تِلكَ
مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيها إِلَيكَ ۖ ما
كُنتَ تَعلَمُها أَنتَ وَلا قَومُكَ مِن قَبلِ هٰذا ۖ فَاصبِر ۖ إِنَّ
العٰقِبَةَ لِلمُتَّقينَ {11:49}
|
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم
تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری
قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے
|
یعنی
یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امّی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل
واقعات سنوائے جائیں۔
|
جیسے نوحؑ اور ان
کے رفقاء کے انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور
کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں ، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوحؑ
نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔
|
قرآن کریم نے اسی لغت سے ”نبی“ کا لفظ ایک ایسے
انسان
[بَشَرٌ....سورۃ الانعام:91،ابراھیم:11، الکھف:110، فصلت:6، الشوريٰ:51]
مرد
[رَجُلٍ ۔۔۔۔۔سورة الاعراف:63+69، يونس:2]
کے لئے استعمال کیا جس نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے فائدے اور نفع کی ایسی عظیم الشان خبریں سنائیں‘ جن سے ان کی عقول قاصر ہیں‘ صرف اپنی عقل نارسا سے وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں وہی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہوں گی اور پھر ان خبروں پر اطمینان یا علم جب حاصل ہوسکتا ہے کہ خبر دینے والا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل بھی پیش کرے یا صرف اس کی زندگی ہی اتنی پاکیزہ‘ اتنی اعلیٰ ومقدس ہو کہ اس پر جھوٹ کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکے‘ اس کی بات سنتے ہی لوگوں کو یقین آجائے۔ اب صرف ”نبی“ کا لفظ ہی لغتِ عرب کے مطابق ان سب حقائق پر روشنی ڈالتا ہے۔
أَكانَ لِلنّاسِ عَجَبًا أَن أَوحَينا إِلىٰ
رَجُلٍ مِنهُم أَن أَنذِرِ النّاسَ وَبَشِّرِ الَّذينَ ءامَنوا أَنَّ لَهُم
قَدَمَ صِدقٍ عِندَ رَبِّهِم ۗ قالَ الكٰفِرونَ إِنَّ هٰذا لَسٰحِرٌ مُبينٌ
{10:2}
|
کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ ہم
نے ان ہی میں سے ایک مرد کو حکم بھیجا کہ لوگوں کو ڈر سنا دو۔ اور ایمان لانے
والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے۔ (ایسے شخص
کی نسبت) کافر کہتے ہیں کہ یہ صریح جادوگر ہے
|
یعنی وحی قرآنی کو فوق العادت
مؤثر و بلیغ ہونے کی وجہ سے جادو ، اور اس کے لانے والے کو جادوگر کہتے ہیں۔
|
یعنی اس میں تعجب کی کیا بات
ہے کہ انسانوں کی اصلاح و ہدیات کے لئے حق تعالیٰ ایک انسان ہی کو مامور فرما دے
اور اس کی طرف وہ پیغام بھیجے جس کی دوسروں کو بلاواسطہ خبر نہ ہو وہ تمام لوگوں
کو خدا کی نافرمانی کے مہلک نتائج و عواقب سے آگاہ کرے ۔ اور خدا کی بات ماننے
والوں کو بشارت پہنچائے کہ رب العزت کے یہاں اعمال صالح کی بدولت ان کا مرتبہ
کتنا اونچا اور کیسا بلند پایہ ہے ۔ اور کیسی سعادت و فلاح ازل سے ان کے لئے
لکھی جا چکی ہے۔
|
ہمارے یہاں کے ہندو کا یہ خاص عقیدہ ہے کہ اس کے رشی منی [ انکے بڑے ولی ، جو مر چکے ہیں ] وہ غیب کی باتوں کو جانتے بھی ہیں ، اور انکی حاجتوں کو سن کر مدد بھی کرتے ہیں ، اسی لئے انکا بت بناتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں ، اور ان سے ضرورتیں بھی مانگتے ہیں ، اصل بات یہ کہ مسلمان کے علاوہ بہت ساری قوموں کا عقیدہ یہ ہے کہ انکے ولی ، یا رہنما ، علم غیب کو جانتے ہیں ، اور وہ ہماری مدد بھی کر سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کے ساتھ بتوں دیوی ، دیوتاؤں اور اپنے الگ الگ معبودوں کی بھی پوجا کرتے ہیں اور ان سے مدد بھی مانگتے ہیں ، اس لئے اللہ نے قرآن میں صاف کر دیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں جانتا ۔ تاکہ نہ اس کی عبادت کرے ، اور نہ اس سے اپنی ضرورت مانگے۔
اس نکتہ پر غور کریں۔
الله کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں:
القرآن:
ترجمہ:
علم غیب 5 باتیں ہیں:
وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتٰبٍ مُبينٍ
ترجمہ:
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جس کا اسے علم نہ ہو، اور زمین کی اندھیریوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں ہے جو ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔
[سورۃ الانعام:59]
[سورۃ الانعام: 50، الاعراف: 188،ھود: 31]
ہرگز نہیں، کیونکہ
لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ، أي: مَا كَانَ وَمَا يَكُون إلى أبد الآبدين لا يعلم ذلك إلا اللَّه وإن أعلموا وعلموا ذلك. ترجمہ: نہیں کوئی رکھتا علم غیب سوائے اللہ کے، یعنی: جو ہوچکا اور جو ہوگا ہمیشہ ہمیشہ تک، نہیں کوئی علم رکھتا اس کا مگر اللہ ہی اور اگر وہ لوگ اس کا علم رکھتے تو اس پر عمل کرتے۔ [تفسير الماتريدي(م333ھ) = تأويلات أهل السنة: سورۃ النمل: آیۃ 65] |
يَومَ يَجمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقولُ ماذا أُجِبتُم ۖ قالوا لا عِلمَ لَنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلّٰمُ الغُيوبِ {5:109} |
جس دن اللہ جمع کرے گا سب پیغمبروں کو پھر کہے گا تم کو کیا جواب ملا تھا، وہ کہیں گے ہم کوعلم نہیں، تو ہی ہے چھپی باتوں کو جاننے والا۔ |
وجدان صریح بتلاتا ہے کہ بندہ کتنی روحانی ترقی کیوں نہ کرجائے بندہ ہی رہتا ہے اور رب اپنے بندوں کے کتنا قریب کیوں نہ ہوجائے وہ رب ہی رہے گا، بندہ واجب الوجود کی صفات یا وجوب کی صفات لازمہ سے کبھی متصف نہیں ہوتا، علم غیب وہ جانتا ہے جو از خود ہو کسی دوسرے کے بتلانے سے نہ ہو؛ ورنہ انبیاء واولیاء یقیناً ایسی بہت سی باتیں جانتے ہیں جو دوسرے عام لوگوں کی رسائی میں نہ ہوں۔(تفہیماتِ الہٰیہ:۱/۲۴۵)
"ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ "۔ (آل عمران:۴۴)
ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی ہم بھیجتے ہیں تیرے پاس۔
بیشک انبیاء و اولیاء کا علم الله تعالی کے بتلانے سے ہوتا ہے اور ہمیں جو علم ہوتا ہے وہ انبیاء و اولیاء کے بتلانے سے ہوتا ہے اور یہ علم اس علم خداوندی سے مختلف ہے جس کے ساتھ صرف ذات باری تعالی متصف ہے، الله تعالی کا علم اس کی ان صفات قدیمہ ازلیہ دائمہ و ابدیہ میں سے ایک صفت ہے جو تغیر اور علامات حدوث سے منزہ ہے اور کسی کی شرکت اور نقصِ انقسام سے بھی پاک ہے وہ علم واحد ہے جس سے الله تعالی تمام معلومات کلیہ و جزئیہ ماضیہ و مستقبلہ کو جانتا ہے، نہ وہ بدیہی ہے نہ نظری اورنہ حادث، بخلاف تمام مخلوق کے علم کے کہ وہ بدیہی و نظری اور حادث ہے، جب یہ بات ثابت ہوگئی تو الله تعالی کا علم مذکور جس کے ساتھ وہ لائق ستائش ہے اور جس کی مذکورہ دو آیتوں میں خبر دی گئی ہے ایسا ہے کہ اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں، سو غیب صرف الله تعالی ہی جانتا ہے، الله تعالی کے علاوہ اگر بعض حضرات نے غیبی باتیں جانیں تو وہ الله تعالی کے بتلانے اور اطلاع دینے سے جانیں۔
(مجموعہ رسالہ ابن عابدین شامیؒ،۲، ۳۱۳، ان اللہ سبحانہ تعالی منفرد بعلم الغیب المطلق وانما یطلع رسلہ علی بعض غیبہ المتعلقۃ بالرسالۃ اطلا عاجلیا واضحالاشک فیہ بالوحی الصریح:۳۱۴)
ترجمہ : اور تحقیق یہ ہے کہ غیب وہ ہے جو ہمارے حواس اورعلم بدیہی اورنظری سے غائب ہو،بیشک قرآن نے اللہ تعالی کے علاوہ سب سے اس علم غیب کی نفی کی ہے، پس جو دعویٰ کرے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے تو وہ کافر ہوجائیگا اور جوایسے شخص کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہوجائے گا باقی جو علم حواس خمسہ میں سے کسی حاسہ (دیکھ کر یا سن کر یا چھو کر یا سونگھ کر یا چکھ کر) یا ہدایت سے یا کسی دلیل سے حاصل ہو وہ غیب نہیں کہلاتا اور نہ محققین کے نزدیک ایسے علم کا دعویٰ کرنا کفر ہے اور نہ ایسے دعویٰ کی (یقینی امور میں یقین کے ساتھ اورظنی امور میں ظن کے ساتھ) تصدیق کرنا کفر ہے، اس تحقیق سے ان امور سے متعلق اشکال رفع ہوگیا جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ علم غیب میں سے ہیں؛ حالانکہ وہ علم غیب میں سے نہیں، اس لیے کہ وہ سمع وبصر یا دلیل سے حاصل ہوئے ہیں،انہی امور میں سے اخبار انبیاء بھی ہیں، انبیاء علیہم السلام کی خبر یں وحی سے مستفاد ہوتی ہیں یا نبیوں میں علم ضروری پیدا کردیا جاتا ہے یا ان کے حواس پر حقائق کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔
(النبراس علی شرح العقائد:۵۷۴)
معلوم ہوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء عظام سے جو بھی خبریں منقول ہیں وہ سب اللہ کے بتلانے سے تھیں اور یہ بھی نہ تھا کہ اللہ تعالی اپنے کسی مقرب بندے پر ایک ہی دفعہ غیب کے جملہ دروازے کھول دے کہ آئندہ اسے غیب کی بات جاننے میں کسی ذریعہ علم کا احتیاج نہ رہے ؛بلکہ مختلف موقعوں پرحسب ضرورت اور بتقاضائے مصلحت انہیں کچھ نہ کچھ اطلاع بخشی جاتی تھی،خود حضورﷺ ہی کودیکھئے تئیس ۲۳/ سال میں وحی قرآن "نجماً نجماً" اترتی رہی اوراس طرح وحی قرآنی کی تکمیل فرمائی گئی بالتدریج یہ سلسلہ وحی جاری رہا۔
علامہ ابن قیمؒ اس کو "کشف" میں شمار کرتے لکھتے ہیں:
والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن . ترجمہ: |
اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے۔
یعنی
ولی کا کشف کئی طرح کا ہوتا ہے:
==========================
۱۔ قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللہ ۔
(نمل:۶۵)
ترجمہ: آپ کہدیجئے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا۔
۲۔ وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۔
(انعام:۵۹)
ترجمہ: غیب کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں، اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
۳۔ قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللہ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ o
(اعراف:۱۸۸)
ترجمہ: آپ کہدیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے بھی نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں سب سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی مضرت مجھے نہ چھوتی، میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
۴۔ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌo
(لقمان:۳۴)
ترجمہ: بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا، اللہ سب باتوں کا جاننے والا سب خبر رکھنے والا ہےؤ
۵۔ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا o
(طٰہٰ:۱۱۰)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان سب کے اگلے پچھلے احوال کو جانتا ہے اور اس کو ان کا علم احاطہ نہیں کرسکتا۔
وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ مِنهُم مَن قَصَصنا عَلَيكَ وَمِنهُم مَن لَم نَقصُص عَلَيكَ ۗ وَما كانَ لِرَسولٍ أَن يَأتِىَ بِـٔايَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ فَإِذا جاءَ أَمرُ اللَّهِ قُضِىَ بِالحَقِّ وَخَسِرَ هُنالِكَ المُبطِلونَ {40:78}
|
اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سے) پیغمبر بھیجے۔ ان میں کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات تم سے بیان کر دیئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کئے۔ اور کسی پیغمبر کا مقدور نہ تھا کہ الله کے حکم کے سوا کوئی نشانی لائے۔ پھر جب الله کا حکم آپہنچا تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور اہل باطل نقصان میں پڑ گئے
|
قرآن میں مذکور اور غیرمذکور انبیاء:یعنی بعض کا تفصیلی حال تجھ سے بیان کیا، بعض کا نہیں کیا۔ (اور ممکن ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ان کا بھی مفصل حال بیان کر دیا ہو) بہرحال جن کے نام معلوم ہیں ان پر تفصیلًا اور جن کے نام وغیرہ معلوم نہیں ان پر اجمالًا ایمان لانا ضروری ہے۔ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ (البقرۃ۔۲۸۵)۔
|
یعنی اللہ کے سامنے سب عاجز ہیں رسولوں کویہ بھی اختیار نہیں کہ جو معجزہ چاہیں دکھلا دیا کریں، صرف وہ ہی نشانات دکھلا سکتے ہیں جس کی اجازت حق تعالیٰ کی طرف سے ہو۔
|
اللہ کا فیصلہ:یعنی جس وقت اللہ کا حکم پہنچتا ہے رسولوں اور ان کی قوموں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہو تے ہیں۔ اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔
|
القرآن :
تفسیر :
لَوْلَا أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً لَأَكَلْتُهَا۔
ترجمہ:
اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی کھجور ہوگی تو میں اُسے کھالیتا۔
دعی ھذہ و قولی بالذی کنت تقولین۔
(مشکوٰۃ:۲۷۱)
ترجمہ: اس بات کو چھوڑدو وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔
|
|
إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، أَوْ: نُسِّيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوِتْرِ۔
ترجمہ: مجھے یہ رات بتلائی گئی تھی، پھر میں بھول گیا ، پس تم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا عقیدہ یہ تھا کہ :
جو شخص اس بات کا مدعی ہے کہ حضور ﷺ نے کتاب اللہ سے بعض چیزوں کو چھپالیا ہے وہ رسول ﷺ پر بہتان باندھتا ہے؛ حالانکہ اللہ ارشاد فرما رہے ہیں: "یَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَاأُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ"۔ (اے پیغمبر! جو کچھ آپﷺ پر نازل کیا گیا اسے لوگوں تک پہنچا دیں اور اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپﷺ نے فریضہ رسالت کا حق ادا نہیں کیا)۔(سورۃ المائدۃ:۶۷)
[صحيح البخاري:7380][صحيح مسلم: بَاب مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ رآه نزلة أخرى}، حدیث نمبر:257(439)]
۱۔ اعلم ان الانبیاء علیھم السلام لم یعلموا المغیبات من الاشھار الانبیاء علیھم الللہ تعالیٰ احیاناً و ذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر باعتقاد ان النبی ﷺ الغیب لمعارضتہ قولہ تعالیٰ: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا لِلَّهُ ۔
(شرح فقہ اکبر)
ترجمہ: جان لو کہ بالیقین حضرات انبیاء علیہم السلام غیب کی چیزوں کا علم نہیں رکھتے سوائے اس کے جو علم اللہ تعالیٰ انہیں دیدیں اور احناف نے صراحت کے ساتھ اس کی تکفیر کی ہے کہ جو یہ کہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے ہیں کیونکہ یہ اعتقاد اللہ تعالیٰ کے قول: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ.....کے مقابل میں ہے۔
۲۔ لو تزوج بشھادۃ اللہ و رسولہ لا ینعقد النکاح و کفر لاعتقاد انہﷺ یعلم الغیب۔
(بحر الرائق:۱/۶)
ترجمہ: اگر کوئی شخص شادی کرے اور اس میں اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنائے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوتا، اس کا یہ اعتقاد کفریہ ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جاننے والے ہیں۔
۳۔ وبالجملۃ العلم بالغیب ھو تفرِّد بہ اللہ تعالیٰ لا سبیل الیہ للعباد الا باعلام منہ او الھام۔
(شرح عقائد نسفی:۱۲۳)
ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ علم غیب یہ ایسی چیز ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، بندوں کی رسائی وہاں نہیں ہے، صرف اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ وحی یا الہام سے بتادیں۔
۴۔ و بعضھم جعلوا ذالک کفراً لانہ یعتقد ان رسول اللہ ﷺیعلم الغیب وھو کفر۔
(فتاویٰ قاضی خان، کتاب النکاح)
ترجمہ: اور بعض نے اس کو کفر قرار دیا ہے، کیونکہ یہ اعتقاد رکھنا کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے ہیں اور یہ بات کفر کی ہے۔
الله پاک تو غیبی تو دور ظاہری علوم میں اشعار کے علم کو نبی کے شایان شان نہ ہونے کے سبب واضح طور پر نہ سکھلانا (عطا نہ کرنا) فرماتا ہے:
القرآن :
تو آپکا یہ کہنا کہ نبی ﷺ کو تدریجاً سارے علوم غیبیہ (( عطا )) کردے گئے ، یہ بدعتی لوگوں کے بدعتی عقائد ہیں جو کسی امام سے اس طرح منقول نہیں۔
چوتھی مشتبہ حدیث:
سوالی کی مراد سمجھنے کی ضرورت:
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ: لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم اس بارے میں سوال نہیں کر رہے! آپ نے فرمایا تب لوگوں میں سب سے زیادہ معزز یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی، نبی کے بیٹے، نبی کے پوتے اور ابراہیم خلیل اللہ کے پڑپوتے ہیں۔ لوگوں نے کہا ہم اس بارے میں بھی آپ سے سوال نہیں کر رہے آپ نے فرمایا تب تم عرب کے سر چشمہ خیر کے بارے میں مجھ سے سوال کر رہے ہو؟ لوگ سر چشمہ خیر ہیں، جاہلیت میں بہترین لوگ اسلام میں بھی بہترین (معزز) ہیں جب وہ فقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کر لیں۔
[صحیح بخاری، حدیث نمبر 3383]
پانچویں مشتبہ حدیث:
ایک لمبی حدیث میں ہے کہ:
(5)۔عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ۔۔۔۔ فَقَالَ:
" نَعَمْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا، وَأَمْرِ الْآخِرَةِ، فَجُمِعَ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ بِصَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَفَظِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ، حَتَّى انْطَلَقُوا إِلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلامُ ۔۔۔ وَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ۔
ترجمہ:
ایک دن صبح ہوئی ۔۔۔ تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ دنیا اور آخرت میں جتنی چیزیں ہونے والی ہے وہ مجھ پر پیش کی گئی ، پس ایک میدان میں اول اور آخر کے تمام لوگوں کو جمع کیا گیا ، پس لوگ گھبرا کر حضرت آدم ؑ کے پاس جائیں گے ۔۔۔ اللہ تعالی فرمائیں گے: اے محمد! اپنے سر کو اٹھائیں ، اور آپ کہئے، بات سنی جائے گی ، اور سفارش کیجئے، تو سفارش قبول کی جائے گی۔
[مسند احمدؒ ، مسند ابی بکرؓ ، حدیث نمبر 15]
اس حدیث سے بھی بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ حضور ﷺ کو علم غیب تھا ، کیونکہ اس میں ہے کہ دنیا اور آخرت میں جتنی بات ہونے والی ہے ، میرے سامنے سب پیش کر دی گئی، اس لئے آپ ﷺ کو سب چیز کا علم غیب حاصل ہو گیا۔
دوسرے حضرات نے جواب دیا کہ:
(1) اس پوری حدیث کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس حدیث میں [بڑی بڑی چیزیں] واضح کی گئی ہیں ، اور خاص طور پر قیامت میں کس طرح حضرت آدم ؑ اور دوسرے انبیاء کے پاس لوگ جائیں گے، اور کس طرح آپ ﷺ شفاعتِ کبریٰ کریں گے ، اس کا ذکر ہے ۔ غیب کی تمام باتیں نہیں ہیں۔
(2) آج تک اس حدیث کی تشریحات جن اماموں نے لکھی ہیں، کسی نے اس حدیث سے یہ عقیدہ [کہ نبی ﷺ سارا غیب جانتے ہیں] ثابت نہیں کیا، جو کافی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ بدعتی یعنی خیرالقرون کہے، اہلِ سنت کا نہیں۔
(3) اگر کسی کو شبہ ہوتا تو اس کی اصلاح کی جاتی تھی:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کل کے واقعات کو جانتے ہیں تو وہ یقینا جھوٹ کہتا ہے۔ پھر (بطورِ دلیل قرآن کی یہ آیت) پڑھی: کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا (سورۃ لقمان:34)
[صحیح بخاری:4855، التوحيد لابن خزيمة:2/ 555، الإيمان - ابن منده: 768]
دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ
جو شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کل کے واقعات کو جانتے ہیں تو بےشک اس نے (نبی ہی پر نہیں بلکہ) اللہ پر بھی سب سے بڑا بہتان باندھا ہے، کیونکہ اللہ نے کا ارشاد ہے کہ: (اے نبی!) آپ کہدیجیئے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔(سورۃ النمل:65)
[صحیح مسلم:177، التوحيد لابن خزيمة:2/ 548، الإيمان - ابن منده:763]
(4) اس کی تائید نبی ﷺ سے بھی حضرت عائشہ کی دوسری روایت میں ہے ملتی ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ ایک گروہ کے پاس تشریف لے جارہے تھے اور وہ لوگ شادی کی خوشی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے، ان میں سے کسی نے یہ کہہ دیا:
وَحُبُّكِ فِي النَّادِي، وَيَعْلَمُ مَا فِي غَدِ
(اے اللہ! تیرا محبوب مجلس میں ہے اور وہ کل کی بات جانتا ہے۔)
تو نبی ﷺ نے خبردار فرمایا:
«لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ»
کل کے واقعات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 2753]
چھٹی مشتبہ حدیث:
(6)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ»، قَالَ: أَحْسَبُهُ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ فِي نَحْرِي، فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فِي الْكَفَّارَاتِ، وَالْكَفَّارَاتُ الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَاتِ ۔
ترجمہ:
حضور پاک ؐ نے فرمایا کہ آج رات اللہ تعالی اچھی صورت میں میرے پاس آئے ۔۔راوی کہتے ہیں شاید یہ خواب کی بات تھی ۔۔پھر اللہ نے کہا: اے محمد! آپ کو معلوم ہے کہ ملاء اعلی کے لوگ کس بارے میں جھگڑ رہے ہیں ، میں نے کہا: نہیں ، تو اللہ نے اپنے ہاتھ کو میرے مونڈھے کے درمیان رکھا ، یہاں تک کہ سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی ، آپ نے ثدی فرمایا یا نحری فرمایا ، پس جو آسمان میں تھا اور جو زمین میں تھا اس کو جان لیا ، اللہ نے پوچھا آئے محمد ؐآپ کو پتہ ہے کہ ملاء اعلی والے کس چیز میں سبقت کر رہے ہیں ، میں نے کہا ہاں کفارات میں اور نماز کے بعد مسجد میں ٹھہرنے کا جو ثواب ہے اس بارے میں سبقت کر رہے ہیں.
[سنن ترمذی : کتاب تفسیر القرآن ، باب ومن سورۃ صٓ ، حدیث نمبر 3233، نمبر 3234، نمبر 3235]
یہاں تین حدیثیں ہیں:
حدیث نمبر 3233 میں ہے:
فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ۔
پس جو آسمان میں تھا اور جو زمین میں تھا اس کو جان لیا
حدیث نمبر 3234 میں ہے:
فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ۔
پس جو مشرق اور مغرب میں تھا اس کو جان لیا۔
اور حدیث نمبر 3235، میں ہے:
فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ۔
ہر چیز میرے سامنے روشن ہو کر آ گئی، اور میں پہچان گیا۔
بعض حضرات نے ان تین احادیث میں جو فرمایا گیا ہے اس سے ثابت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کو تمام چیزوں کا علم غیب ہے۔
دوسرے حضرات اس حدیث کے بارے میں چار باتیں کہتے ہیں:
1۔ یہ حدیث اوپر کی 37 آیتوں کے خلاف ہے ، جس میں ہے کہ مجھے علم غیب نہیں ہے ۔
2۔دوسری بات یہ ہے کہ اسی حدیث میں , *[لَا أَدْرِي]* ، ہے ، کہ *[مجھے معلوم نہیں ہے]* ، تو حضور ﷺ کو علم غیب کیسے ہوا؟
3۔ تیسری بات ہے کہ آپ کو "سارا" علم غیب نہیں دیا گیا تھا ، بلکہ خاص ملاء اعلی کے بارے میں کچھ راز کھولی گئی کہ ملأ اعلی کے لوگ کس بات میں سبقت (جلدی)-مقابلہ کرتے ہیں تاکہ حضور ﷺ اپنی امت کو بھی اس نیکیوں کو بتا سکیں
4۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ یہ حدیث خواب کی ہے ، اس لئے اس حدیث سے تمام چیزوں کا علمِ غیب ثابت کرنا (یعنی اب نیا عقیدہ بنانا) مشکل ( پیچیدہ ، اُلجھا ہوا ، دقیق ، مبہم اور ناجائز) ہے۔
ساتویں مشتبہ حدیث:
16۔عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا۔
ترجمہ:
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا ، پس میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا ، اور جہاں تک سمیٹی گئی میری امت وہاں تک پہنچ جائے گی۔
[صحیح مسلم : کتاب الفتن ، بَابُ هَلَاكِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ ، حدیث نمبر 2889(7278)]
اس حدیث سے بھی علم غیب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ ایک معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے مشرق اور مغرب کی زمین کر دی گئی، اور آپ ﷺ نے اس کو دیکھ لیا ، لیکن اس حدیث میں وضاحت ہے کہ مشرق اور مغرب کی چیزوں کو دیکھا ، صرف مشرق اور مغرب کی چیزوں کو دیکھنا یہ پورا علم غیب نہیں ہے ، بلکہ یہ جُزء Part ہے جو آپ ﷺ کو دکھلایا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ۔، اس میں زُوِيَ ، ماضی کا صیغہ ہے ، جس کا مطلب ہے کہ ایک مرتبہ ایسا کیا گیا ، ورنہ اگر آپ ﷺ کو ہمیشہ علم غیب ہے تو آپ ﷺ کے سامنے زمین کو کرنے کا مطلب کیا ہے ، وہ تو ہر وقت آپ ﷺ کے سامنے ہے ہی ، اس لئے اس حدیث سے علم غیب ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ غیب کی بعض باتوں کو آپ ﷺ کو بتائی گئی ہے۔ ۔ آپ خود بھی غور کر لیں۔
غیبی پردے کے پیچھے کی چیزیں دکھانے کے بعد پردہ ڈال دیا، لہٰذا نہ سب چیزوں کی تفصیل ہر وقت اور ہمیشہ سامنے نہیں۔
آٹھویں مشتبہ حدیث:
17۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ» ۔
ترجمہ:
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں جو دیکھتا ہوں تم لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے ، اور میں جو سنتا ہوں تم نہیں سن سکتے۔
[سنن ترمذی ، کتاب الزھد ، بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، حدیث نمبر 2312]
اس حدیث سے بعض حضرات نے علم غیب پر استدلال کیا ہے ، لیکن اس حدیث سے بھی "پورا" علم غیب ثابت نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ کا بعض علم غیب ہے ، جو حضور ﷺ کو بتایا گیا ہے۔
ان 10 دس آیت اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو "پورا" علم غیب تھا۔ لیکن بار بار عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ [تفصیل کل شیء] کی آیت اور یہ 8 احادیث، 40 آیتوں اور 8 احادیث کے خلاف ہیں۔ کہ جن سے علمِ غیب کی نفی ہے۔
مستقبل میں بھی علم غیب کلی کی نفی:
بعض (امتیوں) کی نسبت قیامت میں حضور ﷺ سے کہا جائے گا:
إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ۔
آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نئی باتیں ایجاد کیں۔
[(مسند أحمد:22873، مسند البزار:204، مسند أبي يعلى:4455, مسند الشهاب القضاعي:1130, الأحاديث المختارة:241) صحيح البخاري:6205+6212، صحيح مسلم:2290]
إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا بدَّلوا بَعْدَكَ۔
آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کچھ بدل دیا۔
[صحيح البخاري:6643]
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک بھی آپ ﷺ پر بعض کونیات (یعنی وہ باتیں جو ہونی ہیں) ظاہر نہیں ہوئے ۔۔۔ نہ بالذات نہ بالعطاء ۔۔۔ کیونکہ علم بالعطاء کے بعد آپ ﷺ نے ان کو سحقا‘سحقا (دوری ہو، دوری ہو) فرمایا۔۔۔اگر عطائی علم غیب پہلے سے ہوتا تو ان کیلئے فکرمند نہ ہوتے۔ لہٰذا قیامت کے دن بھی نبی ﷺ کو علم غیب نہ کلی ہوگا اور نہ ہی [مَا كَانَ وَمَا يَكُون ۔۔۔ یعنی جو ہوچکا اور جو ہوگا] کا۔
سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي۔
دوری ہو دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کر دی تھیں۔
[مسند أحمد:+11220+22822+22873، صحيح البخاري:7050+7051، صحيح مسلم:2290]
خلاصہ یہ ہے کہ ”عالم الغیب“ کہنا جائز نہیں گو تاویل ہی سے کیوں نہ ہو کیونکہ اس میں شرک کا وہم ہوتا ہے، جیسا کہ اسی وہم کی وجہ سے قرآن کریم [سورۃ البقرۃ:104] میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ”رَاعِنَا“ کہنے سے اور صحیح مسلم کی حدیث [2249] میں غلام اور باندی کو ”عَبْدِیْ“ اور ”اَمَتِیْ“ کہنے سے منع کیا گیا ہے۔[سنن أبي داود:4975]
اصل میں بات یہ ہے کہ اصطلاحِ شریعت میں مطلق غیب وہی ہوتا ہے جس پہ کوئی دلیل نہ ہو اور وہ بغیر کسی واسطہ و وسیلہ کے حاصل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”اے پیغمبر! کہہ دو کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کسی کو بھی غیب کا علم نہیں ہے“۔
[سورۃ النمل: 65]
نیز ارشاد ہے کہ:
” اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں خوب بھلائیاں جمع کر لیتا۔“ اس کے علاوہ اور کئی آیات موجود ہیں“۔
[سورۃ الاعراف: 188]
نیز اگر کسی تاویل کے ذریعے آپ ﷺ کو عالم الغیب کہنا جائز سمجھا جائے تو لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ مخصوصہ مثلاً: خالق، رازق، مالک، معبود وغیرہ کا اطلاق بھی اسی تاویل کے ذریعے مخلوق پر صحیح ہو۔
نیز لازم آتا ہے کہ دوسری تاویل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے عالم الغیب ہونے کی نفی کرنا درست ہو اور وہ تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بالواسطہ اور بالعرض عالم الغیب نہیں۔ تو کیا کوئی عقلمند دیندار شخص اس تاویل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی نفی کو جائز کہہ سکتا ہے؟ اللہ کی پناہ، ہرگز نہیں۔
پھر یہ کہ اگر بقولِ سائل حضور ﷺ کو عالم الغیب کہنا درست ہے تو ہمارا اس سے سوال یہ ہے کہ اس غیب سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یعنی غیب کی ہر ہر چیز کا علم یا "بعض" مغیبات کا علم چاہے وہ جو بھی ہوں۔ اگر "بعض" غیب مراد ہو تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تو باقی نہ رہی کیونکہ بعض غیب کا علم اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو وہ غیر نبی کو بھی حاصل ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہے جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوتی۔ تو اگر سائل کے نزدیک "بعض" غیب جاننے کی وجہ سے کسی کو عالم الغیب کہنا جائز ہے تو لازم آتا ہے کہ وہ مذکورہ بالا تمام چیزوں پر عالم الغیب کے اطلاق کو جائز قرار دے۔
اور اگر سائل اس اطلاق کو درست سمجھتا ہے تو پھر ”عالم الغیب“ ہونا حضور علیہ السلام کے کمالاتِ نبوت میں سے نہ رہے گا کیونکہ اس صفت میں سب شریک ہوجائیں گے اور اگر سائل اس اِطلاق کو درست نہیں سمجھتا تو پوچھا جائے گا کہ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ یقیناً سائل کبھی بھی وجہ فرق بیان نہ کر سکے گا۔
نبی کون؟ اور منصبِ نبوت:
لغتِ عرب میں ”نبأ“
اس خبر کو کہتے ہیں جس میں فائدہ ہو اور فائدہ بھی عظیم اور اس خبر سے سننے والے کو
علم واطمینان بھی حاصل ہو۔غرض کہ تین چیزیں اس میں ضروری ہوں:
۱- خبر
فائدے کی ہو۔
۲-فائدہ
بھی عظیم الشان ہو۔
۳- سننے
والے کو یقین کامل یا اطمینانِ قلب حاصل ہوجائے۔
[مفردات
القرآن(امام الراغب اصفہانیؒ) : سورۃ النبا:2]
اللہ تعالیٰ سب
حاکموں کا حاکم [سورۃ ھود:45] اور بادشاہوں کا بادشاہ [آل عمران:26] ہے۔
جس نے ہر
قوم[الرعد:7]
اور امت[فاطر:24]
اور
بستی[الشعراء:208]
میں لوگوں کیلئے
ہدایت[سورۃ آل عمران:4] روشنی[ابراھیم:1]،
مومنوں کیلئے
بشارت[النمل:2]اور رحمت[لقمان:3] اور شفاء[فصلت:44]
عقلمندوں کیلئے
نصیحت[غافر:54] نازل فرمائی ہے۔
اس(نبی-رسول)کی
قوم کی زبان میں[ابراھیم:4]
اپنے
"بندوں" میں سے خود منتخب کرتا-چنتا ہے۔[الحج:75، النمل:59]
بھیجتا
ہے[القصص:99، غافر:34]
کیونکہ وہ زیادہ
جانتا ہے کہ کہاں رکھے-بھیجے اپنی رسالت۔[الانعام:124]
رسالت کہتے ہیں
پیغام "پہنچانے"[المائدۃ:67] کی ذمہ داری کو۔ اور ذمہ دار کو رسول کہتے
ہیں۔[آل عمران:53]
اور
اسی طرح ھدایت
کرنے[الانبیاء:73] خبر بتلانے[الحجر:49-50] کی ذمہ داری کو نبوت[آل عمران:79] کہتے
ہیں۔ کہ انبیاء بھی اللہ کے "بھیجے" ہوئے(رسول)ہیں۔[الزخرف:6]
*نبی اور رسول
میں فرق:*
(1)نبی صرف
انسانوں میں ہوتے اور رسول ملائکہ اور انسان دونوں میں ہوتے ہیں۔
اللہ چنتا ہے
رسول(پیغام پہنچانے والے) ملائکہ میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔[الحج:75]
یعنی
ملائکہ میں سے
پیغامِ الٰہی پہنچانے کیلئے چنا ہوا جبریلؑ روح الامین ہے[الشعراء:123] کیونکہ
ملائکہ کی طرف وحی کرتا(ذمہ داری سونپتا) ہے اللہ[الانفال:12] ۔۔۔ تاکہ وہ نازل
کرے نبی کے دل پر[البقرۃ:97]
۔۔۔اور۔۔۔
لوگوں میں سے چنے
ہوئے (خاص) بندوں[النمل:59] کو
پیغامِ الٰہی پہنچانے والے(رسول) بھیجے۔۔۔
انہیں میں[البقرۃ:129،
المومنون:32، الصافات:72]
انہی کے
نفسوں(جنس)میں سے[آل عمران:164]
تمہارے
نفسوں(جانوں)میں سے[التوبۃ:128]
بشر(آدمی)کو[سورۃ الانعام:91، ابراھیم:11، الکھف:110،
فصلت:6، الشوريٰ:51]
رجل(مرد)کو[سورۃ الاعراف:63+69، يونس:2]
یعنی
جن اور عورت میں
کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجا۔
(2) بشری نبی اور
بشری رسول میں فرق:
ہر نبی پر وحی
بھیجی جاتی ہے اور نبوت عطا ہوتی ہے[] پچھلے رسول کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتے
ہیں۔[المائدۃ:44]
اور
رسول کو نبوت،
حکم وشریعت اور کتاب بھی دی جاتی ہے۔
الگ نئی کتاب[آل عمران:79] جیسے:حضرت داؤدؑ کو زبور[النساء:163، الاسراء:55]،
حضرت عیسیٰؑ کو انجیل[الحدید:27]
اور
حکم [الانعام:89]
یعنی الگ شریعت[المائدۃ:48]
جیسے:
پہلے قبلہ بیت
المقدس(مسجد اقصیٌٰ) تھا اور اب بیت اللہ(مسجد الحرام)[سورۃ البقرۃ:142-145،
الاسراء:1]
مشترکاتِ انبیاء
اور رسل:
(1) وحی: دونوں
پر نازل ہوتی ہے۔ یعنی پیغامِ الٰہی پہنچانے کی ذمہ داری سونپی جاتی
ہے۔[النساء:163]
(2) بنیادی کلمہ،
عقیدہ اور پیغامِ وحی یہی تھی کہ۔۔۔نہیں ہے کہوئی معبود سوائے اللہ کے، لہٰذا اسی
کی عبادت کرو۔[الانبیاء:25]
عیسیٰ بھی رسول
ہی ہیں(خدا نہیں)پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔کہ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں۔
[المائدۃ:75]
محمد بھی رسول ہی
ہیں پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔یعنی وہ قتل یا فوت ہوسکتے ہیں۔
[آل عمران:144]
کہدیجیئے میں
کوئی نیا رسول نہیں۔۔۔(یعنی دوسرے رسولوں کی طرح)۔۔۔میں بھی نہیں جانتا کہ میرے
اور تم سب کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔[الاحقاف:9]
لیکن محمد رسول
اللہ کو خاتم النبیین[الاحزاب:40] کو سب کی طرف[الاعراف:158] ساری انسانیت
کیلئے[النساء:170، الحج:49، سبا:28] بھیجا۔
لہٰذا لازم ہے:
(1)ان پر ایمان
لانا
[البقرۃ:177+285،
النساء:136، الاعراف:158، النور:62، الاحزاب:15، الحدید:7المجادلۃ:4، الصف:11
التغابن:8، ]
(2)انکی عزت
وتعظیم کرنا[الفتح:9]
(3)انکی اطاعت
کرنا[النساء:64+80]
(4)انکی مدد
کرنا[الاعراف:157]
اور دخولِ جنت کا
سبب ہے[النساء:14]
اور
ان کی نافرمانی
کرنا[النساء:42]
جھٹلانا [آل
عمران:184، الانعام:34، الاعراف:92+101، النحل:113، الحج:42، المومنون:44، ق:14]
انکار کرنا کفر
ہے[آل عمران:86، النساء:136+150+170]
تمسخر اُڑانا[الزمر:56،
الانعام:10،الانبیاء:41]
اور استہزاء کرنا
کفر ہے[الکھف:106، التوبۃ:65]
اور ان سے بغض
ودشمنی رکھنا بھی کفر ہے[البقرۃ:97]
انہیں قتل کرنا
بھی کفر ہے[البقرۃ:61، آل عمران:21]
یہ کفر فورا
دنیاوی سزا کا مستحق بناتا[الانعام:10، یٰس:30-31]
اور دخولِ جہنم
کا سبب ہے[الجن:23، النساء:15]۔
No comments:
Post a Comment