قرآن وحدیث کے تناظر میں حقوقِ انسانی کی تشریح
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے وہ خونچکاں حالات، جہاں جان ومال، عزت وآبرو ہر چیز خطرے میں تھی، اس کا تصور ذہن میں آتے ہی ایک روح فرسا کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اخوت ومحبت ، ہمدردی وغم گساری، نامانوس بلکہ ناپید تھی، معمولی معمولی سی باتوں پر جنگ چھڑ جاتی اور ایسی بھیانک شکل اختیار کرلیتی، جس کا تذکرہ تو کجا تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے، غرض ہر طرف ظلم وبربریت کا دور دورہ تھا، ایسے مہیب سائے میں فاران کی چوٹی سے ایک آفتاب عالمتاب نمودار ہوا جس کی ضیاء پاش کرنوں سے ایک نئی صبح کا آغاز ہوا، دم توڑتی اور جاں بلب انسانیت کو آبِ حیات ملا، اور انسانیت پہلی بار اپنے حقوق سے آشنا ہوئی۔
حقوق انسانی کے معنی: یہ دو کلموں سے مرکب ہے حقوق جو حق کی جمع ہے: وہ چیز جو ثابت ہو (کسی فرد یا جماعت کیلئے) انسانی: انسان کی طرف منسوب ہے، انسان کی تعریف وہ جاندار یعنی جسم و روح والاجو قادرالکلام ہو۔
حقوق انسانی کا مفہوم: انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالہ کے سلسلہ میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔
حقوق انسانی کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ: حقوق انسانی پر کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیلی بحث کرنے سے قبل ان حقوق کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا بے محل نہ ہوگا تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور آج کی مہذب دنیا (امریکہ) جو انسانی حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتا، یہ جان جائے کہ انسانی حقوق کے جس کھوکھلے تصور تک وہ اب پہنچا ہے اس سے کہیں زیادہ جامع اور واضح تصور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیا تھا۔ خطبہٴ حجة الوداع کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدومد اور تاکید کے ساتھ حقوق انسانی ہی کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
حقوق انسانی کے شعور وارتقاء کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک ندوی فاضل جناب مولانا سید احمد ومیض ندوی اپنے وقیع مضمون میں رقمطراز ہیں ”صنعتی انقلاب کے آغاز سے مغرب میں حقوق انسانی کا شعور پیدا ہوا کہ انسان کے بھی بحیثیت انسان ہونے کے چند فطری حقوق ہوتے ہیں جن سے کسی بھی فرد کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کا شعور بیسویں صدی کے شروع میں نمودار ہوا اور انقلابِ فرانس کا اہم جزو قرار پایا، اس میں قوم کی حاکمیت، آزادی، مساوات اور ملکیت جیسی فطری حقوق وغیرہ کا اثبات کیاگیا تھا، تدریجاً حقوق انسانی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا، اور اخیر میں حقوقِ انسانی کا عالمی منشور سامنے آیا، دسمبر ۱۹۴۶/ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزرویشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم قرار دیاگیا۔ ۱۹۴۸/ میں نسل کشی کے انسداد کیلئے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲/جنوری ۱۹۸۱/ میں نفاذ ہوا۔
حقیقی انسانی حقوق: انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیاجاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیٴ ضمیر کا حق ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
حقوقِ انسانی کی صحیح تشریح: سطور بالا میں دور حاضر کے انسانی حقوق کے ارتقاء کا جو سرسری جائزہ لیاگیا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب میں حقوق انسانی کے تصور کی دو تین صدیوں قبل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی حقوق انسانی کا ایک جامع تصور انسانیت کے سامنے پیش کرکے بذاتِ خود اسے عملی جامہ پہناکر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کی۔
فاضل مضمون نگار مولانا ندوی حقوقِ انسانی کے اس مغربی منشور کی عدم تاثیر اور فرسودگی کے اسباب ومحرکات متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جن مغربی ممالک نے منشور حقوقِ انسانی کی داغ بیل ڈالی تھی، آج وہی ممالک حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں، چنانچہ آئے دن ان ممالک میں جرائم پیشہ افراد کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مفکرین و مدبرین نے اس کے بہت سے اسباب متعین کیئے ہیں، لیکن حقوق انسانی پر ڈاکہ زنی کا بنیادی سبب ان انسانی حقوق کے نفاذ کیلئے کسی داخلی قوتِ نافذہ کا فقدان ہے، علاوہ ازیں مغرب کے حقوق انسانی کا فلسفہ صرف اس کے مفادات کے اردگرد گھومتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقوقِ انسانی ایک نظریہ بن کر رہ گیا، جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کے صحیح نفاذ اور ان کو عملی زندگی سے مربوط کرنے کے لیے فکر آخرت سے جوڑدیا جس کے باعث بندوں کے اندر حقوقِ انسانی کی رعایت وحفاظت کی ایسی اسپرٹ پیدا ہوگئی کہ بندہ از خود حقوق انسانی کا محافظ بن جاتا ہے۔
حقوقِ انسانی کا جامع ترین تصور اسلام نے دیا: مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسول نے فرمایا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔
زکوٰة اور حقوق انسانی: یہ ایک بدیہی امر ہے کہ ایک مخصوص طبقہ کے پاس مال ودولت کے منجمد رہنے سے کمزور طبقے بیروزگاری کے شکار ہوجاتے ہیں، اور انسانی معاشرہ کی ایک معتد بہ تعداد خط افلاس کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اسلامی قوانین نے زکوٰة کو فرض قرار دے کر سالانہ آمدنی کا ڈھائی فیصد حصہ غریبوں کیلئے خاص کیا کہ دولت ایک ہاتھ میں سمٹ کر نہ رہ جائے، صدقہ وخیرات کی اہمیت اجاگر کرکے غرباء ومساکین کا بھرپور خیال رکھا، ارشاد ربانی ہے: وَفِیْ أمْوَالِہِم حَقٌ للسَّائِلِ وَالمَحْرُومِ اور ان کے مالوں میں غرباء ومساکین کا حق ہے۔
اسلام میں انسانیت کی میزبانی: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیا کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اعزاز بخشا، اس کے احترام واکرام کی تعلیم دی، اس کو خوبصورت سانچہ میں ڈھال کر اسے دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کیا، ارشاد ربانی ہے: ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور خشکی ودریا میں ان کو سواری دی، اور پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ہم نے آدمی کو اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ہے۔ تیسری جگہ فرمایا: اللہ نے تمہارے نفع کیلئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔ چوتھی جگہ یوں فرمایا: میں سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اسلام نے انسانی حرمت وشرافت کی اتنی پاسداری کی کہ انسان کا احترام پس مرگ تک باقی رکھا، چنانچہ آپ کے زمانے میں ایک عورت کا جنازہ گذررہا تھا، اللہ کے رسول کھڑے ہوگئے، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو یہودی ہے، اللہ کے رسول نے فرمایا ألیسَتْ نفسًا: یعنی کیا وہ انسان نہیں؟ اسی طرح نبوت وشریعت کی دولت بھی صرف اور صرف انسان ہی کو عطا کیاگیا ہے، اسی طرح اسلام نے علوم وعقل اور خرد جیسی گرانقدر انعام سے نوازا، ارشاد ہے: اللہ کی تمام پیداکردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے باعزت ہے۔
انسانی اخوت ومساوات: محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور ببانگ دُہل یہ اعلان کردیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجة الوداع کے موقع پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبہ میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت ومساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، ارشاد نبوی ہے:
اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر، اور فتح مکہ کے موقع پر ایک اہم خطبہ میں اسی طرح کا حکم ارشاد فرمایا۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے: لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلادئیے، دوسری جگہ ارشاد ہے: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔
انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت: یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن پاک میں بھی اس کی تائید کی گئی چنانچہ ارشاد باری ہے: جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ اسی طرح ارشاد نبوی ہے: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے: اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔ اور مال کے تحفظ کو یوں موکد کیاگیا ہے، ارشاد ربانی: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت وآبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، ممکن ہے کہ وہ اس سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ، اور ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔
تحفظ آزادی (شخصی ومذہبی): اسلامی معاشرہ میں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں کسی کا کسی پر بیجا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خود مختار ہے اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقاء کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی ٹوہ بازی اور بلا اجازت کسی کے گھر میں دخول سے منع کیا ہے۔ ارشاد حق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں) کے گھروں میں گھروالوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہواکرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ (بعض) گمان گناہ ہے اور ایک دوسرے کے حال کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ اسی طرح اسلام میں مذہب اور ضمیر واعتقاد کے تحفظ کی گارنٹی یوں دی گئی: دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ ایک دانشور مفکر لکھتے ہیں ”صبر واعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کے سیزدہ سالہ دور ابتلاء میں مسلمانوں نے ماریں کھاکھا کر کلمہ حق کہااور بالآخر یہ حق ثابت ہوکر رہا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے عاری ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیرمسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا ہو، یا کسی قوم کو مارمار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔
عورتوں، بچوں، غلاموں، یتیموں اور حاجتمندوں کے حقوق: اعلان نبوت سے قبل عورتوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی، معاشرہ میں اس کی حیثیت سامان لذت سے کچھ زیادہ نہ تھی، معاشی، سماجی ہرلحاظ سے بے بس تھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سسکتی، بلکتی عورت کی فریاد رسی کی اس کے حقیقی مقام کومتعین فرمایا: چنانچہ حجة الوداع کے موقع پر ان کے حقوق کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔ اسی طرح قبل از اسلام اسقاط حمل اور دختر کشی کی رسم عروج پر تھی، اسلام نے سختی کے ساتھ اس گھناؤنے فعل سے منع کیا۔ ارشاد ہے: اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے نہ قتل کرو، ان کو اور تم کو روزی ہم ہی دیتے ہیں۔ یقینا یہ بڑا گناہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں غلاموں اور غریبوں کے حقوق بھی روندے، پامال کیے جاتے انہیں حقارت وذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں بھی اتنے حقوق دئیے کہ ان کی سطح زندگی بلند کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ چنانچہ ایسے ایسے اصول وقوانین طے کیے جن سے لوگ زیادہ سے زیادہ غلامی کی طوق سے نکل سکے بریں بنا بہت سے گناہوں اور حکم عدولیوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی رکھی، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا۔
٭٭٭
------------------------
حديثِ حضرت خدیجہ:
بےشک آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں
ضعیفوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں
ناداروں کو کمائی سے لگاتے ہیں
مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں
اور
حق بجانب باتوں میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے ہیں.
[صحیح بخاری:3+ صحیح مسلم:160]
سیرت منانے کا نہیں، اپنانے کا نام ہے.
حضرت ابوھریرہ کے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے(کیوں)کہ رسول الله ﷺ نے اپنی آنکھوں سے چپاتی نہیں دیکھی.
[ابن ماجہ:3338]
[ترمذی:3789، طبرانی:10664، حاکم:4716 ، الأحادیث المختارۃ:383، الشریعۃ لآجری:1760، الأعتقاد للبیھقی:ص#327]
...تو جس نے میرے صحابہ(ساتھیوں)سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی...
[ترمذی:3862]
دعوت توحید کے لیے طائف کے شہر سے وحشیانہ سلوک کے بعد لوٹتے ہوئے، اللہ کی طرف سے جبرئیل کے ساتھ بھیجے گئے پہاڑوں کے فرشتے سے عذاب دینے کی اجازت لینے پر نبی ﷺ نے فرمایا:
مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
[بخاری:3231+7389،مسلم:1795]
زخمی دل پر مرہم رکھنے والی اللہ کی تسلی:
وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔(سورۃ الطور:48)
ترجمہ:
اور (اے پیغمبر!) تم اپنے رب کے حکم پر جمے رہو، کیونکہ تم ہماری نگاہوں میں ہو۔
تشریح:
یہ بڑی پیار بھری تسلی ہے جو نبی محمد ﷺ کو دی جا رہی ہے کہ آپ اپنے کام (یعنی ایک حقیقی خدا-جس نے سب کو پیدا کیا اور جسے کسی نے پیدا نہیں کیا-کی ہی عبادت کیلئے بلانے) میں لگے رہئے، ہم ہر وقت آپ کی نگرانی اور حفاظت کر رہے ہیں۔
فتحِ مکہ کے موقع پر جب رسول الله ﷺ نے مخالفینِ مکہ سے کہا: اب تم کیا کہتے اور گمان رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ سے خیر کی امید رکھتے ہیں، کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔
آپ نے فرمایا: تو میں وہی کہوں گا جیسا میرے بھائی(حضرت)یوسف نے(اپنے بھائیوں سے)کہا: آج تم پر کوئی بازپرس نہیں،الله تمہیں بخشے اور سب سے بڑا رحم والا ہے۔
[بیھقی:11234،طحاوی:5454]
جبکہ ہر مسلمان جذبہ انتقام سے سرشار ہے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، جوش انتقام میں بار بار زبان پر یہ الفاظ آرہے ہیں:
الْيَوْمَ نَضْرِبُكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ... ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ ... وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ
آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے کہ تمہاری کھوپڑی سر سے الگ ہو جائے گی اور تم اپنے دوست و احباب کو بھی بھول جاؤ گے۔
[ترمذی:7867]
سپاہیوں کی اس درجہ حوصلہ مندی اور جرات مندانہ کلمات پر فاتح مکہ کو تو آگ بگولہ ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ سربراہان مملکت کا یہی دستور رہا ہے کہ فوج کے حوصلہ اور جرات کو دیکھ کر سینہ آگ سے بھڑک اٹھتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے بھی ایک چیونٹی کی سلیمانؑ نبی سے کہی گئی یہ بات بیان کرتا ہے:
إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا
[سوره نمل:34]
بادشاہ جب فاتح بن کر کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کے نظم و انتظام کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، اس علاقے کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کرکے ذلت و خواری کا پرچم ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں، یہی حکام عالم کا امتیاز اور طور و طریقہ رہا ہے۔
لیکن وہ بادشاہ جس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے مکہ اور طائف کی گلیوں میں جس کو لہولہان کیا گیا تھا جس کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے تھے اور ہر طرح سے اس کو ستایا گیا تھا ظلم و جبر کی تمام کہانیوں کو پس پشت ڈال کر تواضع و انکساری کو سینے سے لگائے ہوئے اخوت و محبت اور عفو درگزر کی ایک عظیم مثال قائم کر کے امن و سلامتی کا پرچم لہراتے ہوئے مکہ میں داخل ہوتا ہے، کفار قریش آپ کے سامنے آئے شرماتے ہوئے سہمے ہوئے ڈرے ہوئے، رحمت عالم نے قریش مکہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
يا معشر قريش ما ترون اني فاعل فيكم
(فتح الباری)
اے قریشیو: تم جانتے ہو میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا ؟
کہنے لگے؛ کہ اللہ کے رسول ہم نے آپ جیسا حلیم و بردبار نہیں دیکھا، کسی انسان کو رتبہ اور مرتبے میں آپ کے ہم پلہ نہیں پایا، آپ کی شرافت ضرب المثل ہے اور شریفوں سے شرافت کی ہی توقع رکھی جاتی ہے، اس لیے ہمیں آپ سے خیر و معافی کی امید ہے۔۔۔ لیکن دل اندر سے کہہ رہے تھے کہ آج جان کی خیر نہیں ہمارے ایک ایک ظلم کا بدلہ لیا جائے گا، آج ایک ایک مسلمان شہید کے خون کے بدلے کا دن ہے، ہمیں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی، ابو جندل کی پیٹھ سے لے کر بلال حبشی کے سینے تک کتنے جسم ہیں جن کو ہم نے نہیں چھیدا، نہیں تپایا، نہیں داغا، ہمارے ہی ظلم و ستم کے سبب محمد بن عبد اللہ کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا تھا، ہمارے ہی سردار ابوسفیان کی بیوی نے محمد کے پیارے چچا حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا، اور ابن قمیہ ہمیں میں سے تھا جس نے در یتیم آمنہ کے چہرے کو لہولہان کیا تھا۔۔۔ رحمت عالم ظلم و ستم کی ہر کہانی کو بھلا کر کہتے ہیں: اليوم يوم المرحمة اليوم يوم بر ووفاء (البدایہ والنهایہ) لوگوں آج معافی کا دن ہے رحم و کرم کا دن ہے آج احسان و وفا کا معاملہ کیا جائے گا، لا تثريب عليكم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء (فتح الباری) آج تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جسنے زخم کھاکر پھول برسائے
بس یوں سمجھئے کہ قاتلوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا کر اتار دیا گیا، تلواریں گردن کے قریب لاکر روک دی گئیں، موت کا فرشتہ حلقوموں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا کہ اسے تھما دیا گیا، انسانیت کی پوری تاریخ عفو و درگزر اور اخوت و محبت کی اس مثال سے خالی ہے، کسی مبالغے کے بغیر پوری دیانت اور کمال ذمہ داری کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر جامع شخصیت تاریخ و سیر میں کہیں نظر آتی ہی نہیں، آپ کا پیغام ملکوں اور خطوں سے نکل کر ایک عظیم انقلاب کی شکل میں رونما ہوا، اور اس پیغام سے پوری دنیا گونج اٹھی قوموں کی تقدیریں بدل گئیں، غلام تک پستیوں سے نکل کر شہہ نشینوں پر جا بیٹھے، یہ انقلاب چہروں اور صورتوں کا نہیں فکر و نظر اور ضمیر و باطن کا انقلاب تھا جس نے چوروں اور لٹیروں کو بھی انتہائی دیانت دار اور امن پسند بنا دیا، اس نے دشمنوں کو بھی اپنے گلے لگایا، صالح تمدن اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد ڈالی۔
آپ کی حیات طیبہ کھلی ہوئی ایک روشن کتاب ہے قلم ہزاروں سطریں بھی کاغذ پر منتقل کردے تب بھی آپ کے کسی ایک وصف کی مکمل تصویر نہیں کھچ سکتی۔۔۔ اگر دل کی آنکھیں بالکل بے نور ہو جائیں تو اس کا کوئی علاج نہیں، ہاں اگر دل میں درد اور طبیعت میں احساس ہو چشم بصیرت میں ذرا سی بھی روشنی موجود ہو تو آپ کی زندگی کو پڑھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا اور اس کا دل خود بخود کہہ اٹھے گا کہ بس یہی زندگی حق و صداقت پیار و محبت عفو و درگزر اور اخوت و بھائی چارگی کا آخری معیار ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے پوچھا کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو سب سے بڑی ایذاء کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا:
ایک دن رسول اللہ ﷺ حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کی گردن میں چادر ڈال کر بل دینے لگا، وہ بری طرح آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اس وقت ابوبکر صدیق ؓ دوڑے دوڑے آئے، انھوں نے اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے:
’’کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمھارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘
[سورۃ غافر/المؤمن:28]
[صحیح البخاری: کتاب مناقب الأنصار، باب ما لقی النبی ﷺ و أصحابہ من المشرکین بمکۃ :حدیث#3856]
حضرت علیؓ نے فرمایا:
ایک بار ابوجہل نے نبی ﷺ سے کہا: ہم تمہیں نہیں جھٹلاتے، لیکن ہم جھٹلاتے ہیں تو اسے جو(پیغام)آپ لاۓ ہیں، تو اللہ نے(یہ آیت)نازل فرمائی:
(اے رسول) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ (سورة الأنعام:33)
[ترمذي:3064،حاکم:3230]
اور جب پڑھی جاتی ہیں ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں تو کہتے ہیں وہ لوگ جن کو امید نہیں ہماری ملاقات کی، لے آ کوئی قرآن اس کے سوا یا اس کو بدل ڈال، تو (اے نبی) کہدو کہ میرا کام نہیں کہ بدل ڈالو اس کو اپنی طرف سے، میں تو پیچھے چلتا ہوں اس حکم کے جو آئے میری طرف، میں ڈرتا ہوں عظیم دن کے عذاب سے، اگر نافرمانی کروں اپنی رب کی۔
[سورۃ یونس:15]
حضرت ابوھریرہؓ کے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے کہ رسول الله ﷺ نے اپنی آنکھوں سے چپاتی نہیں دیکھی.
[سنن ابن ماجہ:3338]
(اے پیغمبر!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جار ہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے۔
[سورة الشعراء:3]
اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گھلا بیٹھو گے۔
[سورة الكهف:6]
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:
نبی ﷺ کا کافروں کیلئے رحمت ہونا یہ ہے کہ وہ دنیا میں زمین میں دھنسا دیے جانے، یا آسمان سے پتھروں کی بارش کی صورت میں اس طرح کے عذاب سے محفوظ رہے، جیسے عذاب سابقہ امتوں پر آئے تھے۔
[تفسیر(امام)ابن کثیر:5/387،سورة الأنبیاء:107]
تفسیر(امام)الطبري:17/83
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا، فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ بِاللّہِ وَاعْتَصَمُواْ بِہِ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَیْْہِ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماً﴾․ ترجمہ: ”اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی روشنی بھیج دی ہے جو راستے کی پوری وضاحت کرنے والی ہے۔ چناں چہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اسی کا سہارا تھام لیا ہے،اللہ ان کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل کرے گا۔اور انہیں اپنے پاس آنے کے لیے سیدھے راستے تک پہنچائے گا۔“ (سورة النساء:175-174)
تشریح و توضیح مذکورہ آیت شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے صاحب ایسر التفاسیر رقم طرازہیں:”اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العالمین نے تمام لوگوں، خواہ مشرک ہوں، یہودہوں یا نصاریٰ… کو اتمامِ حجت کے تحت یہ خبر دے دی ہے کہ اُس ذات حق نے اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ علیہ السلام (کا یوں پیغمبر بن کر تشریف لے آنا) اللہ تعالیٰ کے وجود ، قدرت اور علم کی حتمی دلیل اور واضح ثبوت ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ذات اور تمام رسولوں پر ایمان لانا اور اللہ کے رسول کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بندگی کو لازم پکڑنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ السلام پر ایسی کتاب نازل کی ہے جو(ہرظاہری اور باطنی مرض سے) شفا دینے والی ،(دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں)کفایت کرجانے والی، (حق کے طلب گاروں کو)ہدایت دینے والی اور(راہ ہدایت بتلانے کے لیے) سراپاروشنی ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس شخص کو سلامتی کے راستوں کی طرف راہ نمائی کرتے اور (کفر کے ) اندھیروں سے (اسلام کی) روشنی کی جانب نکال کر لے آتے ہیں، جو اللہ رب العالمین کی رضا مندی کا طالب ہو ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے ہر قسم کی معذرت اور عذر خواہی کا راستہ بند کردیاہے۔اب انسانوں کی (صرف)دو قسمیں ہیں ۔ایک مومن، دوسری کافر۔ جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں ،وہ حق سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب اور معبود مانتے اور اس کے نبی کو اپنا رسول اور پیغمبر مانتے ہیں اور قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑکر اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتے ہیں، اس کی خبروں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے بتلائے گئے آداب کی رعایت اور پابندی کرتے ہیں۔ چناں چہ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ ربّ کریم اپنی رحمت اور فضل سے اس طرح نوازیں گے کہ انہیں جہنم سے نجات اور جنت کے باغات میں داخل کریں گے۔ حقیقت میں یہی سب سے بڑی کام یابی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے :﴿فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز﴾ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب کا انکار کیا تو ان کا ٹھکانا مشہور اور ان کا بدلہ معلوم ہے ،جس کے ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ حرمان اور خسران ہے۔(ایسر التفاسیر 1/232،شاملہ) آیت مبارکہ میں ایک لفظ ”برھان“آیا ہے۔ لغوی اعتبار سے جس چیز کے ذریعے مقصود و مطلوب پر دلیل حاصل کی جائے ،اسے برہان کہتے ہیں ۔یہاں اس لفظ سے مراد قرآن کریم ہے، جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی صحت پر دلالت کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان (مختلف)احکام کو ثابت کرنے والا ہے جو اس کے اندر موجود ہیں،جن میں سے ایک احقاقِ حق اور ابطال ِباطل (بھی)ہے جس کا تذکرہ آیت مبارکہ میں ہے۔ دوسرے قول کے مطابق اس لفظ سے مراد معجزات نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰة والسلام ہیں۔ تیسرے قول کے مطابق وہ دین حق مراد ہے ،جو آپ علیہ السلام لے کر آئے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مبارکہ کو ”برھان “سے تعبیر فرمایا ہے،کیوں کہ آپ علیہ السلام کے ساتھ ایسے معجزات تھے جو آپ کی حقانیت و سچائی پر دلالت کرنے والے تھے۔ (تفسیر ابوالسعود:2/193، 194،195شاملہ) مصنف شہیر ،داعی کبیر حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری نور اللہ مرقدہ مذکورہ آیت مبارکہ میں ”برھان“ اور”نور مبین“ کے اطلاق کی بابت حضرات مفسرین کرام رحمھم اللہ کے اقوال کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”در حقیقت یہ کوئی اختلاف نہیں، کیوں کہ قرآن کریم حجت بھی ہے اور نور مبین بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی حجت ہے اور نور مبین بھی ہے۔ اللہ جل شانہ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو معجزات کثیرہ کے ساتھ مبعوث فرمایا۔آپ کی ذات گرامی ساری مخلوق کے لیے اللہ کی طرف سے ایک حجت ہے اور آپ کے اوصاف ،کمالاتِ اخلاق ،صفات و نعوت اور آپ کی دعوت ِتوحید اور دلائلِ توحید اس قدر واضح ہیں کہ کسی بھی شخص کے لیے جو اپنی عقل کو ذرا بھی استعمال کرے؛ان سے منحرف ہونے اور کفر اختیار کرنے کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی حجت ہے اور نورمبین ہے کہ آپ نے کھول کر ہدایت کے راستے بتائے اور خیر و شر کا امتیاز واضح فرمایا۔ پھر جس طرح آپ علیہ السلام کی ذات گرامی لوگوں پر حجت ہے اور نور مبین ہے، اسی طرح قرآن عظیم بھی عظیم معجزہ ہونے کے اعتبار سے لوگوں پر حجت ہے ، جس نے توحید کے دلائل بیان کیے اور کافروں اور مشرکوں کی گم راہی بیان کی اور صالحین اور طالحین کا انجام بتایا اور حجت ہونے کے ساتھ ساتھ؛ وہ نور مبین بھی ہے، جس نے خالق و مالک کو راضی کرنے کے طریقے سکھائے، احکام شرعیہ واضح فرمائے اور صلاح وفلاح کے راستے بتائے۔ ( تفسیر انوار البیان :49/2) نکات ومعارف مذکورہ آیت مبارکہ سے حاصل ہونے والے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ”ایسر التفاسیر“ لکھتے ہیں: ٭…اسلام کی دعوت اور اس کا پیغام بنی نوع انسان کے تمام افراد کے لیے عام ہے۔ ٭… انسان کی سعادت مندی، خوش بختی اور بلند اقبالی کی قیمت اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر ایمان اور اللہ سے ملاقات کا یقین پیدا کرنا ہے۔جب کہ ”عمل صالح “کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا نام ہے۔ ٭…”برھان “کا اطلاق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس اعتبار سے ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی صفت امّیت اور عظمت و کمال کے ساتھ اس (بلند)مقام پر پہنچے ،جہاں کوئی انسان آپ سے آگے نہیں بڑھ سکتا(اور ایساہونادرحقیقت) اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کے علم اور رحمت کی دلیل ہے۔ (ایسر التفاسیر1/232،شاملہ) جب کہ علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ،ان کے لیے اللہ رب العالمین نے تین وعدے فرمائے ہیں: 1..رحمت۔2.. فضل۔3.. ہدایت۔ علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ تینوں کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ نقل کرتے ہیں : ”رحمت سے مراد جنت ہے۔ فضل سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں۔ جب کہ ہدایت سے مراد دین قیم (اسلام) ہے۔ “ مذکورہ انعامات کی مزید توضیح کرتے ہوئے علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”رحمت اور فضل تو جنت میں حاصل ہونے والے فائدے اورعظمت سے متعلق ہیں۔ جب کہ ہدایت سے مراد وہ سعادت اور نیک بختی ہے جو عالم قدس کے انوارات کی تجلی سے حاصل ہوتی ہے ۔ (اسی طرح)وہ بلند مقامی (بھی)مراد ہے جو انسانی روحوں کے درمیان حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام روحانی سعادت ہے اور اسے پہلی دو قسموں سے موٴخر ذکر کیا ،یہ بتلا نے کے لیے کہ روحانی سرورو مستی جسمانی لذت و کیف سے زیادہ وقعت اور عزت کے قابل ہے۔ “(التفسیر الکبیرللامام الرازی: 5/451،شاملہ) آیت، حدیث نبوی کے آئینے میں صاحب تفسیر حقی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:” آیت مبارکہ میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر نبی اور پیغمبر کو کسی نشانی اور برھان سے نوازا ہے ،تاکہ وہ اپنی امت پرا تمام حجت کرسکیں۔ جب کہ جناب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ کی ذات مبارکہ کو(ہی) آپ کی طرف سے ایک برھان اور دلیل بناکر دنیا کے سامنے مبعوث فرمایا۔ کیوں کہ دیگر انبیا ئے کرام صلوات اللہ علیھم اجمعین کے براہین (و شواہد نبوت) تو ان کی ذات کے علاوہ دیگر چیزوں میں ہوا کرتے تھے؛ جیسے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ اور برھان عصا اور اس پتھر میں تھا جس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے تھے۔ اس کے برعکس جناب نبی کریم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہی کلیتاً برھان اور معجزہ ہے۔ چناں چہ آپ علیہ السلام کی دونوں آنکھوں کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا:”مجھ سے رکوع اور سجدے میں آگے نہ بڑھو، کیوں کہ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسا آگے سے۔“ آپ علیہ السلام کی نگاہوں کا معجزہ قرآن کریم میں اللہ نے ارشاد فرمایا:”پیغمبر کی آنکھ (معراج کے موقع پر )نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔“(النجم:17) آپ علیہ السلام کی ناک مبارک کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے ارشاد فرمایا :”میں رحمن کی سانس اپنے دائیں جانب پاتا ہوں۔“ آپ علیہ السلام کی زبان مبارک کا معجزہ قرآن کریم میں ذکر ہے: ”اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے ،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔“(النجم:3،4) آپ علیہ السلام کے لعاب مبارک کا معجزہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ خندق کے دن آپ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا : میرے آنے تک اپنے گوندھے ہوئے آٹے سے روٹی مت بنانا اور نہ ہی اپنی ہانڈی چولھے سے اتارنا۔آپ علیہ السلام تشریف لائے اور آٹے میں تھوکااور برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد ہانڈی میں تھوکا اور برکت کی دعا فرمائی۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ لوگوں نے وہ کھانا کھا یا اور اسے چھوڑ کر واپس چلے گئے ،حالاں کہ وہ ہزار سے زیادہ تھے اورہماری ہانڈی اسی طرح جوش ماررہی تھی اور ہمارے آٹے سے روٹیاں بنائی جارہی تھیں۔ اسی طرح آپ علیہ السلا کے لعاب مبارک کا معجزہ یہ (بھی )تھا کہ خیبر کے دن حضرت علیؓ کی دکھتی آنکھ پرآپ نے تھوکاتو وہ درست ہوگئی۔ بدر کے دن ہاتھ مبارک کا معجزہ قرآن کریم میں ذکر ہے :” اور (اے پیغمبر) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نہیں تھے، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔“ (الانفال:17) اسی طرح کنکریاں آپ علیہ السلام کے ہاتھ مبارک میں تسبیح کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگشت مبارک کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے اپنی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو وہ دو ٹکڑے ہوگیا ،یہاں تک کہ حراء پہاڑ کو اس کے دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا گیا۔ اسی طرح ایک موقع پر آپ علیہ السلام کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹ پڑا،اسے پیا گیا اور بہت سوں نے ذخیرہ بھی کیا۔ آپ علیہ السلام کے صدر اطہر کا معجزہ یہ تھا کہ جب آپ نماز پڑھا کرتے تو آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے ایسی آواز نکلتی جیسے ہانڈی سے(پکنے کے وقت)نکلاکرتی ہے۔ آپ علیہ السلام کے قلب مبارک کا معجزہ یہ تھا کہ آپ کی آنکھ سوجایا کرتی ، لیکن دل بیدار رہتا ۔ قرآن کریم میں اللہ پاک نے آپ کے قلب مبارک کی یہ صفات بیان فرمائی ہیں: ”جو کچھ انہوں نے دیکھا، دل نے اس میں کوئی غلطی نہیں کی۔ “(النجم)…”(اے پیغمبر!)کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ نہیں کھول دیا۔“(الم نشرح)…”بے شک یہ قرآن رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے،امانت دار فرشتہ اسے لے کر اترا ہے(اے پیغمبر!) تمہارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم ان پیغمبروں میں شامل ہوجاؤ جو لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔ “ (الشعراء:192،193،194) الغرض اِن جیسے معجزات بے انتہا ہیں۔ سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو معراج آسمانی کے لیے لے جایا گیا، یہاں تک کہ آپ قاب قوسین (دو کمانوں کے فاصلے)سے بھی آگے تشریف لے گئے اور انتہا کو پہنچے یااس کے قریب قریب۔ یہ کلی طور پر آپ علیہ السلام کا ذاتی اورجسمانی معجزہ تھا، اس سے قبل یہ معجزہ کسی اور نبی کو نہیں دیا گیا۔ اسی طرح عرب و عجم کی سب سے فصیح اور بلیغ زبان (عربی) میں وحی آپ کی طرف بھیجی گئی، حالاں کہ اس سے قبل آپ بے پڑھے لکھے تھے اور کتاب و ایمان کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے۔ (چناں چہ غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ )اس سے بڑھ کر(کوئی اور) معجزہ واضح، ظاہر اور مضبوط (نہ)ہوگا۔(تفسیر حقی:3/169،170،171،شاملہ) حاصل کلام صاحب تفسیر حقی فرماتے ہیں:” اللہ تعالیٰ نے اس امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عزت و وجاہت بخشی اور ان پر احسان کیا۔اب جو کوئی اللہ کے نور کو دیکھ کر، نہ کہ محض تقلید و اتباع کی وجہ سے،آپ علیہ السلام پر حقیقی ایمان لائے گا تو اللہ کی توفیق اس کی دست گیری کرے گی اور اسے صفات (کمال )کے عالم میں داخل کردے گی… (یہ بات قابل ذکر ہے کہ) باطن کو روشنی اور نورِ معرفت صرف اور صرف ذکر، عبادت اور اللہ کی پہچان سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ مذکورہ امور پر قوت و طاقت اس عبادت خالصہ سے حاصل ہوتی ہے جسے علیٰ وجہ الکمال اور سنت کے مطابق ادا کیا جائے ۔(کیوں کہ ایسی) عبادت (ہی )انسان کو شہوات اور مذموم اخلاق سے چھٹکارا دلانے میں صیقل کا کام دیتی ہے۔ (اور یاد رکھنا چاہیے کہ )توحید تمام نیک اعمال میں سب سے افضل عمل ہے، جو انسان کو سعادت مندی اور بھلائی کی جانب لے جاتاہے۔ حدیث مبارکہ میں ذکر ہے کہ جن لوگوں کی زبانیں اللہ کے ذکر سے تر رہتی ہیں، وہ جنت میں ہنستے داخل ہوں گے۔ دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے: ” لاالہ الا اللہ کہنے والوں پر قبر اور نشر میں و حشت اور تنگی نہیں ہوگی۔ گویا میں قیامت کی چنگھاڑ کے وقت انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے آپ سے مٹی جھاڑ تے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔ بے شک ہمارا رب بڑا بخشنے والا اور قدر دان ہے۔“(تفسیر حقی:3/169،170،171،شاملہ) وماعلینا الاالبلاغ المبین |
اقرَأ بِاسمِ رَبِّكَ
الَّذى خَلَقَ {96:1}
|
پڑھ
اپنے رب کے نام سے [۱] جو
سب کا بنانے والا ہے [۲]
|
(اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا
|
یہ پانچ آیتیں ( { اِقْرَاْ }
سے { مَالَمْ یَعْلَمْ } تک) قرآن کی سب آیتوں اور سورتوں سے پہلے اتریں۔ آپ ﷺ "غارحراء" میں خدائے واحد کی عبادت کر رہے
تھے کہ اچانک حضرت جبریلؑ وحی لے کر آئے اور آپ ﷺ کو
کہا { اِقْرَاْ } (پڑھیے) آپ ﷺ نے فرمایا { ماانا بقاریٍٔ } (میں پڑھا ہوا نہیں) جبریلؑ نے
کئی بار آپ ﷺ کو زور زور سے دبایا، اور بار بار وہی لفظ { اِقْرَاْ } کہا۔ آپ ﷺ وہی { ماانا بقاریٍٔ } جواب دیتے رہے۔ تیسری مرتبہ جبریلؑ
نے زور سے دبا
کر کہا { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ } الخ یعنی اپنے رب کے نام کی برکت اور مدد
سے پڑھیے۔ مطلب یہ ہے کہ جس رب نے ولادت سے اس وقت تک آپ ﷺ کی ایک عجیب اور نرالی شان سے تربیت فرمائی جو پتہ دیتی
ہے کہ آپ ﷺ سے کوئی بڑا کام لیا جانیوالا ہے کیا وہ آپ ﷺ کو ادھر میں چھوڑ دے گا؟ ہر گز نہیں۔ اسی کے نام پر آپ ﷺ کی تعلیم ہو گی جس کی مہربانی سے تربیت ہوئی ہے۔
|
یعنی جس نے سب چیزوں کو پیدا
کیا، کیا وہ تم میں صفت قرأۃ پیدا نہیں کر سکتا۔
|
خَلَقَ الإِنسٰنَ مِن عَلَقٍ
{96:2}
|
بنایا
آدمی کو جمے ہوئے لہو سے [۳]
|
جس
نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا
|
جمے ہوئے خون میں نہ حس ہے نہ
شعور، نہ علم نہ ادراک، محض جماد لایعقل ہے، پھر جو خدا جماد لایعقل کو انسان
عاقل بناتا ہے، وہ ایک عاقل کو کامل اور ایک اُمّی کو قاری و عالم نہیں بناسکتا۔
یہاں تک قرأت کا امکان ثابت کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ مشکل نہیں کہ تم کو
باوجود اُمّی ہونے کے قاری بنا دے، آگے اس کی فعلیت اور وقوع پر متنبہ فرماتے
ہیں۔
|
اقرَأ وَرَبُّكَ الأَكرَمُ
{96:3}
|
پڑھ
اور تیرا رب بڑا کریم ہے [۴]
|
پڑھو
اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے
|
یعنی آپ ﷺ کی تربیت جس شان سے کی گئ، اس سے آپ ﷺ کی کامل استعداد اور لیاقت نمایاں ہے جب ادھر سے استعداد
میں قصور نہیں اور
اُدھر سے مبداء فیاض میں بخل نہیں۔ بلکہ وہ تمام کریموں سے بڑھ کر کریم ہے۔ پھر
وصول فیض میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے ضرور ہے کہ یونہی ہو کر رہے۔
|
الَّذى عَلَّمَ بِالقَلَمِ
{96:4}
|
جس
نے علم سکھایا قلم سے [۵]
|
جس
نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا
|
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ
"حضرت نے کبھی لکھا پڑھا نہ تھا، فرمایا کہ قلم سے بھی علم وہی دیتا ہے یوں
بھی وہی دیگا"۔ اور ممکن ہے ادھر بھی اشارہ ہو کہ جس طرح مفیض و مستفیض کے
درمیان قلم واسطہ ہوتا ہے، اللہ اور محمد ﷺ کے درمیان جبریلؑ محض ایک واسطہ ہیں۔ جس طرح قلم کا توسط اس
کو مستلزم نہیں کہ وہ مستفیض سے
افضل ہو جائے۔ ایسے ہی یہاں حقیقت جبریلیہ کا حقیقت محمدیہ سے افضل ہونا لازم
آتا۔
|
عَلَّمَ الإِنسٰنَ ما لَم يَعلَم
{96:5}
|
سکھلایا
آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا [۶]
|
اور
انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا
|
یعنی انسان کا بچہ ماں کے پیٹ
سے پیدا ہوتا ہے تو کچھ نہیں جانتا۔ آخر اسے رفتہ رفتہ کون سکھاتا ہے بس وہی رب
قدیر جو انسان کو جاہل سے عالم بناتا ہے، اپنے ایک اُمّی کو عارف کامل بلکہ تمام
عارفوں کا سردار بنا دے گا۔
|
كَلّا إِنَّ الإِنسٰنَ لَيَطغىٰ
{96:6}
|
کوئی نہیں آدمی سر چڑھتا ہے اس سے
|
مگر
انسان سرکش ہو جاتا ہے
|
أَن رَءاهُ استَغنىٰ {96:7}
|
کہ
دیکھے اپنے آپکو بے پروا [۷]
|
جب
کہ اپنے تیئں غنی دیکھتا ہے
|
یعنی آدمی کی اصل تو اتنی ہے
کہ جمے ہوئے خون سے بنا اور جاہل محض تھا، خدا نے علم دیا، مگر وہ اپنی اصل
حقیقت کو ذرا یاد نہیں رکھتا۔ دنیا کے مال و دولت پر مغرور ہو کر سرکشی اختیار
کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔
|
إِنَّ إِلىٰ رَبِّكَ
الرُّجعىٰ {96:8}
|
بیشک
تیرے رب کی طرف پھر جانا ہے [۸]
|
کچھ
شک نہیں کہ (اس کو) تمہارے پروردگار ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
|
یعنی اوّل بھی اس نے پیدا کیا
اور آخر بھی اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت اس تکبر اور خودفراموشی کی حقیقت
کھلیگی۔
|
أَرَءَيتَ الَّذى يَنهىٰ
{96:9}
|
تو
نے دیکھا اُسکو جو منع کرتا ہے
|
بھلا
تم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے
|
عَبدًا إِذا صَلّىٰ {96:10}
|
ایک
بندہ کو جب وہ نماز پڑھے [۹]
|
(یعنی) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے
|
یعنی اس کی سرکشی اور تمرد کو
دیکھو کہ خود تو اپنے رب کے سامنے جھکنے کی توفیق نہیں، دوسرا بندہ اگر خدا کے
سامنے سربسجود ہوتا ہے، اسے بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ان آیات میں اشارہ ابوجہل ملعون
کی طرف ہے۔ جب وہ حضرت کو نماز پڑھتے دیکھتا تو چڑاتا اور دھمکاتا تھا اور طرح
طرح سے ایذائیں پہنچانے کی سعی کرتا تھا۔
|
أَرَءَيتَ إِن كانَ عَلَى
الهُدىٰ {96:11}
|
بھلا
دیکھ تو اگر ہوتا نیک راہ پر
|
بھلا
دیکھو تو اگر یہ راہِ راست پر ہو
|
أَو أَمَرَ بِالتَّقوىٰ
{96:12}
|
یا
سکھلاتا ڈر کے کام
|
یا
پرہیز گاری کا حکم کرے (تو منع کرنا کیسا)
|
أَرَءَيتَ إِن كَذَّبَ
وَتَوَلّىٰ {96:13}
|
بھلا
دیکھ تو اگر جھٹلایا اور منہ موڑا [۱۰]
|
اور
دیکھو تو اگر اس نے دین حق کو جھٹلایا اور اس سے منہ موڑا (تو کیا ہوا)
|
یعنی نیک راہ پر ہوتا بھلے
کام سکھاتا تو کیا اچھا آدمی ہوتا۔ اب جو منہ موڑا تو ہمارا کیا بگاڑا۔ کذا فی
موضح القرآن۔ وللمفسرین اقوال فی تفسیر ہا من شاء الا طلاع علیہا فلیراجع روح
المعانی۔
|
أَلَم يَعلَم بِأَنَّ
اللَّهَ يَرىٰ {96:14}
|
یہ
نہ جانا کہ اللہ دیکھتا ہے [۱۱]
|
کیااس
کو معلوم نہیں کہ خدا دیکھ رہا ہے
|
یعنی اس ملعون کی شرارتوں کو
اور اس نیک بندے کے خشوع و خضوع کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔
|
كَلّا لَئِن لَم يَنتَهِ
لَنَسفَعًا بِالنّاصِيَةِ {96:15}
|
کوئی
نہیں اگر باز نہ آئے گا ہم گھسیٹیں گے چوٹی پکڑ کر [۱۲]
|
دیکھو
اگر وہ باز نہ آئے گا تو ہم (اس کی) پیشانی کے بال پکڑ گھسیٹیں گے
|
یعنی رہنے دو! یہ سب کچھ
جانتا ہے۔ پر اپنی شرارت سے باز نہیں آتا۔ اچھا اب کان کھول کر سن لے کہ اگر
اپنی شرارت سے باز نہ آیا تو ہم اس کو جانوروں اور ذلیل قیدیوں کی طرح سر کے بال
پکڑ کر گھسیٹیں گے۔
|
ناصِيَةٍ كٰذِبَةٍ خاطِئَةٍ
{96:16}
|
کیسی
چوٹی جھوٹی گنہگار [۱۳]
|
یعنی
اس جھوٹے خطاکار کی پیشانی کے بال
|
یعنی جس سر پر یہ چوٹی ہے وہ
جھوٹ اور گناہوں سے بھرا ہوا ہے۔ گویا اس کا دروغ اور گناہ بال بال میں سرایت
کرگیا ہے۔
|
فَليَدعُ نادِيَهُ {96:17}
|
اب
بلا لیوے اپنے مجلس والوں کو
|
تو
وہ اپنے یاروں کی مجلس کو بلالے
|
سَنَدعُ الزَّبانِيَةَ
{96:18}
|
ہم
بھی بلاتے ہیں پیادے سیاست کرنے کو [۱۴]
|
ہم
بھی اپنے موکلانِ دوزخ کو بلا لیں گے
|
ابو جہل نے ایک مرتبہ حضرت ﷺ کو نماز سے
روکنا چاہا۔ آپ ﷺ نے سختی سے جواب دیا۔ کہنے لگا کیا
جانتے نہیں کہ مکہ میں سب سے
بڑی مجلس میری ہے۔ اس پر فرماتے ہیں کہ اب وہ اپنی مجلس والے ساتھیوں کو بلالے۔
ہم بھی اس کی گوشمالی کے لئے اپنے سپاہی بلاتے ہیں۔ دیکھیں کون غالب رہتا ہے۔
چند روز بعد "بدر" کے میدان میں دیکھ لیا کہ اسلام کے سپاہیوں نے اسے
کس طرح گھسیٹ کر "قلیب بدر" میں پھینک دیا۔ باقی اصل وقت گھسیٹے جانے
کا آخرت ہے جب دوزخ کے فرشتے اس کو نہایت ذلّت کے ساتھ جہنم رسید کرینگے۔ آنحضرت
ﷺ کو نماز سے روکنے کا واقعہ: روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل
حضرت ﷺ کو نماز میں دیکھ کر چلا کہ
بے ادبی کرے وہاں پہنچا نہ تھا کہ گھبرا کر پیچھے ہٹا اور لوگوں کے دریافت کرنے
پر کہا کہ مجھے اپنے اور محمد کے درمیان ایک آگ کی خندق نظر آئی جس میں کچھ پر
رکھنے والی مخلوق تھی۔ میں گھبرا کر واپس آگیا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ (ملعون) ذرا آگے بڑھتا
فرشتے اس کی بوٹی بوٹی جدا کر دیتے۔ گویا آخرت سے پہلے ہی دنیا میں اس کو {
سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ } کا ایک چھوٹا سا نمونہ دکھلادیا۔ (تنبیہ) اکثر مفسرین
نے "زبانیۃ" سے دوزخ کے فرشتے مراد لئے ہیں۔
|
كَلّا لا تُطِعهُ وَاسجُد
وَاقتَرِب ۩ {96:19}
|
کوئی
نہیں مت مان اُسکا کہا اور سجدہ کر اور نزدیک ہو [۱۵]
|
دیکھو
اس کا کہا نہ ماننا اور قربِ (خدا) حاصل کرتے رہنا
|
یعنی آپ ﷺ اس کی ہرگز پروا نہ کیجیے اور اس کی کسی بات پر کان نہ دھریے۔
جہاں چاہو شوق سے اللہ کی عبادت کرو اور اس کی بارگاہ میں سجدے کرکے بیش از بیش
قرب حاصل کرتے رہو۔ حدیث میں آیا ہے کہ "بندہ سب حالتوں سے زیادہ سجدہ میں
اللہ تعالیٰ سے نزدیک ہوتا ہے۔
|
وَإِذا مَسَّ الإِنسٰنَ الضُّرُّ دَعانا لِجَنبِهِ أَو قاعِدًا
أَو قائِمًا فَلَمّا كَشَفنا عَنهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَم يَدعُنا إِلىٰ ضُرٍّ
مَسَّهُ ۚ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلمُسرِفينَ ما كانوا يَعمَلونَ {10:12}
|
اور
جب پہنچے انسان کو تکلیف پکارے ہم کو پڑا ہوا یا بیٹھا یا کھڑا پھر جب ہم کھول
دیں اس سے وہ تکلیف چلا جائے گویا کبھی نہ پکارا تھا ہم کو کسی تکلیف پہنچنے پر
اسی طرح پسند آیا ہے بیباک لوگوں کو جو کچھ کر رہے ہیں [۲۴]
|
اور
جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا (ہر حال میں) ہمیں
پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کر دیتے ہیں تو (بےلحاظ ہو جاتا ہے
اور) اس طرح گزر جاتا ہے گویا کسی تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔
اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو ان کے اعمال آراستہ کرکے دکھائے گئے ہیں
|
یعنی انسان اول بے باکی سے
خود عذاب طلب کرتا اور برائی اپنی زبان سے مانگتا ہے۔ مگر کمزور اور بودا اتنا
ہے کہ جہاں ذرا تکلیف پہنچی ، گھبرا کر ہمیں پکارنا شروع کر دیا۔ جب تک مصیبت
رہی کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ہر حالت میں خدا کو پکارتا رہا۔ پھر جہاں تکلیف ہٹا لی
گئ، سب کہاسنا بھول گیا۔ گویا خدا سے کبھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ ہی غرور و غلفت
کا نشہ ، وہ ہی اکڑفوں رہ گئ جس میں پہلے مبتلا تھا۔ حدیث میں ہے کہ تو خدا کو
اپنے عیش و آرام میں یاد رکھ ، خدا تجھ کو تیری سختی اور مصیبت میں یاد رکھے گا۔
مومن کی شان یہ ہے کہ کسی وقت خدا کو نہ بھولے ۔ سختی پر صبر اور فراخی پر خدا
کا شکر ادا کرتا رہے۔ یہ ہی وہ چیز ہے جس کی توفیق مومن کے سوا کسی کو نہیں
ملتی۔
|
وَإِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِى البَحرِ ضَلَّ مَن تَدعونَ
إِلّا إِيّاهُ ۖ فَلَمّا نَجّىٰكُم إِلَى البَرِّ أَعرَضتُم ۚ وَكانَ الإِنسٰنُ
كَفورًا {17:67}
|
اور
جب آتی ہے تم پر آفت دریا میں بھول جاتے ہو جن کو پکارا کرتے تھے اللہ کے سوائے
پھر جب بچا لایا تم کو خشکی میں پھر جاتے ہو اور ہے انسان بڑا نا شکر [۱۰۶]
|
اور
جب تم کو دریا میں تکلیف پہنچتی ہے (یعنی ڈوبنے کا خوف ہوتا ہے) تو جن کو تم
پکارا کرتے ہو سب اس (پروردگار) کے سوا گم ہوجاتے ہیں۔ پھر جب وہ تم کو (ڈوبنے
سے) بچا کر خشکی پر لے جاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان ہے ہی ناشکرا
|
یعنی مصیبت سےنکلتے ہی محسن
حقیقی کو بھول جاتا ہے۔ چند منٹ پہلے دریا کی موجوں میں خدا یاد آرہا تھا۔ کنارہ
پر قدرم رکھا اور بے فکر ہو کر سب فراموش کر بیٹھا ۔ اس سے بڑھ کر ناشکر گذاری
کیا ہوگی۔
|
وَإِذا أَنعَمنا عَلَى
الإِنسٰنِ أَعرَضَ وَنَـٔا بِجانِبِهِ ۖ وَإِذا مَسَّهُ
الشَّرُّ كانَ يَـٔوسًا {17:83}
|
اور
جب ہم آرام بھیجیں انسان پر تو ٹال جائے اور بچائے اپنا پہلو اور جب پہنچے اس کو
برائی تو رہ جائے مایوس ہو کر [۱۲۹]
|
اور
جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو ردگرداں ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے۔ اور جب
اسے سختی پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے
|
یعنی انسان کا عجیب حال ہے
خدا تعالیٰ اپنے فضل سے نعمتیں دیتا ہے تو احسان نہیں مانتا۔ جتنا عیش آرام ملے
اسی قدر منعم حقیقی کی طرف سے اس کی غلفت و اعراض بڑھتا ہے اور فرائض بندگی سے
پہلو بچا کر کھسکنا چاہتا ہے۔ پھر جب سخت اور برا وقت آیا تو ایک دم آس توڑ کر
اور ناامید ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ گویا دونوں حالتوں میں خدا سے بے تعلق رہا۔ کبھی
غلفت کی بناء پر کبھی مایوسی کی (نعوذ باللہ من کلا الحالین) یہ مضمون غالبًا اس
لئے بیان فرمایا کہ قرآن جو سب سے بڑی نعمت الہٰی ہے ، بہت لوگ اس کی قدر نہیں
پہچانتے بلکہ اس کے ماننے سے اعراض و پہلو تہی کرتے ہیں ۔ پھر جب اس کفران نعمت
اور اعراض و انکار کا برا نتیجہ سامنے آئے گا اس وقت قطعًا مایوسی ہو گی کسی طرف
امید کی جھلک نظر نہ پڑے گی۔
|
وَإِذا مَسَّ الإِنسٰنَ ضُرٌّ دَعا رَبَّهُ مُنيبًا
إِلَيهِ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعمَةً مِنهُ نَسِىَ ما كانَ يَدعوا إِلَيهِ مِن
قَبلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندادًا لِيُضِلَّ عَن سَبيلِهِ ۚ قُل تَمَتَّع
بِكُفرِكَ قَليلًا ۖ إِنَّكَ مِن أَصحٰبِ النّارِ {39:8}
|
اور
جب آ لگے انسان کو سختی پکارے اپنے رب کو رجوع ہو کر اسکی طرف پھر جب بخشے اسکو
نعمت اپنی طرف سے بھول جائے اس کو کہ جس کے لئے پکار رہا تھا پہلے سے اور
ٹھہرائے اللہ کی برابر اوروں کو تاکہ بہکائے اسکی راہ سے [۱۸] تو کہہ برت لے ساتھ اپنے کفر
کے تھوڑے دنوں تو ہے دوزخ والوں میں [۱۹]
|
اور
جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کو پکارتا (اور) اس کی طرف دل سے
رجوع کرتا ہے۔ پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے تو جس کام کے لئے
پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور خدا کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ
(لوگوں کو) اس کے رستے سے گمراہ کرے۔ کہہ دو کہ (اے کافر نعمت) اپنی ناشکری سے
تھوڑا سا فائدہ اٹھالے۔ پھر تُو تو دوزخیوں میں ہوگا
|
یعنی انسان کی حالت عجیب ہے
مصیبت پڑے تو ہمیں یاد کرتا ہے، کیونکہ دیکھتا ہے کوئی مصیبت کو ہٹانے والا
نہیں۔ پھر جہاں اللہ کی مہربانی سے ذرا آرام و اطمینان نصیب ہوا معًا وہ پہلی
حالت کو بھول جاتا ہے جس کے لئے ابھی ابھی ہم کو پکار رہا تھا۔ عیش و تنعم کے
نشہ میں ایسا مست و غافل ہو جاتا ہے گویا کبھی ہم سے واسطہ ہی نہ تھا۔ اللہ کی
دی ہوئی نعمتوں کو دوسرے جھوٹے اور من گھڑت خداؤں کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے اور
ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو خدائے واحد کے ساتھ کرنا چاہئے تھا۔ اس طرح خود
بھی گمراہ ہوتا ہے اور اپنے قول و فعل سے دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔
|
یعنی اچھا۔ کافر رہ کر چند
روز یہاں اور عیش اڑا لے۔ اور خدا نے جب تک مہلت دے رکھی ہے دنیا کی نعمتوں سے
تمتع کرتا رہ اس کے بعد تجھے دوزخ میں رہنا ہے۔ جہاں سے کبھی چھٹکارا نصیب نہ ہو
گا۔
|
فَإِذا مَسَّ الإِنسٰنَ ضُرٌّ دَعانا ثُمَّ إِذا
خَوَّلنٰهُ نِعمَةً مِنّا قالَ إِنَّما أوتيتُهُ عَلىٰ عِلمٍ ۚ بَل هِىَ فِتنَةٌ
وَلٰكِنَّ أَكثَرَهُم لا يَعلَمونَ {39:49}
|
سو
جب آ لگتی ہے آدمی کو کچھ تکلیف ہم کو پکارنے لگتا ہے [۶۳] پھر جب ہم بخشیں اسکو اپنی
طرف سے کوئی نعمت کہتا ہے یہ تو مجھ کو ملی کہ پہلے سے معلوم تھی [۶۴] کوئی نہیں یہ جانچ ہے پر وہ
بہت سے لوگ نہیں سمجھتے [۶۵]
|
جب
انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے۔ پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے
نعمت بخشتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے (میرے) علم (ودانش) کے سبب ملی ہے۔
(نہیں) بلکہ وہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے
|
یعنی قیاس یہ ہی چاہتا تھا کہ
یہ نعمت مجھ کو ملے۔ کیونکہ مجھ میں اس کی لیاقت تھی اور اس کی کمائی کے ذرائع
کا علم رکھتا تھا اور خدا کو میری استعداد و اہلیت معلوم تھی، پھر مجھے کیوں نہ
ملتی۔ غرض اپنی لیاقت اور عقل پر نظر کی، اللہ کے فضل و قدرت پر خیال نہ کیا۔
|
یعنی ایسا نہیں بلکہ یہ نعمت
خدا کی طرف سے ایک امتحان ہے کہ بندہ اسے لیکر کہاں تک منعم حقیقی کو پہنچانتا
اور اس کا شکر ادا کرتا ے۔ اگر ناشکری کی گئ تو یہ ہی نعمت نقمت بن کر وبال جان
ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ کہتے ہیں "یہ جانچ ہے کہ عقل اس کی دوڑنے لگتی
ہے تا اپنی عقل پر بہکے۔ وہ ہی عقل رہتی ہے اور آفت آ پہنچتی ہے" پھر کسی
کے ٹالے نہیں ٹلتی۔
|
یعنی جس کے ذکر سے چڑتا تھا
مصیبت کے وقت اسی کو پکارتا ہے اور جس کے ذکر سے خوش ہوتا تھا انہیں بھول جاتا
ہے۔
|
لا يَسـَٔمُ الإِنسٰنُ مِن
دُعاءِ الخَيرِ وَإِن مَسَّهُ الشَّرُّ
فَيَـٔوسٌ قَنوطٌ {41:49}
|
نہیں
تھکتا آدمی مانگنے سے بھلائی اور اگر لگ جائے اس کو برائی تو آس توڑ بیٹھے
ناامید ہو کر
|
انسان
بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید
ہوجاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے
|
وَإِذا أَنعَمنا عَلَى
الإِنسٰنِ أَعرَضَ وَنَـٔا بِجانِبِهِ وَإِذا مَسَّهُ
الشَّرُّ فَذو دُعاءٍ عَريضٍ {41:51}
|
اور
جب ہم نعمتیں بھیجیں انسان پر تو ٹلا جائے اور موڑ لے اپنی کروٹ اور جب لگے اسکو
برائی تو دعائیں کرے چوڑی [۷۴]
|
اور
جب ہم انسان پر کرم کرتے ہیں تو منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو پھیر کر چل دیتا ہے۔
اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے
|
یعنی اللہ کی نعمتوں سے متمتع
ہونے کے وقت تو منعم کی حق شناسی اور شکر گذاری سے اعراض کرتا ہے اور بالکل بے
پروا ہو کر اُدھر سے کروٹ بدل لیتا ہے۔ پھر جب کوئی تکلیف اور مصیبت پیش آتی ہے
تو اسی خدا کے سامنے ہاتھ پھیلا کر لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ شرم نہیں
آتی کہ اب اسے کس منہ سے پکارے۔ اور تماشا یہ ہے کہ بعض اوقات اسباب پر نطر کر
کے دل اندر سے مایوس ہوتا ہے، اس حالت میں بھی بدحواس اور پریشان ہو کر دعا کے
ہاتھ بے اختیار خدا کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ قلب میں ناامیدی بھی ہے اور زبان پر
یااللہ بھی، حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یہ سب بیان ہے انسان کے نقصان (و
قصور) کا۔ نہ سختی میں صبر ہے نہ نرمی میں شکر"۔
|
وَءاتىٰكُم مِن كُلِّ ما
سَأَلتُموهُ ۚ وَإِن تَعُدّوا نِعمَتَ اللَّهِ لا تُحصوها ۗ إِنَّ الإِنسٰنَ لَظَلومٌ
كَفّارٌ {14:34}
|
اور
دیا تم کو ہر چیز میں سےجو تم نے مانگی [۵۹] اور
اگر گنو احسان اللہ کے نہ پورے کر سکو [۶۰] بیشک آدمی بڑا
بے
انصاف ہے ناشکرا [۶۱]
|
اور
جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا۔ اور اگر خدا کے احسان گننے لگو
تو شمار نہ کرسکو۔ (مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے) کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا
بےانصاف اور ناشکرا ہے
|
یعنی جنس انسان میں بہترے بے
انصاف اور ناسپاس ہیں ، جو اتنے بیشمار احسانات دیکھ کر بھی منعم حقیقی کا حق
نہیں پہچانتے۔
|
یعنی خدا کی نعمتیں اتنی بے
شمار بلکہ غیر متناہی ہیں کہ اگر تم سب مل کر اجمالاً ہی گنتی شروع کرو تو تھک
کر اور عاجز ہو کر بیٹھ جاؤ۔ اس موقع پر امام رازی نے نعمائے الہٰیہ کا بے شمار
ہونا ، اور علامہ ابوالسعود نے ان کا غیر متناہی ہونا ذرا بسط سے بیان فرمایا ہے
اور صاحب روح المعانی نے ان کے بیانات پر مفید اضافہ کیا ۔ یہاں اس قدر تطویل کی
گنجائش نہیں۔
|
یعنی جو چیزیں تم نے زبان قال
یا حال سے طلب کیں ، ان میں سے ہر چیز کا جس قدر حصہ حکمت و مصلحت کے موافق تھا
مجموی طور پر تم سب کو دیا۔
|
إِنّا عَرَضنَا الأَمانَةَ
عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ
مِنها وَحَمَلَهَا الإِنسٰنُ ۖ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا
جَهولًا {33:72}
|
ہم
نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر کسی نے قبول نہ کیا
کہ اس کو اٹھائیں اورا س سے ڈر گئے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے یہ ہے بڑا بے ترس نادان [۱۰۲]
|
ہم
نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے
انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور
جاہل تھا
|
یعنی ستم کر دیے جو بوجھ
آسمان، زمین، اور پہاڑوں سے نہ اٹھ سکتا تھا، اس نادان نے اپنے نازک کندھوں پر
اٹھا لیا ؎ آسمان بارامانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند۔ حضرت شاہ
صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ہے؟ پرائی چیز
رکھنی اپنی خواہش کو روک کر۔ آسمان و زمین وغیرہ میں اپنی خواہشات کچھ نہیں، یا
ہے تو وہ ہی ہے جس پر قائم ہیں۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے ۔ اس
پرائی چیز (یعنی حکم) کو برخلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے اس کا انجام
یہ ہے کہ منکروں کو قصور پر پکڑا جائے اور ماننے والوں کا قصور معاف کیا جائے۔
اب بھی یہ ہی حکم ہے۔ کسی کی امانت کوئی جان کر ضائع کر دے تو بدلہ (ضمان) دینا
پڑے گا اور بے اختیار ضائع ہو جائے تو بدلہ نہیں"۔ (موضح) اصل یہ ہے کہ حق
تعالیٰ نے اپنی ایک خاص امانت مخلوق کی کسی نوع میں رکھنے کا ارادہ کیا جو اس
امانت کو اگر چاہے تو اپنی سعی و کسب اور قوت بازو سے محفوظ رکھ سکے اور ترقی دے
سکے تا اس سلسلہ میں اللہ کی ہر قسم کی شئون و صفات کا ظہور ہو ۔ مثلاً اس نوع
کے جو افراد امانت کو پوری طرح محفوظ رکھیں اور ترقی دیں ان پر انعام و اکرام
کیا جائے۔ جو غفلت یا شرارت سے ضائع کر دیں ان کو سزا دی جائے اور جو لوگ اس
بارہ میں قدرے کوتاہی کریں ان سے عفو و درگذر کا معاملہ ہو۔ امانت کیا چیز ہے؟
میرے خیال میں یہ امانت ایمان و ہدایت کا ایک تخم ہے جو قلوب بنی آدم میں بکھیرا
گیا جس کو "مابہ التکلیف" بھی کہہ سکتے ہیں۔ { لَا اِیْمَانَ لِمَنْ
لَا اَمَانَۃَ لَہٗ } اسی کی نگہداشت اور تردد کرنے سے ایمان کا درخت اگتا ہے۔
گویا بنی آدم کے قلوب اللہ کی زمینیں ہیں، بیج بھی اسی نے ڈال دیا ہے۔ بارش
برسانے کے لئے رحمت کے بادل بھی اس نے بھیجے جن کے سینوں سے وحی الہٰی کی بارش
ہوئی۔ آدمی کا فرض یہ ہے کہ ایمان کے اس بیج کو جو امانت الہٰیہ ہے ضائع نہ ہونے
دے بلکہ پوری سعی و جہد اور تردد و تفقد سے اس کی پرورش کرے مبادا غلطی یا غفلت
سے بجائے درخت اگنے کے بیج بھی سوخت ہو جائے اسی کی طرف اشارہ ہے حذیفہؓ کی حدیث
میں { اِنَّ الاَ مَانَۃَ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ فِی جَذْرِقُلُوْبِ
الرِّجَالِ ثُمَّ عَلِمُوْا مِنَ الْقُرْآن } الحدیث۔ یہ امانت وہی تخم ہدایت
ہے۔ جو اللہ کی طرف سے قلوب رجال میں تہ نشین کیا گیا ، پھر علوم قرآن و سنت کی
بارش ہوئی جس سے اگر ٹھیک طور پر انتفاع کیا جائے تو ایمان کا پودا اگے، بڑھے،
پھولے، پھلے اور آدمی کو اس کے ثمرہ شیریں سے لذت اندوز ہونے کا موقع ملے اور
اگر انتفاع میں کوتاہی کی جائے تو اسی قدر درخت کے ابھرنے اور پھولنے پھلنے میں
نقصان رہے یا بالکل غفلت برتی جائے تو سرے سے تخم بھی برباد ہو جائے۔ یہ امانت
تھی جو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو دکھلائی۔ مگر کس میں استعداد
تھی جو اس امانت عظیمہ کو اٹھانے کا حوصلہ کرتا ہر ایک نے بلسان حال یا بزبان
قال ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے ڈر کر انکار کر دیا کہ ہم سے یہ بار نہ اٹھ سکے
گا۔ خود سوچ لو کہ بجز انسان کے کونسی مخلوق ہے جو اپنے کسب و محنت سے اس تخم
ایمان کی حفاظت و پرورش کر کے ایمان کا شجر بار آور حاصل کر سکے۔ فی الحقیقت اس
عظیم الشان امانت کا حق ادا کر سکنا اور ایک افتادہ زمین کو جس میں مالک نے تخم
ریزی کر دی تھی خون پسینہ ایک کر کے باغ و بہار بنا لینا اسی ظلوم و جہول انسان
کا حصہ ہو سکتا ہے جس کے پاس زمین قابل موجود ہے اور محنت و تردد کر کے کسی چیز
کو بڑھانے کی قدرت اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائی ہے۔ ظلوم و جہول کی تفسیر:
"ظلوم" و "جہول" ۔ "جاہل" کا مبالغہ ہے۔ ظالم و
جاہل وہ کہلاتا ہے جو بالفعل عدل اور علم سے خالی ہو مگر استعدداد و صلاحیت ان
صفات کے حصول کی رکھتا ہو۔ پس جو مخلوق بدء فطرت سے علم و عدل کے ساتھ متصف ہے
اور ایک لمحہ کے لئے بھی یہ اوصاف اس سے جدا نہیں ہوئے (مثلاً ملائکۃ اللہ) یا
جو مخلوق ان چیزوں کے حاصل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ (مثلاً زمین و آسمان
پہاڑ وغیرہ) ظاہر ہے کہ دونوں اس امانت الہٰیہ کے حامل نہیں بن سکتے۔ بیشک انسان
کے سوا "جن" ایک نوع ہے جس میں فی الجملہ استعداد اس کے تحمل کی پائی
جاتی ہے اور اسی لئے { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا
لَیَعْبُدُوْنَ } میں دونوں کو جمع کیا گیا ۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ ادائے حق
امانت کی استعداد ان میں اتنی ضعیف تھی کہ حمل امانت کے مقام میں چنداں قابل ذکر
اور درخور اعتناء نہیں سمجھے گئے۔ گویا وہ اس معاملہ میں انسان کے تابع قرار دیے
گئے جن کا نام مستقل طور پر لینے کی ضرورت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
|
وَهُوَ الَّذى أَحياكُم
ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ۗ إِنَّ الإِنسٰنَ لَكَفورٌ
{22:66}
|
اور
اُسی نے تمکو جلایا پھر مارتا ہے پھر زندہ کرے گا [۱۰۰] بیشک انسان ناشکرا ہے [۱۰۱]
|
اور
وہی تو ہے جس نے تم کو حیات بخشی۔ پھر تم کو مارتا ہے۔ پھر تمہیں زندہ بھی کرے
گا۔ اور انسان تو بڑا ناشکر ہے
|
یعنی اتنے احسانات و انعامات
دیکھ کر بھی اس کا حق نہیں مانتا۔ منعم حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے جھکنے
لگتا ہے۔
|
اسی طرح کفر و جہل سے جو قوم
روحانی موت مر چکی تھی ، ایمان و معرفت کی روح سے اس کو زندہ کر دے گا۔
|
فَإِن أَعرَضوا فَما
أَرسَلنٰكَ عَلَيهِم حَفيظًا ۖ إِن عَلَيكَ إِلَّا البَلٰغُ ۗ وَإِنّا إِذا
أَذَقنَا الإِنسٰنَ مِنّا رَحمَةً فَرِحَ بِها ۖ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ بِما
قَدَّمَت أَيديهِم فَإِنَّ الإِنسٰنَ كَفورٌ
{42:48}
|
پھر
اگر وہ منہ پھیریں تو تجھ کو نہیں بھیجا ہم نے ان پر نگہبان تیرا ذمہ تو بس یہی
ہے پہنچا دینا [۶۷] اور ہم جب چکھاتے ہیں آدمی کو
اپنی طرف سے رحمت اس پر پھولا نہیں سماتا اور اگر پہنچتی ہے انکو کچھ برائی بدلے
میں اپنی کمائی کے تو انسان بڑا ناشکرا
ہے [۶۸]
|
پھر
اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ تمہارا کام
تو صرف (احکام کا) پہنچا دینا ہے۔ اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے
ہیں تو اس سے خوش ہوجاتا ہے۔ اور اگر ان کو ان ہی کے اعمال کے سبب کوئی سختی
پہنچتی ہے تو (سب احسانوں کو بھول جاتے ہیں) بےشک انسان بڑا ناشکرا ہے
|
یعنی ان کے اعراض سے آپ غمگین
نہ ہوں۔ انسان کی طبعیت ہی ایسی واقع ہوئی ہے { اِلَّا مَنْ شَاء اللہُ } کہ
اللہ انعام و احسان فرمائے تو اکڑنے اور اترانے لگتا ہے۔ پھر جہاں اپنی کرتوت کی
بدولت کوئی افتاد پڑ گئ، بس سب نعمتیں بھول جاتا ہے اور ایسا نا شکر بن جاتا ہے
گویا کبھی اس پر اچھا وقت آیا ہی نہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ فراخی اور عیش کی حالت ہو
یا تنگی اور تکلیف کی۔ اپنی حد پر قائم نہیں رہتا۔ البتہ مومنین قانتین کا شیوہ
یہ ہے کہ سختی پر صبر اور فراخی کی حالت میں منعم حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں اور
کسی حال اسکے انعامات و احسانات کو فراموش نہیں کرتے۔
|
یعنی آپ ذمہ دار نہیں کہ
زبردستی منوا کر چھوڑیں۔ آپ کا فرض پیغام الٰہی پہنچا دینا ہے۔ وہ آپ ادا کر رہے
ہیں۔ یہ نہیں مانتے تو جائیں جہنم میں۔
|
بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ
الرَّحيمِ عَبَسَ وَتَوَلّىٰ {80:1}
|
[۱] تیوری
چڑھائی اور منہ موڑھا
|
(محمد مصطفٰےﷺ) ترش رُو ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے
|
آنحضرت ﷺ بعض سردارانِ قریش کو مذہب اسلام کے متعلق کچھ سمجھا رہے تھے۔
اتنے میں ایک نابینا مسلمان (جن کو ابن اُم مکتومؓ کہتے ہیں) حاضر خدمت ہوئے اور
اپنی طرف متوجہ کرنے لگے کہ فلاں آیت کیونکر ہے یارسول اللہ مجھے اُس میں سے کچھ
سکھائیے جو اللہ نے آپ کو سکھلایا ہے۔ حضرت کو ان کا بے وقت کا پوچھنا گراں
گزرا۔ آپ کو خیال ہوا ہو گا کہ میں ایک بڑے اہم کام میں مشغول ہوں قریش کے یہ
بڑے بڑے سردار اگر ٹھیک سمجھ کر اسلام لے آئیں تو بہت لوگوں کے مسلمان ہونے کی
توقع ہے۔ حضرت ابن اُم مکتومؓ: ابن اُم مکتومؓ بہر حال مسلملان ہے اس کو سمجھنے
اور تعلیم حاصل کرنے کے ہزار مواقع حاصل ہیں، اس کو دکھائی نہیں دیتا کہ میرے
پاس ایسے بااثر اور بارسوخ لوگ بیٹھے ہیں جن کو اگر ہدایت ہو جائے تو ہزاروں
اشخاص ہدایت پر آسکتے ہیں، میں ان کو سمجھا رہا ہوں، یہ اپنی کہتا چلا جاتا ہے۔
اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ اگر ان لوگوں کی طرف سے ہٹ کر گوشہ التفات اس کی طرف
کروں گا تو ان لوگوں پر کس قدر شاق ہو گا۔ شاید پھر وہ میری بات سننا بھی پسند
نہ کریں۔ غرض آپ منقبض ہوئے اور انقباض کے آثار چہرے پر ظاہر ہونے لگے۔ اس پر یہ
آیتیں نازل ہوئیں۔ روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ کی خدمت میں آتے،
آپ بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرماتے { مَرْحَبًا بِمَنْ عَاتبنی فیْہ
رَبِّی }۔
|
أَن جاءَهُ الأَعمىٰ {80:2}
|
اس
بات سے کہ آیا اُسکے پاس اندھا [۲]
|
کہ
ان کے پاس ایک نابینا آیا
|
یعنی پیغمبر ﷺ نے ایک اندھے کے آنے پر چیں بچیں ہو کر منہ پھیر لیا۔
حالانکہ اس کو اندھے کی معذوری، شکستہ حالی، اور طلب صادق کا لحاظ زیادہ کرنا
چاہئیے تھا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یہ کلام گویا اوروں کے سامنے گلہ ہے
رسول کا (اسی لئے بصیغہ غائب ذکر کیا) آگے خود رسول کو خطاب فرمایا ہے"۔
اور محققین کہتے ہیں کہ یہ غایت تکرّم و استحیاء متکلم کا، اور غایت کرامت مخاطب
کی ہے کہ عتاب کے وقت بھی رُودر رُو اُس امر کی نسبت آپ کی طرف نہیں فرمائی اور
آگے خطاب کا صیغہ بطور التفات کے اس لئے اختیار کیا کہ شبہ اعراض کا نہ ہو۔ نیز
وہ مضمون پہلے مضمون سے ہلکا ہے۔ واللہ اعلم۔
|
وَما يُدريكَ لَعَلَّهُ
يَزَّكّىٰ {80:3}
|
اور
تجھ کو کیا خبر ہے شاید کہ وہ سنورتا
|
اور
تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا
|
أَو يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ
الذِّكرىٰ {80:4}
|
یا
سوچتا تو کام آتا اُسکے سمجھانا [۳]
|
یا
سوچتا تو سمجھانا اسے فائدہ دیتا
|
یعنی وہ اندھا طالب صادق تھا۔
تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے فیض توجہ سےاس کا حال سنور جاتا اور اس کا نفس مزکیّٰ
ہو جاتا۔ یا تمہاری کوئی بات کان میں پڑتی ، اس کو اخلاص سے سوچتا سمجھتا اور
آخر وہ بات کسی وقت اسکے کام آجاتی۔
|
أَمّا مَنِ استَغنىٰ {80:5}
|
وہ
جو پروا نہں کرتا
|
جو
پروا نہیں کرتا
|
فَأَنتَ لَهُ تَصَدّىٰ
{80:6}
|
سو
تو اُسکی فکر میں ہے
|
اس
کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو
|
وَما عَلَيكَ أَلّا
يَزَّكّىٰ {80:7}
|
تور
تجھ پر کچھ الزام نہیں کہ وہ نہیں درست ہوتا [۴]
|
حالانکہ
اگر وہ نہ سنورے تو تم پر کچھ (الزام) نہیں
|
یعنی جو لوگ اپنے غرور اور
شیخی سے حق کی پروا نہیں کرتے اور ان کا تکبر اجازت نہیں دیتا کہ اللہ ورسول کے
سامنے جھکیں۔ آپ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ یہ کسی طرح مسلمان ہو جائیں۔ تاکہ
ان کے اسلام کا اثر دوسروں پر پڑے۔ حالانکہ اللہ کی طرف سے آپ پر کوئی الزام
نہیں کہ یہ مغرور اور شیخی باز آپ کی ہدایت سے درست کیوں نہ ہوئے۔ آپ کا فرض
دعوت و تبلیغ کا تھا، وہ ادا کر چکے اور کر رہے ہیں۔ آگے ان لاپروا متکبروں کی
فکر میں اس قدر انہماک کی ضرورت نہیں کہ سچے طالب اور مخلص ایماندار توجہ سے
محروم ہونے لگیں۔ یا معاملہ کی ظاہری سطح دیکھ کر بے سوچے سمجھے لوگوں میں یہ
خیال پیدا ہو جائے کہ پیغمبر صاحب ﷺ
کی توجہ امیروں اور تونگروں کی طرف
زیادہ ہے۔ شکستہ حال غریبوں کی طرف نہیں۔ اس مہمل خیال کے پھیلنے سے جو ضرر دعوت
اسلام کے کام کو پہنچ سکتا ہے وہ اس نفع سے کہیں بڑھ کر ہے جس کی ان چند متکبرین
کے مسلمان ہونے سے توقع کی جاسکتی ہے۔
|
وَأَمّا مَن جاءَكَ يَسعىٰ
{80:8}
|
اور
وہ جو آیا تیرے پاس دوڑتا
|
اور
جو تمہارے پاس دوڑتا ہوا آیا
|
وَهُوَ يَخشىٰ {80:9}
|
اور
ہو ڈرتا ہے [۵]
|
اور
(خدا سے) ڈرتا ہے
|
یعنی اللہ سے ڈرتا ہے یا
ڈرلگا ہے کہ آپ کی ملاقات میسر ہو یا نہ ہو، پھر اندھا ہے کوئی پکڑنے والا نہیں۔
اندیشہ ہے کہیں راستہ میں ٹھوکر لگے یا کسی چیز سے ٹکرا جائے یا یہ سمجھ کر کہ
آپ کے پاس جارہا ہے دشمن ستانے لگیں۔
|
فَأَنتَ عَنهُ تَلَهّىٰ
{80:10}
|
سو
تو اُس سے تغافل کرتا ہے [۶]
|
اس
سے تم بےرخی کرتے ہو
|
حالانکہ ایسے ہی لوگوں سے
امید ہوسکتی ہے کہ ہدایت سے منتفع ہونگے اور اسلام کے کام آئیں گے، کہتے ہیں کہ
یہ ہی نابینا بزرگ زرہ پہنے اور جھنڈا ہاتھ میں لئے جنگ قادسیہ میں شریک تھے۔
آخر اسی معرکہ میں شہید ہوئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
|
كَلّا إِنَّها تَذكِرَةٌ
{80:11}
|
یوں
نہیں یہ تو نصیحت ہے
|
دیکھو
یہ (قرآن) نصیحت ہے
|
فَمَن شاءَ ذَكَرَهُ
{80:12}
|
پھر
جو کوئی چاہے اسکو پڑھے [۷]
|
پس
جو چاہے اسے یاد رکھے
|
یعنی متکبر اغنیاء اگر قرآن
کو نہ پڑھیں اور اس نصیحت پر کان نہ دھریں تو اپنا ہی براکریں گے۔ قرآن کو ان کی
کچھ پروا نہیں۔ نہ آپ کو اس درجہ ان کے درپے ہونے کی ضرورت ہے ایک عام نصیحت تھی
سو کر دی گئ جو اپنا فائدہ چاہے اس کو پڑھے اور سمجھے۔
|
فى صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ
{80:13}
|
لکھا
ہے عزت کے ورقوں میں
|
قابل
ادب ورقوں میں (لکھا ہوا)
|
مَرفوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ
{80:14}
|
اونچے
رکھے ہوئے نہایت ستھرے [۸]
|
جو
بلند مقام پر رکھے ہوئے (اور) پاک ہیں
|
یعنی کیا ان مغرور سر پھروں
کے ماننے سے قرآن کی عزت و وقعت ہو گی؟ قرآن تو وہ ہے جس کی آیتیں آسمان کے اوپر
نہایت معزز، بلند مرتبہ اور صاف ستھرے ورقوں میں لکھی ہوئی ہیں اور زمین پر مخلص
ایماندار بھی اس کے اوراق نہایت عزت و احترام اور تقدیس وتطہیر کے ساتھ اونچی
جگہ رکھتے ہیں۔
|
بِأَيدى سَفَرَةٍ {80:15}
|
ہاتھوں
میں لکھنے والوں کے
|
لکھنے
والوں کے ہاتھوں میں
|
كِرامٍ بَرَرَةٍ {80:16}
|
جو
بڑے درجہ والے نیک کار ہیں [۹]
|
جو
سردار اور نیکو کار ہیں
|
یعنی وہاں فرشتے اس کو لکھتے
ہیں اسی کے موافق وحی اترتی ہے اور یہاں بھی اوراق میں لکھنے اور جمع کرنیوالے
دنیا کے بزرگ ترین پاکباز نیکو کار اور فرشتہ خصلت بندے ہیں جنہوں نے ہرقسم کی
کمی بیشی اور تحریف و تبدیل سے اس کو پاک رکھا ہے۔
|
قُتِلَ الإِنسٰنُ ما أَكفَرَهُ {80:17}
|
مارا
جائیو آدمی کیسا نا شکرا ہے [۱۰]
|
انسان
ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے
|
یعنی قرآن جیسی نعمت عظمیٰ کی
کچھ قدر نہ کی اور اللہ کا حق کچھ نہ پہچانا۔
|
مِن أَىِّ شَيءٍ خَلَقَهُ
{80:18}
|
کس
چیز سے بنایا اُسکو
|
اُسے
(خدا نے) کس چیز سے بنایا؟
|
مِن نُطفَةٍ خَلَقَهُ
فَقَدَّرَهُ {80:19}
|
ایک
بوند سے [۱۱] بنایا اسکو پھر اندازہ پر رکھا
اُسکو [۱۲]
|
نطفے
سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا
|
یعنی ذرا اپنی اصل پر تو غور
کیا ہوتاکہ وہ پیدا کس چیز سے ہوا ہے؟ ایک ناچیز اور بے قدر قطرہ آب سے جس میں
حس و شعور، حسن وجمال اور عقل و ادراک کچھ نہ تھا۔ سب کچھ اللہ نے اپنی مہربانی
سے عطا فرمایا جس کی حقیقت کُل اتنی ہو کیا اسے یہ طمطراق زیبا ہے کہ خالق ومنعم
حقیقی ایسی عظیم الشان نصیحت اتارے اور یہ بے شرم اپنی اصل حقیقت اور مالک کی سب
نعمتوں کو فراموش کرکے اس کی کچھ پروا نہ کرے۔ او احسان فراموش کچھ تو شرمایا
ہوتا۔
|
یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ سب
اعضاء و قویٰ ایک خاص اسلوب اور اندازے سے رکھے۔ کوئی چیز یونہی بے تکی اور بے
ڈھنگی خلاف حکمت نہیں رکھ دی۔
|
ثُمَّ السَّبيلَ يَسَّرَهُ
{80:20}
|
پھر
راہ آسان کر دی اُسکو [۱۳]
|
پھر
اس کے لیے رستہ آسان کر دیا
|
یعنی ایمان و کفر اور بھلے
برے کی سمجھ دی یا ماں کے پیٹ میں سے نکالا آسانی سے۔
|
ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقبَرَهُ
{80:21}
|
پھر
اُسکو مردہ کیا پھر قبر میں رکھوا دیا اُسکو [۱۴]
|
پھر
اس کو موت دی پھر قبر میں دفن کرایا
|
یعنی مرنے کے بعد اس کی لاش
کو قبر میں رکھنے کی ہدایت کر دی۔ تاکہ زندوں کے سامنے یونہی بے حرمت نہ ہو۔
|
ثُمَّ إِذا شاءَ أَنشَرَهُ
{80:22}
|
پھر
جب چاہا اٹھا نکالا اُسکو [۱۵]
|
پھر
جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا
|
یعنی جس نے ایک مرتبہ جلایا
اور مارا۔ اسی کو اختیار ہے کہ جب چاہے دوبارہ زندہ کرکے قبر سے نکالے۔ کیونکہ
اس کی قدرت اب کسی نے سلب نہیں کرلی (العیاذ باللہ) بہر حال پیدا کرکے دنیا میں
لانا، پھر مارکر برزخ میں لیجانا، پھر زندہ کرکے میدانِ حشر میں کھڑا کر دینا،
یہ امور جس کے قبضہ میں ہوئے کیا اس کی نصیحت سے اعراض و انکار اور اس کی نعمتوں
کا استحقار کسی آدمی کے لئے زیبا ہے۔
|
كَلّا لَمّا يَقضِ ما
أَمَرَهُ {80:23}
|
ہرگز
نہیں پورا نہ کیا جو اُسکو فرمایا [۱۶]
|
کچھ
شک نہیں کہ خدا نے اسے جو حکم دیا اس نے اس پر عمل نہ کیا
|
یعنی انسان نے ہر گز اپنے
مالک کا حق نہیں پہچانا اور جو کچھ حکم ہوا تھا ابھی تک اس کو بجا نہیں لایا
(تنبیہ) ابن کثیرؒ نے { کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ } کو { ثُمَّ
اِذَاشَآءَ اَنْشَرَہٗ } سے متعلق رکھا ہے۔ یعنی جب چاہیگا، زندہ کرکے
اٹھائیگا۔ ابھی ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ دنیا کی آبادی کے متعلق اس کا جو
حکم کونی وقدری ہے وہ ابھی تک اس نے ختم نہیں کیا۔
|
فَليَنظُرِ الإِنسٰنُ إِلىٰ
طَعامِهِ {80:24}
|
اب
دیکھ لے آدمی اپنے کھانے کو [۱۷]
|
تو
انسان کو چاہیئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے
|
پہلے انسان کے پیدا کرنے اور
مارنے کا ذکر تھا۔ اب اُس زندگی اور بقاء کے سامان یاد دلاتے ہیں۔
|
أَنّا صَبَبنَا الماءَ
صَبًّا {80:25}
|
کہ
ہم نے ڈالا پانی اوپر سے گرتا ہوا
|
بے
شک ہم ہی نے پانی برسایا
|
ثُمَّ شَقَقنَا الأَرضَ
شَقًّا {80:26}
|
پھر
چیرا زمین کو پھاڑ کر [۱۸]
|
پھر
ہم ہی نے زمین کو چیرا پھاڑا
|
یعنی ایک گھاس کے تنکے کی کیا
طاقت تھی کہ زمین کو چیر پھاڑ کر باہر نکل آتا یہ قدرت کا ہاتھ ہے جو زمین کو
پھاڑ کر اس سے طرح طرح کے غلّے، پھل اور سبزے، ترکاریاں وغیرہ باہر نکالتا ہے۔
|
فَأَنبَتنا فيها حَبًّا
{80:27}
|
پھر
اگایا اُس میں اناج
|
پھر
ہم ہی نے اس میں اناج اگایا
|
وَعِنَبًا وَقَضبًا {80:28}
|
اور
انگور اور ترکاری
|
اور
انگور اور ترکاری
|
وَزَيتونًا وَنَخلًا
{80:29}
|
اور
زیتون اور کھجوریں
|
اور
زیتون اور کھجوریں
|
وَحَدائِقَ غُلبًا {80:30}
|
اور
گھن کے باغ
|
اور
گھنے گھنے باغ
|
وَفٰكِهَةً وَأَبًّا
{80:31}
|
اور
میوہ اورگھاس
|
اور
میوے اور چارا
|
مَتٰعًا لَكُم
وَلِأَنعٰمِكُم {80:32}
|
کام
چلانے کو تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے [۱۹]
|
(یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے لیے بنایا
|
یعنی بعض چیزیں تمہارے کام
آتی ہیں اور بعض تمہارے جانوروں کے۔
|
فَإِذا جاءَتِ الصّاخَّةُ
{80:33}
|
پھر
جب آئے وہ کان پھوڑنے والی [۲۰]
|
تو
جب (قیامت کا) غل مچے گا
|
یعنی ایسی سخت آواز جس سے کان
بہرے ہو جائیں۔ اُس سے مراد نفح صور کی آواز ہے۔
|
يَومَ يَفِرُّ المَرءُ مِن
أَخيهِ {80:34}
|
جس
دن کے بھاگے مرد اپنے بھائی سے
|
اس
دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا
|
وَأُمِّهِ وَأَبيهِ {80:35}
|
اور
اپنی ماں اور اپنے باپ سے
|
اور
اپنی ماں اور اپنے باپ سے
|
وَصٰحِبَتِهِ وَبَنيهِ
{80:36}
|
اور
اپنی ساتھ والی سے اور اپنے بیٹوں سے
|
اور
اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے
|
لِكُلِّ امرِئٍ مِنهُم
يَومَئِذٍ شَأنٌ يُغنيهِ {80:37}
|
ہر
مرد کو اُن میں سے اُس دن ایک فکر لگا ہوا ہے جو اُسکے لئے کافی ہے [۲۱]
|
ہر
شخص اس روز ایک فکر میں ہو گا جو اسے( مصروفیت کے لیے) بس کرے گا
|
یعنی اُس وقت ہر ایک کو اپنی
فکر پڑی ہو گی، احباب و اقارب ایک دوسرے کو نہ پوچھیں گے بلکہ اس خیال سے کہ
کوئی میری نیکیوں میں سے نہ مانگنے لگے یا اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے ایک
دوسرے سے بھاگے گا۔
|
وُجوهٌ يَومَئِذٍ مُسفِرَةٌ
{80:38}
|
کتنے
منہ اُس دن روشن ہیں
|
اور
کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے
|
ضاحِكَةٌ مُستَبشِرَةٌ
{80:39}
|
ہنستے
خوشیاں کرتے [۲۲]
|
خنداں
و شاداں (یہ مومنان نیکو کار ہیں)
|
یعنی مومنین کے چہرے نور
ایمان سے روشن اور غایت مسرت سے خنداں و فرحاں ہو نگے۔
|
وَوُجوهٌ يَومَئِذٍ عَلَيها
غَبَرَةٌ {80:40}
|
اور
کتنے منہ اُس دن اُن پر گرد پڑی ہے
|
اور
کتنے منہ ہوں گے جن پر گرد پڑ رہی ہو گی
|
تَرهَقُها قَتَرَةٌ {80:41}
|
چڑھی
آتی ہے اُن پر سیاہی [۲۳]
|
(اور) سیاہی چڑھ رہی ہو گی
|
یعنی کافروں کے چہروں پر کفر
کی کدورت چھائی ہو گی اور اوپر سے فسق وفجور کی ظلمت اور زیادہ تیرہ و تاریک کر
دیگی۔
|
أُولٰئِكَ هُمُ الكَفَرَةُ
الفَجَرَةُ {80:42}
|
یہ
لوگ وہی ہیں جو منکر ہیں ڈھیٹھ [۲۴]
|
یہ
کفار بدکردار ہیں
|
یعنی کافر بے حیا کو کتنا ہی
سمجھاؤ ذرا نہ پسیجیں۔ نہ خدا سے ڈریں، نہ مخلوق سے شرمائیں۔
|
وَالفَجرِ {89:1}
|
قسم
ہے فجر کی
|
فجر
کی قسم
|
وَلَيالٍ عَشرٍ {89:2}
|
اور
دس راتوں کی
|
اور
دس راتوں کی
|
وَالشَّفعِ وَالوَترِ
{89:3}
|
اور
جفت اورطاق کی
|
اور
جفت اور طاق کی
|
وَالَّيلِ إِذا يَسرِ
{89:4}
|
اور
اس رات کی جب رات کو چلے [۱]
|
اور
رات کی جب جانے لگے
|
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں
"عید قرباں کی فجر بڑا حج ادا ہوتا ہے اور دس رات اُس سے پہلے۔ اور جفت اور
طاق رمضان کی آخری (عشرہ) دہائی میں ہے۔ اور جب رات کو چلے یعنی پیغمبر معراج
کو"۔ یہ سب اوقات متبرک تھے اس لئے ان کی قسم کھائی۔ (تنبیہ) { وَالَّیْلِ
اِذَایَسْرِ } کے معنی عموماً مفسرین نے "رات کے گزرنے" یا "اس
کی تاریکی پھیلنے" کے لئے ہیں۔ گویا صبح کی قسم کے مقابلے میں رات کے جانے
یا آنے کی قسم کھائی۔ جیسا کہ جفت کے مقابل طاق کی قسم کھائی گئ ہے۔ اور {
لَیَالٍ عَشْرٍ } سے بھی ممکن ہے مطلق دس راتیں مراد ہوں کیونکہ اس کے
افرادومصادیق میں بھی تقابل پایا جاتا ہے۔ مہینہ کے شروع کی دس راتیں اوّل روشن
ہوتی ہیں پھر تاریک اور اخیر کی دس راتیں ابتداء میں تاریک رہتی ہیں پھر روشن
ہوتی ہیں اور درمیانی دس راتوں کا حال ان دونوں سے جداگانہ ہے۔ گویا اس اختلاف و
تقابل سے اشارہ فرمادیا کہ آدمی کو عیش و آرام یا مصیبت اور تنگی یا فراخی کی جو
حالت پیش آئے مطمئن نہ ہوجائے اور یوں نہ سمجھے کہ اب اس کے خلاف دوسری حالت پیش
نہ آئیگی اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ حق تعالیٰ خالق اضداد ہے جس طرح وہ آفاق میں
ایک ضد کے مقابل دوسری ضد کو لاتا ہے۔ ایسے ہی تمہارے حالات و کوائف کو بھی اپنی
حکمت و مصلحت کے موافق ادل بدل کرتا رہتا ہے چنانچہ آگے جو واقعات و مضامین
مذکور ہیں ان میں اسی اصول پر متنبہ فرمایا ہے۔ (تنبیہ دوم) اس آیت کی تفسیر میں
دو حدیثیں مرفوع آئی ہیں جابرؓ کی اور عمران بن حصینؓ کی، حافظ ابن کثیرؒ پہلی
کی نسبت لکھتے ہیں { وھٰذا اسنادٌ رجالہ لابأس بھم وعندی ان المتن فی رفعہ
نکارۃ } اور دوسری کی نسبت فرماتے ہیں { وعندی ان وقفہ علی عمران بن حصین اشبہ
واللہ اعلم }۔
|
هَل فى ذٰلِكَ قَسَمٌ لِذى
حِجرٍ {89:5}
|
ہے
اُن چیزوں کی قسم پوری عقلمندوں کے واسطے [۲]
|
اور
بے شک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں کہ (کافروں کو ضرور
عذاب ہو گا)
|
یعنی یہ قسمیں معمولی نہیں،
نہایت معتبر اور مہتم بالشان ہیں اور عقلمند لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ تاکید کلام کے
لئے ان میں ایک خاص عظمت و وقعت پائی جاتی ہے۔
|
أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ
رَبُّكَ بِعادٍ {89:6}
|
تو
نے نہ دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے عاد کے ساتھ
|
کیا
تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا
|
إِرَمَ ذاتِ العِمادِ
{89:7}
|
وہ
جو ارم میں تھے [۳] بڑے
ستونوں والے [۴]
|
(جو) ارم (کہلاتے تھے اتنے) دراز قد
|
یعنی ستون کھڑے کرکے بڑی بڑی
اونچی عمارتیں بناتے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اکثر سیروسیاحت میں رہتے اور اونچے
ستونوں پر خیمے تانتے تھے اور بعض کے نزدیک { ذَاتِ الْعِمَادِ } کہہ کر ان کے
اونچے قدوقامت اور ڈیل دول کو ستونوں سے تشبیہ دی ہے۔ واللہ اعلم۔
|
"عاد"
ایک شخص کا نام ہے جس کی طرف یہ قوم منسوب ہوئی، ان کے اجداد میں سے ایک شخص
"ارم" نامی تھا۔ اس کی طرف نسبت کرنے سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ یہاں
"عاد" سے "عاد اولیٰ" مراد ہے۔ "عاد ثانیہ" نہیں،
اور بعض نے کہا کہ "قوم عاد" میں جو شاہی خاندان تھا اس
"ارم" کہتے تھے۔ واللہ اعلم۔
|
الَّتى لَم يُخلَق مِثلُها
فِى البِلٰدِ {89:8}
|
کہ
بنی نہیں ویسی سارے شہروں میں [۵]
|
کہ
تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے
|
یعنی اس وقت دنیا میں اس قوم
جیسی کوئی مضبوط و طاقتور نہ تھی، یا ان کی عمارتیں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔
|
وَثَمودَ الَّذينَ جابُوا
الصَّخرَ بِالوادِ {89:9}
|
اور
ثمود کے ساتھ جنہوں نے تراشا پتھروں کو وادی میں [۶]
|
اور
ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادئِ (قریٰ) میں پتھر تراشتے تھے (اور گھر بناتے)
تھے
|
"
وادئ القُریٰ" ان کے مقام کا نام ہے جہاں پہاڑ کے پتھروں کو تراش کر نہایت
محفوظ و مضبوط مکان بناتے تھے۔
|
وَفِرعَونَ ذِى الأَوتادِ
{89:10}
|
اور
فرعون کے ساتھ و ہ میخوں والا [۷]
|
اور
فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو خیمے اور میخیں رکھتا تھا
|
یعنی بڑے لاؤلشکر والا جس کو
فوجی ضروریات کے لئے بہت کثیر مقدار میں میخیں رکھنا پڑتی تھیں یا یہ مطلب ہے کہ
لوگوں کو چومیخا کر کے سزا دیتا تھا۔
|
الَّذينَ طَغَوا فِى
البِلٰدِ {89:11}
|
یہ
سب تھے جنہوں نے سر اٹھایا ملکوں میں
|
یہ
لوگ ملکوں میں سرکش ہو رہے تھے
|
فَأَكثَروا فيهَا الفَسادَ
{89:12}
|
پھر
بہت ڈالی اُن میں خرابی
|
اور
ان میں بہت سی خرابیاں کرتے تھے
|
فَصَبَّ عَلَيهِم رَبُّكَ
سَوطَ عَذابٍ {89:13}
|
پھر
پھینکا اُن پر تیرے رب نے کوڑا عذاب کا [۸]
|
تو
تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا نازل کیا
|
یعنی ان قوموں نے عیش و دولت
اور زور و قوت کے نشے میں مست ہو کر مُلکوں میں خوب اودھم مچایا۔ بڑی بڑی
شرارتیں کیں، اور ایسا سر اٹھایا، گویا ان کے سروں پر کوئی حاکم ہی نہیں؟ ہمیشہ
اسی حال میں رہنا ہے! کبھی اس ظلم و شرارت کا خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا؟ آخر جب
انکے کفروتکبر اور جوروستم کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور مہلت ودرگزر کا کوئی موقع
باقی نہ رہا۔ دفعۃً خداوند قہار نے ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ ان کی سب
قوت اور بڑائی خاک میں مل گئ، اور وہ سازوسامان کچھ کام نہ آیا۔
|
إِنَّ رَبَّكَ
لَبِالمِرصادِ {89:14}
|
بیشک
تیرا رب لگا ہے گھات میں [۹]
|
بے
شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے
|
یعنی جیسے کوئی شخص گھات میں
پوشیدہ رہ کر آنے جانے والوں کی خبر رکھتا ہے کہ فلاں کیونکر گزرا اور کیا کرتا
ہوا گیا، اور فلاں کیا لایا اور کیا لے گیا، پھر وقت آنے پر ان معلومات کے موافق
معاملہ کرتا ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ حق تعالیٰ انسانوں کی آنکھوں سے پوشیدہ رہ
کر سب بندوں کے ذرہ ذرہ احوال و اعمال دیکھتا ہے، کوئی حرکت و سکون اس سے مخفی
نہیں، ہاں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، غافل بندے سمجھتے ہیں کہ بس کوئی دیکھنے
اور پوچھنے والا نہیں۔ جو چاہو بے دھڑک کیے جاؤ۔ حالانکہ وقت آنے پر ان کا سارا
کچا چٹھا کھول دیتا ہے اور ہر ایک سے انہی اعمال کے موافق معاملہ کرتا ہے جو
شروع سے اس کے زیر نظر تھے اس وقت پتہ لگتا ہے کہ وہ سب ڈھیل تھی اور بندوں کا
امتحان تھا کہ دیکھیں کن حالات میں کیا کچھ کرتے ہیں اور ایک عارضی حالت پر نظر
کرکے آخری انجام کو تو نہیں بھولتے۔
|
فَأَمَّا
الإِنسٰنُ إِذا مَا ابتَلىٰهُ رَبُّهُ فَأَكرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقولُ رَبّى
أَكرَمَنِ {89:15}
|
سو
آدمی جو ہے جب جانچے اُسکو رب اُس کا پھر اُس کو عزت دے اور اُسکو نعمت دے تو
کہے میرے رب نے مجھ کو عزت دی [۱۰]
|
مگر
انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا
اور نعمت بخشتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی
|
یعنی میں اسی لائق تھا اس لئے
عزت دی۔
|
وَأَمّا إِذا مَا
ابتَلىٰهُ فَقَدَرَ عَلَيهِ رِزقَهُ فَيَقولُ رَبّى أَهٰنَنِ {89:16}
|
اور
وہ جس وقت اُسکو جانچے پھر کھینچ کرے اُس پر روزی کی تو کہے میرے رب نے مجھے
ذلیل کیا [۱۱]
|
اور
جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے)
میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا
|
یعنی میری قدر نہ کی۔ خلاصہ
یہ ہے کہ اس کی نظر صرف دنیا کی زندگی اور حالت حاضرہ پر ہے۔ بس دنیا کی موجودہ
راحت و تکلیف ہی کو عزت و ذلت کا معیار سمجھتا ہے۔ نہیں جانتا کہ دونوں حالتوں
میں اس کی آزمائش ہے۔ نعمت دے کر اس کی شکرگزاری اور سختی بھیج کر اس کے صبرورضا
کو جانچا جا رہا ہے۔ نہ یہاں کا عارضی عیش و آرام اللہ کے ہاں مقبول و معزز ہونے
کی دلیل ہے۔ نہ محض تنگی اور سختی مردود ہونے کی علامت ہے۔ مگر انسان اپنے افعال
و اعمال پر نظر نہیں کرتا۔ اپنی بے عقلی یا بے حیائی سے رب پر الزام رکھتا ہے۔
|
كَلّا ۖ بَل لا تُكرِمونَ
اليَتيمَ {89:17}
|
کوئی
نہیں پر تم عزت سے نہیں رکھتے یتیم کو [۱۲]
|
نہیں
بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے
|
یعنی خدا کے ہاں تمہاری عزت
کیوں ہو، جب تم بےکس یتیموں کی عزت اور خاطر مدارات نہیں کرتے۔
|
وَلا تَحٰضّونَ عَلىٰ
طَعامِ المِسكينِ {89:18}
|
اور
تاکید نہیں کرتے آپس میں محتاج کے کھلانے کی [۱۳]
|
اور
نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو
|
یعنی خود اپنے مال سے مسکینوں
کی خبر گیری کرنا تو کجا، دوسروں کو بھی اس طرف نہیں ابھارتے کہ بھوکے محتاجوں
کی خبر لے لیا کریں۔
|
وَتَأكُلونَ التُّراثَ
أَكلًا لَمًّا {89:19}
|
اور
کھا جاتے ہو مردے کا مال سمیٹ کر سارا [۱۴]
|
اور
میراث کے مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو
|
یعنی مردے کی میراث لینے میں
حلال حرام اور حق ناحق کی کچھ تمیز نہیں، جو قابو چڑھا ہضم کیا یتیموں اور
مسکینوں کے حقوق تلف ہوں، ہونے دو۔
|
وَتُحِبّونَ المالَ حُبًّا
جَمًّا {89:20}
|
اور
پیار کرتے ہو مال کو جی بھر کر [۱۵]
|
اور
مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو
|
یعنی جڑ کی بات یہ ہے کہ
تمہارا دل مال کی حرص اور محبت سے بھرا ہوا ہے۔ بس کسی طرح مال ہاتھ آئے اور ایک
پیسہ کسی نیک کام میں ہاتھ سے نہ نکلے خواہ آگے چل کر نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔
مال کی اس قدر محبت اور پرستش کہ آدمی اسی کو کعبہ مقصود ٹھہرا لے، صرف کافر کا
شیوہ ہوسکتا ہے۔
|
كَلّا إِذا دُكَّتِ الأَرضُ
دَكًّا دَكًّا {89:21}
|
کوئی
نہیں جب پست کر دی جائے زمین کوٹ کوٹ کر [۱۶]
|
تو
جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی
|
یعنی سب ٹیلے اور پہاڑ کوٹ کر
ریزہ ریزہ کر دیے جائیں اور زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے۔
|
وَجاءَ رَبُّكَ وَالمَلَكُ
صَفًّا صَفًّا {89:22}
|
اور
آئے تیرا رب [۱۷] اور فرشتے آئیں قطار قطار [۱۸]
|
اور
تمہارا پروردگار (جلوہ فرما ہو گا) اور فرشتے قطار باندھ باندھ کر آ موجود ہوں
گے
|
یعنی اپنی قہری تجلّی کے ساتھ
جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔
|
یعنی میدان محشر میں آئیں گے
وہاں انتظامات کے لئے۔
|
وَجِا۟يءَ يَومَئِذٍ
بِجَهَنَّمَ ۚ يَومَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الإِنسٰنُ وَأَنّىٰ لَهُ الذِّكرىٰ {89:23}
|
اور
لائی جائے اُس دن دوزخ [۱۹] اُس
دن سوچے گا آدمی اور کہاں ملے اُسکو سوچنا [۲۰]
|
اور
دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو انسان اس دن متنبہ ہو گا مگر تنبہ (سے) اسے
(فائدہ) کہاں (مل سکے گا)
|
یعنی اس وقت سمجھے گا کہ میں
سخت غلطی اور غفلت میں تھا۔ مگر اس وقت کا سمجھنا کس کام کا سوچنے سمجھنے کا
موقع ہاتھ سے نکل چکا۔ دارلعمل میں جو کام کرنا چاہیے تھا وہ دارالجزاء میں نہیں
ہو سکتا۔
|
یعنی لاکھوں فرشتے اُس کی جگہ
سے کھینچ کر محشر والوں کے سامنے لائیں گے۔
|
يَقولُ يٰلَيتَنى قَدَّمتُ
لِحَياتى {89:24}
|
کہے
کیا اچھا ہوتا جو میں کچھ آگے بھیجدیتا اپنی زندگی میں [۲۱]
|
کہے
گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی کے لیے) کچھ آگے بھیجا ہوتا
|
یعنی افسوس دنیا کی زندگی میں
کچھ نیکی کرکے آگے نہ بھیجی۔ جو آج اس زندگی میں کام آتی۔ یونہی خالی ہاتھ چلا
آیا۔ کاش حسنات کا کوئی ذخیرہ آگے روانہ کر دیتا۔ جو یہاں کے لئے توشہ بنتا۔
|
فَيَومَئِذٍ لا يُعَذِّبُ
عَذابَهُ أَحَدٌ {89:25}
|
پھر
اُس دن عذاب نہ دے اُس کا سا کوئی
|
تو
اس دن نہ کوئی خدا کے عذاب کی طرح کا (کسی کو) عذاب دے گا
|
وَلا يوثِقُ وَثاقَهُ
أَحَدٌ {89:26}
|
اور
نہ باندھ کر رکھے اُس کا سا باندھنا کوئی [۲۲]
|
اور
نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا
|
یعنی اللہ تعالیٰ اس دن
مجرموں کو ایسی سخت سزا دیگا اور ایسی سخت قید میں رکھے گا کہ کسی دوسرے کی طرف
سے اس طرح کی سختی کسی مجرم کے حق میں متصور نہیں۔ اور حضرت شاہ عبدالعزیزؒ
لکھتے ہیں کہ "اس روز نہ مارے گا اس کا سا مارنا کوئی ۔نہ آگ نہ دوزخ کے
مؤکل نہ سانپ بچھو، جو دوزخ میں ہونگے، کیونکہ ان کا مارنا اور دکھ دینا عذاب
جسمانی ہے، اور حق تعالیٰ کا عذاب اس طور سے ہو گا کہ مجرم کی روح کو حسرت اور
ندامت میں گرفتار کر دیگا جو عذاب روحانی ہے۔ اور ظاہر ہے عذاب روحانی کو عذاب
جسمانی سے کیا نسبت، نیز نہ باندھے گا اس کا سا باندھنا کوئی۔ کیونکہ دوزخ کے
پیادے ہر چند کہ دوزخیوں کے گلے میں طوق ڈالیں گے اور زنجیروں سے جکڑیں گے اور
دوزخ کے دروازے بند کرکے اوپر سے سرپوش رکھدیں گے، لیکن ان کی عقل اور خیال کو
بند نہ کرسکیں گے اور عقل و خیال کی عادت ہے کہ بہت سی باتوں کی طرف التفات کرتا
ہے اور ان میں سے بعض باتیں دوسری باتوں کے لئے حجاب ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے عین
قید کی تنگی میں انسان کو عقلی اور خیالی وسعت حاصل ہوتی ہے۔ برخلاف اس شخص کے
کہ اللہ تعالیٰ عقل و خیال کو ادھر ادھر جانے سے روک دے اور بالکل ہمہ تن دکھ
درد ہی کی طرف متوجہ رکھے۔ تو ایسی قید بدنی قید سے ہزاروں درجے سخت ہے۔ اسی لئے
مجنوں سودائیوں کو عین باغوں اور جنگلوں کی سیر کے وقت تنگی اور گھبراہٹ وہم و
خیال کے سبب سے پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ باغ اور وسیع جنگل اس کی نظر میں تنگ معلوم
ہوتے ہیں۔
|
يٰأَيَّتُهَا النَّفسُ
المُطمَئِنَّةُ {89:27}
|
اے
وہ جی جس نے چین پکڑ لیا
|
اے
اطمینان پانے والی روح!
|
ارجِعى إِلىٰ رَبِّكِ
راضِيَةً مَرضِيَّةً {89:28}
|
پھر
چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
|
اپنے
پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
|
فَادخُلى فى عِبٰدى {89:29}
|
پھر
شامل ہو میرے بندوں میں
|
تو
میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا
|
وَادخُلى جَنَّتى {89:30}
|
اور
داخل ہو میری بہشت میں [۲۳]
|
اور
میری بہشت میں داخل ہو جا
|
یعنی پہلے مجرموں اور ظالموں
کا حال بیان ہوا تھا، اب اس کے مقابل ان لوگوں کا انجام بتلاتے ہیں جن کے دلوں
کو اللہ کے ذکر اور اس کی طاعت سے چین اور آرام ملتا ہے ان سے محشر میں کہا جائیگا
کہ اے نفس آرمیدہ بحق! جس محبوب حقیقی سے تو لو لگائے ہوئے تھا، اب ہر قسم کے
جھگڑوں اور خرخشوں سے یکسو ہو کر راضی خوشی اس کے مقام قرب کی طرف چل، اور اس کے
مخصوص بندوں کے زمرہ میں شامل ہو اس کی عالیشان جنت میں قیام کر۔ بعض روایات سے
معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو موت کے وقت بھی یہ بشارت سنائی جاتی ہے۔ بلکہ عارفین
کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں بھی ایسے نفوس مطمئنہ اس طرح کی
بشارات کا کافی الجملہ حظ اٹھاتے ہیں۔ { اللّٰھم انی اسالک نفسًا بک مطمئنۃً تو
من بلقائک وترضٰی بقضائک و تقنع بعطائک } (تنبیہ) نفس مطمئنہ، نفس امّارہ اور
نفس لوّامہ کی تحقیق سورۃ "قیامہ" کے شروع میں دیکھ لی جائے۔
|
وَيَدعُ الإِنسٰنُ
بِالشَّرِّ دُعاءَهُ بِالخَيرِ ۖ وَكانَ الإِنسٰنُ عَجولًا
{17:11}
|
اور
مانگتا ہے آدمی برائی جیسے مانگتا ہے بھلائی اور ہے انسان جلد باز [۱۶]
|
اور
انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے۔ اور انسان
جلد باز (پیدا ہوا) ہے
|
یعنی قرآن تو لوگوں کو سب سے
بڑی بھلائی کی طرف بلاتا اجر کبیر کی بشارتیں سناتا ، اور بدی کے مہلک نتائج سے
آگاہ کرتا ہے۔ لیکن حضرت انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اپنے
لئے برائی کو اسی اشتیاق و الحاج سے طلب کرتا ہے۔ جس طرح کوئی بھلائی مانگتا ہو
، یا جیسے بھلائی طلب کرنا چاہئے وہ انجام کی طرف سے آنکھیں بند کر کے بڑی تیزی
کےساتھ گناہوں اور برائیوں کی طرف لپکتا ہے بلکہ بعض بدبخت تو صاف لفظوں میں
زبان سے کہہ اٹھتے ہیں ۔ { اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ
عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا
بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ } (خداوند ! اگر پیغمبر اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ہم پر
آسمان سے پتھر برسا دیجئے یا اور کوئی سخت عذاب نازل کیجئے) بعض بے وقوف غصہ سے
جھنجھلا کر اپنے حق میں یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں بے سوچے سمجھے بد دعا کر
بیٹھتے ہیں بعض دنیا کے نفع عاجل کو معبود بنا کر ہر ایک حلال و حرام طریقہ سے
اس کی طرف دوڑتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس لہلہاتے پودے کے نیچے سانپ بچھو بھی
چھپے ہوئے ہیں۔ جو انجام کار ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا کر رہیں گے ۔ حقیقت یہ ہے
کہ آدمی اپنی جلد بازی سے کسی چیز کی ظاہری ٹیپ ٹاپ کو دیکھ لیتا ہے ، بدی کے
دورس نتائج پر غور نہیں کرتا ۔ بس جو بات کسی وقت سانح ہوئی فورًا کہہ ڈالی یا
ایک دم کر گذرا ۔ جدھر قدم اٹھ گیا بے سوچے سمجھے ادھر ہی بڑھتا چلا گیا۔ اگر
جلد بازی چھوڑ کر متانت ، تدبر اور انجام بینی سے کام لے تو کبھی ایسی غلطیاں نہ
کرے۔
|
قُل لَو أَنتُم تَملِكونَ
خَزائِنَ رَحمَةِ رَبّى إِذًا لَأَمسَكتُم خَشيَةَ الإِنفاقِ ۚ وَكانَ الإِنسٰنُ
قَتورًا {17:100}
|
کہہ
اگر تمہارے ہاتھ میں ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانے تو ضرور بند کر رکھتے اس ڈر
سے کہ خرچ نہ ہو جائیں اور ہے انسان دل کا تنگ [۱۵۲]
|
کہہ
دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ
ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے۔ اور انسان دل کا بہت تنگ ہے
|
گذشتہ رکوع میں فرمایا تھا۔ {
اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا۔قُلْ
لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْابِمِثْلِ ھٰذَا
الْقُرْاٰنِ } الخ (خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپ پر بہت بڑا فضل کیا ہے کہ
قرآن جیسی بے مثال دولت عطا فرمائی) درمیان میں مخالفین کے تعنت و عناد ، دور
ازکار مطالبات ، اعراج و تکذیب اور ان کے نتائج کا ذکر کر کے یہاں پھر اسی پہلے
مضمون کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی ایک بندہ کو ایسی عظیم الشان رحمت اور عدیم النظیر
دولت سے سرفراز فرمانا ، اسی جواد حقیقی اور وہاب مطلق کی شان ہو سکتی ہے جس کے
پاس رحمت کے غیر متناہی خزانے ہوں ، اور کسی مستحق کو زیادہ سے زیادہ دینے میں
نہ اس کو اپنے تہی دست رہ جانے کا خوف ہو ، نہ اس کا اندیشہ کہ دوسرا ہم سے لے
کر کہیں مد مقابل نہ بن جائے یا آگے چل کر ہمیں دبا نہ لے۔ خداوند قدوس تھڑدلے
انسان کی طرح (العیاذ باللہ) تنگ دل واقع نہیں ہوا ، جسے اگر فرض کرو خزائن رحمت
کا مالک و مختار بنا دیا جائے تب بھی اپنی طبیعت سے بخل و تنگ دلی نہ چھوڑے اور
کسی مستحق کو دینے سے اس لئے گھبرائے کہ کہیں سارا خرچ نہ ہو جائے اور میں خالی
ہاتھ رہ جاؤں یا جس پر آج خرچ کرتا ہوں کل میری ہمسری نہ کرنے لگے۔ بہرحال اگر
رحمت الہٰیہ کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو تم کسے دینے والے تھے اور کہاں
گوارا کر سکتے تھے کہ مکہ و طائف کے بڑے متکبر دولتمندوں کو چھوڑ کر وحی و نبوت
کی یہ بیش بہا دولت "بنی ہاشم" کے ایک در یتیم کو مل جائے۔ یہ حق
تعالیٰ کا فیض ہے کہ جس میں جیسی استعداد و قابلیت دیکھی اس کے مناسب کمالات و
انعامات کے خزانے انڈیل دیے۔ تمہارےتعنت و تعصب سے خدا کا فضل رکنے والا نہیں۔
محمد ﷺ کے طفیل میں جو خزائن آپ کے اتباع کو ملنے والے ہیں مل کر رہیں گے اور پیغمبر علیہ
السلام اور ان کے پیرو دریادلی سے اس دولت کو بنی نوع انسان پر خرچ کریں گے
تمہاری طرح تنگدلی نہیں دکھائیں گے۔
|
إِنَّ الإِنسٰنَ خُلِقَ هَلوعًا {70:19}
|
بیشک
آدمی بنا ہے جی کا کچا
|
کچھ
شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے
|
إِذا مَسَّهُ الشَّرُّ
جَزوعًا {70:20}
|
جب
پہنچے اُسکو برائی تو بے صبرا
|
جب
اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے
|
وَإِذا مَسَّهُ الخَيرُ
مَنوعًا {70:21}
|
اور
جب پہنچے اُسکو بھلائی تو بے توفیقا [۱۳]
|
اور
جب آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے
|
یعنی کسی طرف پختگی اور ہمت
نہیں دکھلاتا۔ فقر فاقہ، بیماری اور سختی آئے تو بے صبر ہو کر گھبرا اٹھے، بلکہ
مایوس ہو جائے گویا اب کوئی سبیل مصیبت سے نکلنے کی باقی نہیں رہی اور مال و
دولت تندرستی اور فراخی ملے تو نیکی کیلئے ہاتھ نہ اٹھے، اور مالک کے راستہ میں
خرچ کرنے کو توفیق نہ ہو۔ ہاں وہ لوگ مستثنٰی ہیں جن کا ذکر آگے آتا ہے۔
|
إِلَّا المُصَلّينَ {70:22}
|
مگر
وہ نمازی
|
مگر
نماز گزار
|
وَلَقَد صَرَّفنا فى هٰذَا
القُرءانِ لِلنّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكانَ الإِنسٰنُ أَكثَرَ شَيءٍ جَدَلًا {18:54}
|
اور
بیشک پھیر پھیر کو سمجھائی ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو ہر ایک مثل اور ہے انسان
سب چیز سے زیادہ جھگڑالو [۷۱]
|
اور
ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی
ہیں۔ لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے
|
یعنی قرآن کریم کس طرح مختلف
عنوانات اور قسم قسم کی دلائل وامثلہ سے سچی باتیں سمجھاتا ہے۔ مگر انسان کچھ
ایسا جھگڑالو واقع ہوا ہے کہ صاف اور سیدھی باتوں میں بھی کٹ حجتی کئے بغیر نہیں
رہتا۔ جب دلائل کا جواب بن نہیں پڑتا تو مہمل اور دور ازکار فرمائشیں شروع کر
دیتا ہے کہ فلاں چیز دکھاؤ تو مانوں گا۔
|
وَقالوا ءَأٰلِهَتُنا خَيرٌ
أَم هُوَ ۚ ما ضَرَبوهُ لَكَ إِلّا جَدَلًا
ۚ بَل هُم قَومٌ خَصِمونَ {43:58}
|
اور
کہتے ہیں ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ [۵۳] یہ
مثال جو ڈالتے ہیں تجھ پرسو جھگڑنے کو
بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو
|
اور
کہنے لگے کہ بھلا ہمارے معبود اچھے ہیں یا عیسیٰ؟ انہوں نے عیسیٰ کی جو مثال
بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو۔ حقیقت یہ ہے یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو
|
حضرت مسیحؑ کا جب ذکر آتا تو
عرب کے مشرکین خوب شور مچاتے اور قسم قسم کی آوازیں اٹھاتے تھے۔ بعض روایات میں
ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی {
اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ } (انبیاء
رکوع۷) کہنے لگے نصارٰی حضرت مسیحؑ کی
عبادت کرتے ہیں۔ اب بتاؤ! تمہارے خیال میں ہمارے معبود اچھے ہیں یا مسیحؑ ۔ ظاہر
ہے تم مسیحؑ کو اچھا کہو گے جب وہ ہی (معاذ اللہ) آیت کےعموم میں داخل ہوئے تو
ہمارے معبود بھی سہی۔ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا { لَیْسَ اَحَدٌ یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ فِیْہِ خَیْرٌ
} ۔ کہنے لگے کیا مسیحؑ میں بھی کوئی خیر اور بھلائی نہیں؟ ظاہر ہے کہ آیت کا
اور حضور ﷺ کے ان الفاظ کا مطلب ان چیزوں سے متعلق تھا جن کی پرستش لوگ کرتے
ہیں اور وہ انکو اس سے نہیں روکتے اور اپنی بیزاری کا اظہار نہیں کرتے۔ مگر ان معترضین
کا منشاء تو محض جھگڑے نکالنا اور کٹ حجتی کر کے رِلانا تھا۔ اس لئے جان بوجھ کر
ایسے معنی پیدا کرتے تھے جو مراد متکلم کے مخالف ہوں۔ کبھی کہتے تھے کہ بس معلوم
ہو گیا آپ بھی اسی طرح ہم سے اپنی پرستش کرانا چاہتے ہیں جیسے نصاریٰ حضرت مسیحؑ
کی کرتے ہیں۔ شاید کبھی یہ بھی کہتے ہوں گے کہ خود قرآن نے حضرت مسیح کی مثل یہ
بیان کی ہے { اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلْقَہٗ مِنْ
تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ } (اٰل عمران رکوع۶) اب دیکھ لو ہمارے معبود اچھے
ہیں یا مسیح؟ انہیں کیوں بھلائی سے یاد کرتے ہو؟ اور ہمارے معبودوں کو برا کہتے
ہو؟ اور خدا جانے کیا کیا کچھ کہتے ہوں گے۔ ان سب باتوں کا جواب آگے دیا گیا ہے۔
|
وَيَقولُ الإِنسٰنُ أَءِذا
ما مِتُّ لَسَوفَ أُخرَجُ حَيًّا {19:66}
|
اور
کہتا ہے آدمی کیا جب میں مر جاؤں تو پھر نکلوں گا زندہ ہو کر [۸۱]
|
اور
(کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤ گا تو کیا زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟
|
گذشتہ رکوع میں نیکوں اور
بدوں کا انجام بیان فرمایا تھا جو مرنے کے بعد ہو گا جو لوگ مر کر زندہ ہونے کو محال
یا مستبعد سمجھتے ہیں یہاں ان کے شبہات کا جواب دیا جاتا ہے یعنی آدمی انکار و
تعجب کی راہ سے کہتا ہے کہ مر گل کر جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں اور مٹی
میں مل کر مٹی بن گئے۔ کیا اس کے بعد پھر ہم قبروں سے زندہ کر کے نکالے جائیں
گے۔ اور پردہ عدم سے نکل کر پھر منصّہ وجود پر جلوہ گر ہوں گے۔
|
أَوَلا يَذكُرُ الإِنسٰنُ
أَنّا خَلَقنٰهُ مِن قَبلُ وَلَم يَكُ شَيـًٔا {19:67}
|
کیا
یاد نہیں رکھتا آدمی کہ ہم نے اسکو بنایا پہلے سے اور وہ کچھ چیز نہ تھا [۸۲]
|
کیا
(ایسا) انسان یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو پہلے بھی پیدا کیا تھا اور وہ کچھ
بھی چیز نہ تھا
|
یعنی آدمی ہو کر اتنی موٹی
بات بھی نہیں سمجھتا کہ چند روز پہلے وہ کوئی چیز نہ تھا۔ حق تعالیٰ نے نابود سے
بود کیا ۔ کیا وہ ذات جو لاشے کو شے اور معدوم محض کو موجود کر دے، اس پر قادر
نہیں کہ ایک چیز کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کر سکے۔ آدمی کو اپنی پہلی ہستی کی
کیفیت یاد نہیں رہی جو دوسری ہستی کا مذاق اڑاتا ہے۔ { وَھُوَ الَّذِیْ
یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْہ } (الروم رکوع۳)
|
فَوَرَبِّكَ
لَنَحشُرَنَّهُم وَالشَّيٰطينَ ثُمَّ لَنُحضِرَنَّهُم حَولَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا
{19:68}
|
سو
قسم ہے تیرے رب کی ہم گھیر بلائیں گے انکو اور شیطانوں کو [۸۳] پھر سامنے لائیں گے گرد دوزخ
کے گھٹنوں پر گرے ہوئے [۸۴]
|
تمہارے
پروردگار کی قسم! ہم ان کو جمع کریں گے اور شیطانوں کو بھی۔ پھر ان سب کو جہنم
کے گرد حاضر کریں گے (اور وہ) گھٹنوں پر گرے ہوئے (ہوں گے)
|
یعنی یہ منکرین ان شیاطین کی
معیت میں قیامت کے دن خدا کے سامنے حاضر کئے جائیں گے جو اغواء کر کے انہیں
گمراہ کرتے تھے ہر مجرم کا شیطان اس کے ساتھ پکڑا ہوا آئے گا۔
|
یعنی مارے دہشت کے کھڑے سے گر
پڑیں گے اور چین سے بیٹھ بھی نہ سکیں گے۔ یہ ہی ہوا گھٹنوں پر گرنا۔
|
ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن
كُلِّ شيعَةٍ أَيُّهُم أَشَدُّ عَلَى الرَّحمٰنِ عِتِيًّا {19:69}
|
پھر
جدا کر لیں گے ہم ہر ایک فرقہ میں سے جو نسا اُن میں سے سخت رکھتا تھا رحمٰن سے
اکڑ
|
پھر
ہر جماعت میں سے ہم ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو خدا سے سخت سرکشی کرتے تھے
|
ثُمَّ لَنَحنُ أَعلَمُ
بِالَّذينَ هُم أَولىٰ بِها صِلِيًّا {19:70}
|
پھر
ہم کو خوب معلوم ہیں جو بہت قابل ہیں اُس میں داخل ہونے کے [۸۵]
|
اور
ہم ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو ان میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں
|
یعنی منکریں کے ہر فرقہ میں
جو زیادہ بد معاش ، سر کش ، اور اکڑ باز تھے ، انہیں عام مجرموں سے علیحدہ کر
لیا جائے گا پھر ان میں جو بھی بہت زیادہ سزا کے لائق اور دوزخ کا حقدار ہو گا
وہ خدا کے علم میں ہے اس کو دوسرے مجرموں سے پہلے آگ میں جھونکا جائے گا۔
|
وَإِن مِنكُم إِلّا وارِدُها
ۚ كانَ عَلىٰ رَبِّكَ حَتمًا مَقضِيًّا {19:71}
|
اور
کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر ہو چکا یہ وعدہ تیرے رب پر لازم مقرر
|
اور
تم میں کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہوگا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم
اور مقرر ہے
|
ثُمَّ نُنَجِّى الَّذينَ
اتَّقَوا وَنَذَرُ الظّٰلِمينَ فيها جِثِيًّا {19:72}
|
پھر
بچائیں گے ہم انکو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اس میں اوندھے گرے
ہوئے [۸۶]
|
پھر
ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے۔ اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ
دیں گے
|
یعنی ہر نیک و بد ، مجرم و بری
، اور مومن و کافر کے لئے حق تعالیٰ قسم کھا چکا اور فیصلہ کر چکا ہے کہ ضرور
بالضرور دوزخ پر اس کا گذر ہو گا، کیونکہ جنت میں جانے کا راستہ ہی دوزخ پر سے
ہو کر گیا ہے جسے عام محاورات میں "پل صراط" کہتے ہیں اس پر لا محالہ
سب کا گذر ہو گا، خدا سے ڈرنے والے مومنین اپنے اپنے درجہ کے موافق وہاں سے صحیح
سلامت گذر جائیں گے اور گنہگار الجھ کر دوزخ میں گر پڑیں گے (العیاذ باللہ) پھر
کچھ مدت کے بعد اپنے اپنے عمل کے موافق نیز انبیاء ، ملائکہ اور صالحین کی شفاعت
سے ، اور آخر میں براہ راست ارحم الراحمین کی مہربانی سے وہ سب گنہگار جنہوں نے
سچے اعتقاد کے ساتھ کلمہ پڑھا تھا ، دوزخ سے نکالے جائیں گے صرف کافر باقی رہ
جائیں گے اور دوزخ کا منہ بند کر دیا جائے گا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ
دوزخ کی آگ میں ہر شخص کو داخل کیا جائے گا مگر صالحین پر وہ آگ بَر دو سلام بن
جائے گی ۔ وہ بے کھٹکے اس میں سے گذر جائیں گے ۔ واللہ اعلم۔ امام فخرالدین
رازیؒ نے اپنی تفسیر میں اس دخول کی بہت سی حکمتیں بیان کی ہیں ۔ فلیر اجع۔
|
وَجَعَلوا لَهُ مِن
عِبادِهِ جُزءًا ۚ إِنَّ الإِنسٰنَ لَكَفورٌ مُبينٌ
{43:15}
|
اور
ٹھہرائی ہے اُنہوں نے حق تعالیٰ کے واسطے اولاد اسکے بندوں میں سے تحقیق انسان بڑا ناشکر ہے صریح
|
اور
انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی۔ بےشک انسان صریح ناشکرا
ہے
|
لا أُقسِمُ بِيَومِ
القِيٰمَةِ {75:1}
|
قسم
کھاتا ہوں قیامت کے دن کی [۱]
|
ہم
کو روز قیامت کی قسم
|
یعنی قیامت کا دن جس کا ممکن
ہونا عقل سے اور متیقن الوقوع ہونا ایسے مخبر صادق کی خبر سے ثابت ہو چکا ہے س
کے صدق پر دلائل قطعیہ قائم ہیں اس کی قسم کھاتا ہوں کہ تم یقینًا مرے پیچھے
اٹھائے جاؤگے اور ضرور بھلے برے کا حساب ہوگا۔ (تنبیہ) واضح ہو کہ دنیا میں کئ
قسم کی چیزیں ہیں جن کی قسم لوگ کھاتے ہیں، اپنے معبود کی، کسی معظم و محترم
ہستی کی، کسی مہتم بالشان چیز کی، کسی محبوب یا نادر شئے کی اس کی خوبی یا ندرت
جتانے کے لئے، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں کی قسمت کی قسم کھائیے۔ پھر بُلغاء یہ بھی
رعایت کرتے ہیں کہ مقسم بہ مقسم علیہ کے مناسب ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ مقسم
بہ کو مقسم علیہ کے لئے شاہد ہی گردانا جائے۔ جیسے ذوق نے کہا ہے "اتنا ہوں
تری تیغ کا شرمندہ احساں ۔ سر میرا ترے سر کی قسم اٹھ نہیں سکتا" یہاں اپنے
سر کے نہ اٹھ سکنے پر محبوب کے سر کی قسم کھانا کس قدر موزوں ہے۔ شریعت حقہ نے
غیر اللہ کی قسم کھانا بندوں کے لئے حرام کر دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان بندوں
سے جدا گانہ ہے۔ وہ اپنے غیر کی قسم کھاتا ہے اور عمومًا ان چیزوں کی جو اس کے
نزدیک محبوب یا نافع یا وقیع مہتم بالشان ہوں، یا مقسم علیہ کے لئے بطور شاہد و
حجت کے کام دے سکیں یہاں یوم قیامت کی قسم اس کے نہایت وقیع و مہتم بالشان ہونے
کی وجہ سے ہے اور جس مضمون پر قسم کھائی ہے اس سے مناسبت ظاہر ہے کیونکہ بعث و
مجازات کا ظرف ہی یوم قیامت ہے۔ واللہ اعلم۔
|
وَلا أُقسِمُ بِالنَّفسِ
اللَّوّامَةِ {75:2}
|
اور
قسم کھاتا ہوں جی کی کہ جو ملامت کرے برائی پر [۲]
|
اور
نفس لوامہ کی (کہ سب لوگ اٹھا کر) کھڑے کئے جائیں گے
|
محققین نے لکھا ہے کہ آدمی کا
نفس ایک چیز ہے لیکن اس کی تین حالتوں کے اعتبار سے تین نام ہوگئے ہیں۔ اگر نفس
عالم علوی کی طرف مائل ہو اور اللہ کی عبادت و فرمانبرداری میں اس کو خوشی حاصل
ہوئی اور شریعت کی پیروی میں سکون اور چین محسوس کیا اس نفس کو
"مطمئنہ" کہتے ہیں۔ { یٰٓآ یَّتُھَاالنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔
ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً } (الفجر) اور اگر عالم سفلی
کی طرف جھک پڑا اور دنیا کی لذات و خواہشات میں پھنس کر بدی کی طرف رغبت کی اور
شریعت کی پیروی سے بھاگا اس کو "نفس امّارہ" کہتے ہیں کیونکہ وہ آدمی
کو برائی کا حکم کرتا ہے { وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ
لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَارَحَمِ رَبِّیْ } (یوسف رکوع۷) اور اگر کبھی عالم سفلی کی طرف
جھکتا اور شہوت و غضب میں مبتلا ہوتا ہے اور کبھی عالم علوی کی طرف مائل ہو کر
ان چیزوں کو برا جانتا ہے اور ان سے دور بھاگتا ہے اور کوئی برائی یا کوتاہی ہو
جانے پر شرمندہ ہو کر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے اس کو "نفس لوّامہ"
کہتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "آدمی کا جی اوّل کھیل میں اور مزوں
میں غرق ہوتا ہے ہرگز نیکی کی طرف رغبت نہیں کرتا۔ ایسے جی کو "امّارہ
بالسّوء" کہتے ہیں۔ پھر ہوش پکڑا نیک و بد سمجھا تو باز آیا کبھی (غفلت
ہوئی تو) اپنی خو پر دوڑ پڑا پیچھے کچھ سمجھ آئی تو اپنے کئے پر پچھتانے اور
ملامت کرنے لگا۔ ایسا نفس (جی) "لوّامہ" کہلاتا ہے۔ پھر جب پورا سنور
گیا، دل سے رغبت نیکی ہی پر ہو گئ بیہودہ کام سے خود بخود بھاگنے لگا اور بدی کے
ارتکا ب بلکہ تصوّر سے تکلیف پہنچنے لگی وہ نفس "مطمئنہ" ہو
گیا"۔ ا ھ بتغییر یسیر۔ یہاں نفس لوّامہ کی قسم کھا کر اشارہ فرمادیا کہ
اگر فطرت صحیح ہو تو خود انسان کا نفس دنیا ہی میں برائی اور تقصیر پر ملامت
کرتا ہے یہی چیز ہے جو اپنی اعلٰی واکمل ترین صورت میں قیامت کے دن ظاہر ہوگی۔
|
أَيَحسَبُ الإِنسٰنُ أَلَّن نَجمَعَ
عِظامَهُ {75:3}
|
کیا
خیال رکھتا ہے آدمی کہ جمع نہ کریں گے ہم اُسکی ہڈیاں [۳]
|
کیا
انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی (بکھری ہوئی) ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟
|
یعنی یہ خیال ہے کہ ہڈیوں تک
کا چورا ہو گیا اور ان کے ریزے مٹی وغیرہ کے ذرات میں جاملے۔ بھلا اب کس طرح
اکٹھے کر کے جوڑ دیئے جائینگے؟ یہ چیز تو محال معلوم ہوتی ہے۔
|
بَلىٰ قٰدِرينَ عَلىٰ أَن
نُسَوِّىَ بَنانَهُ {75:4}
|
کیوں
نہیں ہم ٹھیک کر سکتے ہیں اُسکی پوریاں [۴]
|
ضرور
کریں گے (اور) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں
|
یعنی ہم تو انگلیوں کی پوریاں
بھی درست کر سکتے ہیں اور پوریوں کی تخصیص شاید اس لئے کی کہ یہ اطراف بدن ہیں
اور ہر چیز کے بننے کی تکمیل اس کے اطراف پر ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے محاورہ میں
ایسے موقع پر بولتے ہیں کہ میرے پور پور میں درد ہے۔ اس سے مراد تمام بدن ہوتا
ہے۔ دوسرے پوریوں میں باوجود چھوٹی ہونے کے صنعت کی رعایت زیادہ اور عادۃً یہ
زیادہ دشوار اور باریک کام ہے۔ لھذا جو اس پر قادر ہوگا وہ آسان پر بطریق اولٰی
قادر ہوگا۔
|
بَل يُريدُ الإِنسٰنُ لِيَفجُرَ أَمامَهُ {75:5}
|
بلکہ
چاہتا ہے آدمی کہ ڈھٹائی کرے اُسکے سامنے
|
مگر
انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے
|
يَسـَٔلُ أَيّانَ يَومُ
القِيٰمَةِ {75:6}
|
پوچھتا
ہے کب ہو گا دن قیامت کا [۵]
|
پوچھتا
ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا؟
|
یعنی جو لوگ قیامت کا انکار
کرتے اور دوبارہ زندہ کیے جانے کو محال جانتے ہیں اس کا سب یہ نہیں کہ یہ مسئلہ
بہت مشکل ہے اور اللہ کی قدرت کاملہ کے دلائل و نشانات غیر واضح ہیں۔ بلکہ آدمی
چاہتا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے اپنی اگلی عمر میں جو باقی رہ گئ ہے بالکل
بیباک ہو کر فسق و فجور کرتا رہے اگر کہیں قیامت کا اقرار کر لیا اور اعمال کے
حساب کتاب کا خوف دل میں بیٹھ گیا تو فسق و فجور میں اس قدر بیباکی اور ڈھٹائی
اس سے نہ ہو سکے گی۔ اس لئے ایسا خیال دل میں آنے ہی نہیں دیتا جس سے عیش منغض
ہو اور لذت میں خلل پڑے بلکہ استہزاء تعنّت اور سینہ زوری سے سوال کرتا ہے کہ
ہاں صاحب وہ آپ کی قیامت کب آئیگی۔ اگر واقعی آنیوالی ہے تو بقید سنہ و ماہ اس
کی تاریخ تو بتلائیے۔
|
فَإِذا بَرِقَ البَصَرُ
{75:7}
|
پھر
جب چندھیانے لگے آنکھ [۶]
|
جب
آنکھیں چندھیا جائیں
|
یعنی حق تعالیٰ کی تجلی قہری
سے جب آنکھیں چندھیانے لگیں گی اور مارے حیرت کے نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی اور
سورج بھی سر کے قریب آجائے گا۔
|
وَخَسَفَ القَمَرُ {75:8}
|
اور
گہہ جائے چاند [۷]
|
اور
چاند گہنا جائے
|
یعنی بے نور ہو جائے۔ چاند کو
شاید الگ اس لئے ذکر کیا کہ عرب کو بوجہ قمری حساب رکھنے کے اس کا حال دیکھنے کا
زیادہ اہتمام تھا۔
|
وَجُمِعَ الشَّمسُ
وَالقَمَرُ {75:9}
|
اور
اکٹھے ہوں سورج اور چاند [۸]
|
اور
سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں
|
یعنی بے نور ہونے میں دونوں
شریک ہونگے۔
|
يَقولُ الإِنسٰنُ يَومَئِذٍ
أَينَ المَفَرُّ {75:10}
|
کہے
گا آدمی اُس دن کہاں چلا جاؤں بھاگ کر
|
اس
دن انسان کہے گا کہ (اب) کہاں بھاگ جاؤں؟
|
كَلّا لا وَزَرَ {75:11}
|
کوئی
نہیں کہیں نہیں ہے بچاؤ
|
بےشک
کہیں پناہ نہیں
|
إِلىٰ رَبِّكَ يَومَئِذٍ
المُستَقَرُّ {75:12}
|
تیرے
رب تک ہے اُس دن جا ٹھہرنا [۹]
|
اس
روز پروردگار ہی کے پاس ٹھکانا ہے
|
یعنی اب تو کہتا ہے کہ وہ دن
کہاں ہے۔ اور اس وقت بدحواس ہو کر کہے گا کہ آج کدھر بھاگوں اور کہاں پناہ لوں۔
ارشاد ہو گا کہ آج نہ بھاگنے کا موقع ہے نہ سوال کرنے کا۔ آج کوئی طاقت تیرا
بچاؤ نہیں کرسکتی، نہ پناہ دے سکتی ہے۔ آج کے دن سب کو اپنے پروردگار کی عدالت
میں حاضر ہونا اور اسی کی پیشی میں ٹھہرنا ہے پھر وہ جس کے حق میں جو کچھ فیصلہ
کرے۔
|
يُنَبَّؤُا۟ الإِنسٰنُ يَومَئِذٍ
بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ {75:13}
|
جتلا
دیں گے انسان کو اُس دن جو اُس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا [۱۰]
|
اس
دن انسان کو جو (عمل) اس نے آگے بھیجے اور پیچھے چھوڑے ہوں گے سب بتا دیئے جائیں
گے
|
یعنی سب اگلے پچھلے اعمال نیک
ہوں یا بد، اس کو جتلا دیئے جائیں گے۔
|
بَلِ الإِنسٰنُ عَلىٰ
نَفسِهِ بَصيرَةٌ {75:14}
|
بلکہ
آدمی اپنے واسطے آپ دلیل ہے
|
بلکہ
انسان آپ اپنا گواہ ہے
|
وَلَو أَلقىٰ مَعاذيرَهُ
{75:15}
|
اور
پڑالا ڈالے اپنے بہانے [۱۱]
|
اگرچہ
عذر ومعذرت کرتا رہے
|
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں
" یعنی اپنے احوال میں غور کرے تو رب کی وحدانیت جانے (اور یہ کہ سب کو اسی
کی طرف لوٹ کر جانا ہے) اور جو کہے میری سمجھ میں نہیں آتا، یہ سب بہانے
ہیں" لیکن اکثر مفسّرین نے اس کا تعلق { یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ
یَوْمَئِذٍ } الخ سے رکھا ہے یعنی جتلانے پر بھی موقوف نہیں۔ انسان اپنی حالت پر
خود مطلع ہوگا گو باقتضائے طبیعت وہاں بھی بہانے بنائے اور حیلے حوالے پیش لائے
جیسے کفار کہیں گے { واللہ ربنا ماکنا مشرکین } بلکہ یہاں دنیا میں بھی وہ انسان
جس کا ضمیر بالکل مسخ نہ ہوگیا ہو اپنی حالت کو خوب سمجھتا ہے۔ گو دوسروں کے
سامنے حیلے بہانے بنا کر اسکے خلاف ثابت کرنے کی کتنی ہی کوشش کرے۔
|
لا تُحَرِّك بِهِ لِسانَكَ
لِتَعجَلَ بِهِ {75:16}
|
نہ
چلا تو اُسکے پڑھنے پر اپنی زبان تاکہ جلدی اُسکو سیکھ لے
|
اور
(اے محمدﷺ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو
جلد یاد کرلو
|
إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ
وَقُرءانَهُ {75:17}
|
وہ
تو ہمارا ذمہ ہے اُسکو جمع رکھنا تیرے سینہ میں اور پڑھنا تیری زبان سے
|
اس
کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے
|
فَإِذا قَرَأنٰهُ فَاتَّبِع
قُرءانَهُ {75:18}
|
پھر
جب ہم پڑھنے لگیں فرشتہ کی زبانی تو ساتھ رہ اُسکے پڑھنے کے
|
جب
ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو
|
ثُمَّ إِنَّ عَلَينا
بَيانَهُ {75:19}
|
پھر
مقرر ہمارا ذمہ ہے اُسکو کھول کر بتلانا [۱۲]
|
پھر
اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے
|
شروع میں جس وقت حضرت جبرئیلؑ
اللہ کی طرف سے قرآن لاتے، ان کے پڑھنے کے ساتھ حضرت ﷺ بھی دل میں پڑھتے جاتے تھے۔ تاکہ جلد اسے یاد کر لیں اور سیکھ لیں۔
مبادا جبرئیلؑ چلے جائیں اور وحی پوری طرح محفوظ نہ ہو سکے۔ مگر اس صورت میں آپ
کو سخت مشقت ہوتی تھی۔ جب تک پہلا لفظ کہیں اگلا سننے میں نہ آتا۔ اور سمجھنے
میں بھی ظاہر ہے دقت پیش آتی ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت پڑھنے
اور زبان ہلانے کی حاجت نہیں ہمہ تن متوجہ ہو کر سننا ہی چاہیئے۔ یہ فکر مت کرو
کہ یاد نہیں رہیگا۔ پھر کیسے پڑھونگا۔ اور لوگوں کو کس طرح سناؤ نگا۔ اس کا
تمہارے سینے میں حرف بحرف جمع کر دینا اور تمہاری زبان سے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔
جبرئیلؑ جس وقت ہماری طرف سے پڑھیں آپ تو خاموشی سے سنتے رہیئے۔ آگے اس کا یاد
کرانا اور اس کے علوم و معارف کا تمہارے اوپر کھولنا اور تمہاری زبان سے دوسروں
تک پہنچانا، ان سب باتوں کے ہم ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد حضورﷺ نے جبرئیلؑ کے ساتھ ساتھ پڑھنا ترک کر دیا۔ یہ بھی
ایک معجزہ ہوا، کہ ساری وحی سنتے رہے اس وقت زبان سے ایک لفظ نہ دھرایا۔ لیکن
فرشتے کے جانے کے بعد پوری وحی لفظ بہ لفظ کامل ترتیب کے ساتھ بدون ایک زبر زیر
کی تبدیلی کے فر فر سنا دی اور سمجھا دی، یہ اس دنیا میں ایک چھوٹا سا نمونہ ہوا
{ یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍبِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ } کا یعنی جس طرح
اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنی وحی فرشتے کے چلے جانے کے بعد پوری ترتیب کے
ساتھ حرف بحرف بدون ادنیٰ فروگذاشت کے اپنے پیغمبر کے سینے میں جمع کر دے، کیا
اس پر قادر نہیں کہ بندوں کے اگلے اور پچھلے اعمال جن میں سے بعض کو کرنیوالا
بھی بھول گیا ہوگا سب جمع کرکے ایک وقت میں سامنے کر دے اور ان کو خوب طرح یاد
دلا دے۔ اور اسی طرح ہڈیوں کے منتشر ذرات کو سب جگہ سے اکٹھا کر کے ٹھیک پہلی
ترتیب پر انسان کو ازسر نو وجود عطا فرما دے۔ بیشک وہ اس پر اور اس سے کہیں
زیادہ پر قادر ہے۔
|
كَلّا بَل تُحِبّونَ
العاجِلَةَ {75:20}
|
کوئی
نہیں پر تم چاہتے ہو جو جلد آئے
|
مگر
(لوگو) تم دنیا کو دوست رکھتے ہو
|
وَتَذَرونَ الءاخِرَةَ
{75:21}
|
اور
چھوڑتے ہو جو دیر میں آئے [۱۳]
|
اور
آخرت کو ترک کئے دیتے ہو
|
یعنی تمہار ا قیامت وغیرہ سے
انکار کرنا ہر گز کسی دلیل صحیح پر مبنی نہیں، بلکہ دنیا میں انہماک اس کا سبب
ہے۔ دنیا چونکہ نقد اور جلد ملنے والی چیز ہے اسی کو تم چاہتے ہو اور آخرت کو
ادھار سمجھ کر چھوڑتے ہو کہ اس کے ملنے میں ابھی دیر ہے۔ انسان کی طبیعت میں جلد
بازی داخل ہے { خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ } (انبیاء رکوع۳) فرق اتنا ہے کہ نیک لوگ
پسندیدہ چیزوں کے حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں جس کی ایک مثال ابھی {
لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانِکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ } میں گزری اور بدتمیز آدمی اس چیز
کو پسند کرتے ہیں جو جلد ہاتھ آجائے خواہ آخر کار اس کا نتیجہ ہلاکت ہی کیوں نہ
ہو۔
|
وُجوهٌ يَومَئِذٍ ناضِرَةٌ
{75:22}
|
کتنے
منہ اس دن تازہ ہیں
|
اس
روز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے
|
إِلىٰ رَبِّها ناظِرَةٌ
{75:23}
|
اپنے
رب کی طرف دیکھنے والے [۱۴]
|
اور)
اپنے پروردگار کے محو دیدار ہوں گے
|
یہ آخرت کا بیان ہوا یعنی
مومنین کے چہرے اس روز تروتازہ اور ہشاش بشاش ہونگے۔ اور ان کی آنکھیں محبوب
حقیقی کے دیدار مبارک سے روشن ہونگی۔ قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے یقینی طور
پر معلوم ہوچکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ گمراہ لوگ اس کے منکر
ہیں کیونکہ یہ دولت ان کے نصیب میں نہیں۔ { اللّٰہم لاتحرمنا من ہذہ النعمۃ التی
لیس فوقہا نعمۃ }۔
|
وَوُجوهٌ يَومَئِذٍ
باسِرَةٌ {75:24}
|
اور
کتنے منہ اُس دن اداس ہیں [۱۵]
|
اور
بہت سے منہ اس دن اداس ہوں گے
|
یعنی پریشان اور بے رونق
ہونگے۔
|
تَظُنُّ أَن يُفعَلَ بِها
فاقِرَةٌ {75:25}
|
خیال
کرتے ہیں کہ اُن پر وہ آئے جس سے ٹوٹے کمر [۱۶]
|
خیال
کریں گے کہ ان پر مصیبت واقع ہونے کو ہے
|
یعنی یقین رکھتے ہیں کہ اب وہ
معاملہ ہونیوالا ہے اور وہ عذاب بھگتنا ہے جو بالکل ہی کمر توڑ دیگا۔
|
كَلّا إِذا بَلَغَتِ
التَّراقِىَ {75:26}
|
ہرگز
نہیں جس وقت جان پہنچے ہانس تک [۱۷]
|
دیکھو
جب جان گلے تک پہنچ جائے
|
یعنی آخرت کو ہرگز دور مت
سمجھو۔ اس سفر آخرت کی پہلی منزل تو موت ہے جو بالکل قریب ہے یہیں سے باقی
منزلیں طے کرتے ہوئے آخری ٹھکانے پر جا پہنچو گے۔ گویا ہر آدمی کی موت اس کے حق
میں بڑی قیامت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ جہاں مریض کی روح سمٹ کر ہنسلی تک
پہنچی اور سانس حلق میں رکنے لگی سمجھو کہ سفر آخرت شروع ہو گیا۔
|
وَقيلَ مَن ۜ راقٍ {75:27}
|
اور
لوگ کہیں کون ہے جھاڑنے والا [۱۸]
|
اور
لوگ کہنے لگیں (اس وقت) کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے
|
ایسی مایوسی کے وقت طبیبوں
اور ڈاکٹروں کی کچھ نہیں چلتی جب لوگ ظاہری علاج و تدبیر سے عاجز آجاتے ہیں تو
جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کی سوجھتی ہے۔ کہتے ہیں کہ میاں کوئی ایسا شخص ہے جو
جھاڑ پھونک کر کے اس کو مرنے سے بچا لے اور بعحض سلف نے کہا کہ { مَنْ رَاقٍ }
فرشتوں کاکلام ہے جو ملک الموت کے ساتھ روح قبض کرنے کے وقت آتے ہیں وہ آپس میں
پوچھتے ہیں کہ کون اس مردے کی روح کو لے جائیگا رحمت کے فرشتے یا عذاب کے؟ اس
تقریر پر "راقی" سے مشتق ہوگا جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں۔
"رقیہ" سے نہ ہوگا۔ جو افسوں کے معنی میں ہے۔
|
وَظَنَّ أَنَّهُ الفِراقُ
{75:28}
|
اور
وہ سمجھا کہ اب آیا وقت جدائی کا [۱۹]
|
اور
اس (جان بلب) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے
|
یعنی مرنیوالا سمجھ چکا کہ
تمام عزیز و اقارب اور محبوب ومالوف چیزوں سے اب اسکو جدا ہونا ہے یا یہ مطلب کہ
روح بدن سے جدا ہونے والی ہے۔
|
وَالتَفَّتِ السّاقُ
بِالسّاقِ {75:29}
|
اور
لپٹ گئ پنڈلی پر پنڈلی [۲۰]
|
اور
پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے
|
یعنی بعض اوقات سکرات موت کی
سختی سے ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ لپٹ جاتی ہے۔ نیز نیچے کے بدن سے روح کا
تعلق منقطع ہونے کے بعد پنڈلیوں کا ہلانا اور ایک کو دوسرے سے جدا رکھنا اس کے
اختیار میں نہیں رہتا۔ اس لئے ایک پنڈلی دوسری پر بے اختیار جاگرتی ہے۔ اور بعض
سلف نے کہا کہ عرب کے محاورات میں "ساق" کنایہ ہے سخت مصیبت سے۔ تو
آیت کا ترجمہ یوں کیا جائے گا کہ "ملی ایک سختی دوسری سختی کے ساتھ"
کیونکہ مرنے والے کو اس وقت دو سختیاں پیش آتی ہیں۔ پہلی سختی تو یہی دنیا سے
جانا، مال و اسباب، اہل و عیال، جاہ وحشم، سب کو چھوڑنا دشمنوں کی خوشی و طعنہ
زنی، اور دوستوں کے رنج و غم کا خیال آنا، اور دوسری اس سے بڑی قبر اور آخرت کے
احوال کی ہے۔ جس کی کیفیت بیان میں نہیں آسکتی۔
|
إِلىٰ رَبِّكَ يَومَئِذٍ
المَساقُ {75:30}
|
تیرے
رب کی طرف ہے اُس دن کھنچ کر چلا جانا [۲۱]
|
اس
دن تجھ کو اپنے پروردگار کی طرف چلنا ہے
|
یعنی سفر آخرت کی ابتداء یہاں
سے ہے۔ گویا اب بندہ اپنے رب کی طرف کھنچنا شروع ہوا۔ مگر افسوس اپنی غفلت و
حماقت سے کوئی سامان سفر کا پہلے سے درست نہ کیا نہ اتنے بڑے سفر کے لئے کوئی
توشہ ساتھ لیا۔
|
فَلا صَدَّقَ وَلا صَلّىٰ
{75:31}
|
پھر
نہ یقین لایا اور نہ نماز پڑھی
|
تو
اس (ناعاقبت) اندیش نے نہ تو (کلام خدا) کی تصدیق کی نہ نماز پڑھی
|
وَلٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلّىٰ
{75:32}
|
پھر
جھٹلایا اور منہ موڑا
|
بلکہ
جھٹلایا اور منہ پھیر لیا
|
ثُمَّ ذَهَبَ إِلىٰ أَهلِهِ
يَتَمَطّىٰ {75:33}
|
پھر
گیا اپنے گھر کو اکڑتا ہوا [۲۲]
|
پھر
اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا
|
یعنی بجائے سچا سمجھنے اور
یقین لانے کے پیغمبروں کو جھوٹا بتلاتا رہا، اور بجائے نماز پڑھنے اور مالک کی
طرف متوجہ ہونے کے ہمشہ ادھر سے منہ موڑ کر چلا۔ نہ صرف یہی بلکہ اپنی اس سرکشی
اور بدبختی پر اتراتا اور اکڑتا ہوا اپنے متعلقین کے پاس جاتا تھا۔ گویا کوئی
بہت بڑی بہادری اور ہنر مندی کاکام کر کے آرہا ہے۔
|
أَولىٰ لَكَ فَأَولىٰ
{75:34}
|
خرابی
تیری خرابی پر خرابی تیری
|
افسوس
ہے تجھ پر پھر افسوس ہے
|
ثُمَّ أَولىٰ لَكَ فَأَولىٰ
{75:35}
|
پھر
خرابی تیری خرابی پر خرابی تیری [۲۳]
|
پھر
افسوس ہے تجھ پر پھر افسوس ہے
|
یعنی او بدبخت اب تیری کمبختی
آئی، ایک مرتبہ نہیں کئ مرتبہ اب تیرے لئے خرابی اور تباہی پر تباہی ہے۔ تجھ سے
بڑھ کر اللہ کی نئی نئی سزاؤں کا مستحق اور کون ہوگا۔ (تنبیہ) شاید اوّل خرابی
یقین نہ لانے اور نماز نہ پڑھنے پر، دوسری اس سے بڑھ کر جھٹلانے اور منہ موڑنے
پر، تیسری اور چوتھی ان دونوں امور میں سے ہر ایک کو قابل فخر سمجھنے پر ہو۔ جس
کی طرف { ثُمَّ ذَھَبَ اِلٰٓی اَھْلِہٖ یَتَمَطّٰی } میں اشارہ ہے۔ واللہ اعلم۔
|
أَيَحسَبُ الإِنسٰنُ أَن
يُترَكَ سُدًى {75:36}
|
کیا
خیال رکھتا ہے آدمی کہ چھوٹا رہے گا بے قید [۲۴]
|
کیا
انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟
|
یعنی کیا آدمی یہ سمجھتا ہے
کہ اس کو یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ اور امرونہی کی کوئی قید اس پر نہ ہوگی؟
یا مرے پیچھے اٹھایا نہ جائے گا؟ اور سب نیک و بد کا حساب نہ لیں گے؟
|
أَلَم يَكُ نُطفَةً مِن
مَنِىٍّ يُمنىٰ {75:37}
|
بھلا
نہ تھا وہ ایک بوند منی کی جو ٹپکی [۲۵]
|
کیا
وہ منی کا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟
|
یعنی عورت کے رحم میں۔
|
ثُمَّ كانَ عَلَقَةً
فَخَلَقَ فَسَوّىٰ {75:38}
|
پھر
تھا لہو جما ہوا پھر اُس نے بنایا اور ٹھیک کر اٹھایا
|
پھر
لوتھڑا ہوا پھر (خدا نے) اس کو بنایا پھر (اس کے اعضا کو) درست کیا
|
فَجَعَلَ مِنهُ الزَّوجَينِ
الذَّكَرَ وَالأُنثىٰ {75:39}
|
پھر
کیا اُس میں جوڑا نر اور مادہ
|
پھر
اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت
|
أَلَيسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ
عَلىٰ أَن يُحۦِىَ المَوتىٰ {75:40}
|
کیا
یہ خدا زندہ نہیں کر سکتا مردوں کو [۲۶]
|
کیا
اس خالق کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اُٹھائے؟
|
یعنی نطفہ سے جمے ہوئے خون کی
شکل میں آیا۔ پھر اللہ نے اس کی پیدائش کے سب مراتب پورے کر کے انسان بنا دیا
اور تمام ظاہری اعضاء اور باطنی قوتیں ٹھیک کر دیں۔ ایک نطفہ بیجان سے انسان
عاقل بن گیا۔ پھر اسی نطفہ سے عورت اور مرد دوقسم کے آدمی پیدا کئے۔ جن میں سے
ہر ایک قسم کی ظاہری و باطنی خصوصیات جداگانہ ہیں۔ کیا وہ قادر مطلق جس نے اولًا
سب کو ایسی حکمت وقدرت سے بنایا، اس پر قادر نہیں کہ دوبارہ زندہ ک ردے؟ {
سبحانک اللّٰھم فبلٰی }۔ پاک ہے تیری ذات اے خدا! کیوں نہیں، تو بیشک قادر ہے۔
تم سورۃ القیٰمۃ وللہ الحمد والمنہ۔
|
تمہید: علم اللہ کی معرفت سے متعلق اور معلومات مخلوق سے متعلق ہے۔ علم سے للہیت وروحانیت آتی ہے اور صرف معلومات سے مادیت پرستی پیدا ہوتی ہے۔
وَالعَصرِ {103:1}
|
قسم ہے عصر کی [۱]
|
عصر کی قسم
|
"عصر" زمانہ کو کہتے ہیں یعنی قسم ہے زمانہ کی جس میں انسان کی عمر بھی داخل ہے جسے تحصیل کمالات و سعادات کے لئے ایک متاع گراں ما یہ سمجھنا چاہیے۔ یا قسم ہے نماز عصر کے وقت کی جو کاروباری دنیا میں خاص مشغولیت اور شرعی نقطہ نظر سے نہایت فضیلت کا وقت ہے (حتّٰی کہ حضور ﷺ نے حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئ گویا اس کا سب گھر بار لٹ گیا) یا قسم ہے ہمارے پیغمبر کے زمانہ مبارک کی جس میں رسالت عظمٰی اور خلافت کبریٰ کا نور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا۔
|
إِنَّ الإِنسٰنَ لَفى خُسرٍ {103:2}
|
مقرر انسان ٹوٹے میں ہے [۲]
|
کہ انسان نقصان میں ہے
|
اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہو گا کہ برف بیچنے والے دوکاندار کی طرح اس کی تجارت کا ر اس المال جسے عمر عزیز کہتے ہیں، دم بدم کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر اس رواروی میں کوئی ایسا کام نہ کر لیا جس سے یہ عمر رفتہ ٹھکانے لگ جائے، بلکہ ایک ابدی اور غیرفانی متاع بن کر ہمیشہ کے لئے کارآمد بن جائے تو پھر خسارہ کی کوئی انتہا نہیں۔ زمانہ کی تاریخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ادنیٰ غوروفکر سے ثابت ہو جائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پروا ہو کر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخر کس طرح ناکام و نامراد بلکہ تباہ برباد ہو کر رہے۔ زندگی کی قدروقیمت: آدمی کو چاہیئے کہ وقت کی قدر پہچانے اور عمر عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت و شرارت یا لہوولہب میں نہ گنوائے جو اوقات تحصیل شرف و مجد اور اکتساب فضل و کمال کی گرم بازاری کے ہیں، خصوصًا وہ گراں ما یہ اوقات جن میں آفتاب رسالت اپنی انتہائی نور افشانی سے دنیا کو روشن کر رہا ہے، اگر غفلت و نسیان میں گزار دیے گئے تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لئے کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔ بس خوش نصیب اور اقبال مند انسان وہی ہیں جو اس عمر فانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کارآمد بنانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور بہترین اوقات اور عمدہ مواقع کو غنیمت سمجھ کر کسب سعادت اور تحصیل کمال کی کوشش میں سرگرم رہتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر آگے { اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } میں کیا گیا ہے۔
|
إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ {103:3}
|
مگر جو لوگ کہ یقین لائے اور کئے بھلے کام اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی اور آپس میں تاکید کرتے رہے تحمل کی [۳]
|
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے
|
یعنی انسان کو خسارہ سے بچنے کے لئے چارباتوں کی ضرورت ہے۔ اوّل خدا و رسول پر ایمان لائے اور ان کی ہدایات اور وعدوں پر خواہ دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے پورا یقین رکھے۔ دوسرے اس یقین کا اثر محض قلب و دماغ تک محدود نہ رہے بلکہ جوارح میں ظاہر ہو، اور اس کی عملی زندگی اس کے ایمان قلبی کا آئینہ ہو۔ تیسرے محض اپنی انفرادی صلاح وفلاح پر قناعت نہ کرے بلکہ قوم و ملّت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھے۔ جب دو مسلمان ملیں ایک دوسرے کو اپنے قول و فعل سے سچے دین اور ہر معاملہ میں سچائی اختیار کرنے کی تاکید کرتے رہیں۔ چوتھے ہر ایک کو دوسرے کی یہ نصیحت و وصیت رہے کہ حق کے معاملہ میں اور شخصی و قومی اصلاح کے راستہ میں جس قدر سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں یا خلافِ طبع امور کا تحمل کرنا پڑے، پورے صبر و استقامت سے تحمل کریں، ہر گز قدم نیکی کے راستہ سے ڈگمگانے نہ پائے۔ خوش قسمت حضرات ان چار اوصاف کے جامع ہونگے اور خود کامل ہو کر دوسروں کی تکمیل کریں گے ان کا نام صفحات دہر پر زندہ جاوید رہیگا۔ اور جو آثار چھوڑ کر دنیا سے جائیں گے وہ بطور باقیات صالحات ہمیشہ ان کے اجر کو بڑھاتے رہیں گے۔ سورۃ عصر کی فضیلت: فی الحقیقت یہ چھوٹی سی سورت سارے دین و حکمت کا خلاصہ ہے۔ امام شافعیؒ نے سچ فرمایا کہ اگر قرآن میں سے صرف یہی ایک سورت نازل کر دی جاتی تو (سمجھدار بندوں کی) ہدایت کے لئے کافی تھی۔ بزرگان سلف میں جب دو مسلمان آپس میں ملتے تھے، جدا ہونے سے پہلے ایک دوسرے کو یہ سورت سنایا کرتے تھے۔
|
انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ اور اُمّت مسلمہ کی ذمہ داری
| ||||||
الحمدلله الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا الله لقد جاء ت رسل ربنا بالحق․ ہم سب خدا پرستوں کا عقیدہ ہے کہ اس ساری دنیا کو ایک الله نے پیدا کیا ہے او روہی دنیا کے اس کارخانہ کو چلا رہا ہے اور ہم آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس پور ی کائنات میں اور اس سارے سنسار میں انسان کو الله نے وہ صلاحیتیں دی ہیں اور وہ طاقتیں بخشی ہیں جو دوسری مخلوقات کو نہیں دی گئی ہیں ، اس میں جو ترقیاں او رجو نئی نئی ایجادیں ہو رہی ہیں وہ سب انسان ہی کی قابلیت او رانسان ہی کی ترقی پسند ی کا نتیجہ ہیں۔ انسان کو ترقی کرنے او ربڑھنے کی جو صلاحیت اور قابلیت دی گئی ہے اس کے ذریعہ وہ نیکی اور بھلائی میں بھی ترقی کر سکتا ہے او راسی طرح بدی او ربرائی میں بھی ۔ وہ اگر اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو نیکی کے راستہ پر لگائے تو ایسے بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے اور وہ مرتبے حاصل کر سکتا ہے جہاں فرشتوں کی بھی رسائی نہیں اور اگر اپنی اسی طاقت اور قابلیت کو وہ برائی کے راستہ پر لگائے او راس کے ذریعہ بدی اور شرارت میں ترقی کرے تو ایسا شریر اور موذی بن سکتا ہے کہ سانپ بچھو اور بھیڑیے اور چیتے بھی اس سے پیچھے رہ جائیں۔ الله تعالیٰ نے نبوت او رپیغمبری کا سلسلہ اسی لیے جاری فرمایا اور مختلف زبانوں او رمختلف ملکوں او رقوموں میں ہزاروں رسول اور پیغمبر اسی واسطے بھیجے کہ وہ انسان کو نیک بن کر دنیا میں رہنے اور نیکی کے راستہ پر اپنی طاقت صرف کرنے کا طریقہ بتلائیں اور اپنی تعلیم وتربیت سے ان کو نیک اورصالح بنا کر فرشتوں سے بھی آگے بڑھائیں۔ انبیاء علیہم السلام کی تاریخ سے ہم نے جوکچھ سمجھا او رجانا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانوں کو وہ زندگی کے تین بنیادی اصول دیتے ہیں اور ان ہی اصولوں کی بنیاد پر وہ پوری زندگی کی تنظیم اور تشکیل کرتے ہیں ، یعنی یہ بنیادی اصول جن کاموں کے کرنے کا تقاضا کرتے ہیں وہ حضرات اپنے ماننے والوں کو ان کے کرنے کا حکم دیتے ہیں اورجن چیزوں سے بچنے او رجن باتوں کو چھوڑنے کا تقاضا کرتے ہیں وہ ان سے منع کرتے ہیں۔ ان میں پہلا بنیادی اصول وہ یہ دیتے ہیں کہ انسان اس پر یقین کرے اور دل سے اس کو مانے کہ میرا او رساری دنیا کا بس ایک خالق اور رب ہے ، وہی دنیا کے اس پورے کارخانے کو بلاشرکت غیر ے چلا رہا ہے اور اس پوری کائنات کی ہر چیز صرف اسی کے قبضہ اور اختیار میں ہے، جس کو جو چاہے دے او رجس سے جو چاہے لے ، موت اور زندگی ، بیماری اور تندرستی، رزق کی فراخی اور تنگی ، خوش حالی اور بد حالی سب اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے حکم سے آتی او رجاتی ہے، اس لیے بس وہی عبادت کا مستحق ہے او راس کو راضی کرنا اور زندگی کے سارے معاملات میں اس کی مرضیات پر چلنا اور اس کا حکم ماننا انسان کا سب سے اہم فرض ہے۔ یہ سب سے پہلا اصول ہے جو انبیاء علیہم السلام انسانوں کو زندگی کی بنیاد کے طور پر دیتے ہیں اور ہدایت کرتے ہیں کہ زندگی کے سارے معاملات میں اس اصول کو ملحوظ رکھا جائے او رجو کچھ سوچا جائے اسی کی روشنی میں سوچا جائے اورجو کچھ کیا جائے اس کی بنیاد پر اور اس کے تقاضے کے مطابق کیا جائے ۔ دوسرا اصول وہ یہ دیتے ہیں کہ انسان اس کا یقین کرے اور دل سے اس کو حق اور یقیناً ہونے والا واقعہ مانے کہ اس زندگی میں وہ جو اچھے بُرے عمل کرے گا مرنے کے بعد والی زندگی میں وہ ضرور اس کی جزا اورسزا پائے گا، اگر وہ اچھے اور نیک اعمال کرے گا اور زندگی اچھے طریقے اور اپنے پیداکرنے والے کے حکموں کے مطابق گزار کے جائے گا تو مرنے کے بعد وہ بڑی لذت او رمسرت والی زندگی پائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کی لذتیں او رمسرتیں حاصل کرے گا اور اگر وہ غلط طریقہ پر زندگی گزار کے اور الله کی نافرمانیاں اور بندوں کی حق تلفیاں کرکے اس دنیا سے جائے گا تو اگلی دنیامیں اسے بڑے سخت دکھ اٹھانا پڑیں گے اور وہاں اس کی زندگی بڑی ذلتوں او رمصیبتوں والی زندگی ہو گی اور وہاں کی وہ ذلتیں اور مصیبتیں اس دنیا کی بڑی سے بڑی ذلتوں اور مصیبتوں سے بھی ہزاروں لاکھوں گنا بڑی ہوں گی۔ تو انسانوں کی زندگی کے لیے دوسرا بنیادی اصول انبیا علیہم السلام یہ دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد کی جزا اور سزا پر یقین رکھتے ہوئے اور اسکا دھیان وفکر کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔ تیسرا بنیادی اصول انبیاء علیہم السلام یہ دیتے ہیں کہ انسان ہمیشہ اس حقیقت کو نظر کے سامنے رکھے اور کبھی اس سے غافل نہ ہو کہ اس کی دو جہتیں ہیں، یعنی خود اس کی زندگی میں دو پہلو او ردو رُخ ہیں ایک مادیت کا اور ایک روحانیت کا اور ان دونوں کے تقاضے باہم بہت مختلف ہیں ، ہماری مادیت کی بعض خواہشیں وہ ہیں جو روحانیت کے لیے زہر ہیں او رروحانیت کے بعض تقاضے وہ ہیں جو مادی خواہشوں کے سرا سر خلاف ہیں تو انبیاء علیہم السلام انسانی زندگی کا ایک بنیادی اصول یہ قرار دیتے ہیں کہ مادیت کو اورمادی خواہشات کو ہماری روحانیت پر غالب آنے او راس کو دبانے کا موقع نہ دیا جائے بلکہ روحانیت کو غالب رکھ کر طبیعت کے مادی تقاضوں کو اس کا ماتحت اور تابع بنایا جائے۔ الله کے جو پیغمبر بھی جب کبھی جس ملک میں اور جس قوم میں آئے اگر ان کی تعلیم او ران کے کام کے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنے کا ہمارے آپ کے پاس کوئی ذریعہ ہو تو اس ذریعہ سے جو معلومات حاصل ہوں گی وہ یہی بتلائیں گی کہ انہوں نے زندگی کا جو نقشہ اور جو نظام الله تعالیٰ کی طرف سے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا تھا اس کی بنیاد ان ہی اصولوں پر تھی۔ پھر انسان جب ان سچے اصولوں کو مان لے تو اسے آپ سے آپ ضرورت محسوس ہو گی کہ وہ معلوم کرے کہ میں الله کی عبادت کس طرح کروں اور زندگی کے بارے میں اس کے کیا احکام ہیں، جن کی میں فرماں برداری کروں اور وہ کیا اعمال ہیں جن کو کرکے میں الله تعالیٰ کی رضا مند ی اور مرنے کے بعد لذت ومسرت والی دائمی زندگی حاصل کرسکتا ہوں اور وہ کون سے اعمال ہیں جن کو خدا نخواستہ اگر میں نے کیاتو مرنے کے بعد مجھے بے انتہا ذلتیں اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی اور وہ کون سا طریقہ ہے جس پر چل کر میری روحانی ترقی ہوتی رہے اور مادیت کو روحانیت پر غالب آکر اس کا گلا گھونٹنے کا موقع نہ ملے؟ اس لیے انبیاء علیہم السلام ان بنیادی اصولوں کے ساتھ انسانی زندگی کے متعلق الله تعالیٰ کی طرف سے تفصیلی ہدایات بھی لاتے ہیں او ربتلاتے ہیں کہ تم کو یہ یہ کام کرنے ہیں اور یہ یہ باتیں چھوڑنی ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ الله کے جو رسول اور پیغمبر جب کبھی کسی ملک اور کسی قوم میں آئے وہ اس سلسلہ کی ضروری ہدایتیں بھی الله تعالیٰ کی طرف سے لائے او رجن لوگوں نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروی قبول کی، ان کی تعلیم وتربیت ان نبیوں نے ان ہی اصولوں او ران ہی ہدایات کے مطابق کی او رپھر انہیں وہ ترقیاں حاصل ہوئیں اور وہ کمالات نصیب ہوئے کہ فرشتوں نے ان پر رشک کیا اور الله کے وہ پیارے ہو گئے اور مرنے کے بعد ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ انہوں نے کیا کچھ پایا۔ اور جن لوگوں نے پیغمبروں کے لائے ہوئے ان اصولوں کو اور زندگی کے بارہ میں ان کی ہدایات کو نہیں مانا او رنہیں اپنایا اور خدا کی ہدایات اور مرنے کے بعد کی جزا اور سزا کی فکر اور روحانیت کی تکمیل وترقی سے بے پروا ہو کر جنہوں نے اپنی اغراض وخواہشات او رہویٰ وہوس ہی کو زندگی کا منتہا اورنصب العین بنالیا ، ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں ہوا کہ وہ انسان نما درندے یا شکل آدم میں شیطان یا کم ازکم ایک ترقی یافتہ حیوان بن گئے ہیں۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ اس وقت دنیا ایسے ہی انسان نما حیوانوں اور آدم صورت شیطانوں سے بھری ہوئی ہے ۔ خدا اور مذہب اور آخرت کا انکار کرنے والے تو اگرچہ اب بھی بہت کم ہیں، لیکن زندگی کے بارے میں انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے اصول او ران کی ہدایات وتعلیمات سے بے پروا ہو کر اور خدا کے احکام اور آخرت کی جزا اور سزا او رروحانیت کے تقاضوں سے بے فکر ہو کر خدا ومذہب کے منکروں کی سی زندگی گزارنے والوں سے ہماری یہ دنیا بھری ہوئی ہے او راس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی خداداد قابلیت سے صرف حیوانیت میں اور درندگی میں ترقی کر رہے ہیں او رروحانی کمالات سے روز بروز خالی اور دیوالیے ہوتے جارہے ہیں۔ حضرات! آپ اگر عقل سلیم اور انصاف سے کام لے کر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس وقت انسانی دنیا جن مصیبتوں میں مبتلا ہے اور تباہی وبربادی کے جو سخت خطرے اس وقت ساری دنیا پر منڈلارہے ہیں جن کا خیال کرکرکے تمام یورپ وایشیا والے سمجھتے جارہے ہیں یہ سب اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری اس دنیا نے انبیاء علیہم السلام کا لایا ہوا انسانی اور روحانی طریقہٴ زندگی چھوڑ کر اور خدا اور آخرت اور روح کے تقاضوں کو بالکل پس پشت ڈال کر شیطان کا بتلایا اور سکھایا ہوا حیوانی اور خالص مادی طریقہٴ زندگی اختیار کر لیا ہے ۔ کم از کم اجتماعی اور قومی معاملات میں تو ہم خدا اور آخرت اور روحانیت کو بالکل بھلا چکے ہیں اور خیر یورپ والوں نے اگر یہ مادہ پرستانہ طرز زندگی اختیار کیا تھا تو کیا تھا۔ ان کی اندھی تقلید میں ہم ایشیا والے بھی اسی راستہ پر چل پڑے ہیں،حالاں کہ ایشیا کی سر زمین نبیوں، رسولوں کی سر زمین ہے۔ آج حماقت او رجہالت سے یورپ کی اس اندھی تقلید کو ترقی سمجھا جارہا ہے، حالاں کہ میں نے جیساکہ ابھی عرض کیا تھا یہ صرف حیوانیت میں، شیطانیت میں اوردرندگی میں ترقی ہے ۔ او راگر یہ ترقی یوں ہی ہوتی رہی اور انبیاء علیہم السلام کے انسانیت اور روحانیت اور عبدیت کے اصولوں کو پھر سے نہیں اپنایا گیا تو اس خدا فراموش اور آخرت سے بے پروا دنیا کے سامنے شاید جلدی ہی اس کا انجام آجائے گا اور تیسری جنگ عظیم اگر برپا ہوئی تو جو اس سے بچ جائیں گے وہ دیکھ لیں گے کہ خدا اور اس کی ہدایت سے بے تعلق ہو کر اور آخرت کو بُھلا کر ترقی کرنے والوں کا او ران کی ترقیوں کا حشر کیا ہوا کرتا ہے ۔﴿ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون﴾․ حضرات! ہمارے سامنے یہی مسئلہ ہے او رہم اسی کو انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں ۔ ہماری دعوت او رہمارا پیام اپنے کو اور آپ سب حضرات کو بھی بس یہی ہے کہ الله کے نبیوں اور رسولوں کے بتلائے ہوئے ان اصولوں کو ہم پھر سے زندگی کی بنیاد بنائیں جو انسان کو خدا کا اچھا بندہ او راچھا آدمی بناتے ہیں اور مادہ پرستی او رخدا فراموشی کے ان طور طریقوں کو چھوڑیں جنہوں نے ہماری زندگی کو حیوانی اور شیطانی زندگی بنا کر پوری انسانی دنیا کو جہنم کے کنارے پر کھڑا کر دیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ آج سڑکوں او رگلی کوچوں کی صفائی کا مسئلہ قابل فکر ہے ، گندی نالیوں کی دھلائی کا مسئلہ فکر کے قابل ہے ، مچھروں اور مکھیوں اور چوہوں کو مارنے اور کم کرنے کے لیے لمبی لمبی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں اوران کاموں پر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا وقت اور کڑوروں روپیہ صرف ہوتا ہے ، لیکن آدمیوں میں سے درندگی او رحیوانیت کی تباہ کن صفات نکالنے اور ان کو اچھا آدمی اور الله کا اچھا بندہ بنانے کی طرف بالکل توجہ نہیں کی جاتی ۔ میرے نزدیک تویہ اسی کا عذاب ہے کہ ہمارا کوئی مسئلہ سلجھنے میں نہیں آتا او راگر برسوں کی محنت اور اربوں روپے کے خرچ کے بعد کوئی ایک مسئلہ کچھ قابو میں آتا ہے تو چار اور الجھ جاتے ہیں، ابھی گزشتہ ہفتہ کے اخباروں میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ صرف غذا کے مسئلہ پر اب تک بے تحاشہ روپیہ صرف ہو چکا ہے اورمسئلہ کی مشکلیں جوں کی توں ہیں۔ بعض علاقوں میں پانی کی کمی ہو رہی ہے او رکنوئیں سوکھ رہے ہیں اور ڈر ہے کہ بھوک کے عذاب سے پہلے، بہت سے آدمی او رجانور کہیں پانی نہ ملنے کے اس عذاب سے موت کا شکار نہ ہو جائیں۔ حضرات! ہم خدا پرستوں کاایمان ہے کہ دنیا اس وقت جن پریشانیوں میں مبتلا ہے وہ محض اتفاقی نہیں ہیں، بلکہ الله کی بادشاہی میں کوئی چیز بھی آپ سے آپ اور محض اتفاق سے نہیں ہوتی ، یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ الله کے حکم سے ہوتا ہے، اس لیے ہماری موجودہ پریشانیاں یقینا خدا کے حکم سے ہیں اور وہ الله ظالم نہیں ہے اور نہ بلاوجہ ہمیں ستانے میں اسے کوئی لذت آتی ہے ۔ بلکہ انسانی دنیا کی یہ پریشانیاں اور بے چینیاں اس کی خدا فراموشی اور آخرت سے بے فکری کی سزا ہیں ۔ ﴿ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا﴾․ پس ہمیں آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ جہاں آپ اور بہت سے قومی کاموں پر اپنا وقت ، اپنا روپیہ اور اپنی طاقتیں صرف کرتے ہیں، وہاں اس کام کی طرف بھی توجہ کریں ، اس کے لیے جماعتیں اور سوسائٹیاں بنائیں، اس کے طریقے سوچیں ، جب آپ خلوص اور دیانت داری سے اس کام کو شروع کریں گے اور صاف ذہن سے غور کریں گے تو آپ پر خودراہیں کھلیں گی اور آپ کی طرف سے اپنے ملک او راپنی قوم کی بلکہ ساری انسانیت کی یہ بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اگر آپ نے اپنے کو اچھا خدا پرست اور خدا ترس آدمی بنا لیا اور اپنی قوم کے صرف دس بیس فیصدی افراد ہی کو آپ اچھا آدمی بناسکے اور وہ زندگی کے ہر معاملہ میں خدا سے ڈرنے والے اور مرنے کے بعد والی جزا سزا کی فکر کرنے والے بن گئے تویقین کیجیے کہ روحانی فائدوں کے علاوہ آپ ملک او رقوم کو موجودہ مصیبتوں سے نجات دلانے میں بھی بڑی مدد دیں گے۔ اس وقت ہم جن مصیبتوں میں مبتلا ہیں ان میں 95,90 فیصدی وہ ہیں جن میں ہم صرف اس لیے گھر ے ہوئے ہیں کہ قوم میں خدا پرستی او رایمان داری نہیں ہے اور مرنے کے بعد کی جزا وسزا کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ اگر ہمارے وزیروں اور چھوٹے بڑے افسروں میں اورحکومت کے عام اہلکاروں میں ، اسی طرح تاجروں میں، مزدورں میں اور دوسرے عام طبقوں میں انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے مطابق بجائے غرض پرستی اور مادہ پرستی کے خدا پرستی اورایمان داری آجائے ، بجائے حرص اور طمع کے قناعت آجائے ، ایثار اور سخاوت آجائے ، دوسروں کی غم خواری اور دوسروں کے لیے خود تکلیف اٹھانے اور قربانی دینے کا رواج ہو جائے تو ہماری ساری وہ مشکلیں ایک دن میں دور ہو جائیں گی جن کو حل کرنے کے لیے کروڑوں روپیہ صرف کرنے کے باوجود ہماری وزارتیں آج بھی عاجز ہیں۔ حضرات! اتنی بات جو میں نے اب تک کہی یہ کسی مذہب وملت سے مخصوص نہیں ہے، اس لیے یہ بات ہم ہر مذہب وملت والے سے کہتے ہیں ، عیسائیوں سے بھی کہتے ہیں اوریہودیوں سے بھی، اسی طرح دوسرے ادیان ومذاہب والوں سے بھی۔ البتہ مسلمانوں سے ہم اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو اپنے کو مسلمان کہہ کر ان سب باتوں کا عہد اور اقرار کر چکے ہو، کیوں کہ کسی شخص کے مسلمان ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ اپنی زندگی وہ ان اصولوں اور ان ہدایات کے مطابق گزارے گا، جو الله تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام اور سب سے آخر میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم مکمل ترین شکل میں لے کر آئے اور دنیا سے زیادہ فکر وہ آخرت کی کرے گا او رمادی خواہشات کے مقابلہ میں روحانی تقاضوں او رمطالبوں کو ترجیح دے گا۔ اس لیے ہر مسلمان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اس اقرار اور ان اصولوں کے مطابق بنائے یعنی اس کی زندگی الله کی بندگی اورعبدیت والی زندگی ہو ، وہ نفس کی خواہشات اور طبیعت کے تقاضوں کے بجائے الله کے احکام پر او راس کی بھیجی ہوئی شریعت پر چلنے والا ہو ، مرنے کے بعد حساب او رجزا وسزا سے ڈرنے والا اور دنیا سے زیادہ آخرت کی زندگی بنانے کی فکر کرنے والا ہو ، اسی طرح مادی ترقی سے زیادہ اس کو روحانی ترقی کی فکر ہو ۔ مسلمان اسی لیے پیدا کیے گئے تھے کہ وہ دنیا میں الله تعالیٰ کی بتلائی ہوئی ایمانی اور روحانی زندگی گزاریں او راسی مبارک زندگی کو دنیا میں رواج دیں۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ․﴿کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون بالله﴾․ اس کا مطلب یہی ہے کہ نیکی کو دنیا میں رواج دینا، برائی او ربدی کے طور طریقوں سے لوگوں کو بچانا اور روکنا اور خود مضبوطی سے اس ایمانی طریقہ پر اور نیکی کے راستہ پر قائم رہنا مسلمانوں کے خاص فرائض میں سے ہے، بلکہ وہ دنیا میں اسی مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ لیکن ہمیں اقرار ہے کہ ہم بھی راستہ سے ہٹ گئے ، جس مقدس کام کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے او رجو خدمت ہمارے سپرد کی گئی تھی ہم نے اپنی نالائقی اور غفلت سے اس کو چھوڑ دیا اور نفس پرستی ، غرض پرستی اور آخرت فراموشی اور صرف مادی ترقیوں میں انہماک والی وہی زندگی ہم نے بھی اختیار کر لی جس کو مٹانے کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے ۔ بلاشبہ یہ ہمارا بہت بڑا جرم ہے اور یہ ہم نے خود اپنے اوپر بہت بڑا ظلم کیا ہے، بس الله تعالیٰ ہی ہمارے اس جرم کو معافر فرمائے۔ حضرات! اگرچہ ہماری حالت بہت بگڑ گئی ہے او رہم اپنے مقام سے بہت ہٹ گئے ہیں لیکن الله تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم مایوس نہیں ہیں ، ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیں سنبھلنے کی اور پھر اپنے مقصد زندگی کی طرف لوٹنے کی توفیق دے گا اور ہم سے وہ کام لے گا جو ” خیرامة“ کی حیثیت سے ہم کو کرنا چاہیے تھا ۔ محترم حاضرین! یہ خالص دینی اور ایمانی دعوت اور تحریک، جس کے سلسلہ میں ہمارا مختصر سا قافلہ کل سے یہاں آپ کے اس شہر میں آیا ہوا ہے دراصل یہ اس کی کوشش ہے کہ ہماری بگڑی ہوئی زندگی درست ہو جائے اور ہم وہ زندگی گزارنے لگیں اور وہ کام کرنے لگیں جس کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے، آج کل لوگ مادیت اور خدا فراموشی کے غلبہ سے اس قدر متاثر ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس زمانہ میں بھی ایمانی اور روحانی زندگی کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن ہم الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کے رحم وکرم نے ایک ایسے طریق کار کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ہے، جس کے کافی تجربہ کے بعد ہم الحمدلله اس پر بالکل مطمئن ہیں کہ مسلمانوں کا جو طبقہ اس مقصد کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتا ہے یا محسوس کرانے سے محسوس کر سکتا ہے، اگر وہی اس طریقے پر جدوجہد کرنے لگے تو ہمیں بالکل یقین ہے کہ ان شاء الله فضا بالکل بدل جائے گی اور ہماری زندگی ایمان بالله اور فکر آخرت والی زندگی بن جائے گی، جس میں روحانیت مادیت پر غالب ہو گی۔ مسلمانوں میں پھر سے ایمانی زندگی پیدا کرنے کی اس خاص طریقہ سے یہ کوشش یوں تو بیس سال سے زیادہ عرصے سے ہو رہی ہے او رخود میرا تعلق بھی اس تحریک سے قریباً10,9 سال سے ہے لیکن ابتدا میں اس کا دائرہ بہت محدود تھا اور رفتار بہت دھیمی تھی جس کی ایک خاص وجہ کام کے بالکل نامانوس ہونے کے علاوہ یہ بھی تھی کہ سیاسی تحریکوں کے شورو شغب میں اس خالص غیر سیاسی کام کرنے والوں اور اس کی طرف بلانے والوں کی آواز کوئی سنتا ہی نہ تھا، اب ادھر دو تین سال سے لوگ کچھ متوجہ ہونے لگے ہیں اور حالات کی رفتار نے بھی یہ سمجھنا ان کے لیے آسان کر دیا ہے کہ ایمان اور ایمان والی زندگی بھی کوئی ضروری چیز ہے اور ہمیں آخرت کی فکر بھی کرنی چاہیے۔ حضرات! اس کام کے لیے ہم نے جو طریق کار اختیار کیا ہے، جس کے متعلق میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ الحمدلله تجربہ نے اُس پر ہم کو بالکل مطمئن کر دیا ہے۔ لیکن وہ کچھ اس طرح کا ہے کہ صرف میرے بتلانے اور بیان کرنے سے اس کو پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ کچھ وقت کام کرنے والوں کے ساتھ رہ کر اور خود دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے، خود میرا معاملہ یہ ہے کہ میں بھی اس کو اس وقت تک اچھی طرح نہیں سمجھ سکا او راس کے بارہ میں مطمئن نہیں ہو سکا تھا، جب تک کہ چند روز ایک جماعت کے ساتھ رہ کر اُس کو دیکھ نہ لیا ۔ اس لیے میں آپ کو اس طریق کار کے سمجھانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ بلکہ یہی گزارش کروں گا کہ آپ کچھ وقت کے لیے ہمارے ساتھ ہو جائیں، ان شاء الله چند ونوں میں آپ جان لیں گے اور امید ہے کہ جان کر مطمئن ہو جائیں گے کہ ہاں! اس طریقہ پر جد وجہد کرنے سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امت میں وہ ایمان او رعمل صالح والی زندگی ان شاء الله پھر سے پیدا ہو سکتی ہے جس کے پیدا کرنے کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور جس کے متعلق الله تعالیٰ کا یہ محکم وعدہ ہے کہ اگر کوئی قوم او رامت وہ زندگی اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ اس دنیا میں بھی خاص نعمتوں سے سرفراز کی جائے گی او رمرنے کے بعد عالم آخرت میں بھی جنت اور الله کی رضا اس کو حاصل ہو گی۔ اپنے دینی بھائیوں سے میں ایک آخری بات او رکہنا چاہتا ہوں ۔ دنیا اس وقت مادی ترقیوں سے اور ان کے انجام سے تنگ آچکی ہے او رجن کو الله نے سوچنے سمجھنے کے قابل بنایا ہے وہ اب محسوس کرنے لگے ہیں کہ جو خدا فراموشانہ اور مادہ پرستانہ نظر یہ حیات انہوں نے اختیار کیا تھا اس کاانجام عالم گیر تباہی او ربربادی اور انسانیت کی درد ناک موت کے سوا کچھ ہونے والا نہیں ہے، ایسے وقت میں اگر کوئی قوم اورامت انبیاء علیہم السلام کی تعلیم وہدایت کے مطابق ایمانی طرز زندگی کا نمونہ بن کر دنیا کے سامنے آجائے تو اس میں ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت دنیا اس کی طرف دوڑ پڑے گی او راس کو اپنالے گی اور وہ ایمانی طرز زندگی بالکل مکمل او رمرتب شکل میں صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امت کے پاس ہے، ضرورت صرف اس کی ہے کہ وہ چیز بجائے کتابوں کے، دنیا کی نظر کے سامنے ہماری تمہاری زندگی میں آجائے اور دنیا والے بجائے کتابوں میں پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے ہماری زندگی میں اس کے نتائج دیکھ لیں۔ بزرگو اور بھائیو! میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جن سے میں اپنے دل کے اس یقین کو ظاہر کر سکوں کہ اس وقت ساری دنیا کی سلامتی او رنجات اس پر موقوف او رمتعلق ہے کہ مسلمان ایمانی طرز زندگی اختیار کرکے دنیا کو ایمان والی زندگی کے طریقہ سے روشناس کرائیں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو دنیا کے بگاڑ اور اس کی بربادی کی بڑی ذمہ داری ان پر ہو گی اور یہ محض الله کا فضل ہے اور ایک لطیفہٴ غیبی ہے کہ مسلمانوں میں ایمانی زندگی پیدا کرنے اور عام کرنے کی کوشش کا ایک خاص سہل اور قابل عمل طریقہ الله تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی سے اسی زمانہ میں ہم عاجزوں، بے چاروں کے ہاتھ آگیا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر طبقہ اور ہرعلاقہ کے لوگ اس کو ہم سے لے لیں، وہ ہماری جاگیر نہیں ہے اور نہ ہم اس کو اپنی جاگیر بنانا چاہتے ہیں، ہم تو اسی لیے علاقے علاقے خود پھرتے ہیں اور آپ کے یہاں بھی اسی لیے آئے ہیں کہ آپ حضرات ہمارے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار کے اس طریقہ کو ہم سے لے لیں اور پھر اپنی ذمہ داری پر خو دکام کریں ، کیا عجب ہے کہ الله تعالیٰ آپ سے وہ کام لے لے جوہم سے نہیں ہو پا رہا ہے ۔ اس کام میں ہماری حیثیت صرف یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے اس کام کی اہمیت اور ضرورت کا کچھ احساس ہمارے اندر پیدا فرما دیا ہے اور یہ یقین دل میں ڈال دیا ہے کہ جہاں تک بن پڑے اس کام کے لیے کوشش کرنا اور الله کے بندوں تک اس کی دعوت اور اس کا پیغام پہنچانا ہمارا اپنا فرض ہے، اس لیے جہاں تک ہم سے بن پڑتا ہے خود جاجاکر اپنے بھائیوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں اور الله کے بعض بندوں کی صحبت ورفاقت سے او رکچھ اپنے تجربوں سے بفضلہ تعالیٰ اس کام کا جو طریقہ معلوم ہو گیا ہے بس بطور مشورے کے اس کو عرض کرتے ہیں ، اس سے زیادہ ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ہم نے اس کے لیے کوئی خاص انجمن یا جماعت قائم نہیں کی ہے ،جس کی ہم شاخیں قائم کرنا چاہتے ہوں یا آپ کو اس کا ممبر یا رکن بنانا چاہتے ہوں یا کسی امیر یا کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت کراناچاہتے ہوں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ حضرات اس کام کو اپنائیں اور اس کا پیغام لے کر شہروں شہروں اور خدا توفیق دے تو ملکوں ملکوں پھریں، اس راستہ میں تھکنا اور بے آرام ہوناانبیاء علیہم السلام کی خاص وراثت ہے اور الله تعالیٰ کو ہر دوسرے کام سے زیادہ محبوب ہے ۔ مبارک ہیں وہ پاؤں جو اس راہ میں تھکیں او رمبارک ہیں زندگی کی وہ گھڑیاں جو اس کام میں صرف ہوں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس کام کی توفیق دے اور دین کے زندہ کرنے کے لیے تکلیفیں اٹھانے اور مرنے مٹنے کا شوق ہم سب کے دلوں میں پیدا فرما دے، دراصل اس راہ میں مرمٹنا ہی اصل زندگی ہے ۔ واخردعوانا ان الحمد لله رب العالمین وسلام علی المرسلین․ |
|
دنیائے انسانیت میں اسلام کا ہمہ گیر انقلاب
اسلام کا مذہبی وروحانی انقلاب
اسلام کی اشاعت
اسلام کی خصوصیات
اسلام روحانی سُپر پاور
دینِ اسلام اور راہِ اعتدال
|
|
اسلام کا اخلاقی انقلاب
آخرت کا عقیدہ بھی خدا کی ہستی کے عقیدہ کی طرح دین ومذہب کی اہم بنیاد ہے ، اگر یہ مان لیا جائے کہ انسان کی زندگی بس یہی دنیوی زندگی ہے او راس کے بعد اعمال کی جزا اور سزا کا کوئی عالم نہیں ہے ، تو پھر انسان کو کسی دین اور کسی مذہبی تعلیم کی مطلق ضرورت نہیں۔ پھر تو اُس کا مذہب بس یہ ہونا چاہیے #
بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست عقیدہٴ آخرت کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن پاک میں جا بجا ”ایمان بالله“ اور ﴿ایمان بالیوم الآخر﴾ کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے ، کہیں ارشاد فرمایا گیا۔﴿ یؤمنون بالله وبالیوم الاخر﴾ اور کہیں فرمایا گیا ﴿ من آمن بالله والیوم الاخر﴾․ آخرت کے عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا یقین کیا جائے کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ایک اور عالم آنے والا ہے اور وہاں انسان کو اس دنیا میں کیے ہوئے اُس کے اچھے بُرے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی ، آخرت کی اجمالی حقیقت اتنی ہے اور اس کو عقل سلیم بھی ضروری سمجھتی ہے ، انسان اگر غور وفکر سے کام لے تو یہاں تک اس کی عقل بھی پہنچا دیتی ہے کہ اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور ایسا عالم ہونا چاہیے، جہاں انسانوں کو ان کے اچھے اور بُرے اعمال کی جزا اور سزا ملے، کیوں کہ اس دنیا میں برائی اوربھلائی تو موجود ہے ، لیکن اس کی سزا اور جزا، جو الله تعالیٰ کی صفت عدل کا لازمی تقاضا ہے، یہاں نہیں ملتی، اس لیے کسی اور ایسی زندگی کا ہونا ضروری ہے، جس میں نیک بختوں کو اُن کی نیکوکاریوں کی جزا اور مجرموں کو اُن کی مجرمانہ بدکرداریوں کی سزا ملے، اس کو ذرا اور تفصیل سے یوں سمجھیے کہ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے پیشہ ور مجرم عمر بھر بڑے ظلم اور پاپ کرتے ہیں ، لوگوں کی جان ومال پر ڈاکے ڈالتے ہیں، بندگان خدا کے حق مارتے ہیں ، کمزوروں اور غریبوں کو ستاتے ہیں ، رشوتیں لیتے اور خیانتیں کرتے ہیں اور عمربھر عیش کرتے ہوئے، بلکہ اولاد کے لیے بھی عیش وعشرت کا بہت کچھ سامان چھوڑ کے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں او راس کے برعکس الله کے بہت سے بندوں کو اس حال میں بھی دیکھا جاتا ہے ، کہ وہ بیچارے بڑی پرہیز گاری اورپارسائی کی زندگی گزارتے ہیں ، کسی پر ظلم نہیں کرتے ، کسی کے ساتھ دغا اور دھوکا نہیں کرتے، کسی کا حق نہیں مارتے ، الله کی عبادت بھی کرتے ہیں اس کی مخلوق کی خدمت بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود طرح طرح کی تکلیفوں او رپریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں ، غربت وافلاس اور بیماریوں کا سلسلہ رہتا ہے او راسی حال میں زندگی کے دن پورے کرکے، بیچارے اس دنیا سے چلے بھی جاتے ہیں او رنہیں دیکھا جاتا کہ ان کی اس نیکی او رپارسائی کا کوئی بھی صلہ اس دنیا میں ان کو ملا ، تو اگر اس دنیوی زندگی کے بعد بھی کوئی اور ایسا عالم اور ایسی زندگی نہ ہو ، جہاں ان نیکوکاروں اور بد کرداروں کو اپنے اپنے کیے کی جزا اور سزا ملے تو یقینا خدا پر الزام آئے گا کہ اس کے یہاں دنیا کے بے انصاف حکومتوں سے بھی زیادہ اندھیر ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی سلیم عقل اس کو قبول نہیں کرسکتی۔ الله کی ہستی تو بہت بلند ہے، وہ تو مالک الملک اور احکم الحاکمین ہے۔ یہ طرز عمل تو کسی بھلے آدمی کے بھی شایان شان نہیں کہ وہ شریفوں اور شریروں اور پرہیز گاروں اور پیشہ ور مجرموں کو ایک نظر سے دیکھے اور سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے ، قرآن مجید نے اسی بات کو اپنے بلیغ معجزانہ انداز اور نہایت مختصر الفاظ میں اس طرح کہاہے۔ ﴿افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون﴾․ ( القلم:35-36) کیا ہم اپنے فرماں بردار بندوں کو مجرموں نافرمانوں کی طرح کردیں گے اور دونوں گروہوں کے ساتھ یکساں معاملہ کریں گے؟ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :﴿ام نجعل الذین اٰمنوا وعملوا الصلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار﴾․ ( ص:28) کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان لوگوں کے برابر کر دیں گے ، جو دنیا میں فساد برپا کرتے پھرتے ہیں ، کیا ہم پرہیز گاروں اور بدکاروں کے ساتھ یکساں برتاؤ کریں گے( ایسا ہر گز نہیں ہو گا)۔ ایک تیسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے :﴿ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلھم کالذین آمنوا وعملوا الصلحت سواء محیاھم ومماتھم ساء مایحکمون﴾․ ( الجاثیہ:21) یہ مجرمین جنہوں نے بد کاریوں کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے ، کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو اپنے ان نیک بندوں کی طرح کردیں گے ، جو ایمان لائے او رجنہوں نے اعمال صالحہ کیے اور دونوں گروہوں کا انجام اور جینا مرنا یکساں ہو گا ( او راپنے اپنے اعمال کا ان کو کوئی بدلہ نہیں ملے گا؟) بالکل غلط اور بیہودہ ہے ، ان کا یہ خیال ( ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا)۔ بہرحال عقل سلیم بھی کہتی ہے اور قرآن حکیم کا بھی ارشاد ہے کہ نیکوکاروں پرہیز گاروں کو ان کی نیکو کاری اور پرہیز گاری کی اور مجرموں بدکاروں کو ان کی بدکرداری کی جزا اور سزا ملنی ضروری ہے اور جب وہ اس دنیا میں نہیں مل رہی ہے ، تو اس دنیوی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ،کوئی او رعالم ہونا چاہیے ، جہاں یہ جزا اور سزا ملے اور الله تعالیٰ کی صفتِ عدل کا تقاضا پورا ہو۔ بس وہی عالم آخرت ہے۔ ہاں !یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اچھے اور برے اعمال کی جزا اور سزا کو ، یعنی ثواب اور عذاب کو عالم آخرت کے لیے کیوں موخر کیا گیا اور کیوں نہ اسی دنیا میں اس کا بھی حساب بے باق کر دیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ الله تعالیٰ اپنے فرماں بردار اور نیکوکار بندوں کا جو صلہ اور انعام دینا چاہتا ہے اور جیسی لذت او رمسرت سے بھرپور غیر فانی زندگی ان کو بخشنا چاہتا ہے، جو اس کی شانِ رحمت اور صفت کریمی کا تقاضا ہے ، اس کا اس دنیا میں کوئی امکان ہی نہیں ہے او راسی طرح نافرمان او رباغی وسرکش مجرموں کو وہ سخت سزا اور لرزہ خیزعذاب دینا چاہتا ہے ، جو اس کی شان جلالی اور صفت قہاری کا تقاضا ہے، اس کی برداشت کی بھی ہماری اس دنیا میں طاقت نہیں ہے، یعنی وہ ایسا سخت اور المناک ہے کہ اگر اس دنیا میں اس کا ظہور ہو جائے تو یہاں کا سارا چین وآرام ختم ہو جائے ۔ یہ پوری دنیا سوخت ہو کر رہ جائے ۔ ہماری یہ دنیا تو بہت ہی کمزور اور ناپائیدار دنیا ہے ۔ آخرت کے مقابلہ میں ہماری اس دنیا کی حیثیت بالکل وہ ہے ، جو ہماری اس دنیا اور اس زندگی کے مقابلے میں ماں کے پیٹ والی زندگی کی تھی ۔ اس دینا میں آنے سے پہلے ہر آدمی چند مہینے اپنی ماں کے پیٹ میں رہ کے آیا ہے ۔ وہ اس کی سب سے پہلی دنیا تھی اور بڑی محدود دنیا تھی ، الله تعالیٰ اولاد آدم کو جو کچھ عطا فرمانا چاہتا تھا او رجہاں تک پہنچانا چاہتا تھا وہ ماں کے پیٹ والی اس پہلی دنیامیں ممکن نہیں تھا، اسی لیے انسان کو اس دنیا میں لایا گیا ، بالکل اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ اس دنیوی زندگی کی نیک کرداری کے صلہ میں ، الله تعالیٰ اپنے فرماں بردار اور پرہیز گار بندوں کو جن انعامات سے نوازنا چاہتا ہے اور لذت ومسرت سے بھرپور جو غیر فانی زندگی ان کوبخشا چاہتا ہے اور علی ہذا سرکش مجرموں اور نافرمانوں کو جو سخت سزا اور ابدی عذاب دینا چاہتا ہے ۔ وہ ہماری اس فانی دنیا میں ممکن ہی نہیں ، اس دنیا کے خاتمہ کے بعد عالم آخرت کا برپا ہونا او رجنت ودوزخ کا وجود میں آنا ضروری ہے ، تاکہ الله تعالیٰ کی صفات، کمال عدل وانصاف ، انعام واحسان رحمت ورافت اور قہاریت وجباریت کا بھرپور ظہور ہو۔ آخرت کے بارے میں ہماری عقل کی پرواز بس یہیں تک ہے ۔ آگے قیامت ، حشر، جنت ودوزخ اور وہاں کے ثواب وعذاب کی تفصیلات بس وحی کے ذریعہ ہی معلوم ہو سکتی ہیں اور قرآن مجید اور احادیث میں ان کا تفصیلی بیان ہے ۔ بعض لوگ اپنی عقل کی خامی ونارسائی کی وجہ سے ، آخرت اورجنت ودوزخ اور وہاں کے ثواب وعذاب کی ان تفصیلات کے بارے میں ، جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہیں ، شکوک کا اظہار کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ، میں ایسے لوگوں سے کہا کرتا ہوں کہ اگر ایسے بچہ سے، جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہے ، کسی آلہ کے ذریعہ یہ بات کہی جائے کہ اے بچے! تو چند روز کے بعد ایک ایسی دنیا میں آنے والا ہے ، جہاں لاکھوں میل کی لمبی چوڑی زمین ہے او راس سے بھی بڑے سمندر ہیں اور آسمان ہے او رچاند سورج اور لاکھوں ستارے ہیں اور وہاں ریلیں دوڑتی ہیں، ہوائی جہاز اُڑتے ہیں ، لڑایاں ہوتی ہیں ، جن میں توپیں گرجتی ہیں اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بمپھٹتے ہیں تو وہ بچہ اگر کسی طرح ان باتوں کو سمجھ بھی لے تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے ان باتوں کا یقین کرنا بڑا مشکل ہو گا ، کیوں کہ وہ جس دنیا میں ہے اور جس کو دیکھتا اور جانتا ہے ، وہ تو اس کے ماں کے پیٹ کی صرف ایک بالشت بھر کی اندھیری دنیا ہے ، جس میں خون اور غلاظت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، لیکن چند دن کے بعد جب وہ بچہ الله کے حکم سے اس دنیامیں آئے گا اورکچھ دیکھنے سمجھنے کے قابل ہو گا تو وہ سب کچھ دیکھ لے گا اور یقین کرے گا ، جو ماں کے پیٹ والی دنیا میں اس کے لیے ناقابل فہم اور اس کی سمجھ سے بالاتر تھا ، بالکل ایسا ہی معاملہ آخرت کے بارے میں اس دنیا کے انسانوں کا ہے ، آخرت کے عالم میں پہنچ کر سب انسان وہ سب کچھ دیکھ لیں گے ، جو الله کی کتابوں نے اور اس کے پیغمبروں نے آخرت کے بارے میں بتایا ہے اورجس کا نہایت مستند واضح اور مفصل بیان قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں محفوظ ہے۔ آخرت کے عقیدہ کے سلسلہ میں ، آخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کو برائیوں اور بد اخلاقیوں سے بچانے کی جتنی طاقت آخرت کے یقین میں ہے ، اتنی کسی دوسری چیز میں نہیں ہے۔ بے شک حکومت کا قانون اور تہذیبی ترقی یا برائی بھلائی کو فطری احساس اور نفس کی شرافت بھی ، انسان کو برائیوں او ربد اخلاقیوں سے بچانے والی چیزیں ہیں ، لیکن یہ اتنی موثر اور کار گر نہیں ہوتیں، جتنا کہ مرنے کے بعد کی جزا و سزا کا یقین اور آخرت پر ایمان، بشرطے کہ زندہ یقین اور حقیقی ایمان ہو ، صرف نام کا ایمان اور بے جان عقیدہ نہ ہو ۔ یہ کوئی خالی منطق کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ برائیوں اور بد اخلاقیوں کی گنجائش ا س معاشرہ میں ہوتی ہے، جو آخرت اورمرنے کے بعد خدا کے سامنے پیشی او رجزا وسزا کے یقین سے خالی ہو، ورنہ جن کے دلوں میں یقین وایمان کا نور موجود ہو ، اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ برے خیالات او رگناہ کے وسوسوں سے بھی گھبراتے ہیں او رالله سے پناہ مانگتے ہیں ، تاریخ عالم گواہ ہے کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ، صاف ستھری اور مہذب ومبارک زندگی ان ہی بندگان خدا کی رہی ہے جو مرنے کے بعد کی پیشی اور آخرت کی جزا وسزا پر یقین رکھتے تھے او راس کی وجہ یہ ہے کہ یہ یقین آدمی کو برائی کے ارادہ سے وہاں بھی روکتا ہے ، جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو اور دنیا میں کسی قانون پکڑ اور سزا کا خطرہ نہ ہو۔ الغرض اس دنیا کے خاتمہ کے بعد عالم آخرت کا برپا ہونا، الله کے پیغمبروں او راس کی کتابوں کی بتائی ہوئی ایک حقیقت بھی ہے اور خود ہماری عقل سلیم کا تقاضا بھی ہے اور اس پر ایمان وعقیدہ انسانی دنیا کی ایک بڑی مصلحت بھی ہے۔ |
No comments:
Post a Comment