صبر کا حکم قرآن مجید میں 70 سے زائد بار دیا گیا ہے۔ ماتم ونوحہ صبر کی ضد ومخالفت ہے کیونکہ یہ نافرمانی اپنے ارادے واختیار سے کی جاتی ہے اور اللہ کے تقدیری فیصلوں پر راضی رہنے کی مخالفت ہے۔
بلکہ ماتم ونوحہ بدعت بھی ہے کیونکہ اسے دین کے حکم کی طرح ثواب کا کام سمجھ کر کیا جاتا ہے جبکہ یہ دین کا حکم نہیں۔
فطری غم اور مصنوعی غم کا حکم:
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: «اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، فَوَجَدَهُ فِي غَاشِيَةِ أَهْلِهِ، فَقَالَ: قَدْ قَضَى؟. قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، فَبَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا، فَقَالَ: أَلَا تَسْمَعُونَ، إِنَّ اللهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ، وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ، وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ يَرْحَمُ، وَإِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ. وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَضْرِبُ فِيهِ بِالْعَصَا، وَيَرْمِي بِالْحِجَارَةِ، وَيَحْثِي بِالتُّرَابِ»
ترجمہ:
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن وہب نے کہا کہ مجھے خبر دی عمرو بن حارث نے ‘ انہیں سعید بن حارث انصاری نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم ﷺ عیادت کے لیے حضرات عبدالرحمٰن بن عوف ‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ ﷺ اندر گئے تو تیمارداروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہوگئی؟ لوگوں نے کہا: نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم ﷺ (ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اللہ ﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ آپ ﷺ نے زبان کی طرف اشارہ کیا۔ (اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو) یہ (زبان) اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ عمر ؓ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے ‘ پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔
[صحیح البخاري:1304، صحیح مسلم:926]
مخلوق کے سامنے شکویٰ کرنا بےصبری ہے:
حضرت ابن مسعودؓ اور ابن عمرؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ بثَّ لَمْ يَصْبِرْجو(اپنی مصیبت کا مخلوق سے)شکوہ کرے اس نے صبر نہیں کیا۔
[فوائد تمام:1101، شعب الإيمان للبيهقي:9574]
حضرت یوسفؑ کی جدائی میں حضرت یعقوبؑ کا شکوہ کرنا مخلوق سے نہ تھا۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے:
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ
[فوائد تمام:1101، شعب الإيمان للبيهقي:9574]
حضرت یوسفؑ کی جدائی میں حضرت یعقوبؑ کا شکوہ کرنا مخلوق سے نہ تھا۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے:
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ
ترجمہ:
میں تو بس شکویٰ کرتا ہوں اپنے رنج وغم کا اللہ کی طرف۔۔۔
[سورۃ یوسف:86]
وَابْيَضَّتْ عَيْناهُ مِنَ الْحُزْنِ ثُمَّ أَمْسَكَ لِسَانَهُ عَنِ النِّيَاحَةِ
ترجمہ:
آنکھیں سفید ہوگئی تھیں غم میں روتے، اور روکے رکھا اپنی زبان کو نوحہ(چیخنے چلانے)سے۔
[تفسیر الرازی:18/497، تفسیر النيسابوري:4/118]
"ماتم" عربی زبان کا لفظ ہے، دراصل کسی غم یا خوشی میں مردوں اور عورتوں یا صرف عورتو ں کے اجتماع کو "ماتم" کہا جاتا ہے، پھر کسی کی موت پر عورتوں کے اجتماع کو "ماتم" کہا جانے لگا۔ ہمارے عرف میں میت پر نوحہ گری اور خلافِ شرع افعال کرنے کو "ماتم" کہتے ہیں۔
حوالہ
النهاية في غريب الأثر (4/ 596، بترقيم الشاملة آليا) "{ مأتم } ... في بعض الحديث [ فأقاموا عليه مَأتَماً ] المأتَم في الأصل : مُجْتَمَعُ الرجال والنساء في الحُزن والسُّرور ثم خُصَّ به اجتماع النساء الموت".
حوالہ:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَاءِ عَبْدِ الْأَشْهَلِ، يَبْكِينَ هَلْكَاهُنَّ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَكِنَّ حَمْزَةَ لَا بَوَاكِيَ لَهُ» فَجَاءَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ يَبْكِينَ حَمْزَةَ، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «وَيْحَهُنَّ مَا انْقَلَبْنَ بَعْدُ؟ مُرُوهُنَّ فَلْيَنْقَلِبْنَ، وَلَا يَبْكِينَ عَلَى هَالِكٍ بَعْدَ الْيَوْمِ»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (قبیلہ) عبدالاشہل کی عورتوں کے پاس سے گزرے، وہ غزوہ احد کے شہداء پر رو رہی تھیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لیکن حمزہ پر کوئی بھی رونے والا نہیں ، یہ سن کر انصار کی عورتیں آئیں، اور حمزہ ؓ پر رونے لگیں، رسول اللہ ﷺ نیند سے بیدار ہوئے، تو فرمایا: ان عورتوں کا برا ہو، ابھی تک یہ سب عورتیں واپس نہیں گئیں؟ ان سے کہو کہ لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی بھی مرنے والے پر نہ روئیں۔
[سنن ابن ماجه:1591]
تشریح:
نبی ﷺ نے پہلی بات اپنے غم کے اظہار کے لیے فرمائی تھی، اس کا مقصد ماتم کا حکم دینا نہیں تھا، اسی وجہ سے بعد میں رونے سے منع فرما دیا، اگر ماتم اور نوحہ کرنے کا حکم دینا مقصود ہوتا تو بعد میں منع نہ فرماتے، بہرحال حدیث شریف کا آخری حصہ ماتم اور نوحہ وغیرہ کی ممانعت کے لیے کافی ہے، نیز دیگر احادیث میں بھی بصراحت میت پر بآوازِ بلند گریہ کرنے، گریبان چاک کرنے اور گال پیٹنے وغیرہ سے منع کیا گیا ہے۔
حوالہ:
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري (12/ 307، بترقيم الشاملة آليا]
کسی کے انتقال پر مذہب اسلام میں صرف تین دن تک غم منانا جائز ہے، اس کے بعد غم منانا جائز نہیں۔ تین دن کے بعد عیدین کے موقع پر یا شادی کے موقعہ پر اس کے اہل خانہ خوشی مناسکتے ہیں، البتہ کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کے لیے چار مہینے دس دن تک غم منانا ضروری ہے، اور بیوہ حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک سوگ منانا لازم ہے۔ اور بیوہ کے لیے سوگ میں گھر سے باہر نکلنا، زینت اختیار کرنا اور خوش بو لگانا جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے لیے اس درمیان میں عیدین کا دن آجائے یا شادی کسی رشتہ دار کی ہو تو وہ خوشی نہیں مناسکتی۔
حوالہ
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.
ترجمہ:
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں۔
[سورۃ الْبَقَرَة : 234]
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا لَا تَكْتَحِلُ وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ.»
ترجمہ:
’’جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوائے شوہر کے۔ وہ اس کے سوگ میں نہ سرمہ لگائے، نہ رنگا ہوا کپڑا پہنے مگر یمن کا دھاری دار کپڑا (جو بُننے سے پہلے ہی رنگا گیا ہو۔)‘‘
[صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلَاقِ، بَابٌ:-تَلْبَسُ الْحَادَّةُ ثِيَابَ الْعَصْبِ، حدیث نمبر 5342]
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
«كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَطَّيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ، وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ.»
ترجمہ:
’’ہمیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوائے شوہر کے کہ اس کی وفات پر چار مہینے دس دن کی عدت تھی۔ اس عرصہ میں ہم نہ سرمہ لگاتیں، نہ خوشبو استعمال کرتیں اور نہ رنگا کپڑا پہنتی تھیں۔ البتہ وہ کپڑا اس سے الگ تھا جس کا (دھاگہ) بُننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ ہمیں اس کی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض کے بعد غسل کرے تو اس وقت اظفار کا تھوڑا سا عُود استعمال کر لے اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی۔‘‘
[صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلَاقِ، بَابُ الْقُسْطِ لِلْحَادَّةِ عِنْدَ الطُّهْرِ، حدیث نمبر 5341]
تابعی امام محمد بن سیرینؒ(م110ھ) فرماتے ہیں:
«تُوُفِّيَ ابْنٌ لِأُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ، دَعَتْ بِصُفْرَةٍ فَتَمَسَّحَتْ بِهِ وَقَالَتْ: نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ إِلَّا بِزَوْجٍ.»
ترجمہ:
’’ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹا فوت ہو گیا۔ وفات کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق (ایک قسم کی زرد خوشبو) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔‘‘
[صحيح البخاري: کتاب الْجَنَائِزِ، بَابٌ:-حَدُّ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا، حدیث نمبر 1279]
حضرت زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں ام المومنین زینب بن حجش کے پاس اس وقت گئی جب ان کا بھائی فوت ہوا، انہوں نے خوشبو منگوائی اوراسے لگایا اور پھر فرمایا: مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
«لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.»
ترجمہ:
’’کسی بھی عورت، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، شوہر کے سوا کسی مُردے پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں شوہر پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔‘‘
[صحيح البخاري: کتاب الْجَنَائِزِ، بَابٌ:-حَدُّ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا، حدیث نمبر 1282]
اسی طرح جب ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو ام المومنین نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق خوشبو کی زردی یا کسی اور چیز کی ملاوٹ تھی، پھر وہ خوشبو ایک لونڈی نے انہیں لگائی اور ام المومنین نے خود اسے اپنے چہرے پر لگایا، اس کے بعد فرمایا:
واللہ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن میں نے اللہ کے رسول سے سنا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
«لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا»
ترجمہ:
’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے، سوائے شوہر کے کہ اس کا سوگ چار مہینے دس دن کا ہے۔‘‘
[صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلَاقِ، بَابٌ: تُحِدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، حدیث نمبر 5334]
چنانچہ سمرقندی تحفۃ الفقہاء (2/251) میں کہتے ہیں:
"سوگ کا مطلب یہ ہے کہ: عورت ہر ایسے کام سے اجتناب کرے جو خواتین بناؤسنگھار کیلیے کرتی ہیں، جیسے کہ میک اپ کرنا، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، عصفر [زرد رنگ دینے کیلیے استعمال ہونے والی بوٹی] اور زعفران سے رنگا ہوا لباس، سرمہ ڈالنا، جسم پر تیل وغیرہ لگانا، بال سنوارنا، زیور پہننا، اور خضاب وغیرہ کا استعمال کرنا"۔
اسی طرح تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق از زیلعی (3/34) میں ہے کہ:
"خاوند کی وفات کے بعد عدت گزارنے والی عورت سوگ منائے گی اور اس کیلیے بناؤ سنگھار ، سرمہ ڈالنے اور تیل لگانے سے باز رہے، الا کہ کوئی عذر ہو تو، اسی طرح مہندی لگانے، عصفر یا زعفران میں رنگا ہوا لباس پہننے سے بھی باز رہے، اگر وہ عورت بالغ اور مسلمان ہو؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ خاوند کے علاوہ کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، خاوند کا سوگ چار ماہ دس دن تک منائے گی اس دوران سرمہ مت ڈالے، رنگدار کپڑے مت پہنے، عصبی کپڑا [ایسا کپڑا جس کے دھاگوں کو رنگ کر کپڑا بنایا گیا ہو]پہن سکتی ہے، خوشبو کا استعمال صرف اسی وقت کرے جب حیض سے پاک ہو، قسط یا اظفار نامی خوشبو دار بوٹی کی دھونی لے) متفق علیہ ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جس عورت کا خاوند فوت ہو چکا ہو وہ عصفر بوٹی یا مشق [سرخ رنگ کی مٹی] سے رنگے ہوئے کپڑے مت پہنے، زیور زیب تن مت کرے، خضاب اور سرمہ مت استعمال کرے) احمد، ابو داود، نسائی نے اسے روایت کیا ہے" ختم شد
حنفی فقہائے کرام بیوہ خاتون کو دوران عدت اور سوگ دن کے وقت ضرورت کی بنا پر گھر سے نکلنے کو جائز قرار دیتے ہیں، مثلاً: کام کاج اور علاج کیلیے گھر سے باہر جانا وغیرہ، لیکن اس کیلیے شرط یہ لگاتے ہیں کہ رات سے پہلے گھر واپس آ جائے اور رات گھر میں ہی بسر کرے، جیسے کہ بحر الرائق شرح کنز الدقائق و منحۃ الخالق (4/166) میں ہے کہ:
"وفات کی عدت گزارنے والی خاتون حصولِ معاش کے سلسلے میں دن اور رات کے کچھ حصے تک گھر سے باہر جا سکتی ہے ۔۔۔۔ تاہم کسی سے ملنے کیلیے یا کسی اور کام کیلیے رات یا دن کے کسی وقت میں گھر سے باہر نہیں جا سکتی۔"
حاصل کلام یہ ہے کہ: گھر سے باہر جانے کی اجازت حصولِ معاش کی وجہ سے ہے، لہذا جس قدر وقت میں اسے بقدر ضرورت روزی مل جائے تو اس کے بعد اس کیلیے وقت اپنے گھر سے باہر گزارنا جائز نہیں ہے" ختم شد
اور کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس خاتون کا خاوند فوت ہو گیا ہے وہ رات کے وقت گھر سے باہر مت نکلے، البتہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کیلیے دن میں گھر سے باہر جا سکتی ہے؛ کیونکہ دن میں اسے اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کیلیے گھر سے نکلنا پڑے گا؛ کیونکہ فوت شدہ خاوند تو اس پر اب خرچ نہیں کر سکتا، اب اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے گھر سے نکلنا پڑے گا تا کہ اپنی ضروریات پوری کر سکے، تاہم رات کے وقت گھر سے باہر مت نکلے کیونکہ رات کو روزی کیلیے نکلنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ مطلقہ خاتون کا خرچہ تو خاوند کے ذمے ہوتا ہے اس لیے اسے گھر سے نکلنے کی سرے سے ہی ضرورت نہیں ہے۔" ختم شد
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3 / 205)
دوران عدت گھر میں رہنا اور بناؤ سنگھار سے اجتناب کرنا یہ چاروں فقہی مذاہب کے ہاں تقریباً متفقہ مسئلہ ہے۔
چنانچہ مالکی فقہائے کرام میں سے ابن عبد البر " الكافي في فقه أهل المدينة " (2/622) میں کہتے ہیں:
"سوگ منانا ہر عورت پر واجب ہے، یہاں تک کہ اس کی عدت کے ایام مکمل ہو جائیں یا حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک۔۔۔ اور سوگ منانے کا مطلب یہ ہے کہ: ہر ایسے کام سے بچیں جو خواتین بناؤ سنگھار کیلیے کرتی ہیں، مثلاً زیور پہننا، میک اپ کرنا، سرمہ لگانا، خضاب لگانا، رنگدار اور رنگین لباس پہننا یا ایسا سفید لباس پہننا جو بناؤ سنگھار میں پہنا جاتا ہے۔۔۔زیور انگوٹھی وغیرہ تو یہ بیوہ خاتون کیلیے سوگ کے دوران پہننا جائز نہیں ہے، اسی طرح ہمہ قسم کی خوشبو، لیکن اگر سرمہ ڈالنے کی ضرورت محسوس ہو تو رات کے وقت سرمہ ڈال لے اور صبح آنکھیں دھو لے، کسی بھی خوشبو دار چیز کے قریب نہ جائے، اور جو چیزیں بناؤ سنگھار میں شامل نہیں ہوتیں انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
جبکہ شافعی فقہائے کرام میں سے ابو اسحاق شیرازی (التنبيه في الفقه الشافعي) (1 / 201) میں کہتے ہیں کہ:
"سوگ: یہ ہے کہ زیب و زینت ترک کر دے، زیور مت پہنے، خوشبو اور خضاب کا استعمال نہ کرے، بال مت سنوارے، اثمد یا تھوہر آنکھوں میں مت لگائے، اگر ضرورت پڑ بھی جائے تو رات کو لگا لے اور دن میں آنکھیں دھو لے، خالص سرخ یا نیلا لباس مت پہنے، بغیر ضرورت کے گھر سے مت نکلے، اور اگر کہیں ضرورت پڑ بھی جائے تو رات کے وقت پھر بھی باہر جانے کی اجازت نہیں ہے، البتہ بیوہ عورت دن میں اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے گھر سے باہر جا سکتی ہے " ختم شد
جبکہ حنبلی فقہائے کرام میں سے ابن قدامہ مقدسی عمدۃ الفقہ (1/107) میں لکھتے ہیں:
"باب ہے سوگ کے بار ے میں : جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اس پر سوگ واجب ہے، سوگ یہ ہے کہ ہمہ قسم کی زیب و زینت اور بناؤ سنگھار سے اجتناب کرے، خوشبو، سرمہ، رنگدار کپڑے خوبصورتی کیلیے استعمال نہ کرے۔۔۔ ایسی عورت پر اگر ممکن ہو تو اُسی گھر میں راتیں گزارنا ضروری ہے جہاں اس پر عدت واجب ہوئی تھی اور وہ اس جگہ رہ رہی تھی ۔" ختم شد
کبیرہ گناہ#113-118»
امام ابن حجر الہیتمیؒ نے کبیرہ گناہون کے موضوع پر اپنی کتاب [الزواجر عن اقتراف الكبائر:1/262، الناشر: دار الفكر] میں لکھا ہے:
(1)رخسار نوچنا، (2)گریبان چاک کرنا، (3)نوحہ کرنا، (4)نوحہ سننا، (5)بال نوچنا (5)اور واویلا مچانا۔
دلائل:
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
وہ ہم میں سے نہیں جو (کسی کے مرجانے پر) رخساروں کو پیٹے، گریبانوں کو چاک کرے اور دورِ جاہلیت کی پکار پکارے۔
[بخاری:1297]
میں اس سے بری ہوں جو اپنے بال منڈوائے، یا کپڑے پھاڑے یا نوحہ کرنے (یعنی چیخنے چلانے) لگے۔
[مسلم:104]
نوحہ(ماتم)کرنا جاہلیت کا کام ہے، اور اگر نوحہ کرنے والی عورت بغیر توبہ کے مرگئی، تو الله اس کے لیے تارکول (ڈامر) کے کپڑے، اور آگ کے شعلے کی قمیص بنائے گا۔
[ابن ماجہ:1581]
کیسا غمی میں صبر اور خوشی میں شکر ہو؟
(1) مصیبت کے وقت چہرے نوچنے، گریبان پھاڑنے اور شیطانی چیخوں سے
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
میں نے تو روکا ہے دو احمق اور نافرمان آوازوں سے:(1) مصیبت کے وقت چہرے نوچنے، گریبان پھاڑنے اور شیطانی چیخوں سے
(2) اور نعمت کے وقت کھیل تماشہ اور شیطانی موسیقی سے۔
[ترمذی:1005]
تاکہ تم غم نہ کھایا کرو اُس پر جو ہاتھ نہ آیا اور نہ شیخی کیا کرو اُس پر جو تم کو اُس نے دیا اور اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔
[قرآن، سورۃ الحدید:23]
[ترمذی:1005]
تاکہ تم غم نہ کھایا کرو اُس پر جو ہاتھ نہ آیا اور نہ شیخی کیا کرو اُس پر جو تم کو اُس نے دیا اور اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔
[قرآن، سورۃ الحدید:23]
(1) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْسَ مِنَّا مَنْ حَلَقَ ، وَلَا مَنْ سَلَقَ ، وَلَا مَنْ خَرَقَ ، وَلَا مَنْ دَعَا بِالْوَيْلِ وَالثُّبُورِ " . قَالَ زَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ : السَّلْقُ الصِّيَاحُ وَالْخَرْقُ ، خَرْقُ الْجَيْبِ ، وَالْحَلْقُ حَلْقُ الشَّعْرِ .
ترجمہ :
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ ہم میں سے نہیں جس نے (سوگ میں) بال منڈاۓ ، چیخ و پکار کی ، گریبان پھاڑا اور ہلاکت و موت کو پکارا. امام (اہل بیت) زید بن علی رحمة الله عليه نے فرمایا : "سلق" کا معنی چیخ و پکار، "خرق" کا معنی گریبان پھاڑنا ، اور "حلق" کا معنی بال مونڈنا ہے.
[مسند زيد (سنة الوفاة:122) » كِتَابُ الْجَنَائِزِ » بَابُ الصِّيَاحِ وَالنَّوْحِ ... رقم الحديث: 187]
(2) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلّمَ : " نَهَى عَنِ النَّوْحِ " .
ترجمہ:
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہمیں روکا ہے نوحہ کرنے سے.
[مسند زيد (سنة الوفاة:122) » كِتَابُ الْجَنَائِزِ » بَابُ الصِّيَاحِ وَالنَّوْحِ ... رقم الحديث: 188]
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
دوسرے بھی کئی صحابہ سے احادیث میں اس کی ممانعت ملتی ہے، ماننے والے کو ایک فرمان ہی کافی ہے.
الشواهد
|
|
|
|
|
|
|
|
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:
جو شخص رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا واویلا کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[بخاری:1297، مسلم:103، نسائی:1862]
[بخاری:1297، مسلم:103، نسائی:1862]
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنَا بَرِيءٌ مِمَّنْ حَلَقَ وَسَلَقَ وَخَرَقَ۔
ترجمہ:
جو شخص سر منڈوائے، بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے میں اس سے بیزار ہوں۔
[مسلم:104، ابوداؤد:3130، نسائی:1861، ابن ماجہ:1586]
جو شخص مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ وہ غمگین دکھائی دے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرٍ وَابْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ، وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ لَمْ يُطِعْنَهُ، فَقَالَ: انْهَهُنَّ، فَأَتَاهُ الثَّالِثَةَ، قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَزَعَمَتْ أَنَّهُ قَالَ: فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ، فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ لَمْ تَفْعَلْ مَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تَتْرُكْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ.
ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے یحییٰ سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے عائشہ ؓ سے سنا آپ نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ کو زید بن حارثہ ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت (غزوہ موتہ میں) کی خبر ملی ‘ تو آپ ﷺ اس وقت اس طرح تشریف فرما تھے کہ غم کے آثار آپ ﷺ کے چہرے پر ظاہر تھے۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور جعفر ؓ کے گھر کی عورتوں کے رونے کا ذکر کیا۔ تو آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ انہیں رونے سے منع کر دے۔ وہ گئے لیکن واپس آ کر کہا کہ وہ تو نہیں مانتیں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ انہیں منع کر دے۔ اب وہ تیسری مرتبہ واپس ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیں (عمرہ نے کہا کہ) عائشہ ؓ کو یقین ہوا کہ (ان کے اس کہنے پر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میں نے کہا کہ تیرا برا ہو۔ رسول اللہ ﷺ اب جس کام کا حکم دے رہے ہیں وہ تو کرو گے نہیں لیکن آپ ﷺ کو تکلیف میں ڈال دیا۔
[بخاری:1299، مسلم:935]
نوٹ:
شہید کی بیویوں کو بھی رونے سے روکا تو۔جو گھر والے نہیں ان کا رونا کیوں نہ منع کرنے کے قابل ہوگا؟
بغیر ارادہ و اختیار رونا آجانا (رحم کے آنسو جاری ہونا) فطری اور جائز ہے، لیکن ارادہ و اختیار سے یعنی جان بوجھ کر رونا دھونا غیرفطری اور ناجائز ہے، رسول الله ﷺ سے کبھی کسی کیلٗے ایسا( ہر سال) ارادہ و اختیار سے اعلانیہ رونا ہرگز ثابت نہیں۔
سیدنا حسینؓ کی سیدہؓ زینب کو نصیحت:
قَالَ: يَا أُخَيَّةُ لَا يُذْهِبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ.
قَالَ: يَا أُخَيَّةُ لَا يُذْهِبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ.
فرمایا: اے میری بہن! شیطان کہیں تمہارا حلم(حوصلہ) ختم نہ کردے ۔۔۔ بےشک زمین والوں کو مرنا ہے، اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے۔
وإني أقسم عليك يا أخية لا تشقي علي جيبا ولا تخمشي وجها. ( وَلَا تَدْعِي عَلَيَّ بِالْوَيْلِ وَالثَّبُورِ إِنْ أَنَا هَلَكْتُ.)
ترجمہ:
اور میں تمہیں قسم دیتا ہوں اے میری بہن! کہ(میری شہادت پر) تم کپڑے پھاڑنا، سینہ پیٹنا وغیرہ ہرگز نہ کرنا اور آواز سے رونے چلانے سے بچنا۔ (اور مت پکارنا ویل اور ہلاکت کو اگر میں ہلاک ہوجاؤں۔)
[[أنساب الأشراف للبَلَاذُري:3/186، المنتظم فی التاریخ الملوک والامم(امام)ابن الجوزی:5/338، الکامل فی التاریخ (امام)ابن الاثیر:3/168، البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/192، صفة مقتله]
ترجمہ:
اور میں تمہیں قسم دیتا ہوں اے میری بہن! کہ(میری شہادت پر) تم کپڑے پھاڑنا، سینہ پیٹنا وغیرہ ہرگز نہ کرنا اور آواز سے رونے چلانے سے بچنا۔ (اور مت پکارنا ویل اور ہلاکت کو اگر میں ہلاک ہوجاؤں۔)
[المنتظم فی التاریخ الملوک والامم(امام)ابن الجوزی:5/338، الکامل فی التاریخ (امام)ابن الاثیر:3/168]
کیونکہ موت وہلاکت کو پکارنا جہنمی کیلئے ہے۔
[حوالہ سورۃ الفرقان:14، سورۃ الانشقاق:11]
اتَّقِي اللَّهَ (واصبري) وَتَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اللَّهِ وَاعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَأَهْلَ السَّمَاءِ لَا يَبْقَوْنَ، وَأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بقدرته، ويميتهم بقهره وعزته، ويعيدهم فيعبدونه وحده، وَهُوَ فَرْدٌ وَحْدَهُ
ترجمہ:
اے میری بہن! الله سے ڈرنا (اور صبر کرنا) اور الله کی راحت(بدلہ)کے ساتھ راحت پانا، اور یاد رکھنا کہ زمین میں بسنے والی ہر مخلوق کو مرنا ہے اور آسمان والوں کو بھی بقا نہیں، اور بےشک ہر شیء ہلاک ہونے والی ہے سوائے الله کی ذات کے، جس نے اپنی قدرت سے مخلوقات بنائی، اور وہ انہیں موت دے گا اپنے قہر وغلبہ سے، اور وہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، تو وہ اسی اکیلے کی(ہمیشہ)عبادت کریں گے، اور وہی تنہا باقی رہے گا۔
[الکامل فی التاریخ (امام)ابن الاثیر:3/167، البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/192، صفة مقتله]
وَاعْلَمِي أَنَّ أَبِي خَيْرٌ مِنِّي، وَأُمِّي خَيْرٌ مِنِّي، وَأَخِي خَيْرٌ مِنِّي، ولي ولهم ولكل مسلم برسول اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ، ثم حرج عليها أن لا تَفْعَلَ شَيْئًا مِنْ هَذَا بَعْدَ مَهْلِكِهِ۔
ترجمہ:
اور یاد رکھنا کہ میرا باپ مجھ سے بہتر ہے اور میری ماں بھی مجھ سے بہتر ہے اور میرا بھائی بھی مجھ سے بہتر ہے، اور میرے لئے اور ان کیلئے اور سارے مسلمانوں کیلئے اسوۃ(زندگی گذارنے کا نمونہ) رسول الله ﷺ ہیں۔
اور یاد رکھنا کہ میرا باپ مجھ سے بہتر ہے اور میری ماں بھی مجھ سے بہتر ہے اور میرا بھائی بھی مجھ سے بہتر ہے، اور میرے لئے اور ان کیلئے اور سارے مسلمانوں کیلئے اسوۃ(زندگی گذارنے کا نمونہ) رسول الله ﷺ ہیں۔
پھر فرمایا:
ان کے فوتگی کے بعد ان باتوں میں سے کوئی کام نہ کرنا۔
[الکامل فی التاریخ (امام)ابن الاثیر:3/167]
[البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/192، صفة مقتله]
وجہ
وَلَنَبلُوَنَّكُم
بِشَيءٍ مِنَ الخَوفِ وَالجوعِ وَنَقصٍ مِنَ الأَموٰلِ وَالأَنفُسِ
وَالثَّمَرٰتِ ۗ وَبَشِّرِ الصّٰبِرينَ
{2:155}
|
اور
البتہ ہم آزمائیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے اور بھوک سے اور نقصان سے مالوں کے
اور جانوں کے اور میووں کے [۲۲۰] اور خوشخبری دے ان صبر
کرنے والوں کو
|
پہلے تو ان کا ذکر تھا جنہوں
نے صبر کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا یعنی
شہداء اب فرماتے ہیں کہ تمہارا اعلیٰ العموم تھوڑی تھوڑی تکلیف اور مصیبت میں
وقتًا فوقتًا امتحان لیا جائے گا اور تمہارے صبر
کو دیکھا جائے گا صابرین میں داخل ہونا کچھ سہل نہیں اسی واسطے پہلے سے متنبہ
فرما دیا۔
|
الَّذينَ إِذا أَصٰبَتهُم
مُصيبَةٌ قالوا إِنّا لِلَّهِ وَإِنّا إِلَيهِ رٰجِعونَ {2:156}
|
کہ
جب پہنچے ان کو کچھ مصیبت تو کہیں ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف
لوٹ کر جانے والے ہیں
|
کسی بھی مصیبت و تکلیف میں ہمارے خالق و مالک الله پاک نے ہمیں اپنے ایمان و عقیدہ (جسکی کمزوری ہی گناہوں کا سبب بنتی ہے) درست رکھنے کو ان الفاظ کے کہنے اور صبر (مصائب و آزمائشوں کو سہتے دین پر ڈٹے و جمے رہنے) کا اور (ساری جسمانی عبادات کا مجموعہ اور قرآنی رہنمائی حاصل کرنے کا اور برائی و بےحیائی سے بچنے کا عمل یعنی) نماز سے (الله کی) مدد حاصل کرنے کا حکم دیا ہے، سو جو نوحہ و ماتم کرے وہ صبر کے متعلق مندرجہ ذیل آیت الہی کی نافرمانی کرتا ہے، اور اگر جان لینے کے باوجود اپنی خواھش کو خدا بناتے احکام_الہی کا انکار یا مذاق اڑائیں تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں.
صبر کی اہمیت، فضائل اور حکم
يٰأَيُّهَا الَّذينَ
ءامَنُوا استَعينوا بِالصَّبرِ
وَالصَّلوٰةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّٰبِرينَ
{2:153}
|
اے
مسلمانو مدد لو صبر اور نماز سے بیشک
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [۲۱۸]
|
چونکہ ذکر اور شکر اور ترک
کفران جو پہلے مذکور ہوئے اور تمام طاعات اور منہیات شرعیہ کو محیط ہیں جن کا
انجام دینا دشوار امر ہے اس کی سہولت کے لئے یہ طریقہ بتلایا گیا کہ صبر اور صلوٰۃ سے مدد لو کہ ان کی مداومت سے تمام
امور تم پر سہل کر دئیے جائیں گے اور اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جہاد میں
محنت اٹھاؤ جس کا ذکر آگے آتا ہے کہ اس میں صبر
اعلیٰ درجے کا ہے۔
|
أَم حَسِبتُم أَن
تَدخُلُوا الجَنَّةَ وَلَمّا يَعلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جٰهَدوا مِنكُم وَيَعلَمَ
الصّٰبِرينَ {3:142}
|
کیا
تم کو خیال ہے کہ داخل ہو جاؤ گے جنت میں اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو
لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیں کیا ثابت رہنے والوں کو [۲۰۹]
|
یعنی جنت کےجن اعلیٰ مقامات
اور بلند درجات پر خدا تم کو پہنچانا چاہتا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ بس یونہی
آرام سے وہاں جا پہنچیں گے اور خدا تمہارا امتحان لے کر یہ نہ دیکھے گا کہ تم
میں کتنے خدا کی راہ میں لڑنے والے اور کتنے لڑائی کے وقت ثابت قدم رہنے والے ہیں۔
ایسا خیال نہ کرنا۔ مقامات عالیہ پر وہ ہی لوگ فائز کئے جاتے ہیں جو خدا کے
راستہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں یہ
رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔ ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں۔
|
وَكَأَيِّن مِن نَبِىٍّ
قٰتَلَ مَعَهُ رِبِّيّونَ كَثيرٌ فَما وَهَنوا لِما أَصابَهُم فى سَبيلِ اللَّهِ
وَما ضَعُفوا وَمَا استَكانوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصّٰبِرينَ
{3:146}
|
اور
بہت نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر لڑے ہیں بہت خدا کے طالب پھر نہ ہارے ہیں کچھ
تکلیف پہنچنے سے اللہ کی راہ میں اور نہ سست ہوئے ہیں اور نہ دب گئے ہیں اور
اللہ محبت کرتا ہے ثابت قدم رہنے والوں سے [۲۱۶]
|
یعنی تم سے پہلے بہت اللہ
والوں نے نبیوں کے ساتھ ہو کر کفار سے جنگ کی ہے۔ جس میں بہت تکلیفیں اور سختیاں
اٹھائیں لکین ان شدائد و مصائب سے نہ ان کے ارادوں میں سستی ہوئی نہ ہمت ہارے نہ
کمزوری دکھائی۔ نہ دشمن کے سامنے دبے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ثابت قدم رہنے والوں سے
خاص محبت کرتا ہے۔ یہ ان مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی اور غیرت دلائی جنہوں نے احد
میں کمزوری دکھائی تھی حتٰی کہ بعض نے یہ کہہ دیا تھا کہ کسی کو بیچ میں ڈال کر
ابو سفیان سے امن حاصل کر لیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب پہلی امتوں کے حق پرستوں
نے مصائب و شدائد میں اس قدر صبر و
استقلال کا ثبوت دیا تو اس امت کو ( جو خیرالامم ہے) ان سے بڑھ کر صبر واستقامت کا ثبوت دینا چاہئے۔
|
لَتُبلَوُنَّ فى
أَموٰلِكُم وَأَنفُسِكُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ مِن
قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَكوا أَذًى كَثيرًا ۚ وَإِن تَصبِروا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذٰلِكَ مِن عَزمِ
الأُمورِ {3:186}
|
البتہ
تمہاری آزمائش ہو گی مالوں میں اور جانوں میں اور البتہ سنو گے تم اگلی کتاب
والوں سے اور مشرکوں سے بدگوئی بہت اور اگر تم صبر
کرو اور پرہیزگاری کرو تو یہ ہمت کے کام ہیں [۲۸۳]
|
یہ خطاب مسلمانوں کو ہے کہ
آئندہ بھی جان و مال میں تمہاری آزمائش ہو گی اور ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں
گی قتل کیا جانا، زخمی ہونا، قیدو بند کی تکلیف اٹھانا، بیمار پڑنا، اموال کا
تلف ہونا، اقارب کا چھوٹنا اس طرح کی سختیاں پیش آئیں گی، نیز اہل کتاب اور
مشرکین کی زبانوں سے بہت جگر خراش اور دل آزار باتیں سننا پڑیں گی، ان سب کا
علاج صبر و تقویٰ ہے۔ اگر صبر و استقلال اور پرہیزگاری سے ان سختیوں کا
مقابلہ کرو گے تو یہ بڑی ہمت اور اولوالعزمی کاکام ہو گا جس کی تاکید حق تعالیٰ
نے فرمائی۔ (تنبیہ) ایک حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت بدر سے پہلے نازل ہوئی۔
قتال کا حکم اس کے بعد ہوا، تاہم صبر و
تقویٰ کا حکم مشروعیت قتال کے باوجود بھی فی الجملہ باقی ہے۔ جس پر اخیر تک عمل
ہوتا رہا ہے۔ ہاں صبر و عفو اور تغلیظ و
تشدید کے مواقع کا پہچاننا ضروری ہے جو نصوص شرعیہ سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس آیت
کو یہاں رکھنے سے شاید یہ غرض ہے کہ تم ان کفار و منافقین کی گستاخیوں اور
شرارتوں پر حد سے زیادہ طیش مت کھاؤ۔ ابھی بہت کچھ سننا پڑے گا اور تکلیفیں
اٹھانی پڑیں گی۔ صبر و استقلال سے ان کا
مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہو۔ نیز دنیا کی زندگانی میں پڑ کر جو محض دھوکہ کی
ٹٹی ہے، اس بات سے غافل نہ ہونا کہ خدا تعالیٰ جان اور مال دونوں میں تمہاری
آزمائش کرنے والا ہے۔
|
يٰأَيُّهَا الَّذينَ
ءامَنُوا اصبِروا وَصابِروا وَرابِطوا وَاتَّقُوا اللَّهَ
لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {3:200}
|
اے
ایمان والو صبر کرو اور مقابلہ میں مضبوط
رہو اور لگے رہو اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو [۳۰۵]
|
خاتمہ پر مسلمانوں کو ایک
نہایت جامع و مانع نصیحت فرما دی جو گویا ساری سورت کا ماحصل ہے یعنی اگر کامیاب
ہونا اور دنیا آخرت میں مراد کو پہنچنا چاہتے ہو تو سختیاں اٹھا کر بھی طاعت پر
جمے رہو معصیت سے رکو دشمن کے مقابلہ میں مضبوطی اور ثابت قدمی دکھلاؤ اسلام اور
حدود اسلام کی حفاظت میں لگے رہو جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا خطرہ ہو وہاں
آہنی دیوار کی طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ جاؤ۔ { وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا
اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ
عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّکُمْ } (انفال رکوع ۸) اور ہر وقت ہر کام میں خدا سے ڈرتے
رہو۔ یہ کر لیا تو سمجھو مراد کو پہنچ گئے۔ { اللھم اجعلنا مفلحین و فائزین
بفضلک و رحمتک فی الدنیا والا خرۃ اٰمین } حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ تہجد کے لئے اٹھتے تو آسمان کی طرف
نظر اٹھا کر یہ گیارہ آیتیں { اِنَّ فِی خَلْقِ
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } سے ختم سورۃ تک تلاوت کرتے تھے ۔ تم سورۂ آل عمران
بمنہ و حسن توفیقہ ۔ فلہ الحمد والمنہ وعلیٰ رسولہ الف الف سلام و تحیہ۔
|
وَاتَّبِع ما يوحىٰ
إِلَيكَ وَاصبِر حَتّىٰ يَحكُمَ اللَّهُ
ۚ وَهُوَ خَيرُ الحٰكِمينَ {10:109}
|
اور
تو چل اسی پر جو حکم پہنچے تیری طرف اور صبر
کر جب تک فیصلہ کرے اللہ اور وہ ہے سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا [۱۴۲]
|
اس میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ حق کو قبول نہ کریں
تو اپنے کو ان کے غم میں نہ گھلائیں۔ آپ ﷺ خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے رہئے
اور تبلیغ وغیرہ کے کام میں لگے رہئے ۔ اور جو شدائد اس راستہ میں پہنچیں ان پر صبر کیجئے مخالفین کی ایذاء رسانیوں کو تحمل کرتے
رہنا چاہئے۔ یہاں تک خدا آپ کے اور ان کے درمیان بہترین فیصلہ کر دے یعنی حسب
وعدہ آپ ﷺ
کو منصور و غالب کرے یا جہاد کا حکم بھیجدے
۔ تم سورۃ یونسؑ بمنہ تعالیٰ و فضلہ۔ فللہ الحمد علیٰ ذلک۔
|
إِلَّا الَّذينَ صَبَروا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ أُولٰئِكَ لَهُم
مَغفِرَةٌ وَأَجرٌ كَبيرٌ {11:11}
|
مگر
جو لوگ صابر ہیں اور کرتے ہیں نیکیاں انکے واسطے بخشش ہے اور ثواب بڑا [۱۸]
|
یعنی جو حال اوپر عام انسانوں
کا بیان ہوا۔ اس سےاللہ کے وہ بندے مستثنیٰ ہیں جو تکلیف و مصیبت کا مقابلہ صبرو استقامت سے کرتے اور امن و راحت کے وقت شکر
گذاری کے ساتھ عمل صالح میں مستعدی دکھاتےہیں۔ ایسے اولوالعزم وفاداروں کی جماعت
ہی عظیم الشان بخشش و انعام کی مستحق ہے۔
|
تِلكَ مِن أَنباءِ
الغَيبِ نوحيها إِلَيكَ ۖ ما كُنتَ تَعلَمُها أَنتَ وَلا قَومُكَ مِن قَبلِ هٰذا
ۖ فَاصبِر ۖ إِنَّ العٰقِبَةَ
لِلمُتَّقينَ {11:49}
|
یہ
باتیں منجملہ غیب کی خبروں کی ہیں کہ ہم بھیجتے ہیں تیری طرف نہ تجھ کو ان کی
خبر تھی اور نہ تیری قوم کو اس سے پہلے [۶۹] سو تو صبر
کر البتہ انجام بھلا ہے ڈرنے والوں کا [۷۰]
|
جیسے نوحؑ اور ان کے رفقاء کے
انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ
کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں ، گھبرا کر
تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوحؑ نے ساڑھے نو سو برس صبر
کیا۔
|
یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے
کہ ایک امّی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں۔
|
وَاصبِر فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُحسِنينَ {11:115}
|
اور
صبر کر البتہ اللہ ضائع نہیں کرتا ثواب
نیکی کرنے والوں کا [۱۵۶]
|
قرآن کریم میں غور کرنے سے
ظاہر ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی امداد و اعانت حاصل کرنے میں دو چیزوں کو خاص دخل
ہے۔ "صلوٰۃ" اور صبر {
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃ } (بقرۃ) یہاں بھی "صلوٰۃ"
کے بعد صبر کا حکم فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ
مومن خدا کی عبادت و فرمانبرداری میں ثابت قدم رہے اور کسی دکھ درد کی پروا نہ
کرے ، تب خدا کی مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے اس کے یہاں کسی نیکو کار کا اجر ضائع
نہیں ہوتا ، بلکہ اندازہ سے زائد ملتا ہے۔
|
سَلٰمٌ عَلَيكُم بِما صَبَرتُم ۚ فَنِعمَ عُقبَى الدّارِ {13:24}
|
کہیں
گے سلامتی تم پر بدلے اسکے کہ تم نے صبر
کیا سو خوب ملا عاقبت کا گھر [۴۳]
|
صحیح حدیث میں جنت کے آٹھ
دروازے بیان ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کاملین کی تعظیم و کریم کے لئے خدا کے
پاک فرشتے ہر طرف سے تحائف و ہدایا لے کر حاضر ہوں گے۔ احادیث میں ہے کہ خلق
اللہ میں سے اول وہ فقراء مہاجرین جنت میں داخل ہوں گے جو سختیوں اور لڑائیوں
میں سینہ سپر ہوتے اور رخنہ بندی کے وقت کام آتے تھے ۔ جو حکم ان کو ملتا اس کی
تعمیل کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے دنیا کی حاجتیں اور دل کے ارمان دل ہی میں لے کر
یہاں سے رخصت ہو گئے ۔ قیامت کے دن حق تعالیٰ فرمائے گا میرے وہ بندے کہاں ہیں
(حاضر ہوں) جو میرے راستہ میں لڑے ، میرے لئے تکلیفیں اٹھائیں اور جہاد کیا ۔
جاؤ جنت میں بے کھٹکے داخل ہو جاؤ ۔ پھر ملائکہ کو حکم ہو گا کہ میرے ان بندوں
کے پاس حاضر ہو کر سلام کرو۔ وہ عرض کریں گے خداوندا ! ہم تیری بہترین مخلوق ہیں
کیا ہم بارگاہ قرب کے رہنے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان زمینی باشندوں کے پاس
حاضر ہو کر سلام کریں۔ ارشاد ہو گا ، ہاں یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے توحید پر
جان دی ، دنیا کے سب ارمان اپنے سینے میں لے کر چلے آئے میرے راستہ میں جہاد کیا
اور ہر تکلیف کو خوشی سے برداشت کرتے رہے۔ یہ سن کر فرشتے ہر طرف سے ان کی خدمت
میں حاضر ہوں گے اور کہیں گے " { سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ
فَنِعْمَ عُقْبَی الدّار } حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ہر سال کے
آغاز میں قبور شہداء پر تشریف لے جاتے اور فرماتے { سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا
صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدّار } یہ ہی طرز عمل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی
اللہ عنہم کا رہا۔
|
وَما لَنا أَلّا
نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَد هَدىٰنا سُبُلَنا ۚ وَلَنَصبِرَنَّ عَلىٰ ما ءاذَيتُمونا ۚ وَعَلَى اللَّهِ
فَليَتَوَكَّلِ المُتَوَكِّلونَ {14:12}
|
اور
ہم کو کیا ہوا کہ بھروسہ نہ کریں اللہ پر اور وہ سمجھا چکا ہم کو ہماری راہیں
[۲۱] اور ہم صبر کریں گے ایذا پر جو تم
ہم کو دیتے ہو اور اللہ پر بھروسہ چاہئے بھروسے والوں کو [۲۲]
|
یعنی حق تعالیٰ ہم کو جام
توحید و عرفان پلا کر حقیقی کامیابی کے راستے بتا چکا۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم
اس پر توکل نہ کریں۔
|
یعنی خواہ کتنی ہی ایذاء
پہنچاؤ ، خدا کے فضل سے ہمارےتوکل میں فرق نہیں پڑ سکتا ۔ متوکلین کا یہ کام
نہیں کہ سختیاں دیکھ کر توکل اور استقامت کی راہ سے ہٹ جائیں۔
|
الَّذينَ صَبَروا وَعَلىٰ رَبِّهِم يَتَوَكَّلونَ {16:42}
|
جو
ثابت قدم رہے اور اپنے رب پر بھروسہ کیا [۶۳]
|
یعنی کسی ظلم اور سختی سے
نہیں گھبرائے ۔ وطن محبوب اور خویش و اقارب کے چھوٹنے کی پروا نہ کی رضائے الہٰی
کے راستہ سے ذرا قدم نہیں ڈگمگایا ۔ ہر طرف سے ٹوٹ کر ایک خدا کے ہو رہے ۔ خالص
اسی کی امداد اور اٹل وعدوں پر بھروسہ کیا ۔ یہاں تک کہ دیکھ لیا کہ جو خدا کا
ہو رہتا ہے کسی طرح خدا اس کا ہو جاتا ہے۔
|
ما عِندَكُم يَنفَدُ ۖ
وَما عِندَ اللَّهِ باقٍ ۗ وَلَنَجزِيَنَّ الَّذينَ صَبَروا
أَجرَهُم بِأَحسَنِ ما كانوا يَعمَلونَ {16:96}
|
جو
تمہارے پاس ہے ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے کبھی ختم نہ ہو گا (سو رہنے
والا ہے) [۱۶۱] اور ہم بدلے میں دیں گے صبر
کرنے والوں کو ان کا حق اچھے کاموں پر جو کرتے تھے [۱۶۲]
|
یعنی جو لوگ خدا کے عہد پر
ثابت قدرم رہیں گے اور تمام مشکلات اور صعوبتوں کو صبر
کے ساتھ برداشت کریں گے ، ان کا اجر ضائع ہونے والا نہیں ۔ ایسے بہترین عمل کا
بدلہ ضرور ہماے یہاں سے مل کر رہے گا۔
|
پھر باقی و دائم کو چھوڑ کر
فانی و زائل کا پسند کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
|
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ
لِلَّذينَ هاجَروا مِن بَعدِ ما فُتِنوا ثُمَّ جٰهَدوا وَصَبَروا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعدِها لَغَفورٌ
رَحيمٌ {16:110}
|
پھر
بات یہ ہے کہ تیرا رب ان لوگوں پر کہ انہوں نے وطن چھوڑا ہے بعد اس کے مصیبت
(بچلائے گئے) اٹھائی پھر جہاد کرتے رہے اور قائم رہے بیشک تیرا رب ان باتوں کے
بعد بخشنے والا مہربان ہے [۱۷۸]
|
مکہ میں بعضے لوگ کافروں کے
ظلم سے بچل گئے تھے یا صرف زبانی لفظ کفر کہہ لیا تھا۔ اس کے بعد جب ہجرت کی
،جہاد کیا ، اور بڑے استقلال و پامردی سے اسلام پر قائم رہے ، اتنے کام ایمان کے
کئے ، وہ تقصیر بخشی گئ اور خدا کی مہربانی مبذول ہوئی ۔ ایک بزرگ تھے
"عمار" ان کے باپ تھے "یاسر اور ماں "سمیہ" دونوں ظلم
اٹھاتے مر گئے ، پر لفظ کفر نہ کہا۔ یہ مسلمانوں کا پہلا خون تھا جو خدا کی راہ
میں گرا بیٹے (عمار) نے خوف جاں سے لفظ کہہ دیا پھر روتے ہوئے حضرت کے پاس آئے ۔
تب یہ آیتیں اتریں رضی اللہ عنہم اجمعین۔
|
وَإِن عاقَبتُم فَعاقِبوا
بِمِثلِ ما عوقِبتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرتُم
لَهُوَ خَيرٌ لِلصّٰبِرينَ {16:126}
|
اور
اگر بدلہ لو تو بدلہ لو اسی قدر جس قدر کو تم کو تکلیف پہنچائی جائے (پہنچے) اور
اگر صبر کرو تو یہ بہتر ہے صبر کرنے والوں کو [۲۰۱]
|
یعنی دعوت و تبلیغ کی راہ میں
اگر تم کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں تو قدرت حاصل ہونے کے وقت برابر کا
بدلہ لے سکتے ہو ، اجازت ہے ، لیکن صبر
کا مقام اس سے بلند تر ہے ۔ اگر صبر کرو
گے تو اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اور دیکھنے والوں کے بلکہ خود زیادتی کرنے
اوالوں کے حق میں بہتر ہو گا۔
|
وَاصبِر وَما صَبرُكَ إِلّا
بِاللَّهِ ۚ وَلا تَحزَن عَلَيهِم وَلا تَكُ فى ضَيقٍ مِمّا يَمكُرونَ {16:127}
|
اور
تو صبر کر اور تجھ سے صبر ہو سکے اللہ ہی کی مدد سے اور ان پر غم نہ کھا
اور تنگ مت ہو ان کے فریب سے [۲۰۲]
|
یعنی مظالم و شدائد پر صبر کنا ، سہل کام نہیں ۔ خدا ہی مدد فرمائے تو ہو
سکتا ہے کہ آدمی ظلم سہتا رہے اور اف نہ کرے۔
|
فَاصبِر عَلىٰ ما يَقولونَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ قَبلَ طُلوعِ
الشَّمسِ وَقَبلَ غُروبِها ۖ وَمِن ءانائِ الَّيلِ فَسَبِّح وَأَطرافَ النَّهارِ
لَعَلَّكَ تَرضىٰ {20:130}
|
سو
تو سہتا رہ جو وہ کہیں [۱۳۷] اور پڑھتا رہ خوبیاں اپنے رب کی سورج نکلنے سے پہلے
اور غروب ہونے سے پہلے [۱۳۸] اور کچھ گھڑیوں میں رات کی پڑھا کر [۱۳۹] اور دن کی
حدوں پر [۱۴۰] شاید تو راضی ہو [۱۴۱]
|
الَّذينَ إِذا ذُكِرَ
اللَّهُ وَجِلَت قُلوبُهُم وَالصّٰبِرينَ
عَلىٰ ما أَصابَهُم وَالمُقيمِى الصَّلوٰةِ وَمِمّا رَزَقنٰهُم يُنفِقونَ
{22:35}
|
وہ
کہ جب نام لیجئے اللہ کا ڈر جائیں انکے دل اور سہنے والے اُسکو جو اُن پر پڑے
[۵۹] اور قائم رکھنے والے نماز کے اورہمارا دیا ہوا کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں [۶۰]
|
بیت اللہ تک پہنچنے میں بہت
مصائب و شدائد پیش آتے ہیں ، سفر میں اکثر نمازوں کے فوت ہونے یا قضا ہوجانے کا
اندیشہ ہوتا ہے ، مال بھی کافی خرچ کرنا پڑتا ہے ، شاید اسی مناسبت سے ان اوصاف
و خصال کا یہاں ذکر فرمایا۔
|
یعنی مصائب و شدائد کو صبر و استقلال سے برداشت کریں ، کوئی سختی اٹھا کر
راہ حق سے قدم نہ ڈگمگائے۔
|
إِنّى جَزَيتُهُمُ
اليَومَ بِما صَبَروا أَنَّهُم هُمُ
الفائِزونَ {23:111}
|
میں
نے آج دیا ان کو بدلہ انکے صبر کرنے کا
کہ وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے [۱۱۰]
|
بیچارے مسلمانوں نے تمہاری
زبانی اور عملی ایذاؤں پر صبر کیا تھا،
آج دیکھتے ہو تمہارے بالمقابل ان کو کیا پھل ملا، ان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا
گیا جہاں وہ ہر طرح کامیاب اور ہر قسم کی لذتوں اور مسرتوں سے ہمکنار ہیں۔
|
أُولٰئِكَ يُؤتَونَ
أَجرَهُم مَرَّتَينِ بِما صَبَروا
وَيَدرَءونَ بِالحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمّا رَزَقنٰهُم يُنفِقونَ {28:54}
|
وہ
لوگ پائیں گے اپنا ثواب دوہرا اس بات پر کہ قائم رہے [۷۳] اور بھلائی کرتے ہیں
برائی کے جواب میں [۷۴] اور ہمارا دیا ہو کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں [۷۵]
|
یعنی اللہ نے جو مال حلال دیا
ہے اس میں سے زکوٰۃ دیتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں اور خویش و اقارب کی خبر لیتے ہیں۔
غرض حقوق العباد ضائع نہیں کرتے۔
|
یعنی کوئی دوسرا ان کے ساتھ
برائی سے پیش آئے تو یہ اس کے جواب میں مروت و شرافت سے کام لیکر بھلائی اور
احسان کرتے ہیں۔ یا یہ مطلب کہ کبھی ان سے کوئی برا کام ہوجائے تو اس کا تدارک
بھلائی سے کر دیتے ہیں تاکہ حسنات کا پلہ سیئات سے بھاری رہے۔
|
یعنی مغرور و مستغنی ہو کر
قبول حق سے گریز نہیں کیا بلکہ جس وقت جو حق پہنچا بے تکلف گردن تسلیم جھکا دی
(تنبیہ) شیخ اکبرؒ نے فتوحات میں لکھا ہے کہ ان اہل کتاب کا ایمان اپنے پیغمبر
پر دو مرتبہ ہوا۔ اول بالاستقلال دوبارہ نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کے ضمن میں ۔ کیونکہ
حضور تمام انبیائے سابقین کے مصدق ہیں اور ان
پر ایمان رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں اور حضور پر بھی انکا ایمان دو مرتبہ ہوا ۔
ایک اب بالذات اور بالا ستقلال دوسرا پہلے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کے ضمن
میں۔ کیونکہ ہر پیغمبر حضور ﷺ
کی بشارت دیتے اور پیشگی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں اسی لئے ان
لوگوں کو اجر بھی دو مرتبہ ملے گا۔ باقی حدیث میں جو { ثَلَاثُ یُؤتُوْنَ
اَجْرُھُمْ مَرَّتَیْنِ } آیا ہے اس کی شرح کا یہاں موقع نہیں۔ ہم نے خدا کے فضل
سےشرح صحیح مسلم میں اس کو بتفصیل لکھا ہے اور اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کہ
ہے۔ فللہ الحمد والمنہ وبہ التوفیق والعصمۃ۔
|
وَقالَ الَّذينَ أوتُوا
العِلمَ وَيلَكُم ثَوابُ اللَّهِ خَيرٌ لِمَن ءامَنَ وَعَمِلَ صٰلِحًا وَلا
يُلَقّىٰها إِلَّا الصّٰبِرونَ {28:80}
|
اور
بولے جن کو ملی تھی سمجھ اے خرابی تمہاری اللہ کا دیا ثواب بہتر ہے انکے واسطے
جو یقین لائے اور کام کیا بھلا [۱۱۴] اور یہ بات انہی کے دل میں پڑتی ہے جو سہنے
والے ہیں [۱۱۵]
|
یعنی دنیا سے آخرت کو بہتر وہ
ہی جانتے ہیں جن سے محنت سہی جاتی ہے۔ اور بے صبر
لوگ حرص کے مارے دنیا کی آرزو پر گرتے ہیں۔ نادان آدمی دنیا کی آسودگی دیکھ کر
سمجھتا ہے کہ اس کی بڑی قسمت ہے اس کی شب و روز کی فکر و تشویش، درد سری اور
آخرت کی ذلت کو اور سو جگہ خوشامد کرنے کو نہیں دیکھتا اور یہ نہیں دیکھتا کہ
دنیا میں کچھ آرام ہے تو دس بیس برس، اور مرنے کے بعد کانٹے ہیں ہزاروں برس۔
(موضح بتغییر یسیر)۔
|
یعنی سمجھ دار اور ذی علم
لوگوں نے کہا کہ کم بختو! اس فانی چمک دمک میں کیا رکھا ہے جو ریجھے جاتے ہو
مومنین صالحین کو اللہ کے ہاں جو دولت ملنے والی ہے اس کے سامنے یہ ٹیپ ٹاپ محض
ہیچ اور لاشے ہے۔ اتنی بھی نسبت نہیں جو ذرہ کو آفتاب سے ہوتی ہے۔
|
الَّذينَ صَبَروا وَعَلىٰ رَبِّهِم يَتَوَكَّلونَ {29:59}
|
جنہوں
نے صبر کیا اور اپنے رب پر بھروسہ رکھا
[۹۴]
|
یعنی جو صبر و استقلال سے اسلام و ایمان کی راہ پر جمے رہے
اور خدا پر بھروسہ کر کے گھربار چھوڑ کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے ان کو اس وطن کے
بدلے وہ وطن ملے گا اور یہاں کے گھروں سے بہتر گھر دیے جائیں گے۔
|
فَاصبِر إِنَّ وَعدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ وَلا يَستَخِفَّنَّكَ الَّذينَ
لا يوقِنونَ {30:60}
|
سو
تو قائم رہ بیشک اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے اور اکھاڑ نہ دیں تجھ کو وہ لوگ جو یقین
نہیں لاتے [۷۳]
|
یعنی جب ان بدبختوں کا حال ضد
و عناد کے اس درجہ پر پہنچ گیا تو آپ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ نہ ہوں بلکہ
پیغمبرانہ صبر و تحمل کے ساتھ اپنے دعوت
و اصلاح کے کام میں لگے رہیں۔ اللہ نے جو آپ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے
یقینًا پورا کر کے رہے گا۔ اس میں رتی برابر تفاوت و تخلف نہیں ہو سکتا۔ آپ اپنے
کام پر جمے رہئے۔ یہ بد عقیدہ اور بے یقین لوگ آپ کو ذرا بھی آپ کے مقام سے جنبش
نہ دے سکیں گے۔ (تم سورۃ الروم وللہ الحمد والمنہ)
|
يٰبُنَىَّ أَقِمِ
الصَّلوٰةَ وَأمُر بِالمَعروفِ وَانهَ عَنِ المُنكَرِ وَاصبِر عَلىٰ ما أَصابَكَ ۖ إِنَّ ذٰلِكَ مِن
عَزمِ الأُمورِ {31:17}
|
اے
بیٹے قائم رکھ نماز اور سکھلا بھلی بات اور منع کر برائی سے [۲۱] اور تحمل کر جو
تجھ پر پڑے بیشک یہ ہیں ہمت کے کام [۲۲]
|
یعنی دنیا میں جو سختیاں پیش
آئیں جن کا پیش آنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں اغلب ہے ان کو
تحمل اور اولوا العزمی سے برداشت کر۔ شدائد سے گھبرا کر ہمت ہار دینا حوصلہ مند
بہادروں کا کام نہیں۔
|
یعنی خود اللہ کی توحید اور
بندگی پر قائم ہو کر دوسروں کو بھی نصیحت کر کہ بھلی بات سیکھیں اور برائی سے
رکیں۔
|
إِنَّ المُسلِمينَ
وَالمُسلِمٰتِ وَالمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ وَالقٰنِتينَ وَالقٰنِتٰتِ
وَالصّٰدِقينَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرينَ
وَالصّٰبِرٰتِ وَالخٰشِعينَ وَالخٰشِعٰتِ
وَالمُتَصَدِّقينَ وَالمُتَصَدِّقٰتِ وَالصّٰئِمينَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالحٰفِظينَ
فُروجَهُم وَالحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرينَ اللَّهَ كَثيرًا وَالذّٰكِرٰتِ أَعَدَّ
اللَّهُ لَهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا {33:35}
|
تحقیق
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں اور بندگی
کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور محنت
جھیلنے والے مرد اور محنت جھیلنے والی عورتیں [۵۱] اور دبے رہنے والے مرد اور
دبی رہنے والی عورتیں [۵۲] اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں
اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اور حفاظت کرنے والے مرد اپنی شہوت کی جگہ
کو اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور یاد کرنے والے مرد اللہ کو بہت سا اور یاد
کرنے والی عورتیں رکھی ہے اللہ نے ان کے واسطے معافی اور ثواب بڑا [۵۳]
|
بعض ازواج مطہرات نے کہا تھا
کہ قرآن میں اکثر جگہ مردوں کا ذکر ہے عورتوں کا کہیں نہیں اور بعض نیک بخت
عورتوں کو خیال ہوا کہ آیات سابقہ میں ازواج نبی کا ذکر تو آیا عام عورتوں کا
کچھ حال بیان نہ ہوا اس پر یہ آیت اتری۔ تا تسلی ہو جائے کہ عورت ہو یا مرد کسی
کی محنت یا کمائی اللہ کے یہاں ضائع نہیں جاتی۔ اور جس طرح مردوں کو روحانی اور
اخلاقی ترقی کرنے کے ذرائع حاصل ہیں۔ عورتوں کے لئے بھی یہ میدان کشادہ ہے۔ یہ
طبقہ اناث کی دلجمعی کے لئے تصریح فرما دی ورنہ جو احکام مردوں کے قرآن میں آئے
وہ ہی عمومًا عورتوں پر عائد ہوتے ہیں۔ جداگانہ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ ہاں
خصوصی احکام الگ بتلا دیے گئے ہیں۔
|
یعنی تواضع و خاکساری اختیار
کرنے والے یا نماز خشوع و خضوع سے ادا کرنے والے۔
|
یعنی تکلیفیں اٹھا کر اور
سختیاں جھیل کر احکام شریعت پر قائم رہنے والے۔
|
قُل يٰعِبادِ الَّذينَ
ءامَنُوا اتَّقوا رَبَّكُم ۚ لِلَّذينَ أَحسَنوا فى هٰذِهِ الدُّنيا حَسَنَةٌ ۗ
وَأَرضُ اللَّهِ وٰسِعَةٌ ۗ إِنَّما يُوَفَّى الصّٰبِرونَ
أَجرَهُم بِغَيرِ حِسابٍ {39:10}
|
تو
کہہ اے بندو میرے [۲۱] جو یقین لائے ہو ڈرو اپنے رب سے جنہوں نے نیکی کی اس دنیا
میں انکے لئے ہی ہے بھلائی [۲۲] اور زمین اللہ کی کشادہ ہے صبر کرنے والوں ہی کو ملتا ہے ان کا ثواب بے شمار
[۲۳]
|
یعنی اگر ایک ملک میں لوگ نیک
راہ چلنے سے مانع ہوں تو خدا کی زمین کشادہ ہے، دوسرے ملک میں چلے جاؤ۔ جہاں
آزادی سے اس کے احکام بجا لا سکو۔ بلاشبہ اس طرح ترک وطن کرنے میں بہت مصائب
برداشت کرنا پڑیں گے اور طرح طرح کے خلاف عادت و طبیعت امور پر صبر کرنا پڑے گا۔ لیکن یاد رہے کہ بے شمار ثواب
بھی ملے گا تو صرف کرنے والوں ہی کو ملے گا اس کے مقابلہ میں دنیا کی سب سختیاں
اور تکلیفیں ہیچ ہیں۔
|
یعنی اللہ کی طرف سے یہ پیام
پہنچا دو۔
|
یعنی جس نے دنیا میں نیکی کی
آخرت میں اس کے لئے بھلائی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جس نے نیکی کی اس کو آخرت سے
پہلے اسی دنیا میں بھلائی ملے گی ظاہری یا باطنی۔
|
فَاصبِر إِنَّ وَعدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَسَبِّح
بِحَمدِ رَبِّكَ بِالعَشِىِّ وَالإِبكٰرِ {40:55}
|
سو
تو ٹھہرا رہ بیشک وعدہ اللہ کا ٹھیک ہے اور بخشوا اپنا گناہ اور پاکی بول اپنے
رب کی خوبیاں شام کو اور صبح کو [۷۵]
|
یعنی آپ بھی تسلی رکھیے، جو
وعدہ آپ کے ساتھ ہے ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ خداوند قدوس دارین میں آپ کو اور آپ
کے طفیل میں آپ کے متبعین کو سر بلند رکھے گا۔ ضرورت اس کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی
خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے شدائد و نوائب پر صبر کریں۔ اور جن سے جس درجہ کی تقصیر کا امکان ہو
اس کی معافی خدا سے چاہتے رہیں۔ اور ہمیشہ رات دن صبح و شام اپنے پروردگار کی
تسبیح و تحمید کا قولًا و فعلًا ورد رکھیں۔ ظاہر و باطن میں اس کی یاد سے غافل نہ
ہوں۔ پھر اللہ کی مدد یقینی ہے۔ یہ حضور ﷺ کو مخاطب بنا کر ساری امت کو سنایا۔ حضرت شاہ
صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "حضرت رسول اللہ ﷺ دن میں سو سو بار استغفار کرتے۔ ہر بندے
کی تقصیر اس کے درجہ کے موافق ہے اس لئے ہر کسی کو استغفار ضروری ہے"۔
|
فَاصبِر إِنَّ وَعدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمّا نُرِيَنَّكَ بَعضَ
الَّذى نَعِدُهُم أَو نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَينا يُرجَعونَ {40:77}
|
سو
تو ٹھہرا رہ بیشک وعدہ اللہ کا ٹھیک ہے پھر اگر ہم دکھلا دیں تجھ کو کوئی وعدہ
جو ہم ان سے کرتے ہیں یا قبض کر لیں تجھ کو ہر حالت میں ہماری ہی طرف پھر آئیں
گے [۱۰۴]
|
یعنی اللہ نے انکو عذاب دینے
کا جو وعدہ فرمایاہے، وہ یقینًا پورا ہو کر رہے گا۔ ممکن ہے کوئی وعدہ آپ کی
موجودگی میں پورا ہو (جیسا کہ "بدر" اور "فتح مکہ" وغیرہ
میں ہوا) یا آپ کی وفات کے بعد۔ بہرحال یہ ہم سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ سب کا
انجام ہمارے ہاتھ میں ، اس زندگی کےبعد عذاب کی تکمیل اُس زندگی میں ہوگی۔
چھٹکارا کسی صورت سے نہیں۔
|
وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذٰلِكَ لَمِن عَزمِ
الأُمورِ {42:43}
|
اور
البتہ جس نے سہا اور معاف کیا بیشک یہ کام ہمت کے ہیں [۵۹]
|
یعنی غصہ کو پی جانا اور
ایذائیں برداشت کر کے ظالم کو معاف کر دینا بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ حدیث
میں ہے کہ جس بندہ پر ظلم ہو اور وہ محض اللہ کے واسطے اس سے درگذر کرے تو ضرور
ہے کہ اللہ اسکی عزت بڑھائے گا اور مدد کرے گا۔
|
فَاصبِر كَما صَبَرَ أُولُوا
العَزمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلا تَستَعجِل لَهُم ۚ كَأَنَّهُم يَومَ يَرَونَ ما
يوعَدونَ لَم يَلبَثوا إِلّا ساعَةً مِن نَهارٍ ۚ بَلٰغٌ ۚ فَهَل يُهلَكُ إِلَّا
القَومُ الفٰسِقونَ {46:35}
|
سو
تو ٹھہرا رہ جیسے ٹھہرے رہے ہیں ہمت والے رسول اور جلدی نہ کر انکے معاملہ میں
[۶۳] یہ لوگ جس دن دیکھ لیں گے اس چیز کو جس کا ان سےوعدہ ہے جیسے ڈھیل نہ پائی
تھی مگر ایک گھڑی دن کی [۶۴] یہ پہنچا دینا ہے اب وہی غارت ہوں گے جو لوگ
نافرمان ہیں [۶۵]
|
یعنی جب معلوم ہو چکا کہ
منکرین کو سزا ملنی ضرور ہے۔ آخرت میں ملے یا دنیا میں بھی۔ تو آپ ﷺ ان کے معاملہ میں جلدی نہ کریں۔ بلکہ ایک معیاد معین تک صبر کرتے رہیں جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے۔ (تنبیہ) بعض سلف نے کہا کہ سب رسول
اولوالعزم (ہمت والے) ہیں اور عرف میں پانچ پیغمبر خصوصی طور پر اولوالعزم
کہلاتے ہیں۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسٰیؑ، حضرت عیسٰیؑ اور حضرت محمد ﷺ۔
|
یعنی ہم نے نصیحت کی بات
پہنچا دی، اور سب نیک و بد سمجھا دیا۔ اب جو نہ مانیں گے وہ ہی تباہ و برباد ہوں
گے۔ ہماری طرف سے حجت تمام ہو چکی اور کسی کو بے قصور ہم نہیں پکڑتے اسی کو غارت
کرتے ہیں جو غارت ہونے ہی پر کمر باندھ لے۔ تمّ سورۃ الاحقاف بفضل اللہ و حسن
توفیقہ۔ فللہ الحمد والمنہ۔
|
"ڈھیل نہ پائی تھی"۔ دنیا میں، یعنی اب تو دیر سمجھتے
ہیں کہ عذاب جلد کیوں نہیں آتا اس دن جانیں گے کہ بہت شتاب آیا۔ دنیا میں ایک ہی
گھڑی رہے۔ یا عالم قبر کا رہنا ایک گھڑی معلوم ہو گا۔ قاعدہ ہے کہ گذری ہوئی مدت
تھوڑی معلوم ہوا کرتی ہے خصوصًا سختی اور مصیبت کے وقت عیش و آرام کا زمانہ بہت
کم نظر آنے لگتا ہے۔
|
وَلَنَبلُوَنَّكُم حَتّىٰ
نَعلَمَ المُجٰهِدينَ مِنكُم وَالصّٰبِرينَ
وَنَبلُوَا۟ أَخبارَكُم {47:31}
|
اور
البتہ ہم تم کو جانچیں گے تا معلوم کر لیں جو تم میں لڑائی کرنے والے ہیں اور
قائم رہنے والے [۴۶] اور تحقیق کر لیں تمہاری خبریں [۴۷]
|
یعنی ہر ایک کے ایمان اور
اطاعت و انقیاد کا وزن معلوم ہو جائے اور سب کے اندرونی احوال کی خبریں عملًا
محقق ہو جائیں (تنبیہ) { حَتّٰی نَعْلَمَ } الخ سے جو شبہ حدوثِ علم کا ہوتا ہے
اس کا مفصل جواب "پارہ سیقول" کے شروع میں { اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ
یَّتَّبِعُ الرُّسُل } الخ کے حواشی میں ملاحظہ کیا جائے۔
|
یعنی جہاد وغیرہ کے احکام سے
آزمائش مقصود ہے۔ اسی سخت آزمائش میں کھلتا ہے کہ کون لوگ اللہ کے راستہ میں
لڑنے والے اور شدید ترین امتحانات میں ثابت قدم رہنے والے ہیں اور کون ایسے
نہیں۔
|
وَلَو أَنَّهُم صَبَروا حَتّىٰ تَخرُجَ إِلَيهِم لَكانَ خَيرًا
لَهُم ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ {49:5}
|
اور
اگر وہ صبر کرتے جب تک تو نکلتا اُنکی
طرف تو اُنکے حق میں بہتر ہوتا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۶]
|
بنی تمیم ملنے کو آئے، حضور ﷺ حجرہ مبارک میں تشریف رکھتے تھے، وہ لوگ
باہر سے آوازیں دینے لگے کہ { یا محمد اُخْرُجْ اِلَیْنَا } (اے محمد باہر آئیے)
یہ بے عقلی اور بے تہذیبی کی بات تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے مرتبہ کو نہیں سمجھتے
تھے۔ کیا معلوم ہے اس وقت آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ یا کسی اور مہم کام میں
مشغول ہوں۔ آپ کی ذات منبع البرکات تو مسلمانوں کے تمام دینی و دنیوی امور کا مرکز
و ملجاء تھی۔ کسی معمولی ذمہ دار آدمی کے لئے بھی کام کرنا سخت مشکل ہو جائے اگر
اس کا کوئی نظام الاوقات نہ ہو۔ اور آخر پیغمبرکا ادب و احترام بھی کوئی چیز ہے
۔ چاہئے تھا کہ کسی کی زبانی اندر اطلاع کراتے اور آپ کے باہر تشریف لانے تک صبر کرتے۔ جب آپ باہر تشریف لا کر انکی طرف متوجہ
ہوتے اس وقت خطاب کرنا چاہئے تھا۔ ایسا کیا جاتا تو انکے حق میں بہتر اور قابل
ستائش ہوتا۔ تاہم بے عقلی اور نادانستگی سے جو بات اتفاقًا سرزد ہو جائے اللہ
اسکو اپنی مہربانی سے بخشنے والا ہے۔ چاہیئے کہ اپنی تقصیر پر نادم ہو کرآئندہ
ایسا رویہ اختیار نہ کریں۔ حضور ﷺ کی تعظیم و محبت ہی وہ نقطہ ہے جس پر قوم مسلم کی تمام پراگندہ قوتیں
اور منتشر جذبات جمع ہوتے ہیں اور یہ ہی وہ ایمانی رشتہ ہے جس پر اسلامی اخوت کا
نظام قائم ہے۔
|
فَاصبِر عَلىٰ ما يَقولونَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ قَبلَ طُلوعِ
الشَّمسِ وَقَبلَ الغُروبِ {50:39}
|
سو
تو سہتا رہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اور پاکی بولتا رہ خوبیاں اپنے رب کی [۳۷] پہلے
سورج نکلنے سے اور پہلے ڈوبنے سے
|
یعنی ایسی موٹی باتوں کو یہ
لوگ نہ سمجھیں تو آپ غمگین نہ ہوں۔ بلکہ ان کی بیہودہ بکواس پر صبر کرتے رہیں۔ اور اپنے پروردگار کی یاد میں دل
لگائے رکھیں جو تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کے بنانے اور
بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے۔
|
وَاصبِر لِحُكمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعيُنِنا ۖ وَسَبِّح بِحَمدِ
رَبِّكَ حينَ تَقومُ {52:48}
|
اور
تو ٹھہرا رہ منتظر اپنے رب کے حکم کا تو تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے [۳۷] اور
پاکی بیان کر اپنے رب کی خوبیاں جس وقت تو اٹھتا ہے [۳۸]
|
یعنی صبر واستقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم تکوینی و
تشریعی کا انتظار کیجئے جو عنقریب آپ کے اور ان کے درمیان فیصلہ کردے گا۔ اور آپ
کو مخالفین کی طرف سے کچھ بھی نقصان نہ پہنچے گا۔ کیونکہ آپ ہماری آنکھوں کے
سامنے اور ہمارے زیرِ حفاظت ہیں۔
|
یعنی صبر و تحمل اور سکون و اطمینان کے ساتھ ہمہ وقت
اللہ کی تسبیح و تحمید اور عبادت گذاری میں لگے رہیئے۔ خصوصاً جس وقت آپ سو کر
اٹھیں یا نماز کے لئے کھڑے ہوں، یا مجلس سے اٹھ کر تشریف لیجائیں۔ ان حالات میں
تسبیح وغیرہ کی مزید ترغیب و تاکید آئی ہے۔
|
وَاصبِر عَلىٰ ما يَقولونَ وَاهجُرهُم هَجرًا جَميلًا {73:10}
|
اور
سہتا رہ جو کچھ کہتے رہیں [۱۱] اور چھوڑ دے اُنکو بھلی طرح کا چھوڑنا [۱۲]
|
یعنی کفار آپ ﷺ کا ساحر، کاہن اور مجنون و مسحور وغیرہ کہتے ہیں۔ ان
باتوں کو صبر و استقلال سے سہتے رہیئے۔
|
بھلی طرح کا چھوڑنا یہ کہ
ظاہر میں ان کی صحبت ترک کرو اور باطن میں ان کے حال سے خبردار رہو کہ کیا کرتے
ہیں اور کیا کہتے ہیں اور مجھ کو کس طور سے یاد کرتے ہیں، دوسرے ان کی بدسلوکی
کی شکایت کسی کے سامنے نہ کرو، نہ انتقام لینے کے درپے ہو، نہ گفتگو یا مقابلہ کے
وقت کج خلقی کا اظہار کرو۔ تیسرے یہ کہ باوجود جدائی اور مفارقت کے ان کی نصیحت
میں قصور نہ کیجئے بلکہ جس طرح بن پڑے ان کی ہدایت و رہنمائی میں سعی کرتے
رہیئے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔"یعنی خلق سے کنارہ کر لیکن لڑ بھڑ کر
نہیں، سلوک سے"، مگر یاد رہے کہ یہ آیت مکّی ہے اور آیات قتال کا نزول
مدینہ میں ہوا ہے۔
|
ثُمَّ كانَ مِنَ الَّذينَ
ءامَنوا وَتَواصَوا بِالصَّبرِ
وَتَواصَوا بِالمَرحَمَةِ {90:17}
|
پھر
ہووے ایمان والوں میں [۱۶] جو تاکید کرتے ہیں آپس میں تحمل کی اور تاکید کرتے
ہیں رحم کھانے کی [۱۷]
|
یعنی پھر ان سب اعمال کے
مقبول ہونے کی سب سے بڑی شرط ایمان ہے۔ اگر یہ چیز نہیں تو سب کیا کرایا اکارت
ہے۔
|
یعنی ایک دوسرے کو تاکید کرتے
رہتے ہیں کہ حقوق وفرائض کے ادا کرنے میں ہر قسم کی سختیوں کا تحمل کرو اور خدا
کی مخلوق پر رحم کھاؤ، تا آسمان والا تم پر رحم کھائے۔
|
إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا
وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ {103:3}
|
مگر
جو لوگ کہ یقین لائے اور کئے بھلے کام اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی
اور آپس میں تاکید کرتے رہے تحمل کی [۳]
|
یعنی انسان کو خسارہ سے بچنے
کے لئے چارباتوں کی ضرورت ہے۔ اوّل خدا و رسول پر ایمان لائے اور ان کی ہدایات
اور وعدوں پر خواہ دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے پورا یقین رکھے۔ دوسرے اس یقین
کا اثر محض قلب و دماغ تک محدود نہ رہے بلکہ جوارح میں ظاہر ہو، اور اس کی عملی
زندگی اس کے ایمان قلبی کا آئینہ ہو۔ تیسرے محض اپنی انفرادی صلاح وفلاح پر
قناعت نہ کرے بلکہ قوم و ملّت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھے۔ جب دو مسلمان
ملیں ایک دوسرے کو اپنے قول و فعل سے سچے دین اور ہر معاملہ میں سچائی اختیار
کرنے کی تاکید کرتے رہیں۔ چوتھے ہر ایک کو دوسرے کی یہ نصیحت و وصیت رہے کہ حق
کے معاملہ میں اور شخصی و قومی اصلاح کے راستہ میں جس قدر سختیاں اور دشواریاں
پیش آئیں یا خلافِ طبع امور کا تحمل کرنا پڑے، پورے صبر
و استقامت سے تحمل کریں، ہر گز قدم نیکی کے راستہ سے ڈگمگانے نہ پائے۔ خوش قسمت
حضرات ان چار اوصاف کے جامع ہونگے اور خود کامل ہو کر دوسروں کی تکمیل کریں گے
ان کا نام صفحات دہر پر زندہ جاوید رہیگا۔ اور جو آثار چھوڑ کر دنیا سے جائیں گے
وہ بطور باقیات صالحات ہمیشہ ان کے اجر کو بڑھاتے رہیں گے۔ سورۃ عصر کی فضیلت:
فی الحقیقت یہ چھوٹی سی سورت سارے دین و حکمت کا خلاصہ ہے۔ امام شافعیؒ نے سچ
فرمایا کہ اگر قرآن میں سے صرف یہی ایک سورت نازل کر دی جاتی تو (سمجھدار بندوں
کی) ہدایت کے لئے کافی تھی۔ بزرگان سلف میں جب دو مسلمان آپس میں ملتے تھے، جدا
ہونے سے پہلے ایک دوسرے کو یہ سورت سنایا کرتے تھے۔
|
شیعہ حضرات کی تفسیر قمی سے ماتم کی ممانعت کا ثبوت
(سورۃ المعارج) ان الاانسان خلق ھلو عااذامسہ الشر جز و عاواذ امسہ الخیر منوعاً الا المصلین الذین ھم فی صلوۃ تھم دائمون۔
بے شک انسان (بخیل) بے صبرا پیدا کیا گیا ہے جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرتا ہے اور جب بہتری پہنچے تو رکنے والا ہے سوائے نمازیوں کے جو ہمیشگی کرنے والے ہیں اپنی نمازوں میں‘‘۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ بعض انسان خداوند کریم کے ناشکرے ہیں جن کو تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرنے لگ جاتے ہیں ہاں جو ہمیشہ کے پکے نمازی ہوں وہ ایسا نہیں کرتے۔ تو معلوم ہوا کہ بموجب قرآن کریم بے نمازی تکلیف کے وقت جزع و فزع کرتا ہے۔
وقال علیہ السلام ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخدہ عند مصیبۃ خبط عملہ۔(نہج البلاغتہ جلد ۳‘ ص ۱۸۵)
حضرت امیرالمو منین علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا صبر مصیبت اندازے سے نازل ہوتا ہے جس شخص نے مصیبت کے وقت اپنے ہاتھ رانوں پر مارے اس کے نیک اعمال ضائع ہو گئے۔
حضرت رسول نہی فرموداز گزیہ بلند و نوحہ کردن اور مصیبت و نہی فرموداز رفتن زنان پے جنازہا۔ (حلیۃ المتقین ص ۱۸۸)
حضرت رسول اﷲ ﷺ نے مصیبت میں بلند رونے اور نوحہ کرنے سے منع فرمایا اور جنازے کے پیچھے عورتوں کے جانے سے بھی منع فرمایا۔
نھی رسول اﷲ عن الرنۃ عند المصیبۃ ونھی عن النیاحۃ والاستماع ایھا۔ (کتاب الامالی الصدوق ص ۲۵۴)
شیخ الطائفہ امامیہ صدوق صاحب نے دوسوچون صفحہ میں مصطفی ﷺ کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ مصطفی ﷺ نے مصیبت کے وقت بلند رونے سے منع فرمایا اور رمعہ سنانے سے بھی منع فرمایا۔
اصول کافی‘ ص ۴۲۰ من دق وجھہ دق عملہ۔ جس نے اپنے منہ کو نوچا اس کے نیک اعمال پھاڑے گئے۔
عدۃ. من اصحابنا عن احمد بن محمد عن عثمان بن عیسٰی عن ابی ایوب الخزاز عن رجل عن ابی عبداﷲ علیہ السلام فی قول اﷲ عزوجل ولا یعصینک فی معروف قال لا یشققن جیباً ولا یتخلفن عند قبر ولا یسوون توبا ولاینشرن شعرا ۔
(فروغ کافی جلد ۲‘ ص ۲۲۸)
حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے اﷲ تعالی کے فرمان ولا یعصینک فی معروف کے متعلق حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کرتے نہ پھاڑیں اور اپنے رخساروں پر طماچے نہ ماریں اور ہائے ہائے نہ پکاریں اور قبر کے پاس نہ بیٹھیں اور اپنے کپڑے سیاہ نہ کریں اور بال نہ نوچیں۔ (تفسیر قمی ص ۳۳۵)
فقا مت ام حکیم ابنۃ الحارث بن عبدالمطلب فقالت یا رسول اﷲ ماھذا المعروف الذی امرنا اﷲ بہ ان لا یعصیک فیہ فقال ان لا تخمشن وجھا ولا تلطمن خذا ولا تنتفن شعرا ولا تمزقن جیباً ولا تنتفن شعرا ولا تمزقن جیباً ولا تسوون ثوبا ولا تدعون باالویل و اثبور ولا تقیمن عند قبر فبا یعھن رسول اﷲﷺ والہ علی ھذہ الشروط۔
ام حکیم حارث بن عبدالمطلب کھڑی ہوئی اس نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ اﷲ تعالٰی نے ہمیں معروف کے متعلق یہ کیا حکم فرمایا ہے کہ ہم اس معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں۔ تو مصطفی ﷺ نے فرمایا خداوندی فرمان معروف کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے مونہوں کو نہ نوچو اور اپنے رخساروں کو طمانچے نہ مارو اور اپنے بالوں کو بھی نہ نوچو اور اپنے کرتوں کو نہ ٹکڑے ٹکڑے کرو اور اپنے کپڑے سیاہ نہ بنائو اور ہائے ہائے اور ہلاکت ہلاکت نہ پکارو اور قبر کے پاس نہ کھڑی ہو۔ تو رسول ﷺ نے ان شروط پر عورتوں سے بیعت فرمائی۔
براں اے فاطمہ کہ برائے پیغمبر گریباں نے بایددرارونمے باید خراشیدو واویلا نے باید گفت کہ چشماں میگر یندودل بدرومے آید نمیگویم چیزے کہ موجب غضب پروردگار باشد۔(جلا ء العیون‘ ص ۵۸)
مصطفی ﷺ نے اپنی صاحبزادی کو وصیت فرمائی‘ مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ اے فاطمہ پیغمبر کے لئے گریبان نہیں پھاڑنا چاہیے اور منہ نوچنا نہیں چاہیے اور واویلا نہیں کرنا چاہیے اور لیکن جو کچھ تیرے باپ نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر کہا وہ کہو کہ آنکھیں روئیں اور دل میں دردآتا رہے میں وہ چیز نہیں کہتا جو پروردگار کے غضب کا سبب بن جائے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مصطفی ﷺ کی وصیت کے خلاف اگر واویلا یا مونہہ پیٹا تو اﷲ تعالیٰ کے غضب کا باعث ہے۔
عن ابی عبداﷲ علیہ اسلام قال رن ابلیس اربع رنات اولھن یوم لعن وحین اھبط الی الارض و حین بعث محمد علی حین فطرۃ من الرسل وحین انزلت ام الکتاب۔
(خصال لابن بابویہ ص۱۲۶)
حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرمایا سب سے پہلے شیطان نے چار(۴) وقتوں میں چیخیں ماریں جس دن لعن کیا گیا اس دن اس کی چیخ نکلی دوسری دفعہ جب زمین پر اتارا گیا تواس کی چیخیں نکلیں تیسرے جب مصطفی ﷺ کی نبوۃ کو ظاہر کیا گیا چوتھی جب الحمد شریف نازل کی گئی تو ابلیس کی چیخیں نکلیں۔
ودرحدیث است کہ غنانوحہ ابلیس بود برفراق بہشت وفرمودنوحہ کنندہ ببایدروز قیامت نوحہ کناں مانند سگ و فرمودنوحہ وغناقسون زنانست۔
اور حدیث میں ہے کہ نوحہ گانا بہشت کے فراق پر ابلیس کا تھا اورفرمایا مصطفی ﷺ نے قیامت کے دن نوحہ کرنے والا کتوں کی مانند نوحہ کرنیوالا ہوگا اور فرمایا مصطفی ﷺ نے نوحہ گانا عورتوں کا طریقہ ہے۔ (مجمع المعارف ص۱۶۲)
الیوم الخامس قال ابوعبداﷲ علیہ السلام ھذا یوم ولد فیہ قابیل الشقی وفیہ قتل اخاہ و دعافیہ باالویل علی نفسہ وھو اول من یبکی فی الارض من بنی آدم وکان ملعوناً۔ نفس الرحمٰن(مئولفہ محمد تقی)نوری طبرسی ص ۱۲۴) حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جمعرات کا دن یہ وہ دن ہے جس میں قابیل پیدا کیا گیا اور اس میں اس کا بھائی ھابیل قتل کیا گیا اور قابیل نے اپنے نفس کے لئے اسی دن میں ہائے ہائے میں مر گیا کہا اور وہی قابیل پہلا شخص ہے جس نے آدم علیہ السلام کی اولاد سے پہلے پہل واویلا کیا اور ملعون ہوا۔
مذہب شیعہ کی معتبر کتب احادیث وتفسیر سے (روز روشن کی طرح) ثابت ہوگیا کہ حضور ﷺ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے ماتم کرنے اور نوحہ کرنے اور واویلا کرنے کو سختی سے منع کیا ہے اور اگر کوئی ماتم کرتا ہے نوحہ کرتا ہے تواس نے حضور ﷺ سے دشمنی اور بغض کیا جس نے حضور ﷺ سے دشمنی اور بغض کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ حق پر کون اہل سنت یا اہل تشیع۔
رب کریم سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس برے مذہب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
No comments:
Post a Comment