القرآن:
مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 24 النور ، آیت نمبر 62]
تفسیر:
(47) یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔
القرآن:
اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو، اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کرلو۔ (15) یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، امید ہے کہ تم خیال رکھو گے۔
[سورۃ نمبر 24 النور،آیت نمبر 27]
تفسیر:
(15) یہاں سے معاشرے میں بےحیائی پھیلنے کے بنیادی اسباب پر پہرہ بٹھانے کے لیے کچھ احکام دئیے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس میں ایک تو حکمت یہ ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں بےجا مداخلت نہ ہو جس سے اسے تکلیف پہنچے۔ دوسرے بلا اجازت کسی کے گھر میں چلے جانے سے بےحیائی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور اجازت لینے کا طریقہ بھی یہ بتایا گیا ہے کہ باہر سے السلام علیکم کہا جائے، یا اگر یہ خیال ہو کہ گھر والا سلام نہیں سن سکے گا، اور اجازت دستک دے کر یا گھنٹی بجا کرلی جا رہی ہے تو جب گھر والا سامنے آجائے اس وقت اسے سلام کیا جائے۔
القرآن:
اے ایمان والو ! جو غلام لونڈیاں تمہاری ملکیت میں ہیں، اور تم میں سے جو بچے ابھی بلوغ تک نہیں پہنچے ان کو چاہیے کہ وہ تین اوقات میں (تمہارے پاس آنے کے لیے) تم سے اجازت لیا کریں۔ نماز فجر سے پہلے، اور جب تم دوپہر کے وقت اپنے کپڑے اتار کر رکھا کرتے ہو، اور نماز عشاء کے بعد (42) یہ تین وقت تمہارے پردے کے اوقات ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ نہ تم پر کوئی تنگی ہے، نہ ان پر۔ ان کا بھی تمہارے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے، تمہارا بھی ایک دوسرے کے پاس۔ اللہ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں، تو وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسے ان سے پہلے بالغ ہونے والے اجازت لیتے رہے ہیں۔ اللہ اسی طرح اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
[سورۃ نمبر 24 النور،آیت نمبر 58-59]
تفسیر:
(42) آیات 27 تا 29 میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ کسی دوسرے کے گھر میں اجازت مانگے بغیر داخل نہیں ہونا چاہیے، عام طور سے مسلمان اس حکم پر عمل کرنے لگے تھے لیکن کسی گھر کے غلام باندیوں اور نابالغ لڑکے لڑکیوں کو چونکہ بکثرت گھروں میں آنا جانا رہتا تھا، اس لئے وہ اس حکم کی پابندی نہیں کرتے تھے، چنانچہ بعض واقعات ایسے پیش آئے کہ یہ لوگ کسی کے گھر میں ایسے وقت بلا اجازت داخل ہوگئے جو اس کے آرام اور تنہائی کا وقت تھا، جس سے نہ صرف یہ کہ اسکو تکلیف ہوئی بلکہ بےپردگی بھی ہوئی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور ان میں یہ واضح کردیا گیا کہ کم از کم تین اوقات میں ان لوگوں کو بھی بلااجازت گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہیے، یہ تین اوقات وہ ہیں جن میں عام طور سے انسان تنہائی پسند کرتا ہے اور بےتکلفی سے صرف ضروری کپڑوں میں رہنا چاہتا ہے، اور ایسے میں کسی کے اچانک آجانے سے بےپردگی کا بھی احتمال رہتا ہے، البتہ دوسرے اوقات میں چونکہ یہ خطرہ نہیں ہے اس لئے ضرورت کی وجہ سے ان کو بلا اجازت بھی چلے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اجازت کے آداب:
حضرت ابوسعید خدری ؓ اور حضرت ابوموسی اشعری ؓ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ۔
ترجمہ:
اجازت تین مرتبہ ہے، اگر تجھے اجازت دی جائے تو ٹھیک ورنہ تو لوٹ جا۔
[صحیح مسلم:2153(5628)، صحیح البخاری:5891]
جب تم میں سے کوئی 3 بار (گھر میں داخل ہونے،ملنے کی) اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جاۓ۔
[بخاری:6245]
اگر کوئی شخص اجازت کے بغیر تمہارے گھر میں جھانکے اور تم کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑدو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔
[بخاری:6902(6493)، صحیح مسلم:(2158)]
القرآن:
...اور چاہئے کہ وہ لیں اپنا بچاؤ...
[سورۃ النساء:102﴿تفسیر ابن ابی حاتم:14352﴾]
القرآن:
...داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو...
[سورۃ النور:27 ﴿تفسیر ابن کثیر-السلامۃ:6/37﴾]
أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي کَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ أَوْ سَاقَيْهِ فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَکْرٍ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ کَذَلِکَ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَوَّی ثِيَابَهُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَلَا أَقُولُ ذَلِکَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ دَخَلَ أَبُو بَکْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَسَوَّيْتَ ثِيَابَکَ فَقَالَ أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ
ترجمہ:
سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، اس حال میں کہ آپ کی رانیں یا پنڈلیاں مبارک کھلی ہوئی تھیں (اسی دوران) حضرت ابوبکر ؓ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں لیٹے باتیں کررہے تھے، پھر حضرت عمر ؓ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں باتیں کرتے رہے، پھر حضرت عثمان ؓ نے اجازت مانگی تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو سیدھا کرلیا، روای محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کی بات ہے، پھر حضرت عثمان ؓ اندر داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہے تو جب وہ سب حضرات نکل گئے تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا حضرت ابوبکر ؓ آئے تو آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عمر ؓ تشریف لائے تو بھی آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عثمان ؓ آئے تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑو وں کو درست کیا تو آپ نے فرمایا (اے عائشہ! ) کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔
[صحیح مسلم:6209(2401)]
القرآن:
...داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو...
[سورۃ النور:27 ﴿تفسیر ابن کثیر-السلامۃ:6/37﴾]
حضرت عمرو بن عاص ؓ نے ایک مرتبہ حضرت فاطمہ ؓ سے ملنے کی اجازت مانگی، حضرت فاطمہ ؓ نے انہیں اجازت دے دی، انہوں پوچھا کہ یہاں حضرت علی ؓ ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، اس پر وہ چلے گئے، دوسری مرتبہ حضرت علی ؓ موجود تھے لہذا وہ اندر چلے گئے، حضرت علی ؓ نے ان سے اجازت لینے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرو ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورتوں کے پاس نہ جائیں۔
[صحيح ابن حبان:5584، مصنف عبدالرزاق:12542، مسند احمد:17823(17159)، مسند ابي يعلي:7348]
عقیدہ:
الله کےحکم واجازت کےسوا...
کسی کام کیلئے فرشتے نہیں اترسکتے
[سورۃ القدر:4]مریم65
جادو اور شیطان نقصان نہیں دے سکتے
[سورۃ البقرۃ:102]مجادلۃ10
کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی
[سورۃ التغابن:11]
کوئی مر نہیں سکتا
[آل عمران:145]
کوئی ایمان وہدایت نہیں پاسکتا
[یونس:100]بقرۃ213
کوئی شفاعت نہیں کرسکتا
[سورۃ البقرۃ:255]سبا23
جنت میں داخل نہیں ہوسکتا
[سورۃ ابراھیم:23]
رسول کی بات مانی نہیں جاسکتی
[سورۃ النساء:64]
نبی معجزہ نہیں لاسکتا
[سورۃ الرعد:38]ابراھیم11 غافر78
سردی کی حقیقت یاد رکھنا اور سمجھانا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
جہنم نے الله سے درخواست کی کہ اے میرے رب! میرا بعض حصہ باز کو کھارہا ہے، بس مجھے سانس لینے کی اجازت مرحمت فرمائیے، اللہ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دیدی، ایک سانس سردی میں اور دوسری گرمی میں، بس تم لوگ جو سردی کی ٹھنڈک اور جو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ جہنم کی سانس لینے کی وجہ سے ہے۔
[بخاری:3260، مسلم:617، ترمذی:2592، ابن ماجہ:4319]
پلانے میں اجازت لینا»
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ الْأَشْيَاخُ، فَقَالَ لِلْغُلَامِ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَ هَؤُلَاءِ، فَقَالَ الْغُلَامُ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا أُوثِرُ بِنَصِيبِي مِنْكَ أَحَدًا، قَالَ: فَتَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِهِ.
ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد نے فرمایا: آپ ﷺ کے پاس ایک پینے کی چیز لائی گئی، آپ نے اس میں سے نوش فرمایا اور آپ کی"داہنی"طرف ایک نو عمر لڑکا تھا، اور بائیں جانب بڑےصحابہ تھے، تو آپ نے بچہ سے فرمایا: کیا تو مجھے"اجازت"دیتا ہے کہ میں ان کو دے دوں؟ تو بچہ نے کہا: اے الله کے رسول! الله کی قسم! میں آپ کی طرف سے ملنے والے اپنے حصہ میں کسی کو ترجیح نہ دوں گا، تو آپ ﷺ نے وہ پیالہ اس کے ہاتھ میں تھمادیا۔
[بخاری:5620]
کھلانے میں اجازت لینا»
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْرِنَ بَيْنَ التَّمْرَتَيْنِ» حَتَّى يَسْتَأْذِنَ صَاحِبَهُ۔
ترجمہ:
حضرت ابن عمر فرماتے ہیں: منع فرمایا رسول الله ﷺ نے اپنے ساتھی کی "اجازت" کے بغیر دو کھجوریں (یا انگور وغیرہ) ایک ساتھ کھانے سے۔
[ترمذی:1814]
بیٹھنے میں اجازت لینا»
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا۔
ترجمہ:
کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیدا کرے مگر ان کی اجازت سے۔
[سنن ترمذی:2752، سنن ابی داود:4844، 4845]
القرآن:
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں دوسروں کے لیے گنجائش پید کرو، تو گنجائش پیدا کردیا کرو، اللہ تمہارے لیے وسعت پیدا کرے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ، تو اٹھ جاؤ، تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کو درجوں میں بلند کرے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ نمبر 58 المجادلة،آیت نمبر 11]
تجارت میں شراکتدار سے اجازت لینا»
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« مَنْ كَانَ لَهُ شَرِيكٌ فِي رَبْعَةٍ أَوْ نَخْلٍ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ، فَإِنْ رَضِيَ أَخَذَ وَإِنْ كَرِهَ تَرَكَ »
،ترجمہ:
جس شخص کا زمین یا باغ میں کوئی شریک ہو تو اس کے لئے اپنے شریک سے اجازت لئے بغیر اس کو بیچنا جائز نہیں ہے اگر وہ راضی ہو تو لے اور اگر ناپسند کرے تو چھوڑ دے۔
[صحیح مسلم:1608(4127)، سنن ابوداؤد:3513، سنن النسائي:4646]
القرآن:
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء،آیت نمبر 29]
کیا عورت اپنے شوہر کے مال سے بغیر "اجازت" صدقہ کر سکتی ہے؟
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : سَأَلَتْہ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ : یَأْتِی الْمِسْکِینُ أَفَأَتَصَدَّقُ مِنْ مَالِ زَوْجِی بِغَیْرِ إذْنِہِ ؟ فَکَرِہَہُ ، وَقَالَ لَہَا : أَلَہُ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِحُلِیِّکَ بِغَیْرِ إذْنِک۔
حضرت ابن عباس ؓ سے ایک خاتون نے دریافت کیا کہ! میرے پاس مسکین آتا ہے کیا میں شوہر کی "اجازت" کے بغیر اس کے مال میں سے صدقہ کرسکتی ہوں؟ آپ نے اس کو ناپسند فرمایا: اور اس کو کہا: کیا تو اپنے شوہر کو "اجازت" دے گی کہ وہ تیرا زیور تیری اجازت کے بغیر صدقہ کر دے؟
[مصنف(امام) ابن ابی شیبہ»حدیث نمبر: 22514]
کیا بیوی(شوہر کا دیا ہوا) اپنا مال شوہر کی "اجازت" کے بغیر صدقہ کرسکتی ہے؟
كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُلِيٍّ لَهَا فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ بِهَذَا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَجُوزُ لِلْمَرْأَةِ فِي مَالِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا فَهَلِ اسْتَأْذَنْتِ كَعْبًا. قَالَتْ: نَعَمْ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ زَوْجِهَا فَقَالَ: هَلْ أَذِنْتَ لِخَيْرَةَ أَنْ تَتَصَدَّقَ بِحُلِيِّهَا، فَقَال: نَعَمْ، فَقَبِلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا.
ترجمہ:
حضرت کعب بن مالک ؓ کی اہلیہ خیرۃ ؓ کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا زیور لے کر آئیں، اور عرض کیا: میں نے اسے صدقہ کردیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں، کیا تم نے کعب سے اجازت لے لی ہے؟ وہ بولیں: جی ہاں، آپ ﷺ نے ان کے شوہر کعب بن مالک ؓ کے پاس آدمی بھیج کر پچھوایا، کیا تم نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے ، وہ بولے: جی ہاں، تب جا کر رسول اللہ ﷺ نے ان کا صدقہ قبول کیا۔
[سنن ابن ماجہ:2389، سنن ابی داود:3546، سنن النسائی:2541]
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ (فِي مَالِهَا) إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا
ترجمہ:
عورت کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر (اپنے مال میں بھی) عطیہ(تحفہ) دینا جائز نہیں۔
[سنن أبي داؤد » كِتَاب الْبُيُوعِ بَاب فِي عَطِيَّةِ الْمَرْأَةِ بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا، حدیث#3080]
القرآن:
...چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیرموجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے(مرد کے حقوق کی)حفاظت کرتی ہیں...
[سورۃ النساء:34]
شوہر کی"اجازت"کے بغیر بیوی کا نفلی روزہ رکھنا۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّسَاءَ أَنْ يَصُمْنَ إِلَّا بِإِذْنِ أَزْوَاجِهِنَّ۔
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو منع فرمایا کہ وہ اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھیں۔
[سنن ابن ماجہ:1762، سنن ابی داود:2459، سنن الدارمی:1760]
بیوی کا بغیر اجازت شوہر کے گھر سے نہ نکلنا»
حضرت سلمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
ثلاثة لا يقبل الله صلاتهم: المرأة تخرج من بيتها بغير إذنه، والعبد الآبق، والرجل يؤم القوم وهم له كارهون۔
ترجمہ:
تین آدمیوں کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا، (1)وہ عورت جو اپنے گھر سے شوہر کی "اجازت" کے بغیر نکل جائے، (2)بھاگ جانے والا غلام (3)اور وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرتا ہو حالانکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں۔
ابن ابی شیبہ:17137، جامع الأحادیث:11243، کنزالعمال:43939۔عن سلمان]
نیکوکار اور بدکار عورت کون؟
أيما امرأة اعتزلت فراش زوجها بغير إذن زوجها فهي في سخط الله حتى يستغفر لها، وأيما امرأة استشارت غير زوجها لقمت من جمر جهنم، وأيما امرأة رضي عنها زوجها رضي الله عنها، وإن سخط عليها زوجها سخط الله عليها، إلا أن يأمرها بما لا يحل.
ترجمہ:
جو عورت بھی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے بستر سے الگ ہوئی وہ برابر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں ہوتی ہے تاوقتیکہ اس کا خاوند اس کے لیے استغفار کرے اور جو عورت بھی اپنے شوہر کے علاوہ کسی غیر سے مشورہ لیتی ہے وہ دوزخ کا انگارہ لے رہی ہوتی ہے جس عورت کا شوہر اس سے راضی ہوا اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتا ہے اور جس کا شوہر اس سے ناراض ہو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض رہتا ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کا خاوند اسے کسی غیر حلال(حرام) کام کا حکم دے۔
[کنزالعمال»حدیث نمبر: 46043]
لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا:
إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؛ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ؛ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ، فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ، وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ: كِتَابَُ اللهِ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟ قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ، وَأَدَّيْتَ، وَنَصَحْتَ. فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ
ترجمہ:
تمہاری جانیں اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے، اور تمہارے اس شہر میں۔ سنو! جاہلیت کے زمانے کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہوگئی (یعنی لغو اور باطل ہوگئی اور اس کا اعتبار نہ رہا) جاہلیت کے سارے خون معاف ہیں اور سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ یا ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے۔ وہ بنی سعد میں دودھ پی رہا تھا۔ اسے ہذیل کے لوگوں نے قتل کردیا تھا (وہ نبی اکرم ﷺ کا چچا زاد بھائی تھا) اور جاہلیت کے تمام سود ختم ہیں سب سے پہلا سود جسے میں ختم کرتا ہوں وہ اپنا سود ہے یعنی عباس بن عبدالمطلب کا کیونکہ سود سبھی ختم ہیں خواہ وہ کسی کے بھی ہوں۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے، اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اس شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اب اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بس اس قدر مارو کہ ہڈی نہ ٹوٹنے پائے، اور انہیں تم سے دستور کے مطابق کھانا لینے اور کپڑا لینے کا حق ہے۔ میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (اچھا بتاؤ) تم سے قیامت کے روز میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تمہارا جواب کیا ہوگا؟ لوگوں نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا، حق ادا کردیا، اور نصیحت کی، پھر آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف جھکایا، اور فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو گواہ رہ۔
[صحیح مسلم:2950(1218)، سنن ابوداؤد:1905، سنن ابن ماجہ:3074، صحیح ابن حبان:3799-6095، صحیح ابن خزيمة:2809، مسند عبد بن حمید:1135]
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ: اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، إِنَّ لَكُمْ مِنْ نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ، فَلَا يُوَطِّئَنَّ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمُ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ، أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ، وَطَعَامِهِنَّ.
ترجمہ:
حضرت عمرو بن احوص ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اور وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اچھی طرح ان کو کھانا اور کپڑا دو۔
[سنن ابن ماجہ:1851، سنن الترمذی:1163 ،3087]
نافرمانی کیلئے اجازت مانگنے کی اجازت نہیں۔
القرآن:
جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اپنے مال و جان سے جہاد نہ کرنے کے لیے تم سے اجازت نہیں مانگتے، اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ تم سے اجازت تو وہ لوگ مانگتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں، اور وہ اپنے شک کی وجہ سے ڈانواڈول ہیں۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 44-45]
القرآن:
اور جب کوئی سورت یہ حکم لے کر نازل ہوتی ہے کہ : اللہ پر ایمان لاؤ، اور اس کے رسول کی رفاقت میں جہاد کرو، تو ان (منافقوں) میں سے وہ لوگ جو صاحب استطاعت ہیں، تم سے اجازت مانگتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل ہونے دیجیے جو (گھر میں) بیٹھے رہیں گے۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 86]
القرآن:
الزام تو ان لوگوں پر ہے جو مال دار ہونے کے باوجود تم سے اجازت مانگتے ہیں۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ پیچھے رہنے والی عورتوں میں شامل ہوگئے۔ اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے انہیں حقیقت کا پتہ نہیں ہے۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 93]
القرآن:
اور جب انہی میں سے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ : یثرت کے لوگو ! تمہارے لیے یہاں ٹھہرے کا کوئی موقع نہیں ہے، بس واپس لوٹ جاؤ۔ اور انہی میں سے کچھ لوگ نبی سے یہ کہہ کر (گھر جانے کی) اجازت مانگ رہے تھے کہ : ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں تھے، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ (کسی طرح) بھاگ کھڑے ہوں۔
[سورۃ نمبر 33 الأحزاب،آیت نمبر 13]
No comments:
Post a Comment