غفلت اس سہو کو کہتے ہیں جو تحفظ اور احتیاط کی کمی کی بناء پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
القرآن:
۔۔۔ اور نہ کہا مان اس کا جس کا دل "غافل" کیا ہم نے اپنی یاد سے، اور وہ پیچھے پڑا ہوا ہے اپنی خوشی کے، اور اس کا کام ہے حد پر نہ رہنا۔
[سورۃ الکھف:28]
اور جو الله کی یاد سے"غافل"ہوتا ہے تو وہ اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پھر وہ اسکے ساتھ رہتا ہے۔
[سورۃ الزخرف:36]
[صحیح الجامع الصغیر:5446، الجامع الصغیر:9577]
[جامع الاحادیث:19551، طبرانی:182(20/93)]
[شعب الإيمان-امام البيهقي (المتوفى: 458هـ) » حدیث نمبر 509-510]
[عمل اليوم والليلة لابن السني(م364ھ): صفحہ#6]
[مسند الشاميين للطبراني(م360ھ) : حدیث446]
[الهداية إلى بلوغ النهاية-امام مكي بن أبي طالب(المتوفى: 437هـ) » تفسیر سورۃ العنکبوت، آیت#45]
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی» سورۃ البقرۃ:152]
القرآن:
(اے پیغمبر) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (26) اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 45]
تفسیر:
(26)یعنی اگر انسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اسے بےحیائی اور ہر برے کام سے روکے گی، اس لئے کہ انسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا، پھر ہر رکعت میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں، لہذا جب اس کے بعد کسی گناہ کا خیال اس کے دل میں آئے تو اگر اس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہیے، جو یقیناً اسے گناہ سے روکے گا، نیز رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبان حال سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہیے یقیناً اسے برائیوں سے روکے گی۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما من ساعة تأتي على ابن آدم لا يذكر اللََّه تعالى فيها إلا كانت عليه حسرة وان دخل الجنة۔
[قوت القلوب:1/187]
(ما من ساعة تأتى على العبد لا يذكر الله فيها الا كانت عليه حسرة يوم القيامة)
[تفسیر روح البیان»سورۃ المومنون،آیت113-114]
ترجمہ:
ابنِ آدم کی جو گھڑی بھی اللہ کے ذکر سے خالی گذر گئی وہ قیامت کے دن حسرت وافسوس کا سبب ہوگی۔
[جامع الصغیر للسیوطی:8045 حسن]
القرآن:
وہ کہیں گے کہ : ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے۔ (ہمیں پوری طرح یاد نہیں) اس لیے جنہوں نے (وقت کی) گنتی کی ہو، ان سے پوچھ لیجیے۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 113]
تفسیر:
آخرت کا عذاب اتنا سخت ہوگا کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری زندگی اور اس میں جو عیش و عشرت کیے تھے وہ ان دوزخیوں کو ایک دن یا اس سے بھی کم معلوم ہوں گے۔
القرآن:
اللہ فرمائے گا : تم تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے۔ کیا خوب ہوتا اگر یہ بات تم نے (اس وقت) سمجھ لی ہوتی۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 114]
تفسیر:
35: یعنی اب تو تم نے خود دیکھا لیا کہ دنیا کا عیش ایک دن کا نہ سہی، مگر آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا سا تھا۔ یہی بات تم سے دنیا میں کہی جاتی تھی تو تم اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ کاش یہ حقیقت تم نے اس وقت سمجھ لی ہوتی تو آج تمہارا یہ حشر نہ ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص سونے کیلئے بستر پر لیٹے اور پھر اللہ کا ذکر نہ کرے تو ذکر اللہ سے غفلت قیامت کے دن اس کیلئے باعثِ افسوس ہوگی۔
[ابوداؤد:5061]
درود شریف کی فضیلت:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: «مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يُصَلَّ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا كَانَتْ عَلَيْهِمْ حَسْرَةٌ وَإِنْ دَخَلُوا الْجَنَّةَ»
[السمن الكبرى للنسائي:10171]
القرآن:
اور ڈر سنا دے اُنکو اُس پچتاوے کے دن کا جب فیصل ہو چکے گا کام، اور وہ غفلت میں ہیں اور وہ یقین نہیں لاتے۔
[سورۃ مریم:39]
کہیں کہنے نہ لگے کوئی نفس: اے افسوس اس بات پر کہ میں (غفلت میں پڑ کر) کوتاہی کرتا رہا اللہ کی طرف سے اور میں تو ہنستا ہی رہا۔
[سورۃ الزمر:56]
نبوی پیشگوئی:
مجھے خوف ہے اپنی امت پر3چیزوں کا:
خواہشات(بدعات)کی گمراہی کا
پیٹ اور شرمگاہ کی شھوتوں کے پیچھے پڑنے کا
اور
معرفت(یعنی اللہ کی پہچان)کے بعد(اللہ اور اس کے احکام سے) "غفلت" کا۔
[جامع الاحادیث:846]
ہر وہ کھیل جو (احکامِ دین پر عمل کرنے سے) غافل کرے، وہ ناجائز ہے۔
[ترمذی:1637]
علاج:-
جس نے حفاظت کی ان فرض نمازوں کی، نہیں وہ لکھا جاۓ گا غافلین میں۔ اور جس نے رات میں سو آیات پڑھیں، نہیں وہ لکھا جاۓ گا غافلین میں۔
[صحیح ابنِ خزیمۃ:1142]
جو شخص دس آیتیں پڑھا کرے رات میں، وہ نہیں لکھا جائے گا غافلین میں۔
[حاکم:2079]
جس نے ہر دن۔۔۔اور۔۔۔ہر رات 70 بار الله سے استغفار کیا، اسے نہیں لکھا جاۓ گا غافلين میں۔
[ابن السني:366]
اگر تم نے دو رکعت(نفل)نماز ضحیٰ(چاشت)پڑھی تو نہیں لکھا جاۓ گا تجھے غافلین میں سے۔۔۔
[بزار:3890،بیھقی:4906]
۔۔۔ یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔۔۔
[سورۃ الرعد:11]
محدود ترین زادِ راہ:
کچھ ایسا ہی معاملہ اس محدود ذخیرہٴ حیات اور آخرت کے عظیم نتائج کا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے”الدنیا مزرعة الآخرہ“ یعنی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس دنیا میں اپنے عمل کے ذریعے انسان جو کچھ بوتا ہے اسے و ہی فصل ( نتیجہ) موت کے بعد ملے گا۔
انسان اس دنیا میں پیدا ہی مرنے کے لیے ہوا ہے۔ پیدائش اور پھر موت ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی، بہت بڑی نشانیاں ہیں کہ یہ ایک مُسلسل سفر ہے۔ اور یہ قانون قدرت ہے کہ انسان جس قسم کا سفر اختیار کرتا ہے ، ویسا ہی نتیجہ منزل پر پہنچنے پر حاصل کرتا ہے۔
لیکن صد افسوس ہے انسان کی عقل پر کہ اس قدر واضح حقیقت کو انسان بھولا ہوا ہے۔ وہ روزانہ سنتا اور دیکھتا ہے جو کبھی پیدا ہوا تھا، وہ مر گیا لیکن وہ اس دھوکے میں رہتا ہے کہ شاید اسے مرنا نہیں ہے بلاشبہ اسے مرنا ہے۔ لیکن اس حقیقت کوتسلیم کرنے کے باوجود انسان نادان کی طرح اپنی زندگی کے محدود ذخیرے کو کھیل کود اور سیر وتفریح میں ضائع کر دیتا ہے کہ جیسے صحرا میں سفر کرنے والا اپنے پاس موجود بوتل کے پانی کو اپنے ہاتھ پیر دھونے میں خرچ کر ڈالے ۔
غور کیجیے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کیا امیر کیا غریب، کیا جاہل کیا پڑھا لکھا… سب ہی اس محدود ذخیرہٴ حیات کو ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چناں چہ یہاں کی کام یابی کو کام یابی اور یہاں کے نقصان کو نقصان سمجھ لیا گیا، حالاں کہ یہاں کی ہر شے عارضی اور نتیجہ کے اعتبار سے بے حیثیت ہے حدیث کا مفہوم ہے۔
عقل مند انسان وہ ہے جو مرنے سے پہلے (اس دنیا ہی میں جیتے ہوئے) مرنے کی تیاری کرے۔ اس عقل ودانش کا تقاضا صرف یہ ہے کہ یہاں ہر لمحے ہر دم وہ کام کیا جائے جو الله کو راضی کرنے والا اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے والا ہو اور ایسا ہر کام صرف اور صرف الله کے حکم اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہی ہو سکتا ہے ۔ زندگی کا پہلا اور آخری تقاضا یہی ہے کہ اس کا ہر لمحہ الله کے حکم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق گزرے۔ یہی دانائی ہے اوریہی کام یابی…!!
القرآن:
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، انہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے۔
[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 58]
القرآن:
یقین رکھو کہ جن لوگوں نے مومن مردوں عورتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے، پھر توبہ نہیں کی ہے، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کو آگ میں جلنے کی سزا دی جائے گی۔
[سورۃ نمبر 85 البروج، آیت نمبر 10]
القرآن:
جو لوگ مجرم تھے، وہ ایمان والوں پر ہنسا کرتے تھے۔ اور جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے تھے۔ اور جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے تھے۔ اور جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاتے تھے، تو دل لگی کرتے ہوئے جاتے تھے۔ حالانکہ ان کو ان مسلمانوں پر نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا۔ آخر ہوگا یہ کہ آج ایمان لانے والے کافروں پر ہنس رہے ہوں گے۔ آرام دہ نشستوں پر بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ کہ کافر لوگوں کو واقعی ان کاموں کا بدلہ مل گیا جو وہ کیا کرتے تھے۔
[سورۃ المطففين، آیت نمبر 29-36]
یعنی غائبانہ و اعلانیہ ہر حالت میں مومنوں کی تحقیر و استہزاء کا مشغلہ رہتا ہے۔ البتہ حاضری میں اشارے چلا کرتے اور غائبی میں واضح برائیاں کرتے ، حالانکہ مسلمانوں کی تحقیر و استہزاء کی بجائے نافرمانوں کو اپنی فکر کرنا چاہئے تھا، انہوں نے ایک تو فرمانبرداروں کے ساتھ استہزاء کیا پھر اپنی اصلاح سے بےفکر رہے۔
مجرم لوگ مومنین کے متعلق یہ ہنسی کیا کرتے تھے کہ ان بیوقوفوں کی یہ کیسی بےوقوفی ہے کہ محسوس و موجود (دنیاوی) لذتوں کو آخرت/جنت کی خیالی لذتوں کی امید پر چھوڑتے ہیں۔
آنکھ مارتے ہیں کہ دیکھو یہ ہی بےعقل اور احمق لوگ ہیں جنہوں نے اپنے کو جنت کے ادھار پر دنیا کے نقد سے محروم کر رکھا ہے۔
اور گھر جاتے جاتے بھی۔۔۔۔خوش طبعی کرتے اور مسلمانوں پر پھبتیاں کستے تھے اور اپنے عیش وآرام پر مفتون و مغرور ہو کر سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہی عقیدے اور خیالات درست ہیں ورنہ یہ نعمتیں ہم کو کیوں ملتیں۔
وہ انہیں گمراہ قرار دیتے۔۔۔۔کہ خواہ مخواہ زھد(یعنی اخلاقیات میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے) اور ریاضت(یعنی عبادات میں مشقت برداشت) کر کے اپنی جانیں کھپاتے اور خیالی لذتوں کو موجودہ لذتوں پر ترجیح دیتے ہیں، اور لا حاصل مشقتوں کا نام کمالاتِ حقیقی رکھا ہے۔ کیا یہ کھلی ہوئی گمراہی نہیں کہ سب گھر بار اور عیش و آرام چھوڑ کر ایک شخص(پیغمبر محمد ﷺ) کے پیچھے ہو لئے اور اپنے آبائی دین کو بھی ترک کر بیٹھے۔
یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں کو ان مسلمانوں پر کچھ نگہبان نہیں بنایا گیا کہ احمق اپنی تباہ کاریوں سے آنکھیں بند کر کے ان کی حرکات کی نگرانی کیا کریں۔ اپنی اصلاح کی فکر نہ ہو اور سیدھی راہ چلنے والوں کو گمراہ اور احمق بنائیں۔
قیامت کے دن مسلمان ان کافروں پر ہنستے ہیں کہ یہ لوگ کیسے کوتاہ اندیش اور احمق تھے جو خسیس اور فانی چیز کو نفیس اور باقی نعمتوں پر ترجیح دی۔ آخر آج دوزخ میں کس طرح عذاب دائم کا مزہ چکھ رہے ہیں۔اپنی خوشحالی اور کافروں کی بدحالی کا نظارہ کر رہے ہیں۔
جو دنیا میں مسلمانوں کی ہنسی اڑاتے تھے، آج ان کا حال قابلِ مضحکہ ہو رہا ہے اور مسلمان ان کی گزشتہ حماقتوں کا خیال کر کے ہنستے ہیں۔
تفسیر ابن عباس»
اور جو مشرک تھے یعنی ابو جہل وغیرہ وہ ایمان والوں یعنی حضرت علی پر ہنسا کرتے تھے، اور جب ایمانداروں کا پیغمبر ﷺ کے پاس آنے کے لیے ان(مخالفین) پر سے گزر ہوتا تھا تو آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے تھے، اور جب یہ کافر اپنے گھروں کو جاتے تھے تو اپنے شرک پر خوشی اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اور صحابہ کرام کو دیکھ کر یہ کافر کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ گمراہ ہیں۔ حالانکہ یہ کافر مسلمانوں پر اور ان کے اعمال پر نگراں نہیں بھیجے گئے، سو آج قیامت کے دن ایمان والے کافروں پر ہنستے ہوں گے، مسہریوں پر بیٹھے کافروں کا حال دیکھ رہے ہوں گے، واقعی کافروں کو آخرت میں ان کے دنیا میں کیے گئے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملا۔
تفسیر-امام-البغوی(م510ھ)»
القرآن:
جو لوگ مجرم تھے ﴿یعنی شرک کرنے والے کفار قریش جیسے: ابوجہل، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل اور ان کے ساتھی مکہ کے متکبرین مال داروں میں سے﴾، وہ ایمان والوں﴿یعنی پیغمبر کے اصحاب جیسے: عمار ، خباب، صہیب اور بلال اور ان کے ساتھی فقراء مومنین﴾ پر ہنسا کرتے تھے۔
اور جب ان ﴿کفار﴾ کے پاس سے ﴿مومنین﴾ گزرتے تھے تو ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں﴿پپوٹوں اور ابرو کے ذریعے﴾ اشارے کرتے تھے۔
اور جب ﴿کفار﴾ ان﴿پیغمبر کے اصحاب﴾ کے پاس سے گزرتے تھے تو ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے تھے۔
اور جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاتے تھے، تو دل لگی کرتے ہوئے جاتے تھے﴿خوش ہوتے ہوئے جس پر وہ ہیں ان کے تذکرہ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے﴾
اور جب ان (پیغمبر محمد ﷺ کے اصحاب) کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں۔﴿کیونکہ وہ محمد ﷺ کے پاس آتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ کسی چیز پر ہیں﴾۔
حالانکہ ان﴿مشرکوں﴾ کو ان مسلمانوں﴿پیغمبر کے اصحاب﴾ پر نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا۔﴿یعنی ان کے اعمال کی نگرانی ان کے سپرد نہیں کی گئی﴾۔
ابو صالح(رح) فرماتے ہیں کہ کفار کے لئے جب وہ جہنم میں ہوں گے تو اس(جہنم) کے دروازے کھولے جائیں گے اور ان کو کہا جائے گا تم نکلو۔ پس جب وہ دروازے کھلے ہوئے دیکھیں گے تو ان کی طرف متوجہ ہوں گے تاکہ وہ نکل جائیں اور مومنین ان کو دیکھ رہے ہوں گے۔ پس جب وہ جہنم کے دروازوں تک پہنچیں گے تو ان کے سامنے بند کردیئے جائیں گے، یہ ان کے ساتھ کئی مرتبہ کیا جائے گا اور مومنین ہنستے ہوں گے۔
حضرت کعب(رح) فرماتے ہیں جنت اور جہنم کے درمیان "روشن دان" ہیں۔ پس جب مومن اپنے دنیا کے دشمن کو دیکھنے کا ارادہ کرے گا تو اس پر اس "روشن دان" سے جھانکے گا جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا: *پھر وہ جھاک کر دیکھے گا تو اسے وہ دوزخ کے بیچوں بیچ نظر آئے گا۔*[سورۃ الصافات:55] پس جب وہ جنت میں اپنے دشمنوں پر جھانکیں گے اور وہ عذاب دیئے جارہے ہوں گے تو وہ ہنسیں گے۔
آخر ہوگا یہ کہ آج﴿آخرت میں﴾ ایمان لانے والے کافروں پر ہنس رہے ہوں گے۔
آرام دہ ﴿موتی اور یاقوت کی﴾ نشستوں پر بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے﴿ان مشرکین کی طرف جہنم میں﴾۔
کہ کافر لوگوں کو واقعی ان کاموں کا بدلہ مل گیا جو وہ کیا کرتے تھے۔﴿یہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، یہ سوال اپنے وعدوں کو یقینی ثابت ہوجانے کی تقریر ہے﴾۔
[تفسیر البغوی»سورۃ المطففين، آیت نمبر 29-36]
تفسیر ماجدی»
یہ سب ذکر اسی دنیا میں ہورہا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اس دنیا میں سامنے اور پیچھے ہر طرح ہر وقت اہلِ ایمان کی تحقیر واستہزاء کا مشغلہ جو لوگ جاری رکھتے تھے۔
(آیت) ’’الذین اجرموا‘‘۔ یعنی منکرین ومکذبین۔
یعنی آیت میں جرم قرآن کی متعدد دوسری آیتوں کی طرح ایمان کے مقابلہ میں ہے۔
حوالہ
المراد من قولہ ان الذین اجرموا اکابر المشرکین (کبیر) ای اشرکوا
﴿تفسیر معالم التنزیل﴾
(آیت) ’’المقربون‘‘۔ یہ جنت کے افضل ترین مرتبہ والے ہیں، جن کا ذکر سورۃ الواقعہ (پ ٢٧) میں آچکا ہے۔ بعض محققین نے مراد یہ لی ہے کہ جنت میں مقربین تو مشاہدۂ ذات کی لذت میں مستغرق رہیں گے۔ اور اصحب الیمین(دائیں ہاتھ والے) یا ابرار(نیک لوگ) مشاہدۂ ذات میں بھی رہیں گے اور مشاہدۂ مخلوقات میں بھی۔
حوالہ
فالمقربون لایشربون الا من التسنیم اے لایشتغلون الا بمطالعۃ وجھہ الکریم واصحاب الیمین یکون شرابھم ممزوجا فتارۃ یکون نظرھم الیہ وتارۃ الی مخلوقاتہ
﴿تفسیر کبیر﴾
(ایسے احمق جو ’’آج‘‘ کی نقد لذتوں کو ’’کل‘‘ کے خیالی وعدوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے ہیں!) اسی زمانہ کے نہیں، آج بیسویں صدی کے بھی ابوجہل، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل مسلمانوں کو ’’رجعت پسند‘‘ اور ’’دقیانوسی‘‘ اور ’’تاریک خیال‘‘ کے خطابات دے دے کر اپنے دل کا بخار نکال رہے ہیں، بعض شاعروں نے اپنی حماقت سے جنت اور اہلِ جنت پر چوٹیں کی ہیں۔ آیت کے مضمون سے انہیں بھی ڈرنا چاہیے۔
(انہیں اہلِ ایمان پر طنز ومضحکہ کا حق ہی کیا تھا) اس میں ان لوگوں کی مزید حماقت کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے انجام کی طرف سے تو غافل ہیں، اور اہل ایمان کی فکر میں خواہ مخواہ پڑگئے ہیں۔
(جہنم میں منکروں اور کافروں کا حالِ زار) یعنی تو آخرت کے دن، جنت سے، مومنیں ان پر ہنسیں گے یہ لوگ کس درجہ احمق تھے کہ اتنی واقع شہادتوں کے باوجود بھی آخرت کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور بدستور دنیا پرستی اور مادیت ہی میں غرق وبداخلاق رہے۔ (یہاں تک کہ مومنین سے کافروں کا مضحکہ وطنز بھی بغیرانتقام نہ رہا)۔
اگر عبادت گذار لوگ زیادہ گمراہ وناکام ہیں تو پھر ھدایت یافتہ-کامیاب کون رہا؟
اگر توحید والے مشرک ہیں تو پھر مشرک کون؟
اگر سنت والے بدعتی ہیں، تو پھر بدعتی کون؟
اگر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنے اور پاک رہنے والا، کوشش نہ کرنے والے جھوٹے سے زیادہ غلط ہے تو پھر صحیح کون؟
No comments:
Post a Comment