Wednesday, 25 June 2025

کلماتِ کفر، ایمان اور منافقت

کلمات، واضح اور ظاہری دلیل-نشانی-علامت ہوتے ہیں، دل میں ایمان اور کفر ونفاق کی۔
کلماتِ کفر:
القرآن:
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے اور کہتے ہیں کہ کچھ (رسولوں) پر تو ہم ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں، اور (اس طرح) وہ چاہتے ہیں کہ) کفر اور ایمان کے درمیان) ایک بیچ کی راہ نکال لیں۔
[سورۃ نمبر 4 النساء،آیت نمبر 150]

القرآن:
اور انہی میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے ہیں جو کتاب (یعنی تورات) پڑھتے وقت اپنی زبانوں کو مروڑتے ہیں تاکہ تم (ان کی مروڑ کر بنائی ہوئی) اس عبارت کو کتاب کا حصہ سمجھو، حالانکہ وہ کتاب کا حصہ نہیں ہوتی، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ (عبارت) اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 78]

القرآن:
یہودی تو یہ کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، (28) اور نصرانی یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ سب ان کی منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ یہ ان لوگوں کی سی باتیں کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں۔ (29) اللہ کی مار ہو ان پر ! یہ کہاں اوندھے بہکے جارہے ہیں ؟
[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 30]
تفسیر:
(28) حضرت عزیر ؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے، (ان کو بائبل میں عزرا کے نام سے یاد کیا گیا ہے، اور ایک پوری کتاب ان کے نام سے منسوب ہے) اور جب بخت نصر کے حملے میں تورات کے نسخے ناپید ہوگئے تھے تو انہوں نے اپنی یادداشت سے دوبارہ لکھوایا تھا، اور شائد اسی وجہ سے بعض یہودی انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے لگے تھے، یہاں یہ واضح رہے کہ ان کا بیٹا ماننے کا عقیدہ سب یہودیوں کا نہیں ہے ؛ بلکہ بعض یہودیوں کا ہے جو عرب میں بھی آباد تھے۔
 (29) اس سے مراد غالباً عرب کے مشرکین ہیں جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔


القرآن:
وہ لوگ (بھی) یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ : اللہ تین میں کا تیسرا ہے (49) حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر یہ لوگ اپنی اس بات سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے (ایسے) کفر کا ارتکاب کیا ہے، ان کو دردناک عذاب پکڑ کر رہے گا۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة،آیت نمبر 73]
تفسیر:
(49)یہ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی طرف اشارہ ہے، اس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ خدا تین اقانیم (presons) کا مجموعہ ہے، ایک باپ (یعنی اللہ) ایک بیٹا (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام) اور ایک روح القدس اور بعض فرقے اس بات کے بھی قائل تھے کہ تیسری حضرت مریم ؓ ہیں وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تینوں مل کر ایک ہیں، یہ تینوں مل کر ایک کس طرح ہیں، اس معمے کا کوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں ہے، اس لئے ان کے متکلمین (theologians) نے اس عقیدے کی مختلف تعبیریں اختیار کی ہیں۔
 بعض نے تو یہ کہا کہ حضرت مسیح ؑ صرف خدا تھے انسان نہیں تھے، آیت نمبر 72 میں ان کے عقیدے کو کفر قرار دیا گیا ہے، اور بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ خدا تین اقانیم کا مجموعہ ہے، ان میں سے ایک باپ یعنی اللہ ہے دوسرا بیٹا ہے جو اللہ کی ایک صفت ہے جو انسانی وجود میں حلول کرکے حضرت عیسیٰ ؑ کی شکل میں آگئی تھی، لہذا وہ انسان بھی تھے اور اپنی اصل کے اعتبار سے خدا بھی تھے، آیت نمبر 73 میں اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے، عیسائیوں کے ان عقائد کی تفصیل اور ان کی تردید کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب عیسائیت کیا ہے۔



















کلمات کفر اور اس کے موجبات:

تعریفِ کفر:
جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اس سے انکار کرنا کفر ہے وہ ایک ہی چیز کا انکار ہو جو بالاتفاق تواتر سے ثابت ہو پس کفر ایمان کی ضد ہے۔

شرائطِ لزومِ کفر:
1. عقل یعنی نشہ اور بیہوشی نہ ہو۔
2. قصد یا ارادے سے ہو یعنی غلطی اور سہو سے نہ ہو۔
3. اختیار سے یعنی قتل وغیرہ کا جبر و اکراہ نہ ہو۔

احکامِ کفر:
اگر کوئی مسلمان کافر ہو جائے تو اس کے لئے یہ چار احکام ہیں:
1. اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔
2. اس کا ذبیحہ حرام ہو جاتا ہے۔
3. شرعی قاضی اس کو مرتد کی سزا دے سکتا ہے۔
4. اس کے نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر ترک اسلام کا ارادہ نہ ہو بلکہ کسی سے نادانی سے کفر کی بات واقع ہو جائے تو احتیاطا اس کو دوبارہ نکاح کرنا واجب ہے اور اس کا ذبیحہ پھینک دیا جائے اور اس کو کفر سے توبہ کرنی چاہیے۔

وہ چیزیں جن سے کفر لازم ہو جاتا ہے:
قسم اول
1. جس کی فرضیت قرآن مجید کی ظاہر عبارت سے یا حدیثِ متواتر سے معلوم ہو جائے اس کا انکار کرنا۔ جیسے: نماز، روزہ، حج و زکات وغیرہ۔
2. حلال کو حرام اور حرام کو حلال جاننا۔ جبکہ وہ دلیلِ قطعی سے ثابت ہو اور حرام لعینہ ہو جیسے: سود، زنا، جھوٹ بولنا۔ناحق قتل کرنا وغیرہ۔
3. اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنا۔
4. اللہ تعالیٰ کی کسی صفات کا انکار کرنا۔
5. اللہ تعالیٰ کے کسی نام کا انکار (خواہ ذاتی ہو یا صفاتی)۔
6. اللہ تعالیٰ ۔کے لئے کوئی بری صفت ثابت کرنا یا اِہانت(توہین) کرنا۔ مثلاً یوں کہنا ( نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ ظلم کرتا ہے، یا بھائی بہن اور اولاد والا ہے وغیرہ۔
7. جھوٹی باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ کرنا یا قسم کھانا، کیونکہ یہ اِہانت میں داخل ہے۔
8. اللہ تعالیٰ کے قطعی احکام میں سے کسی حکم کا انکار۔
9. اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا۔
010 فرشتوں کا انکار۔
11. کسی کتاب الہی اور اس کے جز کا انکار یا توہین کرنا۔
12. کسی نبی کا انکار یا اہانت کرنا۔
13. تقدیر کا انکار کرنا۔
14. قیامت اور حشر و نشر کا انکار کرنا۔

قسمِ دوم
وہ کلمات ہیں جن سے اشارہ انکار ثابت ہو مثلاً کسی نجومی یا کاہن کو سچا کہنا۔

قسمِ سوم
وہ کلمات ہیں جن سے شک صراحت ثابت ہو مثلاً: کسی نے کہا مجھے اللہ کے کریم یا رزاق یا عادل ہونے میں شک ہے، یا کہا کا مجھے فرشتوں یا اللہ تعالیٰ کے رسولوں یا کتابوں کے وجود میں شک ہے، یا قیامت کے ہونے میں شک ہے، یا کسی اور قطعی الثبوت چیز میں شک کیا۔

قسمِ چہارم
وہ کلمات ہیں جن سے اشارۃً شک ثابت ہو، مثلاً کسی نے کہا کہ جنت میں مومنوں کو بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی اور کافر کو دوزخ میں بڑے بڑے عذاب ملیں گے، اس نے سن کر کہا" کیا خبر"؟

قسمِ پنجم
وہ افعال ہیں جن سے انکار یا شک صراحتاً یا اشارۃً سمجھا جائے۔ مثلاً: کسی نے اِہانت کی "غرض" سے قران مجید کو نجاست یا آگ میں ڈال یا اہانت کی "غرض" سے کعبہ کی طرف پیشاب کیا، بعض علماء کے نزدیک جہالت عذر نہیں ہے۔ پس بے خبری میں کلمہ کفر کہنے سے بھی کافر ہو جائے گا۔
بعض کے نزدیک جہالت عذر ہے وہ کافر نہیں ہوا، البتہ دوبارہ نکاح پڑھوانا اور توبہ کرنی چاہیے۔
کسی نے جس وقت کفر کی "نیت" کی اسی وقت کافر ہو گیا۔ خواہ "نیت" کتنی ہی مدت بعد کے لئے ہو۔ مفتی کے لئے ضروری ہے کہ جب تک کسی سے کفر لازم کرنے والی بات نہ دیکھے بے دھڑک کسی مسلمان کو کافر نہ بتادیا کرے ہو سکتا ہے کہ اس سے بلا قصد کلمۂ کفر نکل گیا ہو، یا اس بات کے معنیٰ سمجھ میں نہ آئے ہوں۔ علماء نے لکھا ہے کہ جس مسئلے میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال اسلام کا ہو تو مفتی اور قاضی کو اس ایک احتمال اسلام پر فتوی دینا چاہئے۔ اگر کوئی شخص کلمۂ کفر کہے اور پھر انکار کر دے تو یہ بھی ایک قسم کی توبہ ہے اور اس کو کافر کہنا جائز نہیں ہے۔
ایمان سے زیادہ کوئی نعمت نہیں۔ اس کی ہر وقت حفاظت کرنا واجب ہے اور اس کے ترقی کے لئے ہر وقت گناہوں سے بچنا اور عبادت میں لگے رہنا ضروری ہے، یہ نہ سوچے کہ پھر کبھی توبہ کر لیں گے، معلوم نہیں کس وقت موت آ جائے اور توبہ کی مہلت ملے یا نہ ملے، پس ہر وقت توبہ استغفار کرتے رہنا چاہئے۔


اللہ، رسول اور قرآن کا استہزاء بھی کفر ہے۔
القرآن:
اور اگر تم ان سے پوچھو تو یہ یقینا یوں کہیں گے کہ : ہم تو ہنسی مذاق اور کھیل(دل لگی) کر رہے تھے۔ کہو کہ : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ استہزاء (ہنسی مذاق) کر رہے تھے؟ بہانے نہ بناؤ، تم ایمان کا اظہار کرنے کے بعد کفر کے مرتکب ہوچکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معافی دے بھی دیں تو دوسرے گروہ کو ضرور سزا دیں گے۔ (58) کیونکہ وہ مجرم لوگ ہیں۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 65-66]
تفسیر:
(58) یعنی منافقوں میں سے جو لوگ نفاق سے توبہ کرلیں گے انہیں معاف کردیا جائے گا، اور جو توبہ نہیں کریں گے انہیں ضرور سزا ملے گی۔


منافق کون؟
القرآن:
یہی (فاسق) تو (منافق) ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو، یہاں تک کہ یہ خود ہی منتشر ہوجائیں گے، (7) حالانکہ آسمانوں اور زمین کے تمام خزانے اللہ ہی کے ہیں، لیکن منافق لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔
[سورۃ نمبر 63 المنافقون،آیت نمبر 7]
تفسیر:
(7) سورت کے تعارف میں جو واقعہ اوپر آچکا ہے، اس میں یہ بات عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہی تھی کہ مسلمانوں پر اپنا مال خرچ کرنا بند کردو، اس کے نتیجے میں معاذ اللہ صحابہ آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔























تکفیر کے اصول و ضوابط



ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:




اول:




کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ اختیار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے؛ کیونکہ کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا ان شرعی احکام سے تعلق رکھتا ہے جن کی بنیاد کتاب و سنت ہوتی ہے، اسی لئے اس معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہے ؛ اور صرف اسی کو کافر یا فاسق کہا جائے گا جس کے کافر یا فاسق ہونے کے متعلق کتاب و سنت میں دلائل موجود ہیں۔




بنیادی طور پر کوئی بھی مسلمان جب تک وہ علانیہ طور پر دین پر عمل پیرا ہو تو اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا، تا آنکہ شرعی دلائل کی رو سے اس کا دائرہ اسلام سے خارج ہونا ثابت ہو جائے۔




کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے میں کوتاہی برتنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں دو بڑی خرابیاں ہیں:




1- کسی پر حکم لگانا درحقیقت اللہ تعالی پر بہتان بازی ہے، نیز کسی پر جو حکم لگایا جا رہا ہے وہ حکم اس شخص کے بارے میں بھی بہتان ہے۔




2- اگر وہ شخص متعلقہ الزام سے بری ہو تو انسان کو برے لقب دینے کے زمرے میں بھی آتا ہے۔




صحیح بخاری: (6104) اور مسلم: (60) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا: (جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر قرار دیتا ہے تو وہ حکم ان دونوں میں سے ایک پر لاگو ہو جاتا ہے) اسی حدیث کے ایک اور الفاظ یہ بھی ہیں کہ: (اگر تو وہ ایسا ہی تھا جیسا اس نے کہا [تو ٹھیک] بصورتِ دیگر وہ حکم اسی پر لوٹ جائے گا)




دوم:




اس لیے کسی بھی مسلمان پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے قبل دو چیزوں کو دیکھنا ضروری ہے:




1- کتاب و سنت میں یہ بات واضح ہو کہ یہ قول یا فعل کفر یا فسق کا موجب ہے۔




2- کفر یا فسق کا حکم معین شخص پر لاگو ہوتا ہو، یعنی کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے کی شرائط پوری ہوں اور اسے کافر یا فاسق قرار دینے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔




اس کی اہم ترین شرائط درج ذیل ہیں:




I. مرتکب خطا کو علم ہو کہ اس کی جو غلطی ہے وہ اس کے کافر یا فاسق ہونے کی موجب ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:




( وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً )

ترجمہ: اور جو ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے علاوہ کسی اور راستے پر چلے تو ہم اسے اسی راستے کے سپرد کر دیتے ہیں جس پر وہ چلا ہے، اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گےاور وہ بد ترین ٹھکانا ہے۔[النساء:115 ]




اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ )

ترجمہ: اللہ تعالی کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا، تاآنکہ ان پر یہ واضح نہ کر دے کہ انہیں کن کن باتوں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالی یقیناً ہر چیز کو جاننے والا ہے [ التوبہ:115]




چنانچہ اس لیے اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی شخص نو مسلم ہے اور وہ کسی فریضے کا انکار کر دیتا ہے تو وہ اس وقت تک کافر نہیں ہو گا جب تک اسے اس فریضے کے بارے میں بتلا نہ دیا جائے۔




II. کسی پر کفر یا فسق کا حکم لگانے کیلیے موانع میں سے ایک یہ ہے کہ کفر یا فسق کا موجب بننے والا عمل غیر ارادی طور پر سر زد ہو جائے، اس کی متعدد صورتیں ہیں، مثلاً:




* اس سے کفریا فسق والا عمل جبراً کروایا جائے، چنانچہ وہ شخص جبر کی وجہ سے مجبور ہو کر وہ کام کرے، دلی طور پر راضی ہو کر نہ کرے، تو ایسی صورت میں اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:




(مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْأِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ)

ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے رضا مندی سے کفر کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ [النحل:106]




* اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اسے انتہا درجے کی فرحت ، یا غم یا خوف وغیرہ کی وجہ سے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ گیا ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم: (2744) میں ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کو اپنے بندے کے توبہ کرنے پر اس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جب تم میں سے کسی کی سواری کھلے کھانے پینے کے سامن کے ساتھ چٹیل میدان میں گم ہو جائے اور وہ مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے تلے مایوسی کی حالت میں ہی سو جائے ، ابھی وہ اسی افسردگی کے عالم میں ہو تو اپنی سواری پاس کھڑی ہو ئی پائے تو وہ سواری کی مہار پکڑ کر شدت فرحت کی بنا پر غلطی سے کہہ دے: یا اللہ! تو میرا بندہ میں تیرا اللہ!)




III. ایک مانع یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اس کام میں تاویل کر رہا ہو، مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ کچی باتیں ہو جنہیں وہ حقیقی دلائل سمجھ کر یہ عمل کر رہا ہو، یا اسے شرعی حجت اور دلیل صحیح انداز سے سمجھ نہ آئی ہو، تو ایسی صورت میں اسی وقت کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب شرعی مخالفت عمداً ہو اور جہالت رفع ہو جائے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:




(ولَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً)

ترجمہ: جن کاموں میں تم سے خطا ہو جائے تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن [گناہ اس میں ہے جس میں] تم عمداً خطا کرو۔ اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [الأحزاب:5]




ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (23/349) میں کہتے ہیں:

"امام احمد رحمہ اللہ نے ان مسلمان خلیفوں پر بھی "رحمہ اللہ" کہتے ہوئے دعا کی ہے جنہوں نے جہمی نظریات سے متاثر ہو کر قرآن مجید کو مخلوق سمجھ لیا تھا اور اسی موقف کے داعی بن گئے تھے، امام احمد نے ان کیلیے دعائے مغفرت بھی کی؛ کیونکہ امام احمد جانتے تھے کہ ان مسلمان خلفائے کرام پر یہ بات واضح ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ [قرآن کریم کو مخلوق مانتے ہوئے]غلط ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں، نہ انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں، انہوں نے تاویل کی تھی اور اسی تاویل میں انہیں غلطی لگی، اور ایسے لوگوں کی تقلید کر بیٹھے جو خلق قرآن کے قائل تھے" انتہی




اسی طرح "مجموع الفتاوى" (12/180) کی ایک اور جگہ کہتے ہیں:

"کسی کو کافر قرار دینے کے متعلق صحیح قول یہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے جو شخص تلاش حق کیلیے جد و جہد کرے اور غلطی کا شکار ہو جائے تو اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کی یہ غلطی معاف کر دی جائے گی۔ البتہ جس شخص کیلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی بات کا علم ہو گیا اور اس کے با وجود ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی مومنین کا راستہ نہ اپنائے تو وہ کافر ہے۔اور اگر ہوس پرستی کے غلبہ میں تلاش حق میں کوتاہی کا مرتکب ہو جاتا ہے اور لا علمی کے باوجود شرعی امور میں گفتگو کرتا ہے تو وہ نافرمان اور گناہگار ہے اس لیے وہ فاسق ہو گا، ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں اس کے گناہوں سے زیادہ ہوں" انتہا




ایک اور مقام (3/229)پر آپ کہتے ہیں:

" میں ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں اور میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کسی معین شخص کو کافر، فاسق یا گناہگار کہنے کا سخت مخالف ہوں اور اس سے روکتا ہوں، صرف ایک حالت میں[معین طور پر کافر ہونے کا حکم لگاتا ہوں جب] کہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص پر وحی کی حجت قائم ہو گئی ہے؛ کہ جس کی مخالفت کرنے پر انسان بسا اوقات کافر، تو کبھی فاسق یا بعض حالات میں گناہگار ہو جاتا ہے۔ اور میں یہ بات پختگی سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اس امت کے خطا سے ہونے والے گناہ معاف کر دئیے ہیں، اور خطا سے ہونے والے گناہوں میں وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کا تعلق خبری [یعنی نظریاتی] اور عملی [یعنی فقہی] مسائل سے ہے۔ سلف صالحین کا شروع سے اس قسم کے مسائل میں اختلاف چلا آ رہا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی دوسروں پر کفر، فاسق اور گناہگار ہونے کا فتوی نہیں لگایا"۔۔۔ پھر اس کی مثالیں ذکر کرنے کے بعد کہا:

"میں یہ بات واضح کرتا رہا ہوں کہ سلف صالحین اور ائمہ کرام کی جانب سے مطلق طور پر کسی کی تکفیر کا حکم جو نقل کیا گیا ہے کہ "جو فلاں فلاں بات کہے وہ کافر ہے" یہ بھی حق بات ہے؛ لیکن یہاں مطلق طور پر کسی فعل کے فاعل کو کافر قرار دینا اور معین کر کے کسی کو کافر کہنے میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔"۔۔۔پھر کہتے ہیں:

"کسی کو کافر قرار دینا "وعید" سے تعلق رکھتا ہے؛ چنانچہ اگرچہ کسی شخص کی کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر مشتمل ہو لیکن چونکہ وہ نو مسلم ہے اس نے ابھی اسلام قبول کیا ہے ، یا کسی [علم و معرفت سے دور ]پسماندہ علاقے کا وہ رہائشی ہے تو ایسے شخص کو اس کے انکار اور تکذیب کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا تاآنکہ اس پر حجت قائم ہو جائے؛ کیونکہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس شخص نے یہ نصوص سنی ہی نہ ہوں! یا سنی تو ہوں لیکن انہیں سمجھا ہی نہ ہو! یا اس کے پاس اس سے متصادم یا معارض کوئی شبہ ہو جس کی وجہ سے وہ ان نصوص میں غلط طور پر تاویل کرتا ہو۔




میں ہمیشہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث اپنے ذہن میں رکھتا ہوں جس میں ایک شخص کا ذکر ہے جو کہ کہتا ہے: (جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پھر مجھے پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کسی کو اس نے اس سے پہلے اتنا عذاب نہیں دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا اور فرمایا: اس آدمی کا جو حصہ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کر دو، تو زمین سے اسے جمع کر دیا اور وہ زندہ کھڑا ہو گیا۔ تو اللہ تعالی نے پوچھا: تمہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: پروردگار! تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا) حدیث میں مذکور اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک ہوا تھا کہ اگر اسے پیس کر اڑا دیا گیا تو اللہ تعالی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا، بلکہ اس کا عقیدہ بن گیا کہ وہ دوبارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا۔ تو یہ بات تمام مسلمانوں کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے؛ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی قدرت سے نابلد تھا ، اور ساتھ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایمان بھی رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔




تو اب جو شخص اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا ہو اور تاویل کر رہا ہوں ساتھ میں اس کی کوشش یہ بھی ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند بھی رہے تو ایسا شخص حدیث میں مذکور شخص سے زیادہ مغفرت کا حق دار ہے۔" ختم شد




(یہ گفتگو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب: "القواعد المثلی" کے آخر سے لی گئی ہے، ساتھ میں کچھ اضافے بھی ہیں)




اگر تکفیر کا معاملہ اتنا ہی حساس ہے اور تکفیر میں ہونے والی غلطی کے نتائج بھی بہت سنگین ہیں تو ایک مبتدی طالب علم تو کجا ایک بڑے طالب علم کو بھی ایسے مسائل میں نہیں پڑنا چاہیے، اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ علم نافع کے حصول کیلیے کوشش کرے جس سے اس کی دنیا اور آخرت دونوں اچھی ہوں۔




سوم:




اس سے پہلے کہ آپ کو اس بارے میں کتابوں کا مشورہ دیں، ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اہل علم اور اہل سنت علمائے کرام سے براہِ راست حصول علم کی کوشش کریں؛ کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جو آسان بھی ہے اور پر امن بھی ہے؛ تاہم اس کیلیے شرط یہ ہے کہ آپ صرف انہی سے علم حاصل کریں جن کے علم اور دینداری پر آپ کو اعتماد ہو، وہ متبع سنت بھی ہو اور فکری اور عملی بدعات سے دور بھی ہو۔




محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ علم دین ہے اس لیے جن سے تم اپنا دین لے رہے ہو انہیں پرکھ لینا" امام مسلم رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب کے مقدمے میں بیان کیا ہے۔




اگر جہاں آپ رہتے ہیں وہاں پر حصولِ علم کیلیے کوئی عالم دین میسر نہ ہوں تو پھر آپ ان کی کیسٹس سے تعاون لے سکتے ہیں، اب تو انہیں سی ڈی پر حاصل کرنا بھی آسان ہو چکا ہے، بلکہ -الحمد للہ- اسلامی ویب سائٹس سے حاصل کرنا مزید آسان ہے۔




اسی طرح آپ کسی بڑے عالم دین نہ سہی لیکن حصول علم کیلیے تڑپ رکھنے والے اچھے اور متبع سنت طالب علم سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں ، اور ایسے افراد سے شاید ہی کوئی جگہ خالی ہوتی ہے۔




چہارم:




ہم آپ کو جن کتابوں کو مطالعہ میں شامل کرنے کی تلقین کرتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:




1- تفسیر میں: تفسیر شیخ ابن سعدی، اور تفسیر ابن کثیر۔




2- حدیث میں: اربعین نووی مع شرح، اسی طرح جامع العلوم والحکم از ابن رجب ، یہ پڑھنے کے بعد آپ ریاض الصالحین پر بھر پور توجہ دیں یہ بہت ہی بابرکت کتاب ہے، ریاض الصالحین کے ساتھ آپ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی شرح ریاض الصالحین سے مستفید ہو سکتے ہیں۔




3- کتب عقیدہ: آپ کتاب التوحید از شیخ محمد بن عبدالوہاب پڑھیں اس کے ساتھ اس کی کوئی بھی شرح ملا لیں، ایسے ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب عقیدہ واسطیہ بھی پڑھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مختصر رسائل بھی کتب عقیدہ میں شامل کریں، جیسے کہ : ابن رجب کی کتاب " تحقيق كلمة الإخلاص " اور اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب: "التحفة العراقية في الأعمال القلبية"




4- ایسے ہی آپ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب زاد المعاد پڑھیں، انہی کی کتاب الوابل الصیب اور الداء و الدواء کا مطالعہ کریں۔




یہ ابتدائی مرحلے کی کتابیں ہیں ، آپ ان کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اگر کسی ایسے ساتھی کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو آپ کی ان کتب کے پڑھنے میں معاونت کرے تو اس سے آپ کی معلومات میں بتدریج خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ






واللہ اعلم.



کفر-شرک کا کفارہ:ایمانی-توحیدی کلمہ


ایمانی کلمات:



















ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

اول:

ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ عقیدہ توحید مضبوط بنائے، کتاب و سنت کو  سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھے، بدعات اور بدعتی لوگوں سے دور رہے، لہذا یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے منہج اور راستے سے یکسر دور رہے۔

دوم:

کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے میں کوتاہی برتنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے اللہ تعالی پر اور مسلمان بندوں پر بہتان بازی لازم آتی ہے،  کسی بھی مسلمان کو کافر یا فاسق قرار دینا جائز نہیں ہے، تا آنکہ شرعی دلائل کی رو سے اس کے قول یا فعل کی بنا پر اس شخص کا دائرہ اسلام سے خارج ہونا ثابت ہو جائے۔

اسی طرح کسی بھی مسلمان کو کافر یا فاسق اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جب کس کو کافر یا فاسق قرار دینے کی شرائط پوری ہو جائیں اور درمیان میں کوئی مانع بھی نہ ہو۔

ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ:  اسے  اس غلطی  کا علم ہو جو اس کے کافر یا فاسق ہونے کی موجب ہے

اور ایک مانع یہ ہے  کہ: وہ اپنے اس کام میں تاویل کر رہا ہو، مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ کچی باتیں ہو جنہیں وہ حقیقی دلائل سمجھ کر یہ عمل کر رہا ہو، یا اسے شرعی حجت اور دلیل صحیح انداز سے سمجھ نہ آئی ہو، تو ایسی صورت میں اسی وقت کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب  شرعی مخالفت عمداً ہو اور جہالت رفع ہو جائے۔

تکفیر کے ضوابط جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (85102) کا جواب ملاحظہ فرمائیں

سوم:

کسی مسئلے سے لا علمی اور اس لاعلمی کو عذر قبول کرنے کے متعلق صائب موقف یہ ہے کہ:

اگر کسی شخص کا مسلمان ہونا مسلمہ ہو تو وہ شخص کچی باتوں اور بودے دلائل کی وجہ سے  اسلام سے خارج نہیں ہو گا؛ چنانچہ ایسے شخص سے اسلام کا وصف یقینی دلائل  سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے جو کہ اس وقت ہو گا جب اس پر وحی کے مطابق حجت پوری ہو اور اس کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔

شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر ہم کسی ایسے شخص کو کافر نہیں کہتے جو عبدالقادر جیلانی کی قبر پر موجود صنم  کی پرستش کرتا ہے  اور احمد بدوی وغیرہ کی قبر پر موجود صنم کی پرستش کرتا ہے ؛ کیونکہ وہ جاہل ہیں اور انہیں ان کی اس غلطی پر تنبیہ کرنے والا کوئی نہیں ہے، تو ہم محض ہماری طرف ہجرت کر کے نہ آنے والے شخص کو کافر قرار کیسے دے سکتے ہیں حالانکہ اس سے تو کوئی شرک بھی سر زد نہیں ہوا نہ ہی اس نے کوئی کفریہ کام کیا ہے اور نہ ہی اس نے تلوار اٹھائی ہے، اللہ پاک ہے یہ تو عظیم بہتان  ہے۔" ختم شد از  " الدرر السنية " (1/104)

اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ غیر عرب  لوگ ایسے ملکوں اور معاشروں میں پروان چڑھتے ہیں  جن کی اکثریت دین اسلام کے احکام اور تعلیمات سے نابلد ہوتی ہے، خصوصاً  عقیدے اور وحدانیت سے متعلق امور  سے وہ نابلد ہوتے ہیں، تاہم وہ کلی اور اجمالی طور پر ایمان رکھتے ہیں لیکن تفصیلات سے جاہل ہوتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی کو کافر قرار دینا "وعید" سے تعلق رکھتا ہے؛ چنانچہ اگرچہ کسی شخص کی کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر مشتمل ہو  لیکن چونکہ وہ نو مسلم ہے اس نے ابھی اسلام قبول کیا ہے ، یا کسی [علم و معرفت سے دور ]پسماندہ علاقے کا وہ رہائشی ہے تو ایسے شخص کو اس کے انکار اور تکذیب کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا تاآنکہ اس پر حجت قائم ہو جائے؛ کیونکہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس شخص نے یہ نصوص سنی ہی نہ ہوں! یا سنی تو ہوں لیکن انہیں سمجھا ہی نہ ہو! یا اس کے پاس اس سے متصادم یا معارض کوئی شبہ ہو جس کی وجہ سے وہ ان نصوص میں غلط طور پر تاویل کرتا ہو۔

میں ہمیشہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث اپنے ذہن میں رکھتا ہوں  جس میں ایک شخص کا ذکر ہے جو کہ کہتا ہے: (جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پھر مجھے پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے پکڑ لیا  تو مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کسی کو اس نے اس سے پہلے اتنا عذاب نہیں دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا  اور فرمایا: اس آدمی کا جو حصہ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کر دو، تو زمین نے اسے جمع کر دیا اور وہ زندہ کھڑا ہو گیا۔ تو اللہ تعالی نے پوچھا: تمہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: پروردگار! تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا)  حدیث میں مذکور اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک ہوا تھا کہ اگر اسے پیس کر اڑا دیا گیا تو اللہ تعالی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا، بلکہ اس کا عقیدہ  بن گیا کہ وہ دوبارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا۔ تو یہ بات تمام مسلمانوں کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے؛ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی قدرت سے نابلد تھا ، اور ساتھ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایمان بھی رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔

تو اب جو شخص اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا ہو اور تاویل کر رہا ہوں ساتھ میں اس کی کوشش یہ بھی ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند بھی رہے تو ایسا شخص حدیث میں مذکور شخص سے زیادہ  مغفرت کا حق دار ہے۔" ختم شد

اسی طرح ایک جگہ پر رقمطراز ہیں:
" بہت سے لوگ ایسی جگہوں یا وقت میں نشو و نما پاتے ہیں جہاں علم نبوت  میں سے بہت سی چیزیں مٹ چکی ہوتی ہیں، حتی کہ وہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی کتاب و حکمت کی تبلیغ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ایسی بہت سی باتیں وہاں کے لوگ نہیں جانتے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہوتا ہے اور نہ ہی وہاں پر اس کی تبلیغ کرنے والا کوئی ہوتا ہے، تو ایسے ماحول کا آدمی کافر نہیں ہو گا؛ اسی لیے ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اہل علم سے دور دراز کے علاقے میں پروان چڑھے اور وہ نو مسلم بھی ہو تو  اس حالت میں کسی مشہور و معروف متواتر عمل کا انکار کر دے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا یہاں تک کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آشنا نہ کر دیا جائے" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (11/407)

اگر وہ قرآن مجید کے ترجمہ کو سمجھ سکتے ہیں تو یہ بات کافی نہیں ہے، بلکہ اگر وہ اپنی زبان میں ترجمہ پڑھ بھی سکتے ہیں تب بھی یہ کافی نہیں ہے؛ کیونکہ کتنے ہی عربی زبان جاننے اور سمجھنے والے ہیں بلکہ عربی زبان کے اسالیب سے بھی واقف ہیں  لیکن پھر بھی انہیں کتاب و سنت کی بعض نصوص سمجھ نہیں آتیں کہ جس سے ان کی غلطی واضح ہو یا ان کے موقف کا غلط ہونا ثابت ہو، یا انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ چیز شرک ہے یا نہیں!؟

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " التفرقة بين الإيمان والزندقة " میں کہا ہے کہ: کسی کو کافر قرار دینے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ نماز پڑھنے والے اور عقیدہ توحید کا اقرار کرنے والے لوگوں کا قتل جائز سمجھنا بہت ہی سنگین غلطی ہے اور [اس کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ] ایک  ہزار [جنگجو]کافروں کو غلطی سے جینے کا موقع فراہم کرنا اتنا بڑا گناہ نہیں ہے جتنا ایک مسلمان کا خون بہانے کا ہے" ختم شد
"فتح الباری" (12/300)

یہاں سائل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ان عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کو صحیح بات پہنچانے کیلیے خوب کوشش کرے، انہیں عقیدہ توحید اور سنت  کی تبلیغ کرے، ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرے، اگر وہ رو گردانی کرتے ہیں  یا سختی سے پیش آتے ہیں تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرے؛ کیونکہ دعوت کے میدان میں صبر کے وقت انسان عظیم ترین مقام پر فائز ہوتا ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ * وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ * وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ * وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ )
ترجمہ: اللہ کی جانب دعوت دینے والے سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے  جو نیک عمل خود بھی کرتا ہے اور کہتا ہے میں اللہ کے فرمانبرداروں میں سے ہوں ٭ نیکی اور برائی دونوں برابر نہیں ہو سکتے، برائی کو بہترین اسلوب سے مٹائیں تو جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ  بھی جگری دوست بن جائے گا ٭ ان لوگوں کو یہ خوبی حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو بڑے نصیب والے ہیں ٭  اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو  یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے [فصلت: 33-36]

واللہ اعلم.




شرکیہ اور کفریہ مسائل میں جہالت کے بطور عذر قبول ہونے کے شرعی دلائل:

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

کفریہ یا شرکیہ عمل کرنے والا شخص  دو حال سے خالی نہیں ہو گا:

اول:

ایسا شخص غیر مسلم ہو چاہے وہ کسی دین کا قائل ہو یا لا دین  اور ملحد شخص ہو

تو ایسی صورت میں وہ شخص کافر ہے، چاہے وہ علم رکھتا ہو یا جاہل ہو یا تاویل کرتا ہو، اس پر دنیا میں اسلامی احکامات  لاگو نہیں ہوں گے، لہذا اس کے ساتھ کفار والا معاملہ کیا جائے گا؛ کیونکہ یہ شخص تو اسلام میں بالکل بھی داخل ہی نہیں ہوا، تو ایسے شخص پر اسلام کا حکم کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟! نہ ہی وہ اپنی نسبت اسلام کی جانب کرتا ہے!؟

البتہ آخرت میں  یہ ہو گا کہ: اگر وہ جاہل ہے اور اسے اسلام کی دعوت بالکل نہیں پہنچی ، یا دعوت تو اس کی اپنی زبان میں پہنچی لیکن وہ بھی اسلام کی مسخ  اور تبدیل شدہ صورت تھی  کہ جس کی بنا پر حجت قائم نہیں ہو سکتی تھی تو پھر ایسے شخص کے بارے میں آخرت کے روز کیا ہو گا اس کے متعلق طویل و عریض اختلاف ہے۔

اس کے بارے میں راجح ترین موقف یہ ہے کہ:  قیامت کے دن اس کا امتحان لیا جائے گا؛ چنانچہ اگر وہ اطاعت گزاری کرے تو جنت میں داخل ہو جائے گا اور اگر نافرمانی کی تو جہنم میں جائے گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور بہت سے ایسے آثار ملتے ہیں کہ جسے دنیا میں اسلام کا پیغام نہ پہنچا تو قیامت کے دن اس کی جانب میدان محشر میں ایک پیغمبر بھیجا جائے گا" انتہی
"مجموع الفتاوى" (17/308)

اس کے بارے میں پہلے بھی سوال نمبر:  (1244) اور ( 215066) کے جواب میں تفصیل گزر چکی ہے۔

دوم:

کفریہ یا شرکیہ عمل کرنے والا انسان اسلام کا دعوے دار ہو اور واقعی اس میں اسلام کا وصف پایا بھی جائے، اعلانیہ طور پر اسلام کا اقرار کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل تصدیق بھی اعلانیہ کرے ۔

تو اگر ایسا شخص  لاعلمی کی بنا پر جہالت کی وجہ سے کوئی کفریہ کام کر لے تو اسے اس بنا پر کافر نہیں کہا جائے گا، اور اس وقت تک وہ اسلام کے وصف سے خارج نہیں ہو گا جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر دلائل واضح نہ ہو جائیں۔

شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے، دونوں کی تصدیق کرتا ہے، دونوں کی اطاعت کی پابندی بھی کرتا ہے  لیکن جہالت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے بعض احکامات کا انکار کر دے ، یا اسے یہ علم ہی نہیں ہے کہ یہ تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہیں [اور وہ ان کا انکار کر دیتا ہے] تو اگرچہ اس کا یہ عمل اصل میں کفر  ہے، اور یہ عمل کرنے والا کافر ٹھہرتا  ہے، لیکن اس شخص کی جہالت  اس کو کافر قرار دینے میں مانع آتی ہے، [جہالت کے مانع ہونے کیلیے ] عقیدے یا فقہی مسائل میں فرق بھی نہیں کیا جائےگا؛ کیونکہ کفر کا مطلب یہ ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی سب یا کچھ تعلیمات کا علم ہوتے ہوئے  انکار کر دیا جائے ۔

اس سے آپ کو یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ رسول کا انکار کرنے والے مقلد کفار   اور جہالت اور گمراہی کی وجہ سے رسول کی بعض تعلیمات کا انکار کرنے والے مومن کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس فرق میں ایمان کے مدعی شخص  کا  علم اور ہٹ دھرمی پر مبنی کفریہ عمل شامل نہیں" انتہی
"الفتاوى السعدية" (ص: 443-447)

تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہالت کی بنا پر عذر قبول کرنا تمام کے تمام شرعی مسائل میں  ہے، چاہے ان کا تعلق  عقیدہ، توحید اور شرک سے ہو یا فقہی احکام سے۔

عقیدے کے مسائل میں مسلمان کا جہالت کی بنا پر عذر قبول کرنے کا ذکر متعدد شرعی دلائل میں موجود ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- ایسی تمام شرعی نصوص جن میں خطا کار کا عذر قبول کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے صحیح مسلم (126) کی روایت کے مطابق فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے)

اسی طرح:  فرمانِ باری تعالی ہے: (وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)
ترجمہ: جن امور میں تم سے خطا ہو جائے اس میں تم پر گناہ نہیں ہے، تاہم جن میں تمہارے دل عمداً خطا کریں [ان میں گناہ ہے]اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[ الأحزاب:5]

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت سے خطا ، بھول چوک اور زبردستی کروائے گئے کام معاف کر دیے ہیں)
ابن ماجہ: (2043) اس حدیث کو البانی نے حسن کہا ہے۔

تو ان تمام نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  جس شخص نے بھی بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے شرعی حکم کی مخالفت کی تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ خطا کار میں جاہل اور لا علم شخص بھی شامل ہے؛ کیونکہ ہر وہ شخص  خطا کار ہے  جو غیر ارادی طور پر حق بات  کی مخالفت کر لے۔

شیخ  عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ [معافی] عام ہے اس میں وہ تمام اہل ایمان شامل ہیں  جو غلطی سے کوئی عملی یا اعتقادی خطا کر بیٹھیں" انتہی
"الإرشاد إلى معرفة الاحكام" ص 208

ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جہالت بلا شک و شبہ خطاکاری میں شامل ہوتی ہے، اس لیے ہم یہ کہتے ہیں: اگر کوئی انسان ایسا قولی یا فعلی کام کر لے جو کفر کا موجب ہے ، لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ کفر ہے، یعنی اسے شرعی دلیل کی روشنی میں علم نہیں ہے کہ یہ کام کفر ہے؛ تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا" انتہی
"الشرح الممتع" (14/449)

ایسے ہی شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے) یہاں پر کسی ظنی یا قطعی مسئلے میں یقینی خطا کی تفریق  نہیں فرمائی۔۔۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی بھی قطعی یا ظنی مسئلے میں خطا کھانے والا شخص گناہ گار ہو گا تو ایسا شخص کتاب و سنت اور قدیم اجماع کی مخالفت کر رہا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (19/210)

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
"میں ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں اور میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ  میں کسی معین شخص کو کافر، فاسق یا گناہگار کہنے کا سخت مخالف ہوں اور اس سے روکتا ہوں، صرف ایک حالت میں[معین طور پر کافر ہونے کا حکم لگاتا ہوں جب] کہ  یہ بات معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص پر وحی کی حجت قائم ہو گئی ہے؛ کہ جس کی مخالفت کرنے پر انسان بسا اوقات کافر، تو کبھی فاسق یا بعض حالات میں گناہگار ہو جاتا ہے۔ اور میں یہ بات پختگی سے کہتا ہوں کہ  اللہ تعالی نے اس امت کے خطا سے ہونے والے گناہ معاف کر دئیے ہیں، اور خطا سے ہونے والے گناہوں میں وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کا تعلق خبری قولی [یعنی نظریاتی] اور عملی [یعنی فقہی] مسائل سے ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (3/229)

اسی طرح  ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس امت میں سے جاہل اور خطا کار شخص کوئی کفریہ یا شرکیہ عمل بھی کر لے تو وہ پھر بھی کافر یا مشرک نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس شخص کی جہالت اور خطا کاری اس وقت تک بطور عذر قبول کی جائے گی جب تک حجت اس کیلیے بالکل واضح طور پر عیاں نہیں ہو جاتی [اور حجت اس طرح عیاں ہو] کہ اس [جیسی واضح حجت ]کا منکر کافر ہو جائے۔" انتہی، ان سے یہی بات قاسمی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "محاسن التأويل" (3/161) میں بھی نقل کی ہے۔

ایسے ہی شیخ عبدالرحمن بن یحیی معلمی رحمہ للہ کہتے ہیں:
"ہم نے اگرچہ سوال کی صورتوں میں سے کسی ایک کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ: "غیر اللہ سے دعا کرنا غیر اللہ کی عبادت اور شرک ہے"  لیکن ہمارے اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر اللہ سے کوئی بھی دعا مانگنے والا مشرک بھی ہو جائے گا، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ وہ شخص مشرک ہو گا جس کے پاس غیر اللہ سے مانگتے ہوئے کوئی شرعی عذر نہ ہو، چنانچہ اگر کسی [غیر اللہ کو پکارنے والے]کا کوئی شرعی عذر بنتا ہو تو عین ممکن ہے کہ [اس شرکیہ عمل کے باوجود]وہ اللہ تعالی کا پسندیدہ بندہ ہو بلکہ افضل اور سب سے متقی شخص بھی ہو سکتا ہے" انتہی
" آثار شیخ عبد الرحمن معلمی" (3/ 826)

2- اللہ تعالی کی جانب سے بندوں پر حجت علم کے بعد ہی قائم ہوتی ہے اس بارے میں کتاب و سنت کی نصوص یہ ہیں:

جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا)
ترجمہ: اور ہم رسول مبعوث کر دینے تک عذاب دینے والے نہیں ہیں۔[ الإسراء :15]

اسی طرح ایک اور فرمان ہے:
( رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا)
ترجمہ:[ہم نے بھیجے] رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تا کہ لوگوں کیلیے اللہ تعالی پر رسولوں کے بعد حجت نہ رہے ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ [النساء:165]

اسی طرح یہ بھی ہے کہ:
(وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ) ترجمہ : اور اللہ تعالی کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا، یہاں تک کہ ان کیلیے تقوی اختیار کرنے کے ذرائع واضح فرما دیتا ہے۔[التوبہ:115]

اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ہیں جن میں یہ بات واضح ہے کہ حجت اسی وقت قائم ہوتی ہے جب تک مکلف کو علم نہ ہو جائے اور اس کیلیے واضح نہ ہو جائے۔

تو ان سب آیات میں یہ بات واضح ہے کہ : مکلف شخص سے اس وقت تک شرعی احکامات کی پابندی  کا مطالبہ نہیں ہو سکتا جب تک اسے ان کا علم نہ ہو جائے، چنانچہ جب تک اسے علم نہیں ہے تو وہ معذور سمجھا جائے گا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ " رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ " آیت کے فوائد ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس آیت میں عظیم ترین علمی فائدہ ہے کہ  جہالت کی بنا پر عذر قبول ہو گا، یہاں تک کہ عقائد کے بارے میں بھی ؛ کیونکہ رسولوں کو عقائد اور فقہی احکام دونوں دے کر بھیجا جاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص لا علم ہے ااور س کے پاس رسول کی تعلیمات نہیں پہنچتیں تو اس کے پاس اللہ کے ہاں عذر پیش کرنے کیلیے حجت موجود ہے، اور اللہ تعالی کے ہاں پیش کرنے کیلیے حجت اسی وقت موجود ہو گی جب اس کے پاس شرعی طور پر معقول عذر ہو گا" انتہی
"تفسیر سورة النساء" (2/485)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بندے پر احکامات اسی وقت لاگو ہوتے ہیں جب وہ خود ان احکامات کا ادراک کر لے یا احکامات اس تک پہنچ جائیں، چنانچہ جس طرح بندے کے ادراک سے پہلے احکامات اس پر لاگو نہیں ہوتے تو بالکل اسی طرح اگر احکامات اس تک نہ پہنچیں تو بھی اس پر احکامات لاگو نہیں ہوتے" انتہی
"بدائع الفوائد" (4/168)

ایسے ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "الرد على الإخنائي" (ص: 206) -عنزی کا تحقیق شدہ نسخہ -اس میں کہتے ہیں:
"ایسے ہی جو شخص غیر اللہ کو پکارے ، غیر اللہ کا قصد کرے تو وہ بھی مشرک ہے، اس کا عمل کفر ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل کے شرک ہونے  سے نابلد ہو۔

جیسے کہ بہت سے تاتاری اور دیگر لوگ جب اسلام میں داخل ہوئے تو ان کے پاس اون کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بت تھے ، یہ لوگ اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی ان کی تعظیم کرتے ان کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ دینِ اسلام میں حرام ہے، اسی طرح کچھ آگ کی پرستش کرتے تھے لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ حرام ہے۔ لہذا یہ ممکن ہے کہ شرک کی بہت سی اقسام  نو مسلموں سے اوجھل رہ جائیں اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ یہ شرک ہے، تو ایسا شخص گمراہ  کہلائے گا ، اس کا شرکیہ عمل باطل ہو گا تاہم اسے [مرتد کی] سزا نہیں دی جائے گی یہاں تک کہ اس پر حجت قائم ہو جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ: پس تم جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کا ہمسر مت بناؤ۔[البقرة: 22] "انتہی

3- ایسی نصوص جن میں شرک یا کفر سر زد ہونے پر عذر قبول کیا گیا، ان میں درج ذیل  نصوص شامل ہیں:

اول: اس شخص کا واقعہ جو اپنے آپ کو مرنے کے بعد جلانے کا حکم دیتا ہے اور وہ اللہ تعالی کی قدرت کا انکار کر بیٹھتا ہے۔

یہ واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (ایک شخص نے اپنے جان پر بہت ظلم ڈھائے تھے چنانچہ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پھر مجھے پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے پکڑ لیا  تو مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کسی کو اس نے اس سے پہلے اتنا عذاب نہیں دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا  اور فرمایا:
 اس آدمی کا جو حصہ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کر دو، تو زمین سے اسے جمع کر دیا اور وہ زندہ کھڑا ہو گیا۔
تو اللہ تعالی نے پوچھا: تمہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟
اس نے کہا: پروردگار! تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا) متفق علیہ

اب اس آدمی سے جو بات صادر ہوئی تھی یہ کفر اکبر ہے اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اس نے اللہ تعالی کی قدرت کا انکار کیا ہے کہ اللہ تعالی اسے اس انداز سے مرنے کے بعد زندہ نہیں کر پائے گا۔ حالانکہ اللہ تعالی کی صفتِ قدرت  اللہ تعالی کی صفات میں سے واضح اور سب سے عیاں صفت ہے، بلکہ قدرتِ الہی اللہ تعالی کی ربوبیت اور الوہیت دونوں  کیلیے لازم و ملزوم  ہے، قدرت کی صفت پروردگار کیلیے سب سے خاص صفت کا مقام رکھتی ہے۔ لیکن اتنی اہم صفت کا انکار کرنے کے بعد بھی وہ کافر نہیں ہوا؛ کیونکہ اس کی لا علمی کی بنا پر اس کا عذر قبول کیا گیا۔

اس حدیث کی شرح میں ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام اس کے مفہوم کے متعلق مختلف آرا رکھتے ہیں؛ کچھ کہتے ہیں کہ اس شخص کو اللہ تعالی کی صفت قدرت کا صحیح علم نہیں تھا کہ اللہ تعالی جو چاہے کرنے پر قادر ہے۔ تو ان علمائے کرام کا یہ کہنا ہے کہ: جو شخص اللہ تعالی کی کوئی ایک صفت سے نابلد رہے اور دیگر تمام صفات کو سمجھ کر ان پر ایمان رکھے تو وہ چند صفات سے نابلد ہونے کی بنا پر کافر نہیں ہوگا۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ: کافر وہ ہوتا ہے جو حق بات ماننے سے ہٹ دھرمی کرے اس لیے لا علمی کی بنا پر انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا۔

یہ موقف متقدمین علمائے کرام  اور انہی کے نقش قدم پر چلنے والے متاخرین کا بھی ہے۔" انتہی
"التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد" (18/42)

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک ہوا تھا کہ اگر اسے پیس کر اڑا دیا گیا تو اللہ تعالی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا، بلکہ اس کا عقیدہ  بن گیا کہ وہ دوبارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات تمام مسلمانوں کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے؛ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی قدرت سے نابلد تھا ، اور ساتھ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایمان بھی رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (3/231)

اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ:
"اس شخص نے یہ نظریہ بنا لیا تھا کہ اگر اس کی وصیت پر عمل کیا گیا تو اللہ تعالی اس کے جسمانی اجزا اور ذرات کو جمع نہیں کر سکے گا، یا اسے اللہ تعالی کی اتنی بڑی قدرت کے بارے میں شک تھا کہ اللہ تعالی اسے زندہ نہیں کر سکے گا۔ یہ دونوں باتیں ہی کفر ہیں۔ اس سے وہ شخص کافر ہو جائے گا جس پر [اللہ تعالی کی ان صفات کے بارے میں]حجت قائم ہو چکی ہو، لیکن چونکہ وہ اس صفت سے جاہل تھا اور اسے اتنا علم حاصل نہیں ہو سکا جس سے اس کی یہ جہالت زائل ہو جاتی نیز اس کے پاس اللہ تعالی کے بارے میں ایمان تھا، اللہ تعالی کے احکامات، امر و نہی، وعدوں اور وعیدوں پر ایمان تھا اسی لیے وہ اللہ کے عذاب سے ڈر گیا [اور یہ انتہائی قدم اٹھا لیا] تو اللہ تعالی نے اس کے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔

لہذا اگر کوئی شخص عقیدے کے بعض مسائل میں غلطی کر بیٹھے اور وہ اللہ تعالی، رسول اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ، نیک عمل کرتا ہو تو وہ اس شخص سے کمتر نہیں ہو سکتا ؛ تو اللہ تعالی اس کی خطا معاف فرما دے گا، یا اس کی حق پر عمل پیری میں کوتاہی کے مطابق سزا دے گا۔

لیکن معروف ایمان والے شخص کو محض غلطی کی بنا پر کافر کہہ دینا  بہت ہی سنگین اقدام ہے" انتہی
"الاستقامة" (1/164)

اور امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے بہت سے اسما اور صفات ہیں جو کہ قرآن مجید میں  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں امت کو بیان کیے ہیں، اب جس شخص پر حجت قائم ہو چکی ہے اس کیلیے ان اسما اور صفات کو رد کرنا ممکن نہیں؛ کیونکہ قرآن مجید نے انہیں بیان کیا ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہو چکے ہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنے اوپر حجت قائم ہو جانے کے بعد بھی ان کی مخالفت کرے [یعنی انہیں تسلیم نہ کرے] تو وہ کافر ہے۔ لیکن حجت قائم ہو جانے سے پہلے  وہ شخص لا علمی کی بنا پر معذور شمار ہو گا؛ کیونکہ اسما اور صفات کا علم محض عقل سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، نہ ہی غور و فکر اور سوچ و بچار سے ممکن ہے۔ لہذا ہم کسی کو بھی لا علمی اور جہالت کی بنا پر اس وقت تک کافر نہیں کہتے جب تک اسے علم نہ ہو جائے" انتہی
"سير أعلام النبلاء" (10/79)

دوم: بنی اسرائیل کا موسی علیہ السلام کے ساتھ واقعہ:

اللہ تعالی نے اس واقعے کے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ * إِنَّ هَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ * قَالَ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ )
ترجمہ: اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر عبور کروایا تو وہ ایسی قوم کے پاس آئے جو کہ اپنے بتوں پر مجاور بن کر بیٹھتے تھے، قوم موسی نے کہا: اے موسی! ہمارے  لیے بھی ایسا ہی معبود بنا دو جیسے ان کے معبود ہیں، تو موسی نے کہا: تم یقیناً جاہل قوم ہو ٭ بیشک یہ قوم جس حالت میں ہے تباہ ہونے والی  اور جو یہ کر رہے ہیں یہ باطل  ہے ٭ پھر فرمایا کہا : کیا میں اللہ کے علاوہ تمہارے لیے کوئی اور معبود  تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی ہے ۔[ الأعراف:138 - 141]

تو اس آیت میں واضح ہے کہ انہوں نے موسی علیہ السلام سے ایک بت بنانے کا مطالبہ کیا تھا  جس کی عبادت کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں؛ جیسے کہ ان مشرکوں نے  عبادت کیلیے اپنے معبود بنا رکھے تھے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یہ ان کے بہت بڑے جاہل ہونے کی خبر ہے کہ انہوں نے اللہ کی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی غیر اللہ کی پرستش کو جائز سمجھ لیا "انتہی
"زاد المسیر" (2/150)

اسی طرح شیخ عبدالرحمن معلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"موسی علیہ السلام کے جواب سے عیاں ہے کہ اگرچہ انہوں نے اپنی قوم کی جہالت پر مذمت فرمائی لیکن ان کے اس مطالبے کو ارتداد شمار نہیں کیا، اس کی دلیل یہ ہے کہ قوم موسی کا فوری مواخذہ نہیں کیا گیا جیسے کہ بچھڑا بنانے پر ان کا فوری مواخذہ ہوا تھا، تو گویا کہ -اللہ اعلم- انہیں نو مسلم ہونے کی وجہ سے معذور سمجھا گیا"انتہی
"مجموع رسائل المعلمی" (1/142)

سوم: ذات انواط کا واقعہ

ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حنین کی جانب روانہ ہوئے تو ہم ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: "اللہ کے نبی! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط بنا دیں جیسے کہ کفار کا ذات انواط ہے، کفار اس بیری کے درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے اور اسے آس پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے۔ یہ مطالبہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا: (اللہ اکبر! یہ تو وہی بات ہے جو بنی اسرائیل نے موسی سے کہی تھی: (اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ) ہمارے لیے بھی ایسے ہی معبود بنا دو جیسے ان کے معبود ہیں، تم تو اپنے سے پہلے گزر جانے والے لوگوں کی راہ پر ہو)" ترمذی (2180)نے اسے روایت کیا ہے  اور صحیح قرار دیا ، اسی طرح امام احمد نے اپنی مسند (21900)میں اسے روایت کیا  اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا۔

تو اس واقعے میں واضح ہے کہ نو مسلم افراد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک اکبر کا مطالبہ کیا کہ ان کیلیے بھی درخت سے تبرک اور تعلق بنانا جائز قرار دیا جائے جیسے کہ مشرک کیا کرتے تھے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے اس مطالبے کو بنی اسرائیل کے مطالبے سے تشبیہ دی۔

محمد رشید رضا  رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بات کا مطالبہ کیا تھا وہ نو مسلم تھے اور عہد قریب میں شرک سے  توبہ کی تھی، تو انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو ہمارے لیے مقرر کر دیں گے وہ شرعی طور پر صحیح ہو گی اسلام سے متصادم نہیں ہو گی" انتہی
اقتباس از تبصرہ بر: "مجموع الرسائل والمسائل النجدية"(4/39)

اسی طرح شیخ عبدالرزاق عفیفی رحمہ اللہ سے  مردوں کے بارے میں غلط نظریات رکھنے والے اور ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنے والے قبر پرستوں کے متعلق سوال کیا گیا تو شیخ محترم نے کہا:
"اگر ان پر حجت قائم ہو چکی ہے تو وہ اسلام سے مرتد ہیں، بصورتِ دیگر جہالت کی وجہ سے معذور ہوں گے جیسے کہ انواط کا مطالبہ کرنے والوں کو معذور سمجھا گیا" انتہی
"فتاوى شیخ عبد الرزاق عفیفی" ص:  371

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے بعد ہم سب کو یہ بات لازمی طور پر معلوم ہے کہ انہوں نے اپنی امت کو مردوں سے حاجت روائی کی اجازت نہیں دی، چاہے وہ فوت شدگان انبیا ہوں یا نیک لوگ یا کوئی اور، چاہے حاجت روائی کیلیے انہیں غوث کہیں یا کوئی اور لفظ بولیں، ان کی پناہ مانگیں یا کچھ اور کہیں۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کیلیے کسی بھی مردے یا زندہ شخص کو سجدہ وغیرہ کرنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور سے ممانعت فرمائی ہے، نیز آپ نے یہ بھی بتلا دیا کہ ایسے تمام امور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حرام کردہ شرک میں شامل ہیں۔

لیکن عہد نبوت سے بعید زمانے میں جہالت کے غلبے اور علمِ نبوت  کی کمی کے باعث لوگوں کی تکفیر ممکن نہیں ہے، تاآنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لائی گئی شریعت ان کیلیے واضح ہو جائے" انتہی
"الرد على البكري" (2/ 731)

اسی طرح شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"قبروں میں مدفون لوگوں سے مانگنا ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی چاہنا شرک اکبر ہے جو کہ دائرہ اسلام سے انسان کو خارج کر دیتا ہے۔

اس عمل کو شرک اور کفر کہا جائے گا تاہم اس عمل میں ملوث ہر شخص کو کافر یا مشرک نہیں کہا جائے گا؛ کیونکہ اگر کوئی شخص جہالت کی بنا پر اس کام میں ملوث تھا تو وہ جہالت کی وجہ سے معذور ہو گا، یہاں تک کہ اس پر حجت قائم ہو جائے اور حجت سمجھ لینے کے بعد بھی عناد کا مظاہرہ کرے تو پھر ایسی صورت میں اس پر کفر اور مرتد ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

قبر پرستی  ایسے امور میں سے ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس کے بارے میں بصیرت حاصل نہیں ہے خاص طور پر ایسے ماحول کے افراد جہاں پر قبروں کا احترام اور نیک لوگوں سے حاجت روائی کو صالحین سے محبت کے نام پر کیا جاتا ہو، جہاں پر  اپنے آپ کو عالم قرار دینے والے لوگ ہی قبر پرستی میں پیش پیش ہوں اور مدفون شخصیات کو قرب الہی کا ذریعہ قرار دیں۔" انتہی
" كتب ورسائل علامہ العباد" (4/372)

چہارم: حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام ایسے ہی پرانا ہو جائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار پرانے ہو جاتے ہیں، حتی کہ یہ بھی معلوم نہیں رہے گا کہ نماز، روزہ، قربانی اور زکاۃ کیا چیز ہو تی ہیں ؟ اور کتاب اللہ ایک رات میں ایسی غائب ہو جائے گی کہ اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہے گی ، اور لوگوں کے چند گروہ ان میں سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں باقی رہ جائیں گے، کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کلمہ "لا الہ الا الله" کہتے ہوئے پایا تھا تو ہم بھی یہی پڑھتے ہیں۔

 تو راوی صلہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جب انہیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے تو انہیں فقط یہ کلمہ "لا الہ الا الله"   کیا فائدہ پہنچائے گا؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان سے منہ پھیر لیا۔

پھر انہوں نے تین بار یہ بات ان پر دہرائی لیکن وہ ہر بار ان سے منہ پھیر لیتے، پھر تیسری مرتبہ ان کی طرف متوجہ ہو کر گویا ہوئے: صلہ! یہ کلمہ انہیں جہنم سے بچا لے گا، آپ نے یہ بات تین بار دہرائی"
ابن ماجہ: (4049)، اس حدیث کو علامہ بوصیری نے "مصباح الزجاجہ" (2/ 291)  میں صحیح کہا ہے نیز البانی نے بھی اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" (1/171) میں صحیح قرار دیا ہے۔

تو اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایمان مجمل یعنی عقیدہ توحید کا اقرار  ہو گا، نیز انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہو گا ماسوائے زبانی اقرار کے جو انہوں نے اپنے آباء سے سنا ہوگا۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بہت سے لوگ ایسی جگہوں یا وقت میں نشو و نما پاتے ہیں جہاں علم نبوت  میں سے بہت سی چیزیں مٹ چکی ہوتی ہیں، حتی کہ وہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی کتاب و حکمت کی تبلیغ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ایسی بہت سی باتیں وہاں کے لوگ نہیں جانتے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہوتا ہے اور نہ ہی وہاں پر اس کی تبلیغ کرنے والا کوئی ہوتا ہے، تو ایسے ماحول کا آدمی کافر نہیں ہو گا؛ اسی لیے ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اہل علم سے دور دراز کے علاقے میں پروان چڑھے اور وہ نو مسلم بھی ہو تو  اس حالت میں کسی مشہور و معروف متواتر عمل کا انکار کر دے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا یہاں تک کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آشنا نہ کر دیا جائے"انتہی
"مجموع الفتاوى" (11/407)

تو خلاصہ یہ ہوا کہ:

" ایسی جہالت جس کی بنا پر انسان کو معذور سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان حق جانتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی حق بات اس کے سامنے ذکر کی جاتی ہے  تو ایسی جہالت کی بنا پر انسان کو غلطی  پر گناہ نہیں ملتا اور نہ ہی اس غلطی پر مرتب ہونے والے احکام انسان پر لاگو ہوتے ہیں، نیز جہالت کی بنا پر غلطی کرنے والا شخص اگر مسلمان ہونے کا دعویدار ہو  اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہو تو وہ مسلمان ہی شمار ہوگا [کافر نہیں ہو جائے گا] اور اگر وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے تو پھر اس کا تعلق دنیا میں اسی دین سے ہو گا جس کی طرف وہ اپنی نسبت رکھتا ہے۔

جبکہ آخرت میں اس کا معاملہ اہل فترہ والا ہو گا، یعنی قیامت کے روز اس  کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہو گا۔

اس طرح کے لوگوں  کے بارے میں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کا جیسے چاہے گا امتحان لے گا، چنانچہ ان میں سے جو اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل شیخ ابن عثیمین" (2/ 128)

اسی طرح ڈاکٹر سلطان عمیری حفظہ اللہ کی کتاب: " إشكالية الإعذار بالجهل في البحث العقدي" کا مطالعہ بھی نہایت مفید ہو گا۔

واللہ اعلم.



تاویل غیر مکفرہ کے لئے قواعد و ضوابط، اور اس بارے میں کچھ فوائد:

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

یہ سوال بہت ہی شاندار ہے، اسکے متعلق درج ذیل نقاط میں گفتگو کی جائے گی:

1- دین میں جہالت یا تاویل کی بنا پر پیدا ہونے والے عذر میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ متأول کا عذر جاہل سے زیادہ قابلِ قبول ہونا چاہئے، اس لئے کہ وہ اپنے عقیدے سے بہرہ ور ہے، اور اسے سچا سمجھتے ہوئے اس پر دلائل بھی دیتا ہے، اوراسکا دفاع بھی کرتا ہے، اسی طرح عملی یا علمی مسائل میں بھی جہالت یا تاویل کے عذر بننے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی چاہت کرنے والے متأول پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، بلکہ اسے فاسق بھی نہیں کہنا چاہئے، بشرطیکہ اس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی ہو، یہ بات علماء کے ہاں عملی مسائل میں معروف ہے، جبکہ عقائد کے مسائل میں بہت سے علماء نے خطاکاروں کو بھی کافر کہہ دیا ہے، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں، نہ ہی تابعین کرام سے اور نہ ہی ائمہ کرام میں سے کسی سے ثابت ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اصل میں اہل بدعت کی ہے" انتہی، "منہاج السنۃ" (5/239)

2- اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان پر حدود جاری نہیں ہونگی، -جیسے کہ قدامہ بن مظعون کو شراب پینے کے بارے میں تاویل کرنے پر حد لگائی گئی- اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ اس کی مذمت نہ کی جائے یا تعزیری سزا نہ دی جائے، بلکہ انکے اس غلط نظریے کو گمراہی اور کفر کہا جائے گا، -جیسے کہ اسکی تفصیل آئندہ آئیگی-اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سے جنگ بھی کرنی پڑے، کیونکہ اصل ہدف لوگوں کو انکے گمراہ کن عقیدہ سے محفوظ کرنا ، اور دین کی حفاظت ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر کوئی مسلمان اجتہادی تاویل یا تقلید کی بنا پر واجب ترک کردے، یا پھر کسی حرام کام کا ارتکاب کرے اس شخص کا معاملہ میرے نزدیک بالکل واضح ہے، اسکی حالت تاویل کرنے والے کافر سے بہتر ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تاویل کرنے والے باغی سے لڑانی نہ کروں، یا تاویل کرتے ہوئے شراب پینے پر کوڑے نہ لگاؤں، وغیرہ وغیرہ، اسکی وجہ یہ ہے کہ تاویل کرنے سے دنیاوی سزا مطقا ختم نہیں ہوسکتی، کیونکہ دنیا میں سزا دینے کا مقصد شر کو روکنا ہوتا ہے" انتہی "مجموع الفتاوی" (22/14)

ایسے ہی شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے کہا: "اگر کسی نے ضرر رساں عقیدہ یا نظریہ پیش کیا تو اِس کے ضرر کو روکا جائے گا چاہے اس کے لئے سزا دینی پڑے، چاہے وہ فاسق مسلمان ہو یا عاصی، یا پھر خطاء کار عادل مجتہد ، اس سے بڑھ کر چاہے صالح اور عالم ہی کیوں نہ ہو، اور چاہے وہ کام انسانی وسعت میں ہو یا نہ ہو۔۔۔ اسی طرح اس شخص کو بھی سزا دی جائے گی جو لوگوں کو دین کیلئے نقصان دہ بدعت کی جانب دعوت دیتا ہے؛ اگرچہ اسے اجتہاد یا تقلید کی بنا پر معذور سمجھا جائے گا " انتہی، "مجموع الفتاوی" (10/375)

3- شریعت میں ہر تاویل جائز نہیں ہے؛ اس لئے شہادتین، وحدانیتِ الہی، رسالتِ نبوی، مرنے کے بعد جی اٹھنے، جنت، اور جہنم کے بارے میں کوئی بھی تاویل قبول نہیں ہوگی، بلکہ اس کو ابتدائی طور پر تاویل کہنا بھی درست نہیں ہے، اور حقیقت میں یہ باطنیت اور زندقہ ہے، جسکا مطلب دین کا یکسر انکار ہے۔

ابو حامد الغزالی -رحمہ اللہ-کہتے ہیں: "یہاں ایک اور قاعدہ کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور وہ ہےکہ : فریق ثانی کبھی متواتر نص کی مخالفت کو بھی تاویل سمجھ لیتا ہے، اور پھر ایسی کمزور سی تاویل پیش کرتا ہے جسکا لغت سے کوئی تعلق ہی نہیں، نہ دور کا نہ قریب کا، چنانچہ یہ کفر ہے اور ایسا شخص جھوٹا ہے، چاہے اپنے آپکو وہ مؤول سمجھتا رہے، اسکی مثال باطنیہ کی کلام میں ملتی ہے، انکا کہنا ہے کہ: اللہ تعالی واحد ہے یعنی وہ وحدانیت لوگوں کو عطا کرتا ہے اور اس وحدانیت کا خالق بھی ہے، ایسے ہی اللہ تعالی عالم ہے یعنی وہ دوسروں کو علم دیتا بھی ہے اور اسکا خالق بھی ہے، اللہ تعالی موجود ہے یعنی کہ وہ دوسری اشیاء کو وجود بخشتا ہے، اس لئے ان کے ہاں تینوں صفات کا معنی یہ لینا کہ وہ بذاتہ خود واحد ہے، موجود ہے اور عالم بھی ہے غلط ہے،اور یہ ہی واضح کفر ہے؛ اس لئے کہ وحدانیت کا ایجادِ وحدانیت معنی کرنا کوئی تاویل نہیں اور نہ ہی عربی لغت میں اسکی گنجائش ہے۔۔۔ اس دعوے کی بہت سی دلیلیں ہیں جو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہیں، جنہیں تاویل کا نام دیا گیا ہے" انتہی، "فیصل التفرقۃ"صفحہ (66-67)

ابن وزیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ایسے شخص کے کفر میں بھی کوئی خلاف نہیں جو دین میں مسلًمہ اشیاء کا انکار کرے، پھر اس انکار کو تاویل کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرے، جیسے کہ مُلحد لوگوں نے اسمائے حسنی ، قرآنی آیات، شرعی احکام، اخروی معاملات، جنت ، جہنم کے بارے میں تاویل کرتے ہوئے کیا" انتہی، "إیثار الحق علی الخلق" (صفحہ: 377)

4- جائز تاویل وہ ہوتی ہے جس سے دین پر کسی قسم کی قدغن نہ آئے، اور عربی زبان بھی اسکی اجازت دیتی ہو، اور مؤول کا مقصد حق بات تک پہنچنا ہو، علمی قواعد و ضوابط کا اہتمام کیا گیا ہو، تو ایسی صورت میں انکو تاویل کے معاملے میں معذور سمجھا جائے گا، اور انکے لئے وہی عذر ہونگے جنہیں اہل علم نے علمی مسائل کے اختلافات بیان کرتے ہوئے انکے اسباب کے ضمن میں بیان کیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہی حال کفریہ اقوال کا ہے، کہ کبھی انسان کو حق کی پہچان کروانے والی نصوص نہیں ملتی، یا ملتی تو ہیں لیکن پایا ثبوت تک نہیں پہنچتی، یا ثابت تو ہوجاتی ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتی، یا کبھی اسکے سامنے ایک شبہ آجاتا ہے جسکی بنا پر اللہ تعالی اسکا عذر قبول فرمائیں گے، چنانچہ جو کوئی مؤمن حق کی تلاش میں سرگرداں ہواور پھر بھی اس سے غلطی ہوجائے تو اللہ تعالی اسکی غلطی کو معاف فرمائے گاچاہے وہ کوئی بھی ہو، غلطی چاہے نظری مسائل میں ہو یا عملی، یہ صحابہ کرام اور تمام ائمہ اسلام کا موقف ہے" "مجموع الفتاوی" (23/346)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "علماء کے نزدیک ہر متأول کو اسوقت تک معذور سمجھا جاتا ہے جب تک عربی زبان میں اس تاویل کی گنجائش ہو، اور اسکی توجیہ بھی بنتی ہو" انتہی، "فتح الباری" (12/304)

5- ایک صحیح حدیث بھی موجود ہے جو مسائلِ اعتقاد میں تاویل کرنے والوں کی تکفیر سے روکتی ہے، بشرطیکہ انکی تاویل سے دین میں کسی قسم کا نقصان نہ ہو، اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، ("یہودی اکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے، ستر (70) جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، عیسائی بہتّر (72) فرقوں میں بٹ جائیں گے اکہتر (71) جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میری امت تہتّر (73) فرقوں میں تقسیم ہوگی ایک جنت میں جائے گا اور باقی بہتّر(72) جہنم میں جائیں گے "، کہا گیا: یا رسول اللہ ! وہ کون ہونگے؟ آپ نے فرمایا: "وہ بہت بڑی جماعت ہوگی")ابن ماجہ، (3992) اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا۔

ابو سلیمان الخطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ " میری امت تہتّر (73) فرقوں میں تقسیم ہوگی "اسکا مطلب ہے کہ تمام کے تمام فرقے اسلام سے خارج نہیں ہونگے؛ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو اپنی امت میں شمار کیا ہے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ متأول اسلام سے خارج نہیں ہوتا چاہے تاویل کرتے ہوئے غلطی کر جائے " انتہی، "معالم السنن" از خطابی، (4/295) ایسے ہی دیکھیں، "السنن الکبری"از بیہقی، (10/208)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ایسے ہی تمام کے تمام بہتّر فرقےہیں، ان میں سے کچھ منافق ہیں، جو کہ باطنی طور پر کافر ہوتے ہیں، اور کچھ منافق نہیں ہیں، بلکہ باطنی طور پر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے بعض باطنی طور پر کافر نہیں ہیں، چاہے تاویل کرتے ہوئےکتنی ہی گھناؤنی غلطی کر بیٹھے۔۔۔ اور جو شخص ان بہتّر فرقوں کے بارے میں کفر کا حکم لگائے تو یقینا اس نے قرآن، حدیث اور اجماع ِصحابہ کرام کی مخالفت کی، بلکہ ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے اجماع کی بھی مخالفت کی؛ اس لئے ان میں سے کسی نے بھی ان تمام بہتّر فرقوں کی تکفیر نہیں کی، ہاں کچھ فرقے آپس میں ایک دوسرے کو بعض نظریات کی بنا پر کافر قرار دیتے ہیں" انتہی، "مجموع الفتاوی" (3/218)

6- علماء میں سے جس کسی نے بھی اہل بدعت - غیر مکفرہ -پر کفر کا حکم لگایا ، ان کی مراد ایسا کفر ہے جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو کچھ امام شافعی دغیرہ سے اہل بدعت کی تکفیر کے بارے میں منقول ہےان کا مقصود "کفر دون کفر "والا کفر ہے" انتہی، "السنن الکبری " ازبیہقی (10/207)

امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "امام شافعی رحمہ اللہ نے مطلق طور پر اہل بدعت کی گواہی اور انکے پیچھے نماز کی ادائیگی کو کراہت کے ساتھ جائز قرار دیا ہے، اس بنا پر اگر کہیں امام شافعی رحمہ اللہ نے ان اہل بدعت کے بارے میں کفر کا حکم لگایا ہے تو اس کا مطلب "کفر دون کفر" والا کفر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون ) المائدة/ 44

ترجمہ: اور جو کوئی بھی اللہ تعالی کے احکامات سے ہٹ کر فیصلہ کرے یہی لوگ کافر ہیں "شرح السنۃ" (1/228)

بسا اوقات ائمہ کرام کا لفظِ "کفر "بول کر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"بسا اوقات ائمہ کرام سے کسی کی تکفیر نقل کی جاتی ہے حالانکہ ان کا مقصود صرف تنبیہ ہوتا ہے، اس لئے کفریہ قول کی بنا پر ہر قائل جہالت یا تاویل کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، اس لئے کہ کسی کے بارے میں کفر ثابت ہونا ایسے ہی ہے کہ جیسے اس کے لئے آخرت میں وعید ثابت کی جائے، جبکہ اسکے بارے میں شرائط و ضوابط ہیں" انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (5/240)َ

7- اہل بدعت کے کفر کے بارے میں ائمہ کرام کے اقوال میں اختلاف کفریہ کام اور کفریہ کام کے مرتکب میں فرق کی وجہ سے ہے، چنانچہ وہ کفریہ عقیدہ پر کفر کا حکم لگاتے ہیں، لیکن فردِ معین پر کفر کا حکم اس وقت لگاتے ہیں جب اسکی شرائط مکمل ہوں اور کوئی چیز مانع بھی نہ ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" ائمہ کا موقف کفریہ کام اور اسکے مرتکب کے بارے میں تفصیل پر مبنی ہے، اسی بنا پر بغیر سوچے سمجھے ان سے تکفیر کے بارے میں اختلاف نقل کیا گیا ہے، چنانچہ ایک گروہ نے امام احمد سے اہل بدعت کی مطلق تکفیر کے بارے میں دو روایتیں بیان کی ہیں، جنکی وجہ سے مرجئہ اور فضیلتِ علی کے قائل شیعہ حضرات کی تکفیر کے بارے میں انہوں نے اختلاف کیا ، اور بسا اوقات انہوں نے ان کی تکفیر کی اور ابدی جہنمی ہونے کو راجح قرار دیا، حقیقت میں یہ موقف امام احمد کا ہے اور نہ ہی علمائے اسلام میں سے کسی کا، بلکہ ایمان بلا عمل کے قائلین مرجئہ کی تکفیر کے بارے میں انکا موقف ایک ہی ہے کہ انکی تکفیر نہ کی جائے، اور ایسے ہی عثمان رضی اللہ عنہ پر علی رضی اللہ عنہ کو فضیلت دینے والے کی بھی تکفیر نہ کی جائے، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ خوارج اور قدریہ کی تکفیر سے ممانعت کے بارے میں انہوں نے صراحت کی ہے، امام احمد ان جہمی افراد کی تکفیر کرتے تھے جو اسماء و صفاتِ الہیہ کے منکر ہیں، جسکی وجہ یہ تھی کہ ان کا موقف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول واضح نصوص کے مخالف تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کے موقف کی حقیقت خالق سبحانہ وتعالی کو معطل کرنا تھا، امام احمد رحمہ اللہ انکے بارے میں چھان بین کرتے رہے اور آخر کار انکی حقیقت کو سمجھ لیا کہ انکا مذہب تعطیل پر مبنی ہے، اسی لئے جہمیہ کی تکفیر سلف اور ائمہ کرام کی جانب سے مشہور و معروف ہے، لیکن وہ سب تعیین کے ساتھ افراد پر حکم نہیں لگاتے تھے، کیونکہ مذہب کو مان لینے والے سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس مذہب کی جانب دعوت دینے والا ، اسی طرح اس مذہب کی ترویج کرنے والے سے بڑا مجرم وہ ہے جو اپنے مخالفین کو سزائیں دیتا ہو، اور سزا دینے والے سے بڑا مجرم وہ ہے جو اپنے علاوہ دوسروں کی تکفیر کرتا ہو، ان تمام باتوں کے باوجود ایسے حکمران جو جہمیہ کے موقف پر تھے کہ قرآن مخلوق ہے، اور اللہ تعالی کا آخرت میں دیدار نہ ہوگا، وغیرہ، اس سے بڑھ کر یہ تھا کہ یہ حکمران جہمی عقیدہ کی لوگوں کو دعوت بھی دیتے اور مخالفین کو سزائیں بھی، جو انکی بات نہ مانتا اسے کافر جانتے، اور مخالفین کو قید کرنے کے بعد اس وقت تک رہا نہ کرتے جب تک وہ انکے موقف کا قائل نہ ہوجاتا کہ قرآن مخلوق ہےوغیرہ وغیرہ ، وہ اپنے مخالفین میں سے کسی کو گورنر مقرر نہ کرتے، اور بیت المال سے اسی کا تعاون کرتے جو جہمی عقائد کا قائل ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود امام احمد رحمہ اللہ انکے بارے میں رحمت کی دعا کرتے، ان کیلئے اللہ سے مغفرت مانگتےتھے صرف اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر رہے ہیں اور آپ پر نازل شدہ وحی کا انکار کر رہے ہیں، انہوں نے یہ سب کچھ غلط تاویل کرنے والوں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے کیا "

اسی طرح شافعی رحمہ اللہ نے اکیلئے حفص کو کہا تھا "توں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا"جب اس نے قرآن کے مخلوق ہونے کا دعوی کیا، امام شافعی نے اسکے موقف کی حقیقت بیان کردی کہ یہ کفر ہے، لیکن صرف اسی قول کی بنا پر انہوں نے حفص کے مرتد ہونے کا فتوی نہیں لگایا، اس لئے کہ اسے ابھی ان دلائل کا نہیں پتہ جن کے ساتھ وہ کفر کر رہا ہے، اگر امام شافعی اسے مرتد سمجھتے تو اس کے قتل کا بند وبست کرتے، اسی طرح امام شافعی نے اپنی کتب میں وضاحت کی ہے کہ اہل بدعت کی گواہی قبول کی جائے گی اور انکے پیچھے نماز بھی ادا کی جاسکتی ہے" انتہی، "مجموع الفتاوی" (23/348-349)

8- اب آتے ہیں اشاعرہ کی جانب : اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انکے عقائد میں کچھ شبہات ہیں جو سلفی عقائد کے مخالف ہیں، اُن میں بھی اہل علم موجود ہیں جنکی تقلید کی جاتی ہے، اور ان سے مسائل دریافت کئے جاتے ہیں، یہ سب کے سب ایک ہی ڈِگر پر نہیں ہیں، بلکہ ان میں بھی مختلف درسگاہیں اور منہج میں اختلاف پایا جاتا ہے، اشاعرہ میں سے پہلی تین صدیوں کے افراد حق کے زیادہ قریب ہیں، سابقہ ذکر شدہ تفصیل کو اگر ہم اشاعرہ پر بھی لاگو کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ جس نے بھی اشاعرہ کی تکفیر کے متعلق گفتگو کی اس کا مقصد اشاعرہ سے صادر ہونے والے کفریہ کام ہیں، اس لئے کسی فردِ معین پر کفر کا حکم لگانا مقصود نہیں ہے، یا پھر اس نے مطلقاً کفر کی بات کی ہےجسکا مقصد "کفر دون کفر" تھا ، اس لئے اشاعرہ اسلام سے خارج نہیں ہیں، اور نہ ہی انکے پیروکار کافر ہیں؛ بلکہ انہیں مسائلِ اعتقاد میں تاویل کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا۔

شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "میں اشاعرہ کی تکفیر کرنے والے کسی اہل علم کو نہیں جانتا " "ثمرات التدوین" از ڈاکٹر احمد بن عبد الرحمن القاضی (مسئلہ نمبر: 9)

9- ہم آپ کے لئے شیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ کی جامع مانع گفتگو سے بدعتی فرقوں پر شرعی حکم لگانے کیلئے خلاصہ پیش کرتے ہیں، انہوں نے کہا:

اہل بدعت میں سے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ وحی کا جزوی یا کلی انکار بغیر کسی تاویل کے کیا تو وہ کافر ہے؛ اس لئے اس نے ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کا انکار کیا اور اللہ اور اسکے رسول کی تکذیب کی۔

أ‌- جہمی ، قدری، خارجی، اور رافضی وغیرہ کوئی بھی بدعتی اپنے موقف کی کتاب و سنت سے مخالفت جاننے کے باوجوداس پر ڈٹ جاتا ہےاور اسکی تائید بھی کرتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے، راہِ ہدایت واضح ہونے کے باوجود اللہ اور اسکے رسول کا مخالف ہے۔

ب‌- اہل بدعت میں سے جو کوئی بھی ظاہری اور باطنی طور پر اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہو، کتاب و سنت کے مطابق اللہ اور رسول کی تعظیم بھی کرتا ہو، لیکن کچھ مسائل میں غلطی سے حق کی مخالفت کر بیٹھتا ہے، کسی کفریہ اور انکاری سوچ کے بغیر اس سے یہ غلطی سرزد ہوتی ہے، ایسا شخص کافر نہیں ہے، ہاں ایسا شخص فاسق اور بدعتی ہوگا، یا گمراہ بدعتی ہوگا، یا پھر تلاشِ حق کیلئے ناکام کوشش کی وجہ سے قابلِ معافی ہوگا۔

اسی لئے خوارج ، معتزلہ، قدریہ وغیرہ اہل بدعت کی مختلف اقسام ہیں:

• ان میں سے بعض بلا شک وشبہ کافر ہیں جیسے غالی جہمی جنہوں نے اسماء و صفات کا انکار کردیا، اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ انکی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کے مخالف ہے، لیکن اسکے باوجود انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ۔

• اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گمراہ، بدعتی، فاسق ہیں مثلا: تاویل کرنے والے خارجی اور معتزلی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہیں کرتے، لیکن اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہ ہوگئے، اور اپنے تئیں سمجھتے رہے کہ ہم حق پر ہیں، اسی لئے صحابہ کرام خوارج کی بدعت پر حکم لگانے کیلئے متفق تھے، جیسے کہ انکے بارے میں احادیث صحیحہ میں ذکر بھی آیا ہے، اسی طرح صحابہ کرام انکے اسلام سے خارج نہ ہونے پر بھی متفق تھے اگرچہ خوارج نے خونریزی بھی کی اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کیلئے شفاعت کے انکاری بھی ہوئےاسکے علاوہ بھی کافی اصولوں کی انہوں نے مخالفت کی ، خوارج کی تاویل نے صحابہ کرام کوتکفیر سے روک دیا۔

• کچھ اہل بدعت ایسے بھی ہیں جو سابقہ دونوں اقسام سے کہیں دور ہیں، جیسے بہت سے قدری، کلابی، اور اشعری لوگ، چنانچہ یہ لوگ کتاب وسنت کی مخالفت کرنے والے اپنے مشہور اصولوں میں بدعتی شمار ہونگے، پھر حق سے دوری کی بنیاد پر ہر ایک کے درجات مختلف ہونگے، اور اسی بنیاد پر کفر ، فسق، اور بدعت کا حکم لگے گا، اور حکم لگاتے ہوئے تلاشِ حق کیلئے انکی کوشش کو بھی مد نظر رکھا جائے گا، یہاں اسکی تفصیل بہت لمبی ہو جائے گی" انتہی، "توضیح الکافیۃ الشافیۃ" (156-158)

امید ہے مذکورہ بالا گفتگو سے مسئلہ آپ کیلئے واضح ہوگیا ہوگا، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکو علم نافع عنائت فرمائے اور عمل صالح کی توفیق دے۔

واللہ اعلم .


 کفریہ کلمات کا حکم:

جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے کفر لازم آتا ہےتو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے۔  اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ البتہ احتیاطاً استغفار کرلینا چاہیے۔

اور اگر سائل کی مراد بھول کر یا غلطی سے کلمہ کفر  کہنے سے مراد یہ ہے کہ اسے کلمہ کفر کا علم نہیں تھا، لیکن اس نے وہ جملہ اپنے ارادے سے کہا تھا تو یہ جہالت اس کے لیے عذر نہیں ہے، اس صورت میں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح ضروری ہوگا۔

جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے متفقہ طور پر کفر لازم آتا ہے یا ضروریاتِ دین میں کوئی ایسی تاویل اور تحریف کرے جو امت کے اجماعی اور متفقہ معانی کے خلاف ہو تو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے اور تجدید نکاح بھی اور اگر کوئی ایسا جملہ کہہ دیا جس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو،یا کلمہ تو متفقہ طور پر کفریہ ہی ہو،لیکن متکلم کو اس کے کفریہ ہونے کا علم نہ ہو تو اس پر اس سے رجوع کرکے توبہ و استغفار لازم ہے اور احتیاطا تجدید نکاح بھی کروالیا جائے۔

اور ایسے الفاظ جو کفریہ تو نہیں، لیکن ان کا کہنا غلط ہو تو ان کے زبان سے نکلنے کی وجہ سے آدمی دائرہ اسلام سے تو نہیں نکلتا اور نہ ہی نکاح ٹوٹتا ہے،البتہ سخت گناہ ہے اور ان سے رجوع کرکے توبہ و استغفار لازم ہے۔

نیز اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا، لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔

نوٹ:

چونکہ مختلف صورتیں ہے اور ہر ایک کا حکم دوسری سے مختلف ہے، اس لیے مسئلہ پیش آنے کی صورت میں خود فیصلہ کرنے کے بجائے مستند مفتیانِ کرام سے رجوع کرکے حکم معلوم کیا جائے۔


حوالہ جات:

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "(1/ 687):

"فما يكون كفرا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حج ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لا يرتفع الكفر وما كان في كونه كفرا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطا وما كان خطأ من الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق".

"الدر المختار " (4/ 224):

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لا يعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمہ اللہ:" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".

"مسوی شرح مؤطا " (2/ 130):

"وان اعترف بہ ظاھرا ولکن یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسرہ الصحابة و التابعون و اجمعت علیہ الامة فھوالزندیق کما اذا اعترف بان القرآن حق ومافیہ من ذکر الجنة والنار حق،لکن المراد بالجنة الابتھاج الذی یحصل بسسب الملکات المحمودة والمراد بالنار ھی الندامة التی تحصل بسبب الملکات المذمومة ولیس فی الخارج جنة ولا نار فھو زندیق".

ایمان کے عظیم الشان نعمت ہونے کیلئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ اس کی صحت وبقا پر جہنم وجنت کا فیصلہ موقوف Dependent ہو۔


پھر بھی انسان بہت سی مرتبہ دانستہ ونادانستہ، جانے انجانے ایمان کے منافی افوال کر بیٹھتا ہے۔


من جملہ ان منافی ایمان افعال کے "کلمات کفر" بھی ہے۔


درج ذیل  


کفریہ کلمات کا جاننا:

(۱)  کلماتِ کفر بولنے اور کفریات کو اختیار کرنے سے ایمان چلا جاتا ہے۔ اور نکاح ختم ہوجاتا ہے۔

مثلاً:
(الف) اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرنا۔

اذا وصف اللہ بمالا یلیق یکفر۔

[البزازیۃ : ج6 ص323 کتاب الفاظ تکون اسلاما او کفرا]

کفریہ اقوال:

اللہ ہمیں بھوکا رکھتا ہے کیوں؟ اس کو ہمیں بھوکا رکھنے سے کیا ملتا ہے۔


(ب) شریعت کے کسی بھی حکم قطعی کا مذاق اڑانا

ھکذا الاستھزاء باحکام الشرع کفر۔

[الھندیۃ : ج2 ص281]

کفریہ کلمات:

(الف)بعض لوگ کہہ دیتے ہیں روزہ وہ رکھے جس کے پاس کھانے کو نہ ہو۔

(ب) اللہ ہمیں بھوکا رکھتا ہے کیوں؟ اس کو ہمیں بھوکا رکھنے سے کیا ملتا ہے

(ج) قرآن نماز کیا ہیں ہم نہیں مانتے وغیرہ وغیرہ نعوذ باللہ منہا۔



(ج) قطعی حلال کو حرام یا قطعی حرام کو حلال سمجھنا۔

والا صل ان من اعتقد الحرام حلالا فان کان حراما لغیرہ کمال الغیر لا یکفر وان کان لعینہ فان کان دلیلہ قطعیا کفر والا فلا وقیل التفصیل فی العالم اما الجاہل فلا یفرق بین الحرام لعینہ ولغیرہ وانما الفرق فی حقہ ان ما کان قطعیا کفر بہ والا فلا فیکفر اذا قال الخمر لیس بحرام۔

[رد المحتار : باب المرتد، ج:3 ص:393۔ ط۔ سعید]

دیوبندیوں کی نظر میں تکفیر ( کافر قرار دینا)

دیوبند سھارنپور کے توابع میں سے شمال مشرقی ھند کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ برطانیہ کی طرف سے استعمار کے شروع ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں موجود اسلامی تحریکوں نے رشد کیا۔ ان میں سے ایک  دیوبندی مکتب   ہےکہ جو فقھی لحاظ سے حنفی، طریقت کے لحاظ سے صوفی، اور اعتقادی لحاظ سے اشعری۔ماتریدی۔ ہے

یہ جریان شروع میں ھند ستان کو برطانیہ کے استعمار سے آزاد کروانے کے لئے استعمار اور استکبار سے ضدیت کی بنا پر وجود میں آیا۔ دیوبندی علماء نے کسی صورت میں برطانیہ کو تسلیم نہیں کیا۔ یہاں تک کہ دو مفھوموں"دارالاسلام"اور"دار الکفر" کو استعمال کرکے ھند کو انگلینڈ کے  قبضہ میں ہونے کی وجہ سے دارالکفر کہا۔ اور اس سرزمین میں موجود ہر مسلمان کا وظیفہ، ھجرت یا جھاد قرار دیا۔ 1857عیسوی میں ھندستانی مسلمانوں نے انگلینڈ استعمار کے خلاف قیام کیا جسکو سختی کے ساتھ سرکوب کیا گیا۔ ھندستانی عوام کے قیام کی شکست کے رد عمل میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ہاتھوں سے[i] 1283ھ۔ق میں دارالعلوم دیوبند مدرسہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ لھذا ھندستان میں اسلام کی ترویج کے لئے دیوبند جدید مرکز بنا۔

شاہ ولی اللہ دھلوی اور دیوبندی اگرچہ بعض مسائل میں ابن تیمیہ سے نزدیک ہوئے ہیں، لیکن مسلمانوں کو کافر قرار دینے کے مسئلے میں ابن تیمیہ اور وھابیت کے ساتھ اختلاف رکہتے ہیں۔

دیوبندیوں کی نظر میں اسلام اور کفر کا معیار

بہت ساری روایات میں مومن کی کافر سے پہچان کا معیار شھادتین کا زبان پر جاری کرنا بیان ہوا ہے اور دیوبندی علماء نے احادیث پر اپنی لکہی گئی شرحوں اور تفسیروں میں اس چیز کا اعتراف کیا ہے:

محمد انور شاہ کشمیری تکفیر کے مسئلہ میں اصل لا الہ الا اللہ کو زبان پر جاری کرنا جانتا ہے اور اس باب میں کچہہ روایتوں کو ذکر کرتا ہے؛ جیسے یہ کہ جب حضرت علی ع جھاد اور خیبر کے قلعوں کو فتح کرنے کے لئے گئے تو نبی اکرم ص سے پوچھا کہ میں کہاں تک اس قوم(مشرکوں) سے لڑوں؟ تو نبی اکرم ص نے فرمایا: میں   اس وقت تک ان سے جنگ کروں گا جب تک"لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" نا کہیں؛ اور جب بہی ان دو اصلوں کا اقرار کیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا تو ان  کاخون اور مال ہمارے لئے محترم ہے۔[ii]

اس بناپر، دیوبندیوں کے ہاں سارے اسلامی مذاہب موحد ہیں؛ جیسے کہ شبیر احمد عثمانی لکہتے ہیں توحید اعتقادات کی اصل ہے اور صحیح اور خالص توحید کہ جو ربوبیت، الوہیت اور صفات میں توحید ہے صرف اسلامی مذہبوں میں پائی جاتی ہے اور غیر اسلامی مذہبوں میں نہیں پائی جاتی۔[iii]

شیخ محمد یوسف کاندھلوی، حیاہ الصحابہ نامی پانچ جلدی کتاب کے مولف، آیت شریف ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا "یعنی جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو" کے شان نزول میں لکہتے ہیں:

مسلمان ہونے کے لئے دو شھادتوں کا اقرار کافی ہے؛ اور اس بارے میں بہت ساری دلیلیں اور حدیثیں لاتا ہے۔ نبی اکرم ص نے اپنے بعض اصحاب جیسے مقداد اور خالد اور۔۔۔ کی بہت  مذمت کی ہے کہ جب مشرکوں نے دو شھادتوں کو زبان پر جاری کیا انکو قتل کیا اور فرمایا: " اے اللہ، میں خالد کے اس عمل سے بیزاری کا اظھار کرتا ہوں" حضرت نے اس جملے کو دوبار دہرایا۔[iv]

لھذا دیوبند کے بزرگ علماء نے دو شھادتوں کو اسلام اور کفر کا معیار قرار دیتے ہوئے، مسلمانوں کو کافر قرار دینے کے مسئلہ میں بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں۔ مفتی شفیع عثمانی لکہتا ہے: احتیاط لازم اور ضروری ہے کہ اگر کسی شخص سےمبھم کلام صادر ہو کہ جو مختلف احتمال رکھتا ہو کہ جس میں سے سارے احتمالوں سے اسکا کافر ہونا ظاہر ہو اور صرف ایک احتمال ہو کہ جس سے صحیح مطلب کو اخذ کیا جاسکتا ہو تو اگرچہ وہ احتمال ضعیف کیوں نہ ہو، لیکن مفتی اور قاضی پر فرض ہے کہ اس ضعیف وجہ کو اختیار کرے۔

دیوبند کے بزرگ علماء  نہ صرف مقام نظر میں، بلکہ مقام عمل میں بہی تکفیر کے ہتہیار کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔[v]

 محمد تقی عثمانی[vi](مدرسہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث) البلاغ رسالہ میں، سید احمد خان کے بارے میں تحقیقاتی واقعہ کے بارے میں، کہ ھندستان کے علماء میں  سے کچھ نے اسکے کفر کا فتوی دیا تھا، کہتا ہے:

سارے علماء حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی رائے کے منتظر تھے لیکن مولانا نے علماء کی فتوی کو امضاء کرنے سے خود داری کی اور فرمایا: میں اس مسئلہ کے بارے میں تحقیق کرکے بعد میں اپنی رائے بتائوں گا۔ اس کے بعد حضرت نانوتوی نے سید احمد خان کو خط لکہا اور کچھ چیزیں پوچھیں جو اسطرح ہیں۔ 1۔ خدا کے بارے میں آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ 2۔حضرت رسول اکرم ص کے بارے میں آپکا عقیدا کیا ہے؟ 3۔قیامت کے بارے میں آپ کا عقیدا کیا ہے؟ سید احمد خان کا سوالوں کے جواب دینے بعد حضرت نانوتوی علماء ھند کو لکہتا ہے آپ راسخ العقیدہ مسلمان کو کیوں کافر سمجھتے ہو؟ البتہ سید احمد خان نادان دوست ہے کہ اس نے آج جس راستے کا ھندستان کے مسلمانوں کو ترقی کے لئے انتخاب کیا ہے ایک دن مسلمانوں کے لئے نقصان کار ہوگا اور اسی راستے سے مسلمان نقصان اٹھائیں گے۔[vii]

(مسلمانوں کو کافر قرار نہ دینے میں)دیوبندی علماء کا فکری راستہ ابوحنیفہ، اشعری وغیرہ جیسے بزرگوں سے لیا گیا ہے؛ یہ افراد اگرچہ دیوبندی نہیں ہیں، لیکن دیوبندیوں کے بزرگون کے ہاں وہ بلند مقام رکھتے ییں جیساکہ سھارنپوری کہتا ہے فروع میں ھم سب امام اعظم ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور اصول میں ابوالحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی کی پیروی کرتے ہیں[viii]؛ کہ جن مین سے بعض کی طرف اشارا کرتے ہیں۔

طحاوی امام ابو حنیفہ [ix]سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے:"مذھب حنفیہ کسی بھی اھل قبلہ کو گناہ کی وجہ سے کافر نہین کہتا"[x]۔ ابوالحسن اشعری بھی کتاب مقالات الاسلامیین کی ابتدا میں لکہتا ہے: نبی اکرم ص کے بعد مسلمانوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ بعض چیزوں میں ایک دوسرے کو گمراہ جانا اور کبھی ایک دورے سے برائت کرتے ہیں اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے، لیکن اسلام سب مسلمانوں کو خود میں جمع کرنے والی ہے۔[xi]

ذھبی، ابوالحسن اشعری سے نقل کرتا ہے اور یہ کلام اسکے تعجب کا سبب بنا ہے کہتا ہے اشعری کا یہ کلام ثابت ہے؛ پھر زاہر سرخسی کے قول سے نقل کرتا ہے کہ:

ابوالحسن کی بغداد میں موت کے وقت، مجھے بلایا اور میں اسکے ہاں گیا، پھر کہا: اشھد علی انی لا اکفر احدا من اھل القبلہ؛ گواھ رہنا کہ میں نے اھل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہین کہا؛ کیونکہ سارے اھل قبلہ ایک معبود کی عبادت کرتے ہیں اور اختلافات لفظی ہیں۔[xii]

ملا علی قاری[xiii](متوفی 1014ھ ۔ق اور حنفیوں کے بزرگوں میں سے)کہتا ہے کافر کو اسلام میں داخل کرنا یا مسلمان کو اسلام سے خارج کرنا بھت بڑا اور خطرناک کام ہے۔[xiv]

شیخ ابوالمعانی نے، محمد عبدالحق کے سوالوں کے جواب میں لکہا ہے: "کافر کو مذھب(اسلام) میں داخل کرنا یا مسلمان کو اسلام سے نکالنا بڑا خطرناک کام ہے"[xv]۔ امام غزالی بھی کہتا ہے: اھل قبلہ جب تک لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں تب تک اپنی زبان کو انکی تکفیر سے روکو؛ کیونکہ تکفیر(ایمان کے لئے) بھت بڑا خطرا ہے اور اگر ان دو کلموں کو جھٹلایا تو انکو کافر قرار دینا واجب ہے، لیکن اگر کسی نے خبر واحد کا انکار کیا اسکو کافر قرار دینا جائز نہیں ہے اور اگر کسی نے اجماع کا انکار کیا اسکے بارے میں توقف کرنا چاھئے۔[xvi]

لھذا دیوبندیوں کے بزرگ علماء کی نظر میں مسلمان ہونے کا اصلی معیار اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور ختمی مرتبت کی نبوت پر ایمان ہے۔ اس مطلب کے زیادہ روشن ہونے کے لئے اسلام اور کفر کے معیاروں کے بحث سے کلیدی لفظوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں۔

ایمان

تکفیر کے اسباب میں سے ایک اھم سبب، ایمان کی تعریف ہے۔ بعض تکفیری گروہوں جیسے خوارج نے عمل کو ایمان کا جز سمجھا ہے۔ لھذا جو بھی گناہ کبیرہ انجام دے اس کو کافر قرار دیتے ہوئے دین سے خارج سمجھتے ہیں۔ لیکن دیوبندیوں کے بزرگ عمل کو ایمان کی تعریف میں داخل نہیں سمجھتے۔ محمد انور شاہ کشمیری ایمان اور کفر کی تعریف میں لکہتا ہے:

ایمان لغت میں امن سے لیا گیا ہے اور وہی مطلق تصدیق ہے اور شرع مقدس میں دل کے ساتھ تصدیق ہے یعنی دل کے ساتھ اسلام کو قبول کیا ہو اور اسکا اعتراف کرے اور کفر یہ ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرے، جیسے ملائکہ کے وجود کا۔[xvii]

وہ لکھتا ہے: ایمان صرف دل کے ساتھ تصدیق ہے اور عمل ایمان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اللہ نے قرآن میں ایمان کی دل کی طرف نسبت دی ہے اور اسکا ظاہر یہ ہے کہ قلبی فعل ہی صرف تصدیق ہے؛ اور دوسری طرف خدا نے ایمان کو کئی بار عمل صالح کی طرف عطف کیا ہے اگرعمل ایمان کے مفھوم میں داخل ہوتا تو اس پر عمل صالح کا عطف کرنا تو کیا، بلکہ اسکا جدا ذکر کرنا ہی عبث اور بیھودہ ھوتا۔ [xviii]

شبیر احمد عثمانی فتح الملھم میں کہتا ہے ایمان زبانی اقرار کے ساتھ قلبی تصدیق ہے اور عمل سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔[xix]

مولانا کشمیری کے بیان کے مطابق، بعض اعمال جو تکفیریوں کے گمان کے مطابق شرک کا موجب بنتے ہیں ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچاتے۔ محمد الیاس کاندھلوی بھی لکھتا ہے: "کبھی ایمان کے مقابلے میں، کفر استعمال ہوتا ہے اور کبھی نفاق۔ لھذا جوکوئی بھی نفاق میں مبتلا ہو اسکا خون مال اور ناموس مباح نہیں ہونی چاھئے"۔ [xx]

اھل قبلہ

اھل قبلہ کو کافر نہ کہنے میں دیوبند کے بزرگ علماء اتفاق نظر رکھتے ہیں، لیکن اھل قبلہ کی معنی میں اختلاف ہے۔ محمد انور کشمیری کے ہاں اھل قبلہ وہ ہیں جو ضروریات دین کا انکار نہ کریں، نہ کہ جو قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں[xxi]۔ وہ کہتا ہے جب تک کفر کی علامت یا نشانہ ظاہر نہ ہو کسی کو کافر نہ کہا جائے[xxii]۔ شیخ مقری حکیم الاسلام(محمد طیب دارالعلوم دیوبند کے سابقہ پرنسپال) کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی ضروریات اسلام میں سے کسی ایک کا منکر ہو وہ کافر ہوجاتا ہے۔

شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی بھی کفر کی اقسام کو ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے کفر کی چوتھی قسم کفر تاویل ہے؛ ایسی تاویل جو ضروریات دین کے خلاف ہو(یہ تاویل نہیں بلکہ تحریف اور الحاد ہے) [xxiii]اور دیوبند کے دوسرے بہت سارے بزرگ (علماء)کہتے ہیں کہ جو کوئی ضروریات دین کا منکر ہوا وہ کافر ہے۔ [xxiv]

تنازعہ ضروریات دین کی تعریف اور مصادیق میں ہے۔ دیوبند کے بھت سارے بزرگ (علماء)نے دین اسلام کی ضروریات کی بدیہیات سے تعریف کی ہے۔ جاجرودی مشکوت کی شرح میں کہتا ہے ضروریات دین وہ احکام ہیں کہ جو پیامبر اکرم ص سے قطعی طور پر اور بداھتا ثابت ہوں؛ جیسے پنجگانہ نماز کا ثبوت یا شراب کا حرام ھونا وغیرہ۔[xxv] ابن عابدین(علامہ شامی) لکہتا ہے:

جب بھی کسی مسئلہ میں، اگرچہ ضعیف روایت موجود ہو تو کافر نہ ہونے کی فتوی دی جائے اور میں نے خود پر لاز م قرار دیا ہے کہ فتوایی کتابوں میں، اھل قبلہ کے کفر کی فتوا نہ دوں اور یہ کہ جو کتاب خلاصہ میں، کفر کی فتوا دی ہے ضعیف قول ہے اور متنوں اور شرحوں کے خلاف ہے، بلکہ فقھاء کی اجماع کے خلاف ہے اور اس بارے میں علامہ ملا علی قاری کتاب الخلاصہ کے ضد میں ایک رسالہ لکہا ہے؛ بلکہ جو عایشہ پر فحشاء کی تھمت لگاتے ہیں یا  حضرت علی ع کی الوھیت کا عقیدہ رکھتے ہوں یا کہیں کہ جبرئیل نے وحی کو پہنچانے میں خطا کی ہے کافر ہیں اور اگر وہ توبہ کریں تو انکی توبہ قبول کی جائے۔ [xxvi]

لیکن ضروریات دین کی تعریف اور اس کے مصداق کے تعیین کا دقیق اور سخت ہونے کی وجہ سے، کبھی دیوبند کے بزرگان نے ضروریات دین کو ضروریات مذھب سمجھا ہے اور اس غلطی کی وجہ سے انکی گفتگو اھل قبلہ کی تکفیر پر ختم ہوئی ہے۔ محمد انور شاہ کشمیری کہتا ہے ضروری وہ چیز ہے جو دین محمد سے ضرورتا(واضح طور پر)سمجھی جاتی ہے چاھے (دلیل کے)تواتر اور مستفیض ہونے کی وجہ سے ہو اور عوام اسکو جانتے ہوں؛ جیسے وحدانیت اور ختم نبوت۔[xxvii] لیکن دوسرے کتاب میں ضروری کے مصداق میں خطا کا مرتکب ہوا ہے اور کہتا ہے:

ضروریات تین چیزوں میں منحصر ہیں: قرآن کے(ظاہر)کی دلالت اس شرط کے ساتھ کہ اس میں تاویل کا احتمال ممکن نہ ہو؛ جیسے ماں اور بیٹی سے نکاح کا حرام ہونا اور شراب اور قمار کی حرمت اور خدا کے لئے علم، قدرت، ارادہ اور کلام کا خدا کے لئے ثابت ہونا اور۔۔۔ ۔ لیکن کوئی بھی قرآن کے مخلوق ہو، خدا کو دیکھنے کے منکر، یا خدا کو جزئیات کا علم ہونے کے منکر کو کافر قرار نہیں دے سکتا۔ کیونکہ ان موارد میں نص جلی موجود نہیں ہے۔ سنت متواتر کا لفظی اور معنوی لحاظ سے مدلول(معنی)، چاہے اعتقادات میں سے ہو یا عملی احکام میں سے، مستحب ہو یا واجب، محبت اھل بیت کے وجوب کی طرح۔۔۔

وہ چیز جس پر قطعی اجماع ہو، جیسے شیخین کی خلافت کیونکہ حدیث وارد ہوئی ہے کہ میری امت کبھی بھی گمراھی پر اجماع نہیں کرسکتی اور یہ حدیث متواتر معنوی ہے، لہذا اس میں کوئی شبھہ نہیں کہ جو ان امور کا منکر ہو اس کا کتاب اور پیامبر پر ایمان صحیح نہیں ہے اور اسے اھل قبلہ نہیں کہا جاسکتا۔[xxviii]

نقد

خلافت کی دو قسمیں ہیں الف) خلافت یعنی رسول اللہ ص کی جانشینی۔ ب)خلافت یعنی لوگوں کی لوگوں پر حکومت، پہلی قسم پر نہ صرف اجماع نہیں ہے بلکہ تقریبا اس کے برخلاف معنی پر اجماع ہے اگر انکی مراد دوسری معنی والی خلافت ہو تو یہ اصل دینی بحث ہی نہیں کہ اس پر اجماع کی بات کی جائے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری ضروری مذھب اور ضروری دین والے مسئلے کو حل نہیں کرسکا۔ کیونکہ شیخین کی خلافت کے شرعی ہونے پر اھل سنت کا اجماع ہے، لیکن شیعہ جو خود انکے اور دیوبند کے بزرگوں کے کلام کی صراحت میں اسلامی مذاہب میں سے ہیں شیخین کی خلافت کے شرعی ہونے(اور جواز)کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ لھذا شیخین کی خلافت اھل سنت کے مذھب کی ضروریات میں سے ہے، جیسا کہ کچھ موارد جیسے اھل بیت کی امامت اور ولایت( شیعہ مذھب کی ضروریات میں سے ہے)۔ جس طرح شیعہ کو امامت کے منکر کو کافر نہیں جاننا چاھئے اسی طرح اھل سنت کو بھی شیخین کی خلافت کے منکر کو کافر نہیں سمجھنا چاھئے۔ بھت سارے حنفی اور دیوبندی بزرگ(علماء)اس مطلب پر پابند ہیں۔ یہاں تک کہ خود کشمیری نےمتعدد موارد میں ضروریات دین کی تعریف اور مصداقوں کے بیان میں اسی مبنا کو قبول اور اختیار کرتا ہے۔

کشمیری گذشتہ غلطی کے بعد کہتا ہے جو ابوبکر، عمر اور عثمان کی خلافت کا منکر ہے اسکے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاھئے، کیونکہ وہ کافر ہیں[xxix] پھر سب شیخین کے بحث میں تفصیل کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور اقوال کو ذکر کرتا ہے۔

یہ تکفیری نگاہ اس مکتب کے بعض دوسرے بزرگوں میں بھی پائی جاتی ہے، جیسے احمد سرھندی(متوفی 1034ھ ق)؛ وہ اگرچہ دیوبندی نہیں ہے، لیکن دیوبندی اس سے متاثر ہیں۔ اس نے بھی شیعوں کو سب شیخین کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے۔ وہ پہلے ان افراد کے اقوال کو بیان کرتا ہے جو شیعوں کو کافر نہیں سمجھتے؛ جیسے عقاید نسفیہ کے شارح کہ جو معتقد ہے کہ سب شیخین کی وجہ سے شیعوں کو کافر نہیں کہنا چاھئے؛ جامع الاصول کے مولف جو شیعہ کا اسلامی فرقوں میں سے ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے؛ صاحب مواقف جو معتقد ہے کہ شیعہ اسلامی مذہبوں میں سے ہے؛ ابوالحسن اشعری جو معتقد ہے کہ شیعہ کو کافر نہیں کہنا چاھئے؛ اور غزالی جو معتقد ہے کہ شیخین کو سب کرنے والے کو کافر نہیں کہا جاسکتا۔ پھر ان روایتوں کو جو شیخین کی توھین کرنے والوں کے کفر پر دلالت کرتی ہیں اور اسی طرح شیعوں کی تکفیر کو صحیح سمجھنے والوں کے اقوال کو ذکر کرتا ہے اور پھر رافضیوں کے کافر ہونے کا نتیجہ لیتا ہے: " اسلام کے سارے علماء پر واجب ہے کہ رافضیوں کی سب کے مقابلہ میں کھڑے ہوں اور مجھ فقیر نے بھی اسی انگیزہ کے ساتھ اس رسالہ کو لکہا ہے۔ [xxx]

کشمیری سب کے بارے میں لکھتا ہے کہ: "جوکوئی بھی رسول اللہ کو سب(گالی دے) کرے یا ان پر جھوٹ باندھے، یا ان سے عیب نکالے، یا حضرت کی توھین کرے وہ کافر ہوگیا ہے"[xxxi]۔ رافضیوں کو کافر قرار دینے میں حنفیوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ جیسے شاہ عبدالعزیز کہتا ہے کافر ہیں اور ایک گروہ جیسے ابن عابدین کہتا ہے کافر نہیں ہیں اور آخر میں اپنا نظریہ لاتا ہے۔ کہ قول مختار رافضیوں کا   کافر ہونا ہے۔ کیونکہ جو سب صحابہ کو کافر جانے وہ کافر ہے اور اس بارے میں رافضیوں نے کوتاھی کی ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ صحابہ کی تھوڑی تعداد کے علاوہ سب کافر ہوگئے۔ [xxxii]

نقد

شیعوں کے نزدیک حتی بت پرستوں کے مقدسات کی سب اور توھین بھی بھت زیادہ مذموم  کام ہے اور ائمہ اطھار سے سب کی منع میں متواتر احادیث صادر ھوئی ہیں اور کوئی معتبر دلیل پیدا نہیں کی جاسکتی کہ  جس سے سب اور توھین کو شیعوں کے عقیدہ کا حصہ سمجھا جائے۔ اور اگر انتھاپسندوں کا ایک ٹولہ اھل سنت کے مقدسات کو سب اور توھین کرتے ہیں(جیساکہ سپاہ صحابہ کا بنانے والا جھنگوی، اپنے کتاب میں پاکستان کے شیعوں کا سباب(سب کرنے والے) ہونے کو نقل کرکے شیعوں کے کافر ہونے کا اور انکو قتل کرنے کا نتیجہ لیتا ہے)[xxxiii]یہ اعمال شیعوں کے عقیدہ پر دلیل نہیں ہوسکتے۔

دوسری طرف شیخین کو سب کرنا اگرچہ شیعوں کے ہاں محکوم ہے، لیکن یہ تکفیر پر دلیل نہیں ہوسکتی۔ ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ سب شیخین  کے لئے بھی وھی حکم ہو جو ساب نبی ص کا ہے؛ جیساکہ عبدالحی لکہنوی لکہتا ہے: اگر سب شیخین کسی شبھہ کی وجہ سے ہو جو شیعہ کے لئے پیدا ہوا ہے تو انکو کافر نہیں قرار دینا چاھئے۔ دوسری طرف اگر سب شیخین تکفیر کا موجب ھو تو شیخین اور امیر المومنین ع کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور جو کوئی حضرت علی علیہ السلام کو سب کرے اسے بھی کافر قرار دیا جائے اور یہ مسلمات تاریخ میں سے ہے کہ معاویہ نے ایک خاص زمانے میں تمام ولایتوں کو دستور صادر کرکے سب امیر المومنین کو قانونی قرار دیا، لیکن بھت سارے اھل سنت نہ صرف معاویہ کو کافر قرار نہیں دیتے بلکہ اسے نیکی سے یاد کرتے ہیں۔

کافر کون ہے؟ کفر کیاہے؟ 

مولانا کشمیری کئی جگھوں پر بیان کرتا ہے کہ " اگر مکلف، مختار، عاقل اور غیر مکرہ(مجبور نہ ہو)، کتاب خدا یا پیامبران میں سے کسی معلوم چیز کو جھٹلائے کافر ھوجاتا ہے"[xxxiv]؛ اسی طرح " اگر  صریح کلام یا ضروری (بدیھی)لازمہ سے نہ کہ استدلالی کلام سے، نبی اکرم ص کی تکذیب ہو(تو بھی کافر ہے)۔[xxxv] " کفر یہ ہے کہ کوئی نبی اکرم ص کو ان چیزوں میں جو وہ لایا ہے تصدیق نہ کرے، یا ضروریات دین میں سے کسی ایک کو بھی جھٹلائے"۔ " لہذا ان امور میں کلام صادر ہو کہ جو معلوم الضرورت(یعنی جسکی بداھت معلوم ہے)نہ ہو تو کفر کا سبب نہیں بنتا؛ جیسے کوئی حدوث قرآن کا قائل ہو۔ کیونکہ شاید اسکی مراد قرآن کے ظاہری الفاظ ہوں"۔[xxxvi]

حکیم الامت، تھانوی[xxxvii] اسکو کافر قرار دینا جو خدا کی طرف قرب(نزدیکی) کی نسبت دیتا ہے لکہتا ہے: "اگر قرب سے مراد کیفیت کے بغیر ہو تو اس قرب کا اطلاق اشکال نہیں رکھتا۔ کیونکہ اللہ کی ذات لامتناھی ہے"۔[xxxviii]

مشرک کون ہے؟

دیوبندیوں کے بزرگ علماء اور شیعوں کی شرک کی تعریف ایک دوسرے کے نزدیک ہے۔ شاہ ولی اللہ لکہتا ہے: شرک کی حقیقت خدا کی صفات کو غیر خدا کے لئے ثابت کرنا ہے؛ جیسے تصرف مطلق(کن فیکون) کو غیر خدا کے لئے ثابت کرنا"۔[xxxix]

اشرف علی تھانوی کہتا ہے:

شرک کی حقیقت یہ ہے کہ واجب کے خواص کو ممکن کے لئے ثابت کیا جائے اور وجوبی صفات کا ممکن میں موجود ھونے کا اعتقاد رکھتا ہو اگر کوئی اعتقاد رکہتا ہو کہ وہ صفات جو خدا سے مخصوص ہیں جیسے عام قدرت اور علم وغیرہ، غیر خدا کے لئے بھی ممکن ہیں مشرک ہوجاتا ہے۔ [xl]

رشید احمد گنگوھی تین جگھوں پر کلی طور پر بیان کرتا ہے کہ مشرک وہ ہے جو مخلوقات میں سے کسی کو خدا کے ساتھ اسکی ذاتی صفات  جیسے علم، قدرت، اور عبادت میں شریک سمجھے وگرنہ ذات میں شریک جاننا اور کئی خدائوں کا قائل ہونا تو لوگوں کی تھوڑی تعداد کے علاوہ کوئی اسکا عقیدہ نہیں رکھتا۔[xli]

 تکفیری گروھوں کی مشکل شرک کی تعریف اور مصداقوں میں اشکال ہے اور مختلف بھانوں سے اسلامی مذاہب کو کافر قرار دیتے ہیں، لیکن دیوبندیوں کے بزرگوں نے اس بارے میں بھت احتیاط کی ہے، اگرچہ کہتے ہیں کہ " قبر کو چومنا اور اس پر سجدہ کرنا حرام اور ممنوع ہے"۔[xlii] رشید احمد گنگوھی[xliii] کہتا ہے: "اگر کوئی عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالی شیخ عبدالقادر گیلانی(متوفی561 ھ ق) وغیرہ کو کچھ امور سے آگاھ کرتا ہے اور عبدالقادر بھی خدا کی اجازت سے حاجتوں کو پورا کرتا ہے تو وہ شخص مشرک نہیں ہے"[xliv]۔ آگے فرماتا ہے:"بھترہے کہ علم غیب کو غیر خدا کی طرف نسبت نہ دیں۔ کیونکہ عوام کے لئے شرک کے وھم کا موجب بنتا ہے۔ لھذا ھم ان الفاظ کے استعمال کو اس وھم کی وجہ سے منع کرتے ہیں تاکہ عوام شرک کے دائرہ میں داخل نہ ہوں"[xlv]

تھانوی بھی علم غیب کو حقیقی(جو مخصوص خدا ہے) اور اضافی(وہ علم کہ جو کچھ وسیلوں کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوتا ہے،لیکن وہ سارا نہیں بلکہ کچھ عطا ہوتا ہے اور کچھ مخفی رھتا ہے)جانتا ہے۔[xlvi] وہ "یا شیخ عبدالقادر و۔۔۔" جیسے الفاظ کے استعمال کے بارے میں کہتا ہے " یہ ورد اگرچہ ہمارے ہاں جائز نہیں ہیں، لیکن یقینا شرک نہیں ہیں اور دوسرے لفظوں میں یہ الفاظ شرک اصغر ہیں"۔[xlvii]  گنگوھی غیر خدا کی قسم کہانے سے منع کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی کہتا ہے " لیکن اگر کسی نے اس کام کو انجام دیا تو اسکا یہ عمل شرک اصغر ہے نہ وہ شرک جو اسلام سے خارج کرے"۔[xlviii]

حکیم الامت تھانوی بھی کہتا ہے کافر اگر ایمان کا اظھار کرے تو منافق ہے اور اگر ایمان کو رد کرے تو وہ مرتد ہے اور اگر الوھیت میں کسی کو شریک کرے تو مشرک ہے اور ھمیشہ اسکے جھنم میں رھنے کا موجب بنتا ہے۔ عبیداللہ اسعدی، کتاب دارالعلوم دیوبند کا مولف، بعض ان اعمال کے بارے میں جو شیعہ انجام دیتے ہیں، جیسےتعزیہ اور قبر کا طواف وغیرہ جب تک کہ وہ کہتے ہیں ھم مسلمان اور موحد ہیں، صرف شرک عملی(نہ اعتقادی)رکھتے ہیں، لیکن ھندو اعتقادی اور عملی دونوں شرک رکھتے ہیں۔ لھذا غیر خدا کے لئے سجدہ مطلقا شرک نہیں ہے، بلکہ بعض حالات میں شرک کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔۔۔ قبروں کو سجدہ کرنا اور تعزیہ کی رسم کو برپا کرنا شرعیت کے جھٹلانے کی علامت نہیں ہے۔ کیونکہ انکی عبادت کافروں میں نہیں پائی جاتی۔[xlix] تھانوی کہتا ہے:

کوئی ہمارے مشایخ اور بزرگوں کو کافر نہیں کہہ سکتا اور قبروں کی عبادت اور سجدہ کرنے کی تھمت نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ انکے اعمال کو اس صورت پر حمل کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے علاوہ ساری تاثیروں کو غیر مستقل جانتے ہیں، عرب اور ھندو مشرکوں کے برخلاف کہ جو غیر خدا کی قدرت وغیرہ کو استقلالی صورت میں قبول کیا ہے۔[l]

لھذا دیوبند کے بزرگوں کو تکفیری نہیں کہا جاسکتا اور اگر کبھی دوسرےمذاہب کے کسی عمل کو شرک آلود بیان کریں تو اس سے مراد شرک اصغر یا خفی ہے؛ یعنی وہ مسلمان ہیں جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لیکن تکفیری گروہ جیسے وھابیت، اگر کسی مسلمان سے شد رحال جیسا عمل صادر ہو تو اسکے شرک جلی کے قائل ہیں یعنی کہتے ہیں دین سے خارج ہوگیا اور پھر سے کلمہ شھادتین کو پڑھے ورنہ اسکا قتل واجب ہے۔

تکفیری فرقہ کے مقابلہ میں دیوبند کے بزرگوں کا موقف

دیوبند کے علماء نے تکفیریوں پر تنقید اور انییں رد کیا ہے کہ ان میں سے بعض کی طرف ھم اشارہ کرتے ہیں؛ شاہ ولی اللہ دھلوی اگرچہ دیوبندی نہیں ہے لیکن دیو بندی فکری راستہ کو شاہ ولی اللہ سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ زیارت اور شد رحال کو جائز نہیں سمجھتا لیکن بلافاصلہ کہتا ہے کہ کوئی زائر کو کافر کہنے کا حق نہیں رکھتا۔[li] خلیل احمد سھارنپوری تکفیریوں کو خارجیوں سے تشبیہہ دیتا ہے اور لکہتا ہے انکے بارے میں باغیوں والا حکم صادق ہے؛ جیساکہ علامہ شامی نے کہا ہے کہ خارجی ایسی قدرت رکھتے تھے کہ تاویل کرکے امام پر خروج کیا۔ وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ  جب امام باطل کا مرتکب ہو تو، چاھے کفر ہو یا معصیت اور گناہ، اسکے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کی جان مال پر حملہ کو جائز سمجھتے ہوئے، عورتوں کو قید کرتے ہیں۔  اسکے باوجود بھی ھم انکو باطل تاویلات کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیتے۔ جیساکہ ہمارے زمانے میں محمد بن عبدالوھاب کے پیروکاروں نے خروج کیا اور نجد سے باہر آئے اور حرمین شریفین پر غلبہ حاصل کیا۔ وھابی خود کو احمد بن حنبل کا پیرو بتاتے ہیں، لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ مسلمان ہیں اور انکے عقیدوں کے مخالف مشرک ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ اھل سنت اور علماء کے قتل کو مباح سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ نے انکی طاقت کو توڑا۔ اس لئے ھم واضح طور پر کہتے ہیں کہ محمد بن عبدالوھاب اور اسکے ماننے والے علمی، فقھی، حدیث، تفسیر اور تصوف میں ہمارے مشایخ میں سے نہیں ہیں۔ انکا مسلمانوں کے خون، آبرو اور انکے مال کو حلال سمجھنا یا حق کی بناپر ہے یا ناحق کی بناپر؛ اگر ناحق پر ہے یا تاویل کے بغیر ہے اس صورت میں دین سے خروج کا موجب بنتا ہے، یا اس تاویل کی بناپر ہے جس کی دین نے اجازت نہیں دی ہے۔ اس صورت میں فسق ہے، اور اگر حق کی بناپر ہے تو جائز بلکہ واجب ہے۔ لیکن گذشتہ مسلمانوں کی تکفیر میں، ھم کسی کو کافر قرار نہیں دیتے۔ جس نے ان میں سے کسی کو کافر قرار دیا اس نے بدعت ڈالی ھے، اور اسکا عمل دین سے خروج کا موجب ہے اور اھل قبلہ کو اگرچہ وہ بدعتی کیوں نہ ہوں جب تک دین کے کسی ضروری حکم کا انکار نہ کیا ہو کافر قرار نہیں دیتے۔[lii]

وہ کتاب التصدیقات لرفع التلبیسات میں کہ احمد رضا خان بریلوی کے جواب میں اور محمد بن عبدالوھاب کی رد میں لکہا ہے لکہتا ہے:

اے علماء گرامی! کچھ لوگوں نے وھابیوں کے عقیدوں کی تمہاری طرف نسبت دی ہے اور اوراق اور رسالوں کو دکہایا اور لکہا ہے کہ زبان اور لغت کے اختلاف کی وجہ سے، ھم انکی باتوں کو نہیں سمجہہ پاتے۔ آپ سے توقع ہے کہ اس ماجرا کی حقیقت اور مقالات کے مطالب سے آگاہ فرمائیں اور آپ سے ان امور اور موارد کے بارے میں جن میں اھل سنت و جماعت وھابیوں کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں پوچھا جاتا ہے۔ سھارنپوری کہتا ہے محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں کے خون، مال اور آبرو کو حلال سمجھا اور سب کو مشرک جانا اور اھل قبلہ کو قتل کیا اور یہ وہی خارجی ہیں۔ لہذا ہمارے مشایخ میں سے کوئی بھی اس گروہ کے سلسلے میں نہیں ہے۔[liii]

ملا علی قاری کتاب فقہ اکبر کی شرح میں امام ابوحنیفہ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے "لانکفر احدا من اھل القبلہ"(ھم اھل قبلہ میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے) پھر کہتے ہیں:"یہ اکثر فقھاء کا عقیدہ ہے"۔ دین مبین اسلام میں سختی اور مارنا حربی کفار کے ساتھ مخصوص ہے اور مسلمانوں اور مومنوں کی ایک دوسرے سے رفتار اور میل جول بھت مہربانی اور رحمدلی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ انور شاہ کشمیری نے، محمد بن عبدالوھاب پر طعن کرتے ہوئے لکھتا ہے:"محمد بن عبدالوھاب ایک پلید، کند ذھن اور کم علم و عقل تھا اور لوگوں کو کافر قرار دینے میں بھت جلد بازی کرتا تھا"[liv]۔ وہ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھتا ہے:

ابن تیمیہ کے مزاج میں تندی اور سختی پائی جاتی ہے۔ جب بھی کسی طرف متوجہ یا کسی کا پیچھا کرنے کا ارادہ رکہتا ہو، تو ڈرتا نہیں اور جسارت کے ساتھ اس کام کو انجام دیتا ہے۔ ایسے افراد افراط اور تفریط سے محفوظ نہیں ہیں، لھذا اگرچہ وہ حافظ اور متبحر ہے لیکن اسکے نقل میں تردید پائی جاتی ہے۔[lv]

ابن تیمیہ کے بارے میں دوسری جگہ پرکہتا ہے:

جمھور ائمہ دلیل لائے ہیں کہ روضہ شریفہ کہ زیارت کے لئے سلف صالح "شد رحال" کرتے تھے اور اسکی حدیثیں تواتر کے ساتھ ھم تک پہنچی ہیں اور اب تیمیہ شد رحال کی معنی کو درست نہیں سمجھا ہے اور اسی غلطی کی وجہ سے دو مرتبہ زندان میں گیا اور وہیں دنیا سے گذر گیا۔ اس مناظرہ میں جو سراج الدین ھندی نے ابن تیمیہ کے ساتھ انجام دیا، اسے کہتا ہے:"ما انت یا ابن تیمیہ الا کالعصفور" اے ابن تیمیہ تم میرے آگے چڑیا کی مانند ہے"[lvi]

تھانوی وھابیت کے انتھا پسند فکر کی رد میں سنن نسایی میں ابو سعید خدری کی حدیث کی شرح کے حاشیہ میں جو خوارج کے ظھور سے متعلق ہے لکھتا ہے:

 بتحقیق اس نسل سے ایک قوم آئے گی جو قرآن کی بھت خوبصورت لھجہ میں تلاوت کرے گی، لیکن قرآن انکے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ اھل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے اور اسلام سے اسطرح فرار کریں گے جیسے تیر اپنے ھدف اور نشانے سے عبور کرتا ہے اور اگر میں نبی انکے زمانے کو پاتا تو قوم عاد کی طرح انکو قتل عام کرتا"۔ تھانوی اس حدیث کی شرح میں فرماتا ہے:"جو محمد بن عبدالوھاب کے دین کی پیروی کرتے اور اصول اور فروع میں اسکی اتباع کرتے اور کہتےہیں کہ چار ائمہ میں سے کسی کی بھی تقلید شرک ہے اور جو کوئی بھی انکی مخالفت کرتا ہے اسے مشرک سمجھتے ہیں، اور ھم اھل سنت کو قتل کرنےاور ہماری عورتوں کو قید کرنے کو مباح سمجھتے ہیں اور دوسرے برے عقاید رکھتے ہیں اور مستند ذریعوں سے ھم تک پہنچی ہیں اور انکے بعض عقیدوں کو میں نے خود ان سے سناہے، انکو جان لینا چاھئے کہ یہ خارجیوں کا ایک فرقہ ہیں اور علامہ شامی کتاب رد المختار فی شرح قول صاحب الدر المختار کے کتاب البغاہ میں کہتا ہے: بتحقیق آپ جانتے ہیں کہ خارجی نام رکھنے میں ایسی شرط نہیں ہے، بلکہ یہ انکے بارے میں توضیح ہے  جنہو ں نے سیدنا حضرت علی ع کے خلاف بغاوت کی، جیساکہ ہمارے زمانے میں محمد بن عبد الوھاب کے ماننے والوں کے متعلق واقع ہوا ہے، انہوں نے حرمین پر غلبہ حاصل کرکے خود کو حنبلی مذھب کی طرف نسبت دیتے تھے۔ لیکن صرف خود کو مسلمان جانتے تھے اور جو کوئی بھی انکے عقیدوں کا مخالف ہو اسے مشرک کہتے ہیں اور اسی بھانے سے لوگوں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں، یہاں تک اللہ نے انکی طاقت کو نابود کردیا۔[lvii]

غزالی کلامی فرقوں کو کافر قرار دینے کے متعلق معتقد ہے کہ:

جب تک مسلمان فرقوں کے نظریات کے متعلق شریعت میں کوئی توجیہ ملے تو انکو کافر قرار دینے سے دوری اختیار کی جائے۔ جو قبلہ کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے ہیں اور زبان پر کلمہ شھادتین کو جاری کرتے ہیں انکے خون کو مباح سمجھنا اور بھانا غلط ہوگا۔ ھزار واجب القتل کافر سے جنگ نہ کرنا ایک مسلمان کے خون بھانے سے آسان ہے۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں: میں شھادتین کو زبان پر جاری کرنے تک لوگون کے ساتھ جھاد کرنے پر مامور تھا، لیکن اسے زبان پر جاری کرنے کے بعد انکا خون اور مال سوائے خاص موارد کے امان میں ہے۔

پھر غزالی اپنے شاگرد کو وصیت کرتا ہے کہ:

اگر اپنے ماننے والوں سے جو یہ نظریہ رکھتے ہیں، گفتگو اور مناظرہ کرنا چاھو تو ان پوچھو کہ کفر کی حد اور معیار کیا ہے؟ اگر انہوں نے وہ چیز  کہی جو مذھب اشعری یا معتزلی یا حنبلی یا ان کے علاوہ دوسرے مذاہب کے خلاف ھو تو جان لو کہ وہ بے فکر شخص ہے کہ جسے دوسروں کی تقلید نے یہاں پہنچایا ہے۔ ان سے پوچھو کہ: کہاں سے جانتے ہو کہ حق اشعری کے ساتھ ہے؟ جبکہ باقلانی جیسے عالم اور دانشمند کو جو اشعری کا مخالف ہے، کافر قرار دیتے ہو۔[lviii]

دیوبندی بزرگوں میں سے حسین بن احمد مدنی جو تکفیر کے باب میں سخت محتاط تھے اور مسلمان فرقوں کو ادنی شبھے کی بنا پر اسلام سے خارج نہیں جانتے تہے۔ اس نے وھابیت کے خلاف کتاب الشھاب الثاقب علی المستشرق الکاذب وھابیت کی تکفیروں کے متعلق اپنا موقف واضح کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ محمد بن عبدالوھاب نجدی کہ جس نے بھت سارے اھل سنت کو قتل کیا ہے، باطل افکار اور عقاید رکھتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ وہ ظالم، گنھگار، فاسق اور سفاک آدمی تھا۔ اسکا عقیدہ تھا کہ سارے مسلمان مشرک اور کافر ہیں۔ لھذا انکا قتل واجب ہے۔[lix] وہ وھابیت کے عقیدہ کے باب میں کہ جو مسلمانوں کو استغاثہ کی وجہ سے مشرک جانتے ہیں اشکال کرتا ہے[lx] اور مزے کی بات یہ ہے کہ کتاب الدیوبندیہ کا وھابی مولف مدنی کی اس اشکال کو اسکے مشرک ہونے کی علامت سمجھتا ہے۔

مولوی عبدالشکور القاسم رسالہ میں "دیوبند"  عنوانی مقالہ میں وھابیت کے انتھا پسند عقیدہ پر سخت حملہ کرتا ہے اور  ان سے برائت کا اظھار کرتے ہوئے، ان لوگوں سے جو دیوبندیوں کو وھابی کہتے ہیں سے شکایت اور غصہ کا اظھار کرتے ہیں، اور دارالعلوم دیوبند کے تحولات کو اور یہ ذکر کرنے کے بعد کہ دارالعلوم ھندوستان کی "الازہر" ہے ایسے کہتا ہے:

بیشک حاسدوں اور کینہ توزوں نے دارالعلوم کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور اپنے سارے وجود کے ساتھ انکو وھابی اور نجدی ہونے سے متھم کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی دیوبند کی طرف وھابی، نجدی، ملحد، کافر یا مرتد ہونے کی نسبت دے اس نے یہ نسبت خود کو دی ہے اور یہ نسبت درست نہیں ہے۔ [lxi]

شیخ محمود حسن دیوبند[lxii] مولوی سھارنپوری کا وھابیت کی انتھا پسندی کے جواب کی تایید کرتا ہے اور کہتا ہے:

انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ہمارا اور ہمارے سارے اساتذہ کا عقیدہ ہے۔ اس میں تردید نہیں ہے۔ حاسدین کے وسوسوں اور اھل حق پر نا روا تھمتوں کو باطل کرنے کی وجہ سے خدا انکی زحمات اجر عطا فرمائے۔ [lxiii]

شیخ رشید احمد گنگوھی فتاوای رشیدیہ کی مختلف جگھوں پر تصریح کرتا ہے کہ وھابی فاسق ہیں۔ کیونکہ اسلاف صالح کی بے ادبی میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لھذا نماز میں انکی اقتدا مکروہ ہے۔ اس نے علامہ شامی کی کتاب کہ جس نے محمد بن عبدالوھاب اور اسکے پیروکاروں کو خارجی فرقہ سے جانا ہے کا دفاع کیا ہے۔[lxiv]

 محمد حسن خان سرھندی مجددی کہتے ہیں:

مقلدوں اور غیر مقلدوں کے ہاں مورد نزاع اصول چار چیزیں ہیں: غیر خدا کی تعظیم، صالحوں کے ارواح سے توسل اور مدد طلب کرنا، غائب کو پکارنا اور سماع موتی، اور چار مذہبوں کے بانیوں کی تقلید اور پیروی کرنا۔ وھابیت چاروں چیزوں کو شرک، کفر اور بدعت سمجھتی ہے۔ [lxv]

صاحب جان ھندی غائب کو پکارنے اور استغاثہ کی معنا بیان کرنے کے بعد لکہتا ہے:

یہ ساری چیزیں وھابیت اور انکے ھمنوائوں کے ہاں شرک اکبر ہیں، اگرچہ حضرت رسول اکرم ص کے روح مبارک سے خطاب کیوں نہ ہو! یہ گروہ فعل سلف کو شرک اور اسکے فاعل کو مشرک سمجھتے ہیں۔[lxvi]

 دیوبندیوں کے بزرگ علماء کو بھی کبھی انتھاپسندوں کی طرف سے کافر کہا گیا ہے اور بعض تکفیری جیسے کتاب الدیوبندیہ کا مولف؛ ان افراد کی جو دیوبندی مشایخ کے ہاں محترم ہیں۔ جیسے خواجہ بھاء الدین نقشبند، خواجہ معین الدین چشتی، عبدالقادر جیلانی، اور شیخ عبدالوھاب الشعرانی وغیرہ، کی بے ادبی کی ہے، اور مختلف بھانوں سے انکو کافر کہا ہے؛ مثلا ایک جگہ لکہتا ہے:"مردوں سے استغاثہ اور استعانت(مدد طلب کرنا) دیوبندیوں کا سب سے بڑا عقیدہ ہے" آگے لکھتا ہے:"دیوبندیوں کا استغاثہ کے باب میں کلام صدر اسلام کے مشرکوں سے کوئی فرق نہیں رکہتا"۔[lxvii]

دیوبندیوں کے تکفیری گروہ

دیوبندی علماء اور بزرگوں کے ہاں وہ گروہ جو پاکستان کے ھندستان سے جدا ہونے کے حامی تھے ملانا شبیر احمد عثمانی کی سربراھی میں جمیعت العلماء اسلام کا بنیاد رکھا کہ اس جمیعت کے درمیان معتدل اور انتھاپسند گروہ وجود میں آئے۔ اس جمیعت سے وابستہ اور سپاہ صحابہ پاکستان کا گذشتہ موسس ضیاءالرحمن فاروقی، جو نا معلوم افراد کے ذریعہ مارا گیا، انتھاپسندی کی راہ کو چلنے لگا اور ایران کے اسلامی انقلاب کے رشد کے مقابلہ میں ایران کے رھبر کی خلاف السلام والخمینی نامی کتاب لکہا۔ اس نے سپاہ صحابہ کی تاسیس کا مقصد اسلامی جمھوریہ ایران کے رھبر کا صحابہ اور خلفاء راشدین کے خلاف  پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنا بتایا۔ [lxviii]

پھر شیعہ کے کفر کے بارے میں تاریخی دستاویز کے نام سے دوسری کتاب لکہی اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ سارے علماء نے شیعہ کے کفر کی فتوی دی ہے۔ اس کتاب کے دو تھائی حصہ میں شیعہ کتابوں سے شواھد کو اکٹھا کیا ہے کہ شیعہ صحابہ کی، خاص کرکے شیخین کی توھین کرتے ہیں اور نتیجہ میں فتوائوں کو لائے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں۔[lxix]

البتہ دیوبند کے طراز اول کے علماء، کہ جن کا اس مقالہ کی ابتدا میں نام لایا گیا ہے، کسی نے بھی سپاہ صحابہ کی تکفیر اور خاص کرکے مسلمانوں کو قتل کرنے کے طور اور طریقے کی حمایت نہیں کی ہے۔ اگرچہ افسوس کے ساتھ انکے خلاف ٹھوس موقف بھی اختیار نہیں کیا گیا۔

نتیجہ 

ان اصول اور ضابطوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو دیوبندی مشایخ کی طرف سے اسلام اور کفر کے باب میں بیان ہوئے  اور وہ احتیاط جو دیوبندی علماء نے اھل قبلہ کی تکفیر کے بارے میں کی ہے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دیوبند ایک معتدل فرقہ ہے اور انتھاپسندی سے دور ہے؛  اگرچہ کبھی مکتب دیوبند(اور سارے اسلامی مذاہب میں) انتھاپسند گروہوں کے موجود ھونے کا مشاہدہ کرتے ھیں، لیکن اس اس مکتب کو تکفیری نہیں

***********************************


[i] دار العلوم کے مؤسس ،اینٹی استعمار اور شیعوں اور بہائیت کی رد میں کتاب لکہی ہے 

[ii] محمد انورشاه كشمیری، العرف الشذی، ج3، ص399؛ وہی، إكفار الملحدین فی ضروریات الدین، ص20؛ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، ج1، ص14؛ مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح مسلم، ج1، ص51؛ احمد بن شعیب نسائی، سنن، ج7، ص79.

[iii] شبیر احمد عثمانی، فتح الملهم، ج1، ص 179.

[iv]. محمد یوسف کاندهلوی، حیاة الصحابه، ج4، ص93-107.

[v] مجموعه مقالات كمیسیون كلامى (اسلام و كفر) مولوى دوست محمد نعمانى کا جواهر الفقه: مفتى محمد شفيع عثمانى.سے نقل کیا گیا، مقالہ

[vi] تکمله فتح الملهم، علوم القران الکریم، جواهر القران الکریم، جیسے آثار کے مولف.

[vii] ماه‌نامه البلاغ كراچی اردوزبان، ص9.

[viii] المهند علی المفند – سهارنپوری ص 2

[ix] دیوبند فقهی لحاظ سے حنفی ہیں.

[x] محمد بن عبد الرحمن الخمیس، أصول الدین عند الامام أبی حنیفة، ص170.

[xi] ابوالحسن اشعری، مقالات الاسلامیین، ج1، ص1.

[xii] علی بن حسن ابن عساکر، تبیین كذب المفتری فیما نسب إلى الأشعری، ص149.

[xiii] ملا علی قاری اگرچہ دیوبندیوں سے کئی سال پہلے گذرے ہیں لیکن دیوبندی مشایخ کے تفکر پر بڑے اثرات چہوڑے ہیں اور ہمیشہ اسکے نظریات سے استفادہ کرتے ہیں

[xiv] ملاعلی قاری، شرح الشفا، ج2، ص500.

[xv] وہی، فصل فى تَحقیق القَول فِى الكُفار المُتاَولین، ج2، ص200.

[xvi] مفتى محمد شفیع، ایمان و كفر، ص38.

[xvii] محمد ادریس کاندهلوی، التعلیق الصبیح على مشكاة المصابیح، ج2، ص16.

[xviii] محمد انورشاه کشمیری، فیض البارى شرح صحیح البخارى، ج1، ص43.

[xix] علی ابن حسن ابن عساکر، تبیین كذب المفتری فیما نسب إلى الأشعری، ص149.

[xx] محمد ادریس کاندهلوی، التعلیق الصبیح على مشكاة المصابیح، ج2، ص14.

[xxi] محمد انورشاه کشمیری، إكفار الملحدین فی ضروریات الدین، ص51.

[xxii] وہی، ص16؛ جواهر الفقه، ج1، ص27.

[xxiii] مقاله اسلام و كفر محمد سليم يار احمد زهى نقل از کتاب، فتاواى عزیزیه، ج1، ص42.(مجموعه مقالات كميسيون كلامى)

[xxiv] ملاعلی قاری، شرح الفقه الأكبر، ص154-155؛ ابوحامد غزالی، الاقتصاد في الاعتقاد، ص223-224.

[xxv] مجموعه مقالات كميسيون كلام مقاله اسلام و كفرمحمد سليم يار احمد زهى، نقل از كتاب اسعد المفتاح فى حل المشكوة المصابیح، ص104.

[xxvi] محمد امین بن عمر، ابن ‌عابدین، الدر المختار و حاشیة ابن عابدین، ج4، ص237.

[xxvii] محمد انورشاه کشمیری، کتاب مجموع فیه ثلاث رسائل، ص18

[xxviii] محمد انورشاه کشمیری، إكفار الملحدین فی ضروریات الدین، ص122.

[xxix] وہی، ص51.

[xxx] احمد بن عبدالاحد سرهندی، رسالة رد الروافض، ص15، بترقیم الشاملة آلیا.

[xxxi] محمد انورشاه کشمیری، إكفار الملحدین فی ضروریات الدین، ص54.

[xxxii] محمد انورشاه کشمیری، فیض البارى شرح صحیح البخارى، ج1، ص99؛ وہی، العرف الشذی، ج1، ص74.

[xxxiii] رب نواز طاهر - کتاب نقوش جهنگوی، ص23. انتشارات مکتبه خلافت راشده(به زبان اردو)

[xxxiv] محمد انورشاه کشمیری، إكفار الملحدین فی ضروریات الدین، ص82.

[xxxv] وہی، ص86.

[xxxvi] محمد انورشاه کشمیری، فیض الباری، ج4، ص529.

[xxxvii] اسکی 800 تالیفیں ذکر کی گئی ہیں دیوبند کے اہم علماء میں سے ہے

[xxxviii] اشرف علی تهانوی، امداد الفتاوی، ج6، ص20.

[xxxix] شاه ولی الله دهلوی، الفوز الكبیر فی أصول التفسیر، ص35.

[xl] وہی، تفسیر بیان القران، ج2، ص38؛ ج2، ص117.

 

[xli] رشید احمد عثمانی، الفتاوی الرشیدیه، ص23، به نقل از: دارالعلوم دیوبند، ص526.

[xlii] رشید احمد عثمانی، الفتاوی الرشیدیه، ص130.

[xliii] دیوبند کی بنیاد ڈالنے میں انکا کردار ہے اور بہت ساری کتابوں کے مولف ہیں

[xliv] رشید احمد عثمانی، الفتاوی الرشیدیه، ص50.

[xlv] وہی، و 51

[xlvi] اشرف علی تهانوی، امداد الفتاوی، ج5، ص144.

[xlvii] رشید احمد عثمانی، الفتاوی الرشیدیه، ص53.

[xlviii] وہی، ص50.

[xlix] محمد عبیدالله الاسعدی القاسمی، دارالعلوم دیوبند، ص528.

[l] رسالة نهایة الادراک فی اقسام الاشراک من امداد الفتاوی، ج6، ص81-85، به نقل از: محمد عبیدالله الاسعدی القاسمی، دارالعلوم دیوبند، ص50.

[li] شاه ولی الله دهلوی، التفهیمیات الالهیه، ص45.

[lii] خلیل احمد سهارنپوری، المهند على المفند، ص6؛ وہی، عقاید علماى دیوبند، ص46-47.

[liii] خلیل احمد سهارنپوری، المهند على المفند، ص6.

[liv] محمد انورشاه کشمیری، فیض البارى شرح صحیح البخارى، ج1، ص139.

[lv] وہی، ج1، ص171-172، کتاب العلم.

[lvi] محمد انورشاه کشمیری، العرف الشذی، ج1، ص382.

[lvii] محمد تهانوی، حاشیه سنن نسائی، ج1، ص359، کتاب زکات، باب مؤلفة قلوب.

[lviii] شرح عقاید طحاوى، ص133، به نقل از: مجموعه مقالات كمیسیون كلامى (اسلام و كفر).

[lix] حسین احمد مدنی، الشهاب الثاقب علي المستشرق الكاذب ، ص42-66؛علماء دیوبند مذهبهم و مشربهم، ص61.

[lx] علماء دیوبند مذهبهم و مشربهم، ص31.

[lxi] مجله ماهنامه القاسم، دیوبند، ص3، شماره جمادی الاول، 1342، به نقل از: ابوالمکرم بن عبدالجلیل، دعوة محمد بن عبد الوهاب بین مؤیدیها و معاندیها فی شبهه القارة الهندیه، ص230.

[lxii] شیخ الهند اور انٹی استعمار تھا. انہوں نے صحاح ستہ پر شرحیں لکہی ہیں اور قرآن کا اردو زبان میں ترجمه کیا ہے.

[lxiii] ابوالمکرم بن عبدالجلیل، دعوة محمد بن عبدالوهاب، ص192.

[lxiv] وہی، ص146.

[lxv] مولانا حسن خان سرهندی مجددی، الأصول الأربعة فی تردید الوهابیة، ص9ـ10.

[lxvi] وہی، ص45.

[lxvii] أبي أسامة سيد طالب الرحمن ، الدیوبندیة، ص7.

[lxviii] محمد اکرم عارفی، جنبش‌های اسلامی پاکستان.

[lxix] ضیاء الرحمن فاروقی، خمینی ازم اور اسلام، ص47، به نقل از: پایان‌نامه تکفیر شیعیان نزد تکفیریون، سید فؤاد حسین الحسینی، ص29.

 

منابع

الاختلافات الأصلیة بین عقیدة أهل السنة الدیوبندیة والفرقة الوهابیة، بي تا،بي نا،بي جا

منتدى الصوفیة، علماء دیوبند مذهبهم ومشربهم، بي‌تا، بي‌نا، بي‌جا.

ابن‌عابدین، محمد امین بن عمر، رد المحتار على الدر المختار، بیروت: دار الفكر، بي تا

ابن عساکر، علی بن حسن، تبیین كذب المفتری فیما نسب إلى الامام أبی الحسن الأشعری، بیروت: دار الكتاب العربی، بي‌تا.

ابوالمكرم بن عبد الجلیل، دعوة الامام محمد بن عبد الوهاب بین مؤیدیها و معارضیها فی شبه القاره الهندیه، دارالسلام للنشر و التوزیع، ۱۴۲۱.

ابی‌غده، شیخ عبد الفتاح، تعریف بكتاب فتح الملهم شرح صحیح مسلم و صاحبه شبیر أحمد العثمانی، منتشر درمجلة الداعي الشهرية الصادرة عن دار العلوم .

اشعری، ابوالحسن، مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين، تحقیق: نعیم زرزور، چاپ سوّم، فیسبادن ـ آلمان: دار فرانز شتايز، 1400ق.

بخاری، محمّد بن اسماعیل، الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول الله صلّی الله علیه وسلّم وسننه و أیامه (صحیح البخاری)، تحقیق: محمد زهیر بن ناصر، چاپ اول، بی‌جا: دار طوق النجاة، 1422.

تهانوی، اشرف علی، امداد الفتاوی، کراچی: مکتبه دارالعلوم، ۱۳۳۱.

تهانوی، ظفر احمد، فهارس اعلاء السنن نسائی، بی‌جا: دارالفکر، 1421.

جوهرى، ابو نصر اسماعیل بن حماد، الصحاح، چاپ چهارم، بیروت: دار العلم للملايين، 1407ق.

خمیس، محمد بن عبد الرحمن، أصول الدین عند الامام أبی حنیفة، عربستان: دارالصمیعی، بي‌تا.

دهلوی، شاه ولی الله، التفهیمات الالهیه، المجلس العلمی، ۱۳۵۵، بی‌جا.

، الفوز الكبیر فی أصول التفسیر، ترجمه به عربی: سلمان الحسینی النَّدوی، چاپ دوم، قاهره: دار الصحوة، 1407ق.

سرهندی مجددی، مولانا حسن خان، الأصول الأربعة فی تردید الوهابیة، استانبول: دار الشفعة بفاتح 72، 1346 ه.ق./‍ 1928 م.

سرْهِنْدِی، أحمد بن عبد الأحد، رسالة ردالروافض، بي‌تا، بي نا، بي‌جا.

سهارنفوری، خلیل احمد، المهند على المفند، (عقاید علماى دیوبند)، 1346ق.

عارفی، محمد اکرم، جنبش‌های اسلامی پاکستان، قم: انتشارات دفتر تبلیغات حوزه علمیه قم.

گنگوهی، رشید احمد، الفتاوی الرشیدیه (كامل)، به زبان اردو، بي‌جا، بي‌نا، بي‌تا.

عثمانی، شبیر احمد، موسوعه فتح الملهم بشرح صحیح الامام مسلم بن حجاج القشری، بیروت: دار احیاء التراث العربی، 1434ق.

غزالی، ابوحامد، الاقتصاد فی الاعتقاد، چاپ اول، بیروت: دار الكتب العلمية، 1424ق.

قاری، ملا علی، شرح الشفا، چاپ اول، بيروت: دارالكتب العلمية، 1421ق.

، شرح الفقه الأكبر، بي‌جا، بي‌نا، بي‌تا.

الگار، حامد، وهابی‌گری، ترجمه: احمد نمایی، مشهد: انتشارات بنیاد پژوهش‌های اسلامی آستان قدس رضوی، 1378ش

كاندهلوى، شیخ محمّد یوسف، حیاة الصحابه، ترجمه: مجیب الرّحمن، ویژه کتابخانه العقیده، بي‌جا،‌ بي‌نا، بي‌تا.

كشمیری، محمد أنور شاه، فیض البارى شرح صحیح البخارى، بیروت: دارالكتب العلمیة، بي‌تا.

، العرف الشذی شرح سنن الترمذی، بیروت: دار احياء التراث العربی، 1425ق.

کاندهلوی، محمّد ادریس، التعلیق الصبیح علی مشکاة المصابیح، المجلس العلمی الاسلامی، چاپ اول، بي‌تا.

كشمیری، محمد أنور، إكفار الملحدین فی ضروریات الدِّین، پاكستان: مكتبة عمر فاروق، بي‌تا.

، مجموع فیه ثلاث رسائل، ناشر دارالبشائر اسلامی، 1431ق.

جامعه دارالعلوم کراچی، ماهنامه البلاغ ،كراچی اردو زبان با مدیریت محمد تقی عثمانی ، 1332ق

مدنی، حسین احمد، الشهاب الثاقب علی المسترق الکاذب، چاپ دوم، لاهور: دار الکتاب، 2004م.

نسائی، احمد بن شعیب، السنن الصغرى، تحقیق: عبد الفتاح أبو غدة، چاپ دوم: حلب: مكتب المطبوعات الاسلامیة، 1406.

رب نواز طاهر، نقوش جهنگوی، به زبان اردو، مکتبة خلافت راشده، بی‌جا، بی‌تا.





شیعوں کی 40 کفریہ عبارات و عقائد ٹھنڈے دل سے ضرور پڑھیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تحریفِ قرآن:

قرآن پاک جس پر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے، اس میں تحریف نہیں ہے، قرآن پاک میں سے ایک لفظ کا بھی انکار کفر ہے، اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ اس میں کوئی لفظ زیادہ ہے نہ کم ہے، لیکن شیعہ قرآن پاک میں کمی کے قائل ہی نہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ’’موجودہ قرآن میں سے بہت سےالفاظ نکال لئے ہیں‘‘، شیخ طوسی نے روایت کیا ہے کہ:

شیعہ کی تحریفا ت

(۱)       ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً و اٰل ابراھیم و اٰل عمران و اٰل محمد علی العالمین میں اٰل محمد کے لفظ کو نکال لیا گیا ہے۔

معلوم ہوا کہ موجودہ قرآن میں لفظ اٰل محمد نہیں ہے۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۱۲۳)

(۲)       قرآن پاک کی صحیح آیت: اِنَّ عَلَیْنَا لَلھُدیٰ۔

            تحریف شدہ آیت: وَ اِنَّ عَلِیًّا لَلھُدٰی، یعنی علی اور ان کی ولایت ہدایت ہے۔

یہ لفظ عَلَیْنَا نہیں عَلِیًّا ہے، (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ (حیات القلوب:۲،۱۲۳)

(۳)      قرآن پاک کی صحیح آیت: فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا۔ (الاسراء:۴۸، الفرقان:۹)

            تحریف شدہ آیت: فلا یستطیعون ولایۃ علی سبیلاً۔

قرآن سے شعیہ عقیدہ کےمطابق یہ الفاظ ولایۃ علیّ نکال دئے گئے ہیں۔

(نعوذ باللہ من ذٰلک)۔        (حیات القلوب:۲،۱۲۳)

(۴)      قرآن پاک کی صحیح آیت: وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا۔ (الاسراء:۴۷)

            تحریف شدہ آیت: و قال الظالمون اٰل محمد حقھم۔

 (۹)      قرآن پاک کی صحیح آیت: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ۔ (البقرۃ:۱۴۳)

            تحریف شدہ آیت: و کذالک جعلناکم ائمتہ و سطا عدلا تکونوا شھداء علی الناس۔ (ترجمہ حیات القلوب:۳،۲۳۴)

(۱۰)     قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔ (الکھف:۲۹)

            تحریف شدہ قرآنی آیت: انا اعتدنا للظالمین اٰل محمد ناراً احاط بھم سرادقھا۔

(۱۱)      قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: وَالْعَصْرِ ۔ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ (سورۃ العصر)

            تحریف شدہ قرآنی آیت: ان الانسان لفی خسر، انہ فیہ من الدھر الا الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات وأتمروا بالتقویٰ وأتمروا بالصبر۔ (حیات القلوب:۳،۳۷۸)

قرآن پاک کی پوری سورۃ العصر کو بدل دیا۔

(۱۲)     قرآن پاک کی صحیح آیت مبارکہ: وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔ (الکھف:۲۹)

            تحریف شدہ قرآنی آیت: قل الحق من ربکم فی ولایۃ علی انا اعتدنا للظالمین اٰل محمد ناراً احاط بھم سرادقھا۔ (حیات القلوب:۳،۳۸۵)

(۱۳)     قرآن کریم کی صحیح آیتِ مبارکہ: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ۔ (البقرۃ:۵۹)

            تحریف شدہ قرآنی آیت: فبدل الذین ظلموا اٰل محمد حقھم قولاً غیر الذی قیل لھم فانزلنا علی الذین ظلموا اَٰ محمد حقھم رجزا من السماء۔

اس میں اٰل محمد کے الفاظ اپنی طرف سے درج کئے ہیں۔ (حیات القلوب)

(۱۴)     قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَكُمْ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ (النساء:۱۷۰)

            تحریف شدہ قرآنی آیت: يا أيها الناس قد جاءكم الرسول بالحق من ربكم فی ولایۃ علی فآمنوا خيرا لكم وإن تكفروا بولایۃ علی فإن لله ما في السماوات والأرض۔ (ترجمہ حیات القلوب بشارتی مترجم باقر مجلسی:۳۸۹)

فی ولایۃ علی اور بولایۃ علی کا اضافہ ہے۔

(۱۵)     قرآن پاک کی صحیح آیتِ مبارکہ: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ۔ (النساء:۱۶۸)

تحریف شدہ قرآنی آیت: ان الذین ظلموا اٰل محمد حقھم۔ (حیات القلوب:۳،۳۸۹)

ان پندرہ آیاتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ شیعہ عقائد میں موجود قرآن مبارک نامکمل اور صحیح نہیں ہے، قرآن و سنت کے مطابق اور قرآنی قانون کے مطابق کلمۂ طیبہ کو تبدیل کرنے والا مرتد واجب القتل ہے، ان تمام آیات کی تبدیلی کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے اور ان کی کتاب جس مںی یہ آیات لکھی گئی ہیں ایک حوالہ بھی غلط نہیں لکھا گیا ہے۔


(ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ 15 ﮐﻔﺮﯾﮧ ﻋﺒﺎﺭﺍﺕ )

ﺗﺤﺮﯾﻒِ ﻗﺮﺁﻥ:

ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ

ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﻗﺮﺁﻥ

ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﻔﺮ ﮨﮯ، ﺍﮨﻞِ ﺍﺳﻼﻡ

ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﻢ ﮨﮯ،

ﻟﯿﮑﻦ ﺷﯿﻌﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ

ﺍﻥ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ

ﺳﮯﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ ‘‘ ، ﺷﯿﺦ ﻃﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ

ﮨﮯ ﮐﮧ :

ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﻔﺎﺕ

(۱) ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺻﻄﻔﯽٰ ﺁﺩﻡ ﻭ ﻧﻮﺣﺎً ﻭ ﺍٰﻝ

ﺍﺑﺮﺍﮬﯿﻢ ﻭ ﺍٰﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺍٰﻝ

ﻣﺤﻤﺪ ﮐﮯ ﻟﻔﻆ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔

ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ

ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ (ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : ۲،۱۲۳ )

(۲) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ : ﺍِﻥَّ ﻋَﻠَﯿْﻨَﺎ

ﻟَﻠﮭُﺪﯼٰ ۔

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ : ﻭَ ﺍِﻥَّ ﻋَﻠِﯿًّﺎ ﻟَﻠﮭُﺪٰﯼ ،

ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻻﯾﺖ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮨﮯ۔

ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﻋَﻠَﯿْﻨَﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻋَﻠِﯿًّﺎ ﮨﮯ، (ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﻣﻦ

ﺫٰﻟﮏ ) ۔ (ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : ۲،۱۲۳ )

(۳) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ : ﻓَﻠَﺎ

ﻳَﺴْﺘَﻄِﻴﻌُﻮﻥَ ﺳَﺒِﻴﻠًﺎ ۔ ( ﺍﻻﺳﺮﺍﺀ : ۴۸، ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ :۹ )

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ: ﻓﻼ ﯾﺴﺘﻄﯿﻌﻮﻥ

ﻭﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﺳﺒﯿﻼً۔

ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺷﻌﯿﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮯﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ

ﻭﻻﯾۃ ﻋﻠﯽّ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔

(ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﻣﻦ ﺫٰﻟﮏ )۔ (ﺣﯿﺎﺕ

ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : ۲،۱۲۳)

(۴) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ : ﻭَﻗَﺎﻝَ

ﺍﻟﻈَّﺎﻟِﻤُﻮﻥَ ﺇِﻥْ ﺗَﺘَّﺒِﻌُﻮﻥَ ﺇِﻟَّﺎ ﺭَﺟُﻠًﺎ ﻣَﺴْﺤُﻮﺭًﺍ۔ ( ﺍﻻﺳﺮﺍﺀ : ۴۷)

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ : ﻭ ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻈﺎﻟﻤﻮﻥ

ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ ۔

(۹) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ : ﻭَﻛَﺬَﻟِﻚَ

ﺟَﻌَﻠْﻨَﺎﻛُﻢْ ﺃُﻣَّﺔً ﻭَﺳَﻄًﺎ ﻟِﺘَﻜُﻮﻧُﻮﺍ ﺷُﻬَﺪَﺍﺀَ۔ ( ﺍﻟﺒﻘﺮۃ : ۱۴۳)

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﺁﯾﺖ : ﻭ ﮐﺬﺍﻟﮏ ﺟﻌﻠﻨﺎﮐﻢ

ﺍﺋﻤﺘﮧ ﻭ ﺳﻄﺎ ﻋﺪﻻ ﺗﮑﻮﻧﻮﺍ ﺷﮭﺪﺍﺀ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻨﺎﺱ۔ (ﺗﺮﺟﻤﮧ

ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : ۳،۲۳۴ )

(۱۰ ) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ : ﺇِﻧَّﺎ

ﺃَﻋْﺘَﺪْﻧَﺎ ﻟِﻠﻈَّﺎﻟِﻤِﻴﻦَ ﻧَﺎﺭًﺍ ﺃَﺣَﺎﻁَ ﺑِﻬِﻢْ ﺳُﺮَﺍﺩِﻗُﻬَﺎ۔ (ﺍﻟﮑﮭﻒ : ۲۹)

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﺍﻧﺎ ﺍﻋﺘﺪﻧﺎ

ﻟﻠﻈﺎﻟﻤﯿﻦ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻧﺎﺭﺍً ﺍﺣﺎﻁ ﺑﮭﻢ ﺳﺮﺍﺩﻗﮭﺎ ۔

(۱۱ ) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ :

ﻭَﺍﻟْﻌَﺼْﺮِ ۔ ﺇِﻥَّ ﺍﻟْﺈِﻧْﺴَﺎﻥَ ﻟَﻔِﻲ ﺧُﺴْﺮٍ ۔ ﺇِﻟَّﺎ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁﻣَﻨُﻮﺍ ﻭَﻋَﻤِﻠُﻮﺍ

ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤَﺎﺕِ ﻭَﺗَﻮَﺍﺻَﻮْﺍ ﺑِﺎﻟْﺤَﻖِّ ﻭَﺗَﻮَﺍﺻَﻮْﺍ ﺑِﺎﻟﺼَّﺒْﺮِ ۔ (ﺳﻮﺭۃ

ﺍﻟﻌﺼﺮ )

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﺍﻥ ﺍﻻﻧﺴﺎﻥ

ﻟﻔﯽ ﺧﺴﺮ، ﺍﻧﮧ ﻓﯿﮧ ﻣﻦ ﺍﻟﺪﮬﺮ ﺍﻻ ﺍﻟﺬﯾﻦ ﺍٰﻣﻨﻮﺍ ﻭ ﻋﻤﻠﻮﺍ

ﺍﻟﺼﺎﻟﺤﺎﺕ ﻭﺃﺗﻤﺮﻭﺍ ﺑﺎﻟﺘﻘﻮﯼٰ ﻭﺃﺗﻤﺮﻭﺍ ﺑﺎﻟﺼﺒﺮ۔ (ﺣﯿﺎﺕ

ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : ۳،۳۷۸)

ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻌﺼﺮ ﮐﻮ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ۔

(۱۲ ) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ :

ﻭَﻗُﻞِ ﺍﻟْﺤَﻖُّ ﻣِﻦْ ﺭَﺑِّﻜُﻢْ ﻓَﻤَﻦْ ﺷَﺎﺀَ ﻓَﻠْﻴُﺆْﻣِﻦْ ﻭَﻣَﻦْ ﺷَﺎﺀَ ﻓَﻠْﻴَﻜْﻔُﺮْ ﺇِﻧَّﺎ

ﺃَﻋْﺘَﺪْﻧَﺎ ﻟِﻠﻈَّﺎﻟِﻤِﻴﻦَ ﻧَﺎﺭًﺍ ﺃَﺣَﺎﻁَ ﺑِﻬِﻢْ ﺳُﺮَﺍﺩِﻗُﻬَﺎ۔ (ﺍﻟﮑﮭﻒ : ۲۹)

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﻗﻞ ﺍﻟﺤﻖ

ﻣﻦ ﺭﺑﮑﻢ ﻓﯽ ﻭﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﺍﻧﺎ ﺍﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻠﻈﺎﻟﻤﯿﻦ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻧﺎﺭﺍً

ﺍﺣﺎﻁ ﺑﮭﻢ ﺳﺮﺍﺩﻗﮭﺎ۔ (ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : ۳،۳۸۵ )

(۱۳ ) ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ :

ﻓَﺒَﺪَّﻝَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻇَﻠَﻤُﻮﺍ ﻗَﻮْﻟًﺎ ﻏَﻴْﺮَ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻗِﻴﻞَ ﻟَﻬُﻢْ ﻓَﺄَﻧْﺰَﻟْﻨَﺎ ﻋَﻠَﻰ

ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻇَﻠَﻤُﻮﺍ ﺭِﺟْﺰًﺍ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺀِ۔ ( ﺍﻟﺒﻘﺮۃ : ۵۹)

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﻓﺒﺪﻝ ﺍﻟﺬﯾﻦ

ﻇﻠﻤﻮﺍ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ ﻗﻮﻻً ﻏﯿﺮ ﺍﻟﺬﯼ ﻗﯿﻞ ﻟﮭﻢ ﻓﺎﻧﺰﻟﻨﺎ ﻋﻠﯽ

ﺍﻟﺬﯾﻦ ﻇﻠﻤﻮﺍ ﺍَٰ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ ﺭﺟﺰﺍ ﻣﻦ ﺍﻟﺴﻤﺎﺀ۔

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍٰﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ

ﺩﺭﺝ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ (ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ )

(۱۴ ) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ : ﻳَﺎ

ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻨَّﺎﺱُ ﻗَﺪْ ﺟَﺎﺀَﻛُﻢُ ﺍﻟﺮَّﺳُﻮﻝُ ﺑِﺎﻟْﺤَﻖِّ ﻣِﻦْ ﺭَﺑِّﻜُﻢْ ﻓَﺂﻣِﻨُﻮﺍ ﺧَﻴْﺮًﺍ

ﻟَﻜُﻢْ ﻭَﺇِﻥْ ﺗَﻜْﻔُﺮُﻭﺍ ﻓَﺈِﻥَّ ﻟِﻠَّﻪِ ﻣَﺎ ﻓِﻲ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﻭَﺍﺕِ ﻭَﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ۔

(ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ :۱۷۰ )

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ

ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻗﺪ ﺟﺎﺀﻛﻢ ﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﺑﺎﻟﺤﻖ ﻣﻦ ﺭﺑﻜﻢ ﻓﯽ ﻭﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ

ﻓﺂﻣﻨﻮﺍ ﺧﻴﺮﺍ ﻟﻜﻢ ﻭﺇﻥ ﺗﻜﻔﺮﻭﺍ ﺑﻮﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﻓﺈﻥ ﻟﻠﻪ ﻣﺎ ﻓﻲ

ﺍﻟﺴﻤﺎﻭﺍﺕ ﻭﺍﻷﺭﺽ۔ (ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ ﺑﺸﺎﺭﺗﯽ ﻣﺘﺮﺟﻢ

ﺑﺎﻗﺮ ﻣﺠﻠﺴﯽ : ۳۸۹)

ﻓﯽ ﻭﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻﯾۃ ﻋﻠﯽ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﮯ۔

(۱۵ ) ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺁﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ : ﺇِﻥَّ

ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﻔَﺮُﻭﺍ ﻭَﻇَﻠَﻤُﻮﺍ ﻟَﻢْ ﻳَﻜُﻦِ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻟِﻴَﻐْﻔِﺮَ ﻟَﻬُﻢْ۔ (ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ :۱۶۸ )

ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺷﺪﮦ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺖ : ﺍﻥ ﺍﻟﺬﯾﻦ ﻇﻠﻤﻮﺍ ﺍٰﻝ

ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﮭﻢ۔ ( ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ : ۳،۳۸۹)

ﺍﻥ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺁﯾﺎﺕِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺷﯿﻌﮧ

ﻋﻘﺎﺋﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻧﺎﻣﮑﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ

ﮨﮯ، ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ

ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﻠﻤﮧٔ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﻮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﺮﺗﺪ ﻭﺍﺟﺐ ﺍﻟﻘﺘﻞ

ﮨﮯ، ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﻣﻮﺟﻮﺩ

ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺟﺲ میں ﯾﮧ ﺁﯾﺎﺕ ﻟﮑﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ

ﺍﯾﮏ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺑﮭﯽ ﻏﻠﻂ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔


رسالت سے متعلق شیعہ کے کفریہ عقائد:

(۱)       سرور دو عالم، رحمتِ کائنات حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عقیدہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی گئی ہے، جاہل بے علم کتاب کے مصنف نے ترمذی شریف کا حوالہ دیتےہوئے باب الحج کی ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حج تمتع کے بارے میں لکھا ہے کہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ نبیؐ نے کیا، حج تمتع کی وضاحت کتاب میں موجود ہے کہ عمرہ اور حج کو اکٹھا ادا کرنا یعنی ایک دوسرے کے بعد ، لیکن افسوس کہ شیعہ نے عربی عبارت کو تبدیل کیا اور تمتع کا ترجمہ متعہ کیا اور صاف طور پر اپنی کتاب ’’خصائلِ معاویہ:۴۳۱‘‘ میں لکھ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللہ) متعہ کیا۔

صحیح حدیث: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ۔ (سنن ترمذی:باب ماجاء فی التمتع)

ترجمہ:۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے حجِ تمتع کیا۔

عمرہ اور حج ایک ہی احرام سے بلافصل جمع کرنے کو حجِ تمتع کہتے ہیں، لیکن شیعہ مصنف غلام حسین نجفی نے ترجمہ کیا: (نعوذ باللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے متعہ کیا، یہ شانِ رسالت میں گستاخی نہیں تو اور کیا ہے؟ روایت کا ترجمہ کرنا، لکھنا اور امام الانبیاء فخرِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہوں نے متعہ کیا! نعوذ باللہ

(۲)       شرک فی الرسالۃ: کتاب نام ’’خورشدی خاور‘‘، ترجمہ شبہائے پشاور، مترجم محمد باقر مجلسی رئیس جوارس، کتب خانہ شاہ نجف لاہور میں یہ لکھتا ہے کہ ’’شیعہ وہ ہے جن کے نزدیک علیؓ تمام انبیاء سے افضل ہیں‘‘۔

چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں، لہٰذا علیؓ ان سے بھی افضل ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انبیاء سےافضل ہونے کے ثبوت میں دلائل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کوفہ کا مشہور خطیب ہے، اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا:

اخبرنی انت افضل اَم آدم؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جوابات: ۱۔ انا افضل من آدم۔۲۔ انا افضل من ابراھیم۔ ۳۔ انا افضل من موسیٰ۔ ۴۔انا افضل من عیسیٰ۔ (خورشید خاور:۲۹۴)

ان پانچ عبارتوں پر شیعہ عقیدہ کی بنیاد ہے جو کہ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے، صحیح عقیدہ کے مطابق امتی کسی پیغمبر کا بھی ہو وہ نبی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا، صحابی کا مقام اور ہے اور نبی کا مقام اور ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہؓ میں گو کتنا بڑا مقام رکھتے ہیں لیکن وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یا اور کسی بھی نبی سے مرتبہ میں زیادہ ہرگز نہیں ہوسکتے، لیکن شیعہ نے صحابی کو نبوت کا مقام دے کر شرکت فی الرسالۃ کیا ہے، جو کہ شیعہ کے کفر کا واضح ثبوت ہے۔

ان پانچ عبارتوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانا حضرت علیؓ کی طرف اس عبارت کو منسوب کرنا کفر و شرک سے بڑھ کر ہے، پھر اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتا ہے کہ ’’امیر المؤمنین حضرت علیؓ تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے‘‘۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک (خورشید خاور:۲۸۵)

ذرا انصاف کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کے ساتھ متصف کرنا شرک فی الرسالۃ نہیں تو اور کیا ہے۔

کیا قرآن و سنت کی کھلی خلاف وروزی نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، لہٰذا شیعہ فرقہ باطلہ ہے اور ان کو کافر و مشرک کہنا ان کو غیر مسلم قرار دینا وقت کا فریضہ ہے، اور ایسی کتابیں جن کی اشاعت ہورہی ہے ان کو فی الفور ضبط کرنا ایسے مجرموں اور ایسے جہنمیوں کو سزاد دینا ہر مسلم کا فرض ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روزہ کسی کام کے لئے (حضرت) زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہ) کے گھر تشریف لے گئے، زید کی بیوی (حضرت) زینب (رضی اللہ عنہا) غسل کر رہی تھیں ..... آپؐ نے زینبؓ کا غسل کی حالت میں مشاہدہ فرمایا۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک) (ترجمہ حیات القلوب:۲،۸۹۱)

اس عبارت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگائی گئی ہے!!!

(۳) شیعہ کی تیسری روایت:

حضرت جعفر صادقؓ سے روایت ہے کہ ایک روز ابوبکرؓ و عمرؓ، ام سلمہؓ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ جناب رسولِ خداؐ سے پہلے دوسرے مرد کی زوجہ تھیں، بتائیے کہ رسول خدا اس شخص کےمقابلہ میں قوتِ مجامعت میں کیسے ہیں؟ تو ام المؤمنین ام سلمہؓ نے جواب دیا: وہ بھی دوسرے مردوں کے مثل ہیں، اسی کے آخر میں لکھا ہے کہ جبرئیلؑ بہشت سے ایک ہریہ ..... لایا اور جناب رسول خداؐ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین نے اس کو تناول فرمایا، اس کے سبب سے رسول خداؐ کو چالیس مردوں کی قوتِ مجامعت مرحمت فرمائی، اس کے بعد ایسا تھا کہ جب حضرت چاہتے ہیں ایک شب میں تمام بیویوں سے مقاربت فرماتے ہیں۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۸۹۶)

اسی طرح الشافی ترجمہ اصول کافی میں توہینِ نبیؐ کرتے ہوئے ملعون لکھتا ہے:

لوگ روایت کرتے ہیں کہ آگ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے (نعوذ باللہ) حضرت رسولِ خداؐ تھے۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۱۷)

ایسا عقیدہ رکھنے والا واجب القتل، جہنمی اور فرعون سے بڑھ کر ہے، شیعہ آج کے دور کا ہو یا پہلے کا ابولہب سے بڑھ کر ہے۔

اولادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین:

(۴)      شیعہ رافضی اپنی بدنامِ زمانہ تصنیف ’’قولِ مقبول‘‘ کے صفحہ:۴۷۹ پر لکھتا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں سیدہ رقیہؓ، سیدہ ام کلثومؓ جوکہ حضرت عثمانؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں تھیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں‘‘۔

’’جس طرح جناب ابوہریرہؓ کے باپ کا فیصلہ یا عبد القادر جیلانی کے باپ کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا، اسی طرح عثمان غنی صاحب کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ نہیں ہوسکا، ان کے باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً نہیں ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک)

(۵)      ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شیعہ اثنا عشریہ کے عقائد ملاحظہ ہوں:

’’ابن بابویہ امام محمد باقر سے روایت ہے کہ جب حضرت قائم اٰل محمد ظاہر ہوں گے تو (نعوذ باللہ) عائشہ صدیقہ کو زندہ کریں گے اور ان پر حد جاری کریں گے‘‘۔ (حیات القلوب:۲،۹۰۱)

(۷)      غلام حسین نجفی ملعون ’’قولِ مقبول‘‘ میں لکھتا ہے ’’حضور پاکؐ نے غضبناک خروج کرنا ہے جو عائشہ سے صادر ہوا‘‘۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین

(۸)      نجفی و مجلسی لکھتے ہیں کہ:

حضرت جعفر صادق سے روایت ہے کہ عائشہ و حفصہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا اور اسی زہر سے حضورؐ شہید ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک) (حیات القلوب:۲،۱۰۲۶)

کیا یہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما پر الزام نہیں ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں جن کا خود اس نے اقرار کیا ہے، ان کو ایسے الفاظ سے یاد کرنا اور انکار کرنا بے حیائی والے الفاظ ادا کرنا کہاں کی مسلمانی ہے؟

’’قولِ مقبول‘‘ میں لکھا ہے کہ:

’’آج تک یہ فیصلہ اہل سنت نہیں کرسکے، حضرت ابراہیم کا باپ کون تھا؟ آذر تھا یا تارخ؟ پس جس طرح جناب ابوہریرہ کے باپ کا فیصلہ یا عبد القادر جیلانی کے باپ کا فیصلہ نہیں ہوسکا، اسی طرح عثمان صاحب کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ بھی نہیں ہوسکا، ان کے باپ نبی کریمؐ تو یقیناً نہیں ہے۔ (العیاذ باللہ) (از غلام حسین نجفی:۴۷۹)

حضراتِ خلفائے راشدینؓ کے متعلق شیعہ اثنا عشریہ کے کفریہ عقائد:

(۱)       ’’امام باقر سے روایت ہے کہ جب جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رحلت فرمائی، چار اشخاص علی ابن ابی طالب، مقداد، سلمان فارسی اور ابوذر کے سواء سب مرتد ہوگئے‘‘۔ (ترجمہ حیات القلوب:۲،۹۲۳)

اس عبارت میں لفظ سب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف چار کے علاوہ باقی تمام صحابہ مرتد ہوگئے، جن میں حضرات حسنینؓ یعنی حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کا ذکر نہیں کیا، معلوم ہوا کہ شیعہ کافروں اور رافضیوں کے نزدیک یہ حضرات بھی مسلمان نہیں تھے۔ نعوذ باللہ

(۲)       شیعہ کا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی ناموس پر حملہ:

’’خلفاء خاطی اور غیر معصوم تھے، ان پر شیطان تسلط کرتا تھا۔‘‘ (نورِ ایمان، مصنف خیرات احمد:۸۸)

(۳)      حیات القلوب دوم میں ملا باقر مجلسی ملعون نے لکھا ہے کہ ’’اگر سب (صحابہؓ) ابوبکر کی بیعت کرلیتے تو خداوند عالم اہل زمین پر عذاب نازل کردیتا اور کوئی زمین پر زندہ نہ رہتا۔ (نورِ ایمان:۹۲۰)

(۴)      حضرت عمر فاروق نے بعد اسلام شراب نوشی کی۔ (نورِ ایمان:۸۲۰)

(۵)      خیرات احمد لکھتا ہے کہ ’’قرآن کی روح سے مراد فرعون اور ہامان کا دل خلیفہ ثانی عمر ہوتے ہیں، پس جو شحص قرآن کی روح سے فرعون، ہامان اور قارون کا دل ثابت ہوا اس سے ہم لوگوں یعنی شیعہ کا دلی نفرت کرنا ہرگز خلافِ قیاس نہیں بلکہ عینِ فطرت ہے۔ نعوذ باللہ (نورِایمان:۲۹۵)

(۶)       سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نجفی کی ایک اور تحریر کہ ’’عثمان ذوالنورین نے اپنی بیوی ام کلثوم کی موت کے بعد ان کے مردہ جسم سے ہمبستری کی ہے‘‘۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک، لعنۃ اللہ علی الکاذبین) (قولِ مقبول:۴۲۰)

(۷)      اسی کتاب میں اہل سنت پر الزام لگاتے ہوئے لکھتا ہے:

’’امام مسجد افضل ہے، جس کا سربڑا ہو اور آلۂ تناسل چھوٹا ہو، چھوٹے آلۂ تناسل کی فضیلت اس لئے ہے کہ وہ زیادہ ہمبستری کے قابل ہوتا ہے اور جناب عثمان میں مذکورہ خوبی موجود تھی، اسی لئے تو مردہ بیوی کو بھی معاف نہیں کیا، اس کے مردہ جسم سے ہمبستری کی‘‘۔ (قول مقبول:۴۳۰)

معلون نجفی بے شرم و بے حیاء فربیا کے زناء کی اولاد کو شرم نہ آئی، یہ بات کہاں تک پہنچتی ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والے مجلسی گروہ کو خدا واصلِ جہنم کرے۔ آمین

(۸)      اسی کتاب قولِ مقبول:۴۱۸ پر لکھتا ہے کہ ’’حضرت عثمان غنیؓ نے بغیر غسل کئے نماز جنازہ میں شرکت کی اور نماز جنازہ پڑھی‘‘۔ (لعنۃ اللہ علی الکاذبین)

(۹)       اسی کتاب ’’قولِ مقبول:۴۳۵‘‘ پر لکھتا ہے کہ ’’عثمان عورتوں کے عاشق زار تھے، اسی لئے رقیہ کو حاصل کرنے کی لالچ میں مسلمان ہوگئے تھے‘‘۔

(اس بے حیاء و بے شرم نے یہ تحریر کہاں سے لی ہے؟)

(۱۰)     حضرت عثمان غنی اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما اور اس عبارت میں حضور اکرم علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے غلام حسین نجفی فاضل عراقی اپنی کتاب قول مقبول:۴۲۵ میں لکھتا ہے کہ ’’جب آدمی کا ذَکر ایستادہ ہوتا ہے تو دو حصے عقل کے ختم ہوجاتے ہیں، پس جناب عثمان کا یہی حشر ہوا کہ شہوت کا غلبہ ہوا اور بیمار زوجہ یعنی ام کلثوم کو ہمبستری سے قتل کردیا‘‘۔

(۱۱)      ’’امام جعفر نے امام ابوحنیفہ کی ماں سے متعہ کیا اور علی نے عمر کی بہن عضرا سے متعہ کیا، حضور نے ابوبکر و عمر کی لڑکیوں عائشہ و حفصہ سے نکاح کیا تھا تاکہ شیخین میرے اسلام میں گڑبڑ نہ کریں، لیکن نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی ہمارے امام جعفر صادق اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے‘‘۔ (لعنۃ اللہ علی الرافضیہ) (قول مقبول:۳۹۵)

(۱۲)     غلام حسین نجفی ’’خصائلِ معاویہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کو قتل کیا ہے‘‘۔ (خصائل معاویہ:۲۴۹)

نجفی کافر اسی کتاب میں لکھتا ہے ’’حضرت عثمان غنیؓ کی بیوی حضرت نائلہؓ نے ڈانس کیا‘‘۔(خصائل معاویہ:۱۴۳)

اسی کتاب میں نجفی غلام حسین لکھتا ہے:

حضرت خالد بن ولید نے ایک مسلمان کو شہید کیا اور پہلی ہی رات میں اس کی خوبصورت بیوی سے تمام رات زنا کرتا رہا۔ (نعوذ باللہ) (خصائل کا مصنف:غلام حسین نجفی)

(۱۳)     اسی کتاب کے صفحہ:۳۹۱ میں حضرت معاویہؓ کے بارے میں لکھتا ہے ’’زانی باپ کا شرابی بیٹا خلیفہ نہیں ہوسکتا‘‘۔

(نعوذ باللہ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شرابی لکھا گیا ہے۔

(۱۴)     ’’ہندہ مشہور زناکار تھی، حضرت یہ سن کر مسکرائے اس کو پہچان کر فرمایا: تو ہی ہندہ ہے؟ عقبہ کی لڑکی ہندہ نے کہ: ہاں! پھر حضرت نے فرمایا: زنا مت کرنا، ہندہ نے کہا کہ آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے، یہ سن کر عمر مسکرائے اس لئے کہ ایامِ جاہلیت میں اس سے زنا کرچکے تھے اور ہندہ مشہور زنا کار تھی، اور معاویہ زنا ہی سے پیدا ہوا تھا‘‘۔ (حیات القلوب:۲،۷۰۰)

(۱۵)     خصائل معاویہ میں غلام حسین نجفی لکھتا ہے کہ:

’’ابوسفیان آخر عمر تک زندیق اور منافق رہا‘‘۔(خصائل معاویہ:۲۹)

(۱۶)     شیعہ اثناعشریہ فرعونوں اور یہودیوں کا عقیدہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ پر الزام اور توہینِ خلفائے راشدین و امہات المؤمنین، فارسی کا ترجمہ، اصل عبرت ملاحظہ ہو:

’’امام جعفر از جاے نماز خود برنمی خاستند تا چپار معلون و چہار معلونہ دا لعنت نمی کردند، پس باید از ہر نماز بگوید اللھم العن (نعوذ باللہ) ابابکر و عمر و عثمان و معاویہ و عائشہ و حفصہ وھتدو ام لحکم‘‘۔

ترجمہ:۔ امام جعفر صادق اپنی جائے نماز سے نہیں اٹھتے تھے جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، عائشہ اور حفصہ پر لعنت بھیجتے۔

(۱۷)     شیعہ کی بدنامِ زمانہ کتاب ’’عین الحیوۃ‘‘ کے صفحہ:۴ پر لکھا ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب صحابہ مرتد ہوگئے تھے‘‘۔ (نعوذ باللہ)

خلفائے راشدین کے بارے میں شیعہ کا عقیدہ:

’’ابوبکر اور عمر کو امام غائب آکر قبروں سے نکال کر ان کو سزاء دیں گے‘‘۔(نعوذ باللہ) (حق الیقین:۳۸۵)

میرا عقیدہ ہے اہل تشیع اور ان کو ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ڈالے گا، کیونکہ ایسے شیطانی عقائد رکھنے والے قطعی جہنمی ہیں۔

شیعہ اثنا عشریہ کی صحابہ کرامؓ کو اپنی کتابوں میں گالیاں:

(۱)       کہ مراد از فرعون و ہامان ..... ابوبکر و عمر است۔

            ترجمہ:۔ فرعون اور ہامان سے مراد ابوبکر و عمر ہیں۔ (حق الیقین:۳۱۸)

(۲)       ابوبکر خلیفہ نہیں مرتد ہے، مستحق قتل ہے۔ (نعوذ باللہ) (حق الیقین:۲۲۲)

(۳)      عبارت ہے ’’مرادش از شیطان عمر باشد‘‘۔ یعنی شیطان سے مراد عمر ہے۔ (حق الیقین:۲۲۹)

(۴)      ’’حضرت طلحہ و زبیر مرتد شوند’’۔ یعنی حضرت طلحہ و زبیر مرتد تھے۔ (حق الیقین:۲۳۱)

(۵)      ابو لؤلؤ عمر را زخم زد وخبزم کرد لعہفتم واصل خواہد شد۔ (حق الیقین:۲۵۲)

(۶)       عثمان لعین او را۔ (حق الیقین:۲۲۰)

(۷)      عثمان کا قتل کفر پر ہوا۔ (حق الیقین:۲۸۰)

(۸)      عثمان کو یہودیوں کے مقبرے میں دفن کیا۔ (حق الیقین:۲۸۳)

(۹)       حضرت خالد بن ولید نے زنا کیا۔ (نجفی ملعون کی کتاب خصائل معاویہ:۲۷۶)

(۱۰)     حضرت عثمان کی بیوی نائلہ نے ڈانس کیا، خون آلود قمیص پہن کر۔ (خصائل معاویہ:۱۴۳)

(۱۱)      ابوہریرہ کا مردود ہونا ثابت ہے۔ (خورشید خاور:۱۹۵)

(۱۲)     حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والا ابوہریرہ ہے۔

            مذکورہ عبارات سے ثابت ہوا کہ شیعہ شجرۂ ملعونہ خبیثہ ہیں۔

            حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی کے بارے میں لکھتے ہیں۔

(۱)       ہندہ نے معاویہ کو نکاح جماعت سے جنا ہے۔

(۲)       معاویہ نے چالیس سال ظالمانہ حکومت کی ہے۔ (خورشید خاور:۳۹)

(۳)      اگر معاویہ جنگِ صفین میں ہلاک ہوتا تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا حرام تھا۔ (خورشید خاور:۴۹)

سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام!!!

(۴)      معاویہ سوّر کھانے کو حلال جانتا تھا۔ (خورشید خاور:۴۳۳)

(۵)      حکومت اسلامی بنو اُمیّہ کے ایک بدکار کے بعد دوسرے بدکار کو ملی۔ (خورشید خاور:۴۳۷)

(۶)       یہ کونڈے مرگ معاویہ کی خوشی میں ہیں۔ (خورشید خاور:۵۲۰)

(۷)      اصحابِ نبی میں دو قسم کے لوگ تھے، مومن و منافق، نیک و بد، اہل و جاہل۔ (خورشید خاور:۵۷۰)

(۸)      شیعوں کے امام متعہ کی بہت تعریفیں کرتے ہیں، تحفۃ العوام میں اس کی تفصیل لکھی گئی ہے، متعہ کرنے والا بہشتی ہے، متعہ کی قسموں میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ ایک لڑکا لڑکی کو بغیر گواہوں کے پسند کرکے یہ کہے کہ میں نے متعہ کے لئے اپنے جسم کو تیرے حوالے کیا۔

اسلام میں متعہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ یہ زنا ہے۔

شیعہ پیشوا کہتے ہیں ’’عفیفہ باکرہ لڑکی سے متعہ کرنے والا بہشتی ہے‘‘۔

اس کے علاوہ شیعہ کی کتاب ’’چودہ ستیارے‘‘ صفحہ:۲۲۱ پر لکھا ہے کہ ’’عمر فاروق ساری عمر کفر و شرک میں مبتلا رہے‘‘۔

اسی کتاب کے صفحہ:۲۰۴ میں لکھا ہے کہ ’’حضرت معاویہ زنا کی پیداوار تھے‘‘،

اور مصنفِ کتاب نجم الحسن کراروی نے اپنی اسی کتاب میں لکھا ہے ’’حضرت عائشہ کو حضرت علی سے پرانا بغض و عناد تھا۔ (چودہ ستیارے:۱۲۳)

اسی کتاب کے صفحہ:۴۸ پر لکھا ہے کہ ’’حلیمہ سعدیہؓ اور ثوبیہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ نہیں پلایا‘‘۔

(۹)       شیعہ کی معتبر کتاب جو کہ فارسی زبان میں ہے، اس میں لکھا ہے:

’’بلاشبہ ابی بکر و عمر اتباع ایشاں کافر و ظالم بودہ اند، لعنت خدا و رسول و ملائکہ و غضبِ الٰہی متوجہ ایشاں است‘‘۔ (حلیۃ الیقین، جلد دوم فارسی)

ترجمہ:۔ بلاشبہ ابوبکر و عمراور ان کے متبعین کافر و ظالم تھے، اور خدا، رسول اور ملائکہ کی لعنت اور غضب الٰہی ان پر ہے۔

(۱۰)     حلیۃ المتقین کی دوسری عبارت ہے:

’’آنکہ عمر بن خطاب و خالد ابن ولید و جمیع از منافقان بنی امیہ باعلی عداوت فطری بود‘‘۔(حلیۃ الیقین:۲،۴۴)

ترجمہ:۔ عمر بن خطاب اور خالد بن ولید دونوں اور تمام منافقین بنو امیہ علی سے دشمنی رکھتے تھے۔

(۱۱)      عمر ایک بڑا بے حیاء اور بے غیرت شخص ہے۔ (نورِ ایماں:۷۵)

(۱۲)     حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ایسا کونسا بے حیاء و بے غیرت گذار ہے۔ (نورِ ایماں:۷۱)

(۱۳)     اسی طرح خلفائے ثلاثہ ہم تم مسلمان کے بزرگانِ دین ہو ہی نہیں سکتے۔ (نورِ ایماں:۱۶۲)

(۱۴)     ازواجِ مطہرات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عمر فاروق مارا کرتے تھے۔ (نورِ ایماں:۲۰۹)

(۱۵)     حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تینوں بیٹیاں صلبی نہیں تھی، عثمان کے معنیٰ سانپ، معاویہ کے معنیٰ کتیا ہے۔ (قولِ مقبول،از غلام حسین نجفی)

(۱۶)     حضرت فاروق کی نسبی خرابی کو ہم سرآنکھوں پر رکھتے ہیں۔ (قولِ مقبول:۵۳۲)

(۱۷)     امام بخاری مجوسی النسل ہے، یہودیوں کا یا سبائیوں کا نطفہ ہے۔ (قولِ مقبول:۵۳۴)

(۱۸)     عائشہ نے وفات پر جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی افسوسناک ہے، حجرۂ نبیؐ کو جنابِ عائشہ ابوبکر و عمر کو اس میں دفن کرواکر قبرستان تو بناچکی تھی، جناب حسن وہاں دفن ہوتے تو کیا تھا، لیکن عائشہ بھی معاویہ سے کم نہ تھیں، بلکہ دوسرا معاویہ تھیں۔ (خصائل معاویہ:۸۳)

(۱۹)      حضرت معاویہ نے حضرت حسن کی وفات پر سجدۂ شکر ادا کیا۔ (خصائل معاویہ:۸۲)

(۲۰)     یزید اپنی ماؤں سے بہنوں اور بیٹیوں سے ہمبستری کرتا تھا اور ہارون رشید نے اپنی ماں سے ہمبستری کی تھی۔

(۲۱)     جناب ابوبکر اور عمر اور عثمان نہ تو عوام مسلمانوں کے چُنے ہوئے لیڈر تھے اور نہ ہی خدا و رسول کے چنے ہوئے تھے، بلکہ چور دروازے سے آئے تھے۔

قارئین ذرا انصاف فرمائیں!

’’امام جعفر نے امام ابوحنیفہ کی ماں سے متعہ کیا اور علی نے عمر کی بہن عضرا سے متعہ کیا، حضور نے ابوبکر و عمر کی لڑکیوں عائشہ و حفصہ سے نکاح کیا تھا تاکہ شیخین میرے اسلام میں گڑبڑ نہ کریں، لیکن نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی ہمارے امام جعفر صادق اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے‘‘۔ (لعنۃ اللہ علی الرافضیہ) (قول مقبول:۳۹۵)

ان اکیس (۲۱)      حوالہ جات میں شیعہ کے کفریہ عقائد صاف اور واضح ہوچکے ہیں، ان عقائد کفریہ میں تمام شیعہ، روافض اور اثنا عشریہ شامل ہیں، اسی وجہ سے شیعہ کافر اور مرتد ہیں، تمام اہل سنت کے علماء کرام سے درخواست ہے کہ شیعہ کے کفر کو عوام الناس تک پہنچانے میں پوری صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کریں ۔

(۲۲)     خلفائے راشدین، خلفائے ثلاثہ اور سیدنا علی المرتضیٰ اور دیگر صحابہ کرام کے بارے میں شیعہ ملعونوں کا عقیدہ ہے:

ترجمہ:۔ حیات القلوب میں ملا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ ’’بسندِ حسن امام باقر سے راویت ہے کہ یہ جناب رسول خدا کے بعد مرتد ہوگئے، سوائے تین اشخاص سلمان، ابوذر اور مقداد کے۔

جو شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت علی، حضرات حسنین، حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم مسلمان نہیں تھے وہ ہمارے نزدیک جہنمی، واجب القتل، مرتد اور بد ترین کافر ہیں۔ (حیات القلوب:۲،۹۹۲)

جناب رسول خدا نے بیٹی دو منافقوں کو دی، اس میں ایک ابوالعاص دوسرے عثمان، لیکن حضرت نے تقیہ کی وجہ سے ان کے نام نہ لئے۔ (حیات القلوب:۲،۸۱۵)

آپ نے اس عبارت کو غور سے پڑھا ہے، آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ الزام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا گیا ہے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور آپؐ کی بیٹیوں اور آپؐ کے داماد پر الزام لگانے والا اور آپؐ کو منافق کہنے والا دنیا کا بدترین کافر ہے۔

(۲۳)    حضرت عثمان غنی نے وہ تمام کام کئے جو موجبِ کفر ہیں اور کافر و مرتد ہوگئے۔ (حیات القلوب:۲،۸۷۱)

حصور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد کو جو کہ ذو النورین ہیں، جوکہ قرآن پاک کی سورۃ الفتح کے مطابق قطعی جنتی ہیں، ان کو کافر لکھنے والا کون ہے؟ ان کو مسلمانوں کا فرقہ سمجھنے والا خود کیا ہے؟

(۲۴)    فیصلہ آپ کریں، حیات القلوب میں لکھا ہے:

’’ابوسفیان،عکرمہ، صفوان، خالد ابن ولید وغیرہ تمام صحابہ دین سے پھر گئے، ان کے خبیث دلوں میں اور گہرائیوں میں ابوبکر کی محبت تھی، جس طرح بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے اور سامری کی محبت جگہ کئے ہوئے تھی۔ (حیات القلوب:۲،۸۳۲)

(۲۵)    تمام انبیاء علیہم السلام کی صریح توہین: علمائے شیعہ کا اعتقاد ہے کہ جناب علیؓ اور تمام ائمہ تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ (حیات القلوب:۲،۷۸۷)

ذرا انصاف فرمائیں کہ انبیاء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدرجۂ اتم ہمارے نزدیک پوری مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہیں۔

لیکن ملعون مجلسی نے اس تحریر میں سب انبیاء اور خاتم النبیین کی توہین نہیں کی؟ ایسی تو ہین کرنے والا کافر نہیں تو اور کیا ہے؟

(۲۶)     قولِ مقبول میں لکھا ہے بقولِ عمر کے عائشہ بہت گوری چِٹّی تھیں، اللہ نے عائشہ مںی حلول کیا تھا، تو پھر جناب عائشہ سے حضورؐ نے ہمبستری کیسے کرتے تھے۔ (قولِ مقبول:۴۷۶)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ، حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی نانی امّاں کے بارے میں جو غلیظ عبارت تحریر کی ہے، جس سے اہل سنت کا ہر فرد کانپ جائے، ملاحظہ ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو شیشے سرمہ والی بات حضرت عائشہؓ سے کہی تھی اس کا نتیجہ معلوم ہے، شیشہ و سرمی والی عبارت حضرت عائشہ کی طرف منسوب کرکے ان پر الزام لگانا کہاں کی شرافت ہے؟ پھر ہم لکھنے پر مجبور ہیں کہ اُسے اہل سنت جماعت ایک ہوکر مقابلہ کریں تاکہ رافضیت ختم ہوسکے۔ 

(۲۷)    شیعہ ملعون نجم الحسن کراروی لکھا ہے ’’ائمۂ کفر سے مراد طلحہ، زبیر، عکرمہ اور ابوسفیان ہیں۔ (نعوذ باللہ) (روح القرآن:۱۱۷)

کراروی اسی کتاب میں لکھتا ہے کہ جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی بن ابی طالب پر ظلم کیا، چھوٹا ہو یا بڑا، کوفہ و شام میں رہنے والا ہو یا مکہ و مدینہ کا، دین سے خارج ہوجائے گا، جو دین سے خارج ہو وہ ائمہ کفر ہے ان سے جنگ مباح ہے۔ (روح القرآن:۱۱۸)

قرآن پاک میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کا منکر کافر ہے!

(۱)       لفظ قرآن اِنَّ اللہَ مَعَنَا (التوبہ:۴۰) کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔

(۲)       قرآن کی اس آیت: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ (التوبہ:۴۰) کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔

(۳)      لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۔ (الفتح:۱۸)

اس آیت کا انکار کرنے والا شیعہ کافر ہے۔

(۴)      فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا۔ (البقرۃ:۱۳۷) شیعہ منکر قرآن ہے، اس آیت کا بھی وہ انکار کرتا ہے، لہٰذا ایسا کافر دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔

(۵)      وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ۔ (البقرۃ:۱۳)

اس آیت کا انکار کرنے والے سب سے پہلے منافقین ہیں، انہی کی اولاد شیعہ ہیں، جن سے جہاد کرنے کا حکم ہے، لہٰذا شیعہ دنیا کا بدترین کافر ہے۔

(۶)       فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ۔ (النساء:۶۹)

اس آیت میں نبیوں کے بعد صدیقِ اکبر کو ماننے کا حکم قطعی ہے، اس قطعی حکم کا انکار کرنے والا معلون، مردود شیعہ ہے جو کہ قطعی کافر ہے۔

(۷)      أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ۔ جنتی لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔

اس آیت کا انکار کفر ہے جو کہ شیعہ کرتے ہیں، لہذا شیعہ کافر ہیں۔

(۸)      فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ (الاعراف:۱۵۷)

ترجمہ:۔ وہ لوگ پیغمبر پر ایمان لائے اور انہوں نے عزت اور نصرت کی اور نورِ ایمان کی اتباع کی وہی لوگ کامیاب ہوئے۔

اس آیت میں صحابہ کرام کو دین کی مدد کرنے والے فرمایا گیا ہے، شیعہ نے اس کا اس آیت میں انکار کیا، لہٰذا وہ کافر ہوگئے۔

(۹)       إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ۔ (الانفال:۲)

ترجمہ:۔ ایمان والے وہ لوگ ہیں جس کے سامنے خدا کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے قلوب روشن ہوتے ہیں۔

اس آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عظمت بیان ہوئی ہے، اس کا شیعہ انکار کرتا ہے، تو شیعہ کافر ہیں۔

(۱۰)     إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ۔ (التوبۃ:۱۱۹)

ترجمہ:۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے جنت کے بدلہ میں۔

اس آیتِ مبارکہ میں جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں وہاں علی المرتضیٰ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی شامل ہیں۔

تو جو شخص اس آیتِ مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو خارج کرے وہ کافر و زندیق ہے۔

شیعہ کراروی اور مجلسی اور نجفی نے انکار کیا ہے، لہٰذا وہ قطعی کافر و زندیق ہیں۔

(۱۱)      يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔ (التوبۃ:۱۱۹)

اس آیت کریمہ میں تمام صحابہ کرام کے علاوہ خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے، آپ کی صداقت کو اس سے خارج کرنا کفر ہے، جس کا انکار شیعہ کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔

(۱۲)     أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (یونس:۶۲)

اس آیتِ مبارکہ میں لفظ اولیاء میں صحابہ کرامؓ کا امت کے ولی ہونا ثابت ہے، جس طرح حضرت علیؓ کی ولایت اس میں موجود ہے اسی طرح خلفائے ثلاثہ کی ولایت بھی موجود ہے، بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ ولایت کا مقام صحابیت کے مقام سے کم ہے، لہٰذا اولیاء صحابیت ہی ہوسکتا ہے، اور یہی ترجمہ صحیح ہے، کیونکہ اولیاء اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کا مقام رکھتے ہیں، جوکہ مقامِ صحابیت کے فیضِ صحبت سے حاصل ہوتا ہے، امت کے تمام اولیاء ایک صحابی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔

(۱۳)     صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔ (سورۃ الفاتحۃ:۶)

اس آیت مبارکہ کو قرآن کے شروع میں اور ہر نماز میں پڑھتے ہیں، اس میں جنت، کوثر، رضائے الٰہی اور رضائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مقامات اور انعامات حاصل ہونے والے اللہ کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، جس صحابیت کی ابتداء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتی ہے ان کا انکار کفر ہے۔

شیعہ کافر اس آیتِ کریمہ کا انکار کرکے درجہ کفر پہنچ گئے، صحابہ کرام خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے والا در اصل قرآنی آیات کو گالیاں دیتا ہے جسی وجہ سے شیعہ اثنا عشریہ دنیا کے بدترین کافر ہیں۔

(۱۴)     يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ۔ (الحج:۷۷)

ترجمہ:۔ اے ایمان والو رکوع کرو، سجدہ کرو، اپنے رب کی عبادت کرو۔

اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔

سب سے پہلے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے اپنے رب کی عبادت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں، جب حضرت علیؓ نے فرضیت صلوٰۃ پر عمل کیا، اس وقت تک حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز مکمل کرچکے تھے، سجدۂ نماز عبادتِ خدا حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرچکے تھے، ایسی نماز جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا تھا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عبادت اور رضائے الٰہی جوکہ ان کو حاصل ہوچکی تھی، ان کا انکار کرنا کفر ہے۔

(۱۵)     یہ کافرانہ عقیدہ ہے کہ قرآن پاک کے قطعی فیصلہ کا انکار کیا جائے، شیعہ کفر میں بہت ضدی ہیں، ان کے کفر میں شدت ہے، اسی لئے شیعہ کے ایمان بگاڑے زنا خانے بنے ہوئے ہیں، شیعہ نے قرآنی آیت رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا صریحاً انکار کیا ہے، کیونکہ یہ الفاظ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان ذوالنورین، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت فاطمہ، حضرات حسنین، حضرت زبیر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر صادق آتے ہیں، وہ اللہ سے اور اللہ ان سے راضی ہے۔

جو رضاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مل چکی ہے وہ قرآن پاک میں موجود ہے، شیعہ اس کے منکر ہیں، لہٰذا شیعہ گروہ قطعی جہنمی کافر مردود ہے، شیعہ کا انکارِ قرآن کفر پر دلالت کرتا ہے۔

(۱۶)     والذین معہٗ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں، لفظ مع نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدینؓ ساتھی ہیں، ان کے ساتھی ہونے کا انکار قرآن کا انکار ہے، جس کا انکار کرنے والا کافر ہے، شیعہ ان کے ساتھی ہونے کا انکار کرتے ہیں، بوجہِ انکارِ قرآن شیعہ کافر ہیں۔

(۱۷)            الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ۔ (التوبۃ:۲۰)

ترجمہ:۔ وہ لوگ جو ایمان لانے کے ساتھ ساتھ جنہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں ان کے درجات بلند ہیں اللہ کے نزدیک اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ایمان، جہاد اور ہجرت کا انکار کرنے والے تمام شیعہ کافر ہیں، کیونکہ جنہوں نے انکار کیا صحابہؓ کی جماعت کے ان تین کاموں کا اس نے قرآن کا انکار کیا ہے، صحابہ کرامؓ کے درجات جو کہ اللہ کی طرف سے ان کو ملے ہیں ان کا انکار کفر ہے، شیعہ اس کا بھی انکار کرتے ہیں۔

لہٰذا تمام بوجہِ صحابہ کرامؓ کی عظمت کے انکار کرنے کے دنیا کے بدترین کافر ہیں۔

(۱۸)     أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ۔ (السجدۃ:۱۸)

ترجمہ:۔ جو شخص ایمان دار ہے اس کے برابر بدکار نہیں ہوسکتے۔

بدکار شیعہ ہیں، کیونکہ شیعوں کی بدکاری ان کی کتابوں سے ثابت ہے، ان کے مدہب میں ہے، مثلاً متعہ بازار کی زنا کرنے والی عورتیں تمام شیعہ ہیں، ان کے نزدیک تبراء کرنا یعنی صحابہ کرامؓ کو گالیاں دیناان کے مذہب میں شامل ہے، شیعہ مجلسی، نجفی اور کراروی کا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرو جس کو اسلام جھوٹ کہتا ہے ایسے عقائد رکھنے والا کافر ہے۔

(۱۹)      مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا۔ (الاحزاب:۲۳)

اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا واضح ذکر موجود ہے، صحابہ کرامؓ نے اپنے عہد کو پورا کیا ہے، ان کے وعدہ کو پورا کرنے پر اللہ تعالیٰ کی گواہی موجود ہے، اللہ گواہ ہے کہ حضرات خلفائے راشدینؓ نے کلمہ پڑھنے کے بعد جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا اس کو پورا کر دکھایا ہے، وعدہ وفا کرنے والے صحابہ کرامؓ کو گالیاں دینے والے قرآن و سنت کے مطابق شیعہ لعین کافر ہیں۔

(۲۰)     إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ (الاحزاب:۵۷)

ترجمہ:۔ وہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو تکلیف دیتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت دونوں میں۔

یعنی ابدی لعنت ہے، یہ لعنتی و جہنمی ہے کافر ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ اور آپؐ کے اہل خانہ کو گالیاں دینے والے بدترین کافر ہیں۔

(۲۱)     وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔ (الاحزاب:۵۷)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ مومنین مرد خلفائے راشدین اور مومنین عورتوں کو گالیاں دیتے ہیں، یعنی وہ صحابیاتؓ ہوں یا مومنین کی مائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہوں یا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، ان کو گالیاں دینے والے یا بُرا کہنے والے سب کے سب جہنمی ہیں، شیعہ ملعونوں نے خصوصاً خمینی، مجلسی، نجفی، کراروی، خیرات برکاتی وکیل یہ سب کافر ہیں، کیونکہ یہ آیت کریمہ کا انکار کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ کو گالیاں دیتے ہیں، ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔

(۲۲)     وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ۔ (الزمر:۳۳)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے تصدیق ہے جو سچائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر ان کی طرف آئے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے سب سے پہلے تصدیق کی ہے اور اس میں اول تصدیق کرنے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرکے اللہ کے نزدیک اول نمبر حاصل کیا ہے اور یہی تصدیق کرنے والے متقی ہیں، قرآن کے اس حکم کو نہ ماننا کفر ہے، شیعہ رافضی نے اس کا انکار کیا ہے، لہٰذا اس آیت قرآنی کا انکار کرنےوالا مسلمان نہیں شیطان کافر شیعہ ہے۔

(۲۳)    وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ۔ (التوبۃ:۷۱)

ترجمہ:۔ مومن مرد آپس میں دوست ہیں، مومن عورتیں آپس میں دوست ہیں۔

اس آیت کریمہ میں مومن مرد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی دوستی و تعلق کا ذکر ہے اور حضرت فاطمہ اور حضرت نائلہ زوجۂ حضرت عثمانؓ رضی اللہ عنہما کا ذکر ہے، قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کو مومنین مردوں اور عورتوں کی مائیں کہا گیا ہے کہ وہ امہات المؤمنین ہیں، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء کی والدہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما ہیں، پس ماں کو بیٹی سے مومن مردوں کو ماؤں سے کوئی جدا نہیں کرسکتا، حضرت کا تعلق حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ہے، کیونکہ حضرت علیؓ خود حضرت عائشہؓ کو اپنی والدہ کہتے تھے، قرآن کریم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو مومنین کی ماں کہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کو ماں کا مقام دیتے تھے، یہ بات نہج البلاغہ میں موجود ہے، جس کو حضرت علیؓ اپنی والدہ کہیں شیعہ ان پر (نعوذ باللہ) کفر کا الزام لگائیں، حضرت علیؓ کی والدہ کو کافرہ لکھیں تو وہ شیعہ کافر ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔

(۲۴)    وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ۔أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ۔ (الواقعۃ:۱۰و۱۱)

سبقت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنے والے ہیں، حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سب سے پہلے تصدیق کی ہے۔

لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام لانے کی سبقت کا انکار قرآنی آیت کا انکار ہے، شیعہ کافر اس کا انکار رکتے ہیں، لہٰذا شیعہ قطعی کافر جہنمی ہیں۔

(۲۵)    وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ۔ (الحدید:۱۹)

اس آیت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور شہداء میں حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں، ان حضرات کی گواہی صداق ہے اور ان کی گواہی قابلِ قبول ہے، یہ اپنے آپ کے نزدیک قطعی جنتی ہیں، جو شخص حضرات خلفائے ثلاثہ کی صداقت و شہادت کو تسلیم نہیں کرتا وہ جہنمی کافر ابدی سزاء پانے والا ہے، جو شیعہ صحابہ کرامؓ اور قرآن کی ان آیات کا انکار کرتے ہیں وہ کافر ہے، اس کے کفر میں شک نہیں ہے۔

(۲۶)     صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور خصوصاً خلفائے اربعہؓ کو امت میں بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ۔ (البینۃ:۷) یہ مخلوق میں سب سے اچھے اور افضل اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، نیک اعمال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا جو رشتہ اور تعلق بچپن سے ہے وہ ہمارے سامنے ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے، لہٰذا شیعہ نے ہمیشہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا انکار کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں کافر کہا ہے، یہی ان کا عقیدہ ہے، لہٰذا شیعہ کے کفر میں کوئی شک نہیں رہتا، شیعہ دنیا کا غلیظ ترین کافر ہے۔

شیعہ اثنا عشریہ کا انکارِ حدیث:

شیعہ اثنا عشریہ کفریہ ملعونیہ جہنمیہ کا احادیث صحیحہ کا انکار کرنا اور احادیث و اقوالِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنا کفر ہے، جس کی بناء پر تمام اہل تشیع کافر ہیں۔

(۱)       حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر میرے بھائی ہیں۔

اس حدیث کا انکار کرنا قولِ نبیؐ کا انکار کرنا ہے، لہٰذا شیعہ کافر ہے جو کہ اس کا انکار کرتے ہیں۔

(۲)       اس شخص پر اللہ کی لعنت ہے جو صحابی کو گالی دیتا ہے۔

یہ قول حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے، لہٰذا صحابہؓ کو گالیاں دیتے ہیں جس کی بناء پر کافر ہیں۔

(۳)      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: و ان صاحبکم خلیل اللہ، اس قول کا انکار کرنا کفر ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا، شیعہ ملعون اس کا انکار کرکے کافر ہوا۔

(۴)      جس قوم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوں ان کے علاوہ کوئی اور امامت نہ کرے، اس حکم کو نہ ماننے والا کافر ہے، اس کے کفر میں کو شک نہیں ہے۔

اس روایت میں امامتِ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حکم موجود ہے، یہ حکمِ امامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کا آپؐ کے ہوتے ہوئے نبیؐ کے مصلی پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا تمام کتب میں ثابت ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے آپؐ کی زندگی میں نماز پڑھ کر آپ کے حکم کی تعمیل کی، یہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مثال ہے کہ تمام آنے والی امت کو سبق دے دیا کہ میں نے اس حکم کو مانا ہے، امت کو بھی ایسے ہی تسلیم کرنا چاہئے، لہٰذا جو شخص اس قولِ علی، فعلِ علی اور حکمِ علی رضی اللہ عنہ کو نہ مانے وہ کافر ہے۔

شیعہ چونکہ فعلِ علی رضی اللہ عنہ کو نہیں مانتے لہٰذا فہ کافر ہیں، جس طرح شیطان کافر ہے، شیطان کی طرح نجفی ہو یا خمینی، مجلسی ہو یا کوئی اور ہو سب کافر ہیں۔

(۵)      فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي۔ (ابوداؤد)

ترجمہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے ہو۔

جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کرے وہ کافر ہے، لہٰذا شیعہ اس کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔

(۶)       قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔ (سنن ترمذی)

ترجمہ:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میری بعد کوئی نبی ہوتا تو یقیناً و عمر ہوتے۔

یہ شان حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور علیہ السلام کی حدیث ہے، چونکہ یہ فرمانِ نبیؐ ہے، لہٰذا اس کا انکار کرنا دائرۂ اسلام سے خارج ہونا ہے، شیعہ کافر اس کا انکار کرتا ہے بوجہِ انکار وہ مردود کافر ہے۔

(۷)      حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سچا قول ہے، آپ ؓ نے فرمایا:

مَا كُنَّا نُبْعِدُ أَنَّ السَّكِينَةَ تَنْطِقُ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ۔ (مشکوٰۃ، کنز العمال، فتاویٰ ابن تیمیہ)

ہم یہ بات بعید نہیں کہ سکینہ عمر کی زبان پر جاری ہوتی ہے۔

یہ فرمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے، اہل اسلام کے نزدیک حضرت علیؓ کا انکار کفر ہے، شیعہ کفار اس کے انکار کی وجہ سے قطعی کافر جہنمی ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کا انکار کرنا اور آپؐ کی بات پر اعتماد نہ کرنا اور آپ کی بات میں طرح طرح کی تاویل کرنا کفر ہے۔

(۸)      قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ وَرَفِيقِي يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ۔ (ترمذی)

ترجمہ:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق جنت میں عثمانؓ ہیں۔

اس ارشاد کا انکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار ہے جو کفر ہے، لہٰذا شیعہ چونکہ اس کا انکار کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔

(۹)       جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوست نہ رکھے وہ دشمنِ خدا اور دشمنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوست نہیں رکھتے، اس لئے کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے پیچھے ۲۳،سال نمازیں ادا کی ہیں، جو شخص حضرت علیؓ کے اماموں کو اور حضرت علیؓ کے اقوال و افعال کو نہیں مانتا وہ قیامت کے دن جہنم میں جائے گا، چونکہ حضرت علیؓ خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتے تھے، اس لئے جو خلفائے ثلاثہ کی حضرت علیؓ سےمحبت تسلیم نہ کرےوہ کافر ہے۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور تمام مسلمانوں  کو حق کہنے اور حق سمجھنے اور حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

 دعاؤں میں  یاد رکھیں






No comments:

Post a Comment