Monday, 26 March 2012

اسلامی جہاد کی حقیقت اور فضائل جہاد پر چہل حدیث




جہاد کے آداب:
القرآن:
اور ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.
[سورة البقرة، آیت نمبر 190]

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِزْرِ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً وَلَا تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ " .

[سنن أبي داود » كِتَاب الْجِهَاد » بَاب فِي دُعَاءِ الْمُشْرِكِينَ ... رقم الحديث: 2250]
حضرت انس بن مالک ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مجاہدین کو بھیجتے وقت) فرمایا: روانہ ہو جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی تائید و توفیق کے ساتھ اور آپ ﷺ کے دین پر۔ (دیکھو) قتل نہ کرنا بوڑھے آدمی کو نہ چھوٹے بچے کو اور نہ عورت کو اور تم مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا بلکہ مال غنیمت کو جمع کرنا اور اپنے احوال کی اصلاح کرنا اور بھلائی کرنا۔ بیشک اللہ نیکی اور بھلائی کرنیوالوں کو پسند فرماتا ہے۔ 
Narrated Anas ibn Malik: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Go in Allah's name, trusting in Allah, and adhering to the religion of Allah's Apostle. Do not kill a decrepit old man, o a young infant, or a child, or a woman; do not be dishonest about booty, but collect your spoils, do right and act well, for Allah loves those who do well.


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا ولا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكسنن أبي داود22502614أبو داود السجستاني275
2لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا ولا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكالسنن الكبرى للبيهقي166989 : 89البيهقي458
3انطلقوا بسم الله وبالله وعلى سنة رسول الله قاتلوا أعداء الله في سبيل الله قتلاكم أحياء مرزقون في الجنان وقتلاهم في سبيل الله لا تقتلن شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكمعرفة السنن والآثار للبيهقي47585419البيهقي458
4لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلواأنس بن مالكمصنف ابن أبي شيبة3241633664ابن ابي شيبة235
5لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكفوائد تمام الرازي190200تمام بن محمد الرازي414
6انطلقوا بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا ولا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكالتمهيد لابن عبد البر461724 : 233ابن عبد البر القرطبي463
7لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلواأنس بن مالكالاستذكار516---ابن عبد البر القرطبي463
8انطلقوا بسم الله وفي سبيل الله تقاتلون أعداء الله في سبيل الله لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلواأنس بن مالكتهذيب الكمال للمزي718---يوسف المزي742


































۔۔۔اور اس (قرآن) کے ذریعے ان(منکروں) کے خلاف پوری قوت سے جہاد کرو۔
[سورۃ الفرقان، آیت نمبر 52]

یعنی پیغام عام اور تام تبلیغ کیجئے ، یعنی سب سے کہئے ، اور بار بار کہیئے ، ملامت کرنے والوں کی پرواہ نہ کیجئے، اور ہمت مضبوط رکھیئے ، جیسا کہ اب تک آپ کرتے رہے ہیں۔

قرآن کے ذریعہ مخالفینِ اسلام سے جہاد کرو بڑا جہاد، قرآن کے ذریعہ اس جہاد کا حاصل اس کے احکام کی تبلیغ اور خلق خدا کو اس کی طرف توجہ دینے کی ہر کوشش ہے خواہ زبان سے ہو یا قلم سے دوسرے طریقوں سے اس سب کو یہاں جہاد کبیر فرمایا ہے۔

بےلغام لوگ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ ان کی آزادی میں فرق نہ پڑنے پائے، اور آپ تبلیغ کے کام میں سست پڑجائیں۔ حق(اللہ) کے کلمہ(بات) کو بلند کرنے اور دعوتِ دین چھوڑنے کے بارے میں بےلغام لوگوں کی رعایت واطاعت حرام ہے، اور اعلانِ قرآن وتبلیغ بالقرآن میں انتہائی جدوجہد واجب ہے۔

اسلام کا قانونِ جنگ امن وعافیت کا ضامن


اسلام کا قانونِ جنگ جسے اصطلاح شرع میں ”جہاد فی سبیل اللہ “ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، کچھ تو خود ہماری بداطواریوں، اوجھی ونامناسب حرکات وسکنات، اور ہوش سے زیادہ جوش وجذباتیت کے اظہار ،دوسری جانب اعداء اسلام کی سازشوں ،افواہوں اور غلط پروپیگنڈوں اور ان کی جانب سے اس کی غلط توضیح وتشریح، اس کے حقیقی مفہوم کو پردہٴ خفامیں رکھنے کی وجہ سے، معاشرہ کی اصلاح، امنِ عامہ کے قیام اور سماج سے ظلم وسفاکیت اور فسادوبگاڑ کے دور کرنے میں اس کا حقیقی اور بامعنی کردار نگاہوں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔
          ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈے کے اس دور میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف ذرائع تشہیر کے ذریعے اسلامی احکام وتعلیمات کے روشن اور تابناک پہلووٴں کا اظہار کرتا رہے، تاکہ رفتار زمانہ اور خود مسلمانوں کی غفلت اور نادانی کے نتیجے میں ، اسلامی تعلیمات کی خوبیوں پر گردوغبار کی جو دبیز تہہ جم چکی ہے اس کی صفائی ہو، اور اسلامی تعلیمات کا حقیقی روشن وتابناک چہرہ لوگوں کے سامنے آئے، جس کا ایک نقد فائدہ تو یہ ہوگا کہ اغیار واجانب کی غلط فہمیوں پر مبنی نظریات وتصورات کا خاتمہ ہوگا، دوسری جانب ان کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی راہیں کھلیں گی، یہ تحریر اسی تناظر میں ضبطِ تحریر میں لائی جارہی ہے کہ اسلامی قانونِ جنگ کے مختلف محاسن سامنے آئیں، اور غلط وباطل نظریات ومفروضات کا ازالہ ہو، اگرچہ مذہب اسلام سراپا خیر ورحمت ہے؛ لیکن مطلب پرستوں ،نفسانیت کے پجاریوں اور عدل وانصاف کے قاتلوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ حذف واضافہ اور ردوبدل کے ذریعے کسی بھی عبادت کے حقیقی مفہوم کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کرکے اس سے اپنا معنی ومطلوب کشید کرلیں، جس میں وہ ماہر ہوتے ہیں۔
          چونکہ اس وقت اسلام کا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے ، وہ تعصب اور جانب داری کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے عمدا اور باتکلف اسلام کے قانون جنگ کو دوسرا رنگ وآہنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی صاف وروشن چہرہ لوگوں کے سامنے ہوگا تو اس سے ان کی چودھراہٹ اور سرداری خطرہ کی زد میں آجائے گی؛ اس لیے یہ لوگ مختلف عنوانات سے اسلام کے چمکدار اور تابناک اور بلندوبالا سور ج پر تھوکنے کی احمقانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔
جنگ علی الاطلاق ممنوع نہیں
          اللہ عزوجل نے انسان کو مجموعہٴ اضداد بنایا ہے ، خیر وشر دونوں پہلو انسانی طبیعت میں ودیعت کیے ہیں ، انسان میں خیر کا پہلواسے نیکی اور بھلائی پر ابھارتا ہے ، جب کہ شر کا پہلو اسے آمادہٴ معصیت اور ظلم وستم کرتا ہے؛ اس لیے روزِ اول ہی سے اللہ عزوجل کا یہ قانون رہا ہے کہ وہ مختلف قوموں کو آمادہٴ پیکار کیے رہتے ہیں؛ تاکہ اس طرح نیکی اور بھلائی کا پلڑا بھاری ہوجائے ، سچائی وصداقت کی حقانیت آشکارا اور برائی کی قباحت وشناعت بھی عیاں ہوجائے ۔
          چنانچہ دنیا میں حق وصداقت کے غلبہ اور برتری اور شر وفساد کے خاتمہ کے لیے مختلف قوموں کے درمیان آویزش وٹکراوٴ کے اپنے اسی ازلی قانون وروایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا : ”جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ گھٹواتا رہتا تونصارےٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے بے شک اللہ تعالی اس کی مدد کرے گا جو (اللہ کے دین)کی مدد کرے گا ،بے شک اللہ تعالی قوت والا ،غلبہ والا ہے وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے“۔ مذکورہ بالا آیت میں مسلمانوں کو جو قتال کی اجازت دی گئی ہے وہ نہایت ہی ناگزیر حالت میں ہے ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو یہ جنگ کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد وبگاڑ کریں ؛ بلکہ اس جنگ کی اجازت کا مقصد یہ ہے کہ وہ جملہ مذاہب کی آزادی کو قائم رکھیں ، بد امنی اور انارکی کا خاتمہ کریں ، پارسیوں ، عیسائیوں ، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی مساجد کو ہر طرح کے نقصانات اور گزند سے مامون ومحفوظ رکھیں۔مطلب یہ ہے کہ یہ قتال اور جہاد کا حکم کوئی نیا حکم نہیں۔ پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کو بھی قتال کفار کے احکام دیے گئے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی مذہب اور دین کی خیر نہ تھی سارے ہی دین و مذہب اور ان کی عبادت گاہیں مسمار کردی جاتیں۔
اسلام میں جہاد کا حقیقی مفہوم
          جہاد سے متعلق سب سے پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ اس لفظ کو ”جنگ “ کے معنی میں لیا جاتا ہے اور اسے عربی لفظ ”حرب “ کے مرادف باور کیا جاتا ہے جو تباہی وبربادی کے معنی میں آتا ہے (المعجم الوسیط : ۱۴۶) یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے کہیں بھی اپنے اسلامی نظریہٴ جنگ کے لیے لفظ ”حرب “ کا استعمال نہیں کیا ہے ، قابلِ التفات امر یہ ہے کہ جس ملت ومذہب ہی کے نام میں امن وعافیت کا مفہوم شامل ہو وہ کیوں کر بے جا کُشت وخون اور فساد وبگاڑ کی دعوت دے سکتا ہے ؛ بلکہ؛ دین دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ اس قسم کی ظلم وفسادپر مشتمل جنگوں کا خاتمہ کرے اور امن وامان اور عدل و مساوات پر قائم ایک ایسا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرے کہ دورانِ جنگ بھی کسی کی حق تلفی یا اس پر ظلم وستم جائز نہ ہو ۔چنانچہ مذکورہ بالا لغت میں لفظ”جہاد “ کی تشریح یوں کی گئی ہے ”قتال من لیس لھم ذمة من الکفار“ غیر ذمیوں سے قتال (المعجم الوسیط)
اسلامی جنگ کا مقصود فتنہ وفساد کا خاتمہ
           اسلام میں جنگ ایک نہایت شریف عمل ہے ؛ لہٰذا ہمیں اس کے متعلق کسی طرح کے بھید بھاوٴ یا معذرت خواہانہ رویہ کے اختیار کرنے کر نے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے، اس کے بعد یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ، اس کی تعلیمات دیگر مذاہب کی طرح محض چند رسوم وعقائد کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ انسان کا خود ساختہ اپنے ہاتھوں بنایا ہوا قانون ودستور ہے ؛ بلکہ خالقِ کائنات کا نازل کردہ نظامِ حیات ہے، جس میں ہر شعبہٴ زندگی کے متعلق انسانیت کے لیے رہنمایا نہ اصول بتلائے گئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو ہر شخص اپنا سکتا ہے، کوئی بھی شخص ان اصول کو اپنا کر اس کے دامنِ رحمت وعافیت میں جگہ پاسکتا ہے ”اسلامی نظامِ جنگ “ ”جہاد“ یا اس جیسی نقل وحرکت کا مقصود بھی یہی ہے کہ فطرتِ انسانی سے موزون اعتدال پر مبنی ان تعلیمات کا ہرسمت بول بالا ہو ، روئے زمین سے ناانصافی ، بد امنی ، ظلم وجبر اور شروفساد کا خاتمہ ہو اور ہر شخص آزادی کے ساتھ اس خدائی نظام کے تحت امن وسکون کے ساتھ زندگی گزار سکے ، اشاعتِ اسلام کا ہرگز یہ مقصود نہیں کہ لوگوں کومجبور کرکے اسلام میں داخل کیا جائے ، ارشاد خداوندی ہے ”لّا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ“دین میں زور زبردستی نہیں، اگر کوئی شخص جزیہ کی مشروعیت پر غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اسلامی جنگ کا مقصود اسلام کا غلبہ ہے خواہ وہ مخالف کے اسلام لانے سے ہو یا رعیت بن کر رہنا منظور کرنے سے ؛ چوں کہ جزیہ دے کر اسلامی سلطنت میں رہنا بھی در اصل اسلامی قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہے ، جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تو فتنہ وفساد کے امکانات بھی ختم ہوچکے ؛ لہٰذا اب جنگ بھی موقوف کردی جائے گی ، اب اس ذمی شخص کو اسلامی سلطنت میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں ، اسی کوآیت کریمہ میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فسادنہ رہے اور دین (غلبہ)اللہ ہی کا ہوجاوے ۔ اور اگر وہ لوگ (فساد سے)بازآجاویں تو سختی کسی پر نہیں ہواکرتی بجز بے انصافی کرنے والوں کے“(البقرة :۱۹۳) اس آیتِ کریمہ میں جنگ بندی کی انتہا فتنہ وفساد کا خاتمہ بتایا گیا ہے ۔
          دورِ رسالت کی غزوات وسرایا کی مجموعی تعداد۸۲ ہے، اگران لڑائیوں کو جارحانہ اور اقدامی تسلیم کیا جائے تو بھی ان میں مقتولین کی مجموعی تعداد (۱۰۱۸) ہے اور (۸۲) پر ان کو تقسیم کرنے سے فی جنگ 12.414اوسط نکلتا ہے ، قیدیوں کی مجموعی تعداد (۶۵۶۴) ہے جو جزیرہ نما عرب کی وسعت کے مقابلہ میں ہیچ ہے اور چوں کہ ان کی تعدادکے اندر بڑی تعداد (۶۰۰۰) ایک ہی غزوہ حنین کی ہے (جوکہ بعد میں تمام آزاد کردیے گئے ) اس لیے باقی جنگوں میں اسیرانِ جنگ کا اوسط (۷) رہتا ہے ۔اس کے بالمقابل زمانہٴ گزشتہ کی دو عظیم جنگیں اور ان کی ہلاکت خیزیوں اور تباہیوں کا اندازہ لگائے جو صرف چھوٹی سلطنوں کو آزاد کرانے کی غرض سے لڑی گئی تھیں، مقتولین ، مجروحین کی تعداد ساٹھ ستر لاکھ سے متجاوز ہے ، اہلِ دنیا کی لڑائیوں کا ذکر چھوڑو، مقدسین کی لڑائیاں لو ، مہابھارت کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم نہیں،یورپ کی مقدس مذہبی انجمنوں نے جس قدر نفوس ہلاک کیے ان کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے (تمام اعداد شمار کے لیے ملاحظہ ہو : رحمة للعالمین : ۲/۴۶۴)
          جزیہ کی ادائیگی کوبھی جو کہ در اصل اسلامی تعلیمات کی بالادستی اور روئے زمین پر فتنہ وفساد مچانے سے رکنے کا اعتراف اور عہد ہوتا ہے اس کو بھی جنگ بندی کی انتہا بتلایاگیا ہے ۔اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :”اہلِ کتاب جوکہ نہ خدا پر (پورا پورا)ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام بتلایا ہے اور نہ سچے دین (اسلام)کو قبول کرتے ہیں، ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہوکر اور رعیت بنکر جزیہ دینا منظور کریں “(التوبة : ۲۹)جزیہ کہتے ہیں اس مال کو جو اسلامی سلطنت کے ما تحت رہنے والے غیر مسلموں سے ان کی جان مال ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے لیا جاتا ہے اور بالکل معمولی رقم ہوتی ہے ، جزیہ کی یہ رقم ادا کرنے والے یہ لوگ ذمی کہلاتے ہیں اور ان کے اسلامی سلطنت کے باشندے ہونے کی حیثیت سے ان کے جان ومال ، عزت وآبرو کی حفاظت اسلامی حکومت کے ذمہ ہوتی ہے ، ان کے مذہبی امور میں مداخلت کو اسلام منع کرتا ہے ، پھر اس میں بچے ، بوڑھے ، عورتیں اور معذورین سے جزیہ نہیں لیا جاتا ، اسی طرح مکاتب ، مدبر ، ام الولد پر بھی جزیہ نہیں ہوتا ، مذہبی پیشواجو گوشہ نشیں ہوں ان سے بھی جزیہ نہیں لیا جا تا۔(اصح السیر: ۴۷۴)
دورانِ جنگ بے قصور لوگوں سے تعرض کی ممانعت
          اسلامی قانونِ جنگ کا ایک حسین اور خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے دورانِ جنگ بے قصور ، نہتے اور کمزور لوگوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کی ہے ، عملاً جن لوگوں نے جنگ میں حصہ لیا ہے یا جنھوں نے مشوروں اور خدمات کے ذریعے ان کو مدد بہم پہنچائی ہے، یہی لوگ قتل کے مستحق ہوں گے ، بقیہ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور خلوت نشیں عابدوں ، زاہدوں سے ہرگز تعرض نہ کیا جاتا ، دورانِ جنگ بے قصور لوگوں کے قتل کو تو رہنے دیجیے ، اسلام نے سرسبز وشاداب کھیتوں ، پھل دار درختوں اورباغات کو بھی نقصان پہنچانے سے روکا ہے ، ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ نے فرمایا : کمزوربوڑھوں ، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے (ابوداوٴد:باب دعوة المشرکین إلی الإسلام : حدیث:۸۴۹)اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو جو ملکِ شام ایک مہم کے لیے روانہ ہوا تھا،انھیں اس قسم کی ہدایات دی تھیں کہ وہ بچوں کو قتل نہ کریں ، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں، کسی ضعیف بوڑھے کو نہ ماریں ، کوئی پھلدار درخت نہ کاٹیں، کسی باغ کو نہ جلائیں ( موٴطامالک : ۱۶۸)
          یہ بات پیشِ نظر رہے کہ عہدِ نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں کہیں بھی کسی آبادی کو نرغے میں لیاہے وہاں کی ساری آبادی اور قبیلے کے سارے لوگ بنفس نفیس اور عملاً جنگ میں شریک تھے ؛ البتہ عہدِ صحابہ میں عموماً مسلمانوں کا مقابلہ وہاں کی آبادی سے نہیں ؛ بلکہ حکومت کے منظم فوجیوں سے ہوا ہے ؛ اس لیے مجاہدین نے اس ملک میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد وہاں کی عوامی املاک یا وہاں کے باشندوں کے مال وجان پر کسی طرح کی دست درازی نہیں کی ہے ؛ بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور رواداری اور انصاف پر مبنی طرزِ عمل کو دیکھ کر کئی موقعوں پر اپنے ہم مذہب عیسائیوں اور پارسیوں کے خلاف ہی جاسوسی ، خبر رسانی اور رسد بہم پہنچانے اور اس قسم کی مختلف طرح سے امداد کی ہے، یہی وجہ تھی کہ جنگِ یرموک پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا: ”جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے“ ، عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا : ” خدا کی قسم ! تم رومیوں کے بہ نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو “ (الفاروق : ۲/ ۱۲۰)غور طلب امر یہ ہے کہ اگر اسلامی جنگ کا مقصود کشیدگی اور بد امنی اور انارکی کا ازالہ اور وہاں عدل وانصاف پر مبنی طرزِ حکومت کا قیام نہ ہوتا تو وہاں کے مقامی باشندے اپنے ہم مذہب پیشواوٴں کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ کیوں دیتے ؟ اور ان کے ساتھ اس جذباتی محبت وعقیدت کا اظہار کیوں کرتے ؟
معاہدے کی پاسداری کی تاکید
          اسلام نے حالتِ جنگ میں جن چیزوں کی سخت تاکید ہے ، ان میں سے ایک عہد کی پاسداری بھی ہے؛ بلکہ عام حالات میں بھی وفائے عہد کو ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کا لازمہ اور خاصہ قرار دیا گیا ہے ، ایک ایمان والے کے شایانِ شان نہیں کہ وہ وعدہ خلافی یا عہد شکنی کرے ، بدعہدی یہ تو منافق کا شیوہ ہوتا ہے (ریاض الصالحین : ۲۹۳)عہد وپیمان کے پاس ولحاظ کی تاکید کر تے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا : ”معاہدے کی پاسداری کرو؛کیوں کہ اس کے تعلق سے بازپرس ہوگی “ عام حالات میں پابندیِ عہد کا اس قدر سختی کے ساتھ اسلام مطالبہ کرتا ہے ،ظاہر ہے کہ جنگ کی حالت میں اس کی اہمیت مزید دوچند ہوجاتی ہے؛ اس لیے خصوصاً دورانِ جنگ یہ تاکید کی گئی ہے کہ دشمن خواہ بدعہدی کیوں نہ کرے ،مسلمانوں کے لیے ہرگز یہ اجازت نہیں کہ قبل از اطلاع ان کی جانب پیش قدمی کریں یا بغیر انقطاع عہد کی اطلاع کے ان پر چڑھ دوڑیں؛ بلکہ ان کی جانب سے عہد شکنی کے باوجود بھی مسلمانوں کے لیے یہ ضروری قراردیا گیا ہے کہ وہ پہلے صاف اور صریح الفاظ میں معاہدہ کے خاتمہ کا اعلان کردیں ، پھر اس کے بعد ہی وہ جنگی کارروائی کر سکتے ہیں، ارشاد خداوندی ہے : ”اور اگر تجھ کو ڈر ہو کسی قسم سے دغا کا تو پھینک دے ان کا عہد ان کی طرف ایسی طرح پر کہ ہو جا تم اور وہ برابر، بیشک اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز۔“ (الانفال :۵۸)اس آیت کریمہ میں قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی گئی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف سے خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں؛ لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو صاف طور پر ختم کر دینے سے پہلے ہم ان کے خلاف کوئی اقدام کریں؛ بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو اطمینان و فرصت کی حالت میں اس سے آگاہ کر دیا جائے کہ تمہاری بدنیتی یا خلاف ورزی ہم پر ظاہر ہوچکی ہے، یا یہ کہ تمہارے معاملات مشتبہ نظر آتے ہیں؛ اس لیے ہم آئندہ اس معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے تم کو بھی ہر طرح اختیار ہے کہ ہمارے خلاف جو کارروائی چاہو کرو!۔
          اس سلسلہ کا ایک دلچسپ اور مشہور واقعہ جس کا ذکر مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی نے کیا ہے: حضرت معاویہ کا ایک قوم کے ساتھ ایک میعاد کے لیے التوائے جنگ کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ نے ارادہ فرمایا کہ اس معاہدہ کے ایام میں اپنا لشکر اور سامان جنگ اس قوم کے قریب پہنچا دیں؛ تاکہ معاہدہ کی میعاد ختم ہوتے ہی وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں؛ مگر عین اس وقت جب حضرت معاویہ ص کا لشکر اس طرف روانہ ہو رہا تھا یہ دیکھا گیا کہ ایک معمر آدمی گھوڑے پر سوار بڑے زور سے یہ نعرہ لگا رہاہے: اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وفاءً لا غدرًا ۔ یعنی نعرہ تکبیر کے ساتھ یہ کہا کہ ہم کو معاہدہ پورا کرنا چاہیے اس کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم سے کوئی صلح یا ترکِ جنگ کا معاہدہ ہوجائے تو چاہیے کہ ان کے خلاف نہ کوئی گرہ کھولیں اور نہ باندھیں۔ حضرت معاویہ کو اس کی خبر کی گئی ۔ دیکھا تو یہ کہنے والے بزرگ حضرت عمرو بن عنبسہ صحابی تھے ۔ حضرت معاویہ نے فوراً اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا تاکہ التوائے جنگ کی میعاد میں لشکر کشی پر اقدام کرکے خیانت میں داخل نہ ہو جائیں (معارف القرآن : ۴/۲۷۰)۔
اسیرانِ جنگ کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ
          دنیا میں جتنی قومیں اور سلطنتیں گزری ہیں، وہ اسیرانِ جنگ کے ساتھ نہایت ہی وحشیانہ اور بہیمانہ سلوک کرتے تھے ، موجودہ یورپین حملہ آور اقوام کا جنگی قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک ان کے اسیرانِ جنگ کے ساتھ سلوک کے حوالے سے شاہدِ عدل ہیں ، گوانتاموبے اور ابوغریب کی بدنامِ زمانہ جیل اور وہاں کی انسانیت سوز اور حیا باختہ انواعِ تعذیب وعقوبت کو دیکھ کر ہر شخص تلملا اٹھا، اس کے ساتھ اسلام کا اسیرانِ جنگ کے ساتھ حسنِ سلوک بھی مشاہد ہ کرتے چلئے :
           جنگ بدر کے بہتر ( ۷۲) قیدیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر ( ۷۰) قیدیوں کو جرمانہ لے کر آزاد فرمادیا تھا، ان قیدیوں کو دورانِ اسارت مہمانوں کی طرح رکھا گیا ، اہلِ مدینہ نے ان کے ساتھ نہایت ہی اچھا برتاوٴ کیا ، اپنے بچوں سے بڑھ کر ان کی خاطر مدارت کی․․․․․ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کے قیدیوں کی بندس کے تنگ ہونے کی وجہ سے کراہنے کی آوازیں سنائی دی، آنحضرت اکو ان کی اس تکلیف کی وجہ سے ساری رات نیند نہ آئی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے حکم سے تمام قیدیوں کی بندش ڈھیلی کی گئی، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت ہوئی ، بدر کے تما م قیدیوں میں سے صرف دو شخص ( عقبہ بن مُعَیط اور نضر بن حارث ان کے بھیانک جرائم کی وجہ سے) قتل کر دیے گئے۔ جنگ بدر کے بعد غزوئہ بنی مصطلق میں بھی (۱۰۰) سے زیادہ مرد وزن قید ہوئے، آپ نے ان سب کو بلاکسی شرط اور جرمانہ کے آزاد کردیا۔جنگ حنین کے موقع سے بھی چھ ہزار مردوزن قیدیوں کو بلا کسی شرط ومعاوضہ کے آزاد فرمادیا ؛ بلکہ بعض اسیروں کی آزادی کا معاوضہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اسیر کنندگان کو خود ادا کیا ، پھر اکثر اسیروں کو خلعت اور انعام سے نواز کر رخصت کیا ۔ان جملہ نظائر سے اسلام کے حملہ آور دشمنوں اور قابویافتہ قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحم وکرم کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
          آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ خلفائے راشدین کے عہد میں جب کہ عراق ، مصر ، شام ، ایران اور خراسان، جیسے بڑے اور متمدن علاقے فتح ہوئے ؛ لیکن کسی بھی جگہ حملہ آور یا جنگ آزما رعایا میں سے کسی کو لونڈی ، غلام بنانے کا ذکر نہیں ملتا ؛ بلکہ مغلوب دشمن سے تاوانِ جنگ لینے کا ذکر بھی درج نہیں ہے (رحمة للعالمین : ۱/۲۱۲)
          مذکور ہ بالا تحریر کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا قانونِ جنگ امن وعافیت کا ضامن ہے ، سسکتی ، بلکتی اور تڑپتی انسانیت کو اگر کوئی جائے پناہ اور موقع نجات مل سکتا ہے تو اسلامی تعلیمات کے زیرِ اثر ، ورنہ یہ خوف او راندیشوں کے سائے انسانیت کا یوں ہی پیچھا کرتے رہیں گے ۔






خودساختہ امن کا محافظ ہی - اصل دہشت گرد




آج کا دور بین الاقوامیت، حقوق انسانی، امن وآشتی اور مساوات و رواداری کے جھوٹے پروپیگنڈے کا دور ہے، پوری دنیا میں امن و شانتی اور تحفظ حقوق کا واویلا مچا ہوا ہے۔ اور بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طرح طرح کے قوانین کو نافذ کیا جارہا ہے۔ دور جدید میں دوطاقتیں یعنی ”یہودیت اور عیسائیت“ اقوام عالم کو عام طور پر اور اہل اسلام کو خاص طور پر مغلوب اور زیرنگیں کرنے کے لیے عصر حاضر کے تمام بین الاقوامی ذرائع ووسائل پر اپنا کنٹرول کرکے مسلمان اور اسلام کے خلاف ان کواستعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ شرافت واخلاق، انسانیت نوازی انسان پروری، حقوق آزادی، مساوات ورواداری اور مذہب وعقیدہ کے تمام قوانین وضوابط سے بے پرواہ ہوکر اہل اسلام کے خلاف کمربستہ ہوگئے ہیں۔ تمام دلدوز وہیبت ناک طریقے کو بروئے کار لاکر اپنی فرعونیت کا علم بلند کرنے کے لیے انسانیت کو تہہ تیغ کررہی ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ دین اسلام کے ماننے والوں کی صاف وشفاف شبیہ کو پراگندہ کرنے کے لیے تمام علم وخبر کے بین الاقوامی ذرائع یعنی میڈیا خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا۔ ٹی وی چینلز ہوں یا کہ انٹرنیٹ ، ان تمام ذرائع ترسیل کو اسلام کے خلاف بڑی بے باکی سے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام کے خلاف افواہیں پھیلانا اور اس کے ماننے والوں کو فتنہ وفساد اور بدامنی کا خوگر اور دہشت گرد کہنا یہ مغرب کا شیوہ بن چکا ہے۔

عصر حاضر میں مغرب اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے تمام ممالک صرف ایک ہی راگ الاپتے ہیں اور مغرب کی گندی سرسے سر ملاتے ہیں کہ مسلمان کائنات انسانی کے لیے روز بروز ایک بہت بڑا خطرہ بنتا چلا جارہا ہے۔ صفحہ ہستی سے اس کو مٹانا اپنا نصب العین ہونا چاہیے۔ اسلام ایک شدت پسند مذہب وعقیدہ ہے۔ اس مذہب کے ماننے والے فرد وجماعت، ملک وقوم میں دہشت گردی وشدت پسندی کو پھیلاتے ہیں۔ اور ان کی مقدس کتاب قرآن کریم میں غیر اقوام وملل کو قتل وغلام بنانے کی بھرپور تعلیمات موجود ہیں۔ اس کتاب کے اندر ظلم وتشدد بھڑکانے جبر و قہر ڈھانے والے ضابطہ بھرے پڑے ہیں۔ اور نہ ہی اسلام کے اندر اخوت وبھائی چارگی حقوق انسانی، آزادی فکر، مذہبی آزادی، حریت و آزادی مساوات، رواداری اور عدل وانصاف کا کوئی تصور موجود ہے۔ اور نہ ہی اسلام کے پاس جدید دنیا سے ہم آہنگ کوئی ضابطہ زندگی اور طرز معاشرت موجود ہے بلکہ یہ ایک سخت گیر، شدت پسند اور دہشت گرد مذہب ہے۔

یورپ نے ایک ایسی اصطلاح کو اسلام کے خلاف اپنے گندے پیٹ سے جنم دیا ہے جس کا نام ”دہشت گردی“ ہے۔ اور یہ لفظ اردو زبان میں ”دہشت گردی“ ہندی زبان میں ”آتنک واد“ اور انگریزی میں "Terrorism" جو Terrors سے بنا ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ جب بھی لفظ یا اصطلاح کا تکرار مسلسل کانوں کی خوراک بن جائے تو وہ لفظ ذہن ودل میں ایک تصویر بنالیتا ہے۔ یہی حال ہم لفظ دہشت گردی، شدت پسندی، انتہا پسندی، بنیادپرستی، کٹر پنتھی کا دیکھ رہے ہیں کہ فرد وجماعت ہو، ملک وقوم کے بچے، جوان، بوڑھے ہوں، تعلیم یافتہ ہوں یا غیرتعلیم یافتہ، ہر ایک کے دل ودماغ میں یہ تمام الفاظ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوگئے ہیں۔ ان الفاظ کو مغرب نے بین الاقوامی ذرائع و وسائل کے ذریعہ اتنی زیادہ ترویج واشاعت کی کہ پوری دنیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کا آتش فشاں بن گئی ہے اور لوگ مغرب کے اس جھوٹ کو بھی سچ کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں اور اہل مغرب اسلام کی حق وصداقت پر اس طرح کی نقاب پوشی کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا اس کے بارے میں سوچنا باعث گناہ سمجھے۔ جبکہ نام نہاد امن وآشتی کے اس ڈھنڈھنڈورچی کاکردار اس باب میں انتہائی شرمناک ہے۔

اس موقع پرامریکی تاریخ پر ایک سرسری اور طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے چلیں جس سے ہمیں آج کی انسانیت اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے مسیحا کی تاریخ کو سمجھنے کا پورا اندازہ ہوجائے گا۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تاریخ کو ایسے دلدوز وہیبت ناک مناظر دیکھنے کو ملے جن کی تاریخ کو رقم کرنے میں امریکہ کا اہم کردار رہا ہے۔ ۱۹۱۶ء میں پہلی جنگ عظیم میں کل ۱۶ سولہ ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ صرف ترکی ایسا واحد ملک تھا جس نے اس خونی جنگ سے اپنے آپ کو کنارہ کش رکھا اور اس کی جنگ عظیم کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ یہ جنگ سربیا کے ایک قوم پرست اور اسٹریا اور ہینگری کے ولی عہد فرانس فرڈی نینڈ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ۱۹۱۶ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے ۸۵ لاکھ ۲۸ ہزار ۸۰۰ سے زیادہ انسانی جانوں کو لقمہ تر بنالیا۔ ۱۹۱۸ء میں یہ جنگ اپنے اختتام پر پہنچی۔ ۱۹۳۹ء میں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم میں کل ۲۷ ممالک نے حصہ لیا اور یہ سب کے سب غیرمسلم تھے اور اسی دوران ہیروشیما کا انسانیت سوز سانحہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جس میں موجودہ دور کے حقوق انسانی اور امن وشانتی پھیلانے کے سب سے بڑے مسیحا امریکہ نے ایک ایٹم بم کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کو سوختہ کرڈالا۔ اوراس ملک کی آب وہوا کو مسموم و پراگندہ بناڈالا۔ جہاں کی فضا پر اب بھی موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جہاں ماہرین سائنس جاکر اب بھی تجربہ کرتے ہیں کہ یہ شہر کب اپنی سابقہ حالت پر لوٹ سکے گا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ تین دن کے وقفہ سے ۹/اگست ۱۹۴۵ء کو ایک اور ایٹم بم جاپان کے شہر ناگاساکی پر گرادیا اور آن کی آن میں ۲۸ہزار سے زائد انسانوں کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بناڈالا۔ اور دوسری جنگ عظیم میں ۴۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسان موت کے گھاٹ اتاردئیے گئے۔ ۱۹۴۵ء میں ہی چین پر ڈھائی سو جنگی طیاروں کی مدد سے دولاکھ پونڈ بارود برساکر موت کا رقص عام کیا۔ اسی طرح سے وقفہ وقفہ سے مختلف ممالک امریکی جارحیت و درندگی کا نشانہ بنتے رہے۔ ۱۹۵۰ء میں امریکہ نے کوریا پر چڑھائی کردی ۱۹۵۴ء میں کیوبا میں۔ ۱۹۶۴ء میں امریکہ و ویتنام کی جنگ نے ۴۵ ہزار سے زائد لوگوں کو موت کی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس جنگ کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا جرم کیا ہے۔ کس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں پیروں، اور ۱۹۷۳ء میں لاوس میں، ۱۹۷۵ء میں ویتنام میں، ۱۹۸۷ء میں گرینیڈا، ۱۹۸۴ء میں لبنان میں، ۱۹۸۹ء میں پناما میں، ۱۹۹۱ء میں عراق میں، ۱۹۹۸ء میں سوڈان میں، اور ۱۹۹۹ء میں یوگوسلاویہ میں۔ ان تمام خونی جنگوں کے بعد سوچا جانے لگا کہ شاید اب امریکی انسانیت جاگ اٹھی ہو۔ اس کا نعرہ امن حقیقت میں تبدیل ہوجائے اور دنیا امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے۔ امن وامان کا بول بالا ہوجائے۔ لیکن ضمیر فروش اور مردہ دل کے جسم میں انسانیت تھی ہی کہاں کہ جاگتی کیونکہ وہ تو خون چوسنے کا عادی ہوگیا تھا۔ بالآخر پھر اس نے ۱۷/اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان و عراق میں اپنی درندگی وسفاکیت اور حیوانیت و بہیمیت کا ایسا ننگا کھیل کھیلا کہ روئے زمین تھرا اٹھی لیکن اس کا ضمیر نہیں جاگا۔

تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گرد تم ہو نہ کہ مسلمان، دہشت گردی تم پھیلاتے ہو نہ کہ مسلمان، قتل وخون ریزی تمہارا پیشہ ہے نہ کہ مسلمانوں کا، دنیا کے امن وامان میں بدامنی کی فضا تم بناتے ہو، بدامنی کا ماحول تم سازگار کرتے ہو نہ کہ مسلمان، درندگی وسفاکیت اور بہیمیت وسبعیت کا مظاہرہ تم کرتے ہو نہ کہ مسلمان، حقوق انسانی پر ڈاکہ تم ڈالتے ہو نہ کہ مسلمان، عدل وانصاف کا گلہ تم گھونٹتے ہونہ کہ مسلمان، مذکورہ ممالک وریاستوں میں معصوموں کے قاتل تم ہو نہ کہ مسلمان، پوری دنیا میں جابرانہ نظام کے قیام کی جدوجہد تم کررہے ہو نہ کہ مسلمان، تم ایک ایسے نظام کے قائل ہو جس میں کمزور و ناتواں لوگوں کی حصہ داری نہ ہو بلکہ طاقت وقوت کی حکمرانی ہو۔

ہم دنیائے انسانی کو اپنی زبان و بیان اور تحریر وقلم کے ذریعہ یہ بتادیں کہ اسلام ایک سراپا امن وسلامتی کا دین ہے۔ بدامنی فتنہ وفساد، خوں ریزی وغارت گری اور دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ مسلمان تو ایک امن پسند اور ہمدرد وخیرخواہ قوم وملت کا نام ہے۔ دین اسلام کی درخشاں تعلیمات نے جس طرح ماضی میں فرد وجماعت، اقوام وملل اور ملک و قوم کی ترقی میں تعمیری واصلاحی انقلاب برپا کیا تھا۔ آج کے بدلے ہوئے حالات میں بدامنی وتخریب کاری اور فتنہ وفساد کی آماجگاہ بنے معاشرے میں بھی دین اسلام کی تعلیمات مفید اور معنی خیز ہوں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تعمیر نو کے لیے سیکڑوں جماعتوں نے تجربات کی دنیا میں غوطہ لگایا ہے لیکن نتیجہ آپ حضرات کے سامنے ہے۔ اور یہ بات تو مسلم ہے کہ ماضی کی طرح حال میں بھی تعلیمات اسلام کو تجربات کی دنیا میں بروئے کارلاکر ہی امن وآشتی، حقوق انسانی، مساوات و رواداری اور عدل و انصاف کی پیاسی انسانیت کو سیرابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اور اس دور کے اہم چیلنج کے لیے نسخہ شفا قرار پاسکتا ہے۔ جس کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر خرمن انسانیت میں امن وامان، صلح وآشتی، عدل وانصاف اور مساوات و رواداری کی بہار آسکتی ہے جب ہی پوری دنیا حقیقی امن وسلامتی اور سعادت وکامرانی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔
***



کیا اسلام کی اشاعت میں جبر واکراہ کا دخل ہے؟

                موجودہ صدی میں مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر اور عالمی منظر نامے پران کی شبیہ خراب کرنے کے لیے جو منظم سازشیں ہورہی ہیں،ان ہی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ عیسائی مشنریز اور ایسی تما م قوتیں،جو اسلام کو ایک آفاقی اور تاریخ کے ہر دور اور ہر موڑ پرانسانیت کی راہ بری و راہ نمائی کرنے والے مذہب کے طورپر تسلیم نہیں کرتیں،وہ وقتاً فوقتاً اسلام کی بنیادی تعلیمات ،قرآن کریم، احادیث کے معتدبہ حصے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کواپنے اوچھے اوربکواس اشکالات و اعتراضات کا نشانہ بناتی رہتی ہیں،ان ہی اشکالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نعوذ باللہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دین کو پھیلانے اور عام کرنے کے لیے تلوار کا سہارا لیا اور ان کی زندگی میں جتنے لوگ بھی اسلام میں داخل ہوئے،وہ اپنی مرضی وخواہش سے نہیں؛بلکہ مسلمانوں کے زورِ شمشیر سے داخل ہوئے؛حالاں کہ تاریخی حقائق ان کی اس بیہودہ گوئی کاصاف اور صریح طورپر انکار کرتے ہیں،اگرآپ تبلیغِ اسلام کے ابتدائی ادوار اور پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلمکی مکی و مدنی زندگی کا منصفانہ مطالعہ کریں ،تو آپ کو صاف طورپر محسوس ہوگا کہ اسلام کی اشاعت کا آغاز اجنبیت اورکمزوری کے دور میں شروع ہوا اور پھر جب مسلمانوں نے مدینہ کی جانب ہجرت کی اور کفار و مشرکین اور یہودیوں کی متعددجماعتوں سے جو جنگیں ہوئیں،وہ سب انتہائی مجبوری میں ہوئیں،ورنہ ہمارے نبی کے جیسا صلح پسند اور امن جُو انسان روے زمین نے آج تک نہیں دیکھا،ہر موقعے پر آپ نے کُشت و خون اور جنگ و جدال کو ٹالنے کی کوشش کی؛مگر جب فریقِ مخالف مرنے مارنے پر ہی آمادہ نظر آیا،تبھی آپ نے اپنے اصحاب کو تلوار اٹھانے کی اجازت دی،پھر دورانِ جنگ بھی آپ نے اپنے مجاہدین کوانسانی اصول و اقدار کا حددرجہ پابند رکھا؛کیوں کہ آپ پوری انسانیت کے لیے رحمت و رافت بناکر بھیجے گئے تھے اور انسانی حرمت آپ کے نزدیک سب سے اعلیٰ و برتر تھی،عہدِ نبوی کی جنگوں میں جو جانوں کا اتلاف ہوا،اس سے بھی کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا انسان بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسلام کی اشاعت میں زور زبردستی اور تیغ و تفنگ کا عمل دخل بالکل بھی نہیں تھا اور ایسا ہوبھی کیسے سکتا تھا،جبکہ اللہ تعالیٰ صاف طورپر”لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ“ اور” لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ“کا اعلان کر چکاتھا،اسلام کی اشاعت میں اَصالةًبے مثال سیرتِ نبوی اور آپ کے اصحاب کے کردار و عمل کا دخل رہا،انھوں نے جس ملک یا شہر کو فتح کیا،تو حسبِ روایت وہاں تباہی و تاراجی مچانے کی بجاے وہاں کے لوگوں کو امان دیا ،انھیں پُر امن طورپر اسلام کی دعوت دی اوراگر انھوں نے نہیں مانا ،تو بہت معمولی جزیے کے عوض انھیں ان کے دین پر چھوڑ دیا،عیسائیت اور استشراق کی جانب سے اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے والا یہ اعتراض؛بلکہ اتہام اور بہتان کتنا صریح جھوٹ ہے کہ خود کئی ایک مستشرقین نے اپنی کتابوں میں اس کی تردید کی ہے،معروف مستشرق عالم ”ٹامس کارلائل“ (۱۸۸۱- ۱۷۹۵/) نے اپنی کتاب On Heroes, Hero-wership,and the Heroic in Historyمیں جہاں نبی پاک کو تمام انبیا کے سردارکے طورپر مانا اور پیش کیا ہے، وہیں اس نے اسلام کی اشاعت میں تلوار کے عمل دخل کوقطعاً جھوٹ اوریاوہ گوئی قراردیتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ” یہ عقل میںآ نے والی بات ہی نہیں کہ ایک شخص،جو اپنی دعوت کے ابتدائی دنوں میں بالکل تن تنہا ہو،کوئی اس کو ماننے والا نہ ہو،وہ اکیلے پوری قوم اور جماعت کے خلاف تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہو اور انھیں اپنے آپ کو منوانے پر مجبور کردے“ ۔(محمد المثل الأعلیٰ، تعریب: محمد السباعي، ص:۲۱، مکتبة النافذة، مصر۲۰۰۸ء)
                کارلائل کے علاوہ بھی متعدد مسیحی اور مستشرق علماء ،ادباء اور شعراء نے اس بات کا نہ صرف اعتراف کیا ہے کہ نبی پاک کی ذات سراپا رحمت تھی؛ بلکہ انھوں نے انصاف پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اپنے طورپر دلائل کے ذریعے اس کو ثابت بھی کیاہے،گوکہ ان کے مقابلے میں سیرت نبوی اور اسلام کو اپنے سطحی اعتراضات و اشکالات کا نشانہ بنانے والوں کی تعداد زیادہ رہی اور انھوں نے پورے زور و شور سے اسلام کی شبیہ کو داغ دار کرنے کی مہم جاری رکھی اور آج کے ابلاغی وسائل کی بہتات اور بے پناہ کثرت کے دور میں وہ پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے اپنی یہ ناپاک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کیا دینِ مسیحی میں قتال کا تصور نہیں؟
                قبل اس کے کہ ہم اسلام پرعیسائی مشنریز کی جانب سے تشدد پسندی و انتہا پسندی کے الزامات کا تحقیقی جواب دیں ،مناسب سمجھتے ہیں کہ اس خیال اور عام طورپر پھیلے ہوئے تصور کی حقیقت واضح کردی جائے کہ مسیحیت مطلقاً جنگ و جدال اور قتال کا انکار کرکرتی ہے،عیسائیوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ انجیلِ متیٰ میں حضرت عیسیٰ کی جانب جو یہ قول منسوب ہے کہ”تم یہ مت سمجھوکہ میں زمین میں صلح و سلامتی قائم کرنے کے لیے آیا ہوں؛بلکہ میں تو تلوار لے کر آیا ہوں، میں اس لیے آیاہوں کہ انسان کو اس کے باپ کے خلاف کھڑاکردوں،بیٹی کو اس کی ماں کے خلاف اورچوپایوں کوچرواہوں کے خلاف،انسان کے دشمن اس کے گھر والے ہی ہوتے ہیں،جو شخص بھی اپنی ماں یا باپ سے مجھ سے زیادہ محبت کرے،تووہ مجھ سے دور رہے،جو شخص اپنے بیٹے یا بیٹی سے مجھ سے زیادہ محبت کرے،وہ بھی مجھ سے دور رہے،جو شخص اپنی صلیب نہ لے اور میری اتباع نہ کرے وہ مجھ سے دور رہے،جس نے زندگی کو پالیا(یعنی اپنے لیے اسے گزاردیا)اس نے دراصل اپنی زندگی کو گنوادیا اور جس نے میری خاطر اپنی زندگی کو گنوادی،توگویااس نے اپنی زندگی کے مقاصد کو پالیا“۔(باب:۱۰،آیت:۳۵)اس کا آخر ہم کیا مطلب نکالیں؟ہم نام نہاد عیسائیت کے علم برداروں کے قول کومانیں اور انجیل کی تکذیب کریں یا ان کو جھوٹا سمجھیں اورانجیل کے بیان کو صحیح اور سچ مانیں؟
یہودیت اور تشدد پسندی
                جہاں تک بات توریت کی ہے،تو اس کے اندر تو ابھی بھی بے شمار ایسے مقامات ہیں،جہاں جنگ و جدال اور قتال کی مشروعیت کی بات کی گئی ہے،مزیدیہ کہ دینِ موسوی کے حوالے سے جو شدت پسندی کی باتیں عام طورپر مشہورہیں اورواقعتاً بھی اس شریعت میں جو کم سے کم گنجایش اور سہولت کے مواقع پائے جاتے تھے(گرچہ ان کی کچھ وجہیں بھی تھیں)اس سے بھی ہم اچھی طرح واقف ہیں اور ان دونوں معروف سماوی شریعتوں کے خلاف اسلام نے جنگ اور قتال کے جو اصول متعین کیے اور ان پر جس اہتمام کے ساتھ خود ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور مجاہدینِ اسلام نے سختی کے ساتھ عمل کیا اور جس طرح سے قرنِ اول میں مسلمانوں میں انسانی اقدار کے تحفظ و تکریم کی تاب ناک مثالیں پیش کیں،وہ اپنے آپ میں لا زوال ہیں اور اس بات کا بَیِّنْ ثبوت کہ اسلام کی اشاعت میں تلواریا زور زبردستی کا ادنیٰ دخل بھی نہیں رہا۔
                ا س کے بر خلاف عیسائیت کے ماننے والوں کی پوری تاریخ بے قصور انسانوں کے خون سے گل نار ہے،ماضی میں رومیوں نے بے شمار انسانوں کو تہہِ تیغ کیا،متعددیورپی قوموں نے انسانی خون کو پانی کی طرح بہایا،گیارہویں، بارہویں صدی عیسوی میں جو سلسلہ وار جنگیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی تھیں،وہ خود عیسائیوں نے ہی بھڑکائی تھیں،چپے چپے سے ان کی افواج نے جمع ہوکراسلامی مملکت و خلافت پر حملے کیے،مسلمانوں کو قتل کیااور اس اندوہناک انسانیت کش مہم کی پشت پر اعلانیہ طورپر ان کے مذہبی رہنما ،راہب اورپاپاوٴں کا ہاتھ رہا۔یہ وہ تاریخی حقائق ہیں،جن کا انکار نہ تو مسیحی علما کر سکتے ہیں اور ناہی مستشرقین۔
                پھربیسویں صدی میں جو پوری دنیامیں صلیبی حکومت قائم کرنے کے جنون میں دنیا کے طول و عرض پر حملے کیے گئے،وہ سب بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہی ہیں،تاریخ میں برطانیہ، روم، اٹلی، فرانس اورامریکی اتحادکے ترجمان لارڈلنبی کا وہ قول بھی محفوظ ہے،جس میں اس نے ۱۹۱۸/ میں پہلی عالمی جنگ کے اختتام اور بیت المقدس پر قبضے کے موقع پر کہا تھا کہ”صلیبی جنگوں کا اختتام تو اب ہواہے“اسی موقع پرفرانسیسی ترجمان نے دمشق میں اسلامی قائد سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبرکے پاس جاکر یہ کہا تھا کہ”صلاح الدین!ہم واپس آگئے“۔
                بوسینیا ،چیچنیا، ہرزے گوینا اورمتعددافریقی ملکوں میں جو مسلمانوں کی جان،مال اور عزت و آبرو پر بے تحاشا ڈاکے ڈالے گئے،وہ بھی صلیبیت کے ہی نام پر تھے۔
                حالاں کہ ان سب کے بر خلاف اسلام نے اپنے تمام تر تاریخی مراحل میں اپنی صاف شفاف اور روشن تعلیمات کے ذریعے انسانی قلوب کو مسخر کیا، عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات، جنگ و امن کے دوران دی جانے والی اس کی ہدایتیں،غلبہ اور فتح کے دوران اس کی انسانیت نوازی پر مبنی تعلیم اوراس کے مبنی برانصاف سیاسی نظام نے لوگوں کو ہر دور میں اپنی جانب مائل کیا اور وہ اس کی صداقت و حقانیت کے قائل ہوکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے رہے،اسلامی قلم رو میں جو دوسرے مذاہب کو ماننے والی قومیں رہتی تھیں،انھیں پوری امان ملتی تھی،ایسی ،جیسی ان کے اپنے ہم مذہب بادشاہ بھی نہیں دیتے تھے۔
اسلامی دعوت کی تاریخ اور فرضیتِ جہادکے اسباب
                اسلام کے مزاج میں سلامتی اور صلح جوئی کا عنصر شامل ہے،توپھر اس نے جہاد کو فرض کیوں قراردیا؟یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب ہمیں اسلام کے بالکل ابتدائی دور،نبی پاک کی سیرتِ مبارکہ،خلفاے راشدین ،دیگر اصحاب و تابعین اور موجودہ انسانی تاریخ،سب کو سامنے رکھتے ہوئے تلاش کرنا ہوگا،ویسے یہ تو ایک واضح سچائی ہے کہ باوجودیکہ کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی؛لیکن آج بھی ان کی تعداددنیا کی مجموعی آبادی کا زیادہ سے زیادہ۲۲/فیصدہے،یعنی سات ارب میں سے ایک ارب ستر کروڑ کے لگ بھگ،یہ بھی اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں نے دین کی اشاعت میں زبردستی سے کام نہیں لیا؛کیوں کہ اگر وہ چاہتے،تو کم ازکم اپنی سیاست کے عروج کے زمانے میں تو ایسا کرہی سکتے تھے کہ دنیا بھر کی قوموں کو شمشیر کی نوک پر اسلام کے دائرے میں داخل کرلیتے؛مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
                (۱) بعثت کے بعد نبی پاک مکے میں تیرہ سال تک مقیم رہے،اس دوران آپ نے مکہ والوں کو توحید،رسالت اور قرآنی و اسلامی تعلیمات کو قبول کرنے کی دعوت دی،اس دوران مکہ کے بہت سے خوش نصیب افراد نے ایمان قبول بھی کیا،ان میں اشرافِ قوم بھی تھے اور کم درجے کے لوگ بھی؛البتہ نچلے درجے کے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی اور اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ نبی پاک کے پاس اتنا مال و دولت نہیں تھا کہ جسے لوگوں میں تقسیم کرکے انھیں اسلام کی طرف راغب کرتے،یہی وجہ ہے کہ اسلام لانے کی پاداش میں مسلمانوں اور ان میں سے بھی فقرا اور غربا اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کفار مکہ کی جانب سے سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا؛ لیکن چوں کہ انھوں نے کسی ظاہری لالچ یا خوف کی وجہ سے نہیں؛بلکہ دل کی رضا سے اسلام قبول کیا تھا؛اس لیے ان کے ایمان و یقین میں ذرابھی لغزش نہیں آئی؛ بلکہ انھیں جتنا زیادہ تکلیفوں سے گزاراگیا،ان کی قوتِ ایمانی میں اتنا زیادہ اضافہ ہوتا گیا،یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس دور میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ جس میں کسی شخص نے اسلام لانے کے بعد اس دین سے نفرت اور ناپسندیدگی کی وجہ سے رِدَّت اختیار کرلی ہویا اسے کفار و مشرکین کے مکرو فریب نے اپنے دین اور مذہب سے بیزار کردیا ہو؛بلکہ اس کے برخلاف ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں بعض مسلمانوں کو جب اسلام کے راستے میں سخت سے سخت عذاب دیاگیا،انھیں آگ میں ڈالاگیا یا ننگی جلتی ہوئی ریت پر کھلے بدن گھسیٹاگیا،تو انھیں ایک خاص قسم کی روحانی لذت،ٹھنڈک اور حلاوت محسوس ہوئی۔
                (۲) پھر جب کفارِ مکہ کی جانب سے اذیتوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاگیا اور مسلمانوں کے لیے مکے میں رہنانہایت ہی ناممکن ہوگیا،تو اللہ کے نبی نے بعض کمزور اور مصیبت زدہ مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی؛چنانچہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے حبشے کی جانب ہجرت کرلی،پھر اس کے بعد ہجرتِ کبریٰ یعنی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کا واقعہ رونما ہوا، اس میں نبی پاک کے ساتھ تمام صحابہٴ کرام بھی شامل تھے،ان سبھوں نے محض اسلام کی حفاظت اور دین کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر اپنے گھر بار،آل اولاد اور اموال و جائیداد تک کو چھوڑ دینا گوارہ کرلیا،مدینے کے قیام کے دوران شروع کے ایک ڈیڑھ سال تک آپ وہاں کے لوگوں کو انتہائی پُر امن طریقے سے اور حکمت و موعظت کے ساتھ دین کی تبلیغ کرتے رہے،مدینے کے بہت سے لوگ اور قبیلے مدینے میں آپ کی آمد سے پہلے ہی مکہ جاکر اپنی مرضی اور دلی خوشی کے ساتھ اسلام قبول کرچکے تھے،مکہ کے تیرہ سال اور مدینہ کے تقریباً ڈیڑھ سالوں کے درمیان مسلمانوں کی جو حالت تھی،وہ سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے اور اسے جاننے اور پڑھنے کے بعد کوئی ناعقل ، متعصب اور بعض و حسد کے خطرناک مرض کا شکار شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جتنے بھی لوگوں نے اسلام قبول کیا،وہ خارجی دباوٴ،ڈر،خوف یا لالچ کی وجہ سے کیا۔
                (۳) ہجرتِ مدینہ کے دوسرے سال کے اواخر یا نصف میں مسلمانوں کو جہاد اور کافروں کے خلاف مقاتلے کی اجازت مل گئی؛لیکن یہ جہاد اس لیے نہیں مشروع کیاگیا کہ اس کے ذریعے سے کافروں اور مشرکوں کو زبردستی دائرہٴ اسلام میں داخل کیا جائے؛بلکہ اللہ نے اسے اس لیے مشروع کیا کہ اس کے ذریعے سے دینِ اسلام کا دفاع کیاجائے،اس کو در پیش مشکلات اور عوائق و موانع کا مقابلہ کیا جائے اور اس کی اشاعت کی راہ میں حائل ہونے والوں کودور کیا جائے، مسلمانوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے،روئے زمین پر ایک خداکی پرستش اور عبادت کے تصور کو عام کیا جائے،ظلم و زیادتی،نا انصافی،بے امنی کا خاتمہ کیاجائے،پھراللہ تبارک و تعالیٰ نے قتال اور جہاد کا حکم دیتے وقت بھی مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ ایسے لوگوں پر دورانِ جنگ ہاتھ نہ اٹھائیں،جنھوں نے مذہب کے نام پر انھیں پریشان نہیں کیا اوران کی ایذا رسانیوں میں دوسروں کے ساتھ شریک نہ رہے،مسلمانوں کو حکم دیاگیا کہ دورانِ جنگ ایسے لوگوں سے اپنے ہاتھ کھینچے رکھیں،ان کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک کا معاملہ کریں،ارشاد ہے:
                ”لاَ یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ، إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ، وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ، وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ“(الممتحنة: ۸-۹)
                اس آیتِ کریمہ سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا موقف یہ نہیں کہ اگر تم ہمارے ساتھ صلح کرو،توہم تمہارے ساتھ صلح پسندی کا معاملہ کریں گے؛بلکہ وہ کافروں کی جماعت کے ساتھ بھی رحم و کرم اور حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے،پھرقرآنِ کریم میں دین سے روکنے والے اور دین کے راستے میں روڑا اٹکانے والے کافروں کے ساتھ جنگ کرنے کا جو حکم دیاگیا،تو مطلقاً نہیں؛ بلکہ اس میں بھی حدود و قیودطے کردیے گئے اور حدِ اعتدال سے تجاوزکو ممنوع قراردیا گیا:
                ”وقاتلوا في سبیل اللّٰہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا“(البقرة:۱۹۰)
                یہ اور ان کے علاوہ دیگر قرآنی آیتوں اور خدائی احکام کی روشنی میں نبی پاک نے اپنے اصحاب اور مجاہدین کو جنگ کے رہنما اصول بتائے، جن پر وہ ہمیشہ کاربند رہے،کمزوری و مغلوبیت کے زمانے میں بھی اور فتح اور غلبہ کے بعد بھی،انھوں نے کسی بھی موقع پر مفتوحین کے ساتھ روایتی فاتحین جیسا حیوانی سلوک نہیں کیا،انھوں نے کسی بھی جنگ میں عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا،انھوں نے کسی بھی شہر یا ملک کو فتح کرنے کے بعد شہریوں کے اموال و جاے داد اور عورتوں کو اپنی ملکیت نہیں بنایا اوران کی عصمت و عفت پر دست درازی نہیں کی؛ بلکہ اسلامی ضابطے کے مطابق اپنے سپہ سالار کی ہدایت پر عمل کیا،یہی وجہ ہے کہ ان کے ایسے کردار سے متاثر ہونے والوں اور پھر دامنِ اسلام سے وابستہ ہونے والوں میں مسلسل اضافہ ہوا اور اسلام اپنی آمدکے بعدبہت ہی کم دنوں میں دنیا بھر کے بیشتر خطوں میں پھیل گیا۔
                (۴) اسلام کی بنیادی تعلیمات (نصوصِ قرآن،احادیثِ کریمہ)اس تصور کو سرے سے مسترد کرتی ہیں کہ اس کی اشاعت میں کسی بھی قسم کی زور زبردستی کا دخل رہاہے،قرآن کریم میں متعددمقامات پر اس چیز کو بیان کیاگیا ہے،ارشادِ باری ہے:
                ”لا اکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغي، فمن یکفر بالطاغوت ویوٴمن باللہ فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لا انفصام لہا، واللّٰہ سمیع علیم“ (البقرہ: ۲۵۶)
                ترجمہ: دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں،ہدایت اور گمراہی دونوں واضح ہیں،پس جو شخص باطل معبودوں کا انکار کرکے ایک خدا پر ایمان لے آیا،اس نے مضبوط چیز کو تھام لیاجوجدا ہونے والی نہیں ہے اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔
                 اس آیتِ کریمہ کے سببِ نزول کوجان لینا بھی دل چسپی سے خالی نہیں،مفسرین نے بیان کیا ہے کہ انصار کے بنی سالم بن عوف کے ایک شخص کے پاس دو بیٹے تھے،جو بعثتِ نبوی سے قبل ہی نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے،ایک زمانے کے بعدوہ دونوں نصرانیوں کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ تجارت کی غرض سے آئے،ان کے والد(جو مسلمان ہوچکے تھے)نے جب انھیں دیکھا،تو ان کے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ جب تک تم دونوں مسلمان نہیں ہوجاتے، میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں،یہاں تک کہ یہ معاملہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلمتک پہنچ گیا، انصاری صحابینے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میرے جسم کے ٹکڑے جہنم میں داخل ہوں اور میں دیکھتا رہوں؟(ایسا نہیں ہوسکتا) اسی موقع پرمندرجہٴ بالا آیتِ کریمہ نازل ہوئی،جس میں یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان اور کفر انسان کا ذاتی معاملہ ہے،کوئی کسی کو ایک مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا؛چنانچہ انھوں نے اپنے بیٹوں کا راستہ چھوڑ دیا۔
                امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے قول باری تعالیٰ”لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن“ کے بارے میں زید بن اسلم سے دریافت کیا،تو انھوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے مکے کی زندگی میں کسی کو مذہبِ اسلام اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا،اس کے باوجود کفار آپ کی جان کے درپے ہوگئے،تو ایسے موقع پر اللہ نے آپ کو ان سے لڑنے کی اجازت مرحمت فرمادی اور لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس میں داخل ہونے کے لیے کسی کو مجبور کریں۔
                دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
                ”افأنت تکرہ الناس حتی یکونوا موٴمنین“(یونس:۹۹)
                ترجمہ:کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے کے لیے مجبور کریں گے؟(یعنی آپ ایسا نہیں کرسکتے)۔
                ایک اور جگہ فرمایا:
                ”فمن شاء فلیوٴمن، ومن شاء فلیکفر“(الکہف:۲۹)
                ترجمہ: جو چاہے وہ ایمان لائے اور جو چاہے وہ کفر کرے (یعنی اپنی مرضی سے جو شخص ایمان قبول کرے گا،اسے اس کا اجر ملے گا اور جوانکار و شرک کا ارتکاب کرے گا،وہ اس کے انجامِ بد سے دوچار ہوگا،اس معاملے میں کسی پر کسی قسم کا دباوٴ نہیں ڈالا جائے گا)
                اس آیت سے صریح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر انسان کے اختیار اور رضامندی کا معاملہ ہے کہ جونسا مذہب چاہے ،اختیار کرے اور جسے چاہے ترک کردے،ہاں!بتقاضائے مصلحتِ انسانی و مقصدِ تخلیقِ انسانی اللہ تبارک و تعالیٰ کودینِ وحدانیت پسندیدہ ہے،وہ ایمان و اسلام کو پسند کرتا ہے اور اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے،جب کہ کفر سے روکتا ہے اور اس کے بدترین نتائج سے لوگوں کو باخبر کرتا ہے، قرآن کریم میں اس مفہوم کی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں،اسلام کے ایک آخری پسندیدہ اور مکمل مذہب ہونے کی وجہ سے ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مذہب کے معاملے میں انسانوں کو اختیار دینے کے باوجود فرمایا ہے:
                ”انا اعتدنا للظالمین ناراً احاط بہم سرادقہا“(الکہف:۲۹)
                ترجمہ: ہم نے کافروں کے لیے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے،جس کی طنابیں انھیں چاروں جانب سے گھیرلیں گی۔
                اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ کسی اورکو شریک ٹھہرانا اور اس کی وحدانیت کا انکار کرنا انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ہے؛اس لیے قرآن میں جو مذہب کے حوالے سے عدمِ اکراہ اور تخییر کی بات آئی ہے،اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کفر و شرک کرنا جائز ہے یا اللہ تبارک و تعالیٰ ایسا کرنے والوں سے بھی راضی ہیں،ایسا ہر گزنہیں ہوسکتا،یہی وجہ ہے کہ علمائے تفسیر نے مذکورہ بالا آیتوں کو تہدید اور وعید پر مشتمل قرار دیا ہے، حتیٰ کہ بہت سے علمائے بلاغت تہدید ووعید کے مواقع پر بطور مثال کے ان ہی آیتوں کو پیش کرتے ہیں،پس معلوم ہوا کہ گو یہ آیتیں اپنی ظاہری نص کے اعتبار سے تخییر کے معنیٰ پر مشتمل ہیں؛لیکن یہ تخییر ایسی ہے کہ جس میں تہدید اور دھمکی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، ان آیتوں سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مذہب کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جائے گی؛لیکن اس سے یہ ہر گزبھی نہ سمجھاجائے کہ اسلام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے تمام موجودہ مذاہب حق پر ہیں اور انسان جس مذہب پر بھی چاہے اعتقادرکھے اور اسی کے مطابق زندگی گزارے،ایسا ہر گزبھی نہیں،ایمان کو چھوڑکر کفر اختیار کرنے کی سزاتو ملنی ہی ہے۔
                احادیث میں بھی اس مفہوم کی روایتیں پائی جاتی ہیں،جن میں سے بعض کا ذکرکیا جاتا ہے:
                امام مسلم نے اپنی صحیح میں اپنی سند سے یہ روایت نقل کی ہے کہ”نبی پاک جب بھی کسی شخص کو کسی اسلامی فوج کا امیراور سپہ سالار بناتے ، تواسے تقویٰ اختیار کرنے اورساتھی مجاہدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے،پھر فرماتے”اللہ کے راستے میں اللہ کانام لے کر لڑو، کافروں سے قتال کرو،لڑو اور دھوکہ و فریب نہ دو،لاشوں کا مثلہ نہ کرو،کسی نوزائیدہ بچے کو قتل نہ کرو اور جب بھی کسی مشرک قوم سے مقابلہ ہو،تو اسے تین باتوں کی دعوت دو،پھر وہ ان میں سے جس بات کوبھی قبول کرلے،تو تم اسے چھوڑدو،پھرتم اسے اسلام کی دعوت دو، پس اگر وہ اسلام قبول کرلے،توتم بھی انھیں قبول کرلو اور انھیں کسی قسم کا گزند نہ پہنچاوٴ اور اگر وہ لوگ انکار کریں،توان (کے تحفّظ کے لیے اُن) سے جزیہ مانگو،اگر وہ جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجائیں،توانھیں اپنے حال پر چھوڑدو اور اگر وہ جزیہ دینے کے لیے بھی آمادہ نہ ہوں،تو پھر تم اللہ کی نصرت و مدد طلب کرو اور ان سے قتال کرو“۔
                اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی نے مسلمانوں کو اسی وقت کافروں سے لڑنے کی اجازت دی،جب امن اور صلح کی کوئی راہ باقی نہ رہے اور قطعی طورپر یہ ثابت ہوجائے کہ کفار و مشرکین اپنے کبر و غرور اور خدابیزاری میں حد سے گزرے ہوئے ہیں،ہاں اس ذیل میں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جزیہ لوگوں کو اسلام پر مجبور کرنے کے لیے نہیں؛بلکہ یہ اسلامی مملکت و حکومت کے ذریعے ان کی خدمات،حفاظتی تدابیراور نگہہ داشت کے عوض ہے،اسلامی تاریخ میں اس کی ایک واضح ترین اور سب سے بڑی دلیل وہ واقعہ ہے،جسے علامہ بلاذری نے اپنی کتاب ”فتوح البلدان“میں نقل کیا ہے کہ جب ہرقل نے مسلمانوں سے مقابلے کے لیے اپنے لوگوں کو اکٹھا کیا اوریرموک کا واقعہ پیش آیا،تومسلمانوں نے حمص کے عیسائیوں سے لیا ہوا جزیہ واپس کردینے کا فیصلہ کیا اور ان سے کہا کہ ہم تمھاری حفاظت اور مددنہیں کر سکے؛ لہٰذا تم خوداپنا انتظام کرلو اور ہم تم سے لیاہوا مال واپس کیے دیتے ہیں،تو حمص والوں نے کہا کہ تمھاری ولایت اور انصاف ہمارے لیے ہمارے بادشاہ کے ظلم و جور سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے اور ہم سب تمھاری فوج اور سپہ سالارکے ساتھ مل کرہرقل کی فوج کا مقابلہ کریں گے،اسی طرح دوسرے شہروں کے ان یہود و نصاریٰ نے بھی یہی بات کہی،جن سے مسلمانوں نے صلح کر رکھی تھی،ان سب نے کہا کہ اگر روم کا بادشاہ اور اس کی فوج ہم پر غالب آجاتی ہے،تو ہمیں پھر پہلے جیسے برے دن ہی دیکھنے پڑیں گے اور جب تک ہم مسلمانوں کی حفاظت میں ہیں،اپنی اپنی زندگی جینے کے لیے آزاد ہیں۔
                اگر اس موقع پر کسی شخص کو اللہ کے نبی کے اس قول”أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا لا الہ الا اللّٰہ وَأنَّ محمدًا رَّسولُ اللّٰہ“ کے حوالے سے کوئی اشکال ہو اور وہ کہے کہ اللہ کے نبی تو یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے اس وقت تک کافروں سے لڑنے کا حکم دیاگیا ہے، جب تک وہ سب کے سب اسلام قبول نہ کرلیں،تو پھر یہ مصالحت اور کافروں کو اپنے مذہب پر برقرار رکھنے والی بات کیسے مان لی جائے ؟ تومحدثین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی پاک کا یہ قول ایک خاص پس منظر میں ہے اور اس سے مرادعرب کے بت پرست ہیں،رہی بات یہود و نصاریٰ جیسے اہلِ کتاب کی،تو ان کے ساتھ تو وہی معاملہ کیا جائے گا،جس کی صراحت گزشتہ حدیث میں ہوئی ہے،ویسے بہت سے محدثین،مثلاً امام مالک اور اوزاعی مشرکینِ عرب سے بھی اسی مذکورہ اصول کے مطابق عمل کرنے کے قائل ہیں،یعنی انھیں بھی اسلام پیش کیا جائے گا،نہ مانیں،تواسلامی قلم رو میں رہنے کے عوض اُن کی حفاظت کے مصارف کے طور پر ان سے جزیہ طلب کیا جائے گا اور اگروہ اس پر بھی راضی نہ ہوں،تو پھر ان سے قتال کیا جائے گا۔
                اگر ہم غور کریں تو امام مالک اور امام اوزاعی کا مسلک اسلامی تاریخ کے ابتدائی دورکے پس منظرمیں غلط بھی نہیں ہے؛کیوں کہ فتحِ مکہ تک جو لوگ کفرو شرک پر جمے ہوئے تھے،انھوں نے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے کی تمام تر کوششیں کرلی تھیں،پھریہ کہ وہ لوگ تو نبی پاک کی صداقت و حقانیت کودوسرے تمام خطوں کے لوگوں سے زیادہ جانتے اور سمجھتے تھے؛کیوں کہ خود نبی پاک بھی عربی النسب اور ان ہی کے وطن اور قوم کے فرد تھے اور جو قرآن آپ پر اتاراگیاتھا،وہ بھی ان ہی کی زبان عربی میں اتارا گیاتھا،تو اس طرح حق تو ان کی نگاہوں کے سامنے بالکل واضح اور صاف تھا،اگر وہ اس کے باوجود ایمان نہیں لائے،تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ راہِ حق سے خود بھی سرگرداں تھے اور متبعینِ حق کوان کے راستے سے ہٹانے اور بھٹکانے پر بھی تلے ہوئے تھے۔مزید یہ کہ شرک اور کفر سراسر ایک باطل مذہب ہے اور باطل مذاہب کے پیروکاروں کا یہ شیوہ رہاہے کہ وہ حق کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہوتے اور حق پرستوں کو دبانے اور مٹانے کے لیے تمام تر تدبیریں بروئے کار لاتے ہیں،ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہاہے اور عصرِ حاضر میں بھی یہ سلسلہ پوری قوت کے ساتھ جاری و ساری ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں جو قومیں متمدن اور ترقی یافتہ سمجھی جاتی ہیں،وہ اپنی شان وشوکت کے تحفظ کی خاطر کیا کیا نہیں کر رہی ہیں،صرف اپنے مفادات کی خاطر آئے دن لاکھوں انسانوں کی جانیں لے رہی ہیں، ملکوں کو تاراج اور شہروں کو برباد اور نیست و نابود کر رہی ہیں؛لیکن چوں کہ دانش و بینش اور فکروعقل کے پیمانے بدل چکے ہیں؛اس لیے ان پر تو کوئی بھی اشکال نہیں کر تا، کیااپناسرِ پُرغروراونچارکھنے کے لیے ان کی یہ انسانیت کُش کارروائیاں حلال ہیں؛جب کہ یہی اگر کوئی اور قوم اپنے تحفظ کی خاطر کرتی ہے، تواس کے لیے حرام قراردیاجاتا ہے۔
                فتحِ مکہ کے بعد عرب کے بیشتر افراد اور قبائل اسلام کی حقانیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کے دامن سے وابستہ ہوچکے تھے،ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم تھی،جو تاہنوزاپنے کفرپر اڑے ہوئے تھے،ایسے میں ان کے ساتھ جوبھی کیاگیا،وہ ظلم ہرگزنہیں تھا،وہ عین انصاف تھا اوراس سے اسلام کے خلاف افترا پردازی کرنے والوں کودلیل پکڑنے کاکوئی جوازنہیں ملتا ۔
                (۵) پھربہتان طرازوں کو اگر سیرتِ نبوی کا یہ پہلو سمجھ میں آجائے،جو سراسر عفوودرگذر اور رحمت و مسامحت پر مشتمل ہے،تو شاید ہی وہ اس کی جرأت کر سکیں،کیا آپ نے جنگی قیدیوں کوکبھی بھی اسلام لانے پر مجبور کیا؟کبھی نہیں؛بلکہ آپ نے انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا،مثال کے طورپر قبیلہٴ بنی حنیفہ کے سردار ثُمامہ بن اُثال حنفی کا واقعہ لے لیجیے،جنھیں مسلمانوں نے کسی سریہ میں گرفتار کرلیاتھا،وہ لوگ انھیں پہچانتے بھی نہیں تھے،صحابہٴ کرام انھیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لائے،جب آپ نے انھیں دیکھا،تو فوراً پہچان گئے کہ یہ تو اپنے قبیلے کے سردار ہیں، آپ نے انھیں ان کے حسبِ مقام عزت و احترام دیا،انھیں تین دن تک اپنے یہاں ٹھہرائے رکھا،ہر دن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ان سے خیریت پوچھتے،وہ جواباً عرض کرتے کہ اگر آپ کو مجھ سے مال چاہیے،تو میں دینے کو تیار ہوں اور اگر آپ مجھے قتل کردیتے ہیں، توایک (مجرم) خون والے شخص کا قتل کریں گے(یعنی آپ کو جنگ کے اصول کے مطابق اس کابھی اختیار ہے کہ آپ مجھے قتل کردیں) اوراگر آپ مجھ پر احسان کرتے ہیں،تو آپ ایک احسان شناس شخص پر احسان کریں گے(یعنی میں آپ کے احسان کا بدلہ چکادوں گا)، نبی پاک ان کو ان کے حال پر چھوڑدیتے،یہاں تک کہ نبی پاک اور مسلمانوں کی نرم خوئی اور حسنِ سلوک نے ثُمامہ کے دل کو نرم کردیا حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چھوڑ دیا؛چنانچہ وہ گئے،غسل کیا، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری خوش دلی اور اطمینانِ قلب کے ساتھ ایمان قبول کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہا”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلمروئے زمین پر آپ سے زیادہ مبغوض میری نگاہوں میں کوئی نہیں تھا؛لیکن اب روئے زمین پر آپ سے زیادہ محبوب شخص میری نگاہوں میں کوئی نہیں ہے،بخدا!پہلے روئے زمین پر آپ کے لائے ہوئے مذہب سے زیادہ ناپسندیدہ میرے نزدیک کوئی مذہب نہیں تھا؛لیکن اب آپ کالایا ہوا دین اور مذہب میرے نزدیک سب سے پسندیدہ اور محبوب بن چکاہے،پہلے آپ کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ میرے لیے کوئی بھی شہر نہیں تھا؛مگر اب آپ کے شہر سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ بھی کوئی شہر نہیں“۔
                آپ کو ان کے اسلام لانے سے بڑی خوشی ہوئی؛کیوں کہ وہ قبیلے کے سردار تھے اور بعد میں ان کی اتباع میں ان کے قبیلے اور قوم کے بہت سے افراد نے اسلام قبول کرلیا،پھرنبی پاک کی مسامحت اور نرمی کایہ معاملہ صرف ثمامہ اور ان کی قوم تک ہی محدود نہیں رہ گیا؛بلکہ یہ آگے بڑھ کر ان لوگوں تک بھی پہنچ گیا،جو مسلمانوں کے روایتی اور پکے دشمن تھے،ہوایوں کہ جب ثمامہ اور ان کی قوم اسلام لے آئے اور اسلام لانے کے بعد یہ لوگ اپنے وطن واپس لوٹے،تو اولاً تو مکہ والوں نے انھیں بھی تنگ کرنا چاہا؛مگر چوں کہ یمامہ کے غلہ جات ہی سے ان کی گزربسر ہوتی تھی؛اس لیے انھوں نے اپنا ارادہ منسوخ کردیا؛لیکن ثمامہ نے مسلمانوں پر ان کے مظالم کا بدلہ لینے کی غرض سے ان کو غلہ نہ دینے کی قسم کھالی،اب مکہ والے زبردست مصیبت میں پھنس گئے،انھیں کوئی راہ اس مشکل سے نکلنے کی نظر نہ آتی تھی،بالآخر انھیں ایک امید گاہ نظرآئی اور وہ خواہی نخواہی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں پہنچے،معاملہ بتایا اور سفارش کی درخواست کی۔ایسے موقعے پر دنیا کا عام قسم کا قائد،فاتح یا مصلح کیا کرتا،یہ کوئی بھی باعقل شخص سمجھ سکتا ہے؛لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے وہ نہیں کیا،آپ نے ثمامہ کو اپنی قسم پر برقراررہنے اور مکہ والوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنے کونہیں کہا،نہ خود آپ نے اس وقت مکہ والوں کو اس قسم کی کوئی بات کہی؛بلکہ آپ نے ثمامہ کو خبر بھجوائی کہ مکہ والوں تک غلہ رسانی کا سابقہ نظام جاری رکھو،انسانی دنیا کاکوئی بھی مذہب کشادہ ظرفی اور انسانیت نوازی کی ایسی مثال پیش کرسکتاہے؟
                حضرت ثُمامہ نبی پاک کے ذاتی کردار اور مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور اسلام کی حقانیت سے کس قدر متاثرہوئے تھے،اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپکی وفات کے بعد یمامہ میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ ظہور پذیر ہوا اور بہت سے لوگ مرتد ہوگئے،توبھی ثمامہ اور ان کے متبعین نے ارتداد کی راہ نہیں اختیار کی،وہ پکڑپکڑکر مسیلمہ کے جھوٹے دعویِ نبوت پر ایمان لانے والوں کو سمجھاتے اورچیخ چیخ کر لوگوں کو کہتے”تم اس تاریکی سے بچو،جس میں روشنی کا شائبہ تک نہیں ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے یہ فتنہ اپنے متبعین کے لیے لعنت و محرومی کا سبب ہے اورنہ ماننے والوں کے لیے وقتی آزمایش ہے“؛لیکن جب ان کے اس اعلانِ عام کے باوجود مرتدین نے ان کی بات نہیں مانی،تو ثمامہ اپنے لوگوں کولے کر علاء بن حضرمی کے پاس چلے گئے اور پھر مسیلمہ اور اس کی جھوٹی نبوت کو ماننے والوں کی اچھی طرح خبر لی۔
                 ایک اور واقعہ: جب آپ نے مکہ فتح کرلیا اور مسلمان اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص نصرت اور مددکی بدولت مکے میں داخل ہوگئے،تووہاں پہنچنے کے بعد اولاً تو آپ نے عفوِعام کا اعلان کردیا، مگر کچھ ایسے لوگ تھے،جو ماضی میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی مخالفت اور ایذا رسانیوں میں بڑانام پیدا کیے ہوئے تھے اور انھوں نے مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی تھیں،ایسے لوگوں کے بارے میں آپ نے اعلان یہ کیا کہ وہ یاتو مکہ چھوڑ کر نکل جائیں یا مسلمان انھیں جہاں بھی دیکھیں قتل کردیں،ان کے لیے ان کے سنگین جرائم کی وجہ سے معافی کی کوئی گنجایش نہیں تھی، ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صفوان بن امیہ بھی تھے،جب ان کو معاملے کی بھنک لگی،تو وہ چھپ گئے؛ بلکہ انھوں نے گھبراہٹ کے عالم میں خود کشی کا ارادہ کرلیا،اتنے میں ان کے چچازاد بھائی عمیر بن وہب جمحی آپ کی خدمت میں آئے اور انھوں نے آپ سے کہا”اللہ کے رسول! صفوان اپنی قوم کا سردار ہے اور وہ اپنے آپ کو سمندر میں غرق کرکے ہلاک کرنے جا رہاہے،آپ اسے امان دے دیں“،نبی پاک نے ان کی یہ بات سن کر اپنا عمامہٴ مبارک اتارا اور ان کے سپرد کردیا،یہ اس بات کی علامت تھی کہ آپ نے صفوان کو امان دے دی،عمیر عمامہ لیے ہوئے سیدھے صفوان کے پاس پہنچے اور ان سے کہا”میرے ماں باپ تجھ پر وارے جائیں ،میں تمھارے پاس دنیا کے افضل ترین،سب سے زیادہ بااخلاق،سب سے زیادہ بردبار،سب سے بہتر شخص کے پاس سے آرہا ہوں، وہ تمھارے چچازاد ہیں،ان کی عزت تمھاری عزت ہوگی،ان کا شرف تمھارا شرف ہوگا اوران کی سلطنت تمھاری سلطنت ہوگی“صفوان نے ان کی بات سن کر کہا”نہیں مجھے اپنی جان کااندیشہ ہے“تو عمیر نے ان سے کہا”نہیں تمھیں کوئی خطرہ نہیں،آپ کی بردباری اورشرافتِ نفس کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے،انھوں نے تمھیں امان بھی دی ہے اور اس کی علامت بھی میرے پاس بھجوائی ہے اور پھر انھوں نے صفوان کو نبی پاک کا عمامہ دکھلایا،تب جاکر صفوان کو یقین آیا؛مگر اب بھی کچھ نہ کچھ خلش باقی تھی؛چنانچہ نبی پاک کی خدمت میں پہنچنے کے بعد صفوان نے آپ سے پوچھا کہ عمیر یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے،تو آپ نے جواب دیا”اس کی بات درست ہے“پھرانھوں نے کہا”کیا آپ مجھے(مذہب کے سلسلے میں غور کرنے کے لیے) دو مہینے کی مہلت دیں گے؟“ توآپ نے ارشاد فرمایا”دونہیں،ہم تمھیں چار مہینوں کی مہلت دیتے ہیں“بالآخر صفوان نے بھی اسلام قبول کرلیا اورصحابہ کی مقدس جماعت میں وہ بھی شامل ہوگئے۔
                ان سارے واقعات کے پسِ منظر سے واقفیت کے بعد بھی کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا،تویہ اس کے دماغ کا فتور ہے اور کچھ بھی نہیں۔
                (۶) جولوگ بھی اسلام کے خلاف اس قسم کا پروپگنڈہ کرتے ہیں،خود وہ بھی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ اگر کسی آدمی سے کوئی بات زبردستی منوالی جائے،تو موقع ملتے ہی وہ شخص اس کا انکار کرنے لگتا ہے اور جب بھی اسے طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے ،وہ فریقِ مقابل پر چڑھ دوڑتا ہے؛مگر ہمیں اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ جب نبی پاک کی رحلت ہوگئی،توبہت معمولی اور غیر معتدبہ جماعت کے علاوہ اکثرمسلمان اسی مذہب پر قائم رہے،جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم انھیں چھوڑ گئے تھے،یہی نہیں وہ سب کے سب اپنے نبی کی چھیڑی ہوئی تحریک کو لے کر آگے بڑھے اور ان کے نبی نے اپنے آخری سفرِ حج میں انھیں جس امانت کی ادائیگی پر مقررکیاتھا،اسے بخوبی اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس کے حق داروں تک پہنچایا،اس راہ میں انھیں مخالفین سے لڑنے اور جنگ کرنے کی نوبت آئی،تو اس سے بھی پیچھے نہ ہٹے اور بالآخر نبی کی وفات پر ایک صدی سے بھی کم عرصہ گزراتھاکہ انھوں نے اسلام کو دنیا بھر کے بیشتر خطوں تک پہنچادیا،اس مہم میں پیش آنے والی معرکہ آرائیوں میں ان عربوں نے جس دیدہ وری اورجان و تن سے بے پروائی کا مظاہرہ کیا،اسے دیکھتے ہوئے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے دین پر کسی کوبھی زبردستی ایمان لانے پر مجبور نہیں کیاتھا؛بلکہ انھوں نے انتہائی خوش دلی،اطمینانِ قلب اوربرضاورغبت اسلام قبول کیاتھا اور یہی وجہ تھی انھوں نے اس دین کے تحفظ کی خاطر آپ کی زندگی میں بڑی سے بڑی قربانیاں ہنستے کھیلتے دیں اور آپ کی وفات کے بعد بھی دنیا کے کسی بھی کافرومشرک اور وقت کے ظالم و جابربادشاہ کا سرِ پرغروران کے ایمانی جلال اور طاقت و قوت کے سامنے بلند ہونے کی جرأت نہ کرسکا۔
                (۷) پھر بعد کے زمانوں میں جب اپنی سیہ کاریوں اور عملی زوال کی وجہ سے مسلمانوں کی سیاسی برتری جاتی رہی اور دنیا بھر سے ان کی حکومت و سیادت چھین کر قدرت نے غیروں کے ہاتھوں میں تھمادی،تاتاریوں نے مسلمانوں کو تہہ وبالاکیا،صلیبیوں نے مکروسازش اور ظلم و جور کے کھیل کھیلے اور اب گزشتہ صدی سے سامراجیت دنیا پر اپنا نقشہ جمائے اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مصروفِ تدبیر و منصوبہ بندی ہے اور مجموعی طورپر مسلمانوں کی کوئی ظاہری طاقت و قوت نہیں،نام نہاد اسلامی مملکتوں میں انتشار و خلفشار ہے،مسلم قیادت جاں بلب ہے،مسلمانوں کے علمی و سائنسی سوتے تقریباً خشک ہوچکے ہیں،عالمی معیشت سامراجی نظام کے علم برداروں کے ہاتھ میں ہے،عالمی سیاست کی گاڑی ان ہی کی بنائی ہوئی پٹری پر چل رہی ہے،دنیا بھر کو قرض فراہم کرنے والا عالمی بینک ان کے پاس ہے،تہذیب و ثقافت اور ترقی و عروج کے ہزار وسائل،نعرے،منزلیں اور سنگ ہاے میل خوش قسمتی سے ان کی پابوسی کر رہے ہیں؛مگر اس سب کے باوصف کوئی بتائے کہ کیا دنیا بھر کی مسلمان نسل اپنے دین کو چھوڑکردوسرے مذہب کی طرف رخ کر رہی ہے،یہ تو روزانہ ہورہاہے کہ دنیابھر کے ملکوں میں اسلام کا مطالعہ کرنے والوں،اس کے حقائق تک رسائی حاصل کرنے والوں اور اس کی خوبیوں سے متاثر ہوکر اس کے دامن میں پناہ لینے والوں کی تعداد میں لگاتار اور روزافزوں اضافہ ہورہاہے؛مگر کہیں سے ایک بھی ایسی خبرنہیں کہ مسلمان اپنے دین سے بیزار ہوکریا کسی دوسرے دین اور مذہب کی خوبی سے متاثر ہوکراس کی جانب مائل ہوگئے ہوں،یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے آباواجداد نے بھی دل کی گہرائی اور روح کے اطمینان کے ساتھ ایمان کو قبول کیا تھا اور وہ بھی اپنے اندر پائی جانے والی ہزارخامیوں کے باوجوداس مذہب کی صحت و صداقت کو دل و جان سے مانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
                فی الوقت عالمی سطح کے تمام سرکاری و غیر سرکاری سروے کی رپورٹوں سے یہ پتاچل رہاہے کہ دنیا بھر میں اور خصوصاً ان ملکوں میں ، جہاں اسلام مخالف تحریکوں کو ہوادی جاتی؛بلکہ جہاں سے ایسی تحریکوں کے بدبودار چشمے اُبلتے ہیں،ان ملکوں میں مسلمانوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے، مغربی معاشرہ اور وہاں کے اصول و اقدار نے لوگوں کو اس قدرپریشان اور بے چین کر رکھا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف ہزار بہتان طرازیوں کے باوجود اس کی سچائیوں کا پوری غیر جانب داری کے ساتھ مطالعہ کرتے اور پھر اس کے دامن سے وابستہ ہوجاتے ہیں،ظاہر ہے کہ ان خطوں کے ایسے لوگوں کو تو کوئی بھی مسلم داعی یا مبلغ یا حکومت، اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر رہی۔
                پھرآج دنیا کے جو ممالک سب سے زیادہ مسلم آبادی والے شمار کیے جاتے ہیں،ان کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ وہاں کبھی مسلمانوں نے فوج کشی نہیں کی،ان مقامات پر اسلام کی اشاعت کا ذریعہ مسلم تاجروں،علماء کے اخلاق و عادات اوراسلام کی شفاف تعلیمات رہی ہیں،مثلاً انڈونیشیا، چین،افریقہ کے متعدد ممالک،یورپی ممالک اور امریکہ میں جو مسلمانوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے،تو کیا ان لوگوں کو تلوارکے زور پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جارہاہے؟اسلام پر انتہا پسندی و تشددکا الزام لگانے والوں کومغرب کے ان نو مسلموں سے تحقیق کرنی چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ انھوں نے اپنے سابق مذہب سے توبہ کرکے اسلام کو کیوں اپنالیا؟تب انھیں یقینا اصل حقیقت کا پتا لگ جائے گا۔
                ان تمام خطوں میں اسلام اپنی سماحت،اعتدال پسندی،اپنے فطری اورانسانی ذہن و فکر کو اپیل کرنے والے اصول کی وجہ سے پھیلاہے اور پھیل رہاہے،ہمیں روزانہ اسلام کے دائرے میں آنے والوں کی خبریں مل رہی ہیں،پھر جو لوگ دائرہٴ اسلام میں داخل ہورہے ہیں،وہ کبھی اس سے بیزاری یا دست برداری کا تصور بھی نہیں کرتے؛حالاں کہ عصرِ حاضر کے پشتینی مسلمان تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام کے اپنے فریضے کو اداکرنے میں اس دل چسپی اورسنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہیں کر رہے،جو ان سے اسلام چاہتا اور جس کی نبی پاک نے اپنے آخری دور میں انھیں تلقین کی تھی،جس قدراہمیت اور سرگرمی کے ساتھ عیسائی مشنریز اپنے نظریات و خیالات و عقائد کی تبلیغ و اشاعت میں جدوجہد صرف کر رہی ہیں،اگر مسلمان اس کا عشرِ عشیر بھی کریں،تو سال بہ سال اسلام لانے والوں کی تعداد نہ معلوم کس برق رفتاری اور کثرت کے ساتھ بڑھنے لگے ۔
                اسلام اور اس کی اشاعت کے حوالے سے یہ وہ حقائق ہیں،جنھیں کوئی بھی غیر جانب دارانسان تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا،اگر ان کے باوجود دشمنانِ اسلام جھوٹے پروپگنڈوں میں مصروف ہیں اور وہ دنیا میں اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے اور پیغمبرِ اسلام اور قرآن کی تعلیمات میں تحریف کرکے دنیا کو گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں،توایسے لوگوں کے بارے میں تو ہم وہی کہیں گے،جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی لاثانی معجزاتی کتاب قرآن کریم میں فرمایا ہے:
                ”کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ، انْ یَقُوْلُوْنَ الّا کَذِبًا“․(الکہف:۵)
$ $ $






