Wednesday, 19 January 2022

اللہ کو خدا کہنا جائز ہونے کے دلائل

علماء کے ذمہ تو بس آسان الفاظ اور دلائل سے پہنچادینا ہے، منوانا نہیں۔

Thursday, 13 January 2022

جاہل اور غیرعالم میں فرق


جاہل اور غیرعالم مترادف اور ہم معنیٰ الفاظ بھی ہیں، اور ان کے معانی اور استعمال میں کچھ فرق بھی ملتا ہے۔


جاہل کے لغوی معانی:

(1) ان پڑھ، بے علم، ناخواندہ

(2) ناواقف، بے خبر

(3) (مجازاََ) نادان، بیوقوف، وحشی، اجڈ، بد اخلاق، بے ادب، گستاخ

(4) (تصّوف) سرکش مرید، طالب کاذب۔




اللہ پاک نے قرآن مجید میں بعض جگہوں پر جاہلوں کی جہالت کا ذکر بھی فرمایا ہے۔

[سورۃ الانعام:111، الاعراف:138، ھود:29، النمل:55، الاحقاف:23]


اورج اہل بھی قرار دیا ہے۔

[سورۃ البقرۃ:273، الزمر:64، القصص:55، الفرقان:66]


اور بعض جگہ جاہل کے بجائے یوں فرمایا:

﴿الَّذِينَ ‌لَا ‌يَعْلَمُونَ﴾ جو علم نہیں رکھتے۔

[سورۃ البقرۃ:113-118، یونس:89، الروم:59، الجاثیہ:18]


اور عالم کے مقابلے میں بھی یوں ہی فرمایا:

﴿الَّذِينَ ‌لَا ‌يَعْلَمُونَ﴾ جو علم نہیں رکھتے

[سورۃ الزمر:9]


‌لَا ‌يَعْلَمُونَ - ‌أَيْ - لَا يَعْلَمُونَ دِينَ اللَّهِ تَعَالَى وَتَوْحِيدَهُ فَهُمْ مُحْتَاجُونَ إِلَى سَمَاعِ كَلَامِ اللَّهِ

ترجمہ:

وہ نہیں جانتے - یعنی - وہ اللہ کے دین اور اس کی وحدانیت کو نہیں جانتے کیونکہ وہ اللہ کی باتیں سننے کے محتاج ہیں۔

[تفسير البغوي: سورۃ التوبۃ:6]



جہالت نام ہے۔۔۔
(1)دین کی باتوں میں مذاق کرنے کا۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:67]
(2)ضد و ہٹ دھرمی(بے دینی) کا۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:199]
(3)سب کو ہدایت پر لانے کیلئے ہلکاں ہونا
[حوالہ سورۃ الانعام:35]
(4)ایمان نہ لانے کیلئے کافروں کا من پسند معجزات کا مطالبہ کرنا۔
[حوالہ سورۃ الانعام:111]
(5)بناوٹی خدا کی چاہت وعبادت۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:138]
(6)نیکی ونصیحت کی بات کو قبول نہ کرنے اور ستانے والے ہٹ دھرمی
[حوالہ سورۃ الاعراف:199، ھود:46 الفرقان:63]
(7)نافرمانی کے کام
[حوالہ یوسف:33+ 89]
(8)ہم جنس پرستی
[حوالہ سورۃ النمل:55]
(9)بیہودہ بات کرنا اور بچنے والوں سے الجھنا۔
[حوالہ سورۃ القصص:55]
(10) غیراللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دینا۔
[حوالہ سورۃ الزمر:64]
(11)کٹ حجتی کرنا۔

[حوالہ سورۃ الاحقاف:23,ھود:46 الفرقان:63]


ہدایت یا جہالت:

القرآن:

بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 50]

تشریح:

یعنی دنیاوی علوم وفنون سے غفلت جہالت نہیں بلکہ سارا جہاں بنانے والے الله کے فیصلوں سے منہ موڑنا جہالت ہے۔


امام تفسیر مجاہدؒ(م102ھ) نے فرمایا:
"كُلُّ عَامِلٍ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ فَهُوَ ‌جَاهِلٌ ‌حِينَ ‌عَمِلَهَا"۔
ترجمہ:
”یعنی جو شخص کسی کام میں اللہ تعالی کی نافرمانی کر رہا ہے وہ یہ کام کرتے ہوئے جاہل ہی ہے۔“ 
[تفسير ابن كثير، سورۃ النساء، آیۃ 17]






حکم کی اہمیت حاکم کی طاقت پہچاننے سے حاصل ہوتی ہے:

درحقیقت علم وحکمت، عدل اور رحم کی خوبیوں میں کامل۔۔۔ہر چیز کا ایک اکیلا خالق، مالک، غالب، رب۔۔۔جس کا اصلی نام اللہ یعنی حقیقی خدا ہے۔۔۔کے تعارف وپہچان سے جاہل شخص ہی نافرمان رہتا ہے، اور توبہ بھی نہیں کرتا کہ توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ اور بہترین خطاکار ہر بار توبہ کرنے والے ہیں۔


مومن کون؟

جہالت کی تلاش و خواہش الله اور اسکی ہدایت پر یقین نہ ہونے کی علامت ہے۔ اور شریعتِ خداوندی پر یقین رکھنے والا ہی مومن ہے۔


اسلامی اور مغربی تہذیب میں فرق کی بنیاد ﴿ہدایت یا جہالت﴾ ہی ہے۔



جہالت دراصل "مخالفتِ حق" کا نام ہے۔

جہالت تین قسم پر ہے:

(1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنیٰ ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظامِ طبعی کے "خلاف" جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے۔

(2) کسی چیز کے "خلافِ واقع" (خلافِ حقیقت) یقین و اعتقاد قائم کرلینا۔

(3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے "خلاف" سر انجام دینا۔ ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا: کوئی شخص دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنیٰ کے اعتبار سے آیت:

أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ

وہ کہنے لگے کہ کیا آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں؟ موسیٰ نے کہا : میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں (ایسے) نادانوں میں شامل ہوں (جو مذاق میں جھوٹ بولیں)۔

[سورۃ البقرة:67]

میں هُزُواً (مذاق اڑانے) کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

[المفردات فی غریب القرآن-امام راغب: ص209]



لا ‌يعلمون : ‌أي أن القوم كانوا يعلمون، ولكنهم أفسدوا علمهم، وجحدوا وكفروا وكتموا۔

ترجمہ:

وہ نہیں جانتے: یعنی لوگ جانتے تھے لیکن انہوں نے اپنے علم کو بگاڑا، اور کفر کیا اور چھپایا۔

[تفسير الطبري:1645، سورۃ البقرۃ:101]



علماء کے بجائے جاہلوں(مخالفت کرنے والوں) سے فتویٰ لینے کی پیشگوئی:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا " ، قَالَ الْفِرَبْرِيُّ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم  نے ارشاد فرمایا۔اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 100 - علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا]
تشريح:
(1) اللہ نے نبی کے بعد علم کی حفاظت اور تعلیم کا ذریعہ علماء کو بنایا ہے۔
(2) مسائل(یعنی جو باتیں پوچھی جائیں)غیرعالم سے نہ پوچھنا۔
(3) گذرے ہوئے علماء(صحابہؓ اور ائمہؒ) زیادہ قابلِ اعتماد اور قابلِ تقلید ہیں۔






















اور اگر بالفرض ہم ان کے پاس فرشتے بھیج دیتے، اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے، اور (ان کی مانگی ہوئی) ہر چیز ہم کھلی آنکھوں ان کے سامنے لاکر کے رکھ دیتے (49)، تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے، الا یہ کہ اللہ ہی چاہتا (کہ انہیں زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو بات دوسری تھی، مگر ایسا ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر) لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔(50)

[سورۃ الانعام:111]

(49) یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ فرمائش کیا کرتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے بڑی سرکشی اختیار کی ہوئی ہے۔

[سورۃ الفرقان:21]

یعنی یہ ان کا تکبر ہے جو ان سے ایسی باتیں کہلوا رہا ہے۔ یہ اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں کہ اپنی ہدایت کے لیے کسی پیغمبر کی بات ماننا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود آکر انہیں سمجھائیں، یا کم از کم کوئی فرشتہ بھیجیں۔

(50) یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ تمام معجزات کو دیکھ کر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ پھر بھی جو مطالبات کر رہے ہیں وہ محض جہالت (مخالفت) پر مبنی ہیں۔




امام شافعیؒ (م150ھ) نے فرمایا:
جاہل کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ عالم ہے اس لئے وہ کسی کا بات نہیں سنتا۔


امام حسن البصریؒ (م١١٠ھ) فرماتے ہیں:
‌الفِتْنَةُ ‌إِذَا ‌أَقْبَلَتْ عَرَفَهَا كُلُّ عَالِمٍ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ عَرَفَهَا كُلُّ جَاهِلٍ۔
ترجمہ:
فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے، اور جب چلا جاتا ہے تو ہر جاہل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔
[التاريخ الكبير للبخاري:5830(‌‌2987)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:9/24]

آجکل رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی حرف بحرف صادق آ رہی ہے۔ لوگ چند کتابوں کا مطالعہ کر کے علماء کا لبادہ پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو غلط سلط باتیں بتاکر راہ حق اور صراط مستقیم سے برگشتہ کرتے ہوئے وقت کا علامہ بننے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ عوام بھی ان کا خوب ساتھ دے رہی ہے اور ان کو سراہتے ہوئے انہیں علماء سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہے۔ انھیں عوام کی بدولت یہ ممبر و محراب اور کانفرنسوں وغیرہ میں اپنا تسلط قائم کرنے لگے ہیں۔ ان کی شہرت اور چمک دمک کو دیکھتے ہوئے نوجوانانِ ملت بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں، لہذا آپ کو سوشل میڈیا پر اس طور سے نام نہاد مبلغین ودعاۃ اور محققین و مفتیان کے القاب کے مصداق افراد مل جائیں گے جو بزعمِ خویش دین کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چناچہ آپ دیکھیں گے کہ جس نے بھی ایک دو کتابیں پڑھ لیں یا ایک دو لیکچر سن لئے وہ گروپس، پیجز، بلاگس، ویب سائٹس اور یوٹیوب چینل بناتا ہے، اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے دین اسلام کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ لہذا کوئی محققِ دوراں بنتے ہوئے احادیث کی صحت و ضعف پر کلام کرتا ہے تو کوئی منسوخ جیسی احادیث کو بیان کرکے ان سے مسائل کا استنباط کرتا نظر آتا ہے۔ یہ دقیق مسائل ہوں یا غیردقیق سب میں اپنی رائے دینے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور جب تک دن میں دو چار فتوے نہ دے لیں اور مناظرے نہ کرلیں ان کو سکون نہیں ملتا۔ اتنا ہی نہیں مناظر کے نام پر گالی گلوچ کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے نام پر نوجوان لڑکیوں سے جنسی و دل لگی کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔ ان کے قد میں ہی نہیں رکھتے بلکہ وہ دوسروں کے مقالات و مضامین اور تحقیقات کو چرا کر اپنے بلاگز اور ویب سائیٹس اور گروپس میں اپنے نام سے شیئر کرتے ہیں اور لوگوں کی واہ واہی بٹورتے ہیں۔ یہ علماء کی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کو شیئر کرنے میں اپنی کسر شان سمجھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اگر کسی عالم کا لکچر بھی شیئر کرتے ہیں تو خود کا یوٹیوب چینل بنا کر اس میں اپ لوڈ کر کے شیئر کرتے ہیں۔

امام ابن الجوزی(م597ھ) فرماتے ہیں:
قَالَ وأكبر(وَأَكْثَرُ) أَسبَابه أَنه قد يعاني هَذِه الصِّنَاعَة ‌جهال ‌بِالنَّقْلِ يَقُولُونَ مَا وجدوه مَكْتُوبًا وَلَا يعلمُونَ الصدْق من الْكَذِب فهم يبيعون على سوق الْوَقْت وَاتفقَ أَنهم يخاطبون الْجُهَّال من الْعَوام الَّذين هم فِي عداد الْبَهَائِم فَلَا يُنكرُونَ مَا يَقُولُونَ وَيخرجُونَ فَيَقُولُونَ قَالَ الْعَالم فالعالم عِنْد الْعَوام من صعد الْمِنْبَر۔
ترجمہ:
اور ان کا سب سے بڑا(سب سے زیادہ) سبب یہ ہے کہ اس فن میں ان لوگوں نے دخل اندازی کی جو نقلی دلائل سے عاری وجاہل ہوتے ہیں۔ جو لکھا ہوا پاتے ہیں اسی کو یہ کہتے ہیں۔ سچ و جھوٹ کی پہچان کی کسوٹی ان کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ وقت کے بازار میں دینی خدمت کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور (اس پر) اتفاق ہے کہ یہ عام طور پر عوام میں سے ایسے جاہلوں کو مخاطب کرتے ہیں جو چوپایوں کے قائم مقام (یعنی ناسمجھ) ہوتے ہیں لہذا وہ ان کی غلطیوں پر نکیر نہیں کرتے اور یہ کہتے ہوئے نکلتے ہیں کہ عالم نے کہا۔ بس عوام کے نزدیک وہی عالم ہے جو منبر (stage) پر چڑھ گیا۔
[تحذیر الخواص-امام السیوطی(م911ھ) :ص230، القصاص والمنکرین-امام ابن الجوزي(م597ھ): ص318]


