غیرمقلد علماء نے اپنی مشہور ویب سائٹ میں تفسیر ابن عباس کو استفادہ کیلئے پیش کرنے کے علاوہ ان کے علماء نے اپنی تفاسیر میں اس سے استدلال بھی کیا ہے۔
چنانچہ اپنی ویب سائٹ پر اس کتاب کا تعارف دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
اس تفسیر کی نسبت کے حوالے سے اسلاف کی مختلف آراء موجود ہیں۔اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش موجود ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ ودیگر کتب حدیث میں موجود ہیں۔اس لئے اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔یہ کتاب اردو میں تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
چند استدلالات:
(1) صاحب تفسیر ابن عباس نے بھی ان آیتوں کو بشارت کی آیتوں سے منقطع کیا ہے اور تقدیر کلام یوں کی ہے فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ قَالَ اَنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مگر اس تقریر میں وہی نقص باقی رہتا ہے کہ قال کے بعد ان مفتوحہ واقع ہوتا ہے مگر ہم تقریر کلام کی اس طرح پر کرتے ہیں۔ فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ قَالَ مُجِیْبًا لَھُمْ بانّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ ۔ “ (جلد ٢ صفحہ ٢٤٢)
[تفسیر ثنائی: سورۃ المائدۃ:87]
(2) مگر سرسید مرحوم ابن عباس کی تفسیر پر اعتراض کرتے ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ سلف سے علماء اور صحابہ کو اس میں اختلاف ہے کہ واقعات معراج بحالت بیداری ہوئے تھے یا خواب میں لیکن اگر قید لفظ ” عین “ کی جو ابن عباس کی حدیث ہے ایسی صاف ہوتی جس سے ” رویت فی الیقظ سمجھی جاتی تو علماء میں اختلاف نہ ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ قید لفظ ” عین سے “ رویت فی الیقظہ کا سمجھنا ایسا صاف نہیں ہے جیسا کہ بعض نے سمجھا ہے۔ “ (ص ١٠٦)
جواب : تعجب ہے سید صاحب کیسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟ فرماتے ہیں۔ اگر ابن عباس کا قول صاف ہوتا تو علماء میں اختلاف کیوں ہوتا حالانکہ اس کے متصل ہی صفحہ ١٠٧ پر لکھتے ہیں۔
اگر ہماری یہ رائے صحیح نہ ہو اور ابن عباس نے عین کا لفظ رویا کے ساتھ اسی مقصد سے بولا ہو کہ رویا سے رؤیت بالعین فی الیقظہ مراد ہے تو وہ بھی منجملہ اس گروہ کے ہوں گے جو معراج فی الیقظہ کے قائل ہوتے ہیں مگر ہم اس گروہ میں ہیں ہو واقعہ معراج کو حالت خواب میں تسلیم کرتے اور ہمارے نزدیک خواب ہی میں ماننا لازم ہے۔ “
اس عبارت کا مضمون صاف ہے کہ باوجود صحیح منقول ہونے تفسیر ابن عباس کے آپ (بقول خود) ان سے مخالفت کے مجاز ہیں تو کیا وہ علماء جو آپ سے پہلے اور ابن عباس کے ہمعصر و ہم مرتبہ تھے ان کا حق نہ تھا کہ ان کی رائے سے مخالفت کرسکیں یعنی اس آیت کو اسراء سے الگ سمجھیں اور اس سمجھنے میں حق بجانب ہوں۔
[تفسیر ثنائی: سورۃ الاسراء:1]
یہ تفسیر ابن عباسؓ سے معتبر سند کے ساتھ طبری نے نقل فرمائی ہے۔
[تفسیر القرآن الکریم (حافظ عبد السلام بھٹوی) : سورۃ الفرقان:70]
[تفسیر القرآن الکریم (حافظ عبد السلام بھٹوی) : سورۃ الفرقان:70]