Tuesday, 23 February 2021

بن دیکھے ڈرنے اور ایمان لانے کے فضائل

القرآن:
جو لوگ ڈرتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھے، اُنکے لئے معافی ہے اور ثواب بڑا۔
[سورۃ الملک:12]
تشریح :
یعنی اللہ کو دیکھا نہیں، مگر اس پر اور اس کی صفات پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اور اس کی عظمت و جلال کے تصوّر سے لرزتے اور اس کے عذاب کا خیال کر کے تھرتھراتے ہیں۔ یا "بالغیب" کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے مجمع سے الگ ہو کر خلوت وعزلت میں اپنے رب کویاد کرکے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر:-
نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں، ان کے گناہ بھی وہ معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جن سات شخصوں کو جناب باری اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زنا کاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے مسند بزار میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ نے فرمایا یہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے؟ جواب دیا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں، فرمایا جاؤ پھر یہ نفاق نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو، مخلوق سے خالق بےخبر ہو، وہ تو بڑا باریک بین اور بیحد خبر رکھنے والا ہے۔ بعد ازاں اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہ زمین کو اس نے تمہارے لئے مسخر کر دیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں، پانی کے چشمے اس میں جاری کر دیئے ہیں، راستے اس میں مہیا کر دیئے ہیں، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے، جس جگہ تم جانا چاہو جا سکتے ہو طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو، تمہاری کوششیں وہ بار آور کرتا ہے اور تمیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں، پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ تو (مناکب) سے مراد راستے کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں ، قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں ۔ حضرت بشیر بن کعب رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر (مناکب) کی صحیح تفسیر تم بتا دو تو تم آزاد ہو اس نے کہا مراد اس سے پہاڑ ہیں آپ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے۔


تفسیر مدنی کبیر:-
خوف و خشیت خداوندی ذریعۂ نجات و سرفرازی:
سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرنے والوں کیلئے بڑی بخشش بھی ہے اور اجر کبیر بھی یعنی ان کے ان گناہوں کی بخشش جو بشری تقاضوں کی بناء پر ان سے سرزد ہوگئے‘ والعیاذ باللہ کہ ان کو معاف کردیا جائے گا سو منکرین کے انجام کے بیان کے بعد اب یہاں سے ان لوگوں کا صلہ بیان فرمایا جا رہا ہے‘ جو اپنی زنڈگیوں میں بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہے‘ کہ ان کیلئے ایک عظیم الشان بخشش اور رحمت ہے‘ سو اسی سے ان خوش نصیبوں کا صاحب عقل و بصیرت ہونا بھی واضح ہو جاتا ہے‘ کہ انہوں نے اپنے کان‘ آنکھ بند کرکے اور اندھے بہرے بن کر زندگی نہیں گزاری‘ اور نہ ہی وہ اس بات کے منتظر رہے کہ جب سب کچھ سامنے آ جائے گا تب مانیں گے‘ نہیں بلکہ انہوں نے کائنات کی نشانیوں کو دیکھ کر اور اپنی عقلوں سے کام لے کر اور دعاۃ حق کی باتوں کو مان کر حق قبول کرلیا اور فائز المرام ہوگئے اور بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ سو بالغیب کا یہ لفظ بڑا عظیم الشان اور نہایت معنی خیز لفظ ہے اور یہ اس لئے کہ اس دنیا میں انسان کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ اپنی عقل و بصیرت سے کام لے کر غیب سے تعلق رکھنے والے ان حقائق کو تسلیم کرے اور ان پر ایمان لائے جن کی خبر اللہ کے رسولوں نے دی ہے اور ان حقائق کو اسی طرح مانے جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے بتایا۔ سو ایسوں کیلئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان کیلئے عظیم الشان مغفرت و بخشش بھی ہے اور ایک بہت بڑا اجر بھی۔ اتنا بڑا اجر کہ اس کی عظمت و بڑائی کا اندازہ کرنا بھی اس دنیا میں کسی کے بس میں نہیں‘ کہ ان کیلئے ان کے رب کریم نے وہاں پر وہ کچھ تیار کر رکھا ہوگا‘ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کسی کان نے سنا‘ اور نہ ہی کسی بشر کے دل پر اس کا گزر ہی ہوا ہوگا‘ اللہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔ بہرکیف انہوں نے اپنی عقل و فکر کو صحیح طور پر ساتعمال کرکے اور دعاۃ حق و ہدایت کی دعوت حق کو قبول کرکے نور ہدایت سے سرفرازی حاصل کرلی‘ تو اس بناء پر وہ اس بات کے مستحق ہوگئے کہ ان کا رب ان کو اپنے فضل عظیم اور اجر کبیر سے نوازے‘ سو جس شخص نے اپنی عقل و بصیرت سے کام لے کر دعوت حق کو قبول کرلیا‘ وہ امتحان میں کامیاب ہوکر فائز المرام ہوگیا اور جنہوں نے اس کے برعکس دعوت حق و ہدایت کو سننے اور ماننے سے انکار کیا اور وہ اسی بات کے منتظر رہے کہ جب سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے آئیگا تب وہ مانیں گے۔ تو وہ محروم اور ناکام رہے خواہ دنیاوی اعتبار سے انہوں نے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلی ہو اور وہ اپنے آپ کو کیا کچھ سمجھتے اور مانتے ہوں اور دنیا میں ان کا کتنا ہی غلغلہ اور دبدبہ کیوں نہ ہو ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید و علی مایحب ویرید۔ 

Sunday, 21 February 2021

خوفِ مصطفیٰﷺ - امت کی غربت یا مالداری

رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کو بحرین (کا گورنر بناکر) جزیہ لانے کے لیے بھیجا، رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور ان پر علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر کیا تھا۔ جب ابوعبیدہؓ بحرین سے جزیہ کا مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کے متعلق سنا اور صبح کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی اور جب رسول اللہ ﷺ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ ابوعبیدہ کے آنے کے متعلق تم نے سن لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار نے عرض کیا : جی ہاں، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم ! فقر و محتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کردی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کردی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل(نافرمان) کر دے گی جس طرح ان کو غافل(کافر) کیا تھا۔

[صحيح البخاري : كِتَابُ الرِّقَاقِ ، ‌‌بَابُ مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهَرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيهَا ، حدیث نمبر#6425]

https://www.madarisweb.com/ur/articles/4593

((‌مَا ‌أَخْشَى ‌عَلَيْكُمُ الْفَقْرَ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمُ التَّكَاثُرَ، وَمَا أَخْشَى عَلَيْكُمُ الْخَطَأَ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمُ الْعَمْدَ ))’’جھے تمھارے بارے میں فقر کا ڈر نہیں ہے بلکہ مجھے تو ڈر ہے تم پر (دنیا کی) کثرت کا،اور مجھے تمھارے بارے میں یہ ڈر نہیں ہے کہ تم غلطی کرو گے بلکہ مجھے خطرہ ہے کہ تم جان بوجھ کر گناہ کرو گے۔‘‘[مسند احمد:8074، مسند البزار:9374، معجم ابن الأعرابي:2212، صحيح ابن حبان:3222، المستدرک الحاكم:3970]


















دنیا سے مراد کیا ہے؟

القرآن: 

لوگوں کے لیے ان چیزوں کی "محبت" خوشنما بنادی گئی ہے جو ان کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہے ،۔ یعنی (1)عورتیں، (2)بچے، (3)سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، (4)نشان لگائے ہوئے گھوڑے، (5)چوپائے اور (6)کھیتیاں۔ یہ سب دنیوی زندگی کا سامان ہے (لیکن) ابدی انجام کا حسن تو صرف اللہ کے پاس ہے۔

[سورۃ آل عمران:14]


محبت کی حدود ودرجات:

(اے پیغمبر ! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا (سزا کا) فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ (ایسے) نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

[سورۃ التوبۃ:24]


لہٰذا، جو شخص قرآنی تعلیمات پہچانے والوں کو نہ سمجھ پائے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نافرمانی کے سبب اس علم سے گمراہی میں مبتلا ہے۔ اور توبہ یعنی دل کی ندامت کے ساتھ، زبان سے معافی مانگتے ہوئے، فرمانبرداری کے عہد کرکے، اللہ کی طرف لوٹے بغیر ہدایت سے ہمیشہ محروم رکھا جاتا ہے۔


فقہی نکات:

(1) دنیا، آخرت کے مقابلے میں ادنیٰ چیز کو کہنے ہیں، بری چیز کو نہیں، اسي لئے حدیث میں جزیہ لینے اور قرآن مجید میں متاعِ دنیا کی محبت سے بلکل روکا نہیں گیا

(2) دنیا کی محبت اور کثرت، آخرت سے غفلت اور ہر نافرمانی کی جڑ ہے۔

(3) غفلت دل کا وہ گناہ ہے، جس میں اکثر لوگ اکثر لمحے مبتلا رہتے ہیں۔

(4) دنیا کا فتنہ اور مذموم محبت میں مبتلا ہونے کی علامت یہ ہے کہ دنیا کیلئے اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی جائے اور (خصوصا) جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیا جائے۔

(5) فقر پر صبر اور جہاد کرنا اللہ اور رسول ﷺ سے اشد محبت کی دلیل ہے۔

(6) لوگوں سے نہ مانگنا اور نہ امید رکھنا، دل کا غنی ہونا یعنی اصل مالداری ہے۔

(7) امت کی ترقی، صبر وجہاد فی سبیل اللہ سے (محبت میں) ہے۔



آ، تجھ کو بتاؤں میں، تقدیرِ اُمم کیا ہے؟

شاعرِ حقیقت شناس علامہ اقبال نے خوب کہا تھا :

آ ، تجھ کو بتاؤں میں تقدیر اُمم کیا ہے

شمشیر و سنان اول ، طاوٴس و رباب آخر

          یعنی جب کوئی قوم ترقی و عروج کا سفر طے کرتی ہے تو وہ تلواروں اور نیزوں سے مزین ہوتی ہے ، وہ مشکل حالات کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، وہ عیش و عشرت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے بجائے جد وجہد کے میدان میں آگے بڑھتی ہے ، اور جب قوموں کے زوال و انحطاط کا زمانہ آتا ہے تو وہ عیش و عشرت کے نقشے بنانے لگتی ہے اور رقص و سرود سے اپنے دل کو بہلانے کی عادی ہوجاتی ہے ، یہی وہ بات ہے کہ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندیشہ رکھتے تھے ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا قول ہے کہ جب کسی قوم میں خیانت اور بد دیانتی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ کم ہمت اور بزدل ہوجاتی ہے۔

”مَا ‌ظَهَرَ ‌الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا أُلْقِيَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبُ“

[موطأ (امام) مالك (تحقيق) الأعظمي : حديث 1670]


          اس وقت عالمِ اسلام کی صورت حال یہی ہے کہ اپنی قوم کے ساتھ حکمرانوں کا معاملہ بدترین بد دیانتی کا ہے اور صیہونی و صلیبی طاقتوں کے سامنے شرمناک بزدلی اور کم حوصلگی کا ، عام مسلمانوں کی بھی صورت حال یہ ہے کہ وہ (دینی)علم و (دنیاوی)تحقیق ، محنت اور جدو جہد میں پیچھے ہیں اورعیش پرستی میں آگے، دوسری قومیں ہمیں دیکھتی ہیں اور خندہ زن ہوتی ہیں کہ یہ لٹی پٹی اور ذلیل و رسوا کی ہوئی قوم اپنی محرومی اور کم نصیبی کو بھول کر کس طرح دادِ عیش دے رہی ہے ، کاش! ہم اس طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں ، اپنے اندر حالات کا مقابلہ کرنے اور جدو جہد کے ذریعہ آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں اور عیش و عشرت کے نقشوں کو تج کر، ایک باعزت اور آبرو مند امت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اپنے آپ کو لانے کی کوشش کریں ۔