Wednesday, 29 May 2019

فوت شدہ نمازوں کی قضا کے احکام ومسائل

القضاء کے معنیٰ قولا یا عملا کسی کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں، اور قضاءِ (1)قولی اور (2)عملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں:

(1)قضاءِ الہیٰ اور (2)قضاءِ بشری، چناچہ قضاءِ الہیٰ کے متعلق فرمایا:۔
وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ
ترجمہ:
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو
[سورۃ الإسراء:23]


فوت شدہ نمازوں کی قضا کا طریقہ
اللہ تعالی نے فرمایا:
نماز مومنین پر مقررہ وقت پر فرض ہے۔
حوالہ
إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً [سورۃ النساء:۱۰۳]




مسئلہ:1
نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے۔ بغیر عذر کے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں۔
حوالہ
إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً۔ (سورۃ النساء:۱۰۳)
عن أَبي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يَقُولُ حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَشَارَ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا۔
[بخاري بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ لِوَقْتِهَا ۴۹۶]




مسئلہ:2
جو شخص نماز کو کسی عذر کی وجہ سے وقت سے مؤخر کردے تو عذر کے ختم ہونے کے بعد اس کی قضاء ضروری ہے۔
حوالہ
فرض کی قضا بھی فرض ہے۔ واجب کی قضا بھی واجب ہے۔
حوالہ
(1) عَنْ أَنَسِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا ، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ۔
ترجمہ :
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کو (اپنے وقت پر پڑھنا) بھول جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی اس کو یاد آئے (کہ اس نے فلاں نماز نہیں پڑھی) تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھے اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں۔




(2) جبکہ صحیح مسلم میں کچھ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَنْ نَسِيَ صَلَاةً ، أَوْ نَامَ عَنْهَا ، فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا " .
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے یا سوتا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب یاد آجائے تو نماز پڑھ لے۔







(3) امام نسائیؒ نے اپنی سنن میں ایک روایت لائے ہیں :
عَنْ أَنَسٍ ، قال : سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَرْقُدُ عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ يَغْفُلُ عَنْهَا ، قَالَ : " كَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا " .
ترجمہ :
رسول اللہ ﷺ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو نماز کے وقت میں سو جائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے اپنی قضاء شدہ نماز یاد آئے تو وہ اسے پڑھ لے۔



عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ… فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى۔
(بخاري بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ ۱۸۱۶)
یعنی اللہ کا قرض سب سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے قضا کیا جائے۔





اقوالِ صحابہ :
1: امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موطا امام مالک میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ  کا فرمان نقل فرماتے ہیں :
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلَّا وَهُوَ مَعَ الْإِمَامِ فَإِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ فَلْيُصَلِّ الصَّلَاةَ الَّتِي نَسِيَ ثُمَّ لِيُصَلِّ بَعْدَهَا الْأُخْرَى۔ )موطا امام مالک:۱۵۵(
ترجمہ: حضرت نافعؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، پھر امام کے ساتھ نماز پڑھتے وقت اس کو اپنی چھوڑی ہوئی قضاء نماز یاد آجائے تو جب امام سلام پھیرے تو اس کو چاہئے کہ پہلے وہ بھولی ہوئی قضاء نماز پڑھے پھر اس کے بعد دوسری نماز پڑھے۔
2: امام ترمذیؒ نے اپنی جامع میں حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کی ایک روایت نقل کی ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ۔
(جامع ترمذی: ص43)
حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ غزوۂ خندق والے  دن مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو چار نمازیں پڑھنے سے رو ک دیا تھا یہاں تک رات کا کچھ حصہ گذر گیا، جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، پھر آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا تو انہوں نے اذان دی اور پھر اقامت کہی، پس ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو مغرب کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی اور عشاء کی نماز پڑھی۔

اقوال فقہاء:
1: امام بخاری حضرت ابراہیم نخعیؒ کا قول نقل کرتے ہیں :
وقال ابراہیم من ترک صلاۃ واحدۃ عشرین سنۃ لم یعد الا تلک الصلوٰۃ الواحدۃ ۔ 
(صحیح بخاری: ج 1 ص 84)
جس شخص نے ایک نماز چھوڑ دی تو (اگرچہ) بیس سال بھی گزر جائیں تو وہ شخص اسی اپنی قضاء شدہ  نماز کو ادا کرے ۔
2: امام ابن نجیم حنفیؒ فرماتے ہیں :
فالاصل فیہ ان کل صلوٰۃفاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فانہ یلزم قضاؤھا۔ سواء ترکھا عمدا او سھوا او بسبب نوم وسواء کانت الفوائت قلیلۃ او کثیرۃ۔
(بحر الرائق ج 2 ص 141)
ترجمہ : اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاء لازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی ہو ۔ چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں ۔ (بہر حال قضا لازم ہے۔)
3: مشہور شارحِ مسلم علامہ نووی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فِيهِ وُجُوب قَضَاء الْفَرِيضَة الْفَائِتَة سَوَاء تَرَكَهَا بِعُذْرٍ كَنَوْمٍ وَنِسْيَان أَوْ بِغَيْرِ عُذْر۔
(شرح مسلم للنووی:ج1ص231)
ترجمہ: جس شخص کی نماز فوت ہوجائے اس کی قضاء اس پر ضروری ہے خواہ وہ نماز کسی عذر کی وجہ سے رہ گئی ہو جیسے نیند، اور بھول یا بغیر عذر کے چھوٹ گئی ہو۔
4: امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وهذا الذي ورد به الأثر من إيجاب قضاء الصلاة المنسية عند الذكر لا خلاف بين الفقهاء فيه، وقد روي عن بعض السلف فيه قول شاذ ليس العمل عليه ۔ )احکام القرآن للجصاص:ج 3ص288(
ترجمہ: یہ جو اثر بھولے سے نماز قضاء کے ادا کرنے پر ہے یاد آنے پر اس کی قضاء میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور جو بعض سلف سے قول مروی ہے وہ شاذ ہے اس پر عمل نہیں۔
5: صاحبِ رحمۃ الامۃ فرماتے ہیں: و اتفقوا علی وجوب قضاء الفوائت۔
(رحمۃ الامامۃ:146)
ترجمہ: علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنا ضروری ہے۔
نوٹ : احناف کی طرح دیگر ائمہ کرام کے مقلدین کا بھی قرآن و سنت کی روشنی میں یہی موقف ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں :
6: امام مالک رحمہ اللہ کے مقلدین کا مذہب  ………المدونۃ الکبریٰ ج 1 ص 215
7: مام شافعی رحمہ اللہ کے مقلدین کا مذہب……………فتح الجواد ج 1 ص 223
8: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  کے مقلدین کا مذہب …الانصاف ج 1 ص 442
جلیل القدر محدث کا دو ٹوک فیصلہ:
علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدیث" من قضی صلاۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من شہر رمضان کان ذالک جابرا لکل صلاۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیئا من العبادات لا یقوم مقام فائتۃ سنوات ۔
(الموضوعات الکبریٰ ص 356)
ترجمہ : یہ روایت کہ جو شخص رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز قضاء پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں گی ان سب کی ادائیگی ہو جائے گی یہ روایت قطعی طور پر باطل ہے اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے ۔ جبکہ اجماع اس پر ہے کہ کوئی بھی عبادت سالہا سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ۔
نوٹ : فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قضاء شدہ نمازوں میں سے صرف فرض نمازوں اور وتروں کو ادا کیا جائے سنتوں اور نوافل کی  قضاء نہیں  کی جائے گی۔



مروجہ قضا عمری کی بدعت:
رمضان کے آخری جمعہ قضاء عمری کی نماز پڑھنے کی حقیقت

سوال: رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’جس کی اپنی عمر بھر میں نماز فوت ہوگئی ہوں اور وہ اسے شمار نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں کھڑا ہو اور چار رکعات نماز ایک تشہد کے ساتھ ادا کرے، جس کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اورسورۃ القدر پندرہ مرتبہ پڑھے، اسی طرح سے سورۃ الکوثر بھی۔ اور نیت کے وقت یہ کہے کہ: میں نیت کرتا ہوں چار رکعات ان تمام نمازوں کے کفارے کے طور پر جو مجھ سے فوت ہوئی ہيں۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یہ چار سو سال کا کفارہ ہے۔ یہاں تک کہ علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: یہ ہزار سال کا کفارہ ہیں۔ پوچھا گیا کہ جو زائد نمازیں ہيں پھر وہ کس کے کھاتے میں جائیں گی؟ فرمایا: وہ اس کے والدین، بیوی، اولاد، عزیز واقارب اور شہر کے لوگوں کی کے لیے ہوجائیں گی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سو مرتبہ کسی بھی طرح کا درود بھیجے۔ پھر یہ دعاء تین مرتبہ پڑھے:


’’اللهم يا من لا تنفعك طاعتي، ولا تضرك معصيتي، تقبل مني ما لا ينفعك، واغفر لي ما لا يضرك، يا من إذا وعد وفى، وإذا توعد تجاوز وعفا، اغفر لعبد ظلم نفسه، وأسألك اللهم إني أعوذ بك من بطر الغنى وجهد الفقر، إلهي خلقتني ولم أكُ شيئًا، ورزقتني ولم أكُ شيئًا، وارتكبت المعاصي فإني مقر لك بذنوبي، إن عفوت عني فلا ينقص من ملكك شيء، وإن عذبتني فلا يزيد في سلطانك شيء، إلهي أنت تجد من تعذبه غيري، وأنا لا أجد من يرحمني غيرك، اغفر لي ما بيني وبينك، واغفر لي ما بيني وبين الناس يا أرحم الراحمين، ويا رجاء السائلين، ويا أمان الخائفين، ارحمني برحمتك الواسعة، أنت أرحم الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات الواسعة، أنت أرحم الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات، وتابع بيننا وبينهم بالخيرات، رب اغفر وارحم وأنت خير الراحمين.. وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين‘‘


اس حدیث کی کیا حقیقت ہے؟


جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:
یہ جھوٹی اور من گھڑت حدیث ہے، اس جیسی کوئی حدیث احادیث کی معتبر کتب میں موجود ہی نہيں ہے۔ جس کی نماز فوت ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اس کی قضاء ادا کرنے میں جلدی کرے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ نَامَ عَن صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلْيُصَلِّهَا  إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ ‘‘

ترجمہ:جو نماز سے سویا رہ گیا یا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے تو نماز پڑھ لے، اس کا اس کے سوا اور کوئی کفارہ نہیں.
[صحيح البخاري، مواقيت الصلاة 597، صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة 684، سنن الترمذي، الصلاة 178، سنن النسائي، المواقيت 613، سنن أبي داود، الصلاة 442، سنن إبن ماجه، الصلاة 696، مسند أحمد بن حبنل 3/269، سنن الدارمي، الصلاة 1229.]

البتہ یہ جو مذکورہ بالا نماز ہے جس میں سورۃ القدر اور الکوثر پندرہ مرتبہ دہرائی جاتی ہے تو یہ بدعتی نماز ہے جو کہ مشروع نماز کے مخالف ہے۔


ساتھ ہی اس نماز کے بعد جو دعاء ذکر ہوئی ہے اس میں بھی بعض غیر لائق عبارات ہيں جیسے:


’’إلهي أنت تجد من تعذبه غيري‘‘ (الہی! تجھے تو میرے علاوہ دوسرے مل جائیں گے عذاب کرنے کے لیے)۔


یا جیسے:


’’يا أمان الخائفين‘‘ (اے ڈرے ہوؤں کی امان)۔


ان تمام باتوں کی بنیاد پر یہ مذکورہ نماز جائز نہيں، کیونکہ بلاشبہ یہ ایک بدعتی نماز ہے۔


وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.


