قیامت کی چھوٹی علامت» یہ امت اللہ کے حرام حلال کرے گی۔
[صحيح البخاري » كِتَاب : الْبُيُوعِ » بَاب : مَنْ لَمْ يُبَالِ مِنْ حَيْثُ كَسَبَ الْمَالَ ... رقم الحديث: 1928]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب آدمی اس کی پرواہ نہیں کرے گا حلال یا حرام کس ذریعے سے اس نے مال حاصل کیا ہے۔
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 2059، کتاب:-خرید وفروخت کے بیان، باب:-اس شخص کا بیان کہ جس کو کچھ پروا نہ ہو کہ کہاں سے مال حاصل کیا ہے ؟]
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 2083، کتاب:-خرید وفروخت کے بیان، باب:-اللہ تعالیٰ کا قول، کہ اے ایمان والو! سود کئی گنا کرکے نہ کھاو]
[سنن نسائی: حدیث نمبر 4454(4459)، کتاب:-خرید و فروخت کے مسائل و احکام، باب:-آمدنی میں شبہات سے بچنے سے متعلق احادیث شریفہ]
[سنن دارمی: حدیث نمبر ، کتاب:-خرید وفروخت کا بیان، باب:-سود کھانے والے کی شدید مذمت ہے]
تشریح :
قیامت کے قریبی زمانہ میں جہاں عام گمراہی کی وجہ سے افکار واعمال کی اور بہت سی خرابیاں پیدا ہونگی وہیں ایک بڑی خرابی بھی پیدا ہوگی کہ لوگ حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرنا چھوڑ دینگے جس کو جو بھی مال ملے گا اور جس ذریعہ سے بھی ملے گا اسے یہ دیکھے بغیر کہ یہ حلال ہے یا حرام ہضم کر جائے گا اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ پیش گوئی آج کے زمانہ پر پوری طرح منطبق ہے آج ایسے کتنے لوگ ہیں جو حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرتے ہیں ہر شخص مال و زر بٹورنے کی ہوس میں مبتلا ہے مال حلال ہے یا حرام ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بس ہاتھ لگنا چاہئے کسی نے سچ کہا ہے
(ہرچہ آمد بدہان شاں خورند و آنچہ آمد بزبان شان گفتند)
یہ اس دور کی عام وبا ہے جس سے کوئی طبقہ اور کوئی جماعت محفوظ نہیں ہے۔
القرآن:
اب کیا یہ (کافر) لوگ قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ یکایک ان پر آن پڑے ؟ (اگر ایسا ہے) تو اس کی علامتیں تو آچکی ہیں۔ پھر جب وہ آہی جائے گی تو اس وقت ان کے لیے نصیحت ماننے کا موقع کہاں سے آئے گا؟
[سورۃ نمبر 47 محمد، آیت نمبر 18]
یعنی
قرآن کی نصیحتیں، گذشتہ اقوام کی عبرتناک مثالیں اور جنت و دوزخ کے وعدہ اور وعید سب سن چکے اب ماننے کے لیے کس وقت کا انتظار ہے، یہی کہ قیامت کی گھڑی ان کے سر پر اچانک آکھڑی ہو؟ سو قیامت کی کئی نشانیاں تو آچکیں، اور جب خود قیامت آکھڑی ہوگی، اس وقت ان کے لیے سمجھ حاصل کرنے اور ماننے کا موقع کہاں باقی رہے گا۔ یعنی وہ سمجھنا اور ماننا بیکار ہے کیونکہ اس پر نجات نہیں ہو سکتی۔
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں: "بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی ﷺ کا پیدا ہونا ہے۔ سب نبی خاتم النبیین کی راہ دیکھتے تھے۔ جب وہ آچکے (مقصودِ تخلیقِ عالم کا حاصل ہو چکا) اب قیامت ہی باقی ہے۔"
حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا (میں اور قیامت اس طرح ہیں) گویا میں قیامت سے اتنا آگے نکل آیا ہوں جتنا بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے آگے نکلی ہوئی ہے۔
آمدنی میں شبہات سے بھی بچنا بہتر ہے۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لَا يَبْقَى فِيهِ أَحَدٌ إِلَّا أَكَلَ الرِّبَا، فَإِنْ لَمْ يَأْكُلْهُ أَصَابَهُ مِنْ (بُخَارِهِ) غُبَارِهِ»
ترجمہ:
لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ کوئی شخص سود کھانے سے بچ نہیں سکے گا، اور اگر سود نہ بھی کھایا تو کم سے کم اس کا (بخار) دھواں تو اس کو پہنچ کر رہے گا۔
[(ابوداؤد:3331) النسائي:4460، ابن ماجہ:2278، الحاکم:2162، البزار:9562]
القرآن:
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔
[سورۃ البقرة، آیت نمبر 278»تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:2/110]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلَى دِينِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِ
ترجمہ:
لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اپنے دین پر قائم رہنے والا ہاتھ میں انگارہ پکڑنے والے کی طرح تک
لیف میں مبتلا ہوگا۔
[جامع ترمذی: حدیث نمبر2260، فتنوں کا بیان]
عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ، فَقُلْتُ لَهُ: كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الْآيَةِ ؟ قَالَ: أَيَّةُ آيَةٍ ؟ قُلْتُ: قَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة ﴿المائدة آية 105﴾، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا، سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلِ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ، حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا، وَهَوًى مُتَّبَعًا، وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً، وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ فَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعِ الْعَوَامَّ، فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَى الْجَمْرِ، لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِكُمْ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: وَزَادَنِي غَيْرُ عُتْبَةَ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَجْرُ خَمْسِينَ مِنَّا أَوْ مِنْهُمْ ؟ قَالَ: بَلْ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْكُمْ۔
ترجمہ:
ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی ؓ کے پاس آ کر پوچھا: اس آیت کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: آیت یہ ہے: «اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے» ﴿سورۃ المائدۃ:105﴾ انہوں نے کہا: آگاہ رہو! قسم اللہ کی تم نے اس کے متعلق ایک واقف کار سے پوچھا ہے، میں نے خود اس آیت کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا، آپ نے فرمایا: بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ لوگ بخالت کے راستے پر چل پڑے ہیں، خواہشات نفس کے پیرو ہوگئے ہیں، دنیا کو آخرت پر حاصل دی جا رہی ہے اور ہر عقل و رائے والا بس اپنی ہی عقل و رائے پر مست اور مگن ہے تو تم خود اپنی فکر میں لگ جاؤ، اپنے آپ کو سنبھالو، بچاؤ اور عوام کو چھوڑ دو، کیونکہ تمہارے پیچھے ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت صبر کرنا (کسی بات پر جمے رہنا) ایسا مشکل کام ہوگا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا، اس زمانہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس کام کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔ (اس حدیث کے راوی) عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عتبہ کے سوا اور کئی راویوں نے مجھ سے اور زیادہ بیان کیا ہے۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! (ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ پچاس عمل صالح کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا تو) یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس زمانہ کے، تم میں سے۔
[سنن الترمذي:3058، سنن ابوداؤد:4341، سنن ابن ماجہ:4014]
زمانہ کی سختی
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ قُدَامَةَ الْجُمَحِيُّ , عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي الْفُرَاتِ , عَنْالْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ , يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ , وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ , وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ , وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ , وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ , قِيلَ : وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ ؟ قَالَ : الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ " .
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب لوگوں پر دھوکے اور فریب کے چند سال آئیں گے کہ ان میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور اس زمانہ میں عوامی معاملات کے بارے میں حقیر (نافرمان) آدمی بات چیت کرے گا۔
خلاصة حكم المحدث : صحيح
خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن ومتنه صحيح [مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 15/37 (16/194) المحدث : أحمد شاكر]
تفسیر سورة طه:١٥-١٦
القرآن :
مومنو! اگر کوئی گناہگار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔
[سورۃ الحجرات:6]
*************
فتنوں(جھوٹ وگمراہی پھیلنے پھیلانے) کا زمانہ:
اللہ کے آخری پیغمبر محمد ﷺ کی پیش گوئی
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا فَسَقَ فِتْيَانُكُمْ ، وَطَغَى نِسَاؤُكُمْ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا لَمْ تَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا رَأَيْتُمُ الْمُنْكَرَ مَعْرُوفًا ، وَالْمَعْرُوفَ مُنْكَرًا ؟ " .
ترجمہ:
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے اور نہ بُرائی سے منع کروگے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے؟
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: جلد 2 / صفحہ 340]
فقہی نکتے:
(1)زہد کی کتاب:- اللہ کے ذکر(نصیحت یاد) رکھنے کی فضیلت
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1376]
یعنی زہد یہ ہے کہ دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر اور باقی (اللہ اور اسکی جنت) کو ترجیح دے کہ اللہ کی یاد اور اسکی نصیحت کردہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی عادت اختیار کرے۔
(2)فتنوں میں عقلوں کی نیچ ہونے اور عقلمند لوگوں کے مٹ جانے کا ذکر۔
[کتاب الفتن-لنعيم بن حماد(م228ھ): حدیث#111]
(3)آزمائش جس میں بردبار بھی الجھ کر حیران وپریشان ہو۔
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر-ابن أبي الدنياؒ(م281ھ) : حدیث#32]
(4)اسلام کی کڑیاں ٹوٹنے، اور دین کو دفن کرنے اور بدعات(اعلانیہ گناہوں) کے ظاہر ہونے کا بیان۔
[کتاب البدع-ابن وضاحؒ(م286ھ): حدیث#155]
(5)آخر زمانہ میں اس قوم میں رونما ہونے والی برائیوں(فتنوں، جنگوں) کا تذکرہ۔
[البداية والنهاية - ابن كثير (ت التركي):19 / 50]
جنگوں کے بارے میں
[مسند الفاروق لابن كثير ت إمام:951]
(6)فتن کی کتاب:- جو برائی کو اچھا دیکھے۔
[مجمع الزوائد:12210]
(7)جو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے منع کرتا ہے۔
[إتحاف الخيرة المهرة-البوصيري:7404]
(8)شرعی سیاست:-
اللہ بزرگ و برتر نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کو واجب(لازم) کیا ہے اور اسے چھوڑنے پر ڈرایا۔
[تنبيه الغافلين عن أعمال الجاهلين وتحذير السالكين من أفعال الجاهلين-ابن النحاس(م814ھ) : صفحہ 100]
یعنی نیکی وبرائی کی تمیز سکھاتے رہنا۔
(9)برائی کا انکار کرنا بہت بڑا ثواب ہے اور اس کا انکار نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
[الكنز الأكبر من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر - ابن داود الحنبلي: صفحہ 152]
(10)جنگ صفین کا واقعہ
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ):2/ 264]
(11)قابل تعریف اخلاق وعادت:- نیکی کا حکم کرنا۔
[كنز العمال:8470]
(12)نیکی کا حکم کرنا، برائی سے روکنا اور نصیحت و مشورہ
[جمع الفوائد-الروداني:7906]
(13)عورتوں کے فتنہ کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے۔
[إتحاف الجماعة-التويجري:1 / 338]
یعنی باریک یا چھوٹے لباس سے ننگی رہنے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا فتنہ۔
[صحيح مسلم:2128، مستخرج أبي عوانة:9285]
عورتوں کے سرکش اور نوجوانوں کے بے حیاء ہونے کے بارے میں۔
[إتحاف الجماعة-التويجري:2 / 136]
(14)اسلام کا غریب(انوکھا، اجنبی) ہوجانا۔
[غربة الإسلام-التويجري:1 /69]
(15)(یہ حدیث)اس قول کہ خطباء چاہتے ہیں کہ وہ بڑی بڑی سناتے رہیں۔ کا رد ہے۔
[الرد على الكاتب المفتون-التويجري: صفحہ9]
(16)آخرت پر ایمان:-
قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ قوم اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردے گی۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: جلد 2 / صفحہ 340]
(17) فتنے میں مبتلا وہ ہے جو اول زمانوں کے بزرگانِ دین جس بات کو نیکی مانتے تھے اسے برائی سمجھنے والا اور وہ بزرگانِ دین جس بات کو برائی مانتے تھے اسے نیکی سمجھنے والا۔
القرآن:
اور (ایمان سے کفر کے طرف) اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد (یعنی اپنے ارادوں میں برباد ہو) جاؤ گے۔
[سورہ المائدۃ:21، تفسير القرآن الكريم وإعرابه وبيانه - الدرة: 2 / 194]
حوالہ جات:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ
[الزهد والرقائق - ابن المبارك(م181ھ) - ت الأعظمي: حدیث نمبر 1376]
[الأمر بالمعروف-عبد الغني المقدسي(م600ھ): حدیث نمبر 56]
[العلل لابن أبي حاتم(م327ھ):2759]
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ) : حدیث نمبر 41392]
[مسند الفاروق لابن كثير(م776ھ):3/ 733، : حدیث نمبر 951]
عن عمر
[جامع الأصول-ابن الأثير: حدیث#7506]
عن علي بن أبي طالب
[کتاب الفتن-لنعيم بن حماد(م228ھ): حدیث#111]
عَنْ أَبِي هَارُونَ الْمَدِينِيِّ
[کتاب البدع-ابن وضاحؒ(م286ھ): حدیث#155]
عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر-ابن أبي الدنياؒ(م281ھ) : حدیث#32]
[مسند-أبي يعلىؒ(م307ھ) : حدیث#6420]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن أبي الدنيا (سنة الوفاة:281) » حديث: 84]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
[المعجم الأوسط-الطبراني (م360هـ):حدیث#9325]
[مجمع الزوائد-الهيثمي(م807ھ):12210]
[إتحاف الخيرة المهرة-البوصيري(م840ھ):7404]
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ):2/ 264]
دوسری روایت میں ہے:
تین چیزیں ایسی ہیں جب تم انہیں دیکھ لو گے اس وقت آباد ویران اور ویران آباد ہوجائے گا۔ نیکی کو گناہ اور گناہ کو نیکی سمجھا جانے لگے گا، اور آدمی امانت کو یوں رگڑے جیسے اونٹ درخت کو رگڑتا ہے۔
[جامع المسانيد والسنن-ابن كثير(م774ھ):9267، جامع الأحاديث:11106]
[معجم الصحابة للبغوي(م317ھ):1969]
عن محمد بن عروة بن السعدي
[تاريخ دمشق لابن عساكر(م571ھ):11093]
[أسد الغابة في معرفة الصحابة-ابن الأثير(م630ھ):4756]
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ):11106]
=============================
حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا تو آپ کے پاس دو شخص آئے ایک تو فقر و فاقہ کی شکایت کر رہا تھا دوسرا راہزنی اور راستے غیر محفوظ ہونے کا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جہاں تک رہزنی کا تعلق ہے کچھ دنوں بعد تم پر ایسا زمانہ آئے گا جب قافلہ مکہ کی طرف بغیر کسی پاسبان اور محافظ کے روانہ ہوگا، باقی رہا فقر و فاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی کہ تم میں سے کوئی شخص صدقہ لے کر ادھر ادھر پھرے گا اور اس کو اس خیرات کا قبول کرنے والا نہ ملے گا پھر تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سامنے اس طرح کھڑا ہوگا کہ اسکے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہ ہوگا اور نہ کوئی ترجمان ہوگا جو ترجمہ کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ میں نے تجھے مال دیا تھا وہ کہے گا ہاں، تو پھر فرمائے گا کہ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجا تھا ؟ وہ کہے گا ضرور۔ پھر اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی اسے آگ ہی نظر آئے گی اس لئے تم میں سے ہر شخص آگ سے بچے، اگرچہ ایک کھجور کے ذریعے سے ہی، اگر ایک کھجور بھی میسر نہ ہو تو باتیں اچھی کہے۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1339 () - زکوۃ کا بیان : اس زمانہ سے پہلے صدقہ کرنے کا بیان جب کوئی خیرات لینے والا نہ رہے گا ۔]
حضرت ابوموسی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک شخص سونا لے کر گھومے گا لیکن اسے کوئی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو اسے قبول کرے اور انہیں میں ایک ایسا شخص بھی نظر آئے گا کہ اس کے پیچھے اس کی پناہ میں مردوں کی کمی اور عورتوں کی زیادتی کے سبب چالیس عورتیں ہوں گی۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1340 - زکوۃ کا بیان : اس زمانہ سے پہلے صدقہ کرنے کا بیان جب کوئی خیرات لینے والا نہ رہے گا ۔]
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ خیرات کرو عنقریب تم پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک شخص خیرات کا مال لے کر نکلے گا تو وہ شخص جسے خیرات دینے جائے گا کہے گا کہ اگر تم اسے کل لے کر آتے تو میں اسے لے لیتا آج تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1350 - زکوۃ کا بیان : دائیں ہاتھ سے صدقہ کرنے کا بیان]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی، جب تک تم ایسی قوم سے جنگ نہ کرو جن کی جوتیاں بال کی ہوں گی اور جب تک تم ترکوں سے قتال نہ کروگے۔ جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی چہرے سرخ ہوں گے ناکیں چپٹی ہوں گی گویا ان کے چہرے پٹی ہوئی ڈھالیں ہیں اور تم ان میں سے اچھے اشخاص کو بھی پاؤ گے کہ وہ سب سے زیادہ اس خلافت سے نفرت کرنے والا ہوگا یہاں تک کہ اس کو مجبور کیا جائے گا. لوگوں کی مثال معدن اور کان کی طرح ہے ان میں جو لوگ زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہی اسلام میں بھی اچھے ہیں اور تم میں سے کسی ایک پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس کو میرا دیکھنا اس کے گھر والوں اور مال سے زیادہ پسند و مرغوب ہوگا۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 811 (3374) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان]
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہو؟ وہ کہیں گے ہاں تو ان کو فتح دی جائے گی پھر وہ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کی صحبت سے فیض یاب ہوا ہے؟ وہ کہیں گے ہاں موجود ہیں۔ تو ان کو بھی فتح دے دی جائے گی۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 816 (3379) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان]
تشریح :
