آپ کی خدمت میں پیش ہے:
سوال: کیا پائینچے ٹخنوں سے نیچے اگر ہورہے ہوں تو انھیں اگر موڑ کر نماز پڑھ لی جائے تو پائینچے موڑنے کا عمل مکروہ تحریمی کہلائے گا اور نماز واجب الاعادہ ہوگی، نیز اگر کپڑے یا ٹوپی کا کوئی حصہ مڑ جائے تو تب بھی یہی حکم ہے؟اس کے حوالے میں بریلوی حضرات مختلف فقہاء کے اقوال نقل کرتے ہیں:
(۱) علامہ ابن العابدین الشامی فرماتے ہیں: أَيْ کَمَا لَوْ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَہُوَ مُشَمِّرٌ کُمَّہ أَوْ ذَیْلَہ وَأَشَارَ بِذَلِکَ الیٰ أنَّ الْکَرَاہَةَ لاَ تَخْتَصُّ بِالْکَفِّ وَہُوَ فِي الصَّلاَةِ․(رد المحتار)
(۲) وَکُرِہَ کَفُّہ أَيْ رَفْعُہ وَلَوْ لِتُرَابٍ کَمُشَمِّرِ کُمٍ أوْ ذَیْلٍ․ (در مختار)
(۳) جوہرہ نیرہ میں ہے: وَلاَ یَکُفُّ ثَوْبَہ وَہُوَ أنْ یَرْفَعَہ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ أوْ مِنْ خَلْفِہ اذَا أرَادَ السُّجُوْدَ․ (الجوہرة النیرة۱/۶۳)
(۴) قالَ علیہ السلامُ: أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةِ أعْظُمٍ لاَ أَکُفُّ ثَوْبًا وَلاَ أَعْقُصُ شَعْراً․
(۵)حضرت امام بصری سے روایت ہے: کف ثوب کرنے والے کی نماز مکروہِ تحریمی ہے۔ (۲/۹۱)
آپ سے درخواست یہ ہے کہ ان حوالوں کا مدلل جواب دیں۔
جواب: ٹخنوں سے نیچے پائجامہ یا لنگی لٹکانا ان سخت گناہوں میں سے ایک ہے، جن پر جہنم کی وعید آئی ہے؛ اس لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس حکم کی خلاف ورزی کر کے ٹخنے سے نیچے پائجامہ اور پینٹ وغیرہ لٹکائے، عام حالات میں بھی یہ جائز نہیں ہے، اور نماز میں تو اور زیادہ قبیح ہے، ”اِسبال“ (ٹخنے سے نیچے پائجامہ یا پینٹ وغیرہ لٹکانا) مطلقاً ناجائز ہے، اگر چہ ”مسبل“ (لٹکانے والا) یہ ظاہر کرے کہ میں تکبر کی وجہ سے نہیں کررہا ہوں؛ ہاں! اگر غیر اختیاری طور پر ایسا ہوجائے ، یا کسی یقینی قرینے سے معلوم ہو کہ اس میں کبر نہیں تو یہ حکم نہیں لگے گا، جیسا کہ حضرت ابو بکر کے واقعہ میں ہے۔
لہٰذا تکبر اور غیر تکبر کے درمیان فرق کرنا ،ایک کو ناجائز اور دوسرے کو جائز کہنا ،یا ایک کو مکروہ تحریمی اور دوسرے کو تنزیہی شمار کرنا شراح حدیث کی تشریح کے مطابق صحیح نہیں؛ اس لیے کہ حدیث کے اندر ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے اور اس کے کھینچنے کو تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے، اور جن احادیث کے اندر ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے، یہ قید احترازی نہیں ہے؛ بلکہ قید اتفاقی یا واقعی ہے کہ ازار لٹکانے والا متکبر ہی ہوتا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ٹخنوں سے اونچا پائجامہ یا پینٹ پہننے میں عار آتی ہے، یا ایسے پہننے والوں کو نظرِ حقارت سے کیوں دیکھتے ہیں؟ اس بابت ان سے مضحکہ بھی کرتے ہیں،․․․
․یعنی خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ اسبال مطلقاً ”جر ثوب“ یعنی کپڑا گھسیٹنے کو مستلزم ہے، اور جر ثوب تکبر کو مستلزم ہے، اگر چہ پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری ۱۰/۲۵۴)․․․․لہٰذا اگر کوئی آدمی اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے یعنی لنگی پینٹ وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹکا کر پہنتا ہے؛ لیکن یہ نماز کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا لیتا ہے؛ تاکہ نماز کے وقت کم از کم گناہ سے بچے، اور اس حدیث کا مصداق نہ بنے اور اس کی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہوجائے تو یہ عمل مستحسن ہوگا نہ مکروہ۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ بوقتِ نماز پائینچے کو اوپر چڑھا کر نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی کہنا نہ تو شرعاً صحیح ہے اور نہ عقلاً، سوال میں فقہاء کی جن عبارتوں اور ترمذی کی جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ان سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتا، ذیل میں یہ عبارت ذکر کی جاتی ہیں:
(۱) کَمُشَمِّرِ کُمٍّ أوْ ذَیْلٍ أَيْ کَمَا لَوْ دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَہُوَ مُشَمِّرُ کُمِّہ أَوْ ذَیْلِہ وَأَشَارَ بِذٰلِکَ الیٰ أنَّ الْکَرَاہَةَ لاَ تَخْتَصُّ بِالْکَفِّ وَہُوَ فِي الصَّلاَةِ․(رد المحتار)
(۲) وَلاَ یَکُفُّ ثَوْبَہ وَہُوَ أن یَرْفَعَہ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ أَوْ مِنْ خَلْفِہ اذَا أرَادَ السُّجُوْدَ․
(۳) قال علیہ السلام أُمِرْتُ أنْ أسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةِ أعْظُمٍ لاَ أَکُفُّ ثَوْباً وَلاَ أَعْقُصُ شَعْراً․
حدیث شریف اور فقہی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کے لیے مکروہ ہے کہ وہ آستین چڑھا کر نماز میں داخل ہو، یا دورانِ نماز اپنے کپڑے کو آگے پیچھے سے سمیٹے؛ تاکہ مٹی وغیرہ نہ لگے ،یاپہلے سے کپڑے کو اٹھائے رکھے، مٹی سے بچانے یا اظہارِ تکبر کے مقصد سے؛ چنانچہ کنز کی مشہور شرح تبیین الحقائق میں مکروہ ہونے کی علت لکھی ہے”وَلاِٴنَّہ نَوْعُ تَجَبُّرٍ“ یعنی کراہت اظہار تکبر کی وجہ سے ہے او راس کے حاشیہ میں ”کف الثوب“ کے تحت لکھا ہے ”وھو أن یَضُمَّ أَطْرَافَہ اِتِّقَاءَ التُّرَابِ“ اسی طرح ہدایہ میں بھی اس کی علت ”لأنہ نَوْعُ تَجَبُّرٍ“ لکھی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ” کف ثوب “کا یا تو یہ مطلب ہے کہ دورانِ نماز کپڑا سمیٹے، صاحب غنیة المستملی نے یہی تفسیر کی ہے، اس صورت میں کراہت کی وجہ نماز میں دوسرے کام میں مشغول ہونا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ مطلقاً ”کف ثوب“ مکروہ ہے، خواہ دورانِ نماز ہو یا کپڑا سمیٹ کر نماز میں کھڑا ہو، تو اس کی وجہ اظہارِ بڑکپن (تکبر)ہے کہ نماز میں عبث کے اندر مشغول ہونا ہے، نیز شامی کی عبارت ”کمشمر کم․․․“ (یعنی آستین چڑھا کر نماز پڑھنا)سے پائینچے وغیرہ کو چڑھا کر نماز پڑھنے کی کراہت پر استدلال صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ آستین چڑھا کر نماز پڑھنے کا کوئی شرعی مقصد نہیں ہے؛ کیوں کہ اس سے بے ادبی اور تکبر ظاہر ہوتا ہے، بر خلاف نماز کے لیے پائینچے چڑھانا، یہ ایک نیک مقصد یعنی کم از کم دورانِ نماز گناہ سے بچنے کے لیے ہے اور اس میں نہ تو تکبر ہے اور نہ ہی بے ادبی۔
الغرض! ان عبارات سے اس پر استدلال کرنا کہ نماز پڑھنے کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا نامکروہِ تحریمی ہے، صحیح نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، فتوی (د):۹۳= ۲۱- ۱۴۳۲/۲
علماء عرب کا فتویٰ
عرب کا ایک باشندہ جو نماز سے قبل پینٹ کے پائینچے موڑتا تھا، جب اس کے سامنے وہ حدیث آئی، جس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں نہ کپڑے سمیٹتا ہوں اور نہ بالوں کو اٹھاتا ہوں“ تو اس نے اپنے اس عمل کا حکم اور حدیث کا مطلب دارالافتاء سے معلوم کیا۔
فتوے میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ نماز سے قبل پائینچے موڑنا”کف ثوب“ کی ممانعت والی حدیث کے تحت داخل نہیں ہے، لہٰذا یہ عمل درست ہے، فتویٰ کا ترجمہ درج ذیل ہے:
سوال: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں اور نہ کپڑوں کو موڑوں اور نہ ہی بالوں کو سمیٹوں، اب سوال یہ ہے کہ ہم کام کے اوقات میں اپنے پائجامہ وغیرہ کو نیچے سے موڑتے ہیں؛ تاکہ نماز کے وقت (بھی) اسبال کے گناہ سے بچ سکیں تو کیا ہمارایہ عمل درست ہے؟
جواب: الحمد للّٰہ والصلاة والسلام علی رسول اللّٰہ وعلی آلہ وصحبہ أما بعد! سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ حدیث ”ولا أکف ثوبا وشعراً“ نیز ”ولا أکفت“ کے الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور ہے، لیکن ”وأن لا أطوي“ کا لفظ غیر معروف ہے۔
رہا مسئلہ کا حکم، تو اسبال ازار نماز اور خارج نماز دونوں میں ممنوع ہے، جیسا کہ بہت ساری احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہٰذا اگر کوئی مصلی اپنا کپڑانماز کی حالت میں اسبال کی حد سے اوپر اٹھاتا ہے تو وہ مذکورہ بالا حدیث کا مصداق نہیں ہوگا، جس میں کپڑا موڑنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے؛ اس لیے کہ نماز اور خارج نماز میں کپڑے کا موڑنا ایک حکم شرعی ہے، اور کئی اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ نماز میں کپڑا موڑنے میں کراہت اس وقت ہوتی ہے؛ جب کہ یہ عمل بلا ضرورت ہو، اگر ضرورت کی وجہ سے ہو تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، روض الطالب کے شافعی مصنف لکھتے ہیں کہ نمازی کے لیے بلا ضرورت اپنے بالوں اور کپڑوں کا سمیٹنا مکروہ ہے، فقط واللہ اعلم۔
حرف آخر
اس پوری بحث اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ نیز محدثین کرام کی تشریحات اور فقہاء کی عبارتوں سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا کہ اسبالِ ازار شریعت کی نگاہ میں ممنوع اور حرام ہے، چاہے اسبال ازار کرنے والا یہ دعویٰ کرے کہ اس میں تکبر نہیں ہے، نیز یہ مسئلہ بھی بالکل صاف ہوگیا کہ اگر کوئی مسلمان گناہ سے بچنے کے لیے نماز سے پہلے اپنی پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑتا ہے؛ تاکہ اس کی نماز سنت کے مطابق ہو اور وہ کم از کم نماز کی حالت میں اسبالِ ازار کے گناہ سے بچ سکے، تو اس کا یہ عمل بالکل درست ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوچکا ہے، لہٰذا جو حضرات نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اپنے مسلک سے اوپر اٹھ کران احادیث اور محدثین کی ان تشریحات کو بغور پڑھنا چاہیے، جن میں اس عمل کی انتہائی مذمت اور قباحت بیان کی گئی ہے، اور پائینچے موڑنے اور ٹخنے کھولنے کے عمل کو درست قرار دیاگیاہے ۔
%%%
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا شرعی حکم
جس میں عام حالتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے، بالخصوص نماز کی حالت میں
کپڑا لٹکانے اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے پر مدلل ومفصل بحث کی گئی ہے
|
اسلام ایک ایسا جامع دستورِ حیات ہے، جس میں حیاتِ انسانی کی مکمل رہبری ورہنمائی موجود ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، انسان کی انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، اسلام نے جس طرح رہنے سہنے اور کھانے پینے کے اصول بتائے ہیں، اسی طرح کپڑے پہننے کے سلسلے میں بھی مکمل رہنمائی فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح غیر اسلامی اور غیر قوموں کے مشابہ لباس سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایسا لباس، جس میں تکبر کا شائبہ ہو، اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے،ا سلامی لباس کا ایک محکم ضابطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ مردوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے نہیں ہونا چاہیے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید بیان فرمائی ہے،ذیل میں اس سلسلہ کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
عہد نبوی میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھتے تھے، ”ازار“ یعنی تہبند اس طرح باندھتے تھے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا تھا، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالاتری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا، اور اس وجہ سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں:
عن ابن عمرَ، أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: مَنْ جرَّ ثوبَہ خُیَلَاءَ لَمْ ینظُرِ اللّٰہُ إلیہِ یومَ القیامةِ․
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغروراو رفخر کے طورپر (زمین پر) گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظرِ کرم نہ فرمائے گا۔(بخاری، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:لوکنت متخذا خلیلا․․․․حدیث نمبر: ۳۶۶۵)
عَنْ أبي سَعِیْدِن الْخُدْرِيِّ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقولُ: ازارةُ المُوٴْمِنِ الٰی أنْصَافِ سَاقَیْہِ، لاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ فِیْمَا بَیْنَہ وَبَیْنَ الْکَعْبَیْنِ، وَمَا أسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ فَفِي النَّارِ، قَالَ ذٰلِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ وَلاَ یَنْظُرُ اللّٰہُ یومَ القیامةِ الیٰ مَنْ جَرِّ ازارَہ بَطَرًا (ابوداوٴد، اللباس، باب فی قدر الموضع من الازار، حدیث نمبر:۴۰۹۵)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، فرماتے تھے کہ مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ(یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے)اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)(راوی کہتے ہیں) کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی(اس کے بعد فرمایا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہِ فخروتکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔
تشریح:ان حدیثوں میں فخر اور غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج ہوگا، وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظرکرم بھی نہ فرمائے گا، ہائے ایسے لوگوں کی محرومی و بدبختی! اللہم احفظنا !
حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پاجامہ نصف پنڈلی تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو،تو یہ بھی جائز ہے؛ لیکن اس سے نیچے جائز نہیں؛ بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔
حضرت ابو بکر کی حدیث اور اس کی صحیح تشریح
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: مَنْ جَرَّ ثَوْبَہ خُیَلَاءَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إلیہ یومَ القیامةِ، فقالَ أبو بکرٍ: یا رسولَ اللّٰہِ إزارِيْ یَسْتَرْخِيْ إلاَّ أنْ أتَعَاہَدُہ، فقالَ لَہ رسولُ اللّٰہِ ﷺ: إنَّکَ لَسْتَ مَنْ یَفْعَلُہ خُیَلَاءَ․ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جر ازارہ من غیر خیلاء، حدیث نمبر: ۵۷۸۴)
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی فخرو تکبر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا، حضرت ابو بکر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا تہبند اگر میں اس کا خیال نہ رکھوں، تو نیچے لٹک جاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو فخروغرور کے جذبہ سے ایسا کرتے ہیں۔
(معارف الحدیث، کتاب المعاشرة والمعاملات ج ۶،ص ۲۸۳ تا ۲۹۲)
تشریح: حضرت ابو بکر صدیق دبلے پتلے جسم والے تھے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار چلتے ہوئے آپ کا تہبند بے دھیانی میں ٹخنوں سے نیچے سرک جاتا تھا، اور یاد آنے پر پھر فورا ًآپ تہبند درست فرماتے، جس کی حدیث میں صراحت مذکور ہے، اور واضح طور پر یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید کا مصداق نہیں ہے؛ لیکن صحابہٴ کرام کا حال بالکل مختلف تھا، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی ادنی سے ادنی خلاف ورزی(چاہے ظاہری طور پر ہی کیوں نہ ہو یا غفلت ولا شعوری کے عالم میں ہی ہو)برداشت نہ کرتے تھے، اور اس کا حکم ضرور معلوم کرتے؛ تاکہ کوئی صورت معافی کی نکل آئے، اس کی مثال وہ واقعہ ہے کہ ایک صحابی دوڑتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس جارہے تھے، حضرت ابو بکرنے دریافت کیا کہ ایسے دوڑتے ہوئے کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا مجھے چھوڑ دو میں منافق ہوگیا ہوں؛ کیوں کہ میری جو حالت حضور صلی اللہ علیہ وسلمکی مجلس میں رہتی ہے وہ بیوی بچوں کے درمیان نہیں رہتی، اور دو قسم کی حالت کا رہنا ہی نفاق ہے۔(صحیح مسلم، کتاب التوبة، باب فضل دوام الذکر والفکر․․․، حدیث نمبر:۲۷۵۰)
اسی طرح کا معاملہ حضرت ابو بکرکے ازار کا تھا، آپ نے کبھی بھی ارادے سیٹخنوں سے نیچے تہبند نہیں باندھا، اور یہ حضرات صحابہٴ کرام کی دینی فکر اور اطاعتِ حکمِ الٰہی اور حکمِ رسول کی اعلیٰ مثال ہے کہ وہ اپنے اُن اعمال کو جو صرف صورةً مخالفت کی فہرست میں آتے ہیں، انھیں بھی صریح مخالفت تصور کرتے تھے، اور ان سے احتیاط برتتے تھے۔
نماز میں اسبالِ ازارسے متعلق احادیث
عَنْ أبي ہُرَیْرَة قال: بینما رجلٌ یصلي مُسْبِلاً إزارَہ، إذْ قَالَ لَہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، ثم قال: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ، فَذَہَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَہ رَجُلٌ: یارسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم! مَا لَکَ أَمَرْتَہ أنْ یَّتَوَضَّأَ؟ قال: انَّہ کَانَ یُصَلِّيْ وَہُوَ مُسْبِلٌ ازَارَہ وَانَّ اللّٰہَ جَلَّ ذِکْرُہ لاَ یَقْبِلُ صَلاَةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ ازَارَہ․
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جاوٴ، دوبارہ وضو کر کے آوٴ!تو وہ شخص وضو کر کے آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاوٴ،وضو کر کے آوٴ! وہ شخص گیا اور وضو کر کے آیا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ،جو اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے ہوئے ہو۔(ابوداوٴد، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: ۶۳۸)
تشریح: اس حدیث کی علماء نے چند تاویلیں کی ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
(۱) دوبارہ وضو کرنے کا حکم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے عطا کیا؛ تاکہ وہ دورانِ وضو غور کرسکے اور اپنے عملِ مکروہ پر متنبہ ہوکر، اس سے پرہیز کرے، نیز اکمل وافضل طریقے پر نماز ادا کرے۔
(۲) اسبالِ ازار کے عمل کی وجہ سے، اس سے جو گناہ سر زد ہوا ہے، وضو کے ذریعہ وہ گناہ ختم ہوجائے۔
(۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضو کرنے کا حکم زجراً وتوبیخاً فرمایاہے۔
(۴) حدیث میں نماز کے قبول نہ ہونے سے مراد کامل قبولیت ہے، یعنی اسبالِ ازار کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا فرض تو ادا ہوجائے گا؛ لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل خوشنودی حاصل نہ ہوگی۔
لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسبالِ ازار سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ (مرقاة المفاتیح، باب الستر، الفصل الثانی ۲/۲۳۴، مکتبہ امدادیہ، ملتان، پاکستان)
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقولُ: مَنْ أَسْبَلَ ازَارَہ فِيْ صَلاَتِہ خُیَلاَءَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہ فِيْ حِلٍ وَلاَ حَرَامٍ․ (ابوداوٴد، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: ۶۳۷)
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ازراہِ تکبر نماز میں اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہو، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ اس کے لیے جنت حلال ہوگی، نہ جہنم حرام ہوگی۔
تشریح: اس حدیث میں اگر چہ علماء نے تاویل کی ہے؛ لیکن حدیث کے ظاہری الفاظ بہت سخت ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، لہٰذا ان مسلمانوں کے لیے اس حدیث میں لمحہٴ فکریہ ہے، جو اسبالِ ازار کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، نیز دوسری حدیث میں اسبال ازار کرنے والوں کو زبردست پھٹکار لگائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے لیے نہ جنت حلال ہونے کا وعدہ ہے اورنہ جہنم حرام ہونے کی ضمانت، یعنی ایسا شخص جہنمی ہے، اس کا جنت میں داخلہ نہ ہوگا۔
کیا اگر تکبر نہ ہو تو ٹخنے سے نیچے کپڑے پہن سکتے ہیں؟
ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہننے کی وباء اتنی عام ہوچکی ہے کہ عوام کاتو پوچھنا نہیں، بہت سے اہل علم بھی اس طرح کپڑے پہنتے ہیں اور جب ان کو ٹوکا جاتا ہے، تو وہ ان احادیث کا سہارا لیتے ہیں جن میں ”خیلاء“ یعنی تکبر کی قید مذکور ہے، نیز حضرت ابو بکر کی حدیث سے بھی یہ حضرات استدلال کرتے ہیں، تقریباً یہی حال ان حضرات کا بھی ہے، جنہیں دین کی کچھ سوجھ بوجھ ہے اور وہ اپنی زندگی دین کے مطابق نہیں؛ بلکہ دین کو اپنی زندگی کے مطابق کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اللہ ان سب کو دین کا صحیح فہم عطا کرے اور ان کی زندگیوں کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کردے۔ (آمین)
اسبال ازار کی احادیث میں ”خیلاء “کی قید کی حقیقت
اسبال ازار کے سلسلے میں جتنی احادیث واردہوئی ہیں، انھیں دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱) وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے ،یعنی اگر کوئی تکبر کی بناء پر اسبالِ ازار کرتا ہے، اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو گھٹیا سمجھتا ہے، تو ایسے شخص کے لیے وہ وعیدیں ہیں جو احادیث میں ذکر کی گئی ہیں۔
(۲) وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید نہیں، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدوں کا ہر وہ شخص مصداق ہے، جو اسبال ازار کرتا ہے، چاہے اس میں تکبر ہو، چاہے تکبر نہ ہو۔
اسبال ازارکب حرام ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا پہلی قسم کی احادیث کے مطابق ”خیلاء“ یعنی تکبر کے ساتھ اسبال ازار ممنوع اور حرام ہے، اور اسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدیں ہیں، یا دوسری قسم کی احادیث کے مطابق مطلقاً اسبالِ ازار حرام ہے، چاہے تکبر ہو یا نہ ہو؟
”خیلاء “کی قیداتفاقی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار ومشرکین تفاخر وتکبر اور احساسِ برتری کے مظاہرے کے لیے اپنے کپڑوں میں حد سے زیادہ اسراف کرتے تھے، جب وہ چلتے تو ان کی چادریں اور لنگیاں زمین پر گھسٹتی تھیں، اور اسے وہ بڑائی کی علامت جانتے تھے؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان جب ایک سفیر کی حیثیت سے قریش کے پاس گئے، تو قریش نے حضرت عثمان کی لنگی ٹخنوں سے اوپر دیکھ کر کہا : آپ اسے نیچی کرلیں؛ کیوں کہ روٴساء قریش اسے معیوب سمجھتے ہیں، تو آپ نے جواب دیا : ”لَا، ہَکَذَا إزْرَةُ صَاحِبِیْ صلی اللہ علیہ وسلم “ یعنی میں ایسا ہر گز نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ میرے حبیب کی یہی سنت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبة، کتاب المغازی، غزوة الحدیبیة، حدیث نمبر: ۳۶۸۵۲)
جن احادیث میں ”خیلاء“ کی قید ہے، ان میں اس لفظ کے ذریعہ مشرکین کے اسی تکبر کی ترجمانی کی گئی ہے، اور ان کے متکبرانہ احوال کو اس لفظ ”خیلاء“ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ ”خیلاء“ کی قید مشرکین کی حالت اور واقعہ کو بیان کرنے کے لیے ہے، یعنی یہ قید صرف واقعی ہے، احترازی نہیں ہے؛ لہذا اب تکبر ہو ،یا نہ ہو ،دونوں صورتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننا درست نہ ہوگا۔
کیا عرف وعادت کی وجہ سے اسبالِ ازار جائز ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ اور اتنی سخت وعیدوں کے بعد کسی ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے لیے یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ بلا کسی عذرِ شدیدکے اسبالِ ازار کی جرأت کرسکے، اور ادنیٰ بھی دینی غیرت رکھنے والا کوئی مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان عالی کے مقابلہ میں عرف وعادت کو ترجیح نہیں دے سکتا اور اس کا بہانہ نہیں بنا سکتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداس عمل سے پوری زندگی اجتناب فرمایا اور اپنے صحابہ کو اس سے منع فرمایا؛ حالانکہ صحابہٴ کرام ،امت کی سب سے بہترین جماعت ہیں، اگر تکبر نہ ہونے کا کسی کو دعویٰ ہوسکتا ہے، تو وہ اسی مقدس جماعت کو زیب دیتا ہے، لہٰذا اگر کبر نہ ہونے کی بناء پر اسبالِ ازار جائز ہوتا، توحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہٴ کرام کے لیے جائز ہونا چاہیے تھا۔
اسبال ازار ”کبر“ کی وجہ سے ہی ہوتا ہے
عَنْ جَابِرٍ․․․ وَایَّاکَ وَاسْبَالَ الْازَارِ؛ فانَّہ مِنَ الْمَخِیْلَةِ وَانَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمَخِیْلَةَ․
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسبالِ ازار سے بچو! کیوں کہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں فرماتے۔(ابوداوٴد، کتاب اللباس ،باب ما جاء فی اسبال الازار،حدیث نمبر: ۴۰۸۴)
تشریح: صحابہ کی طہارتِ باطنی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسبالِ ازار سے ان کو منع فرمانا، اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اسبالِ ازار کا یہ عمل ہی شریعت کے نزدیک قبیح اور مکروہ ہے، چاہے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس کے اندر کبر نہیں ہے، بعض احادیث کے اند ر”خیلاء“ یعنی کبر کی جو قید آئی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو تکبراً ایسا کرے، اس کے لیے وعید ہے،اور جس میں تکبر نہیں ہے اس کے لیے اسبالِ ازار کی اجازت ہے؛بلکہ اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اسبالِ ازار کا سبب ہی کبر ہے، یعنی جن کے اندر کبر ہوتا ہے وہی یہ حرکت کرتے ہیں، اسی حدیث کی وجہ سے صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:
”وَحَاصِلُہ أنَّ الْاسْبَالَ یَسْتَلْزِمُ جَرَّ الثَّوْبِ، وَجَرُّ الثَّوْبِ یَسْتَلْزِمُ الْخُیَلاَءَ، وَلَوْ لَمْ یَقْصِدِ اللَّابِسُ الْخُیَلاَءَ“
یعنی اسبالِ ازار کپڑے گھسیٹنے کو مستلزم ہے اور کپڑا گھسیٹنا تکبر کو مستلزم ہے، چاہے پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری ۱۰/۳۲۵،کتاب اللباس)
اسبالِ ازار مطلقاً حرام
علماء کی ایک بڑی جماعت نے تکبر اور عدمِ تکبر کے درمیان فرق کیے بغیر اسبالِ ازار کو حرام قرار دیا ہے، اور عدمِ تکبر کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا ہے؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے بعد اسبالِ ازار کرنے کو تکبر کی دلیل قرار دیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتح الباری:۱۰/۳۲۵،کتاب اللباس)
اسبالِ ازار کی حالت میں پڑھی گئی نماز کا شرعی حکم
بہت سے مسلمان جن تک اسبالِ ازار کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدیں نہیں پہنچی ہیں، وہ جس طرح نماز سے باہر اسبال ازار کرتے ہیں، اسی طرح نماز میں بھی یہ عمل کرتے ہیں؛ جب کہ اسبالِ ازار کے سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وعیدیں بہت ہی سخت ہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : ”لَا یَقْبَلُ صَلاةَ مُسْبِلٍ“ یعنی اللہ تعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اسبالِ ازار کی حالت میں جو نماز ادا کی گئی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ وہ نماز دوبارہ پڑھی جائے گی، یا مکروہ تحریمی ہوگی یا مکروہ تنزیہی؟
اسبالِ ازار کی حالت میں نماز مکروہ
جس اسبالِ ازار کی حرکت سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی سختی سے منع فرمایا ہے، اور جس پر اتنی شدید وعیدیں سنائی ہیں، اسی حرکت کو نماز میں کرنا ،اللہ تعالیٰ کے سامنے اور اس کے دربار میں کرنا، کس درجہ قبیح، مذموم اور کتنا گھناوٴنا اور برا عمل ہوگا، اس کا فیصلہ ہر ایمان رکھنے والا دل کرسکتا ہے؛ اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اسبال ازار کے ساتھ جو نماز ادا کی جائے، وہ مکروہ ہوتی ہے۔
ہاں اگر کوئی شرعی معذور ہے، تووہ اس سے مستثنیٰ ہے، اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غالب گمان ہو کہ اس میں تکبر نہ ہوگا (اور اس کا دعویٰ اس زمانے میں کون کرسکتا ہے اور اگر کوئی کرتا بھی ہے، تو یہ شیطانی دھوکہ ہے، الا ماشاء اللہ)تو اس کی نماز اگر چہ اس درجہ مکروہ نہیں؛ لیکن فی الجملہ کراہت سے وہ بھی خالی نہیں ۔
وَاطَالَةُ الذَّیْلِ مَکْرُوْہَةٌ عِنْدَ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَالشَّافِعِيِّ فِي الصَّلاَةِ وَغَیْرِہَا․(مرقاة المفاتیح،باب الستر، الفصل الثانی ۲/۶۳۴، حدیث:۷۶۱)
امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک دامن (کپڑے) کو ٹخنوں سے زیادہ لمبا کرنا نماز اور خارج نمازدونوں میں مکروہ ہے۔
صادق ومصدوق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ اس مسئلہ میں بالکل صریح اور واضح ہیں کہ اسبالِ ازار علامتِ تکبر ہے، لہٰذا اس کے بعد تکبر نہ ہونے کا دعویٰ کرنا نفسانی اور شیطانی دھوکہ ہے، جو انسان کا کھلا دشمن ہے، جب صحابہ جیسی برگزیدہ اور مقدس جماعت کو اس سے گریز کرنے کا حکم دیا گیا، تو ہم اور آپ کس شمار میں آتے ہیں، لہذا ہر مسلمان کو نماز کے اندر بھی اور نماز کے باہر بھی اسبالِ ازارسے پورے طور پر اجتناب کرنا چاہیے!
نماز سے پہلے پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑنے کا حکم؟
اسبالِ ازار کے سلسلے میں جو احادیث اوپر آپ کے سامنے آئی ہیں، اسی طرح اسبالِ ازار کی حالت میں نماز کا جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس کا تقاضہ تویہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے محبت رکھنے والا ہر مومن اپنی پوری زندگی میں اس عمل سے بالکل گریز کرے؛چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھیں احادیث کے احترام میں ہمارے اکثر مسلمان بھائی نماز سے قبل پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑ لیتے ہیں؛ تاکہ ٹخنے کھل جائیں اور کم از کم نماز میں اس گناہ سے بچ سکیں اور ان کی نماز سنت کے مطابق ادا ہوجائے۔
کیا نماز سے قبل پائینچے موڑنا مکروہ ہے؟
تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا نماز سے پہلے پائینچے موڑنے کا یہ عمل درست ہے، اس طرح کرنے سے نماز میں کوئی کراہت تو نہیں آئے گی؛ کیوں کہ بعض حضرات پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار نہیں دیتے، اور وہ کہتے ہیں کہ اسبالِ ازار کی حالت میں ہی نماز ادا کی جائے؟
نماز سے قبل پائینچے موڑنا درست ہے
احادیثِ مبارکہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم کپڑے ایسے ہی بنوائیں جن میں خود بخود ٹخنے کھلے رہیں، پائینچے موڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے؛ لیکن ہمارے اکثر نوجوان جو چست جینزیا دیگر پینٹ پہنتے ہیں، جن میں پائینچے موڑے بغیر ٹخنے کھولنے کی کوئی دوسری شکل نہیں ہوتی، تو اب ان کے سامنے دوہی صورت رہ جاتی ہے، (۱) اسی حالت میں (یعنی ٹخنے ڈھکے ڈھکے) نماز پڑھنا، (۲)پائینچے موڑ کر نماز پڑھنا۔
پہلی صورت میں وہ مندرجہ بالا ان تمام احادیث کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں گے، جن میں اس عمل کی قباحت بیان کی گئی ہے، لہٰذا ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ نماز سے قبل پائینچے موڑ لیں؛ تاکہ کم از کم نماز کی حالت میں اس گناہ سے بچ سکیں، خلاصہ یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھنا حدیث کی خلاف ورزی ہے اور کم از کم نمازمیں پائینچے موڑ کر ٹخنوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔
نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے
بعض مکاتبِ فکر کے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہے، تو وہ نماز سے قبل اپنے پائینچے نہ موڑے؛ کیوں کہ یہ عمل مکروہ ہے، جس سے نماز میں کراہت آتی ہے، حتی کہ ان میں سے بعض نے اس عمل کو مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے، اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ نماز واجبُ الاعادہ ہوگی۔
مخالفین کے دلائل
یہ حضرات اپنے اس موقف اور مسلک کی تائید میں کئی دلائل پیش کرتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
پہلی دلیل: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارک جس میں کپڑے اور بالوں کو سمیٹنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے:
عن ابن عباس رضي اللہ عنہما، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: أُمِرْتُ أنْ أسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةٍ، لاَ أکُفُّ شَعْراً وَلاَ ثَوْباً․
حضرت عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں، اور نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑوں کو۔(بخاری، کتاب الصلاة، باب لا یکف ثوبہ فی الصلاة، حدیث نمبر: ۸۱۶)
تشریح: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کپڑوں کا سمیٹنا ممنوع ہے، اور پائینچے موڑنا بھی کپڑے کا سمیٹنا ہے، لہٰذا وہ بھی ممنوع ہوگا۔
دوسری دلیل: فقہاء کی وہ عبارتیں ہیں جن میں ”کَفِّ ثوب“ کی کراہت کا حکم بیان کیا گیا، جیسے ”در مختار“ میں ہے:
وَکُرِہَ کَفُّہ: أَيْ رَفَعُہ، وَلَوْ لِتُرَابٍ، کَمُشْمِرٍّ کُمٍّ أَوْ ذَیْلٍ․ (در مختار علی رد المحتار ۲/۴۰۶)
مکروہ ہے کپڑے کو سمیٹنا، چاہے مٹی سے بچنے کے لیے ہو، جیسے آستین چڑھانا اور دامن سمیٹنا۔
اور شامی میں اس کے تحت لکھا ہے:
”وَأشَارَ بِذٰلِکَ الیٰ أنَّ الْکَرَاہَةَ لاَ تَخْتَصُّ بِالْکَفِّ وَہُوَ فِي الصَّلاَةِ“
اس کے ذریعہ مصنف نے اشارہ کیا ہے کہ کپڑا سمیٹنے کی کراہت نماز کی حالت کے ساتھ خاص نہیں ہے․(رد المحتار۲/۴۰۶)
پہلی عبارت میں مطلقاً کپڑا سمیٹنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، اور شامی میں یہ صراحت کی گئی کہ کپڑا سمیٹنا، چاہے نماز کے اندر ہو، یا اس سے پہلے، دونوں حالتوں میں مکروہ ہے، لہٰذا دونوں عبارتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان جو کپڑا پہنے ہوئے ہے، اگر اسے کہیں سے بھی موڑے، تو یہ عمل مکروہ ہوگا، اور پائینچے موڑنا بھی اسی قبیل سے ہے، لہٰذا یہ بھی مکروہ ہوگا۔
تیسری دلیل: پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے، اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہٰذا پائینچے موڑنے کا عمل بھی مکروہ ہوگا۔
مخالفین کے دلائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ
پہلی دلیل کا جائزہ: پہلی دلیل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جس حدیث سے پائینچے نہ موڑنے پر استدلال کیا گیا ہے ، یہ استدلال درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اس حدیث میں ”کف ثوب“ (یعنی کپڑے سمیٹنے) سے مراد ”ازار“ کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ ہیں، اور اس کی حکمت صاحب فتح الباری شرح صحیح البخاری علامہ ابن حجر نے یہ لکھی ہے:
”وَالْحِکْمَةُ فِيْ ذٰلِکَ أَنَّہ اذَا رَفَعَ ثَوْبَہ وَشَعْرَہ عَنْ مُبَاشَرَةِ الْأَرْضِ أشْبَہَ الْمُتَکَبِّرَ“ (فتح الباری۲/۳۷۷، کتاب الصلوة، باب السجود علی سبعة اعظم)
اور حکمت اس میں یہ ہے کہ جب وہ اپنے کپڑے اور بالوں کو مٹی لگنے کے ڈر سے اٹھائے گا، تو اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت پیدا ہوگی۔
اور پائینچے موڑنا سنت پر عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ تکبر کی وجہ سے؛ لہٰذا یہ اس حدیث کے تحت داخل نہیں ،نیز ایک دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جو نیچے پیش کی جاتی ہے۔
حدیث سے پائینچے موڑنے کی تائید
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس طرح نماز پڑھائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے:
عن أبي جُحَیفة قال: ․․․․ فرأیتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ في حُلَّةٍ مُشَمِّراً، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ إلی الْعَنَزَةِ․․
حضرت ابو جحیفة فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے لباس میں تشریف لائے، جس میں ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الصلوة، باب التشمر فی الثیاب، حدیث نمبر: ۸۶ ۵۷)
ایک دوسری سند میں یہ الفاظ بھی ہیں: کَأَنِّيْ أَنْظُرُ إلیٰ بَرِیْقِ سَاقَیْہِ․․․
یعنی صحابی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازار نیچے سے اتنی اٹھا رکھی تھی، گو یا کہ میں آپ کی پنڈلیوں کی چمک ابھی تک دیکھ رہا ہوں۔
اس حدیث میں ایک لفظ آیا ہے ”مُشَمِّراً“ جو ”تشمیر“ سے بنا ہے، اور تشمیرُالثوبِ کے معنی لغت میں ہیں: آستین چڑھانا، پائینچے موڑنا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر کرنا۔(القاموس الوحید ۱/۸۸۶، مادہ: ش م ر)نیز علامہ ابن حجر نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں: ”رَفَعُ أسْفَلِ الثَّوْبِ“ یعنی کپڑے کے سب سے نچلے حصے کو اٹھانا۔ (فتح الباری۲/۳۱۵)جس کی ایک شکل پینٹ یا پائجامے کے پائینچے موڑنا بھی ہے۔
پائینچے موڑنا ”کَفِّ ثوب“ کی حدیث کے تحت داخل نہیں
اسی لیے علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ احادیث میں ”کفِّ ثوب“ کی جو ممانعت آئی ہے ،وہ ”ازار“ وغیرہ کے علاوہ میں ہے:
وَیُوٴْخَذُ مِنْہُ أنَّ النَّہْيَ عَنْ کَفِّ الثِّیَابِ فِي الصَّلاَةِ مَحَلُّہ فِيْ غَیْرِ ذَیْلِ الْازَارِ․․․ (فتح الباری۲/۳۱۶)
اس حدیث سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ نماز میں ”کف ثوب“ کی ممانعت ”ازار“ کے نچلے حصے کے علاوہ میں ہے۔
دونوں حدیثوں کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ پہلی حدیث میں ”کف ثوب“ سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں، اور ان کپڑوں میں ”کف ثوب“ کی علت متکبرین کے ساتھ مشابہت ہے،اور دوسری حدیث نیز علامہ ابن حجر کی شرح سے یہ واضح ہوگیا کہ ”ازار“ کے نچلے حصے کو اٹھانا، یا موڑنا ”کف ثوب“کی ممانعت میں داخل نہیں، لہٰذا پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے ہمارے بھائیوں کو دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے!
دوسری دلیل کا جائزہ: حدیث کی اس بھر پور توضیح وتشریح سے یہ مسئلہ بالکل صاف ہوگیا کہ فقہ کی کتابوں میں جس ”کف ثوب“ کو مکروہاتِ صلوٰة میں شمار کیا گیا ہے، وہاں بھی ”کف ثوب “ یعنی کپڑے سمیٹنے سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں، اور پینٹ یا پائجامہ وغیرہ کا موڑنا اس میں داخل نہیں، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ کی عام کتابوں میں ”کف ثوب“ کی مثال میں آستین اور قمیص کے دامن کا تذکرہ ملتا ہے، کہیں ازار یا پائجامے کا ذکر نہیں ملتا۔
نیز فقہ کی کتابوں میں بھی ”کف ثوب“ کی وہی علت بیان کی گئی، جو مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں علت میں گزری ہے، یعنی متکبرین کے ساتھ مشابہت؛ چنانچہ کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں لکھا ہے: ”(وَکَفَّ ثَوْبَہ) لاِٴَنَّہ نَوْعُ تَجَبُّرٍ“
اور نماز کے مکروہات میں کپڑے کا سمیٹنا ہے؛ کیوں کہ یہ تکبر کی ایک قسم ہے۔ (تبیین الحقائق ۱/۱۶۴، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا)
تیسری دلیل کا جائزہ: ان کی تیسری دلیل یہ ہے کہ پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس دلیل کے دو جواب ہیں:
(۱) ٹخنے سے اوپر کپڑا کرنے کو بد ہیئتی قرار دینا، بعینہ جدید دور کے افراد کے ذہنوں کی ترجمانی ہے؛ کیوں کہ سوائے چند حضرات کے ماڈرن دور کا کوئی بھی فرد ٹخنے سے اوپر کپڑا پہننے کو، چاہے جس طرح بھی ہو، اچھی ہیئت قرار نہیں دیتا؛ بلکہ اس میں عار محسوس کرتا ہے، اور اسے معیوب سمجھتا ہے، تو کیا ہم ان کے معیوب سمجھنے کی وجہ سے اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیں گے!
(۲) ٹخنوں سے اوپر پائینچے رکھنے کو بد ہیئتی قرار دینا غلط اور بلا دلیل ہے؛ کیوں کہ قاعدہ ہے کہ جو ہیئت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، وہ بری ہیئت نہیں ہوسکتی، اور اس ہیئت کے ساتھ نماز مکروہ نہیں ہوگی، اور ٹخنے کھلے رکھنے، نیز ”ازار“ اوپر اٹھانے کا عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسا کہ ابھی احادیث میں گزرا، لہٰذا اسے بدہیئتی قرار دینا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور آپ کی سنت کے خلاف ہوگا، جیسا کہ کُرتے کے بٹن کھلے رہنا بھی بظاہر بد ہیئتی ہے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس لیے مکروہ نہیں، اور اس سے نماز میں کراہیت نہیں آتی۔(ابوداوٴد، کتاب اللباس، باب فی حل الازرار، حدیث نمبر: ۴۰۸۲)
نمازسے پہلے پائینچے موڑنے کے سلسلے میں علماءِ حق کے فتاویٰ
نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے جواز کے فتاویٰ، کتابوں میں کثرت سے موجود ہیں؛ لیکن اختصار کے پیش نظر ہم صرف دو فتووٴں پر اکتفاء کرتے ہیں، ایک دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ، دوسرا علماءِ عرب کا فتویٰ۔
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں سائل نے نماز سے قبل پائینچے موڑ کر ٹخنے کھولنے سے متعلق مسئلہ دریافت کیا ہے، بعض مخالفین نے جو اسے شبہے میں ڈالا تھا، ان کے دلائل کا مدلل جواب بھی طلب کیا ہے، فتوے میں ان تمام دلائل کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں، اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار دیا گیا ہے، فتویٰ بعینہ آپ کی خدمت میں پیش ہے:
سوال: کیا پائینچے ٹخنوں سے نیچے اگر ہورہے ہوں تو انھیں اگر موڑ کر نماز پڑھ لی جائے تو پائینچے موڑنے کا عمل مکروہ تحریمی کہلائے گا اور نماز واجب الاعادہ ہوگی، نیز اگر کپڑے یا ٹوپی کا کوئی حصہ مڑ جائے تو تب بھی یہی حکم ہے؟اس کے حوالے میں بریلوی حضرات مختلف فقہاء کے اقوال نقل کرتے ہیں:
(۱) علامہ ابن العابدین الشامی فرماتے ہیں: أَيْ کَمَا لَوْ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَہُوَ مُشَمِّرٌ کُمَّہ أَوْ ذَیْلَہ وَأَشَارَ بِذَلِکَ الیٰ أنَّ الْکَرَاہَةَ لاَ تَخْتَصُّ بِالْکَفِّ وَہُوَ فِي الصَّلاَةِ․(رد المحتار)
(۲) وَکُرِہَ کَفُّہ أَيْ رَفْعُہ وَلَوْ لِتُرَابٍ کَمُشَمِّرِ کُمٍ أوْ ذَیْلٍ․ (در مختار)
(۳) جوہرہ نیرہ میں ہے: وَلاَ یَکُفُّ ثَوْبَہ وَہُوَ أنْ یَرْفَعَہ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ أوْ مِنْ خَلْفِہ اذَا أرَادَ السُّجُوْدَ․ (الجوہرة النیرة۱/۶۳)
(۴) قالَ علیہ السلامُ: أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةِ أعْظُمٍ لاَ أَکُفُّ ثَوْبًا وَلاَ أَعْقُصُ شَعْراً․
(۵)حضرت امام بصری سے روایت ہے: کف ثوب کرنے والے کی نماز مکروہِ تحریمی ہے۔ (۲/۹۱)
آپ سے درخواست یہ ہے کہ ان حوالوں کا مدلل جواب دیں۔
جواب: ٹخنوں سے نیچے پائجامہ یا لنگی لٹکانا ان سخت گناہوں میں سے ایک ہے، جن پر جہنم کی وعید آئی ہے؛ اس لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس حکم کی خلاف ورزی کر کے ٹخنے سے نیچے پائجامہ اور پینٹ وغیرہ لٹکائے، عام حالات میں بھی یہ جائز نہیں ہے، اور نماز میں تو اور زیادہ قبیح ہے، ”اِسبال“ (ٹخنے سے نیچے پائجامہ یا پینٹ وغیرہ لٹکانا) مطلقاً ناجائز ہے، اگر چہ ”مسبل“ (لٹکانے والا) یہ ظاہر کرے کہ میں تکبر کی وجہ سے نہیں کررہا ہوں؛ ہاں! اگر غیر اختیاری طور پر ایسا ہوجائے ، یا کسی یقینی قرینے سے معلوم ہو کہ اس میں کبر نہیں تو یہ حکم نہیں لگے گا، جیسا کہ حضرت ابو بکر کے واقعہ میں ہے۔
لہٰذا تکبر اور غیر تکبر کے درمیان فرق کرنا ،ایک کو ناجائز اور دوسرے کو جائز کہنا ،یا ایک کو مکروہ تحریمی اور دوسرے کو تنزیہی شمار کرنا شراح حدیث کی تشریح کے مطابق صحیح نہیں؛ اس لیے کہ حدیث کے اندر ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے اور اس کے کھینچنے کو تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے، اور جن احادیث کے اندر ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے، یہ قید احترازی نہیں ہے؛ بلکہ قید اتفاقی یا واقعی ہے کہ ازار لٹکانے والا متکبر ہی ہوتا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ٹخنوں سے اونچا پائجامہ یا پینٹ پہننے میں عار آتی ہے، یا ایسے پہننے والوں کو نظرِ حقارت سے کیوں دیکھتے ہیں؟ اس بابت ان سے مضحکہ بھی کرتے ہیں،․․․
․یعنی خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ اسبال مطلقاً ”جر ثوب“ یعنی کپڑا گھسیٹنے کو مستلزم ہے، اور جر ثوب تکبر کو مستلزم ہے، اگر چہ پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری ۱۰/۲۵۴)․․․․لہٰذا اگر کوئی آدمی اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے یعنی لنگی پینٹ وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹکا کر پہنتا ہے؛ لیکن یہ نماز کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا لیتا ہے؛ تاکہ نماز کے وقت کم از کم گناہ سے بچے، اور اس حدیث کا مصداق نہ بنے اور اس کی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہوجائے تو یہ عمل مستحسن ہوگا نہ مکروہ۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ بوقتِ نماز پائینچے کو اوپر چڑھا کر نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی کہنا نہ تو شرعاً صحیح ہے اور نہ عقلاً، سوال میں فقہاء کی جن عبارتوں اور ترمذی کی جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ان سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتا، ذیل میں یہ عبارت ذکر کی جاتی ہیں:
(۱) کَمُشَمِّرِ کُمٍّ أوْ ذَیْلٍ أَيْ کَمَا لَوْ دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَہُوَ مُشَمِّرُ کُمِّہ أَوْ ذَیْلِہ وَأَشَارَ بِذٰلِکَ الیٰ أنَّ الْکَرَاہَةَ لاَ تَخْتَصُّ بِالْکَفِّ وَہُوَ فِي الصَّلاَةِ․(رد المحتار)
(۲) وَلاَ یَکُفُّ ثَوْبَہ وَہُوَ أن یَرْفَعَہ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ أَوْ مِنْ خَلْفِہ اذَا أرَادَ السُّجُوْدَ․
(۳) قال علیہ السلام أُمِرْتُ أنْ أسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةِ أعْظُمٍ لاَ أَکُفُّ ثَوْباً وَلاَ أَعْقُصُ شَعْراً․
حدیث شریف اور فقہی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کے لیے مکروہ ہے کہ وہ آستین چڑھا کر نماز میں داخل ہو، یا دورانِ نماز اپنے کپڑے کو آگے پیچھے سے سمیٹے؛ تاکہ مٹی وغیرہ نہ لگے ،یاپہلے سے کپڑے کو اٹھائے رکھے، مٹی سے بچانے یا اظہارِ تکبر کے مقصد سے؛ چنانچہ کنز کی مشہور شرح تبیین الحقائق میں مکروہ ہونے کی علت لکھی ہے”وَلاِٴنَّہ نَوْعُ تَجَبُّرٍ“ یعنی کراہت اظہار تکبر کی وجہ سے ہے او راس کے حاشیہ میں ”کف الثوب“ کے تحت لکھا ہے ”وھو أن یَضُمَّ أَطْرَافَہ اِتِّقَاءَ التُّرَابِ“ اسی طرح ہدایہ میں بھی اس کی علت ”لأنہ نَوْعُ تَجَبُّرٍ“ لکھی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ” کف ثوب “کا یا تو یہ مطلب ہے کہ دورانِ نماز کپڑا سمیٹے، صاحب غنیة المستملی نے یہی تفسیر کی ہے، اس صورت میں کراہت کی وجہ نماز میں دوسرے کام میں مشغول ہونا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ مطلقاً ”کف ثوب“ مکروہ ہے، خواہ دورانِ نماز ہو یا کپڑا سمیٹ کر نماز میں کھڑا ہو، تو اس کی وجہ اظہارِ بڑکپن (تکبر)ہے کہ نماز میں عبث کے اندر مشغول ہونا ہے، نیز شامی کی عبارت ”کمشمر کم․․․“ (یعنی آستین چڑھا کر نماز پڑھنا)سے پائینچے وغیرہ کو چڑھا کر نماز پڑھنے کی کراہت پر استدلال صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ آستین چڑھا کر نماز پڑھنے کا کوئی شرعی مقصد نہیں ہے؛ کیوں کہ اس سے بے ادبی اور تکبر ظاہر ہوتا ہے، بر خلاف نماز کے لیے پائینچے چڑھانا، یہ ایک نیک مقصد یعنی کم از کم دورانِ نماز گناہ سے بچنے کے لیے ہے اور اس میں نہ تو تکبر ہے اور نہ ہی بے ادبی۔
الغرض! ان عبارات سے اس پر استدلال کرنا کہ نماز پڑھنے کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا نامکروہِ تحریمی ہے، صحیح نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، فتوی (د):۹۳= ۲۱- ۱۴۳۲/۲
علماء عرب کا فتویٰ
عرب کا ایک باشندہ جو نماز سے قبل پینٹ کے پائینچے موڑتا تھا، جب اس کے سامنے وہ حدیث آئی، جس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں نہ کپڑے سمیٹتا ہوں اور نہ بالوں کو اٹھاتا ہوں“ تو اس نے اپنے اس عمل کا حکم اور حدیث کا مطلب دارالافتاء سے معلوم کیا۔
فتوے میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ نماز سے قبل پائینچے موڑنا”کف ثوب“ کی ممانعت والی حدیث کے تحت داخل نہیں ہے، لہٰذا یہ عمل درست ہے، فتویٰ کا ترجمہ درج ذیل ہے:
سوال: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں اور نہ کپڑوں کو موڑوں اور نہ ہی بالوں کو سمیٹوں، اب سوال یہ ہے کہ ہم کام کے اوقات میں اپنے پائجامہ وغیرہ کو نیچے سے موڑتے ہیں؛ تاکہ نماز کے وقت (بھی) اسبال کے گناہ سے بچ سکیں تو کیا ہمارایہ عمل درست ہے؟
جواب: الحمد للّٰہ والصلاة والسلام علی رسول اللّٰہ وعلی آلہ وصحبہ أما بعد! سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ حدیث ”ولا أکف ثوبا وشعراً“ نیز ”ولا أکفت“ کے الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور ہے، لیکن ”وأن لا أطوي“ کا لفظ غیر معروف ہے۔
رہا مسئلہ کا حکم، تو اسبال ازار نماز اور خارج نماز دونوں میں ممنوع ہے، جیسا کہ بہت ساری احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہٰذا اگر کوئی مصلی اپنا کپڑانماز کی حالت میں اسبال کی حد سے اوپر اٹھاتا ہے تو وہ مذکورہ بالا حدیث کا مصداق نہیں ہوگا، جس میں کپڑا موڑنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے؛ اس لیے کہ نماز اور خارج نماز میں کپڑے کا موڑنا ایک حکم شرعی ہے، اور کئی اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ نماز میں کپڑا موڑنے میں کراہت اس وقت ہوتی ہے؛ جب کہ یہ عمل بلا ضرورت ہو، اگر ضرورت کی وجہ سے ہو تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، روض الطالب کے شافعی مصنف لکھتے ہیں کہ نمازی کے لیے بلا ضرورت اپنے بالوں اور کپڑوں کا سمیٹنا مکروہ ہے، فقط واللہ اعلم۔
حرف آخر
اس پوری بحث اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ نیز محدثین کرام کی تشریحات اور فقہاء کی عبارتوں سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا کہ اسبالِ ازار شریعت کی نگاہ میں ممنوع اور حرام ہے، چاہے اسبال ازار کرنے والا یہ دعویٰ کرے کہ اس میں تکبر نہیں ہے، نیز یہ مسئلہ بھی بالکل صاف ہوگیا کہ اگر کوئی مسلمان گناہ سے بچنے کے لیے نماز سے پہلے اپنی پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑتا ہے؛ تاکہ اس کی نماز سنت کے مطابق ہو اور وہ کم از کم نماز کی حالت میں اسبالِ ازار کے گناہ سے بچ سکے، تو اس کا یہ عمل بالکل درست ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوچکا ہے، لہٰذا جو حضرات نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اپنے مسلک سے اوپر اٹھ کران احادیث اور محدثین کی ان تشریحات کو بغور پڑھنا چاہیے، جن میں اس عمل کی انتہائی مذمت اور قباحت بیان کی گئی ہے، اور پائینچے موڑنے اور ٹخنے کھولنے کے عمل کو درست قرار دیاگیاہے ۔
%%%
عام حالتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے، بالخصوص نماز کی حالت میں کپڑا لٹکانے اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے پر مدلل ومفصل بحث کی گئی ہے
اسلام ایک ایسا جامع دستور حیات ہے، جس میں حیات انسانی کی مکمل راہ بری وراہ نمائی موجود ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، انسان کی انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے ، اسلام نے جس طرح رہنے سہنے اور کھانے پینے کے اصول دیے ہیں، اسی طرح کپڑے پہننے کے سلسلے میں بھی مکمل راہ نمائی فرمائی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس طرح غیر اسلامی اور غیر قوموں کے مشابہ لباس سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایسا لباس، جس سے تکبر کا شائبہ محسوس ہورہا ہو، اس سے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے،ا سلامی لباس کا ایک محکم ضابطہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ مردوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے نہیں ہونا چاہیے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پرآپ صلی الله علیہ وسلم نے سخت وعید بیان فرمائی ہے،ذیل میں اس سلسلہ کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھا جاتا تھا، ”ازار“ یعنی تہہ بند اس طرح باندھتے تھے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا تھا، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالاتری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا اور اس وجہ سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں: عن ابن عمرَ ،أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: من جرَّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللہ إلیہ یوم القیامة․ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغروراو رفخر کے طورپر زیادہ نیچا کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظر بھی نہ اٹھائے گا۔(بخاری، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لوکنت متخذا خلیلا․․․․حدیث نمبر: 3665) عن أبي سعید الخدري قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: إزرة الموٴمن إلی أنصاف ساقیہ، لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین، وما أسفل من ذلک ففي النار، قال ذلک ثلث مراة، ولا ینظر اللہ یوم القیامة إلی من جرّ إزارہ بطراً․(ابوداوٴد، اللباس، باب فی قدر الموضع من الازار، حدیث نمبر: 4095) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ: مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہہ بندباندھنے کا طریقہ(یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک (یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو) اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے)اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)۔(راوی کہتے ہیں) کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی(اس کے بعد فرمایا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کے بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہ فخروتکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔ تشریح…ان حدیثوں میں فخر اور غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے رب کریم کی نگاہ رحم وکرم کا سخت محتاج ہوگا، وہ اس کی نگاہ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی اور بدبختی کا، اللہم احفظنا ! حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہہ بند اور اسی طرح پاجامہ نصف ساق تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو،تو یہ بھی جائز ہے، لیکن اس سے نیچے جائز نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔ حضرت ابو بکر کی حدیث اور اس کی صحیح تشریح عن ابن عمر، عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال :من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللہ إلیہ یوم القیامة، فقال أبو بکر: یا رسول اللہ، إزاري یسترخي إلا أن أتعاہدہ، فقال لہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:إنک لست من یفعلہ خیلاء․ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جر ازارہ من غیر خیلاء، حدیث نمبر:5784) حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو کوئی فخرو تکبر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا، حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا تہہ بند اگر میں اس کا خیال نہ رکھوں، تو نیچے لٹک جاتا ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو فخروغرور کے جذبہ سے ایسا کرتے ہیں۔(معارف الحدیث، کتاب المعاشرة والمعاملات، ج 6،ص 283تا 292) تشریح…حضرت ابو بکر صدیق دبلے پتلے جسم والے تھے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار چلتے ہوئے آپ کا تہہ بند بے دھیانی میں ٹخنوں سے نیچے سرک جاتا تھا اور یاد آنے پر پھر فورا ًآپ تہہ بند درست فرماتے، جس کی حدیث میں صراحت مذکور ہے اور واضح طور پر یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی وعید کا مصداق نہیں ہے، لیکن صحابہ کرام کا حال بالکل مختلف تھا، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی ادنی سے ادنی خلاف ورزی(چاہے ظاہری طور پر ہی کیوں نہ ہو یا غفلت ولا شعوری کے عالم میں ہی ہو)برداشت نہ کرتے تھے اور اس کا حکم ضرور معلوم کرتے؛ تاکہ کوئی صورت معافی کی نکل آئے، اس کی مثال وہ واقعہ ہے کہ ایک صحابی دوڑتے ہوئے حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس جارہے تھے، حضرت ابو بکر نے دریافت کیا کہ ایسے دوڑتے ہوئے کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا مجھے چھوڑ دو، میں منافق ہوگیا ہوں، کیوں کہ میری جو حالت حضور صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں رہتی ہے وہ بیوی بچوں کے درمیان نہیں رہتی اور دو قسم کی حالت کا رہنا ہی نفاق ہے۔(صحیح مسلم، کتاب التوبة، باب فضل دوام الذکر والفکر․․․، حدیث نمبر:2750) اسی طرح کا معاملہ حضرت ابو بکرکے ازار کا تھا، ورنہ کبھی آپ نے قصداً اسبال ازار(ٹخنوں سے نیچے تہہ بند وغیرہ لٹکانے کا عمل) نہیں کیا اور یہ حضرات صحابہ کرام کی دینی فکر اور اطاعتِ حکمِ الٰہی اور حکمِ رسول کی اعلیٰ مثال ہے کہ وہ اپنے اُن اعمال کو جو صرف صورةً مخالفت کی فہرست میں آتے ہیں، انہیں بھی صریح مخالفت تصور کرتے ہیں اور ان سے احتیاط برتتے ہیں۔ نماز میں اسبالِ ازارسے متعلق احادیث عن أبي ہریرة قال: بینما رجل یصلي مسبلاً إزارہ، إذ قال لہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: إذہب، فتوضأ․ فذھب فتوضا، ثم جاء، ثم قال: إذہب، فتوضأ، فذہب فتوضأ، ثم جاء فقال لہ رجل: یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ما لک أمرتہ أن یتوضأ؟ قال: إنہ کان یصلي، وہو مسبل إزارہ، وإن اللہ جل ذکرہ لا یقبل صلاة رجل مسبل إزارہ․ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جاوٴ، دوبارہ وضو کر کے آوٴاور وہ شخص وضو کر کے آیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جاوٴ،وضو کر کے آوٴ، وہ شخص گیا اور وضو کر کے آیا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ،جو اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے ہوئے ہو۔(ابوداود، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: 638) تشریح: اس حدیث کی علماء نے چند تاویل کی ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں: 1... دوبارہ وضو کرنے کا حکم نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے عطا کیا؛ تاکہ وہ دورانِ وضو غور کرسکے اور اپنے عملِ مکروہ پر متنبہ ہوکر، اس سے پرہیز کرے، نیز اکمل وافضل طریقے پر نماز ادا کرے۔ 2... اسبالِ ازار کے عمل کی وجہ سے، اس سے جو گناہ سر زد ہوا ہے، وضو کے ذریعہ وہ گناہ ختم ہوجائے۔ 3... آپ صلى الله عليه وسلم نے دوبارہ وضو کرنے کا حکم زجراً وتوبیخاً فرمایاہے۔ 4... حدیث میں نماز کے قبول نہ ہونے سے مراد کامل قبولیت ہے، یعنی اسبالِ ازار کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا فرض تو ادا ہوجائے گا، لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل خوش نودی حاصل نہ ہوگی۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسبالِ ازار سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ (مرقاة المفاتیح، باب الستر، الفصل الثانی 2/234، مکتبہ امدادیہ، ملتان، پاکستان) عن ابن مسعود قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: من أسبل إزارہ في صلاتہ خیلاء فلیس من ا للہ جل ذکرہ في حل ولا حرام․ (ابوداود، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: 637) حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ازراہ تکبر نماز میں اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہو، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ اس کے لیے جنت حلال ہوگی، نہ جہنم حرام ہوگی۔ تشریح…اس حدیث میں اگر چہ علماء نے تاویل کی ہے، لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ بہت سخت ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسبالِ ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، لہٰذا ان مسلمانوں کے لیے اس حدیث میں لمحہٴ فکریہ ہے، جو اسبالِ ازار کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، نیز دوسری حدیث میں اسبال ازار کرنے والوں کو زبردست پھٹکار لگائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے لیے نہ جنت حلال ہونے کا وعدہ ہے اورنہ جہنم حرام ہونے کی ضمانت، یعنی ایسا شخص جہنمی ہے، اس کا جنت میں داخلہ نہ ہوگا۔ کیا اگر تکبر نہ ہو تو ٹخنے سے نیچے کپڑے پہن سکتے ہیں؟ ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہننے کی وبا اتنی عام ہوچکی ہے کہ عوام کاتو پوچھنا نہیں، بہت سے اہل علم بھی اس طرح کپڑے پہنتے ہیں اور جب ان کو ٹوکا جاتا ہے، تو وہ ان احادیث کا سہارا لیتے ہیں جن میں ”خیلاء“ یعنی تکبر کی قید مذکور ہے، نیز حضرت ابو بکر کی حدیث سے بھی یہ حضرات استدلال کرتے ہیں، تقریباً یہی حال ان حضرات کا بھی ہے جنہیں دین کی کچھ سوجھ بوجھ ہے اور وہ اپنی زندگی دین کے مطابق نہیں، بلکہ دین کو اپنی زندگی کے مطابق کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اللہ ان سب کو دین کا صحیح فہم عطا کرے اور ان کی زندگیوں کو نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کردے۔ (آمین) اسبال ازار کی احادیث میں ”خیلاء “کی قید کی حقیقت اسبال ازار کے سلسلے میں جتنی احادیث واردہوئی ہیں، انہیں دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1... وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے ،یعنی اگر کوئی تکبر کی بناء پر اسبال ازار کرتا ہے، اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو گھٹیا سمجھتا ہے، تو ایسے شخص کے لیے وہ وعیدیں ہیں جو احادیث میں ذکر کی گئی ہیں۔ 2... وہ احادیث جن میں ”خیلاء“ کی قید نہیں، یعنی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وعیدوں کا ہر وہ شخص مصداق ہے، جو اسبال ازار کرتا ہے، چاہے اس میں تکبر ہو، چاہے تکبر نہ ہو۔ اسبال ازارکب حرام ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا پہلی قسم کی احادیث کے مطابق ”خیلاء“ یعنی تکبر کے ساتھ اسبال ازار ممنوع اور حرام ہے اور اسی پر حضور صلی الله علیہ وسلم کی وعیدیں ہیں، یا دوسری قسم کی احادیث کے مطابق مطلقاً اسبال ازار حرام ہے، چاہے تکبر ہو یا نہ ہو؟ ”خیلاء “کی قید واقعی اوراتفاقی ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں کفار ومشرکین تفاخر وتکبر اور احساس برتری کے مظاہرے کے لیے اپنے کپڑوں میں حد سے زیادہ اسراف کرتے تھے، جب وہ چلتے تو ان کی چادریں اور لنگیاں زمین پر گھسٹتی تھیں اور اسے وہ بڑائی کی علامت جانتے تھے، چناں چہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان جب ایک سفیر کی حیثیت سے قریش کے پاس گئے، تو قریش نے حضرت عثمان کی لنگی ٹخنوں سے اوپر دیکھ کر کہاکہ آپ اسے نیچی کرلیں، کیوں کہ روٴسائے قریش اسے معیوب سمجھتے ہیں، تو آپ نے جواب دیا کہ: ”لا، ہکذا إزرةُ صاحبی صلی الله علیہ وسلم“ یعنی میں ایسا ہر گز نہیں کرسکتا، کیوں کہ میرے حبیب کی یہی سنت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبة، کتاب المغازی، غزوة الحدیبیة، حدیث نمبر: 36852) چناں چہ جن احادیث میں ”خیلاء“ کی قید ہے، ان میں اس لفظ کے ذریعہ مشرکین کے اسی تکبر کی ترجمانی کی گئی ہے اور ان کے متکبرانہ احوال کو اس لفظ ”خیلاء“ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ ”خیلاء“ کی قید مشرکین کی حالت اور واقعہ کو بیان کرنے کے لیے ہے، یعنی یہ قید صرف واقعی ہے، احترازی نہیں ہے؛ لہذا اب تکبر ہو ،یا نہ ہو ،دونوں صورتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننا درست نہ ہوگا۔ کیا عرف وعادت کی وجہ سے اسبال ازار جائز ہے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ اور اتنی سخت وعیدوں کے بعد کسی ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے لیے یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ بلا کسی عذر شدیدکے اسبال ازار کی جرأت کرسکے اور ادنیٰ بھی دینی غیرت رکھنے والا کوئی مسلمان حضور صلی الله علیہ وسلم کے فرمان عالی کے مقابلہ میں عرف وعادت کو ترجیح نہیں دے سکتا اور اس کا بہانہ نہیں بنا سکتا، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے خوداس عمل سے پوری زندگی اجتناب فرمایا اور اپنے صحابہ کو اس سے منع فرمایا، حالاں کہ صحابہ کرام ،امت کی سب سے بہترین جماعت ہیں، اگر تکبر نہ ہونے کا کسی کو دعویٰ ہوسکتا ہے، تو وہ اسی مقدس جماعت کو زیب دیتا ہے، لہٰذا اگر کبر نہ ہونے کی بنا پر اسبال ازار جائز ہوتا، توحضور صلی الله علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام کے لیے جائز ہونا چاہیے تھا۔ اسبال ازار ”کبر“ کی وجہ سے ہی ہوتا ہے عن جابر ․․․․ وإیاک وإسبال الإزار؛ فإنہ من المخیلة، وإن اللہ لا یحب المخیلة․ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آپ اسبال ازار سے بچیں، کیوں کہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں فرماتے۔(ابوداوٴد، کتاب اللباس ،باب ما جاء فی اسبال الازار،حدیث نمبر: 4084) تشریح… صحابہ کی طہارت باطنی کے باوجود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا اسبال ازار سے ان کو منع فرمانا ،اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اسبال ازار کا یہ عمل ہی شریعت کے نزدیک قبیح اور مذموم ہے، چاہے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس کے اندر کبر نہیں ہے، بعض احادیث کے اند ر”خیلاء“ یعنی کبر کی جو قید آئی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو تکبراً ایسا کرے اس کے لیے وعید ہے اور جس میں تکبر نہیں ہے اس کے لیے اسبال ازار کی اجازت ہے،بلکہ اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اسبال ازار کا سبب ہی کبر ہے، یعنی جن کے اندر کبر ہوتا ہے وہی یہ حرکت کرتے ہیں، اسی حدیث کی وجہ سے صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: ”وحاصلہ أن الإسبال یستلزم جرّ الثوب، وجر الثوب یستلزم الخیلاء، ولو لم یقصد اللابس الخیلاء“ ․ یعنی اسبال ازار کپڑے گھسیٹنے کو مستلزم ہے اور کپڑا گھسیٹنا تکبر کو مستلزم ہے، چاہے پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری 10/325،کتاب اللباس) اسبالِ ازار مطلقا حرام علماء کی ایک بڑی جماعت نے تکبر اور عدم تکبر کے درمیان فرق کیے بغیر اسبال ازار کو حرام قرار دیا ہے اور عدم تکبر کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا ہے، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کے بعد اسبال ازار کرنے کو تکبر کی دلیل قرار دیا ہے۔( تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الباری 10/325،کتاب اللباس) اسبال ازار کی حالت میں پڑھی گئی نماز کا شرعی حکم بہت سے مسلمان جن تک اسبال ازار کے سلسلے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی وعیدیں نہیں پہنچی ہیں، وہ جس طرح نماز سے باہر اسبال ازار کرتے ہیں، اسی طرح نماز میں بھی یہ عمل کرتے ہیں اور کپڑا اٹھا کر ٹخنے نہیں کھولتے، اسی حالت میں نماز ادا کرتے ہیں، جب کہ اسبال ازار کے سلسلے میں رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی وعیدیں بہت ہی سخت ہیں، نیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : ”لا یقبل صلاة مسبل“ یعنی اللہ تعالیٰ اسبال ازار کرنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے، تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اسبال ازار کی حالت میں جو نماز ادا کی گئی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ وہ نماز دوبارہ پڑھی جائے گی، یا مکروہ تحریمی ہوگی یا مکروہ تنزیہی؟ اسبالِ ازار کی حالت میں نماز مکروہ جس اسبال ازار کی حرکت سے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اتنی سختی سے منع فرمایا ہے اور جس پر اتنی شدید وعیدیں سنائی ہیں، اسی حرکت کو نماز میں کرنا ،اللہ تعالیٰ کے سامنے اور اس کے دربار میں کرنا، کس درجہ قبیح، مذموم اور کتنا گھناوٴنا اور برا عمل ہوگا، اس کا فیصلہ ہر ایمان رکھنے والا دل کرسکتا ہے، اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ: اسبال ازار کے ساتھ جو نماز ادا کی جائے، وہ مکروہ ہوتی ہے۔ ہاں! اگر کوئی شرعی معذور ہے، تووہ اس سے مستثنیٰ ہے، اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غالب گمان ہو کہ اس میں تکبر نہ ہوگا (اور اس کا دعویٰ اس زمانے میں کون کرسکتا ہے؟ اور اگر کوئی کرتا بھی ہے، تو یہ شیطانی دھوکہ ہے الا ماشاء اللہ)تو اس کی نماز اگر چہ اس درجہ مکروہ نہیں، لیکن فی الجملہ کراہت سے وہ بھی خالی نہیں ۔ وإطالة الذیل مکروہة عند أبي حنیفة والشافعي في الصلاة وغیرہا․ (مرقاة المفاتیح،باب الستر، الفصل الثانی 2/634، حدیث:761) ”امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک ازار کو ٹخنوں سے زیادہ لمبا کرنا نماز اور خارج نمازدونوں میں مکروہ ہے۔“ صادق المصدوق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اس مسئلہ میں بالکل صریح اور واضح ہیں کہ اسبال ازار علامت تکبر ہے، لہٰذا اس کے بعد تکبر نہ ہونے کا دعویٰ کرنا نفسانی اور شیطانی دھوکہ ہے، جو انسان کا کھلا دشمن ہے، جب صحابہ جیسی برگزیدہ اور مقدس جماعت کو اس سے گریز کرنے کا حکم دیا گیا، تو ہم کس شمار میں آتے ہیں؟ لہٰذا ہر مسلمان کو نماز کے اندر بھی اور نماز کے باہر بھی اسبال ازارسے پورے طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔ نماز سے پہلے پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑنے کا حکم اسبال ازار کے سلسلے میں جو احادیث اوپر آپ کے سامنے آئی ہیں، اسی طرح اسبال ازار کی حالت میں نماز کا جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس کا تقاضاتویہ ہے کہ پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث سے محبت رکھنے والا ہر مومن اپنی پوری زندگی میں اس عمل سے بالکل گریز کرے،چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی انہی احادیث کے احترام میں ہمارے اکثر مسلمان بھائی نماز سے قبل پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑ لیتے ہیں؛ تاکہ ٹخنے کھل جائیں اور کم از کم نماز میں اس گناہ سے بچ سکیں اور ان کی نماز سنت کے مطابق ادا ہوجائے۔ کیا نماز سے قبل پائینچے موڑنا مکروہ ہے؟ تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا نماز سے پہلے پائینچے موڑنے کا یہ عمل درست ہے، اس طرح کرنے سے نماز میں کوئی کراہت تو نہیں آئے گی، کیوں کہ بعض حضرات پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار نہیں دیتے اور وہ کہتے ہیں کہ اسبال ازار کی حالت میں ہی نماز ادا کی جائے؟ نماز سے قبل پائینچے موڑنا درست ہے احادیث مبارکہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم کپڑے ایسے ہی بنوائیں جن میں خود بخود ٹخنے کھلے رہیں، پائینچے موڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے، لیکن ہمارے اکثر نوجوان جو چست جینزیا دیگر پینٹ پہنتے ہیں، جن میں پائینچے موڑے بغیر ٹخنے کھولنے کی کوئی دوسری شکل نہیں ہوتی، تو اب ان کے سامنے دوہی صورت رہ جاتی ہے۔ اسی حالت میں (یعنی ٹخنے ڈھکے ڈھکے) نماز پڑھنا۔پائینچے موڑ کر نماز پڑھنا۔ پہلی صورت میں وہ مندرجہ بالا ان تمام احادیث کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں گے، جن میں اس عمل کی قباحت بیان کی گئی ہے، لہٰذا ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ نماز سے قبل پائینچے موڑ لیں، تاکہ کم از کم نماز کی حالت میں اس گناہ سے بچ سکیں، خلاصہ یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھنا حدیث کی خلاف ورزی ہے اور کم از کم نمازمیں پائینچے موڑ کر ٹخنوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔ |
نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے
بعض مکاتب فکر کے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہے، تو وہ نماز سے قبل اپنے پائینچے نہ موڑے، کیوں کہ یہ عمل مکروہ ہے، جس سے نماز میں کراہت آتی ہے، حتی کہ ان میں سے بعض نے اس عمل کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ نماز واجب الاعادہ ہوگی۔ مخالفین کے دلائل یہ حضرات اپنے اس موقف اور مسلک کی تائید میں کئی دلائل پیش کرتے ہیں، جو درج ذیل ہیں: پہلی دلیل: آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارک، جس میں کپڑے اور بالوں کو سمیٹنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے: عن ابن عباس رضي اللہ عنہما، عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: أمرت أن اسجد علی سبعة، لا أکف شعراً، ولا ثوباً․ حضرت عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضا پر سجدہ کروں، اور نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑوں کو۔(بخاری، کتاب الصلاة، باب لا یکف ثوبہ فی الصلاة، حدیث نمبر: 816) تشریح: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کپڑوں کا سمیٹنا ممنوع ہے اور پائینچے موڑنا بھی کپڑے کا سمیٹنا ہے، لہٰذا وہ بھی ممنوع ہوگا۔ دوسری دلیل: فقہاء کی وہ عبارتیں ہیں، جن میں ”کف ثوب“ کی کراہت کا حکم بیان کیا گیا، جیسے ”در مختار“ میں ہے: وکرہ کفہ: أي رفعہ، ولو لتراب، کمشمِّر کم أو ذیل․ (در مختار علی رد المحتار 2/406) مکروہ ہے کپڑے کو سمیٹنا، چاہے مٹی سے بچنے کے لیے ہو، جیسے آستین چڑھانا اور دامن سمیٹنا۔ اور شامی میں اس کے تحت لکھا ہے: ”وأشار بذلک إلی أن الکراہة لا تختص بالکف، وہو في الصلاة․“ اس کے ذریعہ مصنف نے اشارہ کیا ہے کہ کپڑا سمیٹنے کی کراہت نماز کی حالت کے ساتھ خاص نہیں ہے․(رد المحتار2/406) پہلی عبارت میں مطلقاً کپڑا سمیٹنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے اور شامی میں یہ صراحت کی گئی کہ کپڑا سمیٹنا، چاہے نماز کے اندر ہو، یا اس سے پہلے، دونوں حالتوں میں مکروہ ہے، لہٰذا دونوں عبارتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان جو کپڑا پہنے ہوئے ہے، اگر اسے کہیں سے بھی موڑے، تو یہ عمل مکروہ ہوگا اور پائینچے موڑنا بھی اسی قبیل سے ہے، لہٰذا یہ بھی مکروہ ہوگا۔ تیسری دلیل: پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہٰذا پائینچے موڑنے کا عمل بھی مکروہ ہوگا۔ مخالفین کے دلائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ پہلی دلیل کا جائزہ…پہلی دلیل میں نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی جس حدیث سے پائینچے نہ موڑنے پر استدلال کیا گیا ہے ، یہ استدلال درست نہیں ہے، کیوں کہ اس حدیث میں ”کف ثوب“ (یعنی کپڑے سمیٹنے) سے مراد ”ازار“ کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ ہیں اور اس کی حکمت صاحب فتح الباری شرح صحیح البخاری علامہ ابن حجر نے یہ لکھی ہے کہ: ”والحکمة في ذلک أنہ إذا رفع ثوبہ وشعرہ عن مباشرة الأرض أشبہ المتکبر․“ (فتح الباری2/377، کتاب الصلوة، باب السجود علی سبعة اعظم) اور حکمت اس میں یہ ہے کہ جب وہ اپنے کپڑے اور بالوں کو مٹی لگنے کے ڈر سے اٹھائے گا، تو اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت پیدا ہوگی۔ اور پائینچے موڑنا سنت پر عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ تکبر کی وجہ سے؛ لہٰذا یہ اس حدیث کے تحت داخل نہیں ،نیز ایک دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جو نیچے پیش کی جاتی ہے۔ حدیث سے پائینچے موڑنے کی تائید بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس طرح نماز پڑھائی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے: عن أبي جُحَیفة قال: ․․․․ فرأیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم خرج في حلة مشمّراً، فصلی رکعتین إلی العنزة․․ حضرت ابو جحیفة فرماتے ہیں کہ: میں نے دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایک ایسے لباس میں تشریف لائے، جس میں ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الصلوة، باب التشمر فی الثیاب، حدیث نمبر:5786) ایک دوسری سند میں یہ الفاظ بھی ہیں: کأني أنظر إلی بریق ساقیہ․․․ یعنی صحابی فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ازار نیچے سے اتنی اٹھا رکھی تھی، گو یا کہ میں آپ کی پنڈلیوں کی چمک ابھی تک دیکھ رہا ہوں۔ اس حدیث میں ایک لفظ آیا ہے ”مشمراً“ جو ”تشمیر“ سے بنا ہے اور تشمیرالثوب کے معنی لغت میں ہیں: آستین چڑھانا، پائینچے موڑنا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر کرنا۔(القاموس الوحید 1/886، مادہ: ش م ر)نیز علامہ ابن حجر نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں: ”رفع اسفل الثوب“ یعنی کپڑے کے سب سے نچلے حصے کو اٹھانا۔ (فتح الباری2/315)جس کی ایک شکل پینٹ یا پائجامے کے پائینچے موڑنا بھی ہے۔ پائینچے موڑنا ”کف ثوب“ کی حدیث کے تحت داخل نہیں اسی لیے علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ احادیث میں ”کف ثوب“ کی جو ممانعت آئی ہے ،وہ ”ازار“ وغیرہ کے علاوہ میں ہے: ویوخذ منہ أن النہي عن کف الثیاب في الصلاة محلہ في غیر ذیل الإزار․․․(فتح الباری2/316) اس حدیث سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ نماز میں ”کف ثوب“ کی ممانعت ”ازار“ کے نچلے حصے کے علاوہ میں ہے۔ دونوں حدیثوں کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ پہلی حدیث میں ”کف ثوب“ سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں اور ان کپڑوں میں ”کف ثوب“ کی علت متکبرین کے ساتھ مشابہت ہے اور دوسری حدیث، نیز علامہ ابن حجر کی شرح سے یہ واضح ہوگیا کہ ”ازار“ کے نچلے حصے کو اٹھانا یا موڑنا ”کف ثوب“کی ممانعت میں داخل نہیں، لہٰذا پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے ہمارے بھائیوں کو دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے!!! دوسری دلیل کا جائزہ…حدیث کی اس بھر پور توضیح وتشریح سے یہ مسئلہ بالکل صاف ہوگیا کہ فقہ کی کتابوں میں جس ”کف ثوب“ کو مکروہات صلوٰة میں شمار کیا گیا ہے، وہاں بھی ”کف ثوب “ یعنی کپڑے سمیٹنے سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں اور پینٹ یا پائجامہ وغیرہ کا موڑنا اس میں داخل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ کی عام کتابوں میں ”کف ثوب“ کی مثال میں آستین اور قمیص کے دامن کا تذکرہ ملتا ہے، کہیں ازار یا پائجامے کا ذکر نہیں ملتا۔ نیز فقہ کی کتابوں میں بھی ”کف ثوب“ کی وہی علت بیان کی گئی، جو مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں علت میں گذری ہے، یعنی متکبرین کے ساتھ مشابہت، چناں چہ کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں لکھا ہے: ”(وکف ثوبہ) لأنہ نوع تجبرٍ․“ اور نماز کے مکروہات میں کپڑے کا سمیٹنا ہے، کیوں کہ یہ تکبر کی ایک قسم ہے۔ (تبیین الحقائق 1/164، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا) تیسری دلیل کا جائزہ…ان کی تیسری دلیل یہ ہے کہ پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس دلیل کے دو جواب ہیں۔ 1... ٹخنے سے اوپر کپڑا کرنے کو بد ہیئتی قرار دینا، بعینہ جدید دور کے افراد کے ذہنوں کی ترجمانی ہے، کیوں کہ سوائے چند حضرات کے ماڈرن دور کا کوئی بھی فرد ٹخنے سے اوپر کپڑا پہننے کو، چاہے جس طرح بھی ہو، اچھی ہیئت قرار نہیں دیتا، بلکہ اس میں عار محسوس کرتا ہے اور اسے معیوب سمجھتا ہے، تو کیا ہم ان کے معیوب سمجھنے کی وجہ سے اپنے پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیں گے! 2... ٹخنوں سے اوپر پائینچے رکھنے کو بد ہیئتی قرار دینا غلط اور بلا دلیل ہے، کیوں کہ قاعدہ ہے کہ جو ہیئت حضور پاک صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہو، وہ بری ہیئت نہیں ہوسکتی اور اس ہیئت کے ساتھ نماز مکروہ نہیں ہوگی اور ٹخنے کھلے رکھنے، نیز ”ازار“ اوپر اٹھانے کا عمل آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسا کہ ابھی احادیث میں گذرا، لہٰذا اسے بدہیئتی قرار دینا ،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے عمل اور آپ کی سنت کے خلاف ہوگا، جیسا کہ کُرتے کے بٹن کھلے رہنا بھی بظاہر بد ہیئتی ہے، لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اس لیے مکروہ نہیں، اور اس سے نماز میں کراہیت نہیں آتی۔(ابوداوٴد، کتاب اللباس، باب فی حل الازرار، حدیث نمبر:4082) نمازسے پہلے پائینچے موڑنے کے سلسلے میں علماءِ حق کے فتاویٰ نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے جواز کے فتاویٰ، کتابوں میں کثرت سے موجود ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم صرف دو فتووٴں پر اکتفاء کرتے ہیں، ایک دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ، دوسرا علماء عرب کا فتویٰ۔ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں سائل نے نماز سے قبل پائینچے موڑ کر ٹخنے کھولنے سے متعلق مسئلہ دریافت کیا ہے، بعض مخالفین نے جو اسے شبہے میں ڈالا تھا، ان کے دلائل کا مدلل جواب بھی طلب کیا ہے، فتوے میں ان تمام دلائل کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں، اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار دیا گیا ہے فتویٰ بعینہ آپ کی خدمت میں پیش ہے: سوال…کیا پائینچے ٹخنوں سے نیچے اگر ہورہے ہوں تو انہیں اگر موڑ کر نماز پڑھ لی جائے تو پائینچے موڑنے کا عمل مکروہ تحریمی کہلائے گا اور نماز واجب الاعادہ ہوگی؟ نیز اگر کپڑے یا ٹوپی کا کوئی حصہ مڑ جائے تو تب بھی یہی حکم ہے؟اس کے حوالے میں بریلوی حضرات مختلف فقہاء کے اقوال نقل کرتے ہیں: 1.. علامہ ابن العابدین الشامی فرماتے ہیں: أي کما لو دخل في الصلاة، وہو مشمر کمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلی أن الکراہة لا تختص بالکف، وہو في الصلاة․(رد المحتار)․ 2.. وکرہ کفہ أي رفعہ، ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل․ (در مختار)․ 3.. جوہرہ نیرہ میں ہے : ولا یکف ثوبہ، وہو أن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا اراد السجود․ (الجوہرة النیرة1/63) ․ 4.. قال علیہ السلام: امرت أن اسجد علی سبعة اعظم لا أکف ثوبا ولا اعقص شعراً․ 5.. حضرت امام بصری سے روایت ہے: کف ثوب کرنے والے کی نماز مکروہ تحریمی ہے۔ (؟؟؟2/91) آپ سے درخواست یہ ہے کہ ان حوالوں کا مدلل جواب دیں۔ جواب…ٹخنوں سے نیچے پائجامہ یا لنگی لٹکانا ان سخت گناہوں میں سے ایک ہے، جن پر جہنم کی وعید آئی ہے، اس لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس حکم کی خلاف ورزی کر کے ٹخنے سے نیچے پائجامہ اور پینٹ وغیرہ لٹکائے، عام حالات میں بھی یہ جائز نہیں ہے اور نماز میں تو اور زیادہ قبیح ہے، ”اسبال“ (ٹخنے سے نیچے پائجامہ یا پینٹ وغیرہ لٹکانا) مطلقاً ناجائز ہے، اگر چہ ”مسبل“ (لٹکانے والا) یہ ظاہر کرے کہ میں تکبر کی وجہ سے نہیں کررہا ہوں، ہاں! اگر غیر اختیاری طور پر ایسا ہوجائے ، یا کسی یقینی قرینے سے معلوم ہو کہ اس میں کبر نہیں تو یہ حکم نہیں لگے گا، جیسا کہ حضرت ابو بکر کے واقعہ میں ہے۔ لہٰذا تکبر اور غیر تکبر کے درمیان فرق کرنا ،ایک کو ناجائز اور دوسرے کو جائز کہنا ،یا ایک کو مکروہ تحریمی اور دوسرے کو تنزیہی شمار کرنا شراح حدیث کی تشریح کے مطابق صحیح نہیں، اس لیے کہ حدیث کے اندر ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے اور اس کے کھینچنے کو تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے اور جن احادیث کے اندر ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے، یہ قید احترازی نہیں ہے، بلکہ قید اتفاقی یا واقعی ہے کہ ازار لٹکانے والا متکبر ہی ہوتا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ٹخنوں سے اونچا پائجامہ یا پینٹ پہننے میں عار آتی ہے، یا ایسے پہننے والوں کو نظر حقارت سے کیوں دیکھتے ہیں؟ اس بابت ان سے مضحکہ بھی کرتے ہیں،․․․ ․یعنی خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ اسبال مطلقاً ”جر ثوب“ یعنی کپڑا گھسیٹنے کو مستلزم ہے اور جر ثوب تکبر کو مستلزم ہے، اگر چہ پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری 10/254)․․․․ لہٰذا اگر کوئی آدمی اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، یعنی لنگی پینٹ وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹکا کر پہنتا ہے، لیکن یہ نماز کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا لیتا ہے، تاکہ نماز کے وقت کم از کم گناہ سے بچے اور اس حدیث کا مصداق نہ بنے اور اس کی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہوجائے تو یہ عمل مستحسن ہوگا، نہ مکروہ۔ خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ بوقت نماز پائینچے کو اوپر چڑھا کر نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی کہنا نہ تو شرعاً صحیح ہے اور نہ عقلاً، سوال میں فقہاء کی جن عبارتوں اور ترمذی کی، جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ان سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتی، ذیل میں یہ عبارات ذکر کی جاتی ہیں: 1.. کمشمر کم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاة وہو مشمر کمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلی أن الکراہة لا تختص بالکف، وہو في الصلاة․(رد المحتار) 2.. ولا یکف ثوبہ، وہو أن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود․ 3.. قال علیہ السلام: امرت أن اسجد علی سبعة اعظم لا أکف ثوبا، ولا اعقص شعراً․ حدیث شریف اور فقہی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مصلی یعنی نماز پڑھنے والے کے لیے مکروہ ہے کہ وہ آستین چڑھا کر نماز میں داخل ہو، یا دوران نماز اپنے کپڑے کو آگے پیچھے سے سمیٹے، تاکہ مٹی وغیرہ نہ لگے ،یاپہلے سے کپڑے کو اٹھائے رکھے، مٹی سے بچانے یا اظہار تکبر کے مقصد سے، چناں چہ کنز کی مشہور شرح تبیین الحقائق میں مکروہ ہونے کی علت لکھی ہے ”ولأنہ نوع تجبر“ یعنی کراہت اظہار تکبر کی وجہ سے ہے او راس کے حاشیہ میں ”کف الثوب“ کے تحت لکھا ہے ”وھو أن یضم أطرافہ اتقاء التراب“ اسی طرح ہدایہ میں بھی اس کی علت ”لأنہ نوع تجبر“ لکھی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ” کف ثوب “کا یا تو یہ مطلب ہے کہ دوران نماز کپڑا سمیٹے، صاحب غنیة المستملی نے یہی تفسیر کی ہے، اس صورت میں کراہت کی وجہ نماز میں دوسرے کام میں مشغول ہونا ہے یا یہ مطلب ہے کہ مطلقاً ”کف ثوب“ مکروہ ہے، خواہ دوران نماز ہو یا کپڑا سمیٹ کر نماز میں کھڑا ہو، تو اس کی وجہ اظہار بڑکپن (تکبر)ہے، کہ نماز میں عبث کے اندر مشغول ہونا ہے، نیز شامی کی عبارت ”کمشمر کم․․․“ (یعنی آستین چڑھا کر نماز پڑھنا)سے پائینچے وغیرہ کو چڑھا کر نماز پڑھنے کی کراہت پر استدلال صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ آستین چڑھا کر نماز پڑھنے کا کوئی شرعی مقصد نہیں ہے، کیوں کہ اس سے بے ادبی اور تکبر ٹپکتا ہے، بر خلاف نماز کے لیے پائینچے چڑھانا، یہ ایک نیک مقصد، یعنی کم از کم دوران نماز گناہ سے بچنے کے لیے ہے اور اس میں نہ تو تکبر ہے اور نہ ہی بے ادبی ہے۔ الغرض ان عبارات سے اس پر استدلال کرنا کہ نماز پڑھنے کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا نامکروہ تحریمی ہے، صحیح نہیں ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، فتوی (د): 2/1432-21=93 علمائے عرب کا فتویٰ عرب کا ایک باشندہ، جو نماز سے قبل پینٹ کے پائینچے موڑتا تھا، جب اس کے سامنے وہ حدیث آئی، جس میں حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”میں نہ کپڑے سمیٹتا ہوں اور نہ بالوں کو اٹھاتا ہوں“ تو اس نے اپنے اس عمل کا حکم اور حدیث کا مطلب دارالافتاء سے معلوم کیا۔ فتوے میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ نماز سے قبل پائینچے موڑنا”کف ثوب“ کی ممانعت والی حدیث کے تحت داخل نہیں ہے، لہٰذا یہ عمل درست ہے، فتویٰ درج ذیل ہے: السوال… في حدیث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول فیہ: (أمرت أن أسجد علی سبع، وأن لا أطوي ثوبا، ولا أکف شعرا) ونحن في أثناء أوقات العمل نطوي سراویلنا، حتی نتجنب الإسبال عند الصلاة، فہل ما نقوم بہ صحیح؟ الفتوی…الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ․ أما بعد․ فالمعروف في روایة الحدیث المشار إلیہ في السوٴال لفظ: ولا أکف ثوباً ولا شعراً․ وورد بلفظ: ولا أکفت․ ولا نعرفہ بلفظ وأن لا أطوي․ ہذا ما لزم التنبیہ علیہ أولاً․ وأما عن حکم المسألة: فإن الإسبال منہي عنہ في الصلاة وخارج الصلاة، کما صحت بذلک الأحادیث الکثیرة، فإذا رفع المصلي ثوبہ عن حد الإسبال حال الصلاة لم یکن داخلاً في النہي عن کف الثوب في الصلاة الذي ورد فیہ الحدیث، لأنہ مأمور بہذا الکف في الصلاة وخارجہا․ وقد نص بعض أہل العلم علی أن الکراہة في کف الثوب في الصلاة إنما تحصل إن کان ہذا الکف لغیر حاجة، فإن کان لحاجة فلا کراہة․ قال صاحب روض الطالب من الشافعیة: ویکرہ للمصلي ضم شعرہ وثیابہ لغیر حاجة․ انتہی کلامہ رحمہ اللہ․ واللہ أعلم․ تاریخ الفتوی، 15/ جمادی الثانیة1423ھ (فتاوی الشبکة الإسلامیة 11/7024) الموٴلف: لجنة الفتوی بالشبکة الإسلامیة․ ترجمہ: سوال: نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضا پر سجدہ کروں اور نہ کپڑوں کو موڑوں اور نہ ہی بالوں کو سمیٹوں، اب سوال یہ ہے کہ ہم کام کے اوقات میں اپنے پائجامہ وغیرہ کو نیچے سے موڑتے ہیں، تاکہ نماز کے وقت اسبال کے گناہ سے بچ سکیں تو کیا ہمارایہ عمل درست ہے؟ جواب: الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ․ أما بعد! سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ حدیث ”ولا أکف ثوبا و لاشعراً“ نیز ”ولا أکفت“ کے الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور ہے، لیکن ”وأن لا أطوي“کا لفظ غیر معروف ہے۔ رہا مسئلہ کا حکم، تو اسبال ازار نماز اور خارج نماز دونوں میں ممنوع ہے، جیسا کہ بہت ساری احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہٰذا اگر کوئی مصلی اپنا کپڑانماز کی حالت میں اسبال کی حد سے اوپر اٹھاتا ہے تو وہ مذکورہ بالا حدیث کا مصداق نہیں ہوگا، جس میں کپڑا موڑنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اس لیے کہ کپڑے کا موڑنا نماز اور خارج نماز میں حکم شرعی ہے اور کئی اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ نماز میں کپڑا موڑنے میں کراہت اس وقت ہوتی ہے جب کہ یہ عمل بلا ضرورت ہو، اگر ضرورت کی وجہ سے ہو تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، روض الطالب کے شافعی مصنف لکھتے ہیں کہ بغیر ضرورت مصلی کے لیے اپنے بالوں اور کپڑوں کا سمیٹنا مکروہ ہے، فقط ۔ واللہ اعلم۔ حرف آخر اس پوری بحث اور حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ، نیز محدثین کرام کی تشریحات اور فقہاء کی عبارتوں سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا کہ اسبال ازار شریعت کی نگاہ میں ممنوع اور حرام ہے، چاہے اسبال ازار کرنے والا یہ دعویٰ کرے کہ اس میں تکبر نہیں ہے، نیز یہ مسئلہ بھی بالکل صاف ہوگیا کہ اگر کوئی مسلمان گناہ سے بچنے کے لیے نماز سے پہلے اپنی پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑتا ہے، تاکہ اس کی نماز سنت کے مطابق ہو اور وہ کم از کم نماز کی حالت میں اسبال ازار کے گناہ سے بچ سکے، تو اس کا یہ عمل بالکل درست ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوچکا ہے، لہٰذا جو حضرات نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں اپنے مسلک سے اوپر اٹھ کران احادیث اور محدثین کی ان تشریحات کو بغور پڑھنا چاہیے، جن میں اس عمل کی انتہائی مذمت اور قباحت بیان کی گئی ہے اور پائینچے موڑنے اور ٹخنے کھولنے کے عمل کو درست قرار دیا ہے۔ |
No comments:
Post a Comment