[فتاوى اللجنة الدائمة : فتویٰ # 16910 > المجموعة الثانية > المجلد الثالث (التفسير وعلوم القرآن والسنة) > الحديث > حديث من فاتته صلاة في عمره ولم يحصها فليقم في آخر جمعة من رمضان]

دوسرا سوال: مرد کے لیے یہ دو رکعتیں گھر پر ادا کرنا افضل ہے یا قضائے عمری نماز کو مسجد میں پڑھنا افضل ہے؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:
نماز ایک عبادت ہے جس کے بارے میں اصل توقیف ہے (یعنی جب تک کتاب وسنت سے ثابت نہ ہو توقف اختیار کیا جائے)، اور اس کی قضاء کا طلب کرنا اور اس کا بیان شریعت ہے۔ لہذا اس بارے کسی چیز کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں سوائے کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورایسا اجماع جو ان دونوں کی یا ان میں سے کسی ایک کی طرف مستند ہو۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نہ ہی آئمہ ہدایت رحمہم اللہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے یہ نماز پڑھی ہو یا اس کا حکم دیا ہو یا ترغیب دی ہو، یا اس میں رغبت رکھی ہو۔ اگر یہ ثابت ہوتی تو ضرور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے جانتے ہوتے، اور ہم تک اسے نقل کرتے، اور اس کی جانب ان کے بعد آنے والے آئمہ ہدایت رحمہم اللہ رہنمائی فرماتے۔ لیکن یہ ان میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں نہ قولاً نہ فعلاً۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو نماز قضائے عمری کے نام سےسوال میں ذکر کی گئی ہے شریعت میں ایک بدعت ہے جس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں دی۔ اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت شدہ ہے کہ فرمایا:

’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘
ترجمہ:جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، تو وہ مردود (نا قابل قبول) ہے۔
[البخاري: کتاب الصلح (2550)، مسلم: کتاب الأقضية (1718)، أبو داود: کتاب السنة (4606)، ابن ماجه: المقدمة (14)، أحمد (6/270).]

بلکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف جس چیز کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان سے کوئی نماز نیند یا بھول کی وجہ سے فوت ہوجائے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے تو وہ اس کی قضاء ادا کرلے۔ اور ہمارے لیے یہ وضاحت فرمائی کہ ہم اسے اسی وقت ادا کریں جب جاگ جائیں یا یاد آجائے، ناکہ رمضان کے آخری جمعہ میں اسے ادا کریں۔

جواب 2:

نفلی نماز مسجد کی نسبت گھر پر پڑھنا افضل ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ ‘‘
ترجمہ:کیونکہ بلاشبہ مرد کی افضل نماز اس کے گھر پر ہے سوائے فرض نماز کے۔
[صحيح البخاري، الأذان731، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 781، سنن الترمذي الصلاة (450) ، سنن النسائي قيام الليل وتطوع النهار (1599) ، سنن أبو داود الصلاة (1447) ، مسند أحمد بن حنبل (5/186) ، موطأ مالك النداء للصلاة (293) ، سنن الدارمي الصلاة 1336]

وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

[فتاوى اللجنة الدائمة: فتویٰ#2438 > المجموعة الأولى > المجلد الثامن (الصلاة 3) > صلاة الاستخارة والحاجة > صلاة القضاء العمري]




اقوال فقہاء:
امام ابن نجیم حنفیؒ (المتوفى: 970هـ) فرماتے ہیں : فالأصلُ فیہ أن کل صلوٰۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوتِ وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤھا۔ سواء ترکھا عمدا أو سھوا أو بسبب نومٍ ، وسواء کانت الفوائتُ قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (البحرالرائق ج 2 ص 141)۔
ترجمہ :
اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاء لازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی ہو ۔ چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں ۔بہر حال قضا لازم ہے ۔

