فقہ کسے کہتے ہیں؟
امام راغب اصفھانی(م502ھ) لکھتے ہیں:
الفقہ کے معنی علمِ حاضر سے علمِ غائب تک پہنچنا کے ہیں ، قرآن میں ہے:
فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً ۔۔۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حدیث(بات)کی فقہ(سمجھ)نہیں پارہے ہیں۔[ النساء: 78]
وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ ۔۔۔۔۔ لیکن منافقین فقہ(سمجھ)نہیں رکھتے۔[المنافقون:7]
[مفردات في غريب القرآن: ص ؍ 642]
یعنی فقہ وہ باطنی علم کی گہرائی ہے جو ظاہری الفاظ کے سرسری پڑھ یا سُن لینے سے نہیں حاصل ہوتی، بلکہ اس کیلئے مسلسل فکرونظر کی ضرورت پڑتی ہے۔
فقہ کے فضائل:
امام راغب اصفھانی(م502ھ) لکھتے ہیں:
الفقہ کے معنی علمِ حاضر سے علمِ غائب تک پہنچنا کے ہیں ، قرآن میں ہے:
فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً ۔۔۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حدیث(بات)کی فقہ(سمجھ)نہیں پارہے ہیں۔[ النساء: 78]
وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ ۔۔۔۔۔ لیکن منافقین فقہ(سمجھ)نہیں رکھتے۔[المنافقون:7]
[مفردات في غريب القرآن: ص ؍ 642]
یعنی فقہ وہ باطنی علم کی گہرائی ہے جو ظاہری الفاظ کے سرسری پڑھ یا سُن لینے سے نہیں حاصل ہوتی، بلکہ اس کیلئے مسلسل فکرونظر کی ضرورت پڑتی ہے۔
فقہ کے فضائل:
اللہ عزوجل نے فقہ حاصل
کرنے کو مسلمانوں پر فرضِ کفایہ(کہ ایک گروہ ادا کردے تو باقی لوگ سبکدوش ہوجاتے
ہیں)کرتے فرمایا:
اور مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ
(ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہوں۔ لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر
بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لیے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے
ہوں) وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، اور جب ان کی قوم کے لوگ
(جو جہاد میں گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو خبردار کریں، تاکہ وہ بچ
کر رہیں۔
[سورۃ التوبۃ:122]
فقہاءِ دین کی
ظاہری صفات؟
(1) جو دین میں سمجھ حاصل کرنے کیلئے ’’محصور‘‘ رہیں۔
(2) اور اپنی قوم کو ’’خبردار‘‘ کرنے والے ہوں، بشرطیکہ قوم ان کے پاس آئے یعنی اعتماد کرے۔
(2) اور اپنی قوم کو ’’خبردار‘‘ کرنے والے ہوں، بشرطیکہ قوم ان کے پاس آئے یعنی اعتماد کرے۔
(3) تاکہ وہ انہیں (گناہوں کے سبب اللہ کے عذاب) سے ’’بچانے‘‘ کا سبب بنیں۔
رسول اللہ ﷺ سے اس کی فضیلت میں کئی احادیث بھی مروی ہیں:
(1) مَنْ يُرِدْ اللہُ بِهِ خَيْرًا
يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔
اللہ تعالیٰ جس کے حق میں بہتری
چاہتے ہیں، اس کو دین کا تفقہ عطا فرماتے ہیں۔
[صحیح
بخاری:71، صحیح مسلم:1037، سنن ابن ماجہ:221]
(2) «فَقِيهٌ
وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ»
ایک فقیہ(عالم) شیطان پر ہزارعابدوں
سے زیادہ بھاری ہے۔
[سنن
ابن ماجہ:222، الأحاديث المختارة:126]
(3)«مَنْ تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ مَهَمَّهُ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ»
جو شخص الله کے دین میں فقہ(سمجھ بوجھ) حاصل کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
[مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم: رقم الحديث:4، مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:3، جامع بيان العلم وفضله:216، تاريخ بغداد:1220، جامع الأحاديث:21816]
اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش
رکھے گا جو ہماری بات (حدیث) سن کر اسے محفوظ (یاد) کرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے
اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بہت سے فقہ (علمِ حدیث)
کے محافظ حقیقتاً * فقیہ (دینی سمجھ رکھنے والا عالم) نہیں ہوتے * اور بہت سے فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) تو ہیں لیکن
جن کی طرف (یہ فقہ) منتقل کر رہے ہیں * وہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں * ....
