علامہ سیوطیؒ(م911ھ) نے [اپنی کتاب ’’الخیر الدال علی وجوب القطب والابدال‘‘ میں] تقریباً بیس(20) کتب وروات سے ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن سے ابدال وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، اور تمام حدیثوں کو صحیح وحسن فرمایا ہے۔
[دلائل السلوک: ۹۳]
علامہ سیوطیؒ(م911ھ) کی کتاب [الحاوی للفتاوی] میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے غلام کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ان سات میں سے ایک ہے۔ جن کے ذریعے اللہ تعالی زمین والوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔
[الحاوی للفتاوی: ۲/۲۴۹]
[الحاوی للفتاوی: ۲/۲۴۹]
یہ ہستیاں معصوم عن الخطاء نہیں ہوتی ہیں، البتہ اللہ تعالیٰ ان کو بشری کمزوریوں سے (توبہ کے سبب) پاک کردیتے ہیں، عالم کی وجود وبقاء کے لیے جو امور من جانب اللہ ان کے سپرد ہوتے ہیں وہ اس کو بجا لاتے ہیں، کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کرتے۔ یہاں چند مقبول احادیث پیش کی جاتی ہیں:
حدیث:1
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
«سَتَكُونُ فِتْنَةٌ يُحَصَّلُ النَّاسُ مِنْهَا كَمَا يُحَصَّلُ الذَّهَبُ فِي الْمَعْدِنِ، فَلَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ، وَسَبُّوا ظَلَمَتَهُمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْأَبْدَالُ، وَسَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ سَيْبًا مِنَ السَّمَاءِ فَيُغْرِقُهُمْ حَتَّى لَوْ قَاتَلَتْهُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْهُمْ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ عِنْدَ ذَلِكَ رَجُلًا مِنْ عِتْرَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا إِنْ قَلُّوا، وَخَمْسَةَ عَشْرَ أَلْفًا إِنْ كَثُرُوا، أَمَارَتُهُمْ أَوْ عَلَامَتُهُمْ أَمِتْ أَمِتْ عَلَى ثَلَاثِ رَايَاتٍ يُقَاتِلُهُمْ أَهْلُ سَبْعِ رَايَاتٍ لَيْسَ مِنْ صَاحِبِ رَايَةٍ إِلَّا وَهُوَ يَطْمَعُ بِالْمُلْكِ، فَيَقْتَتِلُونَ وَيُهْزَمُونَ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْهَاشِمِيُّ فَيَرُدُّ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ إِلْفَتَهُمْ وَنِعْمَتَهُمْ، فَيَكُونُونَ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ»۔
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
ترجمہ:
عنقریب فتنہ نمودار ہوگا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میں کندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو بُرا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔ اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت أمِت أمِت ہو گی ۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّت لوٹا دے گا۔ وہ دجّال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔
اس حدیث کی اسناد صحیح ہے، اور اسے نہیں بیان کیا ان دونوں نے۔
[المستدرك على الصحيحين-امام الحاكم(م405ھ) : كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ ، حدیث نمبر :8658]
حدیث:2
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ ، قَالَ : ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِالْعِرَاقِ ، فَقَالُوا : الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَ : لَا ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا ، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا ، يُسْقَى بِهِمْ الْغَيْثُ ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمْ الْعَذَابُ " .
ترجمہ:
شریح بن عبید سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ عراق میں تھے اور ان کے سامنے اہلِ شام کا تذکرہ ہونے لگا، لوگوں نے کہا: امیر المومنین! آپ ان پر لعنت کریں، انہوں نے کہا: نہیں، نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شام میں چالیس آدمی ابدال کے مرتبہ سے شرف یاب ہوں گے، ان میں سے جب ایک فوت ہوگا، تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو لے آئے گا، ان کی وساطت سے بارش طلب کی جائے گی اور دشمن کے مقابلہ میں ان کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی اور ان کے سبب اہل شام سے عذاب ٹلیں گے۔
[مسند-احمد:896]
[فضائل الصحابة-امام أحمد بن حنبل(م241ھ)» حدیث#1727]
بعض محدثین نے اس روایت کو کمزور قرار دیا ہے انقباع کے سبب، کہ شریحؒ نے حضرت علیؓ کو کبھی پایا ہی نہیں، کبھی ملاقات ہی نہیں کی۔
[المطالب العالية محققا:13 /368]
رجاله رجال الصحيح غير شُريح، وهو ثقة۔
اس روایت کے راوی صحیح کے واری ہیں سوائے شریح کے، اور قابلِ اعتماد ہے۔
[القول المسدد-المِدراسي: ص 110، المطالب العالية محققا:13 /368، جامع الأحاديث-السيوطي:10097]
لیکن اس حدیث کو صفوان بن عبداللہ بن امیہ بن خلف الجمعی نے علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا (صحیح سند سے) روایت کیا ہے۔
[الأحاديث المختارة-امام ضياء الدين المقدسي(م643ھ) » حدیث#484]
وسنده صحيح۔
[كنز العمال-المتقي الهندي:حدیث#34607]
تخريج الحديث
تشریح:
ابدال کی واحد بدل ہے، اور چونکہ ان میں سے جو فوت ہوگا اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا، اسی لئے انہیں ابدال کہتے ہیں۔
امام الراغب الاصفہانیؒ(م502ھ)لکھتے ہیں:
والأَبْدَال: قوم صالحون يجعلهم الله مكان آخرين مثلهم ماضين .
وحقيقته: هم الذين بدلوا أحوالهم الذميمة بأحوالهم الحميدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالى: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [سورۃ الفرقان:70]
ترجمہ:
ابدال: وہ پاکیزہ لوگ ہیں کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفاتِ ذمیمہ(بری عادتوں) کی بجائے صفاتِ حسنہ(اچھی عادتوں) کو اختیار کرلیا ہو۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت:
إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صٰلِحًا فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {25:70}
ترجمہ :
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو خدا نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے .
[سورۃ الفرقان:70][المفردات في غريب القرآن: صفحہ 112 الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت]
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«خِيَارُ أُمَّتِي فِي كُلِّ قَرْنٍ خَمْسُمِائَةٍ , وَالْأَبْدَالُ أَرْبَعُونَ , فَلَا الْخَمْسُمِائَةٍ يَنْقُصُونَ وَلَا الْأَرْبَعُونَ , كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْخَمْسِمِائَةِ مَكَانَهُ , وَأَدْخَلَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ مَكَانَهُمْ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ دُلَّنَا عَلَى أَعْمَالِهِمْ. قَالَ: «يَعْفُونَ عَمَّنْ ظَلَمَهُمْ , وَيُحْسِنُونَ إِلَى مَنْ أَسَاءَ إِلَيْهِمْ , وَيَتَوَاسُونَ فِيمَا آتَاهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ»
ترجمہ :
خیار امت (امت کے وہ نیک ترین لوگ جو اس امت میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں) کی تعداد (500) ہے اور ابدال چالیس کی تعداد میں رہتے ہیں نہ پانچ سو کی تعداد کم ہوتی ہے اور نہ چالیس کی جب کوئی ابدال مرجاتا ہے تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ پانچ سو خیارِ امت میں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کے اعمال کے بارے میں بتادیجیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو معاف کردیتے ہیں جو ان پر ظلم کرتا ہے، اس شخص کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے ہیں جو ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو جو کچھ بھی دیتا ہے اس کے ذریعہ وہ فقراء مساکین کی خبرگیری کرتے ہیں۔
[حلية الأولياء-امام ابي نعيم(م430ھ) : ج1 / ص8]
[الفردوس بمأثور الخطاب-امام الديلمي (م509ھ) : حدیث نمبر 2871]
اور اس کی تصدیق قرآن کی اس آیت سے کی جاسکتی ہے:
«وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْضَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ»
[سورۃ آل عمران:134]
اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
ابدال کے احوال مخفی رہتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا، اس لیے قطعی طور پر کسی کے بارے میں ابدال کہنا مشکل ہے۔
ابدال کی خصوصی صفات وخوبیاں:
حضرت بکر بن خنیسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«عَلَامَةُ أَبْدَالِ أُمَّتِي أَنَّهُمْ لَا يَلْعَنُونَ شَيْئًا أَبَدًا»
ترجمہ:
میری امت کے ابدالوں کی علامت (جو انہیں دوسروں ممتاز بناتی ہے اور جس سے پہچانے جاسکتے ہیں وہ) یہ ہے کہ وہ لوگ کسی چیز (مخلوق) پر کبھی بھی لعنت نہیں کرتے۔
[کتاب الاولیاء-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 59]
[کتاب الصمت-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 373]
[جامع الأحاديث:14160, الجامع الصغير وزيادته:8159]
(کیونکہ لعنت تو اللہ کی رحمت سے نکلنے اور دور کرنا ہے اور یہ ابدال تو لوگوں کو اللہ کی طرف قریب کرنے والے ہوتے ہیں۔)
(التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي(م1031ھ):2/ 133، فيض القدير-المناوي:5449)
اس سے دور نہیں کرتے اور اس میں (یہ بات بھی معلوم ہوتی) ہے کہ کسی بھی چیز کو لعنت کرنا قابلِ تعریف نہیں اگرچہ وہ کافر ہو۔
(التنوير شرح الجامع الصغير-الصنعاني (م1182ھ))
حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ بُدَلَاءَ أُمَّتِي لَمْ يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِكَثْرَةِ صَلَاةٍ، وَلَا صَوْمٍ، وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ دَخَلُوهَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَسَخَاوَةِ الْأَنْفُسِ، وَسَلَامَةِ الصُّدُورِ»
ترجمہ:
میری امت کے ابدال (نفلی)نماز اور روزہ کی "کثرت" سے جنت میں داخل نہ ہوں گے لیکن وہ اللہ کی رحمت اور دلوں کی سخاوت اور سینوں کی سلامتی(صفائی)کی وجہ سے اس میں داخل ہوں گے۔
[کتاب الاولیاء-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 58]
[شعب الإيمان-امام البيهقي (م458ھ) : حدیث نمبر 10393]
تفسير الثعالبي(م875ھ) : سورة الحشر آیۃ 9
دوسری شاہد روایت:
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ أَبْدَالَ أُمَّتِي لَمْ يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِالْأَعْمَالِ، وَلَكِنْ يَدْخُلُوهَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَسَخَاوَةِ النَّفْسِ، وَسَلَامَةِ الصَّدْرِ، وَالرَّحْمَةِ لِجَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ»
ترجمہ:
میری امت کے ابدالوں کا جنت میں داخل (نفلی)اعمال کی وجہ سے نہیں ہوگا، لیکن وہ اللہ کی رحمت اور دلوں کی سخاوت اور سینوں کی سلامتی(صفائی) اور تمام مسلمانوں کے لیے رحمت کی وجہ سے (اس میں داخلا) ہوگا۔
[كرامات الأولياء-امام الحسن الخلال (م439ھ) : حدیث نمبر 5]
[شعب الإيمان-امام البيهقي (م458ھ) : حدیث نمبر 10394]
یہ حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے۔
[الفردوس بمأثور الخطاب-امام الديلمي (م509ھ) : حدیث نمبر 884، زهر الفردوس:800]
[موجبات الجنة - امام ابن الفاخر(م564ھ) : حدیث نمبر 217]
[معجم-امام ابن عساكر(م571ھ) : حدیث نمبر 891]
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيه، فهو مِنَ الأَبْدَال الذين بِهِمْ قَوَامُ الدِّينِ وأَهْلِهِ؛ الرِّضَا بالقَضَاءِ، والصَّبْرُ عن مَحَارِمِ الله، والغَضَبُ فِي ذَاتِ اللهِ۔
ترجمہ:
تین باتیں جس شخص میں ہوں گی وہ ابدال میں سے ہوگا اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روک کر رکھنا اور اللہ عزوجل کی ذات کی وجہ سے غصہ کرنا۔
[الفردوس بمأثور الخطاب:2457، زهر الفردوس:1250، جامع الأحاديث:11188]
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ابدالوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
«هُمْ سِتُّونَ رَجُلًا» ۔۔۔۔ «لَيْسُوا بِالْمُتَنَطِّعِينَ، وَلَا بِالْمُبْتَدِعِينَ، وَلَا بِالْمُتَنَعِّمِينَ، لَمْ يَنَالُوا مَا نَالُوه بِكَثْرَةِ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ بِسَخَاءِ الأنَّفْسِ، وَسَلَامَةِ الْقُلُوبِ، وَالنَّصِيحَةِ لِأَئِمَّتِهِمْ، إِنَّهُمْ يَا عَلِيُّ فِي أُمَّتِي أَقَلُّ مِنَ الْكِبْرِيتِ الْأَحمرِ»
ترجمہ:
ابدال ساٹھ(60) مرد ہیں۔۔۔۔ جو نہ زیادہ بولنے والے، نہ بدعت کا ارتکاب کرنے والے، نہ زیادہ گہرائی میں جانے والے، نہ عجب وتکبر کرنے والے ہیں۔ جو کچھ انھوں نے پایا وہ کثرتِ نماز اور کثرتِ روزہ اور کثرتِ صدقہ کی وجہ سے نہیں پایا، لیکن نفسوں کو سخاوت، دلوں کی سلامتی، اور اپنی اپنی جماعت کی خیرخواہی کی وجہ سے پایا۔ وہ لوگ اے علی! میری امت میں سرخ یاقوت سے بھی کم ہوں گے۔
[کتاب الاولیاء-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 8]
[كرامات الأولياء-امام الحسن الخلال (م439ھ) : حدیث نمبر 5]
تعداد کا اختلاف:
اتنی روایات سے ابدال اور انکی فضیلت سب میں متفقہ ہے۔ اور تعداد کا اختلاف مختلف نوعیت کی وجہ سے ہے۔ جیسے:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْبُدَلاءُ أَرْبَعُونَ اثْنَانِ وَعِشْرُونَ بِالشَّامِ وَثَمَانِيَةَ عَشَرَ بِالْعِرَاقِ كُلَّمَا مَاتَ وَاحِدٌ مِنْهُمْ بَدَّلَ اللَّهُ مَكَانَهُ آخَرَ فَإِذَا حَلَّ الأَمْرُ قُبِضُوا كُلُّهُمْ۔
ترجمہ:
میری امت کے ابدال چالیس(40) مرد ہیں، بائیس(22) شام میں، اور اٹھارہ(18) عراق میں، جب کوئی ایک مرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کوئی دوسرا بدل لے آئیں گے، جب حکم آئے گا تو سارے فوت ہوجائیں گے۔
[نوادر الأصول في أحاديث الرسول-الحکیم الترمذي(م320ھ) : ج1 ص261، الناشر: دار الجيل - بيروت]
[الأربعون في التصوف-امام السلمي (م412ھ) : حدیث نمبر 20]
[كرامات الأولياء-امام الحسن الخلال (م439ھ) : حدیث نمبر 2]
[المشيخة البغدادية-امام أبو طاهر السلفي (م576ھ) : حدیث نمبر 18+24]
[فضائل الشام-امام ابن رجب الحنبلي (م795ھ) : ج3 / ص217]
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَنْ تَخْلُوَ الْأَرْضُ مِنْ أَرْبَعِينَ رَجُلًا مِثْلَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ، فَبِهِمْ يُسْقَوْنَ وَبِهِمْ يُنْصَرُونَ، مَا مَاتَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ آخَرَ»
ترجمہ
رحمان کے خلیل (یعنی حضرت ابراھیمؑ) کی طرح چالیس(40) آدمیوں سے زمین کبھی خالی نہیں ہوگی، سو ان کی وجہ سے تمہیں سیراب کیا جائے گا، اور ان کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی، ان میں سے کوئی ایک نہ مرے گا مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کوئی دوسرا بدل لے آئیں گے۔
[المعجم الأوسط-امام الطبراني (م360ھ) : حدیث نمبر 4101]
وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔
[مجمع الزوائد-الهيثمي (م807ھ): 16674]
[الحاوي للفتاوي-السيوطي (م911ھ):ج2/ص296 دار الفكر, تفسیر الدر المنثور:1/765 سورۃ البقرۃ:251]
ابدالی خوبیاں پانے کا نسخہ:
ایک روایت میں ہے کہ:
جو ان پانچ(5) کلمات کو ہر نماز کے بعد کہے تو اسے ابدالوں میں لکھا جائے گا:
اللَّهُمَّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ، وَلِجَمِيعِ مَنْ آمَنَ بِكَ.
