*متقی(پرہیزگار)کون؟*
القرآن:
جو (1)بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں (2)اور نماز قائم کرتے ہیں (3)اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 3]
*فاسق(بےلغام/نافرمان)کون؟*
القرآن:
وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور (اس طرح) زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 27]
*خشوع(جھکنے/ڈرنے)والے کون؟*
القرآن:
جو اس بات کا خیال (یاددہانی لگائے) رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 46]
*الله کے بندے کون؟*
القرآن:
یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں، اب ہمارے گناہوں کو بخش دیجیے، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 16]
*نیکوکار اور پرہیزگار کون؟*
القرآن:
وہ لوگ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار کا فرمانبرداری سے جواب دیا، ایسے نیک اور متقی لوگوں کے لیے زبردست اجر ہے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 172]
*صابرین کون؟*
القرآن:
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 156]
*مغرور-متکبر کون؟*
القرآن:
ایسے لوگ جو خود بھی کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی تلقین کرتے ہیں، اور اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں، اور ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے زلیل کردینے والا عذاب تیار رکھا ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 37]
*عقل والے کون؟*
القرآن:
جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 191]
*مغرور-متکبر کون؟*
القرآن :
اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ روز آخرت پر، اور شیطان جس کا ساتھی بن جائے تو وہ بدترین ساتھی ہوتا ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 38]
*مومن اور کافر کون؟*
القرآن:
جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ طاغوت(شیطان) کے راستے میں لڑتے ہیں۔ لہذا (اے مسلمانو) تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 76]
*منافقین کون؟*
القرآن:
(اے مسلمانو) یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے (انجام کے) انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ چنانچہ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملے تو (تم سے) کہتے ہیں کہ : کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کو (فتح) نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کہ : کیا ہم نے تم پر قابو نہیں پالیا تھا ؟ اور کیا (اس کے باوجود) ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا ؟ بس اب تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، اور اللہ کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا ہرگز کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 141]
*منافقین کون؟*
القرآن:
جو مسلمانوں(فرمانبردار وں) کے بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 139]
*قیامت میں ظالم کون شمار ہوگا؟*
القرآن:
جو اللہ کے راستے(حکم/دین) سے لوگوں کو روکتے تھے، اور اس میں ٹیڑھ (یعنی نئی باتیں/گناہ وظلم کے طریقے) نکالنا چاہتے تھے، اور جو آخرت کا بالکل انکار کیا کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 45]
*کافرین کون؟*
القرآن:
جنہوں نے (من مانی کرتے ہوئے) اپنے دین کو کھیل تماشا (مذاق) بنا رکھا تھا، اور جن کو دنیوی زندگی (عیش) نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ چنانچہ آج ہم بھی ان کو اسی طرح بھلا دیں گے جیسے وہ اس بات کو بھلائے بیٹھے تھے کہ انہیں اس دن کا سامنا کرنا ہے اور جیسے وہ ہماری آیتوں کا کھلم کھلا انکار کیا کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 51]
*اصلاح کرنے والے مصلحین کون؟*
القرآن:
اور جو لوگ (1)کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں، اور (2)نماز قائم کرتے ہیں تو ہم ایسے اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 170]
*رب پر توکل(بھروسہ)کرنے والے کون؟*
القرآن:
جو (1)نماز قائم کرتے ہیں، اور (2)ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے (الله کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 3]
*منافقین کون؟*
القرآن:
جو خوشی سے صدقہ کرنے والے مومنوں کو بھی طعنے دیتے ہیں، اور ان لوگوں کو بھی جنہیں اپنی محنت (کی آمدنی) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے اس لیے وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 79]
*ظالم کون؟*
القرآن:
جو اللہ کے راستے(حکم/دین) سے دوسروں کو روکتے تھے، اور اس میں کجی(ٹیڑھ) تلاش کرتے تھے اور آخرت کے تو وہ بالکل ہی منکر تھے۔
[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 19]
اصلاح یہ نہیں ہے کہ اتحاد/جوڑ کے نام پر حق وجھوٹ یا نیکی وبرائی کو ایک کرتے ہوئے برائی(والوں)کا ساتھ دیا جائے۔۔۔بلکہ اصلاح یہ ہے کہ کھرے-کھوٹے، پاک-پلیت، دودھ-پانی کی ملاوٹ میں تمیز وفرق کی فطرت کو اپناتے ہوئے حق/نیکی(والوں)کا ساتھ دیا جائے۔
مصلحین(اصلاح کرنے والے نیکوکار) کون؟
*اور جو لوگ کتاب(قرآن) کو مضبوطی سے تھامتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں تو ہم ایسے اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔*
[سورۃ الأعراف، آیت نمبر 170]
یہ آیت دو اہم اعمال:
(1)قرآن کو سیکھ سمجھ کر "ایمان"کی اصلاح ودرستگی (2)اور نماز کی پابندی سے قرآن کی نصیحتوں کو دہراتے ہوئے اپنی اور اپنے اہل واولاد کے"اعمال"کی اصلاح وبہتری کی کوشش کرتے رہنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اور یہ وعدہ بھی کرتی ہے کہ ان دو چیزوں(قرآن ونماز) کے ذریعہ اصلاح کی کوشش کرنے والوں کا اجر(انعام،بدلہ)ضایع نہیں کیا جائے گا۔
صالحین کون؟
نیکوکاروں کی بنیادی علامات:
القرآن:
یہ لوگ (1)اللہ پر اور (2)آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، (3)اچھائی کی تلقین کرتے اور (4)برائی سے روکتے ہیں، (5)اور نیک کاموں کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 114]
اللہ نے چاہا کہ سچا کردے سچ کو اپنے کلاموں سے ۔۔۔
[القرآن:سورۃ الانفال:7]
الَّذينَ يُؤمِنونَ
بِالغَيبِ وَيُقيمونَ الصَّلوٰةَ وَمِمّا رَزَقنٰهُم يُنفِقونَ {2:3}
|
جو
کہ یقین کرتے ہیں بن دیکھی چیزوں کا [۵]
اور قائم رکھتے ہیں نماز کو [۶] اور
جو ہم نے روزی دی ہے ان کو اسمیں سے خرچ کرتے ہیں [۷]
|
وَالَّذينَ يُؤمِنونَ بِما أُنزِلَ
إِلَيكَ وَما أُنزِلَ مِن قَبلِكَ وَبِالءاخِرَةِ هُم يوقِنونَ {2:4}
|
اور
وہ لوگ جو ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تیری طرف اور اس پر کہ جو کچھ
نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں [۸]
|
اس
سے پہلی آیت میں ان لوگوں کا بیان تھا جن مشرکین نے ایمان قبول کیا (یعنی اہل
مکہ) اور اس آیت میں ان کا بیان ہے جو اہل کتاب (یعنی یہود و نصارٰی) مشرف با
اسلام ہوئے۔
|
الَّذينَ يُنفِقونَ فِى
السَّرّاءِ وَالضَّرّاءِ وَالكٰظِمينَ الغَيظَ وَالعافينَ عَنِ النّاسِ ۗ
وَاللَّهُ يُحِبُّ المُحسِنينَ {3:134}
|
جو
خرچ کئے جاتے ہیں خوشی میں اور تکلیف میں [۱۹۸] اور دبا لیتےہیں غصہ اور معاف
کرتے ہیں لوگوں کو اور اللہ چاہتا ہے نیکی کرنے والوں کو [۱۹۹]
|
جو
آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے کو روکتے
اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے
|
غصہ
کو پی جانا ہی بڑا کمال ہے اس پر مزید یہ کہ لوگوں کی زیادتی یا غلطیوں کو بالکل
معاف کر دیتے ہیں اور نہ صرف معاف کرتے ہیں بلکہ احسان اور نیکی سے پیش آتے ہیں۔
غالبًا پہلے جن لوگوں کی نسبت بد دعا کرنے سے روکا تھا۔ یہاں ان کے متعلق غصہ
دبانے اور عفو و درگذر سے کام لینے کی ترغیب دی گئ ہے نیز بعض صحابہ نے جنگ احد
میں عدول حکمی کی تھی، یا فرار اختیار کیا تھا، ان کی تقصیر معاف کرنے اور شان
وعفو و احسان اختیار کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
|
یعنی
نہ عیش و خوشی میں خدا کو بھولتے ہیں نہ تنگی و تکلیف کے وقت خرچ کرنے سے جان
چراتے ہیں۔ ہر موقع پر اور ہر حال میں حسب مقدرت خرچ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں
سود خواروں کی طرح بخیل اور پیسہ کے پجاری نہیں۔ گویا جانی جہاد کے ساتھ مالی
جہاد بھی کرتے ہیں۔
|
وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا
فٰحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم
وَمَن يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا وَهُم
يَعلَمونَ {3:135}
|
اور
وہ لوگ کہ جب کر بیٹھیں کچھ کھلا گناہ یا برا کام کریں اپنے حق میں [۲۰۰] تو یاد کریں اللہ کو اور بخشش
مانگیں اپنے گناہوں کی اور کون ہے گناہ بخشنے والا سوا اللہ کے اور اڑتے نہیں
اپنے کئے پر اور وہ جانتے ہیں
|
اور
وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو
یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون
سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے
|
یعنی
کھلم کھلا کوئی بےحیائی کا کام کر گذریں جس کا اثر دوسروں تک متعدی ہو یا کسی
اور بری حرکت کے مرتکب ہو جائیں جس کا ضرر ان ہی کی ذات تک محدود رہے۔
|
أُولٰئِكَ عَلىٰ هُدًى مِن
رَبِّهِم ۖ وَأُولٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ {2:5}
|
وہی
لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پروردگار کی طرف سے اور وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے [۹]
|
یعنی
اہل ایمان کے دونوں گروہ مذکورہ بالا دنیا میں ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور آخرت
میں ان کو ہر طرح کی مراد ملے گی جس سے معلوم ہو گیا کہ جو نعمت ایمان اور اعمال
حسنہ سے محروم رہے ان کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہیں اب ان دونوں فریق مومنین
سے فارغ ہو کر اس کے آگے کفار کی حالت بیان کی جاتی ہے۔
|
يٰأَيُّهَا النّاسُ اعبُدوا
رَبَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم وَالَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ
{2:21}
|
اے
لوگو بندگی کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے تھے
تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ
|
الَّذى جَعَلَ لَكُمُ
الأَرضَ فِرٰشًا وَالسَّماءَ بِناءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخرَجَ
بِهِ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَكُم ۖ فَلا تَجعَلوا لِلَّهِ أَندادًا وَأَنتُم
تَعلَمونَ {2:22}
|
جس
نے بنایا واسطے تمہارے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اتار آسمان سے پانی
پھر نکالے اس سے میوے تمہارے کھانے کے واسطے سو نہ ٹھہراؤ کسی کو اللہ کے مقابل
اور تم تو جانتے ہو [۳۲]
|
اب
سب بندوں کو مومن ہوں یا کافر یا منافق خطاب فرما کر توحید جناب باری سمجھائی
جاتی ہے جو ایمان کے لئے اصل الاصول ہے ۔ خلاصہ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم
کو اور تم سے پہلوں کو سب کو پیدا کیا اور تمہاری ضروریات اور کل منافع کو بنایا
۔ پھر اُس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو معبود بنانا جو تم کو نہ نفع پہنچا سکے نہ
مضرت (جیسے بت) کس قدر حماقت اور جہالت ہے حالانکہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ اس
جیسا کوئی نہیں۔
|
رَبُّكُمُ الَّذى يُزجى
لَكُمُ الفُلكَ فِى البَحرِ لِتَبتَغوا مِن فَضلِهِ ۚ إِنَّهُ كانَ بِكُم رَحيمًا
{17:66}
|
تمہارا
رب وہ ہے جو چلاتا ہے تمہارے واسطے کشتی دریا میں [۱۰۴] تاکہ تلاش کرو اس کا فضل [۱۰۵] وہی ہے تم پر مہربان
|
تمہارا
پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل سے
(روزی) تلاش کرو۔ بےشک وہ تم پر مہربان ہے
|
یہ
خدا کی کارسازی کا ایک نمونہ پیش کیا ہے ، جس میں ایک مشرک کو بھی اقرار کرنا
پڑتا ہے کہ اس کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے۔
|
یعنی
روزی کو اکثر قرآن میں "فضل" فرمایا ہے۔ "فضل" کے معنی
زیادہ کے ہیں۔ سو مسلمان کی بندگی ہے آخرت کے واسطے اور دنیا لبھاؤ میں ملتی ہے۔
|
الَّذينَ يَنقُضونَ عَهدَ
اللَّهِ مِن بَعدِ ميثٰقِهِ وَيَقطَعونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يوصَلَ
وَيُفسِدونَ فِى الأَرضِ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الخٰسِرونَ {2:27}
|
جو
توڑتے ہیں خدا کے معاہدہ کو مضبوط کرنے کے بعد اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو جس کو
اللہ نے فرمایا ملانے کو [۴۰] اور
فساد کرتے ہیں ملک میں [۴۱] وہی
ہیں ٹوٹے والے [۴۲]
|
جیسے
قطع رحم کرنا،انبیاء اور علماء اور واعظین اور مومنین اور نماز اور دیگر جملہ
امور خیر سے اعراض کرنا۔
|
فساد
سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو ایمان سے نفرت دلاتے تھے اور مخالفان اسلام کو ورغلا
کر مسلمانوں سے مقاتلہ کراتے تھے اور حضرات صحابہ اور صلحائے امت کے عیوب نکال
کر تشہیر کرتے تھے تاکہ آپ کی اور دین اسلام کی بےوقعتی لوگوں کے ذہن نشین ہو
جائے اور مسلمانوں کا راز مخالفوں تک پہنچاتے تھے اور طرح طرح کی رسوم و بدعات
خلاف طریقہ اسلام پھیلانے میں سعی کرتے تھے۔
|
مطلب
یہ کہ ان حرکات ناشائستہ سے اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں،توہین اسلام اور تحقیر صلحائے
امت کچھ بھی نہ ہو سکے گی۔
|
الَّذينَ ءاتَينٰهُمُ
الكِتٰبَ يَتلونَهُ حَقَّ تِلاوَتِهِ أُولٰئِكَ يُؤمِنونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكفُر
بِهِ فَأُولٰئِكَ هُمُ الخٰسِرونَ {2:121}
|
وہ
لوگ جن کو دی ہم نے کتاب وہ اسکو پڑھتے ہیں جو حق ہے اسکے پڑھنے کا وہی اس پر
یقین لاتے ہیں اور جو کوئی منکر ہو گا اس سے تو وہی لوگ نقصان پانے والے ہیں [۱۷۵]
|
یہود
میں تھوڑے آدمی منصف بھی تھے کہ اپنی کتاب کو پڑھتے تھے سمجھ کر وہ قرآن پر
ایمان لائے (جیسے حضرت عبداللہ ابن سلامؓ اور ان کے ساتھی) یہ آیت انہی لوگوں کے
بارہ میں ہے ۔ یعنی انہوں نے توریت کو غور سے پڑھا انہی کو ایمان نصیب ہوا اور
جس نے انکار کیا کتاب کا یعنی اس میں تحریف کی وہ خائب و خاسر ہوئے۔
|
وَالَّذينَ كَفَروا
وَكَذَّبوا بِـٔايٰتِنا أُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {2:39}
|
اور
جو لوگ منکر ہوئے اور جھٹلایا ہماری نشانیوں کو وہ ہیں دوزخ میں جانے والے وہ اس
میں ہمیشہ رہیں گے
|
بَلىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً
وَأَحٰطَت بِهِ خَطيـَٔتُهُ فَأُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ
{2:81}
|
جس
نے کمایا گناہ اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے [۱۲۴] سو وہی ہیں دوزخ کے رہنے والے
وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے
|
گناہ
کسی کا احاطہ کر لیں ۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کر لیں کہ کوئی
جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو ۔ حتٰی کی دل میں ایمان و تصدیق باقی ہو
گی تو بھی احاطہ مذکور محقق نہ ہو گا۔ تو اب کافر ہی پر یہ صورت صادق آ سکتی ہے۔
|
الَّذينَ يَأكُلونَ
الرِّبوٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطٰنُ مِنَ
المَسِّ ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّبوٰا۟ ۗ
وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا۟ ۚ فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن
رَبِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَن عادَ
فَأُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {2:275}
|
جو
لوگ کھاتےہیں سود نہیں اٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اٹھتا ہے وہ شخص کہ جس کے
حواس کھو دیے ہوں جن نے لپٹ کر یہ حالت انکی اس واسطے ہو گی کہ انہوں نے کہا کہ
سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے سوداگری
اور حرام کیا ہے سود کو [۴۴۴] پھر
جس کو پہنچی نصیحت اپنے رب کی طرف سے اور وہ باز آ گیا تو اس کے واسطے ہے جو
پہلے ہو چکا اور معاملہ اس کا اللہ کے حوالہ ہے اور جو کوئی پھر سود لیوے تو وہی
لوگ ہیں دوزخ والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے [۴۴۵]
|
یعنی
ربٰو کھانے والے قیامت کو قبروں سے ایسے اٹھیں گے جیسے آسیب زدہ اور مجنون اور
یہ حالت اس واسطے ہو گی کہ انہوں نے حلال و حرام کو یکساں کر دیا اور صرف اس وجہ
سےکہ دونوں میں نفع مقصود ہوتا ہے دونوں کو حلال کہا حالانکہ بیع اور ربٰو میں
بڑا فرق ہے کہ بیع کو حق تعالیٰ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔ فائدہ بیع میں
جو نفع ہوتا ہے وہ مال کے مقابلہ میں ہوتا ہے جیسےکسی نے ایک درہم کی قیمت کا
کپڑا دو درہم کو فروخت کیا اور سود وہ ہوتا ہے جس میں نفع بلا عوض ہو جیسے ایک
درہم سے دو درہم خرید لیوے اول صورت میں چونکہ کپڑا اور درہم دو جدی جدی قسم کی
چیزیں ہیں اور نفع اور غرض ہر ایک کی دوسرے سے علیحدہ ہے اس لئے ان میں فی نفسہ
موازنہ اور مساوات غیر ممکن ہے۔ بضرورت خرید و فروخت موازنہ کرنے کی کوئی صورت
اپنی اپنی ضرورت اور حاجت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی اور ضرورت اور رغبت ہر
ایک کی ازحد مختلف ہوتی ہے کسی کو ایک درہم کی اتنی حاجت ہوتی ہے اور دس روپیہ
کی قیمت کے کپڑے کی بھی اس قدر نہیں ہوتی اور کسی کو ایک کپڑے کی جو بازار میں
ایک درہم کا شمار ہوتا ہے اتنی حاجت ہو سکتی ہے کہ دس درہم کی بھی اتنی احتیاج
اور رغبت نہیں ہوتی تو اب ایک کپڑے کو درہم میں کوئی خریدے گا تو اس میں سود
یعنی نفع خالی عن العوض نہیں اور اگر بالفرض اسی کپڑے کو ایک ہزار درہم کو خریدے
گا تو سود نہیں ہو سکتا کیونکہ فی حد ذاتہ تو ان میں موازنہ اور مساوات ہو ہی
نہیں سکتی اس کے لئے اگر پیمانہ ہے تو اپنی اپنی رغبت اور ضرورت اور اس میں اتنا
تفاوت ہے کہ خدا کی پناہ، تو سود متعین ہو تو کیونکر ہو اور ایک درہم کو دو درہم
کے عوض فروخت کرے گا تو یہاں فی نفسہ مساوات ہو سکتی ہے جس کے باعث ایک درہم کے
مقابلہ میں معین ہوگا اور دوسرا درہم خالی عن العوض ہو کر سود ہو گا اور شرعًا یہ
معاملہ حرام ہو گا۔
|
یعنی
سود کی حرمت سے پہلے تم نے جو سود لیا دنیا میں اس کو مالک کی طرف واپس کرنے کا
حکم نہیں دیا جاتا یعنی تم کو اس سے مطالبہ کا حق نہیں اور آخرت میں حق تعالیٰ
کو اختیار ہے چاہے اپنی رحمت سے اس کو بخش دے لیکن حرمت کے بعد بھی اگر کوئی باز
نہ آیا بلکہ برابر سود لئے گیا تو وہ دوزخی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم کے سامنے
اپنی عقلی دلیلوں کو پیش کرنے کی سزا وہی سزا ہے جو فرمائی۔
|
وَالَّذينَ ءامَنوا
وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ أُولٰئِكَ أَصحٰبُ الجَنَّةِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {2:82}
|
اور
جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے نیک وہی ہیں جنت کے رہنے والے وہ اسی میں ہمیشہ
رہیں گے
|
الَّذينَ يَظُنّونَ
أَنَّهُم مُلٰقوا رَبِّهِم وَأَنَّهُم إِلَيهِ رٰجِعونَ {2:46}
|
جن
کو خیال ہے کہ وہ روبرو ہونے والے ہیں اپنے رب کے اور یہ کہ انکو اسی کی طرف لوٹ
کر جانا ہے [۷۲]
|
یعنی
صبر اور نماز حضور دل سے بہت بھاری ہے مگر ان پر آسان ہے جو عاجزی کرتے ہیں اور
ڈرتے ہیں جن کا خیال اور دھیان یہ ہے کہ ہم کو خدا کے روبرو ہونا اور اس کی طرف
پھر جانا ہے (یعنی نماز میں خدا کا قرب اور گویا اس سے ملاقات ہے) یا قیامت میں
حساب و کتاب کے لئے روبرو جانا ہے۔
|
الَّذينَ ءاتَينٰهُمُ
الكِتٰبَ يَعرِفونَهُ كَما يَعرِفونَ أَبناءَهُم ۖ وَإِنَّ فَريقًا مِنهُم
لَيَكتُمونَ الحَقَّ وَهُم يَعلَمونَ {2:146}
|
جن
کو ہم نے دی ہے کتاب پہچانتے ہیں اس کو جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور بیشک
ایک فرقہ ان میں سے البتہ چھپاتے ہیں حق کو جان کر
|
صبر وتوکل یہ نہیں ہے کہ علاج وکوشش چھوڑدی جائے، بلکہ صبر کے معنیٰ یہ ہے کہ علاج وکوشش میں جم جانا ہے اور حق پر قائم رہتے حکم کو ادا کرنا ہے، پھر نتائج وانجام کی فکر نہ کرتے رب پر بھروسہ کرنا توکل ہے۔
اللہ نے فرمایا:
أَم حَسِبتُم أَن تَدخُلُوا الجَنَّةَ وَلَمّا يَعلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جٰهَدوا مِنكُم وَيَعلَمَ الصّٰبِرينَ {3:142}
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بےآزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور (یہ بھی مقصود ہے) کہ وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرے۔
وَكَأَيِّن مِن نَبِىٍّ قٰتَلَ مَعَهُ رِبِّيّونَ كَثيرٌ فَما وَهَنوا لِما أَصابَهُم فى سَبيلِ اللَّهِ وَما ضَعُفوا وَمَا استَكانوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصّٰبِرينَ {3:146}
اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل الله (خدا کے دشمنوں سے) لڑے ہیں تو جو مصبتیں ان پر راہِ خدا میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ (کافروں سے) دبے اور خدا استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
وَما لَنا أَلّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَد هَدىٰنا سُبُلَنا ۚ وَلَنَصبِرَنَّ عَلىٰ ما ءاذَيتُمونا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُتَوَكِّلونَ {14:12}
اور ہم کیونکر خدا پر بھروسہ نہ رکھیں حالانکہ اس نے ہم کو ہمارے (دین کے سیدھے) رستے بتائے ہیں۔ جو تکلیفیں تم ہم کو دیتے ہو اس پر صبر کریں گے۔ اور اہل توکل کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے
وَلَنَبلُوَنَّكُم حَتّىٰ نَعلَمَ المُجٰهِدينَ مِنكُم وَالصّٰبِرينَ وَنَبلُوَا۟ أَخبارَكُم {47:31}
اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں۔ اور تمہارے حالات جانچ لیں۔
الَّذينَ إِذا أَصٰبَتهُم
مُصيبَةٌ قالوا إِنّا لِلَّهِ وَإِنّا إِلَيهِ رٰجِعونَ {2:156}
|
کہ
جب پہنچے ان کو کچھ مصیبت تو کہیں ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف
لوٹ کر جانے والے ہیں
|
أُولٰئِكَ عَلَيهِم
صَلَوٰتٌ مِن رَبِّهِم وَرَحمَةٌ ۖ وَأُولٰئِكَ هُمُ المُهتَدونَ {2:157}
|
ایسے
ہی لوگوں پر عنایتیں ہیں اپنے رب کی اور مہربانی اور وہی ہیں سیدھی راہ پر [۲۲۱]
|
یعنی
جن لوگوں نے ان مصائب پر صبر کیا اور کفران نعمت نہ کیا بلکہ مصائب کو وسیلہ ذکر
و شکر بنایا تو انکو اے پیغمبر ہماری طرف سے بشارت سنا دو۔
|
إِنَّ الَّذينَ يَكتُمونَ
ما أَنزَلنا مِنَ البَيِّنٰتِ وَالهُدىٰ مِن بَعدِ ما بَيَّنّٰهُ لِلنّاسِ فِى
الكِتٰبِ ۙ أُولٰئِكَ يَلعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلعَنُهُمُ اللّٰعِنونَ {2:159}
|
بیشک
جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ ہم نے اتارے صاف حکم اور ہدایت کی باتیں بعد اس کے کہ
ہم انکو کھول چکے لوگوں کے واسطے کتاب میں [۲۲۴] ان پر لعنت کرتا ہے اللہ اور
لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے [۲۲۵]
|
لعنت
کرنے والے یعنی جن و انس و ملائکہ بلکہ اور سب حیوانات کیونکہ انکی حق پوشی کے
وبال میں جب عالم کے اندر قحط وبا طرح طرح کی بلائیں پھیلتی ہیں تو حیوانات بلکہ
جمادات تک کو تکلیف ہوتی ہے اور سب ان پر لعنت کرتے ہیں۔
|
اس
سے مراد ہیں یہود کہ توریت میں جو آپ کی تصدیق تھی اس کو اور تحویل قبلہ وغیرہ
امور کو چھپاتے تھے اور جس نے غرض دنیا کے واسطے اللہ کے حکم کو چھپایا وہ سب اس
میں داخل ہیں۔
|
إِنَّ الَّذينَ كَفَروا
وَماتوا وَهُم كُفّارٌ أُولٰئِكَ عَلَيهِم لَعنَةُ اللَّهِ وَالمَلٰئِكَةِ
وَالنّاسِ أَجمَعينَ {2:161}
|
بیشک
جو لوگ کافر ہوئے اور مر گئے کافر ہی انہی پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور
لوگوں کی سب کی [۲۲۷]
|
یعنی
جس نے خود حق پوشی کی یا کسی دوسرے کی حق پوشی کے باعث گمراہ ہوا اور اخیر تک
کافر ہی رہا اور توبہ نصیب نہ ہوئی تو وہ ہمیشہ کو ملعون اور جہنمی ہوا مرنے کے
بعد توبہ مقبول نہیں، بخلاف اول فریق مذکور سابق کے کہ توبہ نے ان کی لعنت کو
مقطع کر دیا کہ زندگی ہی میں تائب ہو گئے۔
|
إِلَّا الَّذينَ تابوا
وَأَصلَحوا وَبَيَّنوا فَأُولٰئِكَ أَتوبُ عَلَيهِم ۚ وَأَنَا التَّوّابُ
الرَّحيمُ {2:160}
|
مگر
جنہوں نے توبہ کی اور درست کیا اپنے کام کو اور بیان کر دیا حق بات کو تو انکو
معاف کرتا ہوں [۲۲۶] اور میں ہوں بڑا معاف کرنے
والا نہایت مہربان
|
یعنی
اگر چہ انکی حق پوشی کے باعث بعض آدمی گمراہی میں پڑ گئے لیکن جنہوں نے حق پوشی
سے توبہ کر کے اظہار حق پوری طرح کر دیا تو اب بجائے لعنت ہم ان پر رحمت نازل
فرماتے ہیں کیونکہ ہم تو اب و رحیم ہیں۔
|
الَّذينَ يَقولونَ رَبَّنا
إِنَّنا ءامَنّا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَقِنا عَذابَ النّارِ {3:16}
|
وہ
جو کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے ہیں سو بخش دے ہم کو گناہ ہمارے اور بچا
ہم کو دوزخ کے عذب سے [۲۱]
|
جو
خدا سے التجا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو ہمارے گناہ معاف
فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ
|
معلوم
ہوا کہ گناہ معاف ہونے کے لئے ایمان لانا شرط ہے۔
|
الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ
وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
|
وہ
صبر کرنے والے ہیں اور سچے اور حکم بجا لانے والے اور خرچ کرنے والے اور گناہ
بخشوانے والے پچھلی رات میں [۲۲]
|
یہ
وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور
(راہ خدا میں) خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں
|
یعنی
اللہ کے راستہ میں بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر بھی اس کی فرمانبرداری پر جمے رہتے
اور معصیت سے رکے رہتے ہیں۔ زبان کے، دل کے، نیت کے، معاملہ کے سچے ہیں۔ پوری
تسلیم و انقیاد کے ساتھ خدا کے احکام بجا لاتے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت کو اس
کے بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرتے ہیں۔ اور پچھلی رات میں اٹھ کر (جو طمانیت و
اجابت کا وقت ہوتا ہے لیکن اٹھنا اس وقت سہل نہیں ہوتا) اپنے رب سے گناہ اور
تقصیرات معاف کراتے ہیں۔ { کَانُوْ اقَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ
وَ بِالْاَ سْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ } (ذاریات رکوع ۱) یعنی اکثر رات عبادت میں
گذارتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے کہ خداوند ! عبادت میں جو تقصیر رہ گئ اپنے
فضل سے معاف فرمانا۔
|
الَّذينَ قالوا
لِإِخوٰنِهِم وَقَعَدوا لَو أَطاعونا ما قُتِلوا ۗ قُل فَادرَءوا عَن
أَنفُسِكُمُ المَوتَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {3:168}
|
وہ
لوگ ہیں جو کہتے ہیں اپنے بھائیوں کو اور آپ بیٹھ رہے ہیں اگر وہ ہماری بات
مانتے تو مارے نہ جاتے [۲۶۱] تو
کہہ دے اب ہٹا دیجو اپنے اوپر سے موت کو اگر تم سچے ہو [۲۶۲]
|
یہ
خود تو (جنگ سے بچ کر) بیٹھ ہی رہے تھے مگر (جنہوں نے راہ خدا میں جانیں قربان
کردیں) اپنے (ان) بھائیوں کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اگر ہمارا کہا مانتے تو
قتل نہ ہوتے۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو اپنے اوپر سے موت کو ٹال دینا
|
یعنی
اگر گھر میں بیٹھ رہنے سے جان بچ سکتی ہے تو دیکھیں موت کو گھر میں کس طرح نہ
آنے دیں گے۔ اگر یہاں رہ کر بھی موت پیچھا نہیں چھوڑتی تو پھر بہادروں کی طرح
میدان میں عزت کی موت کیوں نہ مریں۔
|
یعنی
خود نامرد بن کر بیٹھ رہے اور اپنی برادری کے بھائیوں (انصار مدینہ) کو کہتے ہیں
کہ ہماری بات مان کر گھر میں بیٹھے رہتے تو مارے نہ جاتے۔
|
الَّذينَ استَجابوا لِلَّهِ
وَالرَّسولِ مِن بَعدِ ما أَصابَهُمُ القَرحُ ۚ لِلَّذينَ أَحسَنوا مِنهُم
وَاتَّقَوا أَجرٌ عَظيمٌ {3:172}
|
جن
لوگوں نے حکم مانا اللہ کا اور رسول کا بعد اس کے کہ پہنچ چکے تھے ان کو زخم جو
ان میں نیک ہیں اور پرہیزگار ان کو ثواب بڑا ہے
|
جنہوں
نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں
نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے
|
الَّذينَ قالَ لَهُمُ
النّاسُ إِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَكُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم إيمٰنًا وَقالوا
حَسبُنَا اللَّهُ وَنِعمَ الوَكيلُ {3:173}
|
جن
کو کہا لوگوں نے کہ مکہ والے آدمیوں نے جمع کیا ہے سامان تمہارے مقابلہ کو سو تم
ان سے ڈرو تو اور زیادہ ہوا ان کا ایمان اور بولے کافی ہے ہم کو اللہ اور کیا
خوب کارساز ہے [۲۶۴]
|
(جب) ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے (مقابلے کے)
لئے لشکر کثیر) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو۔ تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا۔ اور
کہنے لگے ہم کو خدا کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے
|
ابوسفیان
جب احد سےمکہ کو واپس گیا تو راستہ میں خیال آیا کہ ہم نے بڑی غلطی کی، ہزیمت
یافتہ اور زخم خوردہ مسلمانوں کو یونہی چھوڑ کر چلے آئے، مشورے ہونے لگے کہ پھر
مدینہ واپس چل کر ان کا قصہ تمام کر دیں آپ کو خبر ہوئی تو اعلان فرما دیا کہ جو
لوگ کل ہمارے ساتھ لڑائی میں حاضر تھے آج دشمن کا تعاقب کرنے کے لئے تیار ہو
جائیں، مسلمان مجاہدین باوجودیکہ تازہ زخم کھائے ہوئے تھے اللہ اور رسول کی پکار
پر نکل پڑے۔ آپ ان مجاہدین کی جمعیت لے کرمقام حمراء لاسد تک (جو مدینہ سے آٹھ
میل ہے ) پہنچے ابوسفیان کے دل میں یہ سن کر کہ مسلمان اس کے تعاقب میں چلے آ
رہے ہیں سخت رعب و دہشت طاری ہو گئ۔ دوبارہ حملہ کا ارادہ فسخ کر کے مکہ کی طرف
بھاگا۔ عبدالقیس کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ آ رہا تھا۔ ابوسفیان نے ان لوگوں کو
کچھ دیکر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں شائع کریں جن کو سن کر
مسلمان ہماری طرف سے مرعوب وخوف زدہ ہو جائیں انہوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع
کیا کہ مکہ والوں نے بڑا بھاری لشکر اور سامان مسلمانوں کے استیصال کی غرض سے
تیار کیا ہے ۔ یہ سن کر مسلمانوں کے دلوں میں خوف کی جگہ جوش ایمان بڑھ گیا اور
کفار کی جمعیۃ کا حال سن کر کہنے لگے { حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ }
ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا خدا ہم کو کافی ہے، اسی پر یہ آیات نازل ہوئیں،
بعض کہتے ہیں کہ جنگ احد تمام ہونے پر ابوسفیان نے اعلان کیا تھا کہ اگے سال بدر
پر پھر لڑائی ہے۔ حضرت نے قبول کر لیا۔ جب اگلا سال آیا حضرت نے لوگوں کو حکم
دیا کہ جہاد کے لئے چلو۔ اگر کوئی نہ جائے گا تب بھی اللہ کا رسول تنہا جائے گا۔
ادھر سے ابوسفیان فوج لے کر مکہ سے نکلا۔ تھوڑ دور چل کر ہمت ٹوٹ گئ رعب چھا
گیا۔ قحط سالی کا عذر کر کے چاہا کہ مکہ واپس جائے۔ مگر صورت ایسی ہو کہ الزام
مسلمانوں پر رہے۔ ایک شخص مدینہ جاتا تھا اس کو کچھ دینا کیا کہ وہاں پہنچ کر اس
طرف کی ایسی خبریں مشہور کرنا جن کو سن کو مسلمان خوف کھائیں اور جنگ کو نہ
نکلیں وہ مدینہ پہنچ کر کہنے لگا کہ مکہ والوں نے بڑی بھاری جمعیت اکٹھی کی ہے،
تم کو لڑنا بہتر نہیں مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے استقلال دیا، انہوں نے یہ ہی کہا
کہ ہم کو اللہ کافی ہے۔ آخر مسلمان حسب وعدہ بدر پہنچے۔ وہاں بڑا بازار لگتا تھا۔
تین روز رہ کر تجارت کر کے خوب نفع کماکر مدینہ واپس آئے۔ اس غزوہ کو "بدر
صغریٰ" کہتے ہیں اس وقت جن لوگوں نے رفاقت کی اور تیار ہوئے ان کو یہ بشارت
ہے کہ احد میں زخم کھا کر اور نقصان اٹھا کر پھر ایسی جرات کی۔ مسلمانوں کی اس
جرأت و مستعدی کی خبر سن کر مشرکین راستہ سے لوٹ گئے۔ چنانچہ مکہ والوں نے اس
مہم کا نام "جیش السویق" رکھ دیا، یعنی وہ لشکر جو محض ستو پینے گیا
تھا، پی کر واپس آ گیا۔ (تنبیہ) یہ جو فرمایا { لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْ
امِنْھُمْ وَاتَّقَوْا } محض ان کی مدح سرائی اور تنویہ شان کے لئے ہے ورنہ وہ
سب کے سب ایسے ہی تھے۔
|
الَّذينَ يَذكُرونَ اللَّهَ
قِيٰمًا وَقُعودًا وَعَلىٰ جُنوبِهِم وَيَتَفَكَّرونَ فى خَلقِ السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضِ رَبَّنا ما خَلَقتَ هٰذا بٰطِلًا سُبحٰنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ
{3:191}
|
وہ
جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے [۲۸۸] اور فکر کرتے ہیں آسمان اور
زمین کی پیدائش میں کہتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ عبث نہیں بنایا تو پاک ہے سب
عیبوں سے ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے [۲۸۹]
|
جو
کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی
پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے
فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو
|
یعنی
کسی حال خدا سے غافل نہیں ہوتے اس کی یاد ہمہ وقت ان کے دل میں اور زبان پر جاری
رہتی ہے جیسے حدیث میں رسول اللہ ﷺ
کی نسبت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا
{ کان یذکر اللہ علیٰ کل احیانہٖ } نماز بھی خدا کی بہت بڑی یاد ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر پڑھ
لے بعض روایات میں ہے کہ جس رات میں یہ آیات نازل ہوئیں نبی کریم ﷺ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حالت میں اللہ کو یاد کر کے روتے رہے۔
|
یعنی
ذکر و فکر کے بعد کہتے ہیں کہ خداوندا! یہ عظیم الشان کارخانہ آپ نے بیکار پیدا
نہیں کیا جس کا کوئی مقصدنہ ہو، یقینًا ان عجیب و غریب حکیمانہ انتظامات کا
سلسلہ کسی عظیم و جلیل نتیجہ پر منتہی ہونا چاہئے۔ گویا یہاں سے ان کا ذہن تصور
آخرت کی طرف منتقل ہو گیا جو فی الحقیقت دنیا کی موجودہ زندگی کا آخری نتیجہ ہے
اسی لئے آگے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی دعا کی اور درمیان میں خدا تعالیٰ کی
تسبیح و تنزیہہ بیان کر کے اشارہ کر دیا کہ جو احمق قدرت کے ایسے صاف و صریح
نشان دیکھتے ہوئے تجھ کو نہ پہچانیں یا تیری شان کو گھٹائیں یا کارخانہ عالم کو
محض عبث و لعب سمجھیں تیری بارگاہ ان سب کی ہزلیات و خرافات سے پاک ہے۔ ا س آیت
سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین اور دیگر مصنوعات الہٰیہ میں غور و فکر کرنا وہ ہی
محمود ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ خدا کی یاد اور آخرت کی طرف توجہ ہو، باقی جو مادہ
پرست ان مصنوعات کے تاروں میں الجھ کر رہ جائیں اور صانع کی صحیح معرفت تک نہ
پہنچ سکیں، خواہ دنیا انہیں بڑا محقق اور سائنس داں کہا کرے، مگر قرآن کی زبان و
میں وہ اولوالالبا ب نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ پرلے درجہ کے جاہل و احمق ہیں۔
|
رَبَّنا إِنَّكَ مَن
تُدخِلِ النّارَ فَقَد أَخزَيتَهُ ۖ وَما لِلظّٰلِمينَ مِن أَنصارٍ {3:192}
|
اے
رب ہمارے جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا سو اس کو رسوا کر دیا [۲۹۰] اور نہیں کوئی گنہگاروں کا
مددگار [۲۹۱]
|
اے
پروردگار جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا اسے رسوا کیا اور ظالموں کا کوئی مددگار
نہیں
|
جو
شخص جتنی دیر دوزخ میں رہے گا اسی قدر رسوائی سمجھو۔ اس قاعدہ سے دائمی رسوائی
صرف کفار کے لئے ہے ۔ جن آیات میں عامۂ مومنین سے خزی (رسوائی) کی نفی کی گئ ہے
وہاں یہ ہی معنی سمجھنے چاہئیں۔
|
یعنی
جس کو خدا دوزخ میں ڈالنا چاہے کوئی حمایت کر کے بچا نہیں سکتا۔ ہاں جن کو
ابتداء میں یا آخر میں چھوڑنا اور معاف کر دینا ہی منظور ہو گا (جیسے عصاۃ
مومنین) ان کے لئے شفعاء کو اجازت دی جائے گی کہ سفارش کر کے بخشوائیں۔ وہ اس کے
مخالف نہیں بلکہ آیات و احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
|
رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا
مُنادِيًا يُنادى لِلإيمٰنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا ۚ رَبَّنا
فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ
{3:193}
|
اے
رب ہمارے ہم نے سنا کہ ایک پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کو کہ ایمان لاؤ
اپنے رب پر [۲۹۲] سو ہم ایمان لے آئے [۲۹۳] اے رب ہمارے اب بخش دے گناہ
ہمارے اور دور کر دے ہم سے برائیاں ہماری اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ [۲۹۴]
|
اے
پروردگارہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا (یعنی)
اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے اے پروردگار ہمارے گناہ معاف
فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ
اٹھا
|
یعنی
ہمارے بڑے بڑے گناہ بخش دے اور چھوٹی موٹی برائیوں پر پردہ ڈال دے اور جب اٹھانا
ہو نیک بندوں کے زمرہ میں شامل کر کے دنیا سے اٹھا لے۔
|
یعنی
نبی کریم ﷺ جنہوں نے بڑی اونچی آواز سے دنیا کو پکارا۔ یا قرآن کریم
جس کی آواز گھر گھر پہنچ گئ۔
|
پہلے
ایمان عقلی کا ذکر تھا، یہ ایمان سمعی ہوا جس میں ایمان بالرسول اور ایمان
بالقرآن بھی درج ہو گیا۔
|
رَبَّنا وَءاتِنا ما
وَعَدتَنا عَلىٰ رُسُلِكَ وَلا تُخزِنا يَومَ القِيٰمَةِ ۗ إِنَّكَ لا تُخلِفُ
الميعادَ {3:194}
|
اے
رب ہمارے اور دے ہم کو جو وعدہ کیا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے واسطہ سے اور
رسوا نہ کر ہم کو قیامت کے دن [۲۹۵] بیشک
تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا [۲۹۶]
|
اے
پروردگار تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ
ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کیجو کچھ شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ
نہیں کرتا
|
یعنی
آپ کے ہاں تو وعدہ خلافی کا احتمال نہیں، ہم میں احتمال ہے کہ مبادا ایسی غلطی
نہ کر بیٹھیں جو آپ کے وعدوں سے مستفید نہ ہو سکیں ۔ اس لئے درخواست ہے کہ ہم کو
ان اعمال پر مستقیم رہنے کی توفیق دیجئے جن کی آپ کے وعدوں سے متمتع ہونے کے لئے
ضرورت ہے۔
|
یعنی
پیغمبروں کی زبانی، ان کی تصدیق کرنے پر جو وعدے آپ نے کئے ہیں (مثلًا دنیا میں
آخر کار اعداء اللہ پر غالب و منصور کرنا اور آخرت میں جنت و رضوان سے سرفراز
فرمانا) ان سے ہم کو اس طرح بہرہ اندوز کیجئے کہ قیامت کے دن ہماری کسی قسم کی
ادنیٰ سے ادنیٰ رسوائی بھی نہ ہو۔
|