Tuesday, 29 December 2015

عورت کیلئے چہرے کا پردہ وحجاب

پردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب رواج اور چلن ہے۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
اے نبی ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں۔ (47) اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔ (48) اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ الاحزاب:59]

47: اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ پردے کا حکم صرف ازواجِ مطہرات (یعنی پیغمبر کی پاک بیویوں) کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں پر جھکا کر انہیں چھپالیا کریں۔ مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپالیا جائے۔ اس کی صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس چادر سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہے، اس کو چہرے پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ آنکھوں کے سوا باقی چہرہ نظر نہ آئے، اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ چہرے پر الگ سے نقاب ڈال لیا جائے۔ 48: بعض منافقین عورتوں کو راستے میں چھیڑا کرتے تھے، اس آیت میں پردے کے ساتھ نکلنے کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب عورتیں پردے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو ہر دیکھنے والا یہ سمجھ جائے گا کہ یہ شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، اس لئے منافقین کو انہیں چھیڑنے اور ستانے کی جرأت نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بےپردہ بن ٹھن کر باہر نکلنے والی خواتین ان کی چھیڑ چھاڑ کا زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں، علامہ ابوحیان نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ (البحر المحیط)۔




(1)عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ ‌رَأْسِهَا ‌عَلَى ‌وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ»
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوتے، جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
[سنن أبي داود:1833، مسند أحمدؒ:24021، السنن الكبرى - البيهقي:9051(9123)]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: ج30 / ص476]
[صحيح فقه السنة وأدلته-كمال ابن السيد سالم: 2/ 215]
[وحسنه الألباني في الشواهد في كتاب: (جلباب المرأة المسلمة) ص107]


دوسری روایت حضرت ام سلمہؓ سے بھی مروی ہے:
قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: «كُنَّا نَكُونُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ فَيَمُرُّ بِنَا الرَّاكِبُ فَتَسْدِلُ الْمَرْأَةُ الثَّوْبَ مِنْ فَوْقِ ‌رَأْسِهَا ‌عَلَى ‌وَجْهِهَا»
[سنن الدارقطني:2764، السنن الكبرى - البيهقي:9061]

مثالی عورت اور قوتِ دلیل:

اللہ کے رسول ﷺ کی بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: تم اپنی بہنوں(یعنی رسول اللہ ﷺ کی دیگر بیویوں) کی طرح حج یا عمرہ کیوں نہیں کرتی؟ آپ نے فرمایا: میں نے (فرض)حج اور (مسنون)عمرہ کرلیا ہے، اور اللہ نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
﴿اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو... سورۃ الأحزاب:33﴾
راوی نے کہا:
اللہ کی قسم! جب تک ان کا جنازہ نہ نکالا گیا، وہ اپنے کمرے کے دروازے سے باہر نہ نکلی۔
[تفسیر امام القرطبی» جلد 14 / صفحہ 181، دار الکتب المصریہ-القاہرہ]
نوٹ:
غیرفرض یعنی نفلی حج وعمرہ کیلئے پردہ اور محرم کے ساتھ عورت کا گھر سے نکلنے یا نہ نکلنے میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک پردہ اور محرم کے ساتھ ہونے کی شرط سے نفلی حج وعمرہ کیلئے نکلنا درست ہے اور بعض کے نزدیک نہیں۔
بہرحال یہ اختلاف افضل اور جائز کے درمیان ہے۔ نہ کہ کفر واسلام یا سنت وبدعت کا۔








(2)
حَدَّثَنَا 
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ ،  عَنْأَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ  وَهِيَ
مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ  أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ ، فَقَالَتْ : إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ " قَالَتْ : وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ "  .


حضرت قیس بن شماسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس کا نام خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ اصحاب رسول ﷺمیں سے کسی نے اس سے کہا کہ تو اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہے اور اس حال میں سر اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے (یعنی پوری طرح اپنے حو اس میں ہے اور احکام شریعت کی پابندی برقرار ہے) وہ بولی: اگر میرا بیٹا بھی جاتا رہا تب بھی اپنی حیاء نہیں جانے دوں گی۔ آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا: تیرے بیٹوں کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔
[سنن أبي داود:2488، مسند أبي يعلى:1591، السنن الكبرى - البيهقي:18591(18631)]




















ہندو دہرم کی کتابوں میں عورت کے پردے کا ثبوت:
"چوں کہ برہم (خدا) نے تمہیں عورت بنایا ہے ؛ اس لئے اپنی نظریں نیچی رکھو، اوپر نہیں ، اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو ، اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے ”
کیونکہ عورت(یعنی چھپانے کی چیز) کو اس کے پیدا کرنے والے نے اسی لیے ہی اس کو کہتا کیا ہے۔
[رگ وید »منڈل#8، سوت#33، منتر#19]

رگ وید میں "او گُنٹھن" باپردہ عورت ہی کو کہتے ہیں۔

کتاب "والمیکی رامایانا" میں ناریوں کیلئے رول ماڈل سیتا کیلئے کہا گیا ہے:
آج سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اس سیتا کو دیکھ رہے ہیں جسے پہلے آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔

یدھ کانڈ میں عورت باہر کب آسکتی ہے کے متلعق لکھا ہے کہ:
(1) مصیبت کے وقت (2)جنگوں میں (3)صوم ور میں

ہرش چریتم میں لکھا ہے کہ جب سے شریف اور خاندانی عورتوں کے چہروں پر نقاب کی جالی نہ رہی ان کی شرم وحیا جاتی رہی۔
[ہرش اجھورس۔۲]

بھر بھران اشوک میں صفحہ۳۹، ادھیائے ۲ میں قیامت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں عورتیں بگڑ جائیں گی ۔ بے پردہ ہوکر دونوں ہاتھوں سے بالوں کو سنبھالیں گی۔ کسی کی پرواہ نہیں کریں گی ۔ 

مہا بھارت ، وشوپرب ادھیائے ۱۹، میں لکھا ہے کہ سری کرشن کے ماموں کنشن متھرا کے راجہ نے جب کشتی کا دنگل قائم کیا تو مستورات کے دیکھنے کے لئے خاص مکانات بنوائے تھے۔ وہ اتنی بلندی پر تھے کہ راجہ ہنس اڑتے ہوئے نظر آتے تھے ان پر باریک جالی لگائی گئی تھی۔ جہاں سے خواتین تماشہ دیکھتی تھیں۔

ہندودھرم میں سیتا جی کا بڑا مقام ہے ۔ رامائن اجودھیا کانڈم سرگ ۳۳ میں لکھا ہے کہ بن باس(جلاوطنی ) کے وقت جناب رام چندر جی سیتا کے ساتھ گھر سے نکلے تو لوگوں نے شور مچادیا اور آہ وبکا کرنے لگے کہ کیا برا وقت آگیا ہے ، وہ سیتا جس کو آسمانی دیوتا بھی نہیں دیکھ پائے تھے اسے آج بازاری لوگ دیکھ رہے ہیں ۔

رامائن کشن گانڈم سرگ ۳۳ میں لکھا ہے کہ لکشمن کی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے کہ بن باس کے زمانہ میں شب وروز سیتاجی کے ساتھ رہے ۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ کہ میں نے سیتا جی کے پاؤں دیکھے ہیں ۔ سوگر یو نے خوفزدگی کے عالم میں کوئی بات کرنے کے بجائے اپنی رانی لکشمی کے پاس بات کرنے کیلئے گئے لیکن نا محرم عورتوں کودیکھ کر لکشمن نے منھ دوسری طرف پھیر لیا او رواپس آگئے ۔ 

مہا بھارت سنھا پرب ادھیا ۶۹ میں ہے کہ ارجن کی بیوی دریدی ایک مقام پر کہتی ہیں ۔ اے بزرگو! راجہ نے مجھے سوئمبر کے موقع پر دیکھا تھا ۔ اس سے پہلے کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا ۔ آج بدقسمتی سے غیر مردوں کے سامنے آنا پڑا اجنبی لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اورکیا ذلت ہوگی کہ مجھ جیسی پاک دامن خاتون لوگوں کے روبرو آئے ۔ہزار افسو س کہ راجہ دھرم کھو بیٹھے ۔ ہم تو سنتے آئے تھے کہ قدیم زمانہ کے شرفاء اپنی منکوحہ کو کبھی بھی مجمع میں نہیں لے جاتے تھے۔ افسوس اب اس خاندان کا دھرم جاتا رہا ۔















Friday, 8 January 2016

عورت کا مقام، حق اور ذمہ داری


مغرب میں عورت کا مقام:- (1)جانور كي طرح


کیا ایسے لوگ عورت سے شادی کرکے ان کے حقوق ہمیشہ ادا کرتے رہنے والے ہوسکتے ہیں؟



مرد وعورت مثال میں برابر ہیں:
اسلام میں عورت کی تشبیہ-مثال:- لباس کی طرح
القرآن:
۔۔۔ وہ(بیویاں) لباس ہیں تمہارے لئے اور تم لباس ہو ان(عورتوں)کے۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:187]
یعنی
(1)شرمگاہوں کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔
[حوالہ سورۃ النور:30+31، الاحزاب:35]
(2)جسم کو ڈھانکے کا
(3)زینت وسجاوٹ کا
(4)اور تقویٰ(پرہیزگاری-تہذیب) کا سبب (ہمیشہ ساتھ رکھنے کے قابل) ہیں۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:26]
(5)رات کو لباس بنایا[سورۃ الفرقان:47، النبا:10] تو بیوی کو رات کا ساتھی بنایا۔
(6)وہ تمہارے لیے سکون(ساتھ رہنے)کا سبب ہیں اور تم ان کے لیے سکون کا باعث ہو۔
[تفسير الطبري:2934، تفسير ابن أبي حاتم:1674، حاكم:3087]
(7)اپنائیت یگانگت:- ایک دوسرے سے مربوط اور لازم وملزوم ہوتے ہیں۔
[الجامع لأحکام القرآن،قرطبیؒ :۲/۳۱۴]
















بیویوں کیلئے پیغمبر اکرم ﷺ کی وصیت:
عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا (کیوں) کہ عورت ایک خصلت(عادت) پر کبھی نہیں رہ سکتی۔
[احمد:9795-10856(9159-10436)]

(کیونکہ) عورت (فطرتاً) پسلی کی ہڈی کی طرح ہے۔۔۔
﴿اور اس پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے﴾
اگر تم اسے بلکل سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے(یعنی طلاق کی نوبت آ پہنچے گی)
﴿اور اگر تم نے اسے چھوڑ دیا تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔﴾
اور اگر تم اس سے (تعلق) بڑھانا چاہو گے تو اس کا ٹیڑھاپن برداشت کرتے ہوئے اس (کی خوبیوں) کے ساتھ بڑھانا ہوگا۔
[بخاری:5184]
﴿بخاری:5185، ترمذی:1188﴾

عورت پسلی کی ہڈی کی طرح ہے، اور وہ تجھ سے کبھی سیدھی نہیں چل سکتی، پس اگر تم اس سے(تعلق) بڑھانا چاہتے ہو تو بڑھالو، جبکہ اسکا ٹیڑھاپن اپنی جگہ قائم رہے گا، اگر تم نے اسے سیدھا کرنا چاہا تو اسے توڑدو گے، اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔
[مسلم:1468(3643)]

۔۔۔لہٰذا عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا۔
[بخاری:3331]

۔۔۔لہٰذا اس کے ساتھ اسی حال میں زندگی گذارو۔
[احمد:19239]

۔۔۔لہٰذا تم اس کا خیال رکھو (کیوں) کہ اسی میں عقلمندی اور بالغپن ہے۔
[دارمی:2124]

۔۔۔لہٰذا تم اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے زندگی گذارو۔
[ابن ابی شیبہ:19614]

۔۔۔ لہٰذا گھروں کے ذریعہ ان کی بےپردگیوں کو چھپائے رکھو اور خاموشی کے ذریعہ ان کی ٹیڑھپن پر غلبہ پاؤ۔
[کنزالعمال:44999]



صحابہ(نبی کے ساتھیوں) کا حال»
حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ  نبی کریم  ﷺ  کے وقت میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ گفتگو اور بہت زیادہ بےتکلفی سے اس ڈر کی وجہ سے پرہیز کرتے تھے کہ کہیں کوئی بےاعتدالی ہوجائے اور ہماری برائی میں کوئی حکم نازل نہ ہوجائے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی تو ہم نے ان سے خوب کھل کے گفتگو کی اور خوب بےتکلفی کرنے لگے۔
[بخاری:5187]

بیویوں کیلئے اللہ کی سفارشی حکم۔
القرآن:
...اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں "بہت" کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
[القرآن-سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 19]

یعنی نرم بات کرو، رات گزارنے میں اور خرچ کرنے میں نرمی اختیار کرو، اس کے ساتھ وہی سلوک اختیار کرو جو تم اپنے ساتھ کرتے ہو۔
[تفسیر(امام)البغوی]

اچھے انداز میں اس سے گفتگو کرے ، نہ بدخلقی سے ، نہ سخت کلام کرے اور نہ اپنا میلان دوسری بیوی کی طرف ظاہر کرنے والا ہو۔
[تفسیر(امام)القرطبی]



تفسیر امام السیوطی»
جب مرد اور عورت کے درمیان کوئی بات واقع ہوجائے تو اس کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے اور آہستگی اختیار کرے اور صبر کرے(اگرچہ یہ تمہیں ناگوار ہو) شاید کہ اللہ تعالیٰ اس میں ایسی بہت سی بھلائیاں "دکھا" دیں جو وہ محبوب کرے گا۔
[الدر المنثور:ج2/ ص465]






مغرب میں عورت کا مقام:- (2)بس کی طرح


اسلام میں عورت کا مقام:- دائمی ساتھی ہے۔
القرآن:
اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ (1)وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور (2)برائی سے روکتے ہیں، اور (3)نماز قائم کرتے ہیں اور (4)زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور (5)اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقینا اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
[سورۃ التوبۃ:71]

تفسیر:

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہاجرین دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے اور قریش اور ثقیف کے آزاد کئے ہوئے لوگ بھی دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔
[صحيح ابن حبان:3595، تفسير ابن أبي حاتم:10207]

(1)مومن یعنی اللہ کی توحید کی تصدیق کرنے والے۔ یعنی پیغمبر ﷺ کے ساتھی، اور ان میں حضرت علیؓ (خصوصا)
(2)مددگار ہیں ۔۔۔۔ دین میں۔ (اور مومن اپنے دین میں مومن کا متولی-رکھوالا ہے۔)
(3) نیکی یعنی محمد ﷺ پر ایمان لانے کا حکم کرتے ہیں۔
[تفسير مقاتل بن سليمان(م150ھ) : جلد 2 / سفحہ 181]
حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ اللہ ان دونوں سے راضی ہے، نبی کریم ﷺ کی روایت سے، آپ ﷺ نے فرمایا: ہر نیکی صدقہ ہے۔
[صحيح البخاري:6021]

حکم کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یعنی لوگوں میں انصاف کرنے کا
[حوالہ سورۃ آل عمران:21]
حکم کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یعنی عدل ، احسان اور قریبی لوگوں کو دینے کا
[حوالہ سورۃ النحل:90]

(4) برائی
یعنی جو (بات) شریعت و سنت میں معروف(ثابت) نہیں۔
[تفسير الثعلبي:13 /470، تفسير البغوي:3/ 289، التفسير البسيط:9/ 399]
جو شرع اور عقل(سنن) میں معروف نہیں۔
[تفسير الماتريدي:6 /256 (6/ 559) تفسير السمرقندي:3 /25(تفسير السمرقندي:2/ 287، تنبيه الغافلين:163)]

روکتے ہیں ۔۔۔۔۔ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے ان کی عبادت کرنے سے۔
[حوالہ سورۃ الانعام:56]
روکتے ہیں ۔۔۔۔۔  اللہ کے علاوہ کو پکارنے سے
[حوالہ سورۃ غافر:66]
روکتے ہیں ۔۔۔۔۔ فحاشی، منع کردہ باتوں اور بغاوت سے۔
[حوالہ سورۃ النحل:90]
روکتے ہیں ۔۔۔۔۔ نفس کو (ناجائز) خواہشات سے۔
[حوالہ سورۃ النازعات:40]

نکاح کرانے میں جس عورت کا کوئی ولی-سرپرست نہ ہو تو اجنبی مومن بھی ولی بن سکتا ہے، اگر سلطان(حاکم) بھی مسلمان نہ ہو۔
[المصنف - عبد الرزاق:11334 (10488)]

ایک دوسرے کے کام بنانے والے ہمیشہ مددگار ساتھی۔ ایک دوسرے کے دائمی نگہبان۔
(1) "مومن" مرد وعورت دونوں حقوق میں برابر ہیں۔
(2) زندگی بھر کے ساتھی ومددگار ہیں۔ یعنی ہمیشہ باہمی حقوق ادا کرتے رہتے ہیں۔
یعنی
(1) خیرخواہ ہیں (2) جو بات اپنے لئے پسند ہو ساتھی کیلئے بھی وہی پسند کرتے ہیں (3) عیب ڈھانکتے ہیں (4) غلطیوں کو معاف کرتے ہیں (5) قطعِ تعلق نہیں کرتے (6) بھلائی ونفع کی بات سمجھاتے ہیں (7) بری اور نقصاندہ بات سے روکتے ہیں (8) تکلفات میں نہیں ڈالتے (9) دوست کے دشمن سے دوستی نہیں رکھتے۔













مغرب میں عورت کا مقام:-
Unmarried Women are public property.
عورتیں عوامی ملکیت ہیں۔

اسلام میں عورت کا مقام:-
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
کیا میں تمہیں عظیم صدقہ کے بارے میں آگاہ کردوں؟ (یہ خرچ کرنا ہے) اپنی اس(مطلقہ/بیوہ)بیٹی پر جو تمہاری طرف واپس کردی گئی ہو، اور تمہارے سوا اس کا کوئی کمانے والا نہیں۔
[حاکم:7345]
قرآنی شاھدی:سورۃ التوبۃ:71



اسی طرح ایک موقع پر اللہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
بیوہ اور مسکین کی نگہداشت کرنے والا (ان کے کام کرنے والا) ایسا ہے جیسے اللہ کے راستہ میں کوئی جہاد کرنا یا ایسا شخص جو دن کے روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔
[الأدب المفرد-البخاري:131, صحيح الأدب المفرد: ص74، السنن الكبرى-البيهقي:12664]










دینِ اسلام میں عورت کو اتنا اونچا مقام مرتبہ حاصل ہوا ہے جو اسے پہلے کسی ملت میں حاصل نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کوئی اور امت اسے پا سکی ۔
دینِ اسلام نے انسان کو جو‏عزت واحترام دیا ہے اس میں مرد و عوت دونوں برابر کے شریک ہیں ، اوروہ  اس دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات میں برابر ہیں اور اسی طرح دارِ آخرت میں اجر و ثواب میں بھی برابر ہیں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے :

{ اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی }
سورۃ الاسراء ( آیۃ 70 ) ۔


اور اللہ عزوجل کا ایک جگہ پر فرمان کچھ اس طرح ہے :

{ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی اس میں حصہ ہے جو ماں باپ اور ‏عزیز و اقارب چھوڑ کر مریں}
سورۃ النساء ( 7 )

اور اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمان ہے :

{اور عورتوں کے لیے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہيں اچھائی کے ساتھ}
سورۃ البقرۃ ( 228 ) ۔
ج

ج


ج

ج

اور اللہ مالک الملک کا فرمان اس طرح بھی ہے:


{مومن مرد و عورتیں آپس میں ایک دوسرے ( مدد گارو معاون اور) دوست ولی ہیں}
سورۃ التوبـۃ ( 71 ) ۔

ج

ج
اور اللہ تبارک وتعالی نے والدین کے متعلق کچھ اس طرح فرمایا :

{ اور آپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائيں تو ان کے آگے اف تک نہیں کہنا اور نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چيت کرنا ۔

اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب! ان پر بھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی }
سورۃ لاسراء ( 23 - 24 ) ۔

اور فرمان باری تعالی ہے :

{ پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہرگز ضائع نہیں کرونگا }
سورۃ آل عمران ( 195 ) ۔



اور اللہ جل شانہ نے فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اور جو بھی نیک عمل کرے چاہے وہ مرد ہو یا عورت لیکن وہ مومن ہو تو ہم اسے یقینا بہتر زندگی عطا فرمائيں گے ، اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے }
سورۃ النحل ( 97 ) ۔

اور اللہ عزوجل نے ایک مقام پر اس طرح فرمایا :

{ اور جو بھی ایمان کی حالت میں اعمال صالحہ کرے چاہے وہ مرد ہو یا عورت یقینا ایسے لوگ جنت میں جائيں گے ، اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جاۓ گا }
سورۃ النساء ( 124 ) ۔

یہ ہے وہ عزت و تکریم اورمقام ومرتبہ جو اسلام نے عورت کو دی جس کی مثال نہ تو کسی اوردین میں اور نہ ہی کسی قانون میں ملتی ہے ، بلکہ رومن ( اٹلی ) جدت پسندوں نے تویہ قانون پاس کیا ہے کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوۓ اس کی غلام ہے اوراس کے مطلقا کوئ‏ی حقوق نہيں ۔


اٹلی میں ایک بڑے اجتماع کےبعد عورت کے متعلق بحث ومناقشہ کے بعد یہ پاس کیا گيا کہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ اہمیت حاصل نہیں ، اور عورت اخروی زندگی کی وارث نہیں بنے گی اور یہ پلید ہے ۔

جاہلیت میں تو عورت ایک گھٹیا سی چيز تھی اسے بیچا اور خریدا جاتا اور اسے شیطانی پلیدی شمار کیا جاتا تھا ۔

اور قدیم ھندوستانی قوانین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وبائيں اور موت، جہنم اور آگ اور سانپوں کا زہر عورت سے بہتر ہے ، اور اسے زندہ رہنے کا حق صرف خاوند کے ساتھ ہی تھا اگر خاوند مرجاۓ اور اسے آگ میں جلایا جاتا تو عورت بھی اس کے ساتھ ہی زندہ جل مرتی اور اگر وہ خاوند کے ساتھ نہ جلتی تو اسے لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ھندوستان کے بعض علاقوں میں تو ابھی تک یہ موجود ہے ۔

اور یھودیت میں یھودی عورت کا کیا حال تھا اس کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں عھد قدیم میں یہ مندرجہ ذیل بات موجود ہے :

میں اور میرا دل حکمت وعقل کے علم اور اسے حاصل اور تلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تا کہ میں شر کو جو کہ جہالت اور حماقت کو جو کہ جنوں ہے معلوم کرسکوں ، تو میں نے موت کو پایا عورت جو کہ کھڑکی اور اس کا دل تسمہ اور اس کے ہاتھ بیڑیاں ہيں ۔
سفر الجامعۃ الاصحاح ( 7 : 25 - 26 ) ۔

یہ تو معلوم ہی ہے کہ عھد قدیم پر یھودی اورعیسائی دونوں کا ایمان ہے اور وہ اسے مقدس سمجھتے ہیں ۔

زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اوراورموجودہ اوراس سے پہلے ماضی قریب کے دورمیں عورت کوکیا کچھ حاصل ہے اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کریں گے :

ایک ڈانمارک کا ایک مصنف (wieth kordsten) عورت کے بارہ میں کیتھولک چرچ کے نقطہ نظر کی شرح کرتے ہوۓ کہتا ہے :

دور وسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لیے کہ کیتھولک چرچ کےمذھب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمارہوتی ہے )

( 586 م ) میلادی کو فرانس میں عورت کے بارہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں اس بات پر غور کیا گيا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا کہ نہیں ؟

اور اس کانفرنس میں مناقشہ کرنے بعد یہ قرار پا کہ عورت ایک انسان ہے لیکن وہ مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے ۔

اور فرانسیسی قانون کی شق نمبر ( 217 ) میں مندرجہ ذیل بات کہی گئی ہے :

شادی شدہ عورت (اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پر ہوئی ہو کہ اس کی اور اس کے خاوند کی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی) کا کسی کے لیے ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنی ملکیت کو منتقل کرسکتی اور نہ ہی اسے رہن رکھ سکتی ہے ، اور نہ ہی وہ عوض یا بغیرعوض اپنے خاوند کی معاھدے میں شرکت کے بغیر یا پھر اس کی موافقت جو کہ لکھی ہوئی ہو کے بغیر مالک بن سکتی ہے )

اور انگلیڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پر کتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا ، حتی کہ (1850) میلادی تک عورتوں کو شہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اور ان کے لیے (1882) میلادی تک کو‏ئی کسی قسم کے حقوق شخصی نہیں تھے ۔
دیکھیں کتاب : سلسلۃ مقارنۃ الادیان ۔ تالیف احمد شلبی جلد ( 3 ) صفحہ ( 210 - 213 ) ۔

اور دور حاضر میں یورپ اور امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جو صرف اور صرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کےلیے استعمال ہوتی ہے ، وہ اشتہاری کمپنیوں کا جزلاینفصل ہے ، بلکہ یہاں حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیے گۓ ہیں اور اس کے جسم کو تجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گيا ہے ،اور مردوں نے اپنے بناۓ ہوۓ قانون سے اسے اپنے لیے ہر جگہ پر اس کے ساتھ کھیلنا ہی مقصد بنا لیا ہے ۔

اس کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب تک تو وہ اپنے ھاتھ یا پھر فکر وسوچ سے مال وغیرہ خرچ کرے اور جب وہ بڑی عمر کی ہوجاۓ اور اپنے حواس کھو بیٹھے اور کسی کو کچھ نہ دے سکے تو معاشرہ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اوراسی طرح ادارے بھی اس کوچھوڑ دیتے ہیں اوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں زندگی گزارتی ہے یا پھر نفسیاتی ہسپتالوں میں ۔

تو آپ اس کا مقارنہ و موازنہ ( اس میں کو‏ئی کسی قسم کی برابری نہیں ) اس سے کریں جو قرآن مجید میں آیا ہے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مدد گارو معاون اور ) دوست ہیں}
سورۃ التوبۃ (آیت # 71 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ}
سورۃ البقرۃ ( 228 ) ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور آپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائيں تو ان کے آگے اُف تک نہیں کہنا اور نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چيت کرنا ۔

اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب ان بھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی }
سورۃ الاسراء ( 23 - 24 ) ۔

اور جب عورت کو اس کے رب نے اسے یہ عزت واحترام دیا تو ساری بشریت کے لیے واضح کردیا کہ عورت کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ یا تو وہ ماں اور بیوی ہوگی یا پھر بیٹی اور بہن کے روپ میں ، اور اس کے لیے خصوصی قوانین بھی مشروع کیے جو کہ صرف عورت کے ساتھ خاص ہیں نہ کہ مرد کے ساتھ ۔



ج
ج


بیٹیاں اور اسلام:
اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا، اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟
[القرآن» سورۃ نمبر 81 التكوير، آیت نمبر 8-9]

تفسیر:
(6)جاہلیت کے زمانے میں ایک انتہائی وحشیانہ رسم یہ تھی کہ لوگ عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے، اور بعض قبیلے ایسے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کے یہاں بچی پیدا ہوجاتی تو وہ شرم کے مارے اس بچی کو زندہ زمین میں دفن کردیتا تھا۔ قیامت میں اس بچی کو لاکر پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا؟ اس سے ان ظالموں کو سزا دینا مقصود ہوگا جنہوں نے اس بچی کے ساتھ ایسی درندگی کا معاملہ کیا۔


قیامت کی ضرورت:

اس آیت میں غور کیا جائے تو عقیدہ قیامت کی ضرورت بھی نمایاں ہوجاتی ہے ، یعنی ایک ظالم باپ اپنی بیٹی کو بغیر کسی جرم کے زندہ درگور کر دے اور وہ مٹی کے نیچے چیختی چلاتی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کوئی دن ایسا نہ آئے جس میں اس معصوم لڑکی کی داد رسی کی جائے اور اس کے بےرحم باپ کو قرار واقعی سزا دی جائے تو ایسی بےانصافی نہ تو کوئی عقل مند انسان گوارا کرسکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی گنجائش ہے، لہٰذا قیامت کا دن ضروری ہے اور وہ ضرور آئے گا جس میں ہر شخص کو اپنے مظالم کی سزا بھگتنا پڑے گی۔





عورت تک پہنچنے کی آزادی؟
مغربی تہذیب عورت کے آسان حصول کو مقاصد حیات میں سے ایک بہت بڑا مقصد قرار دیتی ہے۔ جس میں عورت عام بازاری اشیاء کی طرح ہر قیمت پر ہر کام کے لیے میسر ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف اسلامی تہذیب ہے، جس میں عورت جنس بازار نہیں ہے، وہ اشرف المخلوقات انسان ہی کی ایک صنف ہے۔




آزادی کے نام پر بے راہ روی؟
انسان کی زندگی میں اور حیوانات کی زندگی میں واحد فرق ضابطوں کا ہے۔ انسانی زندگی جس طرح اپنے تمام دیگر پہلوئوں میں ضابطوں کی پابند ہے اور اس پابندی میں ہی انسانیت مضمر ہے، اسی طرح انسان کے صنفی تعلقات بھی لازماً ضابطوں کے پابند ہوں گے۔ یہ انسانیت اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس لیے اسلام عورت کے احترام اور تکریم پر زور دیتا ہے۔





بے حیائی اور برائی کی آزادی:
عورت کی بے لباسی، اس کی توہین اور تحقیر ہے۔ عورت کا آوارگی میں استعمال انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔ اسلام اس کو برداشت نہیں کرتا۔ ان دو تہذیبوں میں ٹکرائو دراصل اسی نکتے پر قائم ہے۔ یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مغربی تہذیب اور سیکولرازم کا اگر اسلام سے تصادم ہے تو محض اسی نکتے پر ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی عنوانات میں اختلاف نظر آتا ہے، وہ اسی اساسی نکتے سے ہی مربوط ہیں۔ مثلاً تعلیم، ترقی، معیشت، تجارت، سیاست، کسی چیز میں اسلامی تعلیمات اور تصورات انسان کی حقیقی ضرورتوں کی نفی بالکل نہیں کرتیں، بلکہ زندگی کے تمام مراحل میں اسلام مغربی تہذیب سے زیادہ پختہ اور پائیدار ضابطے پیش کرتا ہے۔





دورِ جاہلیت کا قابلِ تقلید عمل:
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے سنا، *اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسے شخص سے جو اپنی بیٹی کو مار ڈالنا چاہتا کہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں*، چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: *اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی کو تمہارے حوالے کر سکتا ہوں اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا۔*
[صحیح بخاری:3828]


اسلام سے پہلے اہلِ عرب بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے تھے اور بعض قبائل یعنی مضر، خزاعہ اور تمیم وغیرہ تو اس حد تک نفرت کرتے تھے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔
[تفسیر قرطبی : سورة نحل (16) زیر آیت نمبر 85]


جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ ( رنج وغم سے) بھر جاتا ہے ، وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بری خبر کے باعث جو اسے دی گئی ( اور سوچتا ہے کہ) اس بیٹی کو ذلت کے ساتھ رکھ لے یا مٹی میں دفن کر دے)
[قرآن، سورۃ النحل:58-59]

*زمانہ جاہلیت میں بیٹی کی حالت زار:*
اسلام سے پہلے باپ اپنی بیٹیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے اس کے متعلق ان کی کہانی ان کی زبانی ملاحظہ کریں :

قیس بن عاصم کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : یا رسول اللہ ! میں نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ(8) بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا تھا ، آپ نے فرمایا:
*ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دو* ، قیس نے کہا : یا نبی اللہ ! میرے پاس تو اونٹ ہیں تو آپ نے فرمایا : *پھر ہر بیٹی کی طرف سے ایک اونٹ ذبح کر دو۔*
[المعجم الکبیر-طبرانی: حدیث نمبر 863]


حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں سے ایک شخص ہمیشہ مغموم رہتا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: *تم کیوں مغموم رہتے ہو؟* اس نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بہت بڑا گناہ کیا تھا اور میں ڈرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کو نہیں بخشے گا اگرچہ میں مسلمان ہوچکا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : *مجھے اپنا گناہ بتاؤ۔* اس نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! میں ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے ، میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ میری بیوی نے مجھ سے سفارش کی کہ میں اس کو چھوڑ دوں ( قتل نہ کروں) حتی کہ وہ بڑی ہوگئی اور وہ عورتوں میں خوبصورت ترین لڑکی تھی ، لوگوں نے اس سے نکاح کرنے کا پیغام دیا ۔ مجھے اس پر عار آیا اور میرے دل نے یہ برداشت نہ کیا کہ میں اس کا نکاح کر دوں یا بغیر نکاح کے گھر میں رہنے دوں ، میں نے اپنی



اسلام میں بیٹی کی فضیلت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت فاطمۃ الزھراءؓ کو آتے دیکھتے تو ان کو (1)خوش آمدید کہتے ، (2)ان کی طرف کھڑے ہوتے (3)اور ان (کے سر) کو بوسہ دیتے ، (4)پھر ان کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
[الادب المفرد-امام بخاری : صفحہ278]
۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : *بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو ، بیشک وہ ہمدردی اور محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔*

[مسند احمد : جلد 4 صفحہ 151]





نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
*جو شخص دو بچیوں کے بالغ ہونے تک ان کی کفالت کرے گا قیامت کے دن وہ اور میں اتنا قریب ہوں گے جتنا میرے ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔*
[صحیح مسلم: حدیث نمبر 6695، کتاب البر]

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
*جس شخص کی ایک بیٹی ہوئی اس نے اس کو ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا اور اس کو علم سکھایا اور اچھا علم سکھایا ، نیز اللہ تعالیٰ نے جو اس کو نعمتیں دیں ان نعمتوں میں سے اس نے اپنی بیٹی کو بھی نعمتیں دیں تو اس کی وہ بیٹی اس کے لیے جہنم سے پردہ اور حجاب ہوجائے گی۔*
[حلیۃ الالیاء : حدیث نمبر 6347 کنزالعمال : حدیث نمبر 45391]

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
*جس کی بیٹی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، اور اس کی توہین نہ کرے، اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔*
[سنن ابوداؤد: حدیث نمبر 5146: کتاب الادب]

نبی کریم ﷺ نے حضرت سراقہ بن مالک سے فرمایا: *کیا میں تمہیں سب سے بڑے اور سب سے افضل صدقہ پر آگاہ نہ کروں؟* اس نے عرض کیا: ضرور مہربانی فرمائیے ، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
*تیری وہ بیٹی جو (طلاق پاکر یا بیوہ ہو کر) تیرے گھر میں واپس آجائے اور تیرے سوا اس کے لیے کمانے والا کوئی نہ ہو۔*
[سنن ابن ماجۃ: حدیث نمبر3667 ابواب الادب]
خدانخواستہ اگر کسی بیٹی کو طلاق ہوجائے یا اس کا خاوند فوت ہوجائے اور اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو تو جو باپ اپنی بیٹی کو اپنے گھر میں تحفظ فراہم کرے اور اس کی کفالت کرے تو ایک طرف وہ صلہ رحمی کرکے اپنی بیٹی کی دعائیں لے گا اور دوسری طرف افضل صدقہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرے گا ۔

جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو وہ لڑکے کی نسبت زیادہ خوشی کا اظہار کرے تاکہ اہلِ جاہلیت کی مخالفت ہو ۔ اگر بیٹی ناپسندیدہ مخلوق ہوتی تو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ہاں بیٹیاں پیدا نہ ہوتیں حالانکہ سردار انبیاء ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار بیٹیاں تھیں اور آپ ﷺ نے فرمایا:
*بیٹیوں سے کراہت نہ کرو کیونکہ میں بھی متعدد بیٹیوں کا باپ ہوں۔*
[تفسیر روح البیان : سورة النحل (آیت 16) : زیر آیت نمبر 59]




 














گندے(بےحیاء) اور پاکباز(حیادار) جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں۔ اس کائنات میں نبی کریم ﷺ سے زیادہ پاکباز شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اس اصول کے تحت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی زوجیت میں کسی ایسی خاتون کو لائے جو (معاذ اللہ) پاکباز نہ ہو، کوئی شخص اسی بات پر غور کرلیتا تو اس پر (امی عائشہ پر لگائی گئی) اس تہمت کی حقیقت واضح ہوجاتی۔







کتاب My Body My Choice کی مصنفہ کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کو جب اور جس مرد سے جیسے چاہیں ناجائز-تعلقات رکھنے اور بچہ گِرانے (killing babies) کی اجازت ہونی چاہئے۔

جس پلیت معاشرے کی تہذیب culture اقتدار values اپنی اولاد کو پالنے کے بجائے مھنگے کتوں پر خرچ کرنا عادت ہو، وہ سیدھے سادھے عوام کی ذہنی تخریب اور بےحیائی کے فروغ دینے کیلئے اپنے کارندے اس نفسانی مذہب(راستہ) کو پھیلا رہے ہیں۔




جنسی تعلق کیلئے عورت کی کم از کم کتنی عمر ہو، اس معاملہ میں عورت کی رضامندگی کے بجائے ماہرین کی رائے معتبر ہے، تو ایسا کیوں؟

عورت کی مرضی پر لغام لگانے والی مغربی نام نہاد آزادی:
انڈیا میں ٢١ سال سے کم اور امریکا کی مختلف ریاستوں میں ١٨، ١٥ یا ١٢ سال سے کم عمر کی لڑکی اپنی "مرضی" سے بھی شادی نہیں کرسکتی۔
پھر کیوں عورت کی مرضی کو پارلیامینٹ یا کانگریس طے کرتی ہے کہ کب عورت کی مرضی کو ہم مانیں یا نہ مانیں؟
جبکہ مذاہب کے مقابلے میں خود کو انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار بنتے پھرتے ہیں۔

تفصیل کیلئے دیکھئے نیچے دی گئی ویڈیو:




حقوقِ نسواں، دورِ حاضر کے پر فریب نعرے اور اسلامی تعلیمات

 


 

عورتوں کے حقوق اوران کے احترام کے عہد کو دہرانے کے لیے ہر سال ۸/مارچ کو یوم خواتین کے طورپر منایا جاتا ہے ، اس کا سلسلہ کم و بیش سو سال سے جاری ہے ، پہلے یہ دن صرف روس اور چین وغیرہ میں منایا جاتا تھا؛ مگر۱۹۷۵/میں اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ اس دن کو عالمی سطح پر خواتین کے دن کے طورپر منائے جانے کی قرار داد پیش کی اور اس کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے ۔ اس دن عام طورپر حقوقِ نسواں کے علم برداد افراد اور ادارے مختلف جلسے جلوس کے ذریعے یا تحریروں اور تقریروں کے ذریعے سے خواتین کے حقوق کو بیان کرتے ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو ختم کرنے کا عزم دہراتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے سیکڑوں ممالک کا سیاسی و معاشرتی ماحول مختلف ہے اور ہر جگہ کے مسائل و مشکلات الگ الگ ہیں ،اسی مناسبت سے وہاں کی خواتین کے مسائل بھی مختلف ہوں گے، عام طورپر جنسی نابرابری کا زیادہ چرچا کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ عورتوں کو اپنے گھروں میں یا کام کرنے کی جگہوں پر جنسی تفریق سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں امتیاز برتا جاتا ہے ، تیسری دنیا کا معاشرہ تو خیر اس دور میں بھی اس حوالے سے پیچھے ہی سمجھا جاتا ہے ،لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ وہ ممالک جہاں کے بارے میں عام تصوریہ ہے کہ وہاں کے ہر شہری کو مکمل حقوق اور آزادی حاصل ہیں، وہاں کی صورتِ حال بھی اندوہناک ہی ہے؛ چنانچہ یومِ خواتین کے موقع پر جو دنیا بھر سے خواتین کے احتجاج کی خبریں اور تصویریں سامنے آتی ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد یورپی ممالک کی خواتین کی ہی ہوتی ہے ۔

اصل معاملہ کیا ہے؟اصل معاملہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے سال کے ایک مخصوص دن کا متعین کیا جانا بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عورتوں کو معاشرے میں وہ درجہ حاصل نہیں ہے جو مردوں کو حاصل ہے اور یہ بات اتنی باریک اور گہری نہیں ہے کہ اس کوسمجھانے کے لیے باقاعدہ دلائل کی ضرورت پڑے ، بس آپ یہ سمجھیے کہ مردوں کے لیے تو کسی عالمی ادارے کی جانب سے کوئی مخصوص دن متعین نہیں کیا گیا ہے ،جس میں اگر ان کے حقوق و اختیارات کا نہیں تو کم ازکم اسی بات پر زور دیا جائے کہ معاشرے میں ان کی ذمے داریاں کیا کیا ہیں اور انھیں اپنے بیوی بچوں اور دوسرے افراد کے ساتھ زندگی میں کس طرح کا برتاوٴ کرنا چاہیے ۔ پس آٹھ مارچ کے دن کو خواتین کے لیے مخصوص کرلینا اور اس دن آزادی نسواں اور حقوق نسواں وغیرہ پر لکچرز دینا ،لکھنا اور بولنا محض ایک رسم تو ہوسکتی ہے؛ لیکن اس کا کوئی معقول اور درست نتیجہ سامنے آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کی آزادی یا ان کے حقوق کی بات کرنے والے یا اس کے لیے تحریکیں چلانے والے لوگ چاہتے کیا ہیں ،یہ اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکا ، اس ضمن میں اگر آپ اس تحریک کے علمبرداروں کی تحریریں پڑھیں ، ان کی تقریریں سنیں اور ان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کا سارا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے ، سارے ایسے لوگوں کو حقوق نسواں کا علمبردار کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنی تحریروں میں جنسی انارکی کو پیش کیا ہو ۔ اب کوئی بھی انصاف پسند انسان بتائے کہ کیا یہی عورتوں کی آزادی ہے اور کیا بس یہی عورت کا حق ہے کہ وہ جہاں تہاں اپنے وقار ، عصمت اور عفت کی بے حرمتی سہتی پھرے ۔دراصل یہ اشرف المخلوقات کی رسوائی اور شیطان صفت انسانوں کی گندی سوچ کا نمونہ ہے ۔

 جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو لازماً اسلام کے معاشرتی نظام پر اشکال کیا جاتا ہے ۔ یہ کہاجاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے ۔ اس کو حقوق سے محروم رکھا ہے اور اسے قیدی بناکر رکھ دیا ہے؛حالاں کہ دوسری طرف آزادیِ نسواں کے علمبرداروں کا حال یہ ہے کہ وہ عورتوں سے دفتروں میں ،کارخانوں میں کام بھی کروا رہے ہیں اور دوسری طرف انھیں سے بچے بھی پیدا کروا رہے ہیں ،بچوں کی پرورش بھی عورتوں کے ذریعے ہی کروا رہے ہیں ،آج کے دور میں جو بہت زیادہ ترقی یافتہ اور روشن خیال اور آزادیِ نسواں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں وہ اپنی عورتوں کو اگر بہت زیادہ با اختیار بنادیتے ہیں تو یہ کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کے لیے کوئی دوسری عورت رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کی زیادتی کی جاتی ہے ،اب کوئی بتائے کہ وہ دوسری عورت کیا عورت نہیں ہے ؟جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس سلسلے بس اس حقیقت کوجان لینا ہی کافی ہے کہ عورتوں کے حقوق و اختیارات کی بات کرنے والے لوگ ،ممالک اور ادارے تو ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے سامنے آئے ہیں؛ جب کہ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو ہر قسم کے مظالم سے اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی ،سب سے پہلے اسلام نے یہ تصور عام کیا کہ بحیثیت انسان کے مردو و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں ، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، چہ جائے کہ انھیں حقوق دیتے۔ جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دئے ہیں اور جس فیاضی سے دئے ہیں، وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہ دے سکا ۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور باقاعدہ اس کا تعین کیا ہے۔اگر بیوی ہے تو گھر کی ملکہ ہے ، بیٹی ہے تو والدین کے لیے رحمت ونعمت ہے ، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنت کی بشارت ہے اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصور ہے ،کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟اس کے علاوہ اسلام نے عورتوں کے تعلیمی ،معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طورپر بیان کیا ہے۔ما ں کی گود کو بچے کی پہلی تعلیم گاہ قرار دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا اور مہذب ہونا کتنا ضروری ہے ۔انھیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا پورا اختیار ہے ، کسی کو اجازت نہیں کہ اس کے مال میں تصرف کرے ۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگر چہ ولی کولڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے؛ لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی ،اس کی رضامندی ضروری ہے ۔ اسلام نے اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورت کی فطری حالت اور ساخت کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اسی وجہ سے کچھ معاملوں میں مردوں کے احکام الگ ہیں؛ جب کہ عورتوں کے الگ ہیں اور اس میں کسی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے ؛ کیوں کہ ہم سب دیکھتے اور جانتے ہیں کہ چاہے انسان کا معاملہ ہو یا حیوان کا یا کسی بھی چیز کا جتنی اس کی صلاحیت اور وسعت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس پر ذمے داری عائد کی جاتی ہے یااسی کے مطابق اس کو اختیارات دئے جاتے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی زندگی بھر کے تمام تر مرحلوں میں مکمل رہنمائی کرتا ہے اور عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے ، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انھیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوشحال اور مامون بن سکتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں خود مسلمانوں کا بھی ایک بڑا طبقہ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات سے دور ہوچکا ہے ، جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے شمار خرابیاں جنم لے چکی ہیں اور بہت سے بدباطن لوگ مسلمانوں کی عملی خامیوں کو اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے میں مردو و زن کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ، اس کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی جائے ، ان شاء اللہ اس سے نہ صرف ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے افراط و تفریط کا خاتمہ ہوگا؛ بلکہ دوسرے لوگ بھی ہمارے طرزِ عمل سے متاثر ہوکر اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے۔

 

$$$

 

--------------------------------------------------






 

"اسلام میں عورتوں کے حقوق"

  غیروں کی نظر میں


 

مذہب اسلام اس دنیا میں اس وقت آیا ہے، جب انسانیت دم توڑ رہی تھی، انسانی ظلم وجور پر ظلم کی تاریخ بھی آنسو بہارہی تھی اور عدل ومساوات کی روح تقریباً عنقا ہوچکی تھی۔ اسلام نے ایسے نامساعد حالات کے باوجود انصاف وبرابری کا نعرہ بلند کیا، اور عملاً بھی اس کی شاندار تصویر پیش کی، اور حاکم ومحکوم، آقا وغلام اور اونچ ونیچ کے ناہموار ٹیلوں سے بھرے صحرائے انسانیت میں عدل وانصاف، برابری ومساوات اوریکسانیت وہم آہنگی کے پھول کھلاکر ہر سو نسیم صبح چلادی۔

”مشتے از خروارے“ کے طورپر اسلامی مساوات میں ہم ”حقوق نسواں“ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو عورت عالم گیتی پر جانوروں، بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بے وقعت ومظلوم تھی، کو اسلام نے ذلت ونکبت کے تحت الثریٰ سے اٹھاکر بلندی وعظمت کے بام ثریا پر رونق افروز کردیا، اوراسے ایسے ایسے حقوق عطا کئے جس کا تصور بھی اسلام سے پہلے ناممکن اور معدوم تھا...، مگر آج جبکہ ہر طرف سے اسلام پر یورش ہورہی ہے اورطرح طرح کی بے جاتنقیدوں اور لغو اتہامات کا نشانہ بنایا جارہاہے اوراسلامی اقدار و روایات کو ناقص بلکہ ظلم اور عدم مساوات سے عبارت گردانا جارہاہے اور زور شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ اسلام نے عورتوں کو اس ناجائز حقوق سے محروم رکھا ہے، اور اس کے ساتھ عدل ومساوات کا معاملہ نہیں کیا، حالانکہ اگر عقل وخرد کو تعصب سے پاک وصاف رکھا جائے اور دل ودماغ سے منصفانہ جائزہ لیاجائے تو یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح عیاں ہوجائے گی، کہ عورت چونکہ تمدن انسانی کا محور ومرکز ہے، گلشن ارضی کی زینت ہے، اس لئے اسلام نے باوقار طریقے سے اسے ان تمام معاشرتی حقوق سے نوازا جن کی وہ مستحق تھی، چنانچہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا، دیگر اقوام کے برعکس اسے ذاتی جائداد ومال رکھنے کا حق عطا کیا، شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کی صورت دکھلائی، وراثت میں اس کا حصہ مقرر کرایا، اسے معاشرہ کی قابل احترام ہستی قرار دیا اور اس کے تمام جائز قانونی حقوق کی نشان دہی کی، حاصل یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر حقوق دئے ہیں، خواہ اس کا تعلق ذاتی جائداد وراثت سے ہو یا شادی یا طلاق کا مسئلہ ہو، کوئی دوسرا مذہب اس کا عشر عشیر بھی پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔

دوسری طرف اگر آج ہم افترا پردازوں کے نعرے اور ان کے نتائج پر غور کریں تو اس پرفریب نعرہ نے اس بے چاری کو اس کے سوا کچھ نہیں دیا کہ وہ دفتروں میں کلرکی کرے، اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکریٹری بنے، تجارت چمکانے کیلئے سیلزگرل بنے اور اپنے ایک ایک عضو کو سربازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت نظارہ دے ... ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ، ناجائز بچوں کی بہتات، ایڈز کا شیوع، غرضیکہ تمام معاشرتی واخلاقی خرابیاں اسی نام نہاد ”آزادیٴ نسواں“ کا ثمرئہ تلخ ہے۔

اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا؟ قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور حقیقی ضامن ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقیقت سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کے تحت ہے، مگر

”پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے“

چنانچہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں، چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دئے جن کا تصور قبل از اسلام بعید از قیاس تھی۔

”ای بلائیڈن“ رقمطراز ہیں ”سچا اور اصلی اسلام جو محمد صلى الله عليه وسلم لے کر آئے، اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے (سنت نبوی اور جدید سائنس)

”ڈبلیولائٹرر“ لکھتے ہیں: عورت کو جو تکریم اور عزت محمد صلى الله عليه وسلم نے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے“۔

(Mohammadanism in religious system of the world) ”ای ڈرمنگھم“ حضور صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات کو سراہتے ہوئے اور اسلام کے عورتوں کی زندگی کے تبدیل کردینے کے تعلق سے لکھتا ہے: ”اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی، ان سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا تھا جو محمد صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات سے انہیں حاصل ہوا، جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دیدی گئیں لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ بھی حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ (The Life of Mohammad)

ڈبلیوڈبلیو کیش کہتے ہیں ”اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دئے اور انہیں طلاق کا حق دیا“ (The Eupensin of Islam) ۔

حقوق نسواں اوراس کے چند اہم پہلو

عوموماً عورتوں کو زندگی میں تین اہم مراحل سے گذرنا پڑتا ہے: (۱) پیدائش سے شادی تک (۲) ازدواجی زندگی (۳) شوہر کے بعد کی زندگی۔

پیدائش سے شادی تک۔

پہلے مرحلے میں یہ بات واضح ہے کہ ازدواجی زندگی تک جب ہی پہنچا جاسکتا ہے جبکہ وجود (پیدائش) کو بقا حاصل ہو، مگر اسلام سے پہلے انسان کے اندر صفت بہیمیت پوری طرح غالب آگئی تھی، چنانچہ صنفِ نازک کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا، تین سال، پانچ سال کی نوعمر بچیوں کو محض اسلئے پیوندخاک کردیتے تھے کہ ان کی ناک نہ کٹ جائے، کوئی ان کا داماد نہ کہلانے لگے، لیکن اسلام نے ”واذ المووٴدة سئلت بای ذنب قتلت“ کے جانفزا حکم کے ذریعہ اس فتنہٴ دختر کشی کا سدباب کردیا اور ڈوبتی انسانیت کو حیات اور حوا کی بیٹی کو جینے کا حق دیا۔

”آئرینا میڈمکس“ (Women in Islam 1930) میں اسلام اورماقبلِ اسلام عورت کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ”محمد صلى الله عليه وسلم نے ان چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ہے، نماز، روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپ صلى الله عليه وسلم کے لئے قابل احترام تھی، معاشرہ میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کیا کرتے تھے، محمد صلى الله عليه وسلم نے عورت کو جینے کا حق دیا“ (سنت نبوی اورجدید سائنس۲)

”جنرل گلپ پاشا“ نے حضور صلى الله عليه وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب لکھی ہے (The Life And Tims of Mohammad) وہ اس میں پہلے اسلامی حقوق وراثت کی تعریف کرتے ہیں اور پھر آگے لکھتے ہیں: ”حضور صلى الله عليه وسلم نے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بالکلیہ خاتمہ کردیا“ (ایضاً)

”ریونڈجی ایم راڈویل“ ایک انتہائی متعصّب عیسائی ہے، مگراعترافِ حق سے اپنے آپ کو نہ روک سکا کہ قرآن نے خانہ بدوشوں کی دنیا بدل ڈالی، دخترکشی کو ختم کردیا،اور تعدد ازدواج کو محدود کرکے احسان عظیم کردیا، چنانچہ اس نے بے اختیار لکھ دیا ”قرآنی تعلیمات سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کردیا ہو، اولاد کشی ختم کرنا، توہمات کو دورکرنا، بیویوں کی تعداد گھٹاکر ایک حد مقرر کرنا، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لئے بلاشبہ برکت اور نزول حق تھیں، گوعیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے“ (فاران ستمبر ۱۹۷۶/ بحوالہ میری آخری کتاب)

دوسرا مرحلہ ”ازدواجی زندگی“ ہے۔

اس مرحلے میں عورت کو بہت کچھ نرم گرم سہنا پڑتا ہے، بسا اوقات شوہر کی شہوت اس سے پوری نہیں ہوپاتی تو وہ دیگر راہیں ڈھونڈتا ہے، اخلاقی وتہذیب کی حد کو پار کرکے بازاری یا ان جیسی عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے اور پھرمیاں بیوی کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے، اسلام نے ان ہی خرابیوں اور نقصانات سے بچاؤ کے لئے ”تعدد ازدواج“ کی اجازت دی ہے، اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے بڑے زور شور سے یہ کہتے ہیں کہ تعدد زوجگی میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اوران کا حق منقسم ہوکر رہ جاتا ہے اور سوکن کی شکل میں طرح طرح کی ذہنی، جذباتی اورمعاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پروپیگنڈہ کتنا مبنی برحقیقت ہے اور تعدد ازدواج میں کیا کیا مصالح مضمر ہیں؟ یہ انسانی فطری طریقہ ہے یا اس سے متصادم؟ اس قسم کے سوالوں کا جواب الحمدللہ بہتوں نے دیا ہے اوراس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، ہم تفصیل میں جانا نہیں چاہتے تاہم یہ ضرور کہیں گے کہ اسلام سے پہلے بھی تعدد ازدواج کی رسم رہی ہے اوراس کے بعد بھی جاری ہے بلکہ اسلام نے تو اپنے متبعین کے لئے ایک حد مقرر کی ہے، جبکہ اسلام کے علاوہ میں اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔

موجودہ زمانہ میں بھی تعدد ازدواج کی شکل پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام میں قانوناً اور فطرةً اور غیروں میں جانوروں کی طرح ... یہ گرل فرینڈ کیا ہے؟ کوئی زہرہلاہل کو قند کہہ دے تو کیا اس کی حقیقت بدل جائے گی اور قند بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ مزید دھوکہ دہی اور فریب کا الزام لگے لگا۔

یہی قول مشہور Theosophist نیت بسنت کا ہے موصوفہ اسی پوشیدہ ازدواج پر روشنی ڈالتی ہوئی یورپ کی اخلاقی باختہ حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ”مغرب میں جھوٹی اور نمائش یک زوجگی ہے بلکہ فی الحقیقت تعدد ازدواج ہے مگر کسی ذمہ داری کے بغیر۔ جب آشنا عورت سے مرد کا دل بھر جاتا ہے تواسے وہ نکال باہر کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کسبی عورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کا ابتدائی محب“ اس کے مستقبل کی ذمہ داری نہیں لیتا اور وہ تعدد ازدواج والے گھر میں محفوظ بیوی اور ماں بننے کے مقابلہ میں سوگنا بدتر ہوتی ہے۔ جب ہم ہزاروں مصیبت زدہ عورتوں کو دیکھتے ہیں جو یورپ کے شہروں میں رات کے وقت سڑکوں پر ہجوم لگائے ہوئے چلتی ہیں تو ہمیں یقینا یہ محسوس کرنا پڑتا ہے کہ مغرب کو تعدد ازدواج کے سلسلے میں اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسلامی تعدد ازدواج کے محاسن وفوائد اور مغربی تعدد ازدواج کی قباحت ونقصان پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید رقم کرتی ہیں۔

”عورت کے لئے یہ کہیں زیادہ بہتر ، کہیں زیادہ مسرت انگیز اور کہیں زیادہ عزت بخش ہے کہ وہ (اسلامی) تعدد ازدواج کے سسٹم کے تحت زندگی گزارے، وہ ایک مرد سے متعلق ہو، حلال بچہ اس کی آغوش میں ہو اور وہ عزت کے ساتھ جی رہی ہو،اس کے مقابلے میں (یورپین تعدد ازدواج) کہ اس کی عصمت دری کی جائے، وہ سرکوں پر نکال باہر کردی جائے، بسا اوقات ایک حرامی بچہ کے ساتھ جو غیرقانونی ہو، اس کی کوئی جائے پناہ نہ ہو، کوئی اس کی فکر کرنے والا نہ ہو، اس کی راتوں پر راتیں اس طرح گزریں کہ وہ کسی بھی راہ گیر کا صیدزبوں بننے کو تیار ہو، مادریت کے شرف سے محروم سب کی دھتکاری ہوئی ہو۔ (Marriage commission report بحوالہ تعدد ازدواج: سیدحامد علی)

والیٹر: ایک مشہور فرانسیسی موٴرخ ہے، تہذیب اسلام پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:

”میں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ لوگ جاہل اور ضعیف العقل ہیں جو مذہب اسلام پر دیگراتہامات کے علاوہ عیش پرستی و راحت کوشی کا الزام لگاتے ہیں، یہ سب اتہامات بے جا اور صداقت سے مبرّا ہیں“۔

ڈاکٹر ”موسیولیبان“ مصنف تمدن عرب رقم طراز ہیں:

مسلمان کی جائز کثرت ازدواج یورپ کے ناجائز کثرت ازدواج سے ہزارہا درجہ بہتر ہے،اسلام پر جس دریدہ ذہنی سے نکتہ چینی کی جاتی ہے اور جس بری صورت میں اسے پیش کیا جاتا ہے وہ فرضی مہیب صورت بھی یورپ کے موجودہ معاشرہ کے آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتی، دراصل یورپین ممالک میں عصمت عنقاء بن گئی ہے۔ (اسلام اور تعدد ازدواج)

تیسرا اہم مرحلہ ”شوہر کے بعد کی زندگی“ ہے۔

اسلام سے پہلے ہوتا یہ تھا کہ جب عورت غیرشادی شدہ ہے اس کی کفالت باپ کے ذمہ ہوتی تھی اور شادی کے بعد شوہر کے زیردست رہتی، باپ سے اسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ اس لئے ہندوستان وغیرہ میں جہیز کا دور دورہ ہوا کہ والدین سے وراثت تو ملتی نہیں اس لئے جہیز میں جو کچھ دے سکتے ہوں دے دیں اسی طرح شادی کے بعد اتفاق سے شوہر کا انتقال اس عورت سے پہلے ہوجائے تو عورت کو شوہر کی جائداد سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی تھی۔ جس کا شاخسانہ ستی کی رسم ہے۔ بلکہ تمام مال غیروں کا ہوجاتا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوتا تھا، مگر اسلام نے آتے ہی اس رسم کا خاتمہ کردیا جس کی وجہ سے عورت جیتے جی مردہ بن کر رہ جاتی تھی۔ اور قرآن کریم نے ”والذین یتوفون منکم الخ“ اورآیت میراث کے ذریعہ اس کا حصہ بیان کرکے اس فتنہ کا سدباب کردیا۔اسلام کی انہیں خوبیوں کو سراہتے ہوئے فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی لکھتے ہیں:

”اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا ذلت کے بجائے عزت ورفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس)

پروفیسر D. Margoliouth یورپی مصنف ہے جو اسلام اور پیغمبر صلى الله عيله وسلم اسلام کی دشمنی، بہتان تراشی اور اعتراضات والزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر ضمیر کی آواز کو دبا نہ سکا چنانچہ وہ عیسائیت ویہودیت پر حقوق نسواں کے تعلق سے تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے:

 

”دور جاہلیت کے عرب تو ایک طرف رہے، عیسائیت اور یہودیت میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اورمالک جائداد ہوسکتی ہے، یہ مذاہب اس کی اجازت نہیں دیتے کہ عورت بھی مردوں کی طرح معاشی اعتبار سے خوش حال ہوسکے عورتوں کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں ومعاشروں میں باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرتی تھی۔ محمد صلى الله عليه وسلم نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ (ایضاً)

دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر راجندر صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:

تاریخی طور پر اسلام عورتوں کو جائداد کے حقوق دینے میں بہت زیادہ فراخ دل اور ترقی پسند رہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۵۶/ میں ہندوکوڈبل سے قبل ہندو عورتوں کا جائداد میں کوئی حصہ نہیں تھا، حالانکہ اسلام مسلم عورتوں کو یہ حق ۱۴ سو سال پہلے دے چکا تھا۔ (The Statement Delhi)

حرف آخر

عورت چونکہ گھر کی زینت ہے اس لئے اس زینت کو نظربد سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے کچھ حدود قائم کئے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان پابندیوں سے عورت کو کوئی نقصان پہنچا ہو، اسے کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو بلکہ یہ تو عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے، انہیں خیال کا اظہار ہملٹن ان الفاظ میں کرتے ہیں:

”اسلام کے احکام عورتوں کے بارے میں نہایت واضح ہیں، اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو تکلیف پہنچائے اور ان پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔“

سرجان بیگٹ رقم طراز ہے:

”واقعہ یہ ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے عورتوں پر جو پابندیاں عائد فرمائی ہیں ان کی نوعیت سخت نہیں ہے بلکہ ان پابندیوں میں عورتوں کے لئے آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔“ (محمد صلى الله عليه وسلم بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس)

غیروں کے اعتراف حقیقت کے بعد بلا اختیار قلب وذہن میں ”ان الدین عند اللّٰہ الاسلام“ دھڑکرن بن کر دھڑکنے لگتا ہے اور مشاہدہ کی آنکھوں سے ”ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم“ کی تفسیر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اعترافِ حق کے ساتھ ساتھ قبول حق کے بھی حصہ دار بن جاتے۔

 


اردو لفظ "عورت" کی ایک معنی شرم گاہ یا قابلِ پردہ ہے۔
[فیروز اللغات:906]
عربی لفظ "عورۃ" کے بھی یہی معنی ہے۔[المنجد:495]

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم  نے فرمایا: 
عورت چھپاکر(محفوظ)رکھنے کی چیز ہے کیونکہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان(کا چیلا)اسے  گھورتا ہے۔
[ترمذى:1173]
اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اللہ کے سب سے زیادہ قریب(حفاظت میں) اسی وقت ہوتی ہے جب  وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے۔
[طبرانى:10115]

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْوَاسِطِيُّ، ثنا سُوَيْدٌ أَبُو حَاتِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ، وَإِنَّهَا إِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ، وَإِنَّهَا أَقْرَبُ مَا يَكُونُ إِلَى اللهِ وَهِيَ فِي قَعْرِ بَيْتِهَا»۔
[حديث ابن مسعود المرفوع: أخرجه الطبرانى (10/108، رقم 10115) ، وابن حبان (12/412، رقم 5598) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الأوسط (8/101، رقم 8096) ، والخطيب (8/451).

حديث ابن مسعود الموقوف: أخرجه ابن أبى شيبة (2/157، رقم 7616) .]

پردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب رواج اور چلن ہے۔






اللہ کے آخری پیغمبر محمد ﷺ کی پیش گوئی-گمراہی کے فتنے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا فَسَقَ فِتْيَانُكُمْ ، وَطَغَى نِسَاؤُكُمْ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا لَمْ تَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا رَأَيْتُمُ الْمُنْكَرَ مَعْرُوفًا ، وَالْمَعْرُوفَ مُنْكَرًا ؟ " .
ترجمہ:
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: جلد 2 / صفحہ 340]






بہترین عورت کون؟

تفریق کا معیار» جنس نہیں خوبی ہے۔

القرآن:
گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں، اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق۔ اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق ۔ یہ (پاکباز مرد اور عورتیں) ان باتوں سے بالکل مبرا(پاک) ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ ان (پاکبازوں) کے حصے میں تو مغفرت ہے اور باعزت رزق۔
[سورۃ النور، آیت نمبر 26]


الله کے نزدیک معزز ومکرم، پرہیزگار ہے۔
[سورۃ الحجرات:13]






"اسلام میں عورتوں کے حقوق"
  غیروں کی نظر میں


مذہب اسلام اس دنیا میں اس وقت آیا ہے، جب انسانیت دم توڑ رہی تھی، انسانی ظلم وجور پر ظلم کی تاریخ بھی آنسو بہارہی تھی اور عدل ومساوات کی روح تقریباً عنقا ہوچکی تھی۔ اسلام نے ایسے نامساعد حالات کے باوجود انصاف وبرابری کا نعرہ بلند کیا، اور عملاً بھی اس کی شاندار تصویر پیش کی، اور حاکم ومحکوم، آقا وغلام اور اونچ ونیچ کے ناہموار ٹیلوں سے بھرے صحرائے انسانیت میں عدل وانصاف، برابری ومساوات اوریکسانیت وہم آہنگی کے پھول کھلاکر ہر سو نسیم صبح چلادی۔
”مشتے از خروارے“ کے طورپر اسلامی مساوات میں ہم ”حقوق نسواں“ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو عورت عالم گیتی پر جانوروں، بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بے وقعت ومظلوم تھی، کو اسلام نے ذلت ونکبت کے تحت الثریٰ سے اٹھاکر بلندی وعظمت کے بام ثریا پر رونق افروز کردیا، اوراسے ایسے ایسے حقوق عطا کئے جس کا تصور بھی اسلام سے پہلے ناممکن اور معدوم تھا...، مگر آج جبکہ ہر طرف سے اسلام پر یورش ہورہی ہے اورطرح طرح کی بے جاتنقیدوں اور لغو اتہامات کا نشانہ بنایا جارہاہے اوراسلامی اقدار و روایات کو ناقص بلکہ ظلم اور عدم مساوات سے عبارت گردانا جارہاہے اور زور شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ اسلام نے عورتوں کو اس ناجائز حقوق سے محروم رکھا ہے، اور اس کے ساتھ عدل ومساوات کا معاملہ نہیں کیا، حالانکہ اگر عقل وخرد کو تعصب سے پاک وصاف رکھا جائے اور دل ودماغ سے منصفانہ جائزہ لیاجائے تو یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح عیاں ہوجائے گی، کہ عورت چونکہ تمدن انسانی کا محور ومرکز ہے، گلشن ارضی کی زینت ہے، اس لئے اسلام نے باوقار طریقے سے اسے ان تمام معاشرتی حقوق سے نوازا جن کی وہ مستحق تھی، چنانچہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا، دیگر اقوام کے برعکس اسے ذاتی جائداد ومال رکھنے کا حق عطا کیا، شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کی صورت دکھلائی، وراثت میں اس کا حصہ مقرر کرایا، اسے معاشرہ کی قابل احترام ہستی قرار دیا اور اس کے تمام جائز قانونی حقوق کی نشان دہی کی، حاصل یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر حقوق دئے ہیں، خواہ اس کا تعلق ذاتی جائداد وراثت سے ہو یا شادی یا طلاق کا مسئلہ ہو، کوئی دوسرا مذہب اس کا عشر عشیر بھی پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔
دوسری طرف اگر آج ہم افترا پردازوں کے نعرے اور ان کے نتائج پر غور کریں تو اس پرفریب نعرہ نے اس بے چاری کو اس کے سوا کچھ نہیں دیا کہ وہ دفتروں میں کلرکی کرے، اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکریٹری بنے، تجارت چمکانے کیلئے سیلزگرل بنے اور اپنے ایک ایک عضو کو سربازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت نظارہ دے ... ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ، ناجائز بچوں کی بہتات، ایڈز کا شیوع، غرضیکہ تمام معاشرتی واخلاقی خرابیاں اسی نام نہاد ”آزادیٴ نسواں“ کا ثمرئہ تلخ ہے۔
اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا؟ قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور حقیقی ضامن ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقیقت سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کے تحت ہے، مگر
”پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے“
چنانچہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں، چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دئے جن کا تصور قبل از اسلام بعید از قیاس تھی۔
”ای بلائیڈن“ رقمطراز ہیں ”سچا اور اصلی اسلام جو محمد صلى الله عليه وسلم لے کر آئے، اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے (سنت نبوی اور جدید سائنس)
”ڈبلیولائٹرر“ لکھتے ہیں: عورت کو جو تکریم اور عزت محمد ﷺ نے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے“۔
(Mohammadanism in religious system of the world) ”ای ڈرمنگھم“ حضور ﷺ کی تعلیمات کو سراہتے ہوئے اور اسلام کے عورتوں کی زندگی کے تبدیل کردینے کے تعلق سے لکھتا ہے: ”اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد ﷺ کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی، ان سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا تھا جو محمد ﷺ کی تعلیمات سے انہیں حاصل ہوا، جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دیدی گئیں،لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ بھی حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ (The Life of Mohammad)
ڈبلیوڈبلیو کیش کہتے ہیں ”اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دئے اور انہیں طلاق کا حق دیا“ (The Eupensin of Islam) ۔
حقوق نسواں اوراس کے چند اہم پہلو
عوموماً عورتوں کو زندگی میں تین اہم مراحل سے گذرنا پڑتا ہے: (۱) پیدائش سے شادی تک (۲) ازدواجی زندگی (۳)شوہر کے بعد کی زندگی۔
پیدائش سے شادی تک۔
پہلے مرحلے میں یہ بات واضح ہے کہ ازدواجی زندگی تک جب ہی پہنچا جاسکتا ہے جبکہ وجود (پیدائش) کو بقا حاصل ہو، مگر اسلام سے پہلے انسان کے اندر صفت بہیمیت پوری طرح غالب آگئی تھی، چنانچہ صنفِ نازک کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا، تین سال، پانچ سال کی نوعمر بچیوں کو محض اسلئے پیوندخاک کردیتے تھے کہ ان کی ناک نہ کٹ جائے، کوئی ان کا داماد نہ کہلانے لگے، لیکن اسلام نے ”واذ المووٴدة سئلت بای ذنب قتلت“ کے جانفزا حکم کے ذریعہ اس فتنہٴ دختر کشی کا سدباب کردیا اور ڈوبتی انسانیت کو حیات اور حوا کی بیٹی کو جینے کا حق دیا۔
”آئرینا میڈمکس“ (Women in Islam 1930) میں اسلام اورماقبلِ اسلام عورت کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ”محمد ﷺ نے ان چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ہے، نماز، روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپ ﷺ کے لئے قابل احترام تھی، معاشرہ میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کیا کرتے تھے، محمد ﷺ نے عورت کو جینے کا حق دیا“ (سنت نبوی اورجدید سائنس۲)
”جنرل گلپ پاشا“ نے حضور ﷺ کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب لکھی ہے (The Life And Tims of Mohammad) وہ اس میں پہلے اسلامی حقوق وراثت کی تعریف کرتے ہیں اور پھر آگے لکھتے ہیں: ”حضور ﷺ نے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بالکلیہ خاتمہ کردیا“ (ایضاً)
”ریونڈجی ایم راڈویل“ ایک انتہائی متعصّب عیسائی ہے، مگراعترافِ حق سے اپنے آپ کو نہ روک سکا کہ قرآن نے خانہ بدوشوں کی دنیا بدل ڈالی، دخترکشی کو ختم کردیا،اور تعدد ازدواج کو محدود کرکے احسان عظیم کردیا، چنانچہ اس نے بے اختیار لکھ دیا ”قرآنی تعلیمات سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کردیا ہو، اولاد کشی ختم کرنا، توہمات کو دورکرنا، بیویوں کی تعداد گھٹاکر ایک حد مقرر کرنا، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لئے بلاشبہ برکت اور نزول حق تھیں، گوعیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے“ (فاران ستمبر ۱۹۷۶/ بحوالہ میری آخری کتاب)
دوسرا مرحلہ ”ازدواجی زندگی“ ہے۔
اس مرحلے میں عورت کو بہت کچھ نرم گرم سہنا پڑتا ہے، بسا اوقات شوہر کی شہوت اس سے پوری نہیں ہوپاتی تو وہ دیگر راہیں ڈھونڈتا ہے، اخلاقی وتہذیب کی حد کو پار کرکے بازاری یا ان جیسی عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے اور پھرمیاں بیوی کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے، اسلام نے ان ہی خرابیوں اور نقصانات سے بچاؤ کے لئے ”تعدد ازدواج“ کی اجازت دی ہے، اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے بڑے زور شور سے یہ کہتے ہیں کہ تعدد زوجگی میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اوران کا حق منقسم ہوکر رہ جاتا ہے اور سوکن کی شکل میں طرح طرح کی ذہنی، جذباتی اورمعاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پروپیگنڈہ کتنا مبنی برحقیقت ہے اور تعدد ازدواج میں کیا کیا مصالح مضمر ہیں؟ یہ انسانی فطری طریقہ ہے یا اس سے متصادم؟ اس قسم کے سوالوں کا جواب الحمدللہ بہتوں نے دیا ہے اوراس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، ہم تفصیل میں جانا نہیں چاہتے تاہم یہ ضرور کہیں گے کہ اسلام سے پہلے بھی تعدد ازدواج کی رسم رہی ہے اوراس کے بعد بھی جاری ہے بلکہ اسلام نے تو اپنے متبعین کے لئے ایک حد مقرر کی ہے، جبکہ اسلام کے علاوہ میں اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔
موجودہ زمانہ میں بھی تعدد ازدواج کی شکل پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام میں قانوناً اور فطرةً اور غیروں میں جانوروں کی طرح ... یہ گرل فرینڈ کیا ہے؟ کوئی زہرہلاہل کو قند کہہ دے تو کیا اس کی حقیقت بدل جائے گی اور قند بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ مزید دھوکہ دہی اور فریب کا الزام لگے لگا۔
یہی قول مشہور Theosophist نیت بسنت کا ہے موصوفہ اسی پوشیدہ ازدواج پر روشنی ڈالتی ہوئی یورپ کی اخلاقی باختہ حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ”مغرب میں جھوٹی اور نمائش یک زوجگی ہے بلکہ فی الحقیقت تعدد ازدواج ہے مگر کسی ذمہ داری کے بغیر۔ جب آشنا عورت سے مرد کا دل بھر جاتا ہے تواسے وہ نکال باہر کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کسبی عورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کا ابتدائی محب“ اس کے مستقبل کی ذمہ داری نہیں لیتا اور وہ تعدد ازدواج والے گھر میں محفوظ بیوی اور ماں بننے کے مقابلہ میں سوگنا بدتر ہوتی ہے۔ جب ہم ہزاروں مصیبت زدہ عورتوں کو دیکھتے ہیں جو یورپ کے شہروں میں رات کے وقت سڑکوں پر ہجوم لگائے ہوئے چلتی ہیں تو ہمیں یقینا یہ محسوس کرنا پڑتا ہے کہ مغرب کو تعدد ازدواج کے سلسلے میں اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسلامی تعدد ازدواج کے محاسن وفوائد اور مغربی تعدد ازدواج کی قباحت ونقصان پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید رقم کرتی ہیں۔
”عورت کے لئے یہ کہیں زیادہ بہتر ، کہیں زیادہ مسرت انگیز اور کہیں زیادہ عزت بخش ہے کہ وہ (اسلامی) تعدد ازدواج کے سسٹم کے تحت زندگی گزارے، وہ ایک مرد سے متعلق ہو، حلال بچہ اس کی آغوش میں ہو اور وہ عزت کے ساتھ جی رہی ہو،اس کے مقابلے میں (یورپین تعدد ازدواج) کہ اس کی عصمت دری کی جائے، وہ سرکوں پر نکال باہر کردی جائے، بسا اوقات ایک حرامی بچہ کے ساتھ جو غیرقانونی ہو، اس کی کوئی جائے پناہ نہ ہو، کوئی اس کی فکر کرنے والا نہ ہو، اس کی راتوں پر راتیں اس طرح گزریں کہ وہ کسی بھی راہ گیر کا صیدزبوں بننے کو تیار ہو، مادریت کے شرف سے محروم سب کی دھتکاری ہوئی ہو۔ (Marriage commission report بحوالہ تعدد ازدواج: سیدحامد علی)
والیٹر: ایک مشہور فرانسیسی موٴرخ ہے، تہذیب اسلام پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”میں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ لوگ جاہل اور ضعیف العقل ہیں جو مذہب اسلام پر دیگراتہامات کے علاوہ عیش پرستی و راحت کوشی کا الزام لگاتے ہیں، یہ سب اتہامات بے جا اور صداقت سے مبرّا ہیں“۔
ڈاکٹر ”موسیولیبان“ مصنف تمدن عرب رقم طراز ہیں:
مسلمان کی جائز کثرت ازدواج یورپ کے ناجائز کثرت ازدواج سے ہزارہا درجہ بہتر ہے،اسلام پر جس دریدہ ذہنی سے نکتہ چینی کی جاتی ہے اور جس بری صورت میں اسے پیش کیا جاتا ہے وہ فرضی مہیب صورت بھی یورپ کے موجودہ معاشرہ کے آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتی، دراصل یورپین ممالک میں عصمت عنقاء بن گئی ہے۔ (اسلام اور تعدد ازدواج)
تیسرا اہم مرحلہ ”شوہر کے بعد کی زندگی“ ہے۔
اسلام سے پہلے ہوتا یہ تھا کہ جب عورت غیرشادی شدہ ہے اس کی کفالت باپ کے ذمہ ہوتی تھی اور شادی کے بعد شوہر کے زیردست رہتی، باپ سے اسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ اس لئے ہندوستان وغیرہ میں جہیز کا دور دورہ ہوا کہ والدین سے وراثت تو ملتی نہیں اس لئے جہیز میں جو کچھ دے سکتے ہوں دے دیں اسی طرح شادی کے بعد اتفاق سے شوہر کا انتقال اس عورت سے پہلے ہوجائے تو عورت کو شوہر کی جائداد سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی تھی۔ جس کا شاخسانہ ستی کی رسم ہے۔ بلکہ تمام مال غیروں کا ہوجاتا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوتا تھا، مگر اسلام نے آتے ہی اس رسم کا خاتمہ کردیا جس کی وجہ سے عورت جیتے جی مردہ بن کر رہ جاتی تھی۔ اور قرآن کریم نے ”والذین یتوفون منکم الخ“ اورآیت میراث کے ذریعہ اس کا حصہ بیان کرکے اس فتنہ کا سدباب کردیا۔اسلام کی انہیں خوبیوں کو سراہتے ہوئے فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی لکھتے ہیں:
”اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا ذلت کے بجائے عزت ورفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس)
پروفیسر D. Margoliouth یورپی مصنف ہے جو اسلام اور پیغمبر ﷺ اسلام کی دشمنی، بہتان تراشی اور اعتراضات والزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر ضمیر کی آواز کو دبا نہ سکا چنانچہ وہ عیسائیت ویہودیت پر حقوق نسواں کے تعلق سے تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے:

”دور جاہلیت کے عرب تو ایک طرف رہے، عیسائیت اور یہودیت میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اورمالک جائداد ہوسکتی ہے، یہ مذاہب اس کی اجازت نہیں دیتے کہ عورت بھی مردوں کی طرح معاشی اعتبار سے خوش حال ہوسکے عورتوں کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں ومعاشروں میں باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرتی تھی۔ محمد ﷺ نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ (ایضاً)
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر راجندر صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
تاریخی طور پر اسلام عورتوں کو جائداد کے حقوق دینے میں بہت زیادہ فراخ دل اور ترقی پسند رہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۵۶/ میں ہندوکوڈبل سے قبل ہندو عورتوں کا جائداد میں کوئی حصہ نہیں تھا، حالانکہ اسلام مسلم عورتوں کو یہ حق ۱۴سو سال پہلے دے چکا تھا۔ (The Statement Delhi)
حرف آخر
عورت چونکہ گھر کی زینت ہے اس لئے اس زینت کو نظربد سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے کچھ حدود قائم کئے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان پابندیوں سے عورت کو کوئی نقصان پہنچا ہو، اسے کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو بلکہ یہ تو عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے، انہیں خیال کا اظہار ہملٹن ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”اسلام کے احکام عورتوں کے بارے میں نہایت واضح ہیں، اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو تکلیف پہنچائے اور ان پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔“
سرجان بیگٹ رقم طراز ہے:
”واقعہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے عورتوں پر جو پابندیاں عائد فرمائی ہیں ان کی نوعیت سخت نہیں ہے بلکہ ان پابندیوں میں عورتوں کے لئے آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔“ (محمد ﷺ بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس)
غیروں کے اعتراف حقیقت کے بعد بلا اختیار قلب وذہن میں ”ان الدین عند اللّٰہ الاسلام“ دھڑکرن بن کر دھڑکنے لگتا ہے اور مشاہدہ کی آنکھوں سے ”ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم“ کی تفسیر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اعترافِ حق کے ساتھ ساتھ قبول حق کے بھی حصہ دار بن جاتے۔



ج
ج






عفت وعصمت



جاہلیت میں عورت کی حیثیت:
اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں جو حیثیت دی جاتی تھی اور جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا وہ کسی سے مخفی نہیں اور نہ ہی تعریف کا محتاج ہے ، یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جو انتہائی مظلوم اورستم رسیدہ تھا انکو ظلم وستم سے نجات دلانے کی کوئی سعی نہ کی جاتی تھی۔
قرآن کریم میں ہے :
”وَلَاتُکْرِھُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنَا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیَوَةِ الدُّنْیَا“ (النور:۳۳)
ترجمہ:
اور اپنی(مملوکہ)لونڈیوں کو زنا کرانے پرمجبور مت کرو (اور بالخصوص)جب وہ پاک دامن رہنا چاہیں محض اس لیے کہ دنیوی زندگی کا کچھ فائدہ (یعنی مال)تم کو حاصل ہوجائے۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کی حیثیت ان کی نظروں میں کیا تھی اور کیسے افعال پر اس کو مجبور کیا جاتا تھا، صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کی عورتیں رہن بھی رکھی جاتی تھیں جیساکہ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں کعب بن اشرف کے پاس گیا اور غلہ قرض دینے کی درخواست کی تو اس نے کہا :
ارھنونی نسائکم، قالواکیف نرھنک نساء ناوأنت أجمل العرب․(۱)
ترجمہ:
یعنی اپنی عورتوں کومیرے پاس رہن رکھ دو،انہوں نے کہا ہم اپنی عورتوں کوآپ کے پاس کس طرح رھن رکھ سکتے ہیں، آپ توعرب کے حسین ترین آدمی ہیں․

اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کتنی مظلوم تھی اوراس کی عصمت کس قدر پامال کی جاتی تھی۔(۲)

اسلام میں عورت کا مقام :
ان ہی ظلم آفریں اور ظلم زدہ گھٹاؤں میں جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا توعورتوں کو ان کے حقوق دئیے گئے، افراط وتفریط ختم ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ظلم سے نکالنے کی خصوصی جدوجہد فرمائی ، حجة الوداع کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطاب فرمایا اس وقت بھی اس طرف خاص توجہ دلائی بلکہ اخیر وقت تک اس سلسلے میں فکرمند رہے اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سماج میں عورت کو عزت واحترام کا مقام دیا ہے۔ اسکو خاندان کی ملکہ بنایا، اس کی مستقل شخصیت کو تسلیم کیا اور انسانی حقوق میں مرد کے برابر درجہ دیا(۳) اور پہلا قرآنی مشورہ نسوانی حقوق کے سلسلے میں جس کا اعلان کیا گیا وہ یہ تھا:
یَأیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثّ مِنْھُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَّنِسَاءً(النساء:۱)
ترجمہ:
اے لوگو:اپنے پروردگارسے ڈرو جس نے تم کوایک جاندار سے پیداکیا اوراس سے اس کاجوڑپیداکیا اوران دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلائیں․
اسلام میں عفت کا تصور:
اللہ پاک کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کا جائز طریقہ نکاح بتایا تاکہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے، اس کے شعلوں کو بجھایا جاسکے ، بلاشبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پورا کرسکتا ہے اور عفت جیسی صفت سے متصف ہوسکتا ہے اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کو قرآن میں محفوظ کردیا جن الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی۔ چناچہ فرمایا :
”وَلَایَزْنِیْنَ وَلَایَقْتُلْنَ أوْلَادَھُنَّ ولَایَاْتِیْنَ بَبُہْتَانٍ“(ممتحنہ:۱۲)
ترجمہ:
اورنہ بدکاری کریں گے اورنہ اپنے بچوں کو کوقتل کریں گی اورنہ بہتان کی (اولاد) لاویں گی۔
اسی طرح حضور علیہ السلام نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطہ نظرکوبیان فرمایا اوربدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اورکثرتِ اموات کاسبب زناکوبتایاچنانچہ ایک لمبی حدیث میں منجملہ اورباتوں کے یہ بھی فرمایا:
”ولافشا الزنا فی قوم قط الا کثرفیہم الموت“(۴)
ترجمہ:
یعنی کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی ہی کثرت ہوجاتی ہے․
اسی طرح برائی کے پھیلنے کو طاعون اور مختلف بیماریوں کا باعث بتلایا چناچہ سنن ابن ماجہ میں ہے:
”لم تظہر الفاحشة فی قوم قط حتی یعلنوا بھا الافشا فیہم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافہم الذین مضوا“(۵)
ترجمہ :
یعنی جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اور بلاروک ٹوک ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالی ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتاہے جس سے ان کے اسلاف نا آشنا تھے۔
اسی بدکاری کو روکنے کے لیے شریعت مطہرہ نے حدود بھی مقرر فرمادیں اور ساتھ میں بدکاری کرنے والے کے بارے میں شفقت و مہربانی نہ کرنے کی بھی تلقین فرمادی چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
”وَلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ“(النور:۲)
ترجمہ:
اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے۔

قرآن پاک نے انسانیت کو پاکدامنی کا راستہ بھی دکھادیا اوراپنے دل کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان فرمایاکہ اگر تم ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کرو تو پس پردہ کرو چناچہ فرمایا :
”واذا سئلتموھن متاعاً فاسئلوھن من وراء حجاب ذلکم أطھر لقلوبکم وقلوبھن“(احزاب:۵۳)
ترجمہ:
اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہرسے مانگا کرو یہ بات (ہمیشہ کے لیے) تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔

اگرچہ یہ آیت ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی لیکن علت کے عموم سے پتا چلتا ہے کہ یہی طریقہ ہی انسانیت کے لیے ذریعہ نجات ہے اور نفسانی وسوسوں اور خطروں سے حفاظت کا ذریعہ حجاب ہی ہے اور بے پردگی قلب کی نجاست اور گندگی کا ذریعہ ہے۔(۶)
اسی طرح امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں نکاح کے فوائد بیان کرتے ہوئے شیطان سے حفاظت اور پاکدامنی کو ہی سرفہرست گنوایا چناچہ فرمایا:
”التحصن من الشیطان وکسر التوقان ودفع غوائل الشھوة وغص البصر وحفظ الفرج“
ترجمہ:
یعنی (نکاح کے فوائد میں سے) شیطان سے بچاؤ شہوت کا توڑ اور اس کے خطرے کادور ہو نا اور نظروں کا پست ہونا اور شرمگاہ کی حفاظت ہے۔
گویاعفت کا نظام برقرار رکھنے کے لیے نکاح مشروع کیا گیا ۔
پردہ کی اہمیت:
عورتوں کے پردے کا بیان سات آیات میں آیا ہے اور ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً وعملاً پردے کے احکام بتائے گئے ہیں ، اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کا وارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے پھر صحابیات کے نزدیک پردے کی اس قدر اہمیت تھی کہ کسی موقع پر بے پردہ رہنا گوارہ نہ کرتی تھیں۔ جیسے ایک صحابیہ کاواقعہ ہے کہ راستہ سے جارہی تھیں، پردے کے حکم کی خبر سنی تو وہیں ایک کنارے میں بیٹھ گئیں اور چادر منگوائی پھر چادر اورڑھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہے تھے، آپ علیہ السلام کے ساتھ اونٹنی پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں اچانک اونٹ کا پاؤں پھنسل گیا اور آپ دونوں زمین پر گر پڑے ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام سے آکر پوچھا: ''چوٹ تو نہیں لگی''؟ فرمایا: ''نہیں! تم پہلے صفیہ کو دیکھو''، یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اپنے چہرے پر کپڑا ڈالا پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور قریب پہنچ کر ان کے اوپر کپڑا ڈال کر ان کو چھپاکر پوچھا اس کے بعد وہ کھڑی ہوئیں اور پھر ان کو سوار کیا۔ (۸)
اس حدیث سے پردہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پردہ اتنا ضروری ہے کہ ایسی حالت میں بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پردہ کا اہتمام فرمایا۔(۹)
ابوداؤد کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ایک کنارے میں چلنے کا حکم فرمایا اور ایک مرد کو دو عورتوں کے درمیان چلنے سے بھی منع فرمایا معلوم ہوا کہ پردہ شریعت میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔(۱۰)
پردہ کا حکم:
پردے سے متعلق قرآن وحدیث میں تفصیل سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں چناچہ پردہ سے متعلق سب سے پہلی آیت ۵ھ میں نازل ہوئی جس میں غیرمحرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیرکسی نیت کے دیکھنا کراھةًداخل ہے ، اللہ تعالی کا رشاد ہے :
”قل للمومنین یغصوامن ابصارہم“(النور۳۰)
ترجمہ:
آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں․
اور احادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں کہ اگر بلاارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے تو اپنی نظر کو پھیرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ پہلی نظر جو بلاارادہ اچانک پڑجائے وہ توغیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے ورنہ بالقصد پہلی نظر بھی معاف نہیں۔
پردہ کے احکام ذکر فرماتے ہوئے مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عورت کا تمام بدن ستر ہے اپنے گھر میں بھی اسکو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے اور فرمایا کہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن وجمال کو نامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن وجمال کا نظارہ کیا کریں۔(۱۱)
وقرن فی بیوتکن کے تحت فرمایا کہ عورت کو اپنی یہ زینت ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سرِ بازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں․ حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔(۱۲)
اسی طرح احکام القران کے حوالہ سے فتاوی رحیمیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جو عورت عطر اور خوشبو لگاکر نکلتی ہے وہ زانیہ ہے ۔

پردہ کے درجات:
۱-  شرعی حجاب یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں اس کی دلیل یہ ہے:
”وقرن فی بیوتکن“(احزاب:۳۳)
ترجمہ:
اورتم اپنے گھروں میں رہو۔

۲- ضرورت کے تحت جب عورت کوگھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیرتک اوڑھ کر نکلے جس کا حکم”یدنین علیھن من جلابیبھن“(احزاب:۵۹)
ترجمہ:
(کہہ دیجیے کہ) سر سے نیچے کرلیاکریں اپنی چادریں۔

میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو،صرف ایک آنکھ راستے دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔

۳- پورا جسم تو مستور ہو مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں ، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد رحمہم اللہ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی خواہ فتنہ کاخوف ہو یا نہ ہو البتہ امام اعظم رحمہ للہ نے فرمایا کہ اگر فتنہ کا خوف ہو تو کھولنا منع ہے لیکن اس زمانہ میں خوف فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ ونادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے اس لیے متأخرین فقہاء احناف نے بھی وہی فتوی دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورتوں کے لیے چہرے یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔(۱۳)

پردہ فطری ضرورت :
فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز قیمتی ہوتی ہے اس کو خفیہ اور پوشیدہ جگہ رکھا جاتا ہے کہ جس طرح پیسہ قیمتی چیز ہے تو انسان اس کو چھپاکر رکھتا ہے اسی طرح عورت بھی قیمتی ہونے کے باعث اسی بات کی حقدار ہے کہ اس کو پردے میں رکھا جائے چناچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمة اللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں پردہ کی فطری ضرورت کو اسی انداز میں سمجھایا کہ ریل میں انسان اپنے پیسوں کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اندر کی بھی اندر والی جیب میں رکھتا ہے اسی طرح عورت کو بھی پردہ میں رکھنا چائیے ،اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے۔(۱۴)
ایمان کے بعد جو سب سے پہلا فرض ہے وہ ستر عورت ہے ، تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں فرض رہا ہے بلکہ شرائع کے وجود سے پہلے جب جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے سبب حضرت آدم علیہ السلام کا جنتی لباس اترگیا تو وہاں بھی انہوں نے ستر کھلا رکھنے کو جائز نہیں سمجھا اس لیے آدم وحواء علیھماالسلام دونوں نے جنت کے پتے اپنے ستر پر باندھ لیے جس کو قرآن نے یوں تعبیر فرمایا:
”طفقا یخصفان علیھما من و رق الجنة“(اعراف:۲۲)
ترجمہ:
اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ رکھتے گئے․
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے واقعہ سے بھی یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اتنی بات تو صلحاء وشرفاء میں ہمیشہ رہی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کا اختلاط نہ ہوکہ جب وہ دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے گئیں تو ہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہوگئیں اور پوچھنے پر وجہ یہ ہی بتائی کہ مردوں کا ہجوم ہے ، ہم اپنے جانوروں کو پانی اسی وقت پلائیں گے جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائیں گے ۔
بے پردہ رہنے کے نقصانات :
شریعت مطہرہ نے خواتین کو باپردہ رہنے کاحکم دیا اورباپردہ زندگی گزار نے سے ہی معاشرہ میں امن وسکون باقی رہتا ہے اور اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بے پردگی سے جتنے مفاسد اور برائیاں معاشرہ میں جنم لیتی ہیں ان کو شمار میں لانا مشکل ہے ، عورتوں کا بے پردہ رہنا ہی مردوں کی بدنظری کا باعث بنتا ہے جس سے گناہوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی بدنظری کو مہلک بیماری اور فتنہ بتایا:
”ایاکم والنظرة فانھا تزرع فی القلب شھوة وکفی بھافتنة“
ترجمہ:
یعنی (اجنبی عورتوں کو)تاک جھانک کرنے سے اپنے کوبچاؤ اس سے دلوں میں شہوت کابیچ پیدہوتاہے اورفتنہ پیداہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے۔
اسی طرح حضرت داود علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہوئے عورتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی:
”قال لابنہ یابنی امش خلف الأسد والاسود ولاتمش خلف المرأة“(۱۵)
ترجمہ:
فرمایا: اے بیٹا! شیر اور سانپ کے پیچھے جانا مگر(اجنبی)عورت کے پیچھے نہ جانا۔
یحییٰ علیہ السلام نے بھی بدنظری اور حرص ولالچ کو زنا کا باعث بتایا:
”قیل لحییٰ: مابدء الزنا؟ قال: النظروالتمنی“․(۱۶)
ترجمہ:
حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ زنا کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نامحرم کو دیکھنے اور حرص کرنے سے۔
بعض صحابہ سے روایت ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا غیر محرم کو دیکھنا ہے اور زنا میں چھ خرابیاں ہیں، تین کا تعلق دنیا سے ہے اور تین کا تعلق آخرت سے ہے ۔
دنیا میں تو یہ ہیں :
۱-  رزق میں کمی وبے برکتی۔                   ۲-        نیکی کی توفیق سے محرومی۔
۳- لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ۔
اور آخرت کی تین یہ ہیں:
۱-  اللہ کا غضب۔       ۲-        عذاب کی سختی ۔     ۳- دوزخ میں داخلہ۔(۱۷)
اس دور میں نکاح کرنا مشکل اور گناہ میں پڑنا آسان ہوگیا ہے جب کہ صحابہ وسلف کے دور میں عفیف رہنا آسان تھا کیونکہ ان کا نکاح کرنا آسان تھا ، اس وقت ہمیں بے پردگی نے اس قدر جکڑلیا ہے کہ ہر وقت بازاروں میں بدنظری کا گناہ جاری ہے اس لیے ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کوعام کیا جائے اورعفت کے تحفظ کے لیے قرآن وسنت کی ہدایات کو مشعل راہ بنایا جائے اور ہمہ وقت اللہ پاک سے پاکدامنی کی دعا کی جائے۔
”اللّٰم انی اسئلک الہدی والتقی والعفاف والغنیٰ“(۱۸)      آمین
$$$
حوالہ جات
(۱) بخاری ، کتاب المغازی، (۵/۹۰)باب قتل کعب الاشرف۔
(۲)                 اسلام کانظام عفت وعصمت ، ص۱۰۲
(۳)                 قاموس الفقہ ،فی النساء
(۴) موٴطاامام مالک ،کتاب الجہاد،باب ماجاء فی الغلول ص۶۵۴
(۵)                 سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن ،باب العقوبات (۲/۱۳۳)
(۶)                 معارف القرآن ،مولاناادریس کاندھلوی صاحب رحمةاللہ علیہ (۵/۵۳۷)
(۷)                احیاء العلوم (۲/۳۶)للاِمام غزالی رحمہ اللہ
(۸)                 بخاری جلد: ۲، ص۹ ۲۱
(۹)                 پردہ اورحقوق زوجین ،ص۵۳ ،مولاناکمال الدین
(۱۰)                ابوداؤد،جلد: ۲ ،ص۳۷۵
(۱۱)                معارف القرآن مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ، ص۱۱۷،
(۱۲)                معارف القرآن مولانا ادریس کاندھلوی رحمة اللہ علیہ،ص۴۸۹
(۱۳)               معارف القرآن ،مفتی شفیع صاحب رحمةاللہ علیہ،جلد:۷،ص۲۱۳
(۱۴)               ملفوظات حکیم الامت ، جلد: ۱ ، ص۱۱۵
(۱۵)               احیاء العلوم ، جلد: ۳ ص۹۸
(۱۶)                فتاویٰ رحیمیہ ، جلد: ۹ ، ص۳۶
(۱۷)                تنبیہ الغافلین ، ص۳۷۶ ،حقانیہ
(۱۸)               صحیح مسلم باب فی الادعیة ، ج: ۴،ص۲۰۸۷

$ $ $








بے پردگی کے نقصانات



          اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا اور ایک ایسی شریعت دی جس میں صحیح عقائد، عمدہ اخلاق اور کردارکی پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیم ہے اور شرک وبدعت و بداخلاقی اور بے حیائی سے ممانعت پوری تاکید کے ساتھ موجود ہے۔ اور ہر ہر قدم پر علم وعمل اور قانون کے ذریعہ عفت وپاک دامنی کو فروغ دیا گیا اور بے حیائی، زناکاری وغیرہ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
          پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری سوسائٹی کے لیے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ داریاں ان کو دی گئیں اور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کو باہمی اختلاط سے روکا گیا؛ تاکہ ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے اور مسلم معاشرے کی یہ خصوصیت اب تک باقی تھی اور تقریباً پچاس سال سے غیروں کی حیاسوزی کی تحریک؛ بلکہ یلغار سے ہمارا معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور افسوس اور حد درجہ ماتم کی چیز یہ ہے کہ اس کا مقابلہ اورفحاشی کا خاتمہ کرنے اور اس پر روک لگانے کے بجائے بعض مسلم دانشوران اس کوشش میں ہیں کہ بے حجابی کو جواز کا درجہ دے دیا جائے؛ بلکہ بعض نے تو چہرہ کے حجاب کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے اور اس بات کا دعوی ہی نہیں؛ بلکہ دعوت دینی شروع کردی ہے کہ چہرہ، ہتھیلیوں اور پیروں کو کھلا رکھا جائے۔
          اسی پس منظر قرآن وحدیث کی روشنی میں چہرہ کے حجاب پر چند دلائل پیش خدمت ہیں:
          (۱) قرآن مجید نے مردوں اور عورتوں کو مشترکہ حکم : یَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ اور یَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُن(سورہٴ النور ۳۰۔۳۱) کے الفاظ میں دیا ہے، اور بار بار قرآن کے بہت سے مقامات اور احادیث میں بہ کثرت یہ حکم وارد ہوا ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ شرم گاہ کی حفاظت چہرہ کے پردہ سے ہی ہوتی ہے۔ اور عصمت دری کی ابتداء چہرہ کی بے پردگی سے ہوکر زنا کی حد تک جا پہنچتی ہے۔ چنانچہ مشہور حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے:
          رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاہُمَا النَّظْرُ اور مزیدفرمایا کہ وَالْفَرجُ یُصَدِّقُ ذَلکَ اَوْ یُکَذِّبُہ (صحیح بخاری) آنکھ بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا بد نگاہی ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔
          (۲) وَلْیَضْرِبَن بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ (سورہٴ النور ۳۱) اور عورتوں کو چاہیے کہ اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہیں، یعنی دوپٹہ سروں سے چہرہ اور گلے کو ڈھانکتے ہوئے سینہ کو بھی اچھی طرح چھپائیں اور اگر صرف یہ مراد لیا جائے کہ سینوں پر ہی ڈالے رہیں تو بھی ضمناً چہرہ کا پردہ بدرجہٴ اولیٰ ثابت ہوگا؛ کیونکہ چہرہ ہی اصل جمال اور فتنہ کا سامان ہے ، حسن وقبح کا معیار چہرہ ہی ہے،لہٰذا چہرہ کا حجاب بدرجہٴ اولیٰ ثابت ہوا۔
          (۳) غَضِّ بَصَر والی آیت میں دو جگہ اِلَّا مَا ظَہَرَ کے الفاظ آئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق پہلی اِلَّا مَا ظَہَرَ سے زینت ظاہرہ کی طرف اشارہ ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہوں جیسے چہرہ، ہتھیلی وغیرہ خواہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہوں جیسے آرائشی اور جاذب نظر لباس یا برقع۔ اور دوسرے اِلَّا مَا ظَہَرَ سے باطنی زینت مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تمام تر کوشش کے باوجود اجنبی پر زینت ظاہرہ یعنی آرائشی لباس، چہرہ اور ہتھیلیاں کھل جائیں تو معاف ہیں اور زینت باطنہ کوشش کے باوجود افراد خانہ پر کھل جائیں تو معاف ہیں۔ اِلَّا مَا اَظْہَرْنَ کے بجائے اِلَّا مَا ظَہَرَ کے الفاظ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کا حکم دیا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق آیت کا یہی مطلب ہے۔
          (۴) وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیَعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنِتِہِنَّ (سورہٴ النور ۳۱) عورتوں کو زمین پر پیر پٹخ کر چلنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ کہیں پازیب کی جھنکارو زینت سے واقف ہوکر کوئی گرویدہ نہ ہوجائے؛ حالانکہ نقاب میں رہ کر پیر پٹخنے والی کالی، گوری، جوان ، بوڑھی ، حسین اور بدصورت کوئی بھی عورت ہوسکتی ہے۔ اگر پازیب کی آواز کو پردہ میں رکھا گیا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک حسین وجمیل جوان عورت کو سرخی، پاوڈر اور زیب وزینت کی تمام فتنہ سامانیوں کے ساتھ کھلے چہرہ گھومنے کی اجازت ہوجائے، نہیں ہرگز نہیں۔
          (۵) وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ الّٰتِی ْ لَا یَرْجْونَ نِکَاحاً (سورہٴ النور ۶۰) بوڑھی عورتوں جن کی عمر بالکل ختم ہو اور ان میں اب کسی کو ترغیب باقی نہ رہی ہو۔ قرآن مجید میں صرف انہیں کو فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ کے الفاظ سے چہرہ کھولنے کی اجازت ضرور دی ہے؛ لیکن آگے وَاَنْ یَسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ کے ترغیبی الفاظ لاکر ان کو بھی ترغیب دی کہ چہرہ کو ڈھانکنا تمہارے لیے بہرحال افضل ہے، یہاں اَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ سے پورے یا آدھے کپڑے اتارنا نہ تو مراد ہے نہ عرفاً ایسا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نے یہ معنی لیے ہیں، یہاں اجازت چہرہ کھولنے کی دی جارہی ہے، بوڑھیوں اور صرف بوڑھیوں کو چہرہ کھولنے کی اجازت کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان سے کم عمر والیوں کو چہرہ کھولنے کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں ہے۔
          (۶) آیت حجاب کی تفسیر میں قرآن کے بہترین ماہر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ان الفاظ میں ہے کہ مسلمان عورت کو جب کسی مجبوری سے باہر نکلنا پڑے تو ان کو جلباب یعنی بڑی چادریں اپنے سروں پر اس طرح اوڑھ لینا چاہیے کہ رخسار، گردن، گلا اور سینہ پوری طرح چھپ جائے اور راستہ دیکھنے کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی ہونی چاہیے۔اَلضَّرُوْرَةُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِہَا صحابی کی تفسیر حجت ہی نہیں؛ بلکہ بقول بعض علماء مرفوع حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آیت حجاب نازل ہوئی تو انصار عورتیں ایسی تواضع وانکساری سے سروں پر کالی چادریں ڈال کر نکلتی تھیں گویا ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوں جو ذرا سی حرکت سے اڑجائیں گے۔
احادیث کی روشنی میں چہرہ کا حجاب:
          ( ۱) قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاخَطبَ اَحَدُکُمْ اِمْرَاَة فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہ اَنْ یَنْظُرَ اِلَیْہَا (رواہ احمد) جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دینے کا ارادہ کرے تو اس کو دیکھ لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
          اس حدیث میں صرف پیغام نکاح دینے والوں کو اجنبیہ کو دیکھنے میں گناہ سے مستثنیٰ کرنے کا مطلب واضح ہے کہ اوروں کو دیکھنے اور دکھانے میں گناہ ہوگا۔ واضح ہو کہ خطبہ (پیغام نکاح) میں صرف چہرہ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
          (۲) بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ جب حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا تو بعض صحابیات نے عرض کیا کہ ہم میں سے بعض کے پاس جلباب نہیں ہے تو ارشاد نبوی ہوا: لِتُلْبِسہَا اُخْتَہَا مِنْ جِلْبَابِہَاکہ اپنی بہنوں کو اپنے جلباب میں کرلیا کرو۔ اس سے بھی عیاں ہے کہ صحابیات بغیر حجاب کے نہیں نکلتی تھیں۔
          (۳) قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ جَرَّ ثَوْبَہ خُیَلَاءَ لَمْ یَنْظُر اللّٰہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَقَالَتْ امّ سَلمة رضی اللّٰہ عنہا کَیْفَ تضع النساء بِذُیُوبِہِنَّ قَال: یُرْخِیْنَہ شِبْرًا، قالتْ اِذَنْ تَنْکَشِف اَقْدَامُہُنَّ، قال ذِرَاعاً وَلاَ یَزِدْنَ عَلَیْہِ
          پیروں کو چھپانے کے لیے جو کہ موقع زینت نہیں ہیں، اگر کپڑے دراز کرنے کا حکم ہے تو کیا چہرہ کو کھولنے کی اجازت ہوجائے گی۔
          نسائی کے علاوہ صحاح ستہ میں مکاتب سے بھی پردہ کا حکم ہے جو کہ ابھی بھی پورے طور سے اجنبی نہیں ہوا ہے۔
          نیز حالت احرام میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کہ جب مردوں کا گزر ہوتا تھا تو ہم عورتیں اپنے چہروں کو ڈھانک لیتی تھیں؛ حالانکہ حالت احرام میں کشف وجہ یعنی چہرہ کا کھولنا واجب ہے؛ لیکن ایک عمومی واجب پر عمل کرنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی احرام کے واجب کو ترک کردیتی تھیں، ورنہ اگر چہرہ کا حجاب عام حالت میں مستحب ہوتا تو استحباب کے لیے صحابیات اور خاص طور سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ترک واجب نہ کرتیں۔ رواہ ابوداود) ان پاکیزہ تعلیمات پر ہمیں دل وجان سے عمل کرنا چاہیے تھا چہ جائے کہ ہم ہی بے حیائی اور بے پردگی کا جواز تلاش کرنے لگیں۔
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
          اس کے برخلاف غیروں نے ہمیں آلودہ کرنے اور فحاشی کے دلدل میں کس طرح ڈبونے کی کوششیں کی ہیں، ذرا ایک نظر ادھر کرلینا مناسب ہوگا۔
          اب اسکولوں میں مخلوط تعلیم اور ایسے یونیفارم کا رواج دیا جارہا ہے کہ جس میں نصف برہنی کے ساتھ بے حیائی ہے۔ مخلوط تعلیم اور بے حیائی کے لباس پر اعتراض کرنے والوں کو قدامت پسند اور دقیانوس کہہ دیا جاتا ہے؛ حالانکہ اسکولوں کی بے حیائی والے ماحول میں نشوونماپانے کے بعد کالج اور یونیورسٹی میں پہنچنے تک مسلم بچیوں کے رنگ وروپ بالکل بے حیائی میں ڈھل چکے ہوتے ہیں اور حیاسوزی اور فحاشی کے وہ مناظر سامنے آنے لگتے ہیں کہ انسانیت اور شرم وحیا اپنا سر پیٹ کے رہ جائیں۔
          سوال یہ ہے کہ تعلیم کے لیے کیا مخلوط تعلیم ضروری ہے اور کیا بے حجابی اور نیم عریانی کے بغیر کوئی لیکچر سمجھ میں نہیں آئے گا اور کیا کسی مضمون کو سمجھنے کے لیے زیب وزینت والا چہرہ ضروری ہے اور کیا چھوٹے اور چست لباس کے بغیر کوئی کتاب سمجھی نہیں جاسکتی۔ اور کیا کلچر کے نام پر والدین کے سامنے ان کی بیٹیوں کو اسٹیج پر بے حیائی کے لباس میں ڈانس کروانا اور نچوانا حصول تعلیم کے لیے ضروری ہے۔یہ سب بے حیائی کے کام اب مسلمان بھی کررہے ہیں ۔ ان احوال میں ہزاروں نہیں؛ بلکہ لاکھوں لوگ ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں ہیں تو کونسی تعجب کی بات ہے، نیز محبت میں ناکامی کی وجہ سے اگر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خودکشی کرتے ہیں تو اس میں حیرت ہی کیا اور اگر اسقاط حمل کی وجہ سے لاکھوں جانیں ضائع جائیں تو یہ کونسی انہونی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کا مذاق اور فطرت کے خلاف جنگ کا بالکل یہی نتیجہ ہونا چاہیے! اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے! اور اپنے حکموں پر عمل کرنے کی توفیق بخشے!(آمین)
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر وہیں پہ غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کے پردہ کا کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
***


شرعی پردہ کا اہتمام
قرآن وحدیث کی رو سے مسلمان خواتین کے لیے شرعی پر دے کا اہتمام کرنا ایسے ہی لازمی ہے، جیسے کہ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسے یہ عبادات فرض عین ہیں، ایسے ہی شرعی پردہ بھی فرض عین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک مقام پر پردے کے حکم کو شریعت کے دوسرے احکامات پر مقدم ذکر فرمایا ہے۔

چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِیْنَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہ﴾․(احزاب:33)
ترجمہ:” اے مومن عورتو! تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیا کراور الله تعالیٰ اور اس کے رسول کا کہنا مانو۔“ ( سورہٴ احزاب، آیت:33)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں خواتین کے لیے گھروں کے اندر ٹھہرے رہنے کو واجب قرار دیا گیا ہے مگر مواقع ضرورت اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (معارف القرآن)

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ﴾․(سورہٴ احزاب، آیت:59)
”اے نبی! آپ اپنی بیویوں سے او راپنی صاحب زادیوں سے اورمسلمان عورتوں سے فرما دیجیے ( کہ جب مجبوری کی بنا پر گھروں سے باہر جانا پڑے) تو اپنے چہروں کے اوپر ( بھی) چادروں کا حصہ لٹکایا کریں۔“

اور سورہٴ احزاب ہی میں تیسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَاب﴾․
ترجمہ:”اور جب تم ان سے (امہات المؤمنین سے) کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر ( کھڑے ہو کر وہاں) سے مانگا کرو۔“ (سورہٴ احزاب)

یعنی بلا ضرورت تو پردے کے پاس جانا اور بات کرنا بھی نہیں چاہیے، لیکن بہ ضرورت کلام کرنے میں مضائقہ نہیں مگر ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہیے۔ (بیان القرآن)

نگاہ پست رکھنے کا حکم
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ ، وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون﴾․(سورة النور:31-30)

”اے نبی! آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں( یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا جائز نہیں، اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کافی نفسہ دیکھنا جائز ہے، مگر شہوت سے دیکھنا جائز نہیں اس کو شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ( یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں، جس میں زنا اور لواطت سب داخل ہیں) یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے، بے شک الله کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔ اور اسی طرح مسلمان خواتین سے کہہ دیجیے کہ ( وہ بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں ( یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا اور سحاق سب داخل ہیں)۔“ (بیان القرآن)

عورت کو گھروں سے باہر نکلنے کا حق نہیں
جناب نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” عورتوں کو اپنے گھر سے باہر نکلنے کا حق نہیں، مگر اس وقت ( جب کہ وہ کسی ضرورت شدیدہ پیش آنے کی وجہ سے نکلنے پر) مجبور ہو جائیں۔“ (طبرانی)

عورت چھپانے کی چیز ہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: المرأة عورة، اذا خرجت استشرفھا الشیطان․ (رواہ الترمذی، مشکوٰة باب النظر الی المخطوبة) جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” عورت چھپانے کی چیز ہے ( یعنی عورت کے لیے پردہ کے ذریعے خود کو چھپانا ضروری ہے) کیوں کہ وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاک جھانک کرتا ہے۔“ (ترمذی، ص:140)

بدباطن لوگ جو گلی کوچوں میں بیٹھ کر عورتوں کو جھانکتے رہتے ہیں، یہ سب شیطان کے کارندے ہیں۔ شیطان کے ورغلانے سے یہ عورتوں کی تاک جھانک میں لگے رہتے ہیں، اس لیے عورتوں کی چاہیے کہ بلا ضرورت شدیدہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

ایک غیرت مند خاتون کا واقعہ
حضرت قیس بن شماس رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ : ” ام خلاد نامی ایک صحابیہ عورت اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے دربار نبوی صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں۔ اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئی تھیں۔ اس حالت کو دیکھ کر ایک صحابی رضی الله عنہ نے کہا اپنے ( شہید ) بیٹے کی حالتمعلوم کرنے آئی ہو اور چہرے پرنقاب؟ ( مطلب یہ تھا کہ پریشانی کے عالم میں بھی پردے کا اس اقدر اہتمام!) ام خلاد رضی الله عنہا نے جواب دیا کہ جی ہاں ! بیٹے کی شہادت کی مصیبت میں مبتلا ہو گئی ہوں، لیکن اس کی وجہ سے شرم وحیا کو چھوڑ کر ( دینی) معصیت زدہ نہیں بنوں گی اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے بیٹے کے بارے میں خوش خبری سنائی کہ تمہارے بیٹے کو دواجر ملیں گے۔ وجہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا، اس لیے کہ ان کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے ۔ ( ابوداؤد، کتاب الجہاد)

مطلب یہ کہ کسی غیرت مند خاتون کا ضمیر اس بات کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ حیا وشرم کی چادر کو اتار کر مردوں کے سامنے ننگی پھرتی رہے۔ چاہے موقع خوشی کا ہو یا غم کا حیا وشرم کابرقرار رکھنا ہی کمال ہے۔

حضرت حسن بصری رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ : ” کیا تم اپنی عورتوں ( ماں، بہنوں اور بیٹیوں) کو چھوڑ دیتے ہو کہ وہ بازاروں میں گھومتی پھریں اور کفار اور فاسقوں سے رگڑ کر چلیں۔ خدا تباہ وبرباد کرے اس کو ،جو غیرت نہ رکھتا ہو۔“ ( احیاء العلوم، ج2ص:48)

حیاء انبیاء کی سنت ہے
جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” پیغمبروں کی طرز زندگی میں چار چیزیں ( بہت اہم ہیں) حیا کرنا، خوش بو لگانا، مسواک کرنا، نکاح کرنا۔“ (ترمذی شریف)

غیر محرم مردوں کا بے محا با گھروں میں داخل ہونا بڑا گنا ہ ہے
عن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: وایاکم والدخول علی النساء، فقال رجل یا رسول الله، أرأیت الحمو؟ قال: الحمو الموت․ ( متفق علیہ)

جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :” تم ( غیر محرم) عورتوں کے پاس داخل ہونے سے اجتناب کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) ! اگر وہ مرد، شوہر کی طرف سے عورت کا رشتہ دار ہو؟ ( یعنی تب بھی منع ہے ؟) تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس سے ( یعنی شوہر کے رشتہ دار دیور، جیٹھ وغیرہ) سے تو اس طرح ڈرتے رہنا چاہیے، جس طرح موت سے ڈرا جاتا ہے ۔“ (مشکوٰة ص:267)

مطلب یہ ہے کہ سسرالی رشتہ داروں سے پردہ نہ کرنے میں دیگر غیر محرموں کی بہ نسبت زیادہ خطرہ ہے کہ کسی برائی میں مبتلا ہو جائے، اس لیے ان سے بچنے کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔

اجنبی مردو زن کی خلوت میں شیطان کی شرکت
عن عمر  عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لا یخلون رجل بامرأة الا کان ثالثھما الشیطان․ (رواہ الترمذی، مشکوٰة، ج2،ص:269)

جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” کوئی مرد جب کسی ( غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو وہاں ان دونوں کے علاوہ تیسرا فرد شیطان ضرور ہوتا ہے۔“ (مشکوٰة ، ص:269)

پردہ کس عمر میں لازم ہے؟
کتنی عمر کے لڑکوں سے پردہ کیا جائے؟ اس کی حد کیا ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ جب لڑکا دس سال کا ہو جائے او راس کے جسم کے ظاہری نشو ونمابالغ کی طرح معلوم ہوں تو دس سال سے ہی پردہ کیا جائے ،اگر ماحول او رحالات اور جسمانی نشونما سے یہ اندازہ ہو کہ یہ ابھی حد شہوت کو نہیں پہنچا تو بارہ سال تک رخصت ہو گی ۔ اس کے بعد عورتوں کے لیے پردہ ضروری ہے ۔ پندرہ سال پورے ہونیکے بعد کسی طرح کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،کیوں کہ پندرہ سال کے بعد بالاتفاق اس پر بالغ ہونے کا حکملگایا جائے گا۔ (احسن الفتاویٰ:8)

او رلڑکیوں کی عمر جب نو سال پوری ہو جائے تو اس وقت سے ان کو پردے کا حکم کیا جائے گا، یعنی نو سال عمر پوری ہونے کے بعد بے پردہ باہر نہ نکلیں، والدین سرپرست حضرات اس کا اہتمام کروائیں۔

لیکن افسوس صدافسوس! آج مسلمان خواتین نے اسلام کے اس اہم حکم پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ گھروں میں رہنا، چاردیواری میں بیٹھنے کو پسند کرنا تو دور کی بات ہے ، ہر کام کے لیے خود گھر سے باہر جانے کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے ۔ لباس خریدنا ہو یا او رکوئی سامان، میاں کو گھر بیٹھاکر خود بازار چلی جاتی ہیں، بلکہ اب تو تفریحی مقامات کا چکر لگانا بھی خواتین کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے ۔ پھر مزید یہ ہے کہ باہر جاتے ہوئے برقعہ پہننا فیشن کے خلاف قرار دیا جارہا ہے اور اس کو معیوب سمجھا جارہا ہے، اس لیے برقعہ چھوڑ دیا اس پر مزید ستم ظرفی یہ ہے کہ لباس بھی نیم آستین اور تنگ اپنانے لگی ہیں۔ گو یا کہ قرآنی احکام کے سراسر خلاف نیم برہنہ مسلم خواتین، گھروں سے باہر گھومنے لگی ہیں۔ (اعاذنا الله منہ)

جہاں کہیں پردہ کا کچھ تصور ہے وہ بھی برائے نام ہے۔ (الا ماشاء الله) اور بہت سی خواتین اس دھوکے میں ہیں کہ ہم باپردہ ہیں۔ جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو برقعہ اوڑھ لیتی ہیں، لیکن گھر کے اندر ہر قسم کے مردوں سے اختلاط رکھتی ہیں ۔ حالاں کہ گھر کے اندر بھی شرعی پردے کا اہتمام کرنا خواتین پر فرض ہے، گھر کے اندر داخل ہونے والے مرد رشتہ دار دو قسم کے ہیں، محرم اور غیر محرم ، جو غیر محرم ہیں ان سے پردہ فرض ہے۔

وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے
یعنی جس طرح اجنبی مردوں سے پردہ فرض ہے، اسی طرح بہت سے رشتہ داروں سے پردہ کرنا بھی فرض ہے، جن کی فہرست یہ ہے:
چچازاد، پھوپی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، دیور، جیٹھ، نندوئی، بہنوئی، پھوپھا، خالو، شوہر کا بھتیجا، شوہر کا بھانجا، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا خالو۔

بعض عورتوں کو اشکال ہوتا ہے کہ اتنے سارے رشتہ داروں سے پردہ ہے تو کون سے مرد رہ گئے؟ جن سے پردہ نہیں۔ اس طرح تو شریعت میں بہت تنگی ہے، حالاں کہ شریعت میں کوئی تنگی نہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ:﴿لا یکلف الله نفسا الا وسعھا﴾ ( سورہ بقرہ) ”یعنی الله تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زائد احکام کا مکلف نہیں بناتے۔“

وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض نہیں ہے
شوہر، باپ، دادا، پڑدادا، بیٹا، پوتا، پڑپوتا، نواسہ، پڑ نواسہ، چچا ، (حقیقی، علاتی، اخیافی) بھائی (تینوں قسم کے ) بھتیجے ( تینوں قسم کے بھائیوں کے بلاواسطہ یا بالواسطہ) بھانجے ( تینوں قسم کے بہنوئی کے بلا واسطہ یا بالواسطہ)ماموں (تینوں قسم کے)، نانا، پڑنانا، سسر، داماد، شوہر کے بیٹے، رضاعی باپ، رضا عی بیٹا، رضاعی بھائی، رضاعی چچا، رضاعی ماموں وغیرہ۔

غرض یہ کہ فروعات کو ملا کر تیس سے زائد قسم کے مردوں سے پردہ فرض نہیں ہے ، لہٰذا یہ اشکال پیش کرنا کہ شریعت میں تنگی ہے بالکل فضول اورلایعنی بات ہے، ایک غیرت ایمان رکھنے والی خاتون کبھی بے پردگی بے حیائی کو پسند نہیں کرسکتی ، وہ ہمیشہ اپنی عفت وناموس کی حفاظت کا خیال رکھتی ہے، جان تو دے سکتی ہے، لیکن پردے کے حکم کو نہیں چھوڑ سکتی۔

بے پردہ خواتین کے لیے سخت وعید
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: صفات من أھل النارلم أرھما، قوم معھم سیاط کأذناب البقر،یضربون بھا الناس، ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات، رؤوسھن کأسنمة البخت المائلة، لا یدخلن الجنة ولا یجدن ریحھا،وان ریحھا لتوجد من مسیرة کذا وکذا․(رواہ مسلم، مشکوٰة باب الترجل)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو قسم کے لوگ جہنمی ہیں ،ان کومیں نے نہیں دیکھا ( یعنی میرے زمانے میں موجود نہیں، بعد میں پیدا ہوں گے ) ایک تو وہ ( ظالم) جن کے ہاتوں میں گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے ، جن سے لوگوں کو ( ظلماً) ماریں گے۔ دوسری وہ عورتیں ہوں گی جو ننگے لباس والی ہوں گی ( یعنی باریک لباس میں ہوں گی، یا نیم برہنہ لباس میں ، چال چلن کے اعتبار سے ) مردوں کی طرف مائل ہونے والی او رمردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی۔ ان کے سربختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہوں گے ( یعنی ہندو عورتوں کی طرح سر کے اوپر جوڑا باندھیں گی)، نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی ان کو جنت کی خوش بوملے گی، حالاں کہ جنت کی خوش بو جنتیوں کو بہت دور کے فاصلے سے ملے گی۔ (مسلم)

خواتین کو شرعی پردے کا ماحول فراہم کرنا مردوں کی ذمے داری ہے
شرعی پردہ کا اہتمام کرنا تو خواتین کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ ہر بالغ عورت پر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں ،بعینہ اسی طرح شرعی پردے کا اہتمام کرنا بھی فرض ہے۔ مردوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے گھر کی خواتین سے پردے کا اہتمام کروائیں۔ ان کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں جس میں خواتین کے لیے پردہ کے شرعی حکم پر عمل کرنا آسان او رممکن ہو ۔ اگر مرد اپنے گھر کی خواتین کے لیے شرعی پردے کے اہتمام کا ماحول فراہم نہ کرے، بلکہ ان کو بے پردگی پرابھارے یا ان کی بے پردگی پر روک ٹوک نہ کرے، کسی قسم کی مخالفت نہ کرے تو ایسے مردوں کو دیوث اور بے غیرت قرار دیا گیاہے، ان کو جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے۔

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ثلثة قد حرم الله علیہم الجنة مدمن الخمر، والعاق، والدیوث الذی یقر فی أھلہ الخبث رواہ أحمد والنسائی ( مشکوٰة، باب بیان الخمر ووعید شاربھا)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں پر الله نے جنت کو حرام قرار دیا ہے ۔شراب کا عادی۔ والدین کی نافرمانی کرنے والا۔ وہ دیوث جو اپنے گھر والوں میں برائی کو بر قرار رکھتا ہے۔ (مشکوة) اس حدیث میں ” دیوث“ کے لیے جنت سے محرومی کی وعید ہے، دیوث کی تعریف بھی ساتھ فرما دی کہ گھر کی خواتین، ماں ، بہن، بیٹی، بیوی وغیرہ کسی کو اجنبی مردوں کے ساتھ مشتبہ حالت میں دیکھے، پھر بھی اس کو غیرت نہ آئے او ران کو نہ روکے، بلکہ بے اعتنائی اور لا پرواہی کامعاملہ کرے۔ ایک مسلمان مرد کو اپنے گھر کی خواتین کے متعلق غیرت او رحمیت کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کو بے حیائی کے کاموں سے روکے اور بے پردگی کے جتنے مواقع ہیں ان میں خواتین کو جانے سے روکے، ان کو شرعی پردے کی تعلیم دے، پھر اس کی پابندی بھی کرو ائے۔ جو لوگ شرعی پردے کے اہتمام میں رکاوٹ بنیں، خواتین کو چاہیے کہ ان کی پروا نہ کریں، بلکہ الله تعالیٰ کا حکم سمجھ کر اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کریں اور یہ شعر پڑھا کریں۔
        سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہیے
        مد نظر تو مرضی جانانہ چاہیے
        بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ
        کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے

رشہ داری ختم ہونے کا خیال
بعض خواتین کا کہنا ہے کہ اس طرح تو رشتہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ان غیر محرموں کے ساتھ آپ کی رشتہ داری پہلے ہی کہاں قائم تھی جو اب ختم ہو جائی گی…؟ ان مردوں کے ساتھ نکاح کرنا شرعاً آپ کے لیے حلال ہے اور پردہ کے بعد بھی حلال رہے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بے پردگی کے ساتھ جو محبت ہوئی ہے وہ در حقیقت محبت نہیں ،بلکہ شہوت پرستی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق اور نظارہ بازی کے ذریعے نفسانی جذبات کو تسکین دی جاتی ہے، ورنہ رشتہ داری کی بنیاد پر جو حقیقی محبت ہوتی ہے وہ تو ہر حال میں قائم رہتی ہے ۔ خواتین شرعی پردے کی پابندی کرکے تجربہ کریں، آپ کے دل کے سکون میں اضافہ ہو گا، آپ کی قدر ومنزلت، عزت واحترام بڑھ جائے گا۔ ظاہری طور پر دنیا والے عزت نہ بھی کریں، الله تعالیٰ کی نظر میں تو عزت ہی عزت ہو گی ۔ ان شاء الله تعالی دنیا وآخرت کی زندگی سکون والی ہو گی۔

گھر کے کئی افراد کا ایک ساتھ رہنا
ایک اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر گھر کے کئی افراد ایک مکان میں رہنا چاہیں تو پردے کی وجہ سے تو ایک ساتھ رہنا ممکن ہی نہیں ۔ یا تو پردہ ختم کرنا ہو گا یا یکجا رہائش ختم کرکے منتشر ہونا پڑے گا؟ یہ اشکال بھی شرعی احکام سے جہالت اور ناواقفیت پر مبنی ہے، ورنہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی شرعی پردے کی پابندی آسانی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔

گھر میں ساتھ رہنے والوں سے پردے کا طریقہ
جب مرد گھر میں آئے تو کھنکھارتے ہوئے آئے ۔ خواتین فوراً پردہ کر لیں اور مرد اپنے کمرے میں چلا جائے۔ اسی طرح استنجا وغیرہ کے لیے جانے کی ضرورت ہو تو یہی طریقہ اپنائے، نیز مرد یہ اہتمام کرے کہ بھاوج کے مخصوص کمرے میں ہر گز نہ جائے۔ اگر خواتین کو کچھ سودا سلف منگوانا ہو یا دیور یا جیٹھ سے کوئی ضروری بات کرنی ہو تو دیوار کے پیچھے سے ( آواز میں لچک پیدا کیے بغیر) کرے۔ اگر کوئی چیز دینی یا لینی پڑے تو ہتھیلی ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔ ہاتھ باہر نکال کر دے اور لے سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ پورے جسم کو ظاہر کیا جائے۔ اسی طرح کھانا وغیرہ گھر کی عورتیں اور مرد الگ الگ جگہ بیٹھ کر کھائیں، اس فعل سے بہ آسانی پردے کے حکم پر عمل ہو سکتا ہے،بس شرط یہ ہے کہ مردو خواتین دونوں کے دل میں خوف خدا ہو اور دونوں شریعت کے اس حکم کو بجالانا چاہتے ہوں۔

اتنی مرتبہ تو دیکھ چکے
بعض خواتین کا کہنا ہے کہ وہ شخص چھوٹا تھا، اتنی مرتبہ دیکھ چکے یا تو وہ میرے بھائی کے برابر ہے یا میرے بیٹے کے برابر ہے وغیرہ۔ بات یہ ہے کہ پہلے جتنا عرصہ بھی بے پردگی میں گذرا ہو اس سے پردے کا حکم ساقط نہیں ہوتا، جیسے کسی نے بلوغت کے بعد دو چار سال نماز نہ پڑھی ہو تو کیا اس سے موت تک کے لیے نماز معاف ہو جائے گی ، ہر گز نہیں، بلکہ جب الله تعالیٰ توفیق دے نماز شروع کردے اور فوت شدہ نمازوں کی قضا بھی کرے، اسی طرح پردے کے حکم میں بھی اگرچہ کچھ عرصہ اس پر عمل نہیں ہوا تو سابقہ بے پردگی سے توبہ کرے اور آئندہ کے لیے پابندی کرے۔ باقی بھائی یا بیٹا جیسا ہونا شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس سے پردہ کا حکم ساقط نہ ہو گا، کیوں کہ پھر تو کوئی بھی مرد پسند آجائے،اگر ذرا معمر ہو تو اس کو باپ جیسا اور اگر جوان ہو تو بھائی جیسا کہہ کر پردہ ختم کر دیا جائے ، تب تو شریعت ایک مذاق بن جائے گی۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو شریعت مطہرہ کے مطابق عمل کرنے اور مسلمان خواتین کو شرعی پردے کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !




حجاب اور تعلیماتِ نبوی ﷺ
جب سے مسلمان مختلف غلامیوں سے دو چار ہوئے ہیں ، اس وقت سے وہ متعدد حوالوں سے مسلسل مسائل ومصائب سے دو چار چلے آرہے ہیں ، مسلمانوں کی اس غلامی کا آغاز ریاستی وحکومتی غلامی سے ہوا تھا۔ اس غلامی نے مزید کئی طرح کی غلامیوں کو جنم دیا اور ظاہری اعتبار سے اس غلامی سے آزاد ہو جانے کے باوجود بھی مسلمان آج تک متعدد غلامیوں سے دو چار ہیں ، جن میں سب سے زیادہ ضرررساں اور خطرناک دو طرح کی غلامیاں ہیں: فکری غلامی ، مالیاتی غلامی، ان میں بھی فکری غلامی اس حد تک خطرناک ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلمان بسا اوقات اپنا عقیدہ تک کھو بیٹھتا ہے ، اس غلامی نے ہمارے ہاں بہت سی گمراہیاں اور غلط فہمیاں پیدا کی ہیں ، جن میں ایک اہم غلط فہمی پردے سے متعلق احکامات الہیٰہ سے ہے ، یہ مسئلہ آزادی نسواں سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی بہت سی شاخوں میں سے ایک اہم شاخ ہے۔

مسئلہ حجاب کے بہت سے پہلو ہیں، ایک تویہ کہ خود حجاب ضروری ہے ، یا نہیں ؟ تو الحمدلله یہ مسئلہ متفقہ ہے، کیوں کہ اس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن حکیم میں موجود ہے ، لیکن اس مسئلے کا دوسرا پہلو اختلافی ہے اور وہ ہے حجاب، یعنی پردے کی حدود ، یعنی کیا پردے میں چہرہ شامل ہے یا نہیں ؟ یہ بحث تو آئندہ سطور میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہو رہی ہے، لیکن یہاں یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر بالفرض کسی کے نزدیک چہرہ پردے کی تعریف سے خارج ہے ، تب بھی کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کا حل موقوف ہو؟ خصوصاً آج وہ جس قدر بحرانوں سے دو چار ہے ، ان حالات میں قوم کو اس بحث میں الجھا کر انہیں چہرے کے پردے کو ترقی کرنے کی طرف راغب کرنا کسی طرح خدمتِ دین اور دانش مند قرار دی جاسکتی ہے؟ پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر بالفرض چہرہ حدود حجاب سے خارج بھی ہے تب بھی اگر کوئی خاتون اپنی خوشی سے چہرہ چھپا رہی ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اگر بالفرض چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے تو بھی کیا اس کا کھولنا فرض اور حکمِ شرعی ہے، اس پر اتنا زور قلم صرف کیا جارہا ہے؟

دراصل ہمارے ہاں کافی عرصے سے اجتہاد کے نام پر تجدد کے مظاہر سامنے آرہے ہیں، ان میں یہ بات زور دے کر پیش کی جاری ہے کہ ہمارے ” فہم اسلام“ کے مطابق فلاں مسئلہ یوں ہونا چاہیے، حالاں کہ دیکھا جائے تو یہ الفاظ خود اس امر کی تردید کر رہے ہیں کہ یہ حکم خدا وندی ہے، کیوں کہ الله کا حکم کسی کی فہم کا پابند نہیں ، ہاں! محض اجتہادی معاملات میں صرف مجتہدین کو جو اجتہاد کی تمام لازمی شرائط پر پورا اترتے ہوں قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی رائے کے اظہار کی اجازت ہے۔

یہ مسئلہ بھی ایسی فکر کے ہاتھوں متنازع بن گیا ہے ، حالاں کہ قرآن وسنت کا بغور مطالعہ اس باب میں ہر طرح کی الجھن رفع کرنے اور اسلام کا پیغام واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
پردے کی ضرورت
انسان کی معاشرتی زندگی میں ستر اور پردہ دونوں خاص اہمیت کے حامل ہیں، انسان کو اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو فطرت انسانی اور اسلامی تعلیمات دونوں یکساں نظر آتی ہیں۔

پردے یا حجاب کا تعلق دراصل دو چیزوں سے ہے ، ایک حیا اورشرم کا فطری داعیہ اور دوسری انسانی زندگی ( مرد وعورت دونوں کی) کی گناہوں سے حفاظت سے ۔ حیا اور شرم چوں کہ فطری تقاضا ہے ، اس لیے اسلامی تعلیمات میں بھی اس کی اہمیت بنیادی اور اساسی نوعیت کی ہے۔
شرم وحیا
حیا ایک بنیادی اور فطری وصف اور خلق ہے جو آدمی کو بہت سے برے کاموں اور فواحش ومنکرات سے روکتا ہے او راچھے اور پسندیدہ کاموں پر آمادہ کرتا ہے ، لغت میں حیا کی تعریف یہ کی گئی ہے” الحیاء انقباض النفس عن القبائح، وترکہ لذلک“․

قبیح چیزوں سے نفس کے انقباض کرنے او راس بنا پر انہیں چھوڑ دینے کانام حیا ہے۔

عرف عام میں تو حیا کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ آدمی شرم ناک اور فحش کاموں سے اجتناب کرے، لیکن قرآن وحدیث کی اصطلاح میں حیا کا مفہوم بہت وسیع ہے ، انسان کو سب سے زیادہ شرم وحیا اپنے ماں باپ، بڑوں اور محسنوں کی ہو تی ہے، ظاہر ہے الله تعالیٰ تو سب بڑوں سے بڑا اور سب محسنوں کا محسن ہے ،ا س لیے بندے کو سب سے زیادہ شرم وحیا اسی کی ہونی چاہیے ، حیا کا تقاضا یہ ہے کہ جو کام الله تعالیٰ کی مرضی او راس کے حکم کے خلاف ہو ، انسان اس سے کامل اجتناب کرے ، جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں رحم دلی اور عفو ودرگزر پر بہت زور دیا گیا ہے، اسی طرح اسلام کا امتیازی وضف حیا ہے ۔ زید بن طلحہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہوتا ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے ۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حیا ایمان کی ایک شاخ ہے او رایمان کا مقام جنت ہے اور بے حیائی وبے شرمی بد کاری میں سے ہے اور بد کاری دوزخ میں لے جانے والی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی الله علیہ سلم نے فرمایا: حیا ایمان ہی کی ایک شاخ ہے ۔

الله تعالیٰ نے شرم وحیا کا جو مادہ انسان کی فطرت میں رکھا ہے وہ دوسرے حیوانات میں نہیں رکھا ، اس لیے حیوانات اپنے جسم کے کسی حصے اوراپنے کسی فعل کو چھپانے کا ایسا اہتمام اور کوشش نہیں کرتے جیسا اہتمام وکوشش انسان کرتا ہے ۔ اسی لیے تمام اقوام وملل اپنے عقائد ونظریات اور رسوم وعادات و اطوار کے اختلاف کے باوجود اس پر متفق ومتحد ہیں کہ آدمی کو حیوانات کی طرح بے لباس نہیں رہنا چاہیے۔

معاشرتی زندگی میں ستر او رپردہ خاص اہمیت کا حامل ہے ، یہ انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتا ہے ، جس طرح ستر اور پردے کے سلسلے میں انسان کو حیوانات پر فوقیت حاصل ہے اسی طرح اس بارے میں عورت کو مرد کے مقابلے میں برتری حاصل ہے ، عورت کی جسمانی ساخت میں نزاکت او رکشش مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، جو بہت سے فتنوں کا سبب اور ذریعہ بن سکتی ہے ، اس کے تدارک کے لیے خالق کائنات نے ان میں حیا کا مادہ بھی مردوں سے زیادہ رکھا ہے، اسی لیے عورت کے لیے پردہ ایک بنیادی ضرورت اور فطری تقاضا ہے ، جس طرح حیات انسانی کے دیگر شعبوں میں ہدایات واحکام کی تکمیل الله تعالیٰ نے نبی مکرم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے فرمائی اسی طرح اس شعبہ زندگی کے لیے بھی الله تعالیٰ نے کامل او رواضح ہدایات اورر اہ نمائی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ہی کے ذریعے فرمائی ہے۔

حیا کے ذریعے انسان کے ایمان اور کردار کی خوبیوں او رخامیوں کو بھی پر کھا جاسکتا ہے۔ اس لیے رسول ا لله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، دونوں میں سے اگر ایک نہ رہے تو دوسرا بھی نہ رہے گا۔ کیوں کہ مشاہدہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انسان جب حیا جیسی نعمت ودولت سے محروم ہوتا ہے تو وہ بتدریج کم تر برائی سے زیادہ مہلک برائی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے او رابتدا میں چھوٹے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے، پھر رفتہ رفتہ بڑے گناہوں میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ گناہوں کی دلدل میں بری طرح دھنس جاتا ہے، اس طرح حیا کو گناہوں سے بچانے والی بندش اور رکاوٹ بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ایک دوسری روایت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

” الله تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے ،جب اس سے حیا چھن جاتی ہے تو وہ انتہائی قابلِ نفرت ہو جاتا ہے ، پھر جب وہ قابلِ نفرت ہو جاتا ہے تو اس سے امانت چھین لی جاتی ہے اور جب اس سے امانت چھین لی جاتی ہے تو وہ خیانت کرنے لگتا ہے ، پھر اس سے الله کی رحمت چھین لی جاتی ہے، پھر وہ انتہائی ملعون ہو جاتا ہے اور جب وہ لائق ملامت ہو جاتا ہے تو اسلام کا قلادہ اس کی گردن سے نکل جاتا ہے ۔“

یعنی انسان کی زینت شرم وحیا سے ہے ، اگر انسان کے پاس یہ دولت نہ رہے تو اس کی حیثیت دیگر جان داروں سے مختلف نہیں رہتی اور پھر اس کا دل اور جسم ہر گناہ کی آما ج گا ہ بن جاتا ہے ، جس کے بعد یہ مرحلہ آجاتا ہے کہ اذا لم تستحی فاصنع ماشئت۔

”جب تم حیا نہیں کرتے تو جو چاہے کرو“۔

خواتین کے لیے عام مردوں سے شرم وحیا کے اظہار کا قانون طریقہ حجاب یعنی شرعی پردہ ہے او رمردں کے لیے ا س سلسلے میں غض بصر۔ (سورہٴ نور آیت:30)

یعنی نگاہیں نیچی کرنے کا حکم ہے، اسی طرح اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ مردو زن دونوں اخلاقی اعتبار سے مضبوط ہوں اور کردار کی بے اعتدالیوں کے شکار نہ ہوں، اس مقصد کے لیے بھی حجاب ضروری اور برائیوں سے حفاظت کرنے والا ہے ، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معاشرے کو بے راہ روی سے محفوظ رکھنے اور ہر طرح کی بے اعتدالیوں سے بچانے کے لیے اسلام نے دو اقدامات اٹھائے ہیں، ایک تو خواتین کے لیے حجاب لازم کیا اور مردوں کو غض بصر کا حکم دیا، دوسرے مردوزن کے باہم آزادانہ اختلاط کو یکسر ختم کر دیا۔

اگر عفت وعصمت کوئی قابل قدر صفت نہیں ہے تب تو اس کی حفاظت بلاشبہ بے معنی ہے اور اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات بھی لغو، بے فائدہ اور غیر ضروری قرار دیے جاسکتے ہیں، لیکن اگر عصمت وعفت اور حیا وشرم ایسی مطلوبہ صفات ہیں، جو انسانیت کی تکمیل کرتی ہیں اور اس نسبت سے ہمارے لیے ضروری اور قابل قدر ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ایسی اقوام کے معاشرتی حالات کیا کہتے ہیں جن کے ہاں پردہ رائج نہیں ہے او رغور کریں کہ ان کے ہاں عفت وعصمت کی کیا صورت حال ہے ؟ یہ جائزہ ہمارے ذہنوں کی گر ہیں کھولنے کے لیے کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ سطور ذیل میں پہلے اقدام یعنی حجاب اور پردے کے متعلق گفتگو ہو گی، البتہ دوسرے اقدام کے بھی ضمناً کہیں کہیں حوالے آئیں گے۔
ستر
حیا اور شرم کا تقاضا یہ ہے کہ جسم کے جن حصوں کو چھپانا شرعاً ضروری قرار دیا گیا ہے ( ناف سے رانوں تک) ان کی طرف نظر نہ کی جائے۔ عربی زبان میں عورت اور اردو فارسی میں ستر اس چیز یا جسم کے حصے کو کہتے ہیں جس کا چھپانا اور پردے میں رکھنا شرعی، طبعی اور عقلی طور پر فرض ہے اور اس کا کھولنا اور ظاہر کرنا معیوب وناپسندیدہ ہے ، ایمان کے بعد یہ سب سے پہلا فرض ہے، جس پر عمل ضروری ہے ۔

حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:

اپنی ران نہ کھول او رنہ کسی زندہ یا مرد آدمی کی ران کی طرف نظر کر۔

اعضائے مستورہ یا ستر کا چھپانا تمام انبیاکی شریعتوں میں فرض رہا اور ہر مرد وعورت پر فی نفسہ عائد ہے، خواہ کوئی دوسرا دیکھنے والا ہو یا نہ ہو ۔ نماز میں ستر کا چھپانا شرط ہے ، اسی لیے اگر کوئی شخص اندھیری رات میں ننگا نماز پڑھے، جب کہ ستر چھپانے کے قابل کپڑا اس کے پاس موجود ہو تو اس کی نماز بالاتفاق ناجائز ہے، حالاں کہ اس کو کسی نے ننگا نہیں دیکھا۔

اسی طرح اگر کسی شخص نے یسی جگہ نماز پڑھی جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے تو اس صورت میں بھی اگر نماز کے دوران ستر کھل گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی ۔ نماز کے علاوہ لوگوں کے سامنے ستر پوشی کے فرض ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں، لیکن تنہائی میں جہاں کوئی دوسرا دیکھنے والا نہ ہو وہاں بھی شرعی یا طبعی ضرورت کے بغیر ستر کھولنا یاننگا بیٹھنا جائز نہیں۔

ہر انسان فطری طور پر اپنے ستر کو چھپاتا ہے۔ اسی لیے حضرت آدم وحوا علیہما السلام نے جب شجر ممنوعہ کو کھالیا اور اس کے نتیجے میں ان کا ستر کھل گیا تو ان دونوں نے فوراً جنت کے پتوں سے اپنی اپنی پردہ پوشی شروع کر دی، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

پھر دونوں ( آدم وحوا) نے اس درخت میں سے کچھ کھا لیا تو ان دونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور ( اپنا ستر ڈھانپنے کے لیے) دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے۔

اس لیے ہر زمانے میں بلا امتیاز رنگ ونسل اور مذہب وملت لوگ ستر پوشی کو ضروری سمجھتے رہے ہیں، عورت کا تمام بدن اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں ستر ہے، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے ، چہرہ اور ہاتھ ستر میں داخل نہیں ، اس لیے عورت کے لیے نماز میں چہرے اور ہاتھ کھلے رکھنا بالاتفاق جائز ہے۔

اسی طرح مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے ۔ یعنی اس پر ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم کو ہر وقت چھپانا فرض ہے ۔ ستر ہر مرد وعورت آزاد وغلام پر فرض ہے۔
حجاب یا پردہ
ستر اور حجاب دو مختلف چیزیں ہیں، ستر تو محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی جائز نہیں۔ حجاب ستر سے زائد چیز کا نام ہے جو مردوں اور عورتوں پر فرض ہے، کنیزوں پر حجاب فرض نہیں۔ حجاب صرف عورتوں کے لیے ہے، مردوں کے لیے نہیں۔

پردہ تمام امتوں میں فرض نہیں رہا۔ اسلام میں بھی ابتدا میں فرض نہیں تھا، بلکہ پانچ ہجری میں جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت حجش سے نکاح کیا تو ولیمے کے موقع پر پردے کا حکم نازل ہوا۔ لیکن بطور رواج اس کا ثبوت اسلام سے قبل بھی ملتا ہے ۔ پردہ صرف عورت پر فرض ہے اور صرف نامحرموں سے ہوتاہے۔

حجاب کی بحث میں حجاب کے مخالفین ایک بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے جو عورتیں بے پردہ باہر نکلا کرتی تھیں اس کو استدلال کے طور پر پیش کر دیتے ہیں یابنی غفار کی بعض خواتین سے استدلال کرتے ہیں، جو مرہم پٹی کرنا جانتی تھیں، اس لیے فوج کے ساتھ ہو جایا کرتی تھیں ، غزوہ خیبر کے موقع پر جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کے بارے میں معلوم ہوا تو آپ نے ایک روایت کے مطابق ان کے آنے پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، لیکن چوں کہ آچکی تھیں اس لیے فوج کے ساتھ رہیں اور زخمیوں کی خدمت بھی کی۔ اس بنا پر اس سے استدلال صحیح نہیں۔
پردہ قبل از اسلام
پردہ بالخصوص چہرے کا پردہ نہ صرف اسلام کا حکم ہے ، بلکہ اسلام سے بھی بہت پہلے عربوں میں بھی رائج تھا، حتی کہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ نہ صرف عرب بلکہ یونان او رایران وغیرہ میں بھی قبل از اسلام ہی پردے کا رواج تھا اور ایرانی حرم میں تو پردہ اس قدر شدت کے ساتھ رائج تھا کہ نرگس کے پھول بھی محل کے اندر نہیں جاسکتے تھے، کیوں کہ نرگس کی آنکھ مشہور ہے۔

یہی نہیں بلکہ اسلام کی آمد کے بعد مسلم معاشرت اور اسلامی حکومت کے اثرات کے تحت شمالی ہندوستان میں بھی کئی غیر مسلم خاندانوں میں پردے کا رواج ہو گیا تھا، جو ایک عرصے تک قائم رہا۔

اس امر کی شہادت کہ عربوں میں قبل از اسلام بھی پردہ اور بالخصوص چہرے کا پردہ رائج تھا، کلامِ عرب سے بخوبی مل سکتی ہے ، ربیع بن زیاد عبسی عصرِ جاہلی کا معروف شاعر ہے۔ وہ مالک بن زہیر کے مرثیے میں کہتا ہے #
        من کان مسروراً بمقتل مالک
        فلیأت نسوتَنا بوجہ النھار
        یجد النساءَ حواسراً یندبنہ
        یلطمن وجھَھن بالأسحار
        قدکن نخبان الوجوہ تستراً
        فالیوم حین برزن للنُظار

جو شخص مالک کے قتل سے خوش ہوا ہے ، ہماری عورتوں کو دن میں آکے دیکھے ، وہ دیکھے گا کہ عورتیں برہنہ سرنوحہ کر رہی ہیں او راپنے چہروں پر صبح کے وقت تھپڑ مار رہی ہیں ، وہ شرم کی وجہ سے ہمیشہ اپنا چہرہ چھپایا کرتی تھیں ، لیکن آج وہ دیکھنے والوں کے سامنے بے پردہ آئی ہیں۔

علامہ تبریزی نے تستراً کی شرح میں لکھا ہے کہ عفة وحیاء یعنی وہ عفت اور شرم کی وجہ سے چہرہ چھپایا کرتی تھیں۔ اسی طرح ایک مخضرمی شاعر عمروبن معدی کرب کسی جنگ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے #
        وبدت لمیس کانھا
        بدر السماء اذا تبدیٰ

اور لمیس کا چہرہ ظاہر ہو گیا ، گویا کہ چاند نکل آیا۔

عمرو بن معدی کرب اگرچہ مخضرمی شاعر ہے ، مگر یہ اشعار اسلام سے قبل کے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ عربوں کے ہاں نہ صرف پردہ ( اور چہرے کا پردہ) رائج تھا، بلکہ یہ پردہ آزاد اور شریف عورتوں او رباندیوں میں وجہ امتیاز بھی تھا، آزاد اور شرفا کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین باپردہ ہوتی تھیں اور زر خرید باندیاں اور لونڈیاں چہرے کھول کر مردوں کے سامنے آتی تھیں ، یہ اس دور کی عام معاشرت تھی ، جو اسلام کے بعد بھی رائج رہی اور اسلام نے اس پردے کو قانونی شکل دے دی ، اس حوالے سے بھی کلام عرب ہمارے رہ نمائی کرتا ہے ، ایک جاہلی شاعر سبرة بن عمر وفقعسی اپنے دشمنوں پہ طعن کرتے ہوئے کہتا ہے #
        ونسوتکم فی الروع باد وجوھھا
        یخلن إماء والاماء حرائر

لڑائی میں تمہاری عورتوں کے چہرے کھل گئے تھے او راس وجہ سے وہ لونڈیاں معلوم ہوتی تھیں ،حالاں کہ وہ آزاد عورتیں تھیں۔

گویا کہ دوران جنگ بھی عورتوں کے چہرے کھل جانا باعث ننگ وعار سمجھا جاتا تھا ، نہ کہ ترقی کی علامت اور شان وشوکت کی نشانی!
پردہ عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں
پھر عہدِ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں بھی پردہ موجود تھا، در حقیقت پردہ ابتدا ہی سے عرب معاشرت کا حصہ تھا ، لیکن بعد میں مدینہ منورہ میں یہود کے ساتھ اختلاط کے سبب عورتیں کھلے چہرے کے ساتھ گھومنے پھرنے لگی تھیں ، جس کو ختم کرنے کے لیے سورہٴ احزاب کی آیت :59 نازل ہوئی، جس کا بیان آگے آرہا ہے ۔ اس پردے سے ہماری مراد شرعی پردہ ہے ، جس میں چہرہ پردے کا حصہ اور اصل جز ہوتا ہے ، اس کا ثبوت کتب حدیث اور سیرت میں متعدد مقامات پر ملتا ہے ، یہاں اس حوالے سے چند واقعات پیش کیے جاتے ہیں ۔

حضرت انس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اورابو طلحہ رضی الله عنہما رسول الله علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہے تھے ، آپ صلی الله علیہ وسلم اونٹ پر سوار تھے اور آپ کے ساتھ ام المؤمنین حضرت صفیہ بھی سوار تھیں ، راستے میں اچانک اونٹ نے ٹھوکر کھائی، آپ صلی الله علیہ وسلم اور حضرت صفیہ اونٹ سے گر گئے ، ابو طلحہ نے آپ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ الله تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کر دے، آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، تم عورت کی خبر لو۔ ابو طلحہ نے پہلے اپنے چہرے پر کپڑا ڈالا، پھر حضرت صفیہ کے پاس جاکر ان کے اوپر کپڑا ڈال دیا تو وہ کھڑی ہو گئیں ، پھر اس طرح پردے میں مستور ات کو سواری پر سوار کیا۔

اس واقعے میں بھی جو دوران سفر حادثے کی صورت میں اچانک پیش آیا ، ایک صحابی اور آپ کی زوجہ محترمہ کا پردے کے سلسلے میں اتنا اہتمام پردے کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام عام حالات میں پردے کا کتنا اہتمام کرتے ہوں گے ۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ غزوہ موتہ کے موقع پر جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو حضرت زید بن حارثہ ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبدالله بن رواحہ رضی الله عنہم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے ، آپ کے چہرہٴ انور پر سخت رنج وغم کے آثار تھے ، میں حجرے کے اندر دروازے کی ایک ریخ ( شق) سے سب دیکھ رہی تھی۔

اس سے معلوم ہوا کہ ام المؤمنین اس حادثے کے موقع پر بھی باہر آکر مجمع میں شامل نہیں ہوئیں، بلکہ دروازے کی ریخ( یادرز) سے پردہ میں رہتے ہوئے اس کا مشاہدہ کیا۔

حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں کہ غزوہ طائف (جمادی الاولیٰ 8 ھ) کے موقع پر جب آپ صلی الله علیہ وسلم جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، تو آپ نے پانی کا ایک برتن منگوا کر اس سے ہاتھ اور چہرہ مبارک دھویا او ربرتن میں کلی کرکے حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی الله عنہما کو عطا فرمایا کہ اس کو پی لو اور اپنے چہرے پر مل لو ۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ  نے پردے کے پیچھے سے آواز دے کر ان دونوں سے کہا کہ اس میں سے کچھ اپنی ماں ( ام سلمہ) کے لیے بھی چھوڑ دینا۔

یہ حدیث ظاہر کر رہی ہے کہ حجاب کے احکام نازل ہونے کے بعد ازواج مطہرات گھروں میں اور پردے کے اندر رہتی تھیں۔

واقعہ افک کی مشہور روایت ہے کہ حضرت صفوان بن معطل گرے پڑے سامان وغیرہ کی خبر گیری کے لیے قافلے کے پیچھے کچھ فاصلے پر رہا کرتے تھے ، آپ نے ان کو اسی خدمت کے لیے مقرر کیا ہوا تھا۔6ھ میں غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر جب وہ صبح کے وقت قافلے کے ٹھہرنے کی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کوئی آدمی سویا ہوا ہے ، قریب آئے تو حضرت عائشہ  کو پہچان لیا ، کیوں کہ پردے کا حکم آنے سے پہلے انہوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا تھا ، وہ دیکھ کر گھبرائے اور ان کی زبان سے انا لله واناالیہ راجعون نکلا۔ اس کلمے سے حضرت عائشہ کی آنکھ کھل گئی، انہوں نے فوراً چہرے کو ڈھانپ لیا، حضرت صفوان نے اونٹ قریب لاکر بٹھا دیا، حضرت عائشہ پردے کے ساتھ اس پر سوار ہو گئیں۔

حضرت صفوان کا حضرت عائشہ کو اس لیے پہچان لینا کہ انہوں نے پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے ان کو دیکھا تھا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پردے کا حکم واقعہ افک سے پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اور آنکھ کھلتے ہی حضرت عائشہ کا اپنے چہرے کو ڈھانپ لینا اس بات کی شافی دلیل ہے کہ عورت کا چہرہ پردے میں داخل ہے۔

سنن ابی داؤد اور ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن وہ اور حضرت میمونہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر تھیں کہ اتنے میں نابینا صحابی حضرت عبدالله بن ام مکتوم رضی الله عنہ آگئے۔ اس وقت پردے کی آیت نازل ہو چکی تھی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کہ تم دونوں پردے میں چلی جاؤ۔ میں نے عرض کیا یا رسول الله ! وہ تونابینا ہیں، نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں ، آپ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور اسے نہیں دیکھ سکتیں؟

اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو مرد عورت کا چہرہ دیکھ سکتا ہے اور نہ عورت مرد کا چہرہ دیکھ سکتی ہے ۔

ایک عورت جس کو ام خلاص کہتے تھے، کسی غزوے ( احد) کے موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے نقاب ڈالا ہوا تھا، اس کا بیٹا غزوے میں شہید ہو گیا تھا، اس لیے وہ اپنے بیٹے کے اجر وثواب کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ تم اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں پوچھنے آئی ہو اور نقاب بھی ڈالا ہوا ہے؟! اس نے کہا کہ اگر میں نے بیٹا گم کر دیا ہے تو حیا تو ہر گز گم نہ کروں گی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو بشارت دی کہ تیرے بیٹے کو دو شہیدوں کا اجر ملا ہے اس لیے کہ اس کو عیسائیوں نے قتل کیا ہے۔

اس واقع میں چند غور طلب باتیں ہیں:

شدید صدمے کے موقع پر بھی وہ نقاب ڈال کر مردوں کے سامنے آئی۔ اگر اسلام میں چہرے کا پردہ فرض نہ ہوتا تو اس شدید صدمے کے موقع پر نقاب کی کیا ضرورت تھی؟

صحابہ کرام نے اس سے یہ نہیں کہا کہ اسلام میں تو چہرے کا پردہ نہیں ہے ، تم نے نقاب کیوں ڈالا ہوا ہے۔ ایسے موقع پر تمہاراحواس میں ہونا بڑی ہمت کی بات ہے۔

اس موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے یا چہرہ کھولنا حیا کے خلاف نہیں۔

ایک دفعہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ میں فلاں عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے جاکر اس کو ایک نظر دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہونے کی امید ہے ، حضرت مغیرہ فرماتے ہیں، میں انصار کی ایک عورت کے پاس آیا او راس کے ماں باپ کے ذریعہ اس کو پیغام دیا اور جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ ان سے بیان کر دیا، تاہم والدین کو ناگوار ہوا کہ لڑکی ان کے سامنے آئے اور یہ اس پر نظر ڈالیں۔ لڑکی پردے میں سے یہ باتیں سن رہی تھی، کہنے لگی کہ اگر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے تو تم مجھے آکر دیکھ لو، ورنہ میں تمہیں خدا کی قسم دلاتی ہوں کہ ایسا نہ کرنا۔ حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے اسے دیکھا اور اسی سے شادی کی۔

محمد بن مسلمہ نے ایک عورت سے شاد ی کرنی چاہی اور اس لیے چاہا کہ چوری چھپے کسی طرح عورت کو دیکھ لیں، لیکن موقع نہیں ملتا تھا، یہاں تک کہ ایک دن وہ عورت اپنے باغ میں گئی، انہوں نے موقع پاکر اس کو دیکھ لیا۔ لوگوں کو معلوم ہوا تو نہایت تعجب سے ان سے کہا کہ آپ صحابی ہو کر ایسا کام کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کسی عورت سے شادی کا ارادہ ہو تو شادی سے پہلے اس کو ایک نظر دیکھنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔

شیخین نے صحیحین میں حضرت صفیہ رضی الله عنہا کے قصے میں بیان کیا ہے کہ لوگوں نے حضرت صفیہ کے متعلق یہ رائے قائم کی کہ اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان کو پردہ کرائیں تو سمجھ لو کہ وہ بیوی ہیں او راگر پردہ نہ کرائیں تو سمجھ لوام الولد ہیں۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایک خط دینے کے لییپردے کے پیچھے سے آپ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ رضی الله عنہم کی عورتیں خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پردہ کرتی تھیں۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہم ( ازواج مطہرات) رسول الله صلی الله علیہ وسلمکے ساتھ حج کو جاتے ہوئے احرام کی حالت میں تھیں، جب ہمارے پاس سے کوئی سوار گزرتا تو ہم اپنی چادر اپنے سر کے اوپر کھینچ کر اپنے چہروں پر لے آتے او رجب ہم آگے بڑھ جاتے تو اپنے چہروں کو کھول دیتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی وفات کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ انہیں رات کے وقت دفن کیا جائے ۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور ان کی تدفین رات کے وقت عمل میں آئی۔ (جاری)

پردہ اور احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم
پردے کے بارے میں قرآنی آیات کے بعد بعض احادیث پیش کی جاتی ہیں ، جن سے پردے کے اسلامی تصور پر روشنی پڑتی ہے۔

* …حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ازارکا ذکر فرمایا تو انہوں نے پوچھا کہ اے الله کے رسول (صلی الله علیہ وسلم)! عورت کے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا عورت ایک بالشت لٹکالے۔ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا ایسی صورت میں تو اس کے پاؤں نظر آئیں گے ، آپ نے فرمایا تو پھر اسے چاہیے کہ وہ ایک ہاتھ کی مقدار تک چادر لٹکالے۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب گھر سے باہر نکلتے وقت عورت کے لیے پاؤں چھپانے کا اتنا اہتمام ہے تو چہرہ چھپانے کا کتنا اہتمام ہو گا، جو حسن وجمال کا اصل مظہر او رجذبات کو برانگیختہ کرنے میں پاؤ سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔

*…ابوداؤد میں حضرت ابو اسید انصاری سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو راستے میں باہم مخلوط ہو کر چلتے ہوئے دیکھا تو عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم ادھر ادھر ہو جاؤ، تمہیں راستے کے درمیان میں نہیں چلنا چاہیے۔ یہ سن کر عورتیں دیواروں سے لگی لگی چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے دیواروں سے رگڑکھاتے تھے۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب عورتوں کو راستہ چلتے وقت مردوں کے ساتھ مخلوط ہو کر چلنے کی اجازت نہیں تو ان کو کھلے منھ مردوں کے سامنے آنے جانے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟

* …ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کفار پر مسلمانوں کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے عورتوں کو بھی عید کی نماز کے لیے نکلنے کا حکم فرمایا تو ایک عورت نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس چہرہ ڈھانپے کے لیے بڑی چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر عاریتاً اسے دے دے۔

اگر اسلام میں عورت کے بے پردہ نکلنے کی اجازت ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم عاریتاً دینے کی بات نہ فرماتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ چہرے کے پردے کی اتنی تاکید ہے کہ اگر دوسری عورت سے چادر لینی پڑے تو لے لے ،مگر بے پردہ مردوں کے سامنے نہ آئے۔

* …حضرت بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا۔ اے علی ! عورت پر اچانک نظر پڑ جانے کے بعد دوسری مرتبہ ( قصداً) نگاہ مت ڈالو۔ پہلی اچانک نظر تو معاف ہے، مگر دوسری ( بالارادہ) جائز نہیں ۔

* …حضرت جریر بن عبدالله سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کسی نامحرم عورت پر اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کہ ( فوراً) نظر کو ہٹا لو ۔

* …حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ مجھے باوثوق ذریعے سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے دیکھنے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے اور اس پر بھی جس کو دیکھا جائے۔

* …حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کسی عورت کے محاسن حسن وجمال کو پہلی مرتبہ دیکھ کر اپنی آنکھ بند کر لیتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا، جس کی حلاوت ( شرینی) وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔

* …حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ (بتاؤ) عورت کے لیے کون سا کام سب سے بہتر ہے؟ اس پر صحابہ خاموش ہو گئے۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے واپس آکر حضرت فاطمہ سے دریافت کیا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہتر کام کون سا ہے ؟ حضرت فاطمہ  نے فرمایا کہ نہ وہ مردوں کو دیکھے اور نہ مرد اس کو دیکھیں ۔ میں نے یہ جواب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ فاطمہ میری ہی لخت جگر ہے ۔

* …حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حجة الوداع کے سال قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی او راس نے عرض کیا یا رسول الله ( صلی الله علیہ وسلم)! الله تعالیٰ نے بندوں پر جو حج فرض کیا ہے وہ میرے باپ پر ایسے وقت میں عائد ہوا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہے۔ سواری پر ٹھیک طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ اگر میں اس کے بدل میں حج کر لوں تو کیا اس کی طرف سے ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں! حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ فضل ( جواس وقت آپ کے پیچھے سوار تھے ) اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت بھی فضل کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ آپ نے فضل کا منھ دوسری طرف پھیر دیا۔

* …حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ محرمہ ( احرام والی) عورت ( چہرے پر) نقاب نہ ڈالے اور نہ ( ہاتھوں میں ) دستانے پہنے۔

اس سے معلوم ہواکہ آپ کے زمانے میں بھی عورتوں کو چہرہ چھپانے کا حکم تھااور عورتیں چہرے پر نقاب ڈال کر نکلتی تھیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ حج کے دوران حالتِ احرام میں عورت پر غیر مردوں سے چہرے کو چھپانا اور پردہ کرنا فرض نہیں، بلکہ حج کے دنوں میں حالت احرام میں بھی غیر مردوں سے چہرہ چھپانا اسی طرح فرض اور ضروری ہے جس طرح عام دنوں میں فرض ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ احرام کی حالت میں چہرے پر نقاب اس طرح ڈالنا ہے کہ وہ چہرے کو مس بھی نہ کرے اور پردہ بھی ہو جائے ۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ چہرے اورنقاب کے درمیان ہاتھ رکھ کر نقاب کو چہرے سے علیحدہ رکھے۔ دوسری صورت یہ کہ چھجے والی ٹوپی سر پر رکھ کر نقاب اس کے اوپر سے ڈالی جائے۔ یہ صورت زیادہ سہل ہے اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں ، اصل مقصود پردہ کرنا اور نقاب کو چہرے سے علیحدہ رکھنا ہے۔ جیسا کہ آگے حضرت عائشہ کی روایت میں بیان ہو رہا ہے۔

* …ابن عباس کی روایت میں ہے کہ عورت اپنی زینت صرف اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے جن کو اس کے سامنے آنے او رگھر میں داخل ہونے کی شرعاً اجازت ہے ۔

اس کا مطلب محارم کے سامنے آنا ہے ، بے پردہ پھرنا مراد نہیں۔

* …حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حج کو جاتے ہوئے احرام کی حالت میں تھے۔ جب ہمارے پاس سے کوئی سوار گزرتا تو ہم اپنی چادر اپنے سر کے اوپر کھینچ کر اپنے چہروں پر لے آتے اور جب ہم آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہروں کو کھول دیتے تھے۔


*…حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے پردہ عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان کی صورت میں ہی واپس جاتی ہے ۔

ؤحضرت عبدالله بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت گویاستر ہے۔ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو اپنی نظر کا نشانہ بناتے ہیں ۔

یعنی جس طرح ستر کو چھپانا ضروری ہے اسی طرح عورت کے لیے پردے میں رہنا ضروری ہے ۔

*…ترمذی ، ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ ہر آنکھ زانیہ ہے ۔ عورت جب عطر لگا کر، پھول پہن کر، مہکتی ہوئی مردوں کی مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی اور ایسی ہے ۔( یعنی زانیہ)



فقہائے کرام اور حجاب
یہ چند احادیث کے حوالہ جات تھے ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ پردے کا نہ صرف حصہ ہے، بلکہ اس کا اہم ترین جز ہے ، اب ہم فقہا کی خصوصاً ائمہ اربعہ کی روایات اور اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔

چناں چہ مالکیہ ، شافعیہ او رحنابلہ کے نزدیک تو مطلقاً ہر حالت میں چہرے کا پردہ فرض ہے ، حنفیہ میں سے متقدمین نے شہوت کے ہوتے ہوئے چہرے کا پردہ فرض کیا، بصورت دیگر اس میں گنجائش دی تھی، مگر متاخرین نے فساد زمانہ کی وجہ سے مطلقاً حرمت کا فتوی دیا ہے ۔

اس طرح شامیہ میں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہے ، کیوں کہ اگرچہ یہ ستر میں داخل نہیں لیکن شہوت او رمیلان کو برانگیختہ کرنے کا سبب ہے۔

اسی طرح عورت کے بالوں اور ناخنوں کو دیکھنا جائز نہیں، اگر چہ بدن سے جدا ہو چکے ہوں۔ جب بال او رناخن کو جدا ہونے کے بعد بھی دیکھنا جائز نہیں تو جیتے جاگتے چہرے کا دیکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

اس کے علاوہ فقہا کی بعض دوسری عبارتوں سے بھی اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے ، یہ وہ عبارتیں ہیں ، جن کا تعلق براہ راست پردے کے ساتھ نہیں ہے ، مگر ان میں خواتین کے لیے وہ احکامات ذکر کیے گئے ہیں ، جن کا مقصد انہیں مشکلات سے بچانا اور فتنے کے امکان کو کم سے کم کرنا ہے، جو پردے کی مشروعیت کا اصل سبب ہے، ذیل میں ان میں سے چند عبارتیں پیش کی جاتی ہیں۔

امام سرخسی عورت کے لیے حالتِ سفر میں محرم کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عورت فتنے کا محل ہے او رعورتوں کے زیادہ ہونے سے فتنہ بڑھے گا، ختم نہ ہو گا، یہ فتنہ صرف محافظ کی وجہ سے ہی اٹھ سکتا ہے، جو صرف حفاظت کرتا ہے اور خود ان میں خواہش نہیں رکھتا اور وہ محرم ہی ہو سکتا ہے۔

علامہ بدر الدین عینی زیارت قبور کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قبور کی زیارت خواتین کے لیے مکروہ ہے، بلکہ اس زمانے میں حرام ہے او ربالخصوص مصر کی خواتین ( کے لیے) کیوں کہ ان کا باہر نکلنا ایسے طریقے سے ہوتا ہے جو فساد اور فتنے کا باعث ہے۔

دوسرے مقام پر امام عینی فرماتے ہیں کہ جو ان عورتوں کے علاوہ دیگر عورتوں کو سلام کرنا جائز ہے، کیوں کہ ان عورتوں سے گفتگو کرنے میں نظر بہک جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اور امام نووی فرماتے ہیں کہ فقہائے احناف کا موقف یہ ہے کہ جب عورتوں میں کوئی محرم نہ ہو تو مرد عورتوں کو سلام نہ کریں۔

امام ابن عابدین فرماتے ہیں کہ صالحہ عورت کو چاہیے کہ اس کی طرف فاجرہ عورت نہ دیکھے، کیوں کہ وہ اس نیک خاتون کے حسن کا آدمیوں کے سامنے چرچا کرے گی، سو نیک عورت کو ایسی فاحشہ عورت کے سامنے اپنی اوڑھنی اور چادر کو بھی نہ اتارنا چاہیے۔

اسی طرح امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں:

سو خواتین کو ستر کا حکم ہے کہ کسی شخص کا عورت کی آواز کو نہ سنناان خواتین کے حق میں بہتر اور زیادہ ستر کا باعث ہے ۔ سو عورت اپنی آواز تلبیہ کے وقت بلندنہ کرے اور صرف اپنے آپ کو سنائے۔

امام شرف الدین نووی فرماتے ہیں: اگر اجنبی عورت کو دیکھنا حرام ہے تو اسے چھونا بدرجہ اولی حرام ہے ، کیوں کہ اسے چھونا بہت زیادہ لذت کا باعث ہے۔

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

اور جب کوئی شخص عورت کے دروازے پر دستک دے تو وہ نرم آواز سے جواب نہ دے، بلکہ سخت آواز سے جواب دے۔

سو جب محض آواز کو نرم کرنے کی ممانعت ہے تو کیا کھلے چہرے کے ساتھ مردوں کے سامنے آنے کی اجازت شریعت دے سکتی ہے؟

امام جلال الدین محلی فرماتے ہیں:

مسلمان خواتین کے لیے ان (کافر خواتین) کے سامنے ستر کھولنا جائز نہیں۔

یہ حکم بھی فتنے کے رفع کرنے کے لیے ہے۔ ان تمام مسائل میں بنیاد فتنے کو بنایا گیا ہے ، ہر باشعور شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ عورت کی آواز، جسم ، حرکات وسکنات او رباپردہ آنے جانے میں زیادہ فتنے کا امکان ہے ، یا کھلے چہرے کے ساتھ نامحرموں کے سامنے آنا زیادہ فتنے کا باعث ہے؟ اس لیے اس مسئلے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جس تناظر میں شریعت نے اسے بیان کیا ہے ، اپنے فہم وجدان اور ماحول کو شریعت پر چسپاں کرنا نہ عین شریعت ہے نہ منشائے شریعت کے مطابق ہے ، نہ اسے دین کی خدمت تصور کیا جاسکتا ہے ، اسی لیے اسے قبولیت عامہ بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔

اوپر بیان ہونے والی تفصیل یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حجاب اور پردے کی شریعت کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟ اور اس کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟ اگر مقصود شریعت کا حکم جاننا ہو تو اس کے لیے یہ دلائل کافی ثابت ہو سکتے ہیں ، باقی ہدایت تو الله ہی کے ہاتھ میں ہے۔

وماتوفیقی الا بالله





اسلامی پردہ اورمغربی معاشرے تعصّب
مغربی معاشرے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زندگی بسر کررہی ہے اوران میں سے اکثرمسلمانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے زرین اصولوں کے مطابق گزاریں،لیکن اس بارے میں سب سے بڑی رکاوٹ مغربی حکومتوں کاتعصب پر مبنی رویہ ہے ۔اہم اسلامی احکامات میں سے ایک عورتوں کاپردہ یاحجاب ہے ۔پردہ عورت کو پابند اور اس کی آزادی سلب کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اسلام نے عورت کے تحفظ اور سلامتی کے لیے اسے ضروری قراردیاہے ۔

فرانس میں ایک مسلمان خاتون پر ایک پولیس آفیسر نے صرف اس لیے 22یورو جرمانہ لگایاکہ وہ حجاب کے ساتھ ڈرائیونگ کررہی تھی اور افسرکے خیال میں حجاب میں رہ کر ڈرائیونگ کرناروڈسیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، یعنی محفوظ ڈرائیونگ نہیں کی جاسکتی ۔ایک دوسراواقعہ بیلجیم کے پارلیمان میں حجاب کے بارے میں بل پیش کرنے کاہے، جس کے مطابق پارلیمانی ارکان اس نکتے پر بحث کررہے ہیں کہ عوامی مقامات مثلاًپارک، ہسپتال،دفاتراور کاروباری اداروں وغیرہ میں چہرے کے حجاب پر پابندی لگائی جائے کہ نہیں؟

ان دو واقعات کوسامنے رکھ کر ہم اس مسئلے کے پسِ منظر میں جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مغربی معاشرہ آخرکیوں پردے کے پیچھے پڑاہواہے؟ نیز ان مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کاتجزیہ جن کاواسطہ اس مسئلے سے براہِ راست مغربی معاشرے میں پڑتاہے۔

ویسے تو کئی دہائیوں سے مسلمان خواتین کے پردے پریہ اعتراض کیاجاتارہاکہ اسلام نے عورتوں کے حقوق چھین لیے ہیں،مسلمان عورتیں کھلے منہ اور بے پردہ گھوم پھرنہیں سکتیں اوریہ پردہ جبری اور ان کی مرضی کے خلاف مسلط کیاگیاہے، لیکن جب خود مسلمان خواتین کی طرف سے اس کے حق میںآ واز اُٹھائی گئی تومعترضین وقتی طورپر ٹھنڈے پڑگئے ۔اب ایک نئے سرے سے حجاب کے خلاف ایک نئی مہم شروع ہوگئی ہے کہ پردہ (جسے میڈیا کبھی حجاب اور کبھی نقاب کے نام سے بھی یاد کرتاہے )سماجی میل جول میں رکاوٹ ہے ۔بیلجیم کی پارلیمنٹ میں جو قانون حالیہ دنوں میں زیرِ بحث ہے،کے بارے میں ایک رکن سٹیفن وین ہیک نے کہاکہ” اگر ہم اور آپ برسلز(بیلجیم کادارالحکومت)میں موجود مختلف کمیونٹیزکے درمیان بہتر میل جول اورتعلق چاہتے ہیں تویہ ضروری ہے کہ بات چیت کے وقت ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں“۔آپ نے مسٹرہیک کے بیان میں سماجی میل جول میں رکاوٹ کامفہوم تلاش کرلیاہوگا،اگرنہیں تو ایک بار پھر ان کی رائے پڑھ لیں۔وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر بہتر تعلق اور میل جول کے قائل نہیں ہیں۔فرانس کی پارلیمانی کمیٹی نے بھی رواں سال جنوری میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہسپتالوں،پبلک ٹرانسپورٹ اور دوسرے عوامی مقامات میں چہرے کے حجاب پرپابندی لگادی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کی فرانسیسی شہریت ختم اور جلاوطن کیے جائیں۔یادرہے کہ فرانس میں پابندی کی حمایت کرنے والے صرف چہرے کے حجاب کے خلاف ہیں ۔سوائے چہرے کے باقی جسم کے ڈھانپنے پران کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔اگرفرانس میں یہ قانون سازی ہوئی توساڑھے چھ کروڑخواتین میں سے صرف انیس سو کی خواہش پر پابندی لگ جائے گی، کیوں کہ پورے فرانس کی کل آبادی میں مسلمانوں کی یہی تعداد اپنی مرضی سے چہرے کاپردہ کرناچاہتی ہے اور دینی احکامات کے مطابق لباس پہنناپسند کرتی ہے ۔

فرانس کے ذرائعِ ابلاغ میں پردے کے خلاف یہ بات زور وشور سے کی جارہی ہے کہ مرد باپردہ خواتین کوپردے کے لیے مجبور کرتے ہیں،لیکن حیران کن امریہ ہے کہ پورے فرانس میں ایک بھی عورت نے اب تک یہ شکایت درج نہیں کی کہ مجھ پر میراشوہر یاخاندان کاکوئی دوسرامرد حجاب زبردستی مسلط کررہاہے ۔اگرفرانسیسی حکومت اس طرح کی شکایت کے بعد یہ مداخلت کرتی تو اسے بجاقراردیاجاتا، لیکن یہ مداخلت بے جاہے، کیوں کہ فرانسیسی ذرائعِ ابلاغ میں مسلم خواتین کے پردے کے حق میںآ وازاُٹھانے والے حلقوں کی طرف سے دوواقعات بھی اس ضمن میں پیش کیے گئے ہیں کہ ”جب افغانستان میں طالبان نے خواتین پر پابندیاں عائد کردیں تو ان پابندیوں کے خلاف پہلی آواز خود افغان خواتین نے بلند کی اور افغانستان میں جارحیت کاایک اہم سبب امریکی حکومت نے یہی بتایا۔دوسراواقعہ ایرانی حکومت کاہے کہ حجاب اور چادر کے خلاف ایرانی لڑکیاں اور عورتیں اُٹھ کھڑی ہوئیں“۔ان مذکورہ دونوں واقعات کاحقیقت سے کتناتعلق ہے ؟اس سے قطع نظر لیکن استدلال کے لحاظ سے ان حلقوں کی اس بات میں بڑاوزن ہے کہ فرانسیسی مسلمان عورتوں نے حجاب کے خلاف خود کسی قسم کی صدائے احتجاج بلند نہیں کی کہ انہیں پردے پرمجبور کیا جارہاہے اورحکومت کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف قانون سازی کرکے قدم اُٹھائے ۔اس لیے فرانسیسی حکومت کی حجاب پرپابندی کے بارے میں قانون سازی انیس سو کی تعداد میں مسلمان خواتین کی مرضی کے مطابق نہیں،بلکہ ان کی خواہش کاگلاگھونٹنے کے مترادف ہے ۔

فرانس میں پیداہونے والی چھتیس سالہ کرسٹیل کھدروش پیرس کے مضافات میں رہائش رکھتی ہیں ۔اس نے ابلاغِ عامہ کی تعلیم بھی حاصل کی ہے،ایک الجیریائی مسلمان کی زوجہ ہیں،پانچ بچوں کی ماں اورنومسلمہ ہیں۔ان سے جب میڈیاوالوں نے پوچھاکہ فرانس میں پردے کو سماجی میل جول میں رکاوٹ قراردیاجاتاہے، کیوں کہ انسان ایک دوسرے کوچہرے سے پہچانتے ہیں اور چہرہ ہی ایک دوسرے کو سمجھنے اور تعلق کابنیادی ذریعہ ہے ۔توکُھدروش نے جواب دیاکہ میں گھرسے باہر نکلتے وقت پردہ کرتی ہوں اور مجھے پردہ کرتے ہوئے بارہ سال ہوگئے،کیامیرالوگوں سے میل جول نہیں ہے؟ اگرآپ چہرہ دیکھے بغیر تعلق قائم کرنے کاتصور نہیں کرسکتے تو میں آپ سے اتفاق نہیں کرتی ۔میں اگر ٹیلی فون پرمسکراوٴں گی تومیری مسکراہٹ کی آواز دوسرے کوسنائی دے گی؟ میرے انسانی رابطے اسی طرح جاری وساری ہیں جس طرح کھلے چہرے والی خواتین اپنی ضروریات کے لیے کرتی ہیں۔ محض کپڑے کایہ ٹکڑا(نقاب)ان میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور نہ اس برقعے نے کسی قسم کی تبدیلی پیداکی ہے۔

درج بالاحقائق کوسامنے رکھ کریہ نتیجہ بخوبی اخذکیاجاسکتاہے کہ فرانسیسی اوربیلجین حکومتوں کی طرح پوری مغربی سوسائٹی مسلمانوں کی دینی روایات کے خلاف تعصب پرمبنی ایک منظم مہم چلارہی ہے۔ان کی یہ مہم حجاب کے اس مسئلے پر ختم نہیں ہوگی، بلکہ مسلمانوں کی دیگر دینی روایات کوبھی نشانہ بنایاجائے گا۔ہمارے اس دعوے کی سچائی کااندازہ آپ کو مشہور سعودی روزنامے الوطن کی اس رپورٹ سے ہوجائے گاجس میں بیلجیم کے وزیر قانون” سٹیفنڈی کلارک “کو موصول ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ”ایک مسلمان قیدی کو جیل میں اظہار کفر اور پیغمبرِ پاک صلی الله علیہ وسلم کی توہین پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ بیلجین جیلخانہ جات کے اہلکاروں کا یہ رسواکن اور بے شرمانہ رویہ برسلز کے قریب فارسٹ جیل میں روارکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ رویہ 22 ستمبر سے 20 اکتوبر کے دوران روا رکھا جاتا رہا ہے، مگر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ بلجئیم میں یہ رویہ معمول کے مطابق ہے اور مسلم قیدیوں کو عام طور پر اظہار کفر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین پر مجبور کیا جاتا ہے۔ الوطن کے مطابق بیلجین جیلوں سے فاش ہونے والی یہ رسوائیاں وحشیانہ پن کے لحاظ سے عراق کی ابوغریب جیل سے کسی بھی طور کم نہیں، بلکہ شدت کے لحاظ سے ابوغریب جیل میں امریکیوں کے وحشیانہ طرز سلوک سے کہیں بڑھ کر ہیں“۔




اسلام میں تعلیمِ نسواں اور موجودہ مخلوط نظامِ تعلیم



اسلام میں علم کی اہمیت
بلاشبہ علم شرافت وکرامت اور دارین کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کا بہترین ذریعہ ہے، انسان کودیگر بے شمار مخلوقات میں ممتاز کرنے کی کلید اور ربّ الارباب کی طرف سے عطا کردہ خلقی اور فطری برتری میں چار چاند لگانے کا اہم سبب ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مقصدِ تخلیقِ انسانی تک رسائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے، علم ہی کی بہ دولت انسانوں نے سنگلاخ وادیوں، چٹیل میدانوں اور زمینوں کو مَرغ زاری عطا کی ہے، سمندروں اور زمینوں کی تہوں سے لاتعداد معدنیات کے بے انتہا ذخائر نکالے ہیں اور آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو چیرکر تحقیق واکتشاف کے نت نئے پرچم لہرائے ہیں؛ بلکہ مختصر تعبیر میں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام محیرالعقول کارنامے علم ہی کے بے پایاں احسان ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ظہور کے اولِ دن سے ہی پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم پر ”اقرأ“ کے خدائی حکم کے القاء کے ذریعہ جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں علم کی عظمت واہمیت کو جاگزیں کیا اور ”قرآنِ مقدس“ میں بار بار عالم وجاہل کے درمیان فرق کے بیان اور جگہ جگہ حصولِ علم کی ترغیب کے ذریعے اس کی قدر ومنزلت کو بڑھایا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں علم کا ذکر اسّی بار اور علم سے مشتق شدہ الفاظ کا ذکر سیکڑوں دفعہ آیا ہے، اسی طرح عقل کی جگہ ”الباب“ (جمع لب) کا تذکرہ سولہ دفعہ اور ”عقل“ سے مشتق الفاظ اٹھارہ جگہ اور ”فقہ“ سے نکلنے والے الفاظ اکیس مرتبہ مذکور ہوئے ہیں، لفظ ”حکمت“ کا ذکر بیس دفعہ اور ”برہان“ کا تذکرہ سات دفعہ ہوا ہے، غور وفکر سے متعلق صیغے مثلاً: ”دیکھو“ ”غور کرو“ وغیرہ، یہ سب ان پر مستزاد ہیں۔
قرآن کریم کے بعداسلام میں سب سے مستند،معتبر اور معتمد علیہ لٹریچر (Literature) احادیثِ نبویہ کا وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے، جسے امت کے باکمال جیالوں نے اپنے اپنے عہد میں انتہائی دقتِ نظری، دیدہ ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ اکٹھا کرنے کا ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے، جب ہم اس عظیم الشان ذخیرے کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں قدم قدم پر نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم زبانِ مقدس علم کی فضیلت، حاملینِ علم فضیلت اور اس کے حصول کی تحریض وترغیب میں سرگرم نظر آتی ہے؛ چنانچہ تمام کتبِ حدیث میں علم سے متعلق احادیث کو علیحدہ ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔

مشتے نمونہ از خروارے
چنانچہ امام بخاری کی صحیح میں ابوابِ وحی و ایمان کے بعد ”کتاب العلم“ کے عنوان کے تحت ابواب میں حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی کے بہ قول چھیاسی مرفوع حدیثیں (مکررات کو وضع کرکے) اور بائیس آثارِ صحابہ وتابعین ہیں، اسی طرح صحاحِ ستہ کی دیگر کتب اور ”موطا مالک“ میں بھی علم کا علیحدہ اور مستقل باب ہے ”مسند امام احمد بن حنبل“ کی ترتیب سے متعلق کتاب الفتح الربانی“ میں علم سے متعلق اکاسی احادیث ہیں، حافظ نورالدین ہیثمی کی ”مجمع الزوائد“ میں علم کے موضوع پر احادیث بیاسی صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں، ”مستدرک حاکم“ میں علم سے متعلق حدیثیں چوالیس صفحات میں ہیں، مشہور ناقد حدیث اور جلیل القدر محدث حافظ منذری کی ”الترغیب والترہیب“ میں علم سے متعلق چودہ احادیث ہیں اور علامہ محمد بن سلیمان کی ”جمع الفوائد“ میں صرف علم کے حوالے سے ایک سو چون حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔

اسلام میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت
یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم؛ بلکہ مرکزی اور اساسی کردار ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماؤں کا ہم رول ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے؛ اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں وا رکھی ہیں ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے؛ بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں قرنِ اول سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک کج کلاہِ علم وفن اور تاجورِ فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے علومِ بے پناہ کی ضیاپاشیوں سے مستنیر و مستفیض ہوتا رہا، بالکل اسی طرح اس دین حنیف نے خواتین کو بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے؛ چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں، جنھوں نے اطاعت گزار بیٹی، وفاشعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔

خواتین کی تعلیم سے متعلق روایات
(۱) بنی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ثَلاَثَةْ لَہُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أہْلِ الکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، وَالعبدُ المَمْلُوکُ اذَا أدّی حقَ اللّٰ، وحَقَّ مَوَالِیْہِ، وَرَجُلٌ لَہاَمَةٌ، فَأدَّبَہَا فَأحْسَنَ تَأدِیْبَہَا، وَعَلَّمَہَا، فَأحْسَنَ تَعْلِیْمَہَا، ثُمَّ اَعْتَقَہَا، فَتَزَوَّجَہَا، فَلَہ أجْرَانِ“(۱) اس حدیث کے آخری جزء کی شرح میں ملاعلی قاری لکھتے ہیں کہ: ”یہ حکم صرف باندی کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنی اولاد اور عام لڑکیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“(۲)
(۲) ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ”تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ سکھایا ہے، اسی طرح لکھنا بھی سکھادو۔“(۳)
(۳) نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا، حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے: ”قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”غَلَبْنَٓ عَلَیکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَّنَا یَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَہُنَّ یَوْماً لَقِیَہُنَّ فِیْہِ، فَوَعَظَہُنَّ، وَأمَرَہُنَّ“(۴)۔
          (۴) حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ بڑی متدین اور سمجھدار خاتون تھیں، انھیں ایک دفعہ عورتوں نے اپنی طرف سے ترجمان بناکر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ : ”اللہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مردو عورت ہر دو کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی، مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں، گھروں میں رہنا ہوتا ہے، ہم حتی الوسع اپنے مردوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہیں، ان کی اولاد کی پرورش وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے، ادھر مرد مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انھیں بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے زمانہٴ غیبوبت میں ان کے اومال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں، اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ان صورتوں میں ہم بھی اجر وثواب میں مردوں کی ہمسر ہوسکتی ہیں؟“ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز تقریر سن کر صحابہ کی طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا: ”اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسی عورت سے اتنا عمدہ سوال سنا ہے؟“ صحابہ نے نفی میں جواب دیا، اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا کہ: ”جاؤ اور ان عورتوں سے کہہ دو کہ: ”انَّ حُسْنَ تَبَعُّلِ احْداکُنَّ لِزَوْجِہَا، وَطَلَبِہا لِمَرْضَاتِہ، وَاِتِّبَاعِہَا لِمُوافَقَتِہ، یَعْدِلُ کلَّ مَا ذَکَرْتِ لِلرِّجَالِ“۔(۵)
          آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسماء کا دل بلّیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئی واپس ہوگئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکرسنایا۔
تاریخ اسلامی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبہٴ بے پایاں پایا جاتا تھا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے، ان کی تعلیم وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔

تعلیم وتربیت کے عمومی ماحول کا اثر
          تعلیم وتربیت کے اسی عمومی ماحول کا اثر ہے کہ جماعتِ صحابیات میں بلند پایہ اہل علم خواتین کے ذکرِجمیل سے آج تاریخ اسلام کا ورق ورق درخشاں وتاباں ہے؛ چنانچہ یہ امر محقق ہے کہ امہات المومنین میں حضرت عائشہ وحضرت ام سلمہ فقہ وحدیث و تفسیر میں رتبہٴ بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ودرایت کے میدان کی بھی شہہ سوار تھیں، حضرت ام سلمہ کی صاحبزادی زینب بنت ابوسلمہ جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پروردہ تھیں، ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ:
          ”کَانَتْ أَفْقَہَ نَسَاءِ أہْلِ زَمَانِہَا“(۶)
          حضرت ام الدردادء الکبری اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ تھیں۔(۷)
          حضرت سمرہ بنت نہیک اسدیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ”وہ زبردست عالمہ تھیں، عمر دراز پائیں، بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتی تھیں اور لوگوں کو ان کی بے راہ روی پر کوڑوں سے مارتی تھیں۔“(۸)
          پھر یہ زریں سلسلہ دورِ صحابیات تک ہی محدود نہیں رہا؛ بلکہ تابعیات اور بعد کی خواتین کے زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ، زاہدہ اور امت کی محسنہ وباکمال خواتین ملتی ہیں؛ چنانچہ مشہور تابعی، حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام حضرت محمد بن سیرین کی بہن حفصہ نے صرف بارہ سال کی عمر میں قرآنِ کریم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفظ کرلیا تھا(۹) یہ فن تجوید وقراء ت میں مقامِ امامت کو پہنچی ہوئی تھیں؛ چنانچہ حضرت ابن سیرین کو جب تجوید کے کسی مسئلے میں شبہ ہوتا، تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔(۱۰)
نفیسہ جو حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کی صاحبزادی اور حضرت اسحاق بن جعفر کی اہلیہ تھیں، انھیں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میں بھی درک حاصل تھا، ان کے علم سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی معتد بہ تعداد نے سیرابی حاصل کی، ان کا لقب ”نفیسة العلم والمعرفہ“ پڑگیا تھا، حضرت امام شافعی جیسے رفیع القدر اہل علم دینی مسائل پر ان سے تبادلہٴ خیال کرتے تھے۔(۱۱)

اف! یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
مذکورہ حقائق سے یہ بات تو الم نشرح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس طرح صنفِ لطیف کو دیگر حقوق بخشنے میں بالکل عادلانہ؛ بلکہ فیاضانہ مزاج رکھتا ہے، ویسے ہی اس کے تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے؛ بلکہ عملی سطح پر انھیں عطا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے۔
          لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ نظامِ تعلیم کی جسے (co-education) سے یاد کیا جاتاہے، جو مغرب سے درآمد (Import) کردہ ہے اور جو دراصل مغرب کی فکر گستاخ کا عکاس، خاتونِ مشرق کو لیلائے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بنانے کی ہمہ گیر اور گھناؤنی سازش اور اس کی چادرِ عصمت وعفت کو تار تار کرنے کی شیطانی چال ہے، اس کی مذہب اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا، نیز عقل دانا بھی اس سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے۔

مخلوط تعلیم․․․․ ایک ہمہ گیر جائزہ
مخلوط تعلیم کے حوالے سے دو پہلو نہایت ہی توجہ اورانتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں:
۱- یہ کہ لڑکو ں اور لڑکیوں کا نصاب تعلیم ایک ہونا چاہیے یا جداگانہ؟
۲- لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم ایک ساتھ ہونی چاہیے یا الگ الگ؟ جہاں تک نصابِ تعلیم کی بات ہے ، تو گرچہ کچھ امور ایسے ہیں، جو دونوں کے مابین مشترک ہیں او ران کا نصاب لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے یکساں رکھا جاسکتا ہے مثلاً: زبان وادب، تاریخ، معلوماتِ عامہ (General knowledge) جغرافیہ، ریاضی، جنرل سائنس اور سماجی علوم (Socialscience) وغیرہ؛ لیکن کچھ مضامین ایسے ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا، مثلاً: انجینئرنگ کے بہت سے شعبے، عسکری تعلیم، اور ٹیکنکل تعلیم؛ کیوں کہ ان کی لڑکیوں کو قطعاً ضرورت نہیں؛ البتہ میڈیکل تعلیم کا اچھا خاصا حصہ خواتین سے متعلق ہے؛ اس لیے ”امراضِ نسواں“ زمانے سے طب کا مستقل موضوع رہا ہے، یہ لڑکیوں کے لیے نہایت ضروری ہے، اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم میں امورِ خانہ داری کی تربیت بھی شامل ہونی چاہیے، کہ یہ ان کی معاشرتی زندگی میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، سلائی، کڑھائی، پکوان کے مختلف اصول اور بچوں کی پرورش کے طریقے بھی ان کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہونے چاہئیں، ان سے نہ صرف لڑکیاں گھریلو زندگی میں بہتر طور پر متوقع رول ادا کرسکتی ہیں؛ بلکہ ازدواجی زندگی کی خوش گواری، اہل خاندان کی ہردل عزیزی اور مشکل اور غیرمتوقع صورتِ حال میں اپنی کفالت کے لیے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں، ساتھ ہی لڑکیوں کے لیے ان کے حسبِ حال آدابِ معاشرت کی تعلیم بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ ایک لڑکی اگر بہترین ماں اور فرماں بردار بیوی نہ بن سکے تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے (جیساکہ ذکر ہوا) عورتوں کی تذکیر کے لیے علیحدہ دن مقرر فرمادیا تھا، جس میں عورتیں جمع ہوتیں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ان کے حسب حال نصیحت فرماتے؛ چنانچہ ایک دفعہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ”خواتین کی دل بہلائی کا بہترین مشغلہ سوت کاتنا ہے۔“(۱۲) کیوں کہ سوت کاتنا اس زمانے میں ایک گھریلو صنعت تھی؛ بلکہ آج سے نصف صدی پیشتر تک بھی بہت سے گھرانوں کا گزرانِ معیشت اسی پر تھا۔
غور کیجیے کہ جب قدرت نے مردوں اور عورتوں میں تخلیقی اعتبار سے فرق رکھا ہے، اعضاء کی ساخت میں فرق، رنگ وروپ میں فرق، قوائے جسمانی میں فرق، مزاج ومذاق، حتیٰ کہ دونوں کی پسند اور ناپسند میں بھی تفاوت ہے، پھر اسی طرح افزائشِ نسل اوراولاد کی تربیت میں بھی دونوں کے کردار مختلف ہیں، تو یہ کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں دونوں کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی الگ الگ نہ ہوں؟ اور جب دونوں کی ذمہ داریاں علیحدہ ٹھہریں، تو ضروری ہے کہ اسی نسبت سے دونوں کے تعلیمی وتربیتی مضامین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں، اگر تعلیمی نصاب میں دونوں کے فطری اختلاف کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور تعلیم کے تمام شعبوں میں دونوں صنفوں کو ایک ہی قسم کے مضامین پڑھائے جائیں، تو جہاں یہ طریقہٴ تعلیم انسانی معاشرے پر منفی اثر ڈالے گا، وہیں خود عورت کے عورت پن کے رخصت ہونے کا بھی انتہائی منحوس سبب ہوگا؛ لہٰذا صنفِ نازک کی فطری نزاکت کے لیے یہی زیب دیتا ہے کہ وہ وہی علوم حاصل کرے، جو اسے زمرئہ نسواں ہی میں رکھے اور اس کے فطری تشخص کی محافظت کرے، نہ کہ وہ ایسے علوم کی دل دادہ ہوجائے، جو اسے زن سے نازن بنادے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وَلاَ تَتَمَنَّوا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ، لِلرِّجَالِ نصیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ، وَاسْئَلُو اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہ انَّ اللّٰہَ کَانَ بِکلِّ شَیْءٍ عَلِیْما“ (۱۳) (اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک دوسرے کو جو فطری برتری عطا فرمائی ہے، اس کی تمنا مت کرو! مردوں کے لیے ان کے اعمال میں حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال میں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل وکرم مانگتے رہو، بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے)
یہ آیت دراصل معاشرتی زندگی کے آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، اس میں یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اللہ نے انسانی سماج کو اختلاف اور رنگارنگی پر پیدا کیا ہے، کسی بات میں مردوں کو فوقیت حاصل ہے، تو کسی معاملے میں وہ عورتوں کے تعاون کا دست نگر ہے، قدرت نے جو کام جس کے سپرد کیا ہے،اس کے لیے وہی بہتر اور اسی کو بجالانا اس کی خوش بختی ہے؛ کیوں کہ خالق سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق کی ضرورت اور فطرت وصلاحیت سے واقف نہیں ہوسکتا، یہ مغربی ہوس کاروں کی خود غرضی اور دنائت ہے کہ انھوں نے عورتوں سے ”حقِ مادری“ بھی وصول کیا اور ”فرائضِ پدری“ کے ادا کرنے پر بھی ان بے چاریوں کو مجبور کیا، پھر جب انھوں نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ عورتوں پر لادنے کی ٹھان لی، تو ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا،جس میں عورتوں کو مرد بنانے کی پوری صلاحیت موجود ہو، پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب ارشاد فرمایا کہ: ”تین افراد ایسے ہیں، جو کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے“ اور ان تینوں میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”الرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ“ (۱۴) یعنی عورتوں میں سے مرد، دریافت کیاگیا: ”عورتوں میں سے مرد سے کون لوگ مراد ہیں؟“ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عورتیں، جو مردوں کی مماثلت اختیار کریں“ جیساکہ بخاری کی روایت ہے: ”وَالْمُتَشَبِّہَاتُ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ“(۱۵) علماء نے ایسی عورتوں کو جو مردوں والی تعلیم وتربیت اختیار کرتی ہیں اور پھر عملی زندگی میں مردوں کی ہم صف ہونا چاہتی ہیں، اسی وعید کا مصداق قرار دیا ہے۔

فرنگی نظامِ تعلیم پر اقبال اوراکبر کی تشویش
          بیسویں صدی کے عظیم مفکر وفلسفی، سوزِ دروں سے سرشار، اسرارِ خودی ورموزِ بے خودی کو واشگاف کرنے والے اور تاحیات حجازی لے میں نغمہٴ ہندی گنگنانے والے شاعرِ اسلام، جو خود عصری تعلیم گاہ کے پرداختہ تھے اور مغربی نظامِ تعلیم کا انتہائی قریب سے اور عمیق مطالعہ کیا تھا، انھیں عورتوں کے حوالے سے مغرب کے پرفریب نعروں پر، جن کی صدائے بازگشت اسی وقت مشرق میں بھی سنی جانے لگی تھی، کافی بے چینی اور اضطراب تھا، ان کی نظر میں ان نعروں کا اصل مقصد یہ تھا کہ مشرقی خاتون کو بھی یورپی عورتوں کی طرح بے حیائی وعصمت باختگی پر مجبور کردیا جائے اور مسلم قوم بھی مجموعی طور پر عیش کوشی وعریانیت کی بھینٹ چڑھ جائے اور مسلمانوں کی روایتی خصوصیات شجاعت ومردانگی، حمیت وایثار، مروت اور خداترسی، مدہوشی کی حالت میں دم توڑ جائیں؛ تاکہ وہ یورپ کی غلامی کے شکنجے سے کبھی بھی رہائی نہ پاسکیں؛ اس لیے انھوں نے اپنی مثنوی ”اسرار‘ و ”رموز“ ”جاویدنامہ“ ”ارمغانِ حجاز“ اور ”ضربِ کلیم“ میں متعدد مقامات پر مخلوط سوسائٹی اور مخلوط طریقہٴ تعلیم کے تئیں انتہائی نفرت وبیزاری کا اظہار کیاہے؛ چنانچہ ”ضرب کلیم“ میں کہتے ہیں:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہٴ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت
اور تہذیب مغرب نے جس طرح عورت کو اس کے گھر سے زبردستی اٹھاکر بچوں سے دور کارگاہوں اور دفتروں میں لابٹھایا ہے، اس پر ”خردمندانِ مغرب“ کو اقبال یوں شرمندہ کرتے ہیں۔
کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے
ہند ویونان ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار زن تہی آغوش
مغربی تعلیم نسواں کے حامی مشرق کے مستغربین کی روش پر اقبال اپنے کرب وبے چینی کا اظہاریوں کرتے ہیں: ”معاشرتی اصلاح کے نوجوان مبلغ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم کے چند جرعے مسلم خواتین کے تنِ مردہ میں نئی جان ڈال دیں گے اور اپنی ردائے کہنہ کو پارہ پارہ کردیں گی، شاید یہ بات درست ہو؛ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو برہنہ پاکرانھیں ایک مرتبہ پھر اپنا جسم ان نوجوان مبلغین کی نگاہوں سے چھپانا پڑے گا۔“(۱۶)
          بہ قول فقیر سید وحیدالدین: ”اقبال زن ومرد کی ترقی، نشوونما اور تعلیم وتربیت کے لیے جداگانہ میدانِ عمل کے قائل تھے، کہ اللہ نے جسمانی طور پر بھی دونوں کو مختلف بنایا ہے اور فرائض کے اعتبار سے بھی؛ چنانچہ موصوفِ محترم عورتوں کے لیے ان کی طبعی ضروریات کے مطابق الگ نظامِ تعلیم اور الگ نصاب چاہتے ہیں۔“(۱۷)
          ”شذرات“ میں لکھتے ہیں: ”تعلیم بھی دیگرامور کی طرح قومی ضرورت کے تابع ہوتی ہے، ہمارے مقاصد کے پیش نظر مسلمان بچیوں کے لیے مذہبی تعلیم بالکل کافی ہے، ایسے تمام مضامین، جن میں عورت کو نسوانیت اور دین سے محروم کردینے کا میلان پایا جائے،احتیاط کے ساتھ تعلیم نسواں سے خارج کردیے جائیں۔“(۱۸)
          اسی سلسلہ میں ”ملفوظاتِ اقبال“ میں ان کا یہ قول ہے: ”مسلمانوں نے دنیا کو دکھانے کے لیے دنیوی تعلیم حاصل کرنا چاہی؛ لیکن نہ دنیا حاصل کرسکے اور نہ دین سنبھال سکے، یہی حال آج مسلم خواتین کا ہے، جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں دین بھی کھورہی ہیں۔“(۱۹)
          دراصل اقبال کے نزدیک امتِ مسلمہ کے لیے قابلِ تقلید نمونہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کا اسوہ ہے؛ چنانچہ اسی نسبت سے وہ خواتین کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ حضرت فاطمہ الزہراء کی پیروی کریں اور اپنی آغوش میں ایسے نونہالوں کی پرورش کریں، جو بڑے ہوکر شبیر صفت ثابت ہوں، ”رموزِ بے خودی“ میں فرماتے ہیں:
مزرعِ تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوئہ کامل بتول
اور ارمغانِ حجاز میں خواتین کو یوں نصیحت کرتے ہیں:
اگر پندے زدُرویشے پذیری
ہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولے باش وپنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری
(ایک دُرویش کی نصیحت کو آویزئہ گوش بنالو، تو ہزار قومیں ختم ہوسکتی ہیں؛ لیکن تم نہیں ختم ہوسکتیں، وہ نصیحت یہ ہے کہ بتول بن کر زمانے کی نگاہوں سے اوجھل (پردہ نشیں) ہوجاؤ؛ تاکہ تم اپنی آغوش میں ایک شبیر کو پال سکو)
          دوسرے لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی ہیں، اقبال کی طرح وہ بھی عصری تعلیم سے باخبر ہیں اور انھیں کی طرح ان کی بھی ساری فکری توانائی اور شاعرانہ صلاحیت وقوت کی تان تہذیب فرنگ کو لتاڑنے اوراس کی زیاں کاریوں سے خبردار کرنے پر ہی ٹوٹتی ہے، ان کی شاعری پوری تحریکِ مغربیت کے خلاف ردّ عمل ہے، ان کی شاعری بھی اقبال کی طرح اول سے لے کر آخر تک اسی مادیت فرنگی کا جواب ہے اور ان کی ترکش کا ایک ایک تیر اسی نشانے پر لگتا ہے، بس دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقبال بہ راہِ راست تیشہ سنبھال کر تہذیب نو کو بیخ وبُن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے نظر آتے ہیں، جبکہ حضرتِ اکبر طنز کی پھلجھڑیوں کو واسطہ بناکر مغرب کے مسموم افکار وخیالات پر پھبتیاں کستے ہیں۔
          مغربی نظامِ تعلیم بھی حضرت اکبر کا خاص موضوع تھا اوراس کی طرف خواتین کے روز افزوں بڑھتے ہوئے رجحانات سے بھی وہ بہت ملول اور کبیدہ خاطر تھے؛ چنانچہ ایک جگہ مغرب کی طرف سے اٹھنے والی تعلیمِ نسواں کی تحریک اور بے پردگی کو لازم وملزوم بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
مجلسِ نسواں میں دیکھو عزتِ تعلیم کو
پردہ اٹھا چاہتاہے علم کی تعظیم کو
مشرق میں بہترین عورت کا تخیل یہ ہے کہ وہ شروع سے نیک سیرت، بااخلاق اورہنس مکھ رہے، وہ جب بات کرے تو اس کے منھ سے پھول جھڑے، وہ دینی تعلیم حاصل کرے اور خانہ داری کے طور طریقے سیکھے، کہ آگے چل کر اس کو گھر کی ملکہ بننا ہے، بچپن میں والدین کی اطاعت اور شادی کے بعد شوہر کی رضامندی کو پروانہٴ جنت خیال کرے؛ تاکہ خانگی شیرازہ اس کی ذات سے بندھا رہے، خاندان کی مسرتیں اس کے دم سے قائم رہیں اور وہ صحیح معنی میں ”گھر کی ملکہ“ ثابت ہو، اس کے برخلاف فرنگیوں کے یہاں عزت کا معیار بدلا ہوا ہے، وہ عورت ہی کیا؟ جس کے حسن گفتار، حسن رفتار، حسن صورت، زیب وزینت، خوش لباسی، گلے بازی اور رقاصی کے چرچے سوسائٹی میں عام نہ ہوں، اخبارات میں اس کے فوٹو شائع ہوں، زبانوں پر جب اس کا نام آئے، تو کام ودہن لذت اندوز ہوں، اس کا جلوہ آنکھوں میں چمک پیدا کردے، اور اس کا تصور دلوں میں بے انتہا شوق، بہترین عورت وہ نہیں، جو بہترین بیوی اور بہترین ماں ہو؛ بلکہ وہ ہے، جس کی ذات دوست واحباب کی خوش وقتیوں کا دلچسپ ترین ذریعہ ہو اور ایسی ہو کہ اس کی رعنائی ودل ربائی کے نقش ثبت ہوں کلب کے درودیوار پر، پارک کے سبزے زار پر، ہوٹلوں کے کوچ اور صوفوں پر، ”ہمارے“اور ”ان کے“ تخیل کے اس بُعد المشرقین کو اقلیم لفظ ومعنی کا یہ تاجدار دو مصرعوں میں جس جامعیت اور بلاغت کے ساتھ بیان کرجاتا ہے، یہ اسی کا حصہ تھا:
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بے گانہ تھی
اب ہے شمع انجمن، پہلے چراغِ خانہ تھی
”چمکی“ میں وہ بلاغت ہے کہ سننے والا لوٹ لوٹ جائے اور یہ ”چمک“ مخصوص ہے ”نئی روشنی“ کی چمنیوں کے ساتھ۔
حسن وناز کی دنیا میں قابل داد وتحسین اب تک کم سخنی، کم گوئی اور بے زبانی تھی، مشرقی شوہر ”چاندسی دلہن“ اس لیے بیاہ کر لاتا تھا کہ وہ اسے اپنے گھر کا چراغ بنادے اور تخیل ”خانہ آبادی“ کا غالب رہتا، مگر مغربی نظامِ تعلیم کی دَین کہ محفل کے طور ہی کچھ اور ہوگئے، نقشہ بالکل ہی بدل گیا، اب تو ٹھاٹھ بزم آرائیوں کے جمے ہوئے، حجاب کی جگہ بے حجابی، سکوت کی جگہ طوفانِ تکلم، مستوری کی جگہ نمائش، عاشق بے چارہ اس کایا پلٹ پردنگ، حیران، گم صم، کل تک جو نقش تصویر تھا، وہ آج گراموفون کی طرح مسلسل وقفِ تکلم۔
خامشی سے نہ تعلق ہے،نہ تمکین کا ذوق
اب حسینوں میں بھی پاتا ہوں ”اسپیچ“ کا شوق
شانِ سابق سے یہ مایوس ہوئے جاتے ہیں
بت جو تھے دیر میں ناقوس ہوئے جاتے ہیں
اکبر کے اسی مرقع کا ایک اور منظر۔
اعزاز بڑھ گیا ہے، آرام گھٹ گیا ہے
خدمت میں ہے وہ لیزی اور ناچنے کو ریڈی
تعلیم کی خرابی سے ہوگئی بالآخر
شوہر پرست بیوی پبلک پسند لیڈی
ایک دوسری جگہ اس مرقع میں آب ورنگ ذرا اور زیادہ بھردیتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد ہے:
اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو سنوارا
اک پیرنے تعلیم سے لڑکی کو سنوارا
کچھ جوڑ تو ان میں کے ہوئے ہال میں رقصاں
باقی جو تھے گھر ان کا تھا افلاس کا مارا
بیرا وہ بنا کمپ میں، یہ بن گئیں آیا
بی بی نہ رہیں جب، تو میاں پن بھی سدھارا
دونوں جو کبھی ملتے ہیں گاتے ہیں یہ مصرعہ
”آغاز سے بدتر ہے سرانجام ہمارا“
یہ خیال نہ گزرے کہ اکبر سرے سے تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے تھے اور لڑکیوں کو بالکل ہی ناخواندہ رکھنے کے حامی تھے، وہ تعلیم نسواں کے حامی تھے؛ لیکن تعلیم تعلیم میں بھی تو زمین آسمان کا فرق ہے، وہ اس تعلیم کی تائید میں تھے، جو رابعہ بصریہ نہ سہی دورِ مغلیہ کی جہاں آراء بیگم ہی کے نمونے پیدا کرے، نہ کہ اس تعلیم کی، جو زینت ہوا پکچر پیلس اور نمائش گاہوں کی، اس تعلیم کو وہ رحمت نہیں، خدا کا قہر سمجھتے تھے، جس پر بنیادیں تعمیر ہوں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی، وہ آرزومند تھے، اس نظامِ تعلیم کے، جو مہربان مائیں، وفاسرشت بیویاں اور اطاعت شعار لڑکیاں پیدا کرے، نہ کہ اس کے، جو تھیٹرمیں ایکٹری اور برہنہ رقاصی کے کمالات کی طرف لے جائے، وہ ملک میں حوریں پیدا کرنا چاہتے تھے، کہ دنیا جنت نظیر بن جائے، وہ پریوں کے مشتاق نہ تھے، کہ ملک ”راجہ اندر“ کا اکھاڑا ہوکر رہ جائے ان کا قول تھا کہ:
دو شوہر واطفال کی خاطر اسے تعلیم
قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو
مزید توضیح ملاحظہ ہو:
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے، مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
ذی علم ومتقی ہوں، جو ہوں ان کے منتظم
استاذ ایسے ہوں، مگر ”استاد جی“ نہ ہوں
”استاذ اور استاد“ کے لطیف فرق کو جس خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ بس انہی کا حصہ ہے، استاذ تو دینی واخلاقی تعلیم و تربیت دینے والے کو کہتے ہیں، جبکہ استاد جی اربابِ نشاط کو تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔
ایک اور طویل نظم میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنا پورا مسلک وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے، چند اشعار نظر نواز ہوں:
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہے، وہ بے شعور ہے
ایسی معاشرت میں سراسر فتور ہے
اور اس میں والدین کا بے شک قصور ہے
لیکن ضرور ہے کہ مناسب ہو تربیت
جس سے برادری میں بڑھے قدر ومنزلت
آزادیاں مزاج میں آئیں نہ تمکنت
ہو وہ طریق، جس میں ہو نیکی ومصلحت
ہرچند ہو وہ علم ضروری کی عالمہ
شوہر کی ہو مرید تو بچوں کی خادمہ
عصیاں سے محترز ہو، خدا سے ڈرا کرے
اور حسنِ عاقبت کی ہمیشہ دعا کرے
آگے حساب کتاب، نوشت وخواند، اصولِ حفظانِ صحت، کھانا پکانے اور کپڑے سینے وغیرہ کو درسِ نسوانی کا لازمی نصاب بتاکر فرماتے ہیں:
داتا نے دَھن دیا ہے، تو دل سے غنی رہو
پڑھ لکھ کے اپنے گھر کی دیوی بنی رہو
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے
دنیا میں لذتیں ہیں، نمائش ہے، شان ہے
ان کی طلب میں، حرص میں سارا جہان ہے
اکبر سے یہ سنو! کہ یہ اس کا بیان ہے
دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے
حد سے جو بڑھ گیا، تو ہے اس کا عمل خراب
آج اس کا خوش نما ہے، مگر ہوگا کل خراب(۲۰)
مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو
مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو لڑکو اور لڑکیوں کی مشترک تعلیم گاہ ہے،اس سلسلے میں یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ ابتدائی عمر، جس میں بچے صنفی جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور ان میں ایسے احساسات پیدا نہیں ہوتے، مخلوط تعلیم کی گنجائش ہے اورآٹھ، نو سال کی عمر تک ابتدائی درجات کی تعلیم میں تعلیم گاہ کا اشتراک رکھا جاسکتا ہے؛ اسی لیے اسلام نے بے شعور بچوں کو غیرمحرم عورتوں کے پاس آمد ورفت کی اجازت دی ہے اور قرآن مقدس نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے(۲۱)؛ لیکن جب بچوں میں جنسی شعور پیدا ہونے لگے اور ایک حد تک بھی (کلی طور پر نہ سہی) ان میں صنفی جذبات کی پہچان ہوجائے، تو ایک ساتھ ان کی تعلیم آگ اور بارود کو ایک جگہ جمع کرنے کی مانند ہے اور اس کا اعتراف (گودیر سے سہی) آج یورپ وامریکہ کے بڑے بڑے ماہرین نفسیات (Psychology) وحیاتیاتِ بشری (Humanbiology)کررہے ہیں؛ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ عورت اور مرد میں کشش جنسی بالکل طبعی اور فطری ہے اور دونوں جب باہم ملیں گے اور کوئی مانع نہیں ہوگا، تو رگڑسے یکبارگی بجلی کا پیدا ہوجانا یقینی ہے۔
اور اسلام کا نقطئہ نظر اس حوالے سے بالکل واضح، بے غبار، ٹھوس اور سخت ہے، کہ ایک مرد یا عورت کے لیے کسی غیرمحرم کے ساتھ مل بیٹھنا کجا ایک دوسرے کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے کی بھی قطعاً گنجائش نہیں؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی سفرِ حج میں فضل بن عباس آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہیں، قبیلہ ”بنو خثعم“ کی ایک لڑکی ایک شرعی مسئلے کی دریافت کے لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور فضل بن عباس کی نگاہ اچانک اس لڑکی پر پڑجاتی ہے، تو نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ان کا رخ پھیردیتے ہیں۔
          جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ بجلی فرماتے ہیں: ”شَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ عَنْ نَظْرِ الفُجَائَةِ فقال: ”اِصْرِفْ بَصَرَکَ“۔(۲۲)
          حضرت علی بن ابی طالب سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یَا عََلِیْ! لاَ تَتْبَعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ؛ فَانَّ لَکَ الأُوْلٰی، وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَة“(۲۳)
          مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعتی حکم جاری فرمایا: چنانچہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ (بعض روایات کے مطابق حضرت عائشہ) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھیں،اچانک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم تشریف لے آئے، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو! تو حضرت ام سلمہ نے قدرے تحیر زدہ ہوکر کہا: ”یہ تو نابینا ہیں! نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نا ہی پہچان سکتے ہیں“ تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہو؟“(۲۴)
پھر اسلام کا یہ نظریہ کسی خاص شعبہٴ حیات سے متعلق نہیں؛ بلکہ سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد سے تاحیات اس کا یہی حکم ہے؛ چنانچہ جب ہم اہلِ علم خواتینِ اسلام کی تاریخ اور ان کی تعلیم وتربیت کے طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ میمون میں خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا غایت درجہ اہتمام فرماتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں اختلاط کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے؛ تاکہ یہ شیطان کی طرف سے کسی غلط کاری کی تحریک کا باعث نہ ہو؛ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ : ”حضور  صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کی صف سے نکلے اور حضرت بلال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز عورتوں تک نہیں پہنچی، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی صف تک تشریف لے گئے، انھیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا، تو کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی اور کوئی انگوٹھی اور حضرت بلال اپنی چادر میں انھیں سمیٹنے لگے۔“(۲۵)
          ایک مرتبہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو خلط ملط دیکھا، تو عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”پیچھے ہٹ جاؤ! تمہارا بیچ راستے پر چلنا مناسب نہیں لبِ راہ چلا کرو“۔(۲۶)
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے ادوار میں بھی عورتوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے عدمِ اختلاط کا خصوصی اہتمام رہا؛ چنانچہ حضرت مولانا قاضی اطہرمبارک پوری قرنِ اوّل اور اس کے بعد طالبات کے تعلیمی اسفار اور ان کے طریقہٴ تعلیم وتربیت کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”عام طور سے ان تعلیمی اسفار میں طالبات کی صنفی حیثیت کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا تھا اور ان کی راحت وحفاظت کا پورا اہتمام ہوتا تھا، خاندان اور رشتہ کے ذمہ دار اُن کے ساتھ ہوتے تھے، امام سہمی نے ”تاریخ جرجان“ میں فاطمہ بنت ابی عبداللہ محمد بن عبدالرحمن طلقی جرجانی کے حالات میں لکھا ہے کہ: ”میں نے فاطمہ کو اس زمانے میں دیکھا ہے، جب ان کے والد ان کو اٹھاکر امام ابواحمد بن عدی جرجانی کی خدمت میں لے جاتے تھے اور وہ ان سے حدیث کا سماع کرتی تھیں،فاطمہ بنت محمد بن علی لخمیہ اندلس کے مشہور محدث ابومحمد باجی اشبیلیکی بہن تھیں، انھوں نے اپنے بھائی ابومحمد باجی کے ساتھ رہ کر طالب علمی کی اور دونوں نے ایک ساتھ بعض شیوخ واساتذہ سے اجازتِ حدیث حاصل کی۔“(۲۷)
آگے لکھتے ہیں: ”ان محدثات وطالبات کی درس گاہوں میں مخصوص جگہ ہوتی تھی، جس میں وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اور طلبہ وطالبات میں اختلاط نہیں ہوتا تھا۔“(۲۸)
ان تصریحات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جہاں عورتوں کو تعلیم وتربیت کے حصول کی پوری آزادی بخشی ہے، وہیں اس کے نزدیک مرد وعورت کے درمیان اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں؛ بلکہ دونوں کے لیے علیحدہ تعلیم گاہ ہونی چاہیے، جہاں وہ یک سوئی اور سکونِ خاطر کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں،اور ہر نوع کے ممکن فتنے کا سدِّ باب ہوسکے، خاص طور سے موجودہ دور میں، جب کہ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب مخلوط تعلیم کی فحش کاریاں اور زیاں کاریاں ظاہر وباہر ہوچکی ہیں اور خود یورپ وامریکہ کی تعلیم گاہوں کے ماہرینِ تعلیم وسماجیات وعمرانیات کی رپورٹس اس کا بین ثبوت ہیں؛ چنانچہ مشہور فرانسیسی عالم عمرانیات ”پول بیورو“(Poulbureou) اپنی کتاب (Towardsmoral Bankruptcy)میں لکھتاہے کہ: ”فرانس کے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیاں، جو کسی فرم میں کام کرتی ہیں اور سائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہیں، ان کے لیے کسی اجنبی لڑکے سے مانوس ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے، اوّل اوّل اس طرزِ معاشرت کو معیوب سمجھا گیا، مگر اب یہ اونچے طبقے میں بھی عام ہوگیا ہے اوراجتماعی زندگی میں اس نے وہی جگہ حاصل کرلی ہے، جو کبھی نکاح کی تھی۔“(۲۹)
امریکہ کی تعلیم گاہوں کے نوجوان طبقہ کے بارے میں جج بن لنڈ سے (Benlindsey) جس کو ڈنور (Denver)کی عدالت جرائم اطفال (Juentlecourt) کا صدر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے نوجوانوں کی حالت سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع ملا، اپنی کتاب (Revolt of Modern youth) میں لکھتا ہے کہ: ”امریکہ میں ہائی اسکول کی کم از کم ۴۵ فیصد لڑکیاں اسکول سے الگ ہونے سے پہلے خراب ہوچکتی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے کہیں زیادہ ہے، لڑکیاں خود ان لڑکوں سے اس چیز کے لیے اصرار کرتی ہیں، جن کے ساتھ و تفریحی مشاغل کے لیے جاتی ہیں اور اس قسم کے ہیجانات کی طلب ان میں لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، گرچہ زنانہ فطرت ان اقدامات پرفریب کاری کے پردے ڈالتی ہے۔“(۳۰)
انگلینڈ کے مرکزی شہر لندن (جو تہذیب جدید کا صاف شفاف آئینہ ہے، اسی آئینے میں اس کی تمام تر گل کاریوں کا عکسِ قبیح نظر آتاہے) کی ”غیرشادی شدہ ماؤں اور ان کے بچوں کی نویں کونسل“ سے خطاب کرتے ہوئے انگلینڈ کی مشہور مصنفہ ”مس مارگانتا لاسکی“ یہ دھماکہ خیز انکشاف کرتی ہے کہ: ”انگلستان کی تقریباً ۷۰ فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی اپنے دوستوں سے جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور ۳۳فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں۔“(۳۱)
لندن کے ایک سماجی کارکن نے اپنی مطالعاتی رپورٹ میں وہاں کی مخلوط تعلیم گاہوں کی صنفی آوارگی اور جنسی انارکی (Anarchy)کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”اسکول میں آج کل چودہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں عام طور پر مانعِ حمل اشیاء اپنے اپنے بیگ میں لیے پھرتے ہیں کہ جانے کب کہاں ضرورت پڑجائے؟ اس معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے کہیں زیادہ ہوشیار ہیں۔“(۳۲)
خیر! یہ تو نافِ تمدن اور مرکز تہذیب کی بات ہے، خود مشرق میں بھی (جس کے رگ وپے میں گویا خوانِ مغرب کی زلہ خواری سرایت کرچکی ہے اور مغرب کی ”عطاکردہ“ ہر ”نعمت غیرمترقبہ“ کا والہانہ استقبال کرنا اور اسے ہاتھوں ہاتھ لینا اس کی جبلت بن چکا ہے اور جس کے فرزندوں میں مستغربین کی ٹولی کی ٹولی جنم لے رہی ہے) مخلوط تعلیم کے انتہائی مضرت رساں نتائج مشاہدے میں آرہے ہیں؛ بلکہ صورتِ حال تویہ ہوچکی ہے کہ۔
مے خانہ نے رنگ وروپ بدلا ایسا
مے کش مے کش رہا، نہ ساقی ساقی
غور کیجیے کہ مخلوط تعلیم گاہوں میں جہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہوں، پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ایک ساتھ ہوں اور ان سب پر طرفہ یہ کہ عریاں ونیم عریاں بازو، لب ہائے گلگوں، چمکتے ہوئے عارض، چشم ہائے نیم باز، بکھری ہوئی زلفیں؛ بلکہ سارا سراپا ”انا البرق“ کا منظر پیش کررہا ہو،تو کیا فریق مقابل اپنے ذوقِ دید اور شوقِ نظارہ کو صبر وشکیبائی کا رہین رکھے گا یا بے تابانہ اپنی نگاہوں کی تشنگی دور کرنے کی سوچے گا؟ پھر جب جمالِ جہاں آرا پوری تابانیوں کے ساتھ دعوتِ نظارہ دے رہا ہو، تو اس کی دید کی پیاس بجھے گی کیوں؟ وہ تواور تیز تر ہوجائے گی اور جام پر جام چڑھائے جانے کے باوصف اس کا شوقِ دیدار ”ہَلْ مِنْ مَزِید“ کی صدائے مسلسل لگائے گا۔
ساقی جو دیے جائے یہ کہہ کر کہ پیے جا
تو میں بھی پیے جاؤں یہ کہہ کر کہ دیے جا
اور شیطان ایسے موقعوں پر کبھی نہیں چوکتا، جب اس کا شکار پوری طرح اس کے قبضے میں آجائے؛ چنانچہ معاملہ صرف دید ہی تک محدود رہ جائے، یہ ناممکن ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر گفت وشنید تک پہنچتا ہے، پھر بوس وکنار اورہم آغوش ہونے اور بالآخر وہاں تک پہنچ کر دم لیتا ہے، جس کے بیان سے ناطقہ سربہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے اور اس قسم کے حادثات کوئی ضروری نہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز کے احاطوں ہی میں رونما ہوں؛ بلکہ رسل ورسائل اورآئے دن کے مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کالجز کے کلاس روم، شہروں کے پارک اور پبلک مقامات تک کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔#
بوئے گل، نالہٴ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
پس چہ باید کرد؟
          ایسے پر آشوب اورہلاکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے، اور لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی ”مُثَقَّف“ اور ”روشن خیال“ بنانے کا مخلوط طریقہٴ کار یوں ہی برقرار رہا، تو ہرنیاطلوع ہونے والا سورج بنتِ حوا کی عزت وناموس کی پامالی کی خبرنو لے کرآئے گا اور پھر دنیا بہ چشم عبرت نگاہ دیکھے گی کہ وہ مقامات، جو انسان کو تہذیب وشائستگی اور انسانیت کا درس دینے، قوم ووطن کے جاں سپار خادم اور معاشرے کے معزز وکامیاب افراد تیار کرنے کے لیے منتخب کیے گئے تھے؛ محض حیوانیت وبہیمیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کر رہ گئے۔ (لاقَدَّر اللّٰہ ذلک)
خواتین کو تعلیم دی جائے، اسلام قطعاً اس کی مخالفت نہیں کرتا؛ بلکہ وہ تو اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے، جیساکہ ماقبل میں بتایاگیا؛ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ ان کی تعلیم وہی ہو، جو ان کی فطرت، ان کی لیاقت اور ان کی قوتِ فکر وادراک کے مناسب ہو اور ان کی عفت کی حفاظت میں ممدومعاون ہو، نہ کہ ایسی تعلیم، جو انھیں زمرئہ نسواں ہی سے خارج کردے اور شیاطینُ الانس کی درندگی کی بھینٹ چڑھا دے، اللہ تعالیٰ سود وزیاں کی صحیح فہم کی توفیق بخشے۔ (آمین)
***
حواشی
(۱)         صحیح بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واہلہ، ج:۱، ص:۲۰، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالة نبینا الخ، ج:۱، ص:۸۶۔
(۲)        مرقات، ملا علی قاری، ج:۱،ص:۷۹۔
(۳)        فتوح البلدان، بلاذری، ج:۱،ص:۴۵۸۔
(۴)        صحیح بخاری، کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدة فی العلم ج:۱،ص:۵۷۔
(۵)        الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۲۶۔
(۶)        الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۵۶۔
(۷)        تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی ج:۱۱، ص:۴۰۹۔
(۸)        الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۶۰۔
(۹)        تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ج:۱۱، ص:۴۰۹۔
(۱۰)       صفة الصفوہ، ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی، ج:۴،ص:۱۶۔
(۱۱)        تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، طالب الہاشمی ص:۱۲۲-۱۲۳۔
(۱۲)       کنزل العمال، باب اللہو واللعب والغنی، حدیث:۴۰۶۱۱۔
(۱۳)       سورئہ نساء آیت:۳۲۔
(۱۴)       مجمع الزوائد، نورالدین ہیثمی، ج:۴، ص:۳۲۷۔
(۱۵)       صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبہین بالنساء والمتشبہات بالرجال، ج:۲، ص:۸۷۴۔
(۱۶)       شذراتِ فکر اقبال، علامہ اقبال، ص:۱۴۷۔
(۱۷)       روزگارِ فقیر، ج:۱، ص:۱۶۶۔
(۱۸)       ص:۸۵۔
(۱۹)       ص:۲۰۸۔
(۲۰)       اکبرنامہ، عبدالماجد دریابادی، ص: ۱۰۵-۱۰۷ ، و ۱۱۰-۱۱۳ ملخصاً۔
(۲۱)       النور آیت: ۵۸۔
(۲۲)       سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب ما یوٴمر من غض البصر، ج:۱، ص:۲۹۲، صحیح مسلم، کتاب الأدب، باب نظر الفجاء ة، ج:۲، ص:۲۱۲۔
(۲۳) سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب مایوٴمر من غض البصر، ج:۱، ص:۲۹۲۔
(۲۴) سنن ترمذی، ابواب الاستیذان والأدب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، ج:۲، ص:۱۰۶۔
(۲۵)      صحیح بخاری، کتاب العلم، باب عظة النساء وتعلیمہن، ج:۱،ص:۲۰۔ صحیح مسلم، کتاب صلوة العیدین، فصل فی الصلوٰة قبل الخطبة، ج:۱،ص:۲۸۹۔
(۲۶)       سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب فی مشی النساء فی الطریق، ج:۲، ص:۷۱۴۔
(۲۷)      خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات، قاضی اطہر مبارک پوری، ص:۲۳، تاریخ جرجان، امام سہمی، ص:۴۶۳۔
(۲۸)      خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات، قاضی اطہر مبارک پوری، ص:۳۳۔
(۲۹)       پردہ، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ص:۵۴۔
(۳۰)      فریب تمدن،اکرام اللہ ایم اے، ص:۱۵۸، افکارِ عالم، اسیر ادروی، ج:۱، ص:۲۲۶۔
(۳۱)       صدقِ جدید، عبدالماجد دریابادی، ۲۶/دسمبر ۱۹۶۰/، فریب تمدن، اکرام اللہ ایم ایے، ص:۱۸۷،افکارِ عالم، اسیرادروی ج:۱،ص:۲۲۸۔
(۳۲) صدق جدید، عبدالماجد دریابادی، ۶/جنوری ۱۹۵۶/، فریب تمدن، اکرام اللہ ایم اے، ص:۱۸۹، افکارِ عالم، اسیرادروی، ج:۱،ص:۲۲۹۔
***




          یورپ میں فرانس کے بعد ہالینڈ میں بھی برقع پہننے پر پابندی کا اعلان کردیاگیا ہے۔ وزیراعظم میکسین کا کہنا ہے کہ برقع کے علاوہ عوامی جگہوں پر ہیلمٹ پہننے پر بھی بندش ہوگی۔ ہالینڈ کی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سال سے برقع، نقاب یا حجاب اورایسے ملبوسات جن سے چہرہ نظر نہ آئے، کے پہننے پر مکمل پابندی ہوگی۔ ہالینڈ کے وزیراعظم میکسین نے ایمسٹرڈم میں میڈیا کو بتایا کہ یہ پابندی صرف برقع یا دیگر اسلامی ملبوسات پر نہیں؛ بلکہ یہ پابندی چہرہ چھپانے والی ہر چیز پر ہوگی۔ اس سے پہلے فرانس برقع اور حجاب پر پابندی عائد کرچکا ہے اور اب ہالینڈ دوسرا ملک ہوگا، جو برقع یا نقاب پر پابندی عائد کرے گا۔ واضح رہے کہ ہالینڈ کی سترہ ملین کی آبادی میں سے ایک ملین آبادی مسلمانوں کی ہے۔
          فرانس کے ایوان زیریں نے جولائی ۲۰۱۰ء میں حجاب پر پابندی کے بل کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اپریل ۲۰۱۱ء کے دوران پارلیمان کے منظور کردہ قانون کے تحت مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ یاد رہے کہ فرانس نقاب پر پابندی لگانے والا یورپی یونین کا پہلا رکن ملک ہے؛ چناں چہ اب فرانس میں عوامی مقامات پر، چہرے پر نقاب اوڑھنے والی کسی بھی مسلم خاتون کو مالی جرمانے اور قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرانس کے پارلیمانی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تیار کردہ اس قانون کے تحت، ملک کے تمام اسکولوں، ہسپتالوں، سرکاری ٹرانسپورٹ اور سرکاری دفاتر میں مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پر پابندی عاید ہے۔ اور ان مقامات پر حجاب اوڑھ کر آنے والی خواتین کو ۱۵۰ یوروتک جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ نیز جو مرد حضرات اپنی بیویوں، بیٹیوں یا بہنوں کو حجاب اوڑھنے پر مجبور کریں یا جو علماء اس کی تبلیغ کریں، انھیں تیس ہزار یوروتک جرمانے اور ایک سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹی رہ رہی ہے۔ اور وہاں مقامی اور غیرملکی تارکین وطن سمیت مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔
          فرانس کی مسلم کمیونٹی اور حکومت کے درمیان جہاں پہلے ہی کشیدگی پائی جارہی تھی، وہاں اس متنازعہ قانون پر عمل درآمد نے حالات کو مزید کشیدہ بنادیا ہے۔ مسلم کمیونٹی کے نمائندے، صدر نکولاسارکوزی کی حکومت پر مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کا الزام عائد کررہے ہیں، جس وقت مذکورہ قانون پاس کیاگیا تھا، تو مخالفین کا کہنا تھا کہ اس پر عمل درآمد مشکل ہوگا اور فرانس کی اعلیٰ انتظامی عدالت اسے غیرآئینی قرار دے سکتی ہے؛ لیکن تاحال اس عدالت نے اس قانون کو غیرآئینی قرار نہیں دیا ہے۔ فرانسیسی مسلمانوں کے مطابق اس قانون کے نفاذ سے فرانس میں دوسرے بڑے مذہب کے پیروکاروں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ملک میں اسلاموفوبیا کے خطرات اور زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانوں اور ان کی مساجد کو مسلسل نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ سال گذشتہ فرانس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیلجئیم اور آسٹریلیا نے بھی مسلم خواتین کے لیے نقاب اوڑھنے پر پابندی عادی کردی تھی۔
          یورپ میں برقع وحجاب پر اگرچہ پابندی لگادی گئی ہے؛ مگر وہاں کے دانش وروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے، اس قانون کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، اس حوالے سے یورپ کی انسانی حقوق کونسل کے کمشنرتھامس حماربرگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اس طرح کے اقدامات سے خواتین کو آزادی دینے کی بجاے انھیں معاشرتی زندگی سے ہی نکال باہر کیا جارہا ہے۔ درحقیقت برقع پر پابندی، یورپ کے انسانی حقوق کے معیارات اور خاص طور پر کسی کی نجی زندگی اور ذاتی شناخت کے احترام کے منافی ہے۔ جس طریقے سے مسلم خواتین کے لباس کے معاملے کو اچھالا جارہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے بحث اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔“
          حیران کن امر یہ ہے کہ جس معاشرے میں پردے کو معاشرتی تعلقات میں رکاوٹ قرار دے کر ہدف تنقید بنایا جارہا ہے، وہاں کی خواتین میں اسلام اورحجاب کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ کئی غیرمسلم خواتین اسلامی طرز لباس اپناکر اپنے تجربات بیان کررہی ہیں اور وہ خود کو اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور پارہی ہیں کہ واقعی حجاب وپردہ دراصل عورت کی عزت کا محافظ ہے۔ ”ناومی والف“ امریکا کی ایک عیسائی خاتون ہیں۔ خواتین کی آزادی اور سوسائٹی میں ان کی عزت واحترام کے قیام کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں دوکتابیں بھی لکھی ہیں۔ مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں خواتین کی حیثیت کا مطالعہ ومشاہدہ ان کا خاص شغف ہے۔ حجاب کے حوالے سے ایک مسلم ملک میں مسلم لباس کا تجربہ، انھوں نے یہ دیکھنے کے لیے کیا تھا کہ اس لباس میں عورت خود کیا محسوس کرتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ”میں ، مراکش میں اپنی قیام گاہ سے جب بازار جانے کے لیے نکلی تو شلوار قمیص میں ملبوس تھی اور سراسکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ مراکش کی مسلم خواتین میں اسکارف عام ہے۔ ہر جگہ ان کا احترام کیاجاتاہے؛ لیکن وہ چوں کہ غیرملکی خاتون تھیں؛ لہٰذا تجسس اور حیرت بھری کچھ نظریں ان کی طرف ضرور اٹھ رہی تھیں؛ لیکن تجسس کی چند نگاہوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں بالکل آرام سے تھی، کسی بات کی فکر نہیں تھی، میں ہرلحاظ سے خود کو محفوظ؛ بلکہ ایک طرح سے آزاد محسوس کررہی تھی۔“
          ”مسلم خواتین، پردہ اور جنس“ کے موضوع پر اپنے آرٹیکل میں ناومی والف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ: مسلم اقدار کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں، پردے کا مطلب عورت کو دباکر رکھنا ہرگز نہیں ہے؛ بلکہ یہ ”پبلک بمقابلہ پرائیویٹ“ کا معاملہ ہے۔ مغرب نے عورت کو آزاد چھوڑ کر ایک طرح سے جنسِ بازار بناکر رکھ دیا ہے، جب کہ اسلام عورت کے حسن اور اس کی جنس کو صرف اُسی مرد کے لیے مخصوص کردیتا ہے، جس کے ساتھ مذہب کے رسوم ورواج کے مطابق، اس کا زندگی بھر ساتھ رہنا طے پاجائے۔
          کچھ عرصے پہلے امریکا ہی کی ایک ہسپانوی النسل نومسلمہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا، گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری، ایک کرب انگیز اور مشکل عمل تھا۔ پھر جب میں کسی اسٹور، ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں، جاتی تھی تو خود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی، میں بظاہر آزاد وخود مختار ہوتی تھی؛ لیکن فی لحقیقت دوسروں کی پسند وناپسند کی قیدی ہوتی تھی، پھر یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اور عمر ہے، لوگ میری طرف متوجہ ہیں، عمر ڈھل جانے کے بعد خود کو قابل توجہ بنانے کے لیے مجھے اور زیادہ محنت کرنی پڑے گی؛ لیکن اب اسلامی پردے نے ان الجھنوں سے مجھے یکسر بے فکر وآزاد کردیا ہے۔“
          حال ہی میں معروف ہالی ووڈ اداکار لیام نیسن نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انسٹھ سالہ اداکار عیسائیت میں کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، غیرملکی اخبار کے مطابق لیام نیسن کا کہنا تھا کہ ترکی میں فلم کی عکس بندی کے دوران، وہ اسلامی عبادات سے بہت متاثر ہوئے ہیں، جس سے انھیں روحانی سکون محسوس ہوا، ان کا مزید کہنا تھا کہ مساجد بہت خوبصورت ہیں اور پانچ وقت نماز کی ادائیگی سے انسان مزید اسلام کے قریب ہوجاتاہے۔
          مغرب اس وقت اپنی بے حیا تہذیب اور مادرپدر آزاد ثقافت کی بدولت ہلاکت وبربادی کی کس دلدل میں گرچکا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اس خبر کا حوالہ دینا ہی کافی ہوگا، جس میں بتایاگیا ہے کہ پانچ کروڑ امریکی مختلف اقسام کے دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک امریکی ذہنی مریض بن چکا ہے، مردوں کی نسبت خواتین زیادہ پیچیدہ دماغی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ۲۳ فی صد خواتین کے مقابلے میں16.8فی صد مرد اس عارضے کا شکار پائے گئے؛ جب کہ ۵۰ برس سے زائد عمر کے افراد کی بہ نسبت ۱۸ سے ۲۵ برس کی عمر کے نوجوانوں میں یہ بیماری دُگنی شرح میں موجود ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک کروڑ ۱۴ لاکھ امریکیوں میں دماغی عارضہ شدید نوعیت کا پایاگیا ہے؛ جب کہ ۱۲ سے ۱۷ برس کے ۱۹ لاکھ نوعمر امریکی ڈپریشن کا شکار بھی پائے گئے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ امریکا بھر میں۱۲ برس سے زائد عمر کے ۶ لاکھ ۷۵ ہزار افراد پر سروے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔
          طاغوتی قوتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اسلام مخالف اقدامات، دراصل مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں ہیں؛ کیوں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، جس طرح مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس نے صہیونی آلہٴ کاروں کی نیندیں اڑادی ہیں، صرف امریکا میں سالانہ ۲۰ ہزار افراد دائرئہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اب تک جس تہذیب وتمدن کو مادہ پرستی اور خدا بیزاری کے لباس میں پیش کیا جاتا رہا ہے، آج وہ دیمک زدہ لکڑی کی تصویر پیش کررہی ہے۔ کل تک جس کلچر اور ثقافت کو مثالی کہا جاتا تھا، آج اسی کے دل دادہ اس سے اعلانِ برأت کررہے ہیں، مغرب میں اسلام کی روز بہ روز بڑھتی مقبولیت، اسلام کی حقانیت اور پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وصلم کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہی کہی جاسکتی ہے۔
***




رواجِ بے حجابی خوشنما کانٹوں کی مالا ہے


                یوں تو عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مختلف النوع تابڑتوڑ حملے ہورہے ہیں؛ چنانچہ کبھی انھیں بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، کبھی قدامت پرستی کی پھبتیاں کسی جاتی ہیں، کبھی دہشت گردی کی تہمت سے نوازا جاتا ہے، کبھی قرآنِ مقدس کی آیاتِ قتال کے اخراج کی بات کی جاتی ہے، کبھی اسلامی تعلیم گاہوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور نہ جانے کتنے اعتراضات واشکالات ہیں، جو مسلمانوں پر؛ بلکہ دراصل اسلام پر کیے جاتے ہیں۔
                اسلام کے خلاف شدومد کے ساتھ کیے جانے والے ان اعتراضات میں سے اک اہم، تعجب خیز؛ بلکہ ہر دلِ مسلم کے لیے دھماکہ خیز اعتراض وہ ہے جو حاقدین اسلام، اس کی حقانیت ظاہرہ اور اس کی روشن تعلیمات سے کورچشمی برتنے والے اہل مغرب اور ان کے پروردوں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے پیہم اچھالا جاتا ہے، وہ اعتراض اسلام کے مبنی بر مصالح حکمِ حجاب پر ہے، یہ حکم اپنے تمام تر وضوح، ثمر آور اور دور رس ومثبت نتائج رکھنے کے باوجود عقل کے دشمنوں کے گلے ہی نہیں اترتا؛ چنانچہ مغرب سے اس کے خلاف بڑی پرزور وپرشور آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، جن کی دھمک بلادِ عربیہ اور ایشیا تک میں نہ صرف محسوس کی جاتی ہے؛ بلکہ چند ایک متنور اور روشن خیال قسم کے لوگ ان کی سُر میں سُر ملانے کے لیے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں؛ بقصد اختصار ہم صرف گذشتہ دو سالوں کا عالمی منظرنامہ پیش کرتے ہیں، جس سے اس مسئلے کی زبردست حساسیت واہمیت واشگاف ہوتی ہے۔
                فروری ۲۰۰۹/ کو فرانس کی ایک بڑی یونیورسٹی کی پچیس سالہ طالبہ ”صابرین تروجات“ کو اس کے پیش کردہ تحقیقی مقالے کے انعام کے طور پر دیے جانے والے اسکالرشپ کو اس وجہ سے روک لیاگیا کہ وہ طالبہ برقع میں تھی، اسی سال جون کے مہینے میں اسلامی ملک بلجیم کی صوبائی اسمبلی کی ممبر ”ماہ نور“ کے باحجاب پارلیمنٹ جانے کی وجہ سے دائیں بازو کے ایک ممبر نے کورٹ میں اس کے خلاف جمہوریت کی پامالی کا مقدمہ دائر کردیا، اسی سال کی پہلی جولائی کو جرمنی کے شہر ”ڈریسڈن“ کے ایک کورٹ (یعنی عدل گاہ اور انصاف کے مسکن) میں بیس سالہ خاتون ”مروہ شربینی“ پر چاقو سے بہیمانہ حملہ کیاگیا جو بالآخر جان لیواثابت ہوا اور جولائی ہی کی سات کو جب کہ ”مروہ شربینی“ کا خونِ ناحق ابھی تازہ ہی تھا کہ ایک فرنچ مسلم خاتون کو اس کے ٹیلرنگ ورکشاپ سے نکال دیاگیا، سبب اس کا بھی حجاب ہی تھا۔
                اسی طرح ۲۰۱۰/ میں بھی فرانس کے صدر ”سرکوزی“ کے زہرناک بیانات کا تسلسل رہا؛ بلکہ حجاب پر پابندی کو سرکاری قانون بنانے کی بھی کوشش کی گئی، بعض اسلامی ملکوں سے بھی مسئلہ حجاب کے حوالے سے غیرذمہ دارانہ رویہ کا اظہار کیاگیا، ایشیاء کے ایک بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں بھی شاہانِ مغرب کی ہاں میں ہاں ملانے کا افسوس ناک منظر دیکھنے کو ملا؛ چنانچہ ایک نام نہاد مسلم خاتون، میدان سیاست کی سرگرم کارکن اور سابق فلمی ایکٹرس کی طرف اسلامی پردے کو غیرضروری اور بے فائدہ بتلایاگیا، کاغذی شیر، پیرنابالغ اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے کسی بھی موقع کی ٹوہ میں لگے رہنے والے شیوسینک لیڈر ”بالا صاحب ٹھاکرے“ نے بھی برقع پر پابندی کا مطالبہ کیا؛ اس لیے کہ ہندوستان کی صنعتی راجدھانی ”ممبئی“ کے اژدحامی علاقے ”اندھیری“ سے کسی نقاب پوش نے ایک بچے کا اغوا کرلیا تھا اور چلتے چلتے سال کے اخیر میں یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ اس سال عالمی نقشے پر اپنی جرأت وبیباکی کی چھاپ چھوڑنے اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی وجہ سے عالمی میڈیا کی سرخیوں میں رہنے والے اسلامی ملک ”ترکی“ کی استنبول یونیورسٹی کے کلیة الطب کی ایک طالبہ کو اس کے استاذ نے نقاب پوش ہونے کی وجہ سے لیکچر روم سے نکال دیا اور اس طالبہ کے مجلس تعلیمی سے شکایت کرنے کے بعد یونیورسٹی کو طالبہ کے (خواہ نقاب پوش ہو) محاضرے میں شرکت کی مطلق اجازت کا قانون نافذ کرنا پڑا، اس استاذ اور اس کے ہم نواؤں کا کہنا تھا کہ نقاب لگاکر کلاس میں آنا، جمہوری آئین کی خلاف ورزی ہے اور ترکی آئین اس کی اجازت نہیں دیتا؛ جبکہ مجلس تعلیمی کی طرف سے کہا گیا کہ ترکی کے دستور میں یہ بھی ہے کہ کسی بھی شخص کو حصولِ تعلیم کے حق سے باز نہیں رکھا جاسکتا اور بالآخر بات مجلس ہی کی معتبر رہی۔
                اسلامی مفکرین دانشوران اور امت کے احوال کے تئیں واقعیت پسندی سے کام لینے والے ہر شخص کے دل میں ان سوالات کا کھٹکنا بالکل یقینی اور بدیہی ہے کہ آخر اسلامی پردے کے تئیں اس تنگ نظری کی کیا وجہ ہے؟ اور پردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب چلن ہے اور سب سے اہم یہ کہ اعداء اسلام کی ان ریشہ دوانیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اسلامی معاشرے ہی سے جنم لینے والے چند ایک مذہب بیزار ذہنیت رکھنے والوں کی طرف سے ”چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھرکی“ کی صدائے مسلسل کیوں آرہی ہے؟۔
                حکم حجاب پر چھینٹا کشی کرنے اور اس کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ نام نہاد جمہوریت کی پامالی کو بتایا جاتا ہے؛ حالانکہ دیگر مذاہب کی ماننے والی خواتین بھی اپنا مذہبی لباس پہنتی ہیں اور کسی بھی پبلک مقام یا تعلیم گاہ میں آنے کی ان کو کھلی اجازت ہوتی ہے۔
                آخر جمہوریت کی بحالی کے لیے یہ دوہرے پیمانے کیوں؟ ایک طرف تو اسلامی پردے پر روک لگائی جائے اور دوسری طرف دیگر افراد کے لیے کوئی قید نہ ہو۔
                بات دراصل یہ ہے کہ ان کے دعوے کے پیچھے ان کی بدنیتی پوشیدہ ہے، حکمِ حجاب پر پابندی کا مطالبہ اس لیے نہیں کرتے جو وہ ظاہر کرتے ہیں؛ بلکہ ان کے اس پروپیگنڈے کے پس پردہ اسلام کی بڑھتی ہوئی حیرت انگیز طور پر مقبولیت، اس کی بے پناہ کشش اور تعجب خیز حد تک حقیقت بیں افراد کے اسلام کے حظیرئہ قدس میں پناہ لینے کے غیرمنتہی تسلسل کو منقطع کرنے کی گھناؤنی سازشیں سرگرم عمل نظر آتی ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی قدرتی مقناطیسیت ہر فردِ باشعور کو اپنی طرف حیرت ناک حد تک کھینچے جارہی ہے، ہر سال اسلامی تعلیمات کی شفافیت سے متاثر ہوکر بے شمار افراد قبول اسلام سے مشرف ہورہے ہیں، اسی طرح اسلام کے حکمِ حجاب سے متاثر ہوکر ان گنت خواتین اسلام کی طرف جھک رہی ہیں؛ بلکہ چند ایک نومسلم خواتین کے یہ تاثرات دشمنانِ اسلام کے دماغ کی چولیں ہلائے دے رہے ہیں کہ وہ حجاب اپناکر اپنے آپ کو انتہائی محفوظ محسوس کررہی ہیں، حجاب اور باحجاب خواتین کو تشددِ بے جا کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے۔
                ایے نازک ترین اور تشویشناک صورتِ حال میں اسلامی سوسائٹی کا یہ فریضہ ہے کہ اسلام کی بیٹیوں کو ان کی اصلیت سمجھائے، اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائے، انھیں بتائے کہ اسلام نے حجاب کا حکم دے کر تم پر ظلم نہیں کیاہے؛ بلکہ تمہاری عصمت وعفت کی حفاظت کا ایک اچھا انتظام کیا ہے۔ ان کے ذہن ودماغ میں یہ تصور بٹھادے کہ اگر حالات کے تھپیڑے اور حوادث دہر کی بے دردیاں کہیں تمہیں تلاش معاشِ میں بیرونِ خانہ نکلنے پر مجبور کردیں تو بھی تم اپنی ناموس کے تحفظ کی خاطر حجاب سے ہرگز باہر نہ آنا، انہیں یہ بھی ذہن نشین کرادیا جائے کہ اگر تم کسی بڑی دانش گاہ کی طالبہ ہوتو بھی پردہ نشینی سے دامن نہ جھٹک دینا، ان کے دلوں میں یہ حقیقت نقش کالحجر کردی جائے کہ تمہارے لیے شفقتِ مادریت، محبت خواہریت اور شوہر کے ساتھ اطاعت شعاری ووفاکیشی ایک عظیم شرف ہے نہ کہ بوجھ اور تکلیف کا سامان، انہیں اسلام کی روشن تعلیمات کے ذریعہ یہ باور کرادیا جائے کہ اسلام نے؛ بلکہ اسلام ہی نے تمہارے تمام حقوق کو کما حقہ ادا کیا ہے، انہیں یقین دلایا جائے کہ اسلام نے ماں ہونے کی صورت میں تمہارے قدموں تلے جنت رکھا ہے، بہن ہونے کی صورت میں بھائیوں کے بے مثال لاڈ وپیار سے نوازا ہے اور بیوی ہونے کی صورت میں تمہیں گھر کی ملکہ بنایا ہے، انہیں یاد دلایا جائے کہ اسلامی تاریخ میں صدیق وفاروق، عثمان وعلی، خالد وابن الوقاص وابن زیادوابن قاسم، ایوبی وزنگی، بوحنیفہ ومالک، جنید وشبلی اور ان جیسے ہزاروں جواہر ریزے تمہاری دَین ہیں؛ لہٰذا وقت کے تند وتیز جھکڑ تمہارے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ پیدا کرنے پائیں اور تمہاری ناموس و وقار کے لٹیروں کی سازشیں ہرگز ہرگز تمہیں اپنے دین سے سرگشتہ نہ کرنے پائیں۔
                اسی طرح مسلم معاشرے کے تنور پسند اور تہذیب جدید کو خوش آمدید و آفریں کہنے والوں کی غیرت وحمیت پر تازیانے برسائے جائیں، ان سے پوچھا جائے کہ کیا تم اتنے دیوث ہوگئے کہ سرِعام اپنی عزت وناموس کو بیچنے کے لیے تیار ہو؟ کیا تم چاہتے ہو کہ مغرب کی عریانیت وفحاشی اسلام کے حصن حصین میں درآئے؟ کیا تم پسند کروگے کہ تمہاری بیٹیاں سرِبازار اپنے حسن کی نمائش کریں، نائٹ کلبوں، رقص گاہوں اور تھیٹروں میں عریاں ونیم عریاں ہوکر شہوت رانی وہوس پرستی کے خوگروں کے لیے اپنی موسیقی سے لذت گوش، اپنے رقص وناز وادا سے لذت نظر اور اپنے صنفی کمالات (اور درحقیقت حیوانیت) کے ذریعہ لذت جسم بن جائیں؟۔
                ان مائل بہ آوارگی ذہنوں اور مذہب ومذہبیات کے پالے سے اپنے کندھے کو جلد از جلد ہلکا کرنے کو بے تاب افراد کے سامنے تاریخ کی روداد ورق دروق کھول کر رکھ دی جائے، انہیں بتایا جائے کہ تہذیبِ یونان کے آفتابِ نیم روز کے گہنانے کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اہل یونان خدا کی دی ہوئی بے پناہ دولت، سیم وزر کے ذخائر اور وسائل معیشت کی بے پناہ فراوانی کا صحیح اور موزوں طریقہ پر استعمال کرنے کی بجائے عیش وعشرت کے دل دادہ ہوگئے تھے، حسن وعشق کے درمیان پردہ نام کی کوئی چیز نہ تھی، شہوت رانی جنون کی حد تک ان کے دل ودماغ پر چھاچکی تھی بالآخر شورش شباب وکباب اور فتنہٴ خم وساغر نے ان کا قصہ ہی پاک کرڈالا اور تاریخ میں وہ فقط افسانہٴ عبرت بن کر رہ گئے، پھر روم کی بلند اقبالی کا دورِ ہمایوں آیا، ان کی تہذیب کا بھی خوب چرچا رہا، دنیا کے خطے خطے اور گوشے گوشے میں ان کی عظمت کی دھوم مچ رہی تھی؛ مگر انھوں نے بھی وہی غلطی کی کہ کہاں تو عصمت وعفت کو ایک قیمتی شئی سمجھا جاتا تھا اور اسی کو معیار شرافت گردانا جاتا تھا، اخلاق کا معیار کافی بلند تھا؛ مگر اچانک اخلاقیات کے سارے بند ٹوٹ پڑے اور روم میں شہوانیت، عریانیت اور فواحش کا سیلاب بلاخیز پھوٹ پڑا تھیٹروں میں بے حیائی کے کھلم کھلا مظاہرے ہونے لگے، ننگی اور فحش تصویریں ہرگھر کی زینت کے لیے ضروری ہوگئیں، قحبہ گری کے کاروبار کو اتنا فروغ حاصل ہوا کہ قیصر ٹائبریس (۱۴ م تا ۳۷ م) کو معزز خاندانوں کی عورتوں کو پیشہ ور طوائف بننے سے روکنے کے لیے مستقل قانون پاس کرنا پڑا، رومی لٹریچر میں فحش اور عریاں مضامین بے تکلف پڑھے جاتے تھے؛ بلکہ وہی ادب مقبول عام ہوتا تھا جس میں استعارے کنائے کا بھی کوئی گذر نہ ہو، بہیمی خواہشات سے اس قدر مغلوب ہوجانے کے بعد تہذیبِ روم کا قصرِ عظمت ایسا پیوندِ خاک ہوا کہ پھر اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ قائم نہ رہ سکی۔
                مسلم معاشرہ کے عقل باختہ اور فریب خوردہ افراد کو مغربی تہذیب اور اس کے لائے ہوئے گناہوں کے سیلاب کے بارے میں کھول کھول کر بیان کیا جائے انہیں بتایا جائے کہ فرماں روایانِ مغرب کا نعرئہ مساواتِ مردوزن، ان کے معاشی استقلال کی صدائے بازگشت اور مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط کے اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں کیا ہے، وہ دراصل بھانپ چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے دین، ان کے نبی ﷺ اور ان کے قرآن سے برگشتہ کرنے کے لیے ظلم وعدوان کی ہر تدبیر ناکارہ ہوتی جارہی ہے، لالچ اور حرص وطمع دے کر بھی ہم انھیں شیشے میں نہ اتارسکے؛ اس لیے انھوں نے ایسے پرفریب نعرے دیے کہ بہ ظاہر ہرسننے والا اس کو اپنے دل کی آواز سمجھ بیٹھے اور باور کرلے کہ واقعتا عورت کی صنف اب تک دبی کچلی تھی اور تہذیبِ غرب کے علمبرداروں کی ان کے حقوق کی بازیابی کی کوششوں کو سراہنا چاہیے؛ بلکہ ان کے قدم سے قدم ملاکر تعاون باہمی کا مکمل ثبوت دینا چاہیے؛ حالانکہ مغرب کی پالیسی وہ بالکل نہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں؛ بلکہ وہ فطرت کے مقیاس بدل دینے کے خواہاں ہیں، مساوات کے نام پر عورتوں کو ان کی سکت سے زیادہ مکلف بنانے کی خطرناک سازش ہے اور سب سے زیادہ ان کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان عورتوں پر نشانہ سادھا جائے، ان کے نقاب کو الٹ دیا جائے اور ان کو کوچہ وبازار، رقص گاہ، سرکاری دفاتر اور ہر پبلک مقام پر کھینچ کر لایا جائے اور عورت ومرد کے آزادانہ اختلاط کا اندوہ ناک نتیجہ یہ ہے کہ عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فواحش کو غیرمعمولی ترقی ملی ہے، صنفی میلان جو پہلے ہی سے مردوعورت کے درمیان موجود ہے طاقت ور ہوتا جارہا ہے، پھر اس قسم کے صنفی اختلاط کی سوسائٹی میں دونوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ ابھرآتا ہے کہ صنف مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنیں اور جبکہ اخلاقی نظریات کی رو سے ایسا کرنا باعث ننگ وعار بھی نہ ہو؛ بلکہ شان دلربائی کو مستحسن سمجھ لیا گیا ہو تو حسن وجمال کی نمائش اپنی تمام حدوں کو توڑتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ برہنگی کی آخری حد تک پہنچ کر ہی دم لیتی ہے یہی کیفیت اس وقت مغربی تہذیب میں پیدا ہوچکی ہے صنف مقابل کے لیے مقناطیس بننے کی خواہش عورت میں اتنی بڑھ گئی ہے (اور کسی لمحہ رکنے کا نام نہیں لیتی) کہ شوخ وشنگ لباسوں، غازوں کی تہوں، سرخیوں اور بناؤسنگار کے نت نئے سامانوں کے استعمال کے باوجود اس کی شہوت نمائش حسن کو قطعی تسکین نہیں ملتی؛ چنانچہ وہ تنگ آکر کپڑوں سے باہر نکل پڑتی ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات بدن پر تارتک نہیں رہنے دیتی، ادھر مردوں کی طرف سے ”ہل من مزید“ کی مسلسل صدا ہے؛ کیوں کہ جذبات میں جو آگ لگی ہے وہ بے حجابی کے ہر منظر پر سرد نہیں ہوتی؛ بلکہ اس میں اور شعلگی آجاتی ہے اور مزید بے حجابی کا مطالبہ کرتی ہے ان غریبوں کی پیاس بڑھتے بڑھتے، ایسی حالت ہوچکی ہے، جیسے کسی کو استسقاء کا مرض ہو اور پانی کے ہر گھونٹ کے حلق سے نیچے اترنے پر اس کی پیاس مزید بڑھتی جاتی ہو، حد سے بڑھی ہوئی شہوانیت کی تسکین کے لیے وہ ہرممکن طریقہ استعمال کرتے ہیں؛ چنانچہ یہ ننگی تصویریں، یہ فحش لٹریچرس، یہ عشق ومحبت کے افسانے یہ عریاں اور جڑواں ناچ کے حیا سوز مناظر اور یہ جذبات شہوانی سے بھری ہوئی فلمیں آخر کیا ہیں؟ سب اسی آگ کو بجھانے (اور دراصل بھڑکانے) کے سامان ہیں، جو اس غلط معاشرت نے سینوں میں لگارکھی ہے، اور اس بے حیائی وعریانیت کا نام انھوں نے آرٹ، ثقافت اور فنون لطیفہ رکھا ہے۔
                مغرب کی اس فحاشیت سے خود اس معاشرے میں جنم لینے والی بیٹیاں تنگ آچکی ہیں، جو ان میں تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں، وہ اسلام کے غیرجانبدارانہ مطالعہ کے بعد بصد شوق ورغبت اسلام کی آغوش میں پناہ گزیں ہورہی ہیں، اور ایسی خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، مغرب کی تہذیب کی بنیادوں کو گھن لگ چکا ہے اور اس کی عظمت وسطوت کا بلند وبالا محل زمین دوزہوا ہی چاہتا ہے۔
                اب ایک بار پھر ان مغرب زدہ مشرقیوں سے پوچھا جائے کہ کیا تم اسی تہذیب کے حامی بننا چاہتے ہو جس کے دن گنے جاچکے ہیں؟ جس کی گود میں پلنے والے افراد ہی اس سے دامن چھڑانے کو بے تاب ہیں، جس کی دَین کہ انسان جسے اللہ نے مکرم بنایا تھا وہ ذلت ورسوائی کی تمام حدوں سے گذرچکا ہے۔ تہذیب جدید کے ان ہلاکت خیز نتائج کے سامنے آجانے کے باوجود اگر تمہیں عقل نہ آئی، تم نے اپنے خاندان اور معاشرے میں اسلامی حجاب کو رواجِ عام نہ دیا، تو اس دن کے لیے تیار رہنا، جب تمہاری ”فراخ دلی“ کشادہ ظرفی“ اور ”مارڈنیسٹ“ بننے کے شوقِ بے پناہ کی بھینٹ خود تمہاری بیٹی چڑھ جائے اور تمہیں اس نیلگوں آسمان کے نیچے اور اس روئے زمین پر ذلت ورسوائی کے سیاہ ترین دھبے کو دھونے کے لیے کوئی جگہ میسر نہ ہو، وَلاَ رَادَّ لِقَضَائہ

$           $           $




اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی ...




          ایك ہفتہ قبل كی بات ہے، میں حسبِ معمول دن كے صبح ۹/بجے اپنے آفس میں بیٹھا تھا، قلم  كے بجائے لیپ ٹاپ كا كی بورڈ میرے سامنے تھا اور میں اس پر كوئی دینی مضمون لكھنے كا ارادہ كررہا تھا كہ ایك صاحب بڑے طمطراق كے ساتھ وارد ہوئے، ان كے ساتھ ان كے دو خادم بھی تھے، یہ ترہٹ كے علاقہ كے كسی رئیس گھرانے كے شاہزادے تھے، اور دولت تو جو بچی تھی بچی تھی، مگر دورِ زوال میں بھی ان كے رہن سہن، وضع قطع اور انداز وگفتار میں پرانے دور كی كھنك موجود تھی، ان كی خوبی كی بات ہے كہ جب كبھی ادھر كا دورہ ہوتا، وہ اس فقیر كو بھی شرفیاب كرنا نہ بھولتے، اور ہم بھی وضع داری نبھانے میں كوئی كسر نہیں اٹھا ركھتے، وقت میرے كام كا تھا، اور بہت ہی قیمتی مضمون لكھنے جارہا تھا، ان كا آنا تھوڑی دیر كے لیے ناگوار سا گذرا، معنی ومضمون كسی شرمیلی دوشیزہ سے كم نہیں ہوتے، ان كی آمد تھم سی گئی،..... لیكن اس ناگواری كے باوجود ہم نے اپنی فقیرانہ وضع داری نبھانے میں كوئی كمی نہیں كی....
          خبرخیرت كے بعد، دورانِ گفتگو انھوں نے بتایا كہ میرے گھر میں ایك خاتون برسوں سے كام كرتی تھی، بہت شریف، محنتی اور ایمان دار تھی، ایك دن اچانك وہ كام پر نہیں آئی، گھر میں سب كو حیرت ہوئی، كہ اتنی وفادار ملازمہ نے ایسا كیوں كیا؟ اس كو بلوانے كے لیے آدمی بھیجا گیا، مگر وہ نہیں آئی، تین چار دن كے بعد ایك دن وہ خود آئی، مگر آج وہ كام كے لباس میں نہیں تھی، بلكہ خیرسگالی ملاقات كے انداز میں آئی تھی، دریافت كرنے پرمعلوم ہوا كہ اس كا بیٹا دلی میں كام كرنے لگا ہے، اس نے فون پر گھر والوں سے كہا كہ اب میں كام كرنے لگا ہوں، گھر كے اخراجات كے لیے میں محنت كروں گا اب میری ماں  كو اور میری بہن كو (وہ ایك دوسرے شخص كے یہاں كام كرتی تھی) كام پر جانے كی ضرورت نہیں ہے،.... گھر كی عورتوں كا باہر نكلنا اچھا نہیں ہے.... پیسہ ہی سب كچھ نہیں ہے، عزت سے بڑھ كر كچھ نہیں... عورت نے كہا، اب میں مجبور ہوں، آپ لوگوں كا بہت نمك كھایا ہے، بہت احسان ہے آپ حضرات كا، آرے وقت میں آپ لوگوں نے سہارا دیا، میں شكرایہ ادا كرنے اور كہا سنا معاف كرانے آئی ہوں... یہ كہہ كر اس كی آنكھیں نم ہوگئیں، وہ تھوڑی دیر بیٹھی اور سلام كركے رخصت ہوگئی...
          یہ ہے اس غریب گھر كی عورت، جس كے پاس نہ تعلیمی لیاقت ہے اور نہ كوئی خاندانی پس منظر، جس نے انتہائی پس ماندہ ماحول میں پرورش پائی، جس كی دہنی تربیت پر كسی امیر یا گورنمنٹ كا ایك پیسہ خرچ نہیں ہوا، جس نے كوئی آئیڈیل معاشرہ نہیں دیكھا، جس نے كبھی ترقی پانے كا تصور بھی نہیں كیا، جس كو ہمیشہ دوسروں كے ذہن سے سوچنا  سكھلایا گیا، پشتوں سے جس كے ذہن میں بٹھایا گیا كہ وہ صرف خدمت كے لے اور لوگوں كے برتن صاف كرنے كے لیے پیدا كی گئی ہے، اس كا سوسائٹی میں كوئی مقام نہیں ہے، اس كو اور اس كی بہوبیٹیوں كو ہر ایك دیكھ سكتا ہے،... یہ ہے اس عورت كا كردار جس كے پاس كچھ نہیں ہے،... لیكن ... اس كی نسوانیت اس كے پاس ہے،اس كے اندر كی عورت اس میں زندہ ہے، نسوانی غیرت وحمیت ابھی اس كی قائم ہے، ابھی اس كی فطرت مری نہیں ہے، بلكہ وہی فطرت اس كی معلم ہے، اسی فطرت نے اسے بتایا تم نے یا تمہاری بیٹی نے گھر سے باہر نكل كر اب تك جو بھی نوكری كی، وہ ایك مجبوری تھی، زندگی كو باقی ركھنے كے لیے تھی، بال بچوں كو بھوك كی آگ میں جلنے سے بچانے كے لیے تھی، یہ اس لیے تھی كہ ہمارے پاس اس كے سوا كوئی راستہ نہیں تھا، مجبور كے لیے بہت كچھ جائز ہوتا ہے جو عام آدمی كے لیے جائز نہیں ہوتا... برسوں بعد جب زندگی كی كشتی منجھدار سے نكلتی نظر آئی، پھر وہ وہی عورت ہوگئی جو خالقِ فطرت نے بنایا تھا، حالات كے ہزار ہچكولوں كے باوجود اس كا ضمیر زندہ تھا، غربت نے اس كا مقام چھین لیا تھا، ایمان نہیں چھینا تھا، فقر وافلاس نے اس كی حالت بدل ڈالی تھی، نسوانی غیرت نہیں،...
          وہ صاحب تو ایك عام سی بات كے طور یہ قصہ بیان كرگئے، مگر میں اپنے علاقے كی ان معزز ہستیوں كے بارے میں سوچنے لگا، جن كو اللہ پاك نے ہر طرح سے نواز ركھا ہے، جو ضرورت كے مطابق دولت وخوشحالی بھی ركھتے ہیں اور سوسائٹی میں اپنا مقام بھی، ان كی بہوبیٹیاں مخلوط اسكولوں اور كھلی تعلیم گاہوں میںنوكری كے لیے كیوں جاتی ہیں؟ ان كو كس چیز نے دفاتر كے چكر لگانے پرمجبور كیا ہے؟... یہ باعزت خواتین میری نگاہ میں اس غریب اور جاہل عورت سے بھی زیادہ كمتر نظر آنے لگیں، ان اونچے لوگوں كی سوسائٹی مجھے اس جھونپڑپٹی كی سوسائٹی سے بھی زیادہ پھوہڑ محسوس ہوئی، اس غریب نے زندگی كے اس راز كو پالیا تھا، جو ان دانشمندوں كی دسترس سے باہر ہے، ... اس ان پڑھ عورت كو كس نے بتایا كہ اس كی پچھلی زندگی ضرورت سے عبارت تھی، اب اس كے لیے ملازمت كی كوئی مجبوری باقی نہیں ہے،اس لیے محض تكمیل شوق یا معیار زندگی بلند كرنے كی ہوس میں عورت كا گھركی دہلیز سے باہر نكلنا صحیح نہیں ہے؟... یہ اس كو اس كی فطرت نے بتایا جو ہر انسان كو پیدائشی طور پر ملتی ہے، كوئی اسے سلامت ركھتا ہے اور كوئی حرص وہوس كی بھینٹ چڑھاكر اس كو مسخ كردیتا ہے۔

عورت كے لیے اسلامی ہدایات

          اسلام نے عورت كی جگہ گھر كو قرار دیا ہے، اور گھر ہی ایسی جگہ ہے جہاںعورت اپنے كو پوری طرح محفوظ محسوس كرتی ہے، قرآن كریم میں ہے:
          وَقَرْنَ فِی بُیوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہلِیةِ الْاُوْلٰی (احزاب:۳۳)
          ترجمہ: اپنے گھروں میں رہا كرو اور قدیم جاہلیت كی طرح اپنی نمائش نہ كرو۔
          اس آیت كریمہ نے اس عظیم حقیقت كی طرف اشارہ كیا ہے كہ عورت كے گھر سے باہر نكلنے كی بنیادی طور پر دو ہی وجہ ہوسكتی ہے، (۱) واقعی ضرورت (۲) نمائش كا جذبۂ جاہلیت۔ ضرورت نہ ہونے كی صورت میں عورت كا باہر نكلنا محض اس كے اس سفلی جذبہ كا اظہار ہے جس كو قرآن نے تبرجِ جاہلیت سے تعبیر كیا ہے۔
          گھر كی چہاردیواری عورت كے لیے حصار ہے اور یہ دل ودماغ كی طہارت كی ضمانت بھی ہے، قرآن كریم میں ہے:
          إذَا سألتُمُوہنَّ مَتَاعاً فَاسْئَلُوہنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذٰلِكُم أطْہـَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوْبِہنَّ (احزاب:۵۳)
          ترجمہ: اور جب تم ان عورتوں سے كوئی چیز مانگو تو پردہ كے پیچھے سے مانگو اسی میں تمہارے اور ان كے دلوں كی طہارت ہے۔
          قرآن وحدیث كی بے شمار نصوص میں عورتوں كے لیے پردہ اور عصمت وعفت كی حفاظت پر زور دیاگیا ہے، ایك حدیث میں ہے كہ نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
          اَلْمَرْأةُ عَوْرَةٌ فَإذَا خَرَجَتْ إسْتَشْرَفَہا الشَّیطَانُ (ترمذی، كتاب النكاح ۱/۱۴۰)
          ترجمہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نكلتی ہے تو شیطان اس كو جھانكنے لگتا ہے۔
          حضرت جابرؓ كی روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
          إنَّ الْمَرْأةَ تُقْبِلُ فِی صُوْرَةِ شَیطَانٍ وَتُدُبِرُ فِی صُوْرَةِ شَیطَانٍ(رواہ مسلم، مشكوٰة المصابیح باب النظر الی المخطوبة ص ۳۴۰)
          ترجمہ: عورت شیطان كی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان كی صورت میں پیچھے جاتی ہے۔
          یعنی عورت كا گھر سے باہر نكلنا فتنہ سے خالی نہیں ہے۔
          دراصل اسلام نے عورت كومالی یا گھر سے باہر كی ذمہ داریوں سے آزاد ركھا ہے، اور یہ ساری ذمہ داریاں مردوں پر ڈال دی ہیں، شادی سے قبل ہو یا شادی كے بعد اس پر كسی طرح كا كوئی مالی بوجھ نہیں ہے، شادی كے بعد ہونے والے بچوں كی ذمہ داری بھی اس كے شوہر كے سر ہے؛ اسی لیے فقہاء نے لكھا ہے كہ اگر كوئی عورت كسبِ معاش كی غرض سے كسی كام سے وابستہ ہونا چاہتی ہے تو شوہر اس كو روكنے كا حق ركھتا ہے (رد المحتار ۵/۲۵۸)
          اس طرح  اسلام نے اس پر كوئی مالی اور خارجی بوجھ نہ ڈال كر ایك طرف ان كے نسوانی حسن كی حفاظت كی دوسری طرف سوسائٹی كو ایك بڑے فتنے سے محفوظ كردیا، سوسائٹی میں زیادہ تر فتنے مخلوط معاشرے كی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اسی لیے شریعت نے مردو عورت كے دائرے كو الگ كردیا ہے، آج ابلیسی نظام ان دونوں دائروں كو پھر ایك كرنا چاہتا ہے، یہ اسلامی معاشرے كی روح اور مزاج كے خلاف ہے۔

بہ وقتِ ضرورت عورت كی ملازمت

           كبھی ایسی صورت پیش آتی ہے كہ عورت كا كوئی كفیل موجود نہ ہو، بیوہ یا مطلقہ ہو، یااس كا شوہر مریض، اپاہج یا كمانے كے لائق نہ ہو،اس وقت آبرو مندانہ زندگی گذرانے كے لیے عورت كسبِ معاشر كے لیے مجبور ہوتی ہے اور اس كو اپنی ضرورت كے لیے گھر سے باہر نكلنے كی بھی نوبت آتی ہے، اس طرح كے مجبور كن حالات میں فقہاء نے كسبِ معاش كے لیے عورت كو گھر سے باہر نكلنے كی مشروط اجازت دی ہے:
          ٭ اس وقت تك جب تك كہ یہ حالات ختم نہ ہوجائیں۔
          ٭ مكمل شرعی پردہ كے ساتھ گھر سے باہر نكلے، جس میں اس كا چہرہ بھی نامحرموں كے سامنے مستور ہو، چہرہ اگرچہ كہ سترِ عورت كے دائرے میں داخل نہیں ہے، لیكن عورت كے لیے سب سے زیادہ باعثِ فتنہ یہی ہے،اس لیے سدِ باب كے لیے چہرہ كھولنا مكروہ تحریمی ہے بالخصوص جوان عورتوں كے لیے (ردالمحتار۹/۴۵۱)
          ٭ انتہائی سادہ اور معمولی لباس میں نكلے، جاذبِ نظر لباس یا كسی قسم كی زیب وزینت كا استعمال نہ كرے (فتح القدیر كتاب الطلاق ۴/۳۵۸)
          ٭ اگر سفر شرعی كی نوبت ہوتو كسی معتبر محرم مرد كی رفاقت ضروری ہے، عورت كی رفاقت كافی نہیں ہے؛ بلكہ سفر شرعی نہ بھی ہو تب بھی بغیر محرم كے نكلنا مكروہ ہے۔ (فتاوی عالمگیری ۵/۳۶۶)
          ٭ ڈیوٹی كے دوران جسم كا صرف وہ حصہ ظاہر ہو جس كے بغیر متعلقہ عمل كی تكمیل ممكن نہ ہو، اس كے علاوہ جسم كے دوسرے حصوں كی نمائش جائز نہیں ہے، مقامِ ملازمت پر پردہ كا معقول انتظام ہو؛ اس لیے ایسی جگہ ملازمت كرنا درست نہیں جہاں مرد وعورت مخلوط طور پر كام كرتے ہوں (ردالمحتار ۹/۴۵۰)
          ٭ عورت كی آواز بھی پردہ ہے اگر ملازمت اس قسم كی ہو، جس میں عورت كی آواز غیرمحرم مردوں تك پہونچتی ہوتو یہ بھی باعثِ فتنہ اور ناجائز ہے۔ (طحطاوی علی المراقی ۲۴۲، فتح القدیر كتاب الصلوٰة۱/۲۷۶)
          ٭ شوہر یا ولی كی اجازت كے بغیر نہ نكلے (فتح القدیر ۴/۳۵۸)
          ٭ كوئی دوسرا متبادل ذریعۂ معاش موجود نہ ہو،اگر اندرونِ خانہ كوئی ذریعۂ معاش میسر ہوتو باہر نكلنے كی اجازت نہ ہوگی؛ اس لیے كہ صنف نازك كا گھر سے باہر نكلنا فتنہ ہے اور اس كی اجازت محض برائے ضرورت ہے؛ اس لیے حدِ ضرورت سے زیادہ اس كی توسیع نہیں كی جاسكتی... محض معیارِ زندگی كو بلند كرنے یا وقت گذاری اور سرمایہ واثاثہ پیداكرنے كی غرض سے عورتوں كا معاشی دوڑ میں داخل ہونا، جب كہ گھر كی مالی حالت ایسی ہو كہ كسی نہ كسی طرح كام چل رہا ہو، اس كی اجازت شرعی اصول سے بالاتر ہے، یہ محض ہوس ہے جس كا كوئی علاج اس دنیا میںموجود نہیں ہے۔
          یہ ہے عورت كے لیے اس كے بنانے والے پروردگار كا مزاج، یہ ہے فطرت كی تعلیم، یہ ہے اسلام كی روح جس كو فقہاء نے پوری طرح منقح كركے پیش كردیا ہے، جس معاشرے میں عورت اومرد كے دائرے الگ نہ ہوں اس كو اخلاقی دیوالیہ پن سے كوئی نہیں روك سكتا، سارے فتنے عورت كو گھر سے باہر نكالنے سے جنم لیتے ہیں،اور تمام فتنے صرف اس عمل سے دب كر رہ جاتے ہیں كہ عورت كو گھر كی چہاردیواری میں مصروف كردیا جائے، ایك بہتر عورت بہتر معاشرے كو جنم دے سكتی ہے، عورت كسی بچہ كی پہلی تعلیم گاہ ہے، یہ انسانیت سازی كا اولین مركز ہے،اگر اسی كو گھر سے باہر نكال دیا جائے اور باہر كی دنیا میں الجھا دیا جائے، تو گھر كے اندر كی عظیم دنیا كو سنبھالنے والا كون ہوگا؟ ننھی انسانیت كی تعمیر كس كے رحم وكرم پر ہوگی؟ یہ عورت كے لیے قید وبند نہیں، دائرئہ كار كی تقسیم ہے،اور تقسیمِ كار كے اصول كے بغیر دنیا كا كوئی كام نہ پہلے چلا ہے اور نہ آج چل سكتا ہے۔
مكالماتِ فلاطوں نہ لكھ سكی لیكن  اسی كے شعلے سے نكلا شرارِ افلاطوں

٭٭٭



حجاب پر پابندی مغرب کی اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت
یورپ میں فرانس کے بعد ہالینڈ میں بھی برقع پہننے پر پابندی کا اعلان کردیاگیا ہے۔ وزیراعظم میکسین کا کہناہے کہ برقع کے علاوہ عوامی جگہوں پر ہیلمٹ پہننے پر بھی بندش ہوگی۔ہالینڈ کی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیاہے کہ آئندہ سال سے برقع، نقاب یا حجاب اور ایسے ملبوسات جن سے چہرہ نظر نہ آئے ،کے پہننے پر مکمل پابندی ہوگی۔ہالینڈ کے وزیراعظم میکسین نے ایمسٹرڈم میں میڈیا کو بتایا کہ یہ پابندی صرف برقع یا دیگر اسلامی ملبوسات پر نہیں ،بلکہ یہ پابندی چہرہ چھپانے والی ہر چیز پر ہوگی۔ اس سے پہلے فرانس برقع اور حجاب پر پابندی عائد کرچکا ہے اوراب ہالینڈ دوسرا ملک ہوگا، جو برقع یا نقاب پر پابندی عائد کرے گا۔واضح رہے کہ ہالینڈ کی سترہ ملین کی آبادی میں سے ایک ملین آبادی مسلمانوں کی ہے۔

فرانس کے ایوان زیریں نے جولائی2010ء میں حجاب پر پابندی کے بل کی منظوری دی تھی۔جس کے بعد اپریل2011ء کے دوران پارلیمان کے منظور کردہ قانون کے تحت مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پرپابندی عایدکردی گئی تھی۔یادرہے کہ فرانس نقاب پر پابندی لگانے والا یورپی یونین کا پہلا رکن ملک ہے۔چناں چہ اب فرانس میں عوامی مقامات پر، چہرے پر نقاب اوڑھنے والی کسی بھی مسلم خاتون کو مالی جرمانے اور قید کی سزا کاسامناکرناپڑتاہے۔ فرانس کے پارلیمانی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تیارکردہ اس قانون کے تحت، ملک کے تمام اسکولوں، ہسپتالوں، سرکاری ٹرانسپورٹ اورسرکاری دفاتر میں مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پرپابندی عایدہے۔ اور ان مقامات پر حجاب اوڑھ کر آنے والی خواتین کو 150یورو تک جرمانہ اداکرناپڑتاہے۔ نیزجو مرد حضرات اپنی بیویوں، بیٹیوں یا بہنوں کو حجاب اوڑھنے پرمجبور کریں یا جو علماء اس کی تبلیغ کریں ،انہیں تیس ہزار یورو تک جرمانے اور ایک سال قید کی سزادی جاتی ہے۔یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹی رہ رہی ہے اور وہاں مقامی اورغیر ملکی تارکین وطن سمیت مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔

فرانس کی مسلم کمیونٹی اور حکومت کے درمیان جہاں پہلے ہی کشیدگی پائی جارہی تھی ،وہاں اس متنازعہ قانون پر عمل درآمد نے حالات کومزیدکشیدہ بنادیاہے۔ مسلم کمیونٹی کے نمائندے ،صدر نکولا سارکوزی کی حکومت پر مسلمانوں سے امتیازی سلوک روارکھنے کاالزام عائدکررہے ہیں۔ جس وقت مذکورہ قانون پاس کیاگیاتھا، تومخالفین کا کہنا تھا کہ اس پرعمل درآمد مشکل ہوگا اورفرانس کی اعلیٰ انتظامی عدالت اسے غیرآئینی قراردے سکتی ہے۔ لیکن تاحال اس عدالت، نے اس قانون کو غیر آئینی قرار نہیں دیاہے۔فرانسیسی مسلمانوں کے مطابق اس قانون کے نفاذ سے فرانس میں دوسرے بڑے مذہب کے پیروکاروں کوشدید دھچکا لگاہے۔ملک میں اسلاموفوبیا کے خطرات اورزیادہ بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانوں اور ان کی مساجد کومسلسل نفرت کا نشانہ بنایاجارہاہے۔واضح رہے کہ سال گزشتہ فرانس کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بیلجیم اورآسٹریانے بھی مسلم خواتین کے لیے نقاب اوڑھنے پر پابندی عاید کردی تھی۔

یورپ میں برقع وحجاب پراگرچہ پابندی لگادی گئی ہے۔مگر وہاں کے دانش وروں اورانسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ،اس قانون کوکڑی تنقید کانشانہ بھی بنایاجارہاہے۔ اس حوالے سے یورپ کی انسانی حقوق کونسل کے کمشنر تھامس حماربرگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اس طرح کے اقدامات سے خواتین کو آزادی دینے کی بجائے انھیں معاشرتی زندگی سے ہی نکال باہر کیا جارہا ہے۔ درحقیقت برقع پر پابندی ،یورپ کے انسانی حقوق کے معیارات اورخاص طور پر کسی کی نجی زندگی اور ذاتی شناخت کے احترام کے منافی ہے۔ جس طریقے سے مسلم خواتین کے لباس کے معاملے کو اچھالا جا رہا ہے،اس سے نمٹنے کے لیے بحث اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔“

حیران کن امریہ ہے کہ جس معاشرے میں پردے کو معاشرتی تعلقات میں رکاوٹ قراردے کر ہدف تنقیدبنایاجارہاہے،وہاں کی خواتین میں اسلام اورحجاب کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔کئی غیرمسلم خواتین اسلامی طرزلباس اپناکر اپنے تجربات بیان کررہی ہیں اور وہ خودکواس حقیقت کے اعتراف پرمجبورپارہی ہیں کہ واقعی حجاب وپردہ دراصل عورت کی عزت کا محافظ ہے۔”ناومی والف “امریکا کی ایک عیسائی خاتون ہیں۔ خواتین کی آزادی اور سوسائٹی میں ان کی عزت واحترام کے قیام کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں خواتین کی حیثیت کا مطالعہ ومشاہدہ ان کا خاص شغف ہے۔ حجاب کے حوالے سے ایک مسلم ملک میں مسلم لباس کا تجربہ ،انھوں نے یہ دیکھنے کے لیے کیا تھا کہ اس لباس میں عورت خود کیا محسوس کرتی ہے ؟ان کاکہناتھاکہ” میں،مراکش میں اپنی قیام گاہ سے جب بازار جانے کے لیے نکلی تو شلوار قمیص میں ملبوس تھی اور سر اسکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ مراکش کی مسلم خواتین میں اسکارف عام ہے۔ ہرجگہ ان کااحترام کیاجاتا ہے۔ لیکن وہ چوں کہ غیر ملکی خاتون تھیں، لہٰذا تجسس اور حیرت بھری کچھ نظریں ان کی طرف ضرور اٹھ رہی تھیں۔ لیکن تجسس کی چند نگاہوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں بالکل آرام سے تھی۔ کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ میں ہر لحاظ سے خود کو محفوظ، بلکہ ایک طرح سے آزاد محسوس کر رہی تھی۔“

”مسلم خواتین، پردہ اور جنس“ کے موضوع پر اپنے آرٹیکل میں ناومی والف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ مسلم اقدار کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ پردے کا مطلب عورت کو دباکر رکھنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ ” پبلک بمقابلہ پرائیویٹ“ کا معاملہ ہے۔ مغرب نے عورت کو آزاد چھوڑ کر ایک طرح سے جنس بازار بناکر رکھ دیا ہے، جب کہ اسلام عورت کے حسن اور اس کی جنس کو صرف اْسی مرد کے لیے مخصوص کردیتا ہے، جس کے ساتھ مذہب کے رسوم ورواج کے مطابق ،اس کا زندگی بھر ساتھ رہنا طے پاجائے ۔

کچھ عرصے پہلے امریکا ہی کی ایک ہسپانوی النسل نومسلمہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتاتھا۔ گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری ،ایک کرب انگیز اور مشکل عمل تھا۔ پھر جب میں کسی اسٹور ، ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں، جاتی تھی تو خود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی۔ میں بظاہر آزاد و خود مختار ہوتی تھی، لیکن فی الحقیقت دوسروں کی پسندو ناپسند کی قیدی ہوتی تھی۔ پھر یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اور عمر ہے، لوگ میری طرف متوجہ ہیں۔عمر ڈھل جانے کے بعد خود کو قابل توجہ بنانے کے لیے مجھے اور زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ لیکن اب اسلامی پردے نے ان الجھنوں سے مجھے یکسر بے فکر و آزاد کردیا ہے“۔

حال ہی میں معروف ہالی وڈ اداکار لیام نیسن نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیاہے۔ انسٹھ سالہ اداکار عیسائیت میں کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔غیر ملکی اخبار کے مطابق لیام نیسن کا کہنا تھا کہ ترکی میں فلم کی عکس بندی کے دوران ،وہ اسلامی عبادات سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ جس سے انہیں روحانی سکون محسوس ہوا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مساجد بہت خوب صورت ہیں اور5 وقت نماز کی ادائیگی سے، انسان مزید اسلام کے قریب ہوجاتا ہے۔

مغرب اس وقت اپنی بے حیاتہذیب اورمادرپدرآزادثقافت کی بدولت ہلاکت وبربادی کے کس دلدل میں گرچکاہے؟اس سوال کے جواب کے لیے اس خبر کا حوالہ دیناہی کافی ہوگا ،جس میں بتایاگیاہے کہ پانچ کروڑ امریکی مختلف اقسام کے دماغی امراض میں مبتلاہیں۔ہر پانچ میں سے ایک امریکی ذہنی مریض بن چکاہے۔مردوں کی نسبت خواتین زیادہ پیچیدہ دماغی بیماریوں کا شکارہیں۔23فی صد خواتین کے مقابلے میں، 16.8فی صد مرداس عارضے کا شکارپائے گئے۔جب کہ 50برس سے زائد عمر کے افراد کی بہ نسبت 18سے 25 برس کی عمر کے نوجوانوں میں یہ بیماری دگنی شرح میں موجود ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک کروڑ 14لاکھ امریکیوں میں دماغی عارضہ شدید نوعیت کا پایاگیاہے،جس میں ان کی زندگیاں ختم ہوسکتی ہیں۔یہ شرح کل آبادی کا پانچ فی صد ہے۔گزشتہ برس 87لاکھ امریکیوں میں خودکشی کا رجحان انتہائی شدید نوعیت کاپایاگیا۔جب کہ12 سے 17برس کے 19 لاکھ نوعمر امریکی ڈپریشن کا شکاربھی پائے گئے۔واضح رہے کہ یہ رپورٹ امریکا بھرمیں12برس سے زائد عمر کے 6لاکھ 75ہزار افراد پر سروے کے بعدمرتب کی گئی ہے۔

طاغوتی قوتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اسلام مخالف اقدامات، دراصل مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں ہیں۔کیوں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ،جس طرح مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے ،اس نے صہیونی آلہ کاروں کی نیندیں اڑادیں ہیں۔صرف امریکا میں سالانہ20ہزار افراد دائرئہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔اب تک جس تہذیب وتمدن کو مادہ پرستی اور خدابیزاری کے لباس میں پیش کیاجاتارہاہے،آج وہ دیمک زدہ لکڑی کی تصویر پیش کررہی ہے۔ کل تک جس کلچر اورثقافت کو مثالی کہاجاتاتھا ،آج اسی کے دل دادہ اس سے اعلان براء ت کررہے ہیں۔ مغرب میں اسلام کی روز بہ روز بڑھتی مقبولیت ، اسلام کی حقانیت اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہی کہی جاسکتی ہے۔



No comments:

Post a Comment