اسلامی جہاد کی حقیقت قرآن وحدیث کی روشنی میں


انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے، دنیا کے سارے مذاہب میں احترامِ نفس کا یہ اصول موجود ہے اورجس مذہب اورقانون میں اس دفعہ کو تسلیم نہیں کیاگیاہے، اس مذہب اور قانون کے تحت رہ کر کوئی انسان پُرامن زندگی نہیں گذارسکتا ہے۔
          اور اگر خالص انسانیت کی نظر سے دیکھا جائے، تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی مفاد کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرنا، بدترین جرم ہے، جس کا ارتکاب کرکے انسان میں کوئی اخلاقی بلندی پیدا کرنا تو در کنار، اس کا درجہٴ انسانیت پر قائم رہنا بھی ناممکن ہے۔
          دنیا کے سیاسی قوانین، تو انسانی احترام کو صرف سزا کے خوف سے قوت کے بل بوتے پر قائم کرتے ہیں؛ مگر ایک سچے دین ومذہب کا کام انسانی دلوں میں اس کی صحیح قدر وقیمت پیدا کردیتا ہے؛ تاکہ جہاں انسانی تعزیر کا خوف نہ ہو، وہاں بھی ایک انسان دوسرے انسان کا خون کرنے سے پرہیز کرے، اس نقطئہ نظر سے احترامِ نفس کی جیسی صحیح اور موٴثر تعلیم اسلام میں دی گئی ہے، وہ کسی دوسرے اور ادیان ومذاہب میں ناپید ہے، قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز وپیرایہ سے اس تعلیم کو انسانی دلوں میں دل نشیں کیاگیا ہے؛ چنانچہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَاماً﴾ (الفرقان:۶۸) ترجمہ: ”اور جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہیں، ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا۔“
          اس تعلیم کے اولین مخاطب وہ لوگ تھے، جن کے نزدیک انسانی جان ومال کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی اور جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اولاد جیسی عظیم نعمت کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے؛ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طبیعتوں کی اصلاح کے لیے خود بھی ہمیشہ احترامِ نفس کی تلقین کیاکرتے تھے، احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کرنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ اس قسم کے ارشادات وبیانات سے بھرا پُرا ہے، جس کے اندر ناحق خون بہانے کو گناہِ عظیم اور بدترین جرم بتایا گیا ہے، جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”الکبائرُ الاشراکُ باللّٰہِ وقتلُ النَفْسِ وعقوقُ الوالدینِ والیَمِیْنُ الغَمُوسُ“ (مشکوٰة:۱۷، باب الکبائر وعلامات النفاق) ترجمہ: بڑے گناہوں میں سے اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جان مارنا، والدین کی نا فرمانی کرنا اور جھوٹی قسمیں کھانا ہے۔
          حرمت نفس کی یہ تقسیم کسی فلسفی یا معلم اخلاق کی نہ تھی کہ اس کا دائرئہ کار صرف کتابوں کی حد تک محدود رہتا؛ بلکہ وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی، جن کا ہر ہر لفظ مسلمانوں کے لیے ایمان ویقین کا درجہ رکھتا ہے، جن کی پیروی ہر اس شخص پر واجب اور ضروری ہوجاتی ہے، جو کلمہٴ توحید (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کا اقرار کرتا ہو؛ چنانچہ ایک چوتھائی صدی کے قلیل عرصہ میں ہی اس تعلیم کی بدولت عرب جیسی خونخوار اور جانور نما قوم کے اندراحترامِ نفس اور امن پسندی کا ایسا مادہ پیداہوا کہ ایک عورت رات کی تاریکی میں تنِ تنہا قادسیہ سے صنعا تک سفر کرتی تھی اور کوئی اس کی جان ومال پر حملہ نہ کرتا تھا اور بہ حفاظت وہ اپنی منزل تک پہونچ جایا کرتی تھی؛ حالانکہ یہ انھیں درندوں اور لٹیروں کا شہر اور ملک تھا، جہاں بڑے بڑے دل گردے والے بھی گذرتے ہوئے لرزجایا کرتے تھے، گویا کہ حیوانیت اور قساوتِ قلبی ان کے لیے عام بات تھی، ایسے سنگین حالات میں اسلام نے ببانگِ دُہُل یہ آواز بلند کی: ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ (الفرقان:۶۸) ”یعنی انسانی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے،اس کو ناحق قتل مت کرو؛ مگر اس وقت جب کہ حق اس کے قتل کا مطالبہ کرے“ اس آواز میں ایک قوت وطاقت تھی؛ اس لیے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہونچی اور اس نے انسانوں کو اپنی جان کی صحیح قدر وقیمت سے آگاہ کیا، خواہ کسی قوم وملت نے یا کسی ملک وشہر نے اسلام کو اختیار کیا ہو یا نہ کیاہو، اجتماعی تاریخ کا کوئی بھی انصاف پسند انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کے اخلاق وقوانین میں انسانی جان کی حرمت وکرامت قائم کرنے کا جو فخر مذہبِ اسلام کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے ادیان ومذاہب کو حاصل نہیں۔
          غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ بھی کہا گیا، ایسے ہی ﴿مَنْ قَتَلَ نَفْساً فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ اس کے ساتھ ﴿بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ﴾ بھی کہا گیا، یہ نہیں کہ کسی بھی جان کو کسی بھی حال میں قتل مت کرو، اگر ایسا کہا جاتا ، تو یہ عدل کے بالکل خلاف ہی نہیں؛ بلکہ حقیقی ظلم ہوتا، دنیا کو اصل ضرورت اس بات کی نہ تھی کہ انسان کو قانونی گرفت سے بالکل آزاد کردیاجائے کہ جتنا چاہے، جہاں چاہے، جب چاہے فساد برپا کرے، جس قدر چاہے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، جس کو چاہے اور جب چاہے بے آبرو کرکے اس کی عزت وآبرو کا جنازہ نکال دے اور ان تمام کے باوجود اس کی جان محترم ہی رہے؛ بلکہ اصل ضرورت یہ تھی کہ دنیامیں امن وامان کی خوش گوار فضا قائم کی جائے اور ایک ایسا منظم دستورالعمل تیار کیاجائے، جس کے تحت ہر فرد اپنی حدود میں آزاد رہے اور کوئی شخص اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے، اس غرض کے لیے ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ کی محافظ قوت درکار تھی ورنہ امن کی جگہ بدامنی ہوتی۔

قتل حق اور قتل ناحق اور قتل بغیر الحق کا فرق

          قتل ناحق کی ایسی سخت ممانعت اور قتل حق کی ایسی سخت تاکید کرکے شریعت ِ اسلامیہ نے افراط وتفریط کی راہوں کے درمیان عدل وتوسط کی سیدھی راہ کی طرف ہماری راہ نمائی کی ہے، ایک طرف وہ مُسرف اور حد سے تجاوز کرنے والا گروہ ہے، جو انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں سمجھتا اور دوسری طرف وہ غلط فہم اور کورچشم گروہ ہے، جو انسانی خون کی دائمی حرمت کا قائل ہے اور کسی صورت میں بھی اسے بہانا جائز نہیں گردانتا،اسلام نے ان دونوں غلط خیالوں کی تردید کردی اور اس نے یہ تعلیم دی کہ انسانی نفس کی حرمت نہ تو ابدی اور دائمی ہے اور نہ اس کی قدر وقیمت اس قدر ارزاں اور سستی ہے کہ نفسانی جذبات کی تسکین کی خاطر اسے ہلاک کردینا جائز ہو؛ مگر جب وہ سرکشی اختیار کرکے حق پر دست درازی کرتاہے، تو اپنے خون کی قیمت کو کھودیتا ہے، پھر اس کے خون کی قیمت اتنی بھی نہیں رہ جاتی جتنی کہ پانی کی قیمت ہوتی ہے۔

جنگ ایک اخلاقی فریضہ

          جب کوئی جماعت سرکشی پر اتر آتی ہے، تو وہ کوئی ایک فتنہ نہیں ہوتا، جو وہ برپا کرتی ہو؛ بلکہ ان میں طرح طرح کے شیطان صفت انسان بھی شامل ہوتے ہیں اور ہزاروں طرح کے فتنے ان کی بدولت وجود پذیر ہوتے ہیں، ان شیطانوں میں سے تو بعض طمع وحرص کے پجاری ہوتے ہیں جو غریب قوموں پرڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان کے خون پسینہ سے کمائے ہوئے روپیوں پیسوں کو اپنی عیارانہ چالوں سے لوٹتے ہیں اور پھر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، عدل وانصاف کو مٹاکر جور وجفا کے علَم کو بلند کرتے ہیں، ان کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں، تو ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں؛ بلکہ فرض ہوجاتی ہے، اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالم بھیڑیوں کے خون سے صفحہٴ ہستی کے سینے کو سرخ کردیا جائے اور ان مفسدوں کے شر سے اللہ کے مظلوم وبے کس بندوں کو نجات دلائی جائے، جو شیطان کی امت بن کر اولادِ آدم پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں، وہ لوگ انسان نہیں؛ بلکہ انسانوں کی شکل وصورت میں درندے اورانسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں، جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی ہے کہ ان کو صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے، ایسے وقت میں ہر سچے، بہی خواہ انسانیت کا اولین فرض ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائے اور اس وقت تک آرام نہ کرے، جب تک کہ خدا کی مخلوق کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ مل جائیں۔

جنگ کی حکمت ومصلحت

          جنگ کی مصلحت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکیمانہ انداز میں بیان فرمایا ہے کہ : ﴿وَلَوْلاَ دَفَعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّ صَلَوٰاتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً﴾ (الحج:۴۰): ”اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا، تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیاجاتا ہے، مسمار کردیے جاتے۔“
          جنگ کی اسی مصلحت کو ایک دوسری جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ: ﴿وَلَوْلاَ دَفَعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ﴾ (البقرہ:۲۵۱) ترجمہ: ”اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا، تو زمین فساد سے بھر جاتی؛ مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ (کہ وہ دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)

جہاد فی سبیل اللہ

          یہی فساد وبدامنی ظلم وجبر کی جنگ ہے، جس کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ o الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلاَّ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ﴾ (الحج:۳۹-۴۰) ”جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے؛ کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ یہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتے تھے“ اس کے اندر جن لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، ان کا جرم یہ نہیں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ ایک دوسرے مذہب کے پیروکار ہیں؛ بلکہ ان کا جرم واضح انداز میں یہ بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ظلم کرتے ہیں، لوگوں کو بے قصور ان کے گھروں سے نکالتے ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف صرف مدافعتی جنگ کا حکم نہیں دیاگیا؛ بلکہ دوسرے مظلوموں کی اعانت کا بھی حکم دیاگیا اور تاکید کی گئی کہ کمزور و بے بس لوگو کو ظالموں کے پنجوں سے چھڑاؤ۔

حق وباطل کی حد بندی

          پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کی اہمیت وضرورت کو ظاہر کرنے کے بعد یہ تصریح بھی فرمادی : ﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْآ اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ج اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفاً﴾ (النساء:۷۶) ”جو لوگ ایمان دار ہیں، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر وسرکش ہیں وہ ظلم وسرکشی کی خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑوکہ شیطان کی تدبیر لچر ہوتی ہے“ یہ ایک قولِ فیصل ہے، جس کے اندر حق وباطل کے درمیان خط کھینچ دی گئی ہے کہ جو لوگ ظلم وسرکشی کے لیے جنگ کریں گے، وہ شیطان کے حامی ہیں اور جولوگ ظلم کو مٹانے کے لیے جنگ کرتے ہیں، وہ راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔

جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت

          یہی وہ جہاد ہے، جس کی فضیلت سے قرآن وحدیث کے صفحات بھرے پُرے ہیں، یہی وہ حق پرستی کی جنگ ہے، جس میں ایک رات کا جاگنا ہزار راتیں جاگ کر عبادت کرنے سے بڑھ کر ہے، جس راہ میں غبار آلود ہونے والے قدموں سے وعدہ کیا گیاہے کہ ان کو جہنم کی آگ کی طرف نہیں گھسیٹا جائے گا۔

جہاد کی فضیلت کی وجہ

          جہاد فی سبیل اللہ کی اتنی فضیلت اور تعریف کس لیے ہے؟ اس جہاد سے دنیا کی دولت اور ملک گیری مقصود نہیں ہے، تو آخر اللہ تعالیٰ اس کے عوض بڑے بڑے درجے کیوں دے رہے ہیں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلایا جائے، اسے یہ برداشت نہیں ہے کہ اس کے بندوں کو بے قصور تباہ وبرباد کیا جائے، پس جو گروہ بغیر کسی حرص وطمع کے محض خدا کی رضا کی خاطر دنیا کو اس فتنہ سے پاکر کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے اور اس نیک کام میں اپنا سب کچھ قربان کردے، اس سے زیادہ اللہ کی محبت، اللہ کی رضا مندی کا مستحق کون ہوسکتا ہے؟ اس مضمون کے اندر اسی فضیلت وحقیقت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نیکی کے قیام و بقا کے لیے سب سے اہم چیز اس کی حفاظت کرنے والی سچی قربانی کی روح ہے اور جس قوم سے یہ روح نکل جاتی ہے، وہ بہت جلدبدی سے مغلوب ہوکر تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔
***


حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ ، وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ ، بِعِزِّ عَزِيزٍ ، أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ ، عِزًّا يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ ، وَذُلًّا يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ " ، وَكَانَ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ ، يَقُولُ : قَدْ عَرَفْتُ ذَلِكَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ الْخَيْرُ ، وَالشَّرَفُ ، وَالْعِزُّ ، وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ كَانَ مِنْهُمْ كَافِرًا الذُّلُّ ، وَالصَّغَارُ ، وَالْجِزْيَةُ .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ » حَدِيثُ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ ... رقم الحديث: 16614]




اسلام کا اسیروں کی آزادی کا معاوضہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیر کنندگان کو خود ادا کیا ، پھر اکثر اسیروں کو خلعت اور انعام سے نواز کر رخصت کیا ۔ان جملہ نظائر سے اسلام کے حملہ آور دشمنوں اور قابویافتہ قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحم وکرم کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔

          آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ خلفائے راشدین کے عہد میں جب کہ عراق ، مصر ، شام ، ایران اور خراسان، جیسے بڑے اور متمدن علاقے فتح ہوئے ؛ لیکن کسی بھی جگہ حملہ آور یا جنگ آزما رعایا میں سے کسی کو لونڈی ، غلام بنانے کا ذکر نہیں ملتا ؛ بلکہ مغلوب دشمن سے تاوانِ جنگ لینے کا ذکر بھی درج نہیں ہے (رحمة للعالمین : ۱/۲۱۲)
          مذکور ہ بالا تحریر کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا قانونِ جنگ امن وعافیت کا ضامن ہے ، سسکتی ، بلکتی اور تڑپتی انسانیت کو اگر کوئی جائے پناہ اور موقع نجات مل سکتا ہے تو اسلامی تعلیمات کے زیرِ اثر ، ورنہ یہ خوف او راندیشوں کے سائے انسانیت کا یوں ہی پیچھا کرتے رہیں گے ۔
***




قتال فی سبیل الله کا فلسفہ
﴿وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ، وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِیْنَ، فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ، وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّہِ فَإِنِ انتَہَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْن﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:193-190)
اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو،بے شک اللہ تعالیٰ ناپسند کرتاہے زیادتی کرنے والوں کواور مار ڈالو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا اور دین سے بچلانا مار ڈالنے سے بھی زیادہ سخت ہے اور نہ لڑو ان سے مسجد الحرام کے پاس، جب تک کہ وہ نہ لڑیں تم سے اس جگہ، پھر اگر وہ خود ہی لڑیں تم سے تو ان کو مارو، یہی ہے سزا کافروں کیپھر اگر وہ باز آئیں توبے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہےاور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد اور حکم رہے خداتعالیٰ ہی کا،پھر اگر وہ باز آئیں تو کسی پر زیادتی نہیں، مگر ظالموں پر

ربط:علامہ رازی رحمہ الله اس آیت کا ربط بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں، گزشتہ آیات میں مسلمانوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا، ان آیات میں تقوے کی سب سے اعلیٰ قسم جو نفس پر انتہائی شاق گزرتی ہے، اسے بیان کیا جارہا ہے ،وہ ہے الله کی راہ میں الله تعالیٰ کے دشمنوں کو قتل کرنا، اس لیے حکم دیا جارہا ہے الله کی راہ میں قتال کرو۔(التفسیر الکبیر، البقرہ، ذیل آیت:190)

شان نزول
ذوالقعدہ 6ھ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے قصد سے اپنے ہم را ہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت لے کر نکلے،لیکن مشرکین مکہ(جو اس وقت تک مکہ پر قابض تھے)نے مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی سے روک دیا اور جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے۔بالآخر معاہدہ کے ذریعے طے پاگیا کہ اس سال مسلمان بغیر عمرہ کیے واپس مدینہ چلے جائیں گے اور آئندہ سال آکر عمرہ کریں گے۔

پھر جب ذوالقعدہ 7ھ میں معاہدہ کی رو سے مسلمان عمرے کی غرض سے مکہ مکرمہ جانے لگے تو یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر کفار مکہ اس سال معاہدے کا پاس نہ رکھتے ہوئے آمادہ پیکار ہوگئے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اگر قتال کریں تو محترم مہینے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب کی بے حرمتی اور حدود حرم کی بے حرمتی لازم آئے گی ہے۔ اور اگر قتال کا جواب قتال سے نہ دیں تو یہ خلاف حکمت ہو گا، مسلمانوں کی اس پریشانی میں الله تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا۔

تفسیر: الله کی راہ میں قتال کرنے کا حکم
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ :یعنی لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور حد سے تجاوز نہ کرو۔

اس آیت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر مشرکین محترم مہینوں کی حرمت پامال کرتے ہوئے تم سے جنگ کریں تو تم بھی ان سے لڑو، لیکن تمہاری یہ لڑائی اغراض نفسانیہ کے لیے نہیں، بلکہ خالص رضائے الہٰی کے لیے ہونی چاہیے اور ا س کا بھی خاص خیال رکھو کہ تم حد سے تجاوز نہ کرو۔

حد سے تجاوز کرنے کا مفہوم اکثر مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ جو لڑائی میں شریک ہو اسی سے لڑو اور جو لڑائی سے الگ تھلگ ہو اس سے مت لڑو۔ یعنی راہبوں،(جو جنگ سے کنارہ کش رہتے ہیں)بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو، کیوں کہ وہ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جنگ کی اطلاع کیے بغیر حملہ نہ کرو، لاشوں کا مثلہ نہ کرو، بغیر کسی جنگی مصلحت کے درختوں کو نہ جلاؤ، حیوانات کو قتل مت کرو، مال غنیمت میں خیانت مت کرو، عہد شکنی نہ کرو۔ عورتیں ، بچے، بوڑھے اگر لڑائی میں شریک ہوں یا لشکریوں کو لڑائی پر ابھارتے ہوں اور اپنے لشکر کو فرار پر عار دلاتے ہوں تو ان کا قتل بھی جائز ہے۔ (احکام القرآن للقرطبی البقرہ ذیل آیت:190) بعض مفسرین نے ”وَلاَ تَعْتَدُواْ“ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے۔ صرف رضائے الہی کے لیے لڑو، قومیت، عصبیت اور شہرت کے لیے نہ لڑو۔ (ایضاً) بعض متقدمین نے اس آیت کو جہاد کی اجازت پر نازل ہونے والی پہلی آیت قرار دیا ہے (تفسیر ابن کثیر، البقرہ، ذیل آیت:190) لیکن جمہور علماء کے نزدیک اجازت قتال کی پہلی آیت سورة حج کی آیت نمبر(39) ہے۔

کفار سے قتال کرنا عقل سلیم کا تقاضا ہے
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز کا خالق ومالک الله تعالی کی ذات ہے، بادشاہی صرف اسی کی ہے، حکم صرف اسی کا چلتا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ خوشی ناخوشی اسی کے حکم کے سامنے نیاز جبین جھکائے ہوئے ہے ،تاہم الله تعالیٰ نے انس وجن کو اپنے احکام کا مکلف بنانے کے بعد بطور امتحان تصدیق وتکذیب کا اختیار بھی دے رکھا ہے، تصدیق کرنے والے اہل ایمان کہلاتے ہیں ، تکذیب کرنے والے اہل کفر کہلاتے ہیں ۔ اہل ایمان اپنے خالق ومالک کی بادشاہی کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں، اس کے احکام بجا لاتے ہیں ،اس لیے اہل ایمان اس کائنات کے حقیقی بادشاہ کا وفادار گروہ ہے۔

کفار اپنے خالق ومالک کے احکام کو خاطر میں نہ لا کر آمادہ بغاوت رہتے ہیں ۔ اس لیے یہ غدار اور باغیوں کا گروہ ہے۔ اپنے حقیقی آقا اور بادشاہ بلکہ اپنے خالق ومالک کی غدار ی کرنے والے مجازی بادشاہ کی بغاوت کرنے والوں سے زیادہ مستوجب سزا ہیں۔ دنیا کے مجازی بادشاہ تو اپنے باغیوں سے زندگی کا حق بھی چھین لیتے ہیں ،لیکن الله تعالیٰ کی رحمت عامہ نے ان کے کفر کے حقیقی عذاب کو آخرت پر چھوڑ کر دنیا میں اپنے وفادار گروہ مسلمانوں کے ماتحت زندگی گزارنے اور اپنی نعمتوں سے مستفید ہونے کا حق دیا ہے۔ اگر کفار مسلمانوں سے امان لے کر زندگی نہ گزاریں تو پھر ان کے خون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، چناں چہ فقہائے کرام نے یہ شرعی قاعدہ بیان فرمایا ہے”لِاَنّ دَم الکافرِ لاَ یَتقوّم إلاّ بالْاَ مَانِ“ ․(۱الدر المختار:4/803)

امام شافعی رحمہ الله تعالی کتاب الُامّ میں لکھتے ہیں:
الله تبارک وتعالی نے مؤمن کا خون او رمال حرام کیا ہے، سوائے اس صورت میں کہ وہ مرتد ہو جائے او رکافر کا خون او رمال مباح رکھا ہے، سوائے اس صورت میں کہ وہ جزیہ ادا کرے، یا کچھ مدت کے لیے مسلمانوں سے امان حاصل کر لے۔ ( کتاب الُامّ:1/301)

بلکہ تمام فقہاء نے اس قاعدے کو اپنی فقہی کتب میں بیان کیا ہے۔(دیکھیے،المغنی7/651، کشف القناع5/585، مطالب اولی النّھی 6/280، فتح القدیر4/278)

امان کی تین صورتیں ہیں
1... ذمّی بننا: مسلمانوں کے امیر کو سالانہ مخصوص رقم دے کر اسلامی ملک میں رہائش اختیار کرنا۔ اس کے بدلے میں ذمی کی جان ومال کی حفاظت مسلمانوں کے ذمے ہوجاتی ہے۔
2... مستامن: مسلمان کسی کافر کو کچھ مدت کے لیے پناہ دے۔ اس سے بھی کافر کی جان ومال محفوظ ہو جاتا ہے۔
3... دارالاسلام کا کسی دار الحرب سے دس سال یا اس سے کم مدّت تک کے لیے صلح کا معاہدہ ہو جائے ،اس صورت میں بھی کفارکو امان حاصل ہو جاتی ہے ۔

قتال فی سبیل الله کا فلسفہ
اسلام ایک کامل دین ہے، نظام حیات ہے، جو پوری کائنات کے انس وجن کی تا قیامت راہ نمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے، چوں کہ اس کے مخاطب ہر زمان ومکان کے انسان ہیں او راس کی فطری دعوت سے ہر سلیم الفطرت انسان متاثر ہوتا ہے، اس لیے عالم کفر اس کو پھیلتا پھولتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، جہاں کہیں اسلام کی روشنی پھوٹتی ہے، وہاں ظلمتوں کے رکھوالے فوراً متحرک ہو جاتے ہیں۔آزادی رائے اور آزادی عمل کے علم برداروں کو داڑھی، نماز، برقعے، مساجد اور ان کے مینار بھی ناگوار گزرتے ہیں۔ کفار کی اسی ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے اہل ایمان کو چودہ سو سال پہلے متنبہ فرما دیا ہے:﴿وَلاَ یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتَّیَ یَرُدُّوکُمْ عَن دِیْنِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ﴾․ (البقرہ:217) اور کفار ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے ،یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمہارے دین سے اگر قابو پاویں) چوں کہ یہ امت گم راہی پر جمع نہیں ہو سکتی، اس لیے نہ یہ امت من حیث المجموع ارتداد اختیار کرے گی اور نہ ہی کفار جنگ وجدال ترک کریں گے ، کفار کے غلبے کو ملیا میٹ کرکے ان کے جارحانہ اعمال سے امّت مسلمہ کو محفوظ رکھنے کا راز اقدام میں مضمر ہے۔

اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد
اقدامی جہاد، یعنی از خود جنگ کی ابتدا کرتے ہوئے کافروں کے علاقوں پر حملہ کرنا، یہ فرض کفایہ ہے۔
علامہ شامی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے امام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سال میں ایک دفعہ یا دودفعہ دارالحرب کی طرف لشکر بھیجے اور رعایا کافریضہ ہے اس سلسلے میں امام کا تعاون کرے، اگر امام کوئی لشکر نہیں بھیجتا تو اس کا گناہ امام پر پڑے گا۔“ (ردّالمحتار:3/138)

دفاعی جہاد
اس سے مراد کفار کو مسلمانوں کی مقبوضہ سر زمین سے نکالنے کے لیے جہاد کرنا ہے ۔ یہ جہاد فرض عین ہے ۔ چناں چہ علامہ شامی رحمہ الله فرماتے ہیں:
اگر دشمن اسلامی سرحد پر حملہ آور ہو جائے تو وہاں کے لوگوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ، اسی طرح اس کے قرب جوار کے مسلمانوں پر بھی جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ، البتہ جو لوگ ان سے فاصلے پر دشمنوں سے دور رہتے ہوں، جب تک ان کی ضرورت نہ پڑے، مثلاً مقامی مسلمان دشمن کے سامنے بے بس ہو جائیں، یا سستی کی وجہ سے جہاد کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوں تو اس صورت میں اس علاقے کے قرب وجوار کے لوگوں پر جہاد نماز اور روزے کی طرح فرض عین ہو جاتا ہے، پھر اس کا دائرہ اس کے بعد والے علاقوں تک حسب ضرورت پھیلتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسی طرح سے مشرق ومغرب میں رہنے والے ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔“ (رد المحتار3/238)

وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ
گزشتہ آیت میں قتال کی اجازت دے کراب حکم دیا جارہا ہے کہ مشرکین سے حرم میں بھی قتال کرو۔ (التفسیر الکبیر، البقرہ، ذیل آیت:191)

پھرجہاں ان کو پاؤ قتل کرو اور سرزمین حرم سے بھی انہیں نکال باہر کرو ،جیساکہ انھوں نے تمہیں ہجرت پر مجبور کیا تھا ،کیوں کہ یہ لوگ الله کی بندگی سے روکنے اور شرک جیسے فتنے میں ملوّث ہیں،پس کفار کا زور آور ہونا، طاقت ور ہونا، تمہارا انہیں قتل کرنے اور جلا وطن کرنے سے زیادہ مضر ہے۔ لہٰذایہ مت سوچو کہ قتل کرنا اتنی بڑی بات ہے، اشہر حرم میں کیسے کریں؟

حرم میں قتال کی اجازت تب ہے جب یہ حرم میں پہل کریں، یا حرم سے باہر نکلنے پر آمادہ نہ ہوں۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله تعالی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

کفار کے ساتھ جب کہ شرائط جواز کے پائے جائیں ابتداءً قتال ( یعنی اقدامی جہاد) شروع کرنا درست ہے ۔

جزیرہ عرب کے اندر جس میں حرم بھی آگیا، کفار کو وطن بنانے کی اجازت نہیں، اگر بزور رہنا چاہیں تو غیر حرم میں تو قتال کرکے بھی دفع کرنا جائز ہے۔

جمہور ائمہ دین کا اجماع ہے کہ”اشھر حرم“ ( محرم، رجب ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ) میں قتال جائز ہے اور جن آیات سے ممانعت معلوم ہوتی ہے وہ منسوخ ہیں، لیکن افضل اب بھی یہی کہ ” اشھر حرم“ میں ابتدا بالقتال نہ کرے۔

کفار عرب اگر اسلام نہ لاویں تو ان کے لیے صرف قتل کا قانون ہے، اگر وہ جزیہ دینا چاہیں تو نہ لیاجاوے گا۔ (بیان القرآن، البقرة، ذیل آیت:191)

﴿فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾ اگر کفار شرک وکفر سے باز آجائیں او رایمان قبول کر لیں تو ان کے سابقہ کرتوتوں کو نظر انداز کیا جائے گا، ان کے قبول ایمان کی قدر کی جائے گی”انتَہَوْاْ“ جنگ سے باز آجانا کافی نہیں، بلکہ کفر وشرک سے باز آجائیں تب مغفرت ورحمت کے مستحق ہوں گے۔

جہاد کا حکم تا قیامت باقی ہے
﴿وَقَاتِلُواہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ﴾ چوں کہ جزیرہ عرب کے بارے میں یہ مقرر ہو چکا کہ یہ تمام عالم اسلام کا محور و مرکز ہوگا، اب یہاں سجدہ کیا جائے گا تو صرف حاکم اعلیٰ ہی کو،پکارا جائے گا تو صرف رب لا شریک ہی کو ، اگر کوئی کلمہ پڑھا جائے گا تو وہ صرف اسلام ہی کا پڑھا جائے گا۔لہٰذا اب یہ خطہ شرک و کفر کی غلاظت کا متحمل نہیں ہو سکتا ،پس کفار سے لڑو یہاں تک کہ شرک ان علاقوں میں نہ رہے اور دین صرف اللہ کا رہے۔(کذافی روح المعانی :البقرة:193)

چناں چہ کفار عرب کے لیے دو ہی راستے رہ گئے تھے یا تو وہ اپنے کفر و شرک سے باز آکر قبول اسلام کی راہ اپنائیں ،اس صورت میں ان پر اسلام کی طرف سے کوئی سختی نہیں، بلکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کے بھائی ہیں،یا پھرمقتول ہونا پسند کریں ۔تیسرا راستہ(یعنی اپنے کفر و شرک پر قائم رہتے ہوئے اسلامی حکومت کو جزیہ ادا کرکے مسلمانوں کی ماتحتی میں بھی رہنے کی اجازت نہیں ہے) یہ حکم مشرکین عرب کے ساتھ مخصوص ہے۔

”وَاقْتُلُوہُمْ“ میں ”ہُمْ“ کی ضمیر کس کی طرف راجع ہے ؟اس سے مطلق کفار بھی مراد ہو سکتے ہیں، مشرکین عرب بھی۔ تابعین کی اکثریت اور فقہائے احناف نے اس ضمیر کا مرجع مشرکین کو قرار دیا کہ ان کے لیے اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔ اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو پھر جزیرہ عرب میں شرک کے خاتمے تک ان سے قتال کرو ۔ اس صورت میں”فِتْنَة“ سے شرک مراد ہو گا۔

علامہ قرطبی رحمہ الله نے سورة انفال کی آیت :﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّیْن لِلّہِ﴾․ (انفال:39) کی طرح اس آیت میں بھی ”ھم“ سے مطلق کفار مراد لیے ہیں۔ سورة انفال کی مذکورہ آیت میں مطلق کفار سے قتال کے حکم سے علامہ جصاص رحمہ الله نے ہر قسم کے کافروں سے قتال کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، الانفال ذیل آیت:39) اس صورت میں”فِتْنَة“ سے کفار کا غلبہ، ان کی شان وشوکت مراد ہو گی، یعنی کفار کی شان وشوکت توڑنے تک ان سے قتال جاری رکھو، کیوں کہ کفار کی شان وشوکت، ایک عظیم فساد ہے اور دنیا کو فساد سے پاک کرنا اسلام کا مقصد ہے۔

