القرآن:
(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 31]
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مخالفت کرو مشرکین کی،(لہٰذا)داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں گھٹاؤ۔
[صحیح بخاری:5892]
مونچھوں کو نہ چھوڑو اور ڈاڑھی کو نہ چھیڑو۔
[صحیح مسلم:259(601-603)]
جو نہ کاٹے اپنی مونچھیں تو وہ ہم میں سے نہیں.
[سنن الترمذی:2761، امن النسائی:13]
جو کاٹے اپنی مونچھیں جمعہ کے دن، اس کیلئے ہر گرتے بال کے بدلے 10نیکیاں ہیں۔
[جامع الاحادیث:45392]
جو بڑی رکھے مونچھیں(کہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر ڈھک جاۓ)اسے4قسم کا عذاب ہوگا:(1)منکر نکیر غضب ناک حالت میں آئیں گے،(2)قبر میں ہرقسم کا عذاب دیاجاۓگا،(3)شفاعتِ رسول اور(4)حوضِ کوثر کے پانی سے محروم ہوگا۔
[تاریخ الخمیس:2/35]
نوٹ:
’’اوپر کے ہونٹ پر دونوں کناروں تک جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے، یہی مونچھوں کی حد ہے ‘‘۔
حوالہ
"وقال القرطبي:
وقص الشارب أن يأخذ ما طال على الشفة بحيث لا يؤذي الآكل ولا يجتمع فيه الوسخ".
[فتح الباری:10/347]
شرح ریاض الصالحین لابن عثیمین میں ہے:
"الثالث: قص الشارب: وهو الشعر النابت فوق الشفة العليا وحده: الشفة كل ما طال على الشفة العليا فهو شارب".
[فتاوی شامی: 550/2 ، 407/6 ، 642/1 ط:سعید]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مونچھیں رکھتے تھے یانہیں؟
جواب
واضح رہے کہ مونچھوں کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائیں اور کھانے پینے کی اشیاء میں لگ رہی ہوں ،شرعاً درست نہیں ہے، البتہ مونچھیں بڑی ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء میں لگ جائیں تو کھانے پینے کی اشیاء مکروہ نہیں ہوں گی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مونچھیں بھی مذکورہ بیان کردہ شرعی حدود میں ہی ہوا کرتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہ بڑھی ہوئی مونچھیں نہیں رکھتے تھے، البتہ آپ رضی اللہ عنہ مونچھوں کے دونوں کناروں کے بال چھوڑا کرتے تھے ، اور غصے کی کیفیت میں آپ انہیں تاؤ دیا کرتے تھے۔ تاہم یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل نہیں تھا، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا عمل تھا،اسی لیے اسے اُن کی خصوصیت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ،لہذا اگر کوئی شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس عمل کی وجہ سے مونچھوں کے دونوں کناروں کے بال چھوڑ دے تو اس کی گنجائش ہے، البتہ اس حصے کے بالوں کو بھی تراش لینا بہتر ہے۔
حوالہ
"الطبقات الكبرى لابن سعد" میں ہے:
"قالَ: أخبرَنا محمّد بنُ عمر، قالَ: أخبرَنا مالك بنُ أنسٍ عنْ زيد بنِ أسلمَ عنْ عامر بنِ عبد الله بنِ الزّبير عنْ أسلمَ، قالَ: رأيتُ عمرَ إذَا غضِبَ أخذَ بِهَذا، وأشارَ إلى سَبَلَتِه، فَقالَ بِها إلَى فمِه ونفخَ فِيْهِ.
قالَ: أخبرَنا معن بنُ عيسى، قالَ: أخبَرنا مالك بنُ أنس عنْ زيد بنِ أسلمَ عنْ عامر بنِ عبد الله بنِ الزّبير عنْ أبيهِ أنّ عمر بنَ الخطّاب أتاهُ رجلٌ مِنْ أهلِ الباديةِ، فَقالَ: يَا أميرَ المؤمنينَ! بلادُنا قَاتلْنا عليْها في الجاهليّةِ، وأَسلمْنا عليْها في الإسلامِ، ثُمّ تُحْمَى عليْنا، فجَعلَ عمرُ ينفخُ ويفتِلُ شارِبَه".
[الطبقات الكبرى، الطبقة الأولي، ذكر استخلاف عمر-رضي الله عنه-، 3/326، ط: دار صادر - بيروت]
"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:
"حدّثنا عبد الله بنُ أحمد بنِ حنبلٍ، حدّثنِيْ أبِيْ، ثنا إسحاق بنُ عيسى الطَّبّاعُ، قالَ: رأيتُ مالك بنَ أنسٍ وافِرَ الشّاربِ، فَسألتُه عنْ ذلكَ، فَقالَ: حدّثنِيْ زيد بنُ أسلم عنْ عامر بنِ عبد الله بنِ الزّبير أنّ عمر بنَ الخطّاب كانَ إذَا غضِبَ فتلَ شارِبَه، ونفخَ".
[المعجم الكبير، العشرة، صفة عمر بن الخطاب -رضي الله عنه-، 1/66، رقم:54، ط: مكتبة ابن تيمية - القاهرة]
"مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں ہے:
"عنْ عامر بنِ عبد الله بنِ الزّبير أنّ عمر بنَ الخطّاب كانَ إذَا غضِبَ فتلَ شارِبَه، ونفخَ. رَواهُ الطبرانِيُّ، ورِجالُه رجالُ الصّحيحِ خَلا عبدِ اللهِ بنِ أحمدَ، وهُو ثِقةٌ مأمونٌ إلّا أنّ عامرَ بنَ عبد الله بنِ الزّبير لَمْ يُدْرِكْ عمرَ".
[مجمع الزوائد، كتاب اللباس، باب ما جاء في الشارب واللحية وغير ذلك، 5/166، رقم:8840، ط: مكتبة القدسي- القاهرة]
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:
"... و قِيْلَ: الأفضلُ حلقُه؛ لِحديثِ: و الأكثرُونَ علَى القصِّ، بَلْ رأى مالكٌ تأديبَ الحالقِ، و مَا مرّ عنِ النوويِّ يُخالِفُه قولُ الطّحاويِّ عنِ المُزَنِيِّ و الرّبيعِ أنّهما كانَا يًحْفِيَانِه، ويُوافِقُه قولُ أبِيْ حنيفةَ وصاحبِه: الإحفاءُ أفضلُ مِنَ التّقصيرِ، وعنْ أحمدَ أنّه كانَ يُحْفِيْه شديداً، ورأى الغزاِليُّ وغيرُه أنّه لَا بأسَ بِتركِ السِّبَالَيْنِ اتباعاً لِعمرَ وغيرِه، ولأنّ ذلكَ لاَيسترُ الفمَ، و لَا يبقَى فيهِ غِمْرُ الطّعامِ إذْ لَايصِلُ إليْهِ، وكرِه الزركشِيُّ إبقاءَه لِخبرٍ صحيحٍ لِابنِ حبّانَ: ذُكِر لِرسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم- المجوسُ، فَقالَ: إنّهم قومٌ يُوفِّرُون سِبَالَهم، ويحلِقُون لِحَاهُم فخَالِفُوهم اهـ.. و الظّاهرُ أنّ المرادَ بِالسِّبالِ الشوارِبُ أُطلِق عليْها مجازاً أوْ حقيقةً علَى مَا في القاموسِ، واللهُ أعلمُ".
[مرقاة المفاتيح، كتاب الأطعمة، 7/2728، ط: دار الفكر- بيروت]
"العرف الشذي شرح سنن الترمذي"میں ہے:
"وأمّا الحدُّ مِنَ الطّرفينِ فَلَمْ يثبُتْ، وتُؤْخَذَ بِقدرِ مَا لا تُؤْذِيْ عندَ الأكلِ والشُّربِ، ولعلّ عملَ السّلفِ أنّهم كانُوا يقصِرون السِّبالتين أيضاً، فإنّ في تذكرةِ الفاروقِ الأعظمِ ذُكِر أنّه كانَ يتركُ السِّبَالَتَيْنِ، واهتمامُ ذكرِ تركِه السِّبَالَتَيْنِ يدلُّ علَى أنّ غيرَهُ لَا يتركُهما، واللهُ أعلمَ".
[العرف الشذي، كتاب الآداب، باب ما جاء في تقليم الأظفار، ج:4، ص:161-162، ط: دار التراث العربي - بيروت]
فقط والله أعلم
حضرت ابن عمر ؓ کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مونچھ کے بال کتروانا فطرت (پیدائشی سنت) ہے۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر: 5888]
باب»مونچھیں کتروانے کا بیان، اور حضرت عمر (رض) اپنی مونچھیں اس قدر کترواتے تھے کہ کھال دکھائی دینے لگتی تھی، اور داڑھی اور مونچھ کے درمیان کے بالولوں کو کترواتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے (نبی کریم ﷺ سے) روایت کیا کہ پانچ چیزیں (فرمایا کہ) پانچ چیزیں ختنہ کرانا، موئے زیر ناف مونڈنا، بغل کے بال نوچنا، ناخن ترشوانا اور مونچھ کم کرانا پیدائشی سنتوں میں سے ہیں۔
[صحیح بخاری:5889]
کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ۔ عبداللہ بن عمر ؓ جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی (ہاتھ سے) پکڑ لیتے اور (مٹھی) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے۔
[صحیح بخاری:5892]
فطری خصلتیں:
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دس چیزیں سنت ہیں مونچھیں کتروانا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخنوں کا کاٹنا، جوڑ دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال صاف کرنا، پانی سے استنجا کرنا مصعب راوی بیان کرتے ہیں کہ دسویں چیز میں بھول گیا شاید وہ کلی کرنا ہو۔
[صحیح مسلم:604]
بڑی مونچھوں سے نبی کی ناپسندیدگی:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک رات نبی اکرم ﷺ کا مہمان ہوا ۔۔۔۔ میری موچھیں بڑھ گئی تھیں، تو آپ ﷺ نے مونچھوں کے تلے ایک مسواک رکھ کر ان کو کتر دیا ، یا فرمایا: میں ایک مسواک رکھ کر تمہارے یہ بال کتر دوں گا۔
[سنن ابوداؤد:188، شمائل ترمذی:167]
پورا قرب حاصل کیسے ہو»
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے ، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک(ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے۔
[سنن ابوداؤد:2789،سنن النسائی:4370]


No comments:
Post a Comment