Thursday, 21 October 2021

اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر نفرت کیا ہے؟


اللہ سے محبت کی علامت» اللہ والوں سے محبت۔
القرآن:
...وہ محبت کرتے ہیں جس نے ہجرت کی(یعنی نافرمانی اور نافرمانوں کو چھوڑا)۔۔۔
[سورۃ الحشر:9]
حدیثِ قدسی:
میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہو گئی۔
[صحیح ابن حبان:575]
(1)انبیاء (2)صحابہ (3)اولیاء (4)علماء (5)صلحاء (6)مساکین سے محبت رکھنا خالص اللہ کیلئے محبت ہے، لہٰذا ان سے محبت کریں، ان کے ساتھ بیٹھیں، ان سے ملنے جائیں، ان پر خرچ کریں۔




Saturday, 16 October 2021

اسلام میں خوشی منانے کا تصور اور جائز وناجائر طریقے

خوشی غمی میں بھی عدل (حق بات/طریقہ) سے بےاعتدالی ہوجاتی ہے، لہٰذا خوشی کا عدل جاننے، مانگنے اور ماننے کی ضرورت ہے۔


ناحق خوشی پر لوگوں کے سامنے اکڑنا:

القرآن:

ان سے یہ پہلے ہی کہہ دیا گیا ہوگا کہ : یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ تم زمین میں ناحق بات پر خوش ہوتے تھے اور اس لیے کہ تم زمین میں اکڑ دکھاتے تھے۔

[سورۃ غافر:75]


خوشی غمی میں عدل(حق)پر رہنے کی ضرورت:

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«ثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ: شُحٌّ مُطَاعٌ، وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ مِنَ الْخُيَلَاءِ، وَثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ: ‌الْعَدْلُ ‌فِي ‌الرِّضَا وَالْغَضَبِ، وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَاقَةِ، وَمَخَافَةُ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ»

ترجمہ:

تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں: (1)کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے، (2)اور خواہشات جس کی اتباع کی جائے، (3)اور آدمی تکبر کی وجہ سے خود کو بڑا سمجھے۔ اور تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں: (1)خوشی وغمی میں عدل کرنا، (2)مالداری اور فاقہ میں میانہ روی اختیار کرنا (3)اور چھپ کر اور اعلانیہ اللہ سے ڈرنا۔

[المعجم الأوسط-الطبراني:5452(5754)]

[مسند البزار:6491، الكنى والأسماء للدولابي:847، المجالسة وجواهر العلم-الدينوري:899، الترغيب في فضائل الأعمال-ابن شاهين:33+525، مسند الشهاب القضاعي:325+326، شعب الإيمان:731، جامع بيان العلم وفضله:961]

صحيح الترغيب والترهيب:453، صحيح الجامع:3045، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1802


حضرت مالک بن الحارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمارؓ یوں دعا کرتے:

«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَنْ تُحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي مَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي، اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَأَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَأَسْأَلُكَ ‌الْعَدْلَ ‌فِي الرِّضَاءِ وَالْغَضَبِ، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيَّ لِقَاءَكَ وَشَوْقًا إِلَيْكَ فِي غَيْرِ فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، وَلَا ضَرَّاءِ مَضَرَّةٍ»

ترجمہ:

اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کے علم غیب کے ساتھ، اور مخلوق پر آپ کی قدرت کے ساتھ، کہ آپ مجھے زندہ رکھیں جب تک آپ جانیں کہ زندگی میرے حق میں بہتر ہے، اور مجھے وفات دے دیں جب آپ جان لیں کہ وفات میرے لیے بہتر ہے۔ اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ظاہر اور پوشیدگی میں آپ کے خوف کا، اور میں آپ سے امیری اور فقیری میں میانہ روی مانگتا ہوں، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں غصہ اور خوشی میں اعتدال کا۔ اے اللہ ! میرے نزدیک اپنی ملاقات کو محبوب بنا دے، اور اپنی ملاقات کے شوق کو بھی جو نہ گمراہ کرنے والے فتنہ میں ہو اور نہ ہی کسی حالت تکلیف میں تکلیف دے۔

[مصنف ابن أبي شيبة:29348]


حضرت علیؓ کی دعا کے الفاظ:

«اللَّهُمَّ ثَبِّتْنَا عَلَى كَلِمَةِ ‌الْعَدْلِ ‌فِي ‌الرِّضَا وَالصَّوَابِ وَقَوَامِ الْكِتَابِ، هَادِينَ مَهْدِيِّينَ، رَاضِينَ مَرْضِيِّينَ، غَيْرَ ضَالِّينَ، وَلَا مُضِلِّينَ»

[مسند ابن الجعد:64]





ناحق خوشی اور غمی منانے والی حرکات:

قرآن مجید نے راستوں پر شور مچانے کو گدھے کی آواز کہا۔

[تفسیرالقرطبي: سورۃ لقمان:19]


حضرت جابرؓ (اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ) سے نبی ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ

میں نے تو روکا ہے دو احمق اور نافرمان آوازوں(شور شرابے)سے:

(1) مصیبت کے وقت چہرے نوچنے،گریبان پھاڑنے اور شیطانی چیخوں سے۔

(2) اور نعمت کے وقت کھیل تماشہ اور شیطانی موسیقی سے۔

[ترمذی:1005(حاکم:6825)]


حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

دو آوازوں پر دنیا و آخرت میں "لعنت" کی گئی ہے: (1)خوشی ونعمت ملنے پر  بانسری (موسیقی)کی آواز، (2)اور مصیبت کے وقت چیخ وپکار(نوحہ)کی آواز۔

[الأحادیث المختارۃ:2200 صحیح الترغیب:3527, مسند البزار:7513]

القرآن:

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بےسمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔

[سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 6]





خلافِ عدل خوشی منانے والے:
القرآن:

اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے نعمتوں کا مزہ چکھا دیں تو وہ کہتا ہے کہ ساری برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ (اس وقت) وہ اترا کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔

[سورۃ ھود:10]

یعنی نجات ونعمتیں دینے والے رب کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے نجات ونعمت کے حاصل ہونے کو اپنے کمال علم وہنر پر گھمنڈ کرتے لوگوں کے سامنے فخر کرنا عدل (right) نہیں۔


القرآن:

یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔

[سورۃ آل عمران:188]


جن لوگوں کو (غزوہ تبوک سے) پیچھے رہنے دیا گیا تھا، وہ رسول اللہ کے جانے کے بعد اپنے (گھروں میں) بیٹھے رہنے سے بڑے خوش ہوئے، اور ان کو یہ بات ناگوار تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کریں، اور انہوں نے کہا تھا کہ : اس گرمی میں نہ نکلو۔ کہو کہ : جہنم کی آگ گرمی میں کہیں زیادہ سخت ہے۔ کاش۔ ان کو سمجھ ہوتی۔

[سورۃ التوبۃ:81]


پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔

[سورۃ الانعام:44]


اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں دکھ ہوتا ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتے ہیں کہ : ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کرلیا تھا، اور (یہ کہہ کر) بڑے خوش خوش واپس جاتے ہیں۔

[سورۃ التوبۃ:50]


پھر ہوا یہ کہ لوگوں نے اپنے دین میں باہم پھوٹ ڈال کر فرقے بنا لیے، ہر گروہ نے اپنے خیال میں جو طریقہ اختیار کرلیا ہے، اسی پر خوش ہے۔

[سورۃ المومنون:53]

وہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر خوش ہے۔

[سورۃ الروم:32]


عدل مخالفین کی وقتی خوشیاں:

وہ اللہ ہی تو ہے جو تمہیں خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی سفر کراتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو، اور یہ کشتیاں لوگوں کو لے کر خوشگوار ہوا کے ساتھ پانی پر چلتی ہیں اور لوگ اس بات پر مگن ہوتے ہیں تو اچانک ان کے پاس ایک تیز آندھی آتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے۔ تو اس وقت وہ خلوص کے ساتھ صرف اللہ پر اعتقاد کر کے صرف اسی کو پکارتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ)“ (یا اللہ !) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔

[سورۃ یونس:22]


ناحق فخر کرنے - اِترانے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔

قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر اس نے انہی پر زیادتی کی۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ اس کی چابیاں طاقتور لوگوں کی ایک جماعت سے بھی مشکل سے اٹھتی تھیں۔ ایک وقت تھا جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ : اتراؤ نہیں، اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

[سورۃ القصص:76]


چنانچہ جب ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی دلیلیں لے کر آئے تب بھی وہ اپنے اس علم پر ہی ناز کرتے رہے جو ان کے پاس تھا، اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اسی نے ان کو آگھیرا۔

[سورۃ غافر:83]


عادلانہ خوشی:

چند ہی سالوں میں ! سارا اختیار اللہ ہی کا ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اس دن ایمان والے (اللہ کی دی ہوئی فتح بدر سے) خوش ہوں گے۔

[سورۃ الروم:4]


خوشی کے قابل چیز:

(اے پیغمبر) کہو کہ : یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے، لہذا اسی پر تو انہیں خوش ہونا چاہیے، یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں۔

[سورۃ یونس:58]


اہلِ کتاب میں سے بعض کا قرآن کے نزول پر خوش ہونا:

اور (اے پیغمبر) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس کلام سے خوش ہوتے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے، اور انہی گروہوں میں وہ بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کا ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ (33) کہہ دو کہ : مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اور اس کے ساتھ کسی کو خدائی میں شریک نہ مانوں، اسی بات کی میں دعوت دیتا ہوں، اور اسی (اللہ) کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔

[سورۃ الرعد:36]


خلاصہ:


یہ اس لیے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے، اس پر تم غم میں نہ پڑو، اور جو چیز اللہ تمہیں عطا فرمادے، اس پر تم اتراؤ نہیں، (18) اور اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اتراہٹ میں مبتلا ہو، شیخی بگھارنے والا ہو۔

[سورۃ الحدید:23]

یعنی جس شخص کا اس بات پر ایمان ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اسی تقدیر کے مطابق ہورہا ہے، جو (اللہ کے ازلی علم سے) لوحِ محفوظ میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے، اسے کسی ناگوار واقعے پر اتنا صدمہ نہیں ہوتا جو اسے دائمی پریشانی اور حسرت میں مبتلا رکھے ؛ بلکہ یہ چیز اس کی تسلی کا باعث ہوتی ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا تھا وہی ہوا، اور یہ کہ اس دنیا کی تکلیفیں آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس طرح اگر کوئی خوشی کا واقعہ پیش آتا ہے تو انسان اس پر اتراکر تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور تقدیر کے مطابق ہے، اور اس پر انسان کو اترانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔






فتح پر خوشی کیسے منائی جائے؟
القرآن:
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔ (1) اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔ تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت مانگو۔ (2) یقین جانو وہ بہت(باربار) معاف کرنے والا ہے۔

[سورۃ النصر]
تشریح:
انتہائی فتح مندیوں ، کامیابیوں ، کامرانیوں کے وقت ارشاد یہ نہیں ہوتا کہ جشن دھوم دھام سے منانا ، جلوس نکالنا ، نقارے بجانا ، چراغاں کرنا ، زندہ باد کے نعرے لگانا (دنیا تو فتح مندیوں کے انہیں جشنوں ، جلوسوں سے واقف ہے) بلکہ حکم یہ ملتا ہے کہ اللہ کی یاد کی منزلیں طے کرنے کے بعد حمد وتسبیح واستغفار میں اور زیادہ لگ جائیے !

Monday, 4 October 2021

قرطاس کی حدیث اور واقعہ


لکھوانے والی بات لکھوا دی جاچکی ہے۔

لکھوانے کا حکم کسے دیا گیا تھا؟

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے ایک طبق لانے کا حکم دیا تاکہ آپ اس میں ایسی ہدایات لکھ دیں جن کی موجودگی میں نبی ﷺ کے بعد امت گمراہ نہ ہوسکے، مجھے "اندیشہ" ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کاغذ لینے کے لیے جاؤں اور پیچھے سے نبی ﷺ کی روح پرواز کرجائے، اس لیے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ مجھے زبانی بتا دیجئے، میں اسے یاد رکھوں گا، فرمایا: میں نماز اور زکوۃ کی وصیت کرتا ہوں نیز غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہوں۔ 

حوالہ

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ آتِيَهُ بِطَبَقٍ يَكْتُبُ فِيهِ مَا لَا تَضِلُّ أُمَّتُهُ مِنْ بَعْدِهِ، قَالَ: فَخَشِيتُ أَنْ تَفُوتَنِي نَفْسُهُ، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَحْفَظُ وَأَعِي. قَالَ: " أُوصِي ‌بِالصَّلاةِ، ‌وَالزَّكَاةِ، ‌وَمَا ‌مَلَكَتْ ‌أَيْمَانُكُمْ۔

[مسند أحمد:693، الأدب المفرد:156، الأحاديث المختارة:762]


اگر اس کے علاوہ کوئی اور بات بھی ہوتی تو اللہ کی گواہی ہے کہ نبی ﷺ غیب کی بات چھپانے والے نہیں۔

[سورۃ التکویر:24]



کیوں حضرت علیؓ نے پہلے خود نہ پوچھا؟ 

حضرت علیؓ رسول اللہ ﷺ کے یہاں سے واپس آئے، یہ رسول اللہ ﷺ کے مرض موت کا واقعہ ہے، صحابہ کرام نے پوچھا: ابو الحسن! رسول اللہ کی طبیعت کیسی ہے؟ کہا: الحمد اللہ! کافی بہتر ہے، پھر سیّدنا عباس بن عبدالمطلب نے سیّدنا علی کا ہاتھ تھام کر فرمایا: اللہ کی قسم! تین دن بعد آپ محکوم ہو جائیں گے، اللہ کی قسم! مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس مرض سے جانبر نہیں ہو سکیں گے، مجھے خوب شناخت ہے کہ وفات کے وقت بنی عبد المطلب کے چہرے کیسے ہوتے ہیں، ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتا چل جائے اور اس کے بارے میں ہمیں وصیت فرما دیں، حضرت علیؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اب اگر پوچھا اور نبی کریم ﷺ نے انکار کر دیا تو لوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے، میں تو نہیں پوچھوں گا۔

[صحیح البخاری :4447]




خلافت کیلئے نبی ﷺ کا رجحان کس کیلئے تھا؟

سیّدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے مرض الموت میں فرمایا تھا:

ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ، أَبَاكِ، وَأَخَاكِ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ ‌يَتَمَنَّى ‌مُتَمَنٍّ وَيَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَى، وَيَأْبَى اللهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ

ترجمہ:

اپنے والد ابوبکر اور بھائی عبدالرحمن کو بلائیں تاکہ میں تحریر لکھ دوں، میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی خلافت کا متمنی کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مومن ابوبکر کے علاوہ انکار کردیں گے۔

[مسند الامام أحمد:24751، صحیح مسلم :2387، صحيح ابن حبان:6598]





تبھی تو حضرت علیؓ نے فرمایا:

آگے رکھا رسول الله ﷺ نے ابوبکر کو، اور یقیناً میں دیکھ رہا تھا اپنی جگہ سے، اور میں صحتمند بھی تھا مریض نہ تھا، اور میں میں حاضر بھی تھا غائب نہ تھا، اور اگر میں ارادہ کرتا آگے بڑھنے کا تو یقیناً بڑھ سکتا تھا، بس ہم راضی ہوئے اپنے دین کیلئے جس سے راضی تھے رسول اللہ ﷺ ہماری دنیا کیلئے۔

حوالہ

قَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبَا بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ,وَقَدْ رَأَى مَكَانِي,وَمَا كُنْتُ غَائِبًا وَلَا مَرِيضًا,وَلَوْ أَرَادَ أَنْ يُقَدِّمَنِيَ لَقَدَّمَنِي,فَرَضِينَا لِدُنْيَانَا مَنْ رَضِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِدِينِنَا۔

[ابن بطة:218، الآجري:1193]



جب قبض کیا گیا نبی ﷺ (کی روح)کو ہم نے نظر کی ہمارے معاملہ(امارۃ وخلافت)میں، تو ہم نے پایا کہ نبی ﷺ نے آگے کیا ابوبکر کو نماز میں، تو ہم بھی راضی ہوئے اپنی دنیا کیلئے جیسے راضی تھے نبی ﷺ ہمارے دین کیلئے، لہٰذا آگے رکھا ہم نے ابوبکر کو۔

حوالہ

«لَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ نَظَرْنَا فِي أَمْرِنَا، فَوَجَدْنَا النَّبِيَّ ﷺ قَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَرَضِينَا لِدُنْيَانَا مَا رَضِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِدِينِنَا، فَقَدَّمْنَا أَبَا بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ»

[السنة-أبي بكر بن الخلال:333]





حضرت ابن عباسؓ سے لمبی روایت میں ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔آخر نبی ﷺ نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ (1)یہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کردینا۔ (2)دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا ‘ جیسے میں کرتا رہا (ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔

حوالہ

۔‌۔۔۔۔وَأَوْصَاهُمْ بِثَلَاثٍ، قَالَ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَ: فَنَسِيتُهَا.»

[صحیح بخاری:3053+ 3168+ 4431، صحيح مسلم:1637، السنن الكبرى للنسائي:5823]







سب سے آخری کلام:

(نبی کے بیوی اور مومنین کی ماں)حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی آخری وصیت یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہی کہتے کہتے نبی ﷺ کا سینہ مبارک کھڑکھڑانے اور زبان رکنے لگی۔

حوالہ

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ مِنْ آخِرِ وَصِيَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، ‌وَمَا ‌مَلَكَتْ ‌أَيْمَانُكُمْ۔ حَتَّى جَعَلَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَجْلِجُهَا فِي صَدْرِهِ، وَمَا يَفِيصُ بِهَا لِسَانُهُ۔

[مسند أحمد:26483+ 26657+ 26684، سنن ابن ماجه:1625، السنن الكبرى للنسائي:7060+7061+7063، صحيح الترغيب والترهيب:2286، صحيح الجامع الصغير:3873، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌868]