لیکن علامہ آلوسی رحمہ الله اس صورت میں ایک اور توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ”ھم“ کی ضمیر کا مرجع عام کفار ہیں اور ”فِتْنَة“ سے کفرو شرک ہی مراد ہے، دنیا سے شرک وکفر حضرت مہدی  عليه السلام کے ظہور کے بعد ختم ہو گا۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ ظہور مہدی تک کفار سے قتال جاری رکھو۔ (روح المعانی، الانفال: ذیل آیت39)

﴿الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ،وَأَنفِقُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن﴾․(سورہ بقرہ، آیت195-941)

حرمت والا مہینہ بدلہ (مقابل) ہے حرمت والے مہینے کا اور ادب رکھنے میں بدلہ ہے، پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے زیادتی کی تم پر اور ڈرتے رہو الله سے اور جان لو کہ الله ساتھ ہے پرہیز گاروں کے اور خرچ کرو الله کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو، بے شک الله دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو

تفسیر
﴿الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَام﴾یعنی حرمت والے مہینے بدلہ ہیں، ان حرمت والے مہینوں کا جو حدیبیہ کے سال گذر چکے، ان مہینوں میں کفار نے ان کی حرمت کوپامال کیا اور جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے تھے،لہٰذا ان کے بدلے مسلمانو! تم بھی اس سال ان مہینوں کی حرمت کا خیال لا کر مت گھبرانا بلکہ انہیں لڑائی کا پورا پورا جو اب دینا، یہ حرمتیں تو عوض اورادلا بدلا کی چیزیں ہیں ۔اگر فریق مخالف (کفار)ان کا احترام کرتے ہوئے جنگ بندی کریں تو تم بھی ایسا کرو، ورنہ انہیں منھ توڑ جواب دینے میں کسی قسم کا تامل نہ کرو۔یعنی اگر وہ تم پر زیادتی کریں تو تم بھی ان پر اسی طرح زیادتی کرو جیسی انھوں نے کی اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔

قتال فی سبیل الله کے لیے مال بھی خرچ کرو
﴿وَأَنفِقُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ﴾ جہاد و قتال کے ذکر کے بعد مناسب تھا کہ مسلمانوں کو اس عمل میں خرچ کرنے پر ابھارا جائے، کیوں کہ یہ جہاد ہی ایک ایسا فریضہ ہے، جس کے ذریعے دین اسلام کا دفاع ممکن ہے، لہٰذا فرمایا اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور انفاق مال سے کنارہ کشی اختیار کر کے خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو، کیوں کہ بظاہر تو خرچ کرنے سے کنارہ کشی میں مال محفوظ نظر آتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ ہلاکت ہے، اس لیے کہ اگر مجاہدین کو خرچ نہ ملا تو وہ کمزور ہوں گے ،ان کی کمزوری کی وجہ سے کفار ان پر اور پھر تمام بلاد اسلامیہ پر چڑھ دوڑیں گے اور فساد پھیلا ئیں گے، پس یہ ہلاکت قتال فی سبیل الله میں مال خرچ نہ کرنے کی وجہ سے پیش آئے گی۔

جہاد سے متعلق چنداحکام
ابتداء بالقتال:کفار کے ساتھ ابتداًقتال شروع کرنا درست ہے، بشرطیکہ جواز کی شرائط پائی جائیں اور شرائط جواز کتب فقہ میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ آیت میں جو ابتداءً قتال شروع کرنے کی ممانعت ہے وہ صرف اس وقت پیش آمدہ خاص حالات کی وجہ سے ہے کہ اس وقت مسلمان صرف عمرہ کرنے جارہے تھے، حرمت والے مہینے تھے اور کفار کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ بھی تھا۔

لہٰذا معاہدہ کی حالت میں اب بھی ابتدائے قتال درست نہیں، ہاں! اگر کسی خاص مصلحت کی وجہ سے معاہدہ برقرا رکھنا درست معلوم نہ ہو تو صاف اطلاع کی جائے کہ ہم وہ معاہدہ برقرارنہیں رکھتے، پھر قتال جائز ہے۔اور اگر کفار خود ہی معاہدہ کا پاس نہ رکھتے ہوئے معاہدہ توڑ ڈالیں تب بھی ان سے قتال درست ہے۔چناں چہ جب کفار مکہ نے اس عہد کو توڑ ڈالا تو ان سے قتال کیا گیا، یہاں تک کہ مکہ فتح ہو کر دارالاسلام ہوگیا۔ (مأخوذاز بیان القرآن :البقرہ:190)

جزیرہ عرب میں کفار کی رہائش
جزیرہ عرب، جس میں حرم بھی داخل ہے، میں کفار( یہود ونصاری، دہریے اور مشرکین) کو وطن بنانے کی اجازت نہیں اور اگر زبر دستی وہاں قیام کریں تو قتال کر کے انہیں وہا ں سے نکالنالازمی ہے، یہ تو جب ہے کہ وہ حرم سے باہر ہوں۔ (کذافی ردّالمحتار:مطلب فی احکام الکنائس والبیع:دارالفکر بیروت 41/2)

لیکن اگر کافر یا کوئی مجرم حرم میں ہو تو اولاً ان سے قتال نہ کیا جائے، بلکہ بغیر قتال کے کوئی تدبیر ایسی اختیار کی جائے کہ وہ خود حرم سے نکل آئیں، پھر انہیں گرفتار یاقتل کیا جائے ،لیکن اگر وہ اس طرح نہ نکلیں اور آمادہ قتال ہو جائیں تو اس وقت ان سے قتال کرنا بھی جائزہے۔(کذافی الدُر المختار:کتاب الحج، 9/165) اور آیت میں جوجزیرہ عرب میں رہائش پذیر کفار سے ابتدائے قتال کی ممانعت ہے، یہ اس حکم سے پہلے کا ہے، کیوں کہ کفار کو جزیرہ عرب سے نکالنے کا حکم بعد میں نازل ہوا۔

کفارِ عرب اگر اسلام قبول نہ کریں تو انہیں صرف قتل کیا جائے گا، اگروہ جزیہ دینا چاہیں تب بھی ان سے نہیں لیا جائے گا۔(کمافی رد المحتار:مطلب:بیان معنی الغنیمة والفیٴ 4/139 ،دارالفکر بیروت)



Add caption



Add caption

























==============================================


فضائل جہاد و چہل احادیث
جہاد کے فضائل ومسائل سے متعلق رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی روایات حدیث اس کثرت سے منقول ہوئی ہیں کہ ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہو جائے ۔ اس جگہ ان میں سے صرف چالیس حدیثیں پیش کی جاتی ہیں ۔ اس عدد میں ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں یاد کرکے میری امت کو پہنچا دے ، اس کا حشر قیامت کے دن علمائ مقبولین کے ساتھ ہوگا ۔ اس برکت کو لکنھے والا بھی حاصل کرسکتا ہے اور اس کو چھاپ کر شائع کرنے والابھی ۔

حدیث نمبر 1 :۔

عن معاذ ا بن جبل فی حدیث طویل قال قال رسول صلی الله علیه وسلم رأس الامر الاسلام وعمودہ الصلوٰۃ وذروۃ سنا مه الجهاد۔ ( رواہ احمد والترمذی از مشکوٰۃ )

ترجمہ :۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (عنہم) ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ''اصل کام اسلام ہے اور اسلام کا عمود جس پر اس کی تعمیر قائم ہے ، نماز ہے اور اس کا اعلی مقام جہاد ہے"۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی عزّت وقوت جہاد پر موقوف ہے ۔ جب وہ جہاد چھوڑدیں گے ، ذلیل اور کمزور ہوجائیں گے ۔

حدیث نمبر 2:۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم مثل المجاھدین فی سبیلاللہ کمثل الصائم القائم القانت بآیات اللہ لا یفتر من صیام ولا صلوٰۃ حتٰی یرجع المجا ھدین فی سبیل اللہ ۔( بخاری ومسلم )

ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے لیے جہادکرنیوالے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مسلسل روزے رکھتا رہے اور رات بھر تہجد کی نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے ۔ نہ کسی دن روزہ میں سستی کرے اور نہ کسی رات نماز میں ، اور مجاہد کو یہ فضلیت اس وقت تک برابر حاصل رہے گی جب تک وہ لوٹ کر اپنے گھر نہ آجاوے ۔

حدیث نمبر 3:۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال مر رجل من اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بشعب فیہ عینیۃ من مأ عذبۃ فاعجبتہ فقال لوا عترلت الناس فا قمت فی ھذا الشعب فذکر ذٰلک لر سول صلی اللہ علیہ وسلم فقال لا تفعل فان مقام احدکم فی سبیل اللہ افضل من صلوٰۃ فی بیتہ سبعین عاماً الا تحبون ان یغفر اللہ لکم ویدخلکم الجنۃ اغزو فی سبیل اللہ من قاتل فی سبیل اللہ فواق ناقۃ وجبت لہ الجنۃ ( ترمذی )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ایک پہاڑی درہ میں ایک چشمہ پر پہنچے چشمہ میٹھا اور صاف دیکھ کر ان کو پسند آیا اور دل میں کہا کہ یہ جگہ عبادت کے لیے بہت اچھی ہے۔ میں لوگوں سے الگ ہو کر یہیں قیام کرلوں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس نے خیال کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ''ایسا نہ کرو! اس لیے کہ ایک شخص کا اللہ کے راستہ ( جہاد میں کھڑاہونا اپنے گھر میں رہ کر ستر سال کی نماز سے بہتر ہے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ۔ جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے تھوڑی دیر بھی ، اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔''

فائدہ :۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ضرورت کے وقت خلوت میں بیٹھ کرعبادت کرنے سے جہاد میں حصہ لینا بدرجہا بہتر ہے۔

حدیث نمبر 4:۔

عن ابی ا مامۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) والذی نفس محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ لغدٰوۃ اوروحۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما فیھا ولمقام احدکم فی الصف خیر من صلوتہ ستین سنۃ ( رواہ احمد )

ترجمہ :۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ، اللہ کے راستہ ( جہاد میں ایک مرتبہ صبح یا شام کو نکلنا ساری دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بدر جہا بہتر ہے اور ایک شخص کا جہاد صف میں کھڑا ہونا گھر میں بیٹھ کر ساٹھ برس کی نمازوں سے بہتر ہے۔

حدیث نمبر 5:۔

عن عبداللہ بن عمروان رضی اللہ عنہ (عنہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال قفلۃ کغزوۃ ( رواہ ابوداؤد)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ جہاد سے واپسی کے سفر میں بھی وہی ثواب ملتاہے جوجہاد کے لیے جانے کے وقت ملتا ہے۔
حدیث نمبر 6 :۔

وعن ابی موسی رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ابواب الجنۃ تحت ظلال السیوف ، فقام رجل رث الھئیۃ فقال یا اَبا موسیٰ انت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ھذا قال نعم فرجع الیٰ اصحابہ فقال اقرأ علیکم اسلام ثم کسر جفن سیفہ فالقاہ ثم مشیٰ بسیفہ الی العدو فضرب بہ حتیٰ قتل ۔۔۔۔۔ (رواہُ مسلم )

ترجمہ :۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (عنہم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کے دروازے تلواروں کے سایہ میں ہیں ۔ یہ سن کر ایک خستہ حال آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے ابو موسٰی ! آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد سنا ہے ؟ انھوں نے فرمایہ کہ ہاں ! یہ شخص فوراً اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا اور ان کو آخری سلام کیا اور اپنی تلوار کی میان توڑ کر پھینک دی۔ننگی تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑا اور مسلسل لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا۔

حدیث نمبر7 :

وعن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال عرض علی اول ثلثہ یدخلون الجنۃ شھید وعضیف متعفف وعبد احسن عبادۃ اللہ ونصح لموالیہ (رواہ الترمذی)

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے وہ تین آدمی پیش کئے گئے (غالباً شبِ معراج میں) جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اول شہید فی سبیل اللہ۔دوسرے وہ متقی پرہیزگارجوکوشش کرکے ہر گناہ سے بچتا ہے۔ تیسرے وہ غلام جس نے اللہ تعالٰی کی عبادت بھی خوب کی اور اپنے آقاؤں کی خدمت وخیرخواہی میں بھی کوتاہی نہیں کی۔

حد یث نمبر 8 :

عن عبد اللہ بن حبشی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ای الا عمال افضل قال طو ل القیام قیل فای الصد قتہ افضل قال جھد المقل قیل فا ی الھجر ت ا فضل قال من ھجر ما حرم اللہ علیہ قیل فا ی الجھاد افضل قال من جاھد المشر کین بمالہ و نفسہ قیل فا ی القتل اشرف قال من اھریق دمہ و عقر جوا دہ (رواہ ابو دؤد)

تر جمہ: نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوا ل کیا گیا کہ عبا دت میں سب سے افضل کو ن سا عمل ھے ؟ فرما یا کہ (نفل نما ز میں) طو یل قیا م۔پھر سوا ل کیا گیا کہ صدقہ کو نسا افضل ہے؟تو آپ نے فر مایا کہ مفلس آدمی جو اپنی مزدو ری میں سے خرچ کرے ۔ پھر سوال کیا گیا کہ ہجرت کونسی افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا اس شخص کی ہجرت افضل ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑدے جس کواللہ نے حرام کیا ہے ۔

پھر سوال کیا گیاکہ جہاد کون سا افضل ہے؟تو فرمایا جس نے اپنی جان اور مال کے ساتھ مشرکین سے جہاد کیا۔پھر سوال کیا گیا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا کون سا افضل واشرف ہے؟تو فرمایا کہ جس شخص کا اپنا بھی خون بھا دیا گیا اور اس کا گھوڑا بھی مار دیا گیا۔

حدیث نمبر9 :

عن کعب بن مرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) فی حدیث مرفوع من بلغ العدو بسھم رفعہ اللہ بہ درجہ قال ابن النجار یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما الدرجہ؟ قال أما انھالیست بعتبۃ امّک ولکن بین الدرجتین مائۃ عام ( رواہ النسانی)

ترجمہ:۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یاکہ جو شخص دشمن کو ایک تیر مارے گا تو اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کے درجات میں ایک درجہ کا اضافہ فرمادیں گے ۔ ابن بخار رضی اللہ عنہ (عنہم) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! درجہ سے کیا مراد ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے ! درجہ کا مطلب تمھاری ماں کی دہلیز ہونے سے تو رہا ، نلکہ دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے ۔

حدیث نمبر 10 :

وعن انس رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم لغدوۃ فی سبیل اللہ وروحۃ خیر من الدنیا وما فیھا ۔( مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک صبح کو اللہ کی راہ میں نکلنا اور ایک شام کو اللہ کی راہ میں (جہاد) میں نکلنا ساری دنیا اور اسکی تمام دولتوں اور نعمتوں سے بہترہے ۔

حدیث نمبر 1 1 :۔

عن ابی سعید رضی اللہ عنہ (عنہم) ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعث بعثانی بنی لحیان من ھذیل فقال لیبعث من کل رجلین احدھما والاجر بینھما ( رواہ مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاھدین کا ایک لشکر قبیلہ ہذیل کی شاخ بنی لحیان کے مقابلے کے لیے بھیجا اور جہاد کے لیے نکلنے والے صحابہ کرام کو یہ حکم دیا کہ ہر دو مردوں میں سے ایک مرد جہاد کے لیےجائے ، ایک گھر کی ضرویات وغیرہ کے لیے یہا رہ جائے اور اس طرح کرنے سے جہاد کا ثواب دونوںمیں مشترک ہو جائے گا۔''

شہری دفاع کی خدمت بھی جہاد ہی ہے

اس حدیث سے معلو م ہوا کہ جہا د صر ف محا ذجنگ پر جا کر لڑ نے ہی کا نام نہیں، جو لو گ اپنے اور دوسر ے مسلما نو ں کے گھروں کی حفا ظت کے قصدسےشھر میں رہ جائیں وہ بھی مجاھد ہیں۔ کیونکہ محاذ پر لڑنے والے سپاہیوں کی وہ امداد کر رہے ہیں کہ ان کے اہل و عیال اور گھر بار کی حفاظت کر کے ان کو بے فکر کر دیا ہے۔ہمارے ملک میں شہری دفاع کی خدمت انجام دینے والے جو بھی خدمت انجام دیتے ہیں وہ بھی اللہ کے نزدیک مجاہدین کے حکم میں ہیں۔

جہادکی نیّت

حدیث نمبر 12:۔

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یکلم احد فی سبیل اللہ واللہ یعلم من یکلم فی سبیل اللہ الاجاء یوم القیامۃ و جرحہ یثعب وما اللون لون الدم والریح ریح المسک ( بخاری، مسلم)

ترجمہ: رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی ہو جائے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا ہے،تو وه قيامت كے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہ رہا ہوگا۔وہ صورت میں تو خون ہوگا مگر اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔
فائدہ:اس حدیث میں جو یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا۔اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس شخص کی نیت ،نام و نمود اور شہرت کی یا کسی اور دنیوی مفاد کے لیے لڑنے کی ہو اور زخمی ہو جائے،وہ اللہ کی راہ میں زخمی نہیں ہوا۔اس کو یہ فضیلت نہیں ملےگی بلکہ یہ فضیلت خاص اس شخص کا حق ہے جواسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور اسلامی ملک سے دشمنانِ دین کی مدافعت کی نیت سے لڑتا ہے۔

حدیث نمبر13:

عن ابی موسٰی رضی اللہ عنہ (عنہم) قال جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال الرجل یقاتل للمغنم والرجل وقاتل للذکر والرجل یقاتل لیری مکانہ فی سبیل اللہ قال من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء فھو فی سبیل اللہ۔(بخاری ومسلم)

ترجمہ: ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی آیااورعرض کیا(جہادمیںلوگ مختلف نیّتوں سےشریک ہوتےہیں)ایک شخص اس نیت سےجہادمیں شریک ہوتاہےکہ مالِ غنیمت میں حصہ ملےگا۔ایک شخص اس لیےجہادکرتاہےکہ دنیامیں اسکاچرچاہوگااورتاریخ میں یادگارباقی رہےگی۔ایک شخص اس لیےجہادکرتاہےکہ دنیاکےلوگ یہ محسوس کرلیں کہ یہ اسلام کابڑاخدمت گزارااورجانثارہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اللہ کی راہ میں جہادکرنےوالاان میں سےصرف وہ ہےجواس نیت سےجہادکرےکہ اللہ کاکلمہ بلند ہواوراُس کےدشمن زیرہوں۔

رباط یعنی اِسلامی سرحدوں کی حفاظت

حدیث نمبر14:۔

وعن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم رباط یوم خیرمن الدنیاوماعلیھا۔ (بخاری ومسلم)

ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ ایک دن کارباط ''یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کاکام ساری دنیااورجوکچھ اس میں ہے،ان سب سےبھتر ہے۔

حدیث نمبر15:۔

عن فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ (عنہم)عن رسول صلی اللہ علیہ وسلم قال کل میت یختم علیٰ عملہ الاالذی مات مرابطاًفی سبیل اللہ فانہ ینمی لہ عملہ الیٰ یوم القیامۃ ویأمن من فتنۃ القبر (ترمذی،ابوداؤد،دارمی)

ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ ہرمرنےوالےکےعمل پرمہرلگادی جاتی ہے۔مرنےکےبعداس کےعمل میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ،بجزاس شخص کےجواللہ کی راہ میں کسی سرحدکی نگرانی کرتےہوئےمرگیاتواس کاعمل قیامت تک اس کے اعمال نامےمیں بڑھایاجاتارہےگااورقبرکےسو ال و جواب سےبھی آزادرہےگا۔

حدیث نمبر 16 :۔

عن سلمان الفارسی قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول رباط یوم ولیلۃ فی سببیل اللہ خیرمن صیام شہر وقیامہ وان مات اجری علیہ عملہ الذی کان یعلمہ واجری علیہ رزقہ وامن الفتان (مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن رات کا رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کی خدمت انجام دینا ایک مہینے کے مسلسل روزے اور ساری رات نماز تہجد سے افضل ہے اور جو شخص اس حال میں یعنی کسی اسلامی سرحد کی حفاظت کی حالت میں مرجائے تو قیامت تک اس کے تمام نیک عمل ، جو وہ روزانہ کیا کرتا تھا ، برابر اس کے نامئہ اعمال میں لکھےجاتے رہیں گےاور اس کا رزق للہ کی طرف سے جاری رہے گا اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔

حدیث نمبر 17 :۔

عن ابی عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عینان لا تمسھا النار عین بکت من خشیۃ اللہ وعین باتت تحرس فی سبیل اللہ ۔

تر جمہ :۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فر مایا کہ دو2 آنکھیں ایسی ہیں کہ انھیں آگ نہیں چھوئے گی۔ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رو ئی ہو ۔دو سری وہ آنکھ جس نے جہا د فی سبیل اللہ میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو۔

رینجرزپولیس کےلیےعظیم الشان بشارت

آج کل سرحدوں کی حفاظت کرنے والی پولیس جن کو رینجرز کہتے ہے ، ان میں سے بہت سے آدمی اس کو محض ایک نوکری سمجھ کرانجام دیتےہیں،اگروہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےاس ارشادکوسامنےرکھیں اوریہ خدمت اس عظیم ثواب کی نیّت سےانجام دیں تو نوکری کےساتھ یہ عظیم الشان دولت بھی ان کوحاصل ہوگی۔ ان کو اپنی اور خانگی ضرورتوں کے لیے ان کو جو تنخواہ ملتی ہےوہ اس ثواب سے ان کو محروم نہ کرے گی ۔ شرط یہی ہے کہ اس خدمت کی انجام دہی میں اصل نیت ''رباط'' یعنی اسلامی سرحد کو دشمنانِ دین سے محفوظ رکھنے کی ہو ۔

حدیث نمبر 18 :۔

عن ابن عباسرفعہ لا اخبرکم بخیرالناس منزلا قلنا بلیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل اخذ برأس فرسہ فی سبیل اللہ حتیٰ یعود اویقتل الا اخبرکم باالذی یلیہ قلنا نعم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل معتزل فی شعب من اشعب یقیم اصلوۃ ویؤتی الزکوۃ ویعتزل الناس شرہ او اخبرکم بشرالناس قلنا نعم یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال الذی یسئل با اللہ ولا یعطی بہ (مالک ۔ ترمذی ۔ نسائی)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ سب انسانوں سے ذیادہ اچھا مقام اللہ کے نزدیک کس کا ہے ؟ وہ شخص جو اپنا گھوڑا لے کر اللہ کی راہ میں کسی اسلامی سرحد کی حفاظت میں لگ گیا اور یہی مقیم رہا یہاں تک کہ مرجائے یا قتل کردیا جائے ۔ پھر فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ اس شخص کے قریب کس کا درجہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور فرمایئے ۔ فرمایا جو کسی پہاڑ کی گھائی جا کر مقیم ہو گیا اور نماز اور زکوۃٰ ادا کرتا ، لوگوں کو اپنی ایذاؤں سے بچایا ۔ پھر فرمایا تمھیں سب سے بد ترین آدمی کا پتہ دوں؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوسروں سے اللہ کے نام پر مانگتا ہے مگر جب کوئی اس سے اللہ کےنام پر مانگے تو اسےکچھ نہیں دیتا ۔

شہید فی سبیل اللہ کا مقام اور اس کے درجات

حدیث نمبر 19 :۔

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مامن احد یدخل الجنۃ یحب ان یرجع الی الدنیا ولہ ما فی الارض من شئی الااشہید یتمنٰی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامۃ ۔ (بخاری و مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص جو جنت میں داخل ہوجائے اور پھر اسکو یہ کہا جائے کہ تو لوٹ کر دنیا میں چلا جا ، ساری دنیا کی حکومت ودولت تجھے دے دی جائے گی تووہ کبھی جنت سے نکل کر دوبارہ دنیا میں آنے پرراضی نہ ہوگا ، بجزشہید کے جو یہ تمنا ظاہر کرے گا کہ مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ میں پھر جہاد کرکے شہید ہوں ۔ اسی طرح دس مرتبہ زندہ کرکے دنیا میں بھیجا جاؤں ، پھر شہیدہوکر آؤں ۔ کیونکہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا بڑے اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کرے گا ( جو کسی اور عمل کا نہیں ہے) ۔

حدیث نمبر 20 :۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لو ددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی اقتل ثم احیی ثم اقتل ۔ ( بخاری و مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جا ئے ، پھر قتل کیا جا ؤں ، پھر زندہ کردیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کر دیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ۔

شہید کے تین درجے

حدیث نمبر 21 :۔

عن عقبہ بن عبد السلمی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القتلی ثلثہ مؤمن جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ فاذا لقی الحدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہ فذالک الشھید الممتحن فی خیمۃ اللہ تحت عرشہ لا یفضلہ النبیون الا یالنبوۃ ومؤمن خالط عملا صالحاً وآ خر سیئاً جاھد بنفسہ وما لہ فی سبیل اللہ اذالقی العدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم مصمصۃ محت ذنوبہ وخطایاہ ان السیف محاء للخطایا واد خل الجنۃ من ای باب شاء ومنافق جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ اذا لقی العدو وقاتل حتی یقتل فذلک فی النار ان السیف لا یمحو النفاق۔( دارمی از مشکوۃٰ)

ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جہادمیں قتل ہونےوالےتین طرح کےآدمی ہیں۔ایک وہ شخص ہےجوخودمؤمن کامل،صالح ہے۔اس کےساتھ اس نےاللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہادکیااورجب دشمن سےاس کامقابلہ ہوا تو ڈٹ کرلڑایہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کےبارےمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ یہی وہ اصل شہیداورامتحان میں کامیاب ہےجوقیامت کےدن عرشِ رحمنٰ کےنیچےخیمہ میں ہوگااورانبیاء سےاس کامقام صرف اتناہی کم ہوگاجودرجئہ نبوّت کاتقاضاہے۔ دوسراوہ شخص ہےجومؤمن مسلمان توہےمگرعمل میں کچھ نیک کام کیے،کچھ برُےکیے،پھراس نے اپنی جان ومال سےاللہ کی راہ میں جہادکیااوردشمن کےمقابلےمیں لڑا،یہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اس کاجہادمصمصہ(یعنی سینگ کی طرح چوس کرفاسدمادہ نکالنےوالا)ہےجس نےاس کے سب گناہوں کومٹادیا۔اورتلوارسب خطاؤں کومٹادینےوالی ہے۔یہ شخص جس دروازےسےچاہےجنت میں داخل ہوسکےگا۔تیسرا وہ منا فق ہے جس نے اپنی جان و ما ل سے جہا د کیا اور دشمن سے لڑ کر مقتو ل ہو گیا (مگرنیت خا لص اللہ کےلیے نہیں تھی) یہ جہنم میں جا ئےگا ، کیو نکہ تلوا ر کفر ونفا ق کو نہیں مٹا سکتی۔

مجاہد اپنی موت مرجائے تو بھی شہید ہے

حدیث نمبر 22 :۔

عن ابی سھل بن حنیف قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سأل اللہ الشہادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشہادۃ وان مات علیٰ فراشہ (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالٰی سے شہید ہونے کی دعا مانگے تو اس کو اللہ تعالےٰ شہیدوں ہی کے مرتبے پر پہنچادے گا ، اگر چہ وہ اپنے بسترپر مرے۔

حدیث نمبر 23 :۔

عن ابی مالک الاشعری قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من فصل فی سبیل اللہ فمات اوقتل او وقصہ فرسہ او لعبیرہ او لد غتہ ھامۃ اومات علیٰ فراشہ بای حتف شاء اللہ فانہ شہیدو ان لہ الجنۃ ۔ (ابوداؤد)

ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ جو شخص جہاد کے لیے نکلا ، پھر اسکو موت آگئی یا کسی نے قتل کردیا ،یا سواری سے گر کر مر گیا ،یا کسی زہریلےجانور نے کاٹ لیا یا اپنے بستر پر کسی مرض میں مر گیا تووہ بھی شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے۔

مال اور زبان سے بھی جہاد ہوتا ہے

حدیث نمبر 24 :۔

عن انس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال جاھدوا المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم (رواہ ابو داؤد والنسائی والدارمی )

ترجمہ :۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین کے خلاف جہاد کرو اپنے مالوں سے ، اپنی جانوں سے اپنی زبانوں سے۔

مال کا جہاد تو یہ ہے کہ جہاد کے کاموں میں مال صرف کیا جائے ،اور زبان کا جہاد یہ کپ لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے کر اس پر آمادہ کریں اور جہاد کے احکام بتلائیں اور یہ بھی کہ پنی گفتگو اور تقریر سے دشمن کو مرعوب کرے ۔ ایسی نظمیں جن سے مسلمانوں میں جذبہ جہاد قوی ہو ، یا جن سے دشمنوں کی تذلیل ہو ، وہ بھی اس جہاد میں شامل ہیں ۔جیسے حضرت حسان ثابت رضی اللہ عنہ (عنہم) جو شعرائے صحابہ میں سے ہیں ، ان کی نظمیں جو مشرکین مکہ کے مقابلہ پر کہی گئی ہیں ، ان کو جہاد قرار دیا گیا ہے ،

اور قلم سے لکھنا بھی زبان سے بولنے کے قائم مقام ہونے کے سبب اسی حکم میں ہے ۔

جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کا ثوابِ عظیم

حدیث نمبر 25 :۔

عن حزیم بن فائتک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من انفق نفقۃً فی سبیل اللہ کتب لہ بسبع مائۃ ضعف ۔ (الترمذی والنسائی )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں کچھ مال خرچ کرتا ہے تو سات سو گنا لکھا جاتا ہے ۔ یعنی ایک روپیہ خرچ کرے تو سات سو روپیہ خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔

حدیث نمبر 26 :۔

وعن ابی الدرداء وابی ھریرہ وابی امامہ وعبد اللہ بن عمر وجابر بن عبد اللہ وعمران بن حصین رضی اللہ عنہ (عنہم) کلھم یحدث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال من ارسل نفقۃ فی سبیل اللہ واقام فی بیتہ فلہ بکل درھم سبع مائۃ درھم ومن غزا بنفسہ فی سبیل اللہ وانفق فی وجھہ ذٰلک فلہ بکل درھم سبع مائۃ الف درھم (ابن ماجہ)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جہاد کے لیے کچھ مال خرچ کیا مگر خود جہاد میں نہیں گیا اس کو ایک درہم پر سات سو درہم کے برابر ثواب ملے گا اور جس نے خود جہاد بھی کیا اور اس میں اپنا مال بھی خرچ کیا تو اس کے ایک درہم کا ثواب سات لاکھ درہم کے برابر ہوگا۔

حدیث نمبر 27 :۔

عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (عنہم) سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ای الصدقۃ افضل قال اخدام عبد فی سبیل اللہ او اظلال فسطاط فی سبیل اللہ (ترمذی)

ترجمہ:۔ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے افضل صدقہ کونسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد کے لیے کو ئی غلام دے دینا یا مجاہدین پر سایہ کرنے کے لیے کوئی خیمہ بطورِ عاریت کے دے دے۔

ہندوستان پر جہاد کی خاص اہمیّت اور فضائِل

حدیث نمبر28:

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال وعدنا النبی صلی اللہ علیہ وسلم عزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی ومالی فان قتلت کنت افضل الشہداء وان رجعت فانا ابوھریرۃ المحرر (نسائی)

ترجمہ: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ہندوستان کے جہاد کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اگر میں نے اپنی زندگی میں اس کو پا لیا تواپنا سارا زور اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا، پھر اگر میں قتل کردیا گیا تو افضل الشہداء ہو جاؤں گا اور اگر زندہ لوٹا تو میں جہنم سے آزاد ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) ہوں گا۔

فائدہ: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) کے بیان سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کے جہاد میں شریک ہونے والوں کے لیے یہ عظیم الشان خوشخبری دی ہے کہ جو شخص اس جہاد میں شریک ہو جائیگا وہ افضل الشہداء ہوگا اور جو زندہ واپس آجائےگا وہ عذاب الہی سےآزاد قراردیا جائےگا۔

ہندوستان کے جہاد کی خاص فضیلت کا بیان جیسے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) کی اس حدیث میں ہے اسی طرح ایک دوسری حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا متن یہ ہے:

حدیث نمبر29:

و عن ثوبان رفعہ عصابتان من امتی اجارھم اللہ من النار عصابۃ الغزوۃ الہند و عصابۃ تکون مع عیسٰی ابن مریم( اوسط، طبرانی)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو جماعتیں میری امت میں ایسی ہیں جن کے لیے اللہ تعالٰی نے جہنّم سے نجاد لکھ دی ہے۔ ایک وہ جماعت جو ہندوستان پر جہاد کرےگی۔دوسری وہ جماعت جو آخر زمانہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بعد ان کے ساتھ ہوگی۔

ہندوستان کے جہاد سے کونسا جہاد مُراد ہے؟

ان دونوں حدیثوں میں جو فضائل غزوہ ہند کے ارشاد فرمائے گئے ہیں اس میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان پر جہاد تو پہلی صدی ہجری سے لیکر آج تک محتلف زمانوں میں ہوتے رہیں ہیں، اور سب سے پہلا سندھ کی طرف سے محمد بن قاسم کا جہادہے جس میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور اکثر تابعیں کی شرکت نقل کی جاتی ہے۔ تو کیا اس مراد پہلا جہاد ہے یا جتنے جہاد ہوچکے ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب اس میں شامل ہے؟

الفاظ حدیث میں غور کرنے سے حاصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث عام ہیں۔ اس کو کسی خاص جہاد کے ساتھ مخصوص و مقیّدکرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے جتنے جہاد ہندوستان میں محتلف زمانوں میں ہوتے رہے وہ بھی اور پاکستان کا حالیہ جہاد بھی اور آئندہ جو جہاد ہندوستان کے کفار کے خلاف ہوگا وہ سب اس عظیم الشان بشارت میں شامل ہیں۔

واللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم

ترکِ جہاد کی وعید اور دنیا میں اُس کاوبال

حدیث نمبر 30 :۔

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من مات ولم یغزو لم یحدث بہ نفسہ مات علےٰ شعبۃ من النفاق (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا اور نہ اپنے دل ہی میں جہاد کا ارادہ کیا وہ ایک قسم کی نفاق پر مرے گا ۔

حدیث نمبر 31 :۔

وعن ابی امامۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من لم یغزو او یجھز غاز یا او یخلف غاز یانی اھلہ بخیر اصابہ اللہ بقارعۃ قبل القیامہ (رواہ ابوداؤد)

ترجمہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا ، نہ کسی مجاہد کو سامانِ جہاد دیا ، اور نہ کبھی کسی مجاہدِ فی سبیل اللہ کی یہ خدمت انجام دی کہ اس کے اہل وعیال کی نگرانی بلا کسی غرضِ دنیوی کے پوری طرح کی تو قیامت سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی اس پر عذاب نازل فرمائیں گے ۔

ترکِ جہاد مصائب کو دعوت دینا ہے

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جہاد میں کسی نہ کسی طرح حصہ ضرور لے۔ اگر محاذ پرجا کر لڑنے کی قوت و قدرت نہیں تو مجاہدین کو سامان فر ہم کرنے میں حصہ لے ، اور یہ بھی نہ ہوسکے تو مجاہدین کے اہل وعیال کی خدمت خالص اللہ کے لیے دنیوی اغراض سے پاک ہوکر کرے اور جو لوگ جہاد کے کسی کام میں حصہ نہ لیں وہ خدا کے عذاب اور مصا ئب کو دعوت دیتے ہیں

کچھ عجب نہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں کو جو اللہ تعالٰی نے جہاد میں حصہ لینے کایہ موقع عطا فرمایا ہے ،اگر ہم اس کی اہمیت کو محسوس کر کے آگے بھی جہاد کی تیاری کو نہ چھوڑیں تو ہم پر جو آفات ومصائب طوفانوں اور دوسرے صورتوں سے آئے دن مسلط رہتے ہیں اس کی برکت سے اللہ تعالٰی پورے پاکستان کو ان سے نجات عطا فرمائیں ۔

حدیث نمبر 32 :۔

وعن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لقی اللہ اثر من جہاد لقی اللہ وفیہ ثلمۃ( رواہ الترمذی وابن ماجہ )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قیامت کے روز اللہ کے سامنے اس طرح حا ضر ہوگا کہ اس کے بدن پر کوئی نشان جہاد کا نہ ہو تو وہ ایک عیب کے ساتھ اللہ سے ملے گا ۔

جہاد کے لیےاسلحہ اور جنگی سامان بنانا اور مہیا کرنا بھی جہاد ہے

حدیث نمبر 33 :۔

عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو علی المنبر یقول واعدّ وا لھم ما استطعتم من قوۃ الاان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی ۔ (رواہ مسلم )

ترجمہ:۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر یہ فرماتے ہوئے پایا کہ قرآنِ کریم کی آیت میں جو مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلے کے لیے قوت بہم پہنچانے کا حکم ہے ، یہ قوت تیر اندازی ہے ۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ مکرر کرکے فرمائی۔

فائدہ:۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چونکہ جنگ ہی تیر اور تلوارکی تھی اس لیے تیر اندازی اور نشانہ کی مشق واستعداد ہی کو قوت فرمایا ۔ مگر اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب جنگ توپوں اور بموں کی ہو توان کے استعمال کے طر یقے ہی جنگی قوت قرار دئیے جائیں گے اور حکم قرآنی کی تعمیل انھی طاقتوں کی فراہمی سے ہوگی۔

حدیث نمبر 34 :۔

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احتبس فرساً فی سبیل اللہ ایمانا باللہ وتصدیقا بوعدہ فان شبعہ وریہ وروثہ وبولہ فہ المیزان یومالقیامہ ۔(رواہ البخاری)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کی راہ میں کوئی گھوڑا جہاد کے لیے وقف کردیا اللہ پر ایمان اور اس سے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے ، تو اس گھوڑے کا کھانا پینا ، لیداور پیشاب کرنا سب کا ثواب قیامت کے دن اس کی میزانِ عمل میں رکھا جائے گا ۔

حدیث نمبر 35 :۔

عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اللہ یدخل بالسھم الواحد ثلث نفرفی الجنۃ صانعہ یحتسب فی صنعتہ الخیر والرامی بہ ومنبلہ فارمواوارکبو او ان ترمو ااحب الی من ان ترکبوا (ترمذی)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی ایک تیر کی خاطر تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریگا ۔ اول اس کا بہ نیت ثواب وجہاد بنانے والا، دوسرا اس کو جہاد میں استعمال کرنے والا، تیسرا اس کی نوک اور بھال کو درست کرنے والا۔ اس لیے تیر اندازی کیا کرو اور گھوڑے کی سواری کی مشق کرو، اور میرے نزدیک تیر اندازی کی مشق گھوڑے کی سواری کی مشق سے ذیادہ بہتر ہے ۔

کسی غازی کو جہادکے لیے سامان دینا

یا اس کے گھر کی خبر گیری کرنا بھی جہادہے

حدیث نمبر 36 :۔

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (عنہم) وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للغازی اجرہ وللجاعل اجرہ واجرالغازی۔ (رواہ ابو داؤد)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غازی کو تو اس کے غزوہ اور جہاد کا ثواب ملتاہےاور جس شخص نے اس کو مال دےکر جہاد کے لیے بھیجا ہے ، اس کو اپنے مال کا ثواب بھی ملے گا اور غازی کے عمل کا بھی ۔

دفاعی فنڈمیں چندہ کا ثوابِ عظیم

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کرنے والے فو جیوں کی تنخواہ یا دوسرے سامان کے لیے مال خرچ کرنے والے بھی ان مجاہدین کے جہاد کا ثواب پاویں گے ۔

حدیث نمبر 37:۔

وعن زید بن رضی اللہ عنہ (عنہم) خالد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من جھّز غازیا فی سبیل اللہ فقد غزی ومن خلف غازیا فی اھلہ فقد غزی ۔(بخاری و مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غازی کو جہاد کا سامان دے دیا اس نے بھی جہاد کیا اور جو شخص کسی غازی کے گھر والوں کی نگرانی اور خبر گیری میں لگا رہا اس نے بھی جہاد کر لیا ۔

جہاد سے ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے

مگر قرض اور امانت میں خیانت معاف نہیں ہوتی

حدیث نمبر 38 :۔

وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ (عنہم) القتل فی سبیل اللہ یکفر الذنوب کلھا الامانۃ والامانۃ فی الصلوۃ والصوم والا مانۃ فی الحدیث واشد ذٰلک الوداع (کبیر طبرانی )

ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا سب گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے مگر امانت میں خیانت معاف نہیں ہوتی ، پھر فرمایا کہ صرف مال ہی میں نہیں بلکہ نماز ، روزے اور کلام میں بھی ہے ۔ البتہ ان سب میں زیادہ سخت وہ امانت ِ اموال ہے جو کسی کے سپرد کی گئی ہو۔

حدیث نمبر 39 :۔

عن عبد اللہ بن عمربن العاص ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال القتل فی سبیل اللہ یکفر کل شی الاالدین ۔

ترجمہ:۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں مگر جو کسی کا قرض اس کے ذمہ ہے وہ معاف نہیں ہوتا (اس کو یا خود ادا کرے یا وصیت ادا کرنے کی کسی معتمد کو کردے )۔

بحری فوج کے لیے عظیم سعادت !

حدیث نمبر 40 :۔

عن انس رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حرس لیلۃ علی ساحل البحر کان افضل من عبادۃ فی اھلہ الف سنۃ (رواہ الموصلی بلین)

  ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک رات سمندر کے کنارے پر پہرا دے تو اس کا یہ عمل اپنے گھر میں ایک ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے.