اللہ کی خاطر کی گئی ہر نیکی، اللہ کے راستے ہیں:
القرآن:
اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
[سورۃ العنکبوت:69]
امام مُجَاهِدٌ نے فرمایا:
«لَيْسَ سَبِيلُ الله وَاحِدًا، كُلُّ خَيْرٍ عَمِلَهُ فهو فِي سَبِيلِ الله»
ترجمہ:
"اللہ کا راستہ صرف ایک نہیں ہے۔ ہر نیک عمل جو بھی کیا جائے، وہ اللہ کے راستے میں ہے۔"
[مصنف ابن ابی شیبہ:30839]
تشریح:
یہ عبارت دو اہم نکات پر روشنی ڈالتی ہے:
1. اللہ تک پہنچنے کے راستوں کی کثرت:
پہلا جملہ "لَيْسَ سَبِيلُ الله وَاحِدًا" اس تصور کو رد کرتا ہے کہ اللہ کی رضا صرف ایک مخصوص طریقے یا رسمی عبادت تک محدود ہے۔ یہ تنگ نظری اور جمود کے خلاف ایک واضح بیان ہے، جو بتاتا ہے کہ نیکی اور تقویٰ کے مختلف مظاہر بھی اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
2. ہر نیکی کو اللہ کا راستہ قرار دینا:
دوسرا حصہ "كُلُّ خَيْرٍ عَمِلَهُ فهو فِي سَبِيلِ الله" اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کوئی بھی اچھا کام، چاہے وہ مالی مدد ہو، علمی خدمت ہو، یا معاشرتی بہتری، اگر نیک نیت سے کیا جائے تو وہ "اللہ کے راستے" میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ ایمان صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نیکی اور احسان (بہترین عمل) کو شامل کرتا ہے۔
نوٹ:
- قرآن و حدیث میں "سَبِيلِ الله" کا لفظ اکثر جہاد(یعنی اللہ کی اطاعت میں مشقت اٹھانے) یا مالی قربانیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (جیسے سورۃ التوبہ:24، التوبہ:60)، لیکن یہاں اس کا دائرہ وسیع کرکے ہر نیک عمل کو شامل کیا گیا ہے۔
- یہ تصور "نیت" کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے، کیونکہ احادیث میں آیا ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" (صحیح بخاری:1)۔
- یہ فقرہ اسلامی اخلاقیات کی وسعت کو بیان کرتا ہے، جس کے مطابق ہر وہ کام جو معاشرے کی بہتری یا کسی کی مدد کے لیے ہو، شرک اور گناہ سے پاک ہونے کی شرط پر، اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
خلاصہ:
اس عبارت کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ دین کو تنگ دائرے میں نہ سمجھا جائے۔ ہر نیک عمل، چھوٹا ہو یا بڑا، اگر خلوصِ نیت سے کیا جائے تو وہ اللہ کے راستے میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ نظریہ انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی رضا تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