یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Wednesday, 19 January 2022
اللہ کو خدا کہنا جائز ہونے کے دلائل
Thursday, 13 January 2022
جاہل اور غیرعالم میں فرق
جاہل اور غیرعالم مترادف اور ہم معنیٰ الفاظ بھی ہیں، اور ان کے معانی اور استعمال میں کچھ فرق بھی ملتا ہے۔
جاہل کے لغوی معانی:
(1) ان پڑھ، بے علم، ناخواندہ
(2) ناواقف، بے خبر
(3) (مجازاََ) نادان، بیوقوف، وحشی، اجڈ، بد اخلاق، بے ادب، گستاخ
(4) (تصّوف) سرکش مرید، طالب کاذب۔
اللہ پاک نے قرآن مجید میں بعض جگہوں پر جاہلوں کی جہالت کا ذکر بھی فرمایا ہے۔
[سورۃ الانعام:111، الاعراف:138، ھود:29، النمل:55، الاحقاف:23]
اورج اہل بھی قرار دیا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:273، الزمر:64، القصص:55، الفرقان:66]
اور بعض جگہ جاہل کے بجائے یوں فرمایا:
﴿الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ جو علم نہیں رکھتے۔
[سورۃ البقرۃ:113-118، یونس:89، الروم:59، الجاثیہ:18]
اور عالم کے مقابلے میں بھی یوں ہی فرمایا:
﴿الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ جو علم نہیں رکھتے
[سورۃ الزمر:9]
لَا يَعْلَمُونَ - أَيْ - لَا يَعْلَمُونَ دِينَ اللَّهِ تَعَالَى وَتَوْحِيدَهُ فَهُمْ مُحْتَاجُونَ إِلَى سَمَاعِ كَلَامِ اللَّهِ
ترجمہ:
وہ نہیں جانتے - یعنی - وہ اللہ کے دین اور اس کی وحدانیت کو نہیں جانتے کیونکہ وہ اللہ کی باتیں سننے کے محتاج ہیں۔
[تفسير البغوي: سورۃ التوبۃ:6]
ہدایت یا جہالت:
القرآن:
بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 50]
تشریح:
یعنی دنیاوی علوم وفنون سے غفلت جہالت نہیں بلکہ سارا جہاں بنانے والے الله کے فیصلوں سے منہ موڑنا جہالت ہے۔
حکم کی اہمیت حاکم کی طاقت پہچاننے سے حاصل ہوتی ہے:
درحقیقت علم وحکمت، عدل اور رحم کی خوبیوں میں کامل۔۔۔ہر چیز کا ایک اکیلا خالق، مالک، غالب، رب۔۔۔جس کا اصلی نام اللہ یعنی حقیقی خدا ہے۔۔۔کے تعارف وپہچان سے جاہل شخص ہی نافرمان رہتا ہے، اور توبہ بھی نہیں کرتا کہ توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ اور بہترین خطاکار ہر بار توبہ کرنے والے ہیں۔
مومن کون؟
جہالت کی تلاش و خواہش الله اور اسکی ہدایت پر یقین نہ ہونے کی علامت ہے۔ اور شریعتِ خداوندی پر یقین رکھنے والا ہی مومن ہے۔
اسلامی اور مغربی تہذیب میں فرق کی بنیاد ﴿ہدایت یا جہالت﴾ ہی ہے۔
جہالت دراصل "مخالفتِ حق" کا نام ہے۔
جہالت تین قسم پر ہے:
(1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنیٰ ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظامِ طبعی کے "خلاف" جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے۔
(2) کسی چیز کے "خلافِ واقع" (خلافِ حقیقت) یقین و اعتقاد قائم کرلینا۔
(3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے "خلاف" سر انجام دینا۔ ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا: کوئی شخص دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنیٰ کے اعتبار سے آیت:
أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ
وہ کہنے لگے کہ کیا آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں؟ موسیٰ نے کہا : میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں (ایسے) نادانوں میں شامل ہوں (جو مذاق میں جھوٹ بولیں)۔
[سورۃ البقرة:67]
میں هُزُواً (مذاق اڑانے) کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔
[المفردات فی غریب القرآن-امام راغب: ص209]
لا يعلمون : أي أن القوم كانوا يعلمون، ولكنهم أفسدوا علمهم، وجحدوا وكفروا وكتموا۔
ترجمہ:
وہ نہیں جانتے: یعنی لوگ جانتے تھے لیکن انہوں نے اپنے علم کو بگاڑا، اور کفر کیا اور چھپایا۔
[تفسير الطبري:1645، سورۃ البقرۃ:101]
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
اور اگر بالفرض ہم ان کے پاس فرشتے بھیج دیتے، اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے، اور (ان کی مانگی ہوئی) ہر چیز ہم کھلی آنکھوں ان کے سامنے لاکر کے رکھ دیتے (49)، تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے، الا یہ کہ اللہ ہی چاہتا (کہ انہیں زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو بات دوسری تھی، مگر ایسا ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر) لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔(50)
[سورۃ الانعام:111]
(49) یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ فرمائش کیا کرتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے بڑی سرکشی اختیار کی ہوئی ہے۔
[سورۃ الفرقان:21]
یعنی یہ ان کا تکبر ہے جو ان سے ایسی باتیں کہلوا رہا ہے۔ یہ اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں کہ اپنی ہدایت کے لیے کسی پیغمبر کی بات ماننا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود آکر انہیں سمجھائیں، یا کم از کم کوئی فرشتہ بھیجیں۔
(50) یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ تمام معجزات کو دیکھ کر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ پھر بھی جو مطالبات کر رہے ہیں وہ محض جہالت (مخالفت) پر مبنی ہیں۔
Saturday, 8 January 2022
دھوکے کی کرنسی - کریپٹو کرنسی Cryptocurrency - بِٹ کوئن Bitcoin
Tuesday, 4 January 2022
اللہ ہی مختار کل کیوں؟
اختیاراتِ مصطفیٰ:
مختار کل صرف اللہ ہے،
[حوالہ» سورۃ
ھود:107، الحج:14، البروج:16]
البتہ نبی ﷺ کو دنیا میں بہت سے اختیار دئے گئے ہیں،
[حوالہ» سورۃ
البقرۃ:126، الاحزاب:51]
اور آخرت میں بھی بہت سارے اختیار دئے جائیں گے، جو اولین اور آخرین میں سے سب سے زیادہ ہیں،
[حوالہ» سورۃ
الکوثر:1]
لیکن وہ جز اختیارات ہیں، کل نہیں ہیں۔
[حوالہ» سورۃ البقرۃ:272، آل عمران:128+161، النساء:88، الانعام:58، الاعراف:188، الانفال:63+67، التوبہ:43+80+113، یونس:15+49+99، الرعد:38، الکھف:24، القصص:56، غافر:78، الاحقاف:9، المنافقون:6، التحریم:1، الحاقۃ:44-47، الجن:20+21، عبس:1-2]
ورنہ یہ ماننا لازم آئے گا کہ۔۔۔
(1) اللہ کی "اذن" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ اس کی شرط لگائی۔
[حوالہ» سورۃ البقرۃ:91+249+255، آل عمران:145+166، النساء:64، الاعراف:58، الانفال:66، یونس:3+100، ھود:105، الرعد:38، ابراھیم:11، طٰہٰ:109، الحج:65، الاحزاب:46، سبا:12+23، غافر:78، الشوريٰ:51، المجادلۃ:10، التغابن:11، النبا:38]
اور
نبی ﷺ کی کسی "اجازت" پر اللہ کو معافی کا اعلان نہ فرمانا پڑتا۔
[سورۃ التوبۃ:43]
(2) اور اللہ کی "امر" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ س کی شرط لگائی۔
[حوالہ» سورۃ الانبیاء:28، النور:55، الجن:27]
(3) اور اللہ کی "رضا" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ اس کی شرط لگائی۔
[حوالہ» سورۃ الانبیاء:28، النور:55، الجن:27]
(4) اور اللہ کو "پکارنے" کی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ نبی ﷺ نے بھی اللہ کے علاوہ کسی کو غائبانہ مدد کیلئے نہیں پکارا، کیونکہ اللہ کے علاوہ کسی کو پکارنا شرک ہے۔
[حوالہ» سورۃ الاحقاف:4، فاطر:40، سبا:22، الاعراف:194-197]
اختیار کی پہلی قسم:
[۱] ازل سے ابد تک ہر ہر چیز کرنے کا اختیار
، یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔
اس کے لئے یہ آیتیں
ہیں:
(1)
﴿اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ
وَكِيلٌ﴾ ۔
ترجمہ:
اللہ ہر چیز کا پیدا
کرنے والا ہے ، اور وہی ہر چیز کا رکھوالا ہے۔
[آیت
62، سورۃ الزمر 39]
(2)
﴿ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ ۔
ترجمہ:
وہ ہے اللہ جو تمہارا
پالنے والا ہے ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔
[آیت
62، سورۃ غافر 40]
(3)
﴿إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾ ۔
ترجمہ:
یقینا آپ کا رب
چو چاہے کرتا ہے۔
[آیت
107، سورۃ ھود 11]
(4)
﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ (١٥) فَعَّالٌ لِمَا
يُرِيدُ﴾ ۔
ترجمہ:
عرش کا مالک ہے ،
بزرگی والا ہے ، جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے۔
[آیت
16، سورۃ البروج 85]
(5)
﴿قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ
الْقَهَّارُ﴾ ۔
ترجمہ:
آپ یہ کہہ دیجئے
کہ اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ، اور وہ ایک ہی غالب ہے۔
[آیت
16، سورۃ الرعد 13]
ان 5 آیتوں میں
ہے کہ ازل سے ابد تک کا پورا پورا اختیار صرف اللہ کو ہے ، کسی اور کو نہیں ہے۔