Sunday, 9 June 2013

کیا امتی بھی نبی کی طرح عطائی عالم الغیب ہیں؟



تِلكَ مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيها إِلَيكَ ۖ ما كُنتَ تَعلَمُها أَنتَ وَلا قَومُكَ مِن قَبلِ هٰذا ۖ فَاصبِر ۖ إِنَّ العٰقِبَةَ لِلمُتَّقينَ {11:49}
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے
یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امّی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں۔
جیسے نوحؑ اور ان کے رفقاء کے انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں ، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوحؑ نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔

نوٹ:
غیبی خبروں میں سے
[سورۃ ھود:49](آل عمران:44، ھود:100+120، یوسف:102، طٰہٰ:99)
یعنی "بعض" غیبی خبریں ظاہر کیں ہیں، نہ کہ "ساری" غیبی خبریں۔

نوحيها (ہم نے وحی کیا اسے)۔۔۔۔ یعنی الله کے خبر دینے سے پہلے نبی کی طرح قوم بھی اس غیب (پوشیدہ باتوں) کو نہیں جان سکتی۔

لہٰذا غیبی خبر کے ظاہر کرنے کے بعد الله کے ساتھ جب قوم کو [عالم الغیب] نہیں کہا جاتا اسی طرح نبی کو بھی الله کی اس صفت(خوبی) میں شریک کرتے قرآن و سنّت میں کہیں بھی اللہ کے علاوہ کو عالم الغیب نہیں کہا گیا. کیونکہ قرآن و سنّت میں اس صیغہ اور لفظ [عالم الغیب] کو صرف الله کے لئے ہی استعمال کیا گیا ہے جو (بلا واسطہ) ذاتی-کُلی علم رکھنے والے ہی کو کہتے ہیں۔
[سورۃ التوبہ:107، الرعد :9 ، المومنون:92 ، السجدہ:6 ، فاطر: 38، الحشر: 22، التغابن: 18، الجن: 26]

ورنہ علمِ غیب "عطا" ہونے میں امت کو بھی عالم الغیب ماننا پڑے گا۔





قرآن کریم نے اسی لغت سے ”نبی“ کا لفظ ایک ایسے

انسان

[‌بَشَرٌ....سورۃ الانعام:91،ابراھیم:11، الکھف:110، فصلت:6، الشوريٰ:51]

مرد

[رَجُلٍ ۔۔۔۔۔سورة الاعراف:63+69، يونس:2]

کے لئے استعمال کیا جس نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے فائدے اور نفع کی ایسی عظیم الشان خبریں سنائیں‘ جن سے ان کی عقول قاصر ہیں‘ صرف اپنی عقل نارسا سے وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں وہی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہوں گی اور پھر ان خبروں پر اطمینان یا علم جب حاصل ہوسکتا ہے کہ خبر دینے والا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل بھی پیش کرے یا صرف اس کی زندگی ہی اتنی پاکیزہ‘ اتنی اعلیٰ ومقدس ہو کہ اس پر جھوٹ کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکے‘ اس کی بات سنتے ہی لوگوں کو یقین آجائے۔ اب صرف ”نبی“ کا لفظ ہی لغتِ عرب کے مطابق ان سب حقائق پر روشنی ڈالتا ہے۔


أَكانَ لِلنّاسِ عَجَبًا أَن أَوحَينا إِلىٰ رَجُلٍ مِنهُم أَن أَنذِرِ النّاسَ وَبَشِّرِ الَّذينَ ءامَنوا أَنَّ لَهُم قَدَمَ صِدقٍ عِندَ رَبِّهِم ۗ قالَ الكٰفِرونَ إِنَّ هٰذا لَسٰحِرٌ مُبينٌ {10:2}
کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک مرد کو حکم بھیجا کہ لوگوں کو ڈر سنا دو۔ اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے۔ (ایسے شخص کی نسبت) کافر کہتے ہیں کہ یہ صریح جادوگر ہے
یعنی وحی قرآنی کو فوق العادت مؤثر و بلیغ ہونے کی وجہ سے جادو ، اور اس کے لانے والے کو جادوگر کہتے ہیں۔
یعنی اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ انسانوں کی اصلاح و ہدیات کے لئے حق تعالیٰ ایک انسان ہی کو مامور فرما دے اور اس کی طرف وہ پیغام بھیجے جس کی دوسروں کو بلاواسطہ خبر نہ ہو وہ تمام لوگوں کو خدا کی نافرمانی کے مہلک نتائج و عواقب سے آگاہ کرے ۔ اور خدا کی بات ماننے والوں کو بشارت پہنچائے کہ رب العزت کے یہاں اعمال صالح کی بدولت ان کا مرتبہ کتنا اونچا اور کیسا بلند پایہ ہے ۔ اور کیسی سعادت و فلاح ازل سے ان کے لئے لکھی جا چکی ہے۔


ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی دیوی اور دیوتا کو علم غیب ہے۔
ہمارے یہاں کے ہندو کا یہ خاص عقیدہ ہے کہ اس کے رشی منی [ انکے بڑے ولی ، جو مر چکے ہیں ] وہ غیب کی باتوں کو جانتے بھی ہیں ، اور انکی حاجتوں کو سن کر مدد بھی کرتے ہیں ، اسی لئے انکا بت بناتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں ، اور ان سے ضرورتیں بھی مانگتے ہیں ، اصل بات یہ کہ مسلمان کے علاوہ بہت ساری قوموں کا عقیدہ یہ ہے کہ انکے ولی ، یا رہنما ، علم غیب کو جانتے ہیں ، اور وہ ہماری مدد بھی کر سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کے ساتھ بتوں دیوی ، دیوتاؤں اور اپنے الگ الگ معبودوں کی بھی پوجا کرتے ہیں اور ان سے مدد بھی مانگتے ہیں ، اس لئے اللہ نے قرآن میں صاف کر دیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں جانتا ۔ تاکہ نہ اس کی عبادت کرے ، اور نہ اس سے اپنی ضرورت مانگے۔
اس نکتہ پر غور کریں۔



الله کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں:
القرآن:
قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ {27:65}
ترجمہ:
تو کہہ خبر نہیں رکھتا جو کوئی ہے آسمان اور زمین میں چھپی ہوئی چیز کی مگر اللہ اور ان کو خبر نہیں کب جی اٹھیں گے۔
تشریح:
للہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو غیب کی بہت سی باتیں وحی کے ذریعے بتا دیتے ہیں، اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ غیب کی خبریں حضور سرور دو عالم ﷺ کو عطا فرمائی گئی تھیں، لیکن مکمل علم غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے اس لئے اس کے سوا کسی کو عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا۔


علم غیب 5 باتیں ہیں:
وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتٰبٍ مُبينٍ
ترجمہ:
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جس کا اسے علم نہ ہو، اور زمین کی اندھیریوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں ہے جو ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔

[سورۃ الانعام:59]



عالم الغیب ذاتی-کُلی علم والے ہی کو کہتے ہیں:
لفظ عالم الغیب (ذاتی-کلی) بلا واسطہ علم غیب جاننے والے کو کہتے ہیں، جو قرآن مجید میں صرف الله کے لیے آیا ہے۔
[سورۃ التوبہ:107، الرعد :9 ، المومنون:92 ، السجدہ:6 ، فاطر: 38، الحشر: 22، التغابن: 18، الجن: 26]
اور نبی ﷺ سے خود کیلیے علم غیب کی نفی ثابت ہے۔
[سورۃ الانعام: 50، الاعراف: 188،ھود: 31]
اور (پچھلے واقعات پر حاضر و عالم) نہ ہونے کے سبب جو وحی سے غیب کی خبروں
[سورۃ آل عمران: 44، ھود : 49، یوسف : 102]
کی اطلاع [آل عمران: 179] اور اظہار [الجن : 27] قوت والے متفقہ امین [التکویر : 20-21] پاک فرشتہ [النحل : 102] یعنی جبرائیلؑ کے ذریعہ کیا گیا، وہ خبریں نبی ﷺ نے اپنی امت کو بھی بتائیں [التکویر : 24]؛ جیسے : آخرت، جنت، جہنم وغیرہ
تو جس طرح انبیاءؑ کو بواسطہ فرشتہ کے علم غیب عطا ہوا ، وہ ہم امت کو بھی بواسطہ انبیاءؑ کے عطا ہوا ، تو اگر نبیؐ کو علم غیب کسی واسطہ سے عطا ہونے کے باوجود عالم الغیب کہلاۓ جائیں تو کیا امت بھی بواسطہ انبیاءؑ کے علم غیب عطا ہونے کے سبب عالم الغیب کہلائی جائیگی ؟؟؟

ہرگز نہیں، کیونکہ


 مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون۔۔۔۔کا علم صرف اللہ کیلئے ہے:

لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ، أي: ‌مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون إلى أبد الآبدين لا يعلم ذلك إلا اللَّه وإن أعلموا وعلموا ذلك.

ترجمہ:

نہیں کوئی رکھتا علم غیب سوائے اللہ کے، یعنی: جو ہوچکا اور جو ہوگا ہمیشہ ہمیشہ تک، نہیں کوئی علم رکھتا اس کا مگر اللہ ہی اور اگر وہ لوگ اس کا علم رکھتے تو اس پر عمل کرتے۔ 

[تفسير الماتريدي(م333ھ) = تأويلات أهل السنة: سورۃ النمل: آیۃ 65]



يَومَ يَجمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقولُ ماذا أُجِبتُم ۖ قالوا لا عِلمَ لَنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلّٰمُ الغُيوبِ {5:109}
جس دن اللہ جمع کرے گا سب پیغمبروں کو پھر کہے گا تم کو کیا جواب ملا تھا، وہ کہیں گے ہم کوعلم نہیں، تو ہی ہے چھپی باتوں کو جاننے والا۔




کیونکہ غیب (یعنی پوشیدہ بات/چیز) کسی واسطہ سے معلوم ہوجانے کے بعد غیب (پوشیدہ) نہیں رہتی۔




علمِ غیب کیا ہے؟
وہ چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں یا آچکی ہیں لیکن ابھی تک کسی مخلوق پر ان کا ظہور نہیں ہوا، بدرجہ کسی رسول یا نبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ کشف و الہام کی باتوں کا علم دیا گیا ہے تو وہ غیب کی حدود سے نکل گیا، اسی طرح جن چیزوں کا علم اسباب و آلات کے ذریعہ بھی ہو تو اس کو بھی غیب نہیں کہیں گے۔


مخلوق پر کوئی غیب کی بات کھلے تو کوئی عاقل اسے علم غیب نہیں کہتا، اسے اس کے سبب نسبت کرتے ہیں، ہرشخص یہی سمجھے گا کہ خدا کے بتلانے سے ایسا ہوا ہے، علم غیب اپنے علم کو کہتے ہیں جو بات عالم بالا سے لوح قلب پر اترے اسے علم غیب نہیں کہتے، وہ اس کا محض ایک عکس ہوتا ہے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

وجدان صریح بتلاتا ہے کہ بندہ کتنی روحانی ترقی کیوں نہ کرجائے بندہ ہی رہتا ہے اور رب اپنے بندوں کے کتنا قریب کیوں نہ ہوجائے وہ رب ہی رہے گا، بندہ واجب الوجود کی صفات یا وجوب کی صفات لازمہ سے کبھی متصف نہیں ہوتا، علم غیب وہ جانتا ہے جو از خود ہو کسی دوسرے کے بتلانے سے نہ ہو؛ ورنہ انبیاء واولیاء یقیناً ایسی بہت سی باتیں جانتے ہیں جو دوسرے عام لوگوں کی رسائی  میں نہ ہوں۔(تفہیماتِ الہٰیہ:۱/۲۴۵)

پتہ چلا کہ غیب کی بات معلوم ہونے میں اگر کوئی اس کا بتلانے والا ہو تو اسے علم غیب نہیں کہتے نہ علم غیب کی کوئی عطائی قسم ہے؛ بلکہ اسے خبر غیب کہا جائے گا،اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے ارشاد فرماتے ہیں:

"ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ  "۔               (آل عمران:۴۴)

ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی ہم بھیجتے ہیں تیرے پاس۔

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی صرف خبر غیب ہے علم غیب نہیں تو اور کون ہے جو علم غیب کا دعویٰ کرے،علم غیب صرف خدا کیلیےہے جو ہر بات کو خود جانے، اس تفصیل سے علم غیب کے معنی معلوم ہوگئے کہ وہ اپنے طور پر کسی غیب کی بات کو جانتا ہے؛ سو کسی مخلوق کے لیے خواہ پیغمبر ہو یا کوئی فرشتہ یا کوئی جن علم غیب کا دعویٰ بالکل غلط ہوگا، علم کا لفظ جب غیب کی طرف مضاف ہو تو یہ اسی علم کے لیے آتا ہے جو اپنا ہو کسی کا عطا کردہ نہ ہو، فقہ حنفی کے امام  حضرت علامہ ابن عابدینؒ الشامی ( 1198ھ ۔ 1252ھ / 1783ء ۔ 1836ء ) لکھتے ہیں:
أن علم الأنبياء والأولياء إنما هو بإعلام من الله لهم ، وعلمنا بذلك إنما هو بإعلامهم لنا وهذا غير علم الله تعالى الذي انفرد به وهو صفة من صفاته القديمة الأزلية الدائمة الأبدية المنزهة عن التغير وسمات الحدوث والنقص والمشاركة والانقسام ، بل هو علم واحد علم به جمع المعلومات كلياتها وجزئياتها ما كان منها وما يكون أو يجوز أن يكون ليس بضروري ولا كسبي ولا حادث بخلاف علم سائر الخلق . إذا تقرر ذلك فعلم الله المذكور هو الذي تمدح به وأخبر في الآيتين المذكورتين بأنه لا يشاركه فيه أحد فلا يعلم الغيب إلا هو ومن سواه إن علموا جزئيات منه فهو بإعلامه واطلاعه لهم.[مجموعة رسائل ابن عابدين:2/313 , الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي:1/733]

بیشک انبیاء و اولیاء کا علم الله تعالی کے بتلانے سے ہوتا ہے اور ہمیں جو علم ہوتا ہے وہ انبیاء و اولیاء کے بتلانے سے ہوتا ہے اور یہ علم اس علم خداوندی سے مختلف ہے جس کے ساتھ صرف ذات باری تعالی متصف ہے، الله تعالی کا علم اس کی ان صفات قدیمہ ازلیہ دائمہ و ابدیہ میں سے ایک صفت ہے جو تغیر اور علامات حدوث سے منزہ ہے اور کسی کی شرکت اور نقصِ انقسام سے بھی پاک ہے وہ علم واحد ہے جس سے الله تعالی تمام معلومات کلیہ و جزئیہ ماضیہ و مستقبلہ کو جانتا ہے، نہ وہ بدیہی ہے نہ نظری اورنہ حادث، بخلاف تمام مخلوق کے علم کے کہ وہ بدیہی و نظری اور حادث ہے، جب یہ بات ثابت ہوگئی تو الله تعالی کا علم مذکور جس کے ساتھ وہ لائق ستائش ہے اور جس کی مذکورہ دو آیتوں میں خبر دی گئی ہے ایسا ہے کہ اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں، سو غیب صرف الله تعالی ہی جانتا ہے، الله تعالی کے علاوہ اگر بعض حضرات نے غیبی باتیں جانیں تو وہ الله تعالی کے بتلانے اور اطلاع دینے سے جانیں۔

(مجموعہ رسالہ ابن عابدین شامیؒ،۲، ۳۱۳، ان اللہ سبحانہ تعالی منفرد بعلم الغیب المطلق وانما یطلع رسلہ علی بعض غیبہ المتعلقۃ بالرسالۃ اطلا عاجلیا واضحالاشک فیہ بالوحی الصریح:۳۱۴)

اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ علم غیب رکھتے ہیں؛ کیونکہ یہ ان کی کوئی ایسی صفت نہیں جس سے وہ مستقل طور پر کسی چیز کوجان لیا کریں اور یہ بات بھی ہے کہ انہوں نے اسے خود نہیں جانا؛ بلکہ انہیں یہ باتیں بتلائی گئی ہیں۔
علامہ شامی کے اس بیان کے بعد کسی اور وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی، فقہاء کی بات آپ کے سامنے آچکی، اب آئیے کتب عقائد میں دیکھئے: "شرح عقائد نسفی" کی مشہور شرح "النبر اس" میں ہے:
وبهذا التحقيق اندفع الإشكال فى الأمور التي يزعم أنها من الغيب وليست منه لكونها مدركة بالسمع أو البصر أو الضرورة أو الدليل فأحدها إخبار الأنبياء لأنها مستفادة من الوحي ومن خلق العلم الضروري فيهم أو من انكشاف الكوائن على حواسهم.(النبراس علی شرح العقائد:۵۷۴)

ترجمہ : اور تحقیق یہ ہے کہ غیب وہ ہے جو ہمارے حواس اورعلم بدیہی اورنظری سے غائب ہو،بیشک قرآن نے اللہ تعالی کے علاوہ سب سے اس علم غیب کی نفی کی ہے، پس جو دعویٰ کرے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے تو وہ کافر ہوجائیگا اور جوایسے شخص کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہوجائے گا باقی جو علم حواس خمسہ میں سے کسی حاسہ (دیکھ کر یا سن کر یا چھو کر یا سونگھ کر یا چکھ کر) یا ہدایت سے یا کسی دلیل سے حاصل ہو وہ غیب نہیں کہلاتا اور نہ محققین کے نزدیک ایسے علم کا دعویٰ کرنا کفر ہے اور نہ ایسے دعویٰ کی (یقینی امور میں یقین کے ساتھ اورظنی امور میں ظن کے ساتھ) تصدیق کرنا کفر ہے، اس تحقیق سے ان امور سے متعلق اشکال رفع ہوگیا جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ علم غیب میں سے ہیں؛ حالانکہ وہ علم غیب میں سے نہیں، اس لیے کہ وہ سمع وبصر یا دلیل سے حاصل ہوئے ہیں،انہی امور میں سے اخبار انبیاء بھی ہیں، انبیاء علیہم السلام کی خبر یں وحی سے مستفاد ہوتی ہیں یا نبیوں میں علم ضروری پیدا کردیا جاتا ہے یا ان کے حواس پر حقائق کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔    

(النبراس علی شرح العقائد:۵۷۴)

معلوم ہوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء عظام سے جو بھی خبریں منقول ہیں وہ سب اللہ کے بتلانے سے تھیں اور یہ بھی نہ تھا کہ اللہ تعالی اپنے کسی مقرب بندے پر ایک ہی دفعہ غیب کے جملہ دروازے کھول دے کہ آئندہ اسے غیب کی بات جاننے میں کسی ذریعہ علم کا احتیاج نہ رہے ؛بلکہ مختلف موقعوں پرحسب ضرورت اور بتقاضائے مصلحت انہیں کچھ نہ کچھ اطلاع بخشی جاتی تھی،خود حضور   ہی کودیکھئے تئیس ۲۳/ سال میں وحی قرآن "نجماً نجماً" اترتی رہی اوراس طرح وحی قرآنی کی تکمیل فرمائی گئی بالتدریج یہ سلسلہ وحی جاری رہا۔






محدث (ملھم) امّت حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کا واقعہ:
عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك.
ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ "فاروق اعظمؓ نے حضرت ساریہؓ کی قیادت میں جہاد کی غرض سے ایک لشکر روانہ فرمایا ، حضرت فاروق اعظمؓ ایک دن خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اپنے اسی خطبہ کے دوران میں فرمانے لگے :اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہٹ جا ، آپؓ نے تین دفعہ اسی طرح فرمایا ؛ کیونکہ پہاڑ کی طرف ہٹ جانے سے مسلمانوں کے غالب ہوجانے کی امید تھی ، جب تھوڑے دنوں بعد اس فوج کا قاصد آیا تو فاروق اعظمؓ نے اس لڑائی کا حال پوچھا ، قاصد نے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین!ایک دن شکست کھانے والے تھے کہ ہمیں ایک آواز سنائی دی ، جیسے کوئی پکار کر کہہ رہا ہے کہ اے ساریہ!پہاڑ کی طرف ہٹ جا ، اس آواز کو ہم نے تین مرتبہ سنا اور ہم نے پہاڑ کی طرف پیٹھ کرکے سہارا لیا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو شکست فاش دی ، حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ لوگوں نے فاروق اعظمؓ سے کہا :جبھی تو آپؓ جمعہ کے دن خطبہ کے درمیان اسی لئے چیخ رہے تھے اور یہ پہاڑ جہاں حضرت ساریہؓ اور ان کی فوج تھی مشرق کے شہر نہاوند میں تھا"۔
[تاریخ الخلفاء ، ص : ۸۹]
[الإصابة في تمييز الصحابة (ابن حجر العسقلاني- الصفحة أو الرقم: 2/3  (الجزء 3 - الصفحة 5)،
كشف الخفاء (العجلوني) - الصفحة أو الرقم: 2/515،
المصدر: البداية والنهاية (ابن كثير) - الصفحة أو الرقم: 7/135،
السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: (3/101) 1110،




علامہ ابن قیمؒ اس کو "کشف" میں شمار کرتے لکھتے ہیں:
والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن .
ترجمہ:
اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر نے عائشہ کو (راضی ہو اللہ ان دونوں سے) یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر - راضی ہو اللہ ان سے- کا کشف جب کہ انہوں نے کہا تھا: اے ساریہؓ! پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔


القرآن :
وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ
[سورۃ البقرة:255]؛
 اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے۔

وقال امام ابن تيمية الحنبلي (٧٨٤ ھہ) في مجموع الفتاوى ( 11 / 65 ):
وأما خواص الناس فقد يعلمون عواقب أقوام بما كشف الله لهم ...؛
یعنی
(الله کے) مخصوص بندے کچھ لوگوں کے انجام بذریعہ کشف معلوم کرلیتے.؛




ولی کا کشف کئی طرح کا ہوتا ہے:
فتارة يري الشئ نفسه إذا كشف له عنه، وتارة يراه متمثلا في قلبه الذي هو مرآته، والقلب هو الرأي أيضا، وهذا يكون يقظه، ويكون مناما، كالرجل يري الشئ في المنام، ثم يكون إياه في اليقظه من غير تغير.
ترجمہ :
ولی بذریعہ کشف کبھی بعینہ اسی شے کو دیکھتا ہے اور کبھی اس شے کی صورت کو اپنے دل میں دیکھتا ہے، اور اس وقت ولی کی شان آئینہ کی ہوتی ہے اور یہ مشاہدہ دل سے ہوتا ہے اور اس طرح کا مشاہدہ بیداری میں بھی ہوتا ہے اور خواب میں بھی ہوتا ہے جس طرح آدمی خواب میں کوئی چیز دیکھتا ہے، پھر وہی چیز اس کو بلا کسی تبدیلی کے بیداری میں نظر آتی ہے.




تصرفاتِ ولی کا انکار ممکن نہیں
علامہ ابن تیمیہؒ حنبلی (٧٨٤ ھہ) فرماتے ہیں کہ :
بہت سے لوگ ولی اسے سمجھتے ہیں جس کے ہاتھ میں خوارقِ عادت چیزوں کا ظہور ہو، اور اس سے کشف کا ظہور ہو، اس سے بعض خارقِ عادت تصرفات کا ظہور ہو، مَثَلاً : وہ کسی کی طرف اشارہ کرے تو وہ مرجاۓ یا وہ ہوا میں اڑ کر مکہ یا دوسرے شہر پہنچ جاۓ یا وہ پانی پر چلے یا وہ ہوا سے لوٹا بھردے یا اس کے پاس کچھ نہیں مگر وہ غیب سے خرچ کرتا ہے، یا وہ نگاہوں سے غائب ہوجاتا ہے، یا جب کوئی اس سے مدد چاہتا ہے اور وہ اس کے پاس نہیں ہے، یا وہ اپنی قبر میں ہے تو وہ اس کے پاس آتا ہے اور وہ اس کی مدد کرتا ہے، یا چوری شدہ مال کی خبر دیتا ہے یا غائب آدمی کا حال بتلادیتا ہے، یا مریض کے احوال سے آگاہ کردیتا ہے .......... ان خوارق عادت باتوں کا صدور اگرچہ کبھی الله کے ولی سے ہوتا ہے مگر کبھی اس طرح کی باتیں الله کے دشمنوں سے بھی ظاہر ہوتی ہیں ............. بلکہ ولی الله ہونے کا اعتبار ان کی صفات، افعال اور احوال سے ہوگا کہ وہ کتاب الله اور سنّت کے مطابق ہیں؟ 






==========================
اللہ کے علاوہ  علم غیب کی نفی کا ثبوت قرآن کریم سے
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی میں ماسوی اللہ سے علم غیب کی نفی۔

۱۔       قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللہ ۔

(نمل:۶۵)

ترجمہ:   آپ کہدیجئے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا۔

۲۔      وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۔

(انعام:۵۹)

ترجمہ:   غیب کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں، اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

۳۔      قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللہ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ  o 

(اعراف:۱۸۸)

ترجمہ:   آپ کہدیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے بھی نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں سب سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی مضرت مجھے نہ چھوتی، میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

۴۔      إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌo

(لقمان:۳۴)

ترجمہ:   بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا، اللہ سب باتوں کا جاننے والا سب خبر رکھنے والا ہےؤ

۵۔      يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا o

(طٰہٰ:۱۱۰)

ترجمہ:   اللہ تعالیٰ ان سب کے اگلے پچھلے احوال کو جانتا ہے اور اس کو ان کا علم احاطہ نہیں کرسکتا۔





وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ مِنهُم مَن قَصَصنا عَلَيكَ وَمِنهُم مَن لَم نَقصُص عَلَيكَ ۗ وَما كانَ لِرَسولٍ أَن يَأتِىَ بِـٔايَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ فَإِذا جاءَ أَمرُ اللَّهِ قُضِىَ بِالحَقِّ وَخَسِرَ هُنالِكَ المُبطِلونَ {40:78}
اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سے) پیغمبر بھیجے۔ ان میں کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات تم سے بیان کر دیئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کئے۔ اور کسی پیغمبر کا مقدور نہ تھا کہ الله کے حکم کے سوا کوئی نشانی لائے۔ پھر جب الله  کا حکم آپہنچا تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور اہل باطل نقصان میں پڑ گئے
قرآن میں مذکور اور غیرمذکور انبیاء:یعنی بعض کا تفصیلی حال تجھ سے بیان کیا، بعض کا نہیں کیا۔ (اور ممکن ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ان کا بھی مفصل حال بیان کر دیا ہو) بہرحال جن کے نام معلوم ہیں ان پر تفصیلًا اور جن کے نام وغیرہ معلوم نہیں ان پر اجمالًا ایمان لانا ضروری ہے۔ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ (البقرۃ۔۲۸۵)۔
یعنی اللہ کے سامنے سب عاجز ہیں رسولوں کویہ بھی اختیار نہیں کہ جو معجزہ چاہیں دکھلا دیا کریں، صرف وہ ہی نشانات دکھلا سکتے ہیں جس کی اجازت حق تعالیٰ کی طرف سے ہو۔
اللہ کا فیصلہ:یعنی جس وقت اللہ کا حکم پہنچتا ہے رسولوں اور ان کی قوموں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہو تے ہیں۔ اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔

نہیں ہے کوئی عالم الغیب اور مختار کل  ، سواۓ الله کے
القرآن :
اور ہم نے بھیجے ہیں بہت رسول تجھ سے پہلے بعضے ان میں وہ ہیں کہ سنایا ہم نے تجھ کو ان کا احوال اور بعضے ہیں کہ نہیں سنایا ، اور کسی رسول کو مقدور نہ تھا کہ لے آتا کوئی نشانی مگر الله کے حکم سے ، پھر جب آیا حکم الله کا فیصلہ ہوگیا انصاف سے اور ٹوٹے میں پڑے اس جگہ جھوٹے.
[سورۃ المومن:٧٨]
تفسیر :
((وَلَقَد أَر‌سَلنا)) یہ دلیل نقلی کا اعادہ ہے. یہ دلیل نقلی اجمالی ہے تمام انبیاء علیھم السلام سے، تمام گزشتہ انبیاء علیھم السلام کو اس دعوے کے ساتھ بھیجا گیا. ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے آپ سے کیا ہے اور بعض کا ذکر نہیں کیا لیکن بہرحال دعوت سب کی ایک ہی تھی کہ الله کے سوا کوئی معبود و کارساز نہیں، لہذا حاجات و مصائب میں صرف اسی کو پکارو. ((وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ)) یہ سوال مقدر کا جواب ہے. مشرکین ازراہ عناد کہتے ہم تب مانیں گے اگر پیغمبر ہمیں مطلوبہ معجزہ دکھاۓ، فرمایا معجزہ دکھانا پیغمبر کے اختیار میں نہیں کہ جب کوئی اس سے مطالبہ کرے فوراً دکھادے، بلکہ معجزہ اللہ کے اختیار میں ہے، جب الله تعالیٰ چاہے بتقاضاۓ حکمت بالغہ، پیغمبر علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر فرمادے.
[روح المعاني:٢٤/٨٩]
((فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ)) جب الله کے عذاب کا معیّن وقت آ پہنچتا ہے تو حق بات کا فیصلہ کردیا جاتا ہے یعنی انبیاء علیھم السلام اور ان کے متبعین کو غالب کیا جاتا ہے، اس وقت باطل پرست خسارے میں رہتے ہیں. کیونکہ ان کو رسوا کن اور ذلّت آمیز عذاب کے ساتھ تباہ و برباد کیا جاتا ہے.


حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ تبع قابل ملامت ہے یا نہیں، اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ عزیر نبی ہیں یا نہیں۔
[سنن ابو داؤد: کتاب-سنت کا بیان، باب-انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان، حدیث نمبر 4674]
[تفسير البغوي:1905 سورۃ الدخان:37]
وضاحت:
تبع کے بارے میں یہ فرمان آپ ﷺ کا اس وقت کا ہے جب آپ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا، بعد میں آپ کو بتادیا گیا کہ وہ ایک مرد صالح تھے۔




ماسوا اللہ سے علم غیب کی نفی کا ثبوت احادیث سے
احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ علم غیب یہ اللہ کا خاصہ ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

ذخیرہ احادیث میں سے چند احادیث یہ ہیں:
۱۔       حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  کا ایک راستہ سے گذرے تو آپ کو ایک کھجور پڑی ہوئی ملی، تو آپ  نے ارشاد فرمایا:

لَوْلَا أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً ‌لَأَكَلْتُهَا۔

ترجمہ:

  اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی کھجور ہوگی تو میں اُسے کھالیتا۔

[صحيح البخاري:2055+2431، صحيح مسلم:1071، سنن أبي داود:1652]




۲۔      ایک موقع پر رسول اللہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کی شادی میں حاضر ہوئے تو وہاں پر انصار کی بچیاں اپنے آباء و اجداد کے مناقب بیان کررہی تھیں جو بدر میں شہید ہوگئے، ان بچیوں میں سے ایک نے یہ کہا: وفینا نبی یعلم ما فی غد۔ کہ ہم میں ایک نبی موجود ہیں جو کل کی باتیں جانتے ہیں، تو آپ نے فرمایا:

دعی ھذہ و قولی بالذی کنت تقولین۔

(مشکوٰۃ:۲۷۱)

ترجمہ:   اس بات کو چھوڑدو وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔



حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي الْحُسَيْنِ اسْمُهُ خَالِدٌ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ : كُنَّا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَالْجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ ، وَيَتَغَنَّيْنَ فَدَخَلْنَا عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهَا ، فَقَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي ، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تَتَغَنَّيَانِ ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ ، وَتَقُولَانِ فِيمَا تَقُولَانِ : وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ ، فَقَالَ : " أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ " .
ترجمہ:
ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ ؓ کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی: وفينا نبي يعلم ما في غد ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
طبراني:695 صفوة التصوف:334


الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لا يعلم ما في غد إلا اللهعائشة بنت عبد اللهالمستدرك على الصحيحين26782 : 184الحاكم النيسابوري405
2لا يعلم ما في غد إلا اللهعائشة بنت عبد اللهالسنن الكبرى للبيهقي136017 : 287البيهقي458
3الأنصار قوم فيهم غزل فلو أرسلتم من يقول أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكمعائشة بنت عبد اللهالسنن الكبرى للبيهقي136027 : 288البيهقي458
4أرسلتم معها من يقول أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكم فإن الأنصار قوم غزلعائشة بنت عبد اللهإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة23584239البوصيري840
5لا يعلم ما في غد إلا الله ألا قلتم أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكمعائشة بنت عبد اللهكشف الأستار19852106نور الدين الهيثمي807
6لا يعلم ما في غد إلا اللهعائشة بنت عبد اللهالمعجم الصغير للطبراني344124سليمان بن أحمد الطبراني360
7هل بعثتم معها بجارية تضرب بالدف وتغني قالت تقول ماذا قال تقول أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكم لولا الذهب الأحمر ما حلت بواديكم ولولا الحبة السمراء ما سمنت عذاريكمعائشة بنت عبد اللهالمعجم الأوسط للطبراني33733265سليمان بن أحمد الطبراني360
8لا يعلم ما في غد إلا اللهعائشة بنت عبد اللهالمعجم الأوسط للطبراني35123401سليمان بن أحمد الطبراني360
9أفلا قلتم أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكم ولولا الذهب الأحمر ما حلت بواديكم ولولا الحبة السمراء لم تسمن عذاريكمعائشة بنت عبد اللهتلبيس إبليس لابن الجوزي105187أبو الفرج ابن الجوزي597
10الأنصار قوم يعجبهم الغزل ألا قلت يا عائشة أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكمعائشة بنت عبد اللهأسد الغابة2331---علي بن الأثير630
11أفلا قلتم أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكم ولولا الذهب الأحمر ما حلت بواديكم ولولا الحبة السمراء لم تسمن عذاريكمعائشة بنت عبد اللهالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال181---أبو بكر الخلال311
12الأنصار فيهم غزل فلو أرسلتم من يقول أتيناكم أتيناكم فحيونا وحياكمعائشة بنت عبد اللهالرسالة القشيرية831 : 181القشيري465



