فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب
فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء میں بہت ساری صفات قبیحہ پائ جاتی هیں ، بدگمانی ، بدزبانی ، خودرائ ، کذب وفریب ، جہالت وحماقت ، اس فرقہ کے اهم اوصاف هیں ، اور انهی صفات قبیحہ کے ذریعہ هی عوام الناس کوگمراه کرتے هیں ، لہذا ایک دیندار ذی عقل مسلمان کے لیئےضروری هے کہ دین کے معاملہ میں فرقہ اهل حدیث کے نام نہاد جاهل شیوخ کی طرف هرگز رجوع واعتماد نہ کرے ، اور یقین کیجیے کہ میں یہ بات کسی ذاتی تعصب وعناد کی بنیاد پرنہیں کہ رها ، بلکہ انتهائ بصیرت وحقیقی مشاهده کی بات کر رها هوں ،
ان کا جہل وکذب اهل علم پر تو بالکل عیاں هے ، لیکن عام آدمی ان کی ملمع سازی اور وساوس و اکاذیب کی جال میں پهنس جاتا هے ،
ذیل میں فرقہ اهل حدیث کے مشہور وساوس و اکاذیب کا تذکره کروں گا ، تاکہ ایک عام آدمی ان کے وساوس ودجل وفریب سے واقف هوجائے ،
وسـوســه 1 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی اتباع بہتر هے یا محمد رسول الله کی ؟؟
جواب = یہ وسوسہ ایک عام آدمی کو بڑا خوشنما معلوم هوتا هے ، لیکن دراصل یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تقابل کرنا هی غلط هے ، بلکہ نبی کا مقابلہ امتی سے کرنا یہ توهین وتنقیص هے ،
بلکہ اصل سوال یہ هے کہ کیا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ اسلام ) کی راهنمائ میں بہترهے یا اپنے نفس کی خواهشات اور آج کل کے نام نہاد جاهل شیوخ کی اتباع میں بہترهے ؟؟
لہذا هم کہتے هیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ مجتهدین ) کی اتباع وراهنمائ میں کرنا ضروری هے ، اور اسی پرتمام اهل سنت عوام وخواص سلف وخلف کا اجماع واتفاق هے ، لیکن بدقسمتی سے هندوستان میں انگریزی دور میں ایک جدید فرقہ پیدا کیا گیا جس نے بڑے زور وشور سے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ دین میں ان ائمہ مجتهدین خصوصا امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله کی اتباع وراهنمائ ناجائز وشرک هے ، لہذا ایک عام آدمی کو ان ائمہ اسلام کی اتباع وراهنمائ سے نکال کر ان جہلاء نے اپنی اور نفس وشیطان کی اتباع میں لگادیا ، اور هر کس وناکس کو دین میں آزاد کردیا اور نفسانی وشیطانی خواهشات پرعمل میں لگا دیا ، اور وه حقیقی اهل علم جن کے بارے قرآن نے کہا ( فاسئلوا اهل الذکران کنتم لا تعلمون ) عوام الناس کو ان کی اتباع سے نکال کر ان جاهل لوگوں کی اتباع میں لگا دیا جن کے بارے حضور صلی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
( فأفتوا بغیرعلم فضلوا وأضلوا )
اور ان جہلاء کی تقلید واتباع کا صراط مستقیم رکهہ دیا ، اور عام لوگوں کو قرآن وسنت کے نام پراپنی طرف بلاتے هیں ، لیکن درحقیقت عام لوگوں کوچند جہلاء کی اندهی تقلید واتباع میں ڈال دیا جاتا هے ،
فإلى الله المشتكى وهوالمستعان ٠
وسـوســه 2 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بہت پرانا هے جس کو فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نقل درنقل چلے آرهے هیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) هے ، اور یہ انهوں نے ( تاریخ ابن خلدون ) کتاب سے لیا هے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی هے کہ همارے اصول صرف قرآن وسنت هیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض هے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بهی ملے وه سر آنکهوں پر اس کے لیئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئ ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جهوٹا قول کیوں نہ هو ،
یہی حال هے ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا هے ،
تاریخ ابن خلدون میں هے (( فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها ))
فرقہ اهل حدیث کے جاهل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کا ترجمہ کرتے هیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط هے ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ هے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنه کے متعلق کہا جاتا هے کہ ان کی روایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( 17 ) تک پہنچتی هیں ،
اس قول میں یہ بات نہیں هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، تو ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے جواحادیث روایت کیں هیں ان کی تعداد ستره ( 17 ) هے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث پڑهی هیں ، اور اهل علم جانتے هیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئ عیب ونقص نہیں هے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم هیں ،
2 = تاریخ ابن خلدون ج ۱ ص ۳۷۱ ) پر جو کچهہ ابن خلدون رحمہ الله نے لکها هے ، وه اگربغور پڑهہ لیا جائے تواس وسوسے اوراعتراض کا حال بالکل واضح هوجاتا هے ۰
3 = ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول ( یُقال ) بصیغہ تَمریض ذکرکیا هے ، اور علماء کرام خوب جانتے هیں کہ اهل علم جب کوئ بات ( قیل ، یُقالُ ) سے ذکرکرتے هیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره هوتا هے ،
اور پهر یہ ابن خلدون رحمہ الله کا اپنا قول نہیں هے ، بلکہ مجهول صیغہ سے ذکرکیا هے ، جس کا معنی هے کہ ( کہا جاتا هے ) اب یہ کہنے والا کون هے کہاں هے کس کوکہا هے ؟؟
کوئ پتہ نہیں ، پهر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا ( اونَحوِها ) یعنی ان کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره هیں یا زیاده ۰
4 = ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام هیں لیکن ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم نہیں هے ، مثلا وه کہتے هیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (موطا ) میں تین سو هیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے هیں کہ (موطا مالک) میں ستره سو بیس ( 1720 ) احادیث موجود هیں ۰
5 = اور اس وسوسہ کی تردید کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکهہ لینا کافی هے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی هیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی هیں ،
اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ هزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ هیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے ( کتاب الآثار ) میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی هیں ، جس کا انتخاب چالیس هزار احادیث سے کیا ۰
6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا هے ،
عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا هے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاهر هے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا هے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا هے جس کو کم ازکم ایک لاکهہ احادیث متن وسند کے ساتهہ یاد هوں اور زیاده کی کوئ حد نہیں هے ، امام ذهبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولود فرقہ اهل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تهیں ،
( تذکره الحُفَّاظ ) سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ترجمہ درج ذیل هے ،
تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة
أبو حنيفة
الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرةلما قدم عليهم الكوفة، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود : إن أبا حنيفة كان إماما.
وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء.كان موته في رجب سنة خمسين ومائة .
أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد
وسوسه 3 = امام ابوحنيفه رحمه الله ضعيف راوى تهے محدثین نے ان پرجرح کی هے ؟؟
جواب = دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا نام کروں گا ، جو اس وسوسه کو باطل کرنے کے لیئے کافی هیں ،
1 = امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مسنتد امام هیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکهے هیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکهنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی هے ۰
2 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ( مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين
امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر هیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی هو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ، ۰
3 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تقريب التهذيب ) میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰
4 = رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) میں صرف مناقب وفضائل لکهے هیں ، کوئ جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح هو کہ کتاب ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب هیں ، خود خلاصة ، اور
5 = تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰
6 = ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰
7 = تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
کتاب ( ألكمال ) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میں لکهتے هیں کہ
كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع النحرير ۰
8 = کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ،
9 = کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئ جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے ( تاریخ بغداد ) کے کئ حوالے دیئے هیں ، جس سے صاف واضح هے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰
10 = فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب هی لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ۰
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی هے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت هے ، ان کے مقابلے میں کوئ جرح مقبول و مسموع نہیں هے ،
وسوسه 4 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے ، ان کو علم حدیث میں کوئ تبحر حاصل نہیں تها ؟؟
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرهے هیں ، اهل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور دن دیہاڑے چڑتے سورج کا انکار هے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں هے ، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور هے ؟ بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل هونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا هوں ، جن میں هرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر هے ،
1 = امام یحی ابن سعید القطان ، علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام هیں
2 = امام عبدالرزاق بن همام ، جن کی کتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف هے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹهایا هے
3 = امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ هیں
4 = امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئ هم سر نہیں هے
5 = امام عبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین هیں
6 = امام یحی بن زکریا بن ابی زائده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تهے
7 = قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها ،
8 = امام محمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجهہ کے برابرعلم حاصل کیا هے ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ( تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 ) میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے هوئے درج ذیل مشاهیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا
تهذيب التهذيب ، حرف النون
وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ( وآخرون ) کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ هی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی هیں ،
اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه هیں ،
یہ ایک مختصرسی شہادت میں نے حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی هے ، تو پهربهی کوئ جاهل امام اعظم کے بارے یہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ، کیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورهوا خوری کے لیئے جایا کرتے تهے ؟؟
کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کی تصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اهل حدیث کے وساوس واباطیل کو ؟؟
وسوسه 5 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ؟؟
یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جهلاء نےامام اعظم کے ساتهہ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وکاذب هے ،
یاد رکهیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا هے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹهنا شرط نہیں هے ،
حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار ) یہی بات صحیح ومختارهے ۰
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل هوا هے ،
اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی هونے کو محدثین اور اهل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا هے
1 = ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں ، 2 = حافظ ذهبی نے اپنی کتاب
تذکره الحُفاظ ) میں ، 3 = حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ( تهذیب التهذیب ) میں اور اسی طرح ایک فتوی میں بهی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیا هے ، 4 = حافظ عراقی ، 5 امام دارقطنی ، 6 = امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ، 7 = امام سیوطی ،
8 = حافظ ابوالحجاج المِزِّی ، 9 = حافظ ابن الجوزی ، 10 = حافظ ابن عبدالبر ،
11 = حافظ السمعانی ، 12 = امام نووی ، 13 = حافظ عبدالغنی المقدسی ،
14 = امام جزری ، 15 = امام تُوربِشتی ، 16 = امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام هیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ هیں ،
17 = امام یافعی شافعی ، 18 = علامہ ابن حجرمکی شافعی ، 19 = علامہ احمد قسطلانی ، 20 = علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین بطورمثال اهل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام میں نے ذکرکیئے هیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا هے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ هے یا انگریزی فرقہ اهل حدیث میں شامل جهلاء کا وسوسہ اور جهوٹ ؟؟
وسوسه 6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کوئ کتاب نہیں لکهی ، اور فقہ حنفی کے مسائل لوگوں نے بعد میں ان کی طرف منسوب کرلیئے هیں ؟؟
جواب = اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اور تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور یہ طعن تواعداء اسلام بهی کرتے هیں منکرین حدیث کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں احادیث نہیں لکهیں لهذا احادیث کا کوئ اعتبارنہیں هے ، اسی طرح منکرین قرآن کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیں لکهوایا لہذا اس قرآن کا کوئ اعتبارنہیں هے ، فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نے یہ وسوسہ منکرین حدیث اور شیعہ سے چوری کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہ دیا کہ انهوں نے توکوئ کتاب نہیں لکهی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئ اعتبار نہیں هے ، یاد رکهیں کسی بهی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین هونے کے لیئے کتاب کا لکهنا ضروری نہیں هے ، اسی طرح کسی مجتهد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لیئے اس امام کا کتاب لکهنا کوئ شرط نہیں هے ، بلکہ اس امام کا علم واجتهاد محفوظ هونا ضروری هے ، اگرکتاب لکهنا ضروری هے تو خاتم الانبیاء صلی الله نے کون سی کتاب لکهی هے ؟ اسی طرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث هیں ، مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلم کے شیوخ هیں کیا ان کی حدیث و روایت معتبر هونے کے لیئے ضروری هے کہ انهوں نے کوئ کتاب لکهی هو ؟ اگر هر امام کی بات معتبر هونے کے لیئے کتاب لکهنا ضروری قرار دیں تو پهر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا ،
لہذا یہ وسوسہ پهیلانے والوں سے هم کہتے هیں کہ امام بخاری اور امام مسلم کے تمام شیوخ کی کتابیں دکهاو ورنہ ان کی احادیث کو چهوڑ دو ؟؟
اور امام اعظم رحمہ الله نے توکتابیں لکهی بهی هیں ، ( الفقه الأكبر ) امام اعظم رحمہ الله کی کتاب هے جو عقائد کی کتاب هے ، « الفقه الأكبر » علم کلام وعقائد کے اولین کتب میں سے هے ، اور بہت سارے علماء ومشائخ نے اس کی شروحات لکهی هیں ، اسی طرح کتاب ( العالم والمتعلم ) بهی امام اعظم رحمہ الله کی تصنیف هے ، اسی طرح ( كتاب الآثار ) امام محمد اور امام ابویوسف کی روایت کے ساتهہ امام اعظم رحمہ الله هی کی کتاب هے ، اسی طرح امام اعظم رحمہ الله کے پندره مسانید هیں جن کو علامہ محمد بن محمود الخوارزمي نے اپنی کتاب ((جامع الإمام الأعظم )) میں جمع کیا هے ، اور امام اعظم کی ان مسانید کو کبار محدثین نے جمع کیا هے ، بطور مثال امام اعظم کی چند مسانید کا ذکرکرتاهوں ،
1 = جامع مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفة =
تأليف أبي المؤيد محمد بن محمود بن محمد الخوارزمي،
مجلس دائرة المعارف حیدرآباد دکن سے 1332هـ میں طبع هوئ هے دو جلدوں میں ، پهر ، المكتبة الإسلامية ، پاکستان سے 1396هـ میں طبع هوئ ، اور اس طبع میں امام اعظم کے پندره مسانید کو جمع کردیا گیا هے ،
2 = مسانيد الإمام أبي حنيفة وعدد مروياته المرفوعات والآثار =
مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي ، نے 1398هـ میں شائع کی هے ،
3 = مسند الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه =
تقديم وتحقيق صفوة السقا ، مکتبه ربيع ، حلب شام 1382هـ.
میں طبع هوئ
4 = مسند الإمام أبي حنيفة النعمان =
شرح ملا علي القاري، المطبع المجتبائي،
5 = شرح مسند أبي حنيفة
ملا علي القاري، دار الكتب العلمية، بيروت سے 1405 هـ.
میں شائع هوئ
6 = مسند الإمام أبي حنيفة
تأليف الإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، مكتبة الكوثر ، رياض سے 1415هـ شائع هوئ ،
7 = ترتيب مسند الامام ابي حنيفة على الابواب الفقهية ،
المؤلف: السندي، محمد عابد بن أحمد
اس مختصرتفصیل سے فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کا یہ وسوسہ بهی کافورهوگیا کہ امام ابوحنیفہ نے کوئ کتاب نہیں لکهی ۰
اس موضوع کے تحت ان شاء الله فرقہ اهل حدیث کے مشہوروساوس وافترءآت واکاذیب کا رد وجواب ذکرکیا جائے گا ،
وسوسه = فقہ حنفی پر عمل کرنا بہتر هے یا قرآن و حدیث پر ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بهی جہلاء کو بڑا خوبصورت معلوم هوتا هے ، حالانکہ درحقیقت یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اس لیئے کہ جس طرح حدیث قرآن کی شرح هے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح هے ، اب اصل سوال یہ بنتا هے کہ قرآن وحدیث پر عمل علماء وفقہاء وماهرین کی تشریحات کے مطابق کریں یا اپنے نفس کی تشریح اور نام نہاد جاهل فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی تشریح کے مطابق ؟؟ اهل سنت والجماعت توقرآن وحدیث پرعمل کرتے هیں مستند علماء وفقہاء ومجتهدین کی تشریحات وتصریحات کے مطابق اور اسی کا نام علم فقہ هے ، جب کہ نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل ناسمجهہ لوگ نام نہاد خودساختہ جاهل شیوخ کے خیالات وآراء پرعمل کرتے هیں ،اب ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ کس کا عمل زیاده صحیح هے ۰
وسوسه = کیا فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت هے؟؟
جواب = یہ وسوسہ بهی عوام میں پهیلایا جاتا هے ، صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کے ساتهہ بغض کی وجہ سے ، آپ کبهی بهی نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی زبانی فقہ شافعی ، فقہ مالکی ، فقہ حنبلی ، کے خلاف کوئ بات نہیں سنیں گے کیونکہ ان کا مقصد ومشن امام ابوحنیفہ اور فقہ حنفی کی مخالفت هے ، کیونکہ یہ فرقہ شاذه اسی کام کے لیئے هندوستان میں پیدا کیا گیا ،باقی مذکوره بالا وسوسہ کا جواب یہ هے کہ الحمد لله فقہ حنفی کا هرمفتی بہ اورمعمول بها مسئلہ سند ودلیل کے ساتهہ ثابت هے ، اور سند سے بهی زیاده مضبوط وقوی دلیل تواتر هے ، اوراهل سنت کے نزدیک یہ بات متواتر هے کہ فقہ حنفی کے مسائل واجتهادات امام ابوحنیفہ اورآپ کے تلامذه کے هیں ،اورعلماء امت نے مذاهب اربعہ کے مسائل پرمشتمل مستقل کتب لکهی هیں ، مثال کے طور پر کتاب (( بداية المجتهد ونهاية المقتصد )) علامہ القاضي أبي الوليد ابن رشد القرطبي المالکی کی هے ، اس میں مذاهب اربعہ کے تمام مسائل دلائل کے ساتهہ موجود هیں ، اوراس باب میں یہ کتاب انتہائ بہترین اورمقبول کتاب هے ، اسی طرح ایک کتاب (( الفقه على المذاهب الأربعة )) علامہ عبد الرحمن الجزيري کی هے ، اسی طرح ایک کتاب (( رحمة الأمة في اختلاف الأئمة )) علامہ محمد بن عبدالرحمن بن الحسين القرشي الشافعي الدمشقی کی هے ،اسی طرح امام شعرانی کی کتاب (( المیزان )) وغیرذالک اسی طرح بہت سارے کتب ورسائل علماء اهل سنت کے موجود هیں جس میں مذاهب اربعہ کے مسائل موجود هیں ، توامام اعظم ابوحنیفہ کے مسائل وفقہ بهی ثابت هے اسی لیئے توعلماء اهل سنت امام اعظم ابوحنیفہ کے اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ، تمام علماء متاخرین ومتقدمین ( اگلے پچهلے ) سلف وخلف سب دیگرائمہ کے ساتهہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مذهب اور اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ،توامام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں یہ وسوسہ کہ فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں هے بالکل باطل وفاسد هے ،اور هم اس وسوسہ کے پهیلانے والے نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے جہلاء سے سوال کرتے هیں کہ تم قرآن مجید کی هر هر آیت حضور صلی الله علیہ وسلم سے سند کے ساتهہ ثابت کرو الحمد سے والناس تک پڑهتے جاو اور ایک ایک آیت کی سند بهی پیش کرتے جاو ، نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے اگلے پچهلے سب جمع هوجائیں تب بهی پیش نہیں کرسکتے ، اگرنام نہاد فرقہ اهل حدیث کے یہاں تواتر کی کوئ حیثیت نہیں هے صرف سند ضروری هے توپهرسارے قرآن کا کیا کروگے ؟؟ لهذا هم کہتے هیں کہ قرآن مجید کی ایک ایک حرف ایک ایک آیت محفوظ هے اورثابت بالتواتر هے ، بعینہ اسی طرح فقہ حنفی کے مسائل تواترکے ساتهہ ثابت هیں ، اورالحمد لله دلائل کے اعتبارسے فقہ حنفی اقرب الی الکتاب والسنہ هے ، اور اس بات کا اقرار صرف علماء احناف هی نہیں بلکہ غیرعلماء احناف نے بهی کیا هے ۰
وسوسه = ائمہ اربعہ کے درمیان مسائل میں اختلاف هے اورقرآن وسنت میں کوئ اختلاف نہیں هے لہذا اختلاف وشک سے بچنے کے لیئے ان ائمہ کوچهوڑنا ضروری هے ،
یہ وسوسہ اس طرح بهی پیش کیا جاتا هے کہ
ائمہ اربعہ کی تقلید کی وجہ سے اختلافات پیدا هوئے لهذا ان اختلافات سے تنگ آکرهم نے ان کی تقلید چهوڑدی
جواب = یہ وسوسہ بهی ایک عام ان پڑهہ آدمی کوبہت جلد متاثرکرلیتا هے ، لیکن درحقیقت یہ وسوسہ بهی بالکل باطل هے ، اس لیئے کہ فروعی مسائل میں اختلاف صرف ائمہ اربعہ کے مابین هی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی تها جیسا کہ اهل علم خوب جانتے هیں کہ ( ترمذی ، ابوداود ، مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ ، وغیره ) کتب احادیث میں سینکڑوں نہیں هزاروں مسائل مختلف فیہ مسائل موجودهیں ، اب اس اصول کی بنا پر صحابہ کو بهی چهوڑنا پڑے گا ، لیکن ان شاء الله اهل سنت والجماعت ان وساوس باطلہ کی بنا پر نہ توصحابہ کرام کی اتباع کوچهوڑیں گے اور نہ ائمہ اربعہ کی اتباع کو یہ اور بات هے کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جاهل شیوخ نے عوام الناس کو نہ صرف یہ کہ ائمہ اربعہ کی اتباع سے دور کیا بلکہ صحابہ کرام کی اتباع سے بهی دور کیا ، اورمختلف وساوس کی وجہ سے عوام الناس کوفرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جاهل شیوخ نے اپنی اتباع اورتقلید پرمجبور کردیا ،
1 = اگرصرف اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ اور فقہ کو چهوڑنا ضروری هے ، تو پهر قرآن مجید کے قرآءت میں بهی اختلاف هے سات مختلف قرآئتیں هیں ، اسی طرح احادیث کے بارے میں بهی محدثین کے مابین اختلاف هے ، ایک محدث ایک حدیث کو صحیح اور دوسرا ضعیف کہتا هے جیسا کہ اهل علم خوب جانتے هیں ، اسی طرح حدیث کے راویوں کو بهی چهوڑنا پڑے گا کیونکہ رُواة کے بارے میں بهی محدثین کے مابین اختلاف هے ، ایک محدث ایک راوی کو صادق ومصدوق عادل وثقہ کہتا هے تودوسرا اس کوکاذب وکذاب غیرعادل غیرثقہ کہتا هے ، اسی طرح محدثین کے مابین الفاظ حدیث میں اختلاف واقع هوا هے ایک سند میں ایک طرح کے الفاظ دوسری سند میں مختلف الفاظ هوتے هیں ، حاصل یہ کہ محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع هوا هے ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ ائمہ اربعہ اور فقہ کوچهوڑنا ضروری هے توپهرسب کچهہ چهوٹ جائے گا ، تو پهرحدیث بهی گئ اور قرآن بهی اورصحابہ کرام کو بهی چهوڑنا پڑے گا کیونکہ ان کے مابین بهی فروعی مسائل اختلاف موجود هے ، اب فقہ بهی گئ قرآن وحدیث بهی اورصحابہ بهی توباقی کیا بچا ؟؟
توباقی بچ گیا نفس اماره اور ابلیس اوراس کی ذریت ،
فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث انهی وساوس کے ذریعہ عوام الناس کو قرآن وحدیث ، صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ کی راهنمائ سے نکال کر نفس وشیطان کی اتباع میں لگا دیتے هیں ،
2 = یہ وسوسہ اس طرح بهی هم باطل کرتے هیں ، کہ چوده سوسال میں امت مسلمہ میں کتنے بڑے بڑے ائمہ ، محدثین ، مفسرین ، فقہاء ، علماء گذرے هیں ، ان علماء امت نے اپنے قول وفعل زبان وقلم سے دین اسلام کی اورعلوم دینیہ کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی حتی کہ دین کا کوئ گوشہ ایسا نہیں هے جوسلف صالحین کی خدمات جلیلہ سے خالی هو ، لیکن ان حضرات ائمہ میں سے کسی ایک نے بهی ایک کتاب ورسالہ تودرکنار بلکہ ایک صفحہ بهی کسی کتاب میں نہیں لکها ، جس میں یہ کہا گیا هو کہ اے لوگو دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید واتباع گمراهی هے لہذا ان کے قریب بهی نہ جاو ( معاذالله )
حتی کہ هندوستان میں انگریزی دور میں ایک فرقہ جدید پیدا کیا گیا ، اس فرقہ نے گورنمنٹ سے اپنےلیئے ( اهل حدیث ) کا نام الاٹ کرایا ، اوردیگروساوس کی طرح مذکوره وسوسہ بهی اسی فرقہ نے پهیلایا ،
اور عجیب بات یہ هے کہ عام آدمی کوتو یہ کہتے هیں کہ ائمہ اربعہ اور ان کی فقہ میں اختلاف هے لہذا ان کو چهوڑدو اور فرقہ اهل حدیث میں شامل هوجاو ، اب اس عام جاهل آدمی کو کیا پتہ کہ جس فرقہ نام نہاد اهل حدیث کے اندر میں شامل هورها هوں ان میں آپس میں مسائل وعقائد میں کتنا شدید اختلاف هے ،
فرقہ نام نہاد اهل حدیث کی اندرونی خانہ جنگی پراگرکوئ مطلع هوجائے توان کی اتباع وتقلید تو کجا ان کے قریب بهی نہ پهٹکے گا ، فرقہ نام نہاد اهل حدیث کے مشائخ واکابر کے آپس میں اختلاف پرمبنی مسائل وعقائد اگرمیں ذکرکروں توبات بہت طویل هوجائے گی ، لہذا اگرکوئ آدمی ان کے آپس کی خانہ جنگی اور دست وگریبانی کی ایک جهلک دیکهنا چاهے تودرج ذیل چند کتب کا مطالعہ کرلیں ،
( فتاوی ثنائیه ، فتاوی ستاریه ، فتاوی علماء اهل حدیث ، فتاوی نذیریه ،
عرف الجادی ، نزل الابرار ، فتاوی اهل حدیث ، لغات الحدیث ، فتاوی برکاتیه ،)
وسوسه = الله ورسول نے حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی وغیره بننے کا حکم نہیں دیا لہذا یہ سب
بعد کی پیداوار هیں ان سب کو چهوڑنا ضروری هے
جواب = یہ وسوسہ بهی عام آدمی کوبڑا وزنی معلوم هوتا هے لیکن دراصل یہ وسوسہ بهی باطل هے ، الحمد لله هم اهل سنت والجماعت هیں اور اهل سنت کے چاربڑے مکاتب فکرهیں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، یہ چار مسالک ایک دوسرے کے ساتهہ باهمی محبت ومودت رکهتے هیں ایک دوسرے کے ساتهہ استاذ وشاگرد کی نسبت رکهتے هیں ایک دوسرے کو کافر و مشرک و گمراه نہیں کہتے صرف فروعی مسائل میں دلائل کی بنیاد پراختلاف رکهتے هیں ، اوراصول وعقائد میں اختلاف نہ توصحابہ کے مابین تها اور نہ ائمہ اربعہ کے درمیان ، اور غیرمنصوص مسائل میں ان ائمہ کرام نے اجتهاد کیا اسی وجہ سے فروعی مسائل میں ان ائمہ کرام کے مابین اختلاف موجود هے ، اور یہ اختلاف بمعنی جنگ وفساد نہیں هے جیسا کہ فرقہ جدید اهل حدیث کا پروپیگنڈه هے بلکہ یہ علمی اختلاف دلائل وبراهین کی بنیاد پر هے ، جوکہ امت مرحومہ کے لیئے رحمت هے ، اور پهر یہ فروعی اختلاف صحابہ کرام کے مابین بهی تها ،
اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی سب اهل سنت والجماعت هیں ، اور همارا یہ نام ولقب حدیث سے ثابت هے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے قول باری تعالی {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} کی تفسیر میں فرمایا کہ وه اهل سنت والجماعت هیں
وأخرج الخطيب في رواة مالك والديلمي عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله تعالى {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} قال: "تبيض وجوه أهل السنة، وتسود وجوه أهل البدع".
وأخرج أبو نصر السجزي في الإبانة عن أبي سعيد الخدري "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} قال: تبيض وجوه أهل الجماعات والسنة، وتسود وجوه أهل البدع والأهواء".
وأخرج ابن أبي حاتم وأبو نصر في الإبانة والخطيب في تاريخه واللالكائي في السنة عن ابن عباس في هذه الآية قال {تبيض وجوه وتسود وجوه} قال "تبيض وجوه أهل السنة والجماعة، وتسود وجوه أهل البدع والضلالة.
تو أهل السنة والجماعة هی فرقة ناجیة اور طائفة منصورة هے ، اور جن کی صفت حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان کی کہ وه میرے اور میرے صحابہ کے طریق پرهوں گے ،
اس باب میں وارد شده چند احادیث صحیحہ ملاحظہ کریں
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة أو اثنتين وسبعين فرقة، والنصارى مثل ذلك، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة) قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجه (1/44). وجاء في سنن أبي داود (4/197) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفرقت النصارى على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).
وجاء في صحيح ابن حبان (6247) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).
ان مذکوره بالا احادیث سے تویہ معلوم هوا کہ اس امت میں افتراق ( فرقے ) واقع هوں گے ، لیکن ان روایات میں ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب فرقه ) کی تعیین نہیں کی گئ ، بلکہ دیگر احادیث صحیحہ میں ناجی فرقہ کی تعیین کی گئ هے جودرج ذیل هیں ،
حديث أنس بن مالك رضي الله عنه الذي أخرجه الإمام أحمد حديث رقم (12229) عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (إن بني إسرائيل قد افترقت على اثنتين وسبعين فرقة، وأنتم تفترقون على مثلها، كلها في النار إلا فرقة). اس حدیث سے معلوم هوا کہ ان فرقوں میں سے ایک هی فرقہ کامیاب وناجی هوگا ، اب وه ناجی فرقہ کون سا هے ؟؟
وبيَّن النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الذي أخرجه الطبراني في الكبير (8/152) عـن أبي الدرداء وأبي أمامة وواثلة بن الأسقع وأنس بن مالك أن من شرط الفرقة الناجية: عدم تكفير أحد من أهل القبلة، فقـال: (ذَرُوا المِرَاء،فإن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة، والنصارى على اثنتين وسبعين فرقة، و تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلهم على الضلالة إلا السَّواد الأعظم، قالوا: يا رسول الله ومَن السَّواد الأعظم؟ قال: مَن كان على ما أنا عليه وأصحابي، الخ
قال صلى الله عليه وسلم : " إن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة ، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة ، كلها في النار إلا واحدة " فقيل له : ما الواحدة ؟ قال : " ما أنا عليه اليوم وأصحابي " . حديث حسن أخرجه الترمذي وغيره .
ان مذکوره بالا احادیث سے معلوم هوا کہ ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب جماعت ) وه هے جو حضور صلى الله عليه وسلم کی سنت پرعمل پیرا هوگی
یعنی " أهل السنة " اسی کو حدیث میں " ما أنا عليه " فرمایا ، اور " والجماعة "
یعنی سنت رسول پرعمل کے ساتهہ ساتهہ سنت صحابہ پربهی وه جماعت عمل کرے گی ، اسی کو حدیث میں " وأصحابي " فرمایا
تواس عظیم الشان بشارت کی حامل جماعت ایک هی هے اور وه أهل السنة والجماعة هے ، اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی چاروں مسالک أهل السنة والجماعة اسی اصول پر قائم هیں ، توکامیابی ونجات کا معیار ومیزان سنت رسول اور سنت صحابہ هے ، اب هم اس میزان میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کو پرکهتے هیں تو وه بظاهر سنت پرتو عمل کا دعوی کرتے هیں لیکن ناجی فرقہ کی دوسری صفت یعنی جماعت صحابہ کی اتباع نہیں کرتے ، حتی کہ ان کے هاں صحابی کا قول فعل فہم کوئ حجت ودلیل نہیں هے ، صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اجماعات کی بهی مخالفت کرتے هیں ( مثلا بیس رکعت تراویح ، طلاق ثلثہ ، جمعہ کے دن اذان ثانی وغیره ) اجماعی مسائل میں صحابہ کی مخالفت کرتے هیں ، یہاں سے ایک عاقل آدمی فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حقیقت کومعلوم کرلیتا هے ،
اور پهر فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کسی ایک فرقہ کا نام نہیں هے بلکہ وقت گذرنے کے ساتهہ بیسیوں فرقے اس کی پیٹ سے نکل چکے هیں ،
بطورمثال وعبرت چند بڑے فرقوں کا نام ملاحظہ کریں ،
1 = فرقہ غرباء اهل حدیث
2 = کانفرنس اهل حدیث ( ۱۳۲۸ هہ )
3 = امیرشریعت صوبہ بہار ( ۱۳۳۹ هہ )
4 = فرقہ ثنائیه ( ۱۹۳۹ هہ )
5 = فرقہ عطائیه ( ۱۹۲۹ هہ )
6 = فرقہ شریفیه ( ۱۳۴۹ هہ )
7 = فرقہ غزنویه ( ۱۳۵۳ هہ )
8 = جمیعت اهل حدیث ( ۱۳۷۰ هہ )
9 = انتخاب مولوی محی الدین ( ۱۳۷۸ هہ )
10 = جماعت المسلمین
پهران فرقوں کا آپس میں اختلاف مسائل وعقائد اتنا زیاده هے کہ آدمی حیران وپریشان ره جاتا هے ، ایک دوسرے پرکفروشرک کے فتوے بهی لگائے ،
لیکن ایک عام آدمی کو چونکہ اس فتنہ کی حقیقت کا علم نہیں هوتا ، لہذا وه بہت جلد ان کے وساوس سے متاثرهوجاتا هے ، اگراس کو ان کے اندر کے فرقوں اور آپس میں دینگہ مشتی کا حال معلوم هوجائے توکبهی ان کے قریب بهی نہ جائے ۰
وسوسه = فقہ تابعین کے دور کے بعد ایجاد هوئ لہذا اس کو چهوڑنا ضروری هے اور قرآن وحدیث پرعمل کرنا چائیے نہ کہ فقہ پر
جواب = حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب ( اعلام الموقعین ) میں یہ تصریح کی هے کہ بڑے فقہاء صحابہ کرام کی تعداد تقریبا ( 130) کے لگ بهگ هے ، اور اسی طرح دیگر ائمہ نے بهی فقہاء صحابہ کرام کی تعداد اور ان کے علمی وفقہی کارناموں پر مفصل بحث کی هے ، یہاں تفصیل کا موقع نہیں هے ، عرض یہ کرنا هے کہ فقہ اور فقہاء جماعت صحابہ کرام میں بهی موجود تهے، هاں یہ بات ضرور هے کہ " علم فقه " کی جمع وتدوین کتابی شکل میں بعد میں هوئ هے ، اور اس سے " علم فقه " کی فضیلت واهمیت پرکوئ فرق نہیں پڑتا ،
حتی کہ " علم حدیث " کی جمع وتدوین کتابی شکل میں " علم فقه " کے بهی بعد هوئ هے ، اگر " علم فقه " کو اس وجہ سے چهوڑنا هے کہ یہ عهد صحابہ کے بعد لکهی گئ هے تو پهر " علم حدیث " کا کیا بنے گا صحاح ستہ وغیره کتب حدیث تو بہت بعد میں لکهی گئ هیں ،
فقہ کی فضیلت اور تحصیل کے بارے بہت سارے نصوص وارد هوئے هیں ،بلکہ هرایک نص شرعي جس میں علم کی فضیلت وارد هوئ هے فقہ اس میں داخل هے ، الله تعالی کا ارشاد مبارک هے ﴿ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴾ اس آیت مبارکہ میں الله تعالی نے یہ حکم فرمایا کہ مومنین میں ایک جماعت ایسی بهی هو جو " تفقه فی الدین " حاصل کرے ، اورانذار اور دعوت کا فریضہ انجام دیں ، اور یہ انبیاء عليهم السلام کا وظیفہ هے ،
" وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ "
اور تاکہ وه ڈرائیں اپنی قوم کو جب وه لوٹ جائیں ان کی طرف تاکہ وه ڈرجائیں ،
اس سے معلوم هوا کہ وه جماعت جو " تفقه فی الدین " حاصل کرکے اپنی قوم کے پاس جائیں گے توقوم ان کی اتباع وتقلید کرے گی ،
اسی طرح حدیث صحیح میں هے
" من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين "
الله تعالی جس شخص کے ساتهہ بهلائ کا اراده فرماتے هیں تو اس کو " تفقه فی الدین " کی دولت عطا کرتے هیں ،اس حدیث سے " تفقه فی الدین " کا مرتبہ وفضیلت بالکل ظاهر هے ،کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فقہ کی طلب وتحصیل کو الله تعالی کی طرف سے بنده کے ساتهہ خیر وبهلائ کے اراده کی علامت قراردیا ،حدثنا سعيد بن عفير قال حدثنا ابن وهب عن يونس عن ابن شهاب قال قال حميد بن عبد الرحمن سمعت معاوية خطيبا يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين وإنما أنا قاسم والله يعطي ولن تزال هذه الأمة قائمة على أمر الله لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله ،
( صحيح البخاري ومسلم واللفظ للبخاری )
اسی طرح ایک حدیث میں هے
" فقيه أشد على الشيطان من ألف عابد "
ایک فقیه شیطان پر هزار عابد سے زیاده بهاری هے
امام ترمذی نے اس حدیث پراس طرح باب قائم کیا هے
» كتاب العلم » باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة
حدثنا محمد بن إسمعيل حدثنا إبراهيم بن موسى أخبرنا الوليد بن مسلم حدثنا روح بن جناح عن مجاهد عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيه أشد على الشيطان من ألف عابد ،
اور ابن ماجه کی رواية میں هے " فقيه واحد أشد على الشيطان من ألف عابد "
اس حدیث سے یہ بهی معلوم هوا کہ شیطان کو " فقیه اور فقهاء " سے بہت بڑی چڑ هے شیطان کو " فقیه اور فقهاء " کے وجود سے بڑی تکلیف هوتی هے ،
اور آج فرقہ نام نہاد اهل حدیث " فقہ اور فقهاء " کے ساتهہ دشمنی کرکے کس کی راه پرچل رهے هیں ؟؟ جواب اس حدیث کی روشنی میں بالکل واضح هے ،
اورحضرت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما کے لیئے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے اس طرح دعا فرمائ ( اللهم فقهه في الدين ، وعلمه التأويل )
لہذا مذکوره بالا تفصیل سے معلوم هوا کہ " فقہ " کے متعلق یہ کہنا کہ یہ کوئ چیز نہیں هے ، بالکل باطل ومردود وسوسہ هے
اور اس سے یہ وسوسہ بهی خود بخود باطل هوگیا کہ " فقہ " تابعین کے دور کے بعد ایجاد هوئ هے
وسوسه = کیا قرآن وحدیث کو چار اماموں کے علاوه کسی نے نہیں سمجها
کیا قرآن کے مخاطب یہ چار هی هیں انهیں کی فہم کا اعتبارهے انهیں کا " فقه " واجب العمل کیوں هے ؟؟ حالانکہ قرآن مجید میں صاف مذکور هے
" ولقد يَسّرنا القرآن للذكرفهل من مُدكر " بے شک هم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیئے آسان کردیا کیا هے کوئ نصیحت حاصل کرنے والا ؟
پهر فقہ اور فقهاء کی تقلید اگرشرک نہیں تواور کیا هے ؟؟
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی ایک جاهل آدمی بہت جلد قبول کرلیتا هے ، لیکن اس وسوسہ کے جواب میں عرض هے کہ آیت مذکور کا اگریہ مطلب هے کہ قرآن سمجهنے کے لیئے کسی استاذ ومعلم ومفسر کی ضرورت نہیں هے ، اور هربنده خود کامل هے تو پهر " فقه " کے ساتهہ حدیث بهی جاتی هے ، اور اگرقرآن کے ساتهہ اس کےآسان هونے کے باوجود کتب احادیث صحاح ستہ اور ان کے شروح وحواشی کی بهی ضرورت هے ، توپهرکتب " فقه " کا بهی دین سے خارج هونا بڑا مشکل هے ، اگرفہم قرآن کے لیئے حدیث کی ضرورت هے تو فہم حدیث کے لیئے" فقه " کی ضرورت هے ، اگرقرآن سمجهنے کے لیئے حضور صلی الله علیہ وسلم کی ضرورت هے ، تو آپ کی حدیث سمجهنے کے لیئے آپ کے خاص شاگرد صحابہ کرام اور ان کے شاگرد تابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم کی ضرورت هے ، اگرحدیث قرآن کی تفسیر هے تو " فقه " حدیث کی شرح هے ، اور فقہاء کرام نے دین میں کوئ تغیر تبدل نہیں کیا بلکہ دلائل شرعیہ کی روشنی احکامات ومسائل مستنبط ( نکال ) کرکے همارے سامنے رکهہ دیئے ، جو کام همیں خود کرنا تها اور هم اس کے لائق و اهل نہ تهے وه انهوں نے هماری طرف سے همارے لیئے کردیا " فجزاهم الله عنا خیرالجزاء " یہ فقہاء امت توشکریہ وتعریف کے قابل هیں نہ کہ مذمت کے ،
اور جمیع امت نے فقہاء کرام کے عظیم الشان کارناموں کی تعریف وتوصیف کی هے اور ان کو دین شناس اور امت مسلمہ کاعظیم محسن ومحافظ قرار دیا هے ،
اور اگلے پچهلے عوام وخواص سب ان کی تعریف وعظمت میں رطب اللسان هیں ،اور منکرین حدیث اورنیچریوں اور قادیانی امت نے یہ دعوی کیا کہ فہم قرآن کے حدیث کی ضرورت نہیں هے تو اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ دین کو ایک بے معنی چیز اور کهیل تماشہ بنا دیا ، کیونکہ ان گمراه لوگوں نےهرکس وناکس کو اختیاردے دیا کہ قرآن کے جو معنی خود سمجهو بیان کرو ،
اسی طرح حدیث کے ساتهہ اگر " فقه " اور اقوال فقہاء اور فہم سلف کی ضرورت نہ هوتو پهر حدیث کا بهی وهی حال هوگا جو منکرین حدیث ،نیچریوں ، اور قادیانیوں وغیره گمراه لوگوں نے قرآن کے ساتهہ کیا ، جس کا جو جی چاهے گا حدیث کا معنی بیان کرے گا ، اور جب حدیث کا معنی غلط هوگا تو قرآن کا معنی کس طرح صحیح ره سکتا هے ، نتیجہ کیا نکلے گا گمراهی اور تباهی بربادی ( نعوذ بالله )
بدقسمتی سے هندوستان میں پیدا شده نومولود نام نہاد فرقہ اهل حدیث نے جہاں دیگر وساوس کا سہارا لے عوام کو دین سے برگشتہ کیا وهاں یہ وسوسہ بهی بڑے زور وشور سے پهیلایا کہ " فقه " قرآن وحدیث کے مخالف چیز کا نام هے ، اور فقہ وفقہاء کی اتباع شرک وبدعت هے ،
اورآج هم مشاهده کر رهے هیں کہ نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء جن کوجاهل عوام شیخ وامام کا درجہ دیتے هیں ، انهی وساوس کے ذریعہ سے عوام کو گمراه کر رهے هیں اور عوام کو سلف صالحین کی اتباع سے نکال کر اپنی اتباع وتقلید میں ڈال رهے هیں ۰
فالی الله المشکی وهوالمُستعان ۰
وسوسه = جب امام ابوحنیفہ نہیں تهے تو حنفی مقلد کہاں تهے ؟
چاروں مذاهب کے پیروکار اپنے اماموں پرجاکر دم توڑتے هیں ۰
جواب = اس وسوسہ کا الزامی جواب تو یہ هے کہ جب ائمہ حدیث امام بخاری ،امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداود ، امام نسائ ، امام ابن ماجہ وغیرهم نہیں تهے اور نہ ان کی کتابیں تهیں ، تو اس وقت اهل اسلام حدیث کی کن کتابوں پر عمل کرتے تهے ؟؟ اور آج کل کے نام نہاد اهل حدیث کہاں تهے ؟؟
کیونکہ فرقہ نام نہاد اهل حدیث ( 1888 ء ) میں معرض وجود میں آیا ، اور اگرچہ بعض نام نہاد اهل حدیث نے اپنا رشتہ ناطہ حقیقی ( اهل الحدیث ) یعنی محدثین کرام کے ساتهہ جوڑنے کی ناکام کوشش کی هے ، محدثین کرام اور ائمہ اسلام کی کتب میں جہاں کہیں بهی " اهل الحدیث " کا لفظ دیکها تو اپنے اوپر چسپاں کردیا ، ان جهوٹے دعاوی سے ایک جاهل ناواقف شخص کو تو خوش کیا جاسکتا هے ، لیکن اصحاب علم ونظر کے سامنے ان پرفریب دعاوی کی کوئ حیثیت نہیں هے ،
لہذا فرقہ نام نہاد اهل حدیث کا تعلق ( اهل الحدیث ) یعنی حقیقی ائمہ حدیث اورمحدثین کرام کے ساتهہ ذره برابر بهی نہیں هے ،
اور اگر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، اپنے ائمہ پرجاکردم توڑتے هیں تویہ کوئ نقص وعیب کی بات نہیں هے کیونکہ یہ سب ائمہ کرام ائمہ حق وهُدی هیں ،
خیرالقرون کی شخصیات هیں ، جمیع امت ان ائمہ کرام کی امامت وصداقت وجلالت وثقاهت پرمتفق هے ، اور بالخصوص امام اعظم ابوحنیفہ بالاتفاق تابعیت کے عظیم شرف سے متصف هیں ، صحابہ کرام کے شاگرد هیں ، اور بقول امام سیوطی ودیگرائمہ کہ امام اعظم ابوحنیفہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیشن گوئ کا مصداق هیں ، اورالحمد لله دین میں هماری سند دو واسطے سے
حضورصلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی هے ، کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ تابعی هیں اور تابعی صحابہ کا شاگرد هوتا هے اور صحابہ حضورصلی الله علیہ وسلم کے براه راست بلا واسطہ شاگرد هیں ، الحمد لله همیں اس نسبت اور سند پرفخر هے ، لیکن دوسری طرف فرقہ نام نہاد اهل حدیث جو کہ بالاتفاق هندوستان میں انگریزی دور میں پیدا کی گئ ، پوری تاریخ اسلام میں کسی بهی جگہ فرقہ نام نہاد اهل حدیث کا تذکره کہیں نہیں ملتا ، آپ تاریخ اسلام یا تاریخ فِرق پر کوئ بهی کتاب اٹهالیں کہیں بهی ان کا نام ونشان تک نہیں ملتا ، ان کا سلسلہ انگریزی دور سے چلتا هے حتی کہ صرف هندوستان کی تاریخ پڑهہ لیں کہ سینکڑوں سال تک زمام اقتدار مسلمانوں کے هاتهہ میں رها مثلا مسلمان حکمرانوں میں مغل ، غوری ، تغلق ، لودهی ، خلجی وغیره ایک طویل زمانہ تک هندوستان پرحکمرانی کرتے رهے لیکن ان سب ادوار میں فرقہ نام نہاد اهل حدیث بالکل نظرنہیں آتا ، اور جو حضرات اس فرقہ میں حدیث کی سند بهی رکهتے هیں تو وه بهی میاں نذیرحسین دهلوی سے آگے صرف اورصرف فرقہ نام نہاد اهل حدیث اورغیرمقلدین کے واسطہ سے اصحاب صحاح ستہ تک نہیں پہنچتا ،
بلکہ میاں نذیرحسین دهلوی کے بعد امام بخاری امام مسلم وغیره تک ان کا سلسلہ سند حنفی وشافعی مقلدین کے واسطہ سے پہنچتا هے ،
اب همارا سوال یہ هے کہ رات دن یہ لوگ یہ تکرار کرتے رهتے هیں کہ تقلید شرک وجهالت هے اور مقلد مشرک وجاهل هوتا هے ، اگرتم اپنے اس قول میں سچے هو تو امام بخاری یا کسی بهی امام حدیث تک اپنی ایک ضعیف سند بهی ایسی دکها دو جس میں اول تا آخر سب کے غیرمقلد اور تمہاری طرح نظریات کے حامل افراد شامل هوں ؟؟
قیامت تک یہ لوگ ایسی سند نہیں دکها سکتے ، بس عوام الناس کودهوکہ دینے کے لیئے مختلف قسم کے حیلے بہانے تراشے هوئے هیں ،
مشہور غیرمقلد عالم مولانا ابراهیم میر سیالکوٹی نے اپنی کتاب ( تاریخ اهل حدیث ) حصہ سوم پریہ عنوان قائم کیا هے
هندوستان میں علم وعمل بالحدیث
اور اس کے تحت یہ نام ذکرکیئے هیں
1 = شيخ رضي الدين لاهوري
2 = علامه مُتقي جونبوري
3 = علامه طاهر گجراتي
4 = شيخ عبدالحق محدث دهلوي
5 = شيخ احمد سرهندي
6 = شيخ نورالدين
7 = سيد مبارك بلگرامي
8 = شيخ نورالدين احمد آبادي
9 = ميرعبدالجليل بلگرامي
10 = حاجي محمد افضل سيالكو ٹي
11 = شيخ مرزا مظهر جان جاناں
12 = شيخ الشاه ولي الله
13 = شيخ الشاه عبدالعزيز
14 = شيخ الشاه رفيع الدين
15 = شيخ الشاه عبدالقادر
16 = شيخ الشاه اسماعيل الشهيد
17 = شيخ الشاه محمد اسحق
( رحـمهم الله تـعـالى اجمعين )
( ص 387 تا 424 ، ملخصا )
( ذالك فضل الله يوتيه من يشاء )
الحمدلله یہ سب کے سب حضرات حنفی المسلک تهے جن کی بدولت بقول مولانا ابراهیم میر سیالکوٹی هندوستان میں حدیث کا علم اور عمل پهیلا اور انهی حضرات محدثین کی اتباع سے لوگوں نے حدیث وسنت کا علم حاصل کیا ،
جیسا کہ میں نے اوپرعرض کیا کہ یہ لوگ عوام کے سامنے تو رات دن یہ راگ الاپتے رهتے هیں کہ مقلد مشرک وجاهل هوتا هے لیکن حقیقت میں قیامت تک اس اصول و موقف کو اپنا نہیں سکتے کیونکہ دنیا میں کوئ ایسی حدیث کی سند ان کو نہیں مل سکتی جس میں سب کےسب ان کی طرح غیرمقلد هوں ، بلکہ تمام اسناد اصحاب صحاح ستہ وغیرهم ائمہ تک مقلدین علماء کے واسطہ سے پہنچتی هیں ، اور بقول ان کے مقلد مشرک وجاهل هوتا هے تو حدیث جو همارا دین هے ، یہ لوگ مشرک وجاهل لوگوں کے واسطوں سے لیتے هیں ، ( معاذالله )
الله تعالی ان کو صحیح سمجهہ دے ۰
وسوسه = قرآن وحدیث سے ابوحنیفہ کی تقلید پردلیل دو
جواب = اس وسوسہ کا الزامی جواب یہ هے کہ تم بخاری ومسلم کی اور صحاح ستہ کی تقلید اورحجیت پرقرآن وسنت سے دلیل دو ؟؟
اگر اس سوال کا جواب یہ هے کہ امام بخاری ومسلم وغیره نے تو احادیث هی جمع کی هیں اپنی طرف سے تو کوئ بات نہیں لکهی ، تو هم کہتے هیں کہ امام ابوحنیفہ نے بهی اپنی طرف سے کوئ بات نہیں لکهی بلکہ قرآن وحدیث کی تشریح هی لکهی اور پیش کی هے ،
اور امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ مجتهدین کی تقلید واتباع پر بے شمار دلائل هیں ،
ان میں سے ایک اهم دلیل " اجماع امت " هے ، اور امت محمدیہ کا اجماع کبهی گمراهی پر نہیں هوسکتا ،
(( تقلید اور اس سے متعلق تمام تفاصیل کے لیئے دیکهیئے شیخ الحدیث والتفسیر حضرت العلامہ سرفراز خان صفدر رحمہ الله کی کتاب " الکلامُ المُفید " تعصب وضد کی عینک اتار کر کوئ بهی نام نہاد غیرمقلد اس کتاب کوپڑهے گا تو اس کی اصلاح هوجائے گی ))
وسوسه = تقلید شرک اور جہالت کا نام هے
جواب = یہ باطل وسوسہ عوام میں بہت مشہور کردیا گیا هے ، اور عوام کے ذهن میں یہ ڈال دیا گیا کہ مقلد آدمی الله ورسول کے حکم کے مقابلہ میں اپنے امام کی بات کوترجیح دیتا هے ، اور پهر تقلید کی حُرمت پر قرآن کی وه آیات سنائ جاتی هیں جن میں مشرکین کی مذمت بیان کی گئ هے جو اپنے مشرک وگمراه آباء واجداد کے دین وطریقہ کو نہیں چهوڑتے تهے ، اور کہا جاتا هے کہ تقلید کا معنی هے جانور کے گلے میں پٹہ ڈالنا لہذا ایک مقلد آدمی اپنے امام کا پٹہ گلے میں ڈال دیتا هے ، غرض اس طرح کے بہت سارے وساوس تقلید سے متعلق عوام میں مشہور کیئے گئے هیں ،
تقلید کی حقیقت
خوب یاد رکهیں کہ تقلید " نعوذبالله " الله تعالی کے حکم اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے سنت کے مقابل ومخالف چیز کا نام نہیں هے ، جیسا کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نے عوام گو گمراه کرنے کے لیئے مشہور کیا هے ،
بلکہ " تقلید " کی حقیقت صرف اور صرف یہ هے کہ ائمہ مجتهدین نے قرآن مجید اور احادیث نبویه اور آثار صحابه سے جو مسائل استنباط ( نکالے ) کیئے هیں ان کو تسلیم کرلینا هی " تقلید " هے ،
کیونکہ علماء امت نے " تقلید " کی تعریف اس طرح کی هے کہ
فروعی مسائل فقہیہ میں غیر مجتهد ( مُقلد ) کا مجتهد کے قول کو تسلیم کرلینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا اس اعتماد پر کہ اس مجتهد کے پاس اس قول کی دلیل موجود هے ،
مثال کے طور پر " تقلید " کی اس تعریف کی روشنی میں آپ مذاهب اربعہ کی فقہ کی کوئ بهی مستند کتاب اٹهالیں هر مسئلہ کے ساتهہ دلیل موجود هے ،
فقہ حنفی کی مشہور کتاب " هدایه " اٹهالیں هر فقہی مسئلہ کے ساتهہ دلائل شرعیه (یعنی کتاب الله ، سنت رسول الله ، اجماع امت ، قیاس شرعی ) میں سے کوئ دلیل ضرور موجود هے ،
کیا اس عمل کا نام شرک وجہالت هے ؟؟ ( نعوذبالله )
حاصل یہ کہ همارے نزدیک ایک عامی آدمی کا اهل علم کی اتباع وراهنمائ میں دین پرعمل کرنا " تقلید " هے ، اور یہی حکم وتعلیم قرآن نے همیں دیا هے
* لقوله تعالى : " فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون "{سورة النحل 43}
الله تعالی نے اس آیت میں یہ حکم دیا هے کہ اگر تمہیں علم نہ تو اهل علم سے پوچهو ، اور امام اعظم ابوحنیفہ امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم الله اهل علم هیں ، اور ان حضرات کی علمیت امامت وجلالت پرامت کا اجماع هے ، ان حضرات ائمہ کے اقوال واجتهادات کتابی صورت میں همارے پاس موجود ومحفوظ هیں ، اوران حضرات ائمہ کے مذاهب کے ماهر علماء آج بهی موجود هیں اور ان شاء الله قیامت تک موجود رهیں گے ،
اب هم اس آیت مبارکہ کے امرالہی ( فاسألوا أهل الذكر ) کی تعمیل میں امام اعظم ابوحنیفہ کی راهنمائ حاصل کرتے هیں ، اب همارے اس طرز عمل کو اگر کوئ جاهل شرک وبدعت کہے تو کہتا رهے ،
اهل علم سے سوال یعنی ان کی تقلید واتباع کی اهمیت پر ایک حدیث نقل کرتا هوں ، ابن عباس رضي الله عنهما کی روایت هے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں ایک شخص زخمی هوگیا پهر اس کو احتلام هوگیا ( یعنی غسل پرفرض هوگیا ) تو اس کو ( ساتهیوں کی طرف سے ) غسل کا حکم دیا گیا ، لہذا اس نے غسل کیا اور فوت هوگیا ، جب رسول الله صلى الله عليه وسلم کو یہ خبرپہنچی تو آپ نے فرمایا ( قتلوه قتلهم الله ) یعنی انهیں لوگوں نے اس کو مارا الله ان کو بهی مارے ، کیا جاهل وعاجز کی شفاء سوال میں نہیں هے ؟ ۰ یعنی جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تها تو انهوں نے کسی عالم سے کیوں نہیں پوچها ،
وعن ابن عباس رضي الله عنهما: أن رجلاً أصابه جرح على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم أصابه احتلام فأمر بالاغتسال، فقُرّ فمات ،فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "قتلوه قتلهم الله ! ألم يكن شفاء العِيّ السؤال؟
(( رواه الإمام أحمد والبخاري (التاريخ الكبير) وأبو داود وابن ماجة والحاكم والبيهقي والدارقطني وأبو يعلى والطبراني (الكبير) وأبو نعيم وابن عساكر
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم هوا کہ جہاں هم نے دین میں حقیقی
اورمستند اهل علم کی رجوع کرنا هے جوکہ ائمہ اربعہ اور دیگرائمہ مجتهدین هیں ، وهاں اهل جهل نام نہاد اهل حدیث سے بهی بچنا هے کیونکہ جاهل کے حکم وفتوی پرعمل گمراهی وتباهی هے ، اور حدیث میں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ان لوگوں کو بد دعا دی جنهوں نے بغیر علم کے مسئلہ بتایا اور اهل علم کی طرف رجوع نہیں کیا ،
آج فرقہ اهل حدیث میں شامل نام نہاد شیوخ نے ائمہ اربعہ کی اتباع وتقلید کو شرک و جہالت کہ کر عوام الناس کودین آزاد کردیا هے ، اور هرجاهل مجهول کو شیخ کا لقب دے دیا گیا جو کہ ( ضلوا فآضلوا ) کی کامل تصویر بنے هوئے هیں ، اس کے باوجود نام اهل حدیث اور سلفی رکها هوا هے ، جب کہ سلف کی سیرت پڑهو اور ان نام نہاد اهل حدیث اور سلفیوں کے کرتوت دیکهو تو واضح هوجاتا هے سلف کے سب بڑے دشمن یہی لوگ هیں ۰
تـرک تـقلید کا فـتنہ لادینیت پرجـاکـردم توڑتا هے
گذشتہ سطور میں نے عرض کیا کہ فرقہ نام نہاد اهل حدیث نے عوام الناس کودین میں آزاد بنانے کے لیئے " تقلید سلف " کے خلاف بہت سارے وساوس پهیلائے هوئے هیں ، اور میرے اس موضوع کا مقصد بهی ان کے مشہور وساوس کی نشاندهی اور اس کا رد کرنا هے ، کیونکہ ایک ناواقف آدمی لاعلمی کی بنا پر ان کے وساوس کو قبول کرلیتا هے ، اور اکثر لوگ جو بے راه هوئے هیں اسی طرح کے مختلف وساوس وکذبات سن کر یا دیکهہ کر راه حق دور هٹے هیں، خوب یاد رکهیں لامذهبیت اور غیرمقلدیت کی اس تحریک کی پیٹ سے بے شمار فتنوں نے جنم لیا ، اور هند و پاک کے تمام گمراه لوگ اور جماعتیں اسی تـرک تـقلید اور غیرمقلدیت کے چور دروازے سے نکلے هیں ،
تقلید واجتهاد کی حقیقت
دین میں کچهہ باتیں تو بہت آسان هوتی هیں جن کے جاننے سب خاص وعام برابر هیں ، جیسے وه تمام چیزیں جن پرایمان لانا ضروری هے یا مثلا وه احکام جن کی فرضیت کو سب جانتے هیں ، چنانچہ هر ایک کو معلوم هے کہ نماز ، روزه ، حج ، زکوه ، ارکان اسلام میں داخل هیں ، لیکن بہت سارے مسائل ایسے هیں جن کو اهل علم قرآن وحدیث میں خوب غور وخوض کے بعد سمجهتے هیں ، اور پهر ان علماء کے لیئے بهی یہ مسائل سمجهنے کے لیئے شرعی طور پر ایک خاص علمی استعداد کی ضرورت هے ، جس کا بیان اصول فقہ کی کتابوں میں بالتفصیل مذکور هے ، بغیر اس خاص علمی استعداد کے کسی عالم کو بهی یہ حق نہیں هے کہ کسی مشکل آیت کی تفسیر کرے ، یاکوئ مسئلہ قرآن وحدیث سے نکالے ، اور جس عالم میں یہ استعداد هوتی هے اس کو اصطلاح شرع میں
" مجتهد " کہا جاتا هے ، اور اجتهاد کے لیئے بہت سارے سخت ترین شرائط هیں ، ایسا نہیں هے جیسا کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نے هر کس وناکس کو اجتهاد کا تاج پہنایا هوا هے ، لہذا عامی شخص کو یہ حکم هے کہ وه مجتهد کی طرف رجوع کرے ، اور مجتهد کا فرض هے کہ وه جو مسئلہ بهی بیان کرے کتاب وسنت میں خوب غور وخوض اور کامل سعی وتلاش کرکے اولا اس مسئلہ کو سمجهے پهر دلیل کے ساتهہ اس پر فتوی دے ،
اجتہاد وفتوی کا یہ سلسلہ عهد نبوی سے شروع هوا ، بہت سے صحابہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی اجازت سے فتوی دیا کرتے اور سب لوگ ان کے فتوی کے مطابق عمل کرتے ، صحابہ وتابعین کے دور میں یہ سلسلہ قائم رها ، هر شہر کا مجتهد ومفتی مسائل بیان کرتے اور اس شہر کے لوگ انهی کے فتوی کے مطابق دین پر عمل کرتے، پهر تبع تابعین کے دور میں ائمہ مجتهدین نے کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے فتاوی کو سامنے رکهہ کر زندگی کے هر شعبہ میں تفصیلی احکام ومسائل مرتب ومدون کیئے ، ان ائمہ میں اولیت کا شرف امام اعظم ابوحنیفہ کوحاصل هے اور ان کے بعد دیگر ائمہ هیں ،
چونکہ ائمہ اربعہ نے زندگی میں پیش آنے والے اکثر وبیشتر مسائل کو جمع کردیا ، اور ساتهہ هی وه اصول وقواعد بهی بیان کردیئے جن کی روشنی میں یہ احکام مرتب کیئے گئے هیں ، اسی لیئے پورے عالم اسلام میں تمام قاضی ومفتیان انہی مسائل کے مطابق فتوی وفیصلہ کرتے رهے اور یہ سلسلہ دوسری صدی سے لے کر آج تک قائم ودائم هے ،
انکار تقلید کی ابتداء اورانجام
هندوستان میں جب انگریزی عمل داری شروع هوئ تو اس زمانہ میں کچهہ لوگوں کوکهڑا کیا گیا ، ان لوگوں نے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ اگلوں کے فتاوی پر چلنے کی کوئ ضرورت اور ان کی تقلید تو شرک هے همیں تو خود هی قرآن وحدیث سے مسائل نکالنے هیں ، ان کو لوگوں نے اپنا نام " اهل حدیث یا غیر مقلد " رکها ، اگرچہ بعد میں مختلف اوقات وادوار میں یہ لوگ اپنا نام بدلتے رهے ، لیکن " اهل حدیث یا غیر مقلد " کے نام سے یہ لوگ زیاده مشہور هوئے ،اگرچہ حقیقت میں یہ لوگ بهی مقلد هی هیں ، لہذا اس ترک تقلید کا نتیجہ یہ هوا کہ هندوستان میں دین کے اندر فتنوں کے دروازے کهل گئے ، هر شخص مجتهد بن بیٹها ، سب سے پہلے سر سید احمد خان نے اس راه میں قدم رکها تقلید سے منہ موڑنے کے بعد "غیر مقلد " بنا پهر ترقی کرکے " نیچریت " پر معاملہ جاپہنچا ، ظاهر هے کہ جب فقہاء کرام کی تقلید واتباع حرام ٹهہری تو پهر دین پرعمل کس کی تشریح وتعلیم کے مطابق هوگا ؟؟ ظاهر هے اس کے بعد تو نفس وشیطان هی باقی ره جاتا هے ، یہی حال مرزا غلام قادیانی کذاب ودجال کا هوا تقلید سے منہ موڑنے کے بعد "غیر مقلد " بنا پهر " غیر مقلدیت " میں ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچا ، اسی طرح " انکارتقلید " نے هی انکار حدیث کا دروازه بهی کهولا چنانچہ اسلم جیراج پوری کے والد مولوی سلامت الله غیر مقلد تهے ، اسلم جیراج پوری پہلے "غیر مقلد " بنا پهر اپنے باپ سے بهی ایک قدم بڑهایا اور انکارحدیث کا سب سے بڑا داعی بن گیا ، اسی طرح خاکسارتحریک کا بانی عبدالله چکڑالوی پہلے "غیر مقلد " بنا پهر انکار حدیث کا داعی بنا ، اس کے بعد مرزا قادیانی کا هم نام غلام احمد پرویز پہلے "غیر مقلد " بنا پهر اسی چور دروازے سے ترقی کرتے کرتے گذشتہ تمام گمراه لوگوں کو مات دے گیا ، اور انکارحدیث کا جهنڈا اٹهایا اور ساری عمر حدیث وسنت کے خلاف اپنے زبان وقلم سے مذاق اڑاتا رها ، اور انکارحدیث کی تحریک کو گمراهی کے انتہائ حدوں تک پہنچادیا ، اسی طرحابوالاعلی مودودی بهی اسی چور دروازے سے پہلے نکلا پهر اپنے قلم سے جو کچهہ گمراهیاں پهیلاتا رها وه کسی سے مخفی نہیں هیں ، اسی طرح آج کل" الهدی انٹرنیشنل " کے نام سے ایک فتنہ بڑهتا چلا جارها هے ، جس نے عورتوں کو گمراه کرنے کی ذمہ داری اٹهائ هے ، یہ فتنہ بهی " ترک تقلید "کی پیداوار هے ،
اسی طرح کے اورجتنے بهی فتنے هیں سب " انکار تقلید " کے شاخسانے هیں ،
پہلے آدمی تقلید ائمہ سے منکرهوتا هے پهر غیرمقلد بنتا هے پهر بدزبانی بدگمانی اور خودرائ اور دین میں آزادی اس کو گمراهی کے گڑهے میں ڈال دیتی هے ، تاریخ شاهد هے کہ جب سے مذاهب اربعہ کا جمع وتدوین هوا تمام عوام وخواص نے ائمہ اربعہ کی راهنمائ میں دین پرعمل کرتے رهے ، اور نئے نئے فرقے پیدا هونا بند هوگئے ، اور جب سے تقلید واتباع سلف کا بند ٹوٹا هے لامذهبی اور دینی آزادی کا دور دوره هوگیا ، هرطرف سے نئے نئے فتنے سر اٹهانے لگے اور آج ان فتنوں کی تعداد اتنی زیاده هے کہ شمارکرنا مشکل هے ، اور یہ سب فتنے " غیرمقلدیت " کی پیٹ سے هی نکلے هیں اور نکلتے چلے جارهے هیں ،
الله تعالی اپنے فضل وکرم سے فتنوں کے اس دروازے کوبند کردے ۰
وسوسه = فقہ حنفی اور حدیث میں ٹکراو هے اب عمل کس پرکرنا چائیے ؟
حدیث محمد رسول الله کی هے اور فقہ اماموں کی بنائ هوئ هے ۰
جواب = یہ بہت پرانا وسوسہ اور جهوٹ هے جس کو فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جہلاء نقل در نقل چلے آ رهے هیں ، اور اس وسوسہ کے ذریعہ عوام کو بآسانی بے راه کرلیتے هیں ، اس وسوسہ کے استعمال کا طریقہ یہ هوتا هے کہ کسی مسئلہ میں اگر مختلف احادیث وارد هوئ هوں اور فقہ حنفی کا کوئ مسئلہ بظاهر کسی حدیث کے خلاف نظرآتا هو تو یہ حضرات اس کو بڑے زور وشور سے بار بار بیان کرتے هیں ، لمبے چوڑے بیانات وتقریریں کرتے هیں ،اور اس پر کتابچے اور رسائل لکهتے هیں اور فقہ حنفی کو حدیث کے مخالف ثابت کرنے کی ناکام ونامراد کوشش کرتے هیں ،
اور اس طرح ان وساوس کی ترویج وتشہیر کی کوشش کرتے هیں ، حالانکہ اس فقہی مسئلہ کے موافق حدیث ودلیل بهی هوتی هے لیکن یہ اس کوچهپا دیتے هیں اس کا بالکل ذکرهی نہیں کرتے ، اور اگرکوئ اس فقہی مسئلہ کے موافق حدیث ودلیل ذکر کربهی دے تو اس پر " ضعیف یا موضوع " کا لیبل لگا دیتے هیں ،
اب ایک عام آدمی کو فقہی مسائل اوراحادیث کے علوم کی کیا خبرهے ، خود فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے ان نام نہاد شیوخ کو کچهہ پتہ نہیں لیکن بس " اندهوں میں کانا راجہ " والی بات هے ، لہذا اگر یہ وسوسہ وه قبول کرلے توپهر صرف یہی نہیں کہ وه فقہ حنفی کی مخالفت پرکمربستہ هوجاتا هے بلکہ اپنی گذشتہ زندگی پر توبہ واستغفار بهی کرتا هے ،
اور اپنے زعم میں بہت خوش هوتا هے کہ الحمد لله اب میں توحید وسنت کی دولت سے مالا مال هوگیا هوں ، اب مجهے صراط مستقیم مل گیا هے ، حالانکہ اس جاهل کو کیا پتہ کہ جس وسوسہ کی بنا پر میں " مذهب جدید فرقہ اهل حدیث یا غیرمقلدیت " قبول کر رها هوں یہ کوئ مذهب نہیں هے ، یہ تو انگریز کی سیاسی ضرورت تهی جس کو چند خوش نما نعروں کے ساتهہ هندوستان میں وجود میں لایا گیا ، جیسا کہ قادیانیت ، پرویزیت ، نیچریت ، خاکساریت ، بریلویت ، غیرمقلدیت ، سب استعمار اور اعداء اسلام کی حاجت وضرورت کا دوسرا نام هے هر فرقہ کے بانیان کو علماء حق علماء احناف علماء دیوبند کو بدنام کرنے اوران کی تحریک کو کمزورکرنے کے لیئے مختلف کام ومحاذ سپرد کیئے گئے ،
اور ان فرقوں کے بانیان کو خوب معلوم هوتا هے کہ ان کی یہ جماعت یہ کس شعبده گر کی صنعت وکاریگری کی شاهکار هے ، مگر بعد میں آنے والے جاهل اس کو مذهب ومسلک کا درجہ دے دیتے هیں ، اور اس کی حمایت وطرفداری پر مرنے مارنے پرتیارهوجاتے هیں ، جیسا کہ " رافضیت وشیعیت " کو دیکهہ لیجیئے جو ابن سبا یہودی کی اسلام کے خلاف جاری کرده ایک تحریک تهی ،
لیکن اس کا طریقہ کار یہ تها کہ ساده لوح عوام کے سامنے پہلے چند خوشنما نعرے رکهے گئے جیسے ( عقیده امامت ، حق خلافت حضرت علی کے لیئے ،
حُب اهل بیت ، ائمہ اهل بیت کی معصومیت وغیره ) لیکن وقت گذرنے کے ساتهہ ساتهہ ( شیعیت ورافضیت ) ایک مستقل مذهب کی صورت میں سامنے آتا رها ، اور جاهل لوگوں نے پوری دیانت داری کے اس مذهب کی تبلیغ وعمل کا سلسلہ شروع کردیا اور یہ سلسلہ آج تک قائم هے ، بالکل یہی حال " جدید فرقہ اهل حدیث یا غیرمقلدیت " کا بهی هے جواستعماری قوتوں کا لگایا هوا ایک پودا هے جسے هندوستان میں چند لوگوں نے پانی دے کر پروان چڑهایا ، لیکن ساده لوح ناواقف عوام نے اس کو ایک شجره طوبی سمجهہ کر اس کے سایہ کو جنت کا سایہ سمجهہ لیا ، الله تعالی عوام کو اس فرقہ جدید کی حقیقت سمجهنے کی توفیق دے ،
لہذا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جہلاء کا یہ وسوسہ بالکل باطل هے کہ فقہ حنفی اور حدیث میں ٹکراو هے ، پهر اس وسوسہ کو عوام کے دماغ میں ڈالنے کے لیئے طریقہ یہ اختیار کرتے هیں کہ مثلا فقہ حنفی کی کتب " شامی ، عالمگیری ، درمختار ، هدایه ، وغیره سے کوئ مسئلہ لیں گے بعض دفعہ مسئلہ پورا لیتے هیں اور بعض دفعہ اس میں بهی دجل کرتے هیں تو پهر بظاهر اس فقہی مسئلہ کے معارض ومخالف حدیث پیش کرتے هیں اور پهر عوام سے کہتے هیں کہ اب تمہاری مرضی هے کہ فقہ حنفی کے پیچهے جاو یا حدیث رسول کی پیروی کرو ، اب ایک عام آدمی کو علم حدیث وعلم فقہ اور اس کی ساری تفصیلات کا کیا پتہ " شامی ، عالمگیری ، درمختار ، هدایه ، وغیره کتب اس نے کہاں دیکهنے هیں اور اگردیکهہ بهی لے تو اس کو جہالت کی وجہ سے سمجهہ بهی نہ آئے ، تواس اندازسے اس وسوسہ کو عوام کے دلوں میں ڈالا جاتا هے ،
اوراس طرز سے عوام کو اپنی اندهی تقلید پرمجبور کرتے هیں ،
اور آپ کو معلوم هونا چائیے کہ " جدید فرقہ اهل حدیث یا غیرمقلدیت " فقہ حنفی کی مخالفت وعداوت استعمار کے حکم کے ساتهہ ساتهہ " شیعہ وروافض "کی تقلید میں کرتے هیں ، پاک وهند میں فقہ حنفی کے خلاف پہلی کتاب
( استقصاء الافحام ) لکهی گئ اس کتاب کا مولف حامد حسین کنتوری ایک غالی قسم کا شیعہ تها ،
اور بعد میں فقہ حنفی کے خلاف جو بهی کتابیں لکهی گئ سب اسی کتاب کا چربہ هیں ، اور حتی کہ یہی بات جدید فرقہ اهل حدیث کے سرکرده عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے بهی کہی هے کہ امام الائمہ ابوحنیفہ علیہ الرحمه پرجواعتراضات ومطاعن اخبا ر اهل الذکر ( جدید فرقہ اهل حدیث اور غیرمقلدین کا اخبار ) میں مشتہرکیئے گئے هیں ، یہ سب کے سب هذیانات بلا استثناء اکاذیب وبہتانات هیں ، جن کا مآخذ زمانہ حال کے معترضین کے لیئے حامد حسین شیعی لکهنوی کی کتاب ( استقصاء الافحام ) کے سوا اور کوئ کتاب نہیں هے ، اور اس کتاب امام ابوحنیفہ علیہ الرحمه کے علاوه کسی سُنی امام بخاری ، مالک وغیره کو نہیں چهوڑا گیا ، ایک ایک کا نام لے کر کئ کئ ورقوں بلکہ جزوں کو سیاه کرڈالا ، ( دیکهیئے فقیرمحمد جہلمی کی کتاب ، السیف الصارم )
اس کے بعد دوسری کتاب ( ظفرُالمبین فی رد مُغالطات المُقلدین ) لکهی گئ ، اس کے مولف کا نام هری چند بن دیوان چند تها جو بعد میں مسلمان هوکر غلام محی الدین کے نام سے مشہور هوا ، اس آدمی کی علمی استعداد کے متعلق ( جدید فرقہ اهل حدیث ) کے ترجمان مولوی محمد حسین بٹالوی فرماتے هیں ،
بٹالوی صاحب نے پہلے مولوی محمد احسن امروهی قادیانی سابق غیرمقلد پر رد کرتے هیں پهر صاحب ( ظفرُالمبین ) کے بارے فرمایا کہ وه بے چاره میزان ، منشعب ( علم صرف چهوٹے رسالے هیں ) بهی پڑهے نہ تهے اور ماضی مضارع کے معنی نہ جانتے تهے ( دیکهیئے مزید تفصیل ، اشاعت السنہ ، جلد 14 شماره 12)
( ظفرُالمبین ) کے بعد فقہ حنفی کے خلاف کتاب ( حقیقت الفقه ) لکهی گئی ، اس کتاب کا مولف محمد یوسف جے پوری هے ، اس کتاب میں جے پوری نے دجل وتلبیس ، جهوٹ ، خیانت ، دهوکہ وفریب کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے هیں ،
اس کے بعد ( شمع محمدی ، درایت محمدی ، سبیل الرسول وغیره ) کتابیں لکهی گئ اور یہ سلسلہ آج تک جاری هے ، اور اب تو چونکہ میڈیا کی ترقی کا دور هے تو یہ لوگ کذب وفریب و وساوس پهیلانے میں تمام ممکنہ ذرائع استعمال کر رهے هیں ، لیکن جهوٹ دهوکہ فریب وغیره مذموم ذرائع کے لیئے من جانب الله کوئ ترقی وثبات نہیں ملا کرتی ، زیاده زیاده سے چند جاهل عوام کو اس کے ذریعہ سے زیرکرلیا جاتا هے ،
حاصل کلام یہ هے کہ فقہ حنفی کا کوئ مفتی بہ قول اور معمول بہا مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف نہیں هے ، اور الحمد لله امام اعظم ابوحنیفہ کا اصول دیکهیئے
أصول مذهب الإمام الأعظم أبوحنيفة
"إني آخذ بكتاب الله إذا وجدته، فما لم أجده فيه أخذت بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم والآثار الصحاح عنه التي فشت في أيدي الثقات، فإذا لم أجد في كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت، ثم لا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم. فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم والشعبي وابن المسيب (وعدّد رجالاً)، فلي أن أجتهد كما اجتهدوا ".
سبحان الله الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمہ الله کے مذهب کے اس عظیم اصول کوپڑهیں ، فرمایا میں سب سے پہلے کتاب الله سے( مسئلہ وحکم ) لیتا هوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پهر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرتا هوں ، اور اگر كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بهی نہ ملے تو پهر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا هوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باهر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پهر میں بهی اجتهاد کرتا هوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۰
محترم بهائیو یہ هے وه عظیم الشان اصول وبنیاد جس کے اوپر فقہ حنفی قائم هے ، سوائے جاهل کوڑمغز اور معاند متعصب کے اور کون هے جو اس اصول پر قائم شده مذهب حنفی کی عمارت کو قرآن وسنت کے خلاف کہے گا ؟
تو امام اعظم کے نزدیک قرآن مجید فقہی مسائل کا پہلا مصدر هے
پهردوسرا مصدر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ هیں حتی کہ امام اعظم دیگرائمہ میں واحد امام هیں جو ضعیف حدیث کو بهی قیاس شرعی پرمقدم کرتے هیں جب کہ دیگرائمہ کا یہ اصول نہیں هے ،
پهر تیسرا مصدرامام اعظم کے نزدیک صحابہ کرام اقوال وفتاوی هیں ،
اس کے بعد جب تابعین تک معاملہ پہنچتا هے تو امام اعظم اجتهاد کرتے هیں ،
کیونکہ امام اعظم خود بهی تابعی هیں ،
جب کہ دوسری طرف فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کو دیکهیں تو ان کا اصول یہ هے صحابہ کرام کا فہم اور اقوال وفتاوی واجماعات کوئ حجت ودلیل نہیں هے ، لیکن اس کے باجود بهی وسوسہ یہ پهیلاتے هیں کہ فقہ حنفی حدیث کے مخالف هے ، اس وسوسہ کے تحت بات طویل هوگئ ، الله تعالی سب کو صحیح سمجهہ دے اور اهل سنت والجماعت علماء کی راهنمائ میں قرآن وحدیث پرعمل کی توفیق دے ۰
وسوسه = امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے اور شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنی کتاب ( غنية الطالبين ) میں تہترفرقوں کی تفصیل میں " مرجئة فرقة "
کا ذکربهی کیا ، اور " مرجئة فرقة " میں أصحاب أبو حنيفة النعمان بن ثابت النعمان کو بهی شمارکیا هے ۰
جواب = فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے بعض متعصب لوگوں نے ( غنية الطالبين ) کی اس عبارت کو لے کر امام ابوحنیفہ اور احناف کے خلاف بہت شور مچایا اور آج تک اس وسوسہ کو گردانتے چلے جارهے هیں ،
انهی لوگوں میں پیش پیش کتاب " حقیقت الفقہ " کے مولف نام نہاد اهل حدیث غیرمقلد عالم یوسف جے پوری بهی هیں ، لہذا اس نے اپنی کتاب " حقیقت الفقہ " میں گمراه فرقوں کا عنوان قائم کرکے اس کے تحت فرقہ کا نام " الحنفیه " اور پیشوا کا نام أبو حنيفة النعمان بن ثابت لکها ، اور "حنفیہ " کو دیگرفرق ضالہ کی طرح ایک گمراه فرقہ قرار دیا اوراسی غرض سے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ( غنية الطالبين ) کی عبارت نقل کی ۰
امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب اس وسوسه کا جواب دینے سے قبل یوسف جے پوری کی امانت ودیانت ملاحظہ کریں ، اس نے اصل عبارت پیش کرنے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفاء کیا اور وه بهی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ذکرکیا ،
غنية الطالبين ) کی اصل عبارت اس طرح هے
أما الحنفية فهم بعض أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت زعموا ان الإيمان هوالمعرفة والإقرار بالله ورسوله وبما جاء من عنده جملة على ماذكره البرهوتي فى كتاب الشجرة ٠ (291 )
اب ( غنية الطالبين ) کی اس عبارت کی بنیاد ایک مجهول شخص " برهوتي " کی مجهول کتاب " كتاب الشجرة " پر هے ، لیکن یوسف جے پوری نے اس عبارت کا ترجمہ کرتے وقت " كتاب الشجرة " کا نام اڑا دیا جو کہ ( غنية الطالبين ) کا مآخذ هے ، اب سوال یہ هے کہ
یہ " برهوتي " کون شخص هے ؟ اور اس کی " كتاب الشجرة " کوئ مستند کتاب هے ؟ حقیقت میں یہ دونوں مجهول هیں ، لیکن یوسف جے پوری چونکہ فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث سے تعلق رکهتے هیں جن کا یہ اصول هے کہ هم هربات صحیح وثابت سند کے ساتهہ قبول کرتے هے ضعیف اور مجهول بات کا همارے نزدیک کوئ اعتبارنہیں هے ، لیکن امام ابوحنیفہ اور احناف کے خلاف جوبات جہاں سے جس کسی سے بهی مل جائے تو وه سرآنکهوں پر هے ، اس کے لیئے کسی دلیل ثبوت صحت سند غرض کسی چیزکی کوئ ضرورت نہیں ،
اگر " كتاب الشجرة " اور اس کا مصنف " برهوتي " واقعی ایک معروف ومعتمد آدمی هے تو یوسف جے پوری نے اصل " كتاب الشجرة " کی عبارت مع سند کیوں ذکرنہیں کی ؟
جب ایسا نہیں کیا تو اهل عقل پرواضح هوگیا کہ یوسف جے پوری نے محض تعصب وعناد کی بنا پر جاهل عوام کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی هے٠
دوسری اهم بات ( غنية الطالبين ) کی مذکوره بالا عبارت کو دیکهیں اس میں
( بعض أصحاب أبي حنيفة ) کا لفظ هے جس کا مطلب هے کہ کچهہ حنفی اس عقیده کے حامل تهے ، لیکن یوسف جے پوری کی امانت ودیانت کو داد دیں کہ اس نے " بعض " کا لفظ اڑا کر تمام احناف کواس میں شامل کردیا اور اس کو امام ابوحنیفہ کا مذهب بنا دیا ٠
یوسف جے پوری نے کہتا هے کہ
ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی مقتدا هیں فرقہ حنفیہ کے اکثر اهل علم نے ان کو
" مرجئہ فرقہ " میں شمارکیا هے الخ (حاشیہ حقيقة الفقه ص 27
جے پوری کی یہ بات کہ (اکثر اهل علم نے ان کو " مرجئہ فرقہ " میں شمارکیا هے ) یہ محض دهوکہ اورکذب و وسوسہ هے ، اس لیئے اگر اکثر اهل علم نے
امام ابوحنیفہ کو مرجئہ کہا هے تو جے پوری نے ان اکثر اهل علم کی فہرست اور ان کے نام ذکرکرنے کی تکلیف کیوں نہیں کی ؟ جو شخص امام ابوحنیفہ سے اس درجہ بغض وعناد رکهتا هے کہ سب رطب ویابس غلط جهوٹ بغیرجانچ پڑتال کے اپنی کتاب میں درج کرتا هے ، تعجب هے کہ اس نے یہ توکہ دیا کہ
اکثر اهل علم نے امام ابوحنیفہ کو مرجئہ کہا هے ، لیکن اکثر اهل علم میں سے
کسی ایک کا نام ذکرنے کی تکلیف نہیں کی ۰
حافظ ابن عبدالبر المالکی فرماتے هیں کہ بعض لوگوں نے امام ابوحنیفہ پر
" ارجاء " کا الزام لگایا هے ، حالانکہ اهل علم میں توایسے لوگ کثرت سے موجود هیں جن کو مرجئه کہا گیا هے ، لیکن جس طرح امام ابوحنیفہ کی امامت کی وجہ سے اس میں برا پہلو نمایاں کیا گیا هے دوسروں کے بارے ایسا نہیں کیا گیا ، اس کے علاوه یہ بهی ایک حقیقت هے کہ بعض لوگ امام ابوحنیفہ سے
حسد وبغض رکهتے تهے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تهے جن سے امام ابوحنیفہ کا دامن بالکل پاک تها ، اوران کے بارے نامناسب اوربے بنیاد باتیں گهڑی جاتی تهیں حالانکہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے امام ابوحنیفہ کی تعریف کی اور ان کی فضیلت کا اقرار کیا هے ۰
( دیکهیئے " جامع بیان العلم وفضله لابن عبدالبر ص 431
ارجاء کا معنی اور حقیقت
ارجاء کا لغت عرب میں معنی هے " الأمل والخوف والتأخير وإعطاء الرجاء والإمهال " تاخیر اور مهلت دینا اور خوف اور امید
علامہ عبدالکریم شہرستانی اپنی کتاب (( المِلَل والنِحَل )) میں فرماتے هیں کہ
ارجاء کے دو معنی هیں 1 = تاخیرکرنا جیسا کہ قول باری تعالی " قالوا أرجه وأخاه " ( انهوں نے کہا کہ موسی اور ان کے بهائ کو مہلت دے ) یعنی ان کے بارے میں فیصلہ کرنے میں تاخیرسے کام لینا چائیے اور ان کومہلت دینا چائیے 2 = والثاني: إعطاء الرجاء. دوسرا معنی هے امید دلانا ( یعنی محض ایمان پرکلی نجات کی امید دلانا اور یہ کہنا کہ ایمان کے هوتے هوئے گناه ومعاصی کچهہ مضرنہیں هیں ) 3 = اوربعض کے نزدیک ارجاء یہ بهی هے کہ کبیره گناه کے مرتکب کا فیصلہ قیامت پرچهوڑدیا جائے اور دنیا میں اس پر جنتی یا جہنمی هونے کا حکم نہ لگایا جائے 4 = اور بعض کے نزدیک ارجاء یہ هے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو پہلے خلیفہ کے بجائے چوتها خلیفہ قرار دیا جائے ۰ ( الملل والنحل ، الفصل الخامس ألمرجئة
ارجاء " کے معنی ومفہوم میں چونکہ " التأخير " بهی شامل هے ، اس لیئے جو حضرات ائمہ گناهگار کے بارے میں توقف اور خاموشی سے کام لیتے هیں ، اور دنیا میں اس کے جنتی اور جہنمی هونے کا کوئ فیصلہ نہیں کرتے ، بلکہ اس کا معاملہ آخرت پرچهوڑتے هیں کہ حق تعالی شانہ اس کے بارے میں جو چاهے فیصلہ کرے خواه اس کو معاف کرے اور جنت میں داخل کردے ، یا سزا بهگتنے کے لیئےجہنم میں ڈال دے ، یہ سب " مرجئه " هیں اور اسی معنی کے اعتبار سے امام اعظم اور دیگر ائمہ و محدثین کو " مرجئه " کہا گیا ۰
علامہ ملا علی قاری نے ( شرح فقہ اکبر ) میں یہی بات لکهی هے ثم اعلم أن القُونَوِيَّ ذَكَرَ أنَّ أبا حنيفة كان يُسمَّى مُرجِئاً لتأخيره أمرَ صاحبِ الكبيرة إلى مشيئة الله، والإرجاء التأخير. انتهى
جاننا چائیے کہ علامہ قونوی نے ذکرکیا هے کہ امام ابوحنیفہ کو بهی مرجئه کہا جاتا تها کیونکہ امام ابوحنیفہ مرتکب کبیره کا معاملہ الله تعالی کی مشیت پر موقوف رکهتے تهے ، اور " ارجاء " کے معنی ومفہوم موخرکرنے کے هیں ٠
( منح الروض الأزهر في شرح الفقه الأكبر ) ص67 للعلامة علي القاري )
اب سوال یہ هے کہ کیا امام ابوحنیفہ کا یہ عقیده قرآن وحدیث کی تصریحات وتعلیمات کےخلاف هے ؟؟ یا صریح نصوص آیات واحادیث سے امام ابوحنیفہ کے اس عقیده کی تائید وتصدیق هوتی هے ، اور تمام اهل سنت کا بهی یہی مذهب هے ٠
مرجئه فرقه كا عقيده
علامہ ملا علی قاری (
شرح فقہ الاکبر ص 104 ) پرفرماتے هیں کہ
پهر " مرجئه مذمومه بدعتی فرقه " قدریه سے جدا ایک فرقه هے جن کا عقیده هے کہ ایمان کے آنے کے بعد انسان کے لیئے کوئ گناه مضرنہیں هے جیسا کہ کفرکے بعد کوئ نیکی مفید نہیں هے اور ان ( مرجئه ) کا نظریہ هے کہ مسلمان جیسا بهی هوکسی کبیره گناه پر اس کوکوئ عذاب نہیں دیا جائے گا ،
پس اس ارجاء ( یعنی مرجئه اهل بدعت کا ارجاء ) اور اُس ارجاء ( یعنی امام اعظم اوردیگرائمہ کا ارجاء ) میں کیا نسبت ؟؟؟
یوسف جے پوری لکهتا هے کہ
چنانچہ ایمان کی تعریف اور اس کی کمی وزیادتی کے بارے میں جوعقیده مرجئه کا هے انهوں ( امام ابوحنیفہ ) نے بهی بعینہ وهی اپناعقیده اپنی تصنیف فقہ اکبرمیں درج فرمایا هے ۰ ( حاشيه حقيقة الفقه ص 72
یوسف جے پوری کی یہ بات بالکل غلط اور جهوٹ هے
فقه أكبركى عبارت ملاحظہ کریں
ولانقول ان المؤمن لايضره الذنوب ولانقول انه لايدخل النارفيها ولانقول انه يخلد فيها وان كان فاسقا بعد ان يخرج من الدنيا مؤمنا ولا نقول حسناتنا مقبولة وسيئاتنا مغفورة كقول المرجئة ( شرح كتاب الفقه الأكبر ص 108)
اور هم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لیئے گناه مضرنہیں ، اور نہ هم اس کے قائل هیں کہ مومن جہنم میں بالکل داخل نہیں هوگا ، اور نہ هم یہ کہتے هیں کہ وه همیشہ جہنم میں رهے گا اگرچہ فاسق هو جب کہ وه دنیا سے ایمان کی حالت میں نکلا ،اور نہ هم یہ کہتے هیں کہ هماری تمام نیکیاں مقبول هیں اور تمام گناه معاف هیں جیسا مرجئه کا عقیده هے ۰
اب یوسف جے پوری کی بات (( جوعقیده مرجئه کا هے انهوں ( امام ابوحنیفہ ) نے بهی بعینہ وهی اپناعقیده اپنی تصنیف فقہ اکبرمیں درج فرمایا هے ))
کو دیکهیں اور " شرح فقہ اکبر " کی مذکوره بالاعبارت پڑهیں ، اس میں مرجئه کا رد ومخالفت هے یا موافقت ؟؟
یوسف جے پوری لکهتا هے کہ
علامہ شہرستانی نے ( کتاب الملل والنحل ) میں بهی رجال المرجئہ میں حمادبن ابی سلیمان اور ابوحنیفہ اورابویوسف اور محمد بن حسن وغیرهم کو درج کیا هے ،اسی طرح غسان ( جوفرقہ غسانیہ کا پیشوا هے ) بهی امام صاحب کو مرجئہ میں شمارکرتا هے ۰ ( حاشيه حقيقة الفقه ص 72
یوسف جے پوری کی یہ بات بهی دهوکہ وخیانت پرمبنی هے یا پهر ( کتاب الملل والنحل ) کی عبارت پڑهنے میں ان کو غلط فہمی هوئ هے ،
علامہ شہرستانی سے سنیے
ومن العجيب ان غسان كان يحكى عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى مثل مذهبه ويعده من المرجئة ولعله كذب كذالك عليه ولعمرى كان يقال لأبى حنيفة وأصحابه مرجئة السنة ( ألملل والنحل، الفصل الخامس الغسانية )
تعجب کی بات هے کہ غسان ( جوفرقہ غسانیہ کا پیشوا هے ) بهی اپنے مذهب کو امام ابوحنیفہ کی طرح ظاهر کرتا اورشمارکرتا تها ، اور امام ابوحنیفہ کو بهی مرجئه میں شمارکرتا تها غالبا یہ جهوٹ هے ، مجهے زندگی عطا کرنے والے قسم کہ ابوحنیفہ اور اصحاب کو تو " مرجئة السنة " کہا جاتا تها ۰
اب آپ یوسف جے پوری کی عبارت پڑهیں اور علامہ شہرستانی کی اصل عبارت اور ترجمہ دیکهہ لیں ،
یہ نام نہاد اهل حدیث امام صاحب پر اس طرح جهوٹ وخیانت ودهوکہ وفریب کے ساتهہ طعن وتشنیع کرتے هیں ،
حاصل یہ کہ ( غنية الطالبين ) میں جو کچهہ لکها هے اس کی حقیقت بهی واضح هوگئ اور جو کچهہ هاتهہ کی صفائ یوسف جے پوری نے دکهائ وه بهی آپ نے ملاحظہ کرلی ،
ایک دوسری اهم بات بهی ملاحظہ کریں وه یہ کہ ( غنية الطالبين ) میں شیخ عبدالقادر جیلانی نے کئ جگہ امام ابوحنیفہ کے اقوال بهی نقل کیئے اور ان کو امام کے لقب سے یاد کیا ، مثلا ایک مقام پر شیخ عبدالقادر جیلانی نے
تارک صلوة کا حکم بیان کرتے هوئے فرمایا کہ
وقال الإمام أبوحيفة لايقتل
امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا ۰
اب اگر شیخ عبدالقادر جیلانی کے نزدیک امام ابوحنیفہ " مرجئہ مبتدعہ ضالہ "
میں سے هوتے توپهر ان کو " الإمام " کے لقب سے کیوں ذکر کرتے هیں ؟؟؟
اور مسائل شرعیه میں امام ابوحنیفہ کے اقوال کیوں ذکرکرتے هیں ؟؟؟
ميزان الاعتدال )) و (( تهذيب الكمال ) و (( تهذيب التهذيب )) و (( تقريب التهذيب )) وغیره رجال کی کتابوں میں ایسے بہت سے رواة کے حق میں " ارجاء" کا طعن والزام لگایا گیا ، مثلا اس طرح کے الفاظ استعمال کیئے گئے
" رُمِيَ بالإرجاء، كان مرجئاً، " وغیره
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب " تدریبُ الراوی " میں بخاری ومسلم کے ان روایوں کے اسماء کی پوری فہرست پیش کی هے جن کو " مرجئه " کہا گیا ۰
امام الحافظ الذهبي رحمه الله فرماتے هیں کہ
قلتُ: الإرجاءُ مذهبٌ لعدةٍ من جِلَّة العلماء، ولا ينبغي التحاملُ على قائله ۰ ( الميزان ج3ص163 في ترجمة " مِسْعَر بن كِدَام " )
میں ( امام ذهبی ) کہتا هوں کہ " ارجاء " تو بڑے بڑے علماء کی ایک جماعت کا مذهب هے اور اس مذهب کے قائل پر کوئ مواخذه نہیں کرنا چائیے ۰
خلاصہ کلام یہ هے کہ ایک " ارجاء " فرقه مبتدعه ضاله مرجئه کا هے اور ایک " ارجاء " ائمہ اهل سنت کا قول هے ، جس کی تفصیل گذشتہ سطور میں گذرگئ هے ،
آخری بات فرقہ اهل حدیث کے مستند عالم مولانا ابراهیم میر سیالکوٹی کی نقل کرکے بات ختم کرتا هوں ، فرماتے هیں کہ
اس موقع پراس شبہ کاحل نہایت ضروری هے کہ بعض مصنفین نے سیدنا امام ابوحنیفہ کوبهی رجال مرجئه میں شمارکیا هے حالانکہ آپ اهل سنت کے بزرگ امام هیں اورآپ کی زندگی اعلی تقوی اورتورع پرگذری جس سے کسی کوبهی انکارنہیں ، بے شک بعض مصنفین نے ( الله ان پر رحم کرے ) امام ابوحنیفہ اورآپ کے شاگردوں امام ابویوسف ، امام محمد ، امام زفر ، اور امام حسن بن زیاد کو رجال مرجئه میں شمارکیا هے ، جس کی حقیقت کو نہ سمجهہ کر اور حضرت امام صاحب ممدوح کی طرز زندگی پرنظر نہ رکهتے هوئے بعض لوگوں نے اسے خوب اچهالا هے لیکن حقیقت رس علماء نے اس کا جواب کئ طریق پردیا هے ٠ (( تاريخ أهل حديث ، ارجاء اور امام ابوحنيفه ، ص 77
اسی کتاب میں ( ص 93) پرلکهتے هیں کہ
بعض لوگوں کو حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے حوالے سے بهی ٹهوکرلگی هے آپ نے حضرت امام صاحب رحمہ الله علیہ کو مرجئوں میں شمار کیا هے ، سواس کا جواب هم اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ اپنے شیخ الشیخ حضرت سید نواب صاحب مرحوم کے حوالے سے دیتے هیں ۰
اس کے بعد مولانا ابراهیم میر سیالکوٹی نے بانی فرقہ اهل حدیث نواب صدیق حسن صاحب کا کلام ان کی کتاب ( دلیل الطالب ) سے ذکر کیا ، اور پهر اس ساری بحث کا خلاصہ بیان کرتے هوئے لکها کہ
حاصل کلام یہ کہ لوگوں کے لکهنے سے آپ کس کس کو ائمہ اهل سنت کی
فہرست سے خارج کریں گے ؟؟؟
وسوسه = اصل چیز " اتباع " هے اور " تقلید " ایک من گهڑت چیز هے جس کا کوئ ثبوت نہیں هے ۰
جواب = اس وسوسہ کو بهی مختلف انداز سے عوام الناس کے دلوں میں ڈالا جاتا هے ، کبهی کہتے هیں " تقلید " کا لفظ قرآن میں نہیں هے اور " اتباع " کا لفظ قرآن میں هے ، کبهی کہتے هیں اگر " تقلید " جائز هوتا تو قرآن میں اس کا ذکر هوتا ، کبهی کہتے هیں هم تو قرآن وحدیث کی " اتباع " کرتے هیں اور " اتباع " کا لفظ قرآن وحدیث میں وارد هوا هے اور " تقلید " کا لفظ قرآن وحدیث میں کہیں موجود نہیں هے لہذا اس کے بدعت هونے میں کوئ شک نہیں هے ، غرض اس قسم کے وساوس مختلف انداز سے پیش کیئے جاتے هیں جس کو جاهل عوام قبول کرلیتے هیں ، لہذا خوب یاد رکهیں کہ " اتباع " اور " تقلید " میں کوئ مغایرت وفرق نہیں هے دونوں ایک هی هیں اور سلف صالحین سے بهی ان دونوں کے مابین کوئ معنوی فرق منقول نہیں هے ، لہذا معنی ومفہوم کے اعتبار سے دونوں مُتقارب هیں ، هاں یہ بات ضرور هے کہ " لفظ الإتباع " اور اس کے مشتقات نصوص شرعیہ میں استعمال هوئے هیں ، لیکن یہ دعوی بالکل غلط هےکہ اصل لفظ " اتباع " هے جوکہ صرف اور صرف قرآن وحدیث اور الله ورسول کی پیروی کرنے کے لیئے استعمال هوتا هے ، کیونکہ قرآن میں جہاں یہ لفظ " اتباع " الله ورسول کی پیروی واطاعت کے لیئے استعمال هوا هے
بعینہ یہ لفظ " اتباع " نفس وشیطان کی پیروی کرنے کے لیئے بهی استعمال هوا هے ،خواهشات کی پیروی کرنے کے لیئے بهی استعمال هوا ، اپنے گمراه ومشرک آباء واجداد کے طریقوں کی پیروی کرنے کے لیئے بهی استعمال هوا ، گمراه وجاهل لوگوں کی پیروی کے لیئے بهی استعمال هوا ،
بطورمثال درج ذیل آیات کوپڑهیں پڑهیں جس میں " لفظ الإتباع " مذکوره بالا معانی میں استعمال هوا هے ،
كقوله تعالى إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ)البقرة (166)و قوله
(وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آَبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آَبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)البقرة (170) و قوله تعالى فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ)القصص (50) و قوله وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آَمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ)العنكبوت (12)و قوله وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آَبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ)لقمان (21) و قوله وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (67) رَبَّنَا آَتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا)الاحزاب (68) { يا أيها الذين آمنوا لا تتبعوا خطوات الشيطان ومن يتبع خطوات الشيطان فإنه يأمر بالفحشاء والمنكر }( النور:21) قوله تعالي في سورة سبأ: "وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلا فَرِيقًا مِّنَ المُؤْمِنِينَ (34/20)"قوله تعالي في سورة البقرة: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلالاً طَيِّبًا وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (2/168) "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (2/208)"
اسی طرح الله ورسول کی اورقرآن وسنت کی اطاعت وپیروی کے بهی لفظ " اتباع " استعمال هوا هے ،
قوله تعالى اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ)الانعام (106) و قوله تعالى اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا َتذَكَّرُونَ)الاعراف (3)و قوله تعالى ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ
حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ)النحل (123)
و قوله (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا)النساء(59) و قوله تعالى وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ)الانفال (46)
وغيرذالك من الآيات المباركات
خلاصہ کلام یہ کہ " لفظ اتباع " اور " لفظ تقلید " اور " لفظ اطاعت " هم معنی الفاظ هیں ، جس کا مفہوم ومعنی یہ هے کہ کسی کی پیروی کرنا کسی کے پیچهے چلنا ، کسی کے طوراطوار اعمال وافعال وسیرت کواپنانا ،
باقی اس پراچها یا برا هونے کا حکم " مُقتدا " ( جس کی اقتداء کی جائے ) اور
" مُطاع " ( جس کی اطاعت کی جائے ) اور " مُقلَّد " ( جس کی تقلید کی جائے )
کے اعتبارسے لگایا جائے گا ،
لہذا " لفظ تقلید واتباع " دونوں ایک هی هیں دونوں میں کوئ فرق نہیں هے ،
هاں یہ بات ضرور هے کہ عُرف عام میں ائمہ هُدی ائمہ مجتهدین سلف صالحین
کی اتباع وپیروی کو " تقلید " کہاجاتا هے ، اور آپ صلی الله علیہ وسلم پیروی کو " اتباع " کہاجاتا هے ، لہذا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث اور نام نہاد غیرمقلدین کا یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے کہ لفظ اتباع اصل هے لفظ تقلید نقل هے ، اتباع جائز ومحمود اورتقلید ناجائزومذموم هے، ، اور ان شاء الله مذکوره بالا تفصیل سے یہ وسوسہ بهی کافورهوگیا
وسوسه = لفظ تقلید قلاده سے هے جوصرف جانور کے گلے میں باندها جاتا هے ، لهذا جو لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں وه بهی جانوروں کی طرح ائمہ کا قلاده اپنے گلے میں ڈال دیتے هیں ۰
جواب = لفظ قلاده لغت عرب کی روسے صرف جانور کے ساتهہ خاص نہیں هے ، بلکہ اگرجانورکے لیئے لفظ قلاده استعمال هوتو رسی اورپٹہ کے معنی میں آتا هے ، اور لفظ قلاده جب انسان کے لیئے استعمال هوتو اس کا معنی هار هوتا هے ، اورایک عامی یاعالم اجتهاد سے عاجز شخص فروعی واجتهادی مسائل میں ایک امام مجتهد کی راهنمائ وعقیدت کا هار پہنتا هے تواس کے اس عمل کو تقلید کہاجاتا هے ، اورتقلید وقلاده کا لفظ چونکہ صرف حیوان کے ساتهہ خاص نہیں هے بلکہ انسان کے لیئے بهی استعمال هوتا هےتواس میں کوئ عیب وتوهین نہیں هے ، حتی کہ ایک مشہور صحابیہ هیں حضرت أمية بنت قيس الغفارية رضی الله عنها یہ (صاحبة القلادة) کے لقب سے مشہور هیں ، هجرت کے بعد مسلمان هوئ اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے شرف بیعت ان کوحاصل هوا اورغزوه خیبرمیں دیگرصحابیات کے ساتهہ شریک هوئ ، اسی واقعہ میں حضرت أمية بنت قيس الغفارية رضی الله عنها کو آپ صلی الله علیہ وسلم ایک هار دیا تها جوان کے گلے میں مرتے دم تک لٹکا رها یہاں تک کہ وه فوت هوگئ اور یہ وصیت کی یہ هار ان کے ساتهہ دفن کیا جائے الخ
اور اس حدیث میں هار کے لیئے قلاده کا لفظ استعمال هوا هے ، جس سے یہ معلوم هوا کہ قلاده کا لفظ صرف حیوان کے ساتهہ خاص نہیں هے ، جیساکہ لفظ اتباع قرآن وسنت اور الله ورسول کی پیروی کے ساتهہ خاص نہیں هے ،
بلکہ لفظ اتباع نفس وشیطان وخواهشات وکفار وگمراه لوگوں کی پیروی کرنے کےلیئے بهی استعمال هوا هے ،
روایت کے الفاظ درج ذیل هیں جس میں قلاده کا لفظ هار کے معنی میں استعمال هوا هے ،
وأخذ هذه القلادة التي ترين في عنقي فأعطانيها وعلقها بيده في عنقي فوالله لا تفارقني أبدا . قالت فكانت في عنقها حتى ماتت ثم أوصت أن تدفن معها . الخ ۰ (الروض الأنف الجزء الرابع
اور اسی طرح کئ احادیث میں لفظ تقلید اور اس کے مشتقات انسان کے حق میں استعمال هوئے هیں ، مثال کے طور پر بخاری شریف کی روایت میں هے
فتلقاهم النبي صلى الله عليه وسلم على فرس لأبى طلحة عرى وهومتقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا ( ج 1 ص 427 )
اسى طرح ترمذى كى ايک روايت میں هے
وإذا بلال متقلد سيفه الخ
اس حدیث میں حضرت بلال رضی الله عنہ کے لیئے اورگذشتہ حدیث میں آپ صلى الله عليه وسلم کے لیئے یہ لفظ استعمال هوا هے ، کیا کوئ ذی عقل اور هوش مند اس میں گستاخی کا پہلونکال سکتا هے ؟؟
حاصل کلام یہ هے کہ یہ وسوسہ بالکل باطل هے کہ تقلید اور قلاده اور اس کے هم مثل الفاظ جانوروں کے لیئے هی استعمال هوتے هیں ،
اورتمام ائمہ لغت بهی اس لفظ کو جانوروں کے ساتهہ مخصوص نہیں سمجهتے
تاج العروس شرح قاموس میں هے
( وقلدتها قلادة ) بالكسروقلادا بحذف الهاء ( جعلتها فى عنقها ) فتقلدت ( ومنه )
التقليد فى الدين ( ج 4 ص 475 )
ان شاء الله مذکوره بالا تفصیل سے یہ وسوسہ باطل هوگیا کہ لفظ تقلید وقلاده توجانوروں کے استعمال هوتا هے ، باقی تقلید سے متعلق دیگر تفاصیل کے لیئے اس باب میں مفصل کتب کی رجوع کریں ، جن میں سب سے بہترین کتاب میری نظرمیں اردو زبان میں امام اهل سنت حضرت شیخ الحدیث سرفرازخان صفدر رحمہ الله کی کتاب (( الکلام المفید فی اثبات التقلید)) هے ، اوراسی طرح وکیل احناف استاذالمحدثین مناظراهل سنت حضرت العلامہ امین صفدر اوکاڑوی رحمہ الله کی کتاب (( تحقیق مسئلہ تقلید)) اس باب میں بہت مفید هے ۰
وسوسه = احناف ماتریدی عقیده رکهتے هیں اوردیگر مقلدین اشعری عقیده رکهتے هیں ، اور اشاعره وماتریدیه دونوں کے عقائد غلط وگمراه کن هیں ۰
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی عوام الناس کو مختلف انداز سے یاد کرایا جاتا هے ، اور فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل جاهل شیوخ اپنے جاهل مقلد عوام کو وسوسہ پڑها دیتے هیں اور وه بے چارے اس وسوسہ کو یاد کرلیتے هیں ، اور آگے اس کو پهیلاتے هیں ، فرقہ جدید اهل حدیث کے عوام کوتواشعری وماتریدی کا نام پڑهنا بهی نہیں آتا ، اوریہی حال ان کے خواص کا هے ان کو کوئ پتہ نہیں هوتا کہ ماتریدی کون تها اشعری کون تها ان کے کیاعقائد وتعلیمات هیں ؟ بس احناف سے ضد کی بنا پر انهوں سب کچهہ کرنا هے ۰
اس وسوسہ کے تحت کسی قدر تفصیل سے بات کرنا چاهتا هوں
تــاريخ عـلم الكـلام
کون نہیں جانتا کہ خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک سے پہلے
دنیاکا شیرازه بکهرا هوا تها ، انسانیت میں انتشار وافتراق تها نفرت وعداوت تهی تمام اعمال رذیلہ موجود تهے عقائد واخلاق کا کوئ ضابطہ نہ تها عبد ومعبود کا صحیح رشتہ ٹوٹ چکا تها ،خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے خزاں رسیده انسانیت بہار کے هم آغوش هوئ ، قلوب انسانی کی ویران کهیتیاں لہلہا اٹهی انسانیت نے سراٹهایا ، واخلاق واعمال کی پاکیزگی عقائد حقہ کی پختگی اورعبادات وطاعات کی لذت سے کائنات کا ذره ذره آشنا هوگیا ،
،خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ کے جانثار اصحاب بهی پورے کائنات انسانی کے لیئے آپ کی سیرت وکردار کامل ومکمل نمونہ تهے ،
لیکن صحابہ کرام کا مبارک دورگذرنےکے بعد حالات مختلف هوئے ،
اموی دورخلافت کے اخیرمیں علم وفن کی خدمت کے نام پر غیردینی علوم کا ترجمہ شروع هوا ، فلاسفہ کی ایک جماعت نے عبرانی اور قبطی زبانوں سے
هیئت وکیمیا کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ، اسی طرح ارسطو کے کچهہ رسائل کو اور فارسی زبان کی بعض کتب کوعربی میں منتقل کیا گیا ،
پهر جب اسلام کو وسعت حاصل هوئ اور ایرانی ، قبطی ، یونانی وغیره اقوام حلقہ بگوش اسلام هوئیں تو انهوں نے مسائل عقائد میں نکتہ آفرینیاں اور بال کی کهال نکالنا شروع کردی ، اسلامی عقائد کا جوحصہ ان کے قدیم عقیده سے کسی درجہ میں ملتا جلتا نظرآیا تو قدرتی طور پرانهوں نے اسی رنگ میں اس کی تشریح پسند کی ، پهر عقل ونقل کی بحث نے اس خلیج کو اور وسیع کیا ، یہ سلسلہ چل هی رها کہ اموی خلافت کی جگہ دولت عباسیہ نے لے لی اور اس نے دوسری مختلف زبانوں کے ساتهہ حکمت وفلسفہ یونان کا سارا ذخیره عربی میں منتقل کرکے مسلمانوں میں پهیلا دیا ،
یونانی فلسفہ کے پهیلنے کا نتیجہ یہ هوا کہ مسلمانوں کے مذهبی جذبات میں کمزوری کے ساتهہ ساتهہ باهم مذهبی اختلاف اورگروه بندی کا دروازه بهی کهل گیا ، جس کے نتیجہ میں الحاد و زندقہ نے بال وپر نکالنے شروع کردیئے ،
اب تک عقائد سے متعلقہ مسائل کو ذهن نشین کرنے کا جوفطری طریقہ کتاب وسنت کی بنیاد پرقائم تها حکمت وفلسفہ کی موشگافیوں اور کچهہ دیگر انسانی اصطلاحات وقواعد رواج پاجانے کے بعد علماء امت کی نظرمیں کچهہ زیاده موثرنہیں رها ،
اس طرح کے حالات وماحول میں جب کہ شکوک وشبہات اور الحاد وزندقہ وگمراهی کے پاوں جمنے شروع هوچکے تهے ،
چنانچہ خلیفہ مهدی جو ( ۱۵۷ هہ ) میں تخت نشین هوا اس کے دور خلافت میں ملحدین وزنادقہ کی رد میں کتب لکهوانے کی ضرورت محسوس هونے لگی اور حکومت کی سرپرستی میں ایسی چند کتب لکهی گئیں یہ " علم کلام " کی پہلی بنیاد تهی جومسلمانوں میں قائم هوئ ، پهر حالات کے پیش نظر دن بدن اس کام کی اهمیت بڑهتی هی گئ ،
حتی کہ علماء اسلام کی ایک مخصوص جماعت مجبور هوئ کہ وه اپنے آپ کواس کام لیئے وقف کردیں ،
لہذا مامون الرشید نے ایسے علماء کی بڑهہ چڑهہ کرحوصلہ افزائ کی ، اورحکومت وقت کی حوصلہ افزائ دیکهہ کر علماء کا ایک ذهین طبقہ معقولات کی تحصیل میں همہ تن مشغول هوگیا اور اس فن میں انهوں نے مہارت تامہ حاصل کی ،
لیکن ان علماء میں زیاده تر وه لوگ تهے جو " مسلک اعتزال " سے وابستہ تهے کیونکہ حکومت وقت کا مزاج ومسلک بهی یہی مُعتزلہ والا ) تها انہی علماء کی کدوکاوش نے ( علم کلام ) کو ایک خاص فن کا درجہ دیا اور انهوں نے هی اس فن کی جمع وتدوین کی ،
علامہ شہرستانی لکهتے هیں کہ
ثم طالع بعد ذالك شيوخ المعتزلة كتب الفلاسفة حين فسرت أيام المامون فخلطت مناهجها مناهج الكلام وأفردتها فنا من فنون العلم وسميتها باسم الكلام ،
(الملل والنحل ج 1 ص 32 )
یعنی " معتزلة " کے اکابرنے فلاسفہ کی تصنیفات کا مطالعہ کیا اور اس طرح کلام وفلسفہ کی مختلف راهیں ایک هوگئیں اور ایک نیا فن ( علم کلام ) کے نام سے ایجاد هوا ،
علم کلام کی وجہ تسمیہ (یہ نام کیوں رکهاگیا ) ؟
علامہ شہرستانی لکهتے هیں کہ
أما لأن أظهر مسئلة تكلموا فيها وتقابلوا عليها هي مسئلة الكلام فسمى النوع باسمها وأما لمقابلتهم الفلاسفة فى تسميتهم فنا من فنون علمهم بالمنطق والمنطق والكلام مترادفان (الملل والنحل ج 1 ص 33 )علم کلام کا اهم ترین موضوع بحث الله تعالی کا کلام هی تها ، اسی وجہ سے اس فن کا نام ( علم کلام ) رکها گیا الخ
تاريخ الفرقة المعتزلة
معتزلہ کا سردار وپیشوا ابوالهذیل علاف تها اور اس نے اس فن میں بہت سی کتب بهی لکهیں ، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله لکهتے هیں
أبوالهذيل العلاف شيخ المعتزلة ومُصنف الكتب الكثيرة فى مذاهبهم كان خبيث القول فارق اجماع المسلمين ورد نص كتاب الله وجحد صفات الله تعالى عما يقول علوا كبيرا وكان كذاباً أفاكاً مات سنة سبع وعشرين ومأتين ٠
( لسان الميزان ص 413 ج 5 )
أبوالهذيل العلاف مُعتزلہ فرقہ کے شیوخ میں سے تها جس نے اعتزال کے رنگ میں ڈوبی هوئ بہت سی کتب لکهیں ، یہ پہلا شخص هے جس نے نصوص قطعیہ کا انکارکیا صفات باری تعالی کوتسلیم کرنے سے انکارکیا ، جهوٹا ، لغوگو ، اور بدترین خلائق انسان تها ۰
علامہ شہرستانی نے بهی یہی بات لکهی هے
فكان أبوالهذيل العلاف شيخهم الأكبر وافق الفلاسفة وأبدع بدعا فى الكلام والإرادة وأفعال والقول بالقدر والآجال والأرزاق ٠
(الملل والنحل ج 1 ص 33 )
أبوالهذيل العلاف مُعتزلہ فرقہ معتزلہ کا سب سے بڑا شیخ تها فلاسفہ کا موافق تها
افعال عباد ، اراده ، تقدیر، رزق ، تمام مسائل میں امت کے قطعی نظریات سے صاف پهر گیا تها ۰
حافظ ذهبی نے بهی اپنی کتاب (سير أعلام النبلاء) میں تقریبا یہی بات لکهی هے
أبو الهذيل العلاف ورأس المعتزلة أبو الهذيل محمد بن الهذيل البصري العلاف صاحب التصانيف الذي زعم أن نعيم الجنة وعذاب النار ينتهي بحيث إن حرمات أهل الجنة تسكن وقال حتى لا ينطقون بكلمة وأنكر الصفات المقدسة حتى العلم والقدرة وقال هما الله وأن لما يقدر الله عليه نهاية وآخرا وأن للقدرة نهاية لو خرجت إلى الفعل فإن خرجت لم تقدر على خلق ذرة أصلا وهذا كفر وإلحاد ۰
( سير أعلام النبلاء ؛ أبو الهذيل العلاف )
اورفرقہ معتزلہ کا بانی وموسس واصل بن عطاء البصري تها،
پهراس کے بعد أبو الهذيل حمدان بن الهذيل العلاف هے جوشيخ المعتزلة، ومقدم الطائفة، ومقرر الطريقة، والمناظر کے القاب سے معروف هے ، اس نے مذهب الاعتزال عثمان بن خالد الطويل سے بطریق واصل بن عطاء کے حاصل کیا ،
( الشهرستاني: الملل والنحل ج1ص 64 )
اور ( فرقة الهُذيلية.) اسی کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح إبراهيم بن يسار بن هانئ النظَّام نے کتب فلاسفہ کا بکثرت مطالعہ کیا اور فلاسفہ کا کلام معتزلہ کے کلام کے ساتهہ ملایا اور ( فرقة النظاميّة ) اسی کی طرف منسوب هے ٠
( الشهرستاني: الملل والنحل ج1ص 64 )
اسی طرح معمر بن عباد السلمي هے جس کی طرف ( فرقة المعمرية.) منسوب هے ٠
اسی طرح عيسى بن صبيح المكنى بأبي موسى الملقب بالمردار اس کو راهب المعتزلة کہا جاتا تها ( فرقة المردارية.) اس کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح ثمامة بن أشرس النميري یہ آدمی بادشاه المأمون اورالمعتصم اور الواثق، کے عہد میں ( قدرية ) فرقہ کا سربراه تها ، اور اس کے فرقہ کو ( الثماميّة ) کہا جاتا هے ٠
اسی طرح أبو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ فرقة معتزلة کے بہت بڑے لکهاری تها اور کتب فلاسفہ سے خبردار اور ادب وبلاغت میں ماهر تها (الجاحظية.) فرقہ اسی کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح أبو الحسين بن أبي عمر الخياط هے جو بغداد کا معتزلی هے ( الخياطية)
اسی کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح القاضي عبد الجبار بن أحمد بن عبد الجبار الهمداني یہ متاخرین معتزلہ میں سے تها اور اپنے زمانہ کے بہت بڑا شيوخ المعتزلة میں تها اور مذهب معتزلہ کے اصول وافکار وعقائد کو بڑا پهیلایا ، اور معتزلہ کا بڑا مشہور مناظر تها ٠
حاصل کلام یہ کہ ( فرقة معتزلة ) کے کل بائیس بڑے فرقے بن گئے تهے ، هر فرقہ سب کی تکفیر کرتا تها ، ان فرقوں کی کچهہ تفصیل میں نے لکهہ دی هے ،
اجمالی طور پران کے اسماء درج ذیل هیں
(( الواصلية، والعمرية، والهذيلية، والنظامية، والأسوارية، والمعمرية، والإسكافية، والجعفرية، والبشرية، والمردارية، والهشامية، والتمامية، والجاحظية، والحايطية، والحمارية، والخياطية، وأصحاب صالح قبة، والمويسية، والشحامية، والكعبية، والجبابية، والبهشمية المنسوبة إلى أبي هاشم بن الحبالى. ))
( البغدادي: الفرق بين الفرق ص104)
جس علم کی تدوین کے بنیادی اراکین میں میں أبو الهذيل العلاف جیسے لوگ شامل هوں تو پهر اس کے نقش قدم پرچلنے والے لوگ کیسے هوں گے ؟
پهر اس فن کے لیئے جواصول وضوابط نافذ کیئے گئے وه اسلام کے اصل نہج سے کتنے دور هوں گے ؟
علماء اسلام نے بعد میں معتزلہ کے رواج دیئے هوئے نظریات کو مٹانے کی کوشش کی لیکن جو خمیر معتزلہ ڈال چکے تهے وه مکمل طور پرپاک نہ هوسکا ، لہذا قدیم علم کلام میں کی کتب میں اس طرح مباحث بکثرت موجود هیں ، پهر اس فلسفیانہ طرز استدلال ونظریہ نے جو نقصان پہنچایا وه بالکل ظاهر هے ، حتی کہ آج بهی آزاد طبع لوگ معتزلی نظریات کوقبول کرلیتے هیں ،
بہرحال علم کلام ترقی کرتا رها ،
علم کلام کی تاریخ کے سلسلہ میں
علامہ شہرستانی جیسا مستند وذمہ دار آدمی رقمطراز هے کہ
أما رونق علم الكلام فابتداءه من الخلفاء العباسية هارون والمامون والمعتصم والواثق والمتوكل وأما إنتهائه فمن صاحب ابن عباد وجماعة من الديالمة
( ألملل والنحل ج 1 ص 39 )
علم کلام کی ابتداء خلفاء عباسیہ خصوصا هارون اور مامون کے دور میں هوئ ،
اور معتصم ، واثق ، متوكل کے عہد سلطنت میں بهی اس فن کو عروج حاصل هوا ، اور پهر یہ فن صاحب بن عباد اور دیالمہ کے وقت میں انتہائ حدود میں داخل هوگیا ۰
ان گهمبیر حالات میں جس کی سرسری جهلک گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کی کہ معتزلہ اور ذیلی گمراه فرقوں کے نظریات پهیلتے جارهے تهے
الله تعالی نے أمة محمديه کی هدایت وراهنمائ ایسے رجال وافراد کو منتخب کیا جنهوں نے دین حنیف اور عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت وصیانت کا کام بڑے اعلی درجات اور منظم طریقہ سے انجام دیا ، اور ملحدین وزنادقہ وفرق ضالہ کے اوهام ونظریات کا ادلہ وبراهین کے بهرپور رد کیا ، اور معتزلہ اور دیگرفرق ضالہ کے انتشار کے بعد الله تعالی نے شیخ أبو الحسن الأشعري
اور شیخ أبي المنصور الماتريدي کو پیدا کیا ، لہذا ان دونوں بزرگوں نے عقائد اهل سنت کی حفاظت وحمایت کا کام بڑی محنت شاقہ کے ساتهہ شروع کیا ،
اور صحابہ وتابعین وتبع تابعین کے عقائد کی حفاظت وصیانت کا ذمہ اٹهایا ،
اور اپنے زبان وقلم سے دلائل نقلیہ وعقلیہ سے اس کا اثبات کیا ، اور مستقل کتب وتالیفات میں عقائد اهل سنت کو جمع کیا ، اور ساتهہ ساتهہ معتزلہ اوران سے نکلنے والے دیگرفرق ضالہ کے شبہات ونظریات کا بڑے زور وشور سے رد کیا ، لہذا اس کے بعد تمام اهل سنت اشعری یا ماتریدی کہلانے لگے ،
اور یہ نسبت اس لیئے ضروری تها تاکہ دیگر فرق ضالہ سے امتیاز وفرق واضح رهے
، لهذا اس کے بعد ان دو ائمہ کے منهج پرچلنے لوگ اهل سنت کہلائے ٠
ترجمة الإمام أبو الحسن الأشعري رحمه الله
أبو الحسن علي بن إسماعيل بن أبي بشر إسحاق بن سالم بن إسماعيل بن عبد الله بن موسى بن بلال بن أبي بُردَةَ عامر ابن صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم أبي موسى الأشعري.
تاریخ ولادت و وفات
آپ کی ولادت ( 260 هہ ) میں هوئ بعض نے (270 هہ ) بتایا ، اور آپ کی تاريخ وفات میں اختلاف هے بعض نے ( 333 هہ ) بعض نے ( 326 هہ )
بعض نے ( 330 هہ ) بغداد میں آپ فوت هوئے مقام ( الكرخ اور باب البصرة) کے درمیان مدفون هوئے ،
ابتداء حیات میں آپ نے مذهب اعتزال أبي علي الجبَّائي معتزلی سے پڑها اور ایک مدت تک اسی پر رهے ، پهر آپ نے مذهب اعتزال سے توبہ کیا اور بالکلیہ طور پر اس کوخیرباد کہ دیا ، اور بصره کی جامع مسجد میں جمعہ کے
دن کرسی ومنبرپرچڑهہ کر بآواز بلند ببانگ دهل یہ اعلان کیا کہ اے لوگو جس نے مجهے پہچانا اس نے مجهے پہچانا اور جس نے مجهے نہیں پہچانا میں اس کو اپنی پہچان کراتا هوں لہذا میں فلان بن فلان قرآن کے مخلوق هونے کا قائل تها ، اور یہ کہ الله تعالی رویت آخرت میں آنکهوں کے ساتهہ نہیں هوسکتی ، اور یہ کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق هیں ، اور اب میں مذهب اعتزال سے توبہ کرتا هوں اور میں معتزلہ کے عقائد پر رد کروں گا اور ان کے عیوب وضلالات کا پرده چاک کروں گا ، اور میں نے الله تعالی سے هدایت طلب کی الله تعالی نے مجهے هدایت دی ، اور میں اپنے گذشتہ تمام نظریات کو اس طرح اتارتا هوں جس یہ کپڑا اتارتا هوں ، پهر اس کے بعد بطورمثال اپنے جسم پرجو چادر تها اس اتار کرپهینک دیا ، پهر لوگوں کو وه کتابیں دیں جو مذهب أهل الحق اهل السنه کے مطابق تالیف کیں ٠
الإمام الأشعرى کے تلامذه
ایک كثير مخلوق نے آپ سے استفاده کیا ، بڑے بڑے أعلام الأمة أكابر العلماء نے آپ کے مسلک کی اتباع کی اور نصرة عقائد أهل السنة میں آپ کے اصول کو اپنایا ، اور آپ کے تلامذه کی تعداد وتذکره علماء امت نے مستقل طور پرآپ کے سوانح میں کیا ،
قاضي القضاة الشيخ تاج الدين ابن الامام قاضي القضاة تقي الدين السبكي الشافعی نے اپنی کتاب ( طبقات الشافعية ) میں ایک خاص فصل میں آپ کا تذکره کیا ،
اور امام سبکی الشافعی نے آپ کے ترجمہ کی ابتداء ان الفاظ میں کی
شيخنا وقدوتنا إلى الله تعالى الشيخ أبو الحسن الأشعري البصري شيخ طريقة أهل السنة والجـماعة وإمام المتكلمين وناصر سنة سيد المرسلين والذاب عن الدين والساعي في حفظ عقائد المسلمين سعيًا يبقى أثره إلى يوم يقوم الناس لرب العالمين، إمام حبر وتقي بر حمى جناب الشرع من الحديث المفترى وقام في نصرة ملّة الإسلام فنصرها نصرًا مؤزرًا وما برح يدلج ويسير وينهض بساعد التشمير حتى نقَّى الصدور من الشُّبه كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس ووقى بأنوار اليقين من الوقوع في ورطات ما التبس فلم يترك مقالاً لقائل وأزاح الأباطيل، والحق يدفع ترهات الباطل " اهہ
اسی طرح مؤرخ الشام اور حافظ الحدیث الشیخ أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله بن عساكر نے الشيخ أبي الحسن الأشعري کی مناقب ومؤلفات وسوانح پرمستقل کتاب لکهی ۰
اوردیگر تمام علماء امت نے بهی اپنی کتب میں آپ کا تذکره کیا ، اور سب نے آپ کو اهل سنت کا امام قرار دیا ،
المؤرخ الحافظ ابن العماد الحنبلي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
الإمام العلامة البحر الفهامة المتكلم صاحب المصنفات، ثم قـال: "وممّا بيض به وجوه أهل السنة النبوية وسود به رايات أهل الاعتزال والجهمية فأبان به وجه الحق الأبلج، ولصدور أهل ا لإيمان والعرفان أثلج، مناظرته مع شيخه الجبائي التي قصم فيها ظهر كل مبتدع مرائي " اهـ.
شذرات الذهب (2/ 303، 305).
امام شمس الدين بن خلكان نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
صاحب الأصول، والقائم بنصرة مذهب أهل السنة، وإليه تنسب الطائفة الأشعرية، وشهرته تغني عن الإطالة في تعريفه " اهـ.
وفيات ا لأعيان (3/ 284ء286).
امام أبو بكر بن قاضي شهبة نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
الشيخ أبو الحسن الأشعري البصري إمام المتكلمين وناصر سنة سيد المرسلين، والذاب عن الدين" ا.هـ.
طبقات الشافعية (1/ 113).
علامه يافعي شافعي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
الشيخ الإمام ناصر السنة وناصح الأمة، إمام الأئمة الحق ومدحض حجيج المبدعين المارقين، حامل راية منهج الحق ذي النور الساطع والبرهان القاطع " ا.هـ
مرأة الجنان (2/ 298).
علامه القرشي الحنفي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
صاحب الأصول الإمام الكبير وإليه تنسب الطائفة الأشعرية"
الجواهر المضية في طبقات الحنفية 21/ 544، ه 54).
علامه الأسنوي الشافعي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
هو القائم بنصرة أهل السنة القامع للمعتزلة وغيرهم من المبتدعة بلسانه وقلمه، صاحب التصانيف الكثيرة، وشهرته تغني عن ا لإطالة بذكره
طبقات الشافعية (1/ 47).
خلاصہ یہ هے کہ ائمہ اسلام کے اقوال وآراء تعریف وتوصیف الإمام الأشعرى اورالإمام أبو منصور الماتريدي کے متعلق بیان کروں توایک مستقل کتاب تیار هوجائے ، بطور مثال چند ائمہ کے اقوال ذکرکردیئے تاکہ ان جاهل لوگوں کوهدایت هوجائے ، جو جہلاء کی اندهی تقلید میں امت مسلمہ کے کبارائمہ پرلعن طعن کرتے هیں ، جب ان جہلاء کی اپنی حالت یہ هے کہ الف باء سے واقف نہیں ، فالی الله المشتکی ۰
مؤلفات الإمام أبو الحسن الأشعري
آپ کی کتب وتالیفات بہت زیاده هیں ، بطورمثال چند کتب کا ذکرکرتا هوں
ا- إيضاح البرهان في الرد على أهل الزيغ والطغيان.
2- تفسير القرءان، وهوكتاب حافل جامع.
3- الرد على ابن الراوندي في الصفات والقرءان.
4- الفصول في الرد على الملحدين والخارجين عن الملّة.
5- القامع لكتاب الخالدي في الارادة.
6- كتاب الاجتهاد في الأحكام.
7- كتاب الأخبار وتصحيحها.
8 -تاب الإدراك في فنون من لطيف الكلام.
9- كتاب الإمامة.
10-التبيين عن أصول الدين.
11- الشرح والتفصيل في الرد على أهل الإفك والتضليل.
12- العمد في الرؤية.
13- كتاب الموجز.
14- كتاب خلق الأعمال.
15- كتاب الصفات، وهو كبير تكلم فيه على أصناف المعتزلة والجهمية.
16- كتاب الرد على المجسمة .
17- اللمع في الرد على أهل الزيغ والبدع.
18-النقض على الجبائي.
19- النقض على البلخي.
20- جمل مقالات الملحدين.
21- كتاب في الصفات وهو أكبر كتبه نقض فيه ءاراء المعتزلة وفند أقوالهم وأبان زيغهم وفسادهم.
22-أدب الجدل.
23- الفنون في الرد على الملحدين.
24- النوادر في دقائق الكلام.
25- جواز رؤية الله تعالى بالأبصار.
26- كتاب الإبانة.
ترجمة الإمام أبو منصور الماتريدي
هو أبو منصور محمد بن محمد بن محمود الماتريدي السمرقندي،
ماتریدی نسبت هے ماترید کی طرف اور یہ سمرقند ماوراء النهر میں ایک مقام کا نام هے ، اورامام أبو منصور الماتريدي کوبهی علماء امت نے "إمام الهدى" و "إمام المتكلمين" و "إمام أهل السنه " وغير ذلك القابات سے یاد کیا ،
آپ کی تاریخ ولادت کے متعلق کوئ متعین تاریخ تونہیں ملتی مگر علماء کرام نے لکها هے کہ آپ کی ولادت عباسی خليفة المتوكل کے عهد میں هوئ ، اور آپ کی ولادت الإمام أبي الحسن الأشعري سے تقریبا بیس سال قبل هوئ هے ،
اور آپ نے جن مشائخ سے علم حاصل کیا ان سب کی سند الإمام الجليل الإمام الإمام الاعظم أبي حنيفة النعمان سے جاملتی هے ،
اورآپ علوم القرأن الكريم وأصول الفقه وعلم الكلام والعقائد کے بے مثال ومستند امام هیں ، اورآپ کی پوری زندگی حماية الإسلام ونصرة عقيدة أهل السنة والجماعة سے عبارت هے ، اورآپ بالاتفاق أهل السنة والجماعة کے امام جلیل محافظ العقائد أهل السنة، وقاطع الاعتزال والبدع قرارپائے ، معتزلہ اوردیگر فرق ضالہ کا اپنی مناظرات ومحاورات میں اور تصنیفات وتالیفات میں بهرپور رد وتعاقب کیا ، اور تمام عمرعقائد أهل السنة کی حفاظت وصیانت وتبلیغ وتشہیرکی ٠
مؤلفات الإمام أبو منصور الماتريدي
آپ کے کئ مؤلفات هیں جن کا تذکره علماء امت نے آپ کے ترجمہ میں کیا هے
جن میں سے بعض کے نام درج ذیل هیں
1 = كتاب "التوحيد"
2 = كتاب "المقالات"
3 = كتاب "الرد على القرامطة"
4 = كتاب "بيان وهم المعتزلة"
5 = كتاب "رد الأصول الخمسة لأبي محمد الباهلي"
6 = كتاب "أوائل الأدلة للكعبي"
7 = كتاب "رد كتاب وعيد الفساق للكعبي"
8 = كتاب "رد تهذيب لجدل للكعبي"
9 = كتاب "الجدل"
10 = وكتاب "مأخذ الشرائع في أصول الفقه"
11 = كتاب "شرح الفقه الأكبر"
12 = كتاب "تأويلات أهل السنة"
بعض نسخوں میں اس کتاب کا نام "تاويلات الماتريدي في التفسير" هے ،
الإمام عبد القادر القرشي المتوفى سنة 775هــ اس کتاب کے متعلق فرماتے هیں کہ یہ ایسی کتاب هے کہ اس فن میں لکهی گئ پہلی کتابوں میں سے کوئ کتاب اس کے برابربلکہ اس کے قریب بهی نہیں پہنچ سکتی ٠
اس کتاب کے مقدمہ کی ابتداء ان الفاظ سے هوتی هے
"قال الشيخ الإمام الزاهد علم الدين شمس العصر، رئيس أهل السنة والجماعة أبو بكر محمد بن أحمد السمرقندي رحمه الله تعالى: إن كتاب التاويلات المنسوب إلى الشيخ الإمام أبي منصور الماتريدي رحمه الله كتاب جليل القدر، عظيم الفائدة في بيان مذهب أهل السنة والجماعة في أصول التوحيد، ومذهب أبي حنيفة وأصحابه رحمهم الله في أصول الفقه وفروعه على موافقة القرأن". ا.هــ.
صاحب "كشف الظنون" نے یہ تصریح کی هے کہ یہ کتاب آٹهہ جلدوں میں هے اور الشيخ علاء الدين بن محمد بن أحمد نے اس کو جمع کیا هے ،
حاصل یہ کہ بطور مثال آپ کے علمی میراث کی ایک جهلک آپ نے ملاحظہ کی ، اور جیساکہ میں گذشتہ سطور میں عرض کرچکا هوں کہ ان دو جلیل القدر ائمہ اهل سنت کے ترجمہ وسوانح وکمالات وکارناوں پرمستقل کتب موجود هیں ،
یہاں تواختصارکے ساتهہ ان کا تذکره مقصود هے ، تاکہ ایک صالح متدین آدمی کے علم میں اضافہ هو اور اس کے دل میں ان جلیل القدر ائمہ اهل سنت کا احترام وعظمت زیاده هوجائے ، اور جوشخص جہل کی وجہ سے ان کے ساتهہ بغض رکهتا هے ان پرلعن طعن کرتا هے اس کی اصلاح هوجائے ٠
الإمام الماتريدي كى تاريخ وفات
صاحب كتاب "كشف الظنون" نے ذکرکیا هے کہ آپ کی وفات ( 332هــ ) میں هوئ هے ، دیگر کئ مؤرخين نے سنہ وفات ( 333هــ ) بهى لكهى هے ،
علامه عبد الله القرشي نے بهى "الفوائد البهية" میں سنہ وفات ( 333هــ ) بتائ هے ، اور آپ کی قبرسمرقند میں هے ،
امت مسلمہ کے کبارمحدثین ومفسرین وفقہاء وائمہ اشعری وماتریدی هیں ٠
بطورمثال چند کا تذکره پیش خدمت هے
1 = الإمام الحافظ أبو الحسن الدارقطني رحمه الله تعالى ،
(تفصیل دیکهیئے ، تبيين كذب المفتري 255، السير 17/558، أثناء ترجمة الحافظ أبي ذر الهروي، وتذكرة الحفاظ 3/1104).
2 = الحافظ أبو نعيم الأصبهاني رحمه الله تعالى، صاحب حلية الأولياء،
الإمام الأشعري کے متبعین میں سے هیں ،
(تبيين كذب المفتري 246، الطبقات الكبرى للتاج السبكي 3/370).
3 = الحافظ أبو ذر الهروي عبد بن أحمد رحمه الله تعالى،
( تفصیل دیکهیئے گذشتہ حوالے اور ، الطبقات الكبرى للتاج السبكي 3/370).
4 = الحافظ أبو طاهر السلفي رحمه الله تعالى،
(الطبقات 3/372)
5 = الحافظ الحاكم النيسابوري رحمه الله تعالى صاحب المستدرك على الصحيحين،
اپنے زمانہ کے إمام أهل الحديث هیں کسی تعارف محتاج نہیں هیں ،
اورعلماء امت کا اتفاق هے کہ امام حاکم ان بڑے علم والے ائمہ میں سے ایک هیں جن کے ذریعہ سے الله تعالی نے دین متین کی حفاظت کی ،
(تبيين كذب المفتري ص/227).
6 = الحافظ ابن حبان البستي رحمه الله تعالى صاحب الصحيح وكتاب الثقات وغيرها، الإمام الثبت القدوة إمام عصره ومقدم أوانه
7 = الحافظ أبو سعد ابن السمعاني رحمه الله تعالى، صاحب كتاب الأنساب.
(الطبقات 3/372)
8 =الإمام الحافظ أبو بكر البيهقي رحمه الله تعالى صاحب التصانيف الكثيرة الشهيرة
9 = الإمام الحافظ ابن عساكر رحمه الله تعالى
10 = الإمام الحافظ الخطيب البغدادي رحمه الله تعالى، (التبيين ص / 268).
11 = الإمام الحافظ محي الدين يحيى بن شرف النووي محي الدين رحمه الله تعالى،
امام نووی کسی تعارف کےمحتاج نہیں هیں ، دنیا کا کون سا حصہ ایسا هے جہاں آپ کی کتاب رياض الصالحين اور کتاب الأذكار اورشرح صحيح مسلم نہیں هے ؟؟
12 = شيخ الإسلام الإمام الحافظ أبو عمرو بن الصلاح رحمه الله تعالى
13 = الإمام الحافظ ابن أبي جمرة الأندلسي مسند أهل المغرب رحمه الله تعالى
14 = الإمام الحافظ الكرماني شمس الدين محمد بن يوسف رحمه الله ، صاحب الشرح المشهور على صحيح البخاري
15 = الإمام الحافظ المنذري رحمه الله تعالى صاحب الترغيب والترهيب.
16 = الإمام الحافظ الأبي رحمه الله تعالى شارح صحيح مسلم.
17 = الإمام الحافظ ابن حجر العسقلاني رحمه الله تعالى ،
امام حافظ ابن حجر کسی تعارف کےمحتاج نہیں هیں ،
18 = الإمام الحافظ السخاوي رحمه الله تعالى.
19 = الإمام الحافظ السيوطي رحمه الله تعالى.
20 = الإمام القسطلاني رحمه الله تعالى شارح الصحيح.
21 = الإمام الحافظ المناوي رحمه الله تعالى
خلاصہ کلام یہ کہ اگراشاعره وماتریدیه علماء امت کی صرف اسماء کو بهی جمع کیا هے توایک ضخیم کتاب تیارهوجائے ، مذکوره بالا ائمہ میں اکثرشافعی المسلک هیں ، اس کے بعد احناف ، مالکیہ ، حنابلہ ، کے تمام حفاظ حدیث وائمہ اسلام جوکہ اشاعره وماتریدیه هیں ان کا تذکره هماری بس سے باهر هے ، کیونکہ علماء اسلام کا ایک ٹهاٹهیں مارتا هوا سمندر هے جنهوں نے عقائد واصول میں الإمام أبو الحسن الأشعري اور الإمام أبو منصور الماتريدي کی اتباع کی ، یہاں سے آپ ان جاهل لوگوں کی جہالت وحماقت کا اندازه بهی لگالیں ، جویہ کہتے هیں کہ اشعری وماتریدی توگمراه هیں ( معاذالله ) کیا اتنے بڑے کبارائمہ گمراهوں لوگوں کی اتباع کرنے والے تهے ؟
بس جہالت اور اندهی تقلید کی زنده مثالیں کسی نے دیکهنی هوتو وه فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل عوام وخواص کو دیکهہ لے ، کوئ کسی شخص یا کسی مسئلہ کے بارے علم نہیں هوتا لیکن ضد وتعصب واندهی تقلید میں اس کو پهیلاتے جاتے هیں ، اور دلیل یہ هوتی هے کہ فلاں شیخ صاحب سے سنا هے ،
اب اگراس جاهل شیخ کی غلطی کوئ ظاهرکربهی دے پهر بهی یہ بے وقوف لوگ اس جاهل شیخ کی دم نہیں چهوڑتے ، اور جواب بزبان حال وقال یہی دیتے هیں کہ خبردینے والا نائ بڑا پکا هے ، آخر ایسی ضد وجہالت کا علاج کس کے پاس هے ؟؟
وسوسه = اشاعره اور ماتریدیه میں مسائل عقیده میں اختلاف هے توپهر ان میں حق پرکون هوا ؟؟
جواب = اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں کوئ اختلاف نہیں هے ،
چند فروعی مسائل میں اختلاف هے جوکہ مضرنہیں هے یہ ایسا اختلاف نہیں هے جس کی بنا پر ان میں سے کوئ فرقہ ناجیہ هونے سے نکل جائے ،
لہذا الإمام الأشعري اورالإمام الماتريدي کے مابین بعض جزئ اجتهادی مسائل میں خلاف هے ، اور علماء امت نے ان مسائل کوبهی جمع کیا هے ،
الإمام تاج الدين السبكي رحمه الله نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل هیں ،
تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خلاف فيها ثلاث عشرة مسائل منها معنوي ست مسائل والباقي لفظي وتلك الست المعنوية لا تقتضي مخالفتهم لنا ولا مخالفتنا لهم تكفيراً ولا تبديعاً، صرّح بذلك أبو منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم (( طبقات الشافعية ج 3 ص 38 ))
امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے هیں کہ میں نے احناف کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا تومیں نے صرف تیره مسائل کوپایا جن میں همارا اختلاف هے اور ان میں چهہ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرکا ) اختلاف هے اور باقی (سات ) مسائل میں محض لفظی اختلاف هے ، اور پهر ان چهہ مسائل میں معنوی ( تعبیرکا ) اختلاف کا مطلب هرگزیہ نہیں هے کہ اس کی وجہ سے هم ایک دوسرے کی تکفیر اور تبدیع ( بدعت کا حکم ) کریں ، استاذ أبو منصور البغدادي وغيره نے همارے ائمہ میں اور اسی طرح ائمہ احناف نے بهی یہی تصریح کی هے ۰
بالکل یہی بات علامہ ملا علی قاری رحمه الله نے بهی کی هے
وقال العلامة على القارى فى المرقات ( ج 1 ص 306
وماوقع من الخلاف بين الماتريدية والأشعرية فى مسائل فهى ترجع الى الفروع فى الحقيقة فانها لفظيات فلم تكن من الإعتقادات المبينة على اليقينيات بل قال بعض المحققين ان الخُلف بيننا فى الكل لفظي اهـ
اشعریہ وماتریدیہ کے مابین بعض مسائل میں اختلاف حقیقت میں فروعی اختلاف هے ، اور یہ ظنی مسائل هیں ان اعتقادی مسائل میں سے نہیں هیں جو یقینیات کے اوپرمبنی هیں ، بلکہ بعض محققین نے تویہ کہا هے کہ اشاعره اور ماتریدیه کے درمیان سب مسائل خلافیہ میں محض لفظی اختلاف هے ۰
لہذا اشاعره اور ماتریدیه عقائد میں ایک هیں اور هم یہ کہ سکتے هیں کہ اشعری ماتریدی هے اور ماتریدی اشعری هے ، کیونکہ ان دونوں جلیل القدر ائمہ نے تو عقائد حقہ کو جمع ونشرکیا هے اور اصول عقائد ان کے پاس وهی هیں جو صحابہ تابعین وتبع تابعین کے تهے ، بس ان دو اماموں نے تو ان عقائد کی تبلیغ وتشہیر ونصرت وحفاظت وحمایت کی توجیسا کہ صحابہ تابعین وتبع تابعین عقائد تهے وهی اشاعره اور ماتریدیه کےعقائد هیں ،
اب وه لوگ کتنے خطرے میں هیں جو احناف اور امام ابوحنیفہ سے ضد وتعصب کی بنا پر اشاعره اور ماتریدیه کے عقائد کوگمراه وغلط کہ دیتے هیں ،
اگر امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اهتمام کیا تواب اگر کوئ بے وقوف شخص امام بخاری کے ساتهہ عداوت وتعصب کی بنا پر صحیح بخاری کا انکار کرے یا اس کو غلط کہے تو ایسا شخص حقیقت میں احادیث رسول کے انکار کا ارتکاب کر رها هے ، کیونکہ امام بخاری نے تو صرف احادیث رسول کی حفاظت وصیانت کی اور ان کو اپنی کتاب میں جمع کردیا ،
بعینہ یہی حال هے الإمام الأشعري اورالإمام الماتريدي کا هےکہ ان دو ائمہ نے صحابہ تابعین وتبع تابعین کے عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت کی اور اپنی کتابوں میں اس کو لکهہ کر آگے لوگوں تک پہنچا دیا ،
اب کوئ جاهل کوڑمغز اشاعره اور ماتریدیه کے عقائد کوگمراه کہے تو اس کی
اس بکواس کا پہلا نشانہ کون بنتا هے ؟؟
سوال = الإمام أبو الحسن الأشعري اور الإمام أبو منصور الماتريدي کے بعد لوگ اپنے آپ کو اشعری وماتریدی کیوں کہنے لگے ؟؟ اور اشاعره وماتریدیه کی نسبت کیوں اختیار کی گئ ؟؟
جواب = اس سوال کا جواب چوتهی صدی هجری کے عالم اور امت مسلمہ کے مستند ومعتبرامام وفقیہ ومحدث ومفسر حفظ واتقان وضبط میں سب سے فائق مرجع العوام والخواص تمام علوم الشرعية کے بے مثل امام ،
میری مراد الإمام الحافظ أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي رحمه الله تعالى هیں ،
جن کے متعلق حدیث ورجال کے مستند امام الحافظ الذهبی اس طرح تبصره کرتے هیں ، کہ اگر امام البيهقي چاهتے تو اپنا ایک مستقل اجتهادی مذهب ومسلک بنا لیتے کیونکہ اجتهاد پرقادرتهے اورعلوم میں وسعت رکهتے تهے اور اختلاف کی معرفت رکهتے تهے ٠ یعنی امام البيهقي میدان اجتهاد کے شہسوار تهے لیکن باوجود اس اهلیت وکمال کے دین میں امام شافعی کی راهنمائ وتقلید کا دامن پکڑا ، خیر میں نے یہ چند کلمات اس لیئے عرض کیئے تاکہ امام البيهقي کا مرتبہ پہلے ذهن نشین هوجائے ، اب میں مذکوره سوال کا جواب اسی امام کی زبانی نقل کرتا هوں ،
وقال الحافظ أبو بكر البيهقي رحمه الله تعالى
إلى أن بلغت النوبة إلى شيخنا أبي الحسن الأشعري رحمه الله فلم يحدث في دين الله حَدَثاً، ولم يأت فيه ببدعة، بل أخذ أقاويل الصحابة والتابعين ومن بعدهم من الأئمة في أصول الدين فنصرها بزيادة شرح وتبيين،الخ(تبيين كذب المفتري 103، الطبقات الكبرى للتاج السبكي 3/397
یہاں تک کہ نوبت همارے شیخ أبي الحسن الأشعري رحمه الله تک جا پہنچی پس اس ( أبي الحسن الأشعري ) نے دین میں کوئ نئ چیزایجاد نہیں کی ، اور نہ کوئ بدعت لے کرآئے ، بلکہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اصول الدین کے اقوال ( وعقائد ) کولیا اور اس کی بهرپور نصرت کی اور اس کی مزید شرح وتبیین وتفسیر کی ۰
دیگرائمہ نے بهی یہی بات کہی هے ، کہ اشعری وماتریدی کی طرف نسبت وانتساب کی حقیقت صرف یہی هے کہ ان دوائمہ نے اپنی پوری زند گی عقائد اهل سنت کی حفاظت وصیانت ودفاع وجمع وتدوین وتبلیغ وتشہیر میں صرف کردی ،لہذا تمام اهل سنت هرزمانہ میں ان کے بعد ان کی طرف نسبت کرنے لگے ، تاکہ دیگرگمراه وبدعتی افراد وجماعات سے امتیاز وفرق رهے
الله تعالی تمام اهل اسلام کو صحیح سمجهہ وهدایت نصیب کرے اور هر قسم کے شیطانی وساوس سے محفوظ رکهے ۰
الأشاعرة والماتريدية أهل السنة والجماعة
فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل جہلاء عوام الناس کو ایک وسوسہ پڑها دیتے هیں ، اور جاهل اندهے مقلد عوام اسی وسوسہ کو یاد کرکے رات دن گردانتے رهتے هیں ، اور اپنے زعم میں بڑے خوش هوتے هیں کہ اب هم نے صراط مستقیم پالیا هے ، همارا عمل تو صرف قرآن وحدیث پر هے
انهی وساوس میں سے ایک وسوسہ کاذبہ یہ بهی هے اشاعره وماتریدیه گمراه هیں ، اب جاهل آدمی کو کچهہ پتہ نہیں کہ اشاعره وماتریدیه کون هیں ؟ ان کے کیا عقائد ونظریات هیں ؟ ان کی کیا تاریخ هے ؟ ان کا کون سا عقیده گمراه هے ؟
بس اس جاهل کے پاس دلیل وثبوت یہی هے کہ فلاں شیخ صاحب نے کہا هے ،
کذب وجہالت کی اندهی تقلید کی جیتی جاگتی تصویرکسی نے دیکهنی هو تو وه آج کل کے فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل عوام دیکهہ لے ، ان بے چاروں کی حالت بہت قابل رحم هے کیونکہ ان کو قرآن وحدیث کے نام پر فرقہ جدید اهل حدیث میں داخل کیا جاتا هے اور پهر درپرده چند جہلاء کی اندهی تقلید کرائ جاتی هے جن کوشیخ کے لقب سے یاد کیا جاتا هے اور یہی وساوس ان کو یاد کروائے جاتے هیں ، آپ از راه امتحان کسی عامی نام نہاد اهل حدیث یا غیر مقلد سے پوچهہ لیں کہ فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل هونے کے بعد کتنا قرآن سیکها ؟ کتنی سنتیں سیکهی ؟ کتنی احادیث یاد کیں ؟ کتنی مسنون دعائیں یاد کیں ؟ کتنے آداب شرعیه سیکهہ لیئے ؟ جواب زیرو هوگا
گذشتہ سطور میں اشاعره وماتریدیه کی تعریف وحقیقت وتاریخ وعقائد کے حوالہ سے کچهہ تفصیل پیش کی گئ ،
خوب یاد رکهیں کہ امت مسلمہ میں الإمام أبي الحسن الأشعري اورالإمام أبي منصور الماتريدي کے مذهب کے ظہور کے بعد تمام کبارأهل العلم مفسرين ومحدثين وفقهاء واصوليين ومتكلمين وأهل اللغة ومؤرخين وقائدین ومصلحين وغيرهم أشاعرة یا ماتريدية هی کہلائے ، کیونکہ ان دو جلیل القدر اماموں نے عقائد صحابہ وتابعین وتبع تابعین هی کو جمع کیا ، اسی طرح بعد میں آنے والے عوام وخواص مسلمین نے عقائد واصول میں انهی دو اماموں کی طرف اپنی نسبت کی ، بطور مثال چند ائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش خدمت هیں جو اشعری یا ماتریدی کہلائے ،
أهل التفسير ومفسرین وعلماء علوم القرآن :
القرطبي = وابن العربي = والرازي = وابن عطية = المحلي = البيضاوي = الثعالبي = أبو حيان = ابن الجزري = الزركشي = السيوطي = الآلوسي = الزرقاني = النسفي = القاسمي وغيرهم كثير رحمهم الله
أهل الحديث ومحدثین وعلماء علوم الحدیث
الحاكم = البيهقي = الخطيب البغدادي = ابن عساكر = الخطابي = أبو نعيم الأصبهاني = القاضي عياض =ابن الصلاح =المنذري =النووي =العز بن عبد السلام =الهيثمي =المزي =ابن حجر =ابن المنير =ابن بطال اورشراح الصحيحين = اورشراح السنن = العراقي وابنه =ابن جماعة =العيني =العلائي =ابن فورك =ابن الملقن =ابن دقيق العيد =ابن الزملكاني =الزيلعي =السيوطي =ابن علان =السخاوي =المناوي =علي القاري =البيقوني =اللكنوي =الزبيدي وغيرهم رحمهم الله
أهل الفقه وفقهاء وعلماء اصول الفقه
الحنفية :
ابن نجيم =الكاساني =السرخسي =الزيلعي =الحصكفي =الميرغناني =الكمال بن الهمام =الشرنبلالي =ابن أمير الحاج =البزدوي =الخادمي =عبد العزيز البخاري وابن عابدين =الطحطاوي وغيرهم كثير رحمهم الله
المالكية :
ابن رشد =القرافي =الشاطبي =ابن الحاجب =خليل =الدردير =الدسوقي =زروق =اللقاني =الزرقاني =النفراوي =ابن جزي =العدوي =ابن الحاج =السنوسي =ابن عليش وغيرهم كثير رحمهم الله
الشافعية :
الجويني وابنه =الرازي =الغزالي =الآمدي =الشيرازي =الاسفرائيني =الباقلاني =المتولي =السمعاني =ابن الصلاح =النووي =الرافعي =العز بن عبد السلام =ابن دقيق العيد =ابن الرفعة =الأذرعي =الإسنوي =السبكي وابنه =البيضاوي =الحصني =زكريا الأنصاري =ابن حجر الهيتمي =الرملي =الشربيني =المحلي =ابن المقري =البجيرمي =البيجوري =ابن القاسم =قلوبي =عميرة =الغزي =ابن النقيب =العطار =البناني =الدمياطي =آل الأهدل وغيرهم كثير رحمهم الله
أهل التواريخ وسير وتراجم
القاضي عياض =المحب الطبري =ابن عساكر =الخطيب البغدادي =أبو نعيم الأصبهاني =ابن حجر =المزي =السهيلي =الصالحي =السيوطي =ابن الأثير =ابن خلدون =التلمساني =الصفدي =ابن خليكان وغيرهم كثير رحمهم الله
أهل اللغة وعلماء علوم اللغة
الجرجاني =الغزويني =ابن الأنباري =السيوطي =ابن مالك =ابن عقيل =ابن هشام =ابن منظور =الفيروزآبادي =الزبيدي =ابن الحاجب =الأزهري =أبو حيان =ابن الأثير =الجرجاني =الحموي =ابن فارس =الكفوي =ابن آجروم =الحطاب =الأهدل وغيرهم كثير.رحمهم الله
یہ چند مشہورائمہ اسلام ومشاهیراسلاف امت کی اسماء طرف ایک اشاره کردیا ، ان میں سے هرایک عالم وامام اپنی ذات میں ایک انجمن هے اور علم ومعرفت کا ایک خزانہ هے ، یہ سب ائمہ اسلام اور ان کے علاوه سب أشاعرة یا ماتريدية تهے ، اور اگرتمام علماء أشاعرة و ماتريدية کے صرف اسماء کوبهی جمع کیا جائے توبڑے بڑے دفترتیار هوجائیں ،
حاصل یہ کہ علماء حنفية ماتريدية هیں ، علماء مالكية وشافعية أشعرية هیں ، اور
علماء حنابلة أثرية هیں ،
اب سوال یہ هے کہ جن مشاهیر ائمہ کے اسماء هم نے ذکرکئے هیں ، اور جن کے نام ذکرنہیں کیئے وه بهی بہت زیاده هیں ، کیا یہ سب گمراه اور أهل السنة والجماعة سے خارج تهے ؟؟ ( معاذالله ) الإمام محمد السفاريني الحنبلي ( صاحب العقيدة السفارينية ) فرماتے هیں اپنی کتاب ( لوامع الأنوار ) میں کہ اهل سنت کی تین جماعتیں هیں ،
1 = الأثرية ، ان کا امام أحمد بن حنبل رحمہ الله هے
2 = الأشعرية ، ان کا امام أبوالحسن الأشعري رحمہ الله هے
3 = الماتردية ، ان کا امام أبو منصور الماتريدي رحمہ الله هے ۰
قال الإمام محمد السفاريني الحنبلي صاحب العقيدة السفارينية : حيث قال في كتابه لوامع الأنوار شرح عقيدته (1/ 73 ) أهل السنة والجماعة ثلاث فرق ، الأثرية وإمامهم أحمد بن حنبل رحمہ الله
والأشعرية وإمامهم أبوالحسن الأشعري رحمہ الله ،
والماتردية وإمامهم أبو منصور الماتريدي رحمہ الله اهـ
وسوسه = تقليد مذاهب الأربعة میں کیوں منحصر هے ؟ مجتهدین تو اور بهی بہت هیں صرف چارائمہ کی تقلید کیوں کی جاتی هے ؟
جواب = اس وسوسہ کا جواب بہت سارے ائمہ اسلام نے بالتفصیل دیا هے ، لیکن میں اس کا جواب الإمام الحافظ العلامة ابن رجب الحنبلي رحمہ الله کی زبانی نقل کروں گا ، الإمام ابن رجب الحنبلي رحمہ الله حنبلی مذهب کے مستند ومعتمد علماء میں سے هیں ، حافظ ابن القیم حنبلی رحمہ الله کے خصوصی شاگرد هیں ،
ساتویں صدی هجری کے عالم هیں ، حافظ ابن حجر العسقلاني رحمہ الله نے اپنی
کتاب (( انباء الغمر )) میں ان کو فنون حدیث ورجال واسماء کا ماهر عالم قراردیا
قال عنه ابن حجر العسقلاني في انباء الغمر: (ومهر في فنون الحديث أسماء ورجالا وعللا وطرقا، واطلاعا على معانيه).
حافظ ابن العماد الحنبلي نے ان کے متعلق فرمایا
كانت مجالس تذكيره للقلوب صادعة، وللناس عامة مباركة نافعة، اجتمعت الفرق عليه، ومالت القلوب بالمحبة اليه، وله صفات مفيدة، ومؤلفات عديدة
الإمام الحافظ العلامة ابن رجب الحنبلي رحمہ الله نے اس وسوسہ کا جواب ساتویں صدی هجری میں دیا ، اور ایک مستقل رسالہ بنام (( الرد على من اتبع غير المذاهب الأربعة )) تحریرفرمایا ، یعنی ان لوگوں پر رد جومذاهب اربعہ کے علاوه کسی کی تقلید کرے
اسی رسالہ کے (( ص 33)) پر یہ وسوسہ خود نقل کرتے هیں اور پهر اس کا رد کرتے هیں
فإن قيل: نحن نسلِّم منع عموم الناس من سلوك طريق الاجتهاد؛ لما يفضي ذلك إلى أعظم الفساد. لكن لا نسلم منع تقليد إمام متبع من أئمة المجتهدين غير هؤلاء الأئمة المشهورين. ؟؟
اگریہ سوال کیا جائے کہ هم یہ بات تو تسلیم کرتے هیں کہ عوام الناس کو اجتهاد کے راستے پرچلنے سے منع کرنا ضروری هے ( کیونکہ اگرعوام کواجتهاد کی راه پرلگا دیا جائے ) تو اس میں بہت بڑا فساد وقوع پذیر هوگا ،
لیکن هم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ عوام کو صرف ائمہ اربعہ کی تقلید کرنی هے کسی اور امام مجتهد کی نہیں ۰
قيل: قد نبهنا على علة المنع من ذلك، وهو أن مذاهب غير هؤلاءلم تشتهر ولم تنضبط، فربما نسب إليهم ما لم يقولوه أو فهم عنهم ما لم يريدوه، وليس لمذاهبهم من يذب عنها وينبه على ما يقع من الخلل فيها بخلاف هذه المذاهب المشهورة.اهـ
جواب = عوام کو ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی دوسرے امام مجتهد کی تقلید سے منع کرنے کی وجہ اورعلت پرهم نے تنبیہ کردی اور وه یہ هے کہ مذاهب اربعہ کے علاوه کسی اور امام مجتهد کا مذهب مشہور ومنضبط نہیں هوا ، پس بہت دفعہ ان کی طرف وه بات منسوب کی جائے گی جوانهوں نے نہیں کہی ، یا ان سے کسی بات کو سمجها جائے جوان کی مراد نہ هوگی ، اور ان کی مذاهب کا دفاع کرنے والا بهی کوئ نہ رها جو ان کے مذاهب میں واقع هونے والے خلل ونقص پرتنبیہ کرے ، بخلاف ان مذاهب اربعہ مذاهب مشهوره کے( کہ ان کے تمام مسائل بسند صحیح جمع ومنضبط هیں اور ان کے علماء بهی برابر چلے آرهے هیں ) ۰
ساتویں صدی هجری کے عالم هیں ، حافظ ابن حجر العسقلاني رحمہ الله نے اپنی
کتاب (( انباء الغمر )) میں ان کو فنون حدیث ورجال واسماء کا ماهر عالم قراردیا
قال عنه ابن حجر العسقلاني في انباء الغمر: (ومهر في فنون الحديث أسماء ورجالا وعللا وطرقا، واطلاعا على معانيه).
حافظ ابن العماد الحنبلي نے ان کے متعلق فرمایا
كانت مجالس تذكيره للقلوب صادعة، وللناس عامة مباركة نافعة، اجتمعت الفرق عليه، ومالت القلوب بالمحبة اليه، وله صفات مفيدة، ومؤلفات عديدة
الإمام الحافظ العلامة ابن رجب الحنبلي رحمہ الله نے اس وسوسہ کا جواب ساتویں صدی هجری میں دیا ، اور ایک مستقل رسالہ بنام (( الرد على من اتبع غير المذاهب الأربعة )) تحریرفرمایا ، یعنی ان لوگوں پر رد جومذاهب اربعہ کے علاوه کسی کی تقلید کرے
اسی رسالہ کے (( ص 33)) پر یہ وسوسہ خود نقل کرتے هیں اور پهر اس کا رد کرتے هیں
فإن قيل: نحن نسلِّم منع عموم الناس من سلوك طريق الاجتهاد؛ لما يفضي ذلك إلى أعظم الفساد. لكن لا نسلم منع تقليد إمام متبع من أئمة المجتهدين غير هؤلاء الأئمة المشهورين. ؟؟
اگریہ سوال کیا جائے کہ هم یہ بات تو تسلیم کرتے هیں کہ عوام الناس کو اجتهاد کے راستے پرچلنے سے منع کرنا ضروری هے ( کیونکہ اگرعوام کواجتهاد کی راه پرلگا دیا جائے ) تو اس میں بہت بڑا فساد وقوع پذیر هوگا ،
لیکن هم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ عوام کو صرف ائمہ اربعہ کی تقلید کرنی هے کسی اور امام مجتهد کی نہیں ۰
قيل: قد نبهنا على علة المنع من ذلك، وهو أن مذاهب غير هؤلاءلم تشتهر ولم تنضبط، فربما نسب إليهم ما لم يقولوه أو فهم عنهم ما لم يريدوه، وليس لمذاهبهم من يذب عنها وينبه على ما يقع من الخلل فيها بخلاف هذه المذاهب المشهورة.اهـ
جواب = عوام کو ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی دوسرے امام مجتهد کی تقلید سے منع کرنے کی وجہ اورعلت پرهم نے تنبیہ کردی اور وه یہ هے کہ مذاهب اربعہ کے علاوه کسی اور امام مجتهد کا مذهب مشہور ومنضبط نہیں هوا ، پس بہت دفعہ ان کی طرف وه بات منسوب کی جائے گی جوانهوں نے نہیں کہی ، یا ان سے کسی بات کو سمجها جائے جوان کی مراد نہ هوگی ، اور ان کی مذاهب کا دفاع کرنے والا بهی کوئ نہ رها جو ان کے مذاهب میں واقع هونے والے خلل ونقص پرتنبیہ کرے ، بخلاف ان مذاهب اربعہ مذاهب مشهوره کے( کہ ان کے تمام مسائل بسند صحیح جمع ومنضبط هیں اور ان کے علماء بهی برابر چلے آرهے هیں ) ۰
الإمام ابن رجب الحنبلي رحمه الله نے جو کچهہ فرمایا وه بالکل واضح هے اور حق هے ، حتی کہ کسی کے لیئےآج یہ بهی ممکن نہیں کہ مذهب الصحابة کو معلوم کرسکے اگرچہ بڑے بڑے مسائل میں کیوں نہ هو ، مثلا نماز هی کو لے لیں جو کہ أركان الإسلام میں سے دوسرا بڑا رکن هے ، کسی لیئے یہ ممکن نہیں هے کہ وه نماز کے فرائض و واجبات وسنن ومستحبات ومکروهات وغیره کی تفصیل بیان کرکے اس کو سیدنا ابوبکر الصديق رضي الله عنه کی طرف منسوب کرے یا دیگر صحابہ رضي الله عنهم کی طرف ،
اسی علت و وجہ ( کہ ان کے مذاهب محفوظ وجمع نہیں هوئے ) کی بنا پر أئمة الكبار نے مذاهب غیرمشہوره کی عدم تقلید کا فتوی دیا ، حتی کہ إمام الحرمين الجويني رحمہ الله المولود سنة "417هـ" والمتوفى سنة "478هـ" نے محققین کا اجماع اس پرنقل کیا هے ، لہذا إمام الحرمين اپنی کتاب (( البرهان "2/744"))
میں فرماتے هیں کہ
أجمع المحققون على أن العوام ليس لهم أن يتعلقوا بمذاهب أعيان الصحابة رضي الله تعالى عنهم، بل عليهم أن يتبعوا مذاهب الأئمة الذين سبروا ونظروا وبوبوا الأبواب وذكروا أوضاع المسائل، وتعرضوا للكلام على مذاهب الأولين، والسبب فيه أن الذين درجوا وإن كانوا قدوة في الدين وأسوة للمسلمين؛ فإنهم لم يفتنوا بتهذيب مسالك الاجتهاد، وإيضاح طرق النظر والجدال وضبط المقال، ومن خَلْفَهُم مِنْ أئمةِ الفقهِ كَفَوا مَنْ بَعْدَهُمُ النظرَ في مذاهبِ الصحابةِ، فكان العاميُ مأموراً باتباعِ مذاهبِ السابرين. اهـ
اور إمام الحرمين یہ اجماع چوتهی صدی هجری میں نقل کر رهے هیں آج پندرهویں میں جو لوگ مختلف شیطانی وساوس کے ذریعے عوام کو دین میں آزاد کر رهے هیں اورهر کس وناکس کو مجتهد وامام کا درجہ دے رهے هیں ،
ایسے لوگ کتنی بڑی غلطی کے اندر مبتلا هیں اس کا اندازه آپ خود لگالیں ،
إمام الحرمين کی اس قول کے متعلق الإمام ابن حجر الهيتمي اپنی کتاب
( الفتاوى الفقهية الكبرى "8/340" ) میں فرماتے هیں کہ الإمامُ المحدث ابن الصلاح، نے اپنی کتاب الفتاوی ( كتاب الفتيا ) میں إمام الحرمين کے اس قول پر هی جزم واعتماد کیا هے ، اور مزید یہ بهی فرمایا کہ تابعین کی بهی تقلید نہ کرے اور نہ اس امام کی جس کا مذهب مُدوَّن وجمع نہیں هوا ، تقلید صرف ان ائمہ کی کرے گا جن کے مذاهب مُدوَّن وجمع اور پهیل گئے هیں
قال الإمام ابن حجر الهيتمي في الفتاوى الفقهية الكبرى "8/340" وأما ابن الصلاح فجزم في كتاب الفتيا بما قاله الإمام – أي إمام الحرمين ء وزاد أنه لا يُقَلِّدَ التابعينَ أيضاً، ولا مَنْ لم يُدوَّن مذهبه، وإنما يقلد الذين دُوِّنَتْ مذاهبهم وانتشرت، حتى ظهر منها تقييد مطلقها وتخصيص عامها، بخلاف غيرهم فإنه نقلت عنهم الفتاوى مجردة، فلعل لها مكملا أو مقيدا أو مخصصا، لو انبسط كلام قائله لظهر خلاف ما يبدو منه، فامتنع التقليد إذاً لتعذرِ الوقوفِ على حقيقة مذاهبهم. اهـ
خلاصہ وحاصل ان ائمہ اسلام کے اقوال وتصریحات کا یہ هے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی اور امام ومجتهد کی تقلید ممنوع هے کیونکہ ائمہ اربعہ کے علاوه کسی کسی اور امام ومجتهد کی تمام اجتهادات ومذهب جمع ومحفوظ نہیں رها ، اور یہ جو کچهہ میں نے ذکر کیا هے علماء امت نے ( كتب الأصول ) میں یہی تصریح کی هے ۰
یہاں سے آپ آج کل کے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی جہالت وحماقت کا بهی اندازه لگالیں کہ جو رات دن عوام کوگمراه کرنے کے لیئے یہ نعره لگاتے هیں کہ مذاهب اربعہ کی تقلید توشرک وبدعت هے ، جب کہ امت مسلمہ کے کبارعلماء میں کسی نے یہ بات نہیں کی ایک ایک عالم نے دین کے تمام شعبوں میں بے شمار کتب ورسائل لکهے لیکن کسی مستند عالم نے تقلید مذاهب اربعہ کی رد میں کوئ کتاب نہیں لکهی حتی کہ کوئ رسالہ تک نہیں لکها ، لیکن اس کے برعکس علماء امت نے عوام کے لیئے اوراجتهاد سے عاجز علماء کے لیئے ائمہ اربعہ کی تقلید کے لازم هونے کا صرف فتوی وحکم هی نہیں بلکہ اس باب میں مستقل رسائل ومفصل تصریحات لکهیں ،اور اگر یہ تقلید مذاهب اربعہ اتنا بڑا شرک هےجیسا کہ هندوستان میں پیدا شده فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کا دعوی هے تو پهر صاف بات یہی هے کہ چوده سو سال سے پوری امت مسلمہ میں کتنے بڑے بڑے ائمہ وعلماء ومحدثین ومفسرین ومحققین وفقهاء گذرے هیں ان سب میں ( معاذالله ) منافقت کا ماده موجود تها کہ امت مسلمہ میں اتنا بڑا شرک شروع هوچکا اور ان ائمہ اسلام میں سے کسی نے ایک کلمہ تک مذاهب اربعہ کے خلاف نہیں کہا ، اورامت کو اس شرک سے نہیں ڈرایا ،
لیکن درحقیقت اصل بات یہ هے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء نے هی عوام الناس کو دین میں آزاد بنانے اور اپنی اندهی تقلید پرمجبور کرنے کے لیئے یہ سارے وساوس گهڑے هیں ٠
الله تعالی فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء کو صحیح سمجهہ دے اور ان تمام وساوس سے توبہ کی توفیق دے ۰
اسی علت و وجہ ( کہ ان کے مذاهب محفوظ وجمع نہیں هوئے ) کی بنا پر أئمة الكبار نے مذاهب غیرمشہوره کی عدم تقلید کا فتوی دیا ، حتی کہ إمام الحرمين الجويني رحمہ الله المولود سنة "417هـ" والمتوفى سنة "478هـ" نے محققین کا اجماع اس پرنقل کیا هے ، لہذا إمام الحرمين اپنی کتاب (( البرهان "2/744"))
میں فرماتے هیں کہ
أجمع المحققون على أن العوام ليس لهم أن يتعلقوا بمذاهب أعيان الصحابة رضي الله تعالى عنهم، بل عليهم أن يتبعوا مذاهب الأئمة الذين سبروا ونظروا وبوبوا الأبواب وذكروا أوضاع المسائل، وتعرضوا للكلام على مذاهب الأولين، والسبب فيه أن الذين درجوا وإن كانوا قدوة في الدين وأسوة للمسلمين؛ فإنهم لم يفتنوا بتهذيب مسالك الاجتهاد، وإيضاح طرق النظر والجدال وضبط المقال، ومن خَلْفَهُم مِنْ أئمةِ الفقهِ كَفَوا مَنْ بَعْدَهُمُ النظرَ في مذاهبِ الصحابةِ، فكان العاميُ مأموراً باتباعِ مذاهبِ السابرين. اهـ
اور إمام الحرمين یہ اجماع چوتهی صدی هجری میں نقل کر رهے هیں آج پندرهویں میں جو لوگ مختلف شیطانی وساوس کے ذریعے عوام کو دین میں آزاد کر رهے هیں اورهر کس وناکس کو مجتهد وامام کا درجہ دے رهے هیں ،
ایسے لوگ کتنی بڑی غلطی کے اندر مبتلا هیں اس کا اندازه آپ خود لگالیں ،
إمام الحرمين کی اس قول کے متعلق الإمام ابن حجر الهيتمي اپنی کتاب
( الفتاوى الفقهية الكبرى "8/340" ) میں فرماتے هیں کہ الإمامُ المحدث ابن الصلاح، نے اپنی کتاب الفتاوی ( كتاب الفتيا ) میں إمام الحرمين کے اس قول پر هی جزم واعتماد کیا هے ، اور مزید یہ بهی فرمایا کہ تابعین کی بهی تقلید نہ کرے اور نہ اس امام کی جس کا مذهب مُدوَّن وجمع نہیں هوا ، تقلید صرف ان ائمہ کی کرے گا جن کے مذاهب مُدوَّن وجمع اور پهیل گئے هیں
قال الإمام ابن حجر الهيتمي في الفتاوى الفقهية الكبرى "8/340" وأما ابن الصلاح فجزم في كتاب الفتيا بما قاله الإمام – أي إمام الحرمين ء وزاد أنه لا يُقَلِّدَ التابعينَ أيضاً، ولا مَنْ لم يُدوَّن مذهبه، وإنما يقلد الذين دُوِّنَتْ مذاهبهم وانتشرت، حتى ظهر منها تقييد مطلقها وتخصيص عامها، بخلاف غيرهم فإنه نقلت عنهم الفتاوى مجردة، فلعل لها مكملا أو مقيدا أو مخصصا، لو انبسط كلام قائله لظهر خلاف ما يبدو منه، فامتنع التقليد إذاً لتعذرِ الوقوفِ على حقيقة مذاهبهم. اهـ
خلاصہ وحاصل ان ائمہ اسلام کے اقوال وتصریحات کا یہ هے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی اور امام ومجتهد کی تقلید ممنوع هے کیونکہ ائمہ اربعہ کے علاوه کسی کسی اور امام ومجتهد کی تمام اجتهادات ومذهب جمع ومحفوظ نہیں رها ، اور یہ جو کچهہ میں نے ذکر کیا هے علماء امت نے ( كتب الأصول ) میں یہی تصریح کی هے ۰
یہاں سے آپ آج کل کے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی جہالت وحماقت کا بهی اندازه لگالیں کہ جو رات دن عوام کوگمراه کرنے کے لیئے یہ نعره لگاتے هیں کہ مذاهب اربعہ کی تقلید توشرک وبدعت هے ، جب کہ امت مسلمہ کے کبارعلماء میں کسی نے یہ بات نہیں کی ایک ایک عالم نے دین کے تمام شعبوں میں بے شمار کتب ورسائل لکهے لیکن کسی مستند عالم نے تقلید مذاهب اربعہ کی رد میں کوئ کتاب نہیں لکهی حتی کہ کوئ رسالہ تک نہیں لکها ، لیکن اس کے برعکس علماء امت نے عوام کے لیئے اوراجتهاد سے عاجز علماء کے لیئے ائمہ اربعہ کی تقلید کے لازم هونے کا صرف فتوی وحکم هی نہیں بلکہ اس باب میں مستقل رسائل ومفصل تصریحات لکهیں ،اور اگر یہ تقلید مذاهب اربعہ اتنا بڑا شرک هےجیسا کہ هندوستان میں پیدا شده فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کا دعوی هے تو پهر صاف بات یہی هے کہ چوده سو سال سے پوری امت مسلمہ میں کتنے بڑے بڑے ائمہ وعلماء ومحدثین ومفسرین ومحققین وفقهاء گذرے هیں ان سب میں ( معاذالله ) منافقت کا ماده موجود تها کہ امت مسلمہ میں اتنا بڑا شرک شروع هوچکا اور ان ائمہ اسلام میں سے کسی نے ایک کلمہ تک مذاهب اربعہ کے خلاف نہیں کہا ، اورامت کو اس شرک سے نہیں ڈرایا ،
لیکن درحقیقت اصل بات یہ هے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء نے هی عوام الناس کو دین میں آزاد بنانے اور اپنی اندهی تقلید پرمجبور کرنے کے لیئے یہ سارے وساوس گهڑے هیں ٠
الله تعالی فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء کو صحیح سمجهہ دے اور ان تمام وساوس سے توبہ کی توفیق دے ۰
وسوسه = مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں اور اپنے آپ کو حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی کہتے هیں ، اور حضرات خلفاء راشدین کا علم ومرتبہ ائمہ اربعہ
سے بہت زیاده هے تو پهر مقلدین خلفاء راشدین کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ اور ابوبکری ، عمری ، عثمانی ، علوی ، کیوں نہیں کہلاتے ؟
سے بہت زیاده هے تو پهر مقلدین خلفاء راشدین کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ اور ابوبکری ، عمری ، عثمانی ، علوی ، کیوں نہیں کہلاتے ؟
حالانکہ یہ ائمہ اربعہ تو حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ کے بعد آئے هیں ، اسی طرح ان مقلدین نے قیاس اور ائمہ کی رائے کو پکڑ لیا اور الله تعالی کے دین میں وه کچهہ داخل کردیا جو اس میں نہیں تها ، احکام شریعت میں تحریف کردی ، اور چار مذاهب بنا لیئے جو حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں نہیں تهے ، صحابہ کرام کے اقوال کو چهوڑدیا اور قیاس کو اختیارکرلیا حالانکہ صحابہ کرام نے قیاس کو چهوڑنے کی تصریح کی هے ، اور انهوں نے فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا تها
جواب = یہ وسوسہ کئ وساوس کا مجموعہ هے جیسا کہ ظاهر هے ، اور ممکن هے آپ نے یہ وساوس کئ مرتبہ سنے بهی هوں ، لیکن آپ کو یہ سن کرحیرانگی هوگی کہ ان تمام وساوس کو سب سے پہلے پیش کرنے والے شیعہ وروافض تهے ، اور ان تمام وساوس کا جواب آج سے آٹهہ سو ( 800 ) سال پہلے اهل سنت والجماعت کی طرف سے شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله بڑی تفصیل کے ساتهہ دے چکے هیں ، اور آج کل یہ وساوس شیعہ وروافض سے چوری کرکے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء پهیلا رهے هیں ،
فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء کی خوش قسمتی هے کہ یہ فرقہ جدید شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کے زمانہ میں نہیں تها ورنہ ان کا بهی خوب رد کرتے جس طرح کہ روافض کا رد کیا ،
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اپنی کتاب (( منهاج السنة النبوية )) میں ان مذکوره بالا وساوس کا تفصیلی اور منہ توڑ جواب دیا هے
اور یہ " كتاب منهاج السنة النبوية " روافض وشیعہ کی رد میں ایک عظیم کتاب هے ، میرے پاس یہ کتاب چار جلدوں میں هے ، اولا میں شيخ الإسلام کے جوابات کا خلاصہ ذکرکرتا هوں پهر شيخ الإسلام کی اصل عبارت ذکرکروں گا ،
شيخ الإسلام نے پہلے " قال الرافضي " کہ کر اس کے وساوس نقل کیئے جس کا ذکراوپرهوچکا ، لہذا میں مختصرا شيخ الإسلام کے جوابات نقل کرتا هوں
فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء کی خوش قسمتی هے کہ یہ فرقہ جدید شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کے زمانہ میں نہیں تها ورنہ ان کا بهی خوب رد کرتے جس طرح کہ روافض کا رد کیا ،
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اپنی کتاب (( منهاج السنة النبوية )) میں ان مذکوره بالا وساوس کا تفصیلی اور منہ توڑ جواب دیا هے
اور یہ " كتاب منهاج السنة النبوية " روافض وشیعہ کی رد میں ایک عظیم کتاب هے ، میرے پاس یہ کتاب چار جلدوں میں هے ، اولا میں شيخ الإسلام کے جوابات کا خلاصہ ذکرکرتا هوں پهر شيخ الإسلام کی اصل عبارت ذکرکروں گا ،
شيخ الإسلام نے پہلے " قال الرافضي " کہ کر اس کے وساوس نقل کیئے جس کا ذکراوپرهوچکا ، لہذا میں مختصرا شيخ الإسلام کے جوابات نقل کرتا هوں
1 = رافضى وسوسه ) یہ مذاهب حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے زمانہ میں موجود نہیں تهے ؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
حضرات ائمہ اربعہ رحمهم الله کے مسائل وهی هیں جو حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم سے نقل درنقل هوتے چلے آرهے هیں ، باقی یہ بات کہ ائمہ اربعہ حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ میں نہیں تهے تو اس میں کیاحرج هے ، امام بخاری امام مسلم امام ابوداود امام حفص یا امام ابن کثیر اور امام نافع وغیرهم ائمہ کرام بهی حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ میں نہیں تهے ٠
2 = رافضى وسوسه ) مقلدین نے اقوال صحابہ کوچهوڑدیا اور قیاس کوپکڑلیا؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
یہ رافضی کا جهوٹ هے مذاهب اربعہ کی کتابوں کودیکهہ لیجیئے کہ وه اقوال صحابہ سے بهری پڑی هیں لہذا وه ائمہ اربعہ اور جمیع أهل السنّة صحابہ کرام رضی الله عنهم کے اقوال سے باقاعده استدلال کرتے هیں ، اور ان کے اقوال کو اپنے لیئے حجت ودلیل سمجهتے هیں اور ان پرعمل کرتے هیں ،
اور اهل سنت کے نزدیک صحابہ کرام کے اجماع سے خروج ومخالفت جائزنہیں هے ، حتی عام ائمہ مجتهدین نے یہ تصریح کی هے همارے لیئےاقوال صحابہ کرام سے بهی خروج ومخالفت جائزنہیں هے۰
( جب کہ اس کے برعکس فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نام نہادغیرمقلدین کا مذهب یہ هے کہ صحابی کا قول ، فعل ، فہم ، حجت ودلیل نہیں هے ، لہذا اهل سنت کے طریق پرکون هوا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث یا مذاهب اربعہ ؟؟؟ )
3 = رافضى وسوسه ) مقلدین نے چارمذاهب گهڑلیئے جوحضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے زمانہ میں نہیں تهے ؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
اگر رافضی کی مراد یہ هے کہ ائمہ أربعة نے یہ مذاهب گهڑ لیئے هیں اورصحابہ کرام کی مخالفت کی تویہ رافضی کا جهوٹ هے ائمہ أربعة پر بلکہ ان ائمہ میں سے هرایک نے کتاب وسنت کی اتباع کی دعوت هی دی هے۰
(کیا کتاب وسنت کے داعی کی تقلید واتباع کرنے والا ( معاذالله ) مشرک وبدعتی هوتا هے ؟؟؟
4 = رافضى وسوسه ) مقلدین اپنے آپ کو ابوبکری ، عمری ، وغیره نہیں کہتے یعنی مذهب أبي بكر وعمر کیوں اختیار نہیں کرتے ؟؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
سبب اس کا یہ هے ابوبکر وعمر وغیرهما رضی الله عنهم نے دینی مسائل کو کتابی شکل میں جمع نہیں کیئے ، بخلاف ائمہ اربعہ کے کہ خود انهوں نے اور ان کے معتمد ومعتبر شاگردوں نے ان کے بیان کرده تمام مسائل واجتهادات کو کامل طور پرجمع کردیا ، اس لیئے ان مسائل کی نسبت ائمہ اربعہ کی طرف هوگئ اور ان مسائل میں ان ائمہ کی تقلید واتباع کرنے والے حنفی شافعی وغیره کہلائے ۰
( یہاں سے شیخ الاسلام نے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل بعض جہلاء کا یہ وسوسہ بهی کافور کردیا کہ لوگوں نے بعد میں نے یہ مسائل امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرلیئے هیں یہ ان کے اپنے مسائل نہیں هیں )
5 = جس طرح بخاری ، مسلم ، أبي داود وغیره کتب امام بخاری امام مسلم امام ابوداود نے مرتب ومُدَوَّن وجمع کیئے هیں ، اورانتهائ امانت ودیانت کے ساتهہ انهوں احادیث رسول صلى الله تعالى عليه وسلم کوجمع کیا هے اس لیئے ان کتب کی نسبت انهی کی طرف کی جاتی هے ، یہ نسبت ایسی نہیں هے کہ ( معاذالله ) ان کتب میں ان کی اپنی اختراعی وایجاد کرده باتیں هیں ، جیسے کتاب صحیح بخاری کوامام بخاری کی طرف منسوب کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں درج شده احادیث امام بخاری کے اپنے اقوال وآراء هیں احادیث نہیں هیں ،
اسی طرح حضرات ائمہ اربعہ کی طرف مسائل کی نسبت سے هرگزیہ لازم نہیں آتا کہ وه رسول صلى الله تعالى عليه وسلم وحضرات صحابہ کرام کے آثارنہیں هیں ، جس طرح امام بخاری نے سولہ ( 16 ) سال کی کمال محنت ومشقت کے ساتهہ ان احادیث کوجمع کرنے پرلگائے ، اسی طرح مسائل فقہ کی جمع وتدوین حضرات ائمہ اربعہ وغیرهم مجتهدین نے انتهائ کوشش ومحنت کی هے ، اسی وجہ سے ان مسائل کی نسبت ان کی طرف هوئ ، اس لیئے نہیں کہ یہ ان کی اپنی ایجاد واختراع هے ۰
6 = اسی طرح امام حفص یا امام ابن کثیر اور امام نافع وغیرهم قُراء کرام کی قراآت ان کی اپنی ایجاد نہیں هے بلکہ ان قُراء کرام کی قراآت توخود حدیث صحیح سے ثابت هیں ، (قال صلى الله عليه وسلم: "إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرؤوا ما تيسر منه" أخرجه البخاري ومسلم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، وأخرجه البخاري من حديث ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أقرأني جبريل على حرف فراجعته فلم أزل أستزيده ويزيدني حتى انتهى إلى سبعة أحرف.)
اور حضرات صحابہ سے تواترسے منقول هوتی چلی آرهی هیں ، لہذا ان قراآت کی نسبت حضرات قُراء کرام کی طرف هونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قراآت توان کی اپنی ایجاد هیں ، اسی فقہ اورمذاهب اربعہ کی ائمہ کی طرف نسبت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ فقہ ومسائل فقہ تو ائمہ کی اپنی ایجاد هیں ،
7 = رافضى وسوسه ) صحابہ کرام نے قیاس کو چهوڑنے کی تصریح کی هے ، اور انهوں نے فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا تها٠
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
جمہورعلماء قیاس کا اثبات کرتے هیں اور انهوں نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے اجتهاد بالرأي اور قیاس ثابت هے ، جیسا کہ ان سے قیاس کی مذمت بهی ثابت هے ، لہذا دونوں قول صحیح هیں ، پس مذموم قیاس وه هے جوکسی نص کے مخلف ومعارض هو جیسے ان لوگوں کا قیاس جنهوں نے کہا ( إنما البيع مثل الربا ) الخ ۰
( لہذا ائمہ اربعہ ودیگرائمہ مجتهدین کا قیاس کسی نص کے مخالف نہیں هوتا )
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
کی جوابات کا خلاصہ وتعبیر وتشریح بتغیریسیر آپ نے ملاحظہ کیا ، یہاں سے آپ کو یہ بهی پتہ چل گیا کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نے یہ سب وساوس شیعہ سے چوری کیئے هیں ، اور عقل مند آدمی کے لیئے اس میں یہ سبق وعبرت بهی واضح هے کہ یہ سب باطل وساوس هیں جس کو فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جاهل شیوخ گردانتے رهتے هیں ، اگران وساوس میں کوئ وسوسہ حق وسچ هوتا تو شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے جوابا یہ کیوں نہیں کہا کہ اے رافضی تیرا فلاں وسوسہ حق هے مثال کے طور پر رافضی کا وسوسہ کہ ( مقلدین نے چارمذاهب گهڑلیئے هیں )
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اس کے جواب میں یہ کیوں نہیں کہا کہ
اے رافضی تیرا یہ اعتراض بالکل صحیح وحق هے ؟؟؟
اوراسی طرح دیگروساوس کا جواب ( تصدیق ) میں کیوں نہیں دیا ؟؟؟
تمام وساوس کو باطل وفاسد کیوں قرار دیا ؟؟؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
یہ رافضی کا جهوٹ هے مذاهب اربعہ کی کتابوں کودیکهہ لیجیئے کہ وه اقوال صحابہ سے بهری پڑی هیں لہذا وه ائمہ اربعہ اور جمیع أهل السنّة صحابہ کرام رضی الله عنهم کے اقوال سے باقاعده استدلال کرتے هیں ، اور ان کے اقوال کو اپنے لیئے حجت ودلیل سمجهتے هیں اور ان پرعمل کرتے هیں ،
اور اهل سنت کے نزدیک صحابہ کرام کے اجماع سے خروج ومخالفت جائزنہیں هے ، حتی عام ائمہ مجتهدین نے یہ تصریح کی هے همارے لیئےاقوال صحابہ کرام سے بهی خروج ومخالفت جائزنہیں هے۰
( جب کہ اس کے برعکس فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نام نہادغیرمقلدین کا مذهب یہ هے کہ صحابی کا قول ، فعل ، فہم ، حجت ودلیل نہیں هے ، لہذا اهل سنت کے طریق پرکون هوا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث یا مذاهب اربعہ ؟؟؟ )
3 = رافضى وسوسه ) مقلدین نے چارمذاهب گهڑلیئے جوحضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے زمانہ میں نہیں تهے ؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
اگر رافضی کی مراد یہ هے کہ ائمہ أربعة نے یہ مذاهب گهڑ لیئے هیں اورصحابہ کرام کی مخالفت کی تویہ رافضی کا جهوٹ هے ائمہ أربعة پر بلکہ ان ائمہ میں سے هرایک نے کتاب وسنت کی اتباع کی دعوت هی دی هے۰
(کیا کتاب وسنت کے داعی کی تقلید واتباع کرنے والا ( معاذالله ) مشرک وبدعتی هوتا هے ؟؟؟
4 = رافضى وسوسه ) مقلدین اپنے آپ کو ابوبکری ، عمری ، وغیره نہیں کہتے یعنی مذهب أبي بكر وعمر کیوں اختیار نہیں کرتے ؟؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
سبب اس کا یہ هے ابوبکر وعمر وغیرهما رضی الله عنهم نے دینی مسائل کو کتابی شکل میں جمع نہیں کیئے ، بخلاف ائمہ اربعہ کے کہ خود انهوں نے اور ان کے معتمد ومعتبر شاگردوں نے ان کے بیان کرده تمام مسائل واجتهادات کو کامل طور پرجمع کردیا ، اس لیئے ان مسائل کی نسبت ائمہ اربعہ کی طرف هوگئ اور ان مسائل میں ان ائمہ کی تقلید واتباع کرنے والے حنفی شافعی وغیره کہلائے ۰
( یہاں سے شیخ الاسلام نے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل بعض جہلاء کا یہ وسوسہ بهی کافور کردیا کہ لوگوں نے بعد میں نے یہ مسائل امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرلیئے هیں یہ ان کے اپنے مسائل نہیں هیں )
5 = جس طرح بخاری ، مسلم ، أبي داود وغیره کتب امام بخاری امام مسلم امام ابوداود نے مرتب ومُدَوَّن وجمع کیئے هیں ، اورانتهائ امانت ودیانت کے ساتهہ انهوں احادیث رسول صلى الله تعالى عليه وسلم کوجمع کیا هے اس لیئے ان کتب کی نسبت انهی کی طرف کی جاتی هے ، یہ نسبت ایسی نہیں هے کہ ( معاذالله ) ان کتب میں ان کی اپنی اختراعی وایجاد کرده باتیں هیں ، جیسے کتاب صحیح بخاری کوامام بخاری کی طرف منسوب کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں درج شده احادیث امام بخاری کے اپنے اقوال وآراء هیں احادیث نہیں هیں ،
اسی طرح حضرات ائمہ اربعہ کی طرف مسائل کی نسبت سے هرگزیہ لازم نہیں آتا کہ وه رسول صلى الله تعالى عليه وسلم وحضرات صحابہ کرام کے آثارنہیں هیں ، جس طرح امام بخاری نے سولہ ( 16 ) سال کی کمال محنت ومشقت کے ساتهہ ان احادیث کوجمع کرنے پرلگائے ، اسی طرح مسائل فقہ کی جمع وتدوین حضرات ائمہ اربعہ وغیرهم مجتهدین نے انتهائ کوشش ومحنت کی هے ، اسی وجہ سے ان مسائل کی نسبت ان کی طرف هوئ ، اس لیئے نہیں کہ یہ ان کی اپنی ایجاد واختراع هے ۰
6 = اسی طرح امام حفص یا امام ابن کثیر اور امام نافع وغیرهم قُراء کرام کی قراآت ان کی اپنی ایجاد نہیں هے بلکہ ان قُراء کرام کی قراآت توخود حدیث صحیح سے ثابت هیں ، (قال صلى الله عليه وسلم: "إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرؤوا ما تيسر منه" أخرجه البخاري ومسلم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، وأخرجه البخاري من حديث ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أقرأني جبريل على حرف فراجعته فلم أزل أستزيده ويزيدني حتى انتهى إلى سبعة أحرف.)
اور حضرات صحابہ سے تواترسے منقول هوتی چلی آرهی هیں ، لہذا ان قراآت کی نسبت حضرات قُراء کرام کی طرف هونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قراآت توان کی اپنی ایجاد هیں ، اسی فقہ اورمذاهب اربعہ کی ائمہ کی طرف نسبت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ فقہ ومسائل فقہ تو ائمہ کی اپنی ایجاد هیں ،
7 = رافضى وسوسه ) صحابہ کرام نے قیاس کو چهوڑنے کی تصریح کی هے ، اور انهوں نے فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا تها٠
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
جمہورعلماء قیاس کا اثبات کرتے هیں اور انهوں نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے اجتهاد بالرأي اور قیاس ثابت هے ، جیسا کہ ان سے قیاس کی مذمت بهی ثابت هے ، لہذا دونوں قول صحیح هیں ، پس مذموم قیاس وه هے جوکسی نص کے مخلف ومعارض هو جیسے ان لوگوں کا قیاس جنهوں نے کہا ( إنما البيع مثل الربا ) الخ ۰
( لہذا ائمہ اربعہ ودیگرائمہ مجتهدین کا قیاس کسی نص کے مخالف نہیں هوتا )
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
کی جوابات کا خلاصہ وتعبیر وتشریح بتغیریسیر آپ نے ملاحظہ کیا ، یہاں سے آپ کو یہ بهی پتہ چل گیا کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نے یہ سب وساوس شیعہ سے چوری کیئے هیں ، اور عقل مند آدمی کے لیئے اس میں یہ سبق وعبرت بهی واضح هے کہ یہ سب باطل وساوس هیں جس کو فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جاهل شیوخ گردانتے رهتے هیں ، اگران وساوس میں کوئ وسوسہ حق وسچ هوتا تو شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے جوابا یہ کیوں نہیں کہا کہ اے رافضی تیرا فلاں وسوسہ حق هے مثال کے طور پر رافضی کا وسوسہ کہ ( مقلدین نے چارمذاهب گهڑلیئے هیں )
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اس کے جواب میں یہ کیوں نہیں کہا کہ
اے رافضی تیرا یہ اعتراض بالکل صحیح وحق هے ؟؟؟
اوراسی طرح دیگروساوس کا جواب ( تصدیق ) میں کیوں نہیں دیا ؟؟؟
تمام وساوس کو باطل وفاسد کیوں قرار دیا ؟؟؟
بغرض امانت وثبوت ودلیل شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کی اصل عبارات درج ذیل هیں
قال الرافضي : (( وذهب الجميع منهم إلى القول بالقياس ، والأخذ بالرأي ، فأدخلوا في دين الله ما ليس منه ، وحرّفوا أحكام الشريعة ، وأحدثوا مذاهب أربعة لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا زمن صحابته ، وأهملوا أقاويل الصحابة ، مع أنهم نصُّوا على ترك القياس ، وقالوا : أول من قاس إبليس ))
فيقال الجواب عن هذا من وجوه :
أحدها : أن دعواه على جميع أهل السنة المثبتين لإمامة الخلفاء الثلاثة أنهم يقولون بالقياس دعوى باطلة ، قد عُرف فيهم طوائف لا يقولون بالقياس ، كالمعتزلة البغداديين ، وكالظاهرية كداود وابن حزم وغيرهما ، وطائفة من أهل الحديث والصوفية .وأيضا ففي الشيعة من يقول بالقياس كالزيدية . فصار النزاع فيه بين الشيعية كما هو بين أهل السنة والجماعة .
الثاني : أن يقال : القياس ولو قيل : إنه ضعيف هو خير من تقليد من لم يبلغ في العلم مبلغ المجتهدين ، فإن كل من له علم وإنصاف يعلم أن مثل مالك والليث بن سعد والأوْزاعي وأبي حنيفة والثَّوري وابن أبى ليلى ، ومثل الشافعي وأحمد إسحاق وأبى عبيد وأبى ثَوْر أعلم وأفقه من العسكريين أمثالهما وأيضا فهؤلاء خير من المنتظر الذي لا يعلم ما يقول ، فإن الواحد من هؤلاء إن كان عنده نص منقول عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فلا ريب أن النص الثابت عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم مقدَّم على القياس بلا ريب ، وإن لم يكن عنده نص ولم يقل بالقياس كان جاهلا ، فالقياس الذي يفيد الظن خير من الجهل الذي لا علم معه ولا ظن ، فإن قال هؤلاء كل ما يقولونه هو ثابت عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم كان هذا أضعف من قول من قال كل ما يقوله المجتهد فإنه قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، فإن هذا يقوله طائفة من أهل الرأي ، وقولهم أقرب من قول الرافضة ، فإن قول أولئك كذب صريح .وأيضا فهذا كقول من يقول : عمل أهل المدينة متلقى عن الصحابة وقول الصحابة متلقى عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، وقول من يقول : ما قاله الصحابة في غير مجاري القياس فإنه لا يقوله إلا توقيفا عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، وقوله من يقول : قول المجتهد أو الشيخ العارف هو إلهام من الله ووحي يجب اتباعه .
فإن قال : هؤلاء تنازعوا .قيل وأولئك تنازعوا ، فلا يمكن أن تدَّعي دعوى باطلة إلا أمكن معارضتهم بمثلها أو بخير منها ولا يقولون حقًّا إلا كان في أهل السنة والجماعة من يقول مثل ذلك الحق أو ما هو خير منه ، فإن البدعة مع السنة كالكفر مع الإيمان . وقد قال تعالى : ]وَلاَ يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً
الثالث : أن يقال الذين أدخلوا في دين الله ما ليس منه وحرّفوا أحكام الشريعة ، ليسوا في طائفة أكثر منهم في الرافضة ، فإنهم أدخلوا في دين الله من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ما لم يكذبه غيرهم ، وردّوا من الصدق ما لم يرده غيرهم ، وحرّفوا القرآن تحريفاً لم يحرّفه أحد غيرهم مثل قولهم : إن قوله تعالى : ]إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُون نزلت في عليّ لما تصدق بخاتمه في الصلاة .
وقوله تعالى : َمرَجَ الْبَحْرَيْنِ : علي وفاطمة ، َيخرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَان : الحسن والحسين ، وَكُلُّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِين
علي بن أبي طالب إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيم وَآلَ عِمْرَانَ
هم آل أبي طالب واسم أبي طالب عمران ، َفقاتلوا أَئِمَّةَ الْكُفْر:طلحة والزبير، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآن هم بنو أمية ، إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُم أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَة:عائشة و َلئنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ :لئن أ شركت بين أبي بكر وعلي في الولاية
وكل هذا وأمثاله وجدته في كتبهم . ثم من هذا دخلت الإسماعيلية والنصيرية في تأويل الواجبات والمحرّمات ، فهم أئمة التأويل ، الذي هو تحريف الكلم عن مواضعه ، ومن تدبر ما عندهم وجد فيه من الكذب في المنقولات ، والتكذيب بالحق منها والتحريف لمعانيها ، مالا يوجد في صنف من المسلمين ، فهم قطعا أدخلوا في دين الله ما ليس منه أكثر من كل أحد ، وحرّفوا كتابه تحريفا لم يصل غيرهم إلى قريب منه .
الوجه الرابع : قوله : ((وأحدثوا مذاهب أربعة لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا زمن صحابته ، وأهملوا أقاويل الصحابة )).
فيقال له : متى كان مخالفة الصحابة والعدول عن أقاويلهم منكراً عند الإمامية ؟ وهؤلاء متفقون على محبة الصحابة وموالاتهم وتفضيلهم على سائر القرون وعلى أن إجماعهم حجة ، وعلى أنه ليس لهم الخروج عن إجماعهم ، بل عامة الأئمة المجتهدين يصرّحون بأنه ليس لنا أن نخرج عن أقاويل الصحابة ، فكيف يطعن عليهم بمخالفة الصحابة من يقول : إن إجماع الصحابة ليس بحجة ، وينسبهم إلى الكفر والظلم ؟فإن كان إجماع الصحابة حجة فهو حجة على الطائفتين ، وإن لم يكن حجة فلا يحتج به عليهم .وإن قال : أهل السنة يجعلونه حجة ، وقد خالفوه قيل : أما أهل السنة فلا يتصور أن يتفقوا على مخالفة إجماع الصحابة ، وأما الإمامية فلا ريب أنهم متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفة إجماع الصحابة ، فإن لم يكن في العترة النبوية –بنو هاشم – على عهد النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رصى الله عنهم من يقول بإمامة الاثنى عشر ولا بعصمة أحد بعد النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ولا بكفر الخلفاء الثلاثة ، بل ولا من يطعن في إمامتهم ، بل ولا من ينكر الصفات ، ولا من يكذب بالقدر فالإمامية بلا ريب متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفتهم لإجماع الصحابة ، فكيف ينكرون على من لم يخالف لا إجماع الصحابة ولا إجماع العترة ؟ .
الوجه الخامس : أن قوله : (( أحدثوا مذاهب أربعة لم تكن على عهد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم )). إن أراد بذلك أنهم اتفقوا على أن يحدثوا هذه المذاهب مع مخالفة الصحابة فهذا كذب عليهم ، فإن هؤلاء الأئمة لم يكونوا في عصر واحد ، بل أبو حنيفة توفى سنة خمسين ومائة ومالك سنة تسع وسبعين ومائة ، والشافعي سنة أربع ومائتين ، وأحمد بن حنبل سنة إحدى وأربعين ومائتين ، وليس في هؤلاء من يقلد الآخر ، ولا من يأمر باتّباع الناس له ، بل كل منهم يدعو إلى متابعة الكتاب والسنة ، وإذا قال غيره قولا يخالف الكتاب والسنة عنده رده ،ولا يوجب على الناس تقليده وإن قلت ان هذه المذاهب اتّبعهم الناس ، فهذا لم يحصل بموطأة ، بل اتفق أن قوما اتّبعوا هذا ، وقوما اتبعوا هذا ، كالحجاج الذين طلبوا من يدلهم على الطريق ، فرأى قوم هذا الدليل خبيراً فاتّبعوه ، وكذلك الآخرون.وإذا كان كذلك لم يكن في ذلك اتفاق أهل السنة على باطل ، بل كل قوم منهم ينكرون ما عند غيرهم من الخطأ ، فلم يتفقوا على أن الشخص المعيّن عليه أن يقبل من كل من هؤلاء ما قاله ، بل جمهورهم لا يأمرون العاميّ بتقليد شخص معيّن غير النبي صلى الله تعالى عليه وسلم في كل ما يقوله.والله تعالى قد ضمن العصمة للامة ، فمن تمام العصمة أن يجعل عدداً من العلماء إن أخطأ الواحد منهم في شيء كان الآخر قد أصاب فيه حتى لا يضيع الحق ، ولهذا لما كان في قول بعضهم من الخطأ مسائل ، كبعض المسائل التي أوردها ، كان الصواب في قول الآخر ، فلم يتفق أهل السنة على ضلالة أصلا ، وأما خطأ بعضهم في بعض الدين ، فقد قدّمنا في غير مرة أن هذا لا يضر ، كخطأ بعض المسلمين . وأما الشيعة فكل ما خالفوا فيه أهل السنة كلهم فهم مخطئون فيه ، كما أخطأ اليهود والنصارى في كل ما خالفوا فيه المسلمين .
الوجه السادس : أن يُقال : قوله : (( إن هذه المذاهب لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا الصحابة ))إن أراد أن الأقوال التي
لهم لم تنقل عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا عن الصحابة ، بل تركوا قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم والصحابة وابتدعوا خلاف ذلك ، فهذا كذب عليهم ، فإنهم لم يتفقوا على مخالفة الصحابة ، بل هم – وسائر أهل السنة – متبعون للصحابة في أقوالهم ، وإن قدّر أن بعض أهل السنّة خالف الصحابة لعدم علمه بأقاويلهم ، فالباقون يوافقون ويثبتون خطأ من يخالفهم ، وإن أراد أن نفس أصحابها لم يكونوا في ذلك الزمان ، فهذا لا محذور فيه . فمن المعلوم أن كل قرن يأتي يكون بعد القرن الأول
الوجه السابع : قوله : (( وأهملوا أقاويل الصحابة )) كذب منه ، بل كتب أرباب المذاهب مشحونة بنقل أقاويل الصحابة والاستدلال بها ، وإن كان عند كل طائفة منها ما ليس عند الأخرى . وإن قال : أردت بذلك أنهم لا يقولون : مذهب أبي بكر وعمر ونحو ذلك ، فسبب ذلك أن الواحد من هؤلاء جمع الآثار وما استنبطه منها ، فأضيف ذلك إليه ، كما تضاف كتب الحديث إلى من جمعها ، كالبخاري ومسلم وأبي داود ، ، وكما تضاف القراأت إلى من اختارها ، كنافع وابن كثير .
وغالب ما يقوله هؤلاء منقول عمن قبلهم ، وفي قول بعضهم ما ليس منقولا عمن قبله ، لكنه استنبطه من تلك الأصول . ثم قد جاء بعده من تعقب أقواله فبيّن منها ما كان خطأ عنده ، كل ذلك حفظا لهذا الدين ، حتى يكون أهله كما وصفهم الله به َيأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر فمتى وقع من أحدهم منكر خطأ أو عمداً أنكره عليه غيره وليس العلماء بأعظم من الأنبياء ، وقد قال تعالى : وَدَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْم وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِين . فَفَهَّمْناهَا سُلَيْمَانَ وَكُلاًّ آتَيْنَا حُكْماً وَعِلْمًا وثبت في الصحيحين عن ابن عمررضي الله عنهما أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قال لأصحابه عام الخندق : ((لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة ، فأدركتهم صلاة العصر في الطريق ، فقال بعضهم:لم يُرد منا تفويت الصلاة ، فصلُّوا في الطريق . وقال بعضهم : لا نصلي إلا في بني قريظة ،فصلوا العصر بعد ماغربت الشمس،فما عنّف واحدة من الطائفتين )) فهذا دليل على أن المجتهدين يتنازعون في فهم كلام رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ، وليس كل واحد منهم آثماً .
الوجه الثامن : أن أهل السنة لم يقل أحد منهم إن إجماع الأئمة الأربعة حجة معصومة ، ولا قال : إن الحق منحصر فيها ، وإن ما خرج عنها باطل ، بل إذا قال من ليس من أتباع الأئمة ، كسفيان الثوري والأوزاعي واللَيْث بن سعد ومن قبلهم ومن بعدهم من المجتهدين قولا يخالف قول الأئمة الأربعة ، رُدَّ ما تنازعوا فيه إلى الله ورسوله ، وكان القول الراجح هو القول الذي قام عليه الدليل
الوجه التاسع : قوله : (( الصحابة نصوا على ترك القياس )) . يقال [له] : الجمهور الذين يثبتون القياس قالوا: قد ثبت عن الصحابة أنهم قالوا بالرأي واجتهاد الرأي وقاسوا ، كما ثبت عنهم ذم ما ذموه من القياس . قالوا: وكلا القولين صحيح ، فالمذموم القياس المعارض للنص ، كقياس الذين قالوا : إنما البيع مثل الربا ، وقياس إبليس الذي عارض به أمر الله له بالسجود لآدم ، وقياس المشركين الذين قالوا: أتأكلون ما قتلتم ولا تأكلون ما قتله الله ؟ قال الله تعالى : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُم المُشْرِكُون وكذلك القياس الذي لا يكون الفرع فيه مشاركا للأصل في مناط الحكم، فالقياس يُذم إما لفوات شرطه ،وهو عدم المساواة في مناط الحكم، وإما لوجود مانعه ، وهو النص الذي يجب تقديمه عليه ، وإن كانا متلازمَيْن في نفس الأمر ، فلا يفوت الشرط إلا والمانع موجود ، ولا يوجد المانع إلا والشرط مفقود .فأما القياس الذي يستوي فيه الأصل والفرع في مناط الحكم ولم يعارضه ماهو أرجح منه ، فهذا هو القياس الذي يتبع .ولا ريب أن القياس فيه فاسد ، وكثير من الفقهاء قاسوا أقيسة فاسدة ، بعضها باطل بالنص ، وبعضها مما اتفق على بطلانه ، لكن بطلان كثير من القياس لا يقتضي بطلان جميعه ، كما أن وجود الكذب في كثير من الحديث لا يوجب كذب جميعه .
(( منهاج السنة النبوية ألمجلد الثاني ألصفحة 128 ، 129 ،130 ،131 ،132 ، 133
ألطبعة دارالكتب العلمية بيروت لبنان ))
فيقال الجواب عن هذا من وجوه :
أحدها : أن دعواه على جميع أهل السنة المثبتين لإمامة الخلفاء الثلاثة أنهم يقولون بالقياس دعوى باطلة ، قد عُرف فيهم طوائف لا يقولون بالقياس ، كالمعتزلة البغداديين ، وكالظاهرية كداود وابن حزم وغيرهما ، وطائفة من أهل الحديث والصوفية .وأيضا ففي الشيعة من يقول بالقياس كالزيدية . فصار النزاع فيه بين الشيعية كما هو بين أهل السنة والجماعة .
الثاني : أن يقال : القياس ولو قيل : إنه ضعيف هو خير من تقليد من لم يبلغ في العلم مبلغ المجتهدين ، فإن كل من له علم وإنصاف يعلم أن مثل مالك والليث بن سعد والأوْزاعي وأبي حنيفة والثَّوري وابن أبى ليلى ، ومثل الشافعي وأحمد إسحاق وأبى عبيد وأبى ثَوْر أعلم وأفقه من العسكريين أمثالهما وأيضا فهؤلاء خير من المنتظر الذي لا يعلم ما يقول ، فإن الواحد من هؤلاء إن كان عنده نص منقول عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فلا ريب أن النص الثابت عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم مقدَّم على القياس بلا ريب ، وإن لم يكن عنده نص ولم يقل بالقياس كان جاهلا ، فالقياس الذي يفيد الظن خير من الجهل الذي لا علم معه ولا ظن ، فإن قال هؤلاء كل ما يقولونه هو ثابت عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم كان هذا أضعف من قول من قال كل ما يقوله المجتهد فإنه قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، فإن هذا يقوله طائفة من أهل الرأي ، وقولهم أقرب من قول الرافضة ، فإن قول أولئك كذب صريح .وأيضا فهذا كقول من يقول : عمل أهل المدينة متلقى عن الصحابة وقول الصحابة متلقى عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، وقول من يقول : ما قاله الصحابة في غير مجاري القياس فإنه لا يقوله إلا توقيفا عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، وقوله من يقول : قول المجتهد أو الشيخ العارف هو إلهام من الله ووحي يجب اتباعه .
فإن قال : هؤلاء تنازعوا .قيل وأولئك تنازعوا ، فلا يمكن أن تدَّعي دعوى باطلة إلا أمكن معارضتهم بمثلها أو بخير منها ولا يقولون حقًّا إلا كان في أهل السنة والجماعة من يقول مثل ذلك الحق أو ما هو خير منه ، فإن البدعة مع السنة كالكفر مع الإيمان . وقد قال تعالى : ]وَلاَ يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً
الثالث : أن يقال الذين أدخلوا في دين الله ما ليس منه وحرّفوا أحكام الشريعة ، ليسوا في طائفة أكثر منهم في الرافضة ، فإنهم أدخلوا في دين الله من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ما لم يكذبه غيرهم ، وردّوا من الصدق ما لم يرده غيرهم ، وحرّفوا القرآن تحريفاً لم يحرّفه أحد غيرهم مثل قولهم : إن قوله تعالى : ]إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُون نزلت في عليّ لما تصدق بخاتمه في الصلاة .
وقوله تعالى : َمرَجَ الْبَحْرَيْنِ : علي وفاطمة ، َيخرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَان : الحسن والحسين ، وَكُلُّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِين
علي بن أبي طالب إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيم وَآلَ عِمْرَانَ
هم آل أبي طالب واسم أبي طالب عمران ، َفقاتلوا أَئِمَّةَ الْكُفْر:طلحة والزبير، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآن هم بنو أمية ، إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُم أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَة:عائشة و َلئنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ :لئن أ شركت بين أبي بكر وعلي في الولاية
وكل هذا وأمثاله وجدته في كتبهم . ثم من هذا دخلت الإسماعيلية والنصيرية في تأويل الواجبات والمحرّمات ، فهم أئمة التأويل ، الذي هو تحريف الكلم عن مواضعه ، ومن تدبر ما عندهم وجد فيه من الكذب في المنقولات ، والتكذيب بالحق منها والتحريف لمعانيها ، مالا يوجد في صنف من المسلمين ، فهم قطعا أدخلوا في دين الله ما ليس منه أكثر من كل أحد ، وحرّفوا كتابه تحريفا لم يصل غيرهم إلى قريب منه .
الوجه الرابع : قوله : ((وأحدثوا مذاهب أربعة لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا زمن صحابته ، وأهملوا أقاويل الصحابة )).
فيقال له : متى كان مخالفة الصحابة والعدول عن أقاويلهم منكراً عند الإمامية ؟ وهؤلاء متفقون على محبة الصحابة وموالاتهم وتفضيلهم على سائر القرون وعلى أن إجماعهم حجة ، وعلى أنه ليس لهم الخروج عن إجماعهم ، بل عامة الأئمة المجتهدين يصرّحون بأنه ليس لنا أن نخرج عن أقاويل الصحابة ، فكيف يطعن عليهم بمخالفة الصحابة من يقول : إن إجماع الصحابة ليس بحجة ، وينسبهم إلى الكفر والظلم ؟فإن كان إجماع الصحابة حجة فهو حجة على الطائفتين ، وإن لم يكن حجة فلا يحتج به عليهم .وإن قال : أهل السنة يجعلونه حجة ، وقد خالفوه قيل : أما أهل السنة فلا يتصور أن يتفقوا على مخالفة إجماع الصحابة ، وأما الإمامية فلا ريب أنهم متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفة إجماع الصحابة ، فإن لم يكن في العترة النبوية –بنو هاشم – على عهد النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رصى الله عنهم من يقول بإمامة الاثنى عشر ولا بعصمة أحد بعد النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ولا بكفر الخلفاء الثلاثة ، بل ولا من يطعن في إمامتهم ، بل ولا من ينكر الصفات ، ولا من يكذب بالقدر فالإمامية بلا ريب متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفتهم لإجماع الصحابة ، فكيف ينكرون على من لم يخالف لا إجماع الصحابة ولا إجماع العترة ؟ .
الوجه الخامس : أن قوله : (( أحدثوا مذاهب أربعة لم تكن على عهد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم )). إن أراد بذلك أنهم اتفقوا على أن يحدثوا هذه المذاهب مع مخالفة الصحابة فهذا كذب عليهم ، فإن هؤلاء الأئمة لم يكونوا في عصر واحد ، بل أبو حنيفة توفى سنة خمسين ومائة ومالك سنة تسع وسبعين ومائة ، والشافعي سنة أربع ومائتين ، وأحمد بن حنبل سنة إحدى وأربعين ومائتين ، وليس في هؤلاء من يقلد الآخر ، ولا من يأمر باتّباع الناس له ، بل كل منهم يدعو إلى متابعة الكتاب والسنة ، وإذا قال غيره قولا يخالف الكتاب والسنة عنده رده ،ولا يوجب على الناس تقليده وإن قلت ان هذه المذاهب اتّبعهم الناس ، فهذا لم يحصل بموطأة ، بل اتفق أن قوما اتّبعوا هذا ، وقوما اتبعوا هذا ، كالحجاج الذين طلبوا من يدلهم على الطريق ، فرأى قوم هذا الدليل خبيراً فاتّبعوه ، وكذلك الآخرون.وإذا كان كذلك لم يكن في ذلك اتفاق أهل السنة على باطل ، بل كل قوم منهم ينكرون ما عند غيرهم من الخطأ ، فلم يتفقوا على أن الشخص المعيّن عليه أن يقبل من كل من هؤلاء ما قاله ، بل جمهورهم لا يأمرون العاميّ بتقليد شخص معيّن غير النبي صلى الله تعالى عليه وسلم في كل ما يقوله.والله تعالى قد ضمن العصمة للامة ، فمن تمام العصمة أن يجعل عدداً من العلماء إن أخطأ الواحد منهم في شيء كان الآخر قد أصاب فيه حتى لا يضيع الحق ، ولهذا لما كان في قول بعضهم من الخطأ مسائل ، كبعض المسائل التي أوردها ، كان الصواب في قول الآخر ، فلم يتفق أهل السنة على ضلالة أصلا ، وأما خطأ بعضهم في بعض الدين ، فقد قدّمنا في غير مرة أن هذا لا يضر ، كخطأ بعض المسلمين . وأما الشيعة فكل ما خالفوا فيه أهل السنة كلهم فهم مخطئون فيه ، كما أخطأ اليهود والنصارى في كل ما خالفوا فيه المسلمين .
الوجه السادس : أن يُقال : قوله : (( إن هذه المذاهب لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا الصحابة ))إن أراد أن الأقوال التي
لهم لم تنقل عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا عن الصحابة ، بل تركوا قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم والصحابة وابتدعوا خلاف ذلك ، فهذا كذب عليهم ، فإنهم لم يتفقوا على مخالفة الصحابة ، بل هم – وسائر أهل السنة – متبعون للصحابة في أقوالهم ، وإن قدّر أن بعض أهل السنّة خالف الصحابة لعدم علمه بأقاويلهم ، فالباقون يوافقون ويثبتون خطأ من يخالفهم ، وإن أراد أن نفس أصحابها لم يكونوا في ذلك الزمان ، فهذا لا محذور فيه . فمن المعلوم أن كل قرن يأتي يكون بعد القرن الأول
الوجه السابع : قوله : (( وأهملوا أقاويل الصحابة )) كذب منه ، بل كتب أرباب المذاهب مشحونة بنقل أقاويل الصحابة والاستدلال بها ، وإن كان عند كل طائفة منها ما ليس عند الأخرى . وإن قال : أردت بذلك أنهم لا يقولون : مذهب أبي بكر وعمر ونحو ذلك ، فسبب ذلك أن الواحد من هؤلاء جمع الآثار وما استنبطه منها ، فأضيف ذلك إليه ، كما تضاف كتب الحديث إلى من جمعها ، كالبخاري ومسلم وأبي داود ، ، وكما تضاف القراأت إلى من اختارها ، كنافع وابن كثير .
وغالب ما يقوله هؤلاء منقول عمن قبلهم ، وفي قول بعضهم ما ليس منقولا عمن قبله ، لكنه استنبطه من تلك الأصول . ثم قد جاء بعده من تعقب أقواله فبيّن منها ما كان خطأ عنده ، كل ذلك حفظا لهذا الدين ، حتى يكون أهله كما وصفهم الله به َيأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر فمتى وقع من أحدهم منكر خطأ أو عمداً أنكره عليه غيره وليس العلماء بأعظم من الأنبياء ، وقد قال تعالى : وَدَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْم وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِين . فَفَهَّمْناهَا سُلَيْمَانَ وَكُلاًّ آتَيْنَا حُكْماً وَعِلْمًا وثبت في الصحيحين عن ابن عمررضي الله عنهما أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قال لأصحابه عام الخندق : ((لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة ، فأدركتهم صلاة العصر في الطريق ، فقال بعضهم:لم يُرد منا تفويت الصلاة ، فصلُّوا في الطريق . وقال بعضهم : لا نصلي إلا في بني قريظة ،فصلوا العصر بعد ماغربت الشمس،فما عنّف واحدة من الطائفتين )) فهذا دليل على أن المجتهدين يتنازعون في فهم كلام رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ، وليس كل واحد منهم آثماً .
الوجه الثامن : أن أهل السنة لم يقل أحد منهم إن إجماع الأئمة الأربعة حجة معصومة ، ولا قال : إن الحق منحصر فيها ، وإن ما خرج عنها باطل ، بل إذا قال من ليس من أتباع الأئمة ، كسفيان الثوري والأوزاعي واللَيْث بن سعد ومن قبلهم ومن بعدهم من المجتهدين قولا يخالف قول الأئمة الأربعة ، رُدَّ ما تنازعوا فيه إلى الله ورسوله ، وكان القول الراجح هو القول الذي قام عليه الدليل
الوجه التاسع : قوله : (( الصحابة نصوا على ترك القياس )) . يقال [له] : الجمهور الذين يثبتون القياس قالوا: قد ثبت عن الصحابة أنهم قالوا بالرأي واجتهاد الرأي وقاسوا ، كما ثبت عنهم ذم ما ذموه من القياس . قالوا: وكلا القولين صحيح ، فالمذموم القياس المعارض للنص ، كقياس الذين قالوا : إنما البيع مثل الربا ، وقياس إبليس الذي عارض به أمر الله له بالسجود لآدم ، وقياس المشركين الذين قالوا: أتأكلون ما قتلتم ولا تأكلون ما قتله الله ؟ قال الله تعالى : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُم المُشْرِكُون وكذلك القياس الذي لا يكون الفرع فيه مشاركا للأصل في مناط الحكم، فالقياس يُذم إما لفوات شرطه ،وهو عدم المساواة في مناط الحكم، وإما لوجود مانعه ، وهو النص الذي يجب تقديمه عليه ، وإن كانا متلازمَيْن في نفس الأمر ، فلا يفوت الشرط إلا والمانع موجود ، ولا يوجد المانع إلا والشرط مفقود .فأما القياس الذي يستوي فيه الأصل والفرع في مناط الحكم ولم يعارضه ماهو أرجح منه ، فهذا هو القياس الذي يتبع .ولا ريب أن القياس فيه فاسد ، وكثير من الفقهاء قاسوا أقيسة فاسدة ، بعضها باطل بالنص ، وبعضها مما اتفق على بطلانه ، لكن بطلان كثير من القياس لا يقتضي بطلان جميعه ، كما أن وجود الكذب في كثير من الحديث لا يوجب كذب جميعه .
(( منهاج السنة النبوية ألمجلد الثاني ألصفحة 128 ، 129 ،130 ،131 ،132 ، 133
ألطبعة دارالكتب العلمية بيروت لبنان ))
وسوسه = مذهب حنفی رائے اورقیاس پرمبنی هے اور احادیث نبویہ کے مخالف مذهب هے ۰
جواب = یہ وسوسہ اور جهوٹ بہت بهی پهیلایا گیا اور آج تک جاهل لوگ عوام میں اس جهوٹ کوپهیلا رهے هیں ، فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی هندوستان میں پیدائش کے بعد اس جهوٹ کوبہت فروغ دینے کی ناکام کوشش کی گئ ،
الحمدلله اس جهوٹ و وسوسہ کا ویسے بهی اهل علم کے نزدیک کوئ حیثیت نہیں تهی کیونکہ علماء احناف اور فقہ حنفی کسی مخفی وپوشیده چیز کا نام نہیں هے اهل علم کو فقہ حنفی کا مرتبہ ومقام خوب معلوم هے اور فقہ حنفی پر مشتمل کتب کا ایک بحرذخار دنیاء اسلام کے تمام کتب خانوں میں پهیلا هوا هے ،
لیکن پهر بهی اتمام حجت کے لیئے اس وسوسہ کا جواب علماء احناف نے دیا ،
اور اس وسوسہ کے جواب میں مفصل ومختصر کئ کتب لکهی گئ ،
لیکن اس باب میں سب سے عظیم الشان انتہائ مدلل دلائل وبراهین سے مزین کتاب العلامة المحقق الكبير المحدث العظیم الفقيه الجلیل والبحاثة المدقق الثبت الحجة المفسرالمحدث الأصولي البارع الأديب المؤرخ الزاهد الورع الشيخ ظفر أحمد العثماني التهانوي ألدیوبندي رحمه الله نے لکهی هے ،
جس کا نام (( إعــْــلاءُالسُّـنـَن )) هے ،
یہ عظیم الشان کتاب اکیس ( 21 ) ضخیم جلدوں پرمشتمل هے ،
اور اس عظیم الشان کتاب کےدو مُقدمے هیں ایک مقدمہ (قــواعــد فــي عــلوم الحــديث ) کے نام سے هے جو کچهہ کم پانچ سو ( ۵۰۰ ) صفحات پرمشتمل هے ، جوکہ اصول حدیث وعلوم حدیث وجرح وتعدیل کے اصول وقواعد وتعریفات ونادر تحقیقات وتشریحات اور بے مثل فوائد وفرائد کا ایک قیمتی خزانہ هے ، دوسرا مُقدمہ اجتهاد وتقلید وتلفیق وقیاس وغیره اصول فقہ کے ابحاث علمیہ قیمہ پرمشتمل هے ، کتاب کی ترتیب ابواب فقهیہ پرمشتمل هے ،
أبواب الطهارة سے لے کرآخر باب تک هرباب مذهب احناف کے دلائل کا انبار لگا دیا گیا ،
(جزي الله مؤلفه خيرالجزاء وأكمل الجزاء وأسكنه في الفردوس الأعلى
اور اس کتاب کوپڑهنے کے بعد ایک عالم منصف جہاں مولف علام کے تبحرعلمی کا اقرار کرے گا ساتهہ هی اس بات کا بهی اقرار واظہار کرے گا
کہ مـذهب أحـناف دلائل وبراهین کے اعتبارسے سب سے قوی ترین اورأقرب إلى السنة مذهب هے ، باقی ایک جاهل متعصب شخص اگرانکار کرے تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں هے ، یہ عظیم الشان کتاب فصیح وبلیغ عربی وعلمی زبان میں هے ، اور فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی آج کل کی ایڈیشن علم تودرکنار عربیت سے بهی نابلد هیں ، اورعلم سے توان کومس هی نہیں هے ،
اس لیئے اس فرقہ جدید میں شامل لوگ بلا جهجهک حقائق کا انکارکرلیتے هیں ۰
آخرمیں شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کا فیصلہ وقول نقل کرتا هوں جو اسی وسوسہ کوباطل کرنے کے لیئے هے ،
شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے هیں کہ
جس نے ابوحنیفہ یا ان کے علاوه دیگر أئمة المسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قیاس یا ( رائے وغیره ) کی وجہ سے حدیث صحیح کی مخالفت کرتے هیں تو اس نے خطا کی ( اوران ائمہ پرجهوٹ بولا ) یا اس نے ظن وگمان سے بات کی یا خواهش نفس سے ، کیونکہ (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله توضعیف حدیث کے مقابلے میں بهی قیاس نہیں کرتے جیسے سفرمیں نبیذ تمرکے ساتهہ وضو والی حدیث اور نمازمیں قهقهة والی حدیث کے مقابلے میں (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله نے قیاس کوچهوڑدیا الخ
علامہ ابن حزم الظاهري رحمه الله فرماتے هیں کہ
تمام أصحاب أبي حنيفة کا اس بات اجماع هے کہ مذهب أبي حنيفة یہ هے کہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قياس ورأي سے اولی هے ۰
علامہ ابن القيم رحمه الله بهی یہی فرماتے هیں کہ
جواب = یہ وسوسہ اور جهوٹ بہت بهی پهیلایا گیا اور آج تک جاهل لوگ عوام میں اس جهوٹ کوپهیلا رهے هیں ، فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی هندوستان میں پیدائش کے بعد اس جهوٹ کوبہت فروغ دینے کی ناکام کوشش کی گئ ،
الحمدلله اس جهوٹ و وسوسہ کا ویسے بهی اهل علم کے نزدیک کوئ حیثیت نہیں تهی کیونکہ علماء احناف اور فقہ حنفی کسی مخفی وپوشیده چیز کا نام نہیں هے اهل علم کو فقہ حنفی کا مرتبہ ومقام خوب معلوم هے اور فقہ حنفی پر مشتمل کتب کا ایک بحرذخار دنیاء اسلام کے تمام کتب خانوں میں پهیلا هوا هے ،
لیکن پهر بهی اتمام حجت کے لیئے اس وسوسہ کا جواب علماء احناف نے دیا ،
اور اس وسوسہ کے جواب میں مفصل ومختصر کئ کتب لکهی گئ ،
لیکن اس باب میں سب سے عظیم الشان انتہائ مدلل دلائل وبراهین سے مزین کتاب العلامة المحقق الكبير المحدث العظیم الفقيه الجلیل والبحاثة المدقق الثبت الحجة المفسرالمحدث الأصولي البارع الأديب المؤرخ الزاهد الورع الشيخ ظفر أحمد العثماني التهانوي ألدیوبندي رحمه الله نے لکهی هے ،
جس کا نام (( إعــْــلاءُالسُّـنـَن )) هے ،
یہ عظیم الشان کتاب اکیس ( 21 ) ضخیم جلدوں پرمشتمل هے ،
اور اس عظیم الشان کتاب کےدو مُقدمے هیں ایک مقدمہ (قــواعــد فــي عــلوم الحــديث ) کے نام سے هے جو کچهہ کم پانچ سو ( ۵۰۰ ) صفحات پرمشتمل هے ، جوکہ اصول حدیث وعلوم حدیث وجرح وتعدیل کے اصول وقواعد وتعریفات ونادر تحقیقات وتشریحات اور بے مثل فوائد وفرائد کا ایک قیمتی خزانہ هے ، دوسرا مُقدمہ اجتهاد وتقلید وتلفیق وقیاس وغیره اصول فقہ کے ابحاث علمیہ قیمہ پرمشتمل هے ، کتاب کی ترتیب ابواب فقهیہ پرمشتمل هے ،
أبواب الطهارة سے لے کرآخر باب تک هرباب مذهب احناف کے دلائل کا انبار لگا دیا گیا ،
(جزي الله مؤلفه خيرالجزاء وأكمل الجزاء وأسكنه في الفردوس الأعلى
اور اس کتاب کوپڑهنے کے بعد ایک عالم منصف جہاں مولف علام کے تبحرعلمی کا اقرار کرے گا ساتهہ هی اس بات کا بهی اقرار واظہار کرے گا
کہ مـذهب أحـناف دلائل وبراهین کے اعتبارسے سب سے قوی ترین اورأقرب إلى السنة مذهب هے ، باقی ایک جاهل متعصب شخص اگرانکار کرے تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں هے ، یہ عظیم الشان کتاب فصیح وبلیغ عربی وعلمی زبان میں هے ، اور فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی آج کل کی ایڈیشن علم تودرکنار عربیت سے بهی نابلد هیں ، اورعلم سے توان کومس هی نہیں هے ،
اس لیئے اس فرقہ جدید میں شامل لوگ بلا جهجهک حقائق کا انکارکرلیتے هیں ۰
آخرمیں شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کا فیصلہ وقول نقل کرتا هوں جو اسی وسوسہ کوباطل کرنے کے لیئے هے ،
شیخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے هیں کہ
جس نے ابوحنیفہ یا ان کے علاوه دیگر أئمة المسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قیاس یا ( رائے وغیره ) کی وجہ سے حدیث صحیح کی مخالفت کرتے هیں تو اس نے خطا کی ( اوران ائمہ پرجهوٹ بولا ) یا اس نے ظن وگمان سے بات کی یا خواهش نفس سے ، کیونکہ (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله توضعیف حدیث کے مقابلے میں بهی قیاس نہیں کرتے جیسے سفرمیں نبیذ تمرکے ساتهہ وضو والی حدیث اور نمازمیں قهقهة والی حدیث کے مقابلے میں (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله نے قیاس کوچهوڑدیا الخ
علامہ ابن حزم الظاهري رحمه الله فرماتے هیں کہ
تمام أصحاب أبي حنيفة کا اس بات اجماع هے کہ مذهب أبي حنيفة یہ هے کہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قياس ورأي سے اولی هے ۰
علامہ ابن القيم رحمه الله بهی یہی فرماتے هیں کہ
أصحاب أبي حنيفة رحمه الله اس بات پراتفاق هے کہ ضعيـف حديـث ان کے نزدیک أولى هےقياس ورأي سے اوراسی پر(امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله کی مذهب کی بنیاد هے ، اسی وجہ سے حديـث القهقهـة کو (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمه الله نے قياس ورأي پرمقدم کیا اور نبيذ التمرکے ساتهہ سفرمیں وضو والی حدیث کو باوجود اس کے ضعیف هونے کے قياس ورأي پرمقدم کیا الخ
لہذا جس مذهب میں یہ اجماعی اصول هو کہ قیاس ورائے کے مقابلہ میں ضعیف حدیث بهی ملے تواس پرعمل کرنا هے اور قیاس ورائے کوچهوڑدینا هے
تو ایسے مذهب کے متعلق یہ کہنا کہ مذهب احناف رائے اورقیاس اوراحادیث صحیحہ کی مخالفت پرمبنی هے
کیا یہ جهوٹ وفریب نہیں تواور کیا هے ؟
الله تعالی عوام الناس کو فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں جہلاء کے وساوس سے محفوظ رکهے ، اور اس کی ایک هی صورت هے کہ دین کے معاملہ میں ان کےکسی بات پراعتماد نہ کیا جائے تا وقتیکہ کسی اور مستند عالم سے اس کی تحقیق نہ کرلے ۰
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في مجموع الفتاوى (2/161): (ومن ظن بأبي حنيفة أو غيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم، وتكلم إما بظن وإما بهوى، فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضي بالنبيذ في السفر مخالفة للقياس وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس؛ لاعتقاده صحتهما، وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما.
وقد بينا هذا في رسالة: " رفع الملام عن الأئمة الأعلام " وبينا أن أحدا من أئمة الإسلام لا يخالف حديثا صحيحا بغير عذر؛ بل لهم نحو من عشرين عذرا، مثل أن يكون أحدهم لم يبلغه الحديث؛ أو بلغه من وجه لم يثق به، أو لم يعتقد دلالته على الحكم؛ أو اعتقد أن ذلك الدليل قد عارضه ما هو أقوى منه كالناسخ؛ أو ما يدل على الناسخ وأمثال ذلك. والأعذار يكون العالم في بعضها مصيبا، فيكون له أجران، ويكون في بعضها مخطئا بعد اجتهاده فيثاب على اجتهاده وخطؤه مغفور له ؛: لقوله تعالى { رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا } . وقد ثبت في الصحيح أن الله استجاب هذا الدعاء وقال: « قد فعلت» ولأن العلماء ورثة الأنبياء
قال العلامة ابن حزم الظاهري : جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي "
(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ، للحافظ أبي عمر يوسف بن عبدالبّر النمري القرطبي ، ت463هـ ، طبعة دار الكتب العلمية ، بيروت )
وقال في كتابه إحكام الإحكام : قال أبو حنيفة : الخبر الضعيف عن رسول الله صلّى الله عليه وسلم أولي من القياس ، ولا يحلّ القياس مع وجوده "
(تاريخ التشريع الإسلامي )
وقال ابن القيم الجوزية في إعلام الموقعين : وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعـون علـى أن مذهـب أبـي حنيفـة أن ضعيـف الحديـث عنـده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبـه كمـا قـدّم حديـث القهقهـة مـع ضعفه على القياس والرأي ، وقـدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقيـاس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد "
(تذكرة الحفاظ، للإمام أبي عبدالله محمد بن أحمد الذهبي ت748هـ، دار الفكر العربي
(تذكرة الحفاظ، للإمام أبي عبدالله محمد بن أحمد الذهبي ت748هـ، دار الفكر العربي
وسوسه = دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید شرک وبدعت وجهالت هے لهذا اس تقلیدی روش کو چهوڑ کرهی کامیابی وفلاح ملے گی ، اوراس کی ایک هی صورت هےکہ " جماعت اهل حدیث " میں شامل هوجاو جن کے صرف اور صرف دو هی اصول هیں قرآن اورحدیث ۰
جواب = أئمه أربعه کی تقلید کے منکر درحقیقت فی زمانہ وه لوگ هیں جوامام ابوحنیفہ اور مذهب احناف سے عداوت ومخالفت کی وجہ سے اور دین میں آزادی اور بے راه روی کوفروغ دینے کے جذبہ سے مختلف وساوس استعمال کرتے هیں ، جن میں سے چند کا تذکره گذشتہ سطور میں هوچکا هے ، اصل میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کا کوئ اصول وموقف نہیں هے بلکہ ظاهری طورپر تقلید ائمہ کوشرک وبدعت وغیره کہ کرمحض عوام الناس کو اتباع سلف سے دورکرنا اور متنفروباغی کرکے اپنی تقلید ان سے کروانا یہ ان کا اصل مقصد هے ،
اب عوام الناس علم وفہم سے محرومی کی وجہ سے ان کے اس چکروفریب کونہیں سمجهتے ورنہ اگرتهوڑا سا غور وخوض کیا جائے توان کا جهوٹ وفریب بالکل عیاں هوجائے ،
مثال کے طورپرایک عام آدمی کوکہتے هیں کہ آپ امام ابوحنیفہ کے مقلد هیں اوردین میں توتقلید ناجائز هے لہذا آپ کوتقلید سے توبہ کرنی چائیے اورقرآن وسنت کواپنانا چائیے اب وه عامی شخص جب یہ وسوسہ قبول کرتا هے توپهراس کویہی وساوس پڑهائے جاتے هیں اور ساتهہ ساتهہ اس کے ذهن میں یہ بات ڈال دیتے هیں کہ اب دین پرعمل کرنے اور قرآن وسنت سیکهنے کے لیئے فلاں شیخ کی کتاب پڑهو فلاں شیخ کا رسالہ پڑهو فلاں شیخ کے بیانات سنو اب اس آدمی کوائمہ مجتهدین کی تقلید سے نکال کر چند جاهل لوگوں کی تقلید کروائ جارهی هے لیکن اس آدمی کو بوجہ جہل کے یہ سمجهہ نہیں آرها ، اور تقریبا تمام وه لوگ جو اپنے آپ کو" غیرمُقلد یا اهل حدیث " کے نام سے پکارتے هیں سب کا یہی حال هے ،
اور جو لوگ بظاهر تقلید کے مُنکر کہلاتے هیں اپنے آپ کو" غیرمُقلد " کہتے هیں ، حقیقت میں یہ لوگ دنیامیں سب بڑے اندهے مُقلد هیں ، اوراس فرقہ جدید میں شامل عوام کوجہالت وجهوٹ ودهوکہ کی تقلید کروائ جاتی هے ، اگرچہ کثرت جہل وقلت عقل کی وجہ سے وه یہ نعره لگاتے هیں کہ تقلید جہالت وبدعت کا نام هے ،
خوب یاد رکهیں کہ تقلید کے نام نہاد منکربهی درحقیقت دین میں بغیرتقلید کے ایک قدم بهی آگے نہیں چل سکتے ، مثال کے طور پر
ایک آدمی یہ کہے کہ " یہ حضورصلی الله علیہ وسلم کا فرمان هے " هم اس سے پوچهتے هیں کہ کیا تو نے یہ فرمان حضورصلی الله علیہ وسلم سے سنا هے ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ میں نے حضورصلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنا ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کہاں سے توحضورصلی الله علیہ وسلم کا یہ قول نقل کر رها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ فلاں آدمی نے فلاں سے روایت کیا هے ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کیا تو نے ان فلاں اور فلاں راویوں کودیکها هے اوران کوازخود پرکها هے کہ وه عادل وثقہ هیں اور ان میں روایت کے تمام شرائط پائے جاتے هیں ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ فلاں اور فلاں نے کہا هے اور لکها هے کہ یہ سب راوی عادل وثقہ ومعتبرهیں ، اب هم پوچهتے هیں کہ یہ فلاں آدمی جوان راویوں کوثقہ کہ رها هے کیا اس نےان تمام راویوں کودیکها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ نہیں بلکہ بعض نے ان کوپرکها پهراس کے بعد آنے والے ایک دوسرے کے قول پراعتماد کرتے رهے ،
پهر هم پوچهتے هیں کہ اس قائل کے پاس اس قول کی صحت کی کوئ دلیل هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ کوئ دلیل نہیں سوائے حسن ظن کے ،اب سوال یہ هے کہ تمام احادیث میں اسی طرح کا حسن ظن کرکے ان کوبیان کیا جاتا هے ، تو اس طرح ایک دوسرے کی تقلید کرکے حضورصلی الله علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا جائزهے ؟؟ اور حدیث همارا دین هے کیا کوئ هے جوحدیث پر بغیرتقلید کے عمل کا دعوی کرسکے ؟؟ جب ائمہ فقہ کی تقلید ناجائزهے تو یہ تقلید کیوں جائز هوگئ ؟؟
خوب یاد رکهیں حدیث کے میدان میں تقلید کے بغیر کوئ شخص ایک قدم بهی نہیں چل سکتا ، گذشتہ مثال ایک عقل مند کے لیئے کافی هے ،
مزید وضاحت کے ساتهہ دیکهیں مثلا ایک نام نہاد غیرمقلد یہ حدیث پڑهے
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( خيركم من تعلم القرأن و علمه )
اب اس نے حضورصلى الله عليه و سلم کی طرف یہ قول منسوب کرکے فرمایا ،
هم پوچهتے هیں دلیل دو ؟ وه جوابا کہے کہ بخاری نے روایت کیا هے ،
هم پوچهتے هیں بخاری کس سے یہ حدیث بیان کرتا هے ؟؟ مثلا وه جوابا کہے کہ حجاج بن منهال سے اس نے شعبة سے اس نے علقمة بن مرثد سے اس نے سعد بن عبيدة سے اس نے أبي عبد الرحمن السلمي سے اس نے حضرت عثمان رضي الله عنه سے اس روایت کوبیان کیا هے ،
اب سوال یہ هے کہ حجاج بن منهال کون هے ؟؟
شعبة کون هے ؟؟
علقمة بن مرثد کون هے ؟؟
سعد بن عبيدة کون هے ؟؟
أبي عبد الرحمن السلمي کون هے ؟؟
ان تمام سوالوں کا جواب سوائے حسن ظن اور تقلید کے کوئ نہیں دیکهہ سکتا ،
مثال کے طورپراس حدیث کے ایک راوی شعبة کولے لیجیئے اس کے پورے حالات واوصاف جاننے کے لیئے سوائے تقلید کے اور کوئ چاره نہیں هے ، اوریہی حال ذخیره احادیث کوروایت کرنے والے تمام راویوں کا هے ، کیونکہ کسی بهی راوئ حدیث کے احوال جاننے کے لیئے " كتب رجال ورُواة " كى طرف رجوع کیا جائے گا اور جوکچهہ ائمہ اسلام نے ان کے احوال لکهے هیں اسی کو ماننا پڑے گا ، اور پهر خیر سے رجال کی تمام کتابیں جن ائمہ نے لکهی هیں وه سب کے سب مُقلد بهی هیں ، اور پهر کسی بهی راوی کے حالات کے ساتهہ کوئ دلائل نہیں لکهے هوئے کہ مثلا فلاں راوی بہت بڑا امام ثقہ عادل تها اس کی دلیل یہ هے وغیره بس محض حسن ظن وتقلید کے ساتهہ هی ائمہ رجال کے تحقیقات وتبصروں کوتسلیم کیا جاتا هے ،
اب تمام اهل اسلام مسائل اجتهادیہ میں ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں اور یہ تقلید بهی دلیل وبرهان کی بنیاد پرهے کیونکہ مسائل فرعیہ اجتهادیہ کے دلائل کتابوں میں مفصل طور پرموجود هیں ، تواس عمل کو چند جاهل لوگ شرک وبدعت کہتے هیں ، اب سوال یہ هے ائمہ اربعہ کی تقلید فروعی مسائل میں ناجائزهے حالانکہ هرمسئلہ کی دلیل بهی موجود هے تو پهر یہی تقلید حدیث کے میدان میں کیوں جائز بلکہ واجب هوجاتی هے ؟؟؟
ایسے هی جن لوگوں نے محض عوام کو دهوکہ دینے کے لیئے یہ اصول بنایا هے کہ دین میں هرمسئلہ اور هربات كى دلیل قرآن وحدیث سے دینا ضروری هے ،
ایسے لوگ اپنے بنائے هوئے اصول کے مطابق حدیث کے میدان میں مشرک وجاهل بن جاتے هیں ، جس کی مختصر تشریح آپ نے اوپرملاحظہ کی ،
اور مزید یہ کہ حدیث کے تمام انواع و اقسام اجتهادى هیں ،مثلا
((الحديث الصحیح ، صحیح لغیره ، المتواتر ،الغريب ،المنقطع،المتصل، الضعيف ، المرسل ، المرسل ، المسند ، صحيح لغيره ، الحسن ، حسن لغیره ، المقلوب،المنكر،
المشهور ، المعلق ، المعنن و المؤنن ، المتروك ، الافراد أو الآحاد ، المعضل ،المبهم ،المسلسل ، المطروح ، الموقوف ، المستفيض ، المدلس ، العالى ، الموضوع ، المقطوع ، العزيز ، المرسل الخفى ، النازل ،التابع ،الشاهد،المدبج،السابق واللاحق،المتفق والمفترق،المؤتلف والمختلف،رواية الأكابر عن الأصاغر،))وغیرذالک حدیث کے یہ چند اقسام واسماء بطور مثال ذکرکردیئے هیں محدثین نے اصول حدیث کی کتابوں میں بالتفصیل لکهے هیں اور کوئ بهی طالب حدیث ان اقسام وانواع واسماء کو پڑهے بغیر علم حدیث کے میدان میں قدم هی نہیں رکهہ سکتا ،
اور یہ سب انواع واسماء اجتهادی هیں قرآن وحدیث سے کہیں ثابت نہیں هیں بعد میں آنے والے ائمہ حدیث نے اپنے ظن واجتهاد سے لکهے هیں اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین کی تقلید میں اس کوپڑهتے پڑهاتے چلے آرهے هیں ،
اسی طرح جرح وتعدیل کے احکام ومراتب واصول وقواعد سب محدثین کے اجتهاد کا ثمره هیں ، اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین کی تقلید میں هی ان کا تعلیم وتعلم کرتے هیں ،
اسی طرح علم حدیث میں کتب وتصانیف کے انواع واسماء سب اجتهادی هیں جیسا محدثین نے اپنی اجتهاد سے نام رکهے هیں ساری دنیا ویسا هی وه نام تقلیدا استعمال کرتے هیں ، مثال کے طور پر
(( الجوامع ،المسانيد ،السنن، المعاجم ،العلل ، الأجزاء ، الأطراف ، المستدركات ، المستخرجات ، الناسخ والمنسوخ ، مختلف الحديث ، الجرح والتعديل ، أصول الحديث ، غريب الحديث ، الأنساب والألقاب والكنى والأوطان والبلدان ، ))
وغیره ذالک
حاصل کلام یہ هے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید هو یا مُحدثین کی تقلید هو
یہ " تقلید فی الدین " کے قبیل هے ، اور جمیع اهل اسلام ائمہ اربعہ کی تقلید کے ساتهہ محدثین کی بهی تقلید کرتے هیں ، لیکن فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید اورخصوصا امام اعظم کی تقلید کوشرک وبدعت وممنوع کہتے هیں ، اب یہی لوگ حدیث کے میدان میں محدثین کی تقلید کرتے هیں اور جو کچهہ ناجائز الفاظ ائمہ اربعہ کے مقلدین کے لیئے استعمال کرتے هیں حدیث کے میدان میں یہ لوگ خود ان الفاظ ولعن طعن کے مستحق بن جاتے هیں کیونکہ حدیث کے میدان میں بغیر تقلید کے کوئ آدمی ایک قدم بهی نہیں چل سکتا ۰
الله تعالی عوام الناس پرفرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے ان وساوس کی حقیقت کهول دے ۰
جواب = أئمه أربعه کی تقلید کے منکر درحقیقت فی زمانہ وه لوگ هیں جوامام ابوحنیفہ اور مذهب احناف سے عداوت ومخالفت کی وجہ سے اور دین میں آزادی اور بے راه روی کوفروغ دینے کے جذبہ سے مختلف وساوس استعمال کرتے هیں ، جن میں سے چند کا تذکره گذشتہ سطور میں هوچکا هے ، اصل میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کا کوئ اصول وموقف نہیں هے بلکہ ظاهری طورپر تقلید ائمہ کوشرک وبدعت وغیره کہ کرمحض عوام الناس کو اتباع سلف سے دورکرنا اور متنفروباغی کرکے اپنی تقلید ان سے کروانا یہ ان کا اصل مقصد هے ،
اب عوام الناس علم وفہم سے محرومی کی وجہ سے ان کے اس چکروفریب کونہیں سمجهتے ورنہ اگرتهوڑا سا غور وخوض کیا جائے توان کا جهوٹ وفریب بالکل عیاں هوجائے ،
مثال کے طورپرایک عام آدمی کوکہتے هیں کہ آپ امام ابوحنیفہ کے مقلد هیں اوردین میں توتقلید ناجائز هے لہذا آپ کوتقلید سے توبہ کرنی چائیے اورقرآن وسنت کواپنانا چائیے اب وه عامی شخص جب یہ وسوسہ قبول کرتا هے توپهراس کویہی وساوس پڑهائے جاتے هیں اور ساتهہ ساتهہ اس کے ذهن میں یہ بات ڈال دیتے هیں کہ اب دین پرعمل کرنے اور قرآن وسنت سیکهنے کے لیئے فلاں شیخ کی کتاب پڑهو فلاں شیخ کا رسالہ پڑهو فلاں شیخ کے بیانات سنو اب اس آدمی کوائمہ مجتهدین کی تقلید سے نکال کر چند جاهل لوگوں کی تقلید کروائ جارهی هے لیکن اس آدمی کو بوجہ جہل کے یہ سمجهہ نہیں آرها ، اور تقریبا تمام وه لوگ جو اپنے آپ کو" غیرمُقلد یا اهل حدیث " کے نام سے پکارتے هیں سب کا یہی حال هے ،
اور جو لوگ بظاهر تقلید کے مُنکر کہلاتے هیں اپنے آپ کو" غیرمُقلد " کہتے هیں ، حقیقت میں یہ لوگ دنیامیں سب بڑے اندهے مُقلد هیں ، اوراس فرقہ جدید میں شامل عوام کوجہالت وجهوٹ ودهوکہ کی تقلید کروائ جاتی هے ، اگرچہ کثرت جہل وقلت عقل کی وجہ سے وه یہ نعره لگاتے هیں کہ تقلید جہالت وبدعت کا نام هے ،
خوب یاد رکهیں کہ تقلید کے نام نہاد منکربهی درحقیقت دین میں بغیرتقلید کے ایک قدم بهی آگے نہیں چل سکتے ، مثال کے طور پر
ایک آدمی یہ کہے کہ " یہ حضورصلی الله علیہ وسلم کا فرمان هے " هم اس سے پوچهتے هیں کہ کیا تو نے یہ فرمان حضورصلی الله علیہ وسلم سے سنا هے ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ میں نے حضورصلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنا ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کہاں سے توحضورصلی الله علیہ وسلم کا یہ قول نقل کر رها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ فلاں آدمی نے فلاں سے روایت کیا هے ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کیا تو نے ان فلاں اور فلاں راویوں کودیکها هے اوران کوازخود پرکها هے کہ وه عادل وثقہ هیں اور ان میں روایت کے تمام شرائط پائے جاتے هیں ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ فلاں اور فلاں نے کہا هے اور لکها هے کہ یہ سب راوی عادل وثقہ ومعتبرهیں ، اب هم پوچهتے هیں کہ یہ فلاں آدمی جوان راویوں کوثقہ کہ رها هے کیا اس نےان تمام راویوں کودیکها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ نہیں بلکہ بعض نے ان کوپرکها پهراس کے بعد آنے والے ایک دوسرے کے قول پراعتماد کرتے رهے ،
پهر هم پوچهتے هیں کہ اس قائل کے پاس اس قول کی صحت کی کوئ دلیل هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ کوئ دلیل نہیں سوائے حسن ظن کے ،اب سوال یہ هے کہ تمام احادیث میں اسی طرح کا حسن ظن کرکے ان کوبیان کیا جاتا هے ، تو اس طرح ایک دوسرے کی تقلید کرکے حضورصلی الله علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا جائزهے ؟؟ اور حدیث همارا دین هے کیا کوئ هے جوحدیث پر بغیرتقلید کے عمل کا دعوی کرسکے ؟؟ جب ائمہ فقہ کی تقلید ناجائزهے تو یہ تقلید کیوں جائز هوگئ ؟؟
خوب یاد رکهیں حدیث کے میدان میں تقلید کے بغیر کوئ شخص ایک قدم بهی نہیں چل سکتا ، گذشتہ مثال ایک عقل مند کے لیئے کافی هے ،
مزید وضاحت کے ساتهہ دیکهیں مثلا ایک نام نہاد غیرمقلد یہ حدیث پڑهے
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( خيركم من تعلم القرأن و علمه )
اب اس نے حضورصلى الله عليه و سلم کی طرف یہ قول منسوب کرکے فرمایا ،
هم پوچهتے هیں دلیل دو ؟ وه جوابا کہے کہ بخاری نے روایت کیا هے ،
هم پوچهتے هیں بخاری کس سے یہ حدیث بیان کرتا هے ؟؟ مثلا وه جوابا کہے کہ حجاج بن منهال سے اس نے شعبة سے اس نے علقمة بن مرثد سے اس نے سعد بن عبيدة سے اس نے أبي عبد الرحمن السلمي سے اس نے حضرت عثمان رضي الله عنه سے اس روایت کوبیان کیا هے ،
اب سوال یہ هے کہ حجاج بن منهال کون هے ؟؟
شعبة کون هے ؟؟
علقمة بن مرثد کون هے ؟؟
سعد بن عبيدة کون هے ؟؟
أبي عبد الرحمن السلمي کون هے ؟؟
ان تمام سوالوں کا جواب سوائے حسن ظن اور تقلید کے کوئ نہیں دیکهہ سکتا ،
مثال کے طورپراس حدیث کے ایک راوی شعبة کولے لیجیئے اس کے پورے حالات واوصاف جاننے کے لیئے سوائے تقلید کے اور کوئ چاره نہیں هے ، اوریہی حال ذخیره احادیث کوروایت کرنے والے تمام راویوں کا هے ، کیونکہ کسی بهی راوئ حدیث کے احوال جاننے کے لیئے " كتب رجال ورُواة " كى طرف رجوع کیا جائے گا اور جوکچهہ ائمہ اسلام نے ان کے احوال لکهے هیں اسی کو ماننا پڑے گا ، اور پهر خیر سے رجال کی تمام کتابیں جن ائمہ نے لکهی هیں وه سب کے سب مُقلد بهی هیں ، اور پهر کسی بهی راوی کے حالات کے ساتهہ کوئ دلائل نہیں لکهے هوئے کہ مثلا فلاں راوی بہت بڑا امام ثقہ عادل تها اس کی دلیل یہ هے وغیره بس محض حسن ظن وتقلید کے ساتهہ هی ائمہ رجال کے تحقیقات وتبصروں کوتسلیم کیا جاتا هے ،
اب تمام اهل اسلام مسائل اجتهادیہ میں ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں اور یہ تقلید بهی دلیل وبرهان کی بنیاد پرهے کیونکہ مسائل فرعیہ اجتهادیہ کے دلائل کتابوں میں مفصل طور پرموجود هیں ، تواس عمل کو چند جاهل لوگ شرک وبدعت کہتے هیں ، اب سوال یہ هے ائمہ اربعہ کی تقلید فروعی مسائل میں ناجائزهے حالانکہ هرمسئلہ کی دلیل بهی موجود هے تو پهر یہی تقلید حدیث کے میدان میں کیوں جائز بلکہ واجب هوجاتی هے ؟؟؟
ایسے هی جن لوگوں نے محض عوام کو دهوکہ دینے کے لیئے یہ اصول بنایا هے کہ دین میں هرمسئلہ اور هربات كى دلیل قرآن وحدیث سے دینا ضروری هے ،
ایسے لوگ اپنے بنائے هوئے اصول کے مطابق حدیث کے میدان میں مشرک وجاهل بن جاتے هیں ، جس کی مختصر تشریح آپ نے اوپرملاحظہ کی ،
اور مزید یہ کہ حدیث کے تمام انواع و اقسام اجتهادى هیں ،مثلا
((الحديث الصحیح ، صحیح لغیره ، المتواتر ،الغريب ،المنقطع،المتصل، الضعيف ، المرسل ، المرسل ، المسند ، صحيح لغيره ، الحسن ، حسن لغیره ، المقلوب،المنكر،
المشهور ، المعلق ، المعنن و المؤنن ، المتروك ، الافراد أو الآحاد ، المعضل ،المبهم ،المسلسل ، المطروح ، الموقوف ، المستفيض ، المدلس ، العالى ، الموضوع ، المقطوع ، العزيز ، المرسل الخفى ، النازل ،التابع ،الشاهد،المدبج،السابق واللاحق،المتفق والمفترق،المؤتلف والمختلف،رواية الأكابر عن الأصاغر،))وغیرذالک حدیث کے یہ چند اقسام واسماء بطور مثال ذکرکردیئے هیں محدثین نے اصول حدیث کی کتابوں میں بالتفصیل لکهے هیں اور کوئ بهی طالب حدیث ان اقسام وانواع واسماء کو پڑهے بغیر علم حدیث کے میدان میں قدم هی نہیں رکهہ سکتا ،
اور یہ سب انواع واسماء اجتهادی هیں قرآن وحدیث سے کہیں ثابت نہیں هیں بعد میں آنے والے ائمہ حدیث نے اپنے ظن واجتهاد سے لکهے هیں اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین کی تقلید میں اس کوپڑهتے پڑهاتے چلے آرهے هیں ،
اسی طرح جرح وتعدیل کے احکام ومراتب واصول وقواعد سب محدثین کے اجتهاد کا ثمره هیں ، اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین کی تقلید میں هی ان کا تعلیم وتعلم کرتے هیں ،
اسی طرح علم حدیث میں کتب وتصانیف کے انواع واسماء سب اجتهادی هیں جیسا محدثین نے اپنی اجتهاد سے نام رکهے هیں ساری دنیا ویسا هی وه نام تقلیدا استعمال کرتے هیں ، مثال کے طور پر
(( الجوامع ،المسانيد ،السنن، المعاجم ،العلل ، الأجزاء ، الأطراف ، المستدركات ، المستخرجات ، الناسخ والمنسوخ ، مختلف الحديث ، الجرح والتعديل ، أصول الحديث ، غريب الحديث ، الأنساب والألقاب والكنى والأوطان والبلدان ، ))
وغیره ذالک
حاصل کلام یہ هے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید هو یا مُحدثین کی تقلید هو
یہ " تقلید فی الدین " کے قبیل هے ، اور جمیع اهل اسلام ائمہ اربعہ کی تقلید کے ساتهہ محدثین کی بهی تقلید کرتے هیں ، لیکن فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید اورخصوصا امام اعظم کی تقلید کوشرک وبدعت وممنوع کہتے هیں ، اب یہی لوگ حدیث کے میدان میں محدثین کی تقلید کرتے هیں اور جو کچهہ ناجائز الفاظ ائمہ اربعہ کے مقلدین کے لیئے استعمال کرتے هیں حدیث کے میدان میں یہ لوگ خود ان الفاظ ولعن طعن کے مستحق بن جاتے هیں کیونکہ حدیث کے میدان میں بغیر تقلید کے کوئ آدمی ایک قدم بهی نہیں چل سکتا ۰
الله تعالی عوام الناس پرفرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے ان وساوس کی حقیقت کهول دے ۰
وسوسه = قرآن وحدیث پرعمل کرنے کے لیئے کسی امام کی تقليد كى کوئ ضرورت نہیں هے بلکہ ازخود هرشخص مطالعہ وتحقیق کرکے قرآن وحدیث پرعمل کرے
جواب = یہ باطل وسوسہ عوام الناس کومختلف انداز سے سمجهایا جاتا هے ، اور مقصد اس کا یہ هوتا هے کہ عوام کو دین میں آزاد بنا دیا جائے ، اور سلف صالحین وعلماء حق کی اتباع سے نکال کر درپرده چند جاهل لوگوں کی اتباع پران کو مجبور کیا جائے ، یہ وسوسہ درحقیقت بڑا خطرناک وگمراه کن هے ،
کیا صرف مطالعہ کے ذریعہ علوم دینیہ کوحاصل کیا جاسکتا هے ؟؟؟کیا صرف مطالعہ کے ذریعہ قرآن وحدیث کا علم وسمجهہ حاصل کیا جاسکتا هے ؟؟؟
یہ ایک انتہائ اهم سوال هے کون نہیں جانتا کہ هرعلم وفن میں کمال ومہارت حاصل کرنے کے لیئے اس علم وفن کے ماهر ومستند لوگوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا هے اور اس اس علم وفن کے تمام شروط ولوازم اصول وقواعد کی پابندی لازمی هوتی هے هر علم وفن کے اندر کچهہ خاص محاورات واصطلاحات هوتے هیں اور اتارچڑهاو کا ایک خاص انداز هوتا هے جس کا سمجهنا بغیرکسی ماهراستاذ کے ممکن نہیں هے اور تو اور دنیوی فنون کو دیکهہ لیجیئے کہ بزور مطالعہ کسی بهی فن میں مہارت ناقابل قبول سمجهی جاتی هے جب دنیوی فنون کا یہ حال هے جوانسانوں کی اپنی ایجاد کرده هیں
تو الله ورسول کے کلام کو پڑهنے وسمجهنے کے لیئے صرف ذاتی مطالعہ کیونکر کافی هوگا جب کہ الله ورسول کے بیان کرده احکامات اور کلام وحی سے متعلق هے جس میں انسانی عقل وسمجهہ کو کوئ دخل نہیں هے
اسی لیئے ابتداء سے هی الله تعالی نے انبیاء ورسل کا سلسلہ مبارکہ جاری فرمایا اور یہ سلسلہ مبارکہ جناب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كى بعثت مباركه پرهمیشہ همیشہ کے لیئے ختم هوچکا هے اگر صرف انسانی مطالعہ هی کافی هوتا تو الله تعالی بجائے نبی ورسول بهیجنے کے صرف کتابیں نازل کرتا اور انسان اس کی مد د سے ازخود الله تعالی کی معرفت اور الله تعالی کے کلام کی مراد ومقصود کی فہم حاصل کرتا لیکن تاریخ اور کتاب وسنت کی صریح نصوص سے یہ بات ثابت هوچکی هے کہ الله تعالی نے کوئ ایسی کتاب نازل نہیں کی جس کے ساتهہ مُعلم یعنی نبی کو نہ بهیجا هو " تورات "کے ساتهہ حضرت موسی " انجیل " کے ساتهہ حضرت عیسی " زبور " کے ساتهہ حضرت داود اور اسی طرح " صُحُف " حضرات ابراهیم کے ذریعہ لوگوں کو پہنچے
صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین ،
اورقرآن مجید جوسید الکتب هے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم پرنازل کی گئ ، کیا ان کتب الهیہ کے تصور کوبغیر انبیاء ورسل کے کوئ کامل ومکمل تصور کہا جاسکتا هے ؟ یقینا کوئ بهی سنجیده انسان اس بات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، اگر صرف کتابوں کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا اور خود هی کتاب پڑهہ کر الله تعالی کی مُراد ومقصود حاصل کرنا ممکن هوتا تو ان انبیاء صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین کی بعثت کیوں ضروری تهی ؟ قرآن مجید خاتم الکتب هے جو خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے واسطہ سے هم تک پہنچا اگر صرف کتاب کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا توخاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے فرائض منصبی میں سے ایک اهم فرض تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کیوں لازم کیا گیا ؟ آپ كى بعثت مبارکہ کیوں ضروری تهی اور اس قدر اذیت وتکلیف ومشقت کی تاریخ کیوں مرتب کی گئ ؟ کیا اهل مکہ عربی زبان نہیں سمجهتے تهے ؟ قرآن کسی ذریعہ سے نازل کردیا جاتا اور عوام وخواص اس کو پڑهہ کر ازخود سمجهنے کی کوشش کرتے ، اسی طرح حضرت جبریل علیہ السلام کو درمیان میں کیوں واسطہ بنایا گیا خود براه راست خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم تک قرآن مجید پہنچا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس میں واضح تعلیم هے کہ بغیراستاذ ومُعلم صرف کتابوں کے ذریعہ قرآن وحدیث کا مقصد ومطلب وحقیقی مراد پالینا ممکن نہیں هے ۰
اسی " سُنة الله " کے تناظرمیں یعنی کتاب کے ساتهہ مُعلم کا هونا ضروری هے علماء حق علماء دیوبند کا یہی مسلک هے کہ دین صرف کتابی حروف ونقوش کا نام نہیں هے اور نہ دین کو محض کتابوں سے سمجها جاسکتا هے ، الله تعالی نے همیشہ کتاب کے ساتهہ رسول کو مُعلم بنا کر اس لیئے بهیجا تاکہ وه اپنے قول وفعل وعمل سے کتاب کی تفسیر وتشریح کرے ، چنانچہ ایسی مثالیں توملتی هیں کہ دنیا میں رسول بهیجے گئے مگرکتاب نہیں آئ ، لیکن ایسی مثال ایک بهی نہیں هے کہ صرف کتاب بهیج دی گئ هو اور اس کے ساتهہ رسول مُعلم بن کر نہ آیا هو ، الله تعالی کی یہ سنت بتلاتی هے کہ دین کو سمجهنے سمجهانے اور پهیلانے پہنچانے کا راستہ وطریقہ صرف کتاب نہیں هے بلکہ اس کے ساتهہ وه اشخاص وافراد بهی هیں جو کتاب کا عملی پیکربن کراس کتاب کی تشریح وتفسیر کرتے هیں ، لہذا دین کوسمجهنے کے لیئے " کتابُ الله اور رجالُ الله " لازم وملزوم کی حیثیت رکهتے هیں ، ان میں سے ایک کودوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ، لہذا " کتاب الله " کو جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح کی روشنی میں اور سنت وحدیث رسول الله صلى الله عليه وسلم کو صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین وسلف صالحین کی تفسیر وتشریح وتحقیق کی روشنی میں هی ٹهیک ٹهیک سمجها جاسکتا هے ، اس کے بغیر دین کی اور قرآن وحدیث کی تعبیروتشریح کی هرکوشش گمراهی کی طرف هی جاتی هے
تمام صحابہ کرام اهل لسان تهے عربی ان کی مادری زبان تهی مگر مقاصد قرآن سمجهنے کے لیئے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح وتعلیم کے محتاج تهے اورآپ کی طرف هی رجوع کرتے تهے اپنی سمجهہ وفہم کوانهوں نے کافی نہیں سمجها ، اورصحابہ کرام اهل لسان هونے کے ساتهہ ساتهہ فصاحت وبلاغت اورتمام دیگرصفات میں اعلی مقام رکهتے تهے لیکن اس کے باوجود قرآن سمجهنے کے لیئے خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف هی رجوع کرتے تهے ،
تومعلوم هوا کہ صرف عربی لغت پڑهہ لینا بهی کافی نہیں اور نہ صرف مطالعہ کافی هے اورتاریخ وتجربہ شاهد هے کہ جس شخص نے بهی اساتذه وماهرین کی مجلس میں بیٹهہ کر باقاعده تمام اصول وقواعد کی روشنی میں علم دین حاصل نہیں کیا ، بلکہ قوت مطالعہ کے ذریعے کتاب وسنت سمجهنے کی کوشش کی توایسا شخص گمراهی سے نہیں بچا ، اسی طرح جس شخص نے اپنے ناقص عقل وفہم پراعتمادکیا اور کسی ماهر مستند استاذ ومُعلم سے باقاعده علم حاصل نہیں کیا توایسا شخص خود بهی گمراه هوا اور دیگر لوگوں کو بهی گمراه کیا ۰
اورآج کے اس پرفتن دور میں لوگ اردو کے ایک دو رسالے پڑهہ کر اور قرآن وحدیث کا اردوترجمہ پڑهہ کر بڑے فخرکرتے هیں کہ اب هم کو کسی امام ومعلم کی کوئ ضرورت نہیں هے اب هم بڑے کامل هوچکے هیں ایسے جاهل لوگ اپنے ناقص عقل وفہم کی مدح سرائ کرتے هوئے تهکتے نہیں هیں ،
اور آج کل جاهل عوام یہ وبا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی جانب سے پهیلائ جارهی هے هرجاهل ومجهول کو مُجتهد کا درجہ دیا هوا هے اور فی زمانہ وسائل اعلام ( میڈیا کے ذرائع ) کی کثرت کی بنا پر اس فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل هرکس وناکس انتہائ دلیری کے ساتهہ اپنی جہالت وحماقت وضلالت کو هرممکن ذریعہ سے پهیلا رها هے ،
اسی لیئے احادیث صحیحہ میں ایسے شخص کے لیئے جہنم کی سخت وعید وارد هوئ هے کہ جوشخص اپنی خیال ورائ سے یا بغیر علم کے قرآن میں کوئ بات کرتا هے ،
چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں
1 = عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار .
2 = عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار
3 = عن جندب بن عبد الله البجلي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من قال في القرآن برأيه فأصاب فقد أخطأ
4 = عن ابن عباس قال : من تكلم في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار .
(( تفسير البغوي الجزء الأول ))5 = عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : (( من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار٠
( رواه الترمذي، كتاب تفسير القرآن باب ما جاء في الذي يفسر القرآن برأيه، )
خلاصہ ان روایات کا یہ هے کہ جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے وخیال سے بات کی یا بغیرعلم کے کوئ بات کی تو وه شخص اپنا ٹهکانہ جہنم بنا لے یا قرآن میں اپنی رائے سے کوئ بات کی اوربات صحیح بهی نکلے تب بهی اس نے خطا اور غلطی کی ۰
یقینا اتنی سخت وعید سننے کے بعد ایک مومن آدمی قرآن میں اپنی رائے وخیال سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا ، اوران احادیث کی روشنی میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حالت کوملاحظہ کریں کہ هرجاهل مجهول آدمی کو قرآن میں رائے زنی کا حق دیا هوا هے جب کہ اس فرقہ شاذه میں شامل اکثری لوگوں کی حالت یہ هے کہ قرآن کے علوم ومعارف پر دسترس تو کجا قرآن کی صحیح تلاوت بهی نہیں کرسکتے ،
همارے اسی زمانہ کے فتنوں کے سد باب اور روک تهام کے لیئے هی حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما دیا تها
عن معاوية رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من يرد الله به خيراً يفقهه في الدين"
(رواه في الصحيحين )
وإنما العلم بالتعلم ، یعنی علم سیکهنے سے هی حاصل هوتا هے
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں ( وإنما العلم بالتعلم ،) مرفوع حدیث هے جس کو ابن أبي عاصم اور طبراني نے حضرت معاویہ رضي الله عنه سے ان الفاظ کے ساتهہ روایت کیا ( يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقه بالتفقه ومن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ) . إسناده حسن .( فتح الباري ج 1 ص 147 )
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں کہ
والمعنى ليس العلم المعتبر إلا الماخوذ من الأنبياء وورثتهم على سبيل التعلم
( فتح الباري ج 1 ص 148 )یعنی معنی اس حدیث (يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم الخ ) کا یہ هے کہ معتبر ومستند علم وهی هے جو انبیاء اور ان کے ورثاء یعنی علماء سے بطریق تعلیم وتعلم حاصل کیا جائے ۰
یہاں سے یہ مسئلہ بالکل واضح هوگیا کہ جو لوگ اردو کے چند رسائل پر یہ سمجهتے هیں کہ اب هم مجتهد وامام بن چکے هیں اب همیں کسی امام کی تقلید کی کوئ ضرورت نہیں هے اب هم نے خود هی قرآن وحدیث کو سمجهنا هے، ایسے لوگ درحقیقت بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا هیں اورایسے لوگوں کے ساتهہ شیطان اس طرح کهیلتا هے جس طرح بچے گیند کے ساتهہ کهیلتےهیں ،
لہذا لائق اعتماد اورقابل عمل وهی علم هے جو انبیاء علیهم السلام سے بطور اسناد حاصل کیا گیا هو ، یہی وجہ هے اهل حق کے یہاں مدارس ومکاتب میں آج تک یہی مبارک طریقہ رائج هے اور عہد نبوی سے لے کرآج تک منزل بہ منزل اس کا باضابطہ سلسلہ چلا آرها هے اور اهل حق کے یہاں علم حدیث کی تعلیم کے لیئے " اجازت " کی ضرورت لازم هوتی هے ، ایسا نہیں هے کہ هرشخص جاهل ومجهول اپنے آپ کو مُحدث ، مُفسر ، فقیہ وغیره القابات سے یاد کرے اور بغیرپڑهے لکهے اجتهاد وامامت کا دعوی کرے ،
تاریخ میں ایسے افراد کی کئ مثالیں موجود هیں جنهوں نے اپنے عقل و فہم اور قوت مطالعہ پراعتماد کرکے قرآن وحدیث کو سمجهنے کی کوشش کی تو خود بهی گمراه هوئے اور اپنے ساتهہ ایک خلق کثیر کوگمراه کیا ،
اور اس باب میں ان لوگوں کےسینکڑوں واقعات هیں جنهوں نے بغیراستاذ ومُعلم فقط ترجمہ یا ظاهری الفاظ کوپڑهہ کر راهنمائ حاصل کرنے کی کوشش کی تو وه صحیح مفہوم کو نہ پاسکے بلکہ صحیح مفہوم ومراد کواسی وقت پہنچے جب کسی اهل علم کی رجوع کیا ،
حاصل کلام یہ هے کہ گذشتہ تفصیل سے یہ بات خوب واضح هوگئ اور یہ حقیقت بالکل عیاں هوگئ کہ کسی بهی علم وفن کے حصول کے دو طریقے هیں
1 = مطالعہ کے ذریعے بذات خود چند اردو یا عربی کتب ورسائل پڑهہ کر
2 = دوسرا طریقہ یہ هے کہ کسی بهی باکمال وماهراستاذ ومُعلم کی مجلس میں باقاعده حاضر هوکر بالمشافه تمام شروط وآداب کی رعایت کرتے هوئے سبقا سبقا اس علم کو پڑها جائے ،
یقینا ان دونوں طریقوں میں پہلا طریقہ بالکل غلط اور گمراه کن هے
یقینی طور پرتحصیل علم کا مفید اور کامیاب اورقابل اعتماد طریقہ وه دوسرا طریقہ هے اسی طریقہ کی طرف حضورصلى الله عليه وسلم نے هماری راهنمائ فرمائ هے تاریخ اورسلف صالحین کا عمل شاهد هے کہ کسی بهی زمانہ اس کا خلاف نہیں کیا گیا ، لہذا بطون کتب سے کوئ بهی قرآن وحدیث کو نہیں سمجهہ سکتا ، صحيح البخاري میں حضرت رضی الله عنہ کا قول هے ،
باب الاغتباط في العلم والحكمة وقال عمر تفقهوا قبل أن تسودوا) علم حاصل کرو فقہ حاصل کرو سردار وقائد بنائے جانے سے پہلے ، امام أبو عبيد نے اپنی کتاب (غريب الحديث ) میں فرمایا کہ معنی اس قول کا یہ هے کہ بچپن میں علم اورفقہ حاصل کرو قَبل اس کے کہ تم سردار ورئیس بن جاو توپهرتم اپنے سے کم مرتبہ سےعلم حاصل کرنے عارمحسوس کروتواس طرح تم جاهل ره جاو گے ۰
اس کے بعد امام بخاری رحمہ الله نے فرمایا
وقد تعلم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بعد كبرسنهم یعنی صحابہ کرام نے بڑی بڑی عمر میں علم حاصل کیا ۰
الله تعالی عوام وخواص اهل اسلام کو صحیح سمجهہ دے اورکتاب وسنت کو اس کے اهل لوگوں سے پڑهنے سمجهنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق دے ۰
جواب = یہ باطل وسوسہ عوام الناس کومختلف انداز سے سمجهایا جاتا هے ، اور مقصد اس کا یہ هوتا هے کہ عوام کو دین میں آزاد بنا دیا جائے ، اور سلف صالحین وعلماء حق کی اتباع سے نکال کر درپرده چند جاهل لوگوں کی اتباع پران کو مجبور کیا جائے ، یہ وسوسہ درحقیقت بڑا خطرناک وگمراه کن هے ،
کیا صرف مطالعہ کے ذریعہ علوم دینیہ کوحاصل کیا جاسکتا هے ؟؟؟کیا صرف مطالعہ کے ذریعہ قرآن وحدیث کا علم وسمجهہ حاصل کیا جاسکتا هے ؟؟؟
یہ ایک انتہائ اهم سوال هے کون نہیں جانتا کہ هرعلم وفن میں کمال ومہارت حاصل کرنے کے لیئے اس علم وفن کے ماهر ومستند لوگوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا هے اور اس اس علم وفن کے تمام شروط ولوازم اصول وقواعد کی پابندی لازمی هوتی هے هر علم وفن کے اندر کچهہ خاص محاورات واصطلاحات هوتے هیں اور اتارچڑهاو کا ایک خاص انداز هوتا هے جس کا سمجهنا بغیرکسی ماهراستاذ کے ممکن نہیں هے اور تو اور دنیوی فنون کو دیکهہ لیجیئے کہ بزور مطالعہ کسی بهی فن میں مہارت ناقابل قبول سمجهی جاتی هے جب دنیوی فنون کا یہ حال هے جوانسانوں کی اپنی ایجاد کرده هیں
تو الله ورسول کے کلام کو پڑهنے وسمجهنے کے لیئے صرف ذاتی مطالعہ کیونکر کافی هوگا جب کہ الله ورسول کے بیان کرده احکامات اور کلام وحی سے متعلق هے جس میں انسانی عقل وسمجهہ کو کوئ دخل نہیں هے
اسی لیئے ابتداء سے هی الله تعالی نے انبیاء ورسل کا سلسلہ مبارکہ جاری فرمایا اور یہ سلسلہ مبارکہ جناب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كى بعثت مباركه پرهمیشہ همیشہ کے لیئے ختم هوچکا هے اگر صرف انسانی مطالعہ هی کافی هوتا تو الله تعالی بجائے نبی ورسول بهیجنے کے صرف کتابیں نازل کرتا اور انسان اس کی مد د سے ازخود الله تعالی کی معرفت اور الله تعالی کے کلام کی مراد ومقصود کی فہم حاصل کرتا لیکن تاریخ اور کتاب وسنت کی صریح نصوص سے یہ بات ثابت هوچکی هے کہ الله تعالی نے کوئ ایسی کتاب نازل نہیں کی جس کے ساتهہ مُعلم یعنی نبی کو نہ بهیجا هو " تورات "کے ساتهہ حضرت موسی " انجیل " کے ساتهہ حضرت عیسی " زبور " کے ساتهہ حضرت داود اور اسی طرح " صُحُف " حضرات ابراهیم کے ذریعہ لوگوں کو پہنچے
صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین ،
اورقرآن مجید جوسید الکتب هے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم پرنازل کی گئ ، کیا ان کتب الهیہ کے تصور کوبغیر انبیاء ورسل کے کوئ کامل ومکمل تصور کہا جاسکتا هے ؟ یقینا کوئ بهی سنجیده انسان اس بات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، اگر صرف کتابوں کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا اور خود هی کتاب پڑهہ کر الله تعالی کی مُراد ومقصود حاصل کرنا ممکن هوتا تو ان انبیاء صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین کی بعثت کیوں ضروری تهی ؟ قرآن مجید خاتم الکتب هے جو خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے واسطہ سے هم تک پہنچا اگر صرف کتاب کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا توخاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے فرائض منصبی میں سے ایک اهم فرض تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کیوں لازم کیا گیا ؟ آپ كى بعثت مبارکہ کیوں ضروری تهی اور اس قدر اذیت وتکلیف ومشقت کی تاریخ کیوں مرتب کی گئ ؟ کیا اهل مکہ عربی زبان نہیں سمجهتے تهے ؟ قرآن کسی ذریعہ سے نازل کردیا جاتا اور عوام وخواص اس کو پڑهہ کر ازخود سمجهنے کی کوشش کرتے ، اسی طرح حضرت جبریل علیہ السلام کو درمیان میں کیوں واسطہ بنایا گیا خود براه راست خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم تک قرآن مجید پہنچا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس میں واضح تعلیم هے کہ بغیراستاذ ومُعلم صرف کتابوں کے ذریعہ قرآن وحدیث کا مقصد ومطلب وحقیقی مراد پالینا ممکن نہیں هے ۰
اسی " سُنة الله " کے تناظرمیں یعنی کتاب کے ساتهہ مُعلم کا هونا ضروری هے علماء حق علماء دیوبند کا یہی مسلک هے کہ دین صرف کتابی حروف ونقوش کا نام نہیں هے اور نہ دین کو محض کتابوں سے سمجها جاسکتا هے ، الله تعالی نے همیشہ کتاب کے ساتهہ رسول کو مُعلم بنا کر اس لیئے بهیجا تاکہ وه اپنے قول وفعل وعمل سے کتاب کی تفسیر وتشریح کرے ، چنانچہ ایسی مثالیں توملتی هیں کہ دنیا میں رسول بهیجے گئے مگرکتاب نہیں آئ ، لیکن ایسی مثال ایک بهی نہیں هے کہ صرف کتاب بهیج دی گئ هو اور اس کے ساتهہ رسول مُعلم بن کر نہ آیا هو ، الله تعالی کی یہ سنت بتلاتی هے کہ دین کو سمجهنے سمجهانے اور پهیلانے پہنچانے کا راستہ وطریقہ صرف کتاب نہیں هے بلکہ اس کے ساتهہ وه اشخاص وافراد بهی هیں جو کتاب کا عملی پیکربن کراس کتاب کی تشریح وتفسیر کرتے هیں ، لہذا دین کوسمجهنے کے لیئے " کتابُ الله اور رجالُ الله " لازم وملزوم کی حیثیت رکهتے هیں ، ان میں سے ایک کودوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ، لہذا " کتاب الله " کو جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح کی روشنی میں اور سنت وحدیث رسول الله صلى الله عليه وسلم کو صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین وسلف صالحین کی تفسیر وتشریح وتحقیق کی روشنی میں هی ٹهیک ٹهیک سمجها جاسکتا هے ، اس کے بغیر دین کی اور قرآن وحدیث کی تعبیروتشریح کی هرکوشش گمراهی کی طرف هی جاتی هے
تمام صحابہ کرام اهل لسان تهے عربی ان کی مادری زبان تهی مگر مقاصد قرآن سمجهنے کے لیئے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح وتعلیم کے محتاج تهے اورآپ کی طرف هی رجوع کرتے تهے اپنی سمجهہ وفہم کوانهوں نے کافی نہیں سمجها ، اورصحابہ کرام اهل لسان هونے کے ساتهہ ساتهہ فصاحت وبلاغت اورتمام دیگرصفات میں اعلی مقام رکهتے تهے لیکن اس کے باوجود قرآن سمجهنے کے لیئے خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف هی رجوع کرتے تهے ،
تومعلوم هوا کہ صرف عربی لغت پڑهہ لینا بهی کافی نہیں اور نہ صرف مطالعہ کافی هے اورتاریخ وتجربہ شاهد هے کہ جس شخص نے بهی اساتذه وماهرین کی مجلس میں بیٹهہ کر باقاعده تمام اصول وقواعد کی روشنی میں علم دین حاصل نہیں کیا ، بلکہ قوت مطالعہ کے ذریعے کتاب وسنت سمجهنے کی کوشش کی توایسا شخص گمراهی سے نہیں بچا ، اسی طرح جس شخص نے اپنے ناقص عقل وفہم پراعتمادکیا اور کسی ماهر مستند استاذ ومُعلم سے باقاعده علم حاصل نہیں کیا توایسا شخص خود بهی گمراه هوا اور دیگر لوگوں کو بهی گمراه کیا ۰
اورآج کے اس پرفتن دور میں لوگ اردو کے ایک دو رسالے پڑهہ کر اور قرآن وحدیث کا اردوترجمہ پڑهہ کر بڑے فخرکرتے هیں کہ اب هم کو کسی امام ومعلم کی کوئ ضرورت نہیں هے اب هم بڑے کامل هوچکے هیں ایسے جاهل لوگ اپنے ناقص عقل وفہم کی مدح سرائ کرتے هوئے تهکتے نہیں هیں ،
اور آج کل جاهل عوام یہ وبا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی جانب سے پهیلائ جارهی هے هرجاهل ومجهول کو مُجتهد کا درجہ دیا هوا هے اور فی زمانہ وسائل اعلام ( میڈیا کے ذرائع ) کی کثرت کی بنا پر اس فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل هرکس وناکس انتہائ دلیری کے ساتهہ اپنی جہالت وحماقت وضلالت کو هرممکن ذریعہ سے پهیلا رها هے ،
اسی لیئے احادیث صحیحہ میں ایسے شخص کے لیئے جہنم کی سخت وعید وارد هوئ هے کہ جوشخص اپنی خیال ورائ سے یا بغیر علم کے قرآن میں کوئ بات کرتا هے ،
چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں
1 = عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار .
2 = عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار
3 = عن جندب بن عبد الله البجلي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من قال في القرآن برأيه فأصاب فقد أخطأ
4 = عن ابن عباس قال : من تكلم في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار .
(( تفسير البغوي الجزء الأول ))5 = عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : (( من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار٠
( رواه الترمذي، كتاب تفسير القرآن باب ما جاء في الذي يفسر القرآن برأيه، )
خلاصہ ان روایات کا یہ هے کہ جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے وخیال سے بات کی یا بغیرعلم کے کوئ بات کی تو وه شخص اپنا ٹهکانہ جہنم بنا لے یا قرآن میں اپنی رائے سے کوئ بات کی اوربات صحیح بهی نکلے تب بهی اس نے خطا اور غلطی کی ۰
یقینا اتنی سخت وعید سننے کے بعد ایک مومن آدمی قرآن میں اپنی رائے وخیال سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا ، اوران احادیث کی روشنی میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حالت کوملاحظہ کریں کہ هرجاهل مجهول آدمی کو قرآن میں رائے زنی کا حق دیا هوا هے جب کہ اس فرقہ شاذه میں شامل اکثری لوگوں کی حالت یہ هے کہ قرآن کے علوم ومعارف پر دسترس تو کجا قرآن کی صحیح تلاوت بهی نہیں کرسکتے ،
همارے اسی زمانہ کے فتنوں کے سد باب اور روک تهام کے لیئے هی حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما دیا تها
عن معاوية رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من يرد الله به خيراً يفقهه في الدين"
(رواه في الصحيحين )
وإنما العلم بالتعلم ، یعنی علم سیکهنے سے هی حاصل هوتا هے
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں ( وإنما العلم بالتعلم ،) مرفوع حدیث هے جس کو ابن أبي عاصم اور طبراني نے حضرت معاویہ رضي الله عنه سے ان الفاظ کے ساتهہ روایت کیا ( يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقه بالتفقه ومن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ) . إسناده حسن .( فتح الباري ج 1 ص 147 )
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں کہ
والمعنى ليس العلم المعتبر إلا الماخوذ من الأنبياء وورثتهم على سبيل التعلم
( فتح الباري ج 1 ص 148 )یعنی معنی اس حدیث (يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم الخ ) کا یہ هے کہ معتبر ومستند علم وهی هے جو انبیاء اور ان کے ورثاء یعنی علماء سے بطریق تعلیم وتعلم حاصل کیا جائے ۰
یہاں سے یہ مسئلہ بالکل واضح هوگیا کہ جو لوگ اردو کے چند رسائل پر یہ سمجهتے هیں کہ اب هم مجتهد وامام بن چکے هیں اب همیں کسی امام کی تقلید کی کوئ ضرورت نہیں هے اب هم نے خود هی قرآن وحدیث کو سمجهنا هے، ایسے لوگ درحقیقت بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا هیں اورایسے لوگوں کے ساتهہ شیطان اس طرح کهیلتا هے جس طرح بچے گیند کے ساتهہ کهیلتےهیں ،
لہذا لائق اعتماد اورقابل عمل وهی علم هے جو انبیاء علیهم السلام سے بطور اسناد حاصل کیا گیا هو ، یہی وجہ هے اهل حق کے یہاں مدارس ومکاتب میں آج تک یہی مبارک طریقہ رائج هے اور عہد نبوی سے لے کرآج تک منزل بہ منزل اس کا باضابطہ سلسلہ چلا آرها هے اور اهل حق کے یہاں علم حدیث کی تعلیم کے لیئے " اجازت " کی ضرورت لازم هوتی هے ، ایسا نہیں هے کہ هرشخص جاهل ومجهول اپنے آپ کو مُحدث ، مُفسر ، فقیہ وغیره القابات سے یاد کرے اور بغیرپڑهے لکهے اجتهاد وامامت کا دعوی کرے ،
تاریخ میں ایسے افراد کی کئ مثالیں موجود هیں جنهوں نے اپنے عقل و فہم اور قوت مطالعہ پراعتماد کرکے قرآن وحدیث کو سمجهنے کی کوشش کی تو خود بهی گمراه هوئے اور اپنے ساتهہ ایک خلق کثیر کوگمراه کیا ،
اور اس باب میں ان لوگوں کےسینکڑوں واقعات هیں جنهوں نے بغیراستاذ ومُعلم فقط ترجمہ یا ظاهری الفاظ کوپڑهہ کر راهنمائ حاصل کرنے کی کوشش کی تو وه صحیح مفہوم کو نہ پاسکے بلکہ صحیح مفہوم ومراد کواسی وقت پہنچے جب کسی اهل علم کی رجوع کیا ،
حاصل کلام یہ هے کہ گذشتہ تفصیل سے یہ بات خوب واضح هوگئ اور یہ حقیقت بالکل عیاں هوگئ کہ کسی بهی علم وفن کے حصول کے دو طریقے هیں
1 = مطالعہ کے ذریعے بذات خود چند اردو یا عربی کتب ورسائل پڑهہ کر
2 = دوسرا طریقہ یہ هے کہ کسی بهی باکمال وماهراستاذ ومُعلم کی مجلس میں باقاعده حاضر هوکر بالمشافه تمام شروط وآداب کی رعایت کرتے هوئے سبقا سبقا اس علم کو پڑها جائے ،
یقینا ان دونوں طریقوں میں پہلا طریقہ بالکل غلط اور گمراه کن هے
یقینی طور پرتحصیل علم کا مفید اور کامیاب اورقابل اعتماد طریقہ وه دوسرا طریقہ هے اسی طریقہ کی طرف حضورصلى الله عليه وسلم نے هماری راهنمائ فرمائ هے تاریخ اورسلف صالحین کا عمل شاهد هے کہ کسی بهی زمانہ اس کا خلاف نہیں کیا گیا ، لہذا بطون کتب سے کوئ بهی قرآن وحدیث کو نہیں سمجهہ سکتا ، صحيح البخاري میں حضرت رضی الله عنہ کا قول هے ،
باب الاغتباط في العلم والحكمة وقال عمر تفقهوا قبل أن تسودوا) علم حاصل کرو فقہ حاصل کرو سردار وقائد بنائے جانے سے پہلے ، امام أبو عبيد نے اپنی کتاب (غريب الحديث ) میں فرمایا کہ معنی اس قول کا یہ هے کہ بچپن میں علم اورفقہ حاصل کرو قَبل اس کے کہ تم سردار ورئیس بن جاو توپهرتم اپنے سے کم مرتبہ سےعلم حاصل کرنے عارمحسوس کروتواس طرح تم جاهل ره جاو گے ۰
اس کے بعد امام بخاری رحمہ الله نے فرمایا
وقد تعلم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بعد كبرسنهم یعنی صحابہ کرام نے بڑی بڑی عمر میں علم حاصل کیا ۰
الله تعالی عوام وخواص اهل اسلام کو صحیح سمجهہ دے اورکتاب وسنت کو اس کے اهل لوگوں سے پڑهنے سمجهنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق دے ۰
وسوسه = یہود ونصاری اپنے مولویوں اور درویشوں کا کہا مانتے تهے اس لیئے الله نے ان کومشرک فرمایا اور مقلدین بهی ان کی طرح اپنے اماموں کا کہا مانتے هیں
جواب = یہ وسوسہ بہت کثرت کے ساتهہ پهیلایا گیا اور یہود ونصاری کی مذمت میں وارد شده آیات کوائمہ کے مقلدین کے حق میں بعض جہلاء نے استعمال کیا جوکہ سراسر جهوٹ اوردهوکہ هے کیونکہ یہود ونصاری کوجواحکامات شریعت دیئے گئے اورجوکتب الله تعالی نے ان کی هدایت کے واسطے نازل کیں توان احکامات شریعت وکتب سماویہ میں علماء یہود ونصاری نے کهل کرتغیروتبدل کیا اورتحریف جیسے جرم عظیم کے مرتکب هوئے اوراس جرم کا اصل سبب موجب تن آسانی اور راحت پسندی اورعیش وعشرت تها جس حکم میں دشواری ودقت محسوس کرتے اس کوتبدیل کردیتے اور مقدس آسمانی کتب میں تحریف کرکے اپنی خواہش ومرضی کے موافق مضمون درج کردیتے تهے اس لیئے قرآن مجید نے ان کے قبیح حرکت کوان الفاظ میں ذکرکیا
(يكتبون الكتاب بأيديهم ثم يقولون هذا من عند الله )وه ( اهل کتاب ) اپنے هاتهوں سے کتاب ( میں ) لکهہ ڈالتے هیں پهر کہتے هیں یہ الله کی طرف سے هے ۰
قرآن مجید میں جابجا ان کی اس قبیح حرکت اورعظیم جرم کوبیان کیا گیا اورجن لوگوں نے ان کی پیروی کی اوران علماء سُوء کے کہنے پرچلے جوغلط ومُحرَّف احکام کی تعلیم دیتے تهے توایسے پیروکاروں کومشرک کہا گیا ۰
لیکن ائمہ اربعہ کے مقلدین کو یہود ونصاری پرقیاس کرکے مشرک بتلانا قطعا غلط هے اورایک جاهل واحمق دین سے بے خبرشخص هی یہ بات کرسکتا هے اس لیئے فقهاء امت محمدیہ وائمہ اسلام نے ( معاذالله ) وه کام نہیں کیئے جو یہود ونصاری کے احبار ورُهبان کرتے تهے ،
کیا فقهاء وائمہ اسلام نے بهی یہود ونصاری کے علماء کی طرح دین میں تحریف کی ؟؟؟
کیا فقهاء وائمہ اسلام بهی اپنی طرف سے احکام گهڑکرلوگوں کوتعلیم کرتے رهے ؟؟؟
کیا پورے تاریخ اسلام میں کسی بهی عالم وامام نے یہ کہا هے کہ فقهاء وائمہ اسلام بهی یہود ونصاری کے علماء کی طرح تحریف وتبدیل کے جرم کا ارتکاب کرتے رهے لہذا ان کے مُقلدین وپیروکار مشرک هیں ؟؟؟
فقهاء وائمہ اسلام نے کیا کام کیا ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله اس کا جواب اس طرح دیتے هیں
((ويفهمونهم مراده بحسب اجتهادهم واستطاعهم ))یعنی فقهاء کرام تو عام مسلمانوں کو اپنی اجتهاد وطاقت کے مطابق حضور صلی الله علیہ وسلم کی (احادیث کی ) مراد بتلاتے هیں ۰
اورامت مسلمہ کے ائمہ مجتهدین کے بارے صحیح حدیث میں وارد هواهےکہ
اگروه اجتهاد کرے اوراجتهاد درست هو تو اس کے لیئے دواجرهیں اوراگراجتهاد میں خطا وغلطی کرلے پهربهی اس کے لیئے ایک اجرهے
روى عمرو بن العاص ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : { إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران ، وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر } متفق عليه
امام البخاری رحمہ الله نے اس طرح باب قائم کیا
( باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ )ابن حجر رحمہ الله فرماتے هیں کہ امام البخاری رحمہ الله اشاره کر رهے هیں اس بات کی طرف کہ جس مجتهد کا حکم یا فتوی بوجہ خطاء کے رد کردیا جائے تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وه مُجتهد گناهگار هوگا ، بلکہ جب اس نے اپنی طاقت وکوشش اجتهاد میں صرف کی تواس کواجردیا جائے گا اوراگروه مُصیب هوا تودوگنا اجراس کوملے گا ، لیکن اگربغیرعلم فتوی وحکم دیا توپهرگناهگارهوگا الخ
حاصل یہ کہ یہود ونصاری کے علماء اور فقهاء امت محمدیہ کے کام اور عمل میں فرق بالکل واضح هے یہود ونصاری کے علماء دین میں تحریف وتبدیل کےمرتکب هوئے اور فقهاء امت محمدیہ نےمُراد نبی کو امت کے سامنے واضح کیا اور انتہائ اخلاص وکامل امانت ودیانت کے ساتهہ صحیح دین کو لوگوں تک پہنچایا یہ حضرات توامت کے مُحسن هیں ان کے مُتبعین ومُقلدین کو مشرک کہنے والے جاهل واحمق لوگ هیں جوکہ عندالله اس جرم پرماخوذ هوں گے ،
کیونکہ خود الله تعالی ان کی اتباع وپیروی کا حکم دیتا هے
(( يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم ))أولي الأمر " کی تفسیرمیں بعض مفسرین نے " هم الأمراء " بهی لکها هے لیکن اکثرمفسرین نے اس سے " ألعلماء والفقهاء " مراد لیا هے ، اور اسی سےتقلید واتباع ائمہ اربعہ کا وجوب بهی ثابت هوگیا ۰
امام أبو جعفر محمد بن جرير الطبري رحمه الله فرماتے هیں
1 = فقال بعضهم: هم الأمراء"
2 = وقال آخرون: هم أهل العلم والفقه "
اور یہ قول هے جابر، ومجاهد، وابن أبي نجيح، وابن عباس ، وعطاء بن السائب، والحسن، وأبو العالية. رحمهم الله کا ۰
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله بهی فرماتے هیں کہ
وأولوا الأمر هم: العلماء والأمراء، یعنی (وأولوا الأمر) سے مراد علماء وامراء هیں ۰
اور ابن القیم رحمه الله فرماتے هیں کہ
الأمراءکی اطاعت بهی علماء کی اطاعت کے تابع هے ۰
الله تعالی صحیح سمجهہ عطا فرمائے اور شیاطین الانس والجن کے وساوس محفوظ رکهے ۰
جواب = یہ وسوسہ بہت کثرت کے ساتهہ پهیلایا گیا اور یہود ونصاری کی مذمت میں وارد شده آیات کوائمہ کے مقلدین کے حق میں بعض جہلاء نے استعمال کیا جوکہ سراسر جهوٹ اوردهوکہ هے کیونکہ یہود ونصاری کوجواحکامات شریعت دیئے گئے اورجوکتب الله تعالی نے ان کی هدایت کے واسطے نازل کیں توان احکامات شریعت وکتب سماویہ میں علماء یہود ونصاری نے کهل کرتغیروتبدل کیا اورتحریف جیسے جرم عظیم کے مرتکب هوئے اوراس جرم کا اصل سبب موجب تن آسانی اور راحت پسندی اورعیش وعشرت تها جس حکم میں دشواری ودقت محسوس کرتے اس کوتبدیل کردیتے اور مقدس آسمانی کتب میں تحریف کرکے اپنی خواہش ومرضی کے موافق مضمون درج کردیتے تهے اس لیئے قرآن مجید نے ان کے قبیح حرکت کوان الفاظ میں ذکرکیا
(يكتبون الكتاب بأيديهم ثم يقولون هذا من عند الله )وه ( اهل کتاب ) اپنے هاتهوں سے کتاب ( میں ) لکهہ ڈالتے هیں پهر کہتے هیں یہ الله کی طرف سے هے ۰
قرآن مجید میں جابجا ان کی اس قبیح حرکت اورعظیم جرم کوبیان کیا گیا اورجن لوگوں نے ان کی پیروی کی اوران علماء سُوء کے کہنے پرچلے جوغلط ومُحرَّف احکام کی تعلیم دیتے تهے توایسے پیروکاروں کومشرک کہا گیا ۰
لیکن ائمہ اربعہ کے مقلدین کو یہود ونصاری پرقیاس کرکے مشرک بتلانا قطعا غلط هے اورایک جاهل واحمق دین سے بے خبرشخص هی یہ بات کرسکتا هے اس لیئے فقهاء امت محمدیہ وائمہ اسلام نے ( معاذالله ) وه کام نہیں کیئے جو یہود ونصاری کے احبار ورُهبان کرتے تهے ،
کیا فقهاء وائمہ اسلام نے بهی یہود ونصاری کے علماء کی طرح دین میں تحریف کی ؟؟؟
کیا فقهاء وائمہ اسلام بهی اپنی طرف سے احکام گهڑکرلوگوں کوتعلیم کرتے رهے ؟؟؟
کیا پورے تاریخ اسلام میں کسی بهی عالم وامام نے یہ کہا هے کہ فقهاء وائمہ اسلام بهی یہود ونصاری کے علماء کی طرح تحریف وتبدیل کے جرم کا ارتکاب کرتے رهے لہذا ان کے مُقلدین وپیروکار مشرک هیں ؟؟؟
فقهاء وائمہ اسلام نے کیا کام کیا ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله اس کا جواب اس طرح دیتے هیں
((ويفهمونهم مراده بحسب اجتهادهم واستطاعهم ))یعنی فقهاء کرام تو عام مسلمانوں کو اپنی اجتهاد وطاقت کے مطابق حضور صلی الله علیہ وسلم کی (احادیث کی ) مراد بتلاتے هیں ۰
اورامت مسلمہ کے ائمہ مجتهدین کے بارے صحیح حدیث میں وارد هواهےکہ
اگروه اجتهاد کرے اوراجتهاد درست هو تو اس کے لیئے دواجرهیں اوراگراجتهاد میں خطا وغلطی کرلے پهربهی اس کے لیئے ایک اجرهے
روى عمرو بن العاص ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : { إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران ، وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر } متفق عليه
امام البخاری رحمہ الله نے اس طرح باب قائم کیا
( باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ )ابن حجر رحمہ الله فرماتے هیں کہ امام البخاری رحمہ الله اشاره کر رهے هیں اس بات کی طرف کہ جس مجتهد کا حکم یا فتوی بوجہ خطاء کے رد کردیا جائے تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وه مُجتهد گناهگار هوگا ، بلکہ جب اس نے اپنی طاقت وکوشش اجتهاد میں صرف کی تواس کواجردیا جائے گا اوراگروه مُصیب هوا تودوگنا اجراس کوملے گا ، لیکن اگربغیرعلم فتوی وحکم دیا توپهرگناهگارهوگا الخ
حاصل یہ کہ یہود ونصاری کے علماء اور فقهاء امت محمدیہ کے کام اور عمل میں فرق بالکل واضح هے یہود ونصاری کے علماء دین میں تحریف وتبدیل کےمرتکب هوئے اور فقهاء امت محمدیہ نےمُراد نبی کو امت کے سامنے واضح کیا اور انتہائ اخلاص وکامل امانت ودیانت کے ساتهہ صحیح دین کو لوگوں تک پہنچایا یہ حضرات توامت کے مُحسن هیں ان کے مُتبعین ومُقلدین کو مشرک کہنے والے جاهل واحمق لوگ هیں جوکہ عندالله اس جرم پرماخوذ هوں گے ،
کیونکہ خود الله تعالی ان کی اتباع وپیروی کا حکم دیتا هے
(( يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم ))أولي الأمر " کی تفسیرمیں بعض مفسرین نے " هم الأمراء " بهی لکها هے لیکن اکثرمفسرین نے اس سے " ألعلماء والفقهاء " مراد لیا هے ، اور اسی سےتقلید واتباع ائمہ اربعہ کا وجوب بهی ثابت هوگیا ۰
امام أبو جعفر محمد بن جرير الطبري رحمه الله فرماتے هیں
1 = فقال بعضهم: هم الأمراء"
2 = وقال آخرون: هم أهل العلم والفقه "
اور یہ قول هے جابر، ومجاهد، وابن أبي نجيح، وابن عباس ، وعطاء بن السائب، والحسن، وأبو العالية. رحمهم الله کا ۰
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله بهی فرماتے هیں کہ
وأولوا الأمر هم: العلماء والأمراء، یعنی (وأولوا الأمر) سے مراد علماء وامراء هیں ۰
اور ابن القیم رحمه الله فرماتے هیں کہ
الأمراءکی اطاعت بهی علماء کی اطاعت کے تابع هے ۰
الله تعالی صحیح سمجهہ عطا فرمائے اور شیاطین الانس والجن کے وساوس محفوظ رکهے ۰
وسوسه = همارے اوپرشریعت نے کتاب وسنت کی اتباع کو لازم کیا هے نہ کہ ائمہ اربعہ کی اتباع وکلام کو لہذا ائمہ اربعہ کی پیروی کوچهوڑنا ضروری هے۰
جواب = دلائل شرعیہ صرف كتاب وسنت هی نہیں بلکہ اجماع، وقياس، وقول صحابي، وعرف، واستحسان، وغير ذلك بهی اهل سنت کے نزدیک دلائل شرعیہ میں داخل هیں ، اور صرف كتاب وسنت کوهی دلیل کہنا اوردیگردلائل کوتسلیم نہ کرنا بہت بڑی خطا هے ،
اورجہاں تک تعلق هے أقوال ائمة مجتهدين کا تو وه كتاب وسنت کے مخالف ومقابل نہیں هیں بلکہ ان کے أقوال کی حیثیت كتاب وسنت کے لیئے بمنزلہ تفسير وبيان کے هیں لہذا أقوال الأئمة کولینا آيات واحاديث کے چهوڑنے مترادف هرگزنہیں هیں بلکہ بعینہ كتاب وسنت کا هی تمَسُّك هے کیونکہ آيات واحاديث انهی ائمة کرام کے واسطہ سے هم تک پہنچی هیں اور یہ ائمة کرام اوراسلاف عظام سب سے زیاده كتاب وسنت کا علم رکهتے تهے ، صحیح وسقیم حسن وضعیف مرفوع ومرسل ومتواتر ومشہوروغیره احادیث ، متقدم ومتأخر کی تاریخ، ناسخ ومنسوخ ، أسباب ولغات ، ضبط وتحرير وغیره غرض یہ کہ تمام علوم میں اعلی درجہ کا کمال رکهتے تهے ، قرآن واحاديث کے علوم واسرار ومعارف کوسب سے زیاده جاننے والے تهے ، لہذا قرآن واحاديث سے ان ائمہ نے فوائد وأحكام ومسائل مستنبط کیئے اور لوگوں کے سامنے اس کوبیان کیئےاوران کے گراں قدر خدمات اور قربانیوں نے هی قرآن واحاديث اوردین پرعمل کوآسان بنایا ، اور قرآن واحاديث میں وارد شده مشکل ومخفی مسائل کوحل کروایا ، اورالله تعالی نے ان ائمہ کرام کے ذریعہ امت میں خیرکثیرکوپهیلایا ۰
وسوسه = مقلدین همیشہ اپنے امام ومذهب کی بات وقول پرعمل کرتے هیں اگرچہ امام کا قول الله ورسول کے قول وحکم کے مخالف کیوں نہ هو ۰
جواب = یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے کہ مقلدین امام کے قول کو الله ورسول کے حکم پرترجیح دیتے هیں ، اور حقیقت حال یہ هے کہ امام مجتهد کے قول کو الله ورسول کے حکم کے مخالف ظاهرکرنا عموما عوام الناس کوگمراه کرنے اورائمہ مجتهدین سے بغض وتعصب کی بنا پرکیا جاتا هے ، کیونکہ عموما یہ بات کہنے والے لوگ کسی جاهل کی تقلید میں کہتے هیں ، باقی ان کے بقول مثلا امام کا فلاں قول قرآن وحدیث کے خلاف هے ، اب اس کہنے والے کونہ توامام کے اس قول کا کچهہ علم هوتا هے اور نہ آیت وحدیث کی کچهہ خبرهوتی هے
بس اندهی تقلید میں اس طرح کے وساوس اوربے سرو پا باتیں یاد کرکے پهیلاتے رهتے هیں ، اور اگر بالفرض کسی جگہ امام کا قول بظاهر کسی حدیث کے خلاف بهی نظرآتا هو لیکن امام کے پاس اپنے قول پرکسی دوسری حدیث وآیت وغیره سے دلیل موجود هوتی هے ، لیکن جاهل شخص بوجہ اپنی جہالت کے اس کو نہیں جانتا لهذا وه ان ائمہ کرام لعن طعن کرنا شروع کردیتا هے ۰
وسوسه = تقليد الأئمة اس وجہ سے بهی ناجائز هے کہ ان ائمہ نے خود اپنی تقلید سے منع کیا هے اورخاص کران أئمة الأربعة میں سے هرایک نے ارشاد فرمایا هے کہ (( إذا صح الحديث فهو مذهبي
جواب = یہ دعوی و وسوسہ بهی بالکل باطل هے کہ أئمه مجتهدين نے مُطلقًا اپنی تقلید سے منع کیا هے ، ان أئمه مجتهدين میں سے کسی ایک سے بهی یہ بات منقول نہیں هے ، اوراگربالفرض ان سے نہی عن التقليد ثابت بهی هو تو یہ نہی وممانعت مُجتهد کے لیئے هے نہ کہ غیرمُجتهد کے لیئے ، یہ سینکڑوں هزاروں کتابیں ائمہ اربعہ اوران کے اصحاب کیوں لکهی هیں ؟؟
تمام اجتهادی وفروعی مسائل کی جمع وتدوین کیوں کی هے ؟؟
یہ سارا اهتمام اسی لیئے توکیا گیا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بآسانی دین پر اورکتاب وسنت پرعمل کرسکیں ، الإمام النووي رحمہ الله نے اپنی کتاب (المجموع ) کے مُقدمہ میں اس کا جواب دیا هے ( وهذا الذي قاله الشافعي ليس معناه أن كل واحد رأى حديثًا صحيحًا قال: هذا مذهب الشافعي، وعمل بظاهره وإنما هذا فيمن له رتبة الاجتهاد في المذهب الخ)
یعنی یہ جو امام شافعی رحمہ الله نے کہا هے کہ (إذا صح الحديث فهو مذهبي)
اس کا یہ معنی ومطلب نہیں هے کہ هرایک آدمی جب صحیح حدیث دیکهے تو یہ کہے کہ یہ امام شافعی رحمہ الله کا مذهب هے اور پهرظاهر حدیث پرعمل کرے بلکہ یہ حکم اس شخص کے لیئے هے جو مذهب میں اجتهاد کا درجہ رکهتا هو ۰
یہی بات حافظ ابن الصلاح امام شامی وغیرهما ائمہ نے بهی کی هے کہ
امام شافعی وغیره ائمہ کا یہ قول عامة الناس کے لیئے نہیں هے بلکہ اپنے مذهب کے اصحاب وتلامذه کے لیئے هے جو مجتهد فی المذهب کا درجہ رکهتے هوں ۰
اعتراض : اگر جان بوجھ کر تشہد کے بعد گوز مارے یا بات چیت کرلے تو اس کی نماز پوری ہوجاۓ گی، وفي المنية : ص # ٨٥ - وقال أبو حنيفة : يتوضأ ويقعد ويخرج عن الصلواة.
(گویا ہوا نکال دینا سلام کے قائم مقام ہے).
جواب: یہ اعتراض رسول الله پر (جا پہنچتا) ہے، کیونکہ اس کی سند حدیث میں موجود ہے لیکن معترض کا یہ کہنا کہ ہوا نکال دینا فقہاء کے ہاں سلام کے قائم مقام ہے، بہتان ہے. نعوذ بالله من سوء الفهم بلکہ ایسا کہنے والا گناہ گار ہے اگر قصدا (جان بوجھ کر یعنی ارادتاً) ایسا کرے تو نماز اس کی مکروہ تحریمہ ہے. جس کا پھر دوبارہ پھڑنا اس پر واجب ہے یہ اس لیے کہ اسے سلام کہ کر نماز سے باہر آنا تھا اور یہ سلام اس پر واجب تھا، چونکہ اس نے سلام کو جو شرعاً واجب تھا، ترک کیا، اس لیے گناہ گار بھی ہوا، اور نماز کا اعادہ (لوٹانا) بھی اس پر لازم ہوا اور یہ کہنا کہ حنفیہ ایسی نماز کو ((بلا کراہت تحریمی جائز رکھتے ہیں، یا اس فعل کو جائز رکھتے ہیں))، صریح حنفیوں پر افتراء ہے.
(غیر مقلدین کے) نواب صدیق حسن خان صاحب نے "کتاب التباس" میں اس اعتراض کو خوب رد کیا ہے.
اب سنیے وہ حدیث:- امام ابو داود، ترمذی، طحاوی نے روایت کیا ہے کہ جس وقت امام قعدہ میں بیٹھ گیا، اور سلام سے پہلے اس نے حدث کیا، تو حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی اور جو لوگ اس کے پیچھے تھے، سب کی نماز پوری ہوگئی:حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى الْإِمَامُ الصَّلَاةَ وَقَعَدَ فَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ وَمَنْ كَانَ خَلْفَهُ مِمَّنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ (ابوداود بَاب الْإِمَامِ يُحْدِثُ بَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّكْعَةِ۵۲۲)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امام نماز (کے ارکان) مکمل کر کے (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھ جائے اور پھر اس کو گفتگو کرنے سے پہلے یعنی سلام سے پہلے حدث پیش آجائے (یعنی وضو ٹوٹ جانے) تو اس کی نماز پوری ہوگئی اور مقتدیوں میں سے ان مقتدیوں کی بھی نماز پوری ہوگئی جو نماز پوری کر چکے ہیں (اور جنکی نماز ابھی پوری نہیں ہوئی تھی بلکہ نماز کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا ان کی نماز فاسد ہوجائے گی).
ملا علی قاری نے "رسالہ تشمیع الفقہاء الحنفیہ" کتنی ہی حدیثیں اس بارے میں لکھی ہیں، جو دیکھنا چاہے وہ (عمدة الرعاية حاشية شرح الوقاية : ص # ١٨٥) دیکھ لے.
[فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات : ص # ١٤٨-١٤٩، از مولانا مشتاق علی شاہ]
No comments:
Post a Comment