القرآن:
جو لوگ ڈرتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھے، اُنکے لئے معافی ہے اور ثواب بڑا۔
[سورۃ الملک:12]
تشریح :
یعنی اللہ کو دیکھا نہیں، مگر اس پر اور اس کی صفات پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اور اس کی عظمت و جلال کے تصوّر سے لرزتے اور اس کے عذاب کا خیال کر کے تھرتھراتے ہیں۔ یا "بالغیب" کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے مجمع سے الگ ہو کر خلوت وعزلت میں اپنے رب کویاد کرکے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔
تفسیر مدنی کبیر:-
خوف و خشیت خداوندی ذریعۂ نجات و سرفرازی:
سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرنے والوں کیلئے بڑی بخشش بھی ہے اور اجر کبیر بھی یعنی ان کے ان گناہوں کی بخشش جو بشری تقاضوں کی بناء پر ان سے سرزد ہوگئے‘ والعیاذ باللہ کہ ان کو معاف کردیا جائے گا سو منکرین کے انجام کے بیان کے بعد اب یہاں سے ان لوگوں کا صلہ بیان فرمایا جا رہا ہے‘ جو اپنی زنڈگیوں میں بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہے‘ کہ ان کیلئے ایک عظیم الشان بخشش اور رحمت ہے‘ سو اسی سے ان خوش نصیبوں کا صاحب عقل و بصیرت ہونا بھی واضح ہو جاتا ہے‘ کہ انہوں نے اپنے کان‘ آنکھ بند کرکے اور اندھے بہرے بن کر زندگی نہیں گزاری‘ اور نہ ہی وہ اس بات کے منتظر رہے کہ جب سب کچھ سامنے آ جائے گا تب مانیں گے‘ نہیں بلکہ انہوں نے کائنات کی نشانیوں کو دیکھ کر اور اپنی عقلوں سے کام لے کر اور دعاۃ حق کی باتوں کو مان کر حق قبول کرلیا اور فائز المرام ہوگئے اور بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ سو بالغیب کا یہ لفظ بڑا عظیم الشان اور نہایت معنی خیز لفظ ہے اور یہ اس لئے کہ اس دنیا میں انسان کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ اپنی عقل و بصیرت سے کام لے کر غیب سے تعلق رکھنے والے ان حقائق کو تسلیم کرے اور ان پر ایمان لائے جن کی خبر اللہ کے رسولوں نے دی ہے اور ان حقائق کو اسی طرح مانے جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے بتایا۔ سو ایسوں کیلئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان کیلئے عظیم الشان مغفرت و بخشش بھی ہے اور ایک بہت بڑا اجر بھی۔ اتنا بڑا اجر کہ اس کی عظمت و بڑائی کا اندازہ کرنا بھی اس دنیا میں کسی کے بس میں نہیں‘ کہ ان کیلئے ان کے رب کریم نے وہاں پر وہ کچھ تیار کر رکھا ہوگا‘ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کسی کان نے سنا‘ اور نہ ہی کسی بشر کے دل پر اس کا گزر ہی ہوا ہوگا‘ اللہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔ بہرکیف انہوں نے اپنی عقل و فکر کو صحیح طور پر ساتعمال کرکے اور دعاۃ حق و ہدایت کی دعوت حق کو قبول کرکے نور ہدایت سے سرفرازی حاصل کرلی‘ تو اس بناء پر وہ اس بات کے مستحق ہوگئے کہ ان کا رب ان کو اپنے فضل عظیم اور اجر کبیر سے نوازے‘ سو جس شخص نے اپنی عقل و بصیرت سے کام لے کر دعوت حق کو قبول کرلیا‘ وہ امتحان میں کامیاب ہوکر فائز المرام ہوگیا اور جنہوں نے اس کے برعکس دعوت حق و ہدایت کو سننے اور ماننے سے انکار کیا اور وہ اسی بات کے منتظر رہے کہ جب سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے آئیگا تب وہ مانیں گے۔ تو وہ محروم اور ناکام رہے خواہ دنیاوی اعتبار سے انہوں نے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلی ہو اور وہ اپنے آپ کو کیا کچھ سمجھتے اور مانتے ہوں اور دنیا میں ان کا کتنا ہی غلغلہ اور دبدبہ کیوں نہ ہو ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید و علی مایحب ویرید۔
تفسیر ابن کثیر:-
نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں، ان کے گناہ بھی وہ معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جن سات شخصوں کو جناب باری اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زنا کاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے مسند بزار میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ نے فرمایا یہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے؟ جواب دیا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں، فرمایا جاؤ پھر یہ نفاق نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو، مخلوق سے خالق بےخبر ہو، وہ تو بڑا باریک بین اور بیحد خبر رکھنے والا ہے۔ بعد ازاں اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہ زمین کو اس نے تمہارے لئے مسخر کر دیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں، پانی کے چشمے اس میں جاری کر دیئے ہیں، راستے اس میں مہیا کر دیئے ہیں، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے، جس جگہ تم جانا چاہو جا سکتے ہو طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو، تمہاری کوششیں وہ بار آور کرتا ہے اور تمیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں، پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ تو (مناکب) سے مراد راستے کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں ، قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں ۔ حضرت بشیر بن کعب رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر (مناکب) کی صحیح تفسیر تم بتا دو تو تم آزاد ہو اس نے کہا مراد اس سے پہاڑ ہیں آپ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے۔
الشواهد
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: ابن كثير - المصدر: مسند الفاروق - الصفحة أو الرقم: 2/640
خلاصة حكم المحدث: [ فيه ] محمد بن أبي حميد المدني ضعفه الإمام أحمد ويحيى بن معين والبخاري
خلاصة حكم المحدث: [ فيه ] محمد بن أبي حميد المدني ضعفه الإمام أحمد ويحيى بن معين والبخاري
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الأمالي المطلقة - الصفحة أو الرقم: 37
خلاصة حكم المحدث: غريب وله شاهد
خلاصة حكم المحدث: غريب وله شاهد
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث