Monday, 28 January 2013

سماعِ موتیٰ

تمہید: سماعِِ موتیٰ کے مسئلہ میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف ہے دونوں طرف اکابر ودلائل ہیں، فیصلہ کن بات تحریر کرنا دشوار ہے، بہتر یہ ہے کہ اس بحث و تحقیق میں نہ پڑیں کیونکہ اس سے کوئی عمل متعلق نہیں۔

جو حضرات سماع کے قائل ہیں ان کے نزدیک مردے سننے اور جواب دیتے نیز پہچانتے ہیں۔


امام ذہبیؒ (تذکرہ الحفاظ : 3/306) میں امام ، شیخ الاسلام اور حافظ المغرب کے الفاظ سے حافظ (ابو عمر) ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی 463 ھ) کے علمی مقام کی تعریف فرماتے ہیں، انہوں نے "موطا امام مالک" کی مطول و مختصر شرح "التمہید" اور "الستذکار" میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ (اور بعض دوسری روایات میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی) نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں کہ :
"ما من رجل يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه"
ترجمہ :
جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے (مسلمان) کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ میت اس (کے اندازِ سلام و کلام کے لب و لہجے) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے۔

حافظ ابن تیمیہ الحنبلیؒ (المتوفی ٧٦٨ھ) نے [اقتضاء الصراط المستقیم، طبع مصر : ص ١٥٧] میں ..... اور ان کے شاگرد حافظ ابن القیمؒ الحنبلی (المتوفی ٧٥١ ھ) نے اس روایت کی تائید میں فرمایا:
"قال ابن عبد البر: ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ..." الخ [کتاب الروح : ص ٢]
ترجمہ :
امام ابن عبد البر رح نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ روایت ثابت ہے...


امام محمد بن احمد عبد الہادی الحنبلیؒ فرماتے ہیں :
 "وهو صحيح الاسناد
(الصارم المنكي : ص ١٨٦، طبع مصر)
ترجمہ :
اس (حدیث) کی سند صحیح ہے۔

اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عند القبور سماع کا تو کہنا ہی کیا.....یہ تو عام مومنوں کے حق میں آیا ہے، جو شخص بھی کسی ایسے شخص کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے جس کو وہ دنیا میں پہچانتا تھا تو وہ جب بھی اس کو سلام کہتا ہے، الله تعالیٰ اس کی روح کو اس کی طرف لوٹادیتا ہیں. یھاں تک کہ وہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے.
(الصارم المنكي : ص ٩٥ ، طبع مصر)


اس صحیح صریح حدیث کی روشنی میں حافظ ابن القیمؒ فرماتے ہیں : یہ حدیث اس بات کی نص ہے کہ مردہ سلام کرنے والے کو بعینہ پہچانتا، اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے.
(کتاب الروح : ص ٤)

اور یہی حافظ ابن القیم رح اپنے مشہور "قصيدة نونية " میں لکھتے یہں : 
هذا ورد نبينا التسليم من ... يأتي بتسليم مع الإحسان
ما ذاك مختصا به أيضا كما ... قد قاله المبعوث بالقرآن
من زار قبر أخ له فأتى بتسـ ... ـليم عليه وهو ذو إيمان
رد الإله عليه حقا روحه ... حتى يرد عليه رد بيان۔
(نونية :1/183 ، فصل: في الكلام في حياة الأنبياء في قبورهم) 
ترجمہ :
اور یہ امر (بات) کہ ہمارے نبی ﷺ ہر اس شخص کے سلام کا جواب عنایات فرماتے یہں جو عمدہ طریقہ سے سلام کہتے ہے، یہ صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جیسا کہ خود اس ذات نے فرمایا جس کو قرآن سے کر بھیجا گیا ہے، کہ جس شخص نے اپنے مومن بھائی کے قبر کی زیارت کی اور اسے سلام کہا، تو پروردگار یقینی طور پر اس پر اس کی روح لوٹادیتا ہے حتیٰ کہ وہ اس کے سلام کا واضح بیان سے جواب دیتا ہے.


امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام ابو یوسفؒ نبی کریم ﷺ کی سماع کے قائل تھے۔

  


’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندے کو (مرنے کے بعد) جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (تدفین کے بعد واپس) لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے (کامل) بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو تیرا جو ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس (معرفتِ مقامِ مصطفیٰ ﷺ کے) بدلہ میں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھے گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد ﷺ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا. اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 1 / 462، الرقم : 1308، وفي کتاب : الجنائز، باب : الميت يسمع خفق النعال، 1 / 448، الرقم : 1673، ومسلم في الصحيح، کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : التي يصرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار، 4 / 2200، الرقم : 2870، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم : 4752، والنسائي في السنن کتاب : الجنائز، باب : المسألة في القبر 4 / 97، الرقم : 2051، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 126، الرقم : 12293.





مُردوں سے مراد "کفار" ہیں اور سننے سے مراد "نصیحت" قبول کرنا ہے:
عدمِ سماعِ موتی کے دلائل کا جائزہ:

دليل نمبر ①
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ [6-الأنعام:36]
”جواب تو وہی دیتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے روز) زندہ کرے گا، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے“

◈ سنسی مفسر ابوجعفر، ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224-310 ھ) فرماتے ہیں:
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ، يقول : الكفار يبعثهم الله مع الموتى، فجعلهم تعالى ذكره في عداد المؤتى الذين لا يسمعون صوتا، ولا يعقلون دعاء، ولا يفقهون قولا.
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ”اور مردوں کو تو اللہ تعالی (روز قیامت) زندہ کرے گا۔“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفار کو اللہ تعالیٰ مردوں کے ساتھ ہی زندہ کرے گا، یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں (زندہ ہوتے ہوئے بھی) ان مردوں میں شامل کر دیا جو نہ کسی آواز کو سن سکتے ہیں، نہ کسی پکار کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ کسی بات کا انہیں شعور ہوتا ہے۔“ [ جامع البيان عن تأويل آي القرآن المعروف بتفسير الطبري : 855/4]

دلیل نمبر ②
﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ [27-النمل:80]
”(اے نبی !) یقیناً آپ نہ کسی مردے کو سنا سکتے ہیں، نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جب وہ اعراض کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔“

◈ جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب (1244-1323ھ) لکھتے ہیں:
واستدل المنكرون (لسماع الموتى)، ومنهم عائشة وابن عباس، ومنهم الإمام (أبو حنيفة)، بقوله تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ، فإنه لما شبه الكفار بالأموات في عدم سماع،
علم أن الأموات لا يسمعون والا لم یصح التشبیهٔ

”جو لوگ مردوں کے سننے کے انکاری ہیں، ان میں سیدہ عائشہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ ان کا استدلال اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہے: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ”(اے نبی !) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نہ سن سکنے میں مردوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مردے نہیں سنتے، ورنہ تشبیہ ہی درست نہیں رہتی۔۔۔“ [الكوكب الدري، ص: 319، ط الحجرية، 197/2، ط الجديدة]
? اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گویا یہ کفار مردے ہیں کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اس طرح یہ بھی حق بات نہیں سنتے۔[تفسر(امام)الطبري:11/342، تفسير ابن أبي حاتم:7255، تفسير البغوي:6/176]

دلیل نمبر ③ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]

◈ مسعود بن عمر تفتازانی ماتریدی (م:792 ھ) لکھتے ہیں:
واما قوله تعالى : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ، فتمثل بحال الكفرة بحال المؤتى، ولا نزاع فى أن الميت لا يسمع.
”اپنے اس فرمان گرامی ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے“ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حالت کو مردوں کی حالت سے تشبیہ دی ہے اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔“ [شرح المقاصد فى علم الكلام : 116/5]

◈ شارح ہدایہ، علامہ ابن ہمام حنفی (م:861ھ) ان دونوں آیات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فإنهما يفيدان تحقيق عدم سماعهم، فإنه تعالى شبه الكفار بالمؤتى لإفادة تعذر سماعهم، وهو فرع عدم سماع الموتى.
”ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سن نہیں سکتے۔ کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدم سماع موتیٰ کی فرع ہے۔“ [فتح القدير:104/2]






مردے کا جوتوں کی آواز سننا :
① سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
العبد إذا وضع في قبره , وتولي , وذهب اصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فاقعداه , فيقولان له
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اقربا اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں، حتی کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں۔۔۔؟“ [ صحيح البخاري : 78/1، ح: 1338، صحيح مسلم :379/2، ح : 7216]

❀ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
إن الميت إذا وضع في قبره إنه ليسمع خفق نعالهم إذا انصرفوا
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی واپسی کے وقت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔۔۔“ [ صحيح مسلم : ح : 7217]

❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الميت اذا وضع في قبره انه لسمع خفق نعالهم حين يولون عنه
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو لوگوں کے واپسی کے وقت وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہی ہوتی ہے۔“
[ مسند الإمام أحمد : 348/2، شرح معاني الأثار للطحاوي : 510/1، المعجم الأوسط للطبراني :2651، المستدرك على الصحيحين للحاكم :380/1-381، و سندهٔ حسن]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ (3113) نے اس حدیث کو’’صحیح“ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [ مجمع الزوائد: 51/3-52]




جنگ بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننا:
● بدر میں قتل ہونے والے چوبیس مشرکوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ تین دن کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام پکار پکار کر فرمایا:
يا فلان بن فلان، ‏‏‏‏‏‏ويا فلان بن فلان ايسركم انكم اطعتم الله ورسوله،‏‏‏‏ فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ’’اے فلاں کے بیٹے فلاں اور اے فلاں کے بیٹے فلاں ! کیا تمہیں اب اچھا لگتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم نے اپنے ساتھ کیے گئے اپنے رب کے وعدے کو سچا دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچا ہوتا دیکھ لیا ؟‘‘
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: يا رسول الله ما تكلم من اجساد لا ارواح لها ”اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں؟“
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفس محمد بيده،‏‏‏‏ ما انتم باسمع لما اقول منهم ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں، اس کو تم ان کفار سے زیادہ نہیں سن رہے۔“ [صحيح البخاري :566/2، ح : 3976، صحيح مسلم: 387/2، ح: 2874]

● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی واقعہ یوں بیان کر تے ہیں:
اطلع النبي صلى الله عليه وسلم على اهل القليب،‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ وجدتم ما وعد ربكم حقا، ‏‏‏‏‏‏فقيل له:‏‏‏‏ تدعو امواتا، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ما انتم باسمع منهم ولكن لا يجيبون
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں والے کفار کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ آپ سے عرض کی گئی : کیا آپ مردوں کو پکار رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہاری طرح سن رہے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ صحيح البخاري : 183/1، ح : 1370]
? اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے، جیسا کہ صحیح بخاری [ 567/2، :3981-3980] میں ہے:
انهم الان يسمعون ما اقول
”وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔‘‘





قبور میں داخل ہوتے وقت اہلِ قبور کے لئے کیا دعا پڑھی جائے؟
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ رات کے آخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ»
 تمہارے اوپر سلام ہو مومنوں کے گھر والو! تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما۔

[صحيح مسلم:974، الأحكام الشرعية الكبرى2/547، جامع الأصول في أحاديث الرسول:11/154]



(2) «‌السَّلَامُ ‌عَلَيْكُمْ ‌يَا ‌أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ، وَنَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ» ۔
سلام ہے تم پر اے گھر والو مومنوں اور مسلمانوں کے! اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے اور تمہارے لیے عافیت مانگتے ہیں۔
[مصنف ابن أبي شيبة:11787، الدعاء للطبراني:1239، المسند المصنف المعلل:2070]
(مسند احمد:22985+23039+25855، صحيح مسلم:974+975، )





(3) السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ، لِيَهْنِ لَكُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِيهِ، مِمَّا أَصْبَحَ فِيهِ النَّاسُ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا نَجَّاكُمُ اللهُ مِنْهُ، أَقْبَلَتِ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يَتْبَعُ أَوَّلُهَا آخِرَهَا ، الْآخِرَةُ شَرٌّ مِنَ الْأُولَى۔
سلامتی ہو تم سب پر اے قبروں والو! تمہارے لئے وہ حالت ہے جس میں تم ہو وہ اس حالت سے بہتر ہے جس میں لوگ ہیں، کاش! تم جان لیتے (کِن فتنوں سے) اللہ نے تمہیں نجات دی، فتنے اندھیری رات کے ٹکڑے کی طرح آئیں گے ایک کے پیچھے دوسرا۔ بعد والا بدتر ہوگا پہلے والے سے۔
[مسند أحمد:15997، سنن الدارمي:79 إسناده جيد، مسند الروياني:1508، معرفة الصحابة لأبي نعيم:6998، المستدرك على الصحيحين للحاكم:4383 صحیح، السيرة النبوية لابن كثير:4/443 وَهُوَ شَاهِدٌ، صحيح السيرة النبوية للعلي: ص553، الرحيق المختوم:ص426، الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه:4/350]





(4) «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ‌يَا ‌أَهْلَ ‌القُبُورِ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا، وَنَحْنُ بِالأَثَرِ»۔
سلامتی ہو تم پر اے قبر والو! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں ۔
[سنن الترمذي:1053 حديث حسن. الطبرانى:12613، :532 الأذكار للنووي:485(876)، إغاثة اللهفان:1/362]



عن قيس بن قبيصة من لم يوص لم يُؤذن لَهُ فِي الْكَلَام مَعَ الْمَوْتَى قيل يَا رَسُول ويتكلمون قَالَ ‌رغم ‌يتزاورون۔

ترجمہ:

جس نے وصیت نہیں کی اس کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی مردوں کے ساتھ ۔ کسی نےعرض کیا: یا رسول اللہ! کیا مردے کلام بھی سنتے ہیں، ارشاد فرمایا: ہاں اور ایک دوسرے سے ملاقات بھی کرتے ہیں۔

[مسند الفردوس(امام دیلمیؒ م509ھ) ، حدیث نمبر: 5945 (سندہ ضعیف، الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ، ذکر من اسمہ قیس،۲ /۴۷۶)]





No comments:

Post a Comment