Friday 11 May 2012

اسلام اور سائنس

Science teaches us that how are we born, grow and then die, but it does not teaches us that why are we born, grow and then die? But Islam teaches us with detailed, Contend & understandable answers. So, It means that 1400 years ancient religion Islam & their Believers are Forward than Science & their immature followers.

سائنس یہ تو بتاتی ہے کہ ہم کیسے پیدا ہوتے ہے، نش و نما پاتے اور پھر مرتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتی کہ ہم کیوں اور کس کے کہنے یا کرنے پر پیدا ہوتے ہیں، نش  و نما پاتے اور پھر مرتے ہیں!لیکن "دین_اسلام" ہمیں اس کا مفصل، مدلل اور قابل_فہم جواب دیتا ہے.تومعلوم ہوا اسلام اور اس کے ماننے والے (بمقابلہ اسلام) سائنس اور اس کے  دلدادہ نادانوں سے ١٤٠٠ سال آگے ہیں، پیچھے نہیں.



القرآن:
سَنُريهِم ءايٰتِنا فِى الءافاقِ وَفى أَنفُسِهِم حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُ الحَقُّ ۗ أَوَلَم يَكفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ شَهيدٌ {41:53}
We shall show them Our portents on the horizons and within themselves until it will be manifest unto them that it is the Truth. Doth not thy Lord suffice, since He is Witness over all things?

ہم عنقریب ان کو اطراف عالم میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے.
[سورۃ فصلت:53]

آیات آفاقیہ و انفسیہ:
یعنی قرآن کی حقانیت کے دوسرے دلائل براہین تو بجائے خود رہے۔ اب ہم ان منکروں کو خود ان کی جانوں میں اور ان کے چاروں طرف سارے عرب بلکہ ساری دنیا میں اپنی قدرت کے وہ نمونے دکھلائیں گے جن سے قرآن اور حامل قرآن کی صداقت بالکل روز روشن کی طرح آنکھوں سے نظر آنے لگے۔ وہ نمونے کیا ہیں؟ وہ ہی اسلام کی عظیم الشان اور محیر العقول فتوحات جو سلسلہ اسباب ظاہری کے بالکل بر خلاف قرآنی پیشینگوئیوں کے عین مطابق وقوع پذیر ہوئیں۔ چنانچہ معرکہ "بدر" میں کفار مکہ نے خود اپنی جانوں کے اندر اور "فتح مکہ" میں مرکز عرب کے اندر اور خلفائے راشدین کے عہد میں تمام جہان کے اندر یہ نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ "آیات" سے عام نشانہائے قدرت مراد ہوں جو غور کرنے والوں کو اپنے وجود میں اور اپنے وجود سے باہر تمام دنیا کی چیزوں میں نظر آتے ہیں جن سے حق تعالیٰ کی وحدانیت و عظمت کا ثبوت ملتا ہے اور قرآن کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ جب کہ وہ ان سنن الہٰیہ اور نوامیس فطریّہ کے موافق ثابت ہوتے ہیں۔ جو اس عالم تکوین میں کارفرما ہیں۔ اس قسم کے تما م حقائق کونیہ اور آیات آفاقیہ و انفسیہ کا انکشاف چونکہ لوگوں کو دفعۃً نہیں ہوتا بلکہ وقتًا فوقتًا بتدریج ان کے چہرہ سے پردہ اٹھتا رہتا ہے۔ اس لئے سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا سے تعبیر فرمایا۔کیا اللہ کی گواہی ناکافی ہے:یعنی قرآن کی حقانیت کو فرض کرو کوئی نہ مانے، تو اکیلے خدا کی گواہی کیا تھوڑی ہے جو ہر چیز پر گواہ ہے اور ہر چیز میں غور کرنے سے اسکی گواہی کا ثبوت ملتا ہے۔


http://ahlesunnahlibrary.com/?s=science




























http://www.elnaggarzr.com/index.php?itm=84fe0ba732680b76d4e28d022d267213































جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد رکھنے والے مسلم معالجین

انگریزی تحریر: ڈیوڈ بلیو شمانز


فلسفی اور طبیب 
ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن رشد 1126ء کو قرطبہ میں پیدا ہوا۔ ابن رشد مغربی خلافت کے لیے ابن سینا سے (جو مشرقی خلافت کے لیے معزز سمجھا جاتا تھا) زیادہ قابلِ احترام تھا۔یورپ میں Averros کے نام سے معروف ہے اور زیادہ تر فلسفہ پر تحقیق کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ ابن رشد کا طب پر اصولی کام ایک چھوٹی سی جلد میں ہے جس کا نام”کتاب الکلیات فی الطب“ ہے، یعنی طب کے عمومی اصول۔ یہ کتاب ایک اہم طبی تلخیص ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی ابتدا میں اس نے مختصر لیکن جامع طور پر انسانی جسم کی تشریح کا جائزہ لیا ہے، پھربدن کے مختلف حصوں اور اعضا کے افعال، انسانی جسم کے مختلف نظاموں کی بیماریوں، غذاوٴں، ادویات، زہروں،طبی غسل اور صحت کو برقرار رکھنے میں ورزش کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں سرجری کا حصہ مختصر طور پر پٹی باندھنے، طبی داغ لگانے ، خون بند کرنے والی ادویات اور پھوڑوں کے علاج پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر سب سے زیادہ یاد گاری کام اس کا چیچک کا دقیق مطالعہ ہے۔ ابن رشد لکھتا ہے کہ چیچک زندگی میں صرف ایک دفعہ حملہ کرتا ہے۔ اب تک یہ قوت مناعت حاصل کرنے کا پہلا معلوم حوالہ ہے۔

جلاوطن طبیب
موسیٰ بن میمون (لاطینی میں Maimonides کہا جاتا ہے) نشاة ثانیہ کے دور سے اگر چہ پہلے پیدا ہوا تھا ،لیکن وہ اسی دور(نشاة ثانیہ) کا آدمی تھا۔ ابن رشد سے صرف بارہ سال بعد وہ بھی قرطبہ میں پیدا ہوا۔ ایک ایسے خاندان میں جس نے آٹھ نسلوں تک دانش ور ہی پیدا کیے۔ مسلم دنیا میں رہنے والا ،یہودی مذہب کا پیروکار، اپنے زمانے کا بے حد ذہین اور فطین شخص تھا جس کی علمی کام یابیاں قانون، فلسفہ اور طب کے شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بالکل ابتدائی دور میں اس نے سائنس اور فلسفہ میں دلچسپی ظاہر کی۔مسلمان دانشوروں کے علمی کام کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس نے یونانی فلاسفہ کے کام کا بھی مطالعہ کیا ،جو عربی تراجم کے ذریعے اس زمانے میں قابلِ رسائی تھے۔ یہودی قانون پر اس کا اہم علمی کام عربی زبان میں ہے ،جس کے لیے اس نے عبرانی رسم الخط استعمال کیا اور ایک مذہبی دانش ور کی حیثیت سے اس نے مذہب اور طب کے اختلاط کی مخالفت کی ہے۔ قرونِ وسطیٰ کا وہ واحد دانش ور شخص تھا جس میں حقیقتاً چار تہذیبوں کا ملاپ نظر آتا ہے، یعنی یونانی رومی تہذیب، عرب تہذیب، یہودی تہذیب اور یورپی تہذیب۔

جب وہ دس سال کا تھا تو موحدین نے قرطبہ کو فتح کرلیا۔ انہوں نے شہر کے یہودی اور عیسائیوں کے سامنے تین مطالبات رکھے، مسلمان ہوجاوٴ، جلاوطنی اختیار کرو یا مرنے کے لیے تیار ہوجاوٴ۔ موسیٰ بن میمون کے خاندان نے جلاوطنی اختیار کی، بالآخر انہوں نے قاہرہ کے نزدیک سکونت اختیار کی۔جب خاندان کے حادثات نے انہیں تنگ دستی کی وادی میں دھکیلا تو اس نے طب کا پیشہ اختیار کیا۔

موسیٰ بن میمون نے عربی زبان میں دس معروف طبی کتابیں لکھی ہیں۔ اس نے بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ امراض کی کیفیتیں بشمول دمہ ، ذیابیطس ، ہیپاٹائٹس ، اور نمونیا بیان کی ہیں۔ اس نے اعتدال اور صحت مندانہ طرزِ زندگی پر زور دیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ایک طبیب کو کئی طریقوں سے ذی علم ہونا چاہیے۔ مرض اور مریض دونوں کا علاج کرنا چاہیے۔طبیب صرف مرض کا علاج نہ کرے، بلکہ جسم اور روح دونوں کی تن درستی کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو انسانی اور روحانی اقدار سے مزین کرے، جس میں سب سے نمایاں رحم دلی اور ترس ہے۔

اس کے تمام طبی علمی کام میں اکثر اس طرح کی للکار دکھائی دیتی ہے، جسے وہ جالینوس کی ”قیاسی اْپج“ قرار دیتا ہے، جب کوئی چیز اس کے تجربات کے خلاف ہو۔ اس کی تحریروں میں یہ خیال بھی ہے کہ طب میں ذاتی مشاہدہ و تجربہ کتابوں میں تحریری سند سے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ خیال کے باوجود اس کے شوق نے اْسے رومی(عیسائی) اطبا کے وسیع ادبی کام کی تلخیص پر آمادہ کیا، جو اس نے ایک چھوٹی سی کتاب میں کر دکھایا، جسے ایک طبیب جیب میں رکھ کر لے جا سکتا ہے۔ اگر چہ وہ تالمود(یہودیوں کی مذہبی کتاب) کا عالم تھا،جب امراض کی شناخت کا مرحلہ پیش آتا تو موسیٰ بن میمون کو ہم آج کل کی اصطلاح میں خالص ”طبیعی سائنس دان“ یعنی مشاہدہ پر سختی سے یقین رکھنے والا معالج کہہ سکتے ہیں۔ اس نے کوشش کی ہے کہ مذہب اور طب کو واضح طور پر الگ الگ کرے۔ اس وقت جب کہ جادو، توہم پرستی اور علمِ نجوم جیسی چیزیں طب کے شعبے میں دور دور تک رواج پاچکی تھیں، اس کی تحریروں میں ان چیزوں یا تالمود میں مندرج ادویات کا ذکر نہیں ملتا، البتہ جوچیز درست اور فائدہ مند ہے اسے موسیٰ بن میمون نے استدلال کے ساتھ پیش کیا۔

موسیٰ بن میمون فرد کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنی صحت کا خیال اس طریقے پر رکھے کہ بری عادتوں سے اجتناب کرے اور جب بیمار ہو تو بلا توقف علاج معالجہ کی تلاش میں توجہ کرے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”فرد کی توجہ اس کے بدن کی طبعی حرارت پر ہر چیز سے پہلے ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں سب سے بہتر (کارکردگی کے حوالے سے) معتدل جسمانی ورزش ہے، جو جسم اور روح دونوں کے لیے مفید ہے“۔ وہ اس زمانے میں معمر مریضوں کے لیے ورزش کا ایک روزانہ علاج بیان کرتا ہے، جو جدید طریقہ علاج کے زیادہ قریب ہے۔ اس نے مساج(مالش) کے فوائد بھی بیان کیے ہیں کہ یہ بدن کی قدرتی حرارت کو تحریک دیتا ہے، یہاں تک کہ بدن کو قدرتی انداز سے دوبارہ صحت سے مالا مال کردیتا ہے۔

اس نے سب سے پہلے مثبت سوچ کے طبی فوائد جان لیے تھے، جس نے بعد میں سائیکوسومیٹکس(جہاں جذباتی عوامل مرض پیدا کرتے ہیں) ادویات کی ابتدائی شکل اختیار کرلی۔ تعویذ یا جادو ٹونا اگرچہ اس کے عقلی تناظر کی دنیا میں قابل نفرت ہیں آیا مریض کی طبی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے غیر اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں؟ وہ لکھتا ہے کہ اگر یہ چیزیں مریض کی حالت کو بہتر کرتی ہیں تو انہیں برقرار رکھنا چاہیے تاکہ مریض کا ذہن اور زیادہ خلل کا شکار نہ ہوجائے۔

قلب کے سر بستہ راز
علاوٴ الدین ابو الحسن علی ابن حزم القرشی الدمشقی، جس کو مختصر طور پر ابن النفیس کے نام سے علمی دنیا میں جانا جاتا ہے، 1213ء کو دمشق میں پیدا ہوا۔ ایوبی دور میں، اسلامی دنیا کے علم و دانش کا مرکز قاہرہ قرار پایا۔ اپنی عمر کے ابتدائی بیس سالوں میں وہ قاہرہ منتقل ہوا اور بالآخر آٹھ سو بستروں پر مشتمل المنصوری ہاسپٹل کا سربراہ مقرر ہوا۔

انتیس سال کی عمر میں اس نے شرح تشریح القانون لکھی، جو ابن سینا کی القانون کے اناٹومی والے حصے کی تشریح ہے۔ اس کتاب میں علم تشریح (Anotomy) سے متعلق انکشافات کی ایک بڑی تعداد بشمول پھیپھڑوں کے دوران خون کے متعلق ابتدائی تشریح کا بیان موجود ہے۔

ابن النفیس نے یہاں تک وضاحت کی ہے کہ دل کے دونوں بطون(خانوں) کی درمیانی دیوار مضبوط ہے اور بغیر سوراخ کے ہے، اسی طرح اس نے جالینوس کے اس قدیم نظریے کو غلط قرار دیا ہے کہ خون دل کے دائیں حصے سے بائیں حصے کو بلا واسطہ گزر کر جاتا ہے۔ ابن النفیس درست طور پر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خون کو دائیں بطن سے گزر کر پھیپھڑوں میں داخل ہونا چاہیے، جہاں اس کے ہلکے اجزا پھیپھڑوں کی ورید میں سرایت کرجاتے ہیں، تاکہ اس کے ساتھ ہوا(آکسیجن) مل جائے، پھر بائیں جوف میں داخل ہو جاتا ہے اور آخر کار پورے جسم میں چلا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کوئی اس قابل ہوا کہ وہ یہ بتائے کہ کس طرح ہوا (آکسیجن) خون کے ساتھ ملاپ کرتا ہے۔

ابن النفیس نے شعری دوران خون کی موجودگی کی طرف بھی اشارہ کیا، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ ”پھیپھڑوں کی شریان اور ورید کے مابین چھوٹے سوراخ یا راستے (منافذ) ہیں“۔ اگر چہ پھیپھڑوں سے متعلق دوران خون کا نظریہ محدود تھا ،لیکن چار سو سال بعد مارسلو مالپیگی (Marcello Malpighi) نے پورے بدن میں شعری دوران خون کا فعل بیان کرکے ثابت کیا۔چودھویں صدی تک ابن النفیس کا یہ انکشاف ضائع ہو چکا تھا اور 1924ء تک اس کا کچھ پتہ نہیں تھا، لیکن جب مصری طبیب محی الدین التطاوی نے برلن کی پروشین سٹیٹ لائبریری میں شرح تشریح القانون کا ایک نسخہ معلوم کیا جس سے ابن النفیس کی دریافت کا صحیح اندازہ لگایا گیا، جس سے چار سو سال بعد یہ بھی واضح ہوا کہ یہ ولیم ہاروے(William Harvey) نہیں، بلکہ ابن النفیس ہی تھا جس نے دورانِ خون کا نظام دریافت کیا تھا۔

بدقسمتی سے ابن النفیس کا بیجا طور پر گمنامی میں رہنا کوئی انوکھی یا غیر معمولی بات نہیں۔ قرونِ وسطیٰ کی صدیوں میں ہزاروں مسلم طبیبوں نے، چاہے وہ معمولی طبیب ہوں یا غیر معمولی قابلیت کے حامل، زیادہ تر میڈیکل سائنس کے مراکز سے باہر کام کیا اور رہائش اختیار کی۔ ان طبیبوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر علمی اور تحقیقی کام کیا، کچھ عیسائی اور یہودی دانش وروں پر مشتمل چھوٹی جماعتوں نے بھی ذہنی مشقت کی، تاکہ آنے والے دور کے تقاضے پورے ہوسکیں، مترجمین اور علمی تحقیق پھیلانے والوں کا کردار کہ ان کے مسلمان پیش رووٴں نے بغداد میں المامون کی گنجائش کو پورا کیا ہے۔ بہت سے طبیب غیر مستقل طور پر کسی جگہ رہے یامتنوع ثقافتوں/ نسلوں پر مشتمل ملک ہسپانیہ جہاں طلیطلہ، بارسلونا اور Segovia نقل مکانی کرتے رہے، جس نے ان کی مدد کی۔ دوسرے طبیب فرانس، اٹلی اور سسلی کے شہروں میں جمع ہوئے، جو اسلامی دنیا کے قریب تھے۔ یہ مسلم طبیب ثقافتی واسطہ بھی ثابت ہوئے کہ مغرب کو ایک ہزار سالہ قدیم علم و دانش کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور قیمتی علمی ورثہ بھی عطا کیا، جس نے آج کی مغربی طب (جدید میڈیکل سائنس) کی بنیاد رکھی۔

یہ سب وہ طبیب ہیں جنہوں نے مسلم دنیا میں قیمتی علمی ورثہ اور تدابیردریافت کیں اور مزید یہ کہ انسانی جسم اور دماغ کی لاینحل معمے حل کیے۔ انہوں نے ہسپتال، سرجری اور علم ادویہ کے شعبوں کی بنیاد رکھی۔ سرجیکل آلات ایجاد کیے اور ایسے عملی طریقے استعمال میں لائے جن کی بنیاد ذاتی تجربے پر تھی، تاکہ مفروضات/ نظریات کی جانچ پرکھ کرسکیں۔ انہوں نے مذہب اور طب کو جدا جدا خانوں میں رکھا اور عورتوں کے لیے طب کا دروازہ کھول دیا۔ شخصی صحت، خوراک اور حفظانِ صحت کے متعلق ان کے اکثر اصول آج بھی درست تسلیم کیے جاتے ہیں۔ شاید ان اصولوں میں سب سے زیادہ اہم اصول ان کا یورپی معا لجین کو یہ سبق دینا ہے کہ بیماری صرف صحت کے صحیح راستے سے انحراف کا نام ہے اور دوا کا کام بیماری کا علاج ہے۔

اگر ان میں سے کچھ اصول ہمیں بہت ہی آسان اور واضح دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی نے گزشتہ کل کی ایجاد کو آج کی معلومات کا علم بنا دیا ہے۔




No comments:

Post a Comment