القرآن:
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
[سورۃ التوبہ:97]
ترجمہ:
ترجمہ:
گنوار (دیہاتی) بہت سخت ہیں کفر میں اور نفاق میں اور اسی لائق ہیں کہ نہ سیکھیں وہ قاعدے جو نازل کیے اللہ نے اپنے رسول پر ، اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔
تفسیر ابن کثیر:- دیہات، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار و منافق بھی ہیں اور مومن مسلمان بھی ہیں ۔ لیکن کافروں اور منافقوں کا کفر و نفاق نہایت سخت ہے۔ ان میں اس بات کی مطلقاً اہلیت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدوں کا علم حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمائی ہیں ۔ چنانچہ ایک اعرابی حضرت زید بن صوحان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت یہ اس مجلس میں لوگوں کو کچھ بیان فرما رہے تھے۔ نہاوند والے دن انکا ہاتھ کٹ گیا تھا۔ اعرابی بول اٹھا کہ آپ کی باتوں سے تو آپ کی محبت میرے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ لیکن آپ کا یہ کٹا ہوا ہاتھ مجھے اور ہی شبہ میں ڈالتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کیا شک ہوا یہ تو بایاں ہاتھ ہے۔ تو اعرابی نے کہا واللہ مجھے نہیں معلوم کہ دایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا بایاں؟ انہوں نے فرمایا اللہ عزوجل نے سچ فرمایا کہ اعراب بڑے ہی سخت کفر ونفاق والے اور اللہ کی حدوں کے بالکل ہی نہ جاننے والے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے"جو بادیہ نشین ہوا اس نے غلط و جفا کی۔ اور جو شکار کے پیچھے پڑ گیا اس نے غفلت کی۔ اور جو بادشاہ کے پاس پہنچا وہ فتنے میں پڑا"۔ ابو داؤد ترمذی اور نسانی میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں چونکہ صحرا نشینوں میں عموماً سختی اور بدخلقی ہوتی ہے، اللہ عزوجل نے ان میں سے کسی کو اپنی رسالت کے ساتھ ممتاز نہیں فرمایا بلکہ رسول ہمیشہ شہری لوگ ہوتے رہے۔ جیسے فرمان اللہ ہے۔ (آیت وما ارسلنا من قبلک الا رجلا نوحی الیھم من اھل القری) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب انسان مرد تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے تھے وہ سب متمدن بستیوں کے لوگ تھے۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہدیہ پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہدیہ سے کئی گناہ زیادہ انعام دیا جب جا کر بمشکل تمام راضی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب سے میں نے قصد کیا ہے کہ سوائے قریشی، ثقفی، انصاری یا دوسی کے کسی کا تحفہ قبول نہ کروں گا۔ یہ اس لئے کہ یہ چاروں شہروں کے رہنے والے تھے۔ مکہ، طائف، مدینہ اور یمن کے لوگ تھے، پس یہ فطرتاً ان بادیہ نشینوں کی نسبت نرم اخلاق اور دور اندیش لوگ تھے، ان میں اعراب جیسی سختی اور کھردرا پن نہ تھا۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ایمان و علم عطا فرمائے جانے کا اہل کون ہے؟ وہ اپنے بندوں میں ایمان و کفر، علم وجہل، نفاق و اسلام کی تقسیم میں باحکمت ہے۔ اس کے زبردست علم کی وجہ سے اس کے کاموں کی بازپرس اس سے کوئی نہیں کر سکتا۔ اور اس حکمت کی وجہ سے اس کا کوئی کام بےجا نہیں ہوتا۔ ان بادیہ نشینوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ کے خرچ کو ناحق اور تاوان اور اپنا صریح نقصان جانتے ہیں اور ہر وقت اسی کے منتظر رہتے ہیں کہ تم مسلمانوں پر کب بلا و مصیبت آئے، کب تم حوادث و آفات میں گھر جاؤ لیکن ان کی یہ بد خواہی انہی کے آگے آئے گی، انہی پر برائی کا زوال آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور خوب جانتا ہے کہ مستحق امداد کون ہے اور ذلت کے لائق کون ہے۔ دعاؤں کے طلبگار متبع ہیں، مبتدع نہیں اعراب کی اس قوم کو بیان فرما کر اب ان میں سے بھلے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں آخرت کو مانتے ہیں ۔ راہ حق میں خرچ کر کے اللہ کی قربت تلاش کرتے ہیں، ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے ہیں ۔ بیشک ان کو اللہ کی قربت حاصل ہے۔ اللہ انہیں اپنی رحمتیں عطا کر دے گا۔ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ |
وَقَالَ عَلِيٌّ :" حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذٍ، عَنْأَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ عَلِيٍّ بِذَلِكَ .
ترجمہ :
حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ لوگوں سے وہی حدیث بیان کرو جس کو وہ سمجھ سکیں کیا تم اس بات کو اچھا سمجھتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 129 - علم کا بیان : جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم) کے لئے مخصوص کرلیا، یہ خیال کر کے کہ یہ لوگ بغیر تخصیص کے پورے طور پر نہ سمجھیں گے، تو اس مصلحت سے اس کا یہ فعل مستحسن ہے]
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 129 - علم کا بیان : جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم) کے لئے مخصوص کرلیا، یہ خیال کر کے کہ یہ لوگ بغیر تخصیص کے پورے طور پر نہ سمجھیں گے، تو اس مصلحت سے اس کا یہ فعل مستحسن ہے]
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ ... رقم الحديث: 125]
المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم:3693- خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم:3693- خلاصة حكم المحدث: حسن
تخريج الحديث
|
وحَدَّثَنِي أَبُو طَاهِرٍ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ : مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا ، لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ ، إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً.
ترجمہ:
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ جب تم لوگوں سے ایسی احادیث بیان کروگے جہاں ان کی عقول نہ پہنچ سکیں تو بعض لوگوں کے لئے یہ فتنہ کا باعث بن جائے گی یعنی وہ گمراہ ہو جائیں گے اس لئے ہر شخص سے اس کی عقل کے موافق بات کرنے چاہئے۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 16 - مقدمہ مسلم ]
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
المحدث: العيني - المصدر: عمدة القاري - الصفحة أو الرقم: 2/308
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
تخريج الحديث
|
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَالْقَاسِمُ بْنُ سَلامٍ ، قَالا : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو ثَوْبَانَ ، عَمَّنْ سَمِعَ الضَّحَّاكَ ، يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَدِّثْ إِذَا حُدِّثْتَ ، إِلا أَنْ تَجِدَ قَوْمًا تُحَدِّثُهُمْ بِشَيْءٍ لا تَضْبِطُهُ عُقُولُهُمْ فَيَكُونَ ذَلِكَ فِتْنَةً لِبَعْضِهِمْ " . قَالَ : فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُخْفِي أَشْيَاءَ وَيُفْشِيهَا إِلَى أَهْلِ الْعِلْمِ .
ترجمہ:
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: جب میں حدیث بیان کروں تو وہ تم بھی بیان کرو، جب تکہ کہ تم پاؤ ایسی قوم جن کی عقلیں ضبط نہ کرسکیں ان چیزوں کو جو تم بیان کرو۔
لہٰذا حضرت ابن عباس بعض باتیں مخفی رکھتے تھے اور ظاہر کرتے تھے وہ باتیں علم والوں سے۔
تخريج الحديث
|
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا حَدَّثْتُمُ النَّاسَ عَنْ رَبِّهِمْ ، فَلا تُحَدِّثُوهُمْ بِمَا يَغْرُبُ عَلَيْهِمْ ، وَيَشُقُّ عَلَيْهِمْ " .
ترجمہ : حضرت مقدام بن معدی کرب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم لوگوں کو کوئی حدیث (بات) بیان کرو تو ان کو ایسی حدیث (بات) بیان نہ کرو جو غائب ہو اور ان پر مشقت ہو.(شعب الایمان، للبیہقی : ٢/٢٧٨، اردو مترجم)
تخريج الحديث
|
قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ : " رَوِّحُوا الْقُلُوبَ ، وَابْتَغُوا لَهَا طُرَفَ الْحِكْمَةِ فَإِنَّهَا تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ " .
[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب » بَابُ : اتِّخَاذِ الْمُسْتَمْلِي » ختم المجلس بالحكايات ومستحسن النوادر والإنشاداترقم الحديث: 1417]
[أدب الإملاء والاستملاء لابن السمعاني » وَيَخْتِمُ الْمَجْلِسَ بِالْحِكَايَاتِ وَالنَّوَادِرِ ... رقم الحديث: 81]
عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " رَوِّحُوا الْقُلُوبَ سَاعَةً بِسَاعَةٍ " . " اعتموا تزدادوا حلما " .
[مسند الشهاب » الْجُزْءُ الثَّالِثُ مِنْ كِتَابِ مُسْنَدِ الشِّهَابِ ... » الْبَابُ الثَّانِي » مَنْ يَزْرَعْ خَيْرًا يَحْصُدْ رَغْبَةً ، وَمَنْ يَزْرَعْ ... رقم الحديث: 633]
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ ، ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، ثنا جَرِيرٌ ، ثنا سَلْمَانُ بْنُ مُسْهِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ كَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ ، يَقُولُ : " لا تُحَدِّثْ بِالْحِكْمَةِ عِنْدَ السُّفَهَاءِ فَيُكَذِّبُوكَ ، وَلا تُحَدِّثْ بِالْبَاطِلِ عِنْدَ الْحُكَمَاءِ فَيَمْقُتُوكَ ، وَلا تَمْنَعِ الْعِلْمَ أَهْلَهُ فَتَأْثَمَ ، وَلا تُحَدِّثْ بِهِ غَيْرَ أَهْلِهِ فَتُجَهَّلَ ، إِنَّ عَلَيْكَ فِي عِلْمِكَ حَقًّا ، إِنَّ عَلَيْكَ فِي مَالِكَ حَقًّا " .
[شعب الإيمان للبيهقي » الثَّامِنَ عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ... رقم الحديث: 1629]
ترجمہ : حضرت کثیر بن مرہ حضرمی سے روایت ہے کہ : مت حدیث (بات) بیان کرو حکمت کی بیوقوفوں کے پاس (اس لئے کہ) پس وہ تمہیں جھٹلائیں گے ، اور مت جھوٹی حدیث (بات) بیان کرو حکماء کے پاس (اس لئے کہ) پس وہ تم پر سخت ناراض ہوں گے ، اور نہ منع کرو علم کو اس (علم) کے مستحق (اس لئے کہ) پس آپ گنہگار ہوجائیں گے ، اور مت حدیث (بات) بیان کرو ورنہ آپ خود جاہل ہوجائیں گے ، بیشک تیرے اوپر تیرے علم کے بارے میں حق ہے ، اور بیشک تیرے اوپر تیرے مال میں بھی حق ہے.(شعب الایمان، للبیہقی : ٢/٢٧٨، اردو مترجم)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ، وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ ، وَاللُّؤْلُؤَ ، وَالذَّهَبَ " .
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے اور نا اہل کو علم دینے والا سوروں کی گردن میں جواہر، موتی اور سونے کا قلادہ (ہار) پہنانے والے کی طرح ہے۔
فقه الحديث: مسائل ضروریہ کا حصول فرض عین ہے، مَثَلاً : مجاہد کو جہاد کے مسائل کا جاننا اور تاجر کو خرید و فروخت کے مسائل ، نمازی کو نماز و طہارت کے مسائل ، نکاح کرنے والے کو ازدواجی زندگی سے متعلق مسائل پر واقفیت حاصل کرنا فرض عین ہے.
اس حدیث مبارکہ میں ایک عمدہ مثال سے یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ جو علم کے لائق ہیں ان کو (گہری علمی باتیں) سکھاؤ ، جو علم دین حاصل کرکے اس پر عمل کرے ، آگے انسانوں تک پہنچاۓ اور دین کی خدمات کرے. ایسے (نالائق) شخص کو ہرگز علم دین نہ سکھائیں جو بدعتی ہو ، علم دین حاصل کرکے علماء اور (تحریف دین کے سبب) اسلام کا دشمن بنے.
اس حدیث سے دو نکتے تقلید کے متعلق ملتے ہے:
اس حدیث مبارکہ میں ایک عمدہ مثال سے یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ جو علم کے لائق ہیں ان کو (گہری علمی باتیں) سکھاؤ ، جو علم دین حاصل کرکے اس پر عمل کرے ، آگے انسانوں تک پہنچاۓ اور دین کی خدمات کرے. ایسے (نالائق) شخص کو ہرگز علم دین نہ سکھائیں جو بدعتی ہو ، علم دین حاصل کرکے علماء اور (تحریف دین کے سبب) اسلام کا دشمن بنے.
اس حدیث سے دو نکتے تقلید کے متعلق ملتے ہے:
١) عربی لفظ ((مقلد)) کی حدیث میں معنى ہار پہنانے-والا ہے.
٢) جو اس علمی ہار کے پہننے کے لائق نہیں، انھیں خنازیر یعنی سوّر سے تشبیہ دی گئی ہے .
تنبيه: صحاح ستہ (صحیح احادیث کی چھ مشہور کتابوں) میں موجود ابن_ماجہ کی اس حدیث کو جو غیر-مقلد اہل_حدیث ضعیف کہیں، جب کے ان کا دعوا اور دعوت الله اور رسول صلے الله علیہ وسلم کو ہی ماننے کا ہے، تو ان کو چاہیے کے کسی بھی حدیث کا صحیح/ضعیف ہونا بھی الله اور رسول صلے الله علیہ وسلم سے ہی ثابت کریں؟ ان کے علاوہ اپنے یا کسی اور کے قول سے جواب دینا ان کے اپنے ہی فرقے کے دعوے/دعوت کی کمزوری اور بے-بنیاد ہونے کی دلیل ثابت ہوگی!!!
سمجھنے کو تو وہ سب داستان_غم سمجھتے ہیں؛
جو مطلب کہنے والے کا ہے اس کو کم سمجھتے ہیں.
١٣) عبد الرحمن بن صخر [مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » رقم الحديث: 29]
٢) عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ [مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » رقم الحديث: 28]
٢) عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ [مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » رقم الحديث: 28]
٣) عبد الله بن عمر [العلل المتناهية لابن الجوزي » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ فَرْضِ طَلَبِ الْعِلْمِ، رقم الحديث: 51]
٤) ابْنِ عَبَّاسٍ [العلل المتناهية لابن الجوزي » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ فَرْضِ طَلَبِ الْعِلْمِ، رقم الحديث: 56]
٥) سعد بن مالك [العلل المتناهية لابن الجوزي » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ فَرْضِ طَلَبِ الْعِلْمِ، رقم الحديث: 57]
٦) أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ [العلل المتناهية لابن الجوزي » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ فَرْضِ طَلَبِ الْعِلْمِ، رقم الحديث: 72]
٧) علي بن أبي طالب [العلل المتناهية لابن الجوزي » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ فَرْضِ طَلَبِ الْعِلْمِ، رقم الحديث: 49]
٨) حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ [المعجم الأوسط للطبراني » بَابُ الْأَلِفِ » مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ، رقم الحديث: 2074]
***************************************************
آخر کیوں؟
القرآن: فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا = سورہ نساء78
انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں
بَلْ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا = سورہ فتح 15
بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں۔
وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ = سورہ المنافقون۔(7
مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں۔
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ [ سورہ اعراف ١٧٩]
اور ہم نے پیدا کیے دوزخ کے واسطے بہت سے جن اور آدمی (4) ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ وہی لوگ ہیں غافل (5)
تفسیر:
ف٤ یہ آیت بظاہر آیہ (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ) 51۔ الذاریات:56) کے معارض معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے بعض مفسرین نے وہاں لیعبدون میں لام غایت اور یہاں لجہنم میں لا عاقبت مراد لیا ہے یعنی سب کے پیدا کرنے سے مطلوب اصلی تو عبادت ہے لیکن بہت سے جن وانس چونکہ اس مطلب کو پورا نہ کریں گے اور انجام کار دوزخ میں بھیجے جائیں گے۔ اس انجام کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ گویا وہ دوزخ ہی کے لیے پیدا ہوئے۔ کما فی قولہ تعالیٰ (فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا) 28۔ القصص:8) ۔ باقی محققین کے نزدیک اس تکلف کی حاجت نہیں۔ وہ دونوں جگہ "لام غایت" ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ مگر "لِیَعْبُدُوْنَ" میں "غایت تشریعی" اور یہاں لِجَہَنَّمَ میں "غایت تکوینی" بیان کی گئی ہے۔
ف ٥ یعنی دل، کان، آنکھ سب کچھ موجود ہیں لیکن نہ دل سے "آیات اللہ" میں غور کرتے ہیں نہ قدرت کے نشانات کا بنظر تعمق و اعتبار مطالعہ کرتے ہیں۔ اور نہ خدائی باتوں کو بسمع قبول سنتے ہیں۔ جس طرح چوپائے جانوروں کے تمام ادراکات صرف کھانے پینے اور بہیمی جذبات کے دائرہ میں محدود رہتے ہیں۔ یہ ہی حال ان کا ہے کہ دل و دماغ، ہاتھ پاؤں، کان آنکھ غرض خدا کی دی ہوئی سب قوتیں محض دنیاوی لذائذ اور مادی خواہشات کی تحصیل و تکمیل کے لیے وقف ہیں۔ انسانی کمالات اور ملکوتی خصائل کے اکتساب سے کوئی سروکار نہیں بلکہ غور کیا جائے تو ان کا حال ایک طرح چوپائے جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ جانور مالک کے بلانے پر چلا آتا ہے، اس کے ڈانٹنے سے رک جاتا ہے۔ یہ کبھی مالکِ حقیقی کی آواز پر کان نہیں دھرتے، پھر جانور اپنے فطری قویٰ سے وہ ہی کام لیتے ہیں جو قدرت نے ان کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ زیادہ کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ لیکن ان لوگوں میں روحانی و عرفانی ترقیات کی جو فطری قوت واستعداد و دیعت کی گئی تھی، اسے مہلک غفلت اور بےراہ روی سے خود اپنے ہاتھوں ضائع معطل کر دیا گیا۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ ۭ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ۭ وَاِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ يَّهْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا = سورہ الکہف 57
اور اس سے زیادہ ظالم کون جس کو سمجھایا اس کے رب کے کلام سے پھر منہ پھیر لیا اس کی طرف سے اور بھول گیا جو کچھ آگے بھیج چکے ہیں اس کے ہاتھ ف١ ہم نے ڈال دیے ہیں ان کے دلوں پر پردے کہ اس کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں ہے بوجھ اور اگر تو ان کو بلائے راہ پر تو ہرگز نہ آئیں راہ پر اس وقت کبھی ف٢
تفسیر:
ف١ یعنی کبھی بھول کر بھی خیال نہ آیا کہ تکذیب حق اور استہزاء و تمسخر کا جو ذخیرہ آگے بھیج رہا ہے اس کی سزا کیا ہے۔
ف٢ یعنی ان کے جدال بالباطل اور استہزاء بالحق کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے اور کانوں میں ڈاٹ ٹھونک دی۔ اب نہ حق کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں بالکل مسخ ہوگئے۔ پھر حق کی طرف متوجہ ہوں تو کیسے ہوں اور انجام کا خیال کریں تو کیسے کریں۔ ایسے بدبختوں کے راہ پر آنے کی کبھی توقع نہیں۔
=======================================
3 - علم کا بیان : (78)
اس شخص کا بیان جس نے بعض جائز چیزوں کو اس خوف سے ترک کر دیا کہ بعض نا سمجھ لوگ اس سے زیادہ سخت بات میں مبتلا ہو جائیں گے
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 127 حدیث مرفوع مکررات 31 متفق علیہ 21 بدون مکرر
عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، ابواسحاق اسود کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن زبیر نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اکثر تم سے راز کی باتیں کہا کرتیں تھیں، تو بتاؤ کہ کعبہ کے بارہ میں تم سے انہوں نے کیا حدیث بیان کی ہے؟ میں نے کہا مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ اگر تمہاری قوم (جاہلیت سے) قریب العہد نہ ہوتی، ابن زبیر کہتے ہیں کہ کفر سے (قریب العہد ہونا مراد ہے) تو میں بے شک کعبہ کو توڑ کر اس کے لئے دو دروازے بناتا ایک دروازہ کہ جس سے لوگ (کعبہ کے اندر) داخل ہوتے اور ایک وہ دروازہ کہ جس سے لوگ باہر نکلتے، تو ابن زبیر نے (یہ سن کر) ایسا کر دیا۔
*********************
17 - حج کا بیان : (608)
کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 747 حدیث مرفوع مکررات 31 متفق علیہ 21
یحیی بن یحیی، ابومعاویہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کے لوگوں نے نیا نیا کفر چھوڑ کر اسلام قبول نہ کیا ہوتا تو میں بیت اللہ کو توڑتا اور اسے حضرت ابراہیم کی بنیادوں پر بناتا کیونکہ قریش نے جس وقت بیت اللہ کو بنایا تو اسے کم (چھوٹا) کر دیا اور میں اس کے پیچھے بھی دروازہ بناتا۔
*********************
6 - مناسک حج کا بیان : (323)
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 263 حدیث مرفوع مکررات 31 بدون مکرر
قعنبی، عبدالعزیز، علقمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں خانہ کعبہ کے اندر جا کر نماز پڑھنا چاہتی تھی پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر حطیم میں داخل کر دیا اور فرمایا جب تو کعبہ کے اندر جانا چاہے تو حطیم میں نماز پڑھ لے کیونکہ وہ خانہ کعبہ کا ہی ایک حصہ ہے پس تیری قوم نے (قریش نے) کوتاہی کی جب انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اسکو کعبہ سے خارج کر دیا۔
********************
23 - میقاتوں سے متعلق احادیث : (435)
خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 812 حدیث مرفوع مکررات 31 بدون مکرر
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن محمد بن ابوبکر صدیق، عبداللہ بن عمر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں نے جس وقت خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پایوں (یعنی عمارت کے پایوں سے) کم پائے تیار کئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پایوں تک پہنچا دیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا کفر کا زمانہ (چھوڑے ہوئے زیادہ عرصہ) نہ ہوتا تو میں بنا دیتا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے تو یہی وجہ ہے کہ حجر اسود کے علاوہ دوسرے دو پتھروں کو بوسہ نہ دینے کی بھی وجہ ہے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی بنیادوں پر نہیں ہے۔
*********************
9 - حج کا بیان : (166)
حطیم میں نماز پڑھنا
جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 865 حدیث مرفوع مکررات 31 بدون مکرر
قتیبہ، عبدالعزیز، علقمہ بن ابی علقمہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں چاہتی تھی کہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز پڑھوں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں لے گئے پھر فرمایا حطیم میں نماز پڑھو، اگر تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہتی ہو تو یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے لیکن تمہاری قوم نے کعبہ کى تعمیر کے وقت تعظیم کی اسے چھوڑ دیا اور اسے کعبہ سے نکال دیا، امام ترمذی مراد علقہ بن بلال ہیں۔
*********************
27 - حج کا بیان : (238)
حطیم کو طواف میں شامل کرنا (یعنی حطیم سے باہر طواف کرنا)۔
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 1115 حدیث مرفوع مکررات 31 بدون مکرر
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبیداللہ بن موسی، سفیان بن ابی شعثاء، اسود بن یزید، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حطیم کے متعلق دریافت کیا فرمایا یہ بیت اللہ کا حصہ ہے میں نے عرض کیا پھر لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہ کیا فرمایا ان کے پاس (حلال مال میں سے) خرچہ نہ تھا میں نے عرض کیا کہ پھر بیت اللہ کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ سیڑھی کے بغیر چڑھا نہیں جاسکتا۔ فرمایا یہ بھی تمہاری قوم نے اسی لئے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور چاہیں اندر جانے سے روک دیں اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر قریب نہ ہوتا (یعنی نومسلم نہ ہوتی) اور یہ ڈر نہ ہوتا کہ ان کے دل دور نہ ہو جائیں تو میں اس بات پر غور کرتا کہ کیا میں تبدیلی لاؤں اس میں پھر میں جو کمی ہے وہ پوری کروں اور اسکا دروازہ زمین پر کر دیتا۔
============================================
3 - علم کا بیان : (78)
جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم) کے لئے مخصوص کرلیا، یہ خیال کر کے کہ یہ لوگ بغیر تخصیص کے پورے طور پر نہ سمجھیں گے، تو اس مصلحت سے اس کا یہ فعل مستحسن ہے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ لوگوں سے وہی حدیث بیان کرو جس کو وہ سمجھ سکیں کیا تم اس بات کو اچھا سمجھتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے ؟
اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادہ، انس بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ (بن جبل) انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک آپ نے فرمایا کہ اے معاذ انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا) آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا خدا کے کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اللہ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔ معاذ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کردوں؟ تاکہ وہ خوش ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ اس وقت جب کہ تم خبر کر دوگے لوگ (اسی پر) بھروسہ کرلیں گے اور عمل سے باز رہیں گے۔ معاذ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت اس خوف سے بیان کردی کہ کہیں (حدیث کے چھپانے پر ان سے) مواخذہ نہ ہوجاۓ
*********************
2 - ایمان کا بیان : (438)
جو شخص عقیدہ تو حید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 146 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 13
*********************
11 - جہاد کا بیان : (309)
دمی اپنے جانور کا نام رکھ سکتا ہے
سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 794 حدیث مرفوع مکررات 17 بدون مکرر
*********************
37 - ایمان کا بیان : (40)
امت میں افتراق کے متعلق
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 552 حدیث مرفوع مکررات 17 بدون مکرر
*********************
38 - زہد کا بیان : (243)
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1176 حدیث مرفوع مکررات 17 بدون مکرر
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان،
اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو
آنحضرت ﷺ
اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی
جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ
عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ کُنْتُ أُقْرِئُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَلَمَّا
کَانَ آخِرُ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بِمِنًی لَوْ
شَهِدْتَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَاهُ رَجُلٌ قَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقُولُ
لَوْ مَاتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَبَايَعْنَا فُلَانًا فَقَالَ عُمَرُ
لَأَقُومَنَّ الْعَشِيَّةَ فَأُحَذِّرَ هَؤُلَائِ الرَّهْطَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ
أَنْ يَغْصِبُوهُمْ قُلْتُ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ
النَّاسِ يَغْلِبُونَ عَلَی مَجْلِسِکَ فَأَخَافُ أَنْ لَا يُنْزِلُوهَا عَلَی
وَجْهِهَا فَيُطِيرُ بِهَا کُلُّ مُطِيرٍ فَأَمْهِلْ حَتَّی تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ
دَارَ الْهِجْرَةِ وَدَارَ السُّنَّةِ فَتَخْلُصَ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ
صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ
فَيَحْفَظُوا مَقَالَتَکَ وَيُنْزِلُوهَا عَلَی وَجْهِهَا فَقَالَ وَاللَّهِ
لَأَقُومَنَّ بِهِ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ قَالَ ابْنُ
عَبَّاسٍ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّی
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْکِتَابَ فَکَانَ
فِيمَا أُنْزِلَ آيَةُ الرَّجْمِ
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2225 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 4]
موسی بن اسماعیل، عبدالواحد، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ ، حضرت ابن عباس رضی
اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں عبدالرحمن بن عوف
کو (قرآن) پڑھایا کرتا تھا، جب حضرت عمر ؓ نے آخری حج کیا تو عبدالرحمن نے منیٰ میں
کہا کہ کاش تم امیرالمومنین کے پاس حاضر ہوتے ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے بیان
کیا کہ فلاں آدمی کہتا ہے کہ اگر امیرالمومنین انتقال کر جائیں تو ہم فلاں شخص کے
ہاتھ پر بیعت کر لیں، حضرت عمر نے کہا کہ آج شام کو کھڑے ہو کر ان لوگوں کو ڈراؤں
گا، جو (مسلمانوں کے حق کو) غصب کرنا چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ ایسا نہ کریں اس
لئے کہ حج کا موسم ہے آپ کی مجلس میں زیادہ تر عام لوگ ہوں گے مجھے ڈر ہے کہ وہ
لوگ اس کو سن کر صحیح مقام پر نہ رکھیں گے اور ہر طرف لے کر اڑیں گے (یعنی ان کی
اشاعت کریں گے) اس لئے آپ انتظار کریں یہاں تک کہ دارالہجرۃ اور دارالسنۃ یعنی مدینہ
پہنچ کر آپ صرف رسول اللہ ﷺ کے اصحاب یعنی مہاجرین اور انصار کو جمع کر کے کہیں وہ لوگ آپ کی
گفتگو کو یاد رکھیں گے اور صحیح مقام پر رکھیں گے، حضرت عمر نے فرمایا کہ اللہ کی
قسم میں مدینہ میں پہنچتے ہی سب سے پہلے یہی کہوں گا، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ
ہم لوگ مدینہ پہنچے تو حضرت عمر ؓ نے (خطبہ دیا) کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ
مبعوث فرمایا اور آپ ﷺ کی کتاب نازل کی ہے اور جو آیات نازل ہوئیں ان ہی میں سے سنگسار
کرنے کی آیت بھی ہے۔
=============================================
القرآن : عادت کر درگزر کی اور حکم کر نیک کام کرنے کا اور کنارہ کر جاہلوں سے- (سورہ اعراف:199 )جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرمالیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔آنکھیں ہیں گر بند تو دن بھی رات ہے،=اس میں بھلا کیا قصورہے آفتاب کا.آدمیت کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور چیز؛=کتنا ہی طوطے کو پڑھایا مگر وہ حیواں کا حیواں ہی رہا.
اور بندے رحمان کے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر دبے پاؤں اور جب بات کرنے لگیں ان سے بےسمجھ لوگ تو کہیں صاحب سلامت (25:63
=======================
القرآن : اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ (التوبہ : 97)
ترجمہ : گنوار (دیہاتی) بہت سخت ہیں کفر میں اور نفاق میں اور اسی لائق ہیں کہ نہ سیکھیں وہ قاعدے جو نازل کیے اللہ نے اپنے رسول پر (ف ٤) اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے (ف ٥)
(ف٤) یہاں تک مدینہ کے منافقین اور مومنین مخلصین کے احوال بیان ہوئے تھے۔ اب کچھ حال دیہاتی بدؤوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ان میں بھی کئی طرح کے آدمی ہیں ۔ کفار، منافقین اور مخلص مسلمان چونکہ دیہاتی لوگ قدرتی طور پر عموماً تندخو اور سخت مزاج ہوتے ہیں (جیساکہ حدیث میں ہے "مَنْ سَکَنَ الْبَادِیَۃَ جَفَا) " اور مجالس علم و حکمت سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی کا اثر اور علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں، ان کا کفرو نفاق شہری کفار و منافقین سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ان کو ایسے مواقع دستیاب نہیں ہوتے کہ اہل علم و صلاح کی صحبت میں رہ کر دیانت و تہذیب کے وہ قانون اور قاعدے معلوم کریں جو خدا تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے۔ علم و معرفت ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتی اور مہذب بناتی ہے۔ جو لوگ اس قدر جہالت میں غرق ہیں، ضرور ہے کہ ان کے دل سخت ہوں اور کفر و نفاق کے جس راستہ پر پڑ جائیں، بہائم اور درندوں کی طرح اندھا دھند بڑھے چلے جائیں ۔ اعراب کی سنگدلی کا ذکر متعدد احادیث میں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی اعرابی نے حضور سے عرض کیا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کا پیار لیتے ہیں، خدا کی قسم میں نے کبھی اپنی اولاد کا پیار نہیں لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کیا کروں اگر خدا نے تیرے دل میں سے اپنی رحمت کو نکال لیا ہے۔
(ف ٥) یعنی اس کا علم بنی آدم کے تمام طبقات پر محیط ہے، وہ اپنی حکمت سے ہر ایک طبقہ کے ساتھ اس کی استعداد و قابلیت کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "اعراب کی طبیعت میں بےحکمی، غرض پرستی، اور جہالت شدید ہوتی ہے، سو اللہ حکمت والا ہے ان سے وہ مشکل کام بھی نہیں چاہتا اور درجے بلند بھی نہیں دیتا۔"
خلاصہ تفسیر :
(ان منافقین میں جو ) دیہاتی ( ہیں وہ ) لوگ ( بوجہ سخت مزاجی کے) کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ( بوجہ بعد علماء و عقلاء کے ) ان کو ایسا ہونا ہی چاہئے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل فرمائے ہیں ( کیونکہ جب جاننے والوں سے دور دور رہیں گے تو ان کا جاہل رہنا تو اس کا لازمی نتیجہ ہے، اور اسی وجہ سے مزاج میں سختی اور مجموعہ سے کفر و نفاق میں شدت ہوگی ) اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں، وہ ان سب امور پر مطلع ہیں اور حکمت سے مناسب سزا دیں گے ) اور ان ( مذکورہ منافقیں ) دیہاتیوں میں سے بعض ایسا ہے کہ ( کفر و نفاق و جہل کے علاوہ بخل و عداوت کے ساتھ بھی موصوف ہے، حتی کہ ) جو کچھ ( جہاد و زکوٰة وغیرہ کے مواقع میں مسلمانوں کی شرما شرمی ) خرچ کرتا ہے اس کو ( مثل ) جرمانہ سمجہتا ہے ( یہ تو بخل ہوا ) اور ( عداوت یہ ہے کہ ) تم مسلمانوں کے واسطے ( زمانہ کی ) گردشوں کا منتظر رہتا ہے ( کہ کہیں ان پر کوئی حادثہ پڑجائے تو ان کا خاتمہ ہو سو) برا وقت انہی ( منافقین ) پر پڑنے والا ہے ( چنانچہ فتوحات کی وسعت ہوئی، کفار ذلیل ہوئے ان کی ساری حسرتیں دل ہی میں رہ گئیں، اور تمام عمر رنج اور خوف میں کٹی ) اور اللہ تعالیٰ ( ان کے کفر و نفاق کی باتیں ) سنتے ہیں ( اور ان کے دلی خیالات اتخاذ مغرم و تربص دوائر کو ) جانتے ہیں ( پس ان سب کی سزا دیں گے) اور بعضے اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ( پورا پورا ) ایمان رکھتے ہیں، اور جو کچھ ( نیک کاموں میں ) خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہو نے کا ذریعہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعا ( لینے ) کا ذریعہ بناتے ہیں ( کیونکہ آپ کی عادت شریفہ تھی کہ ایسے موقع پر خرچ کرنے والے کو دعا دیتے تھے جیسا کہ احادیث میں ہے) یاد رکھو ! کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان لوگوں کے لئے موجب قربت ( عند اللہ ) ہے ( اور دعا کا ہونا تو یہ خود دیکھ سن لیتے ہیں، اس کی خبر دینے کی ضرورت نہ تھی اور وہ قرب یہ ہے کہ ) ضرور ان کو اللہ تعالیٰ اپنی ( خاص ) رحمت میں داخل کرلیں گے ( کیونکہ ) اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے رحمت والے ہیں ( پس ان کی لغزشیں معاف کرکے اپنی رحمت میں لے لیں گے) ۔
معارف ومسائل :
آیات سابقہ میں منافقین مدینہ کا ذکر تھا ان آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو مدینہ کے مضافات و دیہات کے رہنے والے تھے ۔
اعراب یہ لفظ عرب کی جمع نہیں، بلکہ اسم جمع ہے جو دیہات کے باشندوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس کا مفرد بنانا ہوتا ہے تو اعرابی کہتے ہیں، جیسے انصار کا مفرد انصاری آتا ہے ۔
ان کا حال آیت مذکورہ میں یہ بتلایا کہ یہ کفر و نفاق میں شہر والوں سے بھی زیادہ ہیں، جس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ علم اور علماء سے دور رہنے کے سبب عموماً جہالت اور قساوت میں مبتلا ہوتے ہیں، سخت دل ہوتے ہیں ( اَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ) یعنی ان لوگوں کا ماحول ہی ایسا ہے کہ وہ اللہ کی نازل کی ہوئی حدود سے بے خبر رہیں، کیونکہ نہ قرآن ان کے سامنے آتا ہے، نہ اس کے معانی و مطالب اور احکام سے ان کو واقفیت ہوتی ہے۔
==============================
الحدیث : وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ثنا شَرِيكٌ ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ الْحَكَمِ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ بَدَا جَفَا ". رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، فَذَكَرَهُ . إِسْنَادٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
[إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى الْمُذَاكَرَةِ ... رقم الحديث: 406]
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو بدو (دیہاتی) ہوا اس نے جفا کی .
الشواهد:
١) الحدیث : أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ , أنا أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ , أنا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ , نا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ , ناإِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا , عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَكَمِ النَّخَعِيِّ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ , عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ بَدَا جَفَا , وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ , وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتُتِنَ , وَمَا ازْدَادَ أَحَدٌ مِنَ السُّلْطَانِ قُرْبًا " .
[شعب الإيمان للبيهقي » السَّادِسُ وَالسِّتُّونَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ ... رقم الحديث: 8785]
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنگلی (دیہات ) میں رہتا ہے وہ اپنے ساتھ زیادتی کرتا ہے جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کے پاس آتا جاتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے (احمد، ترمذی، نسائی )
٢) الحدیث : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا ، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ ، وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتِنَ "
[جامع الترمذي » كِتَاب الْفِتَنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ الرِّيَاحِ ... رقم الحديث: 2187]
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنگلی (دیہات ) میں رہتا ہے وہ اپنے ساتھ زیادتی کرتا ہے جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کے پاس آتا جاتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے (احمد، ترمذی، نسائی )
اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ: جو شخص بادشاہ کی ملازمت میں رہتا ہے (یعنی اس کے ہاں ہر وقت حاضر باش و حاشیہ نشین اور مددگار رہتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کا جتنا زیادہ قرب چاہتا ہے اتنا ہی اللہ سے دور ہو جاتا ہے ۔
تشریح : جو شخص جنگل (دیہات ) میں رہتا ہے الخ " سے دیہات میں رہنے والوں کی ہتک وتضحیک مراد نہیں ہے اور نہ ان کو کمتر بنانا مقصود ہے بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ دیہات وگاؤں میں رہنے والے لوگوں کو چونکہ علماء وصلحاء اور اولیاء اللہ کی صحبت میسر نہیں ہوتی اس لئے ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور ان میں علم و معرفت عقل ودانش اور فہم وذکاوت کی روشنی پیدا نہیں ہوتی ۔ " جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ لہوولعب اور حصول لذت وخوشی کی خاطر ہر وقت شکار کی دھن میں رہتا ہے وہ طاعات وعبادت اور جمعہ اور جماعت نماز کے التزام سے غافل ہو جاتا ہے نیز اس میں شفقت ومحبت اور نرم خوئی کی صفات ختم ہو جاتی ہیں، واضح رہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے جو شکار کو عادت بنا لیتے ہیں اور حلال رزق حاصل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ محض تفریح اور وقت گزاری کے لئے اپنے اوقات کا اکثر حصہ اس میں مصروف رکھتے ہیں ورنہ تو جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے مطلق شکار کے مباح وحلال ہونے میں شبہ نہیں ہے اور بعض صحابہ نے شکار کیا ہے البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آپ نے خود بہ نفس نفیس کبھی شکار کرنے سے منع نہیں کیا ہے ۔ حدیث کے آخر میں بادشاہ وحاکم کی حاشیہ نشینی اور دربار حکومت میں حاضر باشی کی خرابی کو واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص بغیر کسی ضرورت وحاجت کے بادشاہ وحاکم کی چوکھٹ پر گیا وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا کیونکہ اگر وہ بادشاہ حاکم کے ان افعال واعمال کی موافقت وحمایت کرے گا جو خلاف شرع ہوں تو اس کا دین خطرہ میں پڑے گا اور اگر ان کی مخالفت کرے گا تو اپنی دنیا خراب کرے گا مظہر کہتے ہیں کہ جو شخص بادشاہ وحاکم کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں مداہنت اختیار کی (یعنی ان کے خلاف شرع امور پر ان کو ٹوکا نہیں ) تو اس نے فتنہ میں اپنے آپ کو مبتلا کیا (یعنی اپنا دین خطرے میں ڈالا ) اور اگر اس نے مداہنت اختیار نہیں کی بلکہ ان کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تو اس صورت میں دربار حکومت میں اس کی حاضری جہاد سے بھی افضل ہوگی۔ دہلوی نے مسند فردوس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ : حدیث (من ازداد علما ولم یزدد فی الدنیا زہدا لم یزدد من اللہ الا بعد ا ) ٫٫جس شخص نے اپنا علم تو زیادہ کیا لیکن دنیا کے (مال ومتاع ) میں بے رغبتی کو زیادہ نہیں کیا تو اس نے اللہ سے دوری کو زیادہ کیا ۔"
ترجمہ : گنوار (دیہاتی) بہت سخت ہیں کفر میں اور نفاق میں اور اسی لائق ہیں کہ نہ سیکھیں وہ قاعدے جو نازل کیے اللہ نے اپنے رسول پر (ف ٤) اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے (ف ٥)
(ف٤) یہاں تک مدینہ کے منافقین اور مومنین مخلصین کے احوال بیان ہوئے تھے۔ اب کچھ حال دیہاتی بدؤوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ان میں بھی کئی طرح کے آدمی ہیں ۔ کفار، منافقین اور مخلص مسلمان چونکہ دیہاتی لوگ قدرتی طور پر عموماً تندخو اور سخت مزاج ہوتے ہیں (جیساکہ حدیث میں ہے "مَنْ سَکَنَ الْبَادِیَۃَ جَفَا) " اور مجالس علم و حکمت سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی کا اثر اور علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں، ان کا کفرو نفاق شہری کفار و منافقین سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ان کو ایسے مواقع دستیاب نہیں ہوتے کہ اہل علم و صلاح کی صحبت میں رہ کر دیانت و تہذیب کے وہ قانون اور قاعدے معلوم کریں جو خدا تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے۔ علم و معرفت ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتی اور مہذب بناتی ہے۔ جو لوگ اس قدر جہالت میں غرق ہیں، ضرور ہے کہ ان کے دل سخت ہوں اور کفر و نفاق کے جس راستہ پر پڑ جائیں، بہائم اور درندوں کی طرح اندھا دھند بڑھے چلے جائیں ۔ اعراب کی سنگدلی کا ذکر متعدد احادیث میں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی اعرابی نے حضور سے عرض کیا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کا پیار لیتے ہیں، خدا کی قسم میں نے کبھی اپنی اولاد کا پیار نہیں لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کیا کروں اگر خدا نے تیرے دل میں سے اپنی رحمت کو نکال لیا ہے۔
(ف ٥) یعنی اس کا علم بنی آدم کے تمام طبقات پر محیط ہے، وہ اپنی حکمت سے ہر ایک طبقہ کے ساتھ اس کی استعداد و قابلیت کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "اعراب کی طبیعت میں بےحکمی، غرض پرستی، اور جہالت شدید ہوتی ہے، سو اللہ حکمت والا ہے ان سے وہ مشکل کام بھی نہیں چاہتا اور درجے بلند بھی نہیں دیتا۔"
خلاصہ تفسیر :
(ان منافقین میں جو ) دیہاتی ( ہیں وہ ) لوگ ( بوجہ سخت مزاجی کے) کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ( بوجہ بعد علماء و عقلاء کے ) ان کو ایسا ہونا ہی چاہئے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل فرمائے ہیں ( کیونکہ جب جاننے والوں سے دور دور رہیں گے تو ان کا جاہل رہنا تو اس کا لازمی نتیجہ ہے، اور اسی وجہ سے مزاج میں سختی اور مجموعہ سے کفر و نفاق میں شدت ہوگی ) اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں، وہ ان سب امور پر مطلع ہیں اور حکمت سے مناسب سزا دیں گے ) اور ان ( مذکورہ منافقیں ) دیہاتیوں میں سے بعض ایسا ہے کہ ( کفر و نفاق و جہل کے علاوہ بخل و عداوت کے ساتھ بھی موصوف ہے، حتی کہ ) جو کچھ ( جہاد و زکوٰة وغیرہ کے مواقع میں مسلمانوں کی شرما شرمی ) خرچ کرتا ہے اس کو ( مثل ) جرمانہ سمجہتا ہے ( یہ تو بخل ہوا ) اور ( عداوت یہ ہے کہ ) تم مسلمانوں کے واسطے ( زمانہ کی ) گردشوں کا منتظر رہتا ہے ( کہ کہیں ان پر کوئی حادثہ پڑجائے تو ان کا خاتمہ ہو سو) برا وقت انہی ( منافقین ) پر پڑنے والا ہے ( چنانچہ فتوحات کی وسعت ہوئی، کفار ذلیل ہوئے ان کی ساری حسرتیں دل ہی میں رہ گئیں، اور تمام عمر رنج اور خوف میں کٹی ) اور اللہ تعالیٰ ( ان کے کفر و نفاق کی باتیں ) سنتے ہیں ( اور ان کے دلی خیالات اتخاذ مغرم و تربص دوائر کو ) جانتے ہیں ( پس ان سب کی سزا دیں گے) اور بعضے اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ( پورا پورا ) ایمان رکھتے ہیں، اور جو کچھ ( نیک کاموں میں ) خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہو نے کا ذریعہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعا ( لینے ) کا ذریعہ بناتے ہیں ( کیونکہ آپ کی عادت شریفہ تھی کہ ایسے موقع پر خرچ کرنے والے کو دعا دیتے تھے جیسا کہ احادیث میں ہے) یاد رکھو ! کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان لوگوں کے لئے موجب قربت ( عند اللہ ) ہے ( اور دعا کا ہونا تو یہ خود دیکھ سن لیتے ہیں، اس کی خبر دینے کی ضرورت نہ تھی اور وہ قرب یہ ہے کہ ) ضرور ان کو اللہ تعالیٰ اپنی ( خاص ) رحمت میں داخل کرلیں گے ( کیونکہ ) اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے رحمت والے ہیں ( پس ان کی لغزشیں معاف کرکے اپنی رحمت میں لے لیں گے) ۔
معارف ومسائل :
آیات سابقہ میں منافقین مدینہ کا ذکر تھا ان آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو مدینہ کے مضافات و دیہات کے رہنے والے تھے ۔
اعراب یہ لفظ عرب کی جمع نہیں، بلکہ اسم جمع ہے جو دیہات کے باشندوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس کا مفرد بنانا ہوتا ہے تو اعرابی کہتے ہیں، جیسے انصار کا مفرد انصاری آتا ہے ۔
ان کا حال آیت مذکورہ میں یہ بتلایا کہ یہ کفر و نفاق میں شہر والوں سے بھی زیادہ ہیں، جس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ علم اور علماء سے دور رہنے کے سبب عموماً جہالت اور قساوت میں مبتلا ہوتے ہیں، سخت دل ہوتے ہیں ( اَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ) یعنی ان لوگوں کا ماحول ہی ایسا ہے کہ وہ اللہ کی نازل کی ہوئی حدود سے بے خبر رہیں، کیونکہ نہ قرآن ان کے سامنے آتا ہے، نہ اس کے معانی و مطالب اور احکام سے ان کو واقفیت ہوتی ہے۔
==============================
الحدیث : وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ثنا شَرِيكٌ ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ الْحَكَمِ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ بَدَا جَفَا ". رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، فَذَكَرَهُ . إِسْنَادٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
[إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى الْمُذَاكَرَةِ ... رقم الحديث: 406]
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو بدو (دیہاتی) ہوا اس نے جفا کی .
تخريج الحديث
|
الشواهد:
١) الحدیث : أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ , أنا أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ , أنا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ , نا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ , ناإِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا , عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَكَمِ النَّخَعِيِّ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ , عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ بَدَا جَفَا , وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ , وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتُتِنَ , وَمَا ازْدَادَ أَحَدٌ مِنَ السُّلْطَانِ قُرْبًا " .
[شعب الإيمان للبيهقي » السَّادِسُ وَالسِّتُّونَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ ... رقم الحديث: 8785]
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنگلی (دیہات ) میں رہتا ہے وہ اپنے ساتھ زیادتی کرتا ہے جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کے پاس آتا جاتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے (احمد، ترمذی، نسائی )
تخريج الحديث
٢) الحدیث : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا ، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ ، وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتِنَ "
[جامع الترمذي » كِتَاب الْفِتَنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ الرِّيَاحِ ... رقم الحديث: 2187]
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنگلی (دیہات ) میں رہتا ہے وہ اپنے ساتھ زیادتی کرتا ہے جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کے پاس آتا جاتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے (احمد، ترمذی، نسائی )
اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ: جو شخص بادشاہ کی ملازمت میں رہتا ہے (یعنی اس کے ہاں ہر وقت حاضر باش و حاشیہ نشین اور مددگار رہتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کا جتنا زیادہ قرب چاہتا ہے اتنا ہی اللہ سے دور ہو جاتا ہے ۔
تخريج الحديث
|
تشریح : جو شخص جنگل (دیہات ) میں رہتا ہے الخ " سے دیہات میں رہنے والوں کی ہتک وتضحیک مراد نہیں ہے اور نہ ان کو کمتر بنانا مقصود ہے بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ دیہات وگاؤں میں رہنے والے لوگوں کو چونکہ علماء وصلحاء اور اولیاء اللہ کی صحبت میسر نہیں ہوتی اس لئے ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور ان میں علم و معرفت عقل ودانش اور فہم وذکاوت کی روشنی پیدا نہیں ہوتی ۔ " جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ لہوولعب اور حصول لذت وخوشی کی خاطر ہر وقت شکار کی دھن میں رہتا ہے وہ طاعات وعبادت اور جمعہ اور جماعت نماز کے التزام سے غافل ہو جاتا ہے نیز اس میں شفقت ومحبت اور نرم خوئی کی صفات ختم ہو جاتی ہیں، واضح رہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے جو شکار کو عادت بنا لیتے ہیں اور حلال رزق حاصل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ محض تفریح اور وقت گزاری کے لئے اپنے اوقات کا اکثر حصہ اس میں مصروف رکھتے ہیں ورنہ تو جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے مطلق شکار کے مباح وحلال ہونے میں شبہ نہیں ہے اور بعض صحابہ نے شکار کیا ہے البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آپ نے خود بہ نفس نفیس کبھی شکار کرنے سے منع نہیں کیا ہے ۔ حدیث کے آخر میں بادشاہ وحاکم کی حاشیہ نشینی اور دربار حکومت میں حاضر باشی کی خرابی کو واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص بغیر کسی ضرورت وحاجت کے بادشاہ وحاکم کی چوکھٹ پر گیا وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا کیونکہ اگر وہ بادشاہ حاکم کے ان افعال واعمال کی موافقت وحمایت کرے گا جو خلاف شرع ہوں تو اس کا دین خطرہ میں پڑے گا اور اگر ان کی مخالفت کرے گا تو اپنی دنیا خراب کرے گا مظہر کہتے ہیں کہ جو شخص بادشاہ وحاکم کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں مداہنت اختیار کی (یعنی ان کے خلاف شرع امور پر ان کو ٹوکا نہیں ) تو اس نے فتنہ میں اپنے آپ کو مبتلا کیا (یعنی اپنا دین خطرے میں ڈالا ) اور اگر اس نے مداہنت اختیار نہیں کی بلکہ ان کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تو اس صورت میں دربار حکومت میں اس کی حاضری جہاد سے بھی افضل ہوگی۔ دہلوی نے مسند فردوس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ : حدیث (من ازداد علما ولم یزدد فی الدنیا زہدا لم یزدد من اللہ الا بعد ا ) ٫٫جس شخص نے اپنا علم تو زیادہ کیا لیکن دنیا کے (مال ومتاع ) میں بے رغبتی کو زیادہ نہیں کیا تو اس نے اللہ سے دوری کو زیادہ کیا ۔"
No comments:
Post a Comment