اسلام اور سلام
دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، ہمارے ملک میں ہمارے برادران وطن ملاقات کے وقت ”نمستے“ کہتے ہیں، اس نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں Good Night/ Good Morning اور بعض روشن خیال حضرات ”صبح بخیر“ ”شب بخیر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کے بجائے ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)