زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں ۔لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
ان فتنوں میں سے ایک بڑا اور اہم فتنہ غیرمقلدیت کا ہے،جن کا کام امت کے معمول بہا اعتقادات اور اعمال کے مقابلے میں نئے اعتقادات اور اعمال مارکیٹ میں متعارف کروانا ہے۔یہ فرقہ دعوی تو عمل بالحدیث کا کرتاہے لیکن در حقیقت عامل علیٰ حدیث النفس ہے۔انہوں نے اپنا سارا زور فروعی مسائل پر لگایاا اور اس حد تک گئے کہ مستحب ،اولیٰ وغیر اولیٰ کے اختلاف کو خِلاف کا جامہ پہنا تے ہوئے اہل السنۃ والجماعۃ کے اکثر مسائل کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا۔ من جملہ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جرابوں پر مسح کرنا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضوبیان فرماتے ہوئے فرمایا :
یاایھاالذین امنوا۔۔ وارجلکم الی الکعبین
[سورۃ المائدہ :آیت6]
قرآن مجید کی اس آیت کا تقاضایہ تھا کہ وضو میں ہمیشہ پاؤں دھوئے جائیں۔ کسی بھی صورت میں ان پر مسح جائز نہ ہو، لیکن موزوں پر مسح حضورﷺ کے اتنی قولی ،فعلی اور تقریری احادیث سے ثابت ہے جومعنیً متواتر یا کم از کم مشہور کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ان روایات کی وجہ سے پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں پاؤں دھونے کا حکم تب ہے جب موزےنہ پہنے ہوں اور اگر موزے پہنے ہوں تو تب دوران وضو ان پر مسح کرنا جائز ہوگا ۔
(۱)محدث کبیر امام ابن منذرؒ حضرت حسن بصری ؒ سے نقل فرماتے ہیں:
حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ ﷺ انہ مسح علی الخفین
ترجمہ:
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ سے سنا کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔
[الاوسط لابن المنذر ج1ص430]
:2قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة
ترجمہ:
حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80سے بھی زیادہ تھی، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے۔
[فتح الباری : کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین]
(۳) حضرت ملاعلی قاریؒ مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار۔
ترجمہ: حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح وروشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے۔
[المرقاة شرح مشکوٰۃ: ج2ص77]
موزوں پر مسح کے جواز اورعدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں۔
(۱) حقیقی خفین :(چمڑے کے موزے )ان پر باجماع امت مسح کرنا جائز ہے۔
(۲) حکمی خفین :(وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناءپر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں) ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے، جمہور فقہاء کا فتوی انہی موزوں پر جواز کا ہے۔
(۳)غیر حقیقی غیرحکمی خفین:(مروجہ اونی ،سوتی یانائیلون کی جرابیں)ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں۔
(۱) ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعودالکاسانی الحنفی تحریر فرماتے ہیں:
”فان کانا رقیقن یشفان الماءلایجوز المسح علیھا باجماع“
ترجمہ: اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔
[بدائع الصنائع ج1ص83کتا ب الطہارة]
(۲) امام ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی نے اپنی کتاب ”المغنی“میں مسئلہ”مسح علی الجوربین“کے تحت فرمایا ہے:
لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر۔
ترجمہ:
کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیرمعمولی چلنا ممکن ہو ۔جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں)تو وہ پاؤں کے لئے ساتر نہیں۔
[المغنی لابن قدامہ ج1ص377مسئلہ85]
ہر مسئلے کی طرح لامذہب فرقہ غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔اور مروجہ اونی ،سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا۔
[نماز نبوی ص77]
اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں۔
غیر مقلدین کے مستدلات اور ان کا جائزہ
(۱)عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی ﷺ ومسح علی الجوربین والنعلین
[سنن ابی داود ج1ص33باب المسح علی الجوربین]
اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔چنانچہ لکھا ہے (۱) ضعفہ کثیر من ائمة الحدیث ترجمہ: حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔(۲) امام مسلم بن الحجاج فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔لہذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
(تحفة الاحوذی ج1ص 346,347باب ماجاءفی المسح علی الجوربین)
(۳) امام بیہقی ؒ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے (سنن البیہقی ج1ص290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین)
عبدالرحمن مبارکپوری حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی ؒ کے حسن صحیح کہنے پر“
(تحفة الاحوذی ج1ص347)
دوسری دلیل:
عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ ﷺ توضا ومسح علی الجوربین والنعلین۔
(ابن ماجہ ج1ص186کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)
یہ حدیث بھی غیرمقلدین کے لئے حجت نہیں بنتی۔ اس لئے کہ اس کی سند پر ائمہ جرح وتعدیل نے کافی بحث کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے۔
(تہذیب التہذیب ج8ص212)
امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی ؒاپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل ؒ نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
(میزان الاعتدال ج5ص376)
مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں۔
تیسری دلیل:
عن بلال ان رسول اللہ ﷺ یمسح علی الخفین والجوربین.
(طبرانی ج1ص350رقم1063)
یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص185,186)
(۲)حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔
(تقریب ج2ص365)
چوتھی دلیل:
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ ﷺ سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین۔
(ابوداود ج 1ص 19)
اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل ص22پر امام احمدؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں۔
(تحفة الاحوذی ج1ص330)
(۲)تساخین کے لغت میں تین معانی کئے گئے ہیں۔(۱)ہانڈیاں (۲)موزے(۳)علماءکے سر پر ڈالنے کا کپڑا
(المنجد ص474)
لہذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں۔
مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابر کی رائے
(۱)غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے:”مذکورہ (اونی یا سوتی)جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں“
(فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی ج1ص327)
(۲)دوسری جگہ لکھتا ہے ”خلاصہ یہ ہے کہ (باریک )جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے۔“
(۳)غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ: ”پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح)نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چندصحابہ کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔لہذا خف چرمی(موزوں)کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں۔“(زبیر علی زئی متروک مردود عند الجمہور نے اس مسئلہ پر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جسے آئندہ شمارہ میں واضح کیا جائے گا۔)پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز عدم جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں ۔لہذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اورجمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین ؒ کےعین موافق ہے، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں۔اللہ سے دعاہے کہ ہمیں سنت صحیحہ کی اتباع کی توفیق نصیب. فرمائے۔آمین