ترجمہ:
اے الله! درست فرما امتِ محمد کو، اے الله! رحم فرما امتِ محمد پر، اے الله! تنگی دور فرما امتِ محمد سے، اے الله! بخش فرما امتِ محمد کو، اور(یہ)ان سب کیلئے ہوں جو ایمان لائیں تجھ پر۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي: حديث890، صفحة 549]
حضرت معروف کرخیؒ(م200ھ) نے فرمایا:
جو کہے دن میں 10 مرتبہ (ان الفاظ سے) کہ:
اللَّهُمَّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ , اللَّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ
تو اسے لکھا جائے گا ابدالوں میں سے۔
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ٣٦٦/٨، رياضة الأبدان لأبي نعيم الأصبهاني:23، المقاصد الحسنة-السخاوي (م902ھ): ص46]
دوسری روایت میں:
تین(3) مرتبہ یوں الفاظ کہے:
«اللهم احفظ أمه مُحَمَّد [اللهم] أرحم أمة مُحَمَّد اللهم عاف أمة مُحَمَّد اللهم أصلح أمة مُحَمَّد اللهم فرج عن أمة محمد [صلّى الله عليه وسلّم] »
[تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية:797 (ج18 / ص223) دار الكتب العلمية - بيروت]
[قرة العين بفتاوى علماء الحرمين-حسين المغربي (م1292ھ):ص380]
اور تیسری روایت میں بغیر تعداد بس ایک مرتبہ ہر روز کہنے یوں کہے:
اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ۔
[المقاصد الحسنة-السخاوي (م902ھ): ص46، المواهب اللدنية-القسطلاني (م923ھ):2/417، شرح الزرقاني(م1122ھ): 7/485، كشف الخفاء-العجلوني (م1162ھ) ط القدسي:1/28، تخريج أحاديث إحياء-الزبيدي،(م1205ھ):5/2049 دار العاصمة للنشر - الرياض]
حدیث:2
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " الْأَبْدَالُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ ثَلَاثُونَ مِثْلُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ ، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَكَانَهُ رَجُلًا " , قَالَ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ فِيهِ : يَعْنِي حَدِيثَ عَبْدِ الْوَهَّابِ كَلَامٌ غَيْرُ هَذَا ، وَهُوَ مُنْكَرٌ , يَعْنِي : حَدِيثَ الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَان .
ترجمہ:
ترجمہ:
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس امت میں ابدال تیس(30) ہوں گے جن کے قلوب حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے قلوب پر ہوں گے، ان میں سے جو فوت ہوگا اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔
[مسند أحمد:22751، المسند للشاشي:1314، كرامات الأولياء للحسن بن محمد الخلال:3]
خلاصة حكم المحدث :
دوسری سند سے حضرت عبادہ بن صامتؓ سے دوسری روایت ہے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«الأبدال في أمتي ثلاثون، بهم ترزقون، وَبِهِمْ تُمْطَرُونَ، وَبِهِمْ تُنْصَرُونَ» قَالَ قَتَادَةُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ الْحَسَنُ مِنْهُمْ۔
ترجمہ:
میری امت میں تیس(30) ابدال ہوں گے جن کی وجہ سے تم روزیاں دئیے جاؤ گے، تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی۔ اس حدیث کے راوی حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے حضرت حسن بھی انہیں ابدال میں سے تھے۔
[تفسير(امام)ابن كثير- ط العلمية: ج1 ص510 سورۃ البقرۃ:251]
امام احمد بن حنبلؒ(م241ھ)نے فرمایا:
«إِنْ لَمْ يَكُنْ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ هُمُ الْأَبْدَالُ فَمَنْ يَكُونُ»
اگر حدیث والے(یعنی علماء) ابدال نہیں ہیں تو میں نہیں جاتا کہ وہ کون ہیں۔
[شرف أصحاب الحديث-امام الخطيب البغدادي: صفحہ50]
الإمام ابن تيمية أيضًا:
وأما أهل العلم فكانوا يقولون عن "أهل الحديث" هم "الأبدال" أبدال الأنبياء، وقائمون مقامهم حقيقة، ليس من المعدمين الذين لا يعرف لهم حقيقة، كل منهم يقومُ مقامَ الأنبياء في القَدْر الذي ناب عنهم فيه، هذا في العِلْم والمقال، وهذا في العبادة والحال، وهذا في الأمرين جميعًا۔
ترجمہ:
اور جہاں تک اہلِ علم کا تعلق ہے تو وہ "محدثین" کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ وہ "ابدال" ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے "متبادل" ہیں، اور وہ حقیقت میں اپنا مقام رکھتے ہیں، نہ کہ بے خبروں میں جو نہیں پہچانتے ان کی سچائی، ان میں سے ہر ایک انبیاء کا مقام اس انداز میں لیتا ہے جس میں اس نے ان کی نمائندگی کی، یہ معاملہ علم اور مضمون میں ہے، اور یہ عبادت اور حال میں ہے، اور یہ معاملہ ان دونوں صورتوں میں ساری اکٹھی ہے۔
[الانتصار لأهل الأثر:144، مجموع الفتاوى:4 /97]
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
امام مہدیؒ کو پالینے والے:
حدیث:3
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ، فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ، فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ، وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ، فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا، فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ، وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ، وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ، فَيَقْسِمُ الْمَالَ، وَيَعْمَلُ فِي النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ فِي الْأَرْضِ، فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ، ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: قَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ: «تِسْعَ سِنِينَ»، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: «سَبْعَ سِنِينَ»
ترجمہ:
حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ زوجہ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں (اگلا خلیفہ منتخب کرنے میں) اختلاف ہوجائے گا اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگے گا لوگ اسے خلافت کے لیے نکالیں گے لیکن وہ اسے ناپسند کرتے ہوں گے پھر لوگ ان کے ہاتھ پر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے پھر وہ ایک لشکر شام سے بھیجیں گے تو وہ لشکر، ، بیدائ، ، کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے جب لوگ اس لشکر کو دیکھیں گے تو اہل شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں ان کے پاس آئیں گی ان سے بیعت کریں گی پھر ایک آدمی اٹھے گا قریش میں سے جس کی ننھیال بنی کلب میں ہوگی وہ ان کی طرف ایک لشکر بھیجے گا تو وہ اس لشکر پر غلبہ حاصل کرلیں گے اور وہ بنوکلب کا لشکر ہوگا اور ناکامی ہو اس شخص کے لیے جو بنوکلب کے اموال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو، مہدی مال غنیمت تقسیم کریں گے اور لوگوں میں انکے نبی کی سنت کو جاری کریں گے اور اسلام پر اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (سارے کرہ ارض پر اسلام پھیل جائے گا) پھر اس کے بعد سات سال تک وہ زندہ رہیں گے پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان انکی نماز جنازہ پڑھیں گے امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ بعض ہشام کے حوالہ سے یہ کہا کہ وہ نوسال تک زندہ رہیں گے جبکہ بعض نے کہا کہ سات سال تک رہیں گے۔[ أبو داود:4286 ، صحيح ابن حبان:6757 ، المنار المنيف:110]
[سنن ابوداؤد: حدیث نمبر 893 (18962) - امام مہدی کا بیان : قتل ہونے میں کیا امید کی جائے]
تشریح :
" ابدال " اولیاء اللہ کے ایک گروہ کو کہتے ہیں جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کائنات کے نظام کو برقرار اور استوار رکھتا ہے۔ دنیا میں کل ابدال کی تعداد ستر(70) رہتی ہے، اس میں چالیس(40) ابدال تو شام میں رہتے ہیں اور تیس ابدال باقی ملکوں میں۔ ان اولیاء اللہ کو ابدال اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی ادلی بدلی ہوتی رہتی ہے، یعنی جب ان میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کے بدلے میں کوئی دوسرا مقرر کر دیا جاتا ہے، یا ان کو ابدال اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ ایسی مقدس ہستیاں ہیں جو عبادت و ریاضت کے ذریعہ ابنے اندر سے تمام بری عادتیں اور نا پسندیدہ خصلتیں ختم کر دیتے ہیں اور ان کے بدلے میں اچھی عادتیں اور اعلیٰ اخلاق پیدا کر لیتے ہیں ! اس مقدس گروہ کے بارے میں احادیث میں ذکر آیا ہے گو امام سیوطیؒ(م911ھ) نے سنن ابوداؤد کی شرح میں لکھا ہے کہ ابدال کا ذکر صحاح ستہ میں نہیں آیا ہے علاوہ ابوداؤد کی اس حدیث کے جو یہاں نقل ہوئی ہے، اس حدیث کو حاکم نے بھی نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے، تاہم امام سیوطیؒ(م911ھ) نے صحاح ستہ کے علاوہ دوسری مستند و معتبر کتابوں سے ایسی بہت سی احادیث کو [جمع الجوامع] میں نقل کیا ہے جن میں ابدال کا ذکر ہے ، ان میں سے اکثر احادیث میں چالیس(40) کا عدد مذکور ہے اور بعض میں تیس(30) کا انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ابدال نے جو یہ اعلیٰ درجہ پایا ہے وہ بہت نماز روزہ کی کثرت کرنے کی وجہ سے نہیں پایا ہے اور نہ ان عبادتوں کی وجہ سے ان کو تمام لوگوں سے ممتاز کیا گیا ہے بلکہ انہوں نے اتنا اعلیٰ درجہ سخاوت نفس، سلامتی دل، اور مسلمانوں کی خیر خواہی رکھنے کی وجہ سے پایا ہے۔
نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اے علی ! میری امت میں ایسے لوگوں کا وجود کہ جو ابدال کی صفت کے حامل ہوں، سرخ گندھک سے بھی زیادہ نادر ہے یعنی جس طرح سرخ گندھک بہت کمیاب چیز ہے اسی طرح دنیا میں ابدال بھی کم ہیں۔
ایک اور حدیث میں، جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے ، یہ فرمایا گیا ہے کہ جس شخص میں تین صفتیں یعنی رضا بالقضاء ، ممنوعات سے کلی احتراز اور خدا کے دین کی خاطر غصہ کرنا، پائی جائیں اس کا شمار ابدال کی جماعت میں ہوتا ہے؟
نیز امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے احیاء العلوم میں نقل کیا ہے کہ جو شخص روزانہ تین مرتبہ یہ دعا پڑھنے کا التزام رکھے اس کے لئے ابدال کا درجہ لکھا جا سکتا ہے ، دعا یوں ہے :
اللہم اغفر لا مۃ محمد ، اللہم ارحم امۃ محمد ، اللہم تجاوز عن امۃ محمد ۔
ترجمہ:
" اے اللہ ! امت محمدی کی مغفرت فرما، اے اللہ امت محمدی پر رحم فرما ، اے اللہ امت محمدی کے گناہوں سے درگذر فرما ۔"
[إحياء علوم الدين-امام الغزالي (م505ھ) : ج2 / ص209 دار المعرفة - بيروت]
حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے اندر سے تمام انسانی واخلاقی برائیاں بدل ڈالے اپنے نفس کو پوری طرح پاکیزہ اور مہذب بنا لے اور مخلوق خداوندی کا خیر خواہ ہو جائے ، تو اس کا شمار ابدال کی جماعت میں ہوگا ۔
"عصائب" بھی اولیاء اللہ کے ایک گروہ کا نام ہے جیسا کہ ابدال! حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ ابدال شام کے ملک میں رہتے ہیں، عصائب عراق کے ملک میں اور نجباء مصر کے ملک میں۔
(ابدال اور عصائب کی طرح نجباء بھی اولیاء اللہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے)
نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ "عصائب" ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اپنے معاشرہ میں سب سے زیادہ، عابد و زاہد اور نیک ہوں۔ یہ وضاحت غالبا لغوی معنی کے اعتبار سے ہے ، کیونکہ لغت میں "عصب القوم" قوم کے نیک ترین لوگوں کو کہتے ہیں۔
[الميسر في شرح مصابيح السنة-التوربشتي(م661ھ) : 4 / 1160 مكتبة نزار مصطفى الباز]
[تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة-البيضاوي (م685ھ) : 3/ 355، حدیث نمبر 1365]
[شرح المشكاة للطيبي(م743ھ) : 11/ 3444، حدیث نمبر 5456]
حدیث:4
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرٌ فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأهاَ عِشْرِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأَهَا ثَلَاثِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا ثَلَاثَةُ قُصُورٍ فِي الْجَنَّةِ». فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَنْ لَنَكْثُرَنَّ قُصُورُنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُ أَوْسَعُ مِنْ ذَلِكَ» قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ»
ترجمہ:
جو شخص دس(10) مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے گا اس کے لیے جنت میں ایک محل بنا دیا جائے گا، اور جو شخص بیس(20) مرتبہ پڑھے گا اسکے لیے جنت میں دو محل بنا دیے جائیں گے، اور جو شخص تیس(30) مرتبہ پڑھے گا اسکے لیے جنت میں تین محل بنا دیے جائیں گے۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! اس طرح تو ہم بہت سے محل پا لیں گے؟
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اللہ کی رحمت اس سے زیادہ وسیع ہے۔
امام دارمیؒ فرماتے ہیں ابوعقیل نامی راوی کا نام زہرہ بن معبد ہے، لوگوں نے یہ بات سنی کہ یہ صاحب ابدال سے تعلق رکھتے تھے۔
[مسند-امام الدارمي(م255ھ) - ت الزهراني : حدیث نمبر 3632]
تفسير القرطبي(م671ھ) : ج20 ص 249، سورۃ الاخلاص]
وَهَذَا مُرْسَلٌ جَيِّدٌ ۔۔۔۔ (اور یہ روایت مرسل عمدہ ہے)۔
[تفسير ابن كثير(م774ھ) - ت السلامة : ج8 ص524، سورۃ الاخلاص]
حدیث:5
امام وہب بن منبہؒ نے ایک ہم مجلس میں فرمایا: میں نے خواب میں رسول الله ﷺ کو دیکھا میں نے ان سے کہا یا رسول الله! آپ کی امت کے ابدال کہاں پاۓ جاتے ہیں؟ آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے شام کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پھر کہا: یا رسول الله! کیا ان میں سے کوئی عراق میں بھی پایا جاتا ہے؟ ارشاد فرمایا:
بَلَى , مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ، وَحَسَّانُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ، وَمَالِكُ بْنُ دِينَارٍ الَّذِي مَشَى فِي النَّاسِ بِمِثْلِ زُهْدِ أَبِي ذَرٍّ فِي زَمَانِهِ۔
ترجمہ:
ہاں، وہاں محمد بن واسع، حسان بن ابی سنان، اور مالک بن دینار ہیں جو لوگوں میں ایسے چلتے ہیں جیسے ابوذرؓ کا زہد تھا اپنے زمانے میں۔
[کتاب المنامات-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 134]
[تاريخ دمشق-امام ابن عساكر(م571ھ) : ج1 / ص301 دار الفكر]
[فضائل الشام-امام ابن رجب الحنبلي (م795ھ) : ج3 / ص219]
=================
قطب کسے کہتے ہیں ؟؟؟
ابدال، قطب وغیرہ، ہم معنیٰ الفاظ ہیں، ﷲ والے کسی کی تعریف سے متاثر نہیں ہوتے اسی لیے انہیں قطب کہتے ہیں۔ قطب ستارہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں۔ نہ مخلوق کی تعریف ان پر اثر انداز ہوتی ہے نہ برائی۔ مدح و ذم ان کے لیے برابر ہوتی ہے۔
حدیث میں ابدال کے متعلق یوں ذکر آیا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بعض لوگوں نے گزارش کی کہ آپ اہل شام پر لعنت اور بد دعا فرمادیں، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ میں نے تو جناب رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ملک شام میں چالیس(40) ابدال ہوتے ہیں، جب ان میں سے کسی ایک کی وفات ہوجاتی ہے توان کی جگہ دوسرے کو قائم مقام کردیا جاتا ہے، اور انھیں کی برکت اور دعاوٴں سے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے، اور کفار اور دشمنوں کے خلاف اہلِ شام کی مدد کرتا ہے، اور انھیں کی برکت سے اہل شام کے اوپر سے عذاب کو دور فرماتا ہے۔
[مشکاة شریف: : ۲/۵۸۲ ; رقم الحديث : 6268]
اسی کی شرح میں ملا علی قاریؒ نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت نقل کی، جس سے غوث، قطب، ولی وغیرہ کے وجود کا پتہ چلتا ہے، نیز مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ان کی برکت سے بارش، دشمنوں کے مقابل میں مدد، اور عذاب کو دفع کیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [مرقاة: ج۱۱ ص۴۶۰، ط امدادیہ پاکستان) مظاہر حق جدید، ج۷ ص۵۲۸] دلائل السلوک، تعلیم الدین، رسائل ابن عابدین وغیرہ۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الخیر الدالّ“ میں قدرے تفصیلی بحث فرمائی ہے۔
جن ممالک یا صوبے یا علاقہ میں آسمانی آفات اور بلائیں آتی ہیں، اس کی وجہ عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ وہاں والوں کی طرف سے خدا کی نافرمانی حد سے تجاوز کرجاتی ہے حتی کہ ان سے قطب وابدال کی توجہات ہٹ جاتی ہیں، خدا تعالیٰ بھی سخت ناراض ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں آسمانی عذاب اور آفات ان پر آپڑتی ہیں۔ قطب وابدال کا معاملہ پوشیدہ ہوتا ہے اور ائمہ مجتہدین اور مجددین کا حال پوشیدہ نہیں ہوتا ہے، راہِ نبوت، راہِ ولایت سے اعلیٰ اور فائق ہوتی ہے، اور حضرات صحابہٴ کرام میں سے ہر ایک کو قطب وابدال سے اعلیٰ درجہ حاصل تھا، اور ائمہ مجتہدین اور فقہاء ومحدثین اور ہر صدی میں آنے والے مجددین کا کام ہی منہاجِ نبوت اور صحابہٴ کرام کے طریقہ کو زندہ کرنا اور شرک وبدعت کو دین سے نکال کر مٹانا ہے، اس لیے صرف حضرات صحابہٴ کرام اور خلفائے راشدین اور ان کے طریقوں کو زندہ کرنے والے ائمہ مجتہدین اور ہر صدی کے مجددین کا اتباع کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ (انوارِ ہدایت) واللہ تعالیٰ اعلم
************************
حدیثِ مجدد اور معیارِ مجددیت:
مجدد کا اصطلاحی مفہوم:
مجدد کے لفظی معنی تجدید کرنے والے کے ہیں لیکن اصطلاح میں مجدد اس شخص کو کہتے ہیں جو ان بدعات اور خرابیوں کو دور کرسکے جن کی وجہ سے حقائق ومعارف اسلام دوبارہ اپنی اصلی شان میں نظر آسکیں۔
بظاہر نبی اور مجدد میں بڑی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے کیونکہ دونوں کا کام اصلاح خلق ہے لیکن ایک اہم فرق بھی موجود ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے جدا اور صاف طور سے متمیز کردیتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ نبی کتاب لاتا ہے اور خدا کا پیغام لوگوں کو سناتا ہے اور اس کتاب اور پیغام کی بنا پر لوگوں کو ایک نئے آئین اور نئے طریق کی طرف بلاتا ہے۔ وہ انبیائے ماسبق کا مطیع اور تابع نہیں ہوتا یعنی وہ پرانے دین کو پیش نہیں کرتا بلکہ اپنا دین اور اپنی شریعت جاری کرتا ہے اور اس کی بناء پر لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح کرتا ہے لیکن مجدد نہ کوئی کتاب لاتا ہے اور نہ نیا دستور العمل پیش کرتا ہے اور نہ کوئی دعویٰ کرتا ہے اور نہ منکرین ومومنین میں امتیاز روا رکھتا ہے‘ نہ اپنے منکرین کو کافر کہتا ہے اور نہ کسی نئے آئین کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے نہ وہ کوئی امت بناتا ہے اور نہ شریعت میں کمی بیشی کرسکتا ہے۔ وہ جس نبی کی امت میں ہے اس امت کے اندر رہ کر اسی نبی کے دین کو جس کا وہ خود پابند ہے از سر نوزندہ کرتا ہے۔ اس کی بعثت کا مقصد بدعات کا سیئہ کا دور کرنا ہوتا ہے یعنی وہ لوگوں کو صرف کتاب اور سنت کی طرف بلاتا ہے جن کی طرف سے لوگ غافل ہیں۔ دعویٰ تو بڑی چیز ہے اس کے لئے یہ بھی لازمی نہیں کہ وہ لوگوں سے یہ کہے کہ میں مجدد ہوں۔ اگر کسی نے کہا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مجددیت کا دعویٰ کوئی لازمی اور ضروری چیز ہے۔
حدیث مجدد:
ان تصریحات ضروریہ کے بعد اب میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں شروع سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس امت میں مجددین ومصلحین پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس خیال کا مبنیٰ اور ماخذ سنن ابودائود کی ایک حدیث ہے جسے میں ذیل میں نقل کرتا ہوں
عن ابی ہریرہؓ فیما اعلم عن رسول اﷲﷺ قال:
إنَّ اللهَ يبعثُ لهذه الأمةِ على رأسِ كلِّ مائةِ سنةٍ من يُجدِّدُ لها دينَها
[سنن ابی داؤد:4291، کتاب الملاحم، باب مایذکر فی قرن المائۃ‘ج۲ص۱۳۲]
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ﷲ اس امت کے لئے ہر صدی کے آغاز میں ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو دین کی اصلاح کرے گا.
[صحيح أبي داود:4291، المعجم الأوسط:6/323، تخريج مشكاة المصابيح:1/163، المقاصد الحسنة:149، الجامع الصغير:1839، السلسلة الصحيحة:599]
[صحيح أبي داود:4291، المعجم الأوسط:6/323، تخريج مشكاة المصابيح:1/163، المقاصد الحسنة:149، الجامع الصغير:1839، السلسلة الصحيحة:599]
سنن ابو دائود‘ صحاح ستہ میں شامل ہے اور محدثین کا عموماً اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔ مثلاً حاکم نے اپنی مستدرک ج۵ص۷۳۰ نمبر۸۶۳۹طبع بیروت میں اور امام بیہقی نے اپنی مدخل میں اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے اپنی کتاب حجج الکرامہ ص۵۱ میں لکھا ہے کہ حدیث مجدد‘ ہم کو ابودائود‘ امام حاکم اور امام بیہقی کی معرفت پہنچی ہے اور اس کی صحت مسلم ہے۔نیز ملا علی قاریؒ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۱ ص۳۰۲ پر لکھا ہے کہ یہ حدیث جو ہم کو ابودائود کی معرفت پہنچی ہے صحیح ہے اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔
القصہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی صحت روایتاً اور درایتاً دونوں طریقوں سے ثابت ہوسکتی ہے۔ اول الذکر طریق اوپر مذکور ہوچکا اوردرایتاً اس لئے صحیح ہے کہ جب آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی شخص نبوت کے مرتبہ پر فائز نہیں ہوسکتا۔ باب نبوت بہ پیرائے وحی رسالت تاقیامت بند ہوچکا ہے۔ تشریعی یا غیرتشریعی کسی قسم کا نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ جب بعثت انبیاء کا مقصد یعنی اعطائے ہدایت حاصل ہوچکا تو پھر نبی کی بعثت ایک فعل عبث ہوا اور اﷲ تعالیٰ کی شان اس سے کہیں ارفع ہے کہ وہ کوئی کام ایسا کرے جو حکمت اور مقصد سے خالی ہو
فعل الحکیم لایخلوعن الحکمۃ۰
لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ مرور ایام سے دین کی حقیقت عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور بدعات ومحدثات کا رواج ہوجاتا ہے۔ پس لازمی ہے کہ ہر صدی میں کم از کم ایک بندہ خدا کا ایسا پیدا ہو جو لوگوں کو کتاب وسنت کی طرف بلائے اور دین اسلام کو از سر نو زندہ کرے اور اس کی حقیقی خوبیوں کو از سر نو عالم آشکارا کرے۔ تاکہ حق وباطل میں امتیاز ہوسکے۔
مجدد کا تخیل:
واضح ہو کہ اسلام میں مجددین ومصلحین امت کی بعثت کا تخیل عقائد میں داخل نہیں ہے اور نہ اس پر نجات کا دار ومدار ہے۔ آنحضرتﷺ کی رسالت اور قرآن مجید کی حقانیت پر ایمان لانا اور نیک عمل کرنا نجات وفلاح اخروی کے لئے کافی وافی ہے۔ اگر ایک مسلمان قرآن مجید کو اپنا ہادی وپیشوا بنالے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرے تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اس بات کی بھی تلاش کرے کہ میرے زمانہ میں کون شخص مرتبہ مجددیت پر فائز ہے اور اگر اسے یہ معلوم بھی ہوجائے کہ فلاں شخص مجدد ہے توبھی اس کے لئے یہ لازمی یا ضروری نہیں کہ وہ اس کی مجددیت پر ایمان لائے کیونکہ اسلام میں کسی مجدد کی مجددیت پر ایمان لانا فرض یا واجب قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے انکار سے اس کے اسلام اور ایمان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا کیونکہ اس کا یہ فعل کسی نص صریح کی تکذیب کو مستلزم نہیں۔ اسی لئے کسی زمانہ میں کسی مفسر‘ محدث یا امام نے مجددین پر ایمان لانے کو شرط اسلام یا ایمان قرار نہیں دیا۔
معیار مجددیت:
اب میں وہ شرائط پیش کرتا ہوں جن کا مجدد میں پایا جانا۔میری رائے میں اشد ضروری ہے۔
(۱) علم قرآن وحدیث:
پہلی شرط یہ کہ مجدد اپنے زمانہ میں قرآن مجید کا سب سے بڑاعالم ہو۔ تاکہ اس کے حقائق ومعارف سن کر عوام وخواص دونوں اس کے گرویدہ ہوجائیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علوم باطنی کسی شخص کو حاصل نہ ہوں وہ قرآن مجید کے معارف عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس اگر ایک طرف مجدد منطق اور فلسفہ کا ماہر ہو تو دوسری طرف وہ تصوف اور سلوک کے مقامات بھی طے کرچکا ہو۔ بقول امام غزالی :
جو شخص تصوف میں مرتبہ بلند نہیں رکھتا وہ نبوت ورسالت ‘ وحی والہام وغیرہ کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ سوائے اس کے کہ ان لفظوں کو زبان سے ادا کرلے۔
(۲) قوت اصلاح:
مجدد کے لئے دوسری شرط یہ ہے کہ اس میں اصلاح کی خاص اور غیر معمولی قوت ہو اور یہ بات اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب اس نے پہلے اپنے احوال کی اصلاح کرلی ہو۔ ورنہ یوں تو ہر شخص وعظ ونصائح کا دفتر کھول سکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا درس دے سکتا ہے لیکن اس زبانی جمع خرچ سے افراد امت کی اصلاح کا عظیم الشان کام سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔مجدد وہ ہے جس کی زندگی سراپا قرآن وسنت کے مطابق ہو۔ یہ نہ ہو کہ جب مخالفین اس پر اعتراضات کریں تو وہ جامہ ٔانسانیت سے معراء ہوکر انہیں بے نقط سنانے لگے اور اس کی تحریر ایسی سو قیانہ ہوجائے کہ اس کو پڑھ کے بے شرمی وبے حیائی بھی آنکھیںبند کرلیں۔ مجدد وہ ہے جس کے الفاظ میں جادو ہو۔ جس کی باتوں میں اعجاز ہو۔ جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ جو حیوانوں کو انسان بنادے اور انسانوں کو خدا سے ملادے۔
(۳) زہد وتقویٰ:
مجدد کے لئے تیسری شرط زہد وتقویٰ ہے۔ اس کی زندگی ایسی ہو کہ جو شخص اس کے پاس بیٹھے اسے یہ معلوم ہو کہ یہ شخص خدا رسیدہ ہے۔ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں خدا تعالیٰ اور اس کے احکام کو سامنے رکھے۔ اس کا ہر فعل اسلام کی عزت کے لئے ہو۔ نہ یہ کہ وہ اپنی مطلب برآری کے لئے بے گناہ انسانوں کو اذیت دے اور لوگوں کو تہدید آمیز خطوط لکھے کہ اگر تم میرا کہنا نہیں مانو گے تو میں فلاں فلاں طریقہ سے تمہیں ایذا پہنچائوں گا اور اپنے بیٹے سے کہہ کر تمہاری لڑکی کو طلاق دلوا دوں گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی بات اس شخص کے قلم سے ہرگز نہیں نکل سکتی جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تقویٰ یا خوف خدا ہوگا۔ مجدد وہ ہے جس کی زندگی زہد واتقاء کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اس کا اشد مخالف بھی یہ نہ کہہ سکے کہ اس کا فلاں فعل شرط تقویٰ کے خلاف ہے۔ حاشیہ نشینوں کی گواہی چنداں معتبر نہیں
الفضل ماشھدت بہ الاعدائ۰
بزرگی وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے۔ متقی وہ ہے جس کی زندگی سراپا قرآن مجیدکے سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہو اور مجدد بننے کے لئے یہ لازمی شرط ہے جو متقی نہیں وہ مئومن بھی نہیں مجدد ہونا تو بڑی بات ہے
ذٰلک فضل اﷲ یوتیہ من یشآء ۰
والا مضمون ہے۔
(۴) حریت آموزی:
چوتھی شرط یہ ہے کہ مجدد مسلمانوں کو حریت کا درس دے۔ حریت اسلام کا امتیازی نشان ہے۔ مسلمان اگر حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو وہ غلام نہیں رہ سکتے
انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین۰
اس پر شاہد ہے۔ پس مجدد کی ایک خاص شناخت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائے کہ اسلام اور اغیار کی غلامی یہ اجتماع ضدین ہے۔ مجدد کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں میں ایمان کی شمع کو از سر نو روشن کرے نہ یہ کہ انہیں الٹا غلامی کا سبق پڑھائے اور اغیار کی گرفت کو مضبوط کرے۔ مجدد کا فرض یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائے کہ شیر کی حیات یک روزہ روباہ کی حیات صد سالہ سے بہتر ہے۔ اگر وہ نا مساعدہ حالات کی وجہ سے انہیں آزادی سے ہم آغوش نہ کراسکے تو کم از کم اس گوہر گراں مایہ کو حاصل کرنے کا ولولہ تو ان کے اندر پیدا کرے۔ نہ یہ کہ اغیار کی شان میں قصیدہ خوانی کرے اور ان کی پالیسی کو شرط ایمان اور جزو اسلام بنالے۔
(۵) اعلائے کلمت الحق:
پانچویں شرط جو شرط ماسبق کا منطقی نتیجہ ہے۔ اعلائے کلمتہ الحق کی صفت ہے جس کا پایا جانا مجدد میں از بس ضروری ہے۔ حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام الاحرار امام ابن تیمیہؒ اور حضرت مجدد الف ثانی کی زندگیوں میں یہ صفت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ چنانچہ آخر الذکر دو حضرات نے جیل خانہ کی صعوبتوں کو بطیب خاطر برداشت کیا لیکن اعلائے کلمتہ الحق کا دامن کسی حال میں ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
جب معاندین وحاسدین نے جہانگیر کے کان بھرے کہ شیخ سرہندیؒ حضور کے خلاف سازش میں مصروف ہیں تو ممکن تھا کہ حضرت موصوف جہانگیر کی شان میں ایک قصیدہ مدحیہ لکھ کر نہ صرف رنج قید سے محفوظ ہوجاتے بلکہ دنیا وی حشمت سے بھی بہرہ اندوز ہوتے لیکن آپ نے اپنے دوستوں سے فرمایا کہ امتحان کا وقت آپہنچا۔ دعا ہے کہ پائے ثبات میں لغزش نہ آئے۔ جہانگیر نے آپ کو گوالیار کے جیل خانہ میں بھجوادیا لیکن آپ نے معافی مانگ کر حریت اور صداقت کے نام کو بٹہ نہیں لگایا اور دوران اسیری میں تمام قیدیوں کو اسلام کا شیدا بناکر جہانگیر اور اس کے حاشیہ نشینوں کو محو حیرت کردیا۔ پھول کو جس جگہ رکھو گے خوشبو دے گا۔ ان لوگوں نے بھی جن کو عرف عام میں مجدد نہیں کہتے اعلاء کلمتہ الحق کی روشن مثالیں ہمارے سامنے پیش کی ہیں۔ مثلاً سید الشہداء حضرت حسینؓ اور امام عالی مقام حضرت احمد بن حنبلؒ۔
الغرض جو شخص مسلمانوں کی اصلاح اور تجدید دین کے لئے معبوث ہو اس کا اولین فرض یہ ہے کہ حق بات کہنے سے کسی حال میں بھی باز نہ رہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کام سے اسے باز نہ رکھ سکے۔ میری رائے میں تو مردان حق آگاہ کی یہ پہلی نشانی ہے۔
(۶) خلق:
چھٹی شرط یہ ہے کہ مجدد خلق محمدیﷺ کا نمونہ ہو۔ کیونکہ انسانیت کا کمال اسی صفت سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر مجدد میں خود یہ صفت نہ ہو تو وہ دوسروں کو کیا انسان بناسکتا ہے؟۔ مجدد وہ ہے جس کی صحبت میں بیٹھ کر خلق محمدیﷺ کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے۔ مجدد وہ ہے جو دشمنوں کے حق میں بھی دعا کرے نہ یہ کہ انہیں گالیاں دے اور اعتراضات سن کر جامہ سے باہر ہوجائے۔
(۷) قبولیت:
ساتویں شرط مجدد بننے کے لئے یہ ہے کہ اس میں مقنا طیسی کشش پائی جائے جو دراصل روحانیت اور خدا رسی کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت سید احمد صاحب رائے بریلویؒ کہ صدی سیزدھم کے مجددین میں سے تھے۔ صفت روحانیت سے نمایاں طور پر متصف تھے۔ لوگ ان سے مناظرہ کرنے آتے تھے لیکن ان کے حلقہ بگوش ہوکر واپس جاتے تھے۔ کلکتہ کے زمانہ قیام میں انہوں نے ہزار ہا مسلمانوں کو از سر نو مسلمان بنا دیا۔ کتاب وسنت کو زندہ کرنا ان کا دن رات کا مشغلہ تھا اور یہی ایک مجدد کا مقصد حیات ہوتا ہے۔
اولیاء اﷲ بھی اپنے اپنے زمانہ میں اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ اس لئے ان میں بھی یہ صفت نمایاں ہوتی ہے۔ کون سا مسلمان ہے جو میرے آقا اور مولیٰ حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کی روحانیت سے واقف نہیں ہے۔ جوگی جیپال پر جوفتح حضور نے پائی اسے جانے دیجئے۔ وہ تو حضرت ختمی مرتبت سردار دوجہاں تاجدار مدینہﷺ کی غلامی کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا۔ روزانہ زندگی اس قدر روحانیت سے لبریز تھی کہ جس پر ایک نگاہ پڑگئی اس کی کایاپلٹ گئی۔ وصال کے بعد بھی حضور کا مزار پرانوار مرجع سلاطین رہا۔بڑے بڑے کجکلاہ آستان بوسی اور ناصیہ فرسائی کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے رہے۔ یہ سب روحانیت ہی کے کرشمے ہیں۔
مجددین میں بھی یہ صفت لازمی طور پر پائی جاتی ہے۔ روحانیت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ روحانیت کو مجدد سے وہی نسبت ہے جو خوشبو کو پھول سے۔ خوشبو نہ ہو تو پھول کس کام کا؟۔ محض منطق اور فلسفہ سے انسان خود اپنے آپ کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ دوسروں کو کیا ایمان اور ایقان عطا کرے گا؟۔ حکمت نظری کافی ہوتی تو امام غزالی کیوں نواح دمشق میں بادیہ نشینی اختیار کرتے؟۔
(۸) دنیادار نہ ہو:
مجدد کے لئے آٹھویں شرط یہ ہے کہ وہ دنیاوی بکھیڑوں سے بالکل پاک صاف ہو۔ دنیا میں رہے لیکن دنیاوی امور سے بالکل الگ تھلگ۔ باہمہ دلے بے ہمہ خاصان خدا کی ہر زمانہ میں یہی روش رہی ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ اور مولانا محمد قاسمؒ صاحب کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ بزرگ بظاہر دنیا میں رہتے تھے لیکن دنیا دارا نہ تھے۔ ان کی تمام تر توجہ خدا اور اس کے پسندیدہ دین کی طرف مبذول رہتی تھی اور ہر وقت تبلیغ واشاعت اسلام میں مصروف رہتے تھے۔ نہ کسی سے چندہ طلب کرتے تھے نہ اشتہار شائع کرتے تھے۔
(۹) عاجزی وانکساری:
نویں شرط یہ ہے کہ مجدد میں عاجزی اور انکساری پائی جائے۔ مجدد وہ ہے جو حلم اور فروتنی‘ ایثار اور تحمل کا ایک پیکر مجسم ہو
نہد شاخ پر میوہ سربر زمین
باوجود عالم ہونے کے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھے۔ جس قدر اس کی شہرت ہوتی جائے وہ خاکساری اختیار کرے۔ مولانا محمد قاسم صاحبؒ کو جن لوگوں نے دیکھا ہے ان کا بیان ہے کہ وہ سادگی اور فروتنی میں اپنی مثال آپ ہی تھے۔ کبھی کوئی کلمہ غرور یا تکبر کا ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ اجنبی لوگوں کو یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ قاسم العلوم کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تمام عمر نان جویں پر قناعت کی اور کھدر کے علاوہ کوئی کپڑا زیب تن نہیں فرمایا۔اگرچہ ایک دنیا ان کی کفش برداری کو موجب سعادت سمجھتی تھی لیکن ان کے کسی قول یا فعل سے یہ بات کبھی مترشح نہیں ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو ہیچ سمجھتا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت قرار دیتا ہے۔ فخرومباحات سے کوسوں دور رہتا ہے کہ یہ بات اس امر کا ثبوت ہے کہ نفس اماّرہ ابھی زندہ ہے۔ ایسے لوگوں سے فوق العادت کام ظاہر ہوتے ہیں لیکن وہ ان پر نازاں نہیں ہوتے۔ وہ دوسروں کے لئے جیتے ہیں اپنے لئے نہیں اور اسی میں سروری کا راز مضمر ہے۔
(۱۰) کارہائے نمایاں:
دسویں اور آخری شرط مجددیت یہ ہے کہ مجدد اپنی زندگی میں کوئی ایسا کارہائے نمایاں انجام دے جس کو دیکھ کر آنے والی نسلیں بھی اس کے مرتبہ کا اعتراف کریں۔ جیسے ہم انگریزی میں (WORK OF PERMANT VALUE) کہہ سکتے ہیں۔ خواہ وہ کام جہاد سے متعلق ہو یا تقریر سے‘ تحریر سے وابستہ ہو یا تصنیف سے‘ اصلاح رسوم سے متعلق ہو یا قیام چشمہ فیض سے۔
مثلاً امام غزالی کی احیاء العلوم ‘ امام رازیؒ کی تفسیر اور شاہ ولی اﷲ صاحبؒ کی حجتہ اﷲ البالغہ ایسی کتابیں ہیں جن کو پڑھ کر ہر مصنف مزاج انسان ان بزرگوں کی جلالت شان کا معترف ہوجاتا ہے
مشک آنست کہ خود ببویدنہ کہ عطار بگوید
لطف تو اسی بات میں ہے کہ مجدد کی ظاہری اور باطنی زندگی ایسی ہو کہ اس کے ہمعصر اور آئندہ نسلیں جب اس کے کارنامے دیکھیں تو غلبہ ٔظن کی بنا پر اسے خود بخود مجدد کا لقب دے دیں۔ مجدد کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو کتاب اور سنت کی طرف بلائے۔ اسلام کو از سر نو زندہ کردے۔ بدعات کا قلع قمع کردے۔ لوگ اسے خود بخود مجدد کہنے لگیں گے۔ اس کے لئے نہ دعویٰ کرنا ضروری ہے نہ مسلمانوں پر اس کی شناخت فرض ہے۔ دعویٰ تو وہ کرتا ہے جو نئی بات یا نیا پیغام لاتا ہے۔
مجدد تو صرف کتاب وسنت کو پیش کرتا ہے جو پہلے سے موجود ہوتی ہے لیکن لوگ ان دونوں کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ اسلام کی اصلی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے اور اپنے طریق عمل سے لوگوں میں اسلامی شریعت پر عامل ہونے کی تحریک پیدا کردے اور کوئی کام ایسا کرجائے جس کو دیکھ کر آنے والی نسلیں اس کے مرتبہ کو بآسانی شناخت کرسکیں۔
No comments:
Post a Comment