Saturday, 8 January 2022

دھوکے کی کرنسی - کریپٹو کرنسی Cryptocurrency - بِٹ کوئن Bitcoin


کریپٹو کرنسی Cryptocurrency (بِٹ کوئن Bitcoin وغیرہ) ایک فرضی کرنسی ہے، اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے، اور فقہائے کرام کی تصریحات Description کی روشنی میں یہ کرنسی از رُوئے شرع مال نہیں ہے اور نہ ہی ثمن عرفی۔
نیز اس کاروبار میں حقیقت میں کوئی مبیع sold وغیرہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں بیع sell کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ در حقیقت یہ فاریکس ٹریڈنگ (غیر ملکی کرنسی کی تجارت Forex Trading) کی طرح سود Interest اور جُوئے Gambling کی شکل ہے ؛ اس لیے کرپٹو کرنسی (بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی) کی خرید وفروخت کی شکل میں نیٹ پر چلنے والا کاروبار شرعاً حلال وجائز نہیں ہے، مسلمانوں کو اس میں حصہ داری نہیں کرنی چاہیے۔




آج کل دنیا میں جو مختلف کرنسیاں (سِکے) رائج ہیں، وہ فی نفسہ مال نہیں ہیں، وہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہیں، ان میں جو مالیت یا عُرفی ثمنیت (customary price) پائی جاتی ہے ، وہ دو وجہ سے ہے؛ ایک تو اس وجہ سے کہ ان کے پیچھے ملک کی اقتصادی چیزیں (جیسے: سونے اور چاندی کے سکے ّ، گندم، جو، کھجور وغیرہ) ہوتی ہیں ؛ اسی لیے ملک کی اقتصادی ترقی اور انحطاط کا کرنسیcurrency کی قدر وقیمت value پر اثر پڑتا ہے ، یعنی: اقتصاد ہی کی وجہ سے ملک کی کرنسی کی قدر وقیمت value گھٹتی بڑھتی ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر ملک عوام کے لیے اپنی کرنسی کا ضامن وذمہ دار ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنی کوئی کرنسی بند کرتا ہے تو کرنسی محض کاغذ کا نوٹ بن کر رہ جاتی ہے اور اس کی کوئی قدر وقیمت value یا حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے پیچھے کیا چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی قدر وقیمت value متعین ہوتی ہے اور اس کی ترقی اور انحطاط سے کرنسی کی ویلیو گھٹتی بڑھتی ہے؟ اسی طرح اس کرنسی کا ضامن وذمہ دار کون ہے؟ نیز کرنسی کی پشت پر جو چیز پائی جاتی ہے، کیا واقعی طور پر اس پر کرنسی کے ضامن کا کنٹرول ہوتا ہے یا یہ محض فرضی اور اعتباری چیز ہے؟











ڈیجیٹل کرنسی کے متعلق مختلف تحریرات پڑھی گئیں اور اس کے متعلق غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ڈیجیٹل کرنسی محض ایک فرضی چیز ہے اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے اور حقیقت میں یہ فاریکس ٹریڈنگ وغیرہ کی طرح نیٹ پر جاری سٹے بازی اور سودی کاروبار کی شکل ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کے کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں۔




پس خلاصہ یہ کہ بٹ کوئن یا کوئی اور ڈیجیٹل کرنسی، محض فرضی کرنسی ہے، حقیقی اور واقعی کرنسی نہیں ہے، نیز کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی میں واقعی کرنسی کی بنیادیں صفات نہیں پائی جاتیں، نیز ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار میں سٹہ بازی اور سودی کاروبار کا پہلو معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے بٹ کوئن Bitcoin یا کسی اور ڈیجیٹل کرنسی کی خرید اری کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح بٹ کوئن Bitcoin یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کی تجارت بھی فاریکس ٹریڈنگ کی طرح ناجائز ہے؛ لہٰذا اس کاروبار سے پرہیز کیا جائے۔

مجتہادانہ استدلالی حوالہ جات:

قال اللّٰہ تعالی:
﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾          
[سورۃ البقرة: 275]

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ 
[سورۃ المائدة، ۹۰]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى ‌أُمَّتِي ‌الْخَمْرَ، ‌وَالْمَيْسِرَ۔
[مسند أحمد:6547+6564، المعجم الكبير للطبراني:127]

{وَلا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ ‌بَيْنَكُمْ ‌بِالْبَاطِلِ} ‌أَيْ: لا يأكل بعضكم مال بعضٍ بما لا يحلُّ في الشَّرع من الخيانة والغضب والسَّرقة والقمار وغير ذلك
[الوجيز للواحدي(م468ھ) : ص153  دار القلم , الدار الشامية - دمشق، بيروت]

لِأَنَّ ‌الْقِمَارَ ‌مِنْ ‌الْقَمَرِ ‌الَّذِي يُزَادُ تَارَةً، وَيُنْقَصُ أُخْرَى، وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرِينَ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ فَيَجُوز الِازْدِيَادُ وَالِانْتِقَاصُ فِي كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فَصَارَ قِمَارًا. وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ
[تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي-الزيلعي(م743ھ): 6/ 227 الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة]



واضح رہے کہ کسی بھی قدری (Value-able) چیز کے کرنسی بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس مقامی حکومت اور اسٹیٹ کی جانب سے اس کرنسی کو سکہ (Coin) اور ثمن (Price) تسلیم کرکے اس کو عام معاملات (لین دین) میں زرِ مبادلہ کا درجہ دے دے دیا گیا ہو، ایسی کرنسی کو لوگ رغبت ومیلان کے ساتھ قبول کرنے کے لیے آمادہ بھی بن جائیں اور اُسے رواجِ عام مل جائے۔

۱:… مذکورہ ڈیجیٹل کرنسی نہ تو کسی حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ کرنسی (ثمن Price) ہے اور نہ ہی تمام لوگوں میں اس کا رواج ہے، لہٰذا اس کی ثمنیت قابلِ اعتبار نہیں ہے, اور محض چند ٹوکن جن کی کوئی واقعی مالی حیثیت نہیں ہے، اس کی قیمت ۱۰۰ یورو سے ۲۸۰۰۰ تک مقرر کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اگر مجوزہ ڈیجیٹل کرنسی کو بالفرض قانونی واصطلاحی کرنسی تسلیم کرلیا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا مبادلاتی exchanges عمل (لین دین) شرعی لحاظ سے بیع صرف (نقدی cash کا لین دین) کہلائے گا، جبکہ نقدی cash کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت ایک ہی مجلس میں قبضہ ضروری ہے، جبکہ مذکورہ کمپنی ٹوکن دینے کے ۹۰ دن بعد ان ٹوکنوں کو دگنا کرکے ڈیجیٹل کوائنز (سکوں) میں تبدیل کرکے دیتی ہے تو یہ بھی بیع sell صرف میں اُدھار کی ایک صورت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہی ہے ، لہٰذا سوال میں مذکور منافع کا پہلا طریقہ بھی ناجائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’والمالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃً أو بعضہم والتقوم یثبت بہا وبإباحۃ الانتفاع بہٖ شرعاً۔‘‘                                              (ج:۴،ص:۵۰۱،ط:ایچ ایم سعید)
وفیہ ایضاً: ’’ہو مبادلۃ شئ مرغوبٍ فیہ بمثلہٖ علی وجہٍ مفیدٍ مخصوصٍ۔‘‘                                                            (ج:۴،ص:۵۰۶،ط:ایچ ایم سعید) بدائع الصنائع میں ہے: ’’وأما الشرائط (فمنہا) قبض البدلین قبل الافتراق لقولہٖ علیہ الصلاۃ والسلام فی الحدیث المشہور والذہب بالذہب مثلاً بمثل یداً بید والفضۃ بالفضۃ مثلاً بمثل یداً بید، الحدیث۔‘‘                                 (فصل فی شرائط الصرف،ج:۵،ص:۲۱۵)



۲…مذکورہ کمپنی کے منافع حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ جس کی تین صورتیں ہیں، یہ تینوں صورتیں دراصل کمیشن کے تحت آتی ہیں اور کمیشن کی اسلامی قانونِ تجارت اور تبادلہ میں مستقل تجارتی حیثیت نہیں ہے، اس لیے کہ جسمانی محنت (جو کہ تجارت کا ایک اہم جزء ہے) کے غالب عنصر (dominant element) سے خالی ہونے کی بنا پر فقہاء کرام نے اصولاً اس کو ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت Need اور تعامل Interaction کی وجہ سے اس کی محدود Limited اور مشروط Conditional اجازت دی ہے، بظاہر مذکورہ کمپنی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کا سرمایہ اپنے کاروبار میں لگا کر اور میمبر در میمبر سازی کرکے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنا اور اس حاصل ہونے والی رقم سے لوگوں کو کمیشن فراہم کرنا ہے، لہٰذا اس کمپنی سے معاملہ کرنا اور اس میں سرمایہ کاری Investment کرکے منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے، چونکہ اس کمپنی کے کوائنز Coins اور ٹوکن Token خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس کمپنی کے ممبر member بن کر مذکورہ تینوں صورتوں ’’Direct Sale‘‘ ، ’’ Network Bonus ‘‘ اور ’’Matching Bonus‘‘ کے ذریعے کمیشن حاصل کرنا بھی درست نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والربح إنما یستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان۔‘‘                  (فتاویٰ شامی، کتاب المضاربۃ،ج:۵،ص:۶۴۶،ط:ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضاً: ’’سئل عن محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار: فقال: أرجو أنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیرمن ہذا غیر جائزۃ فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ۔‘‘
(فتاویٰ شامی ،مطلب فی أجرۃ الدلال،ج:۶،ص:۶۳،ط:ایچ ایم سعید)

