Saturday, 7 September 2019

پیغامِ کربلا

سیدنا حسینؒ سے یہ سچی محبت وعظمت نہیں کہ سارے سال خوش وخرم پھریں، کبھی ان کا خیال بھی نہ آئے، اور عشرۂ محرم میں واقعہ شہادت سن کر رولیں، یا ماتم برپا کرلیں، یا تعزیہ داری کا کھیل تماشا بنائیں، سارے سال گرمی کی شدت کے زمانہ میں کسی کی پیاس وبھوک کا خیال نہ آئے اور پہلی محرم کو اگرچہ سردی پڑ رہی ہو، کسی کو ٹھنڈے پانی کی ضرورت نہ ہو، شہدائے کربلا کے نام کی سبیل کا ڈھونگ بنایا جائے۔
سیدنا حسینؒ سے یہ سچی محبت وہمدردی ہے کہ جس مقصدِ عظیم کیلئے انہوں نے یہ قربانی دی اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی اپنی ہمت کے مطابق ایثار وقربانی پیش کریں، ان کے ایمان، اعمال، اخلاق، ارشادات وخطبات کی پیروی کو دنیا وآخرت کی سعادت سمجھیں۔



اُسوۂ حسینؒ» مقصدِ سفر کربلا» حفاظتِ دینِ نبوی:

کربلا میں سیدنا حسینؓ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أَيُّهَا الناس، ان رسول الله ص قَالَ: [مَنْ رَأَى سُلْطَانًا جَائِرًا مُسْتَحِلا لِحَرَمِ اللَّهِ، نَاكِثًا لِعَهْدِ اللَّهِ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ الله، يَعْمَلُ فِي عِبَادِ اللَّهِ بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، فَلَمْ يُغَيِّرْ عَلَيْهِ بِفِعْلٍ وَلا قَوْلٍ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ] أَلا وَإِنَّ هَؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ، وَتَرَكُوا طَاعَةَ الرَّحْمَنِ، وَأَظْهَرُوا الْفَسَادَ، وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ، وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْءِ، وَأَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ، وَحَرَّمُوا حَلالَهُ، وَأَنَا أَحَقُّ من غير، قَدْ أَتَتْنِي كُتُبُكُمْ، وَقَدِمَتْ عَلِيَّ رُسُلُكُمْ بِبَيْعَتِكُمْ، أَنَّكُمْ لا تُسْلِمُونِي وَلا تَخْذَلُونِي، فَإِنْ تَمَمْتُمْ عَلَى بَيْعَتِكُمْ تُصِيبُوا رُشْدَكُمْ، فَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ على، وابن فاطمه بنت رسول الله ص، نَفْسِي مَعَ أَنْفُسِكُمْ، وَأَهْلِي مَعَ أَهْلِيكُمْ، فَلَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَنَقَضْتُمْ عَهْدَكُمْ، وَخَلَعْتُمْ بَيْعَتِي مِنْ أَعْنَاقِكُمْ، فَلَعَمْرِي مَا هِيَ لَكُمْ بِنُكْرٍ، لَقَدْ فَعَلْتُمُوهَا بِأَبِي وَأَخِي وَابْنِ عَمِّي مُسْلِمٍ، وَالْمَغْرُورُ مَنِ اغْتَرَّ بِكُمْ، فَحَظَّكُمْ أَخْطَأْتُمْ، وَنَصِيبَكُمْ ضَيَّعْتُمْ، وَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ، وَسَيُغْنِي اللَّهُ عَنْكُمْ، وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.
ترجمہ:

اے لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [جو شخص کسی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے جو اللہ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ کے عہد کو توڑدے، سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرے، اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور دشمنی کا معاملہ کرے، اور یہ شخص اس بادشاہ کے ایسے اعمال دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے، تو اللہ تعالی کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اس ظالم بادشاہ کے ساتھ ساتھ اس کے ٹھکانے (یعنی دوزخ)میں پہنچادے۔]

اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس(یزید)نے اور اس کے حکام نے شیطان کی اطاعت کو اختیار کر رکھا ہے، اور رحمان کی اطاعت کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور زمین میں فساد پھیلادیا، الله کی حدود کو معطل کردیا، اسلامی بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھ لیا، اللہ کے حرام کو حلال کر ڈالا اور حرام کو حلال ٹھہرا دیا، اور میں دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں، اور میرے پاس تمہارے خطوط اور وفود تمہاری بیعت کا پیغام لیکر پہنچے ہیں، کہ تم میرا ساتھ نہ چھوڑو گے، اور میری جان کو اپنی جان کے برابر سمجھو گے، اب اگر تم اپنی بات پر قائم ہو تو ہدایت پاؤ گے، میں رسول اللہ کی لختِ جگر فاطمہ کا بیٹا ہوں، میری جان آپ لوگوں کی جانوں کے ساتھ اور میرے اہل و عیال آپ لوگوں کے اہل وعیال کے ساتھ، تم لوگوں کو میرا اعتبار کرنا چاہیے۔

اور اگر تم ایسا نہیں کرتے بلکہ میری بیعت کو توڑتے ہو اور میرے عہد سے پھر جاتے ہو تو وہ تم لوگوں سے کچھ بعید نہیں، کیونکہ یہی کام تم میرے باپ علی اور بھائی حسن اور چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کے ساتھ کرچکے ہو۔

اور وہ آدمی بڑا فریب میں ہے جو تمہارے عہد و پیمان سے دھوکہ کھائے، سو تم نے خود اپنا آخرت کا حصہ ضائع کر دیا، اور اپنے حق میں ظلم کیا، اور جو شخص بیعت کرکے توڑتا ہے، وہ اپنا نقصان کرتا ہے اور قریب ہے کہ اللہ تعالی مجھے تم سے مستغنی فرما دیں۔
اور سلامتی ہو تم سب پر اور رحمتیں اللہ کی اور برکتیں بھی۔


[أنساب الأشراف للبَلَاذُري: جلد 3/صفحہ171 ،
تاريخ الطبري:5/403،
الكامل في التاريخ (امام)ابن اثیر: جلد3/صفحہ159،
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان: جلد8/صفحہ118]



نوٹ:

(1)شریعت کی حفاظت کرنا۔

(2)نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔

(3)افضل جہاد، ظالم بادشاہ/حکمران کے خلاف (ہتھیار کے بجائے) حق/عدل کی بات کہنا ہے۔
[حوالہ» ابوداؤد:4344، ترمذی:2174، ابن ماجہ:4011] ﴿نسائی:4109(4214)، احمد:18828+18830، شعب الإيمان:7582، طبراني:8081﴾

اگرچہ وہ تمہارے حقوق نہ دیں، تم ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حق اللہ سے مانگو۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر:3603]
حاکم کی بات سن اور اطاعت کر اگرچہ (1)تیری پیٹھ پر مارا جائے یا (2)تیرا مال غصب کرلیا جائے، پھر بھی ان کی بات سن اور اطاعت کر۔
[صحیح مسلم:1847(4785)، السنن الكبرى-للبيهقي:16617، المعجم الاوسط-للطبراني:2893، المستدرك للحاكم:8533]
اس کی بات سنو اور (نیکی میں) اطاعت کرو کیونکہ ان پر ان کا بوجھ ہے اور تمہارے اوپر تمہارا بوجھ ہے۔
[جامع ترمذی:2199، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:3176]



(4)ظالم حکمران وہ ہے جو شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔
[حوالہ سورۃ المائدۃ:45]
یعنی حدود(شرعی سزاؤں) کو معطل کرے، اللہ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے۔ گناہ اور دشمنی میں تعاون کرے۔