«إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، مَالِكُ الْمُلُوكِ وَمَلِكُ الْمُلُوكِ، قُلُوبُ الْمُلُوكِ فِي يَدِي، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا أَطَاعُونِي حَوَّلْتُ قُلُوبَ مُلُوكِهِمْ عَلَيْهِمْ بِالرَّأْفَةِ وَالرَّحْمَةِ، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا عَصَوْنِي حَوَّلْتُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْهِمْ بِالسَّخْطَةِ وَالنِّقْمَةِ فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ، فَلَا تَشْغَلُوا أَنْفُسَكُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَى الْمُلُوكِ، وَلَكِنِ اشْتَغِلُوا بِالذِّكْرِ وَالتَّضَرُّعِ إِلَيَّ أَكْفِكُمْ مُلُوكَكُمْ»
ترجمہ:
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ : میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں بادشاہ ہوں کا مالک ہوں بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضہ میں ہیں جب بندے میری فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں کے دلوں کوان کی طرف رحمت وشفقت کرنے کے لیے پھیر دیتا ہوں اور میرے بندے جب میری نافرمانی پر اترجاتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دلوں کو غصہ اور انتقام کے لیے متوجہ کردیتا ہوں، پس وہ ان کو سخت عذاب اور تکالیف میں مبتلا کردیتے ہیں اس لیے خود کو بادشاہوں پر بددعا میں مشغول نہ کرو بلکہ خود کو ذکر، عجز تضرع میں مشغول رکھو تاکہ میں تمھارے بادشاہوں کے مظالم سے تم کو محفوظ رکھوں۔
[المعجم الأوسط للطبراني:8962، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:2/ 388، فوائد تمام:657]
القرآن:
کہو کہ : اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
[سورۃ آل عمران:26-غرائب التفسير وعجائب التأويل-الكرماني:1/ 249]
اور اے تم اللہ کے سامنے توبہ کرو سب کے سب اے مومنو! تاکہ تم کامیاب ہو۔
[سورۃ النور:31]
حکمرانوں کو برا بھلا کہنے کے بجاۓ اپنی اصلاح پر مشغول رہنا:
خلاصہ یہ ہے کہ رعایا کے ساتھ حکمرانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکم ران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکم ران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے ۔