عمروکہتے ہیں کہ مجھے طاؤس نے لکھا کہ مخابرہ (مزارعہ اور مخابرہ میں فرق ہے، مزارعہ میں بیج مالک کا ہوتا ہے اور مخابرہ میں عامل کا، دوسرا فرق صاحب مجمع بحار الانوار نے یہ بیان کیا ہے، مزارعہ اکثر اکترأ العامل ہے بعض مایخرج والخائیرہ اکنزا العامل الارض ببعض مایخرج جلدالفظ، خبر یہ لفظ خبار یاخبیر سے مشتق ہے) کے متعلق انصار سے دریافت کرو، میں نے علی بن رفاعہ سے دریافت کیا توانھوں نے فرمایا کہ: هُوَ كراء الْأَرْضَ بِالثُّلُثِ أَوْالرُّبُعِ۔
(الإصابة في تمييز الصحابة، ابن حجر:۴/۵۶۳، شاملہ، الناشر: دارالجيل،بيروت، تحقيق : علي محمد البجاوي)
ترجمہ: مخابرہ نام ہے زمین کوتہائی یاچوتھائی پیداوار پراُٹھانے کا۔
احادیث میں بعض ایسے معاشی معاملات کو جن میں ”رِبا“ سے ایک گونہ مشابہت و مماثلت پائی جاتی تھی ”رِبا“ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی طرح مزارعت (کی ناجائز صورتوں) کو بھی ”رِبا“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ایک شخص جو اپنی زمین خود کاشت نہیں کرسکتا، یا نہیں کرتا، وہ اسے کاشت کے لئے کسی دُوسرے کے حوالے کردیتا ہے، اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں:
اوّل:… یہ کہ وہ اسے ٹھیکے پر اُٹھادے اور اس کا معاوضہ زَرِ نقد کی صورت میں وصول کرے۔ اسے عربی میں ”کراء الأرض“ کہا جاتا ہے، فقہاء اسے اِجارات کے ذیل میں لاتے ہیں اور یہ صورت بالاتفاق جائز ہے۔
دوم:… یہ کہ مالک، زَرِ نقد وصول نہ کرے، بلکہ پیداوار کا حصہ مقرّر کرلے، اس کی پھر دو صورتیں ہیں:
۱:… یہ کہ زمین کے کسی خاص قطعے کی پیداوار اپنے لئے مخصوص کرلے، یہ صورت بالاتفاق ناجائز ہے اور احادیثِ مخابرہ میں اسی صورت کی ممانعت ہے، جیسا کہ آئندہ معلوم ہوگا۔
۲:… یہ کہ زمین کے کسی خاص قطعے کی پیداوار اپنے لئے مخصوص نہ کرے، بلکہ یہ طے کیا جائے کہ کل پیداوار کا اتنا حصہ مالک کو ملے گا اور اتنا حصہ کاشتکار کو (مثلاً: نصف، نصف)۔
یہ صورت مخصوص شرائط کے ساتھ جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک جائز اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہے، چنانچہ:
”عن ابن عمر رضی الله عنھما قال: عامل النبی صلی الله علیہ وسلم خیبر بشطر ما یخرج منھا من ثمر أو زرع۔“
(صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۳، صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۴، جامع ترمذی ص:۱۶۶، ابوداوٴد ص:۴۸۴، ابنِ ماجہ ص:۱۷۷، طحاوی ج:۲ ص:۲۸۸)
الف:… ”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر سے یہ معاملہ طے کیا تھا کہ زمین (وہ کاشت کریں گے اور اس) سے جو پھل یا غلہ حاصل ہوگا اس کا نصف ہم لیا کریں گے۔“
”عن ابن عباس رضی الله عنھما قال: أعطی رسول الله صلی الله علیہ وسلم خیبر بالشطر ثم أرسل ابن رواحة فقاسمھم۔“(طحاوی ج:۲ ص:۲۸۸، ابوداوٴد ص:۴۸۴)
ب:… ”حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین نصف پیداوار پر اُٹھادی تھی، پھر عبداللہ بن رواحہ کو بٹائی کے لئے بھیجا کرتے تھے۔“
ج:… ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کی زمین اللہ تعالیٰ نے ”فیٴ“ کے طور پر دی تھی․․․․․․ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (یہودِ خیبر) کو حسبِ سابق بحال رکھا اور پیداوار اپنے لئے اور ان کے لئے نصف رکھی، اور عبداللہ بن رواحہ کو اس کی تقسیم پر مأمور فرمایا تھا۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، حذیفہ بن یمان، سعد بن ابی وقاص، ابنِ عمر، ابنِ عباس جیسے اکابر صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے مزارعت کا معاملہ ثابت ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری دور تک مزارعت پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔
چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ارشاد مروی ہے:
”کنا لا نری بالخبر بأسًا حتّٰی کان عام أول فزعم رافع أن نبی الله صلی الله علیہ وسلم نفی عنہ۔“
(صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۲)
ترجمہ:… ”ہم مزارعت میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، اب یہ پہلا سال ہے کہ رافع کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔“
ایک اور روایت میں ہے:
”کان ابن عمر رضی الله عنھما یکری مزارعہ علٰی عھد النبی صلی الله علیہ وسلم، وأبی بکر، وعمر، وعثمان، وصدرًا من امارة معاویة ثم حدِّث عن رافع بن خدیج أن النبی صلی الله علیہ وسلم نھی عن کراء المزارع۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)
ترجمہ:… ”حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین کرائے (بٹائی) پر دیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں۔ پھر انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بتایا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر اُٹھانے سے منع کیا ہے۔“
ایک اور روایت میں ہے:
”عن طاوٴس عن معاذ بن جبل: أکری الأرض علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم وأبی بکر وعمر وعثمان علی الثلث والربع فھو یعمل بہ الٰی یومک ھٰذا۔“ (ابنِ ماجہ ص:۱۷۷)
ترجمہ:… ”حضرت طاوٴس سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد تک میں زمین بٹائی پر دی تھی، پس آج تک اسی پر عمل ہو رہا ہے۔“
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ یمن سے متعلق ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجا تھا۔ وہاں کے لوگ مزارعت کا معاملہ کرتے تھے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے، جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”حلال و حرام کا سب سے بڑا عالم“ فرمایا تھا، اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ خود بھی مزارعت کا معاملہ کیا۔ حضرت طاوٴس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ (حضرت معاذ بن جبل) نے یمن کی اراضی میں جو طریقہ جاری کیا تھا، آج تک اسی پر عمل ہے۔
اس باب کی تمام روایات و آثار کا استیعاب مقصود نہیں، نہ یہ ممکن ہے، بلکہ صرف یہ دیکھنا ہے کہ دورِ نبوّت اور خلافتِ راشدہ کے دور میں اکابر صحابہ کا اس پر عمل تھا اور مزارعت کے عدمِ جواز کا سوال کم از کم اس دور میں نہیں اُٹھا تھا، جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں مزارعت کی اجازت ہے اور احادیثِ ”مخابرہ“ میں جس مزارعت سے ممانعت فرمائی گئی ہے اس سے مزارعت کی وہ شکلیں مراد ہیں جو دورِ جاہلیت سے چلی آتی تھیں۔
بعض دفعہ ایک بات کسی خاص موقع پر مخصوص انداز اور خاص سیاق میں کہی جاتی ہے، جو لوگ اس موقع پر حاضر ہوں اور جن کے سامنے وہ پورا واقعہ ہو ، جس میں وہ بات کہی گئی تھی، انہیں اس کے مفہوم کے سمجھنے میں دِقت پیش نہیں آئے گی، مگر وہی بات جب کسی ایسے شخص سے بیان کی جائے جس کے سامنے نہ وہ واقعہ ہوا ہے جس میں یہ بات کہی گئی تھی، نہ وہ متکلم کے اندازِ تخاطب کو جانتا ہے، نہ اس کے لب و لہجے سے واقف ہے، نہ کلام کے سیاق کی اسے خبر ہے، اگر وہ اس کلام کے صحیح مفہوم کو نہ سمجھ پائے تو محلِ تعجب نہیں: ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ“ یہی وجہ ہے کہ آیات کے اَسبابِ نزول کو علمِ تفسیر کا اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
”والذی لا الٰہ غیرہ! ما نزلت من اٰیة من کتاب الله الا وأنا أعلم فیمن نزل وأین نزلت، ولو أعلم مکان أحد أعلم بکتاب الله منی تنالہ المطایا لأتیتہ۔“
(الاتقان، النوع الثامن)
ترجمہ:… ”اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کتاب اللہ کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس کے حق میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی۔ اور اگر مجھے کسی ایسے شخص کا علم ہوتا جو مجھ سے بڑھ کر کتاب اللہ کا عالم ہو اور وہاں سواری جاسکتی تو میں اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔“
اسی قسم کا ایک ارشاد حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا بھی نقل کیا گیا ہے، وہ فرمایا کرتے تھے:
”والله! ما نزلت اٰیة الا وقد علمت فیم أنزلت وأین أنزلت ان ربی وھب لی قلبًا عقولًا ولسانًا سوٴلًا۔“
(الاتقان، النوع الثمانون)
ترجمہ:… ”بخدا! جو آیت بھی نازل ہوئی، مجھے معلوم ہے کہ کس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی۔ میرے رَبّ نے مجھے بہت سمجھنے والا دِل، اور بہت پوچھنے والی زبان عطا کی ہے۔“
اور یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے: ”اِنَّا نَحْنَ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ“ کا وعدہ پورا کرنے کے لئے جہاں قرآن مجید کے ایک ایک شوشے کو محفوظ رکھا، وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کے ایک ایک گوشے کی بھی حفاظت فرمائی، ورنہ خدا جانے ہم قرآن پڑھ پڑھ کر کیا کیا نظریات تراشا کرتے․․․! اور یہی وجہ ہے کہ تمام اَئمہ مجتہدین کے ہاں یہ اُصول تسلیم کیا گیا کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھیک مفہوم سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ اکابر صحابہ نے اس پر کیسے عمل کیا اور خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کے کیا معنی سمجھے گئے۔
یہ اکابر صحابہ جو مزارعت کا معاملہ کرتے تھے، مزارعت کی ممانعت ان کے لئے صرف شنیدہ نہیں تھی، دیدہ تھی۔ وہ یہ جانتے تھے کہ مزارعت کی کون سی قسمیں زمانہٴ جاہلیت سے رائج تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ممنوع قرار دیا۔ اور مزراعت کی کون سی صورتیں باہمی شقاق و جدال کی باعث ہوسکتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی۔ مزارعت کی جائز و ناجائز صورتوں کو وہ گویا اسی طرح جانتے تھے جس طرح وضو کے فرائض و سنن سے واقف تھے۔ ان میں ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جو مزارعت کے کسی ناجائز معاملے پر عمل پیرا ہو، ظاہر ہے کہ اس صورت میں کسی نکیر کا سوال کب ہوسکتا تھا؟ یہ صورتِ حال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور تک قائم رہی۔ مزارعت کے جواز و عدمِ جواز کا مسئلہ پوری طرح بدیہی اور روشن تھا، اور اس نے کوئی غیرمعمولی نوعیت اختیار نہیں کی تھی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد کچھ حالات ایسے پیش آئے جن سے یہ مسئلہ بدیہی کے بجائے نظری بن گیا، اور بحث و تمحیص کی ایک صورت پیدا ہوگئی۔ غالباً بعض لوگوں نے مسئلہ مزارعت کی نزاکتوں کو پوری طرح ملحوظ نہ رکھا اور مزارعت کی بعض ایسی صورتیں وقوع میں آنے لگیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، اس پر صحابہ کرام نے نکیر فرمائی اور مزارعت سے ممانعت کی احادیث بیان فرمادیں۔
”نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَارَعَةِ۔“
”نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُخَابَرَةِ۔“
”نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ کِرَاءِ الْأَرْضِ۔“
ترجمہ:… ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مزارعت“ سے منع فرمایا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مخابرت“ سے منع فرمایا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔“
ادھر بعض لوگوں کو ان احادیث کا مفہوم سمجھنے میں دِقت پیش آئی، انہوں نے یہ سمجھا کہ ان احادیث کا مقصد ہر قسم کی مزارعت کی نفی کرنا ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ بحث و نظر کا موضوع بن گیا۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو افاضل صحابہ کرام اس وقت موجود تھے، انہوں نے اس نزاع کا فیصلہ کس طرح فرمایا؟
حدیث کی کتابوں میں ممانعت کی روایتیں تین صحابہ سے مروی ہیں: رافع بن خدیج، جابر بن عبداللہ اور ثابت بن ضحاک، رضی اللہ عنہم۔
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کی روایت اگرچہ نہایت مختصر اور مجمل ہے، تاہم اس میں یہ تصریح ملتی ہے کہ زمین کو زَرِ نقد پر اُٹھانے کی ممانعت نہیں ہے۔
”ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم نھی عن المزارعة وأمر بالموٴاجرة، وقال: لا بأس بھا۔“
(صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۴، طحاوی ج:۲ ص:۲۱۳، میں صرف پہلا جملہ ہے)
ترجمہ:… ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع فرمایا اور زَرِ نقد پر زمین دینے کا حکم فرمایا، اور فرمایا: اس کا مضائقہ نہیں۔“
حضرت جابر اور حضرت رافع رضی اللہ عنہما کی روایات میں خاصا تنوّع پایا جاتا ہے، جس سے ان کا صحیح مطلب سمجھنے میں اُلجھنیں پیدا ہوئی ہیں، تاہم مجموعی طور پر دیکھئے تو ان کی کئی قسمیں ہیں، اور ہر قسم کا الگ الگ محل ہے۔
حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی روایات کے بارے میں یہاں ”خاصے تنوّع“ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے، حضراتِ محدثین اسے ”اِضطراب“ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اِمام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حدیث رافع حدیث فیہ اضطراب، یروی ھٰذا الحدیث عن رافع بن خدیج عن عمومتہ، ویروی عنہ عن ظھیر بن رافع، وھو أحد عمومتہ، وقد روی ھٰذا الحدیث عنہ علٰی روایات مختلفة۔“
(جامع ترمذی ج:۱ ص:۱۶۶)
اِمام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وأما حدیث رافع بن خدیج رضی الله عنہ فقد جاء بألفاظ مختلفة اضطرب من أجلھا۔“
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وقد اختلف الرواة فی حدیث رافع بن خدیج اختلافًا فاحشًا۔“ (حجة اللہ البالغہ ج:۲ ص:۱۱۷)
اوّل:… بعض روایات میں ممانعت کا مصداق مزارعت کا وہ جاہلی تصوّر ہے جس میں یہ طے کرلیا جاتا تھا کہ زمین کے فلاں عمدہ اور زَرخیز ٹکڑے کی پیداوار مالک کی ہوگی اور فلاں حصے کی پیداوار کاشتکار کی ہوگی، اس میں چند در چند قباحتیں جمع ہوگئی تھیں۔
اوّلاً:… معاشی معاملات باہمی تعاون کے اُصول پر طے ہونے چاہئیں، اس کے برعکس یہ معاملہ سراسر ظلم و استحصال اور ایک فریق کی صریح حق تلفی پر مبنی تھا۔
ثانیاً:… یہ شرط فاسد اور مقتضائے عقد کے خلاف تھی، کیونکہ جب کسان کی محنت تمام پیداوار میں یکساں صرف ہوئی ہے تو لازم ہے کہ اس کا حصہ تمام پیداوار میں سے دیا جائے۔
ثالثاً:… یہ قمار کی ایک شکل تھی، آخر اس کی کیا ضمانت ہے کہ مالک یا کسان کے لئے جو قطعہ مخصوص کردیا گیا ہے، وہ بار آور بھی ہوگا؟
رابعاً:… اس قسم کی غلط شرطوں کا نتیجہ عموماً نزاع و جدال کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، ایسے جاہلی معاملے کو برداشت کرلینے کے معنی یہ تھے کہ اسلامی معاشرے کو ہمیشہ کے لئے جدال و قتال کی آماج گاہ بنادیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ان کے ہاں اکثر و بیشتر مزارعت کی یہی غلط صورت رائج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح فرمائی، غلط معاملے سے منع فرمایا اور مزارعت کی صحیح صورت پر عمل کرکے دِکھایا۔ مندرجہ ذیل روایات اس پر روشنی ڈالتی ہیں:
”عن رافع بن خدیج حدّثنی عمّای أنھم کانوا یکرُون الأرض علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بما ینبُت علی الأربعاء أو بشیء یستثنیہ صاحب الأرض فنھانا النبی صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک، فقلت لرافع: فکیف ھی بالدینار والدراھم؟ فقال رافع: لیس بھا بأسٌ بالدینار والدراھم، وکأنّ الذی نُھی عن ذٰلک ما لو نظر فیہ ذوُو الفھم بالحلال والحرام لم یجیزوہ لما فیہ من المخاطرة۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)
الف:… ”رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے چچا بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ زمین مزارعت پر دیتے تو یہ شرط کرلیتے کہ نہر کے متصل کی پیداوار ہماری ہوگی، یا کوئی اور استثنائی شرط کرلیتے (مثلاً: اتنا غلہ ہم پہلے وصول کریں گے، پھر بٹائی ہوگی)، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت رافع سے کہا: اگر زَرِ نقد کے عوض زمین دی جائے اس کا کیا حکم ہوگا؟ رافع نے کہا: اس کا مضائقہ نہیں! لیث کہتے ہیں: مزارعت کی جس شکل کی ممانعت فرمائی گئی تھی، اگر حلال و حرام کے فہم رکھنے والے غور کریں تو کبھی اسے جائز نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس میں معاوضہ ملنے نہ ملنے کا اندیشہ (مخاطرہ) تھا۔“
”حدثنی حنظلة بن قیس الأنصاری قال: سألت رافع بن خدیج عن کراء الأرض بالذھب والورق، فقال: لا بأس بہ، انما کان الناس یوٴاجرون علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم علی المأذیانات واقبال الجداول وأشیاء من الزرع فیھلک ھٰذا ویسلم ھٰذا ویسلم ھٰذا ویھلک ھٰذا فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا فلذٰلک زجر عنہ، وأما شیء معلوم مضمون فلا بأس بہ۔“ (صحیح مسلم ج:۲ ص:۱۳)
ب:… ”حنظلہ بن قیس کہتے ہیں: میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ: سونے چاندی (زَرِ نقد) کے عوض زمین ٹھیکے پر دی جائے،ا س کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں! دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ جو مزارعت کرتے تھے (اور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا) اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ زمین دار، زمین کے ان قطعات کو جو نہر کے کناروں اور نالیوں کے سروں پر ہوتے تھے، اپنے لئے مخصوص کرلیتے تھے، اور پیداوار کا کچھ حصہ بھی طے کرلیتے، بسااوقات اس قطعے کی پیداوار ضائع ہوجاتی اور اس کی محفوظ رہتی، کبھی برعکس ہوجاتا۔ اس زمانے میں لوگوں کی مزارعت کا بس یہی ایک دستور تھا، اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے منع کیا، لیکن اگر کسی معلوم اور قابلِ ضمانت چیز کے بدلے میں زمین دی جائے تو اس کا مضائقہ نہیں۔“
اس روایت میں حضرت رافع رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ خاص طور پر توجہ طلب ہے:
”فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا۔“
ترجمہ:… ”لوگوں کی مزارعت کا بس یہی ایک دستور تھا۔“
اور ان کی بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے:
ترجمہ:… ”ان دنوں سونا چاندی نہیں تھے۔“
اس کا مطلب ․․․واللہ اعلم․․․ یہی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے، ان دنوں زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج تو قریب قریب عدم کے برابر تھا، مزارعت کی عام صورت بٹائی کی تھی، لیکن اس میں جاہلی قیود و شرائط کی آمیزش تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نفسِ مزارعت کو نہیں بلکہ مزارعت کی اس جاہلی شکل کو ممنوع قرار دیا اور مزارعت کی صحیح صورت معین فرمائی۔ یہ صورت وہی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر سے معاملہ فرمایا، اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپ کے بعد اکابر صحابہ نے عمل کیا۔
”جابر بن عبدالله رضی الله عنہ یقول: کنا فی زمن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نأخذ الأرض بالثلث أو الربع بالمأذیانات فنھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک۔“
ج:… ”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین لیا کرتے تھے نصف پیداوار پر، تہائی پیداوار پر، اور نہر کے کناروں کی پیداوار پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا۔“
د:… ”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگ اپنی زمین مزارعت پر دیا کرتے تھے، شرط یہ ہوتی تھی کہ جو پیداوار گول (الساقیہ) پر ہوگی اور جو کنویں کے گرد و پیش پانی سے سیراب ہوگی، وہ ہم لیا کریں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہی فرمائی، اور فرمایا: سونے چاندی پر دیا کرو۔“
”عن نافع أن ابن عمر رضی الله عنہ کان یکری مزارعہ علٰی عھد النبی صلی الله علیہ وسلم وأبی بکر وعمر وعثمان وصدرًا من امارة معاویة ثم حدث عن رافع بن خدیج: أن النبی صلی الله علیہ وسلم نھی عن کراء المزارع، فذھب ابن عمر الٰی رافع وذھبت معہ فسألہ، فقال: نھی النبی صلی الله علیہ وسلم عن کراء المزارع، فقال ابن عمر: قد علمت أنا کنا نکری مزارعنا علٰی عھد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بما علی الأربعاء شیء من التین۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)
ہ:… ”حضرت نافع کہتے ہیں: حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین مزارعت پر دیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور تک بھی۔ پھر ان سے بیان کیا گیا کہ رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابنِ عمر، حضرت رافع کے پاس گئے، میں بھی ساتھ تھا، ان سے دریافت کیا، انہوں نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ ابنِ عمر نے فرمایا: آپ کو یہ تو معلوم ہی ہے کہ ہماری مزارعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس پیداوار کے عوض ہوا کرتی تھی جو نہروں پر ہوتی تھی اور کچھ گھاس کے عوض، (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سے منع فرمایا تھا)۔“
حضرت رافع بن خدیج، جابر بن عبداللہ، سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی ان روایات سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مزارعت کی وہ جاہلی شکل کیا تھی جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔
دوم:… نہی کی بعض روایات اس پر محمول ہیں کہ بعض اوقات زائد قیود و شرائط کی وجہ سے معاملہ کنندگان میں نزاع کی صورت پیدا ہوجاتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ تم اس قسم کی مزارعت کے بجائے زَرِ نقد پر زمین دیا کرو۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ مزارعت سے منع فرماتے ہیں، تو آپ نے افسوس کے لہجے میں فرمایا:
”یغفر الله لرافع بن خدیج، أنا والله أعلم بالحدیث منہ، انما رجُلان - قال مسدد: من الأنصار ثم اتفقا- قد اقتتلا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان کان ھٰذا شأنکم فلا تکروا المزارع۔“
(ابوداوٴد ص:۴۸۱ واللفظ لہ، ابنِ ماجہ ص:۱۷۷)
ترجمہ:… ”اللہ تعالیٰ رافع کی مغفرت فرمائے، بخدا! میں اس حدیث کو ان سے بہتر سمجھتا ہوں۔“
قصہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انصار کے دو شخص آئے ان کے مابین مزارعت پر جھگڑا تھا، اور نوبت مرنے مارنے تک پہنچ گئی تھی، (قد اقتتلا) آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:
”ان کان ھٰذا شأنکم فلا تکروا المزارع۔“
ترجمہ:… ”جب تمہاری حالت یہ ہے تو مزارعت کا معاملہ ہی نہ کرو۔“
رافع نے بس اتنی بات سن لی: ”تم مزارعت کا معاملہ نہ کیا کرو“۔
”عن سعد بن أبی وقاص رضی الله عنہ قال: کان أصحاب المزارع یکرون فی زمان رسول الله صلی الله علیہ وسلم مزارعھم بما یکون علی الساق من الزرع فجاؤا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فاختصموا فی بعض ذٰلک، فنھاھم رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یکروا بذٰلک وقال: اکروا بالذھب والفضة۔“ (نسائی ج:۲ ص:۱۵۳)
ترجمہ:… ”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمین دار اپنی زمین اس پیداوار کے عوض جو نہروں پر ہوتی تھی، دیا کرتے تھے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور مزارعت کے سلسلے میں جھگڑا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر مزارعت نہ کیا کرو، بلکہ سونے چاندی کے عوض دیا کرو۔“
ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص مقدمے کا فیصلہ فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں کو فہمائش کی تھی کہ وہ آئندہ ”مزارعت“ کے بجائے زَرِ نقد پر زمین لیا دیا کریں۔
سوم:… احادیثِ نہی کا تیسرا محمل یہ تھا کہ بعض لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد زمین تھی اور بعض ایسے محتاج اور ضرورت مند تھے کہ وہ دُوسروں کی زمین مزارعت پر لیتے، اس کے باوجود ان کی ضرورت پوری نہ ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو، جن کے پاس اپنی ضرورت سے زائد اراضی تھی، ہدایت فرمائی تھی کہ وہ حسنِ معاشرت، مواسات، اسلامی اُخوّت اور بلند اخلاقی کا نمونہ پیش کریں اور اپنی زائد زمین اپنے ضرورت مند بھائیوں کے لئے وقف کردیں، اس پر انہیں اللہ کی جانب سے جو اَجر و ثواب ملے گا، وہ اس معاوضے سے یقینا بہتر ہوگا جو اپنی زمین کا وہ حاصل کرتے تھے۔
”عن رافع بن خدیج رضی الله عنہ قال: مر النبی صلی الله علیہ وسلم علٰی أرض رجل من الأنصار قد عرف أنہ محتاج، فقال: لمن ھٰذہ الأرض؟ قال: لفان أعطانیھا بالأجر، فقال: لو منحھا أخاہ۔ فأتی رافع الأنصار، فقال: ان رسول الله نھاکم عن أمر کان لکم نافعًا وطاعة رسول الله أنفع لکم۔“ (نسائی ج:۲ ص:۱۵۱)
ترجمہ:… ”رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی زمین پر سے گزرے، یہ صاحب محتاجی میں مشہور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ زمین کس کی ہے؟ اس نے بتایا کہ فلاں شخص کی ہے، اس نے مجھے اُجرت پر دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کاش! وہ اپنے بھائی کو بلا عوض دیتا۔ حضرت رافع رضی اللہ عنہ انصار کے پاس گئے، ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روک دیا ہے جو تمہارے لئے نفع بخش تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل تمہارے لئے اس سے زیادہ نافع ہے۔“
”عن جابر رضی الله عنہ: سمعت النبی صلی الله علیہ وسلم یقول: من کانت لہ أرض فلیھبھا أو لیعرھا۔“
ترجمہ:… ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس کے پاس زمین ہو، اسے چاہئے کہ وہ کسی کو ہبہ کردے یا عاریةً دے دے۔“
”عن ابن عباس رضی الله عنھما: أن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لأن یمنح أحدکم أخاہ أرضہ خیر لہ من أن یأخذ علیھا کذا وکذا۔“
ترجمہ:… ”ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: البتہ یہ بات کہ تم میں سے ایک شخص اپنے بھائی کو اپنی زمین کاشت کے لئے بلاعوض دے دے اس سے بہتر ہے کہ اس پر اتنا اتنا معاوضہ وصول کرے۔“
یعنی ہم نے مانا کہ زمین تمہاری ملکیت ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ قانون کی کوئی قوّت تمہیں ان کی مزارعت سے نہیں روک سکتی، لیکن کیا اسلامی اُخوّت کا تقاضا یہی ہے کہ تمہارا بھائی بھوکوں مرتا رہے، اس کے بچے سسکتے رہیں، وہ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رہے، لیکن تم اپنی ضرورت سے زائد زمین جسے تم خود کاشت نہیں کرسکتے، وہ بھی اسے معاوضہ لئے بغیر دینے کے لئے تیار نہ ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ مسلمان بھائی کی ضرورت پورا کرنے پر حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے کتنا اجر و ثواب ملتا ہے؟ یہ چند ٹکے جو تم زمین کے عوض قبول کرتے ہو، کیا اس اَجر و ثواب کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ مہاجرین کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کے بعد حضراتِ انصار نے ”اسلامی مہمانوں“ کی معاشی کفالت کا بارِگراں جس خندہ پیشانی سے اُٹھایا، اِیثار و مروّت، ہمدردی و غم خواری اور اُخوّت و مواسات کا جو اعلیٰ نمونہ پیش کیا، ”نھی عن کراء الأرض“ کی احادیث بھی اسی سنہری معاشی کفالت کا ایک باب ہے۔
اِمام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر یہ باب قائم کرکے اسی طرف اشارہ کیا ہے:
”باب ما کان أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم یواسی بعضھم بعضًا فی الزراعة والثمرة۔“
(صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۱۵)
ذرا تصوّر کیجئے! ایک چھوٹا سا قصبہ (المدینہ) اس میں انصار کی کل آبادی ہی کتنی تھی؟ ان کا ذریعہٴ معاش کیا تھا؟ لے دے کر یہی زمینیں! جو اسلام سے پہلے خود ان کی اپنی ضروریات کے لئے بھی بصد مشکل کفالت کرتی ہوں گی، ان کی جاں نثاری و بلند ہمتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ عہد کرلیا تھا کہ ہم اپنی اور اپنے بال بچوں کی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی کفالت کریں گے۔ انہوں یہ عہد جس طرح نبھایا وہ سب کو معلوم ہے (رضی الله عنھم وارضاھم وجزاھم عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء) اطراف و اکناف سے کھنچ کھنچ کر قافلوں کے قافلے یہاں جمع ہو رہے تھے اور حضراتِ انصار ”أھلًا وسھلًا ومرحبًا“ کہہ کر ان کا استقبال فرما رہے تھے۔ کون اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ چھوٹی سی بستی اور اس کے یہ چند گنے چنے ”انصار الاسلام“ کتنے معاشی بوجھ کے نیچے دَب گئے ہوں گے، لیکن صد آفرین ان وفاکیش فدائیوں کو! کہ ایک لمحے کے لئے انہوں نے اس بوجھ سے اُکتاہٹ کا احساس تک نہیں کیا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مہمانوں کی خاطر اپنا سب کچھ پیش کردیا، گویا ان کا اپنا کچھ نہیں تھا، جو کچھ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، اور ان کی حیثیت محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کارندوں کی تھی۔ سوچنا چاہئے کہ ان حالات میں ”انصار الاسلام“ کو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں: ”جس کے پاس زمین ہو وہ اپنے بھائی کو ہبہ کردے یا اسے عاریةً دے دے“ کیا اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اسلام میں مزارعت کا باب ہی سرے سے مفقود ہے؟ ان احادیث کو مدینہ طیبہ کے معاشی دباوٴ اور حضراتِ انصار کی ”کفالتِ اسلامیہ“ کے پسِ منظر میں پڑھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ ان کا منشا یہ نہیں کہ اسلام میں مزارعت ناجائز ہے، (اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ یہ معاملہ کیوں کرتے؟) بلکہ ان کا منشا یہ ہے کہ بقول سعدی:
ہر چہ درویشاں را است وقف محتاجاں است
آپ اپنی ضرورت پوری کیجئے اور زائد اَز ضرورت کو ضرورت مندوں کے لئے حسبةً للہ وقف کردیجئے، یہ تھے احادیثِ نہی کے تین محمل، جس کی وضاحت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمائی، اور جن کا خلاصہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ کے الفاظ میں یہ ہے:
”وکان وجوہ التابعین یتعاملون بالمزارعة، ویدل علی الجواز حدیث معاملة أھل خیبر وأحادیث النھی عنھا محمولة علی الاجارة بما علی المأذیانات أو قطعة معینة، وھو قول رافع رضی الله عنہ، أو علی التنزیہ والارشاد، وھو قول ابن عباس رضی الله عنھما، أو علٰی مصلحة خاصة بذٰلک الوقت من جھة کثرة مناقشتھم فی ھٰذہ المعاملة حیئنذ، وھو قول زید رضی الله عنہ، والله أعلم!“ (حجة الله البالغہ ج:۲ ص:۱۱۷)
ترجمہ:… ”(صحابہ کے بعد) اکابر تابعین مزارعت کا معاملہ کرتے تھے، مزارعت کے جواز کی دلیل اہلِ خیبر سے معاملے کی حدیث ہے، اور مزارعت سے ممانعت کی احادیث یا تو ایسی مزارعت پر محمول ہیں جس میں نہروں کے کناروں (مأذیانات) کی پیداوار یا کسی معین قطعے کی پیداوار طے کرلی جائے، جیسا کہ حضرت رافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یا تنزیہ و ارشاد پر، جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، یا اس پر محمول ہیں کہ مزارعت کی وجہ سے بکثرت مناقشات پیدا ہوگئے تھے، اس مصلحت کی بنا پر اس سے روک دیا گیا، جیسا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا، واللہ اعلم!“
قریب قریب یہی تحقیق حافظ ابنِ جوزی نے ”التحقیق“ میں، اور اِمام خطابی نے ”معالم السنن“ میں کی ہے، مگر اس مقام پر حافظ تورپشتی شارح مصابیح (رحمہ اللہ) کا کلام بہت نفیس و متین ہے، وہ فرماتے ہیں:
”مزارعت کی احادیث جو موٴلف (صاحبِ مصابیح) نے ذکر کی ہیں اور جو دُوسری کتبِ حدیث میں موجود ہیں، بظاہر ان میں تعارض و اختلاف ہے، ان کی جمع و تطبیق میں مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے نہیٴ مزارعت کے باب میں کئی حدیثیں سنی تھیں جن کے محمل الگ الگ تھے، انہوں نے ان سب کو ملاکر روایت کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی فرماتے ہیں: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے“، کبھی کہتے ہیں: ”میرے چچاوٴں نے مجھ سے بیان کیا“، کبھی کہتے ہیں: ”میرے دو چچاوٴں نے مجھے خبر دی“ بعض احادیث میں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ غلط شرائط لگالیتے تھے اور نامعلوم اُجرت پر معاملہ کرتے تھے، چنانچہ اس کی ممانعت کردی گئی۔ بعض کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی اُجرت میں ان کا جھگڑا ہوجاتا تاآنکہ نوبت لڑائی تک پہنچ جاتی۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اگر تمہاری یہ حالت ہے تو مزارعت کا معاملہ ہی نہ کرو“ یہ بات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے۔ بعض احادیث میں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا کہ مسلمان اپنے بھائی سے زمین کی اُجرت لے، کبھی ایسا ہوگا کہ آسمان سے برسات نہیں ہوگی، کبھی زمین کی روئیدگی میں خلل ہوگا، اندریں صورت اس بے چارے کا مال ناحق جاتا رہے گا، اس سے مسلمانوں میں باہمی نفرت و بغض کی فضا پیدا ہوگی، یہ مضمون حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے سمجھا جاتا ہے کہ: ”جس کی زمین ہو، وہ خود کاشت کرے یا کسی بھائی کو کاشت کے لئے دے دے“ تاہم یہ بطور قانون نہیں بلکہ مروّت و مواسات کے طور پر ہے۔ بعض احادیث میں ممانعت کا سبب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاشتکاری پر فریفتہ ہونے، اس کی حرص کرنے اور ہمہ تن اسی کے ہو رہنے کو ان کے لئے پسند نہیں فرمایا، کیونکہ اس صورت میں وہ جہاد فی سبیل اللہ سے بیٹھ رہتے، جس کے نتیجے میں ان سے غنیمت و فیٴ کا حصہ فوت ہوجاتا (آخرت کا خسارہ مزید برآں رہا) اس کی دلیل ابواُمامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
(اشارة الٰی ما رواہ البخاری من حدیث أبی أُمامة رضی الله عنہ: لا یدخل ھٰذا یبتا الا دخلہ الذل)۔“
اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں مزارعت نہ مطلقاً جائز ہے، نہ مطلقاً ممنوع، بلکہ اس بات کی تمام احادیث کا مجموعی مفاد ”کج دار و مریز“ کی تلقین ہے، حضراتِ فقہائے اُمت نے اس باب کی نزاکتوں کو پوری طرح سمجھا، چنانچہ تمام فقہی مسالک میں ”کج دار و مریز“ کی دقیق رعایت نظر آئے گی، اور یہ بحث و تحقیق کا ایک الگ موضوع ہے، والله ولی البدایة والنھایة!
**********************************
اولیاء الله کا مقام اور ان کی علامات:
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْعَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ : " مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا ، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ ، وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الرِّقَاقِ » بَاب التَّوَاضُعِ ... رقم الحديث: 6048]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ اور میرا بندہ میری فرض کی ہوئی چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو پناہ دیتا ہوں اور جس کام کو کرنے والا ہوتا ہوں اس کے کرنے میں مجھے تردد نہیں ہوتا۔ جس قدر مجھے نفس مومن سے تردد ہوتا ہے کہ وہ موت کو مکروہ سمجھتا ہے اور میں اس کے برا سمجھنے کو مکروہ سمجھتا ہوں۔(بخاري)
تخريج الحديث
الشواهد
تخريج الحديث
تخريج الحديث
تخريج الحديث
تخريج الحديث
تشریح :