الأشباہ والنظائر میں ہے: ’’ما أبیح للضرورۃ یقدر بقدرہا۔‘‘
(الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الخامسۃ: الضرر یزال،ص:۸۷، قدیمی)

وفیہ ایضاً: ’’وصرح بہ فی فتاویٰ قاری الہدایۃ ثم قال والعقد إذا فسد فی بعضہ فسد فی جمیعہٖ۔‘‘                    
(الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الثانیۃ،ص:۱۱۷، قدیمی)



۳… مذکورہ کمپنی کے کوائنز (سکوں) کا حصول اور ان کی خرید وفروخت چونکہ ناجائز ہے، اسی طرح ان کوائنز کو دگنا کرکے بیچنا بھی ناجائز ہے۔

البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:
’’إن فساد العقد فی البعض إنما یؤثر فی الباقی إذا کان المفسد مقارناً۔‘‘
(البنایۃ شرح الہدایۃ ،ج:۸،ص:۱۷۷)

نیز ان کوائنز (سکوں) کی زیادتی بلاعوض ایک عقد میں لازم ہونے کی وجہ سے بھی جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:
’’باب الربا ہو لغۃً مطلق الزیادۃ وشرعاً (فضل) ولو حکماً فدخل ربا النسیئۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربا فیجب رد عین الربا ولو قائمًا لارد ضمانہٖ لأنہٗ یملک بالقبض قنیۃ وبحر (خال عن عوض) … مشروط ذٰلک الفضل لأحد العاقدین۔‘‘
(فتاویٰ شامی ،ج:۵،ص:۱۶۸،۱۶۹،ط:ایچ ایم سعید)


۴،۵…مذکورہ کمپنی کا ٹوکن اور کوائنز کا لین دین کرنا چونکہ ناجائز ہے، اس لیے اگر کوئی اس کمپنی میں صرف کوائنز حاصل کرنے کے لیے رکنیت حاصل کرے اور نیٹ ورکنگ (Networking) کے ذریعے اگرچہ ممبر سازی نہ کرے، تب بھی ان کوائنز کو خریدنا جائز نہیں ہے۔  نیز اس طرح کی مشکوک کمپنی کے کارو بار میں سرمایہ کاری کرنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ شریعتِ اسلامی میں کاروبار اور لین دین کا مدار معاملات کی صفائی اور دیانت وامانت پر ہے اور فرضی چیزوں کے بجائے اصلی اور حقیقی چیزوں کی خرید وفروخت اور حقیقی محنت پر زور دیتی ہے اور استفتاء کے ساتھ منسلکہ فتویٰ سے یہ بھی بات واضح ہوتی ہے کہ ’’One Coin ‘‘ (ون کوائن) کمپنی کے معاملات صاف اور واضح نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بظاہر دوسروں کا مال، غیر واضح، مبہم اور ناجائز طریقے سے ہتھیانے کے مترادف ہے، جسے شرعی اصطلاح میں ’’اکل باطل‘‘کہتے ہیں۔
تفسیر کبیر میں ہے:
’’قال بعضہم: اللّٰہ تعالٰی إنما حرم الربا حیث أنہ یمنع الناس عن الاشتغال بالمکاسب… فلایکاد یتحمل مشقۃ الکسب والتجارۃ والصناعات الشاقۃ۔‘‘                                                      
[التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ البقرۃ،ج:۷،ص:۹۱، ایران]

بعض علماء فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس لیے سود کو حرام قراردیا ہے کہ یہ لوگوں کو اسباب معاش اختیار کرنے سے روکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا لوگ کمائی، تجارت اور سخت محنتوں کے بوجھ برداشت کرنے سے کتراتے ہیں۔‘‘
احکام القرآن میں ہے:
’’نہٰی لکل أحد عن أکل مال نفسہ ومال غیرہٖ بالباطل وأکل مال نفسہٖ بالباطل إنفاقہٗ فی معاصی اللّٰہ وأکل مال الغیر بالباطل قد قیل: فیہ وجہان: أحدہما ما قال السدی وہو أن یاکل بالربا والقمار والبخس والظلم وقال ابن عباسؓ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والحسن رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن یأکلہٗ بغیر عوض۔‘‘                                                                       
[احکام القرآن ،ج:۲،ص:۲۱۶، دار الکتب العلمیہ، بیروت]

’’ہر ایک کو اپنا مال اور دوسروں کا مال ناحق طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اپنے مال کو ناحق طور پر کھانا یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا جائے اور دوسرے کے مال کو ناحق طور پر کھانے کے متعلق آیا ہے اس کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت: سدیؒ فرماتے ہیں : اس کو سود، جوا، کمی(ناپ تول میں) اور ظلم کے ذریعہ کھائے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حسنؒ فرماتے ہیں کہ: اس کو بغیر عوض کے کھائے(سودی معاملہ کرے)۔

Tuesday, 4 January 2022

اللہ ہی مختار کل کیوں؟

 اختیاراتِ مصطفیٰ:

مختار کل صرف اللہ ہے،

[حوالہ» سورۃ ھود:107، الحج:14، البروج:16]


البتہ نبی ﷺ کو دنیا میں بہت سے اختیار دئے گئے ہیں،

[حوالہ» سورۃ البقرۃ:126، الاحزاب:51]


اور آخرت میں بھی بہت سارے اختیار دئے جائیں گے، جو اولین اور آخرین میں سے سب سے زیادہ ہیں،

[حوالہ» سورۃ الکوثر:1]


لیکن وہ جز اختیارات ہیں، کل نہیں ہیں۔

[حوالہ» سورۃ البقرۃ:272، آل عمران:128+161، النساء:88، الانعام:58، الاعراف:188، الانفال:63+67، التوبہ:43+80+113، یونس:15+49+99، الرعد:38، الکھف:24، القصص:56، غافر:78، الاحقاف:9، المنافقون:6، التحریم:1، الحاقۃ:44-47، الجن:20+21، عبس:1-2]


ورنہ یہ ماننا لازم آئے گا کہ۔۔۔


(1) اللہ کی "اذن" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ اس کی شرط لگائی۔

[حوالہ» سورۃ البقرۃ:91+249+255، آل عمران:145+166، النساء:64، الاعراف:58، الانفال:66، یونس:3+100، ھود:105، الرعد:38، ابراھیم:11، طٰہٰ:109، الحج:65، الاحزاب:46، سبا:12+23، غافر:78، الشوريٰ:51، المجادلۃ:10، التغابن:11، النبا:38]


اور


نبی ﷺ کی کسی "اجازت" پر اللہ کو معافی کا اعلان نہ فرمانا پڑتا۔

[سورۃ التوبۃ:43]


(2) اور اللہ کی "امر" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ س کی شرط لگائی۔

[حوالہ» سورۃ الانبیاء:28، النور:55، الجن:27]


(3) اور 
اللہ کی "رضا" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ اس کی شرط لگائی۔

[حوالہ» سورۃ الانبیاء:28، النور:55، الجن:27]


(4) اور اللہ کو "پکارنے" کی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ نبی ﷺ نے بھی اللہ کے علاوہ کسی کو غائبانہ مدد کیلئے نہیں پکارا، کیونکہ اللہ کے علاوہ کسی کو پکارنا شرک ہے۔

[حوالہ» سورۃ الاحقاف:4، فاطر:40، سبا:22، الاعراف:194-197]




اس عقیدے کے بارے میں 36 آیتیں اور 10 حدیثیں ہیں ، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں۔






اختیارات کی 4 قسمیں ہیں:

[۱]۔۔۔ازل سے ابد تک ہر ہر چیز کرنے کا اختیار ، یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔
[۲]۔۔۔حضور ﷺ کو زندگی میں بہت سے اختیار دئے گئے
[۳]۔۔۔ حضور ﷺ کو قیامت میں چار اختیار دئے جائیں گے
[۴] ۔۔۔ کیا حضور ﷺ کوزید کو شفا دینے ، روزی دینے ،نفع اور نقصان دینے کا اختیار ہے۔



اختیار کی پہلی قسم: [۱] ازل سے ابد تک ہر ہر چیز کرنے کا اختیار ، یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔

 

اس کے لئے یہ آیتیں ہیں:

(1) ﴿اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ﴾ ۔

ترجمہ:

اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ، اور وہی ہر چیز کا رکھوالا ہے۔

[آیت 62، سورۃ الزمر 39]

 

(2) ﴿ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ﴾   ۔

ترجمہ:

وہ ہے اللہ جو تمہارا پالنے والا ہے ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔

[آیت 62، سورۃ غافر 40]

 

(3) ﴿إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾  ۔

ترجمہ:

یقینا آپ کا رب چو چاہے کرتا ہے۔

[آیت 107، سورۃ ھود 11]

 

(4) ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ (١٥) فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾  ۔

ترجمہ:

عرش کا مالک ہے ، بزرگی والا ہے ، جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے۔

[آیت 16، سورۃ البروج 85]

 

(5) ﴿قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾   ۔

ترجمہ:

آپ یہ کہہ دیجئے کہ اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ، اور وہ ایک ہی غالب ہے۔

[آیت 16، سورۃ الرعد 13]

 

ان 5 آیتوں میں ہے کہ ازل سے ابد تک کا پورا پورا اختیار صرف اللہ کو ہے ، کسی اور کو نہیں ہے۔





احادیث طیبات
حدیث نمبر1:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ننھے بچوں سے پیار کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگا کہ کیا آپ بچوں سے )ازرہ ِ شفقت( پیار کرتے ہیں ؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے ، اس دیہاتی کے اس سوال پر جناب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَوَأَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ•
[صحیح البخاری:5998، صحیح مسلم:2317]
یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے شفقت نکال دی ہے تو کیا میں تیرے لیے اس کا مالک ہوں؟!

حدیث نمبر2:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیے تو آپ نے اپنے تمام خاندان اور برادری کو جمع کرکے فرمایا: اے خاندان قریش ! اپنے آپ کو جہنم کے عذاب سے (یعنی توحید ورسالت وغیرہ عقائد قبول کر کے) پچا لو میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے تمہیں نہیں بچا سکتا اے خاندان بنو عبد مناف ، اپنی جانوں کو عذاب سے بچا لو میں تمہیں خدا کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب اور میری پھوپھی صفیہ اپنے بچاو کا انتظام فرما لو میں تمہیں خدا کی گرفت نہیں بچا سکتا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:
يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا•
اے (میری لختِ جگر)فاطمہ! جس کا میں مالک ہوں (مالی، ضروریاتِ زندگی وغیرہ) وہ مانگ تو میں تجھے دے دوں گا لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔
[صحیح البخاری:2753+4771، صحیح مسلم:206+352]




حدیث نمبر3:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات ازواج مطہرات رضی ا للہ عنہما میں برابر ی کرتےتھے اور یہ فرمایا کرتے تھے:
اللهم ! هذه قسمي فيما أملك فلا تؤاخذني فيما تملك ولا أملك•
قال الترمذی: یعنی انما الحب و المودۃ•
یعنی اے اللہ! جس ظاہری تقسیم کا میں مالک ہوں میں کو ادا کر چکا اور جس چیز کا تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ( یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت) تو اس میں میرا مواخذہ نہ کرنا۔
[سنن الترمذی:1140، سنن ابی داود:2134، سنن النسائی:3943، ابن ماجہ:1971، مستدرک الحاکم:2761]

اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح علی شرط مسلم قرار دیا۔
[مستدرک الحاکم: کتاب النکاح- ح2761]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسناد صحیح ورجالہ کلھم ثقات •
[تفسیر ابن کثیر ج3ص511]






حدیث نمبر4:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس خلاصہ یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق عامۃ المسلمین (مثلاً غنیمت وغیرہ) میں خیانت کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جس نے اونٹ ،بکری ، گھوڑے ، کپڑے وغیرہ میں خیانت(چوری) کی تو یہ تمام اشیاء قیامت کے دن اس کی گردن پر ہوں گی اور اپنی اپنی آواز ظاہرکرتی ہوں گی اور ایسا خائن وہاں کہے گا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ•
اے اللہ کے رسول میری مدد کیجیے اور میں کہوں گا: میں تمہارے لئے اختیار نہیں رکھتا، (کیونکہ) میں تجھے تبلیغ کر چکا تھا۔
[بخاری:1402+3073، مسلم:1831]



حدیث نمبر5:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیبیاں تھیں؛ حضرت خدیجہ ، حضرت زینب ام المساکین، حضرت عائشہ، حضرت جویریہ، حضرت حفصہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت زینب بنت حجش ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت صفیہ ، حصرت سودہ، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن۔
[مرقات: ج4ص42]
اور دو لونڈیاں تھیں؛ ایک حضرت ماریہ قبطیہ جن کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔
[مستدرک: ج4ص38]
اور دوسری حضرت ریحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھیں۔
[مستدرک ج4ص41]
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا آپ کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں بقیہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن آپ کے بعد زندہ رہیں، ان کے بارے میں آپ کو کافی پریشانی تھی آپ نے فرمایا :
إن أمركن مما يهمني بعدي الحدیث•
[جامع الترمذی:3749 وقال حدیث حسن صحیح غریب، موارد الظماٰن: ص547]
کہ بے شک تمہارا معاملہ مجھے اپنے بعد پریشان کر رہا ہے۔