یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خریدنے کے ہیں لیکن یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔۔۔۔ بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرارِ بیعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [سورۃ التوبة:111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ میں بیعتِ رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح:18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ ان سے راضی ہوا ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ ... [ التوبة:111] اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ انکے لئے جنت ہے میں پایا جاتا ہے۔
بےشک جنہوں نے بیعت کی ہے آپ ﷺ سے، انہوں نے تو درحقیقت اللہ سے بیعت کی ہے۔
بیعت سنت ہے، لازم نہیں۔
البيعة سنة وليست بواجبه
[القول الجمیل: ص12، فتح البیان فی مقاصد القرآن:13/97]
کسی بزرگ کے ہاتھ پر یہ معاہدہ کرنا کہ میں آئندہ معصیت نہ کروں گا اور تصفیہ قلب کے لیے آپ کی ہدایات پر عمل کروں گا، اس کا نام بیعت ہے۔
اعلم أن البیعة المتوارثة بین الصوفیة علی وجوہ: أحدہا بیعة التوبة من المعاصي الخ [القول الجمیل: ص12]
یعنی بیعت ایک معاہدہ کرنے کا نام ہے، کسی عالم باعمل، متقی پرہیزگار، مصلح کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر ہرقسم کے گناہ کے کاموں سے توبہ کرے اور صحیح عقائد اوراچھے اعمال پر گامزن رہنے کا وعدہ کرے۔ اخلاقِ رذیلہ کو دور کرنے اور اخلاقِ حسنہ پیدا کرنے کا عہد کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس طرح کا صحابہٴ کرام سے اور بہت سی صحابیات سے عہد لیا تھا۔ اس لیے یہ مسنون طریقہ ہے۔ اس کا فائدہ ظاہر ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے اندر سے تکبر، ریاکاری، حرص و لالچ، حب جاہ، حب مال کو نکال کر اپنے اندر تواضع، اخلاص، خشیتِ الٰہی، اتحاد و اتفاق، محبت و ہمدردی، صلہ رحمی پیدا کرے اور اعلیٰ درجے کے اچھے اخلاق، انسانیت وشرافت سیکھ کر مثالی دین دار، دیانت دار شریف انسان بنے۔ پیر طریقت کی صحبت میں رہ کر یہ اوصاف بہت جلد پیدا ہوجاتے ہیں۔
کسی ’’متبع سنت‘‘ پیرو مرشد سے بیعت ہونا لازم و واجب نہیں لیکن اصلاح نفس و تزکیہ باطن لازم ہے، اور تزکیہ عامةً کسی متبعِ سنت(شیخِ کامل، مرشد، پیر و بزرگ) سے اصلاحی تعلق قائم کئے(صحبت اٹھائے) بغیر دشوار ہوتا ہے، اس لئے اصلاح و تزکیہ کی غرض سے کسی پیر و مرشد سے بیعت ہوجانا بہتر ہے۔
اے نبی جب آئیں تیرے پاس مسلمان عورتیں بیعت کرنے کو اس بات پر کہ شریک نہ ٹھہرائیں اللہ کا کسی کو اور چوری نہ کریں اور بدکاری نہ کریں اور اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں، اور طوفان(الزام) نہ لائیں باندھ کر اپنے ہاتھوں اور پاؤں میں، اور تیری نافرمانی نہ کریں کسی بھلے کام میں تو اُنکو بیعت کر لے۔۔۔
میں نے تم کو بیعت کرلیا اور اللہ کی قسم ! بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو مس Touch نہیں کیا ، آپ ﷺ ان کو صرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے۔
[بخاری:4891: کتاب تفسیر القرآن : سورة الممتحنۃ]
https://www.youtube.com/watch?v=8YNEUuaEPz0
رسول اللہ ﷺ کے پاس انصاری خواتین دینِ اسلام پر بیعت کیلئے حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ آپ ﷺ اپنا دستِ مبارک آگے فرمائیں تاکہ ہم بھی (مردوں کی طرح) بیعت کرلیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ ۔۔۔ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ [نسائی:4181 ابن ماجہ:2874] وَقَدْ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ الْمَنْصُورِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُ النِّسَاءَ وَعَلَى يَدِهِ ثوب نبی ﷺ عورتوں سے مصافحہ کرتے اور (وہ اس حالت میں کہ) ان کے ہاتھ پر کپڑا ہوتا تھا۔ [التمهيد لما في الموطأ:12/243] وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا بَايَعَ لَا يُصَافِحُ النِّسَاءَ إِلَّا وَعَلَى يَدِهِ ثَوْبٌ . نبی ﷺ عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے مگر (صرف اس طریقے سے کہ) ان کے ہاتھ پر کپڑا ہوتا تھا۔
[التمهيد لما في الموطأ:12/244، شرح الزرقاني على موطأ:4/633] وَقَدْ جَاءَ فِي أَخْبَارٍ أُخْرَى أَنَّهُنَّ كُنَّ يَأْخُذْنَ بِيَدِهِ عِنْدَ الْمُبَايَعَةِ مِنْ فَوْقِ ثَوْبٍ. [فتح الباري:8/637 إرشاد الساري:10/268] عن أم عطية قالت بايعنا رسول الله ﷺ فقرأ علينا أن لا تشركن بالله شيئًا ونهانا عن النياحة فقبضت منا امرأة يدها. [صحيح البخاري:4829+4829، السنن الكبرى للبيهقي:7104+7105] يدل على معالجة البيعة باليد. [الكوكب الدري على جامع الترمذي:2/418]
حضرت عوف بن مالک اشجعیؒ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر ہم نو یا آٹھ یا سات افراد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے (تین مرتبہ) فرمایا کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! کس امر پر بیعت کریں؟ فرمایا: اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کروگے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے، (احکام کو) سنو گے اور ان کی اطاعت کروگے(اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کریں گے)".
[مسلم:1043، (ابوداوؐد:1642) ابن ماجہ:2867 نسائی:460]
نوٹ: یہ بیعتِ اسلام نہ تھی، وہ پہ؛ے سے ہی مسلمان ہوچکے تھے۔
انصاری عورتوں سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی کہ وہ نوحہ نہ کریں گی۔
[نسائی:1852]
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے ۔۔۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے اس شرط پر بیعت کرو کہ(۱)چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے، (۲)تنگی اور آسانی ہر حال میں خرچ کرنے، (۳)نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے، (۴) اور حق بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کرنے، (۵)اور میری مدد اور حفاظت کرنے جس طرح اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔
[مسند احمد:14456, صحیح ابن حبان:6273]
شیخ کے ضروری اوصاف یہ ہیں:
(۱) کتاب وسنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ اساتذہ کرام سے پڑھ کر یا علمائے کرام کی صحبت میں رہ کر، یعنی: صحیح وضروری علم دین اور عقائد حقہ کا حامل ہو۔ (۲) عدالت اور تقوی میں پختہ ہو، بدعات اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو۔ (۳) دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت سے رغبت رکھتا ہو، یعنی: حب جاہ، حب مال، ریا، تکبر، حسد، بغض، کینہ وغیرہ اخلاق رذیلہ کی اصلاح کراچکا ہو۔ اورفرائض اور واجبات کے علاوہ طاعات موٴکدہ اور اذکار منقولہ کا اہتمام رکھتا ہو۔ (۴) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہو، ان چاروں کا حاصل یہ ہے کہ ظاہر وباطن ہر اعتبار سے متبع شریعت وسنت ہو۔ (۵) کسی متبع شریعت سنت اور صاحب نسبت شیخ کامل سے اصلاحی تعلق قائم کرکے ان سے سلوک واحسان کی منزلیں طے کی ہوں اور اس شیخ کامل نے اس کے حالات سے مطمئن ہوکر اس پر اعتماد کیا ہو اور اسے خلافت سے نوازا ہو۔ (۶) اور خلافت کے بعد وہ دینی تنزلی وانحطاط کا شکار نہ ہو؛ بلکہ نفس کی نگرانی کے ساتھ محنت ومجاہدات کے ذریعے مزید ترقیات میں کوشاں رہتا ہو۔ پس جس شخص میں یہ امور پائے جائیں، اسے شیخ طریقت بنانا اور اس سے بیعت ہوکر سلوک واحسان کی منزلیں طے کرنا درست ہے.
[فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۴: ۳۵۲-۳۵۹، سوال: ۱۴۹۰-۱۴۹۵، القول الجمیل: ص13]
(1) اپنی رائے کی "ملاوٹ" سے نئی تفسیر و تشریح کرنے والے یا مکمل بات کو "چھپانے" والے۔
القرآن:
اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ(اصل حقیقت)تم اچھی طرح جانتے ہو۔
[سورۃ البقرۃ:42]
(2) بےعمل اسکالرز:
کیا تم حکم تو کرتے ہو لوگوں کو نیکی کا لیکن بھلادیتے ہو اپنے آپ کو جبکہ(سمجھ کر)پڑھتے بھی ہو کتاب کو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
[سورۃ البقرۃ:44]
(3) دنیا کیلئے دین کو بدلنے والے:
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی"قیمت"وصول کرلیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
[سورۃ البقرۃ:174]
اے ایمان والو !(یہودی)عالموں اور(عیسائی)راہبوں درویشوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ (رشوت لے کر لوگوں کی مرضی کے مطابق شریعت کو توڑ موڑ ڈالتے ہیں، اور اس طرح اللہ کے مقرر کئے ہوئے صحیح راستے سے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔)
[سورۃ التوبۃ:34]
(4) جمہور متقدمین علماء سے اختلاف رکھنے سے بڑھ کر مخالفت ومقابلہ كرے۔
جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا(بحث)کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔
[ترمذي2654، ابن ماجة:253، طبراني:199، حاكم:293]
تشریح:
جو علم حاصل کرے یعنی وہ بعد والا چھوٹا-اکیلا شخص ہے جو پہلے والے بڑے اور بہت سے علماء سے صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ مخالفت ومقابلہ کرے، تاکہ سستی اور جلد شہرت پائے تو یہ نافرمانی گناہِ کبیرہ ہی نہیں بلکہ "فساد" ہے، جو صرف نافرمان کو ہی نقصاندہ نہیں بلکہ خالق کی مخلوق اور دین میں بگاڑ پیدا کرنا ہے، جو قرآن کے مطابق لوگوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ سخت[سورۃ البقرۃ:191] اور بڑا [سورۃ البقرۃ:217] گناہ ہے کیونکہ قتل کرنے سے اس مقتول کا صرف دنیاوی نقصان ہوا، لیکن جو دین کو بگاڑے اور لوگوں کو گمراہ کرے وہ تو آخرت کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔
ایسا شخص کم علم عوام سے بحث کرتا ہے تو اس کا ارادہ ومقصد انہیں اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے، اور جب یہ خود جہنم میں داخل ہوگا تو اس کے پیروکاروں کا انجام کیا ہوگا۔
اس حدیث میں بڑی اہم اورقابلِ غور بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاًتواسلام کی ترقیات وفتوحات کاذکرکیا،پھر کچھ علماء وقُراء کا ذکرکیا، جو خود پسندی یا اَنانیت میں مبتلا ہوں گے کہ بڑے پرانے علماء کی بڑی جماعت کی اختلافی رائے کا علمی حق کے نام پر ان سب کو گمراہ قرار دے گا۔ اور اس گروہ کو اس طور پر ذکر کیا ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ترقیات اور فتوحات میں یہی لوگ رکاوٹ ہیں؛ کیوں کہ اس گروہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی ترقی کا ذکر کرنے کے بعد بہ طورِ تقابل پیش کیا ہے۔
یہ بڑی قابلِ عبرت بات ہے اور سو فیصد صحیح ہے ، کیوں کہ خود پسندی اور اَناپرستی کی وجہ سے یہ لوگ نہ علمائے حق کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ علمائے حق کو آگے آنے دیتے ہیں؛ بل کہ ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش میں اپنی ہمت اور وقت واستعداد خرچ کرتے ہیں، مقصد صرف اپنی اَنا کی تسکین اور اپنی عزت وشہرت کا بقا وتحفظ ہوتا ہے؛ پھر دین کو ترقی کیسے ہوگی اور فتوحات کا دروازہ کہاں سے کھلے گا؟اس سے معلوم ہوا کہ علمائے سُو ہی اسلام کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں؛ لہٰذا اس حدیث میں قرآن پڑھنے والوں سے مراد علمائے سُو ہیں، جوصرف اپنے دنیوی مفادات اور نام وشہرت کے لیے دینی علوم حاصل کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اصاغر(یعنی چھوٹے بعد والوں) سے علم حاصل کیا جائے گا۔
[صحیح الجامع الصغیر:2207]
(6) جس کا مقصد دنیا کمانا ہو۔
نبی ﷺ نے فرمایا: "مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا ، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". یعنی جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ [ابوداود:3664، ابن ماجة:252، احمد:8457، أبي يعلى الموصلي:6373، صحيح ابن حبان:78، حاكم:288]
(7) اپنی بات کو نبی ﷺ کے نام کہنے والے: اور ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ، وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. [ترمذی:2951احمد:2675] بچو میری حدیث بیان کرنے سے مگر جس کا تمہیں علم ہو، کیونکہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا جان کر تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔ اور جو کہے قرآن(کے بارے)میں(بغیرعلم محض)اپنی رائے سے تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔
(8) حکمرانوں کی خلافِ شرع باتوں میں ساتھ دینے والے:
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
العلماء أمناء الرسل على عباد الله ما لم يخالطوا السلطان ويداخلوا الدنيا۔۔۔
ترجمہ:
علماء الله کے بندوں پر رسولوں کے امین(یعنی حفاظتِ دین کے ذمہ دار)ہیں، بشرطیکہ وہ(ظلم میں)حکمرانوں سے گھل مل نہ جائیں اور (دینی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر)دنیا میں نہ گھس پڑیں...
[جامع الاحادیث:14504]
حضرت انسؓ کی ایک روایت سے یہ حدیث منقول ہے:
العلماءُ أمناءُ الرسلِ على العبادِ ما لم يخالِطوا السلطانَ ويدخلوا في الدنيا فإذا دخلوا في الدنيا وخالَطوا السلطانَ فقد خانوا الرسلَ فاعتزِلوهُم.
ترجمہ:
علماء الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (علمی ورثے کے) امین ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ حکمران کے ساتھ نہ گھِلیں مِلیں(یعنی پیچھے پیچھے چلنے نہ لگیں)۔ پس اگر وہ حکمران کے ساتھ گِھل ملیں، تو بلاشبہ انہوں نے رسولوں(کی علمی امانت)سے خیانت کی، تو تم ان(علماء) سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
[تنبيه الغافلين» حدیث#675، الجامع الصغير» حدیث#5683حسن]
اسی طرح حضرت علیؓ سے بھی ایک روایت میں ہے:
الفقَهاءُ أمَناءُ الرسلِ ما لم يَدخلوا في الدُّنْيا ويتَّبعوا السُّلطانَ ، فإذا فعَلوا ذلِكَ فاحذَروهُم۔
ترجمہ:
فقہاء(علمِ دین کی سمجھ رکھنے والے) الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے(علمی ورثے کے) امین (محافظ) ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ دنیا میں داخل نہ ہوں اور(وہ اس طرح کہ) حکمرانوں کی پیروی کریں، پس جب وہ ایسا کریں تو ان سے بچنا۔
[الجامع الصغير5971]
(9) بدعات کے حامی اور صحابہ کی فضیلت چھپانے والے:
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
إذا ظهرت البدعُ فى أمتى وشُتِمَ أصحابى فليُظْهِر العالمُ علمَه فإنْ لم يفعلْ فعليه لعنةُ اللهِ۔
ترجمہ:
جب میری امت میں بدعتیں نکالی جائیں اور میرے صحابہ کو برا کہا جاۓ تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم(سنت)کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرےگا تو اس پر لعنت(یعنی رحمت سے دوری)ہے الله کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی بھی.
حضرت علیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں صرف اِسلام کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش باقی رہیں گے۔ اُن کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ اُس زمانہ کے علماء(Scholars) آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ خود اُن ہی میں سے فتنہ پھوٹے گا اور اُنہی میں جاکر ٹھہرے گا۔
[شعب الإيمان، للبیھقی:1763(ضعيف)]
(10) جو دنیاداری کا عالم ہو۔
حضرت ابوہريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بےشک اللہ عز وجل نفرت رکھتے ہیں ہر بدخلق، اجڈ اور بازاروں میں شور مچانے والے، رات کو گوشت کا لوتھڑا(بغیر سوئے)رہنے والے، دن کے گدھے، دنیا کے عالم، آخرت سے جاہل سے۔
[صحيح ابن حبان:72، السنن الكبرى للبيهقي:20804، صحيح الجامع:1879]
یعنی
قابلِ نفرت علماء سے مراد دنیا کے عالم ہیں۔ دنیا حاصل کرنے کے سب طریقے جانتا ہے اور آخرت بنانے والے اعمال کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔
لہٰذا، اکثر لوگوں کو حدیث کا خالی ترجمہ پڑھنے سے دھوکہ ہوسکتا ہے، اور وہ آخرت کی طرف متوجہ رہنے والے اور لوگوں کو توجہ دلانے والے علماء پر اس حدیث کو فِٹ کرتے، خود بھی گمراہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی دین کی من چاہی تشریح وتفسیر کرنے پر لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