بسم الله الرحمن الرحيم
(1) كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَحِيمًا رَقِيقًا.
[صحیح مسلم:1641]
تھے الله کے رسول ﷺ مہربان اور نرم دل۔
[صحیح مسلم:1213]
اور تھے الله کے رسول ﷺ درگزر کرنے والے۔
3) كَانَ يَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ، وَيُحْيِي آخِرَه.
[مسلم:739، نسائی:1640، ابن ماجہ:1365]
آپ سوتے تھے رات کے شروع میں اور عبادت کرتے تھے رات کے آخری حصہ میں۔
(4) وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِه.
[مسلم:373، ابوداؤد:18، ترمذی:3384، ابن ماجہ:302]
اور تھے نبی ﷺ اللہ تعالٰی کا ذکر کرتے ہر وقت۔
(5) كَانَ ﷺ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ بَدَأَ بِالسِّوَاك.
[مسلم:253، ابوداؤد:51، نسائی:8، ابن ماجہ:290]
آپ ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو پہلے مسواک فرماتے تھے۔
(6) كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا دَعَا لِأَحَدٍ بَدَأَ بِنَفْسِه.
[ابوداؤد:3984، طبرانی:4081]
تھے رسول الله ﷺ جب کسی کے لئے دعا کرتے تو پہلے اپنے لئے دعا فرماتے۔
(7) كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ.
[بخاری:214، ابوداؤد:171، نسائی:131، ترمذی:58، ابن ماجہ:509]
تھے نبی ﷺ وضوء فرماتے ہر نماز کے وقت۔
(8) أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لَا يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الغُسْل.
[ترمذى:107، نسائي:252، ابن ماجة:579]
بےشک نبی ﷺ غسل کے بعد وضوء نہیں فرماتے تھے۔
نبی ﷺ وضو میں کتنا پانی استعمال کرتے؟
(9) كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ.
[ابوداؤد:92]
تھے نبی ﷺ مد(پیمانے)سے وضوء اور صاع(پیمانے)سے غسل فرماتے تھے۔
تشریح:
مُد اور صاع یہ دو شرعی پیمانے ہیں۔ ایک صاع چار مُد کا ہوتا ہے۔
[النہایۃ:2/ 784]
ایک مُد ہتھیلیوں کے بھراؤ کو کہتے ہیں۔۔۔تو صاع کی مقدار کا موجودہ وزن 2600 گرام ہوا۔
[مجلة البحوث الإسلامية:59 /178]
تشریح:
مُد اور صاع یہ دو شرعی پیمانے ہیں۔ ایک صاع چار مُد کا ہوتا ہے۔
[النہایۃ:2/ 784]
ایک مُد ہتھیلیوں کے بھراؤ کو کہتے ہیں۔۔۔تو صاع کی مقدار کا موجودہ وزن 2600 گرام ہوا۔
[مجلة البحوث الإسلامية:59 /178]
(10) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ.
[بخارى:4439، مسلم:2192، ابن حبان:6590]
حضرت رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوتے تھے تو اپنے اوپر معوذات(یعنی قل اعوذ والی دو سورتوں) کے ذریعہ دم فرماتے تھے۔
(11) كَانَ ﷺ يُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ.
[بخارى:428، مسلم:524]
آپ ﷺ محبوب رکھتے تھے(اس بات کو)کہ جہاں(نماز کا)وقت ہو نماز پڑھیں۔
(12) أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُوجِزُ فِي الصَّلَاةِ وَيُتِمُّ.
[مسلم:469، بخاری:706]
بےشک نبی ﷺ نماز کو مختصر اور مکمل پڑھتے تھے.
(13) كَانَ النَّبِيُّ -ﷺ- إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ. وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ.
[بخارى:906]
تھے نبی ﷺ (اس عادت پر کہ) - جب سردی زیادہ ہوتی تو نماز کو جلدی پڑھتے اور جب گرمی زیادہ ہوتی تو نماز کو دیر سے پڑھتے۔
(14) كان صلى الله عليه وسلم: لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ أَوْ الْغَدَاةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ قَامَ.
[مسلم:670، ابوداؤد:1294]
(15) كان ﷺ : يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ.
[مسلم:772، نسائی:1664]
آپ ﷺ (اس طریقہ پر) قرآن ٹھر ٹھرکر پڑھتے تھے، جب تسبیح کی آیت پر گزرتے، تو تسبیح پڑھتے تھے، جب دعا کی آیت پر گزرتے تو دعا مانگتے تھے، اور جب تعوذ کی آیت پر گزرتے تو پناہ مانگتے۔
(16) أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَجَدَ ضَمَّ أَصَابِعَهُ.
[صحيح ابن خزيمة:642،حاکم:826]
بےشک نبی ﷺ جب سجدہ فرماتے تھے تو اپنی انگلیاں ملالیتے تھے۔
(17) كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ يَقُولُ: «صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ».
[مسلم:867،ابن ماجہ:45]
(18) «كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامًا فَصْلًا يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ سَمِعَهُ». [ابوداؤد:4839]
تھی رسول اللہ ﷺ کی بات جدا جدا(ایسے کہ) ہر سننے والا بات کو سمجھ لیتا تھا۔
[بخارى:3549]
تھے رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت چہرے والے اور آپ کے بدن کی بناوٹ سب سےعمدہ، نہ تھے آپ بہت زیادہ دراز اور نہ پستہ قد۔
(20) كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْبُوعًا، بَعِيدَ مَا بَيْنَ المَنْكِبَيْنِ، لَهُ شَعَرٌ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنِهِ
[بخارى:3551،مسلم:2337]
تھے نبی ﷺ درمیانہ قد، آپکے دونوں مونڈھوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا آپ کے بال کانوں کی لو تک تھے۔
(21) كَانَ أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَمِيصَ.
[ابوداؤد:4025، ترمذیؒ:1762، ابن ماجہ:3575]
(22) «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَيُصَفِّرُ لِحْيَتَهُ بِالْوَرْسِ، وَالزَّعْفَرَانِ».
[ابوداؤد:4210،نسائی:5244]
[ابوداؤد:4210،نسائی:5244]
بےشک نبی ﷺ پہنتے تھے جوتے مدبوغ کھال کے اور زرد کرتے تھے اپنی ڈاڑھی کو ورس اور زعفران سے۔
(23) كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ فِضَّةٍ يَتَخَتَّمُ بِهِ فِي يَمِينِهِ.
[نسائى:5197]
[نسائى:5197]
رسول اللہ ﷺ کی چاندی کی انگوٹھی جس سے آپ مہر لگایا کرتے تھے وہ آپکے داہنے ھاتھ میں تھی۔
(24) كَانَ فِرَاشُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَنَامُ عَلَيْهِ أَدَمًا حَشْوُهُ لِيفٌ۔
[بخارى:6456]
[بخارى:6456]
رسول اللہ ﷺ کا وہ بستر جس پر آپ سوتے تھے چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
(25) كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اعْتَمَّ سَدَلَ عِمَامَتَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ.
[ترمذیؒ:1736،بغوی:3109]
تھے نبی ﷺ جب عمامہ باندھتے تو اس کے شملہ کو اپنے مونڈھوں پر ڈال دیتے۔
(26) كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ، فِي تَنَعُّلِهِ، وَتَرَجُّلِهِ، وَطُهُورِهِ، وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ».
[بخارى:168، احمد:25545]
[بخارى:168، احمد:25545]
(27) كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَطْرُقُ أَهْلَهُ، كَانَ لاَ يَدْخُلُ إِلَّا غُدْوَةً أَوْ عَشِيَّةً۔
[بخارى:1800،مسلم:1928]
[بخارى:1800،مسلم:1928]
نبی ﷺ سفر سے رات کے وقت اپنے گھروالوں کے پاس تشریف نہیں لاتے تھے صبح کے وقت آتے یا شام کے وقت آتے تھے۔
(28) كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرِضَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِهِ نَفَثَ عَلَيْهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ.
[مسلم:2192]
رسول اللہ ﷺ کے گھروالوں میں جب کوئی بیمار ہوتا آپ اس پر مُعَوّذات سے دم فرماتے تھے۔
(29) كَانَ يَخِيطُ ثَوْبَهُ، وَيَخْصِفُ نَعْلَهُ، وَيَعْمَلُ مَا يَعْمَلُ الرِّجَالُ فِي بُيُوتِهِمْ.
[احمد:24903،ابویعلیٰ:4876]
آپ ﷺ اپنے کپڑے سی لیتے تھے اور اپنے جوتے گانٹھ لیتے اور وہ سب کام کرتے تھے جو لوگ اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔
(30) وَكَانَ إِذَا اكْتَحَلَ اكْتَحَلَ وِتْرًا، وَإِذَا اسْتَجْمَرَ اسْتَجْمَرَ وِتْرًا.
[احمد:17562]
[احمد:17562]
(31) كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔ ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ.
[احمد:746، حاکم:4194]
(32) كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ قَالَ: «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ».
[ترمذی:243،نسائي:900،ابن ماجہ:806]
تھے رسول اللہ ﷺ جب نمازشروع کرتے، کہتے: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولااله غيرك۔
(33) أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الغَدَاةِ.
[بخارى:1182،ابوداؤد:1253،نسائی:1758]
بےشک نبی ﷺ ظہرسے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔
(34) أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ.
[ترمذى:471، ابن ماجہ:1195]
بےشک نبی ﷺ وتر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔
(35) كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ نَشَرَ أَصَابِعَهُ.
[ترمذى:239، حاکم:857، صحيح ابن حبان:1769]
رسول اللہ ﷺ جب نماز کےلئے تکبیر کہتے اپنی انگلیوں کو کھول لیتے تھے۔
(36) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ».
[مصنف عبدالرزاق:2589]
[مصنف عبدالرزاق:2589]
بےشک رسول اللہ ﷺ قرأت سے پہلے اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھتے تھے۔
(37) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُسِرُّ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرَ.
[مجمع الزوائد:2631، صحيح ابن خزيمة:1/277]
بےشک رسول اللہ ﷺ نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھتے تھے اور ابوبکر وعمر بھی آہستہ پڑھتے تھے۔
(38) كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ.
[بخارى:789، مسلم:392، ابوداؤد:836]
تھے رسول اللہ ﷺ جس وقت نمازکے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے پھر جس وقت رکوع فرماتے تو اللہ اکبر کہتے۔
(39) وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا.
[مسلم:498، ابوداؤد:783، ابن ماجہ:893]
اور تھے آپ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ نہ فرماتے جب تک کہ سیدھے نہ کھڑے ہوجاتے۔
(40) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ إِذَا سَجَدَ.
[صحيح ابن خزيمة:626]
«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ المَرِيضَ، وَيَشْهَدُ الجَنَازَةَ»
مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848، ترمذی:1017، ابن ماجہ:4178]
مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848، ترمذی:1017، ابن ماجہ:4178]
« ۔۔۔ كان يركَبُ الحمارَ ، ويخصِفُ النعلَ ، ويرفَعُ القميصَ ، و يلبَسُ الصوفَ ، ويقولُ : من رغِبَ عن سنَّتِي فليسَ منِّي».
ترجمہ:
گدھے پر سواری کرتے، جوتا گانٹھ لیتے، قمیص کو پیوند لگاتے، اُون کا لباس پہنتے اور فرماتے: جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ میرا(امتی)نہیں۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:2130، صحيح الجامع الصغير:4946]
« ۔۔۔ وَيَعْتَقِلُ الشَّاةَ، وَيَأْتِي مُرَاعَاةَ الضَّيْفِ»۔
بکریاں باندھتے، اور مہمانوں کیلئے مراعات لاتے۔
[حاکم:204، بیھقی:4188]
اور زمیں پر کھاتے اور فرماتے: میں تو بس ایک بندہ ہوں کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:995 الزهد لهناد بن السري:2/411]
گدھے پر سواری کرتے، جوتا گانٹھ لیتے، قمیص کو پیوند لگاتے، اُون کا لباس پہنتے اور فرماتے: جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ میرا(امتی)نہیں۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:2130، صحيح الجامع الصغير:4946]
« ۔۔۔ وَيَعْتَقِلُ الشَّاةَ، وَيَأْتِي مُرَاعَاةَ الضَّيْفِ»۔
بکریاں باندھتے، اور مہمانوں کیلئے مراعات لاتے۔
[حاکم:204، بیھقی:4188]
اور زمیں پر کھاتے اور فرماتے: میں تو بس ایک بندہ ہوں کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:995 الزهد لهناد بن السري:2/411]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى أَوْفي قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - يُكْثِرُ الذِّكْرَ، وَيُقِلُّ اللَّغْوَ، وَيُطِيلُ الصَّلاَةَ، وَيُقْصِرُ الْخُطْبَةَ، وَلاَ يَأْنَفُ، وَلاَ يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ، فَيَقْضِيَ لَهُمَا حَاجَتَهُمَا۔
حضرت عبداللہ بن اوفٰی بیان کرتے ہیں نبی ﷺ بکثرت ذکر کیا کرتے تھے اور دنیاوی باتیں نہیں کرتے تھے آپ نماز طویل پڑھتے تھے اور خطبہ مختصر دیتے تھے اور آپ اس بات میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرتے تھے کہ آپ کسی بیوہ عورت کے یا غریب آدمی کے ساتھ چل کر جائیں اور ان کی کوئی ضرورت پوری کردیں۔
[مسند الدارمي:75، السنن الكبرى للنسائي:1728، السنن الصغرى للنسائي:1414، مكارم الأخلاق للخرائطي:112، صحيح ابن حبان:6423، المعجم الصغير للطبراني:405، المستدرك على الصحيحين للحاكم:4225، آداب الصحبة لأبي عبد الرحمن السلمي:70، التواضع والخمول لابن أبي الدنيا:193، أخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني:42، دلائل النبوة للبيهقي:1/329]
انتقام بھی الله کیلئے:
(34) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے کبھی کسی خادم کو مارا اور نہ کبھی کسی بیوی کو یا کسی بھی شیء کو مارا، سوا یہ کہ (١)جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے۔آپ نے نہ کبھی اپنی ذات کے لیے کوئی انتقام لیا،خواہ انتقام کے لیے سامنے پیش کردیا جائے،ہاں مگر(٢)جب کبھی اللہ کی حرمتوں وحدود کو پامال کیا گیا تو آپ نے ضرور اللہ کے لیے انتقام لیا ہے۔
[مسلم:1814،ابوداؤد:4785]
مختصر دعائے استخارہ:
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے:
اللَّهُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي
یعنی۔ اے اللہ! میرے لیے خیر پسند فرما اور میرے کام میں برکت پیدا فرما۔
[سنن الترمذي:3516، مسند البزار:59، مسند أبي يعلى:44، مكارم الأخلاق للخرائطي:915، عمل اليوم والليلة لابن السني:550، مسند الشهاب القضاعي:1471، شعب الإيمان للبيهقي:200، شرح السنة للبغوي:1017، مسند أبي بكر الصديق:44]
اللَّهُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي
یعنی۔ اے اللہ! میرے لیے خیر پسند فرما اور میرے کام میں برکت پیدا فرما۔
[سنن الترمذي:3516، مسند البزار:59، مسند أبي يعلى:44، مكارم الأخلاق للخرائطي:915، عمل اليوم والليلة لابن السني:550، مسند الشهاب القضاعي:1471، شعب الإيمان للبيهقي:200، شرح السنة للبغوي:1017، مسند أبي بكر الصديق:44]
تفسير القرطبي، سورۃ القصص: آیۃ68
سب سے زیادہ حسن، سخاوت وشجاعت والے:
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، وَأَجْوَدِ النَّاسِ، وَأَشْجَعِ النَّاسِ، قَالَ: وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: " لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا "، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَجَدْتُهُ بَحْرًا "، يَعْنِي: الْفَرَسَ۔
سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ (مثال دیتے)فرمایا: ایک رات اہلِ مدینہ ایک آواز سن کر خوف زدہ ہوئے۔ تحقیق کے لیے نکلے تو نبی ﷺ انہیں ابوطلحہؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار (واپس آتے ہوئے) ملے اور آپ ﷺ نے تلوار لٹکا رکھی تھی، تو آپ نے فرمایا: مت گھبراؤ، مت گھبراؤ۔ پھر نبی ﷺ فرمایا: میں نے اس گھوڑے کو سمندر کے پانی کی طرح (یعنی تیز رفتار) پایا ہے۔
[بخاری:2820، مسلم:2307، ابن ماجه:2772، [ترمذی:1687]