[سنن ابوداؤد:3660، سنن ترمذی: 2656، سنن
ابن ماجه:230]
بےشک لوگ تمہاری(اے میرے ساتھیو!)
’’اتباع‘‘ کریں گے اور زمین کے کناروں سے دین کی فقہ (گہری سمجھ) حاصل کرنے آئیں گے،
تو میری طرف سے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو.
[سنن
ترمذی:2650، سنن ابن ماجہ:249، مسند الشاميين للطبراني:405]
جو شخص الله کے دین میں فقہ(سمجھ
بوجھ)حاصل کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے، اور اسے ایسی
جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
[مسند
أبي حنيفة رواية أبي نعيم: رقم الحديث:4]
فقہ
کی اہمیت حدیث کے ائمہ(اماموں)کی نظر میں:
(1)
امام اعمشؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی گہری سمجھ سے متاثر ہوکر بے ساختہ فرمایا:
یعنی
آپ طبیب(Doctor) ہیں اور ہم لوگ عطار(Pharmacists) ہیں.
[جامع بيان العلم وفضله، (امام) ابن عبد البر » بَابُ
ذِكْرِ مَنْ ذَمَّ الإِكْثَارَ مِنَ الْحَدِيثِ ...، رقم الحديث: 1195]
جیسے
علامہ سیوطیؒ(المتوفى: 911ه)
’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں :
قَالَتِ الْأَقْدَمُونَ: الْمُحَدِّثُ بِلَا فِقْهٍ كَعَطَّارٍ غَيْرِ طَبِيبٍ، فَالْأَدْوِيَةُ حَاصِلَةٌ فِي
دُكَّانِهِ وَلَا يَدْرِي لِمَاذَا تَصْلُحُ، وَالْفَقِيهُ بِلَا حَدِيثٍ
كَطَبِيبٍ لَيْسَ بِعَطَّارٍ يَعْرِفُ مَا تَصْلُحُ لَهُ الْأَدْوِيَةُ إِلَّا
أَنَّهَا لَيْسَتْ عِنْدَهُ.
[الْحَاوِي لِلْفَتَاوِي: جلد 2 صفحہ 398(2/277)]
ترجمہ: پہلے اہلِ علم نے کہا
ہے کہ وہ محدث جو فقہ نہ جانتا ہو اس عطار(دوا فروش) کی طرح ہے جو طبیب (ڈاکٹر) نہ
ہو، سب دوائیں اس کی دکان میں موجود ہوتی ہیں اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کس مرض کا علاج
ہیں۔ اور فقیہ بلاحدیث اسی طرح ہے جیسے وہ طبیب جو جانتا تو ہے کہ یہ دوائیں کس مرض
کی ہیں مگر وہ رکھتا نہیں۔
(2) حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
عن الْإِمَامُ أَحْمَدُ قَالَ: إذَا كَانَ عِنْدَ
الرَّجُلِ الْكُتُبُ
الْمُصَنَّفَةُ فِيهَا قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ - وَاخْتِلَافُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَلَا يَجُوزُ أَنْ
يَعْمَلَ بِمَا شَاءَ وَيَتَخَيَّرَ فَيَقْضِيَ بِهِ وَيَعْمَلَ بِهِ حَتَّى
يَسْأَلَ أَهْلَ الْعِلْمِ مَا يُؤْخَذُ بِهِ فَيَكُونُ يَعْمَلُ عَلَى أَمْرٍ
صَحِيحٍ.
[اعلام
الموقعین: جلد 1 صفحہ44(1/35)]
ترجمہ:
امام احمدؒ (م241ھ) سے مروی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس حدیث
کی کتابیں ہوں تو اس کے لئے جائز نہیں کہ جس پر چاہے عمل کر لے اور جو قول چاہے اختیارکرلے
اور اس کے مطابق فیصلہ دے جب تک علماء سے نہ پوچھ لے کہ کون سی بات اختیار کرنی ہے۔
اس صورت میں اس کا عمل صحیح طریق پر ہوسکے گا۔
پہلے دنوں وہ اہلِ علم جن کی
بات سند سمجھی جائے ”فقہاء“ کہلاتے تھے۔
(3)
امام شافعیؒ کے شاگرد امام مزنیؒ (المتوفى:
264هـ) جو امام طحاویؒ
کے استاد اور ماموں تھے فرماتے ہیں:
فَانْظُرُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ عَلَى
مَا فِي أَحَادِيثِكُمُ الَّتِي جَمَعْتُمُوهَا، وَاطْلُبُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَهْلِ الْفِقْهِ تَكُونُوا
فُقَهَاءَ۔
[الفقیہ
والمتفقہ: جلد 2 صفحہ15(2/35)]
ترجمہ:
اللہ تم پر رحم کرے، ان احادیث پر جو تم نے جمع کیں نظر رکھو اور علم اہلِ فقہ سے حاصل کرو۔ تم خود بھی فقہاء(میں)بن جاؤگے۔
اللہ تم پر رحم کرے، ان احادیث پر جو تم نے جمع کیں نظر رکھو اور علم اہلِ فقہ سے حاصل کرو۔ تم خود بھی فقہاء(میں)بن جاؤگے۔
(4)
امام ترمذیؒ(م279ھ ) ایک بحث میں لکھتے ہیں:
وَكَذَلِكَ قَالَ الفُقَهَاءُ وَهُمْ
أَعْلَمُ بِمَعَانِي الحَدِيثِ۔
[جامع
ترمذی: جلد 1 صفحہ118 (3/306)]
ترجمہ: *اور یہی بات فقہاء نے کہی ہے اور فقہاء ہی حدیث کے معنی بہتر جانتے
ہیں۔*
(5)
حافظ ابن رجب حنبلیؒ(795ھ) اپنے رسالہ ’’الطیبۃ النافعۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
فأما الأئمة وفقهاء
أهل الحديث فإنهم يتبعون الحديث الصحيح حيث كان إذا كان معمولا به عند الصحابة: ومن بعدهم: أو عند طائفة
منهم فأما ما اتفق على تركه فلا يجوز العمل به لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا
يعمل به قال عمر بن عبد العزيز خذوا من الرأي ما يوافق من كان قبلكم فإنهم كانوا
أعلم منكم.
[فضل
علم السلف علم الخلف: صفحہ4]
ترجمہ:
تو ائمہ اور فقہاءِ حدیث، حدیث صحیح کی پیروی کرتے ہیں، وہ جہاں بھی ہو بشرطیکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کے ہاں یا ان کے کسی ایک حلقے میں عمل میں رہی ہو لیکن جب اسے سب نے چھوڑ رکھا ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات نے اسے کسی علم کی بناء پر ہی چھوڑا ہوگا۔
تو ائمہ اور فقہاءِ حدیث، حدیث صحیح کی پیروی کرتے ہیں، وہ جہاں بھی ہو بشرطیکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کے ہاں یا ان کے کسی ایک حلقے میں عمل میں رہی ہو لیکن جب اسے سب نے چھوڑ رکھا ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات نے اسے کسی علم کی بناء پر ہی چھوڑا ہوگا۔
ان تفصیلات سے یہ بات واضح
ہو جاتی ہے کہ فقہ اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں، فقہ حدیث کا غیر نہیں، حدیث قالب(body) ہے تو فقہ روح(sprit) ہے، حدیث متن(Statement) ہے تو فقہ تشریح (Explanation) ہے - فقہاء نے کبھی قیاس(Logic) اور استنباط(elicitation) کو نص(Text) پر مقدم(forefront) نہیں کیا۔
مزید دیکھیئے: امام خطیب البغدادی(المتوفى: 463هـ) کی کتاب ’’الفقيه و المتفقه‘‘ کو۔