Monday 22 September 2014

فرقۂ منکرینِ حدیث کی حقیقت

                                                                            فرقۂ منکرینِ حدیث

فرقہ منکرینِ حدیث(پرویزیت)کاتعارف

فرقہ منکرینِ حدیث (پرویزیت) کا پس منظر

فرقہ انکارِ حدیث کی نبی کریم  خود اس کی خبر دے چکے تھے، جیسے کہ ایک راویت میں ارشاد نبوی ہے:

الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن فما وجدتم من حلال فاحلوہ و ما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ۔

(مشکوٰۃ:۲۹)

ترجمہ:   قریب ہے کہ ایک امیر آدمی  اپنے صوفہ پر بیٹھے یہ کہے گا کہ تمہیں قرآن کافی ہے، تم اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جس چیز کو حرام پاؤ اُسے حرام کہو۔


انکارِ حدیث کی چند کی وجوہات

۱۔       انکارِحدیث کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرآن ایک اصولی اور کلی کتاب ہے جس میں اختصار اور اجمال ہے،اس میں اپنے مطلب کی تاویل ہوسکتی ہے، جبکہ احادیث میں تفصیل ہونے کی وجہ سے تاویل نہیں ہوسکتی۔
۲۔      اور قرآن کی تاویل کرکے منکرین حدیث اپنی خواہشات نفس پر عمل کرسکتے ہیں، جبکہ احادیث نبویہ ان شہوات پر عمل کرنے میں قدم قدم پر مزاحم ہیں۔
۳۔      نیز قرآن میں تاویل کرکے وہ اپنی آزادی اور دل کے تقاضے پر عمل کرتے ہیں، مثلاً نماز کی مثال ہے کہ سردی کے ایام میں صبح نرم و گرم بسترں کو چھوڑ کر مسجد جانا یہ طبیعت پر شاق ہے، اس لئے انہوں نے کہا کہ نماز سے مراد دعاء ہے یا اسی طرح کی اس کی کوئی تاویَل کرلی جائے۔
۴۔      نیز انکار حدیث سے نبی کریم کی اتباع ہی ختم ہوجائے گی جبکہ آپ کا اسوۂ حسنہ ایک ایسا محسور ہے جس پر پہنچ کر اختلافات ختم ہوجاتے ہیں۔
۵۔      احادیث سے امت میں اتحاد پیدا ہوتا ہے جو مسلمانوں کی اصل قوت ہے اور جب حدیث کا انکار کردیا جائے گا تو اب ہر ایک اپنے طور سے قرآن میں تاویل کرے گا اور امت میں انتشار ہوگا، یہی کام دشمنان اسلام چاہتے ہیں۔
۶۔      نیز انکارِ حدیث سے کے ضمن میں نبی کریم  کی ذات کے ساتھ تمسخر اور مذاق بھی ہے کہ آپ کے اقوال و افعال ہمارے لئے حجت نہیں ہیں، ہم نبی کو چلو مان لیں مگر آپ کی کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں، یہ بات کسی شیطان کو خوش کرنے والی ہے۔
۷۔      نیز انکارِ حدیث والے جب انہوں نے حدیث کا انکار کیا اور عقل کو مختارِ کل سمجھا تو اللہ ان کی عقل کے فہم کو چھین لیا، یہی بات آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول سے ملتی ہے:

ان عمر بن الخطابؓ کان یقول اصحاب الرأی اعداءُ السنن اعیتھم الاحادیث ان یحفظوھا و تفلّتت منھم ان یعوھا و استحیوا حین سئلوا ان یقولوا لا نعلم فعارضوا السنن برأیھم فایکم و ایاھم۔

(اعلام الموقعین:۱/۸۰)

ترجمہ:   حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ عقل کی اتباع کرنے والے حدیث کے دشمن ہوا کرتے ہیں، احادیث یاد کرنے کی ان کو توفیق نہیں ہوتی اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ یہ کہتے ہوئے شرماتے ہیں کہ ہمیں علم نہیں، لہٰذا وہ اپنی رائے سے جواب دیتے ہیں اور احادیث کا عقل سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں، تم ایسے لولگوں سے بچتے رہنا۔

اگر منکرینِ حدیث کی عقل کام کرتی تو یہ سوچتے کہ جس قرآن کو وہ ماتے ہیں اسی قرآن میں تو یہ بھی ہے:

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى o عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى o 

(نجم:۳،۴)

ترجمہ:   نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتے، وہ تو تمام وحی ہی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔

بہر حال اگر منکرین حدیث کو کوئی علمی مغالطہ ہوتا کہ اس کے دور ہوجانے کے بعد وہ احادیث کو مان لیتے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیتے مگر ایسا نہیں ہے، کیونکہ علماء حق نے ان کے مغالطوں کو ختم کرنے کے لئے ایک نہیں بیسیوں کتابیں لکھیں، مگر وہ اپنی ضد پر آج تک جمے ہوئے ہیں اور :

خَتَمَ اللہ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ  o

(بقرہ:۷)

ترجمہ:   اللہ نے ان کے دلوں پر مہر اور کانور پر اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ ............مصداق ہیں۔


فرقہ منکرین حدیث کے بانی مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے حالات

حدیث کا انکار اگرچہ اس سے پہلے سر سیّد احمد خان، مولوی چراغ علی نے بھی کیا، مگرہ وہ کھل کر سامنے نہیں آئے، یہ عبد اللہ چکڑالوی ہی ہے جس نے سب سے پہلے کھلم کھلا حدیث کا انکار کیا۔
نام:    اس کا نام ابتداءًا قاضی غلام نبی تھا اور یہ چکڑالہ ضلع میانوالی کا رہنے والا تھا، مگر نبی اور حدیث کی نفرت کی وجہ سے اس نے اپنا نام غلام نبی سے بدل کر عبد اللہ رکھ لیا۔
تعلیم:  اس نے تعلیم ڈپٹی نذیر احمد سے حاصل کی، کیونکہ ڈپٹی نذیر احمد بھی ترک تقلید کی طرف مائل تھے، تو یہ اثر عبد اللہ کے اندر بھی آیا اور پھر یہی اثر بڑھتے بڑھتے انکارِ حدیث تک پہنچ گیا۔

عبد اللہ چکڑالوی کا انکارِ حدیث

ابتداء میں یہ خود اپنی مسجد میں بخاری شریف کا درس دیتے رہے مگر پھر آہستہ آہستہ حدیث کا بالکل انکار کرنا شروع کردیا، سید قاسم محمود صاحب اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں تحریر کرتے ہیں:
’’ایک عرصہ تک بخاری شریف کا اس نے درس جاری رکھا، مگر طبعی اضطراب نے بخاری اور قرآن کا توازن شروع کردیا، بعض احادیث کو خلافِ آیات اللہ قرار دے کر اعلان کردیا کہ جب قرآن ایک مکمل ہدایت ہے تو حدیث کی ضرورت ہی کیا ہے؟ (یہ سن کر) چینیاں والی مسجد کے مقتدی کچھ عرصہ تک تو برداشت کرتے رہے، پھر ایک دن مسجد سے نکال دیا‘‘۔

(اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)

آگے سید محمود قاسم لکھتے ہیں: ’’جب عبد اللہ چکڑالوی کو مسجد سے نکال دیا گیا تو ایک متشدد مقتدی محمد غبش عرف چٹو پھدالی ان کو سییانوالی بازار اپنے مکان میں گیا جہاں احاطہ میں ایک مسجد بناکر اہل قرآن کے مسائل کی تشہیر شروع کردی‘‘۔

(اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)

ان کے چچازاد بھائی قاضی قمر الدین جو حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ اور احمد حسن کانپوری کے شاگرد تھے انہوں نے کھل کر مقابلہ کیا، نیز عبد اللہ چکڑالوی کے لڑکے قاضی ابراہیم نے بھی اپنے والد صاحب کا مسلک ماننے سے انکار کردیا، دوسرے صاحبزادے قاضی عیسیٰ اگرچہ کچھ دنوں تک والد کے ساتھ رہے، مگر پھر ان کو بھی توبہ کی توفیق ہوئی۔

قرآن کی تفسیر

عبد اللہ چکڑالوی نے قرآن نے قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی جس کا نام ترجمۃ القرآن بآیات القرآن ہے، اس تفسیر میں کھل کر جگہ جگہ پر اس نے انکارِ حدیث کیا، مثلاً ایک جگہ پر لکھتے ہیں:
’’کسی جگہ سے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی کہ قرآن کریم کے ساتھ کوئی شئی آپ پر نازل ہوئی تھی، اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن کریم کے سواء اور چیز سے دین اسلام میں حکم کرے گا تو وہ مطابقِ آیاتِ مذکورہ بالا کافر، ظالم اور فاسق ہوجائے گا‘‘۔

(ترجمۃ القرآن:۴۲۔ مطبوعہ ۱۳۲۰ھ، لاہور)

اسی طرح اس نے ایک دوسری کتاب ’’برھان القرآن علی صلوٰۃ القرآن‘‘ لکھی جو چار سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں بھی اس نے خوب حدیث کا انکار کیا ہے۔

موت کا عبرتناک واقعہ

ایک مرتبہ لوگوں نے موقع دیکھ کر اس کو سنگسار کردیا کہ اتنا پتھروں سے مارا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ مرنے کے قریب ہے تو نیم مردہ حالت میں اس کو ملتان سے اس کے آبائی گاؤں چکڑالہ لے گئے، پھر چند ہی دنوں کے بعد دنیا سے رخصت ہوگیا۔

(اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)


غلام احمد پرویز کے حالات

موصوف کا پورا نام غلام احمد پرویز اور والد کا نام چودھری فضل دین تھا، متحدہ ہندوستان کے معروف شہر بٹالہ (ضلع گورداس پور) کے ایک سنی حنفی گھر میں ۹/جنوری ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے، ان کے دادا حکیم مولوی رحیم بخش اپنے وقت کے مانے ہوئے صوفی بزرگ تھے اور اور چشتیہ نظامیہ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیم:   ابتدائی تعلیم اور مذہبی تعلیم پرویز نے اپنے گھر پر ہی والد اور دادا کی زیر نگرانی حاصل کی، ایک انگریزی اسکول Alady of England  سے ۱۹۲۱ء میں میٹرک پاس کیا، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ۱۹۲۴ء میں B.A. کی ڈگری حاصل کی، ۱۹۲۷ء میں گورنمنٹ آف انڈیا کے مرکزی سکریٹریٹ میں ملازمت اختیار کیا اور بہت جلد ترقی پاکر  Heme Department کے Stablishment Division میں ایک عہدہ پر کام کیا، کچھ عرصہ بعد غلام احمد پرویز کی ملاقات حافظ اسلم جیراجپوری (جو کہ بذات خود منکرین حدیث میں شمار کئے جاتے تھے) سے ہوئی اور صحبت کیونکہ عادات کو منتقل ہونے میں معاون ہوتی ہے، لہٰذا جو سوچ اسلم جیراجپوری کی تھی اس سوچ نے پرویز کی تنکیرِ حدیث کی سوچ کو مزید جِلا بخشی اور ویس اسلم جیراجپوری کا ایک جانشین تیار ہوتا چلا گیا، جوکہ بعد میں فتنہ انکارِ حدیث کے نشر و اشاعت کا بڑا ذریعہ بنا، پرویز نے ۱۹۳۸ء میں ’’طلوعِ اسلام‘‘ رسالہ جاری کیا، اس کا پہلا شمارہ اپریل ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا اور یہی در اصل وہ مرکز بنا جہاں سے لوگوں کے ذہنوں کو اسلام، دین اور علماء سے متنفر کرنے کا آغاز ہوا اور اسلام کے لبادے میں قرآنی فکر اور قرآنی بصیرت جیسے خوبصورت الفاظ کو استعمال کر کے لوگوں شرعی حدود و قیود میں آزاد زندگی کے سبز باغ دکھائے گئے۔
پرویز کی بچپن کی تربیت
بچپن ہی سے پرویز کی تربیت اتنے متنوع ماحول میں ہوئی، وہ خود لکھتے ہیں’’میں جس جذب و شوق سے میلاد کی محفلوں میں شریک ہوتا تھا، اسی سوز و گداز کے ساتھ عزا داری کی مجلسوں میں بھی حاضری دیتا تھا وار قوالی تو خیر تھی ہی جزوِ عبادت، اسی قسم کے اضداد کا مجموعہ تھا، میرے بچپن اور ابتدائے شباب زمانہ‘‘۔

(غلام احمد پرویز، از قاسم نوری:۷۲۔۷۴)

اس صفحہ کے حاشیہ پر علامہ پرویز نے لکھا ہے کہ ’’ویسے بھی صوفی آدھا شیعہ ہوتا ہے‘‘، پرویز کے نظریات کے اس قدر کفر آمیز ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بغیر کسی عالم کے کے تفسیر پڑھی، پھر ان کی تربیت بھی غیر دینی ماحول میں ہوئی، اول تو انگریزی ماحول تعلیم تھا، پھر سر سید کے خیالات کا مطالعہ، اس طرح ان کے ذہن میں انکارِ حدیث کے فتنہ جڑ پکڑ لی۔
’’بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انگریزی ادب، فلسفہ، تاریخ، سائنس، ٹیکنالوجی اور معاشیات کے علوم پر توجہ دینی شروع کردی، ساتھ ہی ساتھ سیاست اور اقوامِ عالم کی سیاسی اور مذہبی تحریکوں کامطالعہ شروع کردیا‘‘۔

(قاسم نوری غلام احمد پرویز:۱۲۹)

پھر اس پر مزید ستم یہ کہ اسلم جیراجپوری جیسے منکر حدیث کی صحبت ان کو میسر آئی، خود لکھتے ہیں کہ ’’ایک حدیث پڑھ کر میرے ذہن میں سوالات اور حیرت اور استعجاب کے ساتھ ساتھ بغاوت کے جھکڑ چلنے شروع ہوئے تو علامہ محمد اقبال اور حافظ محمد اسلم جرأت کی رفاقت نے سہارا دیا‘‘۔

(قاسم نوری غلام احمد پرویز:۱۲۹)

علماء نے تفسیر کے لئے پندرہ علوم پر مہارت کو ضروری بتایا ہے، بھلا جو عربی سے نا آشنا ہو وہ قرآن کی تفسیر کیا کرسکتا ہے، اس ماحول کو خراب کرنے کے لئے خواہش یا اس کی تعلیم و تربیت کوئی چیز بھی اس کو قرآن و حدیث میں لب کشائی کی اجازت نہیں دیتی، یہی وجہ ہے کہ پرویز نے جب اس کی جرأت کی تو قرآن کے الفاظ کو اپنی خواہشات کا جامہ پہنایا، اسی کو قرآن نے کہا ہے کہ:

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللہ عَلَى عِلْمٍ ۔

(جاثیہ:۲۳)

ترجمہ:   بھلا دیکھ تو جس نے ٹہرالیا اپنا حاکم اپنی خواہش کو اور راہ سے بچلادیا اس کو اللہ نے جانتا بوجھتا۔

(ترجمۃ القرآن محمود الحق)

در اصل دین کو ہر آدمی نے اپنی میراث سمجھ رکھا ہے، نہ مدرسہ کی تعلیم، نہ علماء کی صحبت، نہ صحیح ستہ کی رہنمائی، نہ ائمہ اربعہ کی تقلید، بلکہ یکسر سب کی نفی اور اس پر مور یہ کہ ہم بھی تو مسلمان ہیں، قرآن ہماری بھی ہے، ہم کو ہر وہ معنی اخذ کرنے کا اختیار ہے جو ہمارے مقاصد کا ممد و معاون ہو، حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے انکارِ حدیث کے ذریعہ انکارِ قرآن کی بنیاد رکھی ہے، جب ان سے پوچھا جاتا ہے: ’’کیا دوسرے مسلمان نہیں؟‘‘ تو کہتے ہیں جس کا لازمی مفہوم یہ نکلتا ہے کہ ’’ایک شخص قرآن پر عمل کرے بغیر اور اس کو مانے بغیر بھی مسلمان ہوتا ہے‘‘، تو بھلا مسلم اور کافر میں کیا فرق ہے۔
پرویز کی موسیقی سے دلچسپی
علامہ پرویز کو بچپن ہی سے شعر و شاعری اور موسیقی سے دلچسپی تھی، طبیعت کو شہ اس طرح ملی کہ پرویز کے دادا صاحب سلسلہ چشتیہ کے صوفی تھے جس میں موسیقی کو جزوِ عبادت سمجھا جاتا تھا۔
’’بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ پرویز صاحب پایہ کے انشاء پردار، مضمون نگار اور شاعر بھی تھے، خوش گلو بھی تھے، لحن و لہجہ بھی حسین تھا اور فن موسیقی سے بھی خوب واقف تھے، کلاسیکی موسیقی سے بہت لگاؤ تھا، ان کے ہاں گراموفون ریکارڈ کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا، شعر کہتے سُر میں ڈھالتے اور سازووں سے ہم آہنگ بھی کرتے تھے، صبح کے راگ بہت پسند تھے، خاص طور پر اساوری اور جونپوری من پسند راگ تھے‘‘۔

(قاسم نوری:۲۸)

ملازمت:        قیامِ پاکستان کے بعد علامہ پرویز کراچی آگئے اور حکومت پاکستان کے مرکزی سکریٹریٹ میں اسی عہدہ پر کام کیا جس عہدہ پر انڈیا میں تھے، ۱۹۵۵ء میں ریٹائرمنٹ لے کر اپنی سوچ و فکر کی نشر و اشاعت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرلیا، اس وقت ان کے پاس اسسٹنٹ سکریٹری (کلاس ون) گزیٹڈ آفیسر کا عہدہ تھا۔
۱۹۵۳ء میں غلام احمد پرویز نےاپنی ’’قرآنی بصیرت‘‘ اور ’’قرآن فہمی‘‘ کو دروس کی شکل دینا شروع کردی اور لوگوں کے ذہنوںو سے اسلام کی حقیقت کو محو کرنا شروع کردیا، یہ درس کراچی میں پرویز کی رہائش گاہ پر ہوتا تھا، ۱۹۵۸ء میں لاہور منتقل ہوئے اور وہاں بھی ان دروس کا آغاز کیا، یہ ہفت روزہ ہوا کرتے تھے، ۱۵/اکٹوبر ۱۹۸۴ء تک یہ سلسلہ جاری رہا، قرآن کی اس ’’تفسیر بالرأی‘‘ کا پہلا دور۱۹۶۷ء میں مکمل ہوا اور پھر دوبارہ شروع کردیا تھا، غلام احمد پرویز اپنے دروس قرآن اپنی رہائش گاہ پر دیا کرتے تھے، یہ درس ہر جمعہ کو ہوا کرتا تھا اور باقاعدہ اس کی ویڈیو کیسیٹ بناکرتی تھی اور اب بھی جگہ جگہ ان ویڈیو کیسیٹس کے ذریعہ قرآنی دروس ہوتے ہیں، کراچھی میں پانچ مقامات پر ان کے دروس ہوتے ہیں، یہ دروس جمعہ کی شام کو ہوتے ہیں، مرکزی دفتر بھایانی سینٹر ناتھ ناظم آباد میں واقع ہے، جہاں کے انچارج اسلام صاحب ہیں، جو کہ آغاز ’’طلوع اسلام‘‘ سے پرویز کے شانہ بشانہ فتنہ انکارِ حدیث میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، طلوع اسلام کا مرکزی صدر دفتر لاہو ہی میں ہے، غلام احمد پرویز کی رہائش گاہ ۲۵ڈی، گلبرگ۲، لاہور۱۱، میں ان کی تصانیف، مقالے اور وہ تمام مواد جو کہ انہوں نے مرتب کیا یا جس سے ان کے مسلک کے نظریات و عقائد کی تشریح ہوتی ہو موجود ہے اور اس تمام مواد کے ذخیرہ کو The Pervaiz Memorial Research Scholer Library  کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
اولاد:  پرویز نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، لیکن ان کے قائمکردہ ادارے اور تصانیف کا مواد آج بھی مسلمانوں کو صحیح رخ سے پھیرنے اور حدیث، قرآن کے حقیقی معنی، اجماعِ امت اور علماء کی سرپرستی سے محروم کرکے قرؤن کو من پسند معنوی جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہیں، اس میں طلوعِ اسلام کی بزمیں (جہاں ہفت روزہ درس ہوتے ہیں) مجلہ طلوع اسلام (ماہنامہ) ادارۂ طلوعِ اسلام۔
The Qurane The Pervaiz Memorial Research Eduvation Society The Quranic Research Center Scholar Library.
ویڈیو اور آڈیو کیسیٹس میں قرآنی دروس، پمفلٹس اور ان کی تصانیف شامل ہیں۔
’’طلوعِ اسلام‘‘ کے مقاصد
۱۹۳۸ء میں پرویز نے اپنے مقاصد کی اشاعت کے لئے رسالہ کا سہارا لیا اور الفاظ کا خوبصورت جامہ پہنا کر اپنے مقاصد کو مستور کرلیا، محدثین کی سالوں کی شبانہ روز محنت سے مرتب کئے گئے خزائنِ احادیث کو پرویز نے ایرانی اثرات اور جھوٹی روایات سے تعبیر کیا، دین میں انحراف پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس کو نشاۃِ ثانیہ جیسا خوبصورت نام دیا، عوام الناس کو علماء کی سرپرستی سے محروم کرکے ان کو آزاد زندگی کے سبز باغ دکھائے کہ جس میں ہوائے نفسانی کا جامہ الفاظِ قرآن کو پہنا کر نیا دین پیش کیا گیا تھا، ادارہ طلوعِ اسلام کے قیام کے چیدہ چیدہ وہ مقاصد یہ تھے:
’’دینِ خالص کو ہزار سالہ روایتوں درایتوں اور ایرانی اثرات کی دبیز تہوں سے نکالا جائے اور روحِ قرآنی کو اس کی اصلی شکل میں پیش کیا جائے اور اسی مقصد کے پیش نظر اس رسالہ کا نام علامہ اقبال نے طلوعِ اسلام تجویز کیا تھا، اسلام نشاۃ ثانیہ کے لئے ماحول سازگار بنایا جائے، مذہبی پیشوائیت کی طرف سے جو بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈہ تصورِ پاکستان اور بانئ پاکستان کے بارے پیش کیا جارہا تھا اس کا مدلل اور مؤثر جواب دیا جائے‘‘۔
قرآن کی تفسیر بالرائے
پرویز نے حدیث کی تکذیب کرتے ہوئے اپنی سوچ اور سمجھ سے قرآن کی تفسیر کی، عقل حیران ہے کہ صاحبِ کتاب مفہومِ کتاب کو زیادہ صحیح سمجھ سکتا ہے یا چودھویں صدی کا ایک لغاتِ قرآن سے نابلد شخص یہ دعویٰ کرے کہ نہیں قرآن تو کچھ اور کہتا ہے، مزید لکھتے ہیں:
’’میں اپنی بصیرت کے مطابق قرآنی فکر پیش کرتا ہوں، آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ از خود قرآن کریم پر غور و فکر کے بعد فیصلہ کریں کہ میری فکر صحیح ہے یا نہیں‘‘۔
وفات: علامہ غلام احمد پرویز کا انتقال ۲۴/ فروری ۱۹۸۵ء میں ہوا
فرقہ پرویزیت (منکرینِ حدیث) کے عقائد و نظریات
۱۔       حدیث عجمی سازش ہے۔

(مقام حدیث:۱/۴۲۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)

۲۔      آج جو اسلام دنیا میں رائج ہے اس کا قرآنی دین سےکوئی واسطہ نہیں ہے۔

(مقام حدیث:۱/۳۹۱۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی)

۳۔      قرآن مجید میں جہاں پر اللہ اور رسول کا نام آیا ہے اس سے مراد مرکز ملت ہے۔

(اسلامی نظام:۸۶۔ ادارہ طلوع اسلام کراچی۔ معارف القرآن:۴/۶۲۶)

۴۔      اور جہاں پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد مرکزی حکومت کی اطاعت ہے۔

(معارف القرآن:۴/۶۲۶)

۵۔      قرآن میں أَطِيعُوا اللہ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (نساء:۵۹) میں اولی الامر سے مراد افسرانِ ماتحت ہیں۔

(اسلامی نظام:۱۱۰)

۶۔      رسول کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ اللہ کا قانون انسانوں تک پہنچادیں۔

(سلیم کے نام (پرویز):۲/۳۴، ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)

۷۔      آپ کی وفات کے بعد آپؐ کی اطاعت نہیں ہوگی، اطاعت زندوں کی ہوتی ہے۔

(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)

۸۔      ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب انسانوں کو اپنا معاملہ خود ہی حل کرنا ہوگا۔

(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)

۹۔       مرکز ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادات، نماز، روزہ، معاملات وغیرہ میں جس چیز کو دل چاہے بدل دے۔

(قرآنی فیصلے:۳۰۱۔ ادارہ طلوعِ اسلام کراچی)

۱۰۔     اللہ تعالیٰ کا (معاذ اللہ) کوئی خارج میں وجود نہیں ہے، بلکہ اللہ ان صافت کا نام ہے جو انسان اپنے اندر تصور کرتا ہے۔

(معارف القرآن:۴/۴۲۰)

۱۱۔      آخرت سے مراد مستقبل ہے۔

(سلیم کے نام ۲۱واں خط:۲/۱۲۴)

۱۲۔     آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں، یہ تو نام ہے نوعِ انسانی کا۔

(لغات القرآن:۱/۲۱۴)

۱۳۔     آپ کا قرآن مجید کے سواء کوئی معجزہ نہیں ہے۔

(سلیم کے نام خط:۳/۳۶۔۳/۹۱۔ معارف القرآن:۴/۷۳۱)

۱۴۔     نماز مجوسیوں سے لی ہوئی ہے، قرآن مجید نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ قیامِ صلوٰۃ یعنی نماز کے نظام کو قائم کرنے کا حکم ہے، مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کو ان بنیادوں پر قائم کرنا چاہئے جن سے اللہ کی ربوبیت کی عمارت قائم ہوجائے۔

(قرآن فیصلے:۲۶۔ معارف القرآن:۴/۳۲۸۔ نظامِ ربوبیت:۸۷)

۱۵۔     آپ کے زمانہ میں نماز دو وقت میں تھی(فجر و عشاء)۔

(لغات القرآن:۳/۱۰۴۳)

۱۶۔     زکوٰۃ اس ٹیکس کا نام ہے جو اسلامی حکومت لیتی ہے۔

(قرآنی فیصلے:۳۷۔ سلیم کے نام ۵واں خط:۱/۷۷)

۱۷۔     آج کل زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ ٹیکس ادا کردیا جاتا ہے، تو اب زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

(نظامِ ربوبیت:۷۸)

۱۸۔     حج نام ہے عالمِ اسلامی کی عالمی کانفرنس کا۔

(لغات القرآن:۲/۴۷۴)

۱۹۔      قربانی تو صرف عالمی کانفرنس میں شرکاء کے کھلانے کے لئے تھی، باقی قربانی کا حکم کہیں نہیں۔

(رسالہ قربانی:۳۔ قرآنی فیصلے:۵۵/۱۰۴)

۲۰۔     قرآن کی روح سے سارے مسلمان کافر ہوتے، موجودہ زمانہ کے مسلمان برہمنو سماجی مسلمان ہیں۔

(سلیم کے نام ۳۵واں خطا:۳/۱۹۷)

۲۱۔     صرف چار چیزیں حرام ہیں: (۱)بہتا ہوا خون۔ (۲)خنزیر کا خون۔ (۳)غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں۔ (۴)مردار۔

(حلال و حرام کی تحقیق)

۲۲۔     جنت اور جہنم کی بھی کوئی حقیقت نہیں، جو صرف انسانی ذات کی کیفیات کے یہ نام ہیں۔

(لغات القرآن:۱/۴۴۹، ادارہ طلوع اسلام لاہور)




فرقہ پرویزیت کے عقائد و نظریات اور قرآن و حدیث سے ان کے جوابات

پہلا عقیدہ: حدیث عجمی سازش ہے۔

(مقامِ حدیث:۱/۴۲۱)

جواب:
یہ عقیدہ رکھنا کہ حدیث عجمی سازش کے نتیجہ میں مرتب ہوئی، علماء کے نزدیک کفر ہے، خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے نبی کریم کی بعثت کے تین کاموں میں سے ایک یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ کتاب حکمت یعنی سنت اور حدیث کی تعلیم دیں، جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

۱۔       هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ  o

(جمعہ:۲)

ترجمہ:   اللہ وہی ہے جس نے امیین میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرمایا کہ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اور اس سے پہلے وہ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔

حکمت بقول حضرت ابن عباسؓ، حسن بصریؒ کے سنت رسول اللہ  ہے، اگر حدیث کو نہ جانا جائے تو قرآن بھی سمجھ میں نہیں آسکتا، مثلاً :

۲۔      وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللہ ۔

(مائدہ:۳۸)

ترجمہ:   چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو، ان کی کمائی کی سزا ہے یہ تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے۔

آیت بالا میں ہے کہ ہاتھ کو کاٹو، تو ہاتھ کہاں سے کاٹنا ہے، بغل سے یا کلائی سے یا پونچھوں سے، اس کی وضاحت تو حدیث سے ہی ہوگی پورے قرآن میں تو موجود نہیں ہے۔

۳۔      مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللہ ۔

(حشر:۵)

ترجمہ:   تم نے کھجور کا جو درحت کاٹا یا اپنی جڑ پر کھڑا رہنے دیا یہ اللہ کے حکم سے کیا۔

اب اللہ کا حکم قرآن میں کیا ہے کہ کھجور کے درخت کو کاٹا یا چھوڑا، یہ حکم تو حدیث میں ہے، تو حدیث کے بغیر آیت بالا کا مفہوم واضح نہیں ہوگا، اس لئے حدیث کو ماننا حقیقتاً قرآن کو ہی ماننا ہے، میزان شعرانی میں ہے:

لو لا السنۃ ما فھم احد منا القرآن۔

(میزان شعرانی:۲۵)

ترجمہ:   اگر سنت (حدیث) نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی شخص قرآن نہیں سمجھ سکتا تھا۔

دوسرا عقیدہ:آج جو اسلام رائج ہےاس کا قرآنی دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

(مقامِ حدیث:۱/۳۹۱0)

جواب:
اس عقیدہ میں اسلام کو ختم کردیا گیا ہے، اس اعتبار سے آج کل کے سارے ہی مسلمان کافر ہوں گے، یہ ساری بات اس لئے کہی گئی ہے کہ پرویز اپنے خود ساختہ دین پر لوگوں کو لانا چاہتا ہے۔
تیسرا عقیدہ: قرآن مجید میں جہاں اللہ اور رسول کا نام آیا اس سے مراد مرکز ملت ہے۔

(اسلامی نظام:۸۶، ادارہ طلوع اسلام کراچی۔معارف القرآن:۴/۶۲۶)

جواب:
یہ بھی ایک کھلی ہوئی تحریف اور زندیقیت ہے، یہ وہ مطلب ہے کہ پندرہ سو سال میں آج تک کسی نے یہ مطلب بیان نہیں کیا، ارشاد خداوندی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌo 

(حٰمٓ سجدہ:۴۰)

ترجمہ:   بیشک وہ لوگ جو ہماری آیات میں الحاد کی راہیں نکالتے ہیں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں، بھلا جو آدمی ؤگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن سے ہوں گے، جو چاہو کرو، بیشک جو کچھ تم کرتے ہو وہ دیکھتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اپنی طرف سے مطلب نہیں نکالتے بلکہ سیدھی سیدھی وہی بات مراد لیتے ہیں جو قرآن سے ظاہر ہوتی ہے۔
چوتھا عقیدہ: جہاں اللہ و رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد مرکزی حکومت کی اطاعت ہے۔

(معارف القرآن:۴/۶۳۱)

جواب:
یہ ظاہر ہے اور ہر ایک جانتا ہے کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی بنیاد ہے اور پھر تمام احکامات کے ماتحت گھومتے ہیں، اسی بات کو قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے، ایک جگہ پر ارشادِ خداوندی ہے:

قُلْ أَطِيعُوا اللہ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللہ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ o

 (اٰل عمران:۳۲)

ترجمہ:   آپ کہہ دیجئے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، پس اگر تم اس سے اعراض کروگے تو اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

آیت بالا سے بالکل صاف واضح ہورہا ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے اعراض کریں گے وہ کافر ہوجائیں گے، ا س لئے وہ جو بھی کریں وہ اللہ کو پسند نہیں۔

پانچواں عقیدہ: قرآن میں اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم میں اولی الامر سے مراد افسرانِ ماتحت ہیں۔

(اسلامی نظام:۱۱۰)

جواب:
یہ عقیدہ بھی قرآن و احادیث اور اجماع کے بالکل خلاف ہے، تمام ہی مفسرین رحمہم اللہ تعالیٰ کا اتفاق ہے کہ أَطِيعُوا اللہ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (نساء:۵۹) میں مراد اللہ جل شانہ کی اطاعت ہے، جو قرآن کی صورت میں موجود ہے۔
وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ اس سے مراد نبی کریم  کی اطاعت ہے، جو آپ نے اپنی عملی زندگی سے امت کو دئے اور وہ احادیث اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی صورت میں محفوظ ہیں۔
وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ اس سے مراد بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ فرماتے ہیں:

اھل الفقہ و الدین و اھل طاعۃ اللہ الذین یعلمون الناس معانی دینھم ویأمرونھم بالمعروف و ینھون عن المنکر فاوجب اللہ طاعتھم علی العباد۔

(تفسیر الدر المنثور:۲/۱۷۶)

ترجمہ:   وہ حضرات ہیں جو فقہ اور دین کے ماننے والے ہیں اور اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں اور نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی اطاعت اپنے بندوں پر فرض کی ہے۔ (یہی تفسیر تقریباً تمام ہی مفسرین رحمہم اللہ نے بیان کی ہے)

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے افسران مراد لینا صریحاً نصوص کے خلاف ہونے کی وجہ سے کفر ہے۔
چھٹواں عقیدہ:
رسول کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ اللہ کا قانون انسانوں تک پہنچادیں۔

(سلیم کے نام خط:۲/۳۴)

جواب:
یہ عقیدہ رکھنا بھی اہل سنت و الجماعت کے نزدیک کفر ہے، کیونکہ قرآن نے آپ کی بعثت کا جو مقصد بیان کیا  ہے یہ عقیدہ کے اس کے بالکل خلاف ہے اور آپ کی بعثت کے تین مقاصد ہیں:

(۱)      رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۔

(بقرہ:۱۲۹)

ترجمہ:   اے ہمارے پروردگار! ان لوگوں میں خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔

آیت بالا میں رسول اللہ  کی بعثت کا ایک مقصد یہ بیان کیا جارہا ہے کہ آپ کے ذمہ یہ بھی ہے کہ اللہ کی آیات کی تعلیم دیں، اس بات کو دوسرے مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے، مثلاً :

(۲)     إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللہ ۔

(نساء:۱۰۵)

ترجمہ:   بیشک ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے، تاکہ لوگوں کے درمیان جو کچھ اللہ تمہیں سمجھائے اس سے تم فیصلہ کرو۔

قرآن میں ایک مقام پر آپ کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:

)     وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ ۔

(نساء:۶۴)

ترجمہ:   ہم نے رسول کو بھیجا اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے۔

اسی وجہ سے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قال ابو حنیفۃ واصحابہ من برئ من محمد  او کذب بہ فھو مرتد۔

(درمختار:۴۰۱)

ترجمہ:   امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحابؒ یہ فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی نبی پاک  سے بیزاری کا اظہار کرے یا آپ کو جھٹلائے تو وہ مرتد ہے۔

ساتواں عقیدہ:
یہ عقیدہ کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی اطاعت نہیں ہوگی۔
جواب:
یہ عقیدہ بھی اہل سنت و الجماعت کے نزدیک آپ کی اطاعت کے انکار نیز آپ کی رسالت و نبوت کا انکار ہونے کی وجہ سے کفر ہے، قرآن میں آپ کی اطاعت کا حکم ہے اور قرآن و احادیث میں آپ کی نبوت قیامت تک  کے لئے بیان کی گئی ہے، اس لئے آپ کی اطاعت کا حکم بہت سی آیات میں دیا گیا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:

۱۔       مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہ ۔

(نساء:۸۰)

ترجمہ:   جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

۲۔      وَأَطِيعُوا اللہ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ  o 

(اٰل عمران:۱۳۲)

ترجمہ:   اور اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی تاکہ تم پر رحم ہو۔

۳۔      يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ o 

(محمد:۳۳)

ترجمہ:   اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔

۴۔      يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ o 

(انفال:۲۰)

ترجمہ:   اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مت پِھرو اس سے سننے کے بعد۔

یہ حکم احادیث میں بھی ہے کہ آپ کی اطاعت قیامت تک کے لئے ہوگی، آپ کی اطاعت کے بغیر نجات ممکن نہیں۔

۱۔       عن ابی ھریرۃؓ عنہ قال قال رسول اللہ کل امتی یدخلون الجنۃ الا من ابی قیل و من ابی قال من اطاعنی دخل الجنۃ و من عصانی فقد ابی۔

(بخاری و کذا فی مشکوٰۃ:۲۷)

ترجمہ:   حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا کہ میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان لوگوں کے جو انکار کرے، عرض کیا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا(وہ جہنم میں داخل ہوگا)۔

۲۔      عن مالک بن انس مرسلاً قال قال رسول اللہ  ترکتُ فیکم امرین لن تضلّوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ۔

(مؤطا مالک: وکذا مشکوٰۃ:۳۱)

ترجمہ:   رسول اللہ  نے فرمایا : تمہارے اندر دوچیزیں میں چھوڑ رہا ہوں، جب تک تم اس پر عمل کرتے رہو گے تو گمراہ نہیں ہوگے: (۱) اللہ کی کتاب۔ (۲)اس کے رسول کی سنت(احادیث)۔

۳۔      و عن جابرؓ قال قال رسول اللہ  والذی نفسی بیدہ لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل و لو کان حیّا و ادرک نبوّتی لاتبعنی۔

(سنن دارمی و کذا مشکوٰۃ:۳۲)

ترجمہ:   حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ہے! اگر تمہارے سامنے موسیٰ علیہ السلام تشری لے آئیں اور تم ان کی اتباع کرنے لگو مجھ کو چھوڑ کر تو یقیناً تم گمراہ ہوجاؤ گے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور وہ میری نبوت کو پاتے تو وہ میری ہی اتباع کرتے۔


آٹھواں عقیدہ:
نبی کریم  کی ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب لوگوں کو اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔
جواب:
یہ مطلب ختم نبوت کا آج تک کسی نے بھی نہیں بتایا اور نہ ہی کسی نے سنا ہوگا کہ اب خود ہی فیصلے کرنے ہوں گے، بلکہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر نبوت کا و رسالت ختم ہوگئی اور اب آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا، ؤپ کی تعلیمات ہی اب قیامت تک رہنمائی کریں گی۔
اور یہ کہنا کہ رسول کے بعد اب ہر ایک کو اپنا فیصلہ خود ہی کرنا ہوگا، یہ عقیدہ بھی آپ کی رسالت کا انکار ہے، آپ کی تباع قرآن مجید نے ہر زمانہ میں کرنے کا حکم دیا ہے، آپ کے دنیا سے تشریف لیجانے کے بعد جب بھی کوئی مسئلہ حضرات صحابہؓ کو پیش آیا تو انہوں نے سب سے پہلے آپ کی تعلیمات اور ارشادات ہی میں تلاش کرکے عمل کیا یا آپ کی تعلیمات پر قیاس کرکے عمل کیا، خود ہی فیصلے نہیں کئے۔
نواں عقیدہ:
مرکز ملت تمام عبادات و معاملات کو زمانہ کے لحاظ سے جس طرح چاہے بدل سکتا ہے۔
جواب:
یہ عقیدہ بھی صریح کفر ہے، مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ  خاتم الانبیاء ہیں، قرآن کریم آخری کتاب ہے، دین و شریعت میں اب قیامت تک کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، خواہ حالات جیسے بھی ہوں، جیسے کہ ارشاد خداوندی ہے:

۱۔       إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللہ الْإِسْلَامُ ۔

(اٰل عمران:۱۹)

ترجمہ:   اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔

۲۔      وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ o 

(اٰل عمران:۸۵)

ترجمہ:   اور جو کوئی دین اسلام کے سواء اور کوئی دین کو چاہے گا تو اس سے ہرگز قبول نہیں ہوگا۔

۳۔      لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللہ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللہ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۔

(احزاب ۲۱)

ترجمہ:   بیشک تمہارے لئے رسول اللہ  کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو۔

اسی طرح متعدد احادیث سے بھی اور اجماع امت سے بھی یہی بات ثابت ہے کہ شریعت محمدؐی آخری شریعت ہے، اس میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
دسواں عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کا (معاذاللہ) کوئی خارج میں وجود نہیں ہے بلکہ اللہ ان صفات کا نام ہے جو انسان اپنے اندر تصور کرتا ہے۔

(معارف القرآن:۴/۴۲۰)

جواب:
یہ عقیدہ رکھنا کہ (معاذاللہ) اللہ کی کوئی ذات نہیں، یہ عقیدہ رکھنا بھی کھلا ہوا کفر ہے، قرآن و احادیث اور اجماع امت سب سے اس کا بطلاب ثابت ہے، قرآن کی ایک نہیں سیکڑوں آیات اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کیا گیا ہے، مثلاً:

۱۔       وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ o 

(بقرہ:۱۶۳)

ترجمہ:   اور تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے کوئی معبود نہیں اس کے سواء جو برا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

۲۔      وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللہ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ o 

(عنکبوت:۶۱)

ترجمہ:   اور اگر لوگوں سے سوال کرو کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے وار کس نے کام میں لگایا سورج وار چاند کو؟ تو وہ کہیں گے اللہ، پھر کدھر الٹے چلے جارہے ہیں۔

۳۔      قُلْ هُوَ اللہ أَحَدٌ o اللہ الصَّمَدُ o لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ o وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ o

(سورۂ اخلاص)

ترجمہ:   کہدیجئے کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ اس کو کسی نے جنا اور نہیں کوئی اس کے برابر۔

گیارہواں عقیدہ:
آخرت سے مراد مستقبل ہے۔
جواب:
یہ عقیدہ بھی قرآن و احادیث اور اجماع و قیاس سے باطل ہے، آخرت کا انکار کرنا بھی کفر ہے، آج تک امت کے علماء نے آخرت سے مرنے کے بعد والی زندگی مراد لی ہے، اس کے خلاف مفہوم مراد لینا یہ خود ساختہ قرآن و احادیث کی تاویل ہے، یہ قابل قبول نہیں ہوسکتی، قرآن میں متعدد مقامات پر آخرت کا تذکرہ ہے، مثلاً :

۱۔       يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ۔

(حج:۵)

ترجمہ:   اے لوگو! اگر تم کو دوبارہ زندہ ہونے میں شک ہے تو تحقیق ہم نے تم کو مٹی سے پید کیا پھر نطفہ سے پیدا کیا۔

۲۔      قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ o قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌo

(یٰسین:۷۸،۷۹)

ترجمہ:   کافر کہتے ہیں کہ بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ ای نبی! آپ ان سے کہدیجئے کہ جس ذات نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا وہی ان کو دوبارہ پیدا کرےگا، وہ تو ہر چیز کو جاننے والا ہے۔



بارہواں عقیدہ:
حضرت آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں اس سے مراد نوعِ انسانی ہے۔
جواب:
یہ عقیدہ بھی اسلام کی رُو سے کفر ہے کہ اس کی وجہ سے قرآن کی بہت سی آیات اور وہ احادیث جن میں حضرت آدم علیہ السلام تذکرہ آیا ہے سب سے سب کا انکار لازم آتا ہے۔
قرآن مجید میں ایک دو جگہ نہیں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے، مثلاً :

۱۔       وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ۔

(بقرہ:۳۱)

ترجمہ:   ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔

اسی طرح حدیث میں آتا ہے:

۱۔       انا سیدُ ولد آدمؑ ۔

(مشکوٰۃ:۵۱۱)

ترجمہ:  

۲۔      أَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَهُ آدَمُ  فَمَنْ دُونَهُ۔

(مشکوٰۃ:۵۱۳)

ترجمہ:   میں قیامت کے حمد کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہوں گا اور حضرت آدم علیہ اور ان کے علاوہ سب اس کے نیچے ہوں گے۔

اسی طرح عقائد کی کتابوں میں درج ہے، مثلاً :

۱۔       بقولہ لا اعلم ان آدم علیہ السلام نبیٌّ اولا۔

(بحر الرائق:۵/۱۳۰)

ترجمہ:   اس کو کافر کہا جائے گا جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ حضرت آدم علیہ السلام نبی تھے یا نہیں۔

۲۔      اول الانبیاء آدم و آخرھم محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اما نبوۃ آدم علیہ السلام فبالکتاب الدال علی انہ قد امر و نُھی ...... کذا السنۃ و الاجماع فانکار نبوتہٖ علی ما نقل عن البعض یکون کفراً ۔

(شرح عقائد:۱۲۵)

ترجمہ:   سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آخری نبی محمد  ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے نبوت کا ثبوت قرآن مجید سے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اوامر و نواہی کے احکامات دئے گئے تھے۔ ....... اسی طرح سنت اور اجماع سے بھی حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت ثابت ہے، اس کا انکار کرنا جیسے کہ بعض لوگ کرتے ہیں یہ کفر ہے۔

تیرہواں عقیدہ:
آپ کا قرآن کے سواء کوئی معجزہ نہیں ہے۔

(سلیم کے نام خط:۳/۳۶۔۳/۹۱۔ معارف القرآن:۴/۷۳۱)

جواب:
علماء فرماتے ہیں کہ معجزات کا انکار بھی قرآن کی آیات کا انکار ہے، اس لئے یہ بھی کفر ہے، عقائد کی کتابوں میں نبی کریم  کے تین قسم کے معجزات کو بیان کیا گیا ہے۔
ایک قرآن مجید، دوسرے آپ  کی پیغمبرانہ زندگی، تیسرے وہ معجزات جو کہ خوارق عادت ہوتے ہیں، مثلاً چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا، تھوڑا کھانا زیادہ کو کافی ہوجانا، کنکریوں کی تسبیح کا لوگوں کو سنانا، تھوڑا سا پانی بہت زیادہ ہوجانا،(اتحاف شرح احیاء العلوم:۲/۲۰۳) بعض ان میں سے قرآن کی آیات یا احادیث متواترہ سے ثابت ہیں، اس لئے اس کا انکار بھی کفر ہوگا۔

(المسامرۃ، عقائد الاسلام)

چودھواں عقیدہ:
نماز تو نام ہے معاشرہ کو ان بنیادوں پر قائم کرنا جن پر ربوبیت نوعِ انسانی کی عمارت استوار ہو۔
جواب:
یہ عقیدہ رکھنا نماز کے بارے میں یہ بھی سراسر کفر ہے، کیونکہ نماز کا مفہوم عہدِ رسالتؐ میں اور آج تک متواتر طریقہ سے وہ ہے جس میں قیام، قراءت، رکوع، سجدہ، قعدہ وغیرہ ہو، اس سلسلہ میں صاحب نسیم الریاض فرماتے ہیں:

ولا ترتاب بذٰلک بعد و المرتاب فی ذٰلک المعلوم من الدین بالضرورۃ و المنکر لذالک بعد البحث عنہ و صحبۃ المسلمین کافرًا بالاتفاق۔

(نسیم الریاض:۴/۵۵۳)

ترجمہ:   نمازکے معروف و مشہور طریقہ کا انکار یا اس میں شک نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص شک کرے وہ امور جو ضروریاتِ دین میں سے ہیں اس کو علم بھی ہو اور پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے باوجود اس کا انکار کرے تو وہ بالاتفاق کافر ہے۔



پندرہواں عقیدہ:
آپ کے زمانہ میں نماز دو وقت میں تھی(فجر و عشاء)۔

(لغات القرآن:۳/۱۰۴۳)

جواب:
یہ بھی بالکل جھوٹ ہے، پانچ وقت کی نماز کے اوقات متواتر ہیں، اس کا انکار بھی علمائے عقائد کے نزدیک کفر ہے، یہی عقیدہ کسی زمانہ میں اہلِ خوارج کا تھا، ان کو بھی علماء نے کافر کہا ہے۔
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

و کذالک علی کفر من قال من الخوارج ان الصلوٰۃ الواجبۃ طرفی النھار فقط و المراد بطرفی النھار اولہ و آخرہ۔

(نسیم الریاض:۴/۵۵۰)

ترجمہ:   اسی طرح اجماع ہے ان خوارج کے کفر پر جو یہ کہتے ہیں کہ نماز صرف دن کے دونوں سروں پر فرض ہے، یعنی دن کے ابتداء اور انتہاء میں۔

سولہواں عقیدہ:
زکوٰۃ تو نام ٹیکس کا جو اسلامی حکومت مسلمانوں سے لیتی ہے۔
جواب:
یہ عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے، کیونکہ زکوٰۃ قرآن و احادیث، اجماع و قیاس تمام ہی ادلہ سے ثابت ہے، مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے:

۱۔       و اقیموا الصلوۃ و اٰتُوا الزکوٰۃ۔

(قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے)

ترجمہ:   نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔

۲۔      خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا ۔

(توبہ:۱۰۳)

ترجمہ:   آپ ان کے مالوں سے زکوٰۃ لیجئے، جس کے ذریعہ ان کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔

اسی طرح متعدد احادیث سے اس کا ثبوت ہے:
اس لئے علماء فرماتے ہیں زکوۃ کا ادا کرنا فرض ہے، اس کا ادا نہ کرنا فسق ہے اور انکار کرنا کفر ہے۔

(فتح الملہم:۲/۱۔ بذل المجہود:۴/۱۔ تعلیق الصبیح:۲/۲۷۵ وغیرہم)

سترہواں عقیدہ:
آج کل زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ ٹیکس ادا کردیا جاتا ہے تو اب زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

(نظامِ ربوبیت:۸۷)

جواب:
یہ عقیدہ رکھنا کہ ٹیکس کی موجودگی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے، یہ بھی کفر ہے، کیونکہ زکوٰۃ کا حکم ہر مسلمان کے لئے قیامت تک کے لئے ہے، جو قرآن میں بار بار ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور جن کو زکوٰۃ ادا کرنی ہے وہ بھی قرآن میں متعین کردئے گئے ہیں:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ۔

(توبہ:۶۰)

ترجمہ:   بیشک زکوٰۃ کے مصارف فقراء، مساکین اور اس پر کام کرنے والے ہیں۔

تو یہ کہنا کہ زکوٰۃ واجن نہیں یہ ہے، یہ قرآن و حدیث اور اجماع سب کے خلاف ہونے کی وجہ سے کفر ہے۔


اٹھارہواں عقیدہ:
حج نام ہے عالمِ اسلامی کی عالمی کانفرنس کا۔

(لغات القرآن:۲/۴۷۴)

جواب:
یہ عقیدہ رکھنا بھی قرآن و احادیث، اجماع اور قیاس کے خلاف ہونے کی وجہ سے کفر ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے:

۱۔       وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللہ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ  o 

(اٰل عمران:۹۷)

ترجمہ:   اور اللہ کے لئے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے یعنی اس شخص کے لئے جو طاقت رکھے وہاں تک جانے کی اور جس شحص نے ناشکری کی تو وہ اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے بے پرواہ ہے۔

۲۔      وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۔

(بقرہ:۱۹۶)

ترجمہ:   اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔

احادیث کی ہر کتاب میں حج کے سلسلہ میں متعدد احادیث مروی ہیں۔
حج کا ادا نہ کرنا فرض ہونے کے باوجود فسق ہے اور اس کا انکار کرنا بالاتفاق کفر ہے۔
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

و کذالک یحکم بکفرہ ان انکر مکۃ او البیت او المسجد الحرام او انکر صفۃ الحج التی ذکھا الفقہاء و من واجباتہ و ارکانہ و نحوھا او قال الحج واجب فی القرآن و استقبال القبلۃ و کذٰلک و لکن کونہ ای المذکور منالحج و الاستقبال علی ھذہ الھیئۃ المتعارفۃ شرعاً عند سائر الناس و ان تلک المعروفۃ ھی حکم و البیت والمسجد الحرام لا ادری۔

(نسیم الریاض)

ترجمہ:   اور اسی طرح اگر کسی شخص نے مکہ یا بیت اللہ یا مسجد حرام کا انکار کیا یا حج کے کسی ایسے طریقہ کا انکار کیا جس کو فقہاء نے واجبات حج یا ارکان حج وغیرہ میں ذکر کیا ہے یا یوں کہا کہ حج قرآن میں فرض ہے اور اسی  طرح قبلہ کی طرف منہ کرنا بھی لیکن شریعت کی اس مشہور کو جو لوگوں نے راسخ ہے اور اسی مشہور مقام کو جو کہ مکہ بیت اللہ اور مسجد حرام ہے میں نہیں جانتا۔

آگے چل کر فرماتے ہیں:

فھذا القائل و مثلہ من یشک فی معانی النصوص المتواترۃ لا مریۃ فی تکفیرہ ای المکّۃ بکفرہ لانکارہ ما علم من الدین بالضرورۃ و ابطالہ الشرع و تکذیبہ للہ و رسولہ ۔

(نسیم الریاض:۴/۵۵۳)

ترجمہ: اس طرح کہنے والا اور وہ شخص جو کہ نصوص کے ان معانی میں شک کرتا ہو کہ جو متواتر ہیں اس کے کفر میں کوئی شک کرتا ہے تو اس کے بھی کفر میں کچھ شک نہیں، کیونکہ وہ ضروریات دین کا منکر ہے اور شریعت کا ابطال کرنے والا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلاتا ہے (اس لئے ایسا شخص کافر ہوگا)۔

انیسواں عقیدہ:
قربانی تو صرف عالمی کانفرنس میں شرکاء کے کھلانے کے لئے تھی باقی قربانی کا حکم کہیں نہیں۔

(رسالہ قربانی:۳۔ قرآنی فیصلے ۵۵،۱۰۴)

جواب:
قربانی یہ بھی اسلام کی اصل عبادت میں سے ہے خود قرآن میں اس کا حکم موجود ہے، مثلاً :

۱۔       قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ o 

(انعام:۱۶۲)

ترجمہ:   آپ فرمادیجئے کہ بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا یہ سب اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔

۲۔      فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْo

ترجمہ:   پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے؟

ایک دو نہیں متعدد احادیث میں قربانی کا ذکر آیا ہے، آپ نے ہمیشہ قربانی کروائی اور آج تک اس کا تسلسل چل رہا ہے کوئی بھی اس کا انکار یا تاویل نہیں کرسکا۔
اسی وجہ سے علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

و یکفر بانکارہ اصل الوتر و الاضحیۃ۔

(بحراالرائق:۵/۱۳۱)

ترجمہ:   اور وہ شخص جو وتر یا قربانی کا انکار کرے کافر ہوجائے گا۔

بیسواں عقیدہ:
قرآن کی روح سے سارے مسلمان کافر ہوتے، موجودہ زمانہ میں کے مسلمان برہمنو سماجی مسلمان ہیں۔

(سلیم کے نام ۳۵واں خط:۳/۱۹۷)

جواب:
مسلمانوں کو کافر کہنا اس کی احادیث میں سختی سے ممانعت وارد ہوئی ہے، علماء فرماتے ہیں مسلمان کو کافر کہنے سے وہ کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے۔
اکیسواں عقیدہ:
صرف چار چیزیں حرام ہیں: (۱)بہتا ہوا خون (۲)خنزیر کا خون (۳) غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں (۴) مردار۔
جواب:
یہ عقیدہ بھی قرآن و احادیث و اجماع وغیرہ کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن میں کئی چیزوں کو حرام فرمایا گیا ہے، مثلاً:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللہ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ ۔

(مائدہ:۳)

اسی طرح حدیث میں چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کے کھانے سے منع فرمایا گیا ہے، جیسے کہ شیر بھیڑیا وغیرہ۔
اس کے علاوہ فقہاء نے بہت سی چیزوں کو حرام کہا ہے۔


بائیسواں عقیدہ:
جنت اور جہنم کی بھی کوئی حقیقت نہیں، جو صرف انسانی ذات کی کیفیات کے یہ نام ہیں۔

(لغات القرآن:۱/۴۴۹، ادارہ طلوع اسلام لاہور)

جواب:
جنت اور جہنم کا وجود قرآن مجید کی ایک دو نہیں سیکڑوں آیات سے ثابت ہے، اسی طرح احادیث نبویؐ میں بکثرت اس کا ذکر میں بکثرت اس کا ذکر ہے، تو اس کا انکار بھی قرآن و حدیث کا انکار ہونے کی وجہ سے کفر ہوگا۔ مثلاً
جہنم کے بارے میں آیات:

۱۔       قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ o

(زمر:۷۲)

ترجمہ:   کہا جائے گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ رہوےگ اس میں اور وہ متکبرین کا بُرا ٹھکانہ ہے۔

۲۔      إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا o 

(فرقان:۶۶)

ترجمہ:   بیشک جہنم بہت بُری جگہ ہے ٹہرنے کی اور بُری جگہ ہے رہنے کی۔

جنت کے بارے میں آیات:

۱۔       قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۔

(یٰسین:۲۶)

ترجمہ:   کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجاؤ

۲۔      وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۔

 (زمر:۷۳)

ترجمہ:   اور جو متقی ہیں وہ جنت کی طرف  گروہ گروہ بناکر ہانکے جائیں گے۔

جہنم اور جنت کے بارے میں تمام عقائد کی کتابو میں لکھا ہوا ہے:

ان الجنۃ و النار مخلوقتان۔

(شرح عقائد نسفی)

ترجمہ:   بیشک جنت اور جہنم پیدا ہوچکے ہیں۔

اور تمام جسمانی اور روحانی لذتیں اور راحتیں اہل جنت کو میسر ہوں گی اور تمام جسمانی اور روحانی ایذائیں اہل جہنم کو حاصل ہوں گی۔

(عقائد اسلام:۸۹)

اس عقیدہ کے بارے میں علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

و کذٰلک نکفر من انکر الجنۃ و النار نفسھما اور محلّھما۔

(نسیم الریاض:۴/۵۵۵)

ترجمہ:   اور اسی طرح ہم اس کو بھی کافر کہیں گے جو جنت اور جہنم کا انکار کرے یا ان کے مقامات کا انکار کرے۔




فرقہ پرویزیت، فرقہ چکڑالوی اور منکرین حدیث کی مزید تحقیق کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا

۱۔ انکارِ حدیث کےنتائج                                   شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب
۲۔ حدیثِ رسولؐ کی تشریقی مقام                           مولانا محمد ادریس میرٹھی
۳۔ نصرۃ الحدیث                                          مولانا حبیب الرحمن اعظمؒ
۴۔ حفاظتِ حدیث و حجیتِ حدیث                          محترم فہیم عثمان
۵۔ تدوینِ حدیث                                         علامہ مناظر حسن گیلانیؒ
۶۔ فتنۂ انکار حدیث                                       مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ
۷۔ فتنۂ انکارحدیث                                       مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی
۸۔ پرویز کے متعلق علماء کا فیصلہ                  
۹۔ شوقِ حدیث                                           شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب
۱۰۔ فہمِ قرآن                                            مولانا سعید احمد اکبرآبادی
۱۱۔ اسلام میں سنت اور حدیث                                         کا مقام(کتاب السنۃ و مکانتہا)    مولانا محمد ادریس میرٹھی
۱۲۔ حجیت حدیث                                         مولانا ادریس کاندھلویؒ
۱۳۔ پرویز اور قرآن                                       مولانا مکرر اللہ صاحبؒ
۱۴۔ مقدمہ در ترمذی(اول)                              افادات مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب
۱۵۔ فتنۂ انکار حدیث اور اس کا پس منظر                     مولانا محمد عاشق الٰہی بلندی شہریؒ
۱۶۔ضرورتِ حدیث                                      مولانا پروفیسرکریم بخشی لاہوری
۱۷۔ مقام حدیث مع ازالہ شبہات                          مولانا فیض احمدککروی
۱۸۔ مقدمہ ترجمان السنۃ                                  مولانا بدر عالم میرٹھی
۱۹۔ تاریخ حدیث                                         پروفیسر عبد الصمد صارم ازہری
۲۰۔ حدیث قرآن کی تشریح کرتی ہے                      چودھری اصغر صاحب
۲۱۔ آثارالحدیث                                          علامہ خالد محمود صاحب
۲۲۔ انکارِحدیث                                         مولانا محمو یوسف لدھیانویؒ
کتابت حدیث عہد رسالت و عہد صحابہ میں        مولانا محمد رفیع عثمانی
حسنات الاخبار تاریخ الحدیث        قاضی عبدالصمد
حدیث کا بنیادی کردار      مولانا سید ابو الحسن علی ندوی
علم حدیث کا قرآنی معیار     حکیم الاسلام مولانا محمد طیب
فن اسماءالرجال     ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری
محاضرات حدیث      ڈاکٹر محمود احمد غازی
جاوید غامدی اور انکار حدیث     پروفیسر مولانا محمد رفیق

No comments:

Post a Comment