تخريج الحديث

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1مفتاح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم أحد ما يكون في غد ولا يعلم أحد ما يكون في الأرحام ولا تعلم نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت وما يدري أحد متى يجيء المطرعبد الله بن عمرصحيح البخاري9861039محمد بن إسماعيل البخاري256
2مفاتح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرصحيح البخاري42864627محمد بن إسماعيل البخاري256
3مفاتح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا اللهعبد الله بن عمرصحيح البخاري43534697محمد بن إسماعيل البخاري256
4مفاتيح الغيب خمس ثم قرأ إن الله عنده علم الساعةعبد الله بن عمرصحيح البخاري44304778محمد بن إسماعيل البخاري256
5مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا اللهعبد الله بن عمرصحيح البخاري68557379محمد بن إسماعيل البخاري256
6مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل46264752أحمد بن حنبل241
7مفاتيح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله لا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم نزول الغيث إلا الله ولا يعلم ما في الأرحام إلا الله ولا يعلم الساعة إلا الله وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموتعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل49885112أحمد بن حنبل241
8مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل50765204أحمد بن حنبل241
9أوتيت مفاتيح كل شيء إلا الخمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل54285554أحمد بن حنبل241
10مفاتيح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل58776007أحمد بن حنبل241
11مفاتيح الغيب خمس لا يعلم ما تضع الأرحام أحد إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعةعبد الله بن عمرصحيح ابن حبان7070أبو حاتم بن حبان354
12مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام أحد إلا الله ولا ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة أحد إلا اللهعبد الله بن عمرصحيح ابن حبان7171أبو حاتم بن حبان354
13مفاتح العلم خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام أحد إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى تقوم الساعة أحد إلا اللهعبد الله بن عمرصحيح ابن حبان626813 : 504أبو حاتم بن حبان354
14مفاتح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرالسنن الكبرى للنسائي74227681النسائي303
15مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام أحد إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر إلا الله ولا تعلم نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة أحد إلا اللهعبد الله بن عمرالسنن الكبرى للنسائي1074411194النسائي303
16أتي نبيكم مفاتيح الغيب إلا الخمس ثم تلا هذه الآية إن الله عنده علم الساعةعبد الله بن عمرمسند أبي داود الطيالسي19081918أبو داود الطياليسي204
17مفاتيح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرمسند أبي يعلى الموصلي53995456أبو يعلى الموصلي307
18مفاتح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرمسند عبد بن حميد741733عبد بن حميد249
19خمس لا يعلمهن إلا الله لا يعلم الساعة ولا متى ينزل الغيث إلا الله ولا يعلم ما في الأرحام إلا الله وما تدري نفس ماذا تكسب غدا إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت إلا اللهعبد الله بن عمرمسند عبد بن حميد799791عبد بن حميد249
20مفاتيح الغيب خمس ثم يتلو هذه الآية إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرالمعجم الأوسط للطبراني19581917سليمان بن أحمد الطبراني360
21مفاتح الغيب خمس ثم يتلو هذه الآية إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرالمعجم الكبير للطبراني1307513246سليمان بن أحمد الطبراني360
22أوتيت مفاتيح كل شيء إلا الخمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرالمعجم الكبير للطبراني1317113344سليمان بن أحمد الطبراني360
23مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام أحد إلا الله ولا يعلم ما في غد أحد إلا الله ولا يعلم متى المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة أحد إلا اللهعبد الله بن عمرحديث إسماعيل بن جعفر3131إسماعيل بن جعفر180
24مفاتيح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله لا يعلم ما في غد إلا الله ولا متى تقوم الساعة إلا الله ولا ما في الأرحام إلا الله وما تدري نفس ماذا تكسب غدا إلا الله وما تدري نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا ينزل الغيث إلا اللهعبد الله بن عمرفوائد ابن أخي ميمي الدقاق159168أبو الحسين البغدادي390
25سئل عن الساعة متى هي قال هي في خمس لا يعلمها إلا الله قال هي إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيثعبد الله بن عمرالأمالي الخميسية للشجري2095---يحيى بن الحسين الشجري الجرجاني499
26مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم أحد الساعة ولا يعلم أحد ما يكون في غد ولا يعلم أحد ما في الأرحام ولا تعلم نفس ماذا تكسب غدا ولا تدري نفس في أرض تموت وما يدري أحد متى يجيء المطرعبد الله بن عمرالتوحيد لله عز وجل لعبد الغني بن عبد الواحد المقدسي13---عبد الغني بن عبد الواحد المقدسي600
27مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام أحد إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة أحد إلا اللهعبد الله بن عمرشرح السنة11591170الحسين بن مسعود البغوي516
28مفاتيح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله لا يعلم متى الساعة ولا يعلم ما تغيض الأرحام ولا يعلم ما في غد ولا تعلم نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم أحد متى ينزل الغيث إلا اللهعبد الله بن عمرتفسير سفيان الثوري549770سفيان الثوري161
29مفاتيح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرتفسير القرآن لعبد الرزاق الصنعاني22282297عبد الرزاق الصنعاني211
30مفاتح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحامعبد الله بن عمرجامع البيان عن تأويل آي القرآن2586218 : 586ابن جرير الطبري310
31مفاتح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرجامع البيان عن تأويل آي القرآن2586318 : 586ابن جرير الطبري310
32مفاتيح الغيب في خمس لا يعلمهن إلا الله لا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم نزول الغيث إلا الله ولا يعلم ما في الأرحام إلا الله ولا يعلم الساعة إلا الله وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموتعبد الله بن عمرتفسير ابن أبي حاتم73977367ابن أبي حاتم الرازي327
33مفاتح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام أحد إلا الله ولا يعلم ما في الغد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة أحد إلا اللهعبد الله بن عمرمعالم التنزيل تفسير البغوي511509الحسين بن مسعود البغوي516
34مفاتيح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرمعالم التنزيل تفسير البغوي925921الحسين بن مسعود البغوي516
35مفاتح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله لا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله ولا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا تعلم نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى ينزل الغيث إلا اللهعبد الله بن عمرالوسيط في تفسير القرآن المجيد3282 : 279الواحدي468
36مفاتيح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله لا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله ولا يعلم متى تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى ينزل الغيث إلا اللهعبد الله بن عمرالوسيط في تفسير القرآن المجيد7243 : 447الواحدي468
37خمس لا يعلمهن إلا الله إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث إلى آخر السورة الآيات الخمسعبد الله بن عمرتفسير يحيى بن سلام81---يحيى بن سلام240
38خمس لا يعلمهن إلا الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرتفسير يحيى بن سلام483---يحيى بن سلام240
39مفاتيح الغيب خمسة لا يعلمهن إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا تعلم نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى ينزل الغيث إلا اللهعبد الله بن عمرأسباب النزول الواحدي283716الواحدي468
40مفاتيح الغيب الخمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرالجامع المسند (فضائل القرآن للبجيري)15---عمر بن محمد بن بجير السمرقندي البجيري311
41هي خمس من الغيب لا يعلمها إلا الله إن الله عنده علم الساعة سأنبئك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربتها وإذا تطاولوا في البناء وإذا كان رءوس الناس العراة العالة قلت من هم قال العريب ثم انطلق الرجل موليا قال علي بالرجل فذهبوا لينظروا فلم يروا شيئاعبد الله بن عمرحلية الأولياء لأبي نعيم70637069أبو نعيم الأصبهاني430
42خمس لا يعلمهن إلا الله إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبيرعبد الله بن عمرالثقات لابن حبان4685 : 4أبو حاتم بن حبان354
43مفاتيح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله ثم قرأ إن الله عنده علم الساعةعبد الله بن عمرالإرشاد في معرفة علماء الحديث لأبي يعلى الخليلي1941 : 288أبو يعلى الخليلي القزويني446
44مفاتيح الغيب خمس لا يعلمهن إلا الله ثم قرأ إن الله عنده علم الساعةعبد الله بن عمرالتدوين في أخبار قزوين للرافعي1211---عبد الكريم الرافعي623

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لا يعلم ما في غد أحد إلا الله لا تقولوا هكذا وقولوا أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكمموضع إرسالالسنن الصغير للبيهقي11762724البيهقي458
2لا يعلم ما في غد إلا الله لا تقولوا هكذا وقولوا أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكمموضع إرسالالسنن الكبرى للبيهقي136007 : 287البيهقي458
3كان بدريا فوجدته في عرس له قال وإذا جوار يغنين ويضربن بالدفوف فقلت ألا تنهي عن هذا قال لا إن رسول الله رخص لنا في هذاموضع إرسالتلبيس إبليس لابن الجوزي120213أبو الفرج ابن الجوزي597



۳۔      حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، ‌ثُمَّ ‌أُنْسِيتُهَا، أَوْ: نُسِّيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوِتْرِ۔

ترجمہ:   مجھے یہ رات بتلائی گئی تھی، پھر میں بھول گیا ، پس تم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

[صحيح البخاري:2016+2018+2027، سنن أبي داود:1382، السنن الكبرى للنسائي:3373]



ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا عقیدہ یہ تھا کہ :


جو شخص اس بات کا مدعی ہے کہ حضور    نے کتاب اللہ سے بعض چیزوں کو چھپالیا ہے وہ رسول    پر بہتان باندھتا ہے؛ حالانکہ اللہ ارشاد فرما رہے ہیں: "یَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَاأُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ"۔  (اے پیغمبر! جو کچھ آپ  پر نازل  کیا گیا اسے لوگوں تک پہنچا دیں اور اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپ   نے فریضہ رسالت کا حق ادا نہیں کیا)۔(سورۃ المائدۃ:۶۷)

[صحيح البخاري:7380]
پھر فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ حضور    کل آئندہ کے بارے میں خبردے سکتے تھے (کہ کیا پیش آنے والا ہے یعنی عالم الغیب تھے) تو وہ بھی خدا پر جھوٹ باندھتا ہے؛ اس لیے کہ رب العزت فرماتے ہیں:  "لَايَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّااللَّهُ" (سورۃ  النمل :۶۵) زمین وآسمان میں غیب کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔      

[صحيح مسلم: بَاب مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ رآه نزلة أخرى}، حدیث نمبر:257(439)]

[سنن الترمذي:3068، السنن الكبرى للنسائي:11344، التوحيد لابن خزيمة:2/ 548-550]
تفسير القرآن من الجامع لابن وهب:175، تفسير القرطبي:7/ 55، الدر المنثور:6/ 374





عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ قَالَتِ امْرَأَتُهُ: هَنِيئًا لَكَ الْجَنَّةَ يَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «وَمَا يُدْرِيكِ؟» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَارِسُكَ وَصَاحِبُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي» فَأَشْفَقَ النَّاسُ عَلَى عُثْمَانَ، فَلَمَّا مَاتَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلْحِقُوهَا بِسَلَفِنَا الْخَيْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ» فَبَكَتِ النِّسَاءُ، فَجَعَلَ عُمَرُ يَضْرِبُهُنَّ بِسَوْطِهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَقَالَ: «مَهْلًا يَا عُمَرُ»
ترجمہ:
 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی زوجہ محترمہ کہنے لگی : اے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ تجھے جنت مبارک ہو ، ( یہ سن کر ) رسول اللہ ﷺ نے ان کی جانب دیکھا اور فرمایا : تجھے کیسے پتا ہے ؟ ( کہ عثمان بن مظعون جنتی ہے ) اس نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کا مجاہد ہے ، آپ کا صحابی ہے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کے باوجود از خود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہو گا ، چنانچہ لوگ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے معاملے میں خوف زدہ ہو گئے ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینت رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کو ہمارے اچھے گزرے ہوئے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے ساتھ ملا دو ۔ پھر عورتیں رونے لگ گئیں ، تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کو اپنے کوڑے کے ساتھ مارنے لگ گئے ، رسول اللہ ﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اے عمر ! ان کو چھوڑ دو ۔
[المستدرک للحاکم:4869]







علماءِ عقائد کا متفقہ فیصلہ:
ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ (شارح مشکوٰۃ) فرماتے ہیں:

۱۔       اعلم ان الانبیاء علیھم السلام لم یعلموا المغیبات من الاشھار الانبیاء علیھم الللہ تعالیٰ احیاناً و ذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر باعتقاد ان النبی  الغیب لمعارضتہ قولہ تعالیٰ: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا لِلَّهُ ۔  

 (شرح فقہ اکبر)

ترجمہ:   جان لو کہ بالیقین حضرات انبیاء علیہم السلام غیب کی چیزوں کا علم نہیں رکھتے سوائے اس کے جو علم اللہ تعالیٰ انہیں دیدیں اور احناف نے صراحت کے ساتھ اس کی تکفیر کی ہے کہ جو یہ کہے کہ نبی کریم  غیب جانتے ہیں کیونکہ یہ اعتقاد اللہ تعالیٰ کے قول: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ.....کے مقابل میں ہے۔



۲۔      لو تزوج بشھادۃ اللہ و رسولہ لا ینعقد النکاح و کفر  لاعتقاد انہ یعلم الغیب۔

(بحر الرائق:۱/۶)

ترجمہ:   اگر کوئی شخص شادی کرے اور اس میں اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنائے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوتا، اس کا یہ اعتقاد کفریہ ہے کہ نبی کریم  غیب جاننے والے ہیں۔



شرح عقائد نسفی میں ہے:

۳۔      وبالجملۃ العلم بالغیب ھو تفرِّد بہ اللہ تعالیٰ لا سبیل الیہ للعباد الا باعلام منہ او الھام۔

(شرح عقائد نسفی:۱۲۳)

ترجمہ:   خلاصہ یہ ہے کہ علم غیب یہ ایسی چیز ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، بندوں کی رسائی وہاں نہیں ہے، صرف اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ وحی یا الہام سے بتادیں۔





فتاویٰ قاضی خان (متوفی۵۹۲ھ) میں ہے:

۴۔      و بعضھم جعلوا ذالک کفراً لانہ یعتقد ان رسول اللہ یعلم الغیب وھو کفر۔

(فتاویٰ قاضی خان، کتاب النکاح)

ترجمہ:   اور بعض نے اس کو کفر قرار دیا ہے، کیونکہ یہ اعتقاد رکھنا کہ نبی کریم  غیب جانتے ہیں اور یہ بات کفر کی ہے۔

ان کے علاوہ مزید محدثین فقہاء کی عبارتیں طوالت کے خوف سے حذف کردی ہیں، صرف حوالوں پر اکتفاء کیا جارہا ہے:فتاویٰ عالمگیری:۲/۴۱۲۔ خلاصۃ الفتاویٰ:۴/۳۵۴۔ فصول عمادیہ:۶۴۔ فتاویٰ بزازیہ:۳۲۵۔ عمدۃ القاری شرح بخاری:۱/۵۲۰۔ شامی:۳۰۶۔ مالابدّ منہ:۱۷۶۔ وغیرہ




الله پاک تو غیبی تو دور ظاہری علوم میں اشعار کے علم کو نبی کے شایان شان نہ ہونے کے سبب واضح  طور پر نہ سکھلانا (عطا نہ کرنا) فرماتا ہے:
القرآن :
اور نہیں علم دیا ہے ہم نے انھیں شعر کا اور نہ ہی وہ ان کے شایان شان ہے...
[سورۃ یٰس:69]

تو آپکا یہ کہنا کہ نبی ﷺ کو تدریجاً سارے علوم غیبیہ (( عطا )) کردے گئے ، یہ  بدعتی لوگوں کے بدعتی عقائد ہیں جو کسی امام سے اس طرح منقول نہیں۔








بعض حضرات نے آیت میں { تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ } سے استدلا کیا ہے کہ اس کتاب میں ہر چیز ہے ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ کو تمام کے تمام علومِ غیب دے دئے گئے ۔
آیت یہ ہے:
(49) ۔۔۔۔۔۔ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ ‌تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ
ترجمہ:
اور ہم نے تم پر یہ کتاب اتاری ہے تاکہ وہ ہر بات کو کھول کر بیان کرے ، اور مسلمانوں کے لئے ہدایت ، اور رحمت، اور خوشخبری ہو۔
[آیت 89، سورت النحل 16]

تفسیر ابن عباس٘ میں { تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ } کی تفسیر کی ہے:
من الْحَلَال ، وَالْحرَام ، وَالْأَمر ، وَالنَّهْي ، کہ اس کتاب [قرآن] میں حلال، حرام ، امر(حکم) ، اور نہی(منع) ، کی تفصیل ہے ، تمام علم غیب نہیں ہے۔

تفسیر کی عبارت یہ ہے:
{ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ } من الْحَلَال وَالْحرَام وَالْأَمر وَالنَّهْي۔
[تنوير المقباس من تفسير ابن عباس: صفحہ229]

تفسیر میں بلند مقام صحابی حضرت عبداللہ بن عباس کیوں؟

اور دوسری (صحابہ کے علاوہ تابعین وغیرہ کی) روایات میں حلال وحرام کے بعد ۔۔۔۔ امر ونہی کے بجائے:
والثواب والعقاب ۔۔۔۔۔ ثواب وعذاب۔
[تفسير الطبري(م310ھ): ج17 / ص 278 دار التربية والتراث]
وما يُؤتَى وما يُتقَى ۔۔۔۔۔۔ اور جو کچھ دیا(فرمایا) گیا ہے اور جن چیزوں سے بچنا ہے۔
[تفسير الماتريدي(م333ھ): 6 /204 دار الكتب العلمية]
وَكُلِّ مَا أَنْزَلَ الله فِيهِ ۔۔۔۔۔ اور وہ سب جو نازل کیا اللہ نے اس(قرآن) میں۔
[تفسير القرآن العزيز لابن أبي زمنين(م399ھ): 2/ 415 ، الفاروق الحديثة - مصر/ القاهرة]

مَا بُيِّنَ فِيهِ مِنَ ‌الْحَلالِ ‌وَالْحَرَامِ، وَالْكُفْرِ، وَالإِيمَانِ، وَالأَمْرِ وَالنَّهْيِ، وَكُلِّ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ۔
جو کچھ بیان ہے اس میں حلال وحرام میں سے، اور کفر، اور ایمان، اور احکام، اور ممانعت، اور وہ سب جو نازل کیا اللہ نے اس(قرآن) میں۔
[تفسير يحيى بن سلام(م200ھ): 1 /83 دار الكتب العلمية]

خلاصہ:
اس لئے اس آیت سے "کُلی" علم غیب ثابت کرنا مشکل ہے۔

کیا حلال وحرام بھی سب واضح ہے؟
سب چیزوں کے بارے میں بھی یہ واضح نہیں کہ وہ حلال ہیں یا حرام، جیسے: جھینگا (Prawn) کھانا ، بھینس کا گوشت کھانا یا دودھ پینا وغیرہ کیونکہ اس کا ذکر نہ قرآن مجید میں واضح ہے اور نہ حدیث مبارکہ میں۔ لہٰذا ائمہ کرام نے قرآن وسنت کے باریک اشارات سے ان کے حلال یا حرام ہونے کا اجتہاد کیا۔
اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«‌الْحَلَالُ ‌بَيِّنٌ ‌وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشَبَّهَاتٌ، لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ»
ترجمہ:
حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، اور حلال وحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ، پس جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا، اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا ۔۔۔
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:1، مسند أحمد: 18374،  صحيح البخاري:52]

لہٰذا اصول فقہ ہے کہ جس کام کے بدعت اور سنت ہونے میں شبہ ہو، اس کو چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ 
إذا ‌تردد ‌بين ‌السنة والبدعة تغلب جهة ‌البدعة۔
ترجمہ:
جب کوئی(مشتبہ بات) سنت اور بدعت کے درمیان تردد(ہچکچاہٹ پیدا) کرے تو بدعت کا پہلو غالب آئے گا۔
[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع- امام الكاساني(م587ھ): ج1 / ص204 ]

وَمَا ‌تَرَدَّدَ ‌بَيْنَ ‌الْبِدْعَةِ وَالسُّنَّةِ يَتْرُكُهُ؛ لِأَنَّ تَرْكَ ‌الْبِدْعَةِ لَازِمٌ وَأَدَاءُ ‌السُّنَّةِ غَيْرُ لَازِمٍ۔
ترجمہ:
اور جس صورت میں بدعت اور سنت کے درمیان تردد ہو تو اسے چھوڑ دینا چاہئے، کیونکہ بدعت کا ترک کرنا لازم ہے اور سنت ادا کرنا لازم نہیں ۔
[المبسوط للسرخسي(م483ھ) : ج2 / ص80 دار المعرفة - بيروت]

لہٰذا، اس آیت سے یہ عقیدہ گھڑنا کہ نبی بھی "کلی" علم غیب رکھتے ہیں، یہ تفسیر بالرائے ہے، جو واضح ثابت نہیں ، بلکہ بدعت کے زمرہ میں آتی ہے، کہ ایسا عقیدہ سلف صالحین (گذرے ہوئے نیک لوگوں یعنی صحابہ، تابعین ، تبو تابعین کے بہترین زمانوں میں ثابت نہیں۔
بلکہ
ثابت واضح تفسیر کے خلاف ہے۔



دوسری مشتبہ آیت:
(50) مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ۔
ترجمہ:
یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو جھوٹ موٹ گھڑ لی گئی ہو، بلکہ اس سے پہلے جو کتاب آچکی ہے اس کی تصدیق ہے ، اور ہر بات کی وضاحت ، اور جو لوگ ایمان لائے ان کے لئے ہدایت اور رحمت کا سامان ہے۔
[آیت 111، سورۃ یوسف 12]

بعض حضرات نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ، اس آیت میں ہے کہ حضور ﷺ پر قرآن اتارا ، اور اس آیت میں ہے کہ تمام چیزوں کی تفصیل ہے، تو حضور ﷺ کو تمام چیزوں کا علم غیب ہو گیا۔
لیکن
صحابی (حضرت ابن عباسؓ) اور ائمہ کی تفاسیر میں ہے کہ یہاں تمام تفصیل سے مراد "حلال اور حرام کی تفصیل" ہے ، تمام علومِ غیبیہ نہیں ہیں ، کیونکہ وہ تو اس کتاب میں ہے بھی نہیں ۔ اور اللہ کا لا محدود علم اس کتاب میں کیسے ہو سکتا ہے؟
تفسیرابن عباس کی عبارت یہ ہے:
{‌وَتَفْصِيلَ ‌كُلِّ ‌شَيْءٍ} تبيان كل شَيْء من الْحَلَال وَالْحرَام۔
[تنوير المقباس من تفسير ابن عباس: ص204، سورۃ یوسف 12، آیت 111]


{وتفصيل} أَي: تَبْيِين {‌كل ‌شيءٍ} ‌مِنَ ‌الْحَلالِ وَالْحَرَامِ وَالأَحْكَامِ۔
[تفسير القرآن العزيز لابن أبي زمنين(م399ھ): ج2/ص343، سورۃ یوسف 12، آیت 111]

وقوله: (‌وتفصيل ‌كل ‌شيء) ، يقول تعالى ذكره: وهو أيضًا تفصيل كل ما بالعباد إليه حاجة من بيان أمر الله ونهيه، وحلاله وحرامه، وطاعته ومعصيته۔
[تفسير الطبري(م310ھ): ج16 / ص314]

وَتَفْصِيلَ ‌كُلِّ ‌شَيْءٍ. حَلالُهُ وَحَرَامُهُ وَطَاعَتُهُ وَمَعْصِيَتُهُ۔
[تفسير ابن أبي حاتم(م327ھ) : حدیث#12075]



وہ احادیث جن سے نبی کیلئے علمِ غیب "کُلی" ہونے کا شبہ ہوتا ہے، اور استدلال کیا جاتا ہے۔
یہاں چار حدیثیں ہیں جن میں ‌[مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون ۔۔۔ یعنی جو ہوچکا اور جو ہوگا ۔۔۔ یعنی علم کُلی] کا ذکر ہے ، یعنی جو کچھ ہو چکا ہے اور قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے حضور ﷺ نے ان سبھی چیزوں کو صحابہ کے سامنے بیان کیا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کو خلق کی پیدائش سے لیکر جنت اور جہنم میں داخل ہونے تک کی غیب کی بات معلوم ہے ، اور ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ، ‌مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون ، کا علم حضور ﷺ ؐکو حاصل ہے۔

ان احادیث سے کچھ حضرات نے حضور ﷺ کے لئے علمِ غیب ثابت کرنے کی کو شش کی ہے ، لیکن غور سے دیکھیں گے تو یہ معلوم ہوگا کہ ان احادیث میں یہ ہے کہ حضور ﷺ کو بڑے بڑے فتنے کی اطلاع دی گئی ہے ، یا بڑے بڑے واقعات کی اطلاع دی گئی تھی جن کا ذکر حضور ﷺ نے صحابہ کے سامنے کیا ، کیونکہ علمِ غیب بے انتہاء ہے ، ان سب کو ایک دن میں کیسے بیان کیا؟ اور بعض حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت حذیفہ ؓ کے سامنے قیامت تک آنے والے فتنوں کا ذکر کیا ہے۔

اور ان احادیث سے سب علمِ غیب لے لیں تو یہ احادیث پچھلے 40 آیتوں کے خلاف ہو جائے گی ، جن میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ کو علم غیب نہیں ہے۔


وہ احادیث جن سے نبی  کیلئے علمِ غیب "کُلی" ہونے کا شبہ ہوتا ہے، اور استدلال کیا جاتا ہے:

پہلی مشتبہ حدیث:
(1)عَنْ ‌حُذَيْفَةَ قَالَ: « قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا، مَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِي مَقَامِهِ ذَلِكَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا حَدَّثَ بِهِ، ‌حَفِظَهُ ‌مَنْ ‌حَفِظَهُ، وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابِي هَؤُلَاءِ، وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّيْءُ قَدْ نَسِيتُهُ، فَأَرَاهُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ ثُمَّ إِذَا رَآهُ عَرَفَهُ .» 
ترجمہ:
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، پھر اس مقام پر آپ نے قیامت تک پیش آنے والی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے بیان نہ فرما دیا ہو، تو جو اسے یاد رکھ سکا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا، اور وہ آپ کے ان اصحاب کو معلوم ہے، اور جب ان میں سے کوئی چیز ظہور پذیر ہوجاتی ہے تو مجھے یاد آجاتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی فرمایا تھا، جیسے کوئی کسی کے غائب ہوجانے پر اس کے چہرہ کو یاد رکھتا ہے اور دیکھتے ہی اسے پہچان لیتا ہے۔
[صحيح مسلم : ‌‌كِتَابُ الْفِتَنِ ، ‌‌بَابُ إِخْبَارِ النَّبِيِّ ﷺ فِيمَا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ ۔۔۔ حدیث نمبر 2891(7263)]
[مسند أحمد:23274+23309، سنن أبي داود:4240، صحيح ابن حبان:6636]

اس حدیث میں بھی ہے کہ قیامت تک جتنی باتیں ہونے والی ہیں انکو حضور ؐ نے بیان کیا.

دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ ، اس حدیث میں بڑے بڑے فتنوں کا ذکر ہے ، پورا علم غیب نہیں ہے ، کیونکہ اسی حدیث کو دوسری سند سے بیان کیا ہے جس میں بڑے بڑے فتنے کا ذکر ہے۔

وہ احادیث یہ ہیں:
(1) قَالَ ‌حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: « وَاللهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ ‌بِكُلِّ ‌فِتْنَةٍ هِيَ كَائِنَةٌ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ السَّاعَةِ۔
ترجمہ:
حضرت حذیفۃ بن یمان ؓ نے فرمایا کہ میرے درمیان اور قیامت کے درمیان جتنے فتنے ہونے والے ہیں ، الله کی قسم! میں لوگوں میں سے ، انکو زیادہ جاننے والا ہوں۔
[الفتن لنعيم بن حماد:26+3، مسند أحمد:23291+23460, صحيح مسلم:2891(7262)]

اس لئے یہ پورا علم غیب نہیں ہے ان احادیث میں قیامت تک آنے والے بڑے بڑے فتنوں کا ذکر ہے۔

(2)عَنْ ‌حُذَيْفَةَ : أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‌بِمَا ‌هُوَ ‌كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، فَمَا مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا قَدْ سَأَلْتُهُ
ترجمہ:
حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ قیامت تک جو کچھ [ فتنے ] ہونے والے ہیں حضور ؐ نے مجھ کو ان کی خبر دی ہے ، اور ان میں سے ہر ایک کو میں نے پوچھ بھی لیا ہے۔
[مسند أحمد:23281، صحيح مسلم:2891(7265)، السنن الواردة في الفتن للداني:458]






عقیدہ اہلسنت:
مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون۔۔۔۔کا علم صرف اللہ کیلئے ہے۔
لا يعلم الغيب إلا اللَّه، أي: ‌ما ‌كان ‌وما ‌يكون إلى أبد الآبدين لا يعلم ذلك إلا اللَّه وإن أعلموا وعلموا ذلك.
ترجمہ:
نہیں کوئی رکھتا علم غیب سوائے اللہ کے، یعنی: جو ہوچکا اور جو ہوگا ہمیشہ ہمیشہ تک، نہیں کوئی علم رکھتا اس کا مگر اللہ ہی اور اگر وہ لوگ اس کا علم رکھتے تو اس پر عمل کرتے۔
[تفسير الماتريدي(م333ھ) = تأويلات أهل السنة: سورۃ النمل: آیۃ 65]








دوسری مشتبہ حدیث:
(2) حَدَّثَنِي ‌أَبُو زَيْدٍ، (يَعْنِي عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ )، قَالَ: « صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا، حَتَّى حَضَرَتِ الظُّهْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا، حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا، حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا ‌كَانَ، ‌وَبِمَا ‌هُوَ ‌كَائِنٌ، فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا .»
ترجمہ:
حضور ﷺ نے ہم لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف لے گئے اور ظہر تک ہمارے سامنے بیان کرتے رہے ، پھر اتر کر نماز پڑھائی ، پھر منبر پر تشریف لے گئے ، اور عصر تک ہمارے سامنے بیان کرتے رہے، پھر منبر سے اترے اور نماز پڑھائی ، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور آفتاب کے غروب ہونے تک ہمارے سامنے بیان کرتے رہے، اس میں جو کچھ ہو چکے ہیں ، اور جو کچھ ہونے والے ہیں ہم لوگوں کو سب بتایا ، اور ہم نے ان کو جان لیا اور ان کو یاد بھی کر لیا۔
[صحيح مسلم : کتاب الفتن ، ‌‌بَابُ إِخْبَارِ النَّبِيِّ ﷺ فِيمَا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ ، حدیث نمبر 2892(7267)]

اس حدیث میں ہے کہ *جو کچھ ہو چکا ہے ، اور جو ہونے والے ہیں* سب بتایا ، اب ظاہر بات ہے کہ ایک دن میں علمِ غیب کی تمام باتیں نہیں بتا سکتے ، بلکہ بڑے بڑے فتنے ، اور بڑے بڑے واقعات ہی بتا سکتے ہیں ، اسی لئے امام مسلمؒ(م261ھ) میں اس حدیث کو کتاب الفتن میں ذکر کیا ہے، اور اسی باب میں حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث پہلے گزری جس میں ہے کہ اس میں بڑے بڑے فتنے کا ذکر ہے جو قیامت تک ہونے ہولے ہیں ، حضور ﷺ نے ان کا تذکرہ کیا ہے ، اس میں تمام علم غیب نہیں ہے۔

تشریحات:
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: الفتن الَّتِي تَمُوجُ ‌كَمَوْجِ ‌الْبَحْرِ.۔۔۔۔وہ فتنے جو سمندر کی موجوں کا تلاطم خیز ہوں گے۔
[الجمع بين الصحيحين لعبد الحق الإشبيلي (م581ھ) : 4/ 182، حدیث 4978]

أي من الأمور العظيمة والفتن الجسيمة
ترجمہ:
عظیم چیزوں اور عظیم فتنوں میں سے کوئی بھی۔
[منة المنعم في شرح صحيح مسلم:4 / 348]

وفي معنى هذا الحديث عدة روايات لا بد من حملها عل الأمور المهمة المناسبة
ترجمہ:
اس حدیث کے مفہوم میں متعدد روایات ہیں جن کو اہم اور مناسب امور میں لینا ضروری ہے۔
[الكوكب الدري على جامع الترمذي:4 /250]







تیسری مشتبہ حدیث:
(3) سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّى دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ حَفِظَ ذَلِكَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ۔
ترجمہ:
حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے حضور ؐ کھڑے ہوئے ، اور جب سے مخلوق پیدا ہوئی ہے وہاں سے لیکر جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں ، اور جہنم والے جہنم میں داخل ہو جائیں وہاں تک کی خبر ہمیں دی ، جو ان باتوں کو یاد رکھ سکے انہوں نے یاد رکھا ، اور جو بھولنے والے تھے انہوں نے بھلا دیا ۔
[صحيح البخاري: ‌‌كِتَابُ بَدْءِ الْخَلْقِ ، مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللهِ تَعَالَى {وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ} حدیث نمبر 3192]


جواب:
(1) اس حدیث میں بھی بڑی بڑی خبریں ، یا بڑے بڑے فتنے ، یا بڑے بڑے واقعات حضور ﷺ نے بتائے ، اس میں پورا علم غیب نہیں ہے ، کیونکہ ایک دن (تو کیا پوری زندگی) میں پورا علم غیب بتانا نا ممکن ہے۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: الفتن الَّتِي تَمُوجُ ‌كَمَوْجِ ‌الْبَحْرِ.۔۔۔۔وہ (خاص) فتنے جو سمندر کی موجوں کے تلاطم خیز لہروں "جیسے" ہوں گے۔
[الجمع بين الصحيحين لعبد الحق الإشبيلي (م581ھ) : 4/ 182، حدیث 4978]

أي من الأمور العظيمة والفتن الجسيمة
ترجمہ:
عظیم چیزوں اور عظیم فتنوں میں سے کوئی بھی۔
[منة المنعم في شرح صحيح مسلم:4 / 348]

(2) اللہ کی سنت(عادت) پہلے کسی نبی کے ساتھ ایسے وحی بھیجنے کی کبھی نہیں ہوئی۔
القرآن:
وَلَنْ ‌تَجِدَ ‌لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [سورۃ الاحزاب:62، الفتح:23] *اور تم اللہ کے معمول میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں پاؤ گے۔*

غیرعالمانہ اعتراض:
کیا اللہ ہر چیز پر قادر نہیں؟
جواب:
یقینا قادر ہے لیکن وہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔
[حوالہ سورۃ الدھر:30]
لیکن ہم سے ضرور سوال وحساب لیا جائے گا جو کچھ ہم کرتے(سوچتے مانتے)ہیں۔
[حوالہ سورۃ الانبیاء:23]






چوتھی مشتبہ حدیث:

(4)۔عَنْ ‌أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: «سَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ، فَصَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُ لَكُمْ ۔۔۔۔۔ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا رَأَيْتُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَالْيَوْمِ قَطُّ، إِنَّهُ صُوِّرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، حَتَّى رَأَيْتُهُمَا دُونَ الْحَائِطِ». قَالَ قَتَادَةُ يَذْكُرُ هَذَا الْحَدِيثَ عِنْدَ هَذِهِ الْآيَةِ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُم}
ترجمہ:
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضور ﷺ سے پوچھنا شروع کیا تو آپ ایک دن منبر پر تشریف لے گئے ، اور فرمایا کہ جو کچھ تم پوچھو گے ، میں تم کو اس کے بارے میں بتاؤں گا ۔۔۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ آج کی طرح میں نے کبھی خیر اور شر کو نہیں دیکھا ، میرے سامنے جنت اور جہنم کر دی گئی ، یہاں تک کہ میں نے ان دونوں کو دیوار کے پیچھے دیکھا۔
 قتادہؒ نے بیان کیا کہ یہ بات اس آیت کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے : اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری معلوم ہوں۔[سورۃ المائدۃ:101]
[بخاری شریف ، کتاب الفتن ، باب التعوذ من الفتن ، حدیث نمبر 7089]

بعض حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ ﷺ کو علمِ غیب تھا ، تب ہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو پوچھوگے سب بتاوں گا۔

دوسرے حضرات یہ جواب دیتے ہیں کہ خود اس حدیث میں ہے کہ اللہ نے جنت اور جہنم میرے سامنے کر دی جس کی وجہ سے میں بیان کرتا چلا گیا ، اس لئے یہ علمِ غیب نہیں ہے ، بلکہ یہ وحی ہے جو آپ ﷺ پر بار بار نازل ہوتی تھی، یا [غیب کی اطلاع، غیب کا اظہار] ہے ، چنانچہ اسی حدیث میں یہ آیت ہے کہ قرآن کے نازل ہوتے وقت سوال پوچھوگے تو سب بات ظاہر کردی جائے گی ، جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو وحی کے ذریعہ بات بتا دی جاتی تھی۔





سوالی کی مراد سمجھنے کی ضرورت:
حضرت ابو ہریرہ‌ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ: لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم اس بارے میں سوال نہیں کر رہے! آپ نے فرمایا  تب لوگوں میں سب سے زیادہ معزز یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی، نبی کے بیٹے، نبی کے پوتے اور ابراہیم خلیل اللہ کے پڑپوتے ہیں۔ لوگوں نے کہا ہم اس بارے میں بھی آپ سے سوال نہیں کر رہے آپ نے فرمایا تب تم عرب کے سر چشمہ خیر کے بارے میں مجھ سے سوال کر رہے ہو؟ لوگ سر چشمہ خیر ہیں، جاہلیت میں  بہترین لوگ اسلام میں بھی بہترین (معزز) ہیں جب وہ فقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کر لیں۔
[صحیح بخاری، حدیث نمبر 3383]




پانچویں مشتبہ حدیث:

ایک لمبی حدیث میں ہے کہ:

(5)۔عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ۔۔۔۔ فَقَالَ:

" نَعَمْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا، وَأَمْرِ الْآخِرَةِ، فَجُمِعَ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ بِصَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَفَظِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ، حَتَّى انْطَلَقُوا إِلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلامُ ۔۔۔ وَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، ‌وَاشْفَعْ ‌تُشَفَّعْ۔

ترجمہ:

ایک دن صبح ہوئی ۔۔۔ تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ دنیا اور آخرت میں جتنی چیزیں ہونے والی ہے وہ مجھ پر پیش کی گئی ، پس ایک میدان میں اول اور آخر کے تمام لوگوں کو جمع کیا گیا ، پس لوگ گھبرا کر حضرت آدم ؑ کے پاس جائیں گے ۔۔۔ اللہ تعالی فرمائیں گے: اے محمد! اپنے سر کو اٹھائیں ، اور آپ کہئے، بات سنی جائے گی ، اور سفارش کیجئے، تو سفارش قبول کی جائے گی۔

[مسند احمدؒ ، مسند ابی بکرؓ ، حدیث نمبر 15]


اس حدیث سے بھی بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ حضور ﷺ کو علم غیب تھا ، کیونکہ اس میں ہے کہ دنیا اور آخرت میں جتنی بات ہونے والی ہے ، میرے سامنے سب پیش کر دی گئی، اس لئے آپ ﷺ کو سب چیز کا علم غیب حاصل ہو گیا۔


دوسرے حضرات نے جواب دیا کہ:

(1) اس پوری حدیث کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس حدیث میں [بڑی بڑی چیزیں] واضح کی گئی ہیں ، اور خاص طور پر قیامت میں کس طرح حضرت آدم ؑ اور دوسرے انبیاء کے پاس لوگ جائیں گے، اور کس طرح آپ ﷺ شفاعتِ کبریٰ کریں گے ، اس کا ذکر ہے ۔ غیب کی تمام باتیں نہیں ہیں۔

(2) آج تک اس حدیث کی تشریحات جن اماموں نے لکھی ہیں، کسی نے اس حدیث سے یہ عقیدہ [کہ نبی ﷺ سارا غیب جانتے ہیں] ثابت نہیں کیا، جو کافی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ بدعتی یعنی خیرالقرون کہے، اہلِ سنت کا نہیں۔



(3) اگر کسی کو شبہ ہوتا تو اس کی اصلاح کی جاتی تھی:

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کل کے واقعات کو جانتے ہیں تو وہ یقینا جھوٹ کہتا ہے۔ پھر (بطورِ دلیل قرآن کی یہ آیت) پڑھی: کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا (سورۃ لقمان:34)

[صحیح بخاری:4855، التوحيد لابن خزيمة:2/ 555، الإيمان - ابن منده: 768]

دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ

جو شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کل کے واقعات کو جانتے ہیں تو بےشک اس نے (نبی ہی پر نہیں بلکہ) اللہ پر بھی سب سے بڑا بہتان باندھا ہے، کیونکہ اللہ نے کا ارشاد ہے کہ: (اے نبی!) آپ کہدیجیئے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔(سورۃ النمل:65)

[صحیح مسلم:177، التوحيد لابن خزيمة:2/ 548، الإيمان - ابن منده:763]

(4) اس کی تائید نبی ﷺ سے بھی حضرت عائشہ کی دوسری روایت میں ہے ملتی ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ ایک گروہ کے پاس تشریف لے جارہے تھے اور وہ لوگ شادی کی خوشی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے، ان میں سے کسی نے یہ کہہ دیا:

وَحُبُّكِ فِي النَّادِي، ‌وَيَعْلَمُ ‌مَا ‌فِي ‌غَدِ

(اے اللہ! تیرا محبوب مجلس میں ہے اور وہ کل کی بات جانتا ہے۔)

تو نبی ﷺ نے خبردار فرمایا:

«لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ»

کل کے واقعات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 2753]





چھٹی مشتبہ حدیث:

(6)۔عَنِ ‌ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى ‌فِي ‌أَحْسَنِ ‌صُورَةٍ»، قَالَ: أَحْسَبُهُ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ فِي نَحْرِي، فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فِي الْكَفَّارَاتِ، وَالْكَفَّارَاتُ الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَاتِ ۔

ترجمہ:

حضور پاک ؐ نے فرمایا کہ آج رات اللہ تعالی اچھی صورت میں میرے پاس آئے ۔۔راوی کہتے ہیں شاید یہ خواب کی بات تھی ۔۔پھر اللہ نے کہا: اے محمد! آپ کو معلوم ہے کہ ملاء اعلی کے لوگ کس بارے میں جھگڑ رہے ہیں ، میں نے کہا: نہیں ، تو اللہ نے اپنے ہاتھ کو میرے مونڈھے کے درمیان رکھا ، یہاں تک کہ سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی ، آپ نے ثدی فرمایا یا نحری فرمایا ، پس جو آسمان میں تھا اور جو زمین میں تھا اس کو جان لیا ، اللہ نے پوچھا آئے محمد ؐآپ کو پتہ ہے کہ ملاء اعلی والے کس چیز میں سبقت کر رہے ہیں ، میں نے کہا ہاں کفارات میں اور نماز کے بعد مسجد میں ٹھہرنے کا جو ثواب ہے اس بارے میں سبقت کر رہے ہیں.

[سنن ترمذی : کتاب تفسیر القرآن ، باب ومن سورۃ صٓ ، حدیث نمبر 3233، نمبر 3234، نمبر 3235]


یہاں تین حدیثیں ہیں:

حدیث نمبر 3233 میں ہے:

‌فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ۔

پس جو آسمان میں تھا اور جو زمین میں تھا اس کو جان لیا


حدیث نمبر 3234 میں ہے:

‌فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ۔

پس جو مشرق اور مغرب میں تھا اس کو جان لیا۔


اور حدیث نمبر 3235، میں ہے:

فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ ‌وَعَرَفْتُ۔

ہر چیز میرے سامنے روشن ہو کر آ گئی، اور میں پہچان گیا۔


بعض حضرات نے ان تین احادیث میں جو فرمایا گیا ہے اس سے ثابت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کو تمام چیزوں کا علم غیب ہے۔


دوسرے حضرات اس حدیث کے بارے میں چار باتیں کہتے ہیں:

1۔ یہ حدیث اوپر کی 37 آیتوں کے خلاف ہے ، جس میں ہے کہ مجھے علم غیب نہیں ہے ۔


2۔دوسری بات یہ ہے کہ اسی حدیث میں , *[لَا ‌أَدْرِي]* ، ہے ، کہ *[مجھے معلوم نہیں ہے]* ، تو حضور ﷺ کو علم غیب کیسے ہوا؟


3۔ تیسری بات ہے کہ آپ کو "سارا" علم غیب نہیں دیا گیا تھا ، بلکہ خاص ملاء اعلی کے بارے میں کچھ راز کھولی گئی کہ ملأ اعلی کے لوگ کس بات میں سبقت (جلدی)-مقابلہ کرتے ہیں تاکہ حضور ﷺ اپنی امت کو بھی اس نیکیوں کو بتا سکیں


4۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ یہ حدیث خواب کی ہے ، اس لئے اس حدیث سے تمام چیزوں کا علمِ غیب ثابت کرنا (یعنی اب نیا عقیدہ بنانا) مشکل ( پیچیدہ ، اُلجھا ہوا ، دقیق ، مبہم اور ناجائز) ہے۔







ساتویں مشتبہ حدیث:

16۔عَنْ ‌ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ ‌مَشَارِقَهَا ‌وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا۔

ترجمہ:

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا ، پس میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا ، اور جہاں تک سمیٹی گئی میری امت وہاں تک پہنچ جائے گی۔

[صحیح مسلم : کتاب الفتن ، ‌‌بَابُ هَلَاكِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ ، حدیث نمبر 2889(7278)]


اس حدیث سے بھی علم غیب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔


یہ ایک معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے مشرق اور مغرب کی زمین کر دی گئی، اور آپ ﷺ نے اس کو دیکھ لیا ، لیکن اس حدیث میں وضاحت ہے کہ مشرق اور مغرب کی چیزوں کو دیکھا ، صرف مشرق اور مغرب کی چیزوں کو دیکھنا یہ پورا علم غیب نہیں ہے ، بلکہ یہ جُزء Part ہے جو آپ ﷺ کو دکھلایا گیا ہے۔


دوسری بات یہ ہے کہ ۔، اس میں زُوِيَ ، ماضی کا صیغہ ہے ، جس کا مطلب ہے کہ ایک مرتبہ ایسا کیا گیا ، ورنہ اگر آپ ﷺ کو ہمیشہ علم غیب ہے تو آپ ﷺ کے سامنے زمین کو کرنے کا مطلب کیا ہے ، وہ تو ہر وقت آپ ﷺ کے سامنے ہے ہی ، اس لئے اس حدیث سے علم غیب ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ غیب کی بعض باتوں کو آپ ﷺ کو بتائی گئی ہے۔ ۔ آپ خود بھی غور کر لیں۔


غیبی پردے کے پیچھے کی چیزیں دکھانے کے بعد پردہ ڈال دیا، لہٰذا نہ سب چیزوں کی تفصیل ہر وقت اور ہمیشہ سامنے نہیں۔


آٹھویں مشتبہ حدیث:

17۔ عَنْ ‌أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ» ۔

ترجمہ:

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں جو دیکھتا ہوں تم لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے ، اور میں جو سنتا ہوں تم نہیں سن سکتے۔

[سنن ترمذی ، کتاب الزھد ، بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، حدیث نمبر 2312]


اس حدیث سے بعض حضرات نے علم غیب پر استدلال کیا ہے ، لیکن اس حدیث سے بھی "پورا" علم غیب ثابت نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ کا بعض علم غیب ہے ، جو حضور ﷺ کو بتایا گیا ہے۔


ان 10 دس آیت اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو "پورا" علم غیب تھا۔ لیکن بار بار عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ [تفصیل کل شیء] کی آیت اور یہ 8 احادیث، 40 آیتوں اور 8 احادیث کے خلاف ہیں۔ کہ جن سے علمِ غیب کی نفی ہے۔




مستقبل میں بھی علم غیب کلی کی نفی:

بعض (امتیوں) کی نسبت قیامت میں حضور ﷺ سے کہا جائے گا:

إِنَّكَ ‌لَا ‌تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ۔

آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نئی باتیں ایجاد کیں۔

[(مسند أحمد:22873، مسند البزار:204، مسند أبي يعلى:4455, مسند الشهاب القضاعي:1130, الأحاديث المختارة:241) صحيح البخاري:6205+6212، صحيح مسلم:2290]

إِنَّكَ ‌لَا ‌تَدْرِي مَا بدَّلوا بَعْدَكَ۔

آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کچھ بدل دیا۔

[صحيح البخاري:6643]


اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک بھی آپ ﷺ پر بعض کونیات (یعنی وہ باتیں جو ہونی ہیں) ظاہر نہیں ہوئے ۔۔۔ نہ بالذات نہ بالعطاء ۔۔۔ کیونکہ علم بالعطاء کے بعد آپ ﷺ نے ان کو سحقا‘سحقا (دوری ہو، دوری ہو) فرمایا۔۔۔اگر عطائی علم غیب پہلے سے ہوتا تو ان کیلئے فکرمند نہ ہوتے۔ لہٰذا قیامت کے دن بھی نبی ﷺ کو علم غیب نہ کلی ہوگا اور نہ ہی [مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون ۔۔۔ یعنی جو ہوچکا اور جو ہوگا] کا۔


سُحْقًا ‌سُحْقًا ‌لِمَنْ ‌بَدَّلَ ‌بَعْدِي۔

 دوری ہو دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کر دی تھیں۔

[مسند أحمد:+11220+22822+22873، صحيح البخاري:7050+7051، صحيح مسلم:2290]


خلاصہ یہ ہے کہ ”عالم الغیب“ کہنا جائز نہیں گو تاویل ہی سے کیوں نہ ہو کیونکہ اس میں شرک کا وہم ہوتا ہے، جیسا کہ اسی وہم کی وجہ سے قرآن کریم [سورۃ البقرۃ:104] میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ”رَاعِنَا“ کہنے سے اور صحیح مسلم کی حدیث [2249] میں غلام اور باندی کو ”عَبْدِیْ“ اور ”اَمَتِیْ“ کہنے سے منع کیا گیا ہے۔[سنن أبي داود:4975]

اصل میں بات یہ ہے کہ اصطلاحِ شریعت میں مطلق غیب وہی ہوتا ہے جس پہ کوئی دلیل نہ ہو اور وہ بغیر کسی واسطہ و وسیلہ کے حاصل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

”اے پیغمبر! کہہ دو کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کسی کو بھی غیب کا علم نہیں ہے“۔

[سورۃ النمل: 65]

نیز ارشاد ہے کہ:

” اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں خوب بھلائیاں جمع کر لیتا۔“ اس کے علاوہ اور کئی آیات موجود ہیں۔

[سورۃ الاعراف: 188]


نیز اگر کسی تاویل کے ذریعے آپ ﷺ کو عالم الغیب کہنا جائز سمجھا جائے تو لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ مخصوصہ مثلاً: خالق، رازق، مالک، معبود وغیرہ کا اطلاق بھی اسی تاویل کے ذریعے مخلوق پر صحیح ہو۔

نیز لازم آتا ہے کہ دوسری تاویل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے عالم الغیب ہونے کی نفی کرنا درست ہو اور وہ تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بالواسطہ اور بالعرض عالم الغیب نہیں۔ تو کیا کوئی عقلمند دیندار شخص اس تاویل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی نفی کو جائز کہہ سکتا ہے؟ اللہ کی پناہ، ہرگز نہیں۔


پھر یہ کہ اگر بقولِ سائل حضور ﷺ کو عالم الغیب کہنا درست ہے تو ہمارا اس سے سوال یہ ہے کہ اس غیب سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یعنی غیب کی ہر ہر چیز کا علم یا "بعض" مغیبات کا علم چاہے وہ جو بھی ہوں۔ اگر "بعض" غیب مراد ہو تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تو باقی نہ رہی کیونکہ بعض غیب کا علم اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو وہ غیر نبی کو بھی حاصل ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہے جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوتی۔ تو اگر سائل کے نزدیک "بعض" غیب جاننے کی وجہ سے کسی کو عالم الغیب کہنا جائز ہے تو لازم آتا ہے کہ وہ مذکورہ بالا تمام چیزوں پر عالم الغیب کے اطلاق کو جائز قرار دے۔

اور اگر سائل اس اطلاق کو درست سمجھتا ہے تو پھر ”عالم الغیب“ ہونا حضور علیہ السلام کے کمالاتِ نبوت میں سے نہ رہے گا کیونکہ اس صفت میں سب شریک ہوجائیں گے اور اگر سائل اس اِطلاق کو درست نہیں سمجھتا تو پوچھا جائے گا کہ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ یقیناً سائل کبھی بھی وجہ فرق بیان نہ کر سکے گا۔




حضرت ابو سعید ن الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
”قام فینا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم خطیبا بعد العصر فلم یدع شیئا یکون الیٰ قیام الساعة الا ذکرہ حفظہ من حفظہ و نسیہ من نسیہ الخ
(ترمذی ۔مستدرک ۔مشکوة)
ترجمہ:
ایک دن عصر کے بعد جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر ہمارے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا: پس قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا اس میں سے کوئی چیز آپ نے ایسی نہ چھوڑی جو آپ نے بیان نہ کردی ہو جس نے اس کو یاد رکھا سو یاد رکھا جو بھول گیا سو بھول گیا۔

ان جملہ روایات سے بریلویوں نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کلی پر استدلال و احتجاج کیا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی روایت کی شرح میں علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ :
”وفیہ دلالةً علیٰ انہ اخبرنی المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدا ئھا الیٰ انتھائھا“
(عمدة القاری ج 15 ص 110)
یعنی اس میں اس امر کی دلالت ہے کہ آپ نے ایک ہی مجلس میں مخلوقات کے جمیع احوال ابتداء سے لے کر انتہا تک بیان فرمادئیے۔

چناچہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ”فلم یدع شیئا“کی شرح میں حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
ای مما یتعلق بالدین مما لا بد منہ الخ
(مرقات ج 5 ص8 )
”یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں "دین" کی ہر "ضروری" بات کو بیان فرمایا“۔

حضرت شیخ عبد الحق رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ای مما یتعلق بالدین ای کلیاتہ اوھومبالغة اقامة للاکثر مقام الکل الخ
(لمعات ہامش مشکوٰة ج2 ص437 )
”یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں دین کی ہر ضروری بات کو بیان فرمایا یا مبالغہ کے طور پر اکثرچیزوں کو ”کل“ کہا گیا “

نیز لکھتے ہیں :
فلم یدع شیئا پس نگذاشت چیز یرااز قواعد مہمات دین کہ واقع میشود تاقیامت مگر آنکہ ذکر کرد آنرایا ایں مبالغہ است بگر دانیدن اکثر درحکم کل الخ
(اشعتہ اللمعات ج 4 ص181 )
”سو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لئے قواعد اور مہمات دین میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑی جو بیان نہ فرمادی اور یا یہ مبالغہ ہے جس میں” اکثر“کو” کل“ کے معنی میں کر دیا گیا ہے“

بریلویوں نے اپنے موقف کی تائید میں اکثر حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی عبارتیں پیش کرتے ہیں جن میں حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی عبارتوں میں سے فریق مخالف لفظ ”کلی“ کو لے کر” کلی علم غیب پر“ استدلال کرتے ہیں۔ مگر یہاں شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ نے خود بیان فرمادیا کہ ایسے عام لفظ کو کبھی مبالغتہ”ً اکثر“ کے معنی میں لیا جاتا ہے ،اس سے ہر مقام پر ”کل حقیقی“ اور”عموم استغراقی“ ہی مراد نہیں ہوتی اور جس جس مقام پر ایسے عام لفظ آتے ہیں ان کو دیگر دلائل کی رو سے یہی مطلب اور معنی لیا جائے گا کہ مبالغتہً ”اکثر“ کو” کل“ کے معنی میں لیا گیا ہے


ابن حجر العسقلانی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 852 ھ) فرماتے ہیں:
قولہ انماانا بشر ،ای کواحد من البشر فی عدم علم الغیب الخ
(فتح الباری ج3 ص 139 )
”میں بشر ہوں یعنی علم غیب نہ ہونے میں دوسرے انسانی افراد کی طرح ہوں“۔

اور دوسرے مقام پر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
اتی بہ رد اعلیٰ من زعم ان من کان رسولا فانہ یعلم کل غیب الخ
(فتح الباری ج 13 ص151 )
”انما ان بشر“کا جملہ خاص طور پر ان لوگوں کے باطل خیال کی تردید کے لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کلی علم غیب ہوتا ہے“
علامہ بدر الدین محمود بن احمد العینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 855ھ ) لکھتے ہیں:
”انما انا بشر ۔یعنی کواحد منکم ولا اعلم الغیب و بواطن الامور کما ھو مقتضی الحالة البشریة وانا حکم بالظاھر الخ
(عمدة القاری ج 11 ص271 )
”میں تمہاری طرح ایک بشر ہی ہوں اور میں غیب کا علم نہیں رکھتا اور تمہارے معاملات کے اندرونی احوال کو میں نہیں جانتا جیسا کہ بشریت کا تقاضا ہوتا ہے اور میں تو صرف ظاہری حال پر ہی فیصلہ دیتا ہوں“۔

اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے دوسرے مقام پر یوں رقمطراز ہیں :
انما انا بشر ۔ای من البشر ولا ادری باطن ماتتحا کمون فیہ عندی وتختصمون فیہ لدی وانما اقضی بینکم علیٰ ظاھر ماتقولون فاذا کان الانبیاءعلیھم الصلوة والسلام لایعلمون ذٰلک فغیرجائزان یصح دعویٰ غیرھم من کاھن او منجم العلم وانما یعلم الانبیاءمن الغیب ما اعلمو بہ بوجہ من الوحی الخ
(عمدة القاری ج 11 ص 411)
یعنی میں انسانوں میں سے ایک بشر ہوں اور جو مقدمات تم میرے پاس لاتے ہو تو ان کے باطن کو میں نہیں جانتا اور میں تو تمہاری ظاہری باتوں کو سن کر ہی فیصلہ کرتا ہوں ۔(علامہ عینی فرماتے ہیں) جب حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب اور باطنی امور نہیں جانتے تو نجومی اور کاہن وغیرہ کا غیب اور باطنی امور کے علم کا دعوی کیسے جائز اور صحیح ہوسکتا ہے ؟ اور حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام بھی غیب کی صرف وہی باتیں جانتے ہیں جن کا بذریعہ وحی ان کو علم عطاءکیا گیا ہو۔

امام قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”انما انا بشر مشارک لکم فی البشریة بالنسبہ لعلم الغیب الذی لم یطلعنی اللہ علیہ وقال ذالک توطئة لقولہ وانہ یاتینی الخصم الخ فلا اعلم باطن امرہ الخ
(ارشاد الساری ج 10ص 204 )
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ”انما انا بشر “ اُن لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا: جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کل غیب کا علم ہوتا ہے حتی کہ اس پر مظلوم اور ظالم مخفی نہیں رہتے“

یہی علامہ قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ:
’’اتی بہ علی الرد علیٰ من زعم ان من کان رسولا یعلم الغیب فیطلع علی البواطن ولا یخفی علیہ المظلوم و نحو ذٰلک فا شاران الوضع البشری یقتضی ان لاید رک من الامور الاظواھر ھا فانہ خلق خلقا لا یسلم من قضا یا تحجبہ عن حقائق الاشیاءفاذا ترک علیٰ ماجبل علیہ من القضایا البشریة ولم یوید بالوحی السماوی طراءعلیہ ماطراءعلی سائرالبشر الخ (ارشاد الساری ج ۴ ص ۲۱۴)
یعنی انما انا بشر ۔آپ نے ان لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کو غیب کا علم ہوتا ہے اور وہ باطن پر مطلع ہوتا ہے اور اس پر مظلوم وغیرہ مخفی نہیں رہتا ،آپ نے اس ارشاد میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وضع بشری اس کا مقتضی ہے کہ وہ صرف ظاہری امور کا ادارک کرے کیوں کہ بشر ایک ایسی مخلوق ہے کہ اس کے اور حقائق اشیاءکے ادارک کے درمیان پردے حائل ہوجاتے ہیں ۔جب اس کی جبلت بشری تقاضوں پر چھوڑ دیا جائے اور وحی سماوی سے تائید نہ ہو تو اس پر باوجود رسول ہونے کے وہی کچھ طاری ہوتا ہے جو تمام انسانوں پر طاری ہوتا ہے ۔






نبی کون؟ اور منصبِ نبوت:

لغتِ عرب میں ”نبأ“ اس خبر کو کہتے ہیں جس میں فائدہ ہو اور فائدہ بھی عظیم اور اس خبر سے سننے والے کو علم واطمینان بھی حاصل ہو۔غرض کہ تین چیزیں اس میں ضروری ہوں:

۱- خبر فائدے کی ہو۔

۲-فائدہ بھی عظیم الشان ہو۔

۳- سننے والے کو یقین کامل یا اطمینانِ قلب حاصل ہوجائے۔

[مفردات القرآن(امام الراغب اصفہانیؒ) : سورۃ النبا:2]

 

اللہ تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم [سورۃ ھود:45] اور بادشاہوں کا بادشاہ [آل عمران:26] ہے۔

جس نے ہر قوم[الرعد:7]

اور امت[فاطر:24]

اور بستی[الشعراء:208]

میں لوگوں کیلئے ہدایت[سورۃ آل عمران:4] روشنی[ابراھیم:1]،

مومنوں کیلئے بشارت[النمل:2]اور رحمت[لقمان:3] اور شفاء[فصلت:44]

عقلمندوں کیلئے نصیحت[غافر:54] نازل فرمائی ہے۔

اس(نبی-رسول)کی قوم کی زبان میں[ابراھیم:4]

 

اپنے "بندوں" میں سے خود منتخب کرتا-چنتا ہے۔[الحج:75، النمل:59]

بھیجتا ہے[القصص:99، غافر:34]

کیونکہ وہ زیادہ جانتا ہے کہ کہاں رکھے-بھیجے اپنی رسالت۔[الانعام:124]

 

رسالت کہتے ہیں پیغام "پہنچانے"[المائدۃ:67] کی ذمہ داری کو۔ اور ذمہ دار کو رسول کہتے ہیں۔[آل عمران:53]

اور

اسی طرح ھدایت کرنے[الانبیاء:73] خبر بتلانے[الحجر:49-50] کی ذمہ داری کو نبوت[آل عمران:79] کہتے ہیں۔ کہ انبیاء بھی اللہ کے "بھیجے" ہوئے(رسول)ہیں۔[الزخرف:6]

 

*نبی اور رسول میں فرق:*

(1)نبی صرف انسانوں میں ہوتے اور رسول ملائکہ اور انسان دونوں میں ہوتے ہیں۔

اللہ چنتا ہے رسول(پیغام پہنچانے والے) ملائکہ میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔[الحج:75]

یعنی

ملائکہ میں سے پیغامِ الٰہی پہنچانے کیلئے چنا ہوا جبریلؑ روح الامین ہے[الشعراء:123] کیونکہ ملائکہ کی طرف وحی کرتا(ذمہ داری سونپتا) ہے اللہ[الانفال:12] ۔۔۔ تاکہ وہ نازل کرے نبی کے دل پر[البقرۃ:97]

۔۔۔اور۔۔۔

لوگوں میں سے چنے ہوئے (خاص) بندوں[النمل:59] کو پیغامِ الٰہی پہنچانے والے(رسول) بھیجے۔۔۔

انہیں میں[البقرۃ:129، المومنون:32، الصافات:72]

انہی کے نفسوں(جنس)میں سے[آل عمران:164]

تمہارے نفسوں(جانوں)میں سے[التوبۃ:128]

بشر(آدمی)کو[سورۃ الانعام:91، ابراھیم:11، الکھف:110، فصلت:6، الشوريٰ:51]

رجل(مرد)کو[سورۃ الاعراف:63+69، يونس:2]

یعنی

جن اور عورت میں کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجا۔

 

 

 

(2) بشری نبی اور بشری رسول میں فرق:

ہر نبی پر وحی بھیجی جاتی ہے اور نبوت عطا ہوتی ہے[] پچھلے رسول کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔[المائدۃ:44]

اور

رسول کو نبوت، حکم وشریعت اور کتاب بھی دی جاتی ہے۔
الگ نئی کتاب[آل عمران:79] جیسے:حضرت داؤدؑ کو زبور[النساء:163، الاسراء:55]، حضرت عیسیٰؑ کو انجیل[الحدید:27]

اور

حکم [الانعام:89] یعنی الگ شریعت[المائدۃ:48]

جیسے:

پہلے قبلہ بیت المقدس(مسجد اقصیٌٰ) تھا اور اب بیت اللہ(مسجد الحرام)[سورۃ البقرۃ:142-145، الاسراء:1]

 

 

مشترکاتِ انبیاء اور رسل:

(1) وحی: دونوں پر نازل ہوتی ہے۔ یعنی پیغامِ الٰہی پہنچانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔[النساء:163]

(2) بنیادی کلمہ، عقیدہ اور پیغامِ وحی یہی تھی کہ۔۔۔نہیں ہے کہوئی معبود سوائے اللہ کے، لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔[الانبیاء:25]

 

 

عیسیٰ بھی رسول ہی ہیں(خدا نہیں)پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔کہ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں۔

[المائدۃ:75]

 

محمد بھی رسول ہی ہیں پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔یعنی وہ قتل یا فوت ہوسکتے ہیں۔

[آل عمران:144]

کہدیجیئے میں کوئی نیا رسول نہیں۔۔۔(یعنی دوسرے رسولوں کی طرح)۔۔۔میں بھی نہیں جانتا کہ میرے اور تم سب کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔[الاحقاف:9]

 

لیکن محمد رسول اللہ کو خاتم النبیین[الاحزاب:40] کو سب کی طرف[الاعراف:158] ساری انسانیت کیلئے[النساء:170، الحج:49، سبا:28] بھیجا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

لہٰذا لازم ہے:

(1)ان پر ایمان لانا

[البقرۃ:177+285، النساء:136، الاعراف:158، النور:62، الاحزاب:15، الحدید:7المجادلۃ:4، الصف:11 التغابن:8، ]

(2)انکی عزت وتعظیم کرنا[الفتح:9]

(3)انکی اطاعت کرنا[النساء:64+80]

(4)انکی مدد کرنا[الاعراف:157]

اور دخولِ جنت کا سبب ہے[النساء:14]

اور

ان کی نافرمانی کرنا[النساء:42]

جھٹلانا [آل عمران:184، الانعام:34، الاعراف:92+101، النحل:113، الحج:42، المومنون:44، ق:14]

انکار کرنا کفر ہے[آل عمران:86، النساء:136+150+170]

تمسخر اُڑانا[الزمر:56، الانعام:10،الانبیاء:41]

اور استہزاء کرنا کفر ہے[الکھف:106، التوبۃ:65]

اور ان سے بغض ودشمنی رکھنا بھی کفر ہے[البقرۃ:97]

انہیں قتل کرنا بھی کفر ہے[البقرۃ:61، آل عمران:21]

 

یہ کفر فورا دنیاوی سزا کا مستحق بناتا[الانعام:10، یٰس:30-31]

اور دخولِ جہنم کا سبب ہے[الجن:23، النساء:15]۔



No comments:

Post a Comment