Friday 3 August 2012

بیس (20) رکعت تراویح کے ثبوت


تراویح کے معنیٰ:
حافظ الحدیث امام ابن حجر العسقلانی الشافعیؒ (المتوفى:852هـ) فرماتے ہیں :

والتراويح جمع ترويحة وهي المرة الواحدة من الراحة كتسليمة من السلام، وسميت الصلاة في الجماعة في ليالي رمضان التراويح لأنهم أول ما اجتمعوا عليها كانوا يستريحون بين كل تسليمتين.
ترجمہ:
اور تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور (چار 4 رکعت کا) ترویحہ ایک دفعہ راحت لینے  کو کہتے ہیں جیسے ’’تسلیمہ‘‘ ایک دفعہ سلام کرنے کو کہتے ہیں ۔۔۔ (آگے اس لفظ کی وجہ تسمیہ فرماتے ہیں کہ) ۔۔۔ اور جو نماز رمضان کی راتوں میں باجماعت ادا کی جاتی ہے اس کا نام  تراویح رکھا گیا ہے، اس لئے کہ جب صحابہ کرام پہلی بار اس نماز پر مجتمع ہوۓ تو وہ ہر دو سلام کے بعد راحت (کا وقفہ) لیا کرتے تھے.
[فتح الباری شرح صحیح البخاری: ج4 /ص250، کتاب صلاة التراویح]

عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ " أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ، بِالنَّاسِ ‌خَمْسَ ‌تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔
ترجمہ :
حضرت ابو الحسناؒ سے مروی ہے کہ حضرت عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ؓ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحے (یعنی) بیس رکعات (تراویح) پڑھایا کرے۔
[الشريعة للآجري:1240، الإبانة الكبرى - ابن بطة:82، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص393]


عَنْ أَبُو الْخَصِيبِ، قَالَ: كَانَ يَؤُمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي ‌خَمْسَ ‌تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔
ترجمہ :
”ابوالخصیبؒ کہتے ہیں کہ: سوید بن غفلہ ہمیں رمضان میں نماز پڑھاتے تھے، پس پانچ(5) ترویحے بیس(20) رکعتیں پڑھتے تھے۔”
[صحيح الكتب التسعة وزوائده» حدیث#2737]













کیا نبی ﷺ سے ترویحہ ثابت ہے؟
جی ہاں، امام بیھقیؒ (المتوفى: 458هـ) نے سنن کبری میں ایک روایت نقل کی ہے : 
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي اللَّيْلِ، ثُمَّ يَتَرَوَّحُ، فَأَطَالَ حَتَّى رَحِمْتُهُ فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ، وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ غَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ: " أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا؟ " تَفَرَّدَ بِهِ الْمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ، وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَقَوْلُهُ: ثُمَّ يَتَرَوَّحُ إِنْ ثَبَتَ فَهُوَ أَصْلٌ فِي تَرَوُّحِ الْإِمَامِ فِي صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، وَاللهُ أَعْلَمُ
ترجمہ:
حضرت عائشہؓ سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو چار رکعات پڑھا کرتے تھے، پھر آرام کرتے، پھر آپ ﷺ رکعت اتنی لمبی کردیتے کہ مجھے آپ پر رحم آجاتا، میں کہتی : میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں، اللہ نے آپ کے پہلے اور بعد والے تمام گناہ معاف کردیے ہیں! آپ ﷺ فرماتے : کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں۔
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء -أبو نعيم الأصبهاني » ج8 / ص289]

(آگے امام بیھقیؒ فرماتے ہیں) اس (روایت) میں مغیرہ بن شعبہ اکیلا ہے اور وہ مضبوط نہیں، اور اس قول (ثُمَّ يَتَرَوَّحُ) سے نمازِ تراویح میں امام کا راحت لینے کی اصل (بنیاد) ثابت ہوتی ہے، اور اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے۔
[السنن الكبرى للبيهقي » جُمَّاعُ أَبْوَابِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَقِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، بَابُ مَا رُوِيَ فِي عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ۔۔۔ رقم الحدیث#4623]
[المهذب في اختصار السنن الكبير-الذهبي » 4098]
[تقريب البغية بترتيب أحاديث الحلية-الهيثمي » 1123]


امام نووی رحمہ اللہ تعالی (م676هـ) کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اور ہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اور انفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
[المجموع للنووی: 4 / 31]


تراویح سنّت ہے:
عَنْ عبد الرحمن بن عوف ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ ، فَمَنْ صَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ؛ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " .
ترجمہ:
حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ  کا ارشاد ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے (1)روزوں کو فرض کیا ہىں اور میں نے تمہارے لیے اس(رمضان)کے(2)قیام (یعنی نماز مین کھڑے ہونے) کو سنت(عادت) قرار دیا ہے، پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئىے جائىں گئے۔
إسناده صحيح
[مسند أحمد: حدیث#1660، جلد#3 / صفحہ#128 ]
تخریجی حوالہ جات:-
سنن ابن ماجه:1328، سنن النسائي:2210، الأحاديث المختارة:907+908، مسند أبي يعلى الموصلي:864، شعب الإيمان للبيهقي:3342، فضائل الأوقات للبيهقي:42، فضائل شهر رمضان لابن شاهين:28،  فضائل شهر رمضان لعبد الغني المقدسي:7، جامع المسانيد والسُّنَن:7056، المجالس العشرة الأمالي للحسن الخلال:25، مشيخة السهروردي:4، مشيخة أبي بكر المراغي:ص66، مجالس من أمالي أبي عبد الله بن منده:28، الترغيب والترهيب للاصبھاني:44، الترغيب والترهيب للمنذري:1504

نوٹ:
قیام یعنی کھڑا ہونا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے: أَقِيمُوا الصَّلَاةَ یعنی نماز قائم کرو۔
غیررمضان کی راتوں میں تہجد اور وتر نماز بھی قیام اللیل ہے جبکہ رمضان کی راتوں میں قیام اللیل سے مراد تراویح نماز ہے جو خاص رمضان میں مشروع ہے، یعنی یہ غیررمضان کیلئے نہیں۔
جبکہ تہجد صرف رمضان کیلئے نہیں، بلکہ وہ غیر رمضان بھی پڑھنے کی تعلیم ہے۔

اس حدیث سے تراویح نماز کو سنت قیام فرمایا گیا۔
[مجموع الفتاوى-امام  ابن تيمية:23 /119-120][الفتاوى الكبرى لابن تيمية:2/ 254-255]
[فتاوى السبكي:1 /128]
[شرح الزركشي على مختصر الخرقي:696 (2/ 78)]
[شرح الزرقاني على الموطأ:1/ 417]
(‌وسننت ‌لكم قيامه) أي صلاة ‌التراويح۔
[السراج المنير شرح الجامع الصغير-العزيزي:1/ 352]
[صلاة التراويح - الألباني][إرواء الغليل:446]
[شرح بلوغ المرام لعطية سالم:5/ 80-11/ 80]









پہلے سرسری جائزہ حوالہ جات کے ساتھ»

(1) مآخذ Sources کا فرق:
تہجد قرآن سے ثابت ہے۔
[سورۃ الاسراء:79، المزمل:2]
اور تراویح سنت سے ثابت ہے۔
[ابن ماجه:1328، نسائی:2210]

(2) مکان کا فرق:
تہجد مکّہ مکرمہ میں مشروع ہوئی، تراویح مدینہ منورہ میں۔

(3) زمانہ کا فرق:
تہجد ہجرت سے پہلے مشروع ہوئی، تراویح بعد میں۔

(4) درجہ کا فرق:
تہجد پہلے فرض پھر 12 ماہ بعد اس کی فرضیت امت پر منسوخ ہوکر نفل رہی۔[ابوداؤد:1342،تفسیر سورۃ المزمل:20]
تراویح فرض نہیں ہوئی۔[بیھقی:7955]
بلکہ سنت رہی۔[نسائی:2210]

(5) جماعت:
تہجد میں اصل(عادت)بغیرجماعت پڑھنا ہے۔[بخاری:1147]
تراویح میں جماعت سنتِ مؤکدہ کفایۃ ہے۔[الروض المربع:ص65]

(6) ساری رات:
تہجد کیلئے ثابت نہیں[سورۃ المزمل:3+20] اور تراویح کیلئے رمضان کے سوا کسی ایک رات میں بھی صبح تک ساری رات نماز پڑھنا معلوم نہیں[نسائی:2348]

(7) مہینہ کا فرق:
تہجد رمضان اور غیر رمضان میں بھی پڑھی جاتی ہے[بخاری:1147]
تراویح فقط رمضان میں پڑھی جاتی ہے[بخاری:37]

(8) مقدارِ قرأۃ کا فرق:
تراویح میں ایک مرتبہ پورا قرآن مجید ختم کرنا خلفاء راشدین کی سنت ہے جبکہ تہجد میں قرأۃ کی کوئی مقدار متعین نہیں۔۔۔تو پڑھو جتنا آسان ہو قرآن میں سے۔۔۔[سورۃ المزمل:20]

(9) جگہ کا فرق:
نبی ﷺ تہجد گھر میں ادا کرتے۔
[بخاری،کتاب التھجد:حدیث#1147]
اور
تراویح مسجد میں پڑھائی۔
[بخاری،کتاب الصلاۃ التراویح،حدیث#2012]

(10) تعینِِ رکعات  کا فرق:
نماز تہجد کی رکعات متعین نہیں ہیں بلکہ وقت کی گنجائش اور اپنی ہمت کے مطابق وتروں کے علاوہ 2 یا 4 یا 6 یا 8 یا 10 رکعت تک پڑھ سکتے ہیں۔[مسلم:737-738]
اور
تراویح کی تعداد فریقین کے نزدیک متعین ہے 20 یا 8 سے کم/زیادہ نہیں۔
جبکہ
سلفِ صالحین میں سے کسی صحابی یا امام کا عمل 20 رکعت سے کم تراویح نہیں تھا۔
[ترمذی:806]

(11) نیند کا وقفہ
نبی ﷺ کا تہجد اور وتروں کے درمیان سونا ثابت ہے
[بخاری:1147،مسلم:738]
مگر
تراویح میں اور وتروں کے درمیان سونا ثابت نہیں،کہ حدیث میں ہے:
۔۔۔جب رمضان شروع ہوتا تو آپ ﷺ اس کے گزرنے تک بستر پر قدم نہ رکھتے۔
[صحیح ابن خزیمۃ:2216]

(12) وتروں کی جماعت
تہجد کے بعد ثابت نہیں، تراویح کے بعد پڑھانا خلفاء راشدین کی سنت ہے۔[بیھقی:4289-4290]

(13) وقت کا فرق:
رسول الله ﷺ رات کے اول حصہ میں سوتے اور آخر حصہ میں(نیند سے اٹھکر) تہجد پڑھتے۔
[بخاری:1146، سورۃ المزمل:6]
جبکہ تراویح اول رات سے پڑھی جاتی رہی ہے۔
[بخاری:2010]
علمائے اہل حدیث کا فتوی:
تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد اول رات کا ہے، اور تہجد کا آخر رات کا۔
[فتاویٰ علمائے حدیث: ج٦،ص٢٥١]
جو شخص رمضان میں عشاء کے وقت نماز تراویح پڑھ لے وہ آخر وقت میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔۔۔اول شب میں تہجد نہیں ہوتی۔
[فتاویٰ علمائے حدیث: ٦/ ٣٣١]

(14) نام  کا فرق:
یہ وتر کی طرح رات کی نمازیں ہیں، پر احادیث کی کتابوں میں ان کے ناموں کی طرح"کتاب"بھی جداجدا لکھے گئے۔
جیسے:
[صحیح بخاری:1120-1187، کتاب التھجد]
[صحیح بخاری:2008-2013، کتاب الصلاۃ التراویح]






(15) موضوع کا فرق:
ان کے کتاب کی طرح باب بھی جداجدا ہیں، لہذا یہ دونوں نمازیں ایک نہیں۔
[صحیح بخاری(باب فضل قیام اللیل)+(باب فضل من قام رمضان)
صحیح مسلم(باب صلاۃ اللیل)+(باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح)]



(16) معنیٰ کا فرق:
تراویح، ترویحہ کی جمع ہے جو ایک دفعہ راحت لینے کو کہتے ہیں۔
جبکہ
ھجود کے معنی نیند کے ہیں اور سوئے ہوئے آدمی کو ھاجد کہا جاتا ہے اور ھجدتہ کے معنی ہیں میں نے اس کی نیند کو دور کیا تو وہ جاگ گیا۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ [سورہ الإسراء:79] اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے۔ اس آیت میں رات کے قیام میں قرآن پڑھنے کی تر غیب دی گئی ہے ۔ جیسے دوسری جگہ اسی کو قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا - نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا [سورہ المزمل:2- 3] رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ، یا آدھے سے کچھ کم کرلو۔ ۔ قیام کیساتھ تعبیر فرمایا ہے ۔ المتھجد کے معنی رات کو نیند سے اٹھ کر نماز پڑھنے والا کے ہیں ۔
[المفردات في غريب القرآن-الراغب الأصفهاني: ص832]

حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"تم میں سے کوئی رات کو صبح تک قیام کر کے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تہجد پڑھی ہے، تہجد تو یہ ہے کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد نماز پڑھی، پھر دوبارہ سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ایسی ہی تھی۔ "
[معجم الصحابة للبغوي:527]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "التلخيص الحبير" (2/ 35) میں لکھتے ہیں کہ:
"اس اثر کی سند حسن ہے، اس کی سند میں ابو صالح جو کہ لیث کے کاتب تھے اس میں معمولی کمزوری ہے، نیز اس اثر کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے، لیکن طبرانی کی سند میں ابن لھیعہ ہے، تاہم اس کی روایت سابقہ روایت سے تقویت حاصل کر لیتی ہے" 



(17) فضیلت کا فرق اور عملِ صحابہ:
حضرت عمر نے اس نماز کو عمدہ بدعت کہہ کر صحابہ سے فرمایا:
وہ نماز جس سے تم سوجاتے ہو(یعنی تہجد)افضل ہے اس(تراویح)نماز سے جس کو تم قائم کررہے ہو۔
[بخاری:2010، مؤطا مالک:279، بیھقی:4274، ابوداؤد:1439، نسائی:1679، ترمذی:470]

یعنی رات کی نمازیں دونوں پڑھنی چاہئیں۔ اور تراویح کو وہ شرعی مانتے تھے۔ اور بدعت لغت کی حیثیت سے فرمایا۔
[مجموع الفتاوى-ابن تيمية:10/ 371، فتح الباري لابن حجر:1/ 85]
اور اس بدعت کو نعمت بھی مانا۔







امام ابوالولی سلیمان الباجی قرطبی رح المتوفی 474 ہجری۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ کے اسی جملے کے تذکرہ فرماتے ہیں کہ آخر میں آدھی رات کا قیام افضل ہے، پہلی آدھی رات کے قیام سے۔
[المنتقى شرح الموطإ-الباجي جلد1/ صفحہ 208]



امام ابن بطال رح 449 ہجری۔ (آدھی رات کا قیام پہلی رات سے کیوں افضل ہے، اسکی وجہ بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:
اخری رات کا قیام (تہجد) اللہ کے ہاں ہمیں وقت نزول اور بندوں کی دعا قبول ہونے کی وجہ سے افضل ہے۔
[شرح صحیح بخاری-لابن بطال: جلد 4 / صفحہ 147]



امام ابن حجر عسقلانی رح المتوفی 852 ہجری فرماتے ہیں کے (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول میں) صراحت ہے آخر رات کی نماز (تہجد) افضل ہے، شروع رات کی نماز (تراویح) سے۔
[فتح الباري لابن حجر: جلد 4 / صفحہ 253]






(18) امام بخاری بھی اپنے ساتھیوں کو تراویح پڑھاتے۔
حوالہ
كَانَ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ ‌رَمَضَانَ يجْتَمع إِلَيْهِ أَصْحَابه فيصلى بهم وَيقْرَأ فِي كل رَكْعَة عشْرين آيَة
[شعب الإيمان - ط الرشد:2058]

اور پھر سحری کے وقت اکیلے تہجد کی 13 رکعات پڑھتے۔
حوالہ
وكان يصلى في وقت السحر ثلاث عشرة ‌ركعة۔
[تاريخ بغداد ت بشار:‌‌374(2/ 322تاريخ دمشق لابن عساكر:52/ 71، صفة الصفوة-ابن الجوزي:2/ 436، تهذيب الأسماء واللغات-النووي؛1/ 75]
[ھدي الساري مقدمة فتح الباري: ص٥٠٥(٦٦٦)، نصرة الباري:ص١٢]
اہلِ حدیث کے علامہ وحید الزمان بھی اپنی کتاب نقل [تيسير الباري:١/٤٩میں کرتے ہیں۔










تراویح کی 'جماعت' بھی ثابت ہے:
1) عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها: أَنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ صَلَّی ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّی مِنَ الْقَابِلَةِ، فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اﷲِ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوْجِ إِلَيْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ، وَ ذَلِکَ فِي رَمَضَانَ. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمہ:
’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی. پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ اور یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔‘‘
[مسند احمد (25446) ، إسناده صحيح على شرط الشيخين، وهو مكرر (25632) ، غير أن شيخ أحمد هنا: هو عبد الرحمن بن مهدي وشيخه: هو مالك بن أنس. وهو عند مالك في "الموطأ" 1/113، ومن طريقه أخرجه إسحاق بن راهويه (865) ، والبخاري (1129) و (2011) ، ومسلم (761) (177) ، وأبو داود (1373) ، والنسائي في "المجتبى" 3/202، وابن حبان (2542) ، والحسن بن محمد الخلال في "أماليه" (41) ، والبيهقي في "السنن" 3/492-493، وفي "الشعب" (3267) ، وفي "فضائل الأوقات" (119) ، والبغوي في "شرح السنة" (989) .]


وَ زَادَ ابْنُ خُزَيْمَةَ (2207) وَابْنُ حِبَّانَ (2541):
امام ابن خزیمہؒ (2207) اور امام ابن حبانؒ (2541) نے ان الفاظ کا اضافہ کیا:
وَ کَانَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةِ أَمْرٍ فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ فَکَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنه وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه حَتَّی جَمَعَهُمْ عُمَرُ رضي اﷲ عنه عَلَی أُبِّيِ بْنِ کَعْبٍ وَ صَلَّی بِهِمْ فَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلُ مَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَی قِيَامِ رَمَضَانَ.
ترجمہ:
اور حضور نبی اکرم ﷺ انہیں قیامِ رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے، چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکرؓ اور خلافتِ عمرؓ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے انہیں حضرت ابی بن کعبؓ کی اقتداء میں جمع کردیا اور وہ انہیں نماز (تراویح) پڑھایا کرتے تھے لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نماز تراویح کے لئے (باجماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔‘‘

و أخرجه العسقلاني في ’’التلخيص الحبير:541‘‘:

أَنَّهُ ﷺ صَلَّی بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً لَيْلَتَيْنِ فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ: خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ فَلَا تَطِيْقُوهَا.
ترجمہ:
اور امام ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’التلخيص الحبير:541‘‘ میں بیان کیا ہے 
کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ ﷺ ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ (نماز تراویح) تم پر فرض کر دی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔‘‘

[اخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب: التہجد، باب: تحریض النبی ﷺ علی صلاۃ اللیل والنوافل من غیر ایجاب، 1 / 380، الرقم: 1077، و في کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 708، الرقم: 1908، و مسلم في الصحیح، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 524، الرقم: 761، و ابو داود في السنن، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1373، والنسائي في السنن، کتاب: قیام اللیل و تطوع النہار، باب: قیام شہر رمضان، 3 / 202، الرقم: 1604، و في السنن الکبری، 1 / 410، الرقم: 1297، و مالک في الموطا، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 113، الرقم: 248، و احمد بن حنبل في المسند، 6 / 177، الرقم: 25485، و ابن حبان في الصحیح، 1 / 353، الرقم: 141، و ابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 338، الرقم: 2207، و عبد الرزاق في المصنف، 3 / 43، الرقم: 4723، والبیہقي في السنن الکبری، 2 / 492، الرقم: 4377، و في السنن الصغری، 1 / 480، الرقم: 486، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2 / 21۔]





2) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ  فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَاءِ؟ فَقِيْلَ: هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَ أُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ يُصَلِّي وَ هُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ  : أَصَابُوا وَ نِعْمَ مَا صَنَعُوا.

ترجمہ :
’’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعبؓ نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کیا۔‘‘
[رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ:1377، ابْنُ خَزَيْمَةَ:2208، ابْنُ حِبَّانَ:2541، الْبَيْهَقِيُّ:4283. وَ فِي رِوايَةٍ لِلْبَيْهَقِيِّ: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوا أَوْ قَدْ أَصَابُوا وَلَمْ يَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ.]
اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے فرمایا: انہوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم ﷺ نے ناپسند نہیں فرمایا۔‘‘

[اخرجہ ابوداود في السنن، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 50، الرقم: 1377، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 339، الرقم: 2208، وابن حبان في الصحیح، 6 / 282، الرقم: 2541، والبیہقي في السنن الکبری، 2 / 495، الرقم: 4386۔ 4388، والہیثمي في موارد الظمآن، 1 / 230، الرقم: 921، و ابن عبدالبر في التمھید، 8 / 111، و ابن قدامۃ في المغني، 1 / 455۔]

لہٰذا تراویح کی ’’جماعت‘‘ بھی بدعت نہیں۔ 


==================================

بیس (20) رکعت تراویح دور نبوی ﷺ میں۔

(1) حدثنا أبو الفضل عبيد الله بن عبد الرحمن الزهري [ثقة]، نا محمد بن هارون بن حميد الرازي [ثقة]، نا إبراهيم بن المختار [مقبول]، عن عبد الرحمن بن عطاء [مقبول]، عن ابن عتيك [ثقة]، عن جابر ، أن النبي صلى الله عليه وسلم " خرج ليلة في رمضان فصلى بالناس أربعة وعشرين ركعة " . وحدثنا ابن حيويه ، عن ابن المجلد ، وزاد : وأوتر بثلاث.

ترجمہ :
حضرت جابر بن عبدﷲ ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ  رمضان المبارک کی ایک رات باہر تشریف لائے تو لوگوں کو چار (فرض) اور بیس رکعتیں (تراویح) پڑھائے۔ اور ابن حيويه کی ابن المجلد سے مروی حدیث میں مزید یہ بھی ہے کہ : اور تین وتر پڑھائی۔
[التاسع من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي(م576هـ) »  حدیث#223]

هَذَا ‌إِسْنَادُهُ ‌صَحِيحٌ، ‌وَرُوَاتُهُ ‌ثِقَاتٌ۔

اگر (1)تراویح نماز (2)اسکی جماعت (3)اور اسکی بیس رکعتوں کا کوئی ثبوت نہ ہوتا تو صحابہ کرام اور ائمہ کرام اس پر جمع ومتفق نہ ہوتے۔



************************


(2) قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ.
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور رمضان شریف کی ایک رات تشریف لائے۔ لوگوں کو چار (فرض) اور بیس رکعات (تراویح) اور تین وتر پڑھائے۔
اگر (1)تراویح نماز (2)اسکی جماعت (3)اور اسکی بیس رکعتوں کا کوئی ثبوت نہ ہوتا تو صحابہ کرام اور ائمہ کرام اس پر جمع ومتفق نہ ہوتے۔




************************
امام بخاریؒ کے استاد امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ  اپنی کتاب ’’المصنف‘‘ میں روایت کرتے ہیں:

(2) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً ، وَالْوِتْرَ " .
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  رمضان شریف میں بیس رکعات نماز(تراویح) اور وتر پڑھاتے تھے۔

[مصنف ابن أبي شيبة:7692(7902)، المنتخب من مسند عبد بن حميد:653، جزء من حديث النعالي:33، المعجم الكبير للطبراني:12102، المعجم الأوسط للطبراني:798، السنن الكبرى للبيهقي:4677(4291)، مسند عبد بن حميد:653]










 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسالسنن الكبرى للبيهقي42412 : 495البيهقي458
2يصلي في رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر621620ابن حجر العسقلاني852
3يصلي في رمضان عشرين ركعة ويوتر بثلاثعبد الله بن عباسمسند عبد بن حميد660653عبد بن حميد249
4يصلي في رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسمصنف ابن أبي شيبة75207766ابن ابي شيبة235
5يصلي في رمضان عشرين ركعة سوى الوترعبد الله بن عباسالمعجم الأوسط للطبراني816798سليمان بن أحمد الطبراني360
6يصلي في رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسالمعجم الأوسط للطبراني55865440سليمان بن أحمد الطبراني360
7يصلي في رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسالمعجم الكبير للطبراني1194112102سليمان بن أحمد الطبراني360
8يصلي في شهر رمضان بعشرين ركعة ويوتر بثلاثعبد الله بن عباسمشيخة أبي الطاهر بن أبي الصقر2119ابن مفلح اللخمي476
9يصلي في شهر رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسفوائد أبي الحسن بن طلحة النعالي33---أبو الحسن بن طلحة النعالي413
10كان النبي صلى الله عليه يصلي في شهر رمضان بعشرين ركعة ويوتر بثلاثعبد الله بن عباسالأول من حديث ابن أبي ثابت11---إبراهيم بن محمد بن أحمد بن أبي ثابت338
11يصلي في رمضان إحدى وعشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسموضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب4501 : 387الخطيب البغدادي463
12يصلي في رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباسالتمهيد لابن عبد البر13018 : 115ابن عبد البر القرطبي463
13يصلي في رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباستاريخ بغداد للخطيب البغدادي19757 : 22الخطيب البغدادي463
14يصلي في شهر رمضان عشرين ركعة والوترعبد الله بن عباستاريخ بغداد للخطيب البغدادي399413 : 499الخطيب البغدادي463

اگر (1)تراویح نماز (2)اسکی جماعت (3)اور اسکی بیس رکعتوں کا کوئی ثبوت نہ ہوتا تو صحابہ کرام اور ائمہ کرام اس پر جمع ومتفق نہ ہوتے۔





اعتراض:
اس سند میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ ہے جو عند المحدثین ضعیف ہے۔



جواب#1:
اصولِ جرح و تعدیل کا یہ پہلا اصول ہے کہ جو جرح مفسر نہ ہو یعنی اس میں سببِ جرح تفصیل سے(یعنی اس کا معقول اور مقبول ہونا) بیان نہ کیا گیا ہو تو تعدیل اس پر مقدم رہتی ہے (یعنی عدالت قائم رہتی ہے اور جرح مردود ٹھہرتی ہے)۔
[مقدمہ اعلا  السنن : ٣/٢٣,  فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢]

اسی طرح موجودہ اہلِ حدیث کے محقق زبیر علی زئی لکھتا ہے:
صرف ضعیف یا متروک یا منکر کہنے سے جرح مفسر نہیں ہے۔
[رکعتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ: ص65]



جواب#2:
(1) امام شعبه بن الحجاج (160 ھہ) نے ان سے روایت لی ہے.
[تهذیب الکمال، للمزی : 2/147 ، تهذیب التهذیب : 1/145]
اور انکے متعلق مشہور ہے کہ وہ ثقہ (یعنی قابلِ اعتماد) ہی سے روایت کرتے تھے، چنانچہ مشہور غیرمقلد عالم عبد الرؤف سندھی لکھتا ہے کہ:
شیخ احمد شاکر فرماتے ہیں کہ وہ (یعنی امام شعبہؒ) ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں۔
[صلاۃ الرسول بتخریج عبد الرؤف:ص386]


اور غیر مقلدین (عرف اہل حدیث) کا ہاں اصول ہے کہ امام شعبہؒ اس راوی سے روایت لیتے ہیں جو ثقہ ہوں اور ان کی احادیث صحیح ہوں.
[القول المقبول فی شرح صلاة الرسول : ص # 386 ؛ نيل الأوطار ، للشوكاني : 1 / 16]


اس طرح جن جن ثقہ (قابل اعتماد) محدثین نے بیس (20) رکعت کی روایت لی، یہ ان کی قوی تائید ہے ورنہ یہ حضرات اس طرح متفق نہ ہوتے.



(2) امام عدیؒ (277 - 365 ھہ)، ابو شیبہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
لہ احادیث صالحۃ
یعنی ابو شیبہ  (ابراہیم بن عثمان) کی احادیث درست ہیں۔



(3) امام بخاریؒ کے استاد الاستاد حضرت یزید بن ہارونؒ جو ابو شیبہ کے زمانہ قضاۃ میں ان کے کاتب اور منشی تھے وہ بھی ابوشیبہ کے بڑے مداح تھے ۔وہ فرماتے ہیں:
ما قضی علی الناس یعنی فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ
یعنی ابراہیم بن عثمان کے زمانہ قضاة ان سے بڑھ کر عادل کوئی قاضی (جج) نہیں ہوا.
[تہذیب الکمال ج1ص 151] 



(4) ابن عدیؒ (277 - 365 ھہ) نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے : 
وهو وإن نسبوه إلى الضعف خير من إبراهيم بن أبي حية،

یعنی وہ بہتر ہیں کمزوری میں ابراہیم بن ابی حية سے۔
[تہذیب الکمال ج2 ص151]


اور إبراهيم بن أبي حية کے بارے میں امام یحیی بن معینؒ(المتوفى: 233هـ) فرماتے ہیں: 
شیخ، ثقۃ کبیر

یعنی یہ شیخ (بزرگ) ہیں، بڑے ہی قابل اعتماد ہیں۔
[تاريخ ابن معين (رواية الدوري) : رقم159 ، لسان المیزان ج1ص52 رقم الترجمۃ 127]



(5) امام یحیی بن معینؒ(المتوفى: 233هـ) نے جب جب ابراھیم بن عثمان کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حضرت یزید بن ہارونؒ کی بات نقل کرکے ان کی توثیق بیان کی ہے۔
[تاريخ ابن معين (رواية الدوري) :1/421، رقم 2557]


لہذا جب ابراہیم بن ابی حیہ ثقہ ہے تو ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ بدرجہ اولی ثقہ ہونا چاہیے۔


(6) امام دارقطنیؒ (المتوفى: 385هـ) نے ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

وَرَفَعَهُ أَبُو شَيْبَةَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ جَابِرٍ، وَالصَّحِيحُ مَوْقُوفًا.
[علل الدارقطنی:4/187، رقم 498]



(7) امام أبو الحسن، بَحْشَلؒ (المتوفى: 292هـ) نے ابوشیبہؒ کی احادیث سے احتجاج کیا ہے۔
[تاريخ واسط: ص162، 232]


(8) امام ابن أبي حاتم الرازيؒ فرماتے ہیں :
 "صدوق، كتبت عنه"
یعنی وہ بہت ہی سچا ہے، لکھو (احادیث) ان سے.



(9) غیرمقلدین کے علامہ ناصر الدین البانی نے بھی ابوشیبہؒ کی ایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔







جواب#3:
اس روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ اور محدثین کا قاعدہ ہے کہ اگر کسی روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہو جائے تو روایت صحت کا درجہ پالیتی ہے۔ لہذا یہ روایت تلقی بالقبول ہونے کی وجہ سے یہ روایت صحیح و حجت ہے۔
اس اصول حدیث کا حوالہ:
چونکہ علماء نے اس کو قبول کیا ہے، سو اس حدیث کو اسناد کے لحاظ سے مردود اور معنی کے حیثیت سے قبول کیا ہے.

"ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي]
ترجمة:
اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓ گا.


اور مشھور ائمہ محدثین جیسے شافعیؒ، بخاریؒ، ترمذیؒ، سیوطیؒ، سخاویؒ، شوکانیؒ وغیرہ (رحمہ الله علیھم اجمعین) نے اس اصول کا تعین کیا ہے کہ عملی طریقوں کا انحصار (دارومدار) تعاملِ امت (اتفاق-و-اجماع سے امت کے جاری عمل پر) ہے. جب امت کا عمل کسی حدیث پر جاری ہو، اگرچہ وہ ضعیف ہو، تو اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں. یعنی جس ضعیف حدیث پر بھی تعاملِ امت (اتفاق واجماع سے امت کا جاری عمل) ہو، تو اس حدیث کو مانا جائیگا، اگرچہ ضعیف ہو.
[المعجم الصغیر للطبراني: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية، ٢/١٧٧-١٩٩]



ان کی روایات کو بہت سے محدثین نے نقل فرماکر سکوت اختیارکیا ہے۔ اور اس کی متن کی تائید میں دوسری روایات اور عملِ صحابہ بھی موجود ہیں، اس لیے اس کو ضعیف کہنا صحیح نہ ہوگا۔



*************************************

(4) حَدِيثُ: «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صَلَّى بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً لَيْلَتَيْنِ، فَلَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ مِنْ الْغَدِ: خَشِيت أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ فَلَا تُطِيقُوهَا» . مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ
ترجمہ:
آپ  نے صحابہ کو بیس رکعات تراوىح دو راتیں پڑھائیں پس جب تیسری رات ہوئی تو صحابہ کرام جمع ہوگئے آپ باہر تشریف نہیں لائىں پھر آپ  نے دوسرے دن فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے پس تم اس کی طاقت نہ رکھو۔ اس کی صحت پر اتفاق ہے۔
[فتح العزيز بشرح الوجيز = الشرح الكبير للرافعي؛4/ 264، العزيز شرح الوجيز؛2/ 133]
[الحاوي للفتاوي-السيوطي؛1/ 415]



تنبیہ:
اگر تلخیص الحبیر کی سند امام رافعیؒ نے ذکر نہیں کی ہے، تو احادیث کی کتب (بخاری) میں کئی بےسند احادیث ((تعلیقات)) کے نام سے موجود ہیں۔ اور ہم جمہور ائمہ کرامؒ کی گواہیوں پر اعتماد رکھتے ہیں۔


*************************************
بیس (20) رکعت تراویح خلیفہ دوئم حضرت عمربن خطابؓ کے دور میں

عہدِ صحابہ میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، چناں چہ ''موطا امام مالک'' میں ہے کہ  عبد الرحمن بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بنٹے ہوئے ہیں، کچھ  اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو حضرت ابی بن کعب پر جمع فرمایا ، جب اگلی رات مسجد کی جانب نکلے تو لوگ اپنے قاری یعنی حضرت ابی بن کعب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔

نیز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت تراویح  ادا فرمانا ثابت ہے،  نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز  تراویح  کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن صحابہ کے شوق اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو!  اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ)  جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر  بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے:


(١) عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : " كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً ، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ " .
ترجمہ :
حضرت سائب بن یزیدؓ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیس رکعات (نماز تروایح ) پابندی سے پڑھتے اور قرآن مجید کی دو سو آیات پڑھتے تھے۔
[مسند علی بن جعد » مِنْ أَخْبَارِ زُهَيْرٍ، رقم الحديث: 2825(2926)]
[تاريخ المدينة لابن شبة:2/ 716، الصيام للفريابي:176، السنن الكبرى - البيهقي4617]



*************************************


(٢) وَفِي (سُنَنِ أَبِي دَاوُدَ:1429) :
يُوْنُسُ بنُ عُبَيْدٍ: عَنِ الحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بنَ الخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بنِ كَعْبٍ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِم عِشْرِيْنَ رَكْعَةً۔

ترجمہ:
حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے رمضان شریف میں نماز تروایح پڑھنے کے لیے حضرت ابی بن کعبؓ کی امامت پر لوگوں کو جمع کیا تو حضرت ابی بن کعبؓ ان کو بیس رکعات (نماز تراویح) پڑھاتے تھے۔
[الحاوي الكبير-الماوردي(م450هـ)» ج2/ ص292، مختصر خلافيات البيهقي-ابن فرح(م699هـ)» ج2/ ص277، سير أعلام النبلاء-الذهبي(م450هـ) - ط الرسالة» ج1ص400، جامع المسانید والسنن-للحافظ ابن کثیر»حديث31، ج1ص86]


*************************************

عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: "أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌أَمَرَ ‌أُبَيَّ ‌بْنَ ‌كَعْبٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ. فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ يصومون النهار ولا يحسنون أن يقرءوا، فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ. فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَذَا شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ. فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ. فَصَلَّى بِهِمْ ‌عِشْرِينَ ‌رَكْعَةً"۔
ترجمہ:
حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز(تراویح) پڑھاؤں! حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور (رات) قرأت (قرآن) اچھی نہیں کرتے۔ تو قرآن مجید کی رات کو تلاوت کرے تو اچھا ہے۔‘‘ حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا: ’’اے امیر المومنین! یہ تلاوت کا طریقہ پہلے نہیں تھا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’میں جانتا ہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے۔‘‘ تو حضرت ابی بن کعبؓ نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی۔
[إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة » ج2ص424، الأحاديث المختارة-ضياء الدين المقدسي » 3/ 367  حدیث#1161، وقال محققه عبدالملك الدهيشي إسناده حسن]





*************************************

(٤) عَنْ مَالِك ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، أَنَّهُ قَالَ : " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً " .
ترجمہ:
امام مالکؒ نے یزید بن رومانؒ سے روایت کیا ہے کہ: لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان میں تئیس ( ۲۳) رکعتیں (بیس تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے.


رمضان المبارک میں تین دن تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تراویح پڑھانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، اور بعض روایات سے بیس رکعات تراویح کی نسبت بھی خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک لوگوں کو تراویح پڑھائی پھر لوگوں کے شدت ذوق وشوق کو دیکھ کر اس اندیشہ سے پڑھنا ترک فرمادیا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے کہ لوگوں کو مشقت ہوگی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت میں داخلی اور خارجی فتنوں کی کثرت اورمدت خلافت کی قلت کی بنا پر اس سنت عظیمہ کے قیام کا موقع نہ مل سکا، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس سنت کو جو عارض کی بنا پر موقوف تھی لیکن اب وہ عارض چونکہ باقی نہیں رہا تھا اس لیے جاری فرمادیا۔ ملا علی قاری علامہ طیبی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں:
وإن کانت لم تکن في عہد أبي بکر رضي اللہ عنہ فقد صلاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وإنما قطعہا أشفاقًا من أن تفرض علی أمتہ و کان عمر ممن تنبہ علیھا وسنہا علی الدوام فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا إلی یوم القیامة
”اگرچہ تراویح باجماعت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نہیں تھی لیکن چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں تھے جو اس حقیقت سے باخبر تھے، انھوں نے دائمی طور پر جاری فرمادیا تو انھیں اس کا بھی اجر ہے اور قیامت تک جو لوگ عمل کرتے رہیں گے ان کا بھی اجر ہے۔
(مرقات)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں تراویح بیس رکعت کے ساتھ باجماعت جاری فرمایا، موطا امام مالک میں ہے: کان الناس یقومون في زمان عمر بن الخطاب -رضي اللہ عنہ- في رمضان بثلاث وعشرین رکعة کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں ۲۳/ رکعتیں پڑھتے تھے (بیس تراویح کی اور تین رکعات وتر کی) اور یہ بات بھی محقق ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے اور ان کی وفات کے بعد تک تمام صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس پر عمل رہا، ان کا اختلاف نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یقیناً ان حضرات کی نگاہوں میں اس کے مآخذ اور دلائل رہے ہوں گے کیونکہ صحابہ کرام کسی منکر اور بدعت بات پر جمع ہونے والے نہیں تھے، بلکہ وہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال دیکھ کر اس کی نقل کرنے والے تھے، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں:
أما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان یتوضأ فیری الصحابة وضوء ہ فیأخذون بہ من غیر أن یبین أن ہذا رکن وذلک أدب وکان یصلي فیرون صلاتہ فیصلون کما رأوہ یصلي وحج فرمق الناس حجہ ففعلوا کما فعلوہ
رہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد مبارک تو آپ وضو فرماتے تھے اور صحابہ آپ کے وضو کو دیکھ کر اس پر عمل کرتے تھے، بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کے کہ یہ رکن ہے، وہ مستحب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے پس صحابہٴ کرام جس طرح آپ کو نماز پڑھتا ہوا دیکھتے تھے خود بھی نماز پڑھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، پس لوگوں نے بھی دیکھ کر ویسے ہی افعال حج ادا کیے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیے۔
(حجة اللہ البالغہ)
مدینہ کے حضرات چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کو دیکھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے تھے اسی بنیاد پر امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک تعامل اہل مدینہ بھی دلیل شرعی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے اب تک شرقاً غرباً بشمول حرمین شریفین کے امت کا اس پر عمل ہے، اب مزید دلائل کی تلاش لغو اور ضائع کام میں اپنے آپ کو مصروف کرنے کے مرادف ہے۔


*************************************

بیس (20) رکعت تراویح اور فقہِ مالکی
قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی ۵۹۵ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں:
“واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث۔”
ترجمہ:
”رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد اور داوٴد نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے، اور ابنِ قاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے۔”







مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی ۱۲۰۱ھ) لکھتے ہیں:

وهي ( ثلاث وعشرون ) ركعة بالشفع والوتر كما كان عليه العمل ( ثم جعلت ) في زمن عمر بن عبد العزيز ستا وثلاثين ) بغير الشفع والوتر لكن الذي جرى عليه العمل سلفا وخلفا الأول 
ترجمہ:
”اور تراویح، وتر سمیت 23 رکعتیں ہیں، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین کا) عمل تھا، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر)۔”



قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ الْبَیْہَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْعَبْدِاللّٰہِ الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ فَنْجَوَیْہِ الدِّیْنَوْرِیُ بِالدَّامَغَانِ ثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ السَنِیُّ اَنْبَأَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِالْبَغْوِیُّ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِاَنْبَأَ اِبْنُ اَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ یَّزِیْدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ کَانُوْا یَقُوْمُوْنَ عَلٰی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاِنْ کَانُوْا لَیَقْرَؤُوْنَ بِالْمِئَیْنِ وَکَانُوْا یَتَوَکَّئُوْنَ عَلٰی عَصِیِّھِمْ فِیْ عَہْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مِنْ شِدَّۃِ الْقِیَامِ۔
ترجمہ:
حضرت سائب بن یزیدؓ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمرؓ کے دور میں رمضان شریف میں بیس رکعات (نماز تراویح) پابندی سے پڑھتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی دو سو آیات تلاوت کرتے تھے اور حضرت عثمان بن عفانؓ کے دور میں لوگ قیام کے (لمبا ہونے کی وجہ سے ) اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔


















علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروقؓ نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعبؓ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ ان خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بابت نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروقؓ کا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔
[فتاوی ابن تیمیہ: ج ۲ ص ۴۰۱، ج ۲۲ ص ۴۳۴]


*************************************


بیس (20) رکعت تراویح خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیؓ کے دور میں

لفظ ’’تراویح‘‘ کا ثبوت:
١) رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ الْہَاشْمِیُّ فِیْ مُسْنَدِہٖ کَمَا حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ۔
[مسند الامام زید بن علی: ص158]
ترجمہ:
حضرت علی المرتضیؓ نے اس شخص کو حکم دیا جو لوگوں کو رمضان شریف کے مہینہ میں نماز (تراویح) پڑھاتے تھے کہ وہ ان کو بیس رکعات نماز (تراویح) پڑھائیں! ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرے اور ہر چار رکعتوں کے درمیان آرام کے لیے کچھ دیر وقفہ کرے.
































٢) عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ " أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ، بِالنَّاسِ ‌خَمْسَ ‌تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔
ترجمہ :
حضرت ابو الحسناؒ سے مروی ہے کہ حضرت علی ؓ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات (تراویح) پڑھایا کرے۔
[الشريعة للآجري:1240، الإبانة الكبرى - ابن بطة:82، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص393]



٣) عن ابی الخصیب قال: کان یومنا سوید بن غفلة فی رمضان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعة
ترجمہ :
”ابوالخصیبؒ کہتے ہیں کہ: سوید بن غفلہ ہمیں رمضان میں نماز پڑھاتے تھے، پس پانچ ترویحے بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔”
[السنن الکبریٰ للبیھقی: کتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، رقم الحديث: 4619(4290)]
صحيح الكتب التسعة وزوائده:2737



أَبُو الخضيب قَالَ يحيى بْن مُوسَى قَالَ نا جَعْفَر بْن عون سَمِعَ أبا الخضيب الجعفِي كَانَ سويد بْن غفلة يؤمنا فِي رمضان ‌عشرين ‌ركعة

ترجمہ:
ابوالخصیبؒ کہتے ہیں کہ: سوید بن غفلہ ہمیں رمضان میں بیس رکعت نماز پڑھاتے تھے۔
[التاريخ الكبير للبخاري - ت المعلمي اليماني:234]



---------------------------------------


(٤) قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ رَبِیْعَۃَ کَانَ یُصَلِّیْ بِھِمْ فِیْ رَمْضَانَ خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ وَّیُوْتِرُ بِثَلَاثٍ۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص285)
ترجمہ:
حضرت علی بن ربیعہ رحمہ اللہ رمضان شریف میں لوگوں کو پانچ ترویحے (بیس رکعات نماز تراویح) اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَااِبْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ عَنْ عَطَآئٍ قَالَ اَدْرَکْتُ النَّاسَ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ ثَلَاثاً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃًبِالْوِتْرِ۔
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت عطاءؒ فرماتے ہیں کہ میں نے (صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ جیسے) لوگوں کو بیس (20) رکعات تراویح اور تین  (3) رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔
------------------------------

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ اَنَّہٗ کَانَ یَؤُمُّ النَّاسَ فِیْ رَمْضَانَ بِاللَّیْلِ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ بِثَلَاثٍ وَیَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوْعِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285)
ترجمہ:
حضرت حارث لوگوں کو رمضان شریف میں بیس رکعات نماز (تراویح) اور تین وتر باجماعت پڑھاتے تھے اور (دعائے) قنوت (جو کہ وتر میں پڑھی جاتی ہے ) رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔


بیس (20) رکعت تراویح اور مفتی سعودی عرب:
سعودیہ کے مشہور عالم علامہ ابن بازؒ کہتے ہیں کہ ''بیس (20) رکعت تراویح حضرت عمرؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عمل ہے، نہ یہ ناقص ہے بلکہ یہ سنت میں سے ہے اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کی سنت ہے''۔
[مجموعہ فتاوی و مقاولات علامہ ابن باز: جلد 11 صفحہ 325]

یہ فتوی سعودی عرب کے بہت بڑے سلفی الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ رحمه الله تعالى کا فتویٰ آپ نے ملاحظہ کیا ، شیخ سے تراویح کی تعداد کے بارے سوال ہوا تو شیخ نے جواب دیا

ذهب أكثر أهل العلم كالإمام أحمد والشافعي وأبي حنيفة إلى أن صلاة التراويح عشرون ركعة ؛ لأن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبي بن كعب كان يصلي بهم عشرين ركعة ، وكان هذا بمحضر من الصحابة ، فيكون كالإجماع ، وعلى هذا عمل الناس اليوم الآن۔
ترجمہ 
أكثر أهل العلم جیسے امام احمدؒ، امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہؒ کا مذهب یہ ہے کہ تراویح کی تعداد بیس رکعات ہیں، کیونکہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے جب لوگوں کو حضرب أبيّ بن کعب رضی الله عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وه لوگوں کو تمام صحابہ کی موجودگی میں بیس رکعت تراویح پڑهاتے تهے ، لہذا ان کا یہ عمل اجماع کی طرح ہے ، اورآج تک لوگوں کا اسی پرعمل ہے۔ الخ 

==============================

مفتي المملكة العربية السعودية رحمه الله

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
من محمد بن إبراهيم إلى الأخ المكرم \ ع . ج . سلمه الله تعالى ، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، وبعد : فقد وصلنا كتابك الذي تسأل فيه بما نصه :
وبعد:

فأفتونا جزاكم الله عنا أحسن الجزاء ، عن صلاة التراويح : كم عدد ركعاتها ؛ لأن المتبع لدينا كنا نصليها عشرين ركعة ، ولكن المرشدين اليمنيين ، من قبل فضيلة الشيخ عبد الملك بن إبراهيم آل الشيخ ، للقيام بالوعظ والإرشاد بهذه الجهة قرروا أن صلاة التراويح هي من الوتر إحدى عشرة ركعة فقط ، مستندين في ذلك بما جاء في الحديث المروي عن عائشة ء رضي الله عنها . حيث قالت : ’’ ما كان الرسول ء صلى الله عليه وسلم ء يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة ‘‘ .(..1.). إلخ .

وحيث قد أشكل علينا الأمر ، ونظرا لقرب شهر رمضان ، المبارك فإنا نلتمس من سماحتكم إرشادنا إلى إيضاح عدد ركعات هذه الصلاة ، وتعميم الفتوى الصادرة من سماحتكم في هذا القبيل لكافة الهيئات الدينية ، مع التكرم بإعطائنا نسخة بهذه الفتوى لنكون جميعا على حقيقة من الأمر .

الجواب :
الحمد لله . ذهب أكثر أهل العلم كالإمام أحمد والشافعي وأبي حنيفة إلى أن صلاة التراويح عشرون ركعة ؛ لأن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبي بن كعب كان يصلي بهم عشرين ركعة ، وكان هذا بمحضر من الصحابة ، فيكون كالإجماع ، وعلى هذا عمل الناس اليوم الآن . فلا ينبغي الإنكار عليهم ، بل يتركون على ما هم عليه ؛ لأنه قد ينشأ من الإنكار عليهم وقوع الاختلاف والنزاع وتشكيك العوام في سلفهم ، ولا سيما في هذه المسألة ، التي هي من التطوع ، والأمر فيها واسع ، وزيادة التطوع أمر مرغوب فيه ، ولا سيما في رمضان ، لحديث : ’’ أن رجلا قال يا رسول الله أسألك مرافقتك في الجنة ؟ قال : فأعني على نفسك بكثرة السجود ‘‘ .(.2.). وإذا كان من عادة أهل بلد فعل صلاة التراويح على وجه آخر ، مما له أصل شرعي ، فلا وجه للإنكار عليهم أيضا . والمقصود من ذلك كله هوالبعد عن أسباب الشقاق والنزاع في أمر فيه سعة .

وقد لاحظ الرسول ء صلى الله عليه وسلم ء هذا ، وترك أمرا عظيما ، مخافة ما يقع في قلوب الناس ، كما جاء في حديث عائشة : ’’ لولا حدثان قومك بالكفر ‘‘ .(.3.). الحديث ، وترجم البخاري في هذا المعنى فقال : ’ باب من ترك بعض الاختيار ، مخافة أن يقصر فهم بعض الناس عنه فيقعوا في أشد منه‘ وساق حديث عائشة : ’’ لولا حدثان قومك بالإسلام لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين ‘‘ .(.3.).الحديث . وقال علي : ’’ حدثوا الناس بما يعرفون ، أتحبون أن يكذب الله ورسوله ‘‘ . وفي رواية : ’’ ودعوا ما ينكرون ‘‘ . وقال ابن مسعود رضي الله عنه .(.الخلاف شر .). وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين . 

.(.1.). صحيح البخاري الجمعة .(.1096.).،سنن الترمذي الصلاة .(.439.).،سنن النسائي قيام الليل وتطوع النهار .(.1697.).،سنن أبو داود الصلاة .(.1341.).،مسند أحمد بن حنبل. (.6/73.).،موطأ مالك النداء للصلاة. (..265).۔
.(.2.).صحيح مسلم الصلاة .(.489.).،سنن النسائي التطبيق .(.1138.).،سنن أبو داود الصلاة. (.1320.).

.(.3.).صحيح البخاري الحج .(.1509.). ،صحيح مسلم الحج .(.1333.).


خصوصی توجہ:
          سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لکھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم  لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ  کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟

کتاب مفت ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے:
http://islamicbookscity.com/masjid-i-nabwi-main-taraweeh-ahd-ba-ahd/?fbclid=IwAR325doHgWS3iDg4F1ZajmnrXevSNgEhc-6KEGG_Iq2-2WwQRRrKj1HeMcw

==========================================




بیس (20) رکعات تراویح اہل سنت والجماعت کی علامت ہے:

تراویح ترویحة کی جمع ہے۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (20) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه، وجمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔





فقہِ شافعی اور بیس (20) رکعت تراویح

وقد قال الشافعي رحمه الله في كتابه الأم:ج1ص142 ما نصه؛
"ورأيتهم بالمدينة يقومون بتسع وثلاثين، وأحب إلى عشرين لأنّه روي عن عمر، وكذلك يقومون بمكة، ويوترون بثلاث".


ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعیؒ فرماتے ہیں کہ : میں نے مدینہ والوں کو دیکھا کہ وہ (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) انتالیس (٣٩) رکعت پڑھتے ہیں اور مجھے بیس (20) رکعت (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) پسند ہے بیشک وہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے. اور اسی طرح مکّہ والے بھی قیام کرتے، اور وتر پڑھتے تین (رکعت).
[كتاب الأم للإمام الشافعي : كتاب الصلوة ، باب في الوتر ، صفحه # ١٠٥]


------------------------------------

امام محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں:

“(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداود وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بن یزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر۔” (مجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲)

ترجمہ:…”رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس (20) رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام احمد اور امام داوٴد وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور قاضی عیاض نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں۔”

----------------------------------

امام غزالی (450 - 505 ھ) تراویح کی نماز ٢٠ رکعت سنّت موکدہ فرماتے ہیں. [احیاء العلوم : ١/٣٦٨]؛

----------------------------

(۱) حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یا امیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے (یعنی باجماعت تراویح) حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، تو انھوں نے (حضرت ابی بن کعبؓ نے) بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی۔
[الاحادیث المختارہ، للضیاء المقدسی: 1161، اسنادہ حسن]






















--------------------------------
(۲) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (20) رکعات تراویح پڑھتے تھے اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اورامیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفانؓ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے۔
(الصیام للفریابی مخرج ۱۷۶، وسنن بیہقی۴۸۰۱، اس حدیث کے صحیح ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے)

(۳) علامہ ابن حجر عسقلانیؒ، امام مالکؒ کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور امام مالکؒ نے یزید بن خصیفہؒ کے طریق سے حضرت سائب بن یزیدؓ سے بیس (20) رکعات نقل کی ہے۔ (فتح الباری)




(۴) علامہ ابن حجر عسقلانیؒ "تلخیص الحبیر" میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان المبارک کی ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی، دوسری رات بھی صحابہ جب جمع ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو بیس رکعات تراویح پڑھائی اور جب تیسری رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد مسجد میں جمع ہوئی تو آپ صلى الله عليه وسلم تشریف نہیں لائے پھر صبح میں ارشاد فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم کرنہ سکو۔

بیس (20) رکعات تراویح پر صحابہ اور علماء امت کا اجماع ہے:

(۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں لوگوں کو تراویح باجماعت پڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد تراویح کی پہلی عام جماعت تھی۔
(صحیح ابن حبان:2543)


(۲) حضرت یزید بن رومان رحمة الله عليه (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں صحابہ تیئس (۲۳) رکعات  پڑھا کرتے تھے۔
(موطا امام مالک ۲۵۲، اسنادہ مرسل قوی، آثار السنن ۶/۵۵)

(۳) امام شافعی رحمة الله عليه (تبع تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکّہ مکرمہ میں بیس (20) ہی رکعات تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔ (الاُم وسنن ترمذی)



(۴) امام ترمذی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (20) رکعات ہے۔ (سنن ترمذی)

(۵) علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی۔ تو یہ صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)

(۶) علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله عليه (متوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله عليه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات تراویح سنت ہے۔
(بدایة المجتہد ج:۱ ص:۱۵۶، مکتبہ علمیہ لاہور)

(۷) علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (20) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا۔ (المغني لابن قدامة)




(۸) علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (20) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (۴) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (20) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)

بیس (20) رکعت تراویح پر اجماع 
علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: 
تو نماز تراویح سنّت ہے اجماع علماء سے ، اور ہمارا (شافعی) مذھب (بھی) یہ ہے کہ وہ بیس (20) رکعت ہے دس (10) سلام سے اور جائز ہے انفرادی طور پر اور جماعت سے بھی. اور ان دونوں میں افضل کیا ہے؟ ... (صحیح قول کے مطابق) ساتھیوں کے اتفاق سے جماعت افضل ہے.[المجموع شرح مہذب : ٣/٥٢٦]












امام ابن تیمیہؒ (حنبلی) اور مسئلہ تراویح


جب رافضیوں (شیعہ) نے حضرت عمرؓ پر الزام لگایا کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی جماعت قائم کر کی بدعت کا ارتکاب کا ہے، تو امام ابن تیمیہؒ نے حضرت عمرؓ کے دفاع میں یہ جواب دیا کہ:


ترجمہ:
اگر حضرت عمر کا بیس رکعت تراویح کو قائم کرنا قبیح اور منھی عنہ (جس سے روکا جانا چاہیے) ہوتا تو حضرت علی اس کو ختم کردیتے جب وہ کوفہ میں امیر المومنین تھے. بس جب ان کے دور میں بھی حضرت عمر کا یہ طریقہ جاری رہا تو "یہ اس عمل کے اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے" بلکہ حضرت علی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت عمر کی قبر کو روشن کرے جس طرح انہوں نے ہمارے لئے ہماری مسجد کو روشن کردیا.
[المنتقى من منهاج الاعتدال، للذهبي (المتوفى: 748هـ): ص542؛ المنهاج في شعب الإيمان، للحليمي (المتوفى: 403هـ):2/386؛ التمهيد،امام ابن عبد البر(المتوفى: 463هـ) :8/119؛ الإبانة الكبرى لابن بطة (المتوفى: 387هـ) : حديث#80؛ جامع الأحاديث، للسيوطي:31439، كنزالعمال:35799، المغني لابن قدامة:2/124؛ اسد الغابہ:٤/١٨٣،1241؛ غنیۃ الطالبین:۴۸۷۔ موطا محمد،باب قیام شھر رمضان:۱/۳۵۵شاملہ]
ابو عبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان میں قاریوں کو بلاکر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس (20) رکعت پرھاۓ (اور) وہ کہتے ہیں سیدنا علی انھیں وتر پڑھایا کرتے تھے.(السنن الکبریٰ البیہقی: ٢/٤٩٦)
[مہاج السنّہ : 
٢/٢٢٤، اردو ترجمہ پروفیسر غلام علی الحریری]














ترجمہ:
تحقیق کہ بلا شبہ حضرت ابی بن کعبؓ نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو بیس (20) رکعت تراویح اور تین (3) رکعت وتر پڑھائیں، اسی وجہ سے جمہور امت کا مسلک یہی ہے کہ یہ "سنّت" ہے، اس لئے کہ یہ فعل مہاجرین و انصار کے سامنے کیا گیا اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی.
(مجموع فتاویٰ ابن_تیمیہ: ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان، الطبعة الأولى من مطابع الرياض)

======================================
بیس (20) ركات تراويح پر اجماع صحابہ اہل حدیث کے گھر کی گواہی (فتاویٰ نذیریہ : 1/634]


مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی  نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے دور میں جو طریقہ بیس رکعات پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ (عون الباری ج4 ص 317)


(۱۰) استاذ الاساتذہ مجاہد آزادی شیخ محمود حسن قاسمی دیوبندی رحمة الله عليه فرزند اوّل و سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (20) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے۔ جب انھوں نے بیس (20) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (20) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (۸) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے۔

(مزید تفصیل و دلائل کے لئے راقم کی کتاب ”تراویح سنت کے مطابق پڑھئے“ کا مطالعہ کریں۔ ملنے کا پتہ مکتبہ شفیع، رضیة الابرار، سلمان آباد،
بھٹکل۵۸۱۳۲۰)

وقال العلامة محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله ، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة فى التراويح وعليه جمهور الصحابة الخ
أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين‘‘ فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة... واستقر الأمر على عشرين ركعة. اھ۔

: ترجمہ : امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفيؒ فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہؒ میں سے کوئی بهی بیس (20) رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے الخ
اورایک دوسرے مقام پر امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفيؒ نے فرمایا کہ حضرت فاروق الأعظمؓ کا یہ فعل سنت ہے اور اسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل برقرار رہا ہے۔ الخ

=========================================



معترضین کے دلائل کی حیثیت
آٹھ رکعت تراویح سنّت نبوی نہیں:
آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو آٹھ (8) رکعت تراویح کے لئے پیش کرتے ہیں:
١) عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ".
[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883 ؛  صحيح مسلم » رقم الحديث: ١٢٢٥]

ترجمہ :
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے؟۔ حضرت عائشہؓ نے کہا آپ ﷺ رمضان اور غیر (رمضان) میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے، تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا: "میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے"۔

یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے کہ (١) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان ((اور غیر رمضان)) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین۔[بخاري : 1883 ؛ مسلم : 1225] اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔ (۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ  سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) [صحيح ابن خزيمة : 2070] نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے؛ لہٰذااس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ (۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں ((جماعت)) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (20) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟ (٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سوگئے تھے؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (٦) اس حدیث میں ((فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ)) کے الفاظ یعنی رمضان اور غیر (رمضان) میں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نماز تہجد ہے، چونکہ یہ آپ رمضان میں بھی پڑھتے تھے، اسی لئے اس حدیث کو امام بخاری رح ((كتاب التهجد)) میں بھی لائیں ہیں اور ((كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ)) میں بھی لائیں ہیں، کیونکہ آپ بھی ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے جو آپ کے عمل سے بھی واضح ہوتا ہے. 

امام بخاریؒ بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھتے:

چناچہ امام ابن حجر العسقلاني (773 هـ - 852 هـ) رح [هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥] میں لکھتے ہیں، اور جسے غیرمقلد (اہل حدیث) علامہ وحید الزمان بھی اپنی کتاب [تیسیر الباری شرح بخاری: ١/٤٩] نقل کرتے ہیں کہ :
"امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل"بخاری"جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نماز تراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (20) آیات یہاں تک کے کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نماز_تہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتے اور تین راتوں میں قرآن ختم کرتےاور دن کو ایک قرآن ختم کرتے اور وہ افطار کے وقت ختم ہوتا تھا."



























ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کے لئے بخاری کو چھوڑ کر ((مسلم)) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے.
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لئے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ  پڑھتے تھے، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں. صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا؟؟؟

اسی لیے امام قرطبیؒ (المتوفى:463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں :
قال القرطبي أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد .
ترجمہ :
"مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتی کہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا)".

جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے؛
------------------------

   تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین اورفقہاء کی رائے ہے کہ تراویح ۲۰رکعت پڑھنی چاہئیں۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں۔ جمہور محدثین،فقہائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں :
          (۱) امام بخاری  نے اپنی مشہور کتاب (بخاری) میں نمازِ تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں؛ جبکہ نماز تراویح کو (کتاب صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، جیساکہ جمہور علماء اور ائمہٴ اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتی تو امام بخاری  کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی۔ حضرت عائشہ  والی حدیث کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاری نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔
          (۲) تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔
          (۳) اگر حضرت عائشہ  کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ ۲۰ رکعت تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں ۲۰رکعت تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے) اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق  اور صحابہٴ کرام کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ ۸ رکعت تراویح کی جگہ ۲۰ رکعت تراویح شروع کردیتے۔ صحابہٴ کرام تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ ا کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور نبی اکرم ا کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ کرام میں ہم سے بہت زیادہ تھا؛ بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سے اپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے۔ نیز نبی اکرم ا کا فرمان ہے : ہم خلفاء راشدین کی سنتوں کوبھی مضبوطی سے پکڑلیں۔ (ابن ماجہ)
          (۴) اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے) تو رمضان کے آخری عشرہ میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟
          (۵) اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص ۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲) ۔
حضرت عائشہ  کی روایت (جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ  رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے؛ کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔
(ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲)
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے۔
          امام محمد بن نضر مروزی نے اپنے مشہور کتاب (قیام اللیل ، ص ۹۱ اور ۹۲) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں؛ مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔

          علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (زاد المعاد ص ۸۶) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظ حدیث امام قرطبی  کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔
(عینی شرح بخاری ج۷ ص ۱۸۷)
          علامہ شمس الدین کرمانی (شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ  کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ  کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔
(الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۵۵۔۱۵۶)
          حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی  فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم ا گیارہ رکعت (وتر کے ساتھ) پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔
          حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی  تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔
(مجموعہ فتاوی عزیزی ص ۱۲۵)


تہجد کو محدثین نے کتب حدیث میں ((قیام الیل)) یعنی رات کی نماز، اور تراویح کو ((قیام الیل فی رمضان)) یعنی رمضان میں رات کی نماز، کے الگ الگ ابواب سے ذکر کیا ہے ، اور یہ دونو جدا جدا نمازیں ہیں. چناچہ مشھور غیر-مقلد-اہل_حدیث علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں: "وأما قيام اليل فهو غير قيام رمضان"(نزل الأبرار: ص ٣٠٩)
يعني: قیام الیل، قیام رمضان کے علاوہ ہے

تراویح اور تہجد کا وقت بھی جدا جدا ہے، چناچہ فتاویٰ علماۓ حدیث (٦:٢٥١) میں ہے کہ: تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد"اول" شب کا ہے اور تہجد کا "آخر" شب کا ہے؛
مولانا ثناء الله امرتسری لکھتے ہیں: تہجد کا وقت صبح سے پہلے کا ہے، اول وقت میں تہجد نہیں ہوتی(فتاویٰ ثناءیہ: ١/٤٣١)



 محدثین کی طرح فقہاء کرام بھی تراویح اور تہجد کو علیحدہ علیحدہ نماز سمجھتے اور کتب_حدیث کی طرح کتب_فقہ میں بھی الگ الگ ابواب میں ذکر کرتے ہیں؛




=======================================================
٢) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ سَمَّاهُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِؓ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ کعبؓ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا ، قَالَ : " مَا هُوَ ؟ " ، قَالَ : نِسْوَةٌ مَعِي فِي الدَّارِ قُلْنَ لِي : إِنَّكَ تَقْرَأُ وَلَا نَقْرَأُ ، فَصَلِّ بِنَا ، فَصَلَّيْتُ ثَمَانِيًا وَالْوَتْرَ ، قَالَ : فَسَكَتَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَرَأَيْنَا أَنَّ سُكُوتَهُ رِضًا بِمَا كَانَ " .
[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 20626]
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہؓ سے بحوالہ ابی بن کعبؓ مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج رات میں نے ایک کام کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا میرے ساتھ گھر میں جو خواتین تھیں وہ کہنے لگیں کہ آپ قرآن پڑھنا جانتے ہو ہم نہیں جانتیں لہٰذا آپ میں نماز پڑھاؤ چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیئے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی مذکورہ واقعے پر رضا مندی کی دلیل تھی۔

حقیقت:
١) "قیام اللیل" کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، قمي اور عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ضعیف ہیں ؛ اور "مسند احمد" مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ تو نہیں رَجُلٌ سَمَّاهُ ہے یعنی مبہم (نہ معلوم) راوی ہے اور باقی وہی دونوں  قمي اور عِيسَى یھاں بھی ہیں، پس اصولِ حدیث کے اعتبار سے یہ حدیث نہایت ضعیف ہے، اور ہیثمی کا اسے حسن کہنا خلافِ دلیل ہے    
٢) یہ روایت تین کتابوں میں ہے : "مسند احمد" میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں، "ابو یعلیٰ" کی روایت میں ((یعنی رمضان)) کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ فہمِ راوی ہے نہ کہ روایتِ راوی ، "قیام اللیل" میں فی رمضان کا لفظ ہے جو کسی راوی تحتانی کا ادراج ہے، جب اس حدیث میں فی رمضان کا لفظ ہی مُدرج ہے  تو اس کو تراویح سے کیا تعلق رہا.
٣) "ابو یعلیٰ" اور "قیام اللیل" سےظاہر ہے کہ یہ واقعہ خود حضرت ابی بن کعب کا ہے، مگر "مسند احمد" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی اور شخص کا ہے اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ راوی اس واقعہ کو کماحقہ ضبط نہیں کر سکے.(یعنی ضبط راوی میں بھی ضعف ثابت ہوا)؛
٤) پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ رکعت پڑھنے والا (قيام الليل کی روایت میں) کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ اور (مسند احمد کی روایت میں کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا اس سے معلوم ہوا کہ اسی ایک رات اس نے آٹھ پڑھی تھیں پہلے کبھی یہ عادت نہ تھی اسی لیے وہ کہتا ہے کہ یہ انوکھا کام میں نے آج رات ہی کیا ہے ورنہ آٹھ میری عادت نہیں اور نہ میں اسے سنّت سمجھتا ہوں. حضورؐ خاموش رہے ورنہ آٹھ رکعت سنّت ہوتی تو آپؐ  خاموش کیوں رہتے ، فرماتے تم گھبرا کیوں رہے ہو یہ تو سنّت ہے. معلوم ہوا کہ عہدِ نبویؐ میں کوئی شخص بھی آٹھ رکعت تراویح کو سنّت نہیں سمجھتا تھا، آپؐ نے خاموش رہ کر آٹھ کے سنّت نہ ہونے کی تقریر فرمادی جس سے کسی خاص حالت میں نفس جواز (اس کا صرف جائز ہونا) معلوم ہوا وہ بھی بعد میں اجماعِ صحابہؓ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ختم (منسوخ) ہوگیا.

نوٹ: ہم اس آٹھ (8) رکعت والی حدیث جابر سے زیادہ بہتر اور مضبوط سند بیس (20) رکعت تراویح کے ثبوت میں حضرت جابر سے ہی دوسری حدیث نبوی بیان کر چکے ہیں، لہذا جب صحیح سند اس کے خلاف وہ بھی ان ہی صحابی سے مروی حدیث ثابت ہے تو آٹھ (8) رکعت کو سنّت اور بیس (20) رکعت کو بدعت کہنا بلا دلیل ہی نہیں بلکہ خلاف (صحیح) دلیل ہے.

اعتراض:
زبیر علی زئی صاحب غیر مقلد نے علامہ نیموی ؒ پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث جس میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے تراویح کی آٹھ رکعات پڑھی تھیں کے راوی عیسی ٰبن جاریہ پر جرح کی ہے اور اس کی سند کو درجہ وسط سے گری ہوئی قرار دیا ہے (اثارالسنن حدیث نمبر 773ص 391) جب دوسری طرف نمیوی ؒ نے مسند ابی یعلی ج3ص 335 حدیث 1799) کی ایک روایت جس میں خطبہ جمعہ کے دوران کلام کرنے کی ممانعت ہے کے بارے میں لکھا ہے کہ اسے ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے آثارالسنن حدیث 960 عن جابر ) حالانکہ اس کی سند میں بھی عیسی بن جاریہ ہے (محلہ احدیث شمارہ 51 ص 22) 
الجواب :۔۔ علامہ نیموی ؒ کی تحقیق یہی ہے کہ عیسی ٰ بن جاریہ ضعیف ہے جیسا کہ انہوں نے اس کی آٹھ رکعات والی حدیث کے ذیل میں تصریح کی ہے باقی انہوں نے اس کی " مسند ابی یعلی " والی روایت کی سند کو جو صحیح کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ : مسند ابی یعلی " ان کے زیر نظر نہیں تھی کیونکہ یہ ان کی وفات کے بہت عرصہ بعد ابھی چند سال پہلے طبع ہوکر آئی ہے علامہ موصوف نے اس کی مذکورہ حدیث کو غالبا علامہ ہیثمی ؒ کی مجمع الزوائد ج2ص 185 سے نقل کیا ہے اور علامہ ہیثمی ؒ نے چونکہ اپنی اس مذکورہ کتاب میں اس حدیث کو بحولہ " مسندابی یعلی " ذکر کرکے اس کے راویوں کو ثقہ کہا ہے اس لئے علامہ نیموی ؒ نے بھی ان کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے اس حدیث کی سند کو صحیح کہ دیا ہے جیسا کہ زبیر علی زئی کی مزعومہ استاد اور ممدوح مولانا محب اللہ راشدی غیر مقلد نے " المعجم الکبیر للطبرانی ؒ کو دیکھے بغیر اس کی ایک حدیث کو محض علامہ ہیثمی ؒ کی نقل اور توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے قابل استناد قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ہم نے حافظ ہیثمی ؒ کے کہنے پر اعتماد کیا ہے جو مجمع الزوائد میں فرمایا ہے اور معجم کبیر حافظ ہیثمی ؒ کے سامنے یقینا تھی اس لیے ان کی توثیق تو سمجھ میں آتی ہے اگر علامہ نیموی ؒ نے بھی مسند ابی یعلی کو دیکھے بغیر امام ہیثمی ؒ کی توثیق پر اعتماد کرکے اس کی سند کو صحیح کہ دیا ہے تو ان پر تناقص کا اعتراض عائد نہیں ہو سکتا 
ثانیا آٹھ رکعات والی حدیث میں عیسی ٰ بن جاریہ متفرد ہے اور کوئی راوی اس کا متابع نہیں ہے چنا نچہ امام طبرانی ؒ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں " ال یروی عن جابر بن عبداللہ الا بھذا الاسناد (المعجم لصغیر ج1ص 190) یہ حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے صرف اسی (عیسی ٰ بن جاریہ کی) سند سے مروی ہے 
اور پھر عیسی بن جاریہ سے بھی اس حدیث کو روایت کرنے میں اس کا شاگرد یعقوب بن عبداللہ اشعری قمی متفرد ہے اور وہ بھی ضعیف ہے چنانچہ امام بوصیری ؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ارقام فرماتے ہیں 
ومدار اسناد حدیث جابر ھذاعلی یعقوب بن عبداللہ الاشعری وھوضعیف (اتحاف الخیرۃ المہرۃ مع المطالب العالیۃ ج2ص 423)
حضرت جابر سے مروی اس حدیث کا مدار یعقوب بن عبداللہ اشعری پر ہے اور وہ ضعیف ہے 
اب چونکہ اس حدیث کی متابعت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ، لہذا یہ منفرد حدیث ضعیف ہے جبکہ یعقوب قمی اور عیسی بن جاریہ کی مسند ابی یعلی والی روایت ( جس میں خطبہ جمعہ کے دوران کلام کرنے کی ممانعت ہے ) کی تائیہد متعدد صحیح احادیث سے ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے یہ حدیث قوی ہو جاتی ہے چنانچہ امام بوصیری ؒ نےبھی غالبا اس وجہ سے اس حدیث کی سند کو جید قرار دیا ہے (اتحاد الخیرۃ المہرۃ ج2ص 345 حدیث 2190) حالانکہ تراویح والی حدیث کو عیسی بن جاریہ کے شاگردیعقوب القمی کی وجہ سے ضعیف کہتے ہیں جیسا کہ ابھی بحوالہ کزرا ہے 
اب کیا علی زئی اور دوسرے غیر مقلدین امام بوصیری ؒ جن کو وہ ائمہ جرح وتعدیل میں سے قرار دے چکے ہیں اور ان انہوں نے امام موصوف کے ایک قول سے ابن جاریہ اور یعقوب قمی کو ثقہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے (الحدیث شمارہ47 ص 19) پر بھی تناقص کا الزام عائد کرین گے کیونکہ وہ بھی علامہ نیموی ؒ کی طرح عیسی ٰ بن جاریہ کی تراویح سے متعلق منفرد حدیث کو اس کے شاگرد یعقوب قمی کی وجہ سے ضعیف اور اس کی خطبنہ جمعہ میں کلام کرنے کی ممانعت سے متعلق حدیث ( جس کو اس یعقوب قمی نے روایت کیا ہے ) کو شواہد کی شواہد کی وجہ سے قابل حجت قرار دے رہے ہیں دیدہ باید 
علاوہ ازین علامہ نیموی ؒ کا عیسی بن جاریہ کو ضعیف قرار دینے کے باوجود اس کی شواہد والی حدیث کو صحیح کہنا خود علی زئی کے اصول کی روشنی میں بھی درست ہے اس لئے کہ خود علی زئی بھی شواہد کے ساتھ سخت سے سخت ضعیف راویوں کی روایت کو بھی صحیح مانتے ہیں چنانچہ انہوں نے ایک شدید ضعیف روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ 
اس روایت میں دوراوی عصمہ بن محمد اور عبد الرحمن بن قریش سخت مجروح ہیں لیکن اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں آصول حدیث کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جو رویت شواہد کے ساتھ ثابت ہوجائے اسے صحیح ہی تسلیم کیا جاتا ہے ( تسھیل الوصول ص 197) 
لہذا علامہ نیموی ؒ کا اس حدیث کو عیسی بن جاریہ کی وجہ سے ضعیف کہنا اور خطبہ میں ممانعت کلام والی اس کی حدیث کو اس کے شواہد کی وجہ سے صحیح قرار دینا بالکل درست ہے جب غیر مقلدین کا علامہ نیموی ؒ پر تناقص کا الزام خود اپنے طے شدہ اصول کی روشنی میں بھی باطل ہے.

(جاری ہے)

کتب شیعہ سے بیس (20) رکعت تراویح کا ثبوت:
١) حضرت سیدنا علی المرتضىؓ، حضرت سیدنا عثمان غنی ذو النورینؓ کے دور خلافت میں گھر سے نکلے مسجد میں لوگوں کو جمع ہوکر نماز تراویح پڑھتے ہوۓ دیکھ کر ارشاد فرمایا : اے الله! حضرت عمرؓ کی قبر انور کو منور فرما جس نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا.
[شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید: ٣/٩٨]
٢) حضرت سیدنا امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز کو بڑھا دیتے تھے. عشاء کی (فرض) نماز کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوتے، لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے، اس طرح کے کچھ وقفہ کیا جاتا. پھر اس طرح حضور سید عالم ﷺ نماز پڑھاتے.
[فروع کافی : ١/٣٩٤ - طبع نولکشور، ٤/١٥٤ - طبع ایران]
شیعہ کی کتاب "من لایحضر الفقیہ" میں بھی بیس (20) رکعت تراویح کا ذکر ہے [من لایحضر الفقیہ : ٢/٨٨]
٣) حضرت امام جعفر صادقؒ بھی رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز میں اضافہ کردیتے تھے، اور روزانہ معمول کے علاوہ بیس (20) رکعت نماز نوافل (مزید) ادا فرماتے تھے.
[الاستبصار ١/٢٣١-طبع  نولکشور، ١/٤٦٢-طبع ایران]



کیا باجماعت نماز تراویح بدعت ہے؟


بدعات کا جواز ثابت کرنے کے لیے کچھ لوگوں‌ نے مشہور کر رکھا ہے کہ نماز تراویح کی جماعت سب سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے شروع کرائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے زمانے میں اس کا رواج نہ تھا۔ لیکن صحیح اور ثابت شدہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے خود جماعت کے ساتھ نماز تراویح ادا فرمائی ہے۔
اپنے فرمان مبارک سے باجماعت تراویح کی فضیلت بیان کی۔
اور جو صحابہ نماز تراویح باجماعت ادا کرتے تھے ان کی تعریف کی اور اس سے منع نہیں فرمایا۔
یعنی سنت کی تعریف کے مطابق قولی، فعلی اور تقریری ہر لحاظ سے اس کا سنت ہونا شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
اب اللہ کی توفیق سے اس بات کے دلائل اور تفصیل عرض کرتا ہوں۔


نماز تراویح کے فعلی سنت ہونے کی دلیل:
اہل سنت و الجماعت کی معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے۔ مسئلہ:نمازِ تراویح محلہ والوں کے لئے جماعت کے ساتھ سنت کفایہ ہے۔ حوالہ
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ قَالَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَان۔
[صحیح مسلم:کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب الترغیب فی قیام رمضان و ھو التراویح]
"ایمان والوں کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز(تراویح) پڑھی تو کچھ لوگ نے آپ کے اقتداء میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ پھر دوسری شب نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لائے۔ پھر جب صبح ہوئی تو فرمایا “میں نے دیکھا جو تم کر رہے تھے، مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر (نمازِ تراویح) فرض نہ ہو جائے۔ اور یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
صحیح مسلم کی احادیث کے صحیح ہونے پر تمام اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے اس لیے مزید کوئی حوالہ پیش کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن قارئین کی تسلی کے لیے دوسرے محدثین کی فہرست بھی پیش کی جارہی ہے جنہوں نے اس حدیث کو روایت کیا۔
[صحیح البخاری: کتاب صلاۃ، التراویح باب فضل من قام رمضان
سنن ابی داؤد: باب الصلاۃ، کتاب فی قیام شھر رمضان۔
صحیح ابن خزیمہ: جلد سوم ص 338۔ حدیث نمبر 2206
موطا امام مالک: کتاب الندا للصلاۃ، باب الترغیب فی الصلاۃ فی رمضان
مصنف عبدالرزاق: باب الصلاۃ کتاب الضجعۃ بعد الوتر و باب النافلۃ
مسند احمد: میں “باقی مسند الانصار” باقی المسند السابق
صحیح ابن حبان: کتاب الایمان، باب التکلیف
المعجم الاوسط للطبرانی: حدیث نمبر 5439
السنن الکبری للبیہقی: جلد 2 صفحہ 493
سنن النسائی الصغرٰی: کتاب قیام اللیل و تطوع النھار، باب قیام شھر رمضان
مستخرج ابی عوانہ: کتاب مبتدا، کتاب الصیام، باب الترغیب فی قیام اللیل و الصلاۃ فی شھر رمضان و ثوابہ

امام احمد بن حنبلؒ نے باجماعت تراویح کے بارے میں مندرجہ ذیل حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے:
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ أَبُو طَلْحَةَ الْأَنْمَارِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ عَلَى مِنْبَرِ حِمْصَ قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ ثُمَّ قَامَ بِنَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَا نُدْرِكَ الْفَلَاحَ قَالَ وَكُنَّا نَدْعُو السُّحُورَ الْفَلَاحَ۔
[مسند احمد بن حنبل، مسند الکوفیین حدیث نعمان بن بشیر عن النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم]
"نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر بیان کیا کہ “ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ رمضان کی تئیسویں کو رات کے پہلے ایک تہائی حصہ تک قیام کیا۔ پھر پچیسویں کو آدھی رات تک قیام کیا۔ پھر ستائیسویں کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسل) نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم “فلاح” کو نہیں پا سکیں گے اور ہم لوگ سحری کو “فلاح” کہا کرتے تھے”


باجماعت نماز تروایح قولی سنت بھی ہے:
سنن ابی داؤد کی ایک صحیح حدیث دیکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ اس کا سنت ہونا فرمان رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بھی ثابت ہے : 
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتْ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ قَالَ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ قَالَ قُلْتُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ 
[سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی قیام شھر رمضان]
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ کچھ قیام نہ کیا حتٰی کہ (رمضان ختم ہونے میں) سات دن رہ گئے (یعنی تئیسویں رمضان کی رات کو) رسول اللہ ﷺ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز تراویح پڑھی)۔ یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا۔ پھر جب چھٹی رات تھی (یعنی رمضان ختم ہونے میں چھے دن رہ گئے) تو آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ پھر جب پانچویں رات تھی ( پانچ دن باقی رہ گئے )تو ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! کاش ، آپ اس رات ہمیں اور بھی نفل پڑھاتے۔ فرمایا “جب آدمی امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب شمار کیا جاتا ہے۔ پھر چوتھی رات کو قیام نہیں کیا۔ پھر جب تیسری رات تھی (یعنی رمضان کی ستائیسویں) تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر والوں ، ازواج مطہرات اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے فوت ہونے کا ڈر پیدا ہو گیا۔ جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا “فلاح کیا چیز ہے” تو انہوں نے فرمایا “سحری”۔ پھر اس کے بعد کی راتوں میں رسول اللہ ﷺ نے (جماعت کےساتھ) قیام نہیں کیا۔ 
اس حدیث کو امام دارمیؒ نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ دیکھیے: سنن دارمی : کتاب “و من باب الصوم”، باب فی قیام رمضان۔ 



باجماعت نماز تروایح تقریری سنت بھی ہے :
تقریر سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ہو اور اس سے منع نہ فرمایا ہو۔ قول و فعل کی طرح تقریر بھی کسی عمل کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تراویح کی جماعت تو کرائی لیکن اس پر ہمیشگی اختیار نہیں کی اس خوف سے کہ کہیں امت پر فرض نہ کر دی جائے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے طور پر مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں منع نہیں کیا۔ اس بات کی تفصیل امام احمد بن حنبل نے صحیح سند کے ساتھ یوں بیان کی ہے: 

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ شَيْءٌ مِنْ الْقُرْآنِ فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفَرُ الْخَمْسَةُ أَوْ السِّتَّةُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ فَيُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ۔
[مسند احمد بن حنبل مسند باقی الانصار، باقی المسند السابق]
"نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ “رمضان کی راتوں میں لوگ مسجدِ نبوی میں الگ الگ گروہوں کی صورت میں نماز پڑھتے تھے۔ ہوتا یوں تھا کہ کسی آدمی کو قرآن کا کچھ حصہ یاد ہوتا تو پانچ چھے یا اس سے کم و بیش آدمی اس کے ساتھ ہو جاتے اور اس کی اقتدا میں نماز ادا کرتے” 

یہ ایک لمبی حدیث کا ابتدائی حصہ ہے۔


- امید ہے اس گفتگو سے غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی باذن اللہ۔ اور واضح ہو گا کہ صحیح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ کا باجماعت نماز تراویح کو بدعت کہنے کے بارے جو قول ہے اس میں بدعت کا لغوی مطلب مراد ہے نہ کہ شرعی۔ 

بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔

امام شاطبی اپنی کتاب "الاعتصام"‌میں لکھتے ہیں
وتبين ذلك بالنظر في الأمثلة التي مثل لها بصلاة التراويح في رمضان جماعة في المسجد ، فقد قام بها النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد ، واجتمع الناس خلفه .۔ ۔ ۔لكنه عليه السلام لما خاف افتراضه على الأمة; أمسك عن ذلك۔ ۔ ۔ ۔۔فتأملوا; ففي هذا الحديث ما يدل على كونها سنة; فإن قيامه أولا بهم دليل على صحة القيام في المسجد جماعة في رمضان ، وامتناعه بعد ذلك من الخروج خشية الافتراض لا يدل على امتناعه مطلقا; لأن زمانه كان زمان وحي وتشريع ، فيمكن أن يوحى إليه إذا عمل به الناس بالإلزام ، فلما زالت علة التشريع بموت رسول الله صلى الله عليه وسلم; رجع الأمر إلى أصله ، وقد ثبت الجواز فلا ناسخ له .وإنما لم يقم ذلك أبو بكر رضي الله عنه لأحد أمرين : إما لأنه رأى أن قيام الناس آخر الليل وما هم به عليه كان أفضل عنده من جمعهم على إمام أول الليل ، ذكره الطرطوشي ، وإما لضيق زمانه رضي الله عنه عن النظر في هذه الفروع ، مع شغله بأهل الردة وغير ذلك مما هو آكد من صلاة التراويح .فإن قيل : فقد سماها عمر رضي الله عنه بدعة وحسنها بقوله : نعمت البدعة هذه ، وإذا ثبتت بدعة مستحسنة في الشرع; ثبت مطلق الاستحسان في البدع .۔ ۔ ۔فالجواب : إنما سماها بدعة باعتبار ظاهر الحال; من حيث تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم واتفق أن لم تقع في زمان أبي بكر رضي الله عنه ، لا أنها بدعة في المعنى ، فمن سماها بدعة بهذا الاعتبار; فلا مشاحة في الأسامي ، وعند ذلك فلا يجوز أن يستدل بها على جواز الابتداع بالمعنى المتكلم فيه; لأنه نوع من تحريف الكلم عن مواضعه.
[الاعتصام للامام الشاطبی: الجزء رقم : 14، الصفحة رقم: 194]

****************************************
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے رمضان میں جماعت کے ساتھ لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔ ۔ لیکن جب انہیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہو جائے تو (ایک امام کے پیچھے تراویح کی جماعت کا) یہ سسلسلہ روک دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔خوب سمجھ لو کہ اس حدیث میں (ایک امام کے پیچھے تروایح کی جماعت) کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا رمضان صحابہ کرام کو قیام کروانا مسجد میں جماعت کی دلیل ہے، اور بعد میں فرض ہو جانے کے خوف سے جماعت نہ کرانا مطلق ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔ وہ زمانہ وحی اور تشریع کا زمانہ تھا۔ عین ممکن تھا اگر لوگ باجماعت تراویح پر عمل کرتے رہتے تو وہ فرض ہو جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد جب یہ علت ختم ہو گئی تو اس کا حکم اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا اور اس کا جواز بغیر کسی نسخ کے ثابت ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت (جس میں دو دفعہ رمضان آیا) میں اسے یا تو اس لیے شروع نہیں کیا کہ ان کے نزدیک رات کے آخری حصے کا قیام پہلے حصے میں امام کے پیچھے قیام کرنے سے افضل تھا، یا پھر اس وقت کے حالات کی تنگی اور مرتدین وغیرہ کے ساتھ (جنگوں)جیسی اہم تر مصروفیات نے انہیں اس طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ 

اگر کوئی کہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ( ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز تراویح)کو بدعت سے موسوم فرمایا اور "نعمت البدعۃ ھذہ" کہتے ہوئے اس کی تحسین کی تھی لہٰذا اس سے شرع میں بدعت حسنہ کا جواز ثابت ہوتا ہے(تو اس کی بات غلط ہے)۔ ۔ ۔ ۔اور اسکی بات کا جواب یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نےاسے (شرعی معنوں میں نہیں بلکہ) محض ظاہری حال کی وجہ سے نیا کام کہا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے (فرض ہو جانے کے خوف سے) چھوڑا تھا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر عمل نہیں ہوا تھا (اس لیے اس وقت کے لحاظ سے وہ ایک نیا کام ہی تھا)۔ ۔ ۔ ۔چنانچہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے اس قول سے بدعت نکالنے کے جواز پر استدلال کرے، اگر کوئی شخص ایسا استدلال کرتا ہے تو وہ معنوی تحریف کا مرتکب ہے".



علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہؒ (المتوفی 728 ھ) اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي

’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا  لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘

[ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224]


علامہ ابن تیمیہؒ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : 
ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه (1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل(2)
’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور ﷺ نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ ﷺ کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔
امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ (المتوفی 204ھ) علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(١) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (٢)

’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم : 1 / 266‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :
وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي الله عنه : نعمت البدعة هي. (1) و مراد الشافعي رضي الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل في الشريعة ترجع إليه و هي البدعة في إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعني ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، و إنما هي بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر هذا و أنه قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه البدعة الضلالة، وما أحدث فيه من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا و هذه محدثة غير مذمومة، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتي ترجع إلي السنة أم لا. فمنها کتابة الحديث نهي عنه عمر وطائفة من الصحابة و رخص فيها الأکثرون واستدلوا له بأحاديث من السنة. ومنها کتابة تفسير الحديث والقرآن کرهه قوم من العلماء و رخص فيه کثير منهم. وکذلک اختلافهم في کتابة الرأي في الحلال والحرام و نحوه. و في توسعة الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابة والتابعين. (2)


’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
١) بدعت محمودہ
٢) بدعت مذمومۃ
جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔‘‘
----------------------------------------------------------------------
(١) مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : ٢٥٠
بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340



(٢) بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21



6 comments: