خواہش پرست کا عبرتناک انجام:
القرآن : بھلا دیکھ تو جس نے ٹھہرا لیا اپنا حاکم اپنی خواہش کو اور راہ سے بچلا دیا اسکو اللہ نے جانتا بوجھتا اور مہر لگا دی اسکے کان پر اوردل پر اور ڈالدی اسکی آنکھ پر اندھیری پھر کون راہ پر لائے اسکو اللہ کے سوائے سو کیا تم غور نہیں کرتے. (سورہ الجاثیہ: ٢٣﴾
التفسیر: یعنی اللہ جانتا تھا کہ اسکی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے بوجھنے کے بعد گمراہ ہوا۔
جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے، جدھر اسکی خواہش لے چلے ادھر ہی چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اسکے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ جائے، نہ دل سچی بات کوسمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے ۔ ظاہر ہے اللہ جسکو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کونسی طاقت ہے جو اسکے بعد اسے راہ پر لے آئے۔
1 - ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي وَارَهٍ ، ثنا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، ثنا بَعْضُ مَشْيَخَتِنَا ، هِشَامٌ أَوْ غَيْرُهُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ " .
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے: "کبھی کوئی شخص مومن کامل نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کی خواھش_نفسانی ان احکام کے تابع نہ ہوجائیں جن کو میں لایا ہوں".(روایت کیا اس کو شرح السنہ نے اور امام نووی رح نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اپنی اربعین میں)
تخريج الحديث
|
***************************************
جہاد کی اہمیت اور ضرورت:
القرآن : تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جسکے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جنکو پسند کرتے ہو تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اسکے رسول سے اور لڑنے سے اسکی راہ میں تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور اللہ رستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو . (التوبة:24)
خلاصہ تفسیر
( آگے اسی مضمون کی زیادہ تفصیل ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ( ان سے ) کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمہا ری بیبیاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن میں ( رہنے ) کو تم پسند کرتے ہو ( اگر یہ چیزیں ) تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم ( سزائے ترک ہجرت کا ) بھیج دیں ( جیسا دوسری آیت میں ہے (آیت) ان الذین توفھم الملئکہ الی قولہ فاولئک ماوھم جھنم ) اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والے لوگوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا ( یعنی ان کا مقصود تھا ان چیزوں سے تمتع وہ بہت جلد خلاف ان کی توقع کے موت سے منقطع ہوجاتا ہے )۔
معارف ومسائل
سورہ توبہ کی یہ آیت دراصل ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ سے ہجرت فرض ہونے کے وقت ہجرت نہیں کی، ماں باپ، بھائی، بہن، اولاد اور بیوی اور مال و جائیداد کی محبت نے ان کو فریضہ ہجرت ادا کرنے سے روک دیا، ان کے بارے میں حق تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ :
" اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیبیاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دیں، اور اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا"
اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دیں “۔
امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ حکم سے مراد جہاد و قتال اور فتح مکہ کا حکم ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اس وقت دنیاوی تعلقات پر اللہ و رسول کے تعلقات کے قربان کرنے والوں کا انجام بد عنقریب سامنے آنے والا ہے جبکہ مکہ فتح ہوگا اور نافرمانی کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے اور ان کے یہ تعلقات اس وقت ان کے کام نہ آئیں گے ۔
اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس جگہ حکم سے مراد حکم عذاب ہے کہ دنیوی تعلقات پر اخروی تعلقات کو قربان کرکے ہجرت نہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا حکم عذاب عنقریب آنے والا ہے یا تو دنیا ہی میں ان پر عذاب آئے گا ورنہ آخرت کا عذاب تو یقینی ہے، آیت میں اس جگہ مقصود تو ترک ہجرت پر وعید ہے مگر ذکر بجائے ہجرت کے جہاد کیا گیا، جو ہجرت کے بعد کا اگلا قدم ہے، اس میں اشارہ کردیا گیا کہ ابھی تو صرف ہجرت اور ترک وطن ہی کا حکم ہوا ہے، اس میں کچھ لوگ ہمت ہار بیٹھے، آگے جہاد کا حکم آنے والا ہے، جس میں اللہ اور رسول کی محبت پر ساری محبتوں کو اور خود اپنی جان کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ ہجرت ہی کو جہاد سے تعبیر کردیا ہو کیونکہ وہ بھی حقیقت میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے ۔
اور آخر آیت میں (آیت) وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ، فرما کر یہ بھی بتلا دیا کہ جو لوگ حکم ہجرت کے باوجود اپنے دنیوی تعلقات کو ترجیح دے کر اپنے خویش و عزیز اور مال و مکان سے چمٹے رہے، ان کا یہ عمل دنیا میں بھی ان کے لئے مفید نہیں ہوگا، اور ان کا یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا کہ ہمیشہ اپنے اہل و عیال اور مال و مکان میں امن و چین سے بیٹھیں رہیں، بلکہ حکم جہاد شروع ہوتے ہی یہ سب چیزیں ان کے لئے وبال جان بن جائیں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتے ۔
مسائل متعلقہ ہجرت :
اول: جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرض کردی گئی تو وہ صرف ایک فرض ہی نہیں بلکہ مسلمان ہونے کی علامت بھی تھی، جو باوجود قدرت کے ہجرت نہ کرے وہ مسلمان نہ سمجھا جاتا تھا، یہ حکم فتح مکہ کے بعد منسوخ ہوگیا، اور اصل حکم یہ باقی رہ گیا کہ جس زمین پر انسان کو اللہ کے احکام نماز روزہ وغیرہ کی تعمیل ممکن نہ ہو اس سے ہجرت کرنا ہمشیہ کے لئے فرض ہے، بشرطیکہ ہجرت پر قدرت ہو ۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی ہر ایسی جگہ کو چھوڑ دے جہاں فسق و فجور کا غلبہ ہو یہ ہمیشہ کیلئے مستحب ہے ( تفصیل فتح الباری میں ہے )
آیت مذکورہ میں براہ راست تو خطاب ان لوگوں سے ہے جنہوں نے ہجرت فرض ہونے کے وقت دنیوی تعلقات کی محبت سے مغلوب ہوکر ہجرت نہیں کی، لیکن الفاظ آیت کا عموم تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس درجہ ہونا لازم و واجب ہے کہ دوسرا کوئی تعلق اور کوئی محبت اس پر غالب نہ آئے، اور جس نے اس درجے کی محبت پیدا نہ کی وہ مستحق عذاب ہوگیا، اس کو عذاب الہی کا منتظر رہنا چاہئے ۔
سچا ایمان اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ اللہ اور رسول کی محبت ساری دنیا اور خود اپنی جان سے بھی زیادہ ہو:
اسی لئے ایک صحیح حدیث میں جو صحیحین میں بروایت انس منقول ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ، اور اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔
اور ابوداؤد ترمذی میں بروایت ابو امامہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی سے دوستی کی تو اللہ کے لئے کی اور دشمنی کی تو وہ بھی اللہ کے لئے کی اور مال کو خرچ کیا تو وہ بھی اللہ کے لئے، اور کسی جگہ خرچ کرنے سے رکا تو وہ بھی اللہ کے لئے، اس نے اپنا ایمان ممکل کرلیا ۔
ان روایات حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ ایمان کی تکمیل اس پر موقوف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سب محبتوں پر غالب ہو، اور انسان کی دوستی دشمنی، دینا یا نہ دینا سب حکم خدا و رسول کے تابع ہو ۔
امام تفسیر قاضی بیضاوی وغیرہ نے فرمایا کہ بہت کم لوگ ہیں جو اس آیت کی وعید سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ عام طور پر بڑے سے بڑے عابد و زاہد اور عالم و متقی بھی اہل و عیال اور مال و متاع کی محبت سے مغلوب نظر آتے ہیں، الا ماشاء اللہ، مگر ساتھ ہی قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ محبت سے مراد اس جگہ اختیاری محبت ہے، غیر اختیاری اور طبعی محبت مراد نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت و اختیار سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اس لئے اگر کسی شخص کا دل ان دنیوی تعلقات کی طبعی محبت سے لبریز ہو مگر ان سے اتنا مغلوب نہ ہو کہ اللہ و رسول کے احکام کی خلاف ورزی کی پروا نہ کرے، تو وہ بھی اس وعید سے خارج اور اللہ و رسول کی محبت کو غالب رکھنے والا ہے، جیسے کوئی بیمار دوا کی تلخی یا آپریشن کی تکلیف سے طبعاً گھبراتا ہے، مگر عقلا اس کو اپنی نجات و سلامتی کا ذریعہ سمجھ کر اختیار کرتا ہے، تو وہ کسی کے نزدیک قابل ملامت نہیں، اور نہ کوئی عقل سلیم اس کو اس پر مجبور کرتی ہے کہ طبعی اور غیر اختیاری گھبراہٹ اور کراہت کو بھی دل سے نکال دے، اسی طرح اگر کسی کو مال و اولاد وغیرہ کی محبت کے سبب بعض احکام الہیہ کی تعمیل میں غیر اختیاری طور پر تکلیف محسوس ہو، مگر اس کے باوجود وہ اس تکلیف کو برداشت کرکے احکام الہیہ یجا لائے تو وہ بھی قابل ملامت نہیں، بلکہ قابل تحسین ہے اور اللہ و رسول کی محبت کو اس آیت کے مطابق غالب رکھنے والا کہلائے گا۔
ہاں اس میں شبہ نہیں کہ محبت کا اعلے مقام یہی ہے کہ محبت طبیعت پر بھی غالب آجائے اور محبوب کے حکم کی تعمیل کی لذت ہر تلخی و تکلیف کو بھی لذیذ بنادے، جیسا دنیا کی فانی لذت و راحت کے طبلگاروں کو رات دن دیکھا جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی محبت و مشقت کو ہنس کھیل کر اختیار کرلیتے ہیں، کسی دفتر کی ملازمت میں مہینہ کے ختم پر ملنے والے چند سکوں کی محبت انسان کی نیند، آرام اور سارے تعلقات پر ایسی غالب آجاتی ہے کہ اس کے پیچھے ہزاروں مشقتوں کو بڑی کوششوں، سفارشوں، اور رشوتوں کے ذریعہ حاصل کرتا ہے ۔
رنج و راحت شد چو مطلب شد بزرگ گرد گلہ تو تیائے چشم گرگ
اللہ والوں کو یہ مقام اللہ و رسول اور نعمائے آخرت کی محبت میں ایسا ہی حاصل ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی تکلیف تکلیف نظر نہیں آئی، صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں پائی جاویں تو اس کو ایمان کی حلاوت حاصل ہوجاتی ہے، وہ تین خصلتیں یہ ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک ان کے ماسوائے ہر چیز سے زیادہ مجوب ہو، دوسرے یہ کہ وہ کسی اللہ کے بندے سے صرف اللہ ہی کے لئے محبت رکھے، تیسرے یہ کہ کفر و شرک اس کو آگ میں ڈالے جانے کے برابر محسوس ہو ۔
اس حدیث میں حلاوت ایمان سے مراد محبت کا یہی مقام ہے جو انسان کے لئے ہر مشقت و محنت کو لذیذ بنا دیتا ہے
از محبت تلخہا شیریں شود، اسی مقام کے متعلق بعض علماء نے فرمایا ہے
واذا حلت الحلاوة قلبا نشطت فی العبادة الاعضاء
یعنی جب کسی دل میں حلاوت ایمان پیدا ہوجاتی ہے، تو عبادت و اطاعت میں اس کے اعضاء لذت پانے لگتے ہیں“۔
اسی کو بعض روایات میں بشاشت ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ محبت خدا و رسول کا یہ مقام ایک نعمت کبری ہے، مگر وہ صرف اللہ والوں کی صحبت و معیت ہی سے حاصل ہوتی ہے، اسی لئے صوفیائے کرام اس کو خدمت مشائخ سے حاصل کرنا ضروری قرار دیتے ہیں، صاحب روح البیان نے فرمایا کہ یہ مقام خلت اسی کو حاصل ہوتا ہے جو خلیل اللہ کی طرف اپنے مال، اولاد اور جان کو اللہ کی محبت میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو ۔
خلیل آسادر ملک یقین زن نوائے لا احب الآفلین زن
قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کی حفاظت اور اس میں رخنے ڈالنے والوں کی مدافعت بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ایک کھلا نشان ہے۔ رزقنا اللہ تعالیٰ وجمیع المسلمین حبہ وحب رسولہ کما یحب ویرضاہ ۔
( آگے اسی مضمون کی زیادہ تفصیل ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ( ان سے ) کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمہا ری بیبیاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن میں ( رہنے ) کو تم پسند کرتے ہو ( اگر یہ چیزیں ) تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم ( سزائے ترک ہجرت کا ) بھیج دیں ( جیسا دوسری آیت میں ہے (آیت) ان الذین توفھم الملئکہ الی قولہ فاولئک ماوھم جھنم ) اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والے لوگوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا ( یعنی ان کا مقصود تھا ان چیزوں سے تمتع وہ بہت جلد خلاف ان کی توقع کے موت سے منقطع ہوجاتا ہے )۔
معارف ومسائل
سورہ توبہ کی یہ آیت دراصل ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ سے ہجرت فرض ہونے کے وقت ہجرت نہیں کی، ماں باپ، بھائی، بہن، اولاد اور بیوی اور مال و جائیداد کی محبت نے ان کو فریضہ ہجرت ادا کرنے سے روک دیا، ان کے بارے میں حق تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ :
" اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیبیاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دیں، اور اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا"
اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دیں “۔
امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ حکم سے مراد جہاد و قتال اور فتح مکہ کا حکم ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اس وقت دنیاوی تعلقات پر اللہ و رسول کے تعلقات کے قربان کرنے والوں کا انجام بد عنقریب سامنے آنے والا ہے جبکہ مکہ فتح ہوگا اور نافرمانی کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے اور ان کے یہ تعلقات اس وقت ان کے کام نہ آئیں گے ۔
اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس جگہ حکم سے مراد حکم عذاب ہے کہ دنیوی تعلقات پر اخروی تعلقات کو قربان کرکے ہجرت نہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا حکم عذاب عنقریب آنے والا ہے یا تو دنیا ہی میں ان پر عذاب آئے گا ورنہ آخرت کا عذاب تو یقینی ہے، آیت میں اس جگہ مقصود تو ترک ہجرت پر وعید ہے مگر ذکر بجائے ہجرت کے جہاد کیا گیا، جو ہجرت کے بعد کا اگلا قدم ہے، اس میں اشارہ کردیا گیا کہ ابھی تو صرف ہجرت اور ترک وطن ہی کا حکم ہوا ہے، اس میں کچھ لوگ ہمت ہار بیٹھے، آگے جہاد کا حکم آنے والا ہے، جس میں اللہ اور رسول کی محبت پر ساری محبتوں کو اور خود اپنی جان کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ ہجرت ہی کو جہاد سے تعبیر کردیا ہو کیونکہ وہ بھی حقیقت میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے ۔
اور آخر آیت میں (آیت) وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ، فرما کر یہ بھی بتلا دیا کہ جو لوگ حکم ہجرت کے باوجود اپنے دنیوی تعلقات کو ترجیح دے کر اپنے خویش و عزیز اور مال و مکان سے چمٹے رہے، ان کا یہ عمل دنیا میں بھی ان کے لئے مفید نہیں ہوگا، اور ان کا یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا کہ ہمیشہ اپنے اہل و عیال اور مال و مکان میں امن و چین سے بیٹھیں رہیں، بلکہ حکم جہاد شروع ہوتے ہی یہ سب چیزیں ان کے لئے وبال جان بن جائیں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتے ۔
مسائل متعلقہ ہجرت :
اول: جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرض کردی گئی تو وہ صرف ایک فرض ہی نہیں بلکہ مسلمان ہونے کی علامت بھی تھی، جو باوجود قدرت کے ہجرت نہ کرے وہ مسلمان نہ سمجھا جاتا تھا، یہ حکم فتح مکہ کے بعد منسوخ ہوگیا، اور اصل حکم یہ باقی رہ گیا کہ جس زمین پر انسان کو اللہ کے احکام نماز روزہ وغیرہ کی تعمیل ممکن نہ ہو اس سے ہجرت کرنا ہمشیہ کے لئے فرض ہے، بشرطیکہ ہجرت پر قدرت ہو ۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی ہر ایسی جگہ کو چھوڑ دے جہاں فسق و فجور کا غلبہ ہو یہ ہمیشہ کیلئے مستحب ہے ( تفصیل فتح الباری میں ہے )
آیت مذکورہ میں براہ راست تو خطاب ان لوگوں سے ہے جنہوں نے ہجرت فرض ہونے کے وقت دنیوی تعلقات کی محبت سے مغلوب ہوکر ہجرت نہیں کی، لیکن الفاظ آیت کا عموم تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس درجہ ہونا لازم و واجب ہے کہ دوسرا کوئی تعلق اور کوئی محبت اس پر غالب نہ آئے، اور جس نے اس درجے کی محبت پیدا نہ کی وہ مستحق عذاب ہوگیا، اس کو عذاب الہی کا منتظر رہنا چاہئے ۔
سچا ایمان اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ اللہ اور رسول کی محبت ساری دنیا اور خود اپنی جان سے بھی زیادہ ہو:
اسی لئے ایک صحیح حدیث میں جو صحیحین میں بروایت انس منقول ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ، اور اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔
اور ابوداؤد ترمذی میں بروایت ابو امامہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی سے دوستی کی تو اللہ کے لئے کی اور دشمنی کی تو وہ بھی اللہ کے لئے کی اور مال کو خرچ کیا تو وہ بھی اللہ کے لئے، اور کسی جگہ خرچ کرنے سے رکا تو وہ بھی اللہ کے لئے، اس نے اپنا ایمان ممکل کرلیا ۔
ان روایات حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ ایمان کی تکمیل اس پر موقوف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سب محبتوں پر غالب ہو، اور انسان کی دوستی دشمنی، دینا یا نہ دینا سب حکم خدا و رسول کے تابع ہو ۔
امام تفسیر قاضی بیضاوی وغیرہ نے فرمایا کہ بہت کم لوگ ہیں جو اس آیت کی وعید سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ عام طور پر بڑے سے بڑے عابد و زاہد اور عالم و متقی بھی اہل و عیال اور مال و متاع کی محبت سے مغلوب نظر آتے ہیں، الا ماشاء اللہ، مگر ساتھ ہی قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ محبت سے مراد اس جگہ اختیاری محبت ہے، غیر اختیاری اور طبعی محبت مراد نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت و اختیار سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اس لئے اگر کسی شخص کا دل ان دنیوی تعلقات کی طبعی محبت سے لبریز ہو مگر ان سے اتنا مغلوب نہ ہو کہ اللہ و رسول کے احکام کی خلاف ورزی کی پروا نہ کرے، تو وہ بھی اس وعید سے خارج اور اللہ و رسول کی محبت کو غالب رکھنے والا ہے، جیسے کوئی بیمار دوا کی تلخی یا آپریشن کی تکلیف سے طبعاً گھبراتا ہے، مگر عقلا اس کو اپنی نجات و سلامتی کا ذریعہ سمجھ کر اختیار کرتا ہے، تو وہ کسی کے نزدیک قابل ملامت نہیں، اور نہ کوئی عقل سلیم اس کو اس پر مجبور کرتی ہے کہ طبعی اور غیر اختیاری گھبراہٹ اور کراہت کو بھی دل سے نکال دے، اسی طرح اگر کسی کو مال و اولاد وغیرہ کی محبت کے سبب بعض احکام الہیہ کی تعمیل میں غیر اختیاری طور پر تکلیف محسوس ہو، مگر اس کے باوجود وہ اس تکلیف کو برداشت کرکے احکام الہیہ یجا لائے تو وہ بھی قابل ملامت نہیں، بلکہ قابل تحسین ہے اور اللہ و رسول کی محبت کو اس آیت کے مطابق غالب رکھنے والا کہلائے گا۔
ہاں اس میں شبہ نہیں کہ محبت کا اعلے مقام یہی ہے کہ محبت طبیعت پر بھی غالب آجائے اور محبوب کے حکم کی تعمیل کی لذت ہر تلخی و تکلیف کو بھی لذیذ بنادے، جیسا دنیا کی فانی لذت و راحت کے طبلگاروں کو رات دن دیکھا جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی محبت و مشقت کو ہنس کھیل کر اختیار کرلیتے ہیں، کسی دفتر کی ملازمت میں مہینہ کے ختم پر ملنے والے چند سکوں کی محبت انسان کی نیند، آرام اور سارے تعلقات پر ایسی غالب آجاتی ہے کہ اس کے پیچھے ہزاروں مشقتوں کو بڑی کوششوں، سفارشوں، اور رشوتوں کے ذریعہ حاصل کرتا ہے ۔
رنج و راحت شد چو مطلب شد بزرگ گرد گلہ تو تیائے چشم گرگ
اللہ والوں کو یہ مقام اللہ و رسول اور نعمائے آخرت کی محبت میں ایسا ہی حاصل ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی تکلیف تکلیف نظر نہیں آئی، صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں پائی جاویں تو اس کو ایمان کی حلاوت حاصل ہوجاتی ہے، وہ تین خصلتیں یہ ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک ان کے ماسوائے ہر چیز سے زیادہ مجوب ہو، دوسرے یہ کہ وہ کسی اللہ کے بندے سے صرف اللہ ہی کے لئے محبت رکھے، تیسرے یہ کہ کفر و شرک اس کو آگ میں ڈالے جانے کے برابر محسوس ہو ۔
اس حدیث میں حلاوت ایمان سے مراد محبت کا یہی مقام ہے جو انسان کے لئے ہر مشقت و محنت کو لذیذ بنا دیتا ہے
از محبت تلخہا شیریں شود، اسی مقام کے متعلق بعض علماء نے فرمایا ہے
واذا حلت الحلاوة قلبا نشطت فی العبادة الاعضاء
یعنی جب کسی دل میں حلاوت ایمان پیدا ہوجاتی ہے، تو عبادت و اطاعت میں اس کے اعضاء لذت پانے لگتے ہیں“۔
اسی کو بعض روایات میں بشاشت ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ محبت خدا و رسول کا یہ مقام ایک نعمت کبری ہے، مگر وہ صرف اللہ والوں کی صحبت و معیت ہی سے حاصل ہوتی ہے، اسی لئے صوفیائے کرام اس کو خدمت مشائخ سے حاصل کرنا ضروری قرار دیتے ہیں، صاحب روح البیان نے فرمایا کہ یہ مقام خلت اسی کو حاصل ہوتا ہے جو خلیل اللہ کی طرف اپنے مال، اولاد اور جان کو اللہ کی محبت میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو ۔
خلیل آسادر ملک یقین زن نوائے لا احب الآفلین زن
قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کی حفاظت اور اس میں رخنے ڈالنے والوں کی مدافعت بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ایک کھلا نشان ہے۔ رزقنا اللہ تعالیٰ وجمیع المسلمین حبہ وحب رسولہ کما یحب ویرضاہ ۔
ایمان والے مجاہد ؟؟؟
2 - حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ، وَحَتَّى يُقْذَفَ فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ نَجَّاهُ اللَّهُ مِنْهُ ، وَلَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ "
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ » رقم الحديث: 12901 + 13680]
ترجمہ : حضرت انس (بن مالک بن نضر انصاری ہیں اور مدینہ کے اصل باشندے تھے۔ آپ کی عمر جب دس سال کی تھی تو آپ کی والدہ ام سلیم بنت ملحان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ ٩٦ھ میں انتقال فرمایا)۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسے اللہ اور اس کے رسول دوسروں سے سب سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور انسان کفر سے نجات ملنے کے بعد اس میں واپس جانے کو اسی طرح ناپسند کرے جیسے آگ میں چھلانگ لگانے کو ناپسند کرتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں (اس کی نگاہوں میں) اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔"
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ هِشَامٍ ، قَالَ : كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ " ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْآنَ يَا عُمَرُ " .
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بخدا! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! اب بات بنی"۔
تخريج الحديث
تشریح " محبت" ایک تو طبعی ہوتی ہے جیسے اولاد کو باپ کی یا باپ کو اولاد کی محبت۔ اس محبت کی بنیاد طبعی وابستگی و پسند اور فطری تقاضہ ہوتا ہے۔ اس میں عقلی یا خارجی ضرورت اور دباؤ کا دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف ایک محبت عقلی ہوتی ہے جو کسی طبعی و فطری وابستگی اور تقاضے کے تحت نہیں ہوتی۔ بلکہ کسی عقلی ضرورت و مناسبت اور خارجی وابستگی کے تحت کی جاتی ہے۔ اس کی مثال مریض اور دوا ہے یعنی بیمار آدمی دوا کو اس لئے پسند نہیں کرتا کہ دوا لینا اس کا طبعی اور فطری تقاضہ ہے بلکہ یہ دراصل عقل کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر بیماری کو ختم کرنا ہے اور صحت عزیز ہے تو دوا استعمال کرنی ہوگی خواہ اس دوا کی تلخی اور کڑواہٹ کا طبیعت پر کتنا ہی بار کیوں نہ ہو، اسی طرح اگر کسی آدمی کے جسم کا کوئی حصہ پھوڑے پھنسی کے فاسد مادہ سے بھر گیا ہو تو وہ آپریشن کے لئے اپنے آپ کو کسی ماہر جراح اور سرجن کے حوالہ اس لئے نہیں کرتا کہ اس کی نظر میں آلات جراحی کی چمک دمک اچھی لگتی ہے یا اس کی طبیعت اپنے جسم کے اس حصہ پر نشتر زنی کو پسند کرتی ہے، بلکہ یہ عقل و دانائی کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر جسم کو فاسد مادہ سے صاف کرنا ہے تو خود کو اس جراح یا سرجن کے حوالے کردینا ضروری ہے۔ کسی چیز کو عقلی طور پر چاہنے اور پسند کرنے کی وہ کیفیت جس کو " عقلی محبت" سے تعبیر کرتے ہیں، بعض حالات میں اتنی شدید، اتنی گہری اور اتنی اہم بن جاتی ہے کہ بڑی سے بڑی طبعی محبت اور بڑے سے بڑے فطری تقاضے پر بھی غالب آجاتی ہے۔ پس یہ حدیث ذات رسالت سے جس محبت اور وا بستگی کا مطالبہ کر رہی ہے وہ علماء و محدثین کے نزدیک یہی " عقلی محبت" ہے لیکن کمال ایمان و یقین کی بنا پر یہ " عقلی محبت" اتنی پر اثر، اتنی بھر پور اور اس کی قدر جذباتی وابستگی کے ساتھ ہو کہ" طبعی محبت" پر غالب آجائے۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ہدایت اور کسی شرعی حکم کی تعمیل میں کوئی خونی رشتہ جیسے باپ کی محبت ، اولاد کا پیار یا کوئی بھی اور طبعی تعلق رکاوٹ ڈالے تو اس ہدایت رسول اور شرعی حکم کو پورا کرنے کے لئے اس خون کے رشتے اور طبعی تقاضا و محبت کو بالکل نظر انداز کر دینا چاہیے، ایمانیات اور شریعت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا مقام ہے اور یہ مقام اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب ایمان و اسلام اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی کرنے والا اپنے نفس کو احکام شریعت اور ذات رسالت میں فنا کر دے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد حیات نہ ہو۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ اہل ایمان جہاد کے لئے نکلیں، اس حکم کی تعمیل میں اہل ایمان، دشمنان دین سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتے ہیں۔ جب دونوں طرف سے صف آرائی ہوتی ہے اور حریف فوجیں آمنے سامنے آتی ہیں تو کسی مسلمان کو اپنا لڑکا دشمن کی صف میں نظر آتا ہے اور کسی کو اپنا باپ۔ اب ایک طرف تو وہ طبعی محبت ہے ، جو کیسے گوارا کرلے کہ اس کی تلوار اپنے باپ یا اپنی ہی اولاد کے خون سے رنگی جائے، دوسری طرف حکم رسول ہے کہ دشمن کا کوئی بھی فرد تلوار کی زد سے امان نہ پائے چاہے وہ اپنا باپ یا بیٹا کیوں نہ ہو، تاریخ کی ناقابل تردید صداقت گواہی دیتی ہے کہ ایسے نازک موقع پر اہل ایمان پل بھر کے لئے بھی ذہنی کشمکش میں مبتلا نہیں ہوتے، ان کو یہ فیصلہ کر لینے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی کہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ باپ کی محبت کوئی معنی رکھتی ہے نہ اولاد کی۔ اور پھر میدان جنگ میں باپ کی تلوار بے دریغ اپنی اولاد کا خون بہاتی نظر آتی ہے اور بیٹا اپنے باپ کو موقع نہیں دیتا کہ بچ کر نکل جائے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تکمیل ایمان کا مدار حب رسول پر ہے جس آدمی میں ذات رسالت سے اس درجہ کی محبت نہ ہو کہ اس کے مقابلہ پر دنیا کے بڑے سے بڑے رشتے، بڑے سے بڑے تعلق اور بڑی سے بڑی چیز کی محبت و چاہت بھی بے معنی ہو، وہ کامل مسلمان نہیں ہو سکتا ، اگرچہ زبان اور قول سے وہ اپنے ایمان و اسلام کا کتنا ہی بڑا دعوی کرے۔ حضرت عمر فاروق کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے جب یہ حدیث سنی تو عرض کیا " یا رسول اللہ ! دنیا میں صرف اپنی جان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں ' ' یعنی دنیا کے اور تمام رشتوں اور چیزوں سے زیادہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت رکھتا ہوں مگر اپنی جان سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میری جان ہے تم اب بھی کامل مومن نہیں ہوئے اس لئے کہ یہ مرتبہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہو جاؤں" ۔ ان الفاظ نبوت نے جیسے آن واحد میں حضرت عمر فاروق کے دل و دماغ کی دنیا تبدیل کر دی ہو، وہ بے اختیار بولے۔" یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میری جان قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کو خوشخبری سنائی کہ اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہوا اور تم پکے مومن ہوگئے۔" اور صرف عمر فاروق ہی نہیں، تمام صحابہ اسی کیفیت سے معمور اور حب رسول سے سرشار تھے، ان کی زندگیوں کا مقصد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جانوں کو نچھاور کر دینا تھا، بلا شبہ دنیا کا کوئی مذہب اپنے راہنما اور پیروؤں کے باہمی تعلق اور محبت کی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس بلا شک صحابہ کے لئے شمع کی سی تھی جس پر وہ پروانہ وار نچھاور ہونا ہی اپنی سعادت و خوش بختی تصور کیا کرتے تھے ۔ اسلام کے اس دور کی شاندار تاریخ اپنے دامن میں بے شمار ایسے واقعات چھپائے ہوئے ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام اجمعین کی جذباتی وابستگی اور والہانہ محبت و تعلق کی شاندار غمازی کرتے ہیں۔ غزوہ احد کا واقعہ ہے۔ میدان جنگ میں جب معرکہ کار زار گرم ہوا اور حق کی مٹھی بھر جماعت پر باطل کے لشکر جرار نے پوری قوت اور طاقت سے حملہ کیا تو دیکھا گیا ہے کہ ایک انصاری عورت کے شوہر، باپ اور بھائی تینوں نے جام شہادت پیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر دیوانہ وار فدا ہوگئے، یہ دل دہلا دینے والی خبر اس عورت کو بھی پہنچائی گئی مگر اللہ پر ایمان کی پختگی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اثر کہ بجائے اس کے کہ وہ عورت اپنے لواحقین کی شہادت پر نالہ و شیون اور ماتم و فریاد کرتی اس نے سب سے پہلے سوال کیا : " خدارا مجھے یہ بتاؤ کہ میرے آقا اور سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میری جان قربان) تو بخیر ہیں؟۔" لوگوں نے کہا۔ ہاں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت ہیں " مگر اس سے اس کی تسکین نہ ہوئی اور بے تابانہ کہنے لگی : " اچھا چلو ! میں اپنی آنکھوں سے دیدار کر لوں تو یقین ہوگا " اور جب اس نے اپنی آنکھوں سے چہرہ انور کی زیارت کرلی تو بولی : کل مصیبۃ بعدک جلل۔ جب آپ زندہ سلامت ہیں تو ہر مصیبت آسان ہے۔" ایک مرتبہ ایک آدمی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے اہل وعیال اور مال سب سے زیادہ محبوب ہیں، مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی ہے تو صبر نہیں آتا جب تک کہ یہاں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی نہیں کر لیتا۔ مگر اب تو یہی غم کھائے جاتا ہے کہ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوں گے، وہاں میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیسے کر سکیں گی۔ جب ہی یہ آیت نازل ہوئی : ومَنْ یُطِعِ ا وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلٰائکِ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ا عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰائِکَ رَفِیْقًا۔ (النساء ٦٩) " جو لوگ اللہ و رسول کا کہنا مانتے ہیں وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام ہیں یعنی نبی، صدیق، شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی صحبت بڑی غنیمت ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو یہ خوشخبری سنا دی۔ عبداللہ بن زید بن عبدربہ جو صاحب اذان کے لقب سے مشہور تھے اپنے باغ میں کام کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ان کے صاحبزادہ نے آکر پریشانی والی خبر سنائی کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرماگئے۔ عشق نبوی سے سر شار اور محبت رسول سے سر مست ، یہ صحابی اس جان گداز خبر کی تاب ضبط نہ لا سکے، بے تابانہ ہاتھ فضا میں بلند ہوئے اور زبان سے یہ حسرت ناک الفاظ نکلے : خداوندا اب مجھے بینائی کی دولت سے محروم کر دے تاکہ یہ آنکھیں جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف و منور ہوا کرتی تھیں اب کسی دوسرے کو نہ دیکھ سکیں (ترجمہ السنۃ)۔ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق کا وہی مقام حاصل تھا جو اس حدیث کا منشاء ہے اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ ایمان کی سلامتی اور اپنے اسلام میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت سے اپنے دل کو معمور کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے ہی کو مدار نجات جانے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار اتباع شریعت اور اتباع رسول ہے جو آدمی شریعت پر عمل نہیں کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر نہیں چلتا، وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نعوذ باللہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہے۔
[مظاھر حق شرح مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 6 (36575) ایمان کا بیان : درجات محبت]
3 - حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ ، خَيْرِهِ وَشَرِّهِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ ...رقم الحديث: 6809]
تشريح : ایمان بالقدر یہ ہے کہ اس بات پر یقین لایا جائے اور مانا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے (خواہ وہ خیر ہو یاشر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے؛ حتی کہ بندہ کے اختیاری افعال بھی اس کی مشیت اور حکمت وتقدیر کے تابع ہیں، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں کرتا، جن کو وہ پہلے ہی طے کرچکا ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دنیا کا یہ کارخانہ اس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی سے ہٹ کر چل رہا ہو، ایسا ماننے میں خدا کی انتہائی عاجزی اور بیچارگی لازم آئیگی۔ حوالہ: حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہ ہوگا جب تک کہ تقدیر پر ایمان نہ لائے، اس کی بھلائی پر بھی اور اس کی برائی پر بھی؛ یہاں تک کہ یقین کرے کہ جو بات واقع ہونے والی تھی وہ اس سے ہٹنے والی نہ تھی اور جو بات اس سے ہٹنے والی تھی وہ اس پر واقع ہونے والی نہ تھی۔
[ترمذی: "عن جابِرِ بنِ عبدِ اللہ قال قال رسول اللہﷺ لایؤمِن عبدٌ" الخ، وھذا حدیث غریب، باب ماجاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ، حدیث نمبر:۲۰۷۰]
تقدیر پر ایمان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ شخص کامیابی میں شکر کریگا اور ناکامی میں صبر کریگا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس آیت میں بتلایا "لِّکَیْلَاتَاْسَوْا عَلٰی مَافَاتَکُمْ وَلَاتَفْرَحُوْا بِمَااٰتٰکُمْ" (الحدید:۲۳) "تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر رنج نہ کرو اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے اس پر اتراؤ نہیں" لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تقدیر کا بہانہ کرکے شریعت کے موافق ضروری تدبیر کو بھی چھوڑ دے بلکہ یہ شخص تو کمزور تدبیر کو بھی نہ چھوڑیگا اور اس میں بھی امیدرکھے گا کہ خدا تعالیٰ اس میں بھی اثردے سکتا ہے اس لیے کبھی ہمت نہ ہاریگا، جیسے بعض لوگوں کو یہ غلطی ہوجاتی ہے اور دین تو بڑی چیز ہے، دنیا کے ضروری کاموں میں بھی کم ہمتی کی برائی حدیث میں آئی ہے؛ چنانچہ "عوف بن مالکؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ فرمایا تو ہارنے والا کہنے لگا "حَسْبِیَ اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْل" (مطلب یہ کہ خدا کی مرضی میری قسمت) حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کم ہمتی کو ناپسند فرماتا ہے؛ لیکن ہوشیاری سے کام لو (یعنی کوشش اور تدبیر میں کم ہمتی مت کرو) پھر جب کوئی کام تمہارے قابو سے باہر ہوجائے تب کہو "حَسْبِیَ اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْل"۔
(ابوداؤد، "عن عوفِ بنِ مالِک أَنہ حدثہم أَن النبِیﷺ قضی بین رجلینِ فقال المقضِیُ علیہِ"الخ، باب الرجل یحلف علی حقہ، حدیث نمبر: ۳۱۴۳)
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے؛
وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے.
الله کے نبی صلے الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جب الله تعالیٰ کسی بندے کی بھلائی اور خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو اپنی قسمت پر راضی کردیتے ہیں، اور اس قسمت میں اس کے لئے برکت بھی عطا فرماتے ہیں، اور جب کسی سے بھلائی کا ارادہ نہ فرمائیں (العياذ بالله)، اس کو اس کی قسمت پر راضی نہیں کرتے(یعنی اس کے دل میں قسمت پر اطمینان اور رضا پیدا نہیں ہوتی) اور (نتیجتاً جو حاصل ہے) اس میں بھی برکت نہیں ہوتی".[الزهد لنعيم بن حماد » بَابٌ فِي الرِّضَا بِالْقَضَاء، رقم الحديث: ١٣٣(١٢٧)؛ سنة الوفاة: ٢٢٨ھ]
***************************************
3 - حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ ، خَيْرِهِ وَشَرِّهِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ ...رقم الحديث: 6809]
ترجمہ : حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا تقدیر پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا خواہ وہ اچھی
ہو یا بری۔
تخريج الحديث
|
تشريح : ایمان بالقدر یہ ہے کہ اس بات پر یقین لایا جائے اور مانا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے (خواہ وہ خیر ہو یاشر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے؛ حتی کہ بندہ کے اختیاری افعال بھی اس کی مشیت اور حکمت وتقدیر کے تابع ہیں، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں کرتا، جن کو وہ پہلے ہی طے کرچکا ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دنیا کا یہ کارخانہ اس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی سے ہٹ کر چل رہا ہو، ایسا ماننے میں خدا کی انتہائی عاجزی اور بیچارگی لازم آئیگی۔ حوالہ: حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہ ہوگا جب تک کہ تقدیر پر ایمان نہ لائے، اس کی بھلائی پر بھی اور اس کی برائی پر بھی؛ یہاں تک کہ یقین کرے کہ جو بات واقع ہونے والی تھی وہ اس سے ہٹنے والی نہ تھی اور جو بات اس سے ہٹنے والی تھی وہ اس پر واقع ہونے والی نہ تھی۔
[ترمذی: "عن جابِرِ بنِ عبدِ اللہ قال قال رسول اللہﷺ لایؤمِن عبدٌ" الخ، وھذا حدیث غریب، باب ماجاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ، حدیث نمبر:۲۰۷۰]
تقدیر پر ایمان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ شخص کامیابی میں شکر کریگا اور ناکامی میں صبر کریگا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس آیت میں بتلایا "لِّکَیْلَاتَاْسَوْا عَلٰی مَافَاتَکُمْ وَلَاتَفْرَحُوْا بِمَااٰتٰکُمْ" (الحدید:۲۳) "تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر رنج نہ کرو اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے اس پر اتراؤ نہیں" لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تقدیر کا بہانہ کرکے شریعت کے موافق ضروری تدبیر کو بھی چھوڑ دے بلکہ یہ شخص تو کمزور تدبیر کو بھی نہ چھوڑیگا اور اس میں بھی امیدرکھے گا کہ خدا تعالیٰ اس میں بھی اثردے سکتا ہے اس لیے کبھی ہمت نہ ہاریگا، جیسے بعض لوگوں کو یہ غلطی ہوجاتی ہے اور دین تو بڑی چیز ہے، دنیا کے ضروری کاموں میں بھی کم ہمتی کی برائی حدیث میں آئی ہے؛ چنانچہ "عوف بن مالکؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ فرمایا تو ہارنے والا کہنے لگا "حَسْبِیَ اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْل" (مطلب یہ کہ خدا کی مرضی میری قسمت) حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کم ہمتی کو ناپسند فرماتا ہے؛ لیکن ہوشیاری سے کام لو (یعنی کوشش اور تدبیر میں کم ہمتی مت کرو) پھر جب کوئی کام تمہارے قابو سے باہر ہوجائے تب کہو "حَسْبِیَ اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْل"۔
(ابوداؤد، "عن عوفِ بنِ مالِک أَنہ حدثہم أَن النبِیﷺ قضی بین رجلینِ فقال المقضِیُ علیہِ"الخ، باب الرجل یحلف علی حقہ، حدیث نمبر: ۳۱۴۳)
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے؛
وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے.
الله کے نبی صلے الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جب الله تعالیٰ کسی بندے کی بھلائی اور خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو اپنی قسمت پر راضی کردیتے ہیں، اور اس قسمت میں اس کے لئے برکت بھی عطا فرماتے ہیں، اور جب کسی سے بھلائی کا ارادہ نہ فرمائیں (العياذ بالله)، اس کو اس کی قسمت پر راضی نہیں کرتے(یعنی اس کے دل میں قسمت پر اطمینان اور رضا پیدا نہیں ہوتی) اور (نتیجتاً جو حاصل ہے) اس میں بھی برکت نہیں ہوتی".[الزهد لنعيم بن حماد » بَابٌ فِي الرِّضَا بِالْقَضَاء، رقم الحديث: ١٣٣(١٢٧)؛ سنة الوفاة: ٢٢٨ھ]
***************************************
حقوق العباد کا خلاصہ
4 - حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ ، حَتَّى يُحِبَّ لِلنَّاسِ ، مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ، وَحَتَّى يُحِبَّ الْمَرْءَ ، لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ .
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ لوگوں (مسلم اور کافر) کے لئے وہی (چیز یا بات) پسند نہ کرنے لگے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور کسی انسان سے اگر محبت کرے تو صرف اللہ کی رضاء کے لئے کرے"۔
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ ، أَوَ قَالَ لِجَارِهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مِنْ خِصَالِ الإِيمَانِ ... رقم الحديث: 67]
ترجمہ : حضرت انس بیان کرتے ہیں نے ارشاد فرمایا: "کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے"۔
تخريج الحديث
|
***************************************
5 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ : حَتَّى يَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ، بَعَثَنِي بِالْحَقِّ ، وَحَتَّى يُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَحَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ ... رقم الحديث: 739]
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک چار چیزوں پر ایمان نہ لے آئے، اللہ پر ایمان لے آئے اور یہ کہ اس نے مجھے برحق نبی بنا کر بھیجا ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔
الشواهد
|
***************************************
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے تمہارے درمیان جس طرح تمہارے رزق تقسیم فرمائے ہیں، اسی طرح اخلاق بھی تقسیم فرمائے ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دے دیتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں اور اسے بھی جس سے محبت نہیں کرتے، لیکن دین اسی کو دیتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں اس لئے جس شخص کو اللہ نے دین عطاء فرمایا ہو، وہ سمجھ لے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل اور زبان دونوں مسلمان نہ ہو جائیں اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے پڑوسی اس کے " بوائق" سے محفوظ و مامون نہ ہوں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ " بوائق" سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ظلم و زیادتی، اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو حرام مال کمائے اور اس میں سے خرچ کرے پھر اس میں برکت بھی ہو جائے یا وہ صدقہ خیرات کرے تو وہ قبول بھی ہوجائے اور وہ اپنے پیچھے جو کچھ بھی چھوڑ کر جائے گا اس سے جہنم کی آگ میں مزید اضافہ ہوگا، اللہ تعالیٰ گناہ کو گناہ سے نہیں مٹاتا، وہ تو گناہ کو اچھا ئی اور نیکی سے مٹاتا ہے، گندگی سے گندگی نہیں دور ہوتی۔
[مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1750 (49759) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرویات]
تخريج الحديث
|
الشواهد
|
***************************************
7 - حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْوَاسِطِيُّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا يَسْتَكْمِلُ عَبْدٌ حَقِيقَةَ الإِيمَانِ حَتَّى يَدَعَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا ، وَيَدَعَ كَثِيرًا مِنَ الْحَدِيثِ مَخَافَةَ الْكَذِبِ " .
[ذم الغيبة والنميمة لابن أبي الدنيا » رقم الحديث: 1]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ نہ دے اور سچا ہونے کے باوجود جھگڑا ختم نہ کردے۔
تخريج الحديث
|
***************************************
8 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْبَاقِي بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْهَرَوِيُّ ، بِبَغْدَادَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَسْطَامِيَّ أَخْبَرَهُمْ ، أنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْخَلِيلِيُّ ، أناعَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الْخُزَاعِيُّ ، أنا الْهَيْثَمُ بْنُ كُلَيْبٍ الشَّاشِيُّ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْوَرَّاقُ ، نا عَفَّانُ ، نا زُهَيْرٌ ، نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَرْمَلَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَالِبٍيُحَدِّثُ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَبَاحَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ ، يَقُولُ : حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي أَنَّهَا سَمِعَتْ أَبَاهَا يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا صَلاةَ لِمَنْ لا وُضُوءَ لَهُ ، وَلا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ، وَلا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ مَنْ لا يُؤْمِنُ بِي ، وَلا يُؤْمِنُ بِي مَنْ لا يُحِبُّ الأَنْصَارَ " .
[الأحاديث المختارة » آخَرُ » مُسْنَدُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلِ ...رقم الحديث: 1020]
رباح بن عبدالرحمن اپنی دادی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس کا وضو نہ ہو اور اس شخص کا وضو نہیں ہوتا جو اس میں اللہ کا نام نہ لے اور وہ شخص اللہ پر ایمان رکھنے والا نہیں ہوسکتا جو مجھ پر ایمان نہ لائے اور وہ شخص مجھ پر ایمان رکھنے والا نہیں ہوسکتا جو انصار سے محبت نہ کرے۔
تخريج الحديث
|
No comments:
Post a Comment