ان دونوں روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ذکر تو ہے ہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی حقیقت کی پیش بیانی فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تین یا چار قرنوں (زمانوں) میں وقوع پزیر ہونے والی تھی اس کے ساتھ ہی ان روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تابعین تبع تابعین اور تبع تابعین کے فضیلت اور ان کا باعث خیروبرکت ہونا بھی مذکور بھی ہے ، ان دونون روایتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت میں تو تین فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین کا ذکر ہے جب کہ مسلم کی دوسری روایتوں میں چار فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، اور تبع اتباع تابعین کا ذکر ہے ، اور بخاری کی بھی ایک صحیح روایت میں جو حدیث خیرالقرون سے متعلق ہے چار قرنوں کا ذکر ہے چونکہ اس درجہ کے اہل خیر چوتھے قرن میں نادر وکمیاب تھے اور پہلے تین قرنوں میں اہل خیر وبرکت اور اہل علم ودانش کی کثرت تھی ، کو تاہ بینی ، ناسمجھی اور فتنہ وفساد کی راہ مسدود تھی اس لئے اکثر روایتوں میں تین ہی قرنوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے بطریق مرفوع منقول ہے کہ :
خیرالناس القرن الذی انافیہ ثم الثانی ثم الثالث ۔
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے اور پھر تیسرے زمانہ کے لوگ ۔"
طبرانی نے حضرت ابن مسعود سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ :
خیرالناس قرنی ثم الثانی ثم الثالث ثم تجئی قوم لاخیر فیہم ۔'(طبرانی)
" بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے لوگ پھرتیسرے زمانے کے لوگ اور پھر جو قوم آئے گی اس سے (پہلے زمانے جیسے ) بہترین لوگ نہیں ہوں گے ۔"
" جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہو " یہ مسلم کی دوسری روایت کے الفاظ ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ " تابعی " ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے صحابہ کو دیکھا جیسا کہ " صحابی " ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو لیکن بعض علماء کا کہنا ہے کہ " صحابی " ہونے کے لئے تواتنا ہی کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو لیکن " تابعی ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی صحبت وملازمت بھی نصیب ہوئی ہو جیسا کہ پہلی روایت میں شرف صحبت کا ذکر ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہاں " صحابہ کو دیکھا ہو" سے مراد یہ ہے کہ وہ صحابہ کی صحبت میں رہا ہو۔
حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا۔ کیا تم میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ وہ کہیں گے ہاں ہے! تو ان کو فتح دے دی جائے گی پھر لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ اس وقت بھی کثیر تعداد میں جہاد کریں گے۔ تو دریافت کیا جائے گا کیا تم میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صحبت میں رہا ہو؟ وہ کہیں گے ہاں ہے تو ان کو بھی فتح دے دی جائے گی پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی کثیر تعداد جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں وہ بھی ہے جو صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحبت یافتہ (تابعی) حضرات کے ساتھ رہا ہو؟ کہیں گے ہاں! تو انہیں فتح دے دی جائے گی۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 866 (3429) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : صحابہ کے فضائل کا بیان جس مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ہے۔]
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1967 ()
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں مہاجرین کے کچھ لوگوں کو پڑھاتا تھا جن میں عبدالرحمن بن عوف بھی تھے۔ ایک دن میں ان کے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اور وہ حضرت عمر بن خطاب کے پاس تھے اس حج میں (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) آخری بار کیا تھا، عبدالرحمن میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش، تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمومنین کے پاس آیا اور کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کو فلاں کے متعلق خبر ہے جو کہتا ہے کہ اگر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرجائیں تو میں فلاں کی بیعت کرلوں، خدا کی قسم ابوبکر کی بیعت اتفاقیہ تھی جو پوری ہوگئی، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ آگیا اور کہا کہ انشاء اللہ میں شام کے وقت لوگوں میں کھڑا ہوں گا اور ان کو ڈراؤں گا جو مسلمانوں کے امور کو غصب کرنا چاہتے ہیں، عبدالرحمن کا بیان ہے کہ میں نے کہا کہ اے امیرالمومنین ایسا نہ کیجئے اس لئے کہ موسم حج میں جبکہ عام اور پست قسم کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں جس وقت آپ کھڑے ہوں گے تو اس قسم کے لوگ کی اکثریت آپ کے پاس ہوگی اور مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کھڑے ہو کر جو بات کہیں گے اس کو اڑا کر دوسری طرف لے جائیں گے اور اس کی حفاظت نہیں کریں گے اور اس کو اس کے (مناسب) مقام پر نہیں رکھیں گے، اس لئے آپ انتظار کریں یہاں تک کہ مدینہ پہنچیں، اس لئے کہ وہ دارالہجرت والسنت ہے صرف سمجھدار اور سربرآوردہ لوگوں کے سامنے آپ جو کہنا چاہیں کہیں تاکہ اہل علم آپ کی گفتگو کو محفوظ رکھیں۔ اور اس کو اس کے مناسب مقام پر رکھیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم، اگر اللہ نے چاہا تو مدینہ میں سب سے پہلے میں ہی بیان کروں گا، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ذی الحجہ کے آخر میں مدینہ پہنچے، جب جمعہ کا دن آیا تو آفتاب کے ڈھلتے ہی ہم مسجد کی طرف جلدی سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ میں نے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کو منبر کے ستوں کے پاس بیٹھا ہوا پایا، میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا میرا گھٹنا ان کے گھٹنے سے ملا ہوا تھا، فورا ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب آئے جب میں نے ان کو آتے ہوئے دیکھا تو میں نے سعید بن زید بن عمروبن نفیل سے کہا کہ آج حضرت عمر ایک ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے کبھی نہیں کہی ہوگی، جب سے خلیفہ ہوئے ہیں، سعید نے میری بات سے انکار کیا اور کہا کہ مجھے امید نہیں ہے کہ ایسی بات کہیں گے جو اس سے پہلے نہ کہی ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر بیٹھ گئے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد بیان کی جس کا وہ مستحق ہے پھر کہا امابعد، میں تم سے ایسی بات کہنے والا ہوں جس کا کہنا میرے مقدر میں نہ تھا، میں یہ نہیں جانتا کہ شاید یہ میری موت کے آگے ہو جس نے اسکو سمجھا اور یاد کیا تو وہ جہاں بھی پہنچے دوسروں سے بیان کرے اور جس شخص کو خطرہ ہو کہ وہ اس کو نہیں سمجھے گا تو میں کسی کے لئے حلال نہیں سمجھتا ہوں کہ وہ میرے متعلق جھوٹ بولے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے اور ان پر اللہ نے اپنی کتاب نازل کی ہے اللہ نے جو آیت نازل کی اس میں رجم کی بھی آیت تھی ہم نے اس کو پڑھا اور سمجھا اور محفوظ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنگسار کیا اور ہم نے بھی ان کے بعد سنگسار کیا، مجھے اندیشہ ہے کہ مدت دراز کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کہنے والا کہے گا کہ خدا کی قسم ہم آیت رجم کتاب اللہ میں نہیں پاتے وہ اس فرض کو چھوڑ کر گمراہ ہوگا جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رجم کتاب اللہ میں زنا کرنے والے مرد و عورت پر جبکہ شادی شدہ ہوں واجب ہے بشرطیکہ گواہ قائم ہوجائیں یاحمل قرار پا جائے یا اقرار کرے، پھر ہم کتاب اللہ میں جو پڑہتے تھے اس میں یہ بھی تھا کہ تم اپنے باپوں سے نفرت نہ کرو کیونکہ تمہارا اپنے باپوں سے نفرت کرنا تمہارے لئے کفر ہے یا یہ فرمایا کہ بے شک تمہارے لئے یہ کفر ہے کہ تم اپنے باپوں سے نفرت کرو، پھر سن لو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو، جس طرح عیسیٰ بن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا گیا ہے اور تم صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو پھر کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ خدا کی قسم اگر عمر مرجائیں تو میں فلاں کی بیعت کرلوں تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکر کی بیعت اتفاقیہ تھی اور پھر پوری ہوگئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن اللہ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں سے کوئی شخص نہیں ہے جس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی فضیلت ہو، جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بیعت کرلی تو اس کی بیعت نہ کی جائے۔ اس خوف سے کہ وہ قتل کردیے جائیں گے جس وقت اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دے دی تو اس وقت وہ ہم سب سے بہتر ہے۔ مگر انصار نے ہماری مخالفت کی اور سارے لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور حضرت علی وزبیر نے بھی ہماری مخالفت کی اور مہاجرین ابوبکر کے پاس جمع ہوئے تو میں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے ابوبکر ہم لوگ اپنے انصار بھائیوں کے پاس چلیں، ہم لوگ انصار کے پاس جانے کے ارادے سے چلے جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک بخت آدمی ہم سے ملے، ان دونوں نے وہ بیان کیا جس کی طرف وہ لوگ مائل تھی پھر انہوں نے پوچھا اے جماعت مہاجرین کہاں کا قصد ہے ہم نے کہا کہ اپنے انصار بھائیوں کے پاس جانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا ہم تمہارے لئے مناسب نہیں کہ ان کے قریب جاؤ تم اپنے امر کا فیصلہ کرو میں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم ان کے پاس جائیں گے چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ سقیقہ بنی ساعدہ میں ہم ان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو ان کے درمیان دیکھا کہ کمبل میں لپٹا ہوا ہے میں نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ سعد بن عبادہ، میں نے کہا کہ ان کو کیا ہوا لوگوں نے عرض کیا کہ ان کو بخار ہے ہم تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ ان کا خطیب کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور اللہ کی حمدوثناء کرنے لگا جس کا وہ سزاوار ہے۔ پھر کہا امابعد، ہم اللہ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے مہاجرین وہ گروہ ہو کہ تمہاری قوم کے کچھ آدمی فقر کی حالت میں اس ارادہ سے نکلے کہ ہمیں ہماری جماعت کو جڑ سے جدا کردیں اور ہماری حکومت ہم سے لے لیں۔ جب وہ خاموش ہوا تو میں نے بولنا چاہا، میں نے ایک بات سوچی رکھی کہ جس کو میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا۔ اور میں ان کا ایک حد تک لحاظ کرتا تھا، جب میں نے بولنا چاہا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کی وہ مجھ سے زیادہ بردبار اور باوقار تھے۔ خدا کی قسم جو بات میری سمجھ میں اچھی معلوم ہوتی تھی اسی طرح یا اس سے بہتر پیرایہ میں فی البدیہہ بیان کی یہاں تک کہ وہ چپ ہوگئے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے جو خوبیاں بیان کی ہیں تم ان کے اہل ہو لیکن یہ امر (خلافت) صرف قریش کے لئے مخصوص ہے یہ لوگ عرب میں نسب اور گھر کے لحاظ سے اوسط ہیں میں تمہارے لئے ان دو آدمیوں میں ایک سے راضی ہوں ان دونوں میں کسی سے بیعت کرلو، چنانچہ انہوں نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا اور وہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے (عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں) مجھے اس کے علاوہ انکی کوئی بات ناگوار نہ ہوئی، خدا کی قسم میں اس جماعت کی سرداری پر جس میں ابوبکر ہوں اپنی گردن اڑائے جانے کو ترجیح دیتا تھا، یا اللہ مگر میرا یہ نفس موت کے وقت مجھے اس چیز کو اچھا کر دکھائے جس کو میں اب نہیں پاتا ہوں انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ہم اس کی جڑ اور اس کے بڑے ستون ہیں اے قریش ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے شوروغل زیادہ ہوا اور آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ مجھے اختلاف کا خوف ہوا میں نے کہا اے ابوبکر اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی بیعت کی پھر انصار نے ان سے بیعت کی اور ہم سعد بن عبادہ پر غالب آگئے، کسی کہنے والے نے کہا کہ تم نے سعد بن عبادہ کو قتل کر ڈالا، میں نے کہا اللہ نے سعد بن عبادہ کو قتل کیا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جو معاملہ ہوا تھا ہمیں اندیشہ ہوا کہ اگر ہم قوم سے جدا ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت نہ کی تو یہ لوگ ہمارے پیچھے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے اس صورت میں یا تو ہم کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کرلیں جو ہماری مرضی کے خلاف ہوتا یا ہم اس کی مخالفت کرتے اور فساد ہوتا، جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی سے بیعت کی اسکی پیروی نہ کی جائے نہ اور اسکی جس نے بیعت کی اس خوف کہ وہ قتل کئے جائیں گے۔
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1745 (6456) - جنگ کرنے کا بیان : شادی شدہ عورت کو زناء سے حاملہ ہونے پر سنگسار کرنے کا بیان]
===========================
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 859 (10485) - حج کا بیان : مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کے بیان میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنے چچازاد بھائیوں اور رشتہ داروں کو بلا کر کہیں گے کہ جس جگہ آسانی اور سہولت ہو اس جگہ کوچ کر چلو اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ وہاں سے کسی کو نہیں نکالے گا سوائے اس کے کہ جو وہاں سے اعراض کرے گا تو اللہ اس کی جگہ وہاں اسے آباد فرمائیں گے کہ جو اس سے بہتر ہوگا آگاہ رہو کہ مدینہ ایک بھٹی طرح ہے جو خبیث چیز یعنی میل کچیل کو باہر نکال دیتا ہے اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مدینہ اپنے میں سے برے لوگوں کو باہر نکال پھینکے گا جس طرح کہ لو ہار کی بھٹی لوہے کے میل کچیل کو باہر نکال دیتی ہے۔
==========================
حضرت علی سے روایت ہے کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑیں گے (یعنی ایک دوسرے کے درپے آزار ہوں گے) جو مال والا آدمی ہوگا وہ اپنے مال کو دانتوں سے پکڑے گا (یعنی انتہائی بخیل ہوگا) حالانکہ اس کو ایسا حکم نہیں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آپس میں احسان کو مت بھولو۔ اور مجبوری سے بیع کریں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجبور کا مال خریدنے سے منع فرمایا ہے (یعنی اگر کوئی شخص مجبور ہے تو اس کی مدد کی جائے اس کا اسباب زندگی اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کم قیمت پر نہ خریدا جائے) اور منع فرمایا دھوکہ کی بیع سے اور پکنے سے قبل پھلوں کی بیع سے۔
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1606 (18058) - خرید وفروخت کا بیان : مجبوری کی بیع]
حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہوگا کہ فرمایا کہ قریب ہے ایسا زمانہ آجائے کہ لوگ اس میں چھانے جائیں گے اور ان میں جو گندے ہیں بھوسے وہ رہ جائیں گے اچھے لوگ اٹھ جائیں گے جن کے عہد ٹوٹ جائیں گے اور ان کی امانتوں میں خیانتوں ہوگی۔ اور اختلاف کیا کریں گے اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ملادیا کہ اس طرح آپس میں اختلاف کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم کیسے رہیں اس وقت۔ فرمایا کہ جس کو تم اچھا سمجھتے ہو اسے پکڑے رہو اور جسے برا سمجھتے ہو اسے چھوڑ دو اپنے خاص خاص لوگوں کے معاملات کی طرف متوجہ ہو۔ اور اپنے عوام کو چھوڑ دو۔
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 948 - لڑائی اور جنگ وجدل کا بیان : امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان]
===========================
بیوی سے زنا:
”من اعلام الساعة… وان یکثروا اولاد الزنا قیل لابن مسعود وہم مسلمون ! قال نعم: یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة طلقہا فیقیم علی فراشہا منہما زانیان ما اقاما“۔
(الخصائص الکبری للسیوطی ج:۲/۲۷۰ ط حقانیہ)
ترجمہ:
…اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ زنا کی اولاد کی کثرت ہوجائے گی، پوچھا گیا حضرت ابن مسعود سے کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ فرمایا: ہاں! وہ مسلمان ہوں گے، ایک زمانہ آئے گا لوگوں پر کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا، لیکن پھر بھی اس کے ساتھ اس کے بستر پر رہے گا جب تک دونوں اس طرح رہیں گے زنا کار ہوں گے“۔
”قال: یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة ثم یجہدہا طلاقہا ثم یقیم علی فرجہا فہما زانیان ما اقاما…“
(المعجم الاوسط للطبرانی ج:۵/۴۴۲)
ترجمہ:
…فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے گا پھر طلاق دینے سے انکار کرے گا پھر اس سے ہم بستری کرتا رہے گا پس جب تک وہ دونوں اس طرح رہیں گے زناکار ہوں گے“۔
=============================
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 167 (36566) - کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدفعلی کی ہوگی تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! جنتی فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس میں میں اور میرے صحاب ہوں گے۔
(جامع ترمذی )
اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے جو روایت معاویہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ:
بہتر گروہ دوزخ میں جائیں گے اور ایک گروہ جنت میں جائے گا اور وہ جنتی گروہ "جماعت" ہے اور میری امت میں کئی قومیں پیدا ہوں گی جن میں خواہشات (یعنی عقائد و اعمال میں بدعات) اسی طرح سرائیت کر جائیں گی جس طرح ہڑک والے میں ہڑک سرایت کر جاتی ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے باقی نہیں رہتا۔"
تشریح :
بنی اسرائیل اور اس امت کی مماثلث کو جوتوں کی برابری سے تشبیہ دی گئی ہے جس طرح بنی اسرائیل کے لوگ اپنے زمانہ میں بداعمالیوں میں مبتلا تھے اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ جب اس امت کے لوگ بھی بالکل بنی اسرائیل کی طرح ہوجائیں گے اور ان کے عقائد و اعمال میں ان سے بالکل مطابقت ہو جائے گی۔
یہاں ماں سے حقیقی ماں مراد نہیں بلکہ باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں مرادی ہے اس لیے کہ حقیقی ماں سے اس قسم کا معاملہ بالکل بعید ہے کیونکہ اس میں شرعی رکاوٹ کے ساتھ طبعی رکاوٹ بھی ہوتی ہے۔
اسی طرح " امتی " سے مراد اہل قبلہ ہیں یعنی جو مسلمان سمجھے جاتے ہیں ۔ اس شکل میں کلھم فی النار یعنی وہ تمام فرقے دوزخ میں ہوں گے کہ معنی یہ ہوں گے کہ وہ سب اپنے غلط عقائد اور بداعمالیوں کی بنا پر دوزخ میں داخل کئے جائیں گے، لہٰذا جس کے عقائد و اعمال اس حد تک مفسد نہ ہوں گے کہ وہ دائرہ کفر میں آتے ہوں تو اللہ کی رحمت سے وہ اپنی مدت سزا کے بعد دوزخ سے نکال لئے جائیں گے۔
آخر حدیث میں جنتی گروہ کو " جماعت" کہا گیا ہے اور اس سے مراد اہل علم و معرفت اور صاحب فقہ حضرات ہیں ان کو " جماعت" کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ حضرات کلمہ حق پر جمع ہیں اور دین و شریعت پر متفق ہیں، اس موقع پر مناسب ہے کہ حدیث میں مذکورہ تہتر فرقوں کی تفصیل کر دی جائے۔
اہل اسلام میں بڑے گروہ آٹھ ہیں۔ (١) معتزلہ (٢) شیعہ (٣) خوارج (٤) مرجیہ (٥) بخاریہ (٦) جبریہ (٧) مشبہہ (٨) ناجیہ، پھر یہ آٹھوں گروہ چھوٹے چھوٹے فرقوں پر اس طرح منقسم ہیں۔
(١) معتزلہ کے بیس فرقے ہیں۔ (٢) شیعہ کے بائیس فرقے ہیں (٣) خوارج کے بیس فرقے ہیں۔ (٤) مرجیہ کے پانچ فرقے ہیں (٥) بخاریہ کے تین فرقے ہیں اور (٦) جبریہ (٧) مشبہہ صرف ایک ایک ہی فرقے ہیں ان میں کئی فرقے نہیں ہیں اور آٹھواں فرقہ ناجیہ بھی صرف ایک ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت ہیں جو جنتی ہیں۔ اس موقع پر ان فرقوں کے عقائد بھی اجمالی طور پر سن لیجئے۔
معتزلہ فرماتے ہیں کہ بندہ اپنے تمام اعمال کا خالق ہے، کا سب نہیں ہے نیز ان کا عقیدہ ہے کہ بندہ صالح کو ثواب دینا اور بد کار بندہ کو عذاب دینا اللہ پر واجب اور ضروری ہے اسی طرح اس فرقہ کے لوگ باری تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں، مرجیہ کا عقیدہ ہے کہ جس طرح کافر کے لیے اس کے صالح اور نیک اعمال کار آمد نہیں ہیں اسی طرح مومن کو اس کے اعمال بد کچھ نقصان و ضرر نہیں پہنچاتے اور نہ اس کے ایمان میں کوئی نقص پیدا ہوتا ہے، بخاریہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال کا انکار کرتے ہیں اور کلام الہٰی کو حادثات مانتے ہیں۔ جبریہ کا عقیدہ ہے کہ بندہ مجبور محض ہے اسے اپنے کسی عمل پر کوئی اختیار نہیں ہے، مشبہہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مخلوق کے مشابہ مانتے ہیں اور ذات باری تعالیٰ کی جسمیت کے قائل ہیں، نیز ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق میں حلول کرتا ہے، اور شیعہ اور خوارج کے عقائد مشہور ہی ہیں، یعنی شیعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تفصیل کے قائل ہیں، اب ان میں بھی کئی فرقے ہیں، شیعہ کے بعض فرقے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت و فوقیت دیتے ہیں لیکن شیخین کی تکفیر نہیں کرتے مگر دوسرے فرقے حضرت ابوبکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تکفیر کے بھی قائل ہیں۔ (نعوذبا اللہ ) نیز بعض شیعہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن اپنی مکمل صورت میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی بعض وہ آیتیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی منقبت میں تھیں، حذف کر دی گئی ہیں، خوارج حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دشمن جماعت کو کہتے ہیں یہ لوگ حضرت علی کرم وجہہ اللہ کی تکفیر کے قائل ہیں (نعوذ با اللہ )۔
اس موقع پر ایک خاص اشکال کی طرف اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے :
ایک ایسا آدمی جو جاہل تھا اسلام کی دولت سے مشرف ہوا، اس کے سامنے اہل سنت و الجماعت بھی ہیں اور شیعہ کی جماعت بھی ہے دونوں اس کے سامنے اپنے حق پر ہونے کے دلائل قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں، وہ نو مسلم حیران ہے کہ وہ دونوں میں سے کسے حق جانے اور کس کے دلائل کی تصدیق کرے جب کہ وہ علم سے بالکل بے بہرہ ہے، اس کا سیدھا حل یہ ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو صراحت کے ساتھ اہل سنت و الجماعت کے حق ہونے کی دلیلیں پیش کرتی ہیں اور وہ چیزیں ایسی صاف اور ظاہر ہیں کہ ان کا مشاہدہ عام لوگوں کو بھی ہوا کرتا ہے لہٰذا وہ ان میں غور کرے تو اس کے سامنے اہل سنت کی حقانیت آشکارا ہو جائے گی۔
مثلاً ایک سب سے بڑی کھلی نشانی جو آج سب کے سامنے مشاہدہ میں ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت کے حصہ میں ہے یعنی قرآن کریم کے جتنے بھی حافظ ہوتے ہیں وہ سنی ہوتے ہیں آج تک کسی شیعہ کو حافظ نہیں دیکھا گیا اس لیے کہ ان کی قسمت میں اس عظیم نعمت سے محرومی لکھی ہوئی ہے، ہو سکتا ہے کہ لاکھوں میں کوئی ایک شیعہ حافظ نکل آئے تو یہ نادر ہے جس کا اثر کلیہ پر نہیں پڑتا کیونکہ النادر کا لمعدوم نادر نہ ہونے کے درجہ میں ہے۔
دوسرے یہ بھی ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ دین محمدی اور شریعت مصطفوی کے ائمہ اور رکن دین جتنے علماء اور اولیاء تھے وہ سب سنی تھے اور ان میں بعض ائمہ و علماء کے شیعہ بھی معتقد ہیں۔ اگر مسلک اہل سنت و الجماعت میں کوئی کجی یا نقص ہو تو وہ حضرات یقینًا اس مسلک کو اختیار کئے ہوئے نہ ہوتے۔
تیسرے اسلامی شعار مثلاً جمعہ، جماعت عیدین وغیرہ علی الاعلان اور کھلے بندوں صرف سنی ہی ادا کرتے ہیں اور شیعہ ان نعمتوں سے محروم و بے نصیب ہیں ۔
چوتھے مکہ و مدینہ جو دین اسلام کا مبداء اور مرکز ہے اور وہاں کے باشندے اپنی بزرگی و عظمت کے لحاظ سے ضرب المثل ہیں وہاں کے لوگ بھی اسی مسلک کے پابند ہیں اگر شیعہ مسلک اچھا ہوتا تو وہ لوگ یقینًا سنی نہ ہوتے بلکہ شیعہ مسلک کے پابند ہوتے۔
اسی طرح دوسرے فرقے بھی اپنی حقانیت کے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کا جواب یہی ہے کہ کسی کی حقانیت و بطلان پر محض دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک اس دعویٰ کی قوی دلیل نہ ہو۔
اہل سنت و الجماعت کی حقانیت کی دلیل یہ ہے کہ یہ دین اسلام جو ہم تک پہنچا ہے وہ نقل کے ساتھ پہنچا ہے اس میں محض عقل کافی نہیں ہے لہٰذا تواتر اخبار اور احادیث و آثار میں تلاش و جستجو اور تنقیع کے بعد یہ بات متیقّن ہوگئی ہے کہ صحابہ اکرام رضون اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ اسی مسلک و اعتقاد پر تھے، دوسرے باطل فرقے سب بعد میں پیدا ہوئے، نہ تو صحابہ ان باطل فرقوں کے مسلک کے پابند تھے اور نہ دیگر نیک و صالح لوگ ان فرقوں کے ساتھ تھے اگر صحابہ اور تابعین کے زمانوں میں ان میں سے بعض باطل فرقے پیدا ہوئے تو ان لوگوں نے ان سے اپنی انتہائی نفرت و بیزاری کا اظہار کیا یہاں تک کہ ایسے غلط عقائد و مسلک کے لوگوں سے ان حضرات نے تمام تعلق و رابطے منقطع کر ڈالے، نیز صحاح ستہ کے حضرات مصنفین و دیگر محدثین علمائے ربانین اور اولیائے کاظمین تمام کے تمام اہل سنت و الجماعت کے عقائد و مسلک کے پابند تھے۔
لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت الجماعت کا مسلک حق نہ ہوتا اور ان کے عیقدے صحیح نہ ہوتے تو کروڑہا پدم ہا پدم لوگ اس مسلک حق کے پابند نہ ہوتے جن میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی، بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی تھے اور علمائے محدثین بھی، عقلاء و دانش مند بھی تھے اور عوام بھی۔
بہر حال مسلک اہل سنت و الجماعت کے حق ہونے کی چند مثالیں ہیں ان کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں ہیں جو اہل سنت و الجماعت کی حقانیت پر شاہد عادل ہیں، اگر نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض سے الگ ہٹ کر تلاش حق کے حقیقی جذبہ سے اہل حق کی اس جماعت کے عقائد کو دیکھا جائے تو ان کی حقانیت عیاں ہو جائے گی ورنہ بقول شاعر
ہشیار کو اک حرف نصیحت ہے کافی
ناداں کو کافی نہیں دفتر نہ رسالہ
اس حدیث کے ان تمام فرق باطلہ کے لوگوں کو ہڑک والوں سے مشابہت دی گئی ہے اس لیے کہ جس طرح ہڑک والے پر ہڑک غالب ہوتی ہے اور پانی سے بھاگتا ہے نتیجہ میں وہ پیاسا ہو جاتا ہے اسی طرح جھوٹے مذاہب اور باطل مسلک والوں پر بھی خواہشات نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے وہ علم و معرفت کے لالہ زاروں سے بھاگ کر جہل و گمرائی کی وادیوں میں جا گرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ دین و دنیا دونوں جگہ اللہ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔
===============
حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں علم اٹھا لیا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قتل۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 81 (28015) - فتنوں کا بیان : قتل کے بارے میں]
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے رہے ہیں: علم حاصل کرو اس کے ذریعے تمہاری پہچان ہوگی۔ تم اس پر عمل کرو تم اس کے اہل میں شامل ہو جاؤگے کیونکہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا جب دس آدمیوں میں سے نو آدمی نیکی کے بارے میں علم نہیں رکھیں گے اور ان میں سے کوئی بھی برائی سے نہیں بچے گا۔ ماسوائے اس کے جو اس سے بے خبر ہو اس وقت یہی لوگ ہدایت کے پیشوا ہوں گے اور علم کے چراغ ہوں گے جو فساد پھیلانے والے چغل خوری کرنے والے اور فضول باتیں کرنے والے نہیں ہوں گے۔ امام ابومحمد دارمی ارشاد فرماتے ہیں اس روایت میں استعمال ہونے والا لفظ نومہ سے مراد وہ شخص ہے جو برائی سے غافل ہو۔ مذابیع سے مراد بکثرت گفتگو کرنے والا ہے البذر سے مراد چغلی کرنے والا ہے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 261 (42993) - مقدمہ دارمی : علم کے مطابق عمل کرنا اور اس بارے میں درست نیت رکھنا]
حضرت عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں عنقریب ایسا زمانہ آئے گا جن شیاطین کو حضرت سلیمان نے باندھ رکھا تھا وہ کھل جائیں گے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دینا شروع کردیں گے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 429 (43161) - مقدمہ دارمی : مستند راویوں سے حدیث نقل کرنا]
وعن أبي ثعلبة في قوله تعالى (عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم ...5- المائدہ : 105) . فقال أما والله لقد سألت عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال بل ائتمروا بالمعروف وتناهوا عن المنكر حتى إذا رأيت شحا مطاعا وهوى متبعا ودينا مؤثرة وإعجاب كل ذي رأي برأيه ورأيت أمرا لا بد لك منه فعليك نفسك ودع أمر العوام فإن وراءكم أيام الصبر فمن صبر فيهن قبض على الجمر للعامل فيهن أجر خمسين منهم ؟ قال أجر خمسين منكم . رواه الترمذي وابن ماجه
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 998 (28932) ؛ سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 947 (19016) ؛ سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 894 (33941)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1069 (41433) - توکل اور صبر کا بیان : آخر زمانہ میں دین پر عمل کرنے کی فضیلت واہمیت]
" حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد۔ (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ) 5۔ المائدہ : 105) ۔ کی تفسیر میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا جان لو خدا کی قسم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا (کہ کیا میں اس آیت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے باز رہوں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (کہ ہر گز نہیں) تم اس فریضۃ کی ادائیگی سے باز نہ رہو) بلکہ نیکیوں کا حکم دیتے رہو یہاں تک کہ جب تم بخل کو دیکھو کہ لوگ اس کی اتباع کرنے لگے ہیں، جب تم خواہشات نفس کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کو آخرت پر ترجیح دینے لگے ہیں، جب تم دیکھو کہ ہر عقل مند اور کسی مسلک کا پیرو اپنی ہی عقل اور اپنے ہی مسلک کو سب سے اچھا اور پسندیدہ سمجھنے لگا ہے (کہ نہ تو وہ کتاب وسنت اور اجماع امت اور قیاس کی طرف نظر کرتا ہے اور نہ علماء اور اہل حق کی طرف رجوع کرتا ہے بلکہ محض اپنے نفس ہی کو سب سے بڑا حاکم اوعر مفتی سمجھنے لگا ہے) اور جب تم کسی ایسی چیز کو دیکھو کہ جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو تو (ان سب صورتوں میں) اپنے آپ کو لازم پکڑ لو (یعنی اپنی ذات کو گناہوں سے محفوظ رکھو) اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو (بلکہ ان سے گوشہ نشینی اختیار کرو) کیونکہ تمہارے سامنے آخرزمانہ میں ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا ضروری ہوگا (اور ان ایام کی ابتداء خلفاء راشدین کے بعد ہی ہوگئی ہے اور تاحال ان کا سلسلہ جاری ہے) لہٰذا جس شخص نے ان دنوں میں صبر کرلیا (یعنی اس سخت زمانہ میں دین پر عمل پیرا رہنے کی کلفت ومشقت کو برداشت کرلیا) اس کی حالت یہ ہوگی کہ گویا ان سے اپنے ہاتھ میں انگارا لے لیا ہے اور ان دنوں میں جو شخص دین وشریعت کے احکام پر عمل کرے گا اس کو ان پچاس لوگوں کے عمل کے برابر ثواب ملے گا جو اس شخص جیسے عمل کریں (اور ان کا تعلق نہ ان سخت ایام سے ہو اور نہ ان کو دین پر عمل کرنے کے سلسلے میں وہ تکالیف ومصائب برداشت کرنا پڑے جو اس شخص کو برداشت کرنا پڑیں گے) ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے (یہ سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کیا ان پچاس لوگوں کے عمل کا اعتبار ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے پچاس آدمیوں کا اجروثواب" ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)
تشریح :
وریت امر الابدلک(اور جب تم ایسی چیز دیکھو جس کے علاوہ چارہ کار نہو) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ایسی برائی کا دور دورہ ہو کہ جس کی طرف خواہش نفس کا میلان ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان آنے اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے جبلت طبعی کی بناء پر بے اختیار اس برائی میں مبتلا ہوجانے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلینا لازم ہے تاکہ اس برائی کا ارتکاب نہ ہو۔ اور بعض حواشی میں یہ مطلب لکھا ہے لابدلک سے مراد اپنے عجز کے سبب نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے معذور رہنا ہے۔ یعنی اگر تم کسی ایسی برائی کو دیکھو جس سے لوگوں کو روکنے اور منع کی طاقت تم نہ رکھتے ہو اور اس وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے سکوت واعراض کرتے ہو تو اس صورت میں تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو جو اس برائی میں مبتلا ہیں۔ یہ معنی کتاب کے ان نسخوں کی روایت کے مطابق ہیں جن میں لابدلک (جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو) کے بجائے لایدلک (بمعنی لاقدرۃ لک علیہ یعنی جس سے روکنے اور منع کرنے کی طاقت وقدرت تمہیں حاصل نہ ہو) کے الفاظ ہیں۔ یا مذکورہ جملہ کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر تمہیں کوئی ایسا امر درپیش ہو جو تمہارے لئے نہایت ضروری ہو اور سخت اہمیت کا حامل ہو اور اس کی وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دے سکتے ہو بایں طور کہ اگر تم اپنی توجہ اور اپنے وقت کو اس فریضہ کی انجام دہی میں لگاتے ہو تو تمہارے وہ ضروری امر فوت ہوجاتا، ہو تو اس صورت میں تم ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو، جو برائیون میں مبتلا ہیں اور جن کو ان برائیوں سے روکنے سے تم معذور ہو۔
" اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو" کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ گناہ کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہیں مگر تم طاقت قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے ان لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنے اور برائی سے روکنے سے سکوت واعراض کرنا ضروری سمجھتے ہو تو اس صورت میں تمہیں چاہئے کہ بس اپنی ذات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے بجائے خود اپنے آپ کو گناہوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے اور نیک کاموں کو اختیار کرنے میں مشغول رہو، نیز لوگوں کے معاملات وحالات اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو، وہ اگر چاہے تو اپنے فضل وکرم سے خود ہی ان کو راہ راست پر لے آئے گا ورنہ ان کو سخت سزا دے گا۔ اس حکم کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو بس اسی قدر ذمہ دار قرار دیتا ہے ، جتنی ذمہ داری اٹھانے کی وہ طاقت وقدرت نہ رکھتا ہو۔
" گویا اس نے اپنے ہاتھ میں انگارہ لے لیا ہے" یہ جملہ دراصل مشقت وکلفت برداشت کرنے سے کنایہ ہے یعنی اس زمانہ میں دین پر چلنا اور دنیا سے بے رغبتی رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا بلکہ یہ کام اتنا سخت اور اس قدر مصائب اور کلفتوں سے بھرپور ہوگا کہ جیسے کوئی شخص اپنے ہاتھ پر دہکتا ہوا انگارہ رکھ لے اور پھر اس کی تکلیف واذیت کو برداشت کرلے۔
حدیث کے آخری جزء سے مذکورہ صفت (یعنی دین پر عمل پیراہونے کی کلفت ومشقت برداشت کرنے اور اس پر صابر وشاکر رہنے) میں صحابہ رضی اللہ عنہم پر آخر زمانہ کے دیندار لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جزوی فضیلت، کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اوب عمروبن عبدالبر نے ، جو مشاہیر محدثین میں سے ہیں، اپنی کتاب استیعاب میں اس مسئلہ پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس امت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو کسی صحابہ رضی اللہ عنہم کے مرتبہ جیسی فضیلت رکھا تو بلکہ صحابی سے زیادہ فضیلت کا حامل ہو۔ انہوں نے اپنے اس قول کی دلیل میں ان احادیث کو پیش کیا ہے جن سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے، لیکن علماء کا مختار قول اس کے خلاف ہے تاہم واضح رہے کہ یہ اختلاف اقوال بس ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی حد تک ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے اور واپس اپنے وطن چلے گئے ، اس سے زیادہ صحبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو حاصل نہ رہی، ورنہ جہاں تک ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذات کا تعلق ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طویل صحبت ورفاقت کا شرف حاصل رہا ہے اور جو شب وروز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضررہے اور انہوں نے آثار وانوار صحبت جمع کیے ان کی ذات اس اختلاف اقوال سے ماور اء ہے کہ ان کے بارے میں کسی بھی عالم کا یہ قول نہیں ہے کہ اس امت کوئی بھی فرد ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کے رتبہ کے بقدر یا اس سے زائد فضیلت رکھ سکتا ہے، بلکہ ہم تو جمہور علماء کے قول کے مطابق بلا استثناء تما ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ شرف صحابیت کا مرتبہ ہر ایک صحابی کو حاصل ہے خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایمان لر کر اپنے وطن چلے گئے ہوں اور خواہ تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ورفاقت میں رہے ہوں، اور یہ شرف بذات خود اس درجہ کا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی بھی فرفد اس مرتبہ میں ان کا شریک نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس امت کا کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی بلا استثناء کسی بھی صحابی رضی اللہ کے مرتبہ جیسی فضیلت نہیں رکھ سکتا ۔ قوب القلوب میں کیا خوب لکھا ہے کہ جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑنے والی ایک ہی نظر سے وہ حقائق آشکارا ہوجاتے ہیں اور وہ مقام ومقصد حاصل ہوجاتا ہے جو دوسروں کو سالہا سال کے چلوں اور قرنہا قرن کی ریاضت ومجاہدہ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔
عبدالقدوس بن محمد عطار، صالح بن عبدالکبیر، بن شعیب، عبدالسلام بن شعیب، شعیب، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ازد (یعنی) یمن کے رہنے والے اللہ کی زمین پر اس کے دین کے مددگار ہیں۔ لوگ ان کو پست کرنا چاہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ایک نہ مانیں گا بلکہ انہیں اور بلند کرے گا لوگوں پر ضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کہے گا کاش میرا باپ یمنی ہوتا کاش میری ماں یمنی ہوتی۔ یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور یہ انس سے مرفوعاً بھی مروی ہے اور وہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1910 (29844) - مناقب کا بیان : باب ایل یمن کی فضیلت کے بارے میں]
ایک مرتبہ مروان کو بتایا گیا کہ اس کے دروازے پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہیں اس نے کہا کہ انہیں اندر بلاؤ جب وہ اندر آگئے تو مروان نے کہا کہ اے ابوہریرہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان یہ تمنا کرے گا کاش وہ ثریا ستارے کی بلندی سے گر جاتا لیکن کاروبار حکومت میں سے کوئی ذمہ داری اس کے حوالے نہ کی جاتی۔
[مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 1725 (54645) ، 3498 (56418) ، 3685 (56605) صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ]
وعن أبي بكر بن أبي مريم قال : كانت لمقدام بن معدي كرب جارية تبيع اللبن ويقبض المقدام ثمنه فقيل له : سبحان الله أتبيع اللبن ؟ وتقبض الثمن ؟ فقال نعم وما بأس بذلك سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " ليأتين على الناس زمان لا ينفع فيه إلا الدينار والدرهم " . رواه أحمد
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 26
حضرت ابوبکر ابن مریم تابعی کہتے ہیں کہ حضرت مقدام ابن معدی کرب (صحابی) کی ایک باندی ان کے گھر کے جانوروں کا دودھ بیچا کرتی تھی اور مقدام اس سے دودھ کی حاصل ہونیوالی قیمت لے لیا کرتے تھے چنانچہ ایک روز مقدام سے کسی نے کہا کہ سبحان اللہ کتنی عجیب بات ہے کہ باندی دودھ بیچتی ہے اور تم اس کی قیمت لے لیتے ہو مقدام نے کہا کہ ٹھیک تو ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئیگا جس میں درہم ودینار کے علاوہ کوئی چیز فائدہ نہیں دے گی۔
تشریح :
گویا لوگوں نے حضرت مقدام کو طعنہ دیا کہ آپ کی باندی آپ کے جانوروں کا دودھ بیچتی ہے اور آپ اس دودھ کی قیمت لے کر کھاتے ہیں حالانکہ دودھ کے بارے میں تو بہتر یہی ہے کہ اسے فقراء ومساکین میں صدقہ وخیرات کے طور پر تقسیم کر دیا جائے یا اسے اپنے دوستوں اور متعلقین پر صرف کیا جائے دودھ کو بیچنا اور ان کی قیمت وصول کرنا آپ جیسوں کی شان کے لائق نہیں ہے اس کا جواب حضرت مقدام نے یہ دیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس میں کوئی شرعی نقصان ہو دودھ بیچنا اور اس کی قیمت وصول کرنا نہ ہی حرام ہے اور نہ مکروہ ہے اور پھر میرا یہ فعل کسی لالچ کی بناء پر یا مال وزر کی ہوس میں نہیں ہے بلکہ دراصل میں اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے اس کا محتاج ہوں اس کے بعد حضرت مقدام نے آنے والے زمانے میں مال و زر کی طرف لوگوں کے شدید میلان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی بیان کی کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں لوگوں کی تمام تر توجہ اور کوششوں کا مرکز صرف مال وزر بن جائے گا۔ چونکہ لوگ اپنی ضروریات کا دائرہ وسیع کریں گے اور اسباب معیشت کی قلت وگرانی ہمہ قسم کی پریشانیوں اور نقصانات میں مبتلا کر دے گی اس لئے نہ علم وہنر کی طرف توجہ ہوگی اور نہ اہل علم وکمال کی قدر و منزلت بلکہ صرف مال و زر کی طرف توجہ ہوگی اور مالداروں کی قدر و منزلت ۔
منقول ہے کہ صحابہ آپس میں فرمایا کرتے تھے کہ تجارت و محنت کے ذریعے اتنا مال و زر ضرور کما لیا کرو جس سے ابرومندانہ زندگی کا تحفظ ہو سکے اور یاد رکھو کہ ایک ایسا بھی دور آنیوالا ہے کہ جب تم میں سے کوئی محتاج وتنگدست ہوگا تو سب سے پہلے اپنے دین وایمان ہی کو کھا جائیگا۔
عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " ليأتين على الناس زمان لا يبقى أحد إلا أكل الربا فإن لم يأكله أصابه من بخاره " . ويروى من " غباره " . رواه أحمد وأبو داود والنسائي وابن ماجه
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 57 (39265) - سود کا بیان : سود کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب سود کھانیوالوں کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہے گا اور اگر کوئی شخص ایسا باقی بھی رہے گا تو وہ سود کے بخار میں مبتلا ہوگا نیز (بعض کتابوں میں لفظ من بخارہ کی بجائے) من غبارہ (یعنی وہ سود کے غبار میں مبتلا ہوگا ) نقل کیا گیا ہے ( احمد ابوداؤد نسائی ابن ماجہ)
تشریح :
بخار یا غبار سے مراد سود کا اثر ہے مطلب یہ ہے کہ سود کے عام ابتلاء کے زمانے میں اگر کوئی شخص براہ راست سود کے لین دین سے بچ بھی جائے گا تو وہ کسی نہ کسی صورت میں سود کے زیر اثر ضرور ہوگا مثلا وہ کسی سود خور کا ملازم و وکیل ہوگا یا تمسک لکھنے والا ہوگا یا کسی سودی معاملے کا گواہ ہوگا یا سودی کاروبار کے درمیان رابطہ پیدا کرنیوالا ہوگا یا اس کے اپنے دوسرے ذاتی وتجارتی معاملات سود خوروں کے ساتھ استوار ہوں گے اس طرح ایسا شخص بھی بالواسطہ طور پر سود کے مال سے اپنے مال کو ملوث کرے گا یا یہ کہ جب سود کا دائرہ وسیع ہو کر تجارت ومعیشت کے ہر گوشہ پر حاوی ہوگا (جیسا کہ آج کل ہے) تو پھر سود کا مال ہر شخص تک کسی نہ کسی حیثیت میں ضرور پہنچے گا ۔ مثال کے طور پر اپنے ہی زمانے کو لے لیجئے آپ ایک متقی شخص کو دیکھتے ہیں جو اتنا دیندار اور اتنا پرہیزگار ہے کہ اس کی اعتقادی وعملی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں ذرا سا بھی جھول نظر آئے اور واقعۃً اس شخص کی پاکبازی وپرہیزگاری ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے مگر جب وہی شخص اپنے بچوں کے لئے ایک آنے کی مونگ پھلی خرید کر لاتا ہے تو کیا وہ شخص بھی اس کا تصور کرتا ہے کہ میں جو یہ ایک کمتر سی چیز اپنے بچوں کو کھلا رہا ہوں یا خود کھا رہا ہوں نہ معلوم یہ کتنے سودی ذرائع اور کتنے سودی لین کے مراحل سے گذر کر میرے ہاتھوں تک پہنچی ہے حدیث کا یہی مفہوم ہے کہ آنیوالے زمانہ میں سود کی لعنت اتنی ہمہ گیر اور وسیع ہوگی کہ ہر شخص شعوری وغیر شعوری طور پر اسمیں مبتلا ہوگا کوئی بلاواسطہ سود کھائے گا کوئی بالواسطہ اس کا مرتکب ہوگا اور کوئی بالکل ہی غیر شعوری طور پر اس کے زیر اثر ہوگا۔
عن أبي مالك الأشعري أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " ليشربن ناس من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها " . رواه أبو داود وابن ماجه
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 228 (40592) ہر نشہ آور مشروب حرام ہے خواہ اس کو شراب کہا جائے یا کچھ اور
حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " (ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ) میری امت کے بعض لوگ پئیں گے اور اس کا نام شراب کے بجائے کچھ اور رکھیں گے ۔" (ابوداؤد )
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کے ذہن میں کجی اور فساد ہو گا وہ شراب پینے کے سلسلے میں مختلف حیلے بہانے کریں گے، خاص طور پر نام کو بڑا پردہ بنائیں گے، مثلاً نبیذ یا مباح شربت جیسے ماء العسل وغیرہ کو نشہ آور بنا کر پئیں گے اور یہ گمان کریں گے کہ یہ حرام نہیں ہے کیونکہ نہ اس کو انگور کے ذریعہ بنایا گیا ہے اور نہ کھجور کے ذریعہ، حالانکہ ان کا اس طرح گمان کرنا ان کے حق میں ان مشروبات کے مباح و حلال ہونے کے لئے کارگر نہیں ہوتا بلکہ حقیقت میں وہ شراب پینے والے شمار ہوں گے اور ان کی ان کو سزا ملے گی کیوں کہ اصل حکم یہ ہے کہ ہر نشہ آور شراب حرام ہے خواہ وہ کسی بھی چیز سے بنی ہو۔
ایک صورت یہ بھی ہو گی کہ وہ شراب ہی پئیں گے لیکن اپنی طرف سے اس کا کوئی دوسرا نام رکھ لیں گے اس کو شراب نہیں کہیں گے تاکہ لوگ شراب پینے کا الزام عائد نہ کریں، لیکن حقیقت میں نام کی یہ تبدیلی ان کے حق میں قطعا کارگر نہیں ہو گی اصل میں اعتبار تو مسمی کا ہے نہ کہ اسم کا ۔
وعن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادته "
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 893 (40101) - قضیوں اور شہادتوں کا بیان : جھوٹی گواہی دینے والوں کے بارے میں پیشین گوئی
اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں یعنی صحابہ پھر وہ جو ان کے متصل ہیں یعنی تابعین اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل ہیں یعنی تابع تابعین اور پھر (آخر میں ) ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ ان میں سے ایک گواہی اس کی قسم سے پہلے اور اس کی قسم اس کی گواہی سے پہلے ہوگی ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
گواہی قسم سے پہلے اور قسم گواہی سے پہلے ہوگی ۔" سے گواہی وقسم میں عجلت پسندی وزیادتی کو بطور کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ عجلت میں وزیادتی کی وجہ سے گواہی دینے اور قسم کھانے میں اس قدر لاپرواہ ہوگا کہ کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائے گا اور کبھی پہلے گواہی دے گا اور پھر قسم کھائے گا ۔
مظہر نے کہا ہے یہ جملہ گواہی وقسم میں تیز روی وعجلت پسندی کی تمثیل کے طور پر ہے یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں اتنی تیزی اور پھرتی دکھایا کرے گا کہ نہ تو اس کو دین کی کوئی پرواہ ہوگی اور نہ وہ ان چیزوں میں کوئی پرواہ کرے گا ۔ یہاں تک کہ اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پہلے قسم کھائے یا پہلے گواہی دے ۔ یا یہ کہ اس کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ اس نے پہلے قسم کھائی ہے یا پہلے گواہی دی ہے ۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی دراصل جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کے عام ہو جانے کی خبر دینے کے طور پر ہے کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں لوگ گواہی دینے کو پیشہ بنا لیں گے اور جھوٹی قسم کھانا ان کا تکیہ کلام بن جائے گا ۔ جیسا کہ آجکل عام طور پر رواج ہے کہ پیشہ ور گواہ عدالتوں میں جھوٹی گواہی دیتے پھرتے ہیں اور ان کو اس بات کا ذرہ پھر احساس نہیں ہوتا کہ وہ چند روپوں کی خاطر عدالت میں جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کس طرح برباد کر رہے ہیں ۔
اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص کبھی تو قسم کے ذریعہ اپنی گواہی کو ترویج دے گا یعنی یوں کہے گا کہ " خدا کی قسم !میں سچا گواہ ہوں ۔" اور کبھی گواہی کے ذریعہ اپنی قسم کو ترویج دے گا یعنی اعلان کرتا پھرے گا کہ " لوگ میری قسم کے سچے ہونے پر گواہ رہیں ۔
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يتقارب الزمان ويقبض العلم وتظهر الفتن ويلقى الشح ويكثر الهرج قالوا وما الهرج ؟ قال القتل . متفق عليه .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1321 (41685) - فتنوں کا بیان : ایک خاص پیش گوئی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے علم اٹھا لیا جائے گا ، فتنے پھوٹ پڑیں گے بخل ڈالا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ ہرج کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قتل۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
" زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے" کا مطلب یا تو یہ ہے کہ کہ اس وقت دنیا کا زمانہ اور آخرت کا زمانہ ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں گے، اس صورت میں قیامت کا قریب ہونا مراد ہوگا یا اس جملہ سے مراد زمانہ والوں میں سے بعض کا بعض کے ساتھ برائی اور بدی کے تعلق سے قریب ہونا ہے۔ یعنی اس زمانہ میں جو برے اور بدکار لوگ ہوں گے وہ ایک دوسرے کے قریب ونزدیک آ جائیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ خود زمانہ کے اجزاء بدی وبرائی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب اور مشابہ ہوں گے یعنی ایک زمانہ برائی اور بدی کا ماحول لئے ہوئے آئے گا اور اس کے بعد پھر دوسرا زمانہ بھی اسی طرح آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں حکومتیں دیر پا نہیں ہوں گی اور مختلف انقلابات اور عوامل بہت مختصر مختصر عرصہ میں حکومتوں کو بدلتے رہیں گے۔ اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا اس میں لوگوں کی عمریں بہت چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جملہ دراصل گناہوں کے سبب زمانہ سے برکت کے ختم ہو جانے سے کنایہ ہو، یعنی آخر زمانہ میں جب کہ گناہوں کی کثرت ہو جائے اور لوگ دین شریعت کے تقاضوں اور خدا وآخرت کے خوف سے بے پرواہ ہو کر عیش وعشرت اور راحت وغفلت میں پڑ جائیں گے تو زمانہ سے برکت نکل جائے گی اور اس کے شب و روز کی گردش اتنی تیز اور دن رات کی مدت اتنی مختصر محسوس ہونے لگے گی کہ سالوں پہلے گزرا ہوا کوئی واقعہ کل کی بات معلوم ہوگا اور ہر وقت کی کمی کا شکوہ رنج نظر آئے گا۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں وقت اس طرح جلدی گزرے گا کہ ایک سال ایک مہینے کے برابر اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر معلوم ہوگا۔
" علم اٹھا لیا جائے گا " کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں مخلص، با عمل اور حقیقی علم کے حامل اٹھا لئے جائیں گے اور اس طرح حقیقی علم مفقود ہو جائے گا نیز مختلف علمی فتنوں کا اندھیرا اس طرح پھیل جائے گا کہ علماء سو کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوگا اور ہر طرف ایسا محسوس ہوگا جیسے علم کا چراغ گل ہو گیا ہے اور جہالت ونادانی کی تاریکی طاری ہو گئی ہے۔
" بخل ڈالا جائے گا " مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں لوگوں میں بخل کی خصلت نہایت پختہ ہو جائے گی اور یہ چیز یعنی بخل کی برائی ایک عام وبا کی طرح پھیل جائے گی ، نیز لوگ اس بخل کے یہاں تک تابع ہو جائیں گے کہ صنعت وحرفت والے اپنی صنعتی اشیاء کو بنانے اور پیدا کرنے میں بخل وتنگی کرنے لگیں گے اور مال کی تجارت و لین دین کرنے والے لوگ اپنے مال کو چھپا کر بیٹھ جائیں گے یہاں تک کہ ضروری اشیاء کو بھی فراہم کرنے اور دینے سے انکار کرنے لگیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخل ڈالا جائے گا سے لوگوں میں اصل بخل کا پایا جانا مراد نہیں ہے کیونکہ اصل بخل تو انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اور اس اعتبار سے یہ بات پہلے زمانہ کے لوگوں کے بارے میں بھی نہیں کی جا سکتی کہ ان میں سرے سے بخل کا وجود نہیں تھا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا چونکہ اصل بخل انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اس لئے کوئی بھی شخص نہ پہلے زمانوں میں اس خصلت سے کلیۃ محفوظ رکھ سکتا ہے اور جیسا کہ اس آیت (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِه فَاُولٰ ى ِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 64۔ التغابن : 16) سے واضح ہوتا ہے ایسے پاک نفس انسان سے پہلے بھی گزرے ہیں اب بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے یہ اور بات ہے کہ زمانہ کے اثرات کی وجہ سے ایسے پاک نفسوں کی تعداد ہر آنے والے زمانہ میں پہلے سے کم ہوتی جائے۔
" ہرج" کے معنی ہیں فتنہ اور خرابی میں پڑنا، اور جیسا کہ قاموس میں لکھا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہرج اناس تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں لوگ فتنے میں پڑ گئے اور قتل واختلاط یعنی خونریزی اور کاموں کے خلط ملط ہو جانے کی وجہ سے اچھے برے کی تمیز نہ کر سکنے کی آفت میں مبتلا ہو گئے پس اس ارشاد گرامی " ہرج" سے مراد خاص طور پر وہ قتل وخونریزی ہے جو مسلمانوں کے باہمی افتراق واتنشار کے فتنہ کی صورت میں اور اچھے برے کاموں کی تمیز مفقود ہونے کی وجہ سے پھیل جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم ایسے زمانہ میں ہو کہ اگر تم میں سے کوئی آدمی ان احکام کا دسواں حصہ بھی چھوڑ دے جو دیئے گئے ہیں تو وہ ہلاک ہو جائے لیکن ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اگر کوئی آدمی ان احکام کے دسویں حصہ پر بھی عمل کرے گا تو نجات پا جائے گا۔" (جامع ترمذی)
تشریح : اس حدیث سے عہد رسالت اور مابعد کے فرق کا پتہ چلتا ہے، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کا چرچا اتنی شدت اور کثرت کے ساتھ تھا کہ ذراسی لغزش بھی ہلاکت و تباہی کا باعث بن سکتی تھی لیکن زمانہ آخر میں جب کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں اضمحلال پیدا ہو جائے گا تو اس وقت اتنا فرق ہوجائے گا کہ اگر کوئی آدمی احکام کے دسویں حصہ پر بھی عمل کرے تو یہ اس کی نجات کے لئے کافی ہوگا۔
تخريج الحديث
الشواهد
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ ... رقم الحديث: 20855]
ترجمہ : تم لوگ ایسے زمانہ میں جس میں علماء زیادہ ہیں، خطباء کم ہیں ایسے وقت میں کوئی اپنے علم کے دسویں حصہ کو بھی چھوڑ دے گا ہلاک ہوجائے گا۔ لیکن ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب خطباء کی کثرت ہوگی اور علماء کم ہوجائیں گے ۔ ان حالات میں جو اپنے علم کے دسویں حصہ پر بھی عمل کرلے جائے گا نجات پاجائے گا۔( امام ہروی نے اس روایت کو ذم الکلام میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے الصحیحہ 2510 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)
آخری زمانہ کے حجاج کرام: ام القریٰ حافظ طبری میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: ” لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ میری امت کے مالدار لوگ سیر وتفریح کی نیت سے حج کریں گے اور درمیانہ درجہ کے لوگ تجارت کے لئے اور قاری ریا وشہرت کے لئے اور فقیر بھیک مانگنے کے لئے حج کیا کریں گے“۔
فائدہ: یعنی حج جیسی مقدس عبادت کی ادائیگی کے لئے دنیاوی اغراض ومقاصد کو پیش نظر رکھنا تقویٰ کے خلاف ضرور ہے‘ فتویٰ کے خلاف ہو یا نہ ہو۔ ’حضور کریم ا نے فرمایا: عنقریب تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ تین چیزوں سے زیادہ کوئی چیز مشکل نہیں ہوگی۔ ۱:- حلال کا پیسہ‘ ۲:- غمخواردوست‘ ۳:-سنت نبوی ا پر عمل کا شوق۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الدَّهْرُ " .
الشواهد
|
No comments:
Post a Comment