علامہ علی قاریؒ (المتوفى: 1014هـ) "موضوعات کبیر" میں کہتے ہیں:
حدیث ''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکلّ صلوٰۃ فاتتهُ فی عمرہ إلی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لأنہ مناقض للإجماع علی أن شیئا من العبادات لاتقومُ مقامَ فائتۃ سنوات ،  ثم لا عبرةَ بنقل صاحب (النهاية) ولا بقية شُراح (الهداية) لأنهم ليسوا من المحدّثين ولا أسندوا الحديثَ إلى أحد من المخرّجين . انتهى
(الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعہ حدیث 953 ص 242)
ترجمہ :
 حدیث '' جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی ۔اور فرمایا :پھر "نہایہ" سمیت "ھدایہ" کے باقی شراح کی نقل کردہ عبارت غیر معتبر ہے،اس لیے کہ وہ محدثین نہیں تھے اور نہ ہی حدیث کےمخرجین میں سے کسی کی طرف سے سند بیان کی ہے۔

علامہ شوكانی (المتوفى: 1250هـ) لکھتے ہیں :
هذا موضوع بلا شك ولم أجده في شيء من الكتب التي جمع مُصنفوها فيها الأحاديث الموضوعة ، ولكن اشتهر عند جماعة من المتفقّهة بمدينة صَنعاء في عصرنا هذا ، وصار كثيرٌ منهم يفعلون ذلك، ولا أدري مَن وضع لهم ، فقبّح الله الكذابين.
(الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة: ص 54)
ترجمہ:
یہ روایت بلا شک من گھڑت ہے ، مجھے احادیث موضوعہ پر لکھی گئی کتابوں میں سے کسی کتاب میں  نہیں ملی ، البتہ ہمارے زمانہ میں شہر صنعاء کے بعض  فقہاء کے درمیان مشہور ہے ، بہت سے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ، معلوم نہیں یہ روایت کس نے گھڑی ہے ، اللہ تعالی جھوٹوں کا ناس کرے ۔

امام ابن حجر شافعیؒ (المتوفى: 974هـ) کی "تحفہ شرح منہاج للامام النووی" میں پھر علامہ زرقانی  مالکی "شرح مواہب امام قسطلانی" رحمہم ﷲ تعالٰی میں فرماتے ہیں:
وأقبح من ذلک ما اعتِید فی بعض البلاد مِن صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عَقِب صلٰوتھا زاعمین أنھا تکفّر صلٰوۃ العام أوالعمر المتروکۃ ، و ذلک حرام لوجوہٍ لا تخفی ۔
( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ 7/110) ۔
ترجمہ :
اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کرلی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔

اورامام لکھنوی نے اس روایت کی تحقیق میں مستقل ایک رسالہ بنام (ردع الأخوان عن مُحدَثات آخر جمعة من رمضان) مرتب کیا ہے ، اور اس میں دلائل نقلیہ وعقلیہ سے ثابت کیا ہے کہ یہ نماز باطل ہے ۔


























مسئلہ:3
سنن اور نوافل کی قضاء نہیں کی جائے گی ، ہاں اگر انہیں شروع کرنے کے بعد فاسد کردیا جائے تو ان کی قضاء ضروری ہے۔
حوالہ
وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (سورۃ محمد:۳۳)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ وَكَانَتْ ابْنَةَ أَبِيهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ قَالَ اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ۔
(ترمذي: بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْقَضَاءِ عَلَيْهِ ۶۶۷)




مسئلہ:4
اگر فجر کی سنت فرض کے ساتھ چھوٹ جائے تو اس کی فرض کے ساتھ زوال سے پہلے قضاء کی جائے۔
حوالہ
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي مَسِيرٍ لَهُ فَنَامُوا عَنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ فَاسْتَيْقَظُوا بِحَرِّ الشَّمْسِ فَارْتَفَعُوا قَلِيلًا حَتَّى اسْتَقَلَّتْ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَقَامَ ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ۔
(ابوداود: بَاب فِي مَنْ نَامَ عَنْ الصَّلَاةِ أَوْ نَسِيَهَا ۳۷۵)




مسئلہ:5
صاحب ترتیب کے لیےوقتیہ اور فوت شدہ نمازوں کے درمیان ترتیب واجب ہے۔ فوت شدہ نماز کی قضا کرنے سے پہلے وقتی نماز کی ادائیگی جائز نہیں،اسی طرح فوت شدہ نمازوں کے درمیان بھی ترتیب ضروری ہے۔ اسی طرح فرائض اور وتر کے درمیان میں بھی ترتیب واجب ہے۔
حوالہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».
(دارقطني: باب الرَّجُلِ يَذْكُرُ صَلاَةً وَهُوَ فِى أُخْرَى . ۱۵۷۸)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَعَلَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ يَسُبُّ كُفَّارَهُمْ وَقَالَ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتْ قَالَ فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ فَصَلَّى بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ۔
( بخاري: بَاب قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْأُولَى فَالْأُولَى ۵۶۳)
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ۔
(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ ۱۶۴)
عَنْ أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم … وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي۔
(بخاري بَاب رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ ۵۵۴۹)



مسئلہ:6
اگر فوت شدہ نمازیں وتر کے علاوہ چھ تک نہ پہونچے ہوں تو خود فوت شدہ نماز وں میں نيز فوت شدہ اور وقتی نماز کے درمیان ترتیب ضروری ہے ، لہذا فجر کی نماز ظہر سے پہلے اور ظہر کی نماز عصر سے پہلےقضا كرلی جائے۔
حوالہ
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ۔
(ترمذي: بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ ۱۶۴)




مسئلہ:7
تین چیزوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔

(۱) جب وتر کو چھوڑ کر فوت شدہ نمازیں چھ ہو جائیں۔
حوالہ
إلا أن تزيد الفوائت على ست صلوات لأن الفوائت قد كثرت فيسقط الترتيب فيما بين الفوائت نفسها كما سقط بينها وبين الوقتية۔
(الهدية:۷۲/۱)

(۲) جب وقت کے تنگ ہونے کی وجہ سے ، وقتیہ نماز کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو۔
حوالہ
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (سورۃ النساء:۱۰۳)
عن أَبي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيّ يَقُولُ أَخْبَرَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا۔
(بخاري :بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا } ۵۵۱۳)

(۳) اپنے ذمہ فوت شدہ نماز کے ہونے کو بھول جائے اور بھولے سے وقتیہ نماز پڑھ لے۔
حوالہ
وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظ.
(بخاري: بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا ۳۱۵/)
عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ.
(ابن ماجه: بَاب طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي ۲۰۳۳) 




مسئلہ:8
اگر چھٹویں نماز وتر ہو تو فجر کے ادا کرنے سے پہلے وتر کی قضاء کرنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ وترواجب ہے اور واجب عمل کے اعتبار سے فرض کی طرح ہے اور فرض نمازوں میں ترتیب واجب ہے اس لیے مذکورہ صورت میں بھی ترتیب کوضروری قرار دیا گیا۔
حوالہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».
(دارقطني: باب الرَّجُلِ يَذْكُرُ صَلاَةً وَهُوَ فِى أُخْرَى . ۱۵۷۸)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَعَلَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ يَسُبُّ كُفَّارَهُمْ وَقَالَ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتْ قَالَ فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ فَصَلَّى بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ.
(بخاري: بَاب قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْأُولَى فَالْأُولَى ۵۶۳)
لِأَنَّ الْوَاجِبَ مُلْحَقٌ بِالْفَرْضِ فِي الْعَمَلِ فَيَجِبُ مُرَاعَاةُ التَّرْتِيبِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْفَرْضِ.
(بدائع الصنائع: فَصْلٌ بَيَانُ وَقْتِ الوتر: ۷۰/۳) 




مسئلہ:9
اگر فوت شدہ نمازیں چھ یا اس سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جائے تو فوت شدہ نمازیں کم ہو جانے کی وجہ سے ترتیب لوٹ نہ آئے گی ، بایں طور کہ اس کی دس نمازیں چھوٹ گئیں ہوں ، اس میں سے اس نے نوکی قضا کی ہو اور ایک فوت شدہ نماز رہ گئی ہو پھر وقتی نماز پڑھ لے جب کہ فوت شدہ نماز یاد ہو تو جائز ہے،اور اس کی نماز ترتیب ساقط ہوجانے کی وجہ سے صحیح ہوگی۔
حوالہ
( قَوْلُهُ وَلَمْ يُعِدْ بِعَوْدِهَا إلَى الْقِلَّةِ ) أَيْ لَمْ يُعِدْ وُجُوبَ التَّرْتِيبِ بِعَوْدِ الْفَوَائِتِ إلَى الْقِلَّةِ بِسَبَبِ الْقَضَاءِ بَعْدَ سُقُوطِهِ بِكَثْرَتِهَا كَمَا إذَا تَرَكَ رَجُلٌ صَلَاةَ شَهْرٍ مَثَلًا ثُمَّ قَضَاهَا إلَّا صَلَاةً ثُمَّ صَلَّى الْوَقْتِيَّةَ ذَاكِرًا لَهَا فَإِنَّهَا صَحِيحَةٌ لِأَنَّ السَّاقِطَ قَدْ تَلَاشَى فَلَا يَحْتَمِلُ الْعَوْدَ كَالْمَاءِ الْقَلِيلِ إذَا تَنَجَّسَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ الْمَاءُ الْجَارِي حَتَّى كَثُرَ وَسَالَ ثُمَّ عَادَ إلَى الْقِلَّةِ لَا يَعُودُ نَجَسًا وَاخْتَارَهُ الْإِمَامُ السَّرَخْسِيُّ وَالْإِمَامُ الْبَزْدَوِيُّ حَيْثُ قَالَا وَمَتَى سَقَطَ التَّرْتِيبُ لَمْ يُعِدْ فِي أَصَحِّ الرِّوَايَتَيْنِ وَصَحَّحَهُ أَيْضًا فِي الْكَافِي وَالْمُحِيطِ وَفِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ وَغَيْرِهِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى 
(البحر الرائق: سقوط الترتيب بين صلاة الفائتة:۴۰۱/۴)




مسئلہ:10
اگر کوئی شخص فوت شدہ نماز کے یاد ہونے کے باوجود وقتی نماز پڑھ لے ، تو اس کی فرض فاسد ہو جائے گی لیکن یہ فساد موقوف رہے گا۔اگر فوت شدہ نماز کے یاد ہوتے ہوئے اس کے قضاء کرنے سے پہلے پانچ نمازیں پڑھ لے، تو پانچویں ادا کردہ نماز کا وقت نکل جانے کی وجہ سے فساد ختم ہو جائے گا اور پانچوں نمازیں فرض کی جانب سے ہوجائے گی۔
حوالہ
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ.
(ترمذي: بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ: ۱۶۴).
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ.
(بخاري: بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِ الخ: ۵۹۵)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».
(دارقطني: باب الرَّجُلِ يَذْكُرُ صَلاَةً وَهُوَ فِى أُخْرَى . ۱۵۷۸)
مذکورہ احادیث کی بناء پرفقہاء کرام نے فائتہ اور وقتیہ کے درمیان ترتیب کوواجب قرار دیا ہے اور ترکِ واجب کی وجہ سے مذکورہ حکم لگایا گیا ہے۔



لیکن اگر پانچویں ادا شدہ نماز کا وقت نکلنے سے پہلے فوت شدہ نماز کی قضاء کرے تو فرض باطل ہوجائے گی اور اس کی یہ تمام نمازیں نفل ہو جائیں گی ، اس کے ذمہ ان پانچوں نمازوں کی قضا ہوگی جنہیں اس نے فوت شدہ نماز کے قضا کرنے سے پہلے پڑھا تها۔
حوالہ
اگر فوت شدہ نمازیں زیادہ ہوجائیں تو قضاء کرتے وقت ہر نماز کے تعیین کی ضرورت ہوگی، اگر اس کیلئے ہر نماز کی تعیین دشوار ہو جائے تو مثلایوں نیت کرے کہ وہ پہلی فوت شدہ ظہر یا آخری فوت شدہ ظہر کی قضا کر رہا ہے۔
حوالہ
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى۔
(بخاري: بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱)