قنوت کا معنیٰ :
”قنوت“ کے کئی معانی آتے ہیں ، علّامہ ابن العربیؒ نے اس کے دس معانی ذکر کیے ہیں ۔
[مرعاۃ شرح مشکاۃ:4/299]
چند مشہور معانی یہ ہیں :
طاعت : ﴿كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ﴾
[سورۃ البقرۃ:116]
صلوۃ : ﴿يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ﴾۔
[سورۃ آلِ عمران:43]
طولِ قیام: أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقُنُوتِ۔
[صحیح مسلم:756]
سکوت: ﴿قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾۔
(البقرۃ:238) أی:سَاكِتِينَ۔
[تفسیر جلالین]
دعاء: جیسے : قنوت الوتر یعنی وتر کی دعاء۔ یہاں اِس باب میں ”قنوت“ کا یہی آخری معنی یعنی دعاء مراد ہے۔
[مرقاۃ شرح مشکاۃ:3/958]
[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : 34/56]
(1)قنوت الوتر ۔(2)قنوت الفجر۔(3)قنوت ِ نازلہ۔
قنوت الوتر سے مراد وتر میں پڑھی جانے والی دعاء ہے، جو وتر کی تیسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے رفعِ یدین مع الاعتماد یعنی ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاکر باندھ لینے کے بعدپڑھی جاتی ہے۔
(شامیہ : 2/6)
قنوتِ وتر سے متعلّق چند مباحث درج ذیل ہیں :
قنوتِ وتر کا حکم :
قنوتِ وتر کے حکم یعنی واجب ، مسنون اور مستحب ہونے میں اختلاف ہے:
٭— احناف:واجب ہے ۔٭— مالکیہ :مستحب ہے ۔
٭— حنابلہ و شوافع :سنّت ہے۔
(شامیہ : 2/6)(المجموع شرح المہذب:4/15)
فائدہ :حضرات صاحبین کا ایک قول سنّت ہونے کا ہے ، لیکن راجح یہ ہے کہ اُن کے نزدیک بھی قنوتِ وتر واجب ہی ہے ، چنانچہ علّامہ شامی نے احناف کا قول وجوب ہی ذکر کیا ہے۔(شامیہ : 2/6)
قنوتِ وتر سال بھر ہے یا صرف رمضان میں :
وتر میں دعائے قنوت سال بھر پڑھا جائے گا یا نہیں ،اِس میں اختلاف ہے :
امام ابوحنیفہ واحمد:سال بھر قنوت پڑھا جائے گا ۔
امام مالک :صرف رمضان المبارک کے پورے مہینے پڑھا جائے گا ۔
امام شافعی:صرف رمضان المبارک کے نصفِ آخریعنی آخری آدھے رمضان میں پڑھا جائے گا ۔
(معارف السنن :4/241)
(نفحات التنقیح:2/650)
فائدہ:
مذکورہ بالا مسالک روایاتِ مشہورہ کے مطابق ذکر کیے گئے ہیں ، ورنہ اِمام شافعی کا ایک قول احناف کے مطابق جمیعِ سنۃ کا، اِمام احمد بن حنبل کا ایک قول شوافع کےمطابق رمضان کے نصفِ آخرکا، اور اِمام مالکسے ایک قول بالکل نہ پڑھنے کا بھی منقول ہے،بلکہ بعض نے اِمام مالککا مشہور قول قنوتِ وتر بالکل نہ پڑھنا ذکر کیا ہے۔
(مرعاۃ المفاتیح:4/283)
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ :34/64)
قنوتِ وتر قبل الرکوع ہے یا بعد الرکوع ؟
امام ابو حنیفہ و مالک :قنوت قبل الرکوع پڑھا جائے گا ۔
امام شافعی واحمد:بعد الرکوع پڑھا جائے گا ۔
(معارف السنن:4